خزائن العرفان

سورة نُوح

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ نوح مکّیہ ہے، اس میں دو۲ رکوع، اٹھائیس ۲۸ آیتیں، دو سو چوبیس۲۲۴ کلمے، نو سو ننانوے ۹۹۹ حرف ہیں۔

(۱) بیشک ہم نے  نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ ان کو  ڈرا اس سے  پہلے  کہ ان پر دردناک عذاب آئے  (ف ۲)

۲                 دنیا و آخرت کا۔

(۲) اس نے  فرمایا  اے  میری قوم! میں تمہارے  لیے  صریح ڈر سنانے  والا ہوں۔

(۳) کہ اللہ کی بندگی کرو (ف ۳)  اور اس سے  ڈرو (ف ۴) اور میرا حکم مانو۔

۳                 اور اس کا کسی کو شریک نہ بناؤ۔

۴                 نافرمانیوں سے بچ کر تا کہ وہ غضب نہ فرمائے۔

(۴) وہ تمہارے  کچھ گناہ بخش دے  گا (ف ۵) اور ایک مقرر میعاد تک (ف ۶) تمہیں مہلت دے  گا (ف ۷) بیشک اللہ کا وعدہ جب آتا ہے  ہٹایا نہیں جاتا کسی طرح تم جانتے  (ف ۸)

۵                 جو تم سے وقتِ ایمان تک صادر ہوئے ہوں گے یا جو بندوں کے حقوق سے متعلق نہ ہوں گے۔

۶                 یعنی وقتِ موت تک۔

۷                 کہ اس دوران میں تم پر عذاب نہ فرمائے گا۔

۸                 اس کو اور ایمان لے آتے۔

(۵) عرض کی (ف ۹)  اے  میرے  رب! میں نے  اپنی قوم کو رات دن بلایا (ف ۱۰)

۹                 حضرت نوح علیہ السلام نے۔

۱۰               ایمان و طاعت کی طرف۔

(۶) تو میرے  بلانے  سے  انہیں بھاگنا  ہی بڑھا (ف ۱۱)

۱۱               اور جتنی انہیں ایمان لانے کی ترغیب دی گئی اتنی ہی ان کی سرکشی بڑھتی گئی۔

(۷) اور میں نے  جتنی بار انہیں بلایا (ف ۱۲) کہ تو ان کو بخشے  انہوں نے  اپنے  کانوں میں انگلیاں دے  لیں (ف ۱۳) اور اپنے  کپڑے  اوڑھ لیے  (ف ۱۴) اور ہٹ کی (ف ۱۵) اور بڑا  غرور کیا (ف ۱۶)

۱۲               تجھ پر ایمان لانے کی طرف۔

۱۳               تاکہ میری دعوت کو نہ سنیں۔

۱۴               اور منھ چھُپا لئے تاکہ مجھے نہ دیکھیں کیونکہ انہیں دِینِ الٰہی کی طرف نصیحت کرنے والے کو دیکھنا بھی گوارا نہ تھا۔

۱۵               اپنے کفر پر۔

۱۶               اور میری دعوت کو قبول کرنا اپنی شان کے خلاف جانا۔

(۸) پھر میں نے  انہیں علانیہ بلایا (ف ۱۷)

۱۷               ببانگِ بلند محفلوں میں۔

(۹) پھر میں نے  ان سے  با علان بھی کہا (ف ۱۸)  اور آہستہ خفیہ بھی کہا (ف ۱۹)

۱۸               اور دعوت بالاعلان کی تکرار بھی کی۔

۱۹               ایک ایک سے، اور کوئی دقیقہ دعوت کا اٹھا نہ رکھا قوم زمانۂ دراز تک حضرت نو ح علیہ السلام کی تکذیب ہی کرتی رہی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش روک دی اور ان کی عورتوں کو بانجھ کر دیا، چالیس سال تک انکے مال ہلاک ہو گئے، جانور مر گئے جب یہ حال ہوا تو حضرت نوح علیہ السلام نے انہیں استغفار کا حکم دیا۔

(۱۰) تو میں نے  کہا اپنے  رب سے  معافی مانگو (ف ۲۰) وہ بڑا معاف فرمانے  والا ہے  (ف ۲۱)

۲۰               کفر و شرک سے، اور ایمان لا کر مغفرت طلب کرو تاکہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھولے کیونکہ طاعات میں مشغول ہونا خیر و برکت اور وسعتِ رزق کا سبب ہوتا ہے۔

۲۱               توبہ کرنے والوں کو اگر تم ایمان لائے اور تم نے توبہ کی تو وہ۔

(۱۱) تم پر شراٹے  کا (موسلا دھار) مینھ بھیجے  گا۔

(۱۲) اور مال اور  بیٹوں سے  تمہاری مدد کرے  گا (ف ۲۲) اور تمہارے  لیے  باغ بنا دے  گا اور تمہارے  لیے  نہریں بنائے  گا (ف ۲۳)

۲۲               مال و اولاد بکثرت عطا فرمائے گا۔

۲۳               حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ایک شخص آپ کے پاس آیا اور اس نے قلّتِ بارش کی شکایت کی، آپ نے استغفار کا حکم دیا، دوسرا آیا، اس نے تنگ دستی کی شکایت کی، اسے بھی یہی حکم فرمایا، پھر تیسرا آیا، اس نے قلّتِ نسل کی شکایت کی، اس سے بھی یہی فرمایا، پھر چوتھا آیا، اس نے اپنی زمین کی قلّتِ پیداوار کی شکایت کی، اس سے بھی یہی فرمایا، ربیع بن صبیح جو حاضر تھے انھوں نے عرض کیا چند لوگ آئے قِسم قِسم کی حاجتیں انہوں نے پیش کیں، آپ نے سب کو ایک ہی جواب دیا کہ استغفار کرو تو آپ نے یہ آیت پڑھی۔ ( ان حوائج کے لئے یہ قرآنی عمل ہے)

(۱۳) تمہیں کیا ہوا اللہ سے  عزت حاصل کرنے  کی امید نہیں کرتے  (ف ۲۴)

۲۴               اس طرح کہ اس پر ایمان لاؤ۔

(۱۴) حالانکہ اس نے  تمہیں طرح طرح بنایا (ف ۲۵)

۲۵               کبھی نطفہ، کبھی علقہ، کبھی مضغہ، یہاں تک کہ تمہاری خلقت کا مل کی، اس کی آفرینش میں نظر کرنا، اس کی خالقیّت و قدرت اور اس کی وحدانیّت پر ایمان لانے کو و اجب کرتا ہے۔

(۱۵) کیا تم نہیں دیکھتے  اللہ نے  کیونکر سات آسمان بنائے  ایک پر ایک۔

(۱۶)  اور ان میں چاند کو روشن کیا  (ف ۲۶) اور سورج کو چراغ (ف ۲۷)

۲۶               حضرت ابنِ عباس و ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مروی ہے کہ آفتاب و ماہتاب کے چہرے تو آسمانوں کی طرف ہیں اور ہر ایک کی پشت زمین کی طرف تو آسمانوں کی لطافت کے باعث ان کی روشنی تمام آسمانوں میں پہنچتی ہے اگر چہ چاند آسمانِ دنیا میں ہے۔

۲۷               کہ دنیا کو روشن کرتا ہے اور اس کی روشنی چاند کے نور سے قوی تر ہے اور آفتاب چوتھے آسمان میں ہے۔

(۱۷) اور اللہ نے  تمہیں سبزے  کی طرح زمین سے  اُگایا (ف ۲۸)

۲۸               تمہارے باپ حضرت آدم کو اس سے پیدا کر کے۔

(۱۸) پھر تمہیں اسی میں لے  جائے  گا (ف ۲۹) اور دوبارہ نکالے  گا (ف ۳۰)

۲۹               موت کے بعد۔

۳۰               اس سے روزِ قیامت۔

(۱۹) اور اللہ نے  تمہارے  لیے  زمین کو بچھونا بنایا۔

(۲۰) کہ اس کے  وسیع راستوں میں چلو۔

(۲۱) نوح نے  عرض کی، اے  میرے  رب! انہوں نے  میری نافرمانی کی (ف ۳۱) اور (ف ۳۲) ایسے  کے  پیچھے  ہولیے  جیسے  اس کے  مال اور اولاد نے  نقصان ہی بڑھایا (ف ۳۳)

۳۱               اور میں نے جو ایمان و استغفار کا حکم دیا تھا، اس کو انہوں نے نہ مانا۔

۳۲               ان کے عوام، غرباء اور چھوٹے لوگ، سرکش رؤساء اور اصحابِ اموال و اولاد کے تابع ہوئے۔

۳۳               اور وہ غرورِ مال میں مست ہو کر کفر و طغیان میں بڑھتا رہا۔

(۲۲) اور (ف ۳۴) بہت بڑا  داؤ  ں  کھیلے  (ف ۳۵)

۳۴               وہ رؤساء۔

۳۵               کہ انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی تکذیب کی اور انہیں اور ان کے متّبعین کو ایذائیں پہنچائیں۔

(۲۳) اور بولے  (ف ۳۶) ہرگز  نہ چھوڑنا اپنے  خداؤں کو (ف ۳۷) اور ہرگز نہ چھوڑنا  ودّ اور سواع  اور یغوث  اور  یعوق اور نسر کو (ف ۳۸) 

۳۶               رؤسائے کفّار اپنے عوام سے۔

۳۷               یعنی ان کی عبادت ترک نہ کرنا۔

۳۸               یہ ان کے بتوں کے نام ہیں جنہیں وہ پوجتے تھے بت تو ان کے بہت تھے مگر یہ پانچ ان کے نزدیک بڑی عظمت والے تھے وَدّ تو مرد کی صورت پر تھا اور سُواع عورت کی صورت پر اور یغوث شیر کی شکل اور یعوق گھوڑے کی اور نسر کرگس کی، یہ بت قومِ نوح سے منتقل ہو کر عرب میں پہنچے اور مشرکین کے قبائل سے ایک ایک نے ایک ایک کو اپنے لئے خاص کر لیا۔

(۲۴) اور بیشک انہوں نے  بہتوں کو بہکایا (ف ۳۹) اور تو ظالموں کو (ف ۴۰) زیادہ نہ کرنا مگر گمراہی (ف ۴۱)

۳۹               یعنی یہ بت بہت سے لوگوں کے لئے گمراہی کا سبب ہوئے یا یہ معنیٰ ہیں کہ رؤسائے قوم نے بتوں کی عبادت کا حکم کر کے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا۔

۴۰               جو بتوں کو پوجتے ہیں۔

۴۱               یہ حضرت نوح علیہ السلام کی دعا ہے جب انہیں وحی سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ایمان لا چکے قوم میں انکے سوا اور لوگ ایمان لانے والے نہیں تب آپ نے یہ دعا کی۔

(۲۵) اپنی کیسی خطاؤں پر ڈبوئے  گئے  (ف ۴۲) پھر آگ میں داخل کیے  گئے  (ف ۴۳)  تو انہوں نے  اللہ کے  مقابل اپنا کوئی مددگار نہ پایا (ف ۴۴)

۴۲               طوفان میں۔

۴۳               بعد غرق ہونے کے۔

۴۴               جو انہیں عذابِ الٰہی سے بچا سکتا۔

(۲۶) اور نوح نے  عرض کی، اے  میرے  رب! زمین پر کافروں میں سے  کوئی بسنے  والا نہ چھوڑ۔

(۲۷) بیشک اگر تو انہیں رہنے  دے  گا (ف ۴۵) تو تیرے  بندوں کو گمراہ کر دیں گے  اور ان کے  اولاد  ہو گی تو وہ بھی نہ ہو گی مگر بدکار بڑی ناشکر (ف ۴۶)

۴۵               اور ہلاک نہ فرمائے گا۔

۴۶               یہ حضرت نوح علیہ السلام کو وحی سے معلوم ہو چکا تھا اور حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے اور اپنے والدین اور مومنین و مومنات کے لئے دعا فرمائی۔

(۲۸) اے  میرے  رب مجھے  بخش دے  اور میرے  ماں باپ کو (ف ۴۷) اور اسے  جو ایمان کے  ساتھ میرے  گھر میں ہے   اور سب مسلمان مردوں اور سب مسلمان عورتوں کو، اور کافروں کو نہ بڑھا  مگر تباہی (ف ۴۸)

۴۷               کہ وہ دونوں مومن تھے۔

۴۸               اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اوران کی قوم کے تمام کفّار کو عذاب سے ہلاک کر دیا۔