تفہیم القرآن

سورة نُوح

نام

’’نوح‘‘ اس سورة کا نام بھی ہے اور اس کے مضمون کا عنوان بھی، کیونکہ اس میں  از اوّل تا آخر حضرت نوح علیہ السلام ہی کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول

یہ بھی مکہ معظمہ کے ابتدائی در کی نازل شدہ سورتوں  میں  سے ہے،  مگر اس کے مضمون کی داخلی شہادت اس امر کی نشان دہی کرتی ہے کہ یہ اُس زمانے میں  ناز ل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی دعوت و تبلیغ کے مقابلہ میں  کفارِ مکہ کی مخالفت اچھی خاصی شدت اختیار کر چکی تھی۔

موضوع اور مضمون

اس میں  حضرت نوحؑ کا  قصہ گوئی کی خاطر بیان نہیں  کیا گیا ہے،  بلکہ اسے مقصود کارِ مکہ کو متنبہ کرنا ہے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ وہی رویہ اختیار کر رہے ہو جو حضرت نوحؑ کے ساتھ ان کی قوم نے اختیار کیا تھا، اور اس رویے سے اگر تم باز نہ  آئے تو تمہیں  بھی وہی انجام دیکھنا پڑے گا جو اُن لوگوں  نے دیکھا۔ یہ بات پُوری سورة میں  کہیں  صاف الفاظ میں  نہیں  کہی گئی ہے،  لیکن جس موقع پراور جن حالات میں  یہ قصہ اہل مکہ کوسنایا گیا ہے اُس پس منظر میں  خود بخود یہ مضمون اِس سے مترشح ہوتا ہے۔

پہلی آیت میں  بتایا گیا ہے کہ حضرت نوحؑ کو جب اللہ تعالیٰ نے رسالت کے منصب پر مامور فرمایا تھا اُس وقت کیا خدمت اُن کے سپرد کی گئی تھی۔

آیات ۲۔۴ میں  مختصراً یہ بتا یا گیا ہے کہ اُنہوں  نے اپنی دعوت کا آغاز کس طرح کیا اور اپنی قوم کے لوگوں  کے سامنے کیا بات پیش کی۔

پھر مدتہائے  دراز تک دعوت و تبلیغ کی زحمتیں  اُٹھانے کے بعد جو رُوداد حضرت نوح ؑ نے اپنے رب کے حضور پیش کی وہ آیات۵۔۲۰ میں  بیان کی گئی ہے۔  اس میں  وہ عرض کرتے ہیں  کہ کس کس طرح انہوں  نے اپنی قوم کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کیں  اور قوم نے ان کا  مقابلہ کس ہٹ دھرمی سے کیا۔

اس کے بعد حضرت نوحؑ  کی آخری گزارش آیات ۲۱۔۲۴ میں  درج کی گئی ہے جس میں  وہ  اپنے رب سے عرض کرتے ہیں  کہ یہ قوم میری بات قطعی طور پر رد کر چکی ہے،  اس نے اپنی تکمیل اپنے رئیسوں  کے ہاتھ میں  دے دی ہے،  اور اُنہوں  نے بہت بڑا مکر کا جال پھیلا رکھا ہے،  اب وقت آ گیا ہے کہ اِن لوگوں  نے ہدایت کی توفیق سلب کر لی جائے۔  یہ حضرت نوحؑ کی طرف سے کسی بے صبری کا مظاہرہ نہ تھا بلکہ صدیوں  تک انتہائی صبر آزما حالات میں  تبلیغ کا فریضہ انجام دینے کے بعد جب وہ اپنی قوم سے پوری طرح مایوس ہو گئے تو انہوں  نے یہ رائے قائم کی کہ اب اس کے قوم کے راہ راست پر آنے کا کوئی امکان باقی نہیں  ہے۔  یہ رائے ٹھیک ٹھیک اللہ تعالیٰ کے اپنے فیصلے کے مطابق تھی۔ چنانچہ اس کے متصلاً بعد آیت ۲۵ میں  ارشاد ہوا ہے کہ اُس قوم پر اس کے کرتوتوں  کی وجہ سے خدا کا عذاب نازل ہو گیا۔

آخری آیات میں  نوح علیہ السلام کی وہ دعا درج کی گئی ہے جو انہوں  نے عین نزولِ عذاب کے وقت اپنے رب سے مانگی تھی۔ اس میں  وہ اپنے لیے اور سب اہلِ ایمان کے لیے مغفرت طلب کر تے ہیں،  اور اپنی قوم کے کافروں  کے بارے میں  اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں  کہ ان میں  سے کسی کو زمین پر بسنے کے لیے جیتا نہ چھوڑا جائے،  کیونکہ ان کے اندر اب کوئی خیر باقی نہیں  رہی ہے،  ان کی نسل سے جو بھی اٹھے گا کافر اور فاجر ہی اٹھے گا۔

اس سورہ کا مطالعہ کرتے ہوئے حضرت نوحؑ کے قصّے کی وہ تفصیلات نگاہ میں  رہنی چاہییں  جو اس سے پہلے قرآن مجید میں  بیان ہو چکی ہیں۔  ملاحظہ ہو الاعراف، آیات۵۹ تا۶۴۔ یونس، ۷۱، ۷۳۔ ہود، ۲۵تا۴۹۔ المومنون، ۲۳تا ۳۱۔ الشُعراء، ۱۰۵تا۱۲۲۔ العنکبوت، ۱۴، ۱۵۔الصّافات، ۷۵تا۸۲۔ القمر، ۹تا۱۶۔شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا (اس ہدایت کے ساتھ)کہ اپنی قوم کے لوگوں  کو خبر دار کر دے قبل اس کے کہ ان پر ایک دردناک عذاب آئے۔ 

ترجمہ و تفسیر

1 اس نے کہا’’ اے میری قوم کے لوگو، میں  تمہارے لیے ایک صاف صاف خبردار کر دینے والا (پیغمبر)ہوں۔  ( تم کو آگاہ کرتا ہوں )کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو، 2 اللہ تمہارے گناہوں  سے درگزر فرمائے گا 3 اور تمہیں  ایک وقتِ مقرر تک باقی رکھے گا۔ 4 حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آ جاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں  جاتا۔ 5 کاش تمہیں  اِس کا علم ہو۔‘‘ 6
7 اُس نے عرض کیا’’ اے میرے ربّ، میں  نے اپنی قوم کے لوگوں  کو شب و روز پکارا مگر میری پُکار نے اُن کے فرار ہی میں  اضافہ کیا۔ 8 اور جب بھی میں  نے اُن کو بلایا تاکہ تُو انہیں  معاف کر دے،  9 انہوں  نے کانوں  میں  اُنگلیاں  ٹھونس لیں  اور اپنے کپڑوں  سے منہ ڈھانک لیے 10 اور اپنی روش پر اَڑ گئے اور بڑا تکبّر کیا۔ 11 پھر میں  نے ان کو ہانکے پکارے دعوت دی۔ پھر میں  نے علانیہ بھی ان کو تبلیغ کی اور چُپکے چُپکے بھی سمجھایا۔ میں  نے کہا اپنے ربّ سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔  وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں  برسائے گا، تمہیں  مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں  جاری کر دے گا۔ 12 تمہیں  کیا ہو گیا  کہ  اللہ کے لیے تم کسی وقار کی توقع نہیں  رکھتے ؟ 13 حالانکہ اُس نے طرح طرح سے تمہیں  بنایا ہے۔  14 کیا دیکھتے نہیں  ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بر تہ بنائے اور اُن میں  چاند کو نُور اور سُورج کو چراغ بنایا؟ اور اللہ نے تم کو زمین سے عجیب طرح اُگایا، 15 پھر وہ تمہیں  اِسی زمین میں  واپس لے جائے گا اور اس سے یکایک تم کو نکال کھڑا کرے گا۔ اور اللہ نے زمین کو تمہارے لیے فرش کی طرح بچھا دیا تاکہ تم اس کے اندر کھُلے راستوں  میں  چلو۔‘‘  ؏۱

 

1: یعنی ان کو اس بات سے آگاہ کر دے کہ جن گمراہیوں  اور اخلاقی خرابیوں  میں  وہ مبتلا ہیں  وہ اُن کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا دیں  گی اگر وہ اُن سے باز نہ آئے،  اور اُن کو بتا دے کہ اُس عذاب سے بچنے کے لیے انہیں  کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

 2: یہ تین باتیں  تھیں  جو حضرت نوح ؑ نے اپنی رسالت کا آغاز کرتے ہوئے اپنی قوم کے سامنے پیش کیں،  ایک اللہ کی بندگی۔ دوسرے،  تقویٰ۔ تیسرے،  رسول کی اطاعت۔ اللہ کی بندگی کا مطلب یہ تھا کہ دوسروں  کی بندگی و عبادت چھوڑ کر اور صرف اللہ ہی کو اپنا معبود تسلیم کر کے اُسی کی پر ستش کرو اور اُسی کے احکام بجا لاؤ۔ تقویٰ کا مطلب یہ تھا کہ اُن کاموں  سے پرہیز کرو جو اللہ کی ناراضی اور اس کے غضب کے موجب ہیں،  اور اپنی زندگی میں   وہ روش اختیار کرو جو خدا ترس لوگوں  کو اختیار کرنی چاہیے۔  رہی تیسری بات کہ ’’میری اطاعت کرو‘‘، تو اس کا مطلب یہ تھا کہ اُن احکام کی اطاعت کرو جو اللہ کا رسول ہونے کی حیثیت سے میں  تمہیں  دیتا ہوں۔

 3: اصل الفاظ ہیں  یَغْفِرْ لَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ۔ اس فقرے کا مطلب یہ نہیں  کہ اللہ تمہارے گناہوں  میں  سے بعض کو معاف کر دے گا، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اگر تم اُن تین باتوں  کو قبول کر لو جو تمہارے سامنے پیش کی جا رہی ہیں  تو اب تک جو گناہ تم کر چکے ہو اُن سب سے وہ درگزر فرمائے گا۔ یہاں  مِنْ تبعیض کے لیے نہیں  بلکہ عَن ْکے معنی میں  ہے۔

 4: یعنی اگر تم نے یہ تین باتیں  مان لیں  تو تمہیں  دنیا میں  اُس وقت تک جینے کی مہلت دے دی جائے گی جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری طبعی موت کے لیے مقر کیا ہے۔

 5: اس دوسرے وقت سے مراد وہ وقت ہے جو اللہ نے کسی قوم پر عذاب نازل کرنے کے لیے مقرر کر دیا ہو۔ اس کے متعلق متعدد مقامات پر قرآن مجید میں  یہ بات بصراحت بیان کی گئی ہے کہ جب کسی قوم کے حق میں  نزولِ عذاب کا فیصلہ صادر ہو جاتا ہے اُس کے بعد وہ ایمان بھی لے آئے تو اسے معاف نہیں  کیا جاتا۔

6: یعنی اگر تمہیں  یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جائے کہ میرے ذریعہ سے اللہ کا پیغام پہنچ جانے کے بعد اب جو وقت گزر رہا ہے  یہ دراصل ایک مہلت ہے جو تمہیں  ایمان لانے کے لیے دی جا رہی ہے،  اور اس مہلت کی مدت ختم ہو جانے کے بعد پھر خدا کے عذاب سے بچنے کا کوئی امکان نہیں  ہے،  تو تم ایمان لانے میں  جلدی کر و گے اور نزولِ عذاب کا وقت آنے تک اس کو ٹالتے نہ چلے جاؤ گے۔

7: بیچ میں  ایک طویل زمانے کی تاریخ چھوڑ کر اب حضرت نوح ؑ کی وہ عرضداشت نقل کی جا رہی ہے جو انہوں  نے اپنی رسالت کے آخری دور میں  اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی۔

8: یعنی جتنا جتنا میں  اُن کو پکارتا گیا اتنے ہی زیادہ وہ دور بھاگتے چلے گئے۔

 9: اس میں  خود بخود یہ مضمون شامل ہے کہ وہ نافرمانی کی روش چھوڑ کر معافی کے طلب گار ہوں ،  کیونکہ اسی صورت میں  اُن کو اللہ تعالیٰ سے معافی مل سکتی تھی۔

10: منہ ڈھانکنے کی غرض یا تو یہ تھی کہ وہ حضرت نوح ؑ کی بات سننا تو درکنار، آپ کی شکل بھی دیکھنا پسند نہ کرتے تھے،  یا پھر یہ حرکت وہ اس لیے کرتے تھے کہ آپ کے سامنے سے گزرتے ہوئے منہ چھپا کر نکل جائیں  اور اس کی نوبت ہی نہ آنے دیں  کہ آپ اُنہیں  پہچان کر اُن سے بات کرنے لگیں۔  یہ ٹھیک وہی طرزِ عمل تھا جو کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے ساتھ اختیار کر رہے تھے۔  سورہ ہود آیت ۵ میں  اُن کے اِس رویے کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے۔ ’’دیکھو یہ لوگ اپنے سینوں  کو موڑتے ہیں  تا کہ رسول سے چھُپ جائیں۔  خبر دار!جب یہ اپنے آپ کو کپڑوں  سے ڈھانکتے ہیں  تو اللہ  ان کے کھلے کو بھی جانتا ہے اور چھپے کو بھی، وہ تو دلوں  کی پوشیدہ باتوں  سے بھی واقف ہے،  (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، ہود، حواشی۵۔۶)۔

11:  تکبُّر سے مراد یہ ہے کہ انہوں  نے حق کے آگے سر جھکا دینے اور خدا کے رسول کی نصیحت قبول کر لینے کو اپنی شان سے گری ہوئی بات سمجھا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بھلا آدمی کسی بگڑے ہوئے شخص کو نصیحت کرے اور وہ جواب میں  جھٹک کر اٹھ کھڑا ہو اور پاؤں  پٹختا ہوا نکل جائے تو یہ تکبُّر کے ساتھ کلامِ نصیحت کو رد کرنا ہو گا۔

12: یہ بات قران مجید میں  متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے کہ خدا سے بغاوت کی روش صرف آخرت ہی میں  نہیں ،  دنیا میں  بھی انسان کی زندگی کو تنگ کر دیتی ہے،  اور اس کے بر عکس اگر کوئی قوم نا فرمانی کے بجائے ایمان و تقویٰ اور احکام الہیٰ کی اطاعت کا طریقہ اختیار کر لے تو یہ آخرت ہی میں  نافع نہیں  ہے بلکہ دنیا میں  بھی اُس پر نعمتوں  کی بارش ہونے لگتی ہے۔  سورہ طٰہٰ میں  ارشاد ہوا ہے۔ ’’اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں  تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں  گے ‘‘۔(آیت۱۲۴)۔سورہ مائدہ میں  فرمایا گیا ہے ’’اور اگر ان اہل کتاب نے تو راة اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں  کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں  تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا، اور نیچے سے اُبلتا‘‘(آیت۶۶)۔ سورہ اعراف میں  فرمایا’’اور اگربستیوں  کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی رو ش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں  کے دروازے کھول دیتے ‘‘(آیت۹۶)۔سورہ ہود میں  ہے کہ حضرت ہود ؑ نے اپنی قوم کو خطاب کر کے فرمایا’’اور اے میری قوم  کے لوگو، اپنے رب سے معافی چاہو، پھر  اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں  برسائے گا اور تمہاری موجود ہ وقت پر مزید قوت پر اضافہ کرے گا‘‘(آیت۵۲)۔خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ سے بھی اسی سورہ ہود میں  اہل مکہ کو مخاطب کر کے یہ بات فرمائی گئی ’’اور یہ کہ اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مقرر وقت تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا‘‘(آیت۳)۔ حدیث میں  آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قریش کے لوگوں  سے فرمایا کہ ’’ایک کلمہ ہے جس کے تم قائل ہو جاؤ تو عرب و عجم کے فرمانروا ہو جاؤ گے ‘‘۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، المائدہ، حاشیہ۹۶۔جلد دوم، ہود، حواشی۳و۵۷۔جلدسوم، طٰہٰ، حاشیہ۱۰۵۔جلد چہارم، دیباچہ سورہ ص)۔           قرآن مجید کی اسی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایک مرتبہ قحط کے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارش کی دعا کرنے کے لیے نکلے اور صرف استغفار پر اکتفا فرمایا۔ لوگوں  نے عرض کیا، امیر المومنین آپ نے بارش کے لیے تو دعا کی ہی نہیں۔  فرمایا، میں  نے آسمان کے اُن دروازوں  کو کھٹکھٹا دیا ہے جہاں  سے بارش نازل ہوتی ہے،  اور پھر سورہ نوح ؑ کی یہ آیات لوگوں  کو پڑھ کر سنا دیں  (ابن جریر و ابن کثیر)۔ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت حسن بصری کی مجلس میں  ایک شخص نے خشک سالی کی شکایت کی۔ انہوں  نے کہا اللہ سے استغفار کرو۔ دوسرے شخص نے تنگ دستی کی شکایت کی، تیسرے نے کہا میرے ہاں  اولاد نہیں   ہوتی، چوتھے نے کہا میری زمین کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔  ہر ایک کو وہ یہی جواب دیتے چلے گئے کے اسغفار کرو۔ لوگوں  نے کہا  یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ سب کو مختلف شکایتوں  کا ایک ہی علاج بتا رہے ہیں ؟ انہوں  نے جواب میں  سورہ نوح ؑ کی یہ آیات سنا دیں۔ (کشّاف)۔

13: مطلب یہ ہے کہ دنیا کے چھوٹے چھوٹےر ئیسوں  اور سرداروں  کے بارے میں  تو تم یہ سمجھتے ہو کہ  ان کے وقار کے خلاف کوئی حرکت کرنا خطرناک ہے،  مگر خداوندِ عالم کے متعلق تم یہ توقع  نہیں  رکھتے کہ وہ کبھی کوئی با وقار ہستی ہو گا۔ اُس کے خلاف تم بغاوت کرتے ہو، اُس کی خدائی میں  دوسروں  کو شریک ٹھیرا تے ہو، اُس کے احکام کی نا فرمانیاں  کرتے ہو، اور اس سے تمہیں  یہ اندیشہ لاحق نہیں  ہوتا کہ وہ اس  کی سزا دے گا۔

14: یعنی تخلیق کے مختلف مدارج اور اطوار سے گزارتا ہوا تمہیں  موجودہ حالت پر لایا ہے۔  پہلے تم ماں  اور باپ کی صُلب میں  الگ الگ نطفوں  کی شکل میں  تھے۔  پھر خدا کی قدرت ہی سے یہ دونوں  نطفے ملے اور تمہارا استقرار حمل ہوا۔ پھر نو مہینے تک ماں  کے پیٹ میں  بتدریج نشو و نما دے کر تمہیں  پوری انسانی شکل  دی گئی اور تمہارے اندر تمام وہ قوتیں  پیدا کی گئیں  جو دنیا میں  انسان کی حیثیت سے کام کرنے کے لیے تمہیں  درکار تھیں۔  پھر ایک زندہ بچے کی صورت میں  تم بطن مادر سے باہر آئے اور ہر آن تمہیں  ایک حالت سے دوسری حالت تک ترقی دی جاتی رہی،  یہاں  تک کہ تم جوانی اور کہولت کی عمر کو پہنچے۔  اِن تمام منازل سے گزرتے ہوئے تم  ہر وقت پُوری طرح خد ا کے بس میں  تھے۔ وہ چاہتا تو تمہارا استقرارِحمل ہی نہ ہونے دیتا اور تمہاری جگہ کسی اور شخص کا استقرار ہوتا۔ وہ چاہتا تو ماں  کے پیٹ ہی میں  تمہیں  اندھا، بہرا، گونگا، یا اپاہج بنا دیتا یا تمہاری عقل میں  کوئی فتور رکھ دیتا۔ وہ چاہتا تو تم زندہ بچے کی صورت میں  پیدا ہی نہ ہوتے۔  پیدا ہونے کے بعد بھی  وہ تمہیں  ہر وقت ہلاک کر سکتا تھا، اور اس کے ایک اشارے پر کسی وقت بھی تم کسی حادثے کے شکار ہو سکتے تھے۔  جس خدا کے بس میں  تم اِس طرح بے بس ہو اُس کے متعلق تم نے یہ کیسے سمجھ رکھا ہے کہ اس کی شان میں  ہر گستاخی کی جا سکتی ہے،  اس کے ساتھ ہر طرح کی نمک حرامی اور احسان فراموشی کی جا سکتی ہے،  اس کے خلاف ہر قسم کی بغاوت کی جا سکتی ہے اور اِن حرکتوں  کا کوئی خمیازہ تمہیں  بھگتنا نہیں  پڑے گا۔

15: یہاں  زمین کے مادّوں  سے انسان کی پیدائش کو نباتات کے اُگنے سے تشبیہ دی گئی ہے۔  جس طرح کسی وقت اِس کُرے پر نباتات موجود نہ تھیں  اور پھر اللہ تعالیٰ نے یہاں  اُن کو اُگایا، اُسی طرح ایک وقت تھا جب روئے زمین پر انسان کا کوئی وجود نہ تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے یہاں  اس کی پَود لگائی۔

 

نُوحؑ نے کہا’’ میرے ربّ،  اُنہوں  نے میری بات ردّ کر دی اور اُن (رئیسوں ) کی پیروی کی جو مال اور اولاد پا کر اور زیادہ نامُراد ہو گئے ہیں۔  اِن لوگوں  نے بڑا بھاری مکر کا جال پھیلا رکھا ہے۔  16 اِنہوں  نے کہا ہر گز نہ چھوڑو اپنے معبُودوں  کو،  اور نہ چھوڑو وَدّ اور سُواع کو، اور نہ یَغُوث اور یَعُوق اور نَسر کو۔ 17 انہوں  نے بہت لوگوں  کو گمراہ کیا ہے،  اور تُو بھی اِن ظالموں  کو گمراہی کے سوا کسی چیز میں  ترقی نہ دے۔ ‘‘ 18
اپنی خطاؤں  کی بنا پر ہی وہ غرق کیے گئے اور آگ  میں  جھونک دیے گئے، 19 پھر انہوں  نے اپنے لیے اللہ سے بچانے والا کوئی مددگار نہ پایا۔20 اور نُوحؑ نے کہا ’’میرے ربّ، اِن کافروں میں  سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ۔ اگر تُو نے اِن کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں  کو گمراہ کریں  گے اور اِن کی نسل سے جو بھی پیدا ہو گا بدکار اور سخت کافر ہو ہو گا۔ میرے ربّ،  مجھے اور میرے والدین کو اور ہر  اس شخص کو جو میرے گھر میں  مومن کی حیثیت سے داخل ہوا ہے،  اور سب مومن مردوں  اور عورتوں  کو معاف فرما دے،  اور ظالموں  کے لیے ہلاکت کے سوا کسی چیز میں  اضافہ نہ کر۔  ؏۲

 

16: مکر سے مراد اُن سرداروں  اور پیشواؤں  کے وہ فریب ہیں  جن سے وہ اپنی قوم کے عوام کو حضرت نوحؑ کی تعلیمات کے خلا ف بہکانے کی کوشش کرتے تھے۔  مثلاً وہ کہتے تھے کہ  نوحؑ تمہی جیسا ایک آدمی ہے،  کیسے مان لیا جائے کہ اس پر خدا کی طرف سے وحی آئی ہے (الاعراف ۶۳۔ ہود ۲۷)۔ نوحؑ  کی پیروی تو ہمارے اَراذِل نے بے سوچے سمجھے قبول کر لی ہے،  اگر اس کی بات میں  کوئی وزن ہوتا تو قوم کے اکابر اس پر ایمان لاتے (ہود۲۷)۔  خدا کو اگر بھیجنا ہوتا تو کوئی فرشتہ بھیجتا (المومنون۲۴)۔ اِس شخص پر کسی جِن کا سایہ ہے جس نے اِسے دیوانہ بنا دیا ہے ( المومنون ۲۵)۔ قریب قریب یہی باتیں  تھیں  جن سے قریش کے سردار نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے خلاف لوگوں  کو بہکا یا کرتے تھے۔

17: قومِ نوح کے معبودوں  میں  سے یہاں  اُن معبودوں  کے نام لیے گئے ہیں  جنہیں  بعد میں  اہلِ عرب نے بھی پُوجنا شروع کر دیا تھا اور آغازِ اسلام  کے وقت عرب میں  جگہ جگہ اُن کے مندر بنے ہوئے تھے۔  بعید نہیں  کہ طوفان میں  جو لوگ بچ گئے تھے ان کی زبان سے بعد کی نسلوں  نے قومِ نوح کے قدیم معبودوں  کا ذکر سُنا ہو گا اور جب ازسرِ نو اُن کی اولاد میں  جاہلیّت پھیلی ہو گی تو انہی معبودوں  کے بُت بنا کر انہوں  نے پھر اُنہیں  پُوجنا شروع کر دیا ہو گا۔ وَدّ قبیلہ قُضاعہ کی شاخ بنی کَلب بن دَبرَہ کا معبود تھا جس کا استھان انہوں  نے دُومَةُ الجَندَل میں  بنا رکھا تھا۔ عرب کے قدیم کتبات میں  اس کا نام دَوَّم اَبَم (ودباپو) لکھا ہو ا ملتا ہے۔  کَلبِی کا بیا ن ہے کہ اس کا  بُت ایک نہایت عظیم الجثّہ مرد کی شکل میں  بنا ہو اتھا۔ قریش کے لوگ بھی اس کو معبود مانتے تھے اور اس کا نام ان کے ہاں  وُدّ تھا۔ اسی کے نام پر تاریخ میں  ایک شخص کا نام عبدِ وُدّ ملتا ہے۔  سُواع قبیلۂ ہُذ َیل کی دیوی تھی اور اس کا بُت عورت کی شکل میں  بنایا گیا تھا۔ یَنبوع کے قریب رُہاط کے مقام پر اس کا مندر واقع تھا۔ یَغُوث قبیلۂ طَے کی شاخ اَنعُم اور قبیلۂ مَذ جِح کی بعض شاخوں  کا معبود تھا۔ مذجح والوں  نے یمن اور حجاز کے درمیان جُرَش کے مقام پر اس کا بُت نصب کر رکھا تھا جس کی شکل شیر کی تھی۔ قریش کے لوگوں میں  بھی بعض کا نام عبدِ یَغُوث ملتا ہے۔  یَعُوق یمن کے علاقہ ہَمدان میں  قبیلۂ ہَمدان کی شاخ خَیوان کا معبود تھا اور اس کا بُت گھوڑے کی شکل کا تھا۔ نَسر جمیَر کے علاقے میں  قبیلۂ حمیر کی شاخ آلِ ذوالکُلاع کا معبود تھا اور بَلخع کے مقام پر اس کا بُت نصب تھا جس کی شکل گِدھ کی تھی۔ سبا کے قدیم کتبوں  میں  اس کا نام نَسور لکھا ہوا ملتا ہے۔  اس کے مندر کو وہ لوگ بَیتِ نَسور، اور اس کے پُجاریوں  کو اہلِ نَسور کہتے تھے۔  قدیم مندروں  کے جو آثار عرب اور اس کے متصل علاقوں  میں  پائے جاتے ہیں  ان میں  سے بہت سے مندروں  کے دروازوں  پر گِدھ کی تصویر بنی ہوئی ہے۔

18: قومِ نوح کے معبودوں  میں  سے یہاں  اُن معبودوں  کے نام لیے گئے ہیں  جنہیں  بعد میں  اہلِ عرب نے بھی پُوجنا شروع کر دیا تھا اور آغازِ اسلام  کے وقت عرب میں  جگہ جگہ اُن کے مندر بنے ہوئے تھے۔  بعید نہیں  کہ طوفان میں  جو لوگ بچ گئے تھے ان کی زبان سے بعد کی نسلوں  نے قومِ نوح کے قدیم معبودوں  کا ذکر سُنا ہو گا اور جب ازسرِ نو اُن کی اولاد میں  جاہلیّت پھیلی ہو گی تو انہی معبودوں  کے بُت بنا کر انہوں  نے پھر اُنہیں  پُوجنا شروع کر دیا ہو گا۔ وَدّ قبیلہ قُضاعہ کی شاخ بنی کَلب بن دَبرَہ کا معبود تھا جس کا استھان انہوں  نے دُومَةُ الجَندَل میں  بنا رکھا تھا۔ عرب کے قدیم کتبات میں  اس کا نام دَوَّم اَبَم (ودباپو) لکھا ہو ا ملتا ہے۔  کَلبِی کا بیا ن ہے کہ اس کا  بُت ایک نہایت عظیم الجثّہ مرد کی شکل میں  بنا ہو اتھا۔ قریش کے لوگ بھی اس کو معبود مانتے تھے اور اس کا نام ان کے ہاں  وُدّ تھا۔ اسی کے نام پر تاریخ میں  ایک شخص کا نام عبدِ وُدّ ملتا ہے۔  سُواع قبیلۂ ہُذ َیل کی دیوی تھی اور اس کا بُت عورت کی شکل میں  بنایا گیا تھا۔ یَنبوع کے قریب رُہاط کے مقام پر اس کا مندر واقع تھا۔ یَغُوث قبیلۂ طَے کی شاخ اَنعُم اور قبیلۂ مَذ جِح کی بعض شاخوں  کا معبود تھا۔ مذجح والوں  نے یمن اور حجاز کے درمیان جُرَش کے مقام پر اس کا بُت نصب کر رکھا تھا جس کی شکل شیر کی تھی۔ قریش کے لوگوں میں  بھی بعض کا نام عبدِ یَغُوث ملتا ہے۔  یَعُوق یمن کے علاقہ ہَمدان میں  قبیلۂ ہَمدان کی شاخ خَیوان کا معبود تھا اور اس کا بُت گھوڑے کی شکل کا تھا۔ نَسر جمیَر کے علاقے میں  قبیلۂ حمیر کی شاخ آلِ ذوالکُلاع کا معبود تھا اور بَلخع کے مقام پر اس کا بُت نصب تھا جس کی شکل گِدھ کی تھی۔ سبا کے قدیم کتبوں  میں  اس کا نام نَسور لکھا ہوا ملتا ہے۔  اس کے مندر کو وہ لوگ بَیتِ نَسور، اور اس کے پُجاریوں  کو اہلِ نَسور کہتے تھے۔  قدیم مندروں  کے جو آثار عرب اور اس کے متصل علاقوں  میں  پائے جاتے ہیں  ان میں  سے بہت سے مندروں  کے دروازوں  پر گِدھ کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ 1: یعنی ان کو اس بات سے آگاہ کر دے کہ جن گمراہیوں  اور اخلاقی خرابیوں  میں  وہ مبتلا ہیں  وہ اُن کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا دیں  گی اگر وہ اُن سے باز نہ آئے،  اور اُن کو بتا دے کہ اُس عذاب سے بچنے کے لیے انہیں  کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

20: یعنی اپنے جن معبودوں  کو وہ اپنا حامی و مددگار سمجھتے تھے ان میں  سے کوئی بھی انہیں  بچانے کے لیے نہ آیا۔ یہ گویا تنبیہ تھی اہلِ مکہ کے لیے کہ تم بھی اگر خدا کے عذاب میں  مبتلا ہو گئے تو تمہارے یہ معبود، جن پر تم بھروسا کیے بیٹھے ہو، تمہارے کسی کام نہ آئیں  گے۔