یہ سورت مکی ہے جیسا کہ صحیحین میں مروی ہے۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ ہم منیٰ کے ایک غار میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر سورہ مرسلات کا نزول ہوا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی تلاوت فرما رہے تھے اور میں اسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے حاصل کر رہا تھا کہ اچانک ایک سانپ آگیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اسے مار دو، لیکن وہ تیزی سے غائب ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ' تم اس کے شر اور وہ تمہارے شر سے بچ گیا ' (بخاری تفسیر سورہ المرسلات)
١۔ اس مفہوم کے اعتبار سے عرفاً کے معنی پے درپے ہوں گے، بعض نے مُرسلات سے فرشتے یا انبیا مراد لئے ہیں اس صورت میں عرفاً کے معنی وحی الٰہی، یا احکام شریعت ہوں گے۔
٢۔ یا فرشتے مراد ہیں، جو بعض دفعہ ہواؤں کے عذاب کے ساتھ بھیجے جاتے ہیں۔
٣۔ یا ان فرشتوں کی قسم، جو بادلوں کو منتشر کرتے ہیں یا فضائے آسمانی میں اپنے پر پھیلاتے ہیں۔ تاہم امام ابن کثیر اور امام طبری نے ان تینوں ہوائیں مراد لی اور صحیح قرار دیا ہے، جیسے کہ ترجمے میں بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔
٤۔ یعنی ان فرشتوں کی قسم جو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے احکام لے کر اترتے ہیں۔ یا مراد آیات قرآنیہ ہیں، جن سے حق و باطل اور حلال و حرام کی تمیز ہوتی ہے یا رسول مراد ہیں جو وحی الٰہی کے ذریعے سے حق و باطل کے درمیان فرق واضح کرتے ہیں۔
۵۔جو اللہ کا کلام پیغمبروں تک پہنچاتے ہیں یا رسول مراد ہیں جو اللہ کی طرف سے نازل کردہ وحی، اپنی امتوں کو پہنچاتے ہیں۔
٦۔ یعنی فرشتے وحی لے کر آتے ہیں تاکہ لوگوں پر دلیل قائم ہو جائے اور یہ عذر باقی نہ رہے کہ ہمارے پاس تو کوئی اللہ کا پیغام ہی لے کر نہیں آیا یا مقصد ڈرانا ہے ان کو جو انکار یا کفر کرنے والے ہوں گے۔
٧۔ (یا جواب قسم) یہ ہے کہ تم سے قیامت کا جو وعدہ کیا جاتا ہے، وہ یقیناً واضح ہونے والی ہے، یعنی اس میں شک کرنے کی نہیں بلکہ اس کے لئے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ قیامت کب واقع ہو گی؟ اگلی سورت میں اس کو واضح کیا جا رہا ہے
٨۔ طَمْس کے معنی مٹ جانے اور بے نشان ہونے کے ہیں، یعنی جب ستاروں کی روشنی ختم بلکہ ان کا نشان تک مٹ جائے گا۔
۱۰۔یعنی انہیں زمین سے اکھیڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا اور زمین بالکل صاف اور ہموار کر دی جائے گی۔
۱۱۔یعنی فصل و قضا کے لیے ان کے بیانات سن کر ان کی قوموں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
١٢۔ یعنی کیسے عظیم دن کے لئے، جس کی شدت اور ہولناکی، لوگوں کے لئے سخت تعجب انگیز ہو گی، ان پیغمبروں کے جمع ہونے کا وقت دیا گیا ہے۔
۱۳۔یعنی جس دن لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا کوئی جنت میں اور کوئی دوزخ میں جائے گا۔
۱۵۔یعنی ہلاکت ہے بعض کہتے ہیں جہنم کی ایک وادی کا نام ہے، یہ آیت اس سورت میں بار بار دہرائی گئی ہے۔ اس لیے کہ ہر مکذب کا جرم ایک دوسرے سے مختلف نوعیت کا ہو گا اور اسی حساب سے عذاب کی نوعیتیں بھی مختلف ہوں گی، بنابریں اسی ویل کی مختلف قسمیں ہیں جسے مختلف مکذبین کے لیے الگ الگ بیان کیا گیا ہے۔
١٧۔ یعنی کفار مکہ اور ان کے ہم نوا، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جھٹلایا۔
١٨۔ یعنی سزا دیتے ہیں دنیا میں اور آخرت میں۔
۲۲۔ یعنی مدت حمل تک نو یا چھ مہینے۔
٢٣۔ یعنی رحم مادر میں جسمانی ساخت و ترکیب و صحیح اندازہ کیا کہ دونوں آنکھوں، دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں اور دونوں کانوں کے درمیان اور دیگر اعضا کا ایک دوسرے کے درمیان کتنا فاصلہ رہنا چاہیئے۔
٢٦۔ یعنی زمین زندوں کو اپنی پشت پر اور مردوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔
٢٩۔ یہ فرشتے جہنمیوں کو کہیں گے
٣٠۔ جہنم سے جو دھواں آئے گا وہ بلند ہو کر تین طرفوں میں پھیل جائے گا، یعنی جس طرح دیوار یا درخت کا سایہ ہوتا ہے، یہ دھواں حقیقت میں اس طرح کا سایہ نہیں ہو گا جس میں جہنمی کچھ سکون حاصل کر لیں۔
۳۱۔ یعنی جہنم کی حرارت سے بچنا بھی ممکن نہیں ہو گا۔
۳۲۔اس کا ایک ترجمہ ہے جو لکڑی کے بوٹے یعنی بھاری ٹکڑے کے مثل ہیں۔
٣٣۔اس معنی کی بناء پر مطلب یہ ہے کہ اس کی ایک ایک چنگاری اتنی اتنی بڑی ہو گی جیسے محل یا قلعہ۔ پھر ہر چنگاری کے مزید اتنے بڑے بڑے ٹکڑے ہو جائیں گے جیسے اونٹ ہوتے ہیں۔
٣٥۔ محشر کا دن جس میں کافروں کی مختلف حالتیں ہوں گی۔ ایک وقت وہ ہو گا کہ وہ وہاں بھی جھوٹ بولیں گے پھر اللہ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ پاؤں گواہی دیں گے پھر جس وقت ان کو جہنم میں لے جایا جا رہا ہو گا اس وقت عالم اضطراب و پریشانی میں ان کی زبانیں بھی گنگ ہو جائیں گی۔ بعض کہتے ہیں کہ بولیں گے تو سہی لیکن ان کے پاس حجت کوئی نہیں ہو گی۔
۳ ٦۔مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس پیش کرنے کے لیے معقول عذر ہی نہیں ہو گا جسے وہ پیش کر سکیں گے۔
٣٨۔ یہ اللہ کے بندوں سے خطاب فرمائے گا کہ ہم نے تمہیں اپنی قدرت کاملہ سے فیصلہ کرنے کے لئے ایک ہی میدان میں جمع کر لیا۔
٣٩۔ یہ سخت وعید اور تہدید ہے کہ اگر تم میری گرفت سے بچ سکتے ہو اور میرے حکم سے نکل سکتے ہو تو بچ اور نکل کے دکھاؤ۔ لیکن وہاں کس میں یہ طاقت ہو گی؟
٤١۔ یعنی درختوں اور محلات کے سائے، آگ کے دھوئیں کا سایہ نہیں ہو گا جیسے مشرکین کے لئے ہو گا۔
٤٢۔ ہر قسم کے پھل، جب بھی خواہش کریں گے، آ موجود ہوں گے۔
٤۳۔یہ بطور احسان انہیں کہا جائے گا یعنی جنت کی یہ نعمتیں ان اعمال صالحہ کی وجہ سے تمہیں ملی ہیں جو تم دنیا میں کرتے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رحمت کے حصول کا ذریعہ جس کی وجہ سے انسان جنت میں داخل ہو گا اعمال صالحہ ہیں۔ جو لوگ عمل صالح کے بغیر اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں ان کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی زمین میں ہل چلائے اور بیج بوئے بغیر فصل کا امیدوار ہو یا حنظل بو کر خوش ذائقہ پھلوں کی امید رکھے۔
٤٤۔اس میں بھی اس امر کی ترغیب و تلقین ہے کہ اگر آخرت میں حسن انجام کے طالب ہو تو دنیا میں نیکی اور بھلائی کا راستہ اپناؤ۔
٤٥۔ کہ اہل تقویٰ کے حصے میں جنت کی نعمتیں آئیں اور ان کے حصے میں بڑی بد بختی۔
٤٦۔ یہ مکذبین قیامت کو خطاب ہے اور یہ امر، تہدید و وعید کے لئے ہے، یعنی اچھا چند روز خوب عیش کر لو، تم جیسے مجرمین کے لئے شکنجہ عذاب تیار ہے۔
٤٨۔ یعنی جب ان کو نماز پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے، تو نماز نہیں پڑھتے۔
٤۹۔یعنی ان کے لیے جو اللہ کے اوامر و نواہی کو نہیں مانتے۔
٥٠۔ یعنی جب قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے تو اس کے بعد اور کون سا کلام ہے جس پر ایمان لائیں گے۔