تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ المُرسَلات

(سورۃ المرسلات ۔ سورہ نمبر ۷۷ ۔ تعداد آیات ۵۰)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     قسم ہے ان (ہواؤں ) کی جو چھوڑی جاتی ہیں پے درپے

۲۔۔۔     پھر جو جھکڑ بن جاتی ہیں زور پکڑ کر

۳۔۔۔     اور قسم ہے ان کی جو پھیلا دیتی ہیں (بادلوں کو ایک پر حکمت طریقے سے ) ابھار کر

۴۔۔۔     پھر جو جدا کر دیتی ہیں (ان کو) پھاڑ کر

۵۔۔۔     پھر جو ڈال دیتی ہیں (دلوں میں خدا کی) یاد

۶۔۔۔     عذر کے طور پر یا ڈراوے کے طور پر

۷۔۔۔     بلاشبہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے (اے لوگو!) اس نے ضرور ہو کر رہنا ہے

۸۔۔۔     سو جب مٹا دیئے جائیں گے (یہ جھلمل کرتے روشن) ستارے

۹۔۔۔     اور پھاڑ دیا جائے گا (یہ مضبوط و مستحکم) آسمان

۱۰۔۔۔     اور جب دھنک ڈالا جائے گا ان (دیو ہیکل) پہاڑوں کو

۱۱۔۔۔     اور جب آ پہنچے گا رسولوں کی حاضری کا وقت (تو اس وقت تم خود دیکھ لو گے زندگی بھر کے اپنے کئے کرائے کا انجام)

۱۲۔۔۔     کس دن کے لئے اٹھا رکھا گیا ہے ان سب امور (و احوال) کو

۱۳۔۔۔     فیصلے کے دن کے لئے

۱۴۔۔۔     اور تمہیں کیا خبر کہ کیا ہے فیصلے کا وہ دن؟

۱۵۔۔۔     بڑی تباہی ہو گی اس دن جھٹلانے والوں کے لئے

۱۶۔۔۔     کیا ہم نے ہلاک نہیں کیا اگلوں کو؟

۱۷۔۔۔     پھر انہی کے پیچھے ہم چلتا کر دیں گے بعد والوں کو

۱۸۔۔۔     اسی طرح کرتے ہیں ہم مجرموں کے ساتھ

۱۹۔۔۔     بڑی ہی خرابی ہو گی اس دن جھٹلانے والوں کے لئے

۲۰۔۔۔     کیا ہم نے تم کو پیدا نہیں کیا ایک بے قدرے (اور حقیر) پانی سے ؟

۲۱۔۔۔     پھر ہم نے اس کو ٹھہرائے رکھا (اپنی حکمت و قدرت سے ) ایک محفوظ ٹھکانے میں

۲۲۔۔۔     ایک مقررہ مدت تک

۲۳۔۔۔     پھر ہم نے (اس کی ہر چیز کا) ایک اندازہ ٹھہرایا سو ہم کیا ہی خوب اندازہ ٹھہرانے والے ہیں

۲۴۔۔۔     بڑی خرابی ہو گی اس دن جھٹلانے والوں کے لئے

۲۵۔۔۔     کیا ہم نے نہیں بنایا (اپنی قدرت و حکمت سے ) اس زمین کو سمیٹنے والی؟

۲۶۔۔۔     زندوں کو بھی اور مردوں کو بھی

۲۷۔۔۔     اور (کیا یہ امر واقع نہیں ہے کہ) ہم نے اس میں جما دئیے بلند و بالا یہ (فلک بوس اور دیو ہیکل) پہاڑ؟ اور ہم نے پلایا تم لوگوں کو (صاف ستھرا اور) میٹھا پانی؟

۲۸۔۔۔     بڑی ہی خرابی ہو گی اس دن جھٹلانے والوں کے لئے

۲۹۔۔۔     (اس روز کہا جائے گا کہ) اب چلو تم لوگ اسی چیز کی طرف جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے

۳۰۔۔۔     چلو تم تین شاخوں والے ایک ایسے ہولناک سائے کی طرف

۳۱۔۔۔     جس میں نہ کوئی ٹھنڈک ہو گی اور نہ ہی وہ کچھ کام آ سکے گا آگ کی لپٹ سے بچانے میں

۳۲۔۔۔     وہ آگ ایسی ہولناک چنگاریاں پھینک رہی ہو گی جو کہ (اپنی جسامت میں ) محل کی طرح ہوں گی

۳۳۔۔۔     (جو اپنی کثرت اور اچھل کود میں ایسے لگتی ہوں گی کہ) جیسے کہ وہ اونٹ ہیں زرد رنگ کے

۳۴۔۔۔     بڑی خرابی ہو گی اس دن جھٹلانے والوں کے لئے

۳۵۔۔۔     یہ وہ دن ہو گا کہ جس میں نہ تو وہ کچھ بول سکیں گے

۳۶۔۔۔     اور نہ ہی انہیں اس کی اجازت دی جائے گی کہ وہ کوئی عذر پیش کریں

۳۷۔۔۔     بڑی ہی خرابی ہو گی اس دن جھٹلانے والوں کے لئے

۳۸۔۔۔     (ان سے کہا جائے گا کہ) یہ ہے فیصلے کا دن ہم نے جمع کر لیا تم کو بھی اور (تم سے ) پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بھی

۳۹۔۔۔     پس اگر تم لوگوں کے پاس کوئی چال ہے تو اب تم مجھ پر چلا کر دیکھ لو

۴۰۔۔۔     بڑی ہی خرابی ہو گی اس دن جھٹلانے والوں کے لئے

۴۱۔۔۔     (اس کے برعکس) پرہیزگار لوگ (اس دن) ٹھنڈی چھاؤں اور طرح طرح کے عظیم الشان چشموں میں ہوں گے

۴۲۔۔۔     اور قسما قسم کے ان پھلوں میں جن کو وہ خود چاہیں گے

۴۳۔۔۔     (ان سے کہا جائے گا کہ) مزے سے کھاؤ اور پیؤ تم لوگ اپنے ان اعمال کے بدلے میں جو تم کرتے رہے تھے (اپنی زندگی میں )

۴۴۔۔۔     بلاشبہ ہم اسی طرح (صلہ و) بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو

۴۵۔۔۔     بڑی ہی خرابی ہو گی اس دن جھٹلانے والوں کے لئے

۴۶۔۔۔     (آج دنیا میں تم کچھ) کھا پی لو اور تھوڑے دن مزے اڑا لو (اے بدبخت منکرو! کہ) تم بہرحال ہو پکے مجرم (اور عذاب کے مستحق)

۴۷۔۔۔     بڑی ہی خرابی ہو گی اس دن جھٹلانے والوں کے لئے

۴۸۔۔۔     اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم لوگ جھک جاؤ (اپنے اللہ کے آگے ) تو یہ نہیں جھکتے ہیں

۴۹۔۔۔     بڑی ہی خرابی ہو گی اس دن جھٹلانے والوں کے لئے

۵۰۔۔۔     تو آخر کس کلام پر ایمان لائیں گے یہ لوگ اس (قرآن حکیم کے ) کلام (معجز نظام) کے بعد؟

تفسیر

 

۶۔۔۔    سو اس جملے سے اس مقصد کو بیان فرمایا گیا ہے جو ہواؤں کے ان مختلف تصرفات اور ان کے ان کرشموں کے نتیجے میں انسان کے سامنے آتا ہے یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ یہ سب کچھ اس لئے دکھاتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے لئے اتمام حجت کا سامان کرے، یا ان کی تنبیہ و تذکیر کا۔ پس جو لوگ غفلت کی سرمستی ہی میں پڑے رہنا چاہتے ہیں ان کے لئے تو ہواؤں کے ان مختلف تصرفات اور کرشموں کے اندر اتمام حجت کا سامان ہوتا ہے اور اس کے برعکس جو لوگ نصیحت حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے تذکیر و یاد دہانی کا سامان، سو ہواؤں کے ان مختلف قسم کے تصرفات میں بڑے درسہائے عبرت و بصیرت ہیں۔ ان کے خالق و مالک کے وجود باجود اس کی قدرت و حکمت اور اس کی رحمت و عنایت کے سبحانہ و تعالیٰ۔ سو اس کے اندر حضرت حق جل مجدُہٗ کی وحدانیت و یکتائی، اس کے دین حق کی صداقت و حقانیت قیامت و آخرت اور بعث بعد الموت وغیرہ سب ہی اصول و مبا دی کے لئے واضح اور قوی دلائل پائے جاتے ہیں مگر یہ سب کچھ انہی کے لئے ہے جو صحیح طور پر غور و فکر سے کام لیتے ہیں اِنَّ فِیْ ذَالِکَ لَذِکْریٰ لِمَنْ کَانَ لَہ، قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ رہ گئے دو ٹانگوں پر چلنے والے وہ جاندار جو کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ کے مصداق ہیں ان کے لئے کائنات میں ہر طرف پھیلے بکھرے فضاء کے اندر گھومتے پھرتے، نہایت پُر حکمت طریقے سے جگمگ جگمگ کرتے، اور دعوت غور و فکر دیتے ان عظیم الشان حقائق میں نہ کوئی درس ہے نہ دلیل، ان کو تو بس عذاب کا وہ کوڑا ہی بیدار کر سکتا ہے جو کہ ایسوں کے لئے مقرر ہے۔ و العیاذُ باللہ العظیم،

۱۸۔۔۔ اوپر آیت نمبر۶ میں ارشاد فرمودہ جملے اِنّمَا تُوْعَدُوْنَ لَوَاقِعٌ میں جس دعوے کا ذکر فرمایا گیا ہے ان آیات کریمات میں تاریخ کے حوالے سے اس دعوے کی تائید و توثیق فرمائی گئی ہے سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے اگلوں کو ہلاک کیا اور پھر انہی کے پیچھے ہم ان کے بعد والوں کو لگاتے رہے؟ اور یہ اشارہ ہے قوم نوح، عاد،ثمود، قوم لوط، قوم مدین، اور قوم فرعون اور ان کے بعد آنے والی ان قوموں کی طرف جن کی سرگزشتیں قرآن حکیم میں دوسرے مختلف مقامات پر تفصیل سے ذکر فرمائی گئی ہیں، سو تاریخ کے اس تسلسل سے ایک تو یہ اہم اور عظیم الشان بنیا دی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور ان کی دعوت کی تکذیب ایک ایسا سنگین اور ہولناک جرم ہے کہ اس کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت و تباہی ہے نیز اس سے ایک اور اہم حقیقت یہ بھی واضح ہو جاتی ہے کہ قیامت کے اس یوم عظیم کا وقوع ضروری اور عقل سلیم اور فطرت مستقیم دونوں کا تقاضا ہے تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے بتمام و کمال پورے ہوں اور سب کو انکے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ ملے۔ کیونکہ اس دنیا میں ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ایک تو اس لئے دنیا اپنی اصل اور حقیقت کے اعتبار سے دارالجزاء نہیں بلکہ دارالعمل ہے اور دوسرے اس لئے کہ دنیا کے ظرف محدود میں سرے سے اس کی گنجائش ہی نہیں کہ اس میں ہر کسی کو اس کے کئے کرائے کا پورا پورا بدلہ مل سکے بلکہ یہ سب کچھ آخرت کے اس جہان غیب ہی میں ہو گا اور اسی میں ہو سکتا ہے جس کی وسعتوں کا کوئی کنارہ نہیں ہو گا۔ اور جو اپنی اصل اور حقیقت کے اعتبار سے ہو گا بھی دارالجزاء اور جس کا وجود و وقوع حضرت خالق حکیم کی حکمت کا تقاضا اور خود اس کائنات اور اس کے مخدوم اس انسان کے وجود کا مقتضیٰ ہے ورنہ یہ ساری کائنات اور اس کے گل سرسبد انسان کا وجود عبث و بیکار قرار پائے گا۔ جو کہ حضرت خالق حکیم کی صفت عدل و حکمت کے تقاضوں کے منافی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، پس آخرت کے اس یوم حساب و جزاء کا وقوع لازم اور ضروری ہے۔

۲۵۔۔۔ سو اس میں اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ کی قدرت و حکمت اس کی رحمت و عنایت اور اس کی شان ربوبیت کے بعض اہم مظاہر کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے تاکہ انسان اس سے درس عبرت و بصیرت لے، سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا ہم نے زمین کو ایسے پُر حکمت طریقے سے نہیں بنایا جو زندوں اور مردوں سب کو سمیٹنے والی ہے، زندوں کو اپنی پیٹھ پر، اور مردوں کو اپنے پیٹ کے اندر، اور اس پر پہاڑوں کے عظیم الشان لنگر ڈال دیئے تاکہ یہ تم لوگوں کو لے کر ڈولنے نہ لگے، اور تمہارے سکون و قرار میں فرق نہ پڑ جائے اور تمہارے لئے صاف ستھرے اور میٹھے پانی کی فراہمی کا عظیم الشان اور نہایت حکمتوں بھرا انتظام فرمایا، سو بڑی خرابی اور ہلاکت ہے ان لوگوں کے لئے جو حضرت حق جَلَّ مَجْدُہٗ کی بے پایاں قدرت اور اس کی رحمت و عنایت کے ان گوناگوں مظاہر کو کھلی آنکھوں سے دیکھے اور ان سے ہر وقت اور طرح طرح سے مستفید و فیضیاب ہونے کے باوجود حق کو جھٹلاتے ہیں، اور اپنے خالق و مالک کے حضور جھکنے کے شرف سے محروم رہتے ہیں، و العیاذُ باللہ العظیم،

۲۸۔۔۔ اوپر روز قیامت کی ہولناکی کی تصویر پیش فرمائی گئی، اور اب اس کے بعد اس سے مجرموں کی اس بے بسی اور درماندگی کی تصویر پیش فرمائی گئی جس سے ان بدبختوں کو اس یوم عظیم و مہیب سے سابقہ پڑے گا، سو آج تو ان میں سے ہر ایک آگے بڑھ بڑھ کر انکار حق اور تکذیب قیامت کے لئے اپنا زور بیان صرف کرتا اور اپنی طلاقت لسانی دکھا رہا ہے، لیکن اس روز ان کے منہ ایسے بند، اور ان کی زبانیں ایسی گنگ ہو جائیں گی کسی کے منہ سے کوئی بات نہ نکلنے پائیگی، نہ یہ خود زبان کھولنے کی جرات کریں گے اور نہ ہی ان کو اس کی اجازت دی جائیگی کہ اگر ان کے یاس کوئی عذر ہو تو یہ اس کو پیش کریں، سو اس روز بڑی ہی خرابی ہو گی ان جھٹلانے والوں کے لئے جو اس عالم غیب کے ان حقائق سے آگہی کے باوجود اپنے جرم انکار و تکذیب پر اڑے ہوئے ہیں، والعیاذ باللہ العظیم

۳۹۔۔۔ یعنی دنیا میں تو تم لوگ حق اور اہل حق کے خلاف بڑی بڑی سازشیں کرتے اور چالیں چلا کرتے تھے، اور اس پر تم لوگ پھولے نہیں سمایا کرتے تھے اور اس کو اپنی بڑی چالاکی اور ہوشیاری قرار دیا کرتے تھے سو اب اگر تم لوگوں کے پاس کوئی چال ہے تو تم اس کو اپنے اس عذاب سے چھوٹنے اور اس بچنے کے لئے میرے خلاف چلا کر دیکھ لو۔ سو ان سے ایسا کہنا ان کی تعجیز، اور ان کی تحقیر و تذلیل کے لئے ہو گا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ مگر اس روز کوئی چال چلنا تو دور کی بات، مجرموں کا اس روز حال یہ ہو گا کہ وہ بالکل بے بسی اور عاجزی و درماندگی کی تصویر بنے ہوں گے، ان کے منہ بند، اور ان کی زبانیں گنگ ہوں گی، وہ اپنے مونہوں سے کوئی بات بھی نہ نکال سکیں گے، نہ وہ خود زبان کھولنے کی جرأت کریں گے اور نہ ہی ان کو یہ اجازت ملے گی کہ ان کے پاس اگر کوئی عذر ہو تو وہ اس کو پیش کریں۔

۴۳۔۔۔ ہَنِیًا کے معنی مزیدار، خوشگوار اور سازگار کے ہیں، سو ان کو یہ خوشخبری دی جائے گی کہ تم لوگ یہاں پر چین سے کھاؤ پیو۔ تمہارا یہ کھانا پینا، خوشگوار، راس آنے والا۔ اور ہر قسم کے غل و غش سے پاک ہو گا، اور یہ تمہارے لئے بدلہ ہے تمہارے ان اعمال کا جو تم لوگ اپنی دنیاوی زندگی میں کرتے رہے تھے۔ سو اس سے ان کو جو خوشی اور مسرت نصیب ہو گی اس کا اندازہ کرنا ہی کس کے بس میں ہو سکتا ہے؟ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین

۵۰۔۔۔ سو اس ارشاد سے منکرین کے عناد اور ان کی ہٹ دھرمی پر ملامت بھی ہے، اور ان کے ایمان سے اظہار مایوسی بھی، یعنی جب اس کلام حکیم جیسا دوسرا کوئی کلام نہ ہے نہ ہو سکتا ہے، نہ قوت استدلال اور زور بیان کے اعتبار سے، اور نہ اپنی تاثیر وتسخیر کے لحاظ سے اور نہ ہی عقل ودل کی دنیا کو اپیل کرنے کے اعتبار سے اور نہ ہی توضیح و تبیین حق کے اعتبار سے۔ سو یہ کلام حکیم ہر لحاظ سے کامل و مکمل اور ان کے بے مثال کلام ہے اس کتاب حکیم جیسی دوسری کوئی کتاب نہ کبھی ہوئی ہے اور نہ قیامت تک کبھی ہونا ممکن ہے، اور یہ کتاب عظیم سابقہ تمام آسمانی کتابوں کی مہیمن و محافظ، اور ان کے تمام اصولی مضامین و مطالب کی جامع اور امین ہے، اور ایسی اور اس طور پر کہ آپ قیامت تک حق و ہدایت کا منبع و مصدر بہر حال یہی اور صرف یہی کتاب ہے، تو جب یہ لوگ اس سب کے باوجود اس پر بھی ایمان نہیں لاتے تو پھر اور کس پر ایمان لائیں گے؟ یعنی اس کے بعد ان کے ایمان لانے کی اور کوئی صورت ممکن ہی نہیں، بس جو اس پر ایمان نہیں لائیں گے وہ ایمان کی دولت سے محروم ہیں، و العیاذُ  باللہ، سو اس میں پیغمبر کے لئے تسلیہ وتسکین کا سامان ہے، کہ یہ لوگ دراصل ہٹ دھرمی کے لاعلاج مرض میں مبتلا ہیں، پس یہ اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ عذاب کا کوڑا ان کے سروں پر برس نہ جائے۔ اور یہ اس عذاب کو اپنی آنکھوں سے خود دیکھ نہ لیں۔ پس ان کی محرومی پر افسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔ فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَرَاتٍ۔