دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ المُرسَلات

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

پہلی آیت میں مُرسلات( ہواؤں ) کی قسم کھائی گئی ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’ اَلْمُرْسَلاَت‘ ہے

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدائی دور کے آخری حصہ میں نازل ہوئی ہو گی جبکہ کفار مکہ شدت سے روز جزا کو جھٹلا رہے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور دعوتِ اسلامی کے خلاف چال چلنے لگے تھے۔

 

بخاری کی حدیث ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ ہم مِنٰی کے غار میں تھے اور سورۂ مرسلات نازل ہوئی۔ آپ اسے تلاوت فرما رہے تھے اور ہم اسے آپ کی زبان سے سیکھ رہے تھے۔ ( بخاری کتاب التفسیر)

 

مرکزی مضمون

 

بدلہ کے دن کا انکار کرنے والوں کو ان کے بُرے انجام سے خبردار کرنا اور اللہ سے ڈرنے والوں کے حسنِ انجام کو پیش کرنا ہے تاکہ منکرین ہوش میں آئیں اور اپنے مستقبل کو سنوارنے کی فکر کریں۔

 

اس سورہ میں منکرین کے لیے اِنذار ( تنبیہ) کا پہلو غالب ہے جب کہ سابق سورہ( الانسان) میں نیکو کاروں کے لیے خوشخبری کا پہلو غالب ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۷ میں تیز ہواؤں کو قیامت کی تائید میں پیش کیا گیا ہے۔

 

آیت۸ تا ۱۵ میں قیامت کی ہولناک تصویر پیش کی گئی ہے۔

 

آیت ۱۶ تا ۲۸ میں یوم جزا کی تائید میں شواہد پیش کرتے ہوئے اس کے حق ہونے پر دعوتِ فکر دی گئی ہے۔

 

آیت ۲۹ تا ۴۰ میں جھٹلانے والوں کو قیامت کے دن جن حالات سے سابقہ پیش آئے گا اس کی تصویر پیش کی گئی ہے۔

 

آیت ۴۱ تا ۴۴ میں متقیوں کے حسنِ جزا کی تصویر پیش کی گئی ہے۔

 

آیت ۴۵ تا ۵۰ میں جھٹلانے والوں کی مجرمانہ روش پر انہیں سخت تنبیہ کی گئی ہے۔

ترجمہ

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم ہے ان ہواؤں کی جو لگاتار بھیجی جاتی ہیں۔ ۱*

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر تندو تیز چلنے لگتی ہیں۔ ۲*

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو بادلوں کو پھیلاتی ہیں۔ ۳*

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر( ان کو) الگ الگ کرتی ہیں۔ ۴*

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر( دلوں میں ) یاد دہانی ( کی بات) ڈالتی ہیں۔ ۵*

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ حجت قائم کرنے یا خبردار کرنے کے لیے۔ ۶*

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ ضرور واقع ہو گی۔ ۷*

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر جب ستارے بے نور ہو جائیں گے۔ ۸*

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آسمان پھٹ جائے گا۔ ۹*

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پہاڑ ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں گے۔ ۱۰*

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب رسولوں کے لیے وقت مقرر ہو گا۔ ۱۱*

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں کس دن کے لیے تاخیر ہو رہی ہے۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصلہ کے دن کے لیے۔ ۱۲*

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ فیصلہ کا دن کیا ہے ؟۱۳*

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔ ۱۴*

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم نے اگلے لوگوں کو ہلاک کرتے رہے۔ ۱۶*

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر بعد والوں کو ان کے پیچھے ہلاک کرتے رہے۔ ۱۷*

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ مجرموں کے ساتھ ہم ایسا ہی معاملہ کرتے ہیں۔ ۱۷*

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔ ۱۸*

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم نے تم کو حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا؟ ۱۹*

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسے ایک محفوظ جگہ میں رکھا۔ ۲۰*

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مقررہ مدت تک۔ ۲۱*

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ہم نے ایک منصوبہ بنایا اور ہم کیا ہی خوب منصوبہ بنانے والے ہیں۔ ۲۲*

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم نے زمین کو سمیٹ رکھنے والی نہیں بنایا؟

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ زندوں اور مردوں کو۔ ۲۳*

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس میں اونچے پہاڑ رکھے۔ ۲۴* اور تم لوگوں کو میٹھا پانی پلایا۔ ۲۵*

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو اس چیز کی طرف جسے تم جھٹلاتے رہے۔ ۲۶*

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو اس سایہ کی طرف جو تین شاخوں والا ہے۔ ۲۷*

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ جس میں نہ چھاؤں ہے اور نہ وہ شعلوں کی لپٹ سے بچائے گا۔ ۲۸*

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ آگ محل کی طرح ( اونچی) چنگاریاں پھینکتی ہو گی۔ ۲۹*

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ گویا وہ زرد اونٹ ہیں۔ ۳۰*

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ دن ہے کہ وہ بول نہ سکیں گے۔ ۳۱*

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ انہیں اجازت دی جائے گی کہ عذر پیش کر سکیں۔ ۳۲*

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔ ۳۳*

 

۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ فیصلہ کا دن ہے۔ ہم نے تم کو بھی جمع کر دیا ہے اور تم سے پہلے کے لوگوں کو بھی۔ ۳۴*

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم کوئی چال چل سکتے ہو تو میرے مقابلہ میں چل دیکھو۔ ۳۵*

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔

 

۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ متقی اللہ سے ڈرنے والے۔۔۔۔۔۔۔۔ سایوں اور چشموں میں ہوں گے۔ ۳۶*

 

۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنی پسند کے میووں میں۔ ۳۷*

 

۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ کھاؤ اور پیو مزے سے اپنے اعمال کے بدلہ میں۔ ۳۸*

 

۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نیکو کاروں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ ۳۹*

 

۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔ ۴۰*

 

۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کھاؤ اور مزے کر لو تھوڑے دن۔ تم مجرم ہو۔ ۴۱*

 

۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔

 

۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جھکو تو جھکتے نہیں ہیں۔ ۴۲*

 

۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔

 

۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اس کے بعد وہ کس کلا م پر ایمان لائیں گے ؟ ۴۳*

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  قسم یہاں شہادت ( گواہی) کے معنی میں ہے یعنی یہ ہوائیں جن کی قسم کھائی گئی ہے روزِ جزاء کی تائید کرتی ہیں جس سے قرآن خبردار کر رہا ہے۔

 

ہوائیں یونہی نہیں چلتیں بلکہ ان کو چلایا جاتا ہے اور ان کی وہ کیفیت جبکہ وہ لگاتار چلتی ہیں اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ان کو اس ہستی نے جس کا ان پر کنٹرول ہے ایک خاص مقصد سے بھیجا ہے اور وہ ہے بارش۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی پھر ان ہواؤں کی رفتار تیز ہو جاتی ہے اور کبھی وہ آندھی اور کبھی طوفان کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔  ہوائیں سمندر سے اٹھنے والے بادلوں کو فضا میں اس طرح پھیلاتی ہیں کہ وہ سینکڑوں اور ہزاروں میل کی دوری پر پہنچ جاتے ہیں۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔  ہوائیں بادلوں کو الگ الگ کر دیتی ہیں یعنی ان کا ایک حصہ ایک خطۂ زمین کی طرف لے جاتی ہیں تو ان کا دوسرا حصہ دوسرے خطۂ زمین کی طرف تاکہ اس منصوبہ کے مطابق بارش ہو جو ہواؤں کو چلانے والی ہستی نے بنایا ہے۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔  ان ہواؤں کی حرکات اور کیفیات دلوں کو جگاتی اور ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں اور اپنے رب حقیقی کی خشیت پیدا کرتی ہیں۔ جب ہوائیں آندھی اور طوفان کی شکل اختیار کر لیتی ہیں تو ہر شخص کو اگر اس کا ضمیر بالکل مردہ نہ ہو گیا ہو خدا یاد آ جاتا ہے۔ بجلی کی کڑک اور چمک اللہ کا خوف پیدا کرتی ہے کہ وہ عذاب کا کوڑا برساسکتا ہے۔ دوسری طرف ہوائیں بادلوں کو کھینچ کر لاتی ہیں اور بارانِ رحمت کی صورت میں نمودار ہوتی ہیں۔ اس طرح وہ اپنی خاموش زبان میں اس بات کا اعلان کرتی ہیں کہ رب کائنات جس کے اشارہ پر وہ یہ تصرفات کرتی ہیں ایک زبردست ہستی ہے جو سخت سزا دینے پر قادر ہے اس لیے اس کی نافرمانی کرنا اس کے عذاب کو دعوت دینا ہے اور اس کی فرمانبرداری کر کے ہی انسان اس کی خوشنودی حاصل کرسکتا ہے اس سے جزا و سزا کے اس تصور کی تائید ہوتی ہے جو قرآن پیش کرتا ہے۔

 

یہ ہوائیں رب العٰلمین کی قدرت اور حکمت کا نشان بن کر ظاہر ہوتی ہیں۔ ہواؤں کا ہے عالمگیر نظام اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے بلکہ اس کا ایک خدا ہے اور وہ ایک نظام میں جکڑی ہوئی ہے۔ ہوائیں بھی اس نظام ہی کے تحت ہیں۔ یہ نظام خدا کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ پر دلالت کرتا ہے۔ اس کی قدرت سے ہرگز یہ بعید نہیں کہ وہ قیمت برپا کرے اور انسان کو دوبارہ اٹھائے۔ اور اس کی حکمت اس کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ انصاف کا دن قائم کر ے اور انسان اپنے عمل کے مطابق جزا یا سزا پائے ورنہ یہ زندگی بے مقصد ہو کر رہ جاتی ہے اور زندگی کا بے مقصد ہونا خلافِ حکمت ہے۔

 

مختصر یہ کہ تیز چلنے والی یہ ہوائیں اپنے گوناگوں اور عجیب و غریب تصرفات سے انسان کو اپنے رب کی طرف متوجہ کرتی ہیں اور ایک عزیز( زبردست) اور حکیم ہستی کا احساس اس میں پیدا کرتی ہیں اور اسی احساس کے نتیجہ میں جزا و سزا کا تصور ابھرتا ہے۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ ہوائیں اپنی حرکات و کیفیات سے اللہ کی وحدانیت، اس کی ربوبیت ، اس کی قدرت، اس کی حکمت اور اس کے مدبر کائنات ہونے کی شہادت دیتی ہیں اور ان کے تھپیڑے سوئی ہوئی انسانیت کو جگاتے ہیں اور ان کی سر سراہٹ قیامت کا الارم بجاتی ہیں۔ گویا ہوائیں اللہ کی وحدانیت کا گیت گاتے ہوئے اور انسان کو احساسِ ذمہ داری کا سبق دیتے ہوئے گزرتی ہیں۔ اس طرح ان ہواؤں کے ذریعہ لوگوں پر اللہ کی حجت بھی قائم ہو جاتی ہے اور ان کو چونکا نے اور خبردار کرنے کی خدمت بھی وہ انجام دیتی ہیں۔

 

ہواؤں کے چلنے میں توحید و آخرت کی جو نشانیاں ہیں ان کی طرف قرآن میں متعدد مقامات پر متوجہ کیا گیا ہے مثال کے طور پر دیکھئے سورۂ ذاریات آیت ۱ ؂ تا ۶؂

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ وہ بات ہے جس پر ہواؤں کی قسم کھائی گئی ہے۔ وعدہ قیامت کے دن کا کیا جا رہا ہے کہ اس روز انسان کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا تاکہ وہ اپنے عمل کی جزا یا سزا پائے۔ یہ وعدہ لازماً پورا ہو گا اور وہ باتیں حقیقتِ واقعہ بن کر سامنے آئیں گی جن کے واقعہ ہونے کی خبر قرآن دے رہا ہے۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔  اب قیامت کے کچھ احوال بیان کئے جا رہے ہیں۔

 

جب پہلا صور پھونکا جائے گا تو زمین اور آسمان دونوں زبردست حادثہ سے دو چار ہو جائیں گے۔ بے شمار ستارے جو آج روشن ہیں اس روز ان کی روشنی بالکل ختم ہو جائے گی۔ سورۂ التکویر میں فرمایا:

 

وَاِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ  ’’ جب ستارے بے نور ہو جائیں گے۔‘‘ وہ وقت ایسا ہو گا جبکہ پورے عالم میں تاریکی چھا جائے گی۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔  تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انشقاق نوٹ ۱؂

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔  تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ کہف نوٹ ۶۶؂

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔  اب اس وقت کا ذکر ہو رہا ہے جب دوسرا صور پھونکا جائے گا اور تمام انسانوں کو زندہ کر کے میدانِ حشر میں لایا جائے گا۔

 

اس روز عدالت برپا ہو گی اور رسولوں کو بلایا جائے گا کہ وہ اپنی امتوں کے بارے میں گواہی دیں۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جانتے ہو کہ یہ تمام کام کس دن کے لیے اٹھا رکھے گئے ہیں ؟ فیصلہ کے دن کے لیے۔ یعنی آج دنیا میں عدالتِ الٰہی برپا نہیں کی جا رہی ہے تو یہ نہ سمجھو کہ کبھی عدالتِ الٰہی برپا ہو گی ہی نہیں اور مجرم سزا پانے سے چھوٹ جائیں گے۔ نہیں بلکہ عدالتِ الٰہی کے لیے قیامت کا دن مقرر ہے۔ اس روز ہر ایک کو اپنا حساب دینا ہو گا۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی خوب سمجھ لو کہ فیصلہ کا دن بڑا سخت ہو گا۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔  جو لوگ آج روزِ جزا کو جھٹلا رہے ہیں وہ اس روز ہلاکت میں پڑیں گے۔

 

’ ویل‘  کے معنی ہر قسم کی تباہی کے ہیں۔ لسان العرب میں ہے :

 

واصل الویل فی اللغۃ العذاب والہلاک۔’’لغت میں ویل کے اصل معنی عذاب اور ہلاکت کے ہیں۔‘‘

 

الویل: الحزن والہلاک والمشقۃ من العذاب۔’’ ویل کے معنی حزن(غز اور افسوس)، ہلاکت اور عذاب کی مشقت کے ہیں۔‘‘

 

 قال سیبویہ ویلٌ لہٗ و ویلاًلہٗ ای قبیحاً۔ ’’ سیبویہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے ویل ہے یعنی اس کے لیے خرابی ہے۔‘‘ ( لسان العرب ج ۱۱ ص ۷۳۸)

 

قیامت کے دن جھٹلانے والے کے لیے ’ویل‘ ہے کا مطلب یہ ہے کہ روز جزا کو جھٹلانے والے نہایت افسوسناک حالت سے دور چار ہوں گے۔ انہیں سخت عذاب بھگتنا ہو گا ، وہ ہلاکت اور تباہی کے گڑھے میں گریں گے اور ان کا انجام نہایت براہو گا۔

 

یہ آیت اس سورہ میں دس مرتبہ آئی ہے اور یہ اس سورہ کی نمایاں خصوصیت ہے۔ اس تکرار( بار بار دہرانے ) سے مقصود جھٹلانے والوں کو بار بار انجام بد کی طرف متوجہ کرنا ہے تاکہ وہ چونکیں اور ہوش کے ناخن لیں۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد قدیم ترین کافر قومیں ہیں۔مثلاً قومِ نوح،قومِ عاد ، ثمود وغیرہ۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ان کے بعد آنے والی دوسری کافر قوموں کو بھی ہلاک کرتے رہے ہیں۔ مثلاً قومِ لوط، قوم شعیب اور قوم فرعون۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔  مجرمین سے مراد کافر اور جھٹلانے والی قومیں ہیں۔ اللہ کی سنت یہی ہے کہ جب کوئی رسول آیا اور اس کی قوم نے اسے جھٹلایا تو اسے عذاب کے ذریعہ ہلاک کر دیا گیا تاکہ رسول کی حقانیت ثابت ہو نیز اس لیے بھی کہ جس قوم پر اللہ کے رسول نے حجت تمام کر دی ہو اور اس کے بعد بھی وہ ایمان نہ لائے تو ایسی قوم انسانیت کے لیے ناسور بن جاتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ حق کے واضح ہو جانے کے بعد کسی قوم کا کفر پر اصرار اللہ کے غضب کا موجب ہے۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔  جب دنیا میں مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا تو قیامت کے دن جو عدل و انصاف کا دن ہو گا کس طرح وہ سزا سے بچ سکیں گے۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی معمولی نطفہ سے۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی رحم( شکم) میں۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد حمل کی مدت ہے۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی انسان کی تخلیق کا کام ایک خاص منصوبہ کے مطابق انجام پاتا ہے اور وہ با شعور اور بہترین مخلوق بن جاتا ہے۔ یہ منصوبہ بندی اللہ ہی کی ہوتی ہے تو جو ہستی اتنا بہترین منصوبہ بنانے والی اور اتنی عمدہ تدبیر کرنے والی ہے اس کی طرف ہے بات کیسے منسوب کی جاسکتی ہے کہ اس نے انسان کو بے مقصد پیدا کیا ہے اور اس کی کوئی غایت نہیں۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔  زمین زندہ انسانوں کو اپنی آغوش میں رہنے بسنے کے لیے جگہ دیتی ہے اور مُردوں کے لیے بھی مدفن بن جاتی ہے اس طرح زمین انسان کو اس کی زندگی میں بھی سمیٹ رکھتی ہے اور اس کے مرنے کے بعد بھی۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔  اونچے پہاڑ بادلوں کو روکتے ہیں جس کی وجہ سے پہاڑی علاقہ میں خو ب بارش ہوتی ہے اور دریا بہہ پڑتے ہیں۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔  دریاؤں اور چشموں کو جاری کیا جن سے میٹھا پانی حاصل ہوتا ہے۔

 

کیا یہ سب نعمتیں اللہ کی ربوبیت کی نشانی نہیں ہیں اور جب اس نے تمہاری ربوبیت( پرورش) کا یہ سامان کیا ہے تو وہ تم سے تمہارے رویہ کے بارے میں باز پرس کیسے نہیں کرے گا اور اپنی نعمتوں کا حساب تم سے کیوں نہیں لے گا۔ اس کی ربوبیت اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ حساب کا دن لائے اور شکر گزاروں کو اچھا صلہ دے اور ناشکروں کو سزا دے۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قیامت کے دن کا عذاب۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔  اس سایہ سے جو دھوئیں کی شکل میں ہو گا کافروں کو میدانِ حشر میں سابقہ پیش آئے گا۔ اس کی تین شاخیں ہوں گی۔ یہ اشارہ غالباً اس کی تین خصوصیات(Characteristics) کی طرف ہے اور جرم کی نوعیت کے اعتبار سے مجرم پر اسی خصوصیت کا دھواں مسلط کر دیا جائے گا۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی دوزخ سے جو شعلے اٹھ رہے ہوں گے وہ میدانِ حشر میں مجرموں پر آ آ کر گر رہے ہوں گے اور وہ جس سایہ کے نیچے ہوں گے وہ انہیں ان شعلوں کی زد سے بچا نہ سکے گا۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جہنم سے جو چنگاریاں خارج ہو رہی ہوں گی وہ محل کی طرح بلند ہوں گی اور ان کی ہیئت بھی محل کی ہو گی تاکہ مجرموں کو دنیا کے محل یاد آ جائیں جن میں وہ دادِ عیش دیتے رہے۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔  دوزخ سے نکلنے والی چنگاریاں گویا میزائیل ہوں گی جو میدانِ حشر میں مجرموں کو نشانہ بنائیں گی۔ ان چنگاریوں کی شکل محل کے علاوہ زرد اونٹوں جیسی بھی ہو گی تاکہ مجرموں کو اپنے قیمتی اونٹ یاد آ جائیں جن کو انہوں نے دنیا میں اصل سرمایہ سمجھ رکھا تھا اور اس کی محبت میں گرفتار ہو کر آخرت کو نظر انداز کر دیا تھا۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔  میدانِ حشر میں مجرموں کو مختلف مرحلوں سے گزرنا ہو گا ایک مرحلہ وہ ہو گا جب ان کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور ان کے اعضاء بول پڑیں گے کہ وہ دنیا میں کیا کرتے رہے ہیں۔:

 

اَلْیوْمَ نَخْتِمُ عَلٰی اَفْوَاہِہِمْ وَتُکَلِّمُنَا اَیدِیہِم وَتَشْہَدُ اَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْایکسِبُوْنَ۔ ’’آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔‘‘( یٰس:۶۵)

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔  انہیں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع اس سے پہلے ہی دیا جا چکا ہو گا اس لیے اس مرحلہ میں جب کہ ان کا منہ بند کر دیا جائے گا انہیں عذر پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی سوچو کہ میدانِ حشر میں جھٹلانے والوں کا حال کتنا بُرا ہو گا۔

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ بات خاص طور سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین سے خطاب کر کے کہی جائے گی کہ تم لوگ فیصلہ کے دن کا انکار کرتے تھے تو دیکھو تمہارا خیال غلط ثابت ہوا۔ آج فیصلہ کا دن ہے اور فیصلہ کے لیے ہم نے تم کو بھی حاضر کر دیا ہے اور ان کو بھی جو تم سے پہلے گزر چکے تھے۔ مراد گزرے ہوئے زمانہ کے گمراہ لوگ ہیں جن کے نقش قدم پر یہ لوگ چلتے رہے۔ یہ بات موقع کے لحاظ سے ارشاد ہوئی ہے ورنہ قیامت کے دن بلا استثناء تمام انسانوں کو جو دنیا میں پیدا ہوئے تھے دوبارہ زندہ کر دیا جائے گا۔ اس طرح پوری نوع انسانی اس روز حاضر کر دی جائے گی۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی دنیا میں تو تم میرے کلمہ کو نیچا دکھانے اور میرے رسول کو شکست دینے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلتے رہے اور سازشیں کرتے رہے اور یہ نہ سوچا کہ فیصلہ کا ایک دن مقرر ہے۔ اب اگر تم میں کچھ بل بوتا ہے تو میرے مقابلہ میں کوئی تدبیر کر دکھاؤ۔ اس کا جواب وہ کیا دے سکیں گے البتہ پشیمان ہو کر رہ جائیں گے۔ تو جھٹلانے والوں کے لیے اس روز پشیمانی اور ندامت ہو گی۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔  اب مکذبین ( جھٹلانے والوں ) کے مقابل میں متقین کی جزا بیان کی جا رہی ہے یعنی ان لوگوں کی جو اللہ سے ڈرتے رہے اور جنہوں نے اس احساس کے ساتھ زندگی گزاری کہ قیامت کے دن انہیں اللہ کے حضور جوابدہی کرنا ہے۔ وہ جن انعامات سے نوازے جائیں گے ان کا مختصر ذکر یہاں ہوا ہے۔ وہ حقیقی سایہ میں ہوں گے اس لیے ان کو ہر طرح کا اطمینان اور راحت حاصل ہو گی اور اللہ جن کو اپنے ساے ۂ عاطفت میں لے ان کے سکون و راحت کا کیا کہنا! دوسری چیز جو ان کو سیراب کرے گی اور تشنگی کی تکلیف انہیں کبھی محسوس نہ ہونے دے گی وہ جنت کے چشمے ہوں گے جو انہیں اعلیٰ اور لذیذ مشروب مہیا کریں گے۔

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔  تیسری بڑی نعمت ا ن کے لیے یہ ہو گی کہ وہ اپنی پسند کے میوے نوش کریں گے۔ جب ان کے ذوق کے مطابق ان کو میوے فراہم ہوں گے اور وہ بھی بہ کثرت تو وہ کس قدر شاداں و فرحاں ہوں گے !

 

۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔  نیک اعمال کا یہ بدلہ کہ جنت کی زندگی جس میں کھانے پینے کی فراوانی اور چیزیں بھی ایسی جو نہایت لذیذ اور مرغوب ہوں کتنا بہترین بدلہ ہے۔

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ ترغیب ہے لوگوں کو نیکو کار بننے کی کہ اپنے کو اس بہترین جزا کا مستحق بناؤ۔

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔  جھٹلانے والے سوچیں کہ قیامت کا دن ان کے لیے کتنی بڑی محرومی کا ہو گا۔ ایک طرف نیکو کار جنت کا لطف حاصل کر رہے ہوں گے اور دوسری طرف جھٹلانے والے جہنم کی تباہ کاریوں کا شکار ہوں گے۔

 

۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ سورہ کے خاتمہ کی آیتیں ہیں۔ کافروں کو خطاب کر کے انہیں آخری مرتبہ جھنجھوڑا جا رہا ہے کہ اے مجرمو! اس تمام تذکیر کے باوجود اگر تمہیں اپنی کافرانہ روش پر اصرار ہے تو دنیا میں چند دن مزے کر لو اس کے بعد تمہیں لازماً تباہی سے دو چار ہونا ہے۔

 

۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قرآن اور پیغمبر انہیں اللہ کے حضور جھکنے کی دعوت دے رہے ہیں لیکن وہ اس کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔اور جو اللہ کے حضور نہ جھکے اس کے لیے تباہی مقدر ہے۔

 

اِرکعوا کے معنی ہیں جھکو۔ اور اللہ کے حضور جھکنے کا مفہوم نہایت وسیع ہے۔ اس کی عبادت و اطاعت اور رکوع اور سجدہ سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔

 

۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قرآن جو اللہ کا آخری کلام ہے اور جس نے مضبوط دلائل کے ذریعہ اپنی حجت قائم کر دی ہے اور جس کی حکمت ، حکمتِ بالغہ، جس کا اسلوب موثر اور جس کی تذکیر دلوں کو مسخر کرنے والی ہے اس پر بھی اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو آخر وہ کس کلام کے منتظر ہیں ؟ اگر وہ قرآن سے بھی نصیحت پذیر نہیں ہوئے تو پھر کوئی دوسری کتاب ایسی نہیں ہو سکتی جو ان کو ہوش میں لائے اور نہ قرآن کے بعد کوئی کتاب نازل ہونے والی ہے اس لیے جس کو ایمان لانا ہے قرآن پر لائے۔

 

٭٭٭٭٭