احسن البیان

سُوۡرَةُ الفَجر

۱۔اس سے مراد مطلق فجر ہے، کسی خاص دن کی فجر نہیں۔

٢۔ اس سے اکثر مفسرین کے نزدیک ذو الحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ جن کی فضیلت احادیث سے ثابت ہے، نبی کریم نے فرمایا عشرہ ذوالحجہ میں کیے گئے عمل صالح اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں، حتی کہ جہاد فی سبیل اللہ بھی اتنا پسندیدہ نہیں سوائے اس جہاد کے جس میں انسان شہید ہو جائے۔ (البخاری، کتاب العیدین، باب فضل العمل فی ایام التشریق)

۳۔اس سے مراد جفت اور طاق عدد ہیں یا وہ معدودات جو جفت اور طاق ہوتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ یہ دراصل مخلوق کی قسم ہے اس لیے کہ مخلوق جفت یا طاق ہے اس کے علاوہ نہیں۔

٤۔یعنی جب آئے اور جب جائے، کیوں کہ سیر (چلنا) آتے جاتے دونوں صورتوں میں ہوتا ہے۔

٥۔ ذٰلِکَ سے مذکورہ قسمیں بہ اشیا کی طرف اشارہ ہے یعنی کیا ان کی قسم اہل عقل و دانش کے واسطے کافی نہیں۔ حجر کے معنی ہیں روکنا، منع کرنا، انسانی عقل بھی انسان کو غلط کاموں سے روکتی ہے اس لیے عقل کو بھی حجر کہا جاتا ہے۔آگے بہ طریق استشہاد اللہ تعالیٰ بعض ان قوموں کا ذکر فرما رہے ہیں جو تکذیب و عناد کی بناء پر ہلاک کی گئی تھیں، مقصد اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ اگر تم ہمارے رسول کی تکذیب سے باز نہ آئے تو تمہارا بھی اسی طرح مواخذہ ہو سکتا ہے جیسے گزشتہ قوموں کا اللہ نے کیا۔

٦۔ ان کی طرف حضرت ہود علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجے گئے تھے انہوں نے جھٹلایا، بالآخر اللہ تعالیٰ نے سخت ہوا کا عذاب بھیجا۔ جو متواتر سات راتیں اور آٹھ دن چلتی رہی اور انہیں نہس تہس کر کے رکھ دیا۔

٧۔١رم یہ قوم عاد کے دادا کا نام ہے، ان کا سلسلہ نسب ہے عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح (فتح القدیر) ذات العماد سے اشارہ ہے ان کی قوت و طاقت اور دراز قامتی کی طرف، علاوہ ازیں وہ فن تعمیر میں بھی بری مہارت رکھتے تھے اور نہایت مضبوط بنا دوں پر عظیم الشان عمارتیں تعمیر کرتے تھے۔ذات العماد میں دونوں ہی مفہوم شامل ہو سکتے ہیں۔

۸۔یعنی ان جیسی دراز قامت اور قوت و طاقت والی قوم کوئی اور پیدا نہیں ہوئی، یہ قوم کہا کرتی تھی (من اشد منا قوۃ) ہم سے زیادہ کوئی طاقتور ہے ؟

۹۔یہ حضرت صالح کی قوم تھی اللہ نے اسے پتھر تراشنے کی خاص صلاحیت و قوت عطا کی تھی، حتی کہ یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر ان میں اپنی رہائش گاہیں تعمیر کر لیتے تھے، جیسا کہ قرآن نے کہا ہے (وتنحتون من الجبال بیوتا فارھین)

١٠۔ اس کا مطلب ہے کہ بڑے لشکروں والا تھا جس کے پاس خیموں کی کثرت تھی جنہیں میخیں گاڑ کر کھڑا کیا جاتا تھا۔ یا اس کے ظلم و ستم کی طرف اشارہ ہے کہ میخوں کے ذریعے وہ لوگوں کو سزائیں دیتا تھا۔

۱۳۔یعنی ان پر آسمان سے اپنا عذاب نازل فرما کر ان کو تباہ برباد یا انہیں عبرتناک انجام سے دوچار کر دیا۔

۱٤۔یعنی تمام مخلوقات کے اعمال دیکھ رہا ہے اور اس کے مطابق وہ دنیا اور آخرت میں جزا دیتا ہے۔

١٥۔ یعنی جب کسی کو عزت و دولت کی فراوانی عطا فرماتا ہے تو وہ اپنی بابت اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے کہ اللہ اس پر بہت مہربان ہے، حالانکہ فراوانی امتحان اور آزمائش کے طور پر ہوتی ہے۔

۱٦۔یعنی وہ تنگی میں مبتلا کر کے آزماتا ہے تو اللہ کے بارے میں بدگمانی کا اظہار کرتا ہے۔

 ١٧۔(۱)  یعنی بات اس طرح نہیں جیسے لوگ سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مال اپنے محبوب بندوں کو بھی دیتا ہے اور ناپسندیدہ افراد کو بھی اور وہ اپنے اور بیگانوں دونوں کو مبتلا کرتا ہے۔ اصل مدار دونوں حالتوں میں اللہ کی اطاعت پر ہے جب اللہ مال دے تو اللہ کا شکر کرے، تنگی آئے تو صبر کرے۔

١٧۔ (۲)  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے وہ گھر سب سے بہتر ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے اور وہ گھر بدترین ہے جس میں اس کے ساتھ بدسلوکی کی جائے۔ پھر اپنی انگلی کے ساتھ اشارہ کر کے فرمایا، میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ساتھ ساتھ ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں ساتھ ملی ہوئی ہیں (ابو داؤد)

۱۹۔یعنی جس طریقے سے بھی حاصل ہو، حلال طریقے سے حرام طریقے سے۔

٢٢۔ کہا جاتا ہے کہ جب فرشتے، قیامت والے دن آسمان سے نیچے اتریں گے تو ہر آسمان کے فرشتوں کی الگ صف ہو گی اس طرح سات صفیں ہوں گی۔ جو زمین کو گھیر لیں گی۔

 ٢٣۔ (۱)  ستر ہزار لگاموں کے ساتھ جہنم جکڑی ہوئی ہو گی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے کھینچ رہے ہوں گے (صحیح مسلم) اسے عرش کے بائیں جانب کھڑا کر دیا جائے گا پس اسے دیکھ کر تمام مقرب اور انبیاء گھٹنوں کے بل گر پڑیں گے اور یارب نفسی نفسی پکاریں گے۔ (فتح القدیر)

 ٢٣۔ (۲)  یعنی یہ ہولناک منظر دیکھ کر انسان کی آنکھیں کھلیں گی اور اپنے کفر و معاصی پر نادم ہو گا، لیکن اس روز ندامت اور نصیحت کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔

۲٤۔یہ افسوس اور حسرت کا اظہار، اسی ندامت کا حصہ ہے جو اس روز فائدہ مند نہیں ہو گی۔

۲۵۔ اس لیے کہ اس روز تمام اختیارات صرف ایک اللہ کے پاس ہوں گے، دوسرے کسی کو اس کے سامنے رائے یادم زنی نہیں ہو گا حتی کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش تک نہیں کر سکے گا ایسے حالات میں کافروں کو جو عذاب ہو گا اور جس طرح وہ اللہ کی قید و بند میں جکڑے ہوں گے، اس کا یہاں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا،چہ جائیکہ اس کا کچھ اندازہ ممکن ہو، یہ تو مجرموں اور ظالموں کا حال ہو گا لیکن اہل ایمان و طاعت کا حال اس سے بالکل مختلف ہو گا جیسا کہ اگلی آیات میں ہے۔

۲۸۔یعنی اس کے اجر و ثواب اور ان نعمتوں کی طرف جو اس نے اپنے بندوں کے لیے جنت میں تیار کی ہیں بعض کہتے ہیں قیامت والے دن کہا جائے گا بعض کہتے ہیں کہ موت کے وقت بھی فرشتے خوشخبری دیتے ہیں اسی طرح قیامت والے دن بھی اسے یہ کہا جائے گا جو یہاں مذکور ہے، حافظ ابن کثیر نے ابن عساکر کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم نے ایک آدمی کو یہ دعا پڑھنے کا حکم دیا، اللھم انی اسالک نفسا، بک مطمئنہ، تومن بلقائک، وترضی بقضائک، وتقنع بعطائک۔