تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الفَجر

(سورۃ الفجر ۔ سورہ نمبر ۸۹ ۔ تعداد آیات ۳۰)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     قسم ہے فجر کی

۲۔۔۔     اور دس راتوں کی

۳۔۔۔     اور جفت اور طاق کی

۴۔۔۔     اور رات کی جب کہ وہ رخصت ہونے لگے

۵۔۔۔     کیا ان چیزوں میں عظیم الشان قسم (نہیں ) ہے عقل مند کے لئے ؟

۶۔۔۔     کیا تم نے دیکھا نہیں کہ کیسا معاملہ کیا تمہارے رب نے عاد کی (باغی و سرکش) قوم کے ساتھ؟

۷۔۔۔     یعنی ستونوں والے ان عاد ارم کے ساتھ؟

۸۔۔۔     جن کے مانند کوئی دوسری قوم پیدا نہیں کی گئی تھی (دوسرے ) ملکوں میں

۹۔۔۔     اور قوم ثمود کے ساتھ جنہوں نے تراشا چٹانوں کو (داستان عبرت سنانے والی) اس وادی میں

۱۰۔۔۔     اور میخوں والے فرعون (جیسے سرکش) کے ساتھ

۱۱۔۔۔     ان سب نے سرکشی کی (اپنے رب کے مقابلے میں ) ان ملکوں میں

۱۲۔۔۔     انہوں نے بڑا ہی فساد پھیلایا تھا ان میں

۱۳۔۔۔     آخرکار برسا دیا تمہارے رب نے ان پر کوڑا عذاب کا

۱۴۔۔۔     بے شک تمہارا رب گھات میں ہے (ایسے باغیوں اور سرکشوں کے لیے )

۱۵۔۔۔     پھر (اس مادہ پرست) انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا رب اس کو کسی عزت سے نوازتا ہے اور اس کو کوئی نعمت بخشتا ہے تو یہ (اس سے پھول کر اور مست ہو کر) کہتا ہے کہ رب نے مجھے عزت دے دی

۱۶۔۔۔     اور جب اسے آزمانے کو وہ اس کی روزی اس پر تنگ کر دیتا ہے تو یہ (اس کے سب احسانات کو بھول کر) کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے خوار کر دیا

۱۷۔۔۔     ہرگز نہیں بلکہ تم لوگ نہ تو یتیم کے ساتھ عزت کا سلوک کرتے ہو

۱۸۔۔۔     اور نہ ہی مسکین کو کھانا کھلانے کے ترغیب دیتے ہو

۱۹۔۔۔     اور تم میراث (کا مال) کھاتے ہو سمیٹ سمیٹ کر

۲۰۔۔۔     اور تم لوگ بری طرح جکڑے ہوئے ہو مال دنیا کی محبت میں

۲۱۔۔۔     ہرگز نہیں جب زمین کو کوٹ کر ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا

۲۲۔۔۔     اور جلوہ فرما ہو گا تمہارا رب اس حال میں کہ فرشتے کھڑے ہوں گے صف در صف

۲۳۔۔۔     اور کھینچ لایا جائے گا اس روز دوزخ کو اور خوب سمجھ جائے گا اس روز انسان (حق اور حقیقت کو) مگر کہاں کام آ سکے گا اس کو (اس روز کا) وہ سمجھنا

۲۴۔۔۔     (اس روز وہ مارے حسرت و افسوس کے ) کہے گا اے کاش میں نے آگے بھیجا ہوتا (کچھ سامان) اپنی زندگی کے لئے

۲۵۔۔۔     سو اس روز نہ تو اس (وحدہ' لاشریک) کے عذاب جیسا کوئی عذاب دے سکے گا

۲۶۔۔۔     اور نہ ہوئی کوئی جکڑ سکے گا اس کے جکڑنے جیسا

۲۷۔۔۔     (دوسری طرف ارشاد ہو گا) اے اطمینان والی جان

۲۸۔۔۔     لوٹ جا تو اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی

۲۹۔۔۔     پس شامل ہو جا تو میرے بندوں میں

۳۰۔۔۔     اور داخل ہو جا تو میری جنت میں

تفسیر

 

۱۳۔۔۔  سو ان آیات کریمات سے ماضی کی ان سرکش اور باغی قوموں کے جرم کو بھی واضح فرما دیا گیا، اس جرم کے سبب کی بھی نشاندہی فرما دی گئی، اور ان کے جرم کے نتیجہ و انجام کو بھی ذکر و بیان فرما دیا گیا، سو ان کا جرم تھا فساد فی الارض یعنی ان لوگوں نے راہ حق و ہدایت کو چھوڑ کر ہویٰ وہوس کے راستے کو اپنایا۔ اور اپنے خالق و مالک کی تعلیمات سے منہ موڑ کر اپنی باگ نفس و شیطان کے ہاتھ میں پکڑا دی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زندگی کے ہر شعبے میں شر وفساد پھیل گیا۔ خواہ وہ انفرادی ہو، یا اجتماعی کیونکہ حضرت خالق جَلَّ مَجْدُہٗ کے دین متین اور اس کی تعلیمات و ہدایات سے منہ موڑ کر کفر و شرک کی زندگی بسر کرنا فساد اور خرابی کی جڑ بنیاد ہے، کیونکہ کائنات کی صلاح و فلاح اس کے خالق و مالک کی سچی پکی اور مخلصانہ اطاعت ہی سے وابستہ ہے، ورنہ فساد ہی فساد ہے، و العیاذُ  باللہ، اور سبب اور باعث ان بدبختوں کے اس شروفساد کا تھا طغیان اور سرکشی، یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو جو دنیاوی مال و دولت بخشا تھا۔ اور ان کو جس عزت و اقتدار سے نوازا تھا وہ اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے الٹا اس کی بناء پر اپنے کبر و غرور میں مبتلا ہو گئے، اور وہ اپنے خدا سے بے نیاز اور بے خوف ہو کر اس زعم اور گھمنڈ میں مبتلا ہو گئے کہ ان کو جو کچھ ملا وہ ان کی اپنی ذاتی قابلیت و کارکردگی کا نتیجہ ہے وہ اس میں جو چاہیں اور جیسا چاہیں تصرف کریں۔ ان کو جو کچھ ملا، وہ نہ کسی اور کے دیئے بخشے سے ملا اور نہ کوئی اس کو ان سے چھین سکتا ہے، اور نہ ہی وہ کسی کے آگے جوابدہ ہیں سو اس کے نتیجے میں انہوں نے سب حدود کو پھلانگ دیا۔ اور اپنے اپنے ملکوں کے اندر بڑا شر وفساد مچایا۔ تو آخرکار اس کا نتیجہ اور انجام سامنے آیا اور اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا۔ اور اس کے نتیجے میں وہ اپنے انجام کو پہنچ کر رہے۔ کسی پر کوئی عذاب آیا، اور کسی پر کوئی اور شر وفساد کا نتیجہ و انجام بہر حال ہلاکت و تباہی ہے۔ و العیاذُ باللہ العظیم۔

۲۴۔۔۔  یعنی اپنی اس زندگی کے لئے جو ہمیں اب ملی ہے جو موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی رہے گی جس کو ہم اپنی دنیاوی زندگی میں بھلائے ہوئے تھے اور اس کے تقاضوں کو ہم نے پس پشت ڈال رکھا تھا کہ ہمارے سامنے دنیا کی وہی عارضی اور فانی زندگی اور اس کے وقتی تقاضے اور فانی مفادات تھے، اور بس، اب ہماری آنکھیں کھلی ہیں اور ہمیں اس حقیقت میں آگہی نصیب ہو گئی ہے۔ کاش کہ ہم نے رسول کے راستے کو اپنایا ہوتا۔ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلاً۔ سو اس طرح منکر لوگ اس روز اپنی محرومی پر رہ رہ کر افسوس کریں گے۔ مگر بے وقت کے اس افسوس کا ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا۔ سوائے ان کی آتش یاس و حسرت میں تیزی اور اضافے کے۔ و العیاذُ  باللہ۔ اسی لئے قرآن حکیم اپنی رحمت بھری تعلیمات کے ذریعے حسرت وافسوس کے اس یوم عظیم کے بارے میں انذار وآگہی کا حکم و ارشاد فرماتا ہے ، ارشاد ہوتا ہے وَاَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ وَہُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ وَّہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ (مریم۔۳٩) یعنی خبردار کرو ان کو حسرت وافسوس کے اس یوم عظیم کے بارے میں جس کے بارے میں یہ غفلت میں پڑے ہیں اور یہ ایمان نہیں لا رہے۔ اللہ تعالیٰ حیات مستعار کا ایک ایک لمحہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر صرف کرنے کی توفیق بخشے، اور ہمیشہ اور ہر حال میں رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین، یا رب العالمین، یَامَنْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ وَہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ،

۳۰۔۔۔  سو یہ تحسین و آفرین کے کلمات ہیں جن سے ان خوش نصیبوں کو اس روز حضرت حق جَلَّ مَجْدُہٗ کی طرف سے نوازا جائے گا کہ تمہارے رب نے تم لوگوں کو امتحان اور آزمائش کے جس میدان میں اتارا تھا اس میں تم کامیاب رہے ہو، تم وہاں پر نرم و گرم ہر قسم کے حالات میں اپنے رب سے راضی اور مطمئن رہے، جس کے نتیجے میں تم اپنے رب کے پسندیدہ ٹھہرے، اب تم اس سرخروئی کے ساتھ اپنے رب کی طرف لوٹو، اس حال میں کہ تم اس سے راضی وہ تم سے راضی پس اب تم میرے خاص بندوں کے زمرے میں شامل اور میری جنت میں داخل ہو جاؤ اللہ ہمیں محض اپنے فضل و کرم سے انہی خوش نصیبوں میں سے کرے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔