خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الفَجر

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱       سورۂ الفجر مکّیہ ہے، اس میں ایک ۱ رکوع، انتیس ۲۹ یا تیس۳۰ آیتیں، ایک سو انتالیس۱۳۹ کلمے، پانچ سو ستانوے۵۹۷ حرف ہیں۔

(۱)  اس صبح کی قسم (ف ۲)

۲       مراد اس سے یا یکم محرم کی صبح ہے جس سے سال شروع ہوتا ہے، یا یکم ذی الحجّہ کی جس سے دس راتیں ملی ہوئی ہیں، یا عیدالاضحٰی کی صبح۔ اور بعض مفسّرین نے فرمایا کہ مراد اس سے ہر دن کی صبح ہے کیونکہ وہ رات کے گزرنے اور روشنی کے ظاہر ہونے اور تمام جانداروں کے طلبِ رزق کے لئے منتشر ہونے کا وقت ہے اور یہ مُردوں کے قبروں سے اٹھنے کے وقت کے ساتھ مشابہت و مناسبت رکھتا ہے۔

(۲) اور دس راتوں کی (ف ۳)

۳       حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ مراد ان سے ذی الحجّہ کی پہلی دس راتیں ہیں کیونکہ یہ زمانہ اعمالِ حج میں مشغول ہونے کا زمانہ ہے اور حدیث شریف میں اس عشرہ کی بہت فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ رمضان کے عشرۂ اخیرہ کی راتیں مراد ہیں یا محرّم کے پہلے عشرہ کی۔

(۳) اور جفت اور طاق کی (ف ۴)

۴       ہر چیز کے یا ان راتوں کے یا نمازوں کے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جفت سے مراد خَلق اور طاق سے مراد اللہ تعالیٰ ہے۔

(۴) اور رات کی جب چل دے  (ف ۵)

۵       یعنی گذرے۔ یہ پانچویں قَسم ہے عام رات کی، اس سے پہلے دس خاص راتوں کی قَسم ذکر فرمائی گئی۔ بعض مفسّرین فرماتے ہیں کہ اس سے خاص شبِ مزدلفہ مراد ہے جس میں بندگانِ خدا طاعتِ الٰہی کے لئے جمع ہوتے ہیں، ایک قول یہ ہے کہ اس سے شبِ قدر مراد ہے جس میں رحمت کا نزول ہوتا ہے اور جو کثرتِ ثواب کے لئے مخصوص ہے۔

(۵) کیوں اس میں عقلمند کے  لیے  قسم ہوئی (ف ۶)

۶       یعنی یہ امور اربابِ عقل کے نزدیک ایسی عظمت رکھتے ہیں کہ خبروں کوان کے ساتھ موکّد کرنا شایاں ہے کیونکہ یہ ایسے عجائب و دلائل پر مشتمل ہیں جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی ربوبیّت پر دلالت کرتے ہیں اور جوابِ قَسم یہ ہے کہ کافر ضرور عذاب کئے جائیں گے، اس جواب پر اگلی آیتیں دلالت کرتی ہیں۔

(۶)  کیا تم نے  نہ دیکھا (ف ۷) تمہارے  رب نے  عاد کے  ساتھ کیسا کیا۔

۷       اے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔

(۷)  وہ  اِرم حد سے  زیادہ طول والے  (ف ۸)

۸       جن کے قد بہت دراز تھے انہیں عادِ ارم اور عادِ اولٰی کہتے ہیں، مقصود اس سے اہلِ مکّہ کو خوف دلانا ہے کہ عادِ اولٰی جن کی عمریں بہت زیادہ اور قد بہت طویل اور نہایت قوی و توانا تھے انہیں اللہ تعالیٰ نے ہلاک کردیا تو یہ کافر اپنے آ پ کو کیا سمجھتے ہیں اور عذابِ الٰہی سے کیوں بے خوف ہیں۔

(۸) کہ اس جیسا شہروں میں پیدا  نہ ہوا (ف ۹)

۹       زور و قوّت اور طولِ قامت میں۔ عاد کے بیٹوں میں سے شدّاد بھی ہے جس نے دنیا پر بادشاہت کی اور تمام بادشاہ اس کے مطیع ہو گئے اور اس نے جنّت کا ذکر سن کر براہِ سرکشی دنیا میں جنّت بنانی چاہی اور اس ارادہ سے ایک شہرِ عظیم بنایا، جس کے محل سونے، چاندی کی اینٹوں سے تعمیر کئے گئے اور زبر جداور یاقوت کے ستون اس کی عمارتوں میں نصب ہوئے اور ایسے ہی فرش مکانوں اور رستوں میں بنائے گئے، سنگریزوں کی جگہ آبدار موتی بچھائے گئے، ہر محل کے گرد جواہرات پر نہریں جاری کی گئیں، قِسم قِسم کے درخت حسنِ تزئین کے ساتھ لگائے گئے، جب یہ شہر مکمل ہوا تو شدّاد بادشاہ اپنے اعیانِ سلطنت کے ساتھ اس کی طرف روانہ ہوا، جب ایک منزل فاصلہ باقی رہا تو آسمان سے ایک ہولناک آواز آئی، جس سے اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ہلاک کر دیا، حضرت امیرِ معاویہ کے عہد میں حضرت عبداللہ بن قلابہ صحرائے عدن میں اپنے گمے ہوئے اونٹ کو تلاش کرتے ہوئے اس شہر میں پہنچے اور اس کی تمام زیب و زینت دیکھی اور کوئی رہنے بسنے والا نہ پایا، تھوڑے سے جواہرات وہاں سے لے کر چلے آئے، یہ خبر امیرِ معاویہ کو معلوم ہوئی، انہوں نے انہیں بلا کر حال دریافت کیا، انہوں نے تمام قصّہ سنایا تو امیرِ معاویہ نے کعب احبار کو بلاکر دریافت کیا کہ کیا دنیا میں کوئی ایسا شہر ہے، انہوں نے فرمایا ہاں جس کا ذکر قرآنِ پاک میں بھی آیا ہے، یہ شہر شدّاد بن عاد نے بنایا تھا، وہ سب عذابِ الٰہی سے ہلاک ہو گئے ان میں سے کوئی باقی نہ رہا اور آپ کے زمانہ میں ایک مسلمان سرخ رنگ، کبود چشم، قصیر القامت جس کی ابرو، پر ایک تل ہو گا، اپنے اونٹ کی تلاش میں داخل ہو گا، پھر عبداللہ بن قلابہ کو دیکھ کر فرمایا بخدا وہ شخص یہی ہے۔

(۹) اور ثمود جنہوں نے  وادی میں (ف ۱۰)  پتھر کی چٹانیں کاٹیں (ف ۱۱)

۱۰     یعنی وادی القرٰی میں۔

۱۱     اور مکان بنائے، انہیں اللہ تعالیٰ نے کس طرح ہلاک کیا۔

(۱۰)  اور فرعون کہ چومیخا کرتا (سخت سزائیں دیتا) (ف ۱۲)

۱۲     اس کو جس پر غضبناک ہوتا تھا۔ اب عاد و ثمود و فرعون ان سب کی نسبت ارشاد ہوتا۔

(۱۱) جنہوں نے  شہروں میں سرکشی کی (ف ۱۳)

۱۳     اور معصیّت و گمراہی میں انتہا کو پہنچے اور عبدیّت کی حد سے گذر گئے۔

(۱۲)  پھر ان میں بہت فساد پھیلایا (ف ۱۴)

۱۴     کفر اور قتل اور ظلم کر کے۔

(۱۳) تو ان پر تمہارے  رب نے  عذاب کا کوڑا  بقوت مارا۔

(۱۴) بیشک تمہارے  رب کی نظر سے  کچھ غائب نہیں۔

(۱۵) لیکن آدمی تو جب اسے  اس کا رب آزمائے  کہ اس کو جاہ اور نعمت دے، جب تو کہتا ہے  میرے  رب نے  مجھے  عزت دی۔

(۱۶) اور اگر آزمائے  اور اس کا رزق اس پر تنگ کرے، تو کہتا ہے  میرے  رب نے  مجھے  خوار کیا۔

(۱۷) یوں نہیں (ف ۱۵) بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے  (ف ۱۶)

۱۵     یعنی عزّت و ذلّت دولت و فقر پر نہیں، یہ اس کی حکمت ہے کبھی دشمن کو دولت دیتا ہے، کبھی بندۂ مخلص کو فقر میں مبتلا کرتا ہے، عزّت و ذلّت طاعت و معصیّت پر ہے، کفّار اس حقیقت کو نہیں سمجھتے۔

۱۶     اور باوجود دولت مند ہونے کے ان کے ساتھ اچھے سلوک نہیں کرتے اور انہیں ان کے حقوق نہیں دیتے جن کے وہ وارث ہیں۔ مقاتل نے کہا کہ اُمیّہ بن خلف کے پاس قدامہ بن مظعون یتیم تھے، وہ انہیں انکا حق نہیں دیتا تھا۔

(۱۸) اور آپس میں ایک دوسرے  کو مسکین کے  کھلانے  کی رغبت نہیں دیتے۔

(۱۹) اور میراث کا مال ہپ ہپ کھاتے  ہو (ف ۱۷)

۱۷     اور حلال و حرام کا امتیاز نہیں کرتے اور عورتوں اور بچّوں کو ورثہ نہیں دیتے، ان کے حصّے خود کھا جاتے ہو، جاہلیّت میں یہی دستور تھا۔

(۲۰) اور مال کی نہایت محبت رکھتے  ہو (ف ۱۸)

۱۸     اس کو خرچ کرنا ہی نہیں چاہتے۔

(۲۱) ہاں ہاں جب زمین ٹکرا کر پاش پاش کر دی جائے  (ف ۱۹)

۱۹     اور اس پر پہاڑ اور عمارت کسی چیز کا نام و نشان نہ رہے۔

(۲۲) اور تمہارے  رب کا حکم آئے  اور فرشتے  قطار قطار۔

(۲۳) اور اس دن جہنم لائے  جائے  (ف ۲۰) اس دن آدمی سوچے  گا (ف ۲۱) اور اب اسے  سوچنے  کا وقت کہاں (ف ۲۲)

۲۰     جہنّم کی ستّر ہزار باگیں ہوں گی، ہر باگ پر ستّر ہزار فرشتے جمع ہو کر اس کو کھینچیں گے اور وہ جوش و غضب میں ہو گی، یہاں تک کہ فرشتے اس کو عرش کے بائیں جانب لائیں گے، اس روز سب نفسی نفسی کہتے ہوں گے، سوائے حضورِ پُر  نور حبیبِ خدا سیّدِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے، کہ حضور یارب امّتی امّتی فرماتے ہوں گے، جہنّم حضور سے عرض کرے گی کہ اے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم آپ کا میرا کیا واسطہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مجھ پر حرام کیا ہے۔ (جمل)

۲۱     اور اپنی تقصیر کو سمجھے گا۔

۲۲     اس وقت کا سوچنا، سمجھنا کچھ بھی مفید نہیں۔

(۲۴) کہے  گا ہائے  کسی طرح میں نے  جیتے  جی نیکی آگے  بھیجی ہوتی۔

(۲۵) تو اس دن اس کا سا عذاب (ف ۲۳) کوئی  نہیں کرتا۔

۲۳     یعنی اللہ کا سا۔

(۲۶) اور اس کا سا  باندھنا کوئی نہیں باندھتا۔

(۲۷) اے  اطمینان وا لی جان (ف ۲۴)

(۲۸) اپنے  رب کی طرف واپس ہو یوں کہ تو اس سے  راضی وہ تجھ سے  راضی۔

(۲۹) پھر میرے  خاص بندوں میں داخل ہو۔

(۳۰) اور میری جنت میں آ۔

۲۴     جو ایمان و ایقان پر ثابت رہی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے حضور سرِ طاعت خم کرتی رہی، یہ مومن سے وقتِ موت کہا جائے گا جب دنیا سے اس کے سفر کرنے کا وقت آئے گا۔