خزائن العرفان

سُوۡرَةُ العَنکبوت

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف ۱)

۱                 سورۂ عنکبوت مکیّہ ہے اس میں سات رکوع انہتر ۶۹ آیتیں نو سو اسی ۹۸۰ کلمے چار ہزار ایک سو پینسٹھ حرف ہیں۔

(۱)  الم

(۲) کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اتنی بات پر چھوڑ دیے  جائیں گے  کہ کہیں ہم ایمان لائے ،  اور ان کی آزمائش نہ ہو گی (ف ۲)

۲                 شدائدِ تکالیف اور انواعِ مصائب اور ذوقِ طاعات و ترکِ شہوات و بدلِ جان و مال سے ان کی حقیقتِ ایمان خوب ظاہر ہو جائے اور مؤمنِ مخلص اور منافق میں امتیاز ظاہر ہو جائے۔ شانِ نُزول : یہ آیت ان حضرات کے حق میں نازِل ہوئی جو مکّہ مکرّمہ میں تھے اور انہوں نے اسلام کا اقرار کیا تو اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں لکھاکہ مَحض اقرار کافی نہیں جب تک ہجرت نہ کرو ان صاحبوں نے ہجرت کی اور بقصدِ مدینہ روانہ ہوئے، مشرکین ان کے درپے ہوئے اور ان سے قتال کیا بعض حضرات ان میں سے شہید ہو گئے بعض بچ آئے ان کے حق میں یہ دو آیتیں نازِل ہوئیں اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ مراد ان لوگوں سے سلمہ بن ہشّام اور عیّاش بن ابی ربیعہ اور ولید بن ولید اور عمّار بن یاسر وغیرہ ہیں جو مکّہ مکرّمہ میں ایمان لائے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت عمّار کے حق میں نازِل ہوئی جو خدا پرستی کی وجہ سے ستائے جاتے تھے اور کُفّار انہیں سخت ایذائیں پہنچاتے تھے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیتیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام حضرت مہجع بن عبداللہ کے حق میں نازِل ہوئیں جو بدر میں سب سے پہلے شہید ہونے والے ہیں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی نسبت فرمایا کہ مہجع سید الشہداء ہیں اور اس اُمّت میں بابِ جنّت کی طرف پہلے وہ پکارے جائیں گے ان کے والدین اور ان کی بی بی کو ان کا بہت صدمہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازِل کی پھر ان کی تسلّی فرمائی۔

(۳) اور بیشک ہم نے  ان سے  اگلوں کو جانچا (ف ۳) تو ضرور اللہ سچوں کو دیکھے  گا اور ضرور جھوٹوں کو دیکھے  گا (ف ۴)

۳                 طرح طرح کی آزمائشوں میں ڈالا، بعض ان میں سے وہ ہیں جو آرے سے چیر ڈالے گئے، بعض لوہے کی کنگھیوں سے پرزے پرزے کئے گئے اور مقامِ صدق و وفا میں ثابت و قائم رہے۔

۴                 ہر ایک کا حال ظاہر فرما دے گا۔

(۴) یا یہ سمجھے  ہوئے  ہیں وہ جو برے  کام کرتے  ہیں (ف ۵) کہ ہم سے  کہیں نکل جائیں گے  (ف ۶) کیا ہی برا حکم لگاتے  ہیں۔

۵                 شرک و معاصی میں مبتلا ہیں۔

۶                 اور ہم ان سے انتقام نہ لیں گے۔

(۵)  جسے  اللہ سے  ملنے  کی امید ہو (ف ۷) تو بیشک اللہ کی میعاد ضرور آنے  وا لی ہے  (ف ۸) اور وہی سنتا جانتا ہے  (ف ۹)

۷                 بعث و حساب سے ڈرے یا ثواب کی امید رکھے۔

۸                 اس نے ثواب و عذاب کا جو وعدہ فرمایا ہے ضرور پورا ہونے والا ہے چاہیئے کہ اس کے لئے تیار رہے اور عملِ صالح میں جلدی کرے۔

۹                 بندوں کے اقوال و افعال کو۔

(۶) اور جو اللہ کی راہ میں کوشش کرے  (ف ۱۰) تو اپنے  ہی بھلے  کو کوشش کرتا ہے  (ف ۱۱) بیشک اللہ بے  پرواہ ہے  سارے  جہان سے  (ف ۱۲)

۱۰               خواہ اعدائے دین سے محاربہ کر کے یا نفس و شیطان کی مخالفت کر کے اور طاعتِ الٰہی پر صابر و قائم رہ کر۔

۱۱               اس کا نفع و ثواب پائے گا۔

۱۲               انس و جن و ملائکہ اور ان کے اعمال و عبادات سے اس کا امر و نہی فرمانا بندوں پر رحمت و کرم کے لئے ہے۔

۱۳(۷) اور جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  ہم ضرور ان کی برائیاں اتار دیں گے  (ف ۱۳) اور ضرور انہیں اس کام پر بدلہ دیں گے  جو ان کے  سب کاموں میں اچھا تھا (ف ۱۴)

۱۳               نیکیوں کے سبب۔

۱۴               یعنی عملِ نیک پر۔

(۸) اور ہم نے  آدمی کو تاکید کی اپنے  ماں باپ کے  ساتھ بھلائی کی (ف ۱۵) اور اگر تو وہ تجھ سے  کوشش کریں کہ تو میرا شریک ٹھہرائے  جس کا تجھے  علم نہیں تو  تُو ان کا  کہا نہ مان (ف ۱۶) میری ہی طرف تمہارا پھرنا ہے  تو میں بتا دوں گا تمہیں جو تم کرتے  تھے  (ف ۱۷)

۱۵               احسان اور نیک سلوک کی۔

شانِ نُزول : یہ آیت اور سورۂ لقمان اور سورۂ احقاف کی آیتیں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں و بقول ابنِ اسحٰق سعد بن مالک زہری کے حق میں نازِل ہوئیں ان کی ماں حمنہ بنتِ ابی سفیان بن امیہ بن عبدِ شمس تھی حضرت سعد سابقین اوّلین میں سے تھے اور اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے جب آپ اسلام لائے تو آپ کی والدہ نے کہا کہ تو نے یہ کیا نیا کام کیا خدا کی قَسم اگر تو اس سے باز نہ آیا تو نہ میں کھاؤں نہ پیوں یہاں تک کہ مر جاؤں اور تیری ہمیشہ کے لئے بدنامی ہو اور تجھے ماں کا قاتل کہا جائے پھر اس بڑھیا نے فاقہ کیا اور ایک شبانہ روز نہ کھایا، نہ پیا، نہ سایہ میں بیٹھی اس سے ضعیف ہو گئی پھر ایک رات دن اور اسی طرح رہی تب حضرت سعد اس کے پاس آئے اور آپ نے اس سے فرمایا کہ اے ماں اگر تیری سو ۱۰۰ جانیں ہوں اور ایک ایک کر کے سب ہی نکل جائیں تو بھی میں اپنا دین چھوڑ نے والا نہیں تو چاہے کھا چاہے مت کھا، جب وہ حضرت سعد کی طرف سے مایوس ہو گئی کہ یہ اپنا دین چھوڑنے والے نہیں تو کھانے پینے لگی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور حکم دیا کہ والدین کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے اور اگر وہ کُفر و شرک کا حکم دیں تو نہ مانا جائے۔

۱۶               کیونکہ جس چیز کا علم نہ ہو اس کو کسی کے کہے سے مان لینا تقلید ہے معنیٰ یہ ہوئے کہ واقع میں میرا کوئی شریک نہیں تو علم و تحقیق سے تو کوئی بھی کسی کو میرا شریک مان ہی نہیں سکتا مَحال ہے رہا تقلیداً بغیر علم کے میرے لئے شریک مان لینا یہ نہایت قبیح ہے اس میں والدین کی ہرگز اطاعت نہ کر۔ مسئلہ: ایسی اطاعت کسی مخلوق کی جائز نہیں جس میں خدا کی نافرمانی ہو۔

۱۷               تمہارے کردار کی جزا دے کر۔

(۹)  اور جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  ضرور ہم انہیں نیکوں میں شامل کریں گے  (ف ۱۸)

۱۸               کہ ان کے ساتھ حشر فرمائیں گے اور صالحین سے مراد انبیاء و اولیاء ہیں۔

(۱۰) اور بعض آدمی کہتے  ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے  پھر جب اللہ کی راہ میں انہیں کوئی تکلیف دی جاتی ہے  (ف ۱۹) تو لوگوں کے  فتنہ کو اللہ کے  عذاب کے  برابر سمجھتے  ہیں (ف ۲۰) اور اگر تمہارے  رب کے  پاس سے  مدد آئے  (ف ۲۱) تو ضرور کہیں گے  ہم تو تمہارے  ہی ساتھ تھے  (ف ۲۲) کیا اللہ خوب نہیں جانتا جو کچھ جہاں بھر کے  دلوں میں ہے  (ف ۲۳)

۱۹               یعنی دین کے سبب سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے جیسے کہ کُفّار کا ایذا پہنچانا۔

۲۰               اور جیسا اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے تھا ایسا خَلق کی ایذا سے ڈرتے ہیں حتی کہ ایمان ترک کر دیتے ہیں اور کُفر اختیار کر لیتے ہیں یہ حال منافقین کا ہے۔

۲۱               مثلاً مسلمانوں کی فتح ہو یا انہیں دولت ملے۔

۲۲               ایمان و اسلام میں اور تمہاری طرح دین پر ثابت تھے تو ہمیں اس میں شریک کرو۔

۲۳               کُفر یا ایمان۔

(۱۱) اور ضرور اللہ ظاہر کر دے  گا ایمان والوں کو (ف ۲۴) اور ضرور  ظاہر کر دے  گا منافقوں کو (ف ۲۵)

۲۴               جو صدق و اخلاص کے ساتھ ایمان لائے اور بَلا و مصیبت میں اپنے ایمان و اسلام پر ثابت و قائم رہے۔

۲۵               اور دونوں فریقوں کو جزا دے گا۔

(۱۲) اور کافر مسلمانوں سے  بولے  ہماری راہ پر چلو اور ہم تمہارے  گناہ اٹھا لیں گے  (ف ۲۶) حالانکہ وہ ان کے  گناہوں میں سے  کچھ نہ اٹھائیں گے، بیشک وہ جھوٹے  ہیں۔

۲۶               کُفّارِ مکّہ نے مومنینِ قریش سے کہا تھا کہ تم ہمارا اور ہمارے باپ دادا کا دین اختیار کرو تمہیں اللہ کی طرف سے جو مصیبت پہنچے گی اس کے ہم کفیل ہیں اور تمہارے گناہ ہماری گردن پر یعنی اگر ہمارے طریقہ پر رہنے سے اللہ تعالیٰ نے تم کو پکڑا اور عذاب کیا تو تمہارا عذاب ہم اپنے اوپر لے لیں گے اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب فرمائی۔

(۱۳) اور بیشک ضرور اپنے  (ف ۲۷) بوجھ اٹھائیں گے  اور اپنے  بوجھوں کے  ساتھ اور بوجھ (ف ۲۸) اور ضرور قیامت کے  دن پوچھے  جائیں گے  جو کچھ بہتان  اٹھاتے  تھے  (ف ۲۹)

۲۷               کُفر و معاصی کے۔

۲۸               ان کے گناہوں کے جنہیں انہوں نے گمراہ کیا اور راہِ حق سے روکا۔ حدیث شریف میں ہے جس نے اسلام میں کوئی بُرا طریقہ نکالا اس پر اس طریقہ نکالنے کا گناہ بھی ہے اور قیامت تک جو لوگ اس پر عمل کریں ان کے گناہ بھی بغیر اس کے کہ ان پر سے ان کے بارِ گناہ میں کچھ بھی کمی ہو۔ (مسلم شریف)۔

۲۹               اللہ تعالیٰ ان کے اعمال و افتراء سب جاننے والا ہے لیکن یہ سوال تو بیخ کے لئے ہے۔

(۱۴) اور بیشک ہم نے  نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس سال کم ہزار برس رہا  (ف ۳۰) تو انہیں طوفان نے  آ لیا اور وہ ظالم تھے  (ف ۳۱)

۳۰               اس تمام مدّت میں قوم کو توحید و ایمان کی دعوت جاری رکھی اور ان کی ایذاؤں پر صبر کیا اس پر بھی وہ قوم باز نہ آئی اور تکذیب کرتی رہی۔

۳۱               طوفان میں غرق ہو گئے۔ اس میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو تسلّی دی گئی ہے کہ آپ سے پہلے انبیاء کے ساتھ ان کی قوموں نے بہت سختیاں کی ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام پچاس کم ہزار برس دعوت فرماتے رہے اور اس طویل مدّت میں ان کی قوم کے بہت قلیل لوگ ایمان لائے تو آپ کچھ غم نہ کریں کیونکہ بفضلہٖ تعالیٰ آپ کی قلیل مدّت کی دعوت سے خَلقِ کثیر مشرف بہ ایمان ہو چکی ہے۔

(۱۵) تو ہم نے  اسے  (ف ۳۲) اور کشتی والوں کو (ف ۳۳) بچا لیا اور اس کشتی کو سارے  جہاں کے  لیے  نشانی کیا (ف ۳۴)

۳۲               یعنی حضرت نوح علیہ السلام کو۔

۳۳               جو آپ کے ساتھ تھے ان کی تعداد اٹھہتّر تھی نصف مرد نصف عورت ان میں حضرت نوح علیہ السلام کے فرزند سام و حام ویافث اور ان کی بی بیاں بھی شامل ہیں۔

۳۴               کہا گیا ہے کہ وہ کَشتی جودی پہاڑ پر مدّتِ دراز تک باقی رہی۔

(۱۶) اور ابراہیم کو (ف ۳۵) جب اس نے  اپنی قوم سے  فرمایا کہ اللہ کو پوجو  اور اس سے  ڈرو، اس میں تمہارا بھلا ہے  اگر تم جانتے۔

۳۵               یاد کرو۔

(۱۷) تم تو اللہ کے  سوا بتوں کو پوجتے  ہو  اور نرا جھوٹ گڑھتے  ہو  (ف ۳۶)  بے  شک  وہ جنھیں  تم  اللہ  کے   سوا  پو جتے   ہو  تمہاری روزی کے  کچھ مالک نہیں تو اللہ کے  پاس رزق ڈھونڈو (ف ۳۷) اور اس کی بندگی کرو اور اس کا احسان مانو، تمہیں اسی کی طرف پھرنا ہے  (ف ۳۸)

۳۶               کہ بُتوں کو خدا کا شریک کہتے ہو۔

۳۷               وہی رزّاق ہے۔

۳۸               آخرت میں۔

(۱۸)  اور اگر تم جھٹلاؤ (ف ۳۹) تو تم سے  پہلے  کتنے  ہی گروہ جھٹلا چکے  ہیں (ف ۴۰)  اور رسول کے  ذمہ نہیں مگر صاف پہنچا دینا۔

۳۹               اور مجھے نہ مانو تو اس سے میرا کوئی ضَرر نہیں، میں نے راہ دکھا دی، معجزات پیش کر دیئے، میرا فرض ادا ہو گیا، اس پر بھی اگر تم نہ مانو۔

۴۰               اپنے انبیاء کو جیسے کہ قومِ نوح و عاد و ثمود وغیرہ ان کے جھٹلانے کا انجام یہی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کیا۔

(۱۹) اور کیا انہوں نے  نہ دیکھا  اللہ کیونکر خلق کی ابتداء فرماتا ہے  (ف ۴۱) پھر اسے  دوبارہ بنائے  گا (ف ۴۲) بیشک یہ اللہ کو آسان ہے  (ف ۴۳)

۴۱               کہ پہلے انہیں نطفہ بناتا ہے پھر خونِ بستہ کی صورت دیتا ہے پھر گوشت پارہ بناتا ہے اس طرح تدریجاً ان کی خِلقت کو مکمل کرتا ہے۔

۴۲               آخرت میں بَعث کے وقت۔

۴۳               یعنی پہلی بار پیدا کرنا اور مرنے کے بعد پھر دوبارہ بنانا۔

(۲۰) تم فرماؤ زمین میں سفر کر کے  دیکھو (ف ۴۴) اللہ کیونکر پہلے  بناتا ہے  (ف ۴۵) پھر اللہ دوسری اٹھان اٹھاتا ہے  (ف ۴۶) بیشک اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔

۴۴               گزشتہ قوموں کے دیار و آثار کو کہ۔

۴۵               مخلوق کو پھر اسے موت دیتا ہے۔

۴۶               یعنی جب یہ یقین سے جان لیا کہ پہلی مرتبہ اللہ ہی نے پیدا کیا تو معلوم ہو گیا کہ اس خالِق کا مخلوق کو موت دینے کے بعد دوبارہ پیدا کرنا کچھ بھی متعذّر نہیں۔

(۲۱) عذاب دیتا ہے  جسے  چاہے  (ف ۴۷)  اور رحم فرماتا ہے  جس پر چاہے  (ف ۴۸) اور تمہیں اسی کی طرف پھرنا ہے۔

۴۷               اپنے عدل سے۔

۴۸               اپنے فضل سے۔

(۲۲) اور نہ تم زمین میں (ف ۴۹) قابو سے  نکل سکو اور نہ  آسمان میں (ف ۵۰) اور تمہارے  لیے  اللہ کے  سوا نہ کوئی کام بنانے  والا اور نہ مددگار۔

۴۹               اپنے ربّ کے۔

۵۰               اس سے بچنے اور بھاگنے کی کہیں مجال نہیں یا یہ معنیٰ ہیں کہ نہ زمین والے اس کے حکم و قضا سے کہیں بھاگ سکتے ہیں نہ آسمان والے۔

(۲۳) اور وہ جنہوں نے  میری آیتوں اور میرے  ملنے  کو نہ مانا (ف ۵۱) وہ ہیں جنہیں میری رحمت کی آس نہیں اور ان کے  لیے  دردناک عذاب ہے  (ف ۵۲)

۵۱               یعنی قرآن شریف اور بَعث پر ایمان نہ لائے۔

۵۲               اس پند و موعظت کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کا ذکر فرمایا جاتا ہے کہ جب آپ نے اپنی قوم کو ایمان کی دعوت دی اور دلائل قائم کئے اور نصیحتیں فرمائیں۔

(۲۴) تو اس کی قوم کو کچھ جواب بن نہ آیا مگر یہ بولے  انہیں قتل کر دو یا جلادو (ف ۵۳) تو اللہ نے  اسے  (ف ۵۴)  آگ سے  بچا لیا (ف ۵۵) بیشک اس میں ضرور نشانیاں ہیں ایمان  والوں کے  لیے  (ف ۵۶)

۵۳               یہ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا یا سرداروں نے اپنے متّبعین سے بہرحال کچھ کہنے والے تھے کچھ اس پر راضی ہونے والے تھے سب متفق اس لئے وہ سب قائلین کے حکم میں ہیں۔

۵۴               یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب کہ ان کی قوم نے آگ میں ڈالا۔

۵۵               اس آگ کو ٹھنڈا کر کے اور حضرت ابراہیم کے لئے سلامتی بنا کر۔

۵۶               عجیب عجیب نشانیاں، آگ کا اس کثرت کے باوجود اثر نہ کرنا اور سرد ہو جانا اوراس کی جگہ گلشن پیدا ہو جانا اور یہ سب پل بھر سے بھی کم میں ہونا۔

(۲۵) اور ابراہیم نے  (ف ۵۷) فرمایا تم نے  تو اللہ کے  سوا یہ بت بنا لیے  ہیں جن سے  تمہاری دوستی یہی دنیا کی زندگی تک ہے  (ف ۵۸) پھر قیامت کے  دن تم میں ایک دوسرے  کے  ساتھ کفر کرے  گا اور ایک دوسرے  پر لعنت ڈالے  گا (ف ۵۹) اور تم سب کا ٹھکانا  جہنم ہے  (ف ۶۰) اور تمہارا کوئی مددگار نہیں (ف ۶۱)

۵۷               اپنی قوم سے۔

۵۸               پھر منقطع ہو جائے گی اور آخرت میں کچھ کام نہ آئے گی۔

۵۹               بُت اپنے پجاریوں سے بیزار ہوں گے اور سردار اپنے ماننے والوں سے اور ماننے والے سرداروں پر لعنت کریں گے۔

۶۰               بُتوں کا بھی اور پجاریوں کا بھی ان میں سرداروں کا بھی اور ان کے فرمانبرداروں کا بھی۔

۶۱               جو تمہیں عذاب سے بچائے اور جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات آگ سے سلامت نکلے اور اس نے آپ کو کوئی ضرر نہ پہنچایا۔

 (۲۶) تو لوط اس پر ایمان لایا (ف ۶۲) اور ابراہیم نے  کہا میں (ف ۶۳) اپنے  رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں (ف ۶۴) بیشک وہی عزت و حکمت والا ہے۔

۶۲               یعنی حضرت لوط علیہ السلام نے یہ معجِزہ دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی رسالت کی تصدیق کی آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سب سے پہلے تصدیق کرنے والے ہیں۔ ایمان سے تصدیقِ رسالت ہی مراد ہے کیونکہ اصل توحید کا اعتقاد تو ان کو ہمیشہ سے حاصل ہے اس لئے انبیاء ہمیشہ ہی مومن ہوتے ہیں اور کُفر ان سے کسی حال میں متصور نہیں۔

۶۳               اپنی قوم کو چھوڑ کر۔

۶۴               جہاں اس کا حکم ہو چنانچہ آپ نے سوادِ عراق سے سرزمینِ شام کی طرف ہجرت فرمائی اس ہجرت میں آپ کے ساتھ آپ کی بی بی سارہ اور حضرت لوط علیہ السلام تھے۔

(۲۷) اور ہم نے  اسے  (ف ۶۵) اسحاق اور یعقوب عطا فرمائے  اور ہم نے  اس کی اولاد میں نبوت  (ف ۶۶) اور کتاب رکھی (ف ۶۷) اور ہم نے  دنیا میں اس کا ثواب اسے  عطا فرمایا (ف ۶۸) اور بیشک آخرت میں وہ  ہمارے  قرب خاص کے  سزاواروں میں ہے  (ف ۶۹)

۶۵               بعد حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے۔

۶۶               کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد جتنے انبیاء ہوئے سب آپ کی نسل سے ہوئے۔

۶۷               کتاب سے توریت، انجیل، زبور، قرآن شریف مراد ہیں۔

۶۸               کہ پاک ذُرِّیَّت عطا فرمائی، پیغمبری ان کی نسل میں رکھی، کتابیں ان پیغمبروں کو عطا کیں جو ان کی اولاد میں ہیں اور ان کو خَلق میں محبوب و مقبول کیا کہ تمام اہلِ مِلَل و اَدیان ان سے مَحبت رکھتے ہیں اور ان کی طرف نسبت فخر جانتے ہیں اور ان کے لئے اختتامِ دنیا تک درود مقرر کر دیا، یہ تو وہ ہے جو دنیا میں عطا فرمایا۔

۶۹               جن کے لئے بڑے بلند درجے ہیں۔

(۲۸) اور لوط کو نجات دی جب اس نے  اپنی قوم سے  فرمایا تم بیشک بے  حیائی کا کام کرتے  ہو، کہ تم سے  پہلے  دنیا بھر میں کسی نے  نہ کیا (ف ۷۰)

۷۰               اس بے حیائی کی تفسیر اس سے اگلی آیت میں بیان ہوتی ہے۔

(۲۹) کیا تم مردوں سے  بد فعلی کرتے  ہو اور راہ مارتے  ہو (ف ۷۱) اور اپنی مجلس میں بری بات کرتے  ہو (ف ۷۲) تو اس کی قوم کا کچھ جواب نہ ہوا مگر یہ کہ بولے  ہم پر اللہ کا عذاب لاؤ اگر تم سچے  ہو (ف ۷۳)

۷۱               راہ گیروں کو قتل کر کے ان کے مال لوٹ کر اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ لوگ مسافروں کے ساتھ بد فعلی کرتے تھے حتی کہ لوگوں نے اس طرف گزرنا موقوف کر دیا تھا۔

۷۲               جو عقلاً و عرفاً قبیح و ممنوع ہے جیسے گالی دینا، فحش بکنا، تالی اور سیٹی بجانا، ایک دوسرے کے کنکریاں مارنا، رستہ چلنے والوں پر کنکری وغیرہ پھینکنا، شراب پینا، تمسخُر اور گندی باتیں کرنا، ایک دوسرے پر تھوکنا وغیرہ ذلیل افعال و حرکات جن کی قومِ لوط عادی تھی، حضرت لوط علیہ السلام نے اس پر انہیں ملامت کی۔

۷۳               اس بات میں کہ یہ افعال قبیح ہیں اور ایسا کرنے والے پر عذاب نازِل ہو گا یہ انہوں نے براہِ استہزاء کہا جب حضرت لوط علیہ السلام کو اس قوم کے راہِ راست پر آنے کی کچھ امید نہ رہی تو آپ نے بارگاہِ الٰہی میں۔

(۳۰) عرض کی، اے  میرے  رب! میری مدد کر (ف ۷۴) ان فسادی لوگوں پر (ف ۷۵)

۷۴               نُزولِ عذاب کے بارے میں میری بات پوری کر کے۔

۷۵               اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی۔

(۳۱) اور جب ہمارے  فرشتے  ابراہیم کے  پاس مژدہ لے  کر آئے  (ف ۷۶) بولے  ہم ضرور اس شہر والوں کو ہلاک کریں گے  (ف ۷۷) بیشک اس کے  بسنے  والے  ستمگاروں ہیں۔

۷۶               ان کے بیٹے اور پوتے حضرت اسحٰق و حضرت یعقوب علیہما السلام کا۔

۷۷               اس شہر کا نام سدوم تھا۔

(۳۲) کہا (ف ۷۸) اس میں تو لوط ہے  (ف ۷۹) فرشتے  بولے  ہمیں خوب معلوم ہے  جو کوئی اس میں ہے، ضرور ہم اسے  (ف ۸۰) اور اس کے  گھر والوں کو نجات دیں گے  مگر اس کی عورت کو،  وہ رہ جانے  والوں میں ہے  (ف ۸۱)

۷۸               حضرت ابراہیم علیہ السلام نے۔

۷۹               اور لوط علیہ السلام تو اللہ کے نبی اور اس کے برگزیدہ بندے ہیں۔

۸۰               یعنی لوط علیہ السلام کو۔

۸۱               عذاب میں۔

(۳۳) اور جب ہمارے  فرشتے  لوط کے  پاس (ف ۸۲) آئے  ان کا آنا  اسے  ناگوار ہوا  اور ان کے  سبب دل تنگ ہوا (ف ۸۳) اور انہوں نے  کہا نہ ڈریے  (ف ۸۴) اور نہ غم کیجئے  (ف ۸۵) بیشک ہم آپ کو اور آپ کے  گھر والوں کو نجات دیں گے  مگر آپ کی عورت وہ رہ جانے  والوں میں ہے۔

۸۲               خوب صورت مہمانوں کی شکل میں۔

۸۳               قوم کے افعال و حرکات اور ان کی نالائقی کا خیال کر کے اس وقت فرشتوں نے ظاہر کیا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں۔

۸۴               قوم سے۔

۸۵           ہمارا کہ قوم کے لوگ ہمارے ساتھ کوئی بے ادبی یا گستاخی کریں ہم فرشتے ہیں ہم لوگوں کو ہلاک کریں گے اور۔

(۳۴) بیشک ہم اس شہر والوں پر آسمان سے  عذاب اتارنے  والے  ہیں بدلہ ان کی نافرمانیوں کا۔

(۳۵) اور بیشک ہم نے  اس سے  روشن نشانی باقی رکھی عقل والوں کے  لیے  (ف ۸۶)

۸۶               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ وہ روشن نشانی قومِ لوط کے ویران مکان ہیں۔

(۳۶) مدین  کی طرف ان کے  ہم قوم شعیب کو بھیجا  تو اس نے  فرمایا، اے  میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اور پچھلے  دن کی امید رکھو (ف ۸۷) اور زمین میں فساد پھیلاتے  نہ پھرو۔

۸۷               یعنی روزِ قیامت کی ایسے افعال بجا لا کر جو ثوابِ آخرت کا باعث ہوں۔

(۳۷) تو انہوں نے  اسے  جھٹلایا تو انہیں زلزلے   نے  آ لیا تو صبح اپنے  گھروں میں گھٹنوں کے  بل پڑے  رہ گئے  (ف ۸۸)

۸۸               مردے بے جان۔

(۳۸) اور عاد اور ثمود کو ہلاک فرمایا اور تمہیں (ف ۸۹) ان کی بستیاں معلوم ہو چکی ہیں (ف ۹۰) اور شیطان  نے  ان کے  کوتک (ف ۹۱) ان کی نگاہ میں بھلے  کر دکھائے  اور انہیں راہ سے  روکا اور انہیں سوجھتا تھا (ف ۹۲)

۸۹               اے اہلِ مکّہ۔

۹۰               حجر اور یمن میں جب تم اپنے سفروں میں وہاں گزرے ہو۔

۹۱               کُفر و معاصی۔

۹۲               صاحبِ عقل تھے حق و باطل میں تمییز کر سکتے تھے لیکن انہوں نے عقل و انصاف سے کام نہ لیا۔

(۳۹) اور قارون اور فرعون اور ہامان کو (ف ۹۳) اور بیشک ان کے  پاس موسیٰ روشن نشانیاں لے  کر آیا تو انہوں نے  زمین میں تکبر کیا اور وہ ہم سے  نکل کر جانے  والے  نہ تھے  (ف ۹۴)

۹۳               اللہ تعالیٰ نے ہلاک فرمایا۔

۹۴               کہ ہمارے عذاب سے بچ سکتے۔

(۴۰) تو ان میں ہر ایک کو ہم نے  اس کے  گناہ پر پکڑا تو ان میں کسی پر ہم نے  پتھراؤ بھیجا  (ف ۹۵) اور ان میں کسی کو چنگھاڑ نے  آ لیا (ف ۹۶ ) اور ان میں کسی کو زمین میں دھنسا دیا (ف ۹۷) اور ان میں کسی کو ڈبو دیا (ف ۹۸) اور اللہ کی شان نہ تھی کہ ان پر ظلم کرے  (ف ۹۹) ہاں وہ خود ہی (ف ۱۰۰) اپنی جانوں پر ظلم کرتے  تھے۔

۹۵               اور وہ قوم لوط تھی جن کو چھوٹے چھوٹے سنگریزوں سے ہلاک کیا گیا جو تیز ہوا سے ان پر لگتے تھے۔

۹۶               یعنی قومِ ثمود کہ ہولناک آواز کے عذاب سے ہلاک کی گئی۔

۹۷               یعنی قارون اور اس کے ساتھیوں کو۔

۹۸               جیسے قومِ نوح کو اور فرعون کو اور اس کی قوم کو۔

۹۹               وہ کسی کو بغیر گناہ کے عذاب میں گرفتار نہیں کرتا۔

۱۰۰             نافرمانیاں کر کے اور کُفر و طغیان اختیار کر کے۔

(۴۱) ان کی مثال جنہوں نے  اللہ کے  سوا اور مالک بنا لیے  ہیں (ف ۱۰۱) مکڑی کی طرح ہے، اس نے  جالے  کا گھر بنایا (ف ۱۰۲) اور بیشک سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا گھر (ف ۱۰۳) کیا اچھا ہوتا اگر جانتے  (ف ۱۰۴)

۱۰۱             یعنی بُتوں کو معبود ٹھہرایا ہے ان کے ساتھ امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور واقع میں ان کے عجز و بے اختیاری کی مثال یہ ہے جو آگے ذکر فرمائی جاتی ہے۔

۱۰۲             اپنے رہنے کے لئے نہ اس سے گرمی دور ہو نہ سردی، نہ گرد و غبار و بارش کسی چیز سے حفاظت ایسے ہی بُت ہیں کہ اپنے پجاریوں کو نہ دنیا میں نفع پہنچا سکیں نہ آخرت میں کوئی ضرر پہنچا سکیں۔

۱۰۳             ایسے ہی سب دِینوں میں کمزور اور نکمّا دین بُت پرستوں کا دین ہے۔

فائدہ : حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے آپ نے فرمایا اپنے گھروں سے مکڑیوں کے جالے دور کرو یہ ناداری کا باعث ہوتے ہیں۔

۱۰۴             کہ ان کا دین اس قدر نکمّا ہے۔

(۴۲) اللہ جانتا ہے  جس چیز کی اس کے  سوا پوجا کرتے  ہیں (ف ۱۰۵) اور وہی عزت و حکمت والا ہے  (ف ۱۰۶)

۱۰۵             کہ وہ کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔

۱۰۶             تو عاقل کو کب شایان ہے کہ عزّت و حکمت والے قادرِ مختار کی عبادت چھوڑ کر بے علم بے اختیار پتّھروں کی پوجا کرے۔

(۴۳) اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے  لیے  بیان فرماتے  ہیں، اور انہیں نہیں سمجھتے  مگر علم والے  (ف ۱۰۷)

۱۰۷             یعنی ان کے حسن و خوبی اور ان کے نفع اور فائدے اور ان کی حکمت کو علم والے سمجھتے ہیں جیسا کہ اس مثال نے مشرک اور موحِّد کا حال خوب اچھی طرح ظاہر کر دیا اور فرق واضح فرما دیا۔ قریش کے کُفّار نے طنز کے طور پر کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ مکھی اور مکڑی کی مثالیں بیان فرماتا ہے اور اس پر انہوں نے ہنسی بنائی تھی۔ اس آیت میں ان کا رد کر دیا گیا کہ وہ جاہل ہیں تمثیل کی حکمت کو نہیں جانتے۔ مثال سے مقصود تفہیم ہوتی ہے اور جیسی چیز ہو اس کی شان ظاہر کرنے کے لئے ویسی ہی مثال مقتضائے حکمت ہے تو باطل اور کمزور دین کے ضعف و بطلان کے اظہار کے لئے یہ مثال نہایت ہی نافع ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے عقل و علم عطا فرمایا وہ سمجھتے ہیں۔

(۴۴) اللہ نے  آسمان اور زمین حق بنائے، بیشک اس میں نشانی ہے  (ف ۱۰۸) مسلمانوں کے  لیے۔

۱۰۸             اس کی قدرت و حکمت اور اس کی توحید و یکتائی پر دلالت کرنے والی۔

(۴۵)  اے  محبوب! پڑھو جو کتاب تمہاری طرف وحی کی گئی (ف ۱۰۹) اور نماز قائم فرماؤ،  بیشک نماز منع کرتی ہے  بے  حیائی اور بری بات سے  (ف ۱۱۰) اور بیشک اللہ کا ذکر سب سے  بڑا  (ف ۱۱۱) اور اللہ جانتا ہے  جو تم کرتے  ہو۔

۱۰۹             یعنی قرآن شریف کہ اس کی تلاوت عبادت بھی ہے اور اس میں لوگوں کے لئے پند و نصیحت بھی اور احکام و آداب و مکارمِ اخلاق کی تعلیم بھی۔

۱۱۰             یعنی ممنوعاتِ شرعیہ سے لہٰذا جو شخص نماز کا پابند ہوتا ہے اور اس کو اچھی طرح ادا کرتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ ان برائیوں کو ترک کر دیتا ہے جن میں مبتلا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری جوان سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا اور بہت سے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتا تھا حضور سے اس کی شکایت کی گئی فرمایا اس کی نماز کسی روز اس کو ان باتوں سے روک دے گی چنانچہ بہت ہی قریب زمانہ میں اس نے توبہ کی اور اس کا حال بہتر ہو گیا۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جس کی نماز اس کو بے حیائی اور ممنوعات سے نہ روکے وہ نماز ہی نہیں۔

۱۱۱             کہ وہ افضل طاعات ہے۔ ترمذی کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کیا میں تمہیں نہ بتاؤں وہ عمل جو تمہارے اعمال میں بہتر اور ربّ کے نزدیک پاکیزہ تر، نہایت بلند رتبہ اور تمہارے لئے سونے چاندی دینے سے بہتر اور جہاد میں لڑنے اور مارے جانے سے بہتر ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا بے شک یا رسولَ اللہ، فرمایا وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ ترمذی ہی کی دوسری حدیث میں ہے کہ صحابہ نے حضور سے دریافت کیا تھا کہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے نزدیک کن بندوں کا درجہ افضل ہے ؟ فرمایا بکثرت ذکر کرنے والوں کا صحابہ نے عرض کیا اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے والا ؟ فرمایا اگر وہ اپنی تلوار سے کُفّار و مشرکین کو یہاں تک مارے کہ تلوار ٹوٹ جائے اور وہ خون میں رنگ جائے جب بھی ذاکرین ہی کا درجہ اس سے بلند ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس آیت کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو یاد کرنا بہت بڑا ہے اور ایک قول اس کی تفسیر میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بڑا ہے بے حیائی اور بُری باتوں سے روکنے اور منع کرنے میں۔

(۴۶) اور اے  مسلمانو! کتابیوں سے  نہ جھگڑو مگر بہتر طریقہ پر  (ف ۱۱۲) مگر وہ جنہوں نے  ان میں سے  ظلم کیا (ف ۱۱۳) اور کہو (ف ۱۱۴) ہم ایمان لائے  اس پر جو ہماری طرف اترا  اور جو تمہاری طرف اترا اور ہمارا تمہارا  ایک معبود ہے  اور ہم اس کے  حضور گردن رکھتے  ہیں (ف ۱۱۵)

۱۱۲             اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی آیات سے دعوت دے کر اور حُجّتوں پر آگاہ کر کے۔

۱۱۳             زیادتی میں حد سے گزر گئے، عناد اختیار کیا، نصیحت نہ مانی، نرمی سے نفع نہ اٹھایا ان کے ساتھ غِلظت اور سختی اختیار کرو اور ایک قول یہ ہے کہ معنیٰ یہ ہیں کہ جن لوگوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو ایذا دی یا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹا اور شریک بتایا ان کے ساتھ سختی کرو یا یہ معنیٰ ہیں کہ ذمّی جزیہ ادا کرنے والوں کے ساتھ احسن طریقہ پر مجادلہ کرو مگر جنہوں نے ظلم کیا اور ذمّہ سے نکل گئے اور جزیہ کو منع کیا ان سے مجادلہ تلوار کے ساتھ ہے۔

مسئلہ : اس آیت سے کُفّار کے ساتھ دینی امور میں مناظرہ کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے اور ایسے ہی علمِ کلام سیکھنے کا جواز بھی۔

۱۱۴             اہلِ کتاب سے جب وہ تم سے اپنی کتابوں کا کوئی مضمون بیان کریں۔

۱۱۵             حدیث شریف میں ہے جب اہلِ کتاب تم سے کوئی مضمون بیان کریں تو تم نہ ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب کرو یہ کہہ دو کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے تو اگر وہ مضمون انہوں نے غلط بیان کیا ہے تو اس کی تصدیق کے گناہ سے تم بچے رہو گے اور اگر مضمون صحیح تھا تو تم اس کی تکذیب سے محفوظ رہو گے۔

(۴۷) اور اے  محبوب! یونہی تمہاری طرف کتاب اتاری (ف ۱۱۶) تو وہ جنہیں ہم نے  کتا ب عطا فرمائی (ف ۱۱۷) اس پر ایمان لاتے  ہیں، اور کچھ ان میں سے  ہیں (ف ۱۱۸) جو اس پر ایمان لاتے  ہیں، اور  ہماری آیتوں سے  منکر نہیں ہوتے  مگر (ف ۱۱۹)

۱۱۶             قرآنِ پاک، جیسے ان کی طرف توریت وغیرہ اتاری تھیں۔

۱۱۷             یعنی جنہیں توریت دی جیسے کہ حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے اصحاب۔

فائدہ : یہ سورت مکّیہ ہے اور حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے اصحاب مدینہ میں ایمان لائے اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے ان کی خبر دی یہ غیبی خبروں میں سے ہے۔ (جمل)۔

۱۱۸             یعنی اہلِ مکّہ میں سے۔

۱۱۹             جو کُفر میں نہایت سخت ہیں۔ جحود اس انکار کو کہتے ہیں جو معرفت کے بعد ہو یعنی جان بوجھ کر مُکرنا اور واقعہ بھی یہی تھا کہ یہود خوب پہچانتے تھے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اللہ تعالیٰ کے سچّے نبی ہیں اور قرآن حق ہے یہ سب کچھ جانتے ہوئے انہوں نے عناداً انکار کیا۔

(۴۸) اور اس (ف ۱۲۰) سے  پہلے  تم کوئی کتاب نہ پڑھتے  تھے   اور نہ اپنے  ہاتھ سے  کچھ لکھتے  تھے  یوں ہوتا (ف ۱۲۱) تو باطل ضرور شک لاتے  (ف ۱۲۲)

۱۲۰             قرآن کے نازِل ہونے۔

۱۲۱             یعنی آپ لکھتے پڑھتے ہوتے۔

۱۲۲             یعنی اہلِ کتاب کہتے کہ ہماری کتابوں میں نبیِ آخر الزماں کی صفت یہ مذکور ہے کہ وہ اُمّی ہوں گے نہ لکھیں گے نہ پڑھیں گے مگر انہیں اس شک کا موقع ہی نہ ملا۔

(۴۹) بلکہ وہ روشن آیتیں ہیں ان کے  سینوں میں جن کو علم دیا گیا (۱۲۳) اور ہماری آیتوں کا انکار نہیں کرتے  مگر ظالم (ف ۱۲۴)

۱۲۳             ضمیرِ ھُوَ کا مرجع قرآن ہے اس صورت میں معنیٰ یہ ہیں کہ قرآنِ کریم روشن آیتیں ہیں جو عُلَماء اور حُفّاظ کے سینوں میں محفوظ ہیں۔ روشن آیت ہونے کے یہ معنیٰ کہ وہ ظاہر الاعجاز ہیں اور یہ دونوں باتیں قرآنِ پاک کے ساتھ خاص ہیں اور کوئی ایسی کتاب نہیں جو معجِزہ ہو اور نہ ایسی کہ ہر زمانے میں سینوں میں محفوظ رہی ہو اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ھُوَ کی ضمیر کا مرجع سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو قرار دے کر آیت کے یہ معنیٰ بیان فرمائے کہ سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم صاحب ہیں ان آیاتِ بیّنات کے جو ان لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں جنہیں اہلِ کتاب میں سے علم دیا گیا کیونکہ وہ اپنی کتابوں میں آپ کی نعت و صفت پاتے ہیں۔ (خازن)۔

۱۲۴             یعنی یہودِ عنود کہ بعد ظہورِ معجزات کے جان پہچان کر عناداً منکِر ہوتے ہیں۔

(۵۰) اور بولے  (ف ۱۲۵) کیوں نہ اتریں کچھ نشانیاں ان پر ان کے  رب کی طرف سے  (ف ۱۲۶)  تم فرماؤ نشانیاں تو اللہ ہی کے  پاس ہیں (ف ۱۲۷) اور میں تو یہی صاف ڈر سنانے  والا ہوں (ف ۱۲۸)

۱۲۵             کُفّارِ مکّہ۔

۱۲۶             مثلِ ناقۂ حضرت صالح و عصائے حضرت موسیٰ اور مائدۂ حضرت عیسیٰ کے علیہم الصلوٰۃ والسلام۔

۱۲۷             حسبِ حکمت جو چاہتا ہے نازِل فرماتا ہے۔

۱۲۸             نافرمانی کرنے والوں کو عذاب کا اور اسی کا مکلّف ہوں اس کے بعد اللہ تعالیٰ کُفّارِ مکّہ کے اس قول کا جواب ارشاد فرماتا ہے۔

(۵۱) اور کیا یہ انہیں بس نہیں کہ ہم نے  تم پر کتاب اتاری جو ان پر پڑھی جاتی ہے  (ف ۱۲۹)  بیشک اس میں رحمت اور نصیحت ہے  ایمان والوں کے  لیے۔

۱۲۹             معنیٰ یہ ہیں کہ قرآنِ کریم معجِزہ ہے، انبیائے متقدّمین کے معجزات سے اتم و اکمل اور تمام نشانیوں سے طالبِ حق کو بے نیاز کرنے والا کیونکہ جب تک زمانہ ہے قرآنِ کریم باقی و ثابت رہے گا اور دوسرے معجزات کی طرح ختم نہ ہو گا۔

(۵۲) تم فرماؤ  اللہ بس ہے  میرے  اور تمہارے  درمیان گواہ  (ف ۱۳۰) جانتا ہے  جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، اور وہ جو باطل پر یقین لائے  اور اللہ کے  منکر ہوئے  وہی گھاٹے  میں ہیں۔

۱۳۰             میرے صدقِ رسالت اور تمہاری تکذیب کا معجزات سے میری تائید فرما کر۔

(۵۳) اور تم سے  عذاب کی جلدی کرتے  ہیں (ف ۱۳۱) اور اگر ایک ٹھہرائی مدت نہ ہوتی (ف ۱۳۲) تو ضرور ان پر عذاب آ جاتا (ف ۱۳۳) اور ضرور ان پر اچانک آئے  گا  جب وہ بے  خبر ہوں گے۔

۱۳۱             یہ آیت نضر بن حارث کے حق میں نازِل ہوئی جس نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے کہا تھا کہ ہمارے اوپر آسمان سے پتّھروں کی بارش کرائیے۔

۱۳۲             جو اللہ تعالیٰ نے معیّن کی ہے اور اس مدّت تک عذاب کا مؤخّر فرمانا مقتضائے حکمت ہے۔

۱۳۳             اور تاخیر نہ ہوتی۔

(۵۴) تم سے  عذاب کی جلدی مچاتے  ہیں، اور بیشک جہنم گھیرے  ہوئے  ہے  کافروں کو (ف ۱۳۴)

۱۳۴             اس سے ان میں کا کوئی بھی نہ بچے گا۔

(۵۵) جس دن انہیں ڈھانپے  گا عذاب ان کے  اوپر  اور ان کے  پاؤں کے  نیچے  سے  اور فرمائے  گا چکھو اپنے  کیے  کا مزہ (ف ۱۳۵)

۱۳۵             یعنی اپنے اعمال کی جزا۔

(۵۶) اے  میرے  بندو! جو ایمان لائے  بیشک میری زمین وسیع ہے  تو میری ہی بندگی کرو (ف ۱۳۶)

۱۳۶             جس زمین میں بسہولت عبادت کر سکو معنیٰ یہ ہیں کہ جب مومن کو کسی سرزمین میں اپنے دین پر قائم رہنا اور عبادت کرنا دشوار ہو تو چاہئے کہ وہ ایسی سرزمین کی طرف ہجرت کرے جہاں آسانی سے عبادت کر سکے اور دین کی پابندی میں دشواریاں درپیش نہ ہوں۔ شانِ نُزول : یہ آیت ضعفائے مسلمینِ مکّہ کے حق میں نازِل ہوئی جنہیں وہاں رہ کر اسلام کے اظہار میں خطرے اور تکلیفیں تھیں اور نہایت ضیق میں تھے انہیں حکم دیا گیا کہ میری بندگی تو ضرور ہے یہاں رہ کر نہ کر سکو تو مدینہ شریف کو ہجرت کر جاؤ وہ وسیع ہے وہاں امن ہے۔

(۵۷)  ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے  (ف ۱۳۷) پھر ہماری ہی طرف پھرو گے  (ف ۱۳۸)

۱۳۷             اور اس دارِ فانی کو چھوڑنا ہی ہے۔

۱۳۸             ثواب و عذاب اور جزائے اعمال کے لئے تو لازم ہے کہ ہمارے دین پر قائم رہو اور اپنے دین کی حفاظت کے لئے ہجرت کرو۔

(۵۸) اور بیشک جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  ضرور ہم انہیں جنت کے  بالا خانوں پر جگہ دیں گے  جن کے  نیچے  نہریں بہتی ہوں گی ہمیشہ ان میں رہیں گے، کیا ہی اچھا اجر  کام والوں کا (ف ۱۳۹)

۱۳۹             جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت بجا لائے۔

(۵۹) وہ جنہوں نے  صبر کیا (ف ۱۴۰) اور اپنے  رب ہی پر  بھروسہ رکھتے  ہیں (ف ۱۴۱)

۱۴۰             سختیوں پر اور کسی شدّت میں اپنے دین کو نہ چھوڑا، مشرکین کی ایذا سہی، ہجرت اختیار کر کے دین کی خاطر وطن کو چھوڑنا گوارا کیا۔

۱۴۱             تمام امور میں۔

(۶۰) اور زمین پر کتنے  ہی چلنے  والے  ہیں کہ اپنی روزی ساتھ نہیں رکھتے  (ف ۱۴۲) اللہ روزی دیتا ہے  انہیں اور تمہیں (ف ۱۴۳) اور وہی سنتا جانتا ہے  (ف ۱۴۴)

۱۴۲             شانِ نُزول : مکّۂ مکرّمہ میں مومنین کو مشرکین شب و روز طرح طرح کی ایذائیں دیتے رہتے تھے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ان سے مدینۂ طیّبہ کی طرف ہجرت کرنے کو فرمایا تو ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم مدینہ شریف کو کیسے چلے جائیں نہ وہاں ہمارا گھر، نہ مال، کون ہمیں کھلائے گا، کون پلائے گا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور فرمایا گیا کہ بہت سے جاندار ایسے ہیں جو اپنی روزی ساتھ نہیں رکھتے اس کی انہیں قوّت نہیں اور نہ وہ اگلے دن کے لئے کوئی ذخیرہ جمع کرتے ہیں جیسے کہ بہائم ہیں طیور ہیں۔

۱۴۳             تو جہاں ہو گے وہی روزی دے گا تو یہ کیا پوچھنا کہ ہمیں کون کھلائے گا کون پلائے گا ساری خَلق کا اللہ رزّاق ہے ضعیف اور قوی مقیم اور مسافر سب کو وہی روزی دیتا ہے۔

۱۴۴             تمہارے اقوال اور تمہارے دل کی باتوں کو۔ حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکُّل کرو جیسا چاہئے تو وہ تمہیں ایسی روزی دے جیسی پرندوں کو دیتا ہے کہ صبح بھوکے خالی پیٹ اٹھتے ہیں شام کو سیر واپس ہوتے ہیں۔ (ترمذی)۔

(۶۱) اور اگر تم ان سے  پوچھو (ف ۱۴۵) کس نے  بنائے  آسمان اور زمین اور کام میں لگائے  سورج اور چاند تو ضرور کہیں گے  اللہ نے،  تو کہاں اوندھے  جاتے  ہیں (ف ۱۴۶)

۱۴۵             یعنی کُفّارِ مکّہ سے۔

۱۴۶             اور باوجود اس اقرار کے کس طرح اللہ تعالیٰ کی توحید سے منحرف ہوتے ہیں۔

(۶۲) اللہ کشادہ کرتا ہے  رزق اپنے  بندوں میں جس کے  لیے  چاہے  اور تنگی فرماتا ہے  جس کے  لیے  چاہے، بیشک اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

(۶۳) اور جو تم ان سے  پوچھو کس نے  اتارا  آسمان سے  پانی  تو اس کے  سبب زمین زندہ کر دی مَرے  پیچھے  ضرور کہیں گے  اللہ نے  (ف ۱۴۷) تم فرماؤ  سب خوبیاں اللہ کو، بلکہ ان میں اکثر بے  عقل ہیں (ف ۱۴۸)

۱۴۷             اس کے مقِر ہیں۔

۱۴۸             کہ باوجود اس اقرار کے توحید کے منکِر ہیں۔

(۶۴) اور یہ دنیا کی زندگی تو نہیں مگر کھیل کود (ف ۱۴۹) اور بیشک آخرت کا گھر ضرور وہی سچی زندگی ہے  (ف ۱۵۰) کیا اچھا تھا اگر جانتے  (ف ۱۵۱)

۱۴۹             کہ جیسے بچّے گھڑی بھر کھیلتے ہیں کھیل میں دل لگاتے ہیں پھر اس سب کو چھوڑ کر چل دیتے ہیں یہی حال دنیا کا ہے نہایت سریع الزوال ہے اور موت یہاں سے ایسا ہی جدا کر دیتی ہے جیسے کھیل والے بچّے منتشر ہو جاتے ہیں۔

۱۵۰             کہ وہ زندگی پائیدار ہے، دائمی ہے، اس میں موت نہیں، زندگانی کہلانے کے لائق وہی ہے۔

۱۵۱             دنیا اور آخرت کی حقیقت، تو دنیائے فانی کو آخرت کی جاودانی زندگی پر ترجیح نہ دیتے۔

(۶۵) پھر جب کشتی میں سوار ہوتے  ہیں (ف ۱۵۲) اللہ کو پکارتے  ہیں ایک اسی عقیدہ لا کر (ف ۱۵۳) پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے  (ف ۱۵۴) جبھی شرک کرنے  لگتے  ہیں (ف ۱۵۵)

۱۵۲             اور ڈوبنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو باوجود اپنے شرک و عناد کے بُتوں کو نہیں پکارتے بلکہ۔

۱۵۳             کہ اس مصیبت سے نَجات وہی دے گا۔

۱۵۴             اور ڈوبنے کا اندیشہ اور پریشانی جاتی رہتی ہے اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

۱۵۵             زمانۂ جاہلیّت کے لوگ بحری سفر کرتے وقت بُتوں کو ساتھ لے جاتے تھے جب ہوا مخالف چلتی اور کَشتی خطرہ میں آتی تو بُتوں کو دریا میں پھینک دیتے اور یاربّ یاربّ پکارنے لگتے اور امن پانے کے بعد پھر اسی شرک کی طرف لوٹ جاتے۔

(۶۶) کہ ناشکری کریں ہماری دی ہوئی نعمت کی (ف ۱۵۶) اور برتیں۔ (ف ۱۵۷) تو اب جانا چاہتے  ہیں، (ف ۱۵۸)

۱۵۶             یعنی اس مصیبت سے نَجات کی۔

۱۵۷             اور اس سے فائدہ اٹھائیں بخلاف مومنینِ مخلصین کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اخلاص کے ساتھ شکر گزار رہتے ہیں اور جب ایسی صورت پیش آتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے رہائی دیتا ہے تو اس کی اطاعت میں اور زیادہ سرگرم ہو جاتے ہیں مگر کافِروں کا حال اس کے بالکل برخلاف ہے۔

۱۵۸             نتیجہ اپنے کردار کا۔

(۶۷) اور کیا انہوں نے  (ف ۱۵۹) یہ نہ دیکھا کہ ہم نے  (ف ۱۶۰) حرمت وا لی زمین پناہ بنائی (ف ۱۶۱) اور ان کے  آس پاس والے  لوگ اچک لیے  جاتے  ہیں (ف ۱۶۲) تو  کیا باطل پر یقین لاتے  ہیں (ف ۱۶۳) اور اللہ کی دی ہوئی نعمت سے  (ف ۱۶۴) ناشکری کرتے  ہیں۔

۱۵۹             یعنی اہلِ مکّہ نے۔

۱۶۰             ان کے شہر مکّۂ مکرّمہ کی۔

۱۶۱             ان کے لئے جو اس میں ہوں۔

۱۶۲             قتل کئے جاتے ہیں گرفتار کئے جاتے ہیں۔

۱۶۳             یعنی بُتوں پر۔

۱۶۴             یعنی سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے اور اسلام سے کُفر کر کے۔

(۶۸) اور اس سے  بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے  (ف ۱۶۵) یا حق کو جھٹلائے  (ف ۱۶۶) جب وہ اس کے  پاس آئے، کیا جہنم میں کافروں کا ٹھکانا نہیں (ف ۱۶۷)

۱۶۵             اس کے لئے شریک ٹھہرائے۔

۱۶۶             سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی نبوّت اور قرآن کو نہ مانے۔

۱۶۷             بے شک تمام کافِروں کا ٹھکانا جہنّم ہی ہے۔

(۶۹) اور جنہوں نے  ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے  راستے  دکھا دیں گے  (ف ۱۶۸) اور بیشک اللہ نیکوں کے  ساتھ ہے  (ف ۱۶۹)

۱۶۸             حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ معنیٰ یہ ہیں کہ جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ہم انہیں ثواب کی راہ دیں گے۔ حضرت جنید نے فرمایا جو توبہ میں کوشش کریں گے انہیں اخلاص کی راہ دیں گے۔ حضرت فضیل بن عیاض نے فرمایا جو طلبِ علم میں کوشش کریں گے انہیں ہم عمل کی راہ دیں گے۔ حضرت سعد بن عبداللہ نے فرمایا جو اقامتِ سنّت میں کوشش کریں گے ہم انہیں جنّت کی راہ دکھا دیں گے۔

۱۶۹             ان کی مدد اور نصرت فرماتا ہے۔