خزائن العرفان

سورة صٓ

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ صٓۤ اس کا نام سورۂ داؤد بھی ہے، یہ سورت مکّیہ ہے، اس میں پانچ ۵رکوع، اٹّھاسی۸۸ آیتیں اور سات سو بتّیس کلمے اور تین ہزار سر سٹھ ۳۰۶۷حرف ہیں۔

(۱) اس نامور قرآن کی قسم (ف ۲)

۲                 جو شرف والا ہے کہ یہ کلام معجِز ہے۔

(۲) بلکہ کافر تکبر اور خلاف میں ہیں (ف ۳)

۳                 اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے عداوت رکھتے ہیں اس لئے حق کا اعتراف نہیں کرتے۔

(۳) ہم نے  ان سے  پہلے  کتنی سنگتیں کھپائیں (ف ۴) تو اب وہ پکاریں (ف ۵) اور چھوٹنے  کا وقت نہ تھا (ف ۶)

۴                 یعنی آپ کی قوم سے پہلے کتنی امّتیں ہلاک کر دیں اسی استکبار اور انبیاء کی مخالفت کے باعث۔

۵                 یعنی نزولِ عذاب کے وقت انہوں نے فریاد کی۔

۶                 کہ خَلاص پا سکتے اس وقت کی فریاد بیکار تھی کفّارِ مکّہ نے ان کے حال سے عبرت حاصل نہ کی۔

(۴) اور انہیں اس کا اچنبھا ہوا کہ ان کے  پاس انہیں میں کا ایک ڈر سنانے  والا تشریف لایا (ف ۷) اور کافر بولے  یہ جادوگر ہے  بڑا جھوٹا۔

۷                 یعنی سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔

(۵) کیا اس نے  بہت خداؤں کا ایک خدا کر دیا (ف ۸) بیشک  یہ عجیب بات ہے۔

۸                 شانِ نزول : جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لائے تو مسلمانوں کو خوشی ہوئی اور کافروں کو نہایت رنج ہوا ولید بن مغیرہ نے قریش کے عمائد اور سر بر آوردہ پچّیس آدمیوں کو جمع کیا اور انہیں ابو طالب کے پاس لایا اور ان سے کہا کہ تم ہمارے سردار ہو اور بزرگ ہو ہم تمہارے پا س اس لئے آئے ہیں کہ تم ہمارے اور اپنے بھتیجے کے درمیان فیصلہ کر دو ان کی جماعت کے چھوٹے درجے کے لوگوں نے جو شورش برپا کر رکھی ہے وہ تم جانتے ہو ابوطالب نے حضرت سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو بُلا کر عرض کیا کہ یہ آپ کی قوم کے لوگ ہیں اور آپ سے صلح چاہتے ہیں آپ ان کی طرف سے یک لخت انحراف نہ کیجئے، سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا یہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم اتنا چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں اور ہمارے معبودوں کے ذکر کو چھوڑ دیجئے ہم آپ کے اور آپ کے معبود کی بد گوئی کے درپے نہ ہوں گے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ کیا تم ایک کلمہ قبول کر سکتے ہو جس سے عرب و عجم کے مالک و فرمانبردار ہو جاؤ ؟ ابوجہل نے کہا کہ ایک کیا ہم دس کلمے قبول کر سکتے ہیں، سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ اس پر وہ لوگ اٹھ گئے اور کہنے لگے کہ کیا انہوں نے بہت سے خداؤں کا ایک خدا کر دیا اتنی بہت سی مخلوق کے لئے ایک خدا کیسے کافی ہو سکتا ہے۔

(۶) اور ان میں کے  سردار چلے  (ف ۹) کہ اس کے  پاس سے  چل دو اور اپنے  خداؤں پر صابر رہو بیشک اس میں اس کا کوئی مطلب ہے۔

۹                 ابوطالب کی مجلس سے آپس میں یہ کہتے۔

(۷) یہ تو ہم نے  سب سے  پہلے  دینِ نصرانیت میں بھی نہ سنی (ف ۱۰) یہ تو نری نئی گڑھت ہے۔

۱۰               نصرانی بھی تین خداؤں کے قائل تھے یہ تو ایک ہی خدا بتاتے ہیں۔

(۸) کیا ان پر قرآن اتارا گیا ہم سب میں سے  (ف ۱۱) بلکہ وہ شک میں ہیں میری کتاب سے  (ف ۱۲) بلکہ ابھی میری مار نہیں چکھی ہے  (ف ۱۳)

۱۱               اہلِ مکّہ کو سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے منصبِ نبوّت پر حسد آیا اور انہوں نے یہ کہا کہ ہم میں صاحبِ شرف و عزّت آدمی موجود تھے ان میں سے کسی پر قرآن نہ اترا خاص حضرت سیّدِ انبیاء محمّد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) پر اترا۔

۱۲               کہ اس کے لانے والے حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تکذیب کرتے ہیں۔

۱۳               اگر میرا عذاب چکھ لیتے تو یہ شک و تکذیب و حسد کچھ باقی نہ رہتا اور نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصدیق کرتے لیکن اس وقت کی تصدیق مفید نہ ہوتی۔

(۹) کیا وہ تمہارے  رب کی رحمت کے  خزانچی ہیں (ف ۱۴) وہ عزت والا بہت عطا فرمانے  والا ہے  (ف ۱۵)

۱۴               اور کیا نبوّت کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں ہیں جسے چاہیں دیں اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ اور اس کی مالکیّت کو نہیں جانتے۔

۱۵               حسبِ اقتضائے حکمت جسے جو چاہے عطا فرمائے اس نے اپنے حبیب محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو نبوّت عطا فرمائی تو کسی کو اس میں دخل دینے اور چوں چرا کی کیا مجال۔

(۱۰) کیا ان کے  لیے  ہے  سلطنت آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان کے  درمیان ہے، تو رسیاں لٹکا کر چڑھ نہ جائیں (ف ۱۶)

۱۶               اور ایسا اختیار ہو تو جسے چاہیں وحی کے ساتھ خاص کریں اور عالَم کی تدبیر اپنے ہاتھ میں لیں اور جب یہ کچھ نہیں ہے تو امورِ ربّانیہ و تدابیرِ الٰہیہ میں دخل کیوں دیتے ہیں انہیں اس کا کیا حق ہے، کفّار کو یہ جواب دینے کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی کریم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے نصرت و مدد کا وعدہ فرمایا ہے۔

(۱۱) یہ ایک ذلیل لشکر ہے  انہیں لشکروں میں سے  جو وہیں بھگا دیا جائے  گا (ف ۱۷)

۱۷               یعنی ان قریش کی جماعت انہیں لشکروں میں سے ایک ہے جو آپ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کے مقابل گروہ باندھ باندھ کر آیا کرتے تھے اور زیادتیاں کیا کرتے تھے اس سبب سے ہلاک کر دیئے گئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو خبر دی کے یہی حال ان کا ہے کہ انھیں بھی ہزیمت ہو گی چنانچہ بدر میں ایسا واقع ہوا اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تسکینِ خاطر کے لئے پچھلے انبیاء علیہم السلام اور ان قوموں کا ذکر فرمایا۔

(۱۲) ان سے  پہلے  جھٹلا چکے  ہیں نوح کی قوم اور عاد اور چومیخا کرنے  والے  فرعون (ف ۱۸)

۱۸               جو کسی پر غصّہ کرتا تھا تو اسے لٹا کر اس کے چاروں ہاتھ پاؤں کھینچ کر چاروں طرف کھونٹوں میں بندھو ا دیتا تھا پھر اس کو پٹواتا تھا اور اس پر طرح طرح کی سختیاں کرتا تھا۔

(۱۳) اور ثمود اور لوط کی قوم اور بن والے   (ف ۱۹) یہ ہیں وہ گروہ (ف ۲۰)

۱۹               جو شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوم سے تھے۔

۲۰               جو انبیاء کے مقابل جتّھے باندھ کر آئے مشرکینِ مکّہ انہیں گروہوں میں سے ہیں۔

(۱۴) ان میں کوئی ایسا نہیں جس نے  رسولوں کو نہ جھٹلایا ہو تو میرا  عذاب لازم ہوا  (ف ۲۱)

۲۱               یعنی ان گزری ہوئی امّتوں نے جب انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کی تو ان پر عذاب لازم ہو گیا تو ان ضعیفوں کا کیا حال ہو گا جب ان پر عذاب اترے گا۔

(۱۵) اور یہ راہ نہیں دیکھتے  مگر ایک چیخ کی (ف ۲۲) جسے  کوئی پھیر نہیں سکتا۔

۲۲               یعنی قیامت کے نفخۂ اولیٰ کی جو ان کے عذاب کی میعاد ہے۔

(۱۶)  اور بولے  اے  ہمارے  رب ہمارا حصہ ہمیں جلد دے  دے  حساب کے  دن سے  پہلے  (ف ۲۳)

۲۳               یہ نضر بن حارث نے بطورِ تمسخر کہا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے فرمایا کہ۔

(۱۷) تم ان کی باتوں پر صبر کرو اور ہمارے  بندے  داؤد نعمتوں والے  کو  یاد کرو (ف ۲۴) بیشک وہ بڑا  رجوع کرنے  والا ہے  (ف ۲۵)

۲۴               جن کو عبادت کی بہت قوّت دی گئی تھی آپ کا طریقہ تھا کہ ایک دن روزہ رکھتے ایک دن افطار فرماتے اور رات کے پہلے نصف حصّہ میں عبادت کرتے اس کے بعد شب کی ایک تہائی آرام فرماتے پھر باقی چھٹا حصّہ عبادت میں گزارتے۔

۲۵               اپنے رب کی طرف۔

(۱۸) بیشک ہم نے  اس کے  ساتھ پہاڑ مسخر فرما دیے  کہ تسبیح کرتے  (ف ۲۶) شام کو اور سورج چمکتے   (ف ۲۷)

۲۶               حضرت داؤد علیہ السلام کی تسبیح کے ساتھ۔

۲۷               اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے پہاڑوں کو ایسا مسخّر کیا تھا کہ جہاں آپ چاہتے انھیں اپنے ساتھ لے جاتے۔ (مدارک)

(۱۹) اور پرندے  جمع کیے  ہوئے  (ف ۲۸) سب اس کے  فرمانبردار تھے  (ف ۲۹)

۲۸               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ جب حضرت داؤد علیہ السلام تسبیح کرتے تو پہاڑ بھی آپ کے ساتھ تسبیح کرتے اور پرندے آپ کے پاس جمع ہو کر تسبیح کرتے۔

۲۹               پہاڑ بھی اور پرند بھی۔

(۲۰) اور ہم نے  اس کی سلطنت کو مضبوط کیا (ف ۳۰) اور اسے  حکمت (ف ۳۱) اور قولِ فیصل دیا (ف ۳۲)

۳۰               فوج و لشکر کی کثرت عطا فرما کر۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ روئے زمین کے بادشاہوں میں حضرت داؤد علیہ السلام کی سلطنت بڑی مضبوط اور قوی سلطنت تھی چھتّیس ہزار مرد آپ کے محراب کے پہرے پر مقرر تھے۔

۳۱ٍٍ               یعنی نبوّت۔ بعض مفسّرین نے حکمت کی تفسیر عدل کی ہے، بعض نے کتابُ اللہ کا علم، بعض نے فقہ، بعض نے سنّت۔ (جمل)

۳۲               قولِ فیصل سے علمِ قضا مراد ہے جو حق و باطل میں فرق و تمیز کر دے۔

(۲۱) اور کیا تمہیں (ف ۳۳) اس دعوے  والوں کی بھی خبر آئی جب وہ دیوار کود کر داؤد کی مسجد میں آئے  (ف ۳۴)

۳۳               اے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔

۳۴               یہ آنے والے بقولِ مشہور ملائکہ تھے جو حضرت داؤد علیہ السلام کی آزمائش کے لئے آئے تھے۔

(۲۲) جب وہ داؤد پر داخل ہوئے  تو وہ ان سے  گھبرا گیا انہوں نے  عرض کی ڈریے  نہیں ہم دو فریق ہیں کہ ایک نے  دوسرے  پر زیادتی کی ہے  (ف ۳۵) تو ہم میں سچا فیصلہ فرما دیجئے  اور خلافِ حق نہ کیجئے  (ف ۳۶) اور ہمیں سیدھی راہ بتایے۔

۳۵               ان کا یہ قول ایک مسئلہ کی فرضی شکل پیش کر کے جواب حاصل کرنا تھا اور کسی مسئلہ کے متعلق حکم معلوم کرنے کے لئے فرضی صورتیں مقرر کر لی جاتی ہیں اور معیّن اشخاص کی طرف انکی نسبت کر دی جاتی ہے تاکہ مسئلہ کا بیان بہت واضح طریقہ پر ہو اور ابہام باقی نہ رہے یہاں جو صورتِ مسئلہ ان فرشتوں نے پیش کی اس سے مقصود حضرت داؤد علیہ السلام کو توجّہ دلانا تھی اس امر کی طرف جو انہیں پیش آیا تھا اور وہ یہ تھا کہ آپ کی ننانوے بیبیاں تھیں اس کے بعد آپ نے ایک اور عورت کو پیام دے دیا جس کو ایک مسلمان پہلے سے پیام دے چکا تھا لیکن آپ کا پیام پہنچنے کے بعد عورت کے اعزّہ و اقارب دوسرے کی طرف التفات کرنے والے کب تھے آپ کے لئے راضی ہو گئے اور آپ سے نکاح ہو گیا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس مسلمان کے ساتھ نکاح ہو چکا تھا آپ نے اس مسلمان سے اپنی رغبت کا اظہار کیا اور چاہا کہ وہ اپنی عورت کو طلاق دے دے وہ آپ کے لحاظ سے منع نہ کر سکا اور اس نے طلاق دے دی آپ کا نکاح ہو گیا اور اس زمانہ میں ایسا معمول تھا کہ اگر کسی شخص کو کسی عورت کی طرف رغبت ہوتی تو اس سے استدعا کر کے طلاق دلوا لیتا اور بعدِ عدت نکاح کر لیتا، یہ بات نہ تو شرعاً ناجائز ہے نہ اس زمانہ کے رسم و عادت کے خلاف لیکن شانِ انبیاء بہت ارفع و اعلیٰ ہوتی ہے اس لئے یہ آپ کے منصبِ عالی کے لائق نہ تھا تو مرضیِ الٰہی یہ ہوئی کہ آپ کو اس پر آگاہ کیا جائے اور اس کا سبب یہ پیدا کیا کہ ملائکہ مدعی اور مدعا علیہ کی شکل میں آپ کے سامنے پیش ہوئے۔

فائدہ : اس سے معلوم ہوا کہ اگر بزرگوں سے کوئی لغزش صادر ہو اور کوئی امر خلافِ شان واقع ہو جائے تو ادب یہ ہے کہ معترضانہ زبان نہ کھولی جائے بلکہ اس واقعہ کی مثل ایک واقعہ متصور کر کے اس کی نسبت سائلانہ و مستفتیانہ و مستفیدانہ سوال کیا جائے اور ان کی عظمت و احترام کا لحاظ رکھا جائے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ عزَّوجلَّ مالک و مولیٰ اپنے انبیاء کی ایسی عزّت فرماتا ہے کہ ان کو کسی بات پر آگاہ کرنے کے لئے ملائکہ کو اس طریقِ ادب کے ساتھ حاضر ہونے کا حکم دیتا ہے۔

۳۶               جس کی غلطی ہو بے رو رعایت فرما دیجئے۔

(۲۳) بیشک یہ میرا بھائی ہے  (ف ۳۷) اس کے  پاس ننانوے  دُنبیاں ہیں اور میرے  پاس ایک دُنبی، اب یہ کہتا ہے  وہ بھی مجھے  حوالے  کر دے  اور بات میں  مجھ  پر زور ڈالتا ہے۔

۳۷               یعنی دینی بھائی۔

(۲۴) داؤد نے  فرمایا بیشک یہ تجھ پر زیادتی کرتا ہے  کہ تیری دُنبی اپنی دُنبیوں میں ملانے  کو مانگتا ہے، اور بیشک اکثر ساجھے  والے  ایک دوسرے  پر زیادتی کرتے  ہیں مگر جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  اور وہ بہت تھوڑے  ہیں (ف ۳۸) اب داؤد سمجھا کہ ہم نے  یہ اس کی جانچ کی تھی (ف ۳۹) تو اپنے  رب سے  معافی مانگی اور سجدے  میں گر پڑا  (ف ۴۰) اور رجوع لایا، (  السجدۃ ۱۰)

۳۸               حضرت داؤد علیہ السلام کی یہ گفتگو سن کر فرشتوں میں سے ایک نے دوسرے کی طرف دیکھا اور تبسّم کر کے وہ آسمان کی طرف روانہ ہو گئے۔

۳۹               اور دنبی ایک کنایہ تھا جس سے مراد عورت تھی کیونکہ ننانوے عورتیں آپ کے پاس ہوتے ہوئے ایک اور عورت کی آپ نے خواہش کی تھی اس لئے دنبی کے پیرایہ میں سوال کیا گیا جب آپ نے یہ سمجھا۔

۴۰               مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں رکوع کرنا سجدۂ تلاوت کے قائم مقام ہو جاتا ہے جب کہ نیّت کی جائے۔

(۲۵)  تو ہم نے  اسے  یہ معاف فرمایا، اور بیشک اس کے  لیے  ہماری بارگاہ میں ضرور قرب اور اچھا ٹھکانا ہے۔

(۲۶) اے  داؤد بیشک ہم نے  تجھے  زمین میں نائب کیا (ف ۴۱) تو لوگوں میں سچا حکم کر اور خواہش کے  پیچھے  نہ جانا کہ تجھے  اللہ کی راہ سے  بہکا دے  گی، بیشک وہ جو اللہ کی راہ سے  بہکتے  ہیں ان کے  لیے  سخت عذاب ہے  اس پر کہ وہ حساب کے  دن کو بھول بیٹھے  (ف ۴۲)

خَلق کی تدبیر پر آپ کو مامور کیا اور آپ کا حکم ان میں نافذ فرمایا۔

اور اس وجہ سے ایمان سے محروم رہے اگر انہیں روزِ حساب کا یقین ہوتا تو دنیا ہی میں ایمان لے آتے۔

(۲۷) اور ہم نے   آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے  درمیان ہے  بیکار نہ بنائے، یہ کافروں کا گمان ہے  (ف ۴۳) تو کافروں کی خرابی ہے  آگ سے۔

اگرچہ وہ صراحۃً یہ نہ کہیں آسمان و زمین اور تمام دنیا بےکار پیدا کی گئی لیکن جب کہ بعث و جزا کے منکِر ہیں تو نتیجہ یہی ہے کہ عالَم کی ایجاد کو عبث اور بے فائدہ مانیں۔

(۲۸) کیا ہم انہیں جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  ان جیسا کر دیں جو زمین میں فساد پھیلاتے  ہیں، یا ہم پرہیزگاروں کو شریر بے  حکموں کے  برابر ٹھہرا دیں (ف ۴۴)

۴۴               یہ بات بالکل حکمت کے خلاف ہے اور جو شخص جزا کا قائل نہیں وہ ضرور مفسِد و مصلِح اور فاجِر و متّقی کو برابر قرار دے گا اور ان میں فرق نہ کرے گا کفّار اس جہل میں گرفتار ہیں۔

شانِ نزول : کفّارِ قریش نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ آخرت میں جو نعمتیں تمہیں ملیں گی وہی ہمیں بھی ملیں گی اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ نیک و بد مومن و کافر کو برابر کر دینا مقتضائے حکمت نہیں کفّار کا خیال باطل ہے۔

(۲۹) یہ ایک کتاب ہے  کہ ہم نے  تمہاری طرف اتاری (ف ۴۵) برکت وا لی تاکہ اس کی آیتوں کو سوچیں اور عقلمند نصیحت مانیں۔

۴۵               یعنی قرآن شریف۔

(۳۰) اور ہم نے  داؤد کو (ف ۴۶) سلیمان عطا فرمایا، کیا اچھا بندہ  بیشک وہ بہت رجوع لانے  والا (ف ۴۷)

۴۶               فرزندِ ارجمند۔

۴۷               اللہ تعالیٰ کی طرف اور تمام اوقات تسبیح و ذکر میں مشغول رہنے والا۔

(۳۱) جبکہ اس پر پیش کیے  گئے  تیسرے  پہر کو (ف ۴۸) کہ روکئے  تو تین پاؤں پر کھڑے  ہوں چوتھے  سم  کا کنارہ زمین پر لگائے  ہوئے  اور چلائے  تو ہوا ہو جائیں (ف ۴۹)

۴۸               بعدِ ظہر ایسے گھوڑے۔

۴۹               یہ ہزار گھوڑے تھے جو جہاد کے لئے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ملاحظہ میں بعدِ ظہر پیش کئے گئے۔

(۳۲)  تو سلیمان نے  کہا مجھے  ان گھوڑوں کی محبت پسند آئی ہے  اپنے  رب کی یاد کے  لیے  (ف ۵۰) پھر انہیں چلانے  کا حکم دیا یہاں تک کہ نگاہ سے  پردے  میں چھپ گئے  (ف ۵۱)

۵۰               یعنی میں ان سے رضائے الٰہی اور تقویّت و تائیدِ دِین کے لئے محبّت کرتا ہوں میری محبّت ان کے ساتھ دنیوی غرض سے نہیں ہے۔ (تفسیر کبیر)

۵۱               یعنی نظر سے غائب ہو گئے۔

(۳۳) پھر حکم دیا کہ انہیں میرے  پاس واپس لاؤ تو ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے  لگا (ف ۵۲)

۵۲               اور اس ہاتھ پھیرنے کے چند باعث تھے ایک تو گھوڑوں کی عزّت و شرف کا اظہار کہ وہ دشمن کے مقابلے میں بہتر مُعِین ہیں۔ دوسرے امورِ سلطنت کی خود نگرانی فرمانا کہ تمام عُمّال مستعِد رہیں۔ سوم یہ کہ آپ گھوڑوں کے احوال اور ان کے امراض و عیوب کے اعلیٰ ماہر تھے ان پر ہاتھ پھیر کر ان کی حالت کا امتحان فرماتے تھے بعض مفسّرین نے ان آیات کی تفسیر میں بہت سے واہی اقوال لکھ دیئے ہیں جن کی صحت پر کوئی دلیل نہیں اور وہ محض حکایات ہیں جو دلائلِ قویّہ کے سامنے کسی طرح قابلِ قبول نہیں اور یہ تفسیر جو ذکر کی گئی یہ عبارتِ قرآن سے بالکل مطابق ہے وللہ الحمد۔ (تفسیر کبیر)

(۳۴) اور بیشک ہم نے  سلیمان کو جانچا (ف ۵۳) اور اس کے  تخت پر  ایک بے  جان بدن ڈال دیا (ف ۵۴) پھر رجوع لایا (ف ۵۵)

۵۳               بخاری و مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ حضرت سلیمان علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ میں آج رات میں اپنی نوّے بیبیوں پر دورہ کروں گا ہر ایک حاملہ ہو گی اور ہر ایک سے راہِ خدا میں جہاد کرنے والا سوار پیدا ہو گا مگر یہ فرماتے وقت زبانِ مبارک سے انشاء اللہ تعالیٰ نہ فرمایا۔ (غالباً حضرت کسی ایسے شغل میں تھے کہ اس کا خیال نہ رہا) تو کوئی بھی عورت حاملہ نہ ہوئی سوائے ایک کے اور اس کے بھی ناقص الخلقت بچّہ پیدا ہوا سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا اگر حضرت سلیمان علیہ السلام نے انشاء اللہ فرمایا ہوتا تو ان سب عورتوں کے لڑکے ہی پیدا ہوتے اور وہ راہِ خدا میں جہاد کرتے۔ (بخاری پارہ تیرہ کتاب الانبیاء)

۵۴               یعنی غیرِ تامُّ الخلقت بچّہ۔

۵۵               اللہ تعالیٰ کی طرف استغفار کر کے انشاء اللہ کہنے کی بھول پر اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے بارگاہِ الٰہی میں۔

(۳۵) عرض کی اے  میرے  رب مجھے  بخش دے  اور مجھے  ایسی سلطنت عطا کر کہ میرے   بعد کسی کو لائق نہ ہو (ف ۵۶) بیشک تو ہی بڑی دین والا۔

۵۶               اس سے یہ مقصود تھا کہ ایسا مُلک آپ کے لئے معجزہ ہو۔

(۳۶) تو ہم نے  ہوا اس کے  بس میں کر دی کہ اس کے  حکم سے  نرم نرم چلتی (ف ۵۷) جہاں وہ چاہتا۔

۵۷               فرمانبردارانہ طریقہ پر۔

(۳۷) اور دیو بس میں کر دیے  ہر معمار (ف ۵۸) اور غوطہ خور (ف ۵۹)

۵۸               جو آپ کے حکم سے حسبِ مرضی عجیب و غریب عمارتیں تعمیر کرتا۔

۵۹               جو آپ کے لئے سمندر سے موتی نکالتا۔ دنیا میں سب سے پہلے سمندر سے موتی نکلوانے والے آپ ہی ہیں۔

 (۳۸) اور دوسرے  اور بیڑیوں میں جکڑے  ہوئے  (ف ۶۰)

۶۰               سرکش شیطان بھی آپ کے مسخّر کر دیئے گئے جن کو آپ تادیب اور فساد سے روکنے کے لئے بیڑیوں اور زنجیروں میں جکڑوا کر قید کرتے تھے۔

(۳۹) یہ ہماری عطا ہے  اب تو چاہے  تو احسان کر (ف ۶۱) یا روک رکھ (ف ۶۲) تجھ پر کچھ حساب نہیں۔

۶۱               جس پر چاہے۔

۶۲               جس کسی سے چاہے یعنی آپ کو دینے اور نہ دینے کا اختیار دیا گیا جیسی مرضی ہو کریں۔

(۴۰) اور بیشک اس کے  لیے  ہماری بارگاہ میں ضرور قرب اور اچھا ٹھکانا ہے۔

(۴۱) اور یاد کرو ہمارے  بندہ ایوب کو جب اس نے  اپنے  رب کو پکارا کہ مجھے  شیطان نے  تکلیف اور  ایذا لگا دی، (ف ۶۳)

۶۳               جسم اور مال میں اس سے آپ کا مرض اور اس کے شدائد مراد ہیں۔ ( اس واقعہ کا مفصّل بیان سور ۂ انبیاء کے رکوع چھ میں گزر چکا ہے)

(۴۲) ہم نے  فرمایا زمین پر اپنا  پاؤں مار (ف ۶۴) یہ ہے  ٹھنڈا چشمہ نہانے  اور پینے  کو (ف ۶۵)

۶۴               چنانچہ آپ نے زمین میں پاؤں مارا اور اس سے آبِ شیریں کا ایک چشمہ ظاہر ہوا اور آپ سے کہا گیا۔

۶۵               چنانچہ آپ نے اس سے پیا اور غسل کیا اور تمام ظاہری و باطنی مرض اور تکلیفیں دفع ہو گئیں۔

(۴۳) اور ہم نے  اسے  اس کے  گھر والے  اور ان کے  برابر اور عطا فرما دیے  اپنی رحمت کرنے  (ف ۶۶) اور عقلمندوں کی نصیحت کو۔

۶۶               چنانچہ مروی ہے کہ جو اولاد آپ کی مر چکی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کو زندہ کیا اور اپنے فضل و رحمت سے اتنے ہی اور عطا فرمائے۔

(۴۴) اور فرمایا کہ اپنے  ہاتھ میں ایک جھاڑو لے  کر اس سے  مار دے  (ف ۶۷) اور قسم نہ توڑ بے  ہم نے  اسے   صابر پایا کیا اچھا بندہ (ف ۶۸) بیشک وہ بہت رجوع لانے  والا ہے۔

۶۷               اپنی بی بی کو جس کو سو ضربیں مارنے کی قَسم کھائی تھی دیر سے حاضر ہونے کے باعث۔

۶۸               یعنی ایوب علیہ السلام۔

(۴۵) اور یاد کرو ہمارے  بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب  قدرت  اور علم والوں کو (ف ۶۹)

۶۹               جنہیں اللہ تعالیٰ نے حکمتِ علمیہ وعملیہ عطا فرمائیں اور اپنی معرفت اور طاعات پر قوّت عطا فرمائی۔

(۴۶) بیشک ہم نے  انہیں ایک کھری بات سے  امتیاز بخشا کہ وہ اس گھر کی یاد ہے  (ف ۷۰)

۷۰               یعنی دارِ آخرت کی۔ کہ وہ لوگوں کو اسی کی یاد دلاتے ہیں اور کثرت سے اس کا ذکر کرتے ہیں محبّتِ دنیا نے ان کے قلوب میں جگہ نہیں پائی۔

(۴۷) اور بیشک وہ ہمارے  نزدیک چُنے  ہوئے  پسندیدہ ہیں۔

(۴۸)  اور یاد کرو اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو (ف ۷۱) اور سب اچھے  ہیں۔

۷۱               یعنی ان کے فضائل اور ان کے صبر کو تاکہ ان کی پاک خصلتوں سے لوگ نیکیوں کا ذوق و شوق حاصل کریں۔ اور ذوالکفل کی نبوّت میں اختلاف ہے۔

(۴۹) یہ نصیحت ہے  اور بیشک (ف ۷۲) پرہیزگاروں کا ٹھکانا۔

۷۲               آخرت میں۔

(۵۰) بھلا بسنے  کے  باغ ان کے  لیے  سب دروازے  کھلے  ہوئے۔

(۵۱) ان میں تکیہ لگائے  (ف ۷۳) ان میں بہت سے  میوے  اور شراب مانگتے  ہیں۔

۷۳               مرصّع تختوں پر۔

(۵۲) اور ان کے  پاس وہ بیبیاں ہیں کہ اپنے  شوہر کے  سوا  اور کی طرف آنکھ نہیں اٹھاتیں، ایک عمر کی (ف ۷۴)

۷۴               یعنی سب سِن میں برابر ایسے ہی حسن و جوانی میں آپس میں محبّت رکھنے والی نہ ایک کو دوسرے سے بغض نہ رشک نہ حسد۔

(۵۳) یہ ہے   وہ جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے  حساب کے  دن۔

(۵۴) بیشک یہ ہمارا  رزق ہے  کہ کبھی ختم نہ ہو گا (ف ۷۵)

۷۵               ہمیشہ باقی رہے گا وہاں جو چیز لی جائے گی اور خرچ کی جائے گی وہ اپنی جگہ ویسی ہی ہو جائے گی دنیا کی چیزوں کی طرح فنا اور نیست و نابود نہ ہو گی۔

(۵۵) ان کو تو یہ ہے  (ف ۷۶) اور بیشک سرکشوں کا برا ٹھکانا۔

۷۶               یعنی ایمان والوں کو۔

(۵۶) جہنم کہ اس میں جائیں گے  تو کیا ہی برا بچھونا (ف ۷۷)

۷۷               بھڑکنے والی آگ کہ وہی فرش ہو گی۔

(۵۷) ان کو یہ ہے  تو اسے  چکھیں کھولتا پانی اور پیپ (ف ۷۸)

۷۸               جو جہنّمیوں کے جسموں اور ان کے سڑے ہوئے زخموں اور نجاست کے مقاموں سے بہے گی جلتی بدبو دار۔

(۵۸) اور اسی شکل کے  اور جوڑے  (ف ۷۹)

۷۹               قِسم قِسم کے عذاب۔

(۵۹)  ان سے  کہا جائے  گا یہ ایک اور فوج تمہارے  ساتھ دھنسی پڑتی ہے  جو تمہاری تھی (ف ۸۰) وہ کہیں گے  ان کو کھلی جگہ نہ ملیو آگ میں تو ان کو جانا ہی ہے۔

۸۰               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ جب کافروں کے سردار جہنّم میں داخل ہوں گے اور ان کے پیچھے پیچھے ان کی اتباع کرنے والے تو جہنّم کے خازِن ان سرداروں سے کہیں گے یہ تمہارے متّبعین کی فوج ہے جو تمہاری طرح تمہارے ساتھ جہنّم میں دھنسی پڑتی ہے۔

(۶۰) وہاں بھی تنگ جگہ میں رہیں تابع بولے  بلکہ تمہیں کھلی جگہ نہ ملیو، یہ مصیبت تم ہمارے  آگے  لائے  (ف ۸۱) تو کیا ہی برا ٹھکانا (ف ۸۲)

۸۱               کہ تم نے پہلے کفر اختیار کیا اور ہمیں اس راہ پر چلایا۔

۸۲               یعنی جہنّم نہایت ہی بُرا ٹھکانا ہے۔

(۶۱) وہ بولے  اے  ہمارے  رب جو یہ مصیبت ہمارے  آگے  لایا اسے  آگ میں دُونا عذاب بڑھا۔

(۶۲) اور (ف ۸۳) بولے  ہمیں کیا ہوا ہم ان مردوں کو نہیں دیکھتے  جنہیں برا سمجھتے  تھے  (ف ۸۴)

۸۳               کفّار کے عمائد اور سردار۔

۸۴               یعنی غریب مسلمانوں کو اور انہیں وہ اپنے دِین کا مخالف ہونے کے باعث شریر کہتے تھے اور غریب ہونے کی وجہ سے حقیر سمجھتے تھے جب کفّار جہنّم میں انہیں نہ دیکھیں گے تو کہیں گے وہ ہمیں کیوں نظر نہیں آتے۔

(۶۳) کیا ہم نے  انہیں ہنسی بنا لیا (ف ۸۵) یا  آنکھیں ان کی طرف سے  پھر گئیں (ف ۸۶)

۸۵               اور درحقیقت وہ ایسے نہ تھے دوزخ میں آئے ہی نہیں ہمارا ان کے ساتھ استہزاء کرنا اور ان کی ہنسی بنانا باطل تھا۔

۸۶               اس لئے وہ ہمیں نظر نہ آئے۔ یا یہ معنیٰ ہیں کہ ان کی طرف سے آنکھیں پھر گئیں اور دنیا میں ہم ان کے مرتبے اور بزرگی کو نہ دیکھ سکے۔

(۶۴) بیشک یہ ضرور حق ہے  دوزخیوں کا باہم جھگڑ۔

(۶۵) تم فرماؤ (ف ۸۷) میں ڈر سنانے  والا ہی ہوں (ف ۸۸) اور معبود کوئی نہیں مگر ایک اللہ سب پر غالب۔

۸۷               اے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم مکّہ کے کفّار سے۔

۸۸               تمہیں عذابِ الٰہی کا خوف دلاتا ہوں۔

(۶۶)  مالک آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے  درمیان ہے  صاحب عزت بڑا بخشنے  والا۔

(۶۷) تم فرماؤ وہ (ف ۸۹) بڑی خبر ہے۔

۸۹               یعنی قرآن یا قیامت یا میرا رسولِ منذِر ہونا یا اللہ تعالیٰ کا واحد لاشریک لہ ہونا۔

(۶۸) تم اس سے  غفلت میں ہو (ف ۹۰)

۹۰               کہ مجھ پر ایمان نہیں لاتے اور قرآنِ پاک اور میرے دِین کو نہیں مانتے۔

(۶۹) مجھے   عالم بالا کی کیا خبر تھی جب وہ جھگڑتے  تھے  (ف ۹۱)

۹۱               یعنی فرشتے حضرت آدم علیہ السلام کے باب میں۔ یہ حضرت سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے صحتِ نبوّت کی ایک دلیل ہے۔ مدّعا یہ ہے کہ عالَمِ بالا میں فرشتوں کا حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے باب میں سوال و جواب کرنا مجھے کیا معلوم ہوتا اگر میں نبی نہ ہوتا اس کی خبر دینا میری نبوّت اور میرے پاس وحی آنے کی دلیل ہے۔

(۷۰) مجھے  تو یہی وحی ہوتی ہے  کہ میں نہیں  مگر روشن ڈر سنانے  والا (ف ۹۲)

۹۲               دارمی اور ترمذی کی حدیثوں میں ہے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ میں اپنے بہترین حال میں اپنے رب عزَّوجلَّ کے دیدار سے مشرف ہوا۔ (حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں یہ واقعہ خواب کا ہے) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ حضرت ربُّ العزّت عزَّ و علا و تبارک و تعالیٰ نے فرمایا اے محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) عالَمِ بالا کے ملائکہ کس بحث میں ہیں ؟ میں نے عرض کیا یارب تو ہی دانا ہے۔ حضور نے فرمایا پھر ربُّ العزّت نے اپنا دستِ رحمت و کرم میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا اور میں نے اس کے فیض کا اثر اپنے قلبِ مبارک میں پایا تو آسمان و زمین کی تمام چیزیں میرے علم میں آ گئیں پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا یا محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) کیا تم جانتے ہو کہ عالَمِ بالا کے ملائکہ کس امر میں بحث کر رہے ہیں میں نے عرض کیا ہاں اے رب میں جانتا ہوں وہ کَفّارات میں بحث کر رہے ہیں اور کَفّارات یہ ہیں نمازوں کے بعد مسجد میں ٹھہرنا اور پیادہ پا جماعتوں کے لئے جانا اور جس وقت سردی وغیرہ کے باعث پانی کا استعمال ناگوار ہو اس وقت اچھی طرح وضو کرنا جس نے یہ کیا اس کی زندگی بھی بہتر، موت بھی بہتر اور گناہوں سے ایسا پاک صاف نکلے گا جیسا اپنی ولادت کے دن تھا اور فرمایا اے محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) نماز کے بعد یہ دعا کیا کرو اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنَ وَاِذَا اَۤرَدْتَّ بِعِبَادِکَ فِتْنَۃً فَاقْبِضْنِیْ اِلَیْکَ غَیْرَمَفْتُوْنٍ بعض روایتوں میں یہ ہے کہ حضرت سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا مجھے ہر چیز روشن ہو گئی اور میں نے پہچان لی اور ایک روایت میں ہے کہ جو کچھ مشرق و مغرب میں ہے سب میں نے جان لیا۔ امام علّامہ علاؤ الدین علی بن محمّد ابنِ ابراہیم بغدادی معروف بِخازِن اپنی تفسیر میں اس کے معنیٰ یہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا سینۂ مبارک کھول دیا اور قلب شریف کو منوّر کر دیا اور جو کوئی نہ جانے اس سب کی معرفت آپ کو عطا کر دی تاآنکہ آپ نے نعمت و معرفت کی سردی اپنے قلبِ مبارک میں پائی اور جب قلب شریف منوّر ہو گیا اور سینۂ پاک کھُل گیا تو جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے باعلامِ الٰہی جان لیا۔

(۷۱) جب تمہارے  رب نے  فرشتوں سے  فرمایا کہ میں مٹی سے  انسان بناؤں گا (ف ۹۳)

۹۳               یعنی (حضرت) آدم کو پیدا کروں گا۔

(۷۲) پھر جب میں اسے  ٹھیک بنا لوں (ف ۹۴) اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکوں (ف ۹۵) تو تم اس کے  لیے  سجدے  میں گرنا۔

۹۴               یعنی اس کی پیدائش تمام کر دوں۔

۹۵               اور اس کو زندگی عطا کر دوں۔

(۷۳) تو سب فرشتو ں نے  سجدہ کیا ایک ایک نے  کہ کوئی باقی نہ رہا۔

(۷۴)  مگر ابلیس نے  (ف ۹۶) اس نے  غرور کیا اور وہ تھا ہی کافروں میں (ف ۹۷)

۹۶               سجدہ نہ کیا۔

۹۷               یعنی علمِ الٰہی میں۔

(۷۵) فرمایا  اے  ابلیس تجھے  کس چیز نے  روکا کہ تو اس کے  لیے  سجدہ کرے  جسے  میں نے  اپنے  ہاتھوں سے  بنایا تجھے  غرور آگیا یا  تو تھا ہی مغروروں میں (ف ۹۸)

۹۸               یعنی اس قوم میں سے جن کا شیوہ ہی تکبر ہے۔

(۷۶) بولا میں اس سے  بہتر ہوں (ف ۹۹) تو  نے  مجھے  آگ سے  بنایا اور اسے  مٹی سے  پیدا  کیا۔

۹۹               اس سے اس کی مراد یہ تھی کہ اگر آدم آگ سے پیدا کئے جاتے اور میرے برابر بھی ہوتے جب بھی میں انہیں سجدہ نہ کرتا چہ جائیکہ ان سے بہتر ہو کر انہیں سجدہ کروں۔

(۷۷) فرمایا تو جنت سے  نکل جا کہ تو  راندھا (لعنت کیا) گیا (ف ۱۰۰)

۱۰۰             اپنی سرکشی و نافرمانی و تکبر کے باعث۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی صورت بدل دی وہ پہلے حسین تھا بد شکل روسیاہ کر دیا گیا۔ اور اس کی نورانیّت سلب کر دی گئی۔

(۷۸) اور بیشک تجھ پر میری لعنت ہے  قیامت تک (ف ۱۰۱)

۱۰۱             اور قیامت کے بعد لعنت بھی اور طرح طرح کے عذاب بھی۔

(۷۹) بولا اے  میرے  رب ایسا ہے  تو مجھے   مہلت دے  اس دن تک کہ اٹھائے  جائیں (ف ۱۰۲)

۱۰۲             آدم علیہ السلام اور  ان کی ذرّیّت اپنے فنا ہونے کے بعد جزا کے لئے۔ اور اس سے اس کی مراد یہ تھی کہ وہ انسانوں کو گمراہ کرنے کے لئے فراغت پائے اور ان سے اپنا بغض خوب نکالے اور موت سے بالکل بچ جائے کیونکہ اٹھنے کے بعد موت نہیں۔

(۸۰) فرمایا تو  تُو مہلت والوں میں ہے۔

(۸۱) اس جانے  ہوئے  وقت کے  دن تک (ف ۱۰۳)

۱۰۳             یعنی نفخۂ اولیٰ تک جس کو خَلق کی فنا کے لئے معیّن فرمایا گیا۔

(۸۲) بولا تیری عزت کی قسم ضرور میں ان سب کو گمراہ کر دوں گا۔

(۸۳) مگر جو ان میں تیرے  چنے  ہوئے  بندے  ہیں۔

(۸۴) فرمایا  تو سچ یہ ہے  اور میں سچ ہی فرماتا ہوں۔

(۸۵) بیشک میں ضرور جہنم بھر دوں گا تجھ سے  (ف ۱۰۴) اور ان میں سے  (ف ۱۰۵) جتنے  تیری  پیروی کریں گے  سب سے۔

۱۰۴             مع تیری ذرّیّت کے۔

۱۰۵             یعنی انسانوں میں سے۔

(۸۶) تم فرماؤ  میں اس قرآن پر تم سے  کچھ اجر نہیں مانگتا اور میں بناوٹ والوں سے  نہیں۔

(۸۷) وہ تو نہیں مگر نصیحت سارے  جہان کے  لیے۔

(۸۸) اور ضرور ایک وقت کے  بعد تم اس کی خبر جانو گے  (ف ۱۰۶)

۱۰۶             حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ موت کے بعد اور ایک قول یہ ہے کہ قیامت کے روز