تفسیر عثمانی

سورة صٓ

۲ ۔۔۔     یعنی یہ عظیم الشان، عالی مرتبہ قرآن (جو عمدہ نصیحتوں سے پر، اور نہایت موثر طرز میں لوگوں کو ہدایت و معرفت کی باتیں سمجھانے والا ہے) با آواز بلند شہادت دے رہا ہے کہ جو لوگ قرآنی صداقت اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کے منکر ہیں اس کا سبب یہ نہیں کہ قرآن کی تعلیم و تفہیم میں کچھ قصور ہے یا حضورِ صلی اللہ علیہ و سلم پر نور اس کی تبلیغ و تبیین میں معاذ اللہ مقصر ہیں۔ بلکہ انکار و انحراف کا اصلی سبب یہ ہے کہ یہ لوگ جھوٹی شیخی، جاہلانہ غرور و نخوت اور معاندانہ مخالفت کے جذبات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ذرا اس دلدل سے نکلیں تو حق و صداقت کی صاف سڑک نظر آئے۔

۳ ۔۔۔     یعنی ان کو معلوم رہنا چاہیے کہ اسی غرور و تکبر کی بدولت انبیاء اللہ سے مقابلہ ٹھان کر بہت سی جماعتیں پہلے تباہ و برباد ہو چکی ہیں وہ لوگ بھی مدتوں خدا کے پیغمبروں سے لڑتے رہے۔ پھر جب برا وقت آ کر پڑا اور عذاب الٰہی نے چاروں طرف سے گھیر لیا تو گھبرا کر شور مچانے اور خدا کو پکارنے لگے۔ مگر اس وقت فریاد کرنے سے کیا بنتا۔ رہائی اور خلاصی کا موقع گزر چکا تھا، اور وقت نہیں رہا تھا کہ ان کے شور و بکاء کی طرف توجہ کی جائے۔

۴ ۔۔۔       یعنی آسمان سے کوئی فرشتہ آتا تو خیر ایک بات تھی۔ ہم ہی میں سے ایک آدمی کھڑا ہو کر ہم کو ڈرانے دھمکانے لگے اور کہے میں آسمان والے خدا کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہوں۔ یہ عجیب بات ہے اب بجز اس کے کیا کہا جائے کہ ایک جادوگر نے جھوٹا ڈھونگ بنا کر کھڑا کر دیا ہے۔ جادو کے زور سے کچھ کرشمے دکھا کر انہیں معجزہ کہنے لگے اور چند قصے کہانیاں جمع کر کے جھوٹا دعویٰ کر دیا کہ یہ اللہ کے اتارے ہوئے علوم ہیں۔ اور میں اس کا پیغمبر ہوں۔

۶ ۔۔۔       ۱: یعنی اور لیجئے! اتنے بیشمار دیوتاؤں کا دربار ختم کر کے صرف ایک خدا رہنے دیا۔ اس سے بڑھ کر تعجب کی بات کیا ہو گی کہ اتنے بڑے جہان کا انتظام اکیلے ایک خدا کے سپرد کر دیا جائے۔ اور مختلف شعبوں اور محکموں کے جن خداؤں کی بندگی قرنوں سے ہوتی چلی آتی تھی وہ سب یک قلم موقوف کر دی جائے۔ گویا ہمارے باپ دادے نرے جاہل اور بیوقوف ہی تھے جو اتنے دیوتاؤں کے سامنے سر عبودیت خم کرتے رہے۔ روایات میں ہے کہ ابو طالب کی بیماری میں ابوجہل وغیرہ چند سردارانِ قریش نے ابو طالب سے آن کر حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شکایت کی کہ یہ ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اور ہمیں طرح طرح سے احمق بناتے ہیں۔ آپ ان کو سمجھائیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے چچا! میں ان سے صرف ایک کلمہ چاہتا ہوں جس کے بعد تمام عرب ان کا مطیع ہو جائے اور عجم ان کی خدمت میں جزیہ پیش کرنے لگے۔ وہ خوش ہو کر بولے کہ بتلائیے وہ کلمہ کیا ہے، آپ ایک کلمہ کہتے ہیں ہم آپ کے دس کلمے ماننے کے لیے تیار ہیں۔ فرمایا زیادہ نہیں بس ایک اور صرف ایک ہی کلمہ ہے ،لا الہ الا اللہ" یہ سنتے ہی طیش میں آ کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کیا اتنے خداؤں کو ہٹا کر اکیلا ایک خدا۔ چلو جی! یہ اپنے منصوبے سے کبھی باز نہ آئیں گے۔ یہ تو انہی ہمارے معبودوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ تم بھی مضبوطی سے اپنے معبودوں کی عبادت و حمایت پر جمے رہو۔ مباد ان کا پروپیگنڈا کسی ضعیف الاعتقاد کا قدم پرانے آبائی طریقہ سے ہٹانے میں کامیاب ہو جائے۔ ان کی ان تھک کوشش کے مقابلہ میں ہم کو بہت زیادہ صبر و استقلال دکھانے کی ضرورت ہے۔

۲: یعنی محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) جو اس قدر زور و شور اور عزم و استقلال سے ہمارے معبودوں کے خلاف جہاد کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ضرور اس میں ان کی کوئی غرض ہے، وہ یہ ہی کہ ایک خدا کا نام لے کر ہم سب کو اپنا محکوم اور مطیع بنا لیں اور دنیا کی حکومت و ریاست حاصل کریں۔ سو لازم ہے کہ اس مقصد میں ہم ان کو کامیاب نہ ہونے دیں۔ بعض مفسرین نے "ان ہذا لشیئً یراد" کا مطلب یہ لیا ہے کہ بیشک یہ وہ چیز ہے جس کا محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) ارادہ ہی کر چکے ہیں۔ کسی طرح اس سے ہٹنے والے نہیں یا یوں کہا جائے کہ یہ بات (معلوم ہوتا ہے) ہونے والی ہے۔ اللہ کو یہ ہی منظور ہے کہ دنیا میں انقلاب ہو۔ لہٰذا جہاں تک ہو سکے صبر و تحمل سے اپنے قدیم دین و آئین کی حفاظت کرتے رہو۔ یا ممکن ہے ازراہ تحقیر کہا ہو کہ بیشک محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کے ارادے سب کچھ ہیں۔ لیکن ضروری نہیں کہ آدمی جو راہ اور تمنا کرے وہ پوری ہو۔ چاہیے کہ ہم ان کے مقابلہ میں قدم پیچھے نہ ہٹائیں۔

۷ ۔۔۔        حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "پچھلا دین کہتے تھے اپنے باپ دادوں کو۔ یعنی آگے تو سنے ہیں کہ اگلے لوگ ایسی باتیں کہتے تھے۔ پر ہمارے بزرگ تو یوں نہیں کہہ گئے۔" اور ممکن ہے پچھلے دین سے عیسائی مذہب مراد ہو۔ جیسا کہ اکثر سلف کا قول ہے۔ یعنی نصاریٰ جو اہل کتاب ہیں ان کو بھی ہم نے نہیں سنا کہ سب خداؤں کو ہٹا کر ایک خدا رہنے دیا ہو۔ آخر وہ بھی تین خدا تو مانتے ہیں اور آنحضرت ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کو رسول نہیں مانتے۔ اگر پہلی کتابوں میں کچھ اصل ہوتی تو وہ ضرور قبول کرتے۔ معلوم ہوا کہ محض گھڑی ہوئی بات ہے۔ العیاذ باللہ۔

۸ ۔۔۔     ۱: یعنی اچھا قرآن کو اللہ کا کلام ہی مان لو اور یہ بھی نہ سہی کہ آسمان سے کوئی فرشتہ نبی بنا کر بھیجا جاتا مگر یہ کیا غضب ہے کہ ہم سب میں سے محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) ہی کا انتخاب ہوا۔ کیا سارے ملک میں ایک یہ ہی اس منصب کے لیے رہ گئے تھے؟ اور کوئی بڑا رئیس مالدار خدا کو نہ ملتا تھا جس پر اپنا کلام نازل کرتا۔

۲:  یہ حق تعالیٰ کی طرف سے ان کی نامعقول یادہ گوئی کا جواب ہوا۔ یعنی ان کی یہ خرافات کچھ نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ابھی ہماری نصیحت کے متعلق ان کو دھوکا لگا ہوا ہے۔ وہ یقین نہیں رکھتے کہ جس خوفناک مستقبل سے آگاہ کیا جا رہا ہے وہ ضرور پیش آ کر رہے گا۔ کیونکہ ابھی تک انہوں نے خدائی مار کا مزہ نہیں چکھا۔ جس وقت خدائی مار پڑے گی۔ تمام شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے۔

۱۰ ۔۔۔      یعنی رحمت کے خزانے اور آسمان و زمین کی حکومت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ زبردست ہے اور بڑی بخشش والا ہے جس پر جو انعام چاہے کرے کون روک ستا ہے یا نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ اگر وہ اپنی حکمت و دانائی سے کسی بشر کو منصب نبوت و رسالت پر سرفراز فرماتا ہے تو تم دخل دینے والے کون ہو کہ صاحب اس پر یہ مہربانی فرمائی ہم پر نہ فرمائی۔ کیا رحمت کے خزانوں اور زمین و آسمان کی حکومت کے تم مالک و مختار ہو جو اس قسم کے لغو اعتراضات کرتے ہو۔ اگر ہو تو اپنے تمام اسباب و وسائل کو کام میں لے آؤ۔ اور رسیاں تان کر آسمان پر چڑھ جاؤ۔ تاکہ وہاں سے محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) پر وحی کا آنا بند کر سکو اور علویات پر قابض ہو کر اپنی مرضی و منشاء کے موافق آسمان وزمین کے انتظام و تدبیر کا انجام دے سکو۔ اگر اتنا نہیں کر سکتے تو آسمان و زمین کی حکومت اور خزائن رحمت کی مالکیت کا دعویٰ عبث ہے۔ پھر خدائی انتظامات میں دخل دینا بجز بےحیائی یا جنون کے اور کیا ہو گا۔ ایاذ قدرِ خود بشناس۔

۱۱ ۔۔۔     یعنی کچھ بھی نہیں۔ زمین و آسمان کی حکومت اور خزانوں کے مالک تو یہ بیچارے کیا ہوتے۔ چند ہزیمت خوردہ آدمیوں کی ایک بھیڑ ہے جو اگلی تباہ شدہ قوموں کی طرح تباہ و برباد ہوتی نظر آتی ہے۔ چنانچہ یہ منظر "بدر" سے لے کر "فتح مکہ" تک لوگوں نے دیکھ لیا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی اگلی قومیں برباد ہوئیں۔ اگر چڑھ جائیں تو ان میں ایک یہ بھی برباد ہوں۔" گویا اس آیت کا ربط ما قبل سے بتلا دیا۔ واللہ اعلم۔

۱۲ ۔۔۔     یعنی بہت زور و قوت اور لاؤ لشکر والا جس نے دنیا میں اپنی سلطنت کے کھونٹے گاڑ دیئے اور بعض کہتے ہیں کہ وہ آدمی کو چومیخا کر کے مارتا تھا اس سے اس کا نام ذوالاوتاد (میخوں والا) پڑ گیا۔ واللہ اعلم۔

۱۳ ۔۔۔       یعنی حضرت شعیب علیہ السلام جس کی طرف مبعوث ہوئے۔

۱۴ ۔۔۔       یعنی یہ بڑی بڑی طاقتور فوجیں اور رسولوں کو جھٹلا کر سزا سے نہ بچ سکیں۔ تمہاری تو حقیقت کیا ہے۔

۱۵ ۔۔۔     یعنی صور کی آواز کے منتظر ہیں۔ پوری سزا اس وقت ملے گی۔ اور ممکن ہے "صحیحہ" سے یہیں کی ایک ڈانٹ مراد ہو۔

۱۶ ۔۔۔       یعنی جب وعدہ قیامت سنتے مسخرا پن سے کہتے کہ ہم کو تو اس وقت کا حصہ ابھی دے دیجئے ابھی ہم اپنا اعمالنامہ دیکھ لیں اور ہاتھ کے ہاتھ سزا جزاء سے فارغ ہو جائیں۔

۱۷ ۔۔۔     حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "اس جگہ ان کو (داؤد کا قصہ) یاد دلوایا کہ انہوں نے بھی "طالوت" کے (عہد) حکومت میں بہت صبر کیا۔ آخر حکومت ان کو ملی اور (جالوت وغیرہ) مخالفوں کو جہاد سے زیر کیا۔ یہ ہی نقشہ ہوا ہمارے پیغمبر کا۔" (تنبیہ) "ذالاید" کا ترجمہ حضرت شاہ صاحب نے "ہاتھ کے بل والا" کیا ہے۔ یعنی قوت سلطنت، یا ادھر اشارہ ہو کہ ان کے ہاتھ میں لوہا نرم ہو جاتا تھا۔ یا "ہاتھ کابل، یہ کہ سلطنت کا مال نہ کھاتے اپنے دس و بازو سے کسب کر کے کھاتے۔ اور "اواب، یعنی ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع رہتے تھے۔

۱۸ ۔۔۔      یعنی صبح و شام جب حضرت داؤد تسبیح پڑھتے، پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے۔ اس کے متعلق کچھ مضمون سورہ "سبا" میں گزر چکا ہے وہاں دیکھ لیا جائے۔

۱۹ ۔۔۔      یا سب اس کے ساتھ مل کر اللہ کی طرف رجوع رہتے کما قال بعض المفسرین۔

۲۰ ۔۔۔       ۱: یعنی دنیا میں اس کی سلطنت کی دھاک بٹھلا دی تھی اور اپنی اعانت و نصرت سے مختلف قسم کی کثیر التعداد فوجیں دے کر خوب اقتدار جما دیا تھا۔

۲:  یعنی بڑے مدبر و دانا تھے۔ ہر بات کا فیصلہ بڑی خوبی سے کرتے اور بولتے تو نہایت فیصلہ کن تقریر ہوتی تھی۔ بہرحال حق تعالیٰ نے ان کو نبوت، حسن تدبیر، قوت فیصلہ اور طرح طرح کے علمی و عملی کمالات عطا فرمائے تھے۔ لیکن امتحان و ابتلاء سے وہ بھی نہیں بچے۔ جس کا قصہ آگے بیان کرتے ہیں۔

۲۲ ۔۔۔     حضرت داؤد نے تین دن کی باری رکھی تھی۔ ایک دن دربار اور فصل خصومات کا، ایک دن اپنے اہل و عیال کے پاس رہنے کا، ایک دن خالص اللہ کی عبادت کا۔ اس دن خلوت میں رہتے تھے دربان کسی کو آنے نہ دیتے۔ ایک دن عبادت میں مشغول تھے کہ ناگاہ کئی شخص دیوار پھاند کر ان کے پاس آ کھڑے ہوئے داؤد علیہ السلام باوجود اپنی قوت و شوکت کے یہ ناگہانی ماجرا دیکھ کر گھبرا اٹھے کہ یہ آدمی ہیں یا کوئی اور مخلوق ہے۔ آدمی ہیں تو نا وقت آنے کی ہمت کیسے ہوئی؟ دربانوں نے کیوں نہیں روکا؟ اگر دروازے سے نہیں آئے تو اتنی اونچی دیواروں کو پھاندنے کی کیا سبیل کی ہو گی خدا جانے ایسے غیر معمولی طور پر کس نیت اور کس غرض سے آئے ہیں۔ غرض اچانک یہ عجیب و مہیب واقعہ دیکھ کر خیال دوسری طرف بٹ گیا اور عبادت میں جیسی یکسوئی کے ساتھ مشغول تھے، قائم نہ رہ سکی۔    آنے والوں نے کہا کہ آپ گھبرائیے نہیں اور ہم سے خوف نہ کھائیے۔ ہم دو فریق اپنے ایک جھگڑے کا فیصلہ کرانے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ آپ ہم میں منصفانہ فیصلہ کر دیجئے۔ کوئی بے راہی اور ٹالنے کی بات نہ ہو۔ ہم عدل و انصاف کی سیدھی راہ معلوم کرنے کے لیے آئے ہیں (شاید گفتگو کا یہ عنوان دیکھ کر حضرت داؤد زیادہ متعجب ہوئے ہوں)

۲۳ ۔۔۔     یعنی جھگڑا یہ ہے کہ میرے اس بھائی کے پاس ننانوے دُنبیاں ہیں اور میرے ہاں صرف ایک دنبی ہے۔ یہ چاہتا ہے کہ وہ ایک بھی کسی طرح مجھ سے چھین کر اپنی سو پوری کر لے۔ اور مشکل یہ آن پڑی ہے کہ جیسے مال میں یہ مجھ سے زیادہ ہے بات کرنے میں بھی مجھ سے تیز ہے۔ جب بولتا ہے تو مجھ کو دبا لیتا ہے اور لوگ بھی اسی کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں۔ غرض میرا حق چھیننے کے لیے زبردستی کی باتیں کرتا ہے۔

۲۴ ۔۔۔     ۱: حضرت داؤد نے با قاعدہ شریعت ثبوت وغیرہ طلب کیا ہو گا۔ آخر میں یہ فرمایا کے بیشک (اگر یہ تیرا بھائی ایسا کرتا ہے تو) اس کی زیادتی اور نا انصافی ہے۔ چاہتا ہے کہ اس طرح اپنے غریب بھائی کا مال ہڑپ کر جائے (مطلب یہ کہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے)

۲: یعنی شرکاء کی عادت ہے ایک دوسرے پر ظلم کرنے کی، قوی حصہ دار چاہتا ہے کہ ضعیف کو کھا جائے۔ صرف اللہ کے ایماندار اور نیک بندے اس سے مستثنیٰ ہیں۔ مگر وہ دنیا میں بہت ہی تھوڑے ہیں۔

۲۵ ۔۔۔       ۱: یعنی اس قصہ کے بعد داؤد کو تنبہ ہوا کہ میرے حق میں یہ ایک فتنہ اور امتحان تھا۔ اس خیال کے آتے ہی اپنی خطا معاف کرانے کے لیے نہایت عاجزی کے ساتھ خدا کے سامنے جھک پڑے۔ آخر خدا نے ان کی وہ خطا معاف کر دی۔ داؤد علیہ السلام کی وہ خطا کیا تھی؟ جس کی طرف ان آیات میں اشارہ ہے اس کے متعلق مفسرین نے بہت سے لمبے چوڑے قصے بیان کیے ہیں۔ مگر حافظ عماد الدین ابن کثیر ان کی نسبت لکھتے ہیں۔ "قد ذکر المفسرون ھہنا قصۃً اکثرھا ماخوذ من الاسرائیلیات ولم یثبت فیہا عن المعصوم حدیث یجب اتباعہ۔" اور حافظ ابو محمد ابن حزم نے کتاب الفصل میں بہت شدت سے ان قصوں کی تردید کی ہے باقی ابو حیان وغیرہ نے ان قصوں سے علیحدہ ہو کر آیات کا جو محمل بیان کیا ہے وہ بھی تکلف سے خالی نہیں۔ ہمارے نزدیک اصل بات وہ ہے جو ابن عباس سے منقول ہے۔ یعنی داؤد علیہ السلام کو یہ ابتلاء ایک طرح کے اعجاب کی بناء پر پیش آیا۔ صورت یہ ہوئی کہ داؤد علیہ السلام نے بارگاہِ  ایزدی میں عرض کیا کہ اے پروردگار! رات اور دن میں کوئی ساعت ایسی نہیں جس میں داؤد کے گھرانے کا کوئی نہ کوئی فرد تیری عبادت (یعنی نماز یا تسبیح و تکبیر) میں مشغول نہ رہتا ہو۔ (یہ اس لیے کہا کہ انہوں نے روزو شب کے چوبیس گھنٹے اپنے گھر والوں پر نوبت بہ نوبت تقسیم کر رکھے تھے تاکہ ان کی عبادت خانہ کسی وقت عبادت سے خالی نہ رہنے پائے) اور بھی کچھ اس قسم کی چیزیں عرض کیں (شاید اپنے حسن انتظام وغیرہ کے متعلق ہوں گی) اللہ تعالیٰ کو یہ بات ناپسند ہوئی، ارشاد ہوا کہ داؤد یہ سب کچھ ہماری توفیق سے ہے۔ اگر میری مدد نہ ہو تو تو اس چیز پر قدرت نہیں پا سکتا۔ (ہزار کوشش کرے، نہیں نباہ سکے گا) قسم ہے اپنے جلال کی میں تجھ کو ایک روز تیرے نفس کے سپرد کر دوں گا۔ (یعنی اپنی مدد ہٹا لوں گا۔ دیکھیں اس وقت تو کہاں تک اپنی عبادت میں مشغول رہ سکتا اور اپنا نظام قائم رکھ سکتا ہے) داؤد علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے پروردگار! مجھے اس دن کی خبر کر دیجئے۔ بس اسی دن فتنہ میں مبتلا ہو گئے (اخرج ہذالاثر الحاکم فی المستدرک وقال صحیح الاسنادو اقربہ الذہبی فی التلخیص) یہ روایت بتلائی ہے کہ فتنہ کی نوعیت صرف اسی قدر ہونی چاہیے کہ جس وقت داؤد عبادت میں مشتغل ہوں باوجود پوری کوشش کے مشتغل نہ رہ سکیں اور اپنا انتظام قائم نہ رکھ سکیں۔ چنانچہ آپ پڑھ چکے کہ کس بے قاعدہ اور غیر معمولی طریقہ سے چند اشخاص نے اچانک عبادت خانہ میں داخل ہو کر حضرت داؤد کو گھبرا دیا اور ان کے شغل خاص سے ہٹا کر اپنے جھگڑے کی طرف متوجہ کر لیا۔ بڑے بڑے پہرے اور انتظامات ان کو داؤد کے پاس پہنچنے سے نہ روک سکے۔ تب داؤد کو خیال ہوا کہ اللہ نے میرے اس دعوے کی وجہ سے اس فتنہ میں مبتلا کیا۔ لفظ "فتنہ" کا اطلاق اس جگہ تقریباً ایسا سمجھو جیسے ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما بچپن میں قمیص پہن کر لڑکھڑاتے ہوئے آرہے تھے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے منبر پر سے دیکھا اور خطبہ قطع کر کے ان کو اوپر اٹھا لیا اور فرمایا صدق اللہ "انما اموالکم واولادکم فتنۃ" بعض آثار میں ہے کہ بندہ اگر کوئی نیکی کرے کہتا ہے کہ "اے پروردگار! میں نے یہ کام کیا، میں نے صدقہ کیا، میں نے نماز پڑھی، میں نے کھانا کھلایا۔" تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "اور میں نے تیری مدد کی اور میں نے تجھ کو توفیق دی۔ "اور جب بندہ کہتا ہے کہ اے پروردگار تو نے مدد کی، تو نے مجھ کو توفیق بخشی اور تو نے مجھ پر احسان فرمایا۔ " تو اللہ کہتا ہے "اور تو نے عمل کیا تو نے ارادہ کیا تو نے یہ نیکی کمائی۔" (مدارج السالکین، ج۱ ص۹۹) اسی سے سمجھ لو کہ حضرت داؤد علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کا اپنے حسن انتظام کو جتلاتے ہوئے یہ فرمانا کہ اے پروردگار! رات دن میں کوئی گھڑی ایسی نہیں جس میں میں یا میرے متعلقین تیری عبادت میں مشتغل نہ رہتے ہوں کیسے پسند آ سکتا تھا۔ بڑوں کی چھوٹی چھوٹی بات پر گرفت ہوتی ہے۔ اسی لیے ایک آزمائش میں مبتلا کر دیے گئے تاکہ متنبہ ہو کر اپنی غلطی کا تدارک کریں۔ چنانچہ تدارک کیا اور خوب کیا۔ میرے نزدیک آیت کی بے تکلف تقریر یہ ہی ہے۔ باقی حضرت شاہ صاحب نے اسی مشہور قصہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے وہ موضح القرآن میں دیکھ لیا جائے۔

۲:  یعنی بدستور مقرب بارگاہ ہیں اس غلطی سے تقرب اور مرتبہ میں فرق نہیں آیا۔ صرف تھوڑی سی تنبیہ کر دی گئی۔ کیونکہ مقربین کی چھوٹی غلطی بھی بڑی سمجھی جاتی ہے۔ "حسنات الابرار سیأت المقربین

"گرچہ یک مو بدگنہ کو جستہ بود

لیک آں مودر دودیدہ راستہ بود

بود آدم دیدہ نور قدیم

موئے دردیدہ بود کوہِ عظیم۔

۲۶ ۔۔۔       ۱: یعنی خدا نے تم کو زمین میں اپنا نائب بنا لیا۔ لہٰذا اسی کے حکم پر چلو اور معاملات کے فیصلے عدل و انصاف کے ساتھ شریعت الٰہی کے موافق کرتے رہو۔ کبھی کسی معاملہ میں خواہش نفس کا ادنیٰ شائبہ بھی نہ آنے پائے۔ کیونکہ یہ چیز آدمی کو اللہ کی راہ سے بھٹکا دینے والی ہے۔ اور جب انسان اللہ کی راہ سے بہکا تو پھر ٹھکانا کہاں۔

۲:إ  یعنی عموماً خواہشاتِ نفسانی کی پیروی اسی لیے ہوتی ہے کہ آدمی کو حساب کا دن یاد نہیں رہتا۔ اگر یہ بات مستحضر رہے کہ ایک روز اللہ کے سامنے جانا اور ذرہ ذرہ عمل کا حساب دینا ہے تو آدمی کبھی اللہ کی مرضی پر اپنی خواہش کو مقدم نہ رکھے (تنبیہ) ممکن ہے کہ "یوم الحساب" کا تعلق "لہم عذاب شدید" کے ساتھ ہو۔ نسوا کے ساتھ نہ ہو۔ یعنی اللہ کے احکام بھلا دینے کے سبب سے ان پر سخت عذاب ہو گا حساب کے دن۔

۲۷ ۔۔۔     یعنی جس کا آگے کچھ نتیجہ نہ نکلے۔ بلکہ اس دنیا کا نتیجہ ہے آخرت، لہٰذا یہاں رہ کر وہاں کے لیے کچھ کام نہ کرنا چاہیے، اور وہ کام یہ ہی ہے کہ انسان اپنی خواہشات کی پیروی چھوڑ کر حق و عدل کے اصول پر کاربند ہو۔ اور خالق و مخلوق دونوں سے اپنا معاملہ ٹھیک رکھے۔ یہ نہ سمجھے کہ بس دنیا کی زندگی ہے۔ کھا پی کر ختم کر دیں گے۔ آگے حساب کتاب کچھ نہیں۔ یہ خیالات تو ان کے ہیں جنہیں موت کے بعد دوسری زندگی سے انکار ہے۔ سو ایسے منکروں کے لیے آگ تیار ہے۔

۲۸ ۔۔۔      یعنی ہمارے عدل و حکمت کا اقتضاء یہ نہیں کہ نیک ایماندار بندوں کو شریروں اور مفسدوں کے برابر کر دیں یا ڈرنے والوں کے ساتھ بھی وہ ہی معاملہ کرنے لگیں جو ڈھیٹ اور نڈر لوگوں کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اسی لیے ضرور ہوا کہ کوئی وقت حساب و کتاب اور جزاء سزا کا رکھا جائے۔ لیکن دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے نیک اور ایماندار آدمی قسم قسم کی مصائب و آفات میں مبتلا رہتے ہیں اور کتنے ہی بدمعاش بے حیا مزے چین اڑاتے ہیں۔ لامحالہ ماننا پڑے گا کہ موت کے بعد دوسری زندگی کی جو خبر مخبر صادق نے دی ہے عین مقتضائے حکمت ہے۔ وہاں ہی ہر نیک و بد کو اس کے برے بھلے کام کا بدلہ ملے گا۔ پھر "یوم الحساب" کی خبر کا انکار کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔

۲۹ ۔۔۔     یعنی جب نیک اور بد کا انجام ایک نہیں ہو سکتا تو ضرور تھا کہ کوئی کتاب ہدایت مآب حق تعالیٰ کی طرف سے آئے جو لوگوں کو خوب معقول طریقہ سے ان کے انجام پر آگاہ کر دے۔ چنانچہ اس وقت یہ کتاب آئی جس کو قرآن مبین کہتے ہیں۔ جس کے الفاظ، حروف، نقوش اور معانی و مضامین ہر چیز میں برکت ہے۔ اور جو اسی غرض سے اتاری گئی ہے کہ لوگ اس کی آیات میں غور کریں اور عقل رکھنے والے اس کی نصیحتوں سے منتفع ہوں چنانچہ اس آیت سے پہلے ہی آیت میں دیکھ لو، کس قدر صاف، فطری اور معقول طریقہ سے مسئلہ معاد کو حل کیا ہے کہ تھوڑی عقل والا بھی غور کرے تو صحیح نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے۔ (تنبیہ) شاید "تدبر" سے قوت علمیہ کی اور "تذکر" سے قوت عملیہ کی تکمیل کی طرف اشارہ ہو۔ یہ سب باتیں حضرت داؤد کے تذکرہ کے ذیل میں آ گئی تھی۔ آگے پھر ان کے قصہ کی تکمیل فرماتے ہیں۔

۳۰ ۔۔۔     یعنی سلیمان بیٹا دیا جو انہی کی طرح نبی اور بادشاہ ہوا۔

۳۳ ۔۔۔       یعنی نہایت اصیل، شائستہ اور تیز و سبک رفتار گھوڑے جو جہاد کے لیے پرورش کیے گئے تھے ان کے سامنے پیش ہوئے ان کا معائنہ کرتے ہوئے دیر لگ گئی۔ حتی کہ آفتاب غروب ہو گیا۔ شاید اس شغل میں عصر کے وقت کا وظیفہ بھی نہ پڑھ سکے ہوں۔ اس پر کہنے لگے کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر ایک طرف ذکر اللہ (یاد خدا) سے بظاہر علیحدگی رہی تو دوسری جانب جہاد کے گھوڑوں کی محبت اور دیکھ بھال بھی اسی کی یاد سے وابستہ ہے۔ جب جہاد کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ ہے تو اس کے معدات و مبادی کا تفقد کیسے ذکر اللہ کے تحت میں داخل نہ ہو گا۔ آخر اللہ تعالیٰ جہاد اور آخرت اور آلات جہاد کے مہیا کرنے کی ترغیب نہ دیتا تو اس مال نیک سے ہم اس قدر محبت کیوں کرتے۔ اسی جذبہ جہاد کے جوش و افراط میں حکم دیا کہ ان گھوڑوں کو پھر واپس لاؤ۔ چنانچہ واپس لائے گئے اور حضرت سلیمان غایت محبت و اکرام سے ان کی گردنیں اور پنڈلیاں پونچھنے اور صاف کرنے لگے۔ آیت کی یہ تقریر بعض مفسرین کی ہے۔ اور لفظ "حب الخیر" سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ گویا خیر کا لفظ اسی مضمون کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے۔ حدیث میں فرمایا۔ الخیل معقود فی نواصیہا الخیر الیٰ یوم القیامۃ" لیکن دوسرے علماء نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ حضرت سلیمان کو گھوڑوں کے معائنہ میں مشغول ہو کر اس وقت کی نماز یا وظیفہ سے ذہول ہو گیا (اور ذہول و نسیان انبیاء کے حق میں محال نہیں (فرمایا کہ دیکھو!) مال کی محبت نے مجھ کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیا حتی کہ غروب آفتاب تک میں اپنا وظیفہ ادا نہ کر سکا۔ یا مانا کہ اس مال کی محبت میں بھی ایک پہلو عبادت کا اور خدا کی یاد کا تھا۔ مگر خواص و مقربین کو یہ فکر بھی رہتی ہے کہ جس عبادت کا جو وقت مقرر ہے اس میں تخلف نہ ہو۔ اور ہوتا ہے تو صدمہ اور قلق سے بے چین ہو جاتے ہیں (گو عذر سے ہو)

گر زباغِ دل خلالے کم بود: بردلِ سالک ہزاراں غم بود۔ "غزوہ خندق" میں دیکھ لو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی کئی نمازیں قضا ہو گئیں۔ باوجودیکہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم عین جہاد میں مشغول تھے اور کسی قسم کا ذنب آپ پر نہ تھا، لیکن جن کفار کے سبب سے ایسا پیش آیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے حق میں "ملا اللہ بیوتہم وقبورہم نارا"وغیرہ سے بددعا فرما رہے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی ایک موقت عبادت کے فوت ہو جانے سے بیتاب ہو گئے۔ حکم دیا کہ ان گھوڑوں کو واپس لاؤ (جو یاد الٰہی کے فوت ہونے کا سبب بنے ہیں) جب لائے گے تو شدتِ غیرت اور غلبہ حب الٰہی میں تلوار لے کر ان کی گردنیں اور پنڈلیاں کاٹنا شروع کر دیں۔ تاکہ سبب غفلت کو اپنے سے اس طرح علیحدہ کریں کہ وہ فی الجملہ کفارہ اس غفلت کا ہو جائے۔ شاید ان کی شریعت میں قربانی گھوڑے کی جائز ہو گی اور ان کے پاس گھوڑے وغیرہ اس کثرت سے ہوں گے ان چند گھوڑوں کے قربان کرنے سے مقصد جہاد میں کوئی خلل نہ پڑتا ہو گا۔ اور لفظ "فطفق مسحاً" سے بھی یہ لازم نہیں آتا کہ سب گھوڑوں کو قتل ہی کر گزرے ہوں۔ محض اتنا ہے کہ یہ کام شروع کر دیا۔ واللہ اعلم۔ اس تقریر کلی تائید ایک حدیث مرفوع سے ہوتی ہے جو طبرانی نے باسناد حسن ابی بن کعب سے روایت کی ہے (راجع روح المعانی وغیرہ)

۳۴ ۔۔۔       حدیث صحیح میں ہے کہ حضرت سلیمان نے ایک روز قسم کھائی کہ آج رات میں اپنی تمام عورتوں کے پاس جاؤں گا (جو تعداد میں ستر یا نوے یا سو کے قریب تھیں) اور ہر ایک عورت ایک بچہ جنے گی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا۔ فرشتہ نے القاء کیا کہ "انشاء اللہ" کہہ لیجئے۔ مگر (باوجود دل میں موجود ہونے کے) زبان سے نہ کہا خدا کا کرناکہ اس مباشرت کے نتیجے میں ایک عورت بھی بچہ نہ جنا۔ صرف ایک عورت سے ادھورا بچہ ہوا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ دایہ نے وہ ہی ادھورا بچہ ان کے تخت پر لا کر ڈال دیا۔ کہ لو! یہ تمہاری قسم کا نتیجہ ہے (اسی کو یہاں "جسد" (دھڑ) سے تعبیر کیا ہے) یہ دیکھ کر حضرت سلیمان ندامت کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع ہوئے۔ اور "انشاء اللہ" نہ کہنے پر استغفار کیا۔ نزدیکاں رابیش بود حیرانی۔ حدیث میں ہے کہ اگر "انشاء اللہ" کہہ لیتے تو بیشک اللہ ویسا ہی کر دیتا جو ان کی تمنا تھی۔ (تنبیہ) اکثر مفسرین نے آیت کی تفسیر دوسری طرح کی ہے اور اس موقع پر بہت سے بے سروپا قصے سلیمان علیہ السلام کی انگشتری اور جنوں کے نقل کیے ہیں جسے دلچسپی ہو۔ کتب تفاسیر میں دیکھ لے۔ ابن کثیر لکھتے ہیں۔"ولقد رویت ہذہ القصتہ مطولۃ عن جماعۃ من السلف رضی اللہ عنہم وکلہا متلقاہ من قصص اہل الکتاب۔ واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

۳۵ ۔۔۔     یعنی ایسی عظیم الشان سلطنت عنایت فرما جو میرے سوا کسی کو نہ ملے، نہ کوئی دوسرا اس کا اہل ثابت ہو یا یہ مطلب ہے کہ کسی کو حوصلہ نہ ہو کہ مجھ سے چھین سکے۔ (تنبیہ) احادیث میں ہے کہ ہر نبی کی ایک دعاء جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اجابت کا وعدہ فرما لیا ہے یعنی وہ دعا ضرور ہی قبول کریں گے۔ شاید حضرت سلیمان کی یہ وہ ہی دعا ہو۔ آخر نبی زادے اور بادشاہ زادے تھے۔ دعا میں بھی یہ رنگ رہا کہ بادشاہت ملے اور اعجازی رنگ کی ملے۔ وہ زمانہ ملوک اور جبارین کا تھا، اس حیثیت سے بھی یہ دعا مذاق زمانہ کے موافق تھی اور ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا مقصد ملک حاصل کرنے سے اپنی شوکت و حشمت کا مظاہرہ کرنا نہیں۔ بلکہ اس دین کا ظاہر و غالب کرنا اور قانون سماوی کا پھیلانا ہوتا ہے جس کے وہ حامل بنا کر بھیجے جاتے ہیں۔ لہٰذا اس کو دنیا داروں کی دعا پر قیاس نہ کیا جائے۔

۳۷ ۔۔۔       یعنی جن ان کے حکم سے بڑی بڑی عمارتیں بنانے اور موتی وغیرہ نکالنے کے لیے دریاؤں میں غوطے لگاتے تھے۔ ہوا اور جنات کے تابع کرنے کے متعلق پہلے سورہ"سبا" وغیرہ میں کچھ تفصیل گزر چکی ہے۔

۳۸ ۔۔۔     یعنی بہت سے جنات اور تھے جن کو سرکشی اور شرارت و تمرد کی وجہ سے قید کر کے ڈال دیا تھا۔

۳۹ ۔۔۔      یعنی کسی کو بخشش دو یا نہ دو تم مختار ہو۔ اس قدر بے حساب دیا اور حساب و کتاب کا مواخذہ بھی نہیں رکھا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یہ اور مہربانی کی کہ اتنی دنیا دی اور مختار کر دیا۔ حساب معاف کر کے لیکن وہ کھاتے تھے اپنے ہاتھ کی محنت سے ٹوکرے بنا کر۔"

۴۰ ۔۔۔     یعنی بادشاہت کے باوجود جو روحانی تقرب اور مرتبہ ہمارے ہاں حاصل ہے اور فردوس بریں میں جو اعلیٰ سے اعلیٰ ٹھکانا تیار ہے وہ بجائے خود رہا۔

۴۱ ۔۔۔      قرآن کریم کے تتبع سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن امور میں کوئی پہلو شر یا ایذاء کا یا کسی مقصد صحیح کے فوت ہونے کا ہو ان کو شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں آیا۔ "وما انسانیہ الا الشیطان ان اذکرہ" (کہف، رکوع۹) کیونکہ اکثر اس قسم کی چیزوں کا سبب قریب یا بعید کسی درجہ میں شیطان ہوتا ہے۔ اسی قاعدہ سے حضرت ایوب نے اپنی بیماری یا تکلیف یا آزار کی نسبت شیطان کی طرف کی گویا تواضعاً و تأدباً یہ ظاہر کیا کہ ضرور مجھ سے کچھ تساہل یا کوئی غلطی اپنے درجہ کے موافق صادر ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں یہ آزار پیچھے لگا۔ یا حالت مرض و شدت میں شیطان القائے وساوس کی کوشش کرتا ہو گا اور یہ اس کی مدافعت میں تعب و تکلیف اٹھاتے ہوں گے۔ اس کو نصب و عذاب سے تعبیر فرمایا۔ واللہ اعلم۔ (تنبیہ) حضرت ایوب کا قصہ "سورہ انبیاء" میں گزر چکا۔ وہاں ملاحظہ کر لیا جائے مگر واضح رہے کہ قصہ گویوں نے حضرت ایوب کی بیماری کے متعلق جو افسانے بیان کیے ہیں اس میں مبالغہ بہت ہے۔ ایسا مرض جو عام طور پر لوگوں کے حق میں تنفر اور استقدار کا موجب ہو انبیاء علیہم السلام کی وجاہت کے منافی ہے کما قال تعالیٰ "لاتکونوا کالذین اذوا موسیٰ فبراہ اللہ مما قالوا وکان عند اللہ وجیہاً" (احزاب، رکوع۹) لہٰذا اسی قدر بیان قبول کرنا چاہیے جو منصب نبوت کے منافی نہ ہو۔

۴۳ ۔۔۔     جب اللہ نے چاہا کہ ان کو چنگا کرے، حکم دیا کہ زمین پہ پاؤں ماریں۔ پاؤں مارنا تھا کہ قدرت نے وہاں سے ٹھنڈے پانی کا چشمہ نکال دیا۔ اسی سے نہایا کرتے اور پانی پیتے۔ وہ ہی ان کی شفاء کا سبب ہوا۔ اور ان کے گھرانے کے لوگ جو چھت کے نیچے دب کر مر گئے تھے اللہ نے اپنی مہربانی سے ان سے دگنے عطا کیے تا عقلمند لوگ ان واقعات کو دیکھ کر سمجھیں کہ جو بندہ مصائب میں مبتلا ہو کر صبر کرتا اور خدائے واحد کی طرف رجوع ہوتا ہے حق تعالیٰ اس کی کس طرح کفالت و اعانت فرماتے ہیں۔

۴۴ ۔۔۔     حضرت ایوب نے حالت مرض میں کسی بات پر خفا ہو کر قسم کھائی کہ تندرست ہو گئے تو اپنی عورت کو سو لکڑیاں ماریں گے۔ وہ بی بی اس حالت کی رفیق تھی اور چنداں قصور وار بھی نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے قسم سچی کرنے کا ایک حیلہ ان کو بتلا دیا جو ان ہی کے لیے مخصوص تھا۔ آج اگر کوئی اس طرح کی قسم کھا بیٹھے تو اس کے پورا کرنے کے لیے اتنی بات کافی نہ ہو گی (تنبیہ) جس حیلہ سے کسی حکم شرعی یا مقصد دینی کا ابطال ہوتا ہو وہ جائز نہیں۔ جیسے اسقاط زکوٰۃ وغیرہ کے حیلے لوگوں نے نکالے ہیں۔ ہاں جو حیلہ حکم شرعی کو باطل نہ کرے بلکہ کسی معروف کا ذریعہ بنتا ہو اس کی اجازت ہے۔ والتفصیل یطلب من مظانہ۔

۴۵ ۔۔۔       یعنی عمل اور معرفت والے جو ہاتھ پاؤں سے بندگی کرتے اور آنکھوں سے خدا کی قدرتیں دیکھ کر یقین و بصیرت زیادہ کرتے ہیں۔

۴۶ ۔۔۔       انبیاء کا امتیاز یہ ہے کہ ان کے برابر خدا کو اور آخرت کو یاد رکھنے والا کوئی نہیں۔ اسی خصوصیت کی وجہ سے اللہ کے ہاں ان کو سب سے ممتاز مرتبہ حاصل ہے۔

۴۸ ۔۔۔     حضرت اسماعیل اور ذوالکفل کا ذکر پہلے گزر چکا اور "الیسع" کہتے ہیں کہ حضرت الیاس کے خلیفہ تھے ان کو بھی اللہ نے نبوت عطا فرمائی۔

۴۹ ۔۔۔       یعنی یہ مذکور تو انبیاء کا تھا۔ آگے عام متقین کا انجام سن لو۔

۵۰ ۔۔۔  حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "جب بہشت میں داخل ہوں گے ہر کوئی بدون بتائے اپنے گھر میں چلا جائے گا۔"

۵۱ ۔۔۔      یعنی قسم قسم کے میوے، پھل اور پینے کی چیزیں حسب خواہش غلمان حاضر کریں گے۔

۵۲ ۔۔۔      یعنی سب عورتیں نوجوان ایک عمر ہوں گی یا شکل و شمائل میں خوبو میں اپنے ازواج کی ہم عمر معلوم ہوں گی۔

۵۴ ۔۔۔     یعنی غیر منقطع اور لازوال نعمتیں ہیں جن کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو گا۔ "رزقنا اللہ منہا یفضلہ وکرمہ فانہ اکرم الاکرمین وارحم الراحمین"

۵۵ ۔۔۔      یعنی پرہیزگاروں کا انجام سن چکے۔ آگے شریروں کا انجام سن لو۔

۵۷ ۔۔۔     ۱: یعنی لو! یہ حاضر ہے۔ اب اس کا مزہ چکھیں۔

۲:  "غساق" سے بعض نے کہا دوزخیوں کے زخموں کی پیپ اور ان کی آلائش مراد ہیں۔ جس میں سانپوں بچھوؤں کا زہر ملا ہو گا۔ اور بعض کے نزدیک "غساق" حد سے زیادہ ٹھنڈے پانی کو کہتے ہیں جس کے پینے سے سخت اذیت ہو۔ گویا "حمیم" کی پوری ضد۔ واللہ اعلم۔

۶۰ ۔۔۔       یہ گفتگو دوزخیوں کی آپس میں ہو گی، جس وقت فرشتے ان کو یکے بعد دیگرے لا لا کر دوزخ کے کنارے پر جمع کریں گے۔ پہلا گروہ سرداروں کا ہو گا بعدہٗ ان کے مقلدین و اتباع کی جماعت آئے گی۔ اس کو دور سے آتے ہوئے دیکھ کر پہلے لوگ کہیں گے کہ لو! یہ ایک اور فوج دھنستی اور کھپتی ہوئی تمہارے ساتھ دوزخ میں گرنے کے لیے چلی آ رہی ہے۔ خدا کی مار ان پر۔ یہ بھی یہیں آ کر مرنے کو تھے۔ خدا کرے ان کو کہیں کشادہ جگہ نہ ملے۔ اس پر وہ جواب دیں گے کہ کم بختو! تمہی پر خدا کی مار ہو خدا تم کو ہی کہیں آرام کی جگہ نہ دے، تم ہی تھے جن کے اغواء و اضلال کی بدولت آج ہم کو یہ مصیبت پیش آئی۔ اب بتاؤ کہاں جائیں۔ جو کچھ ہے یہی جگہ ٹھہرنے کی ہے جس طرح ہو یہاں ہی سب مرو کھپو۔

۶۱ ۔۔۔       یعنی آپس میں لعن طعن کر کے پھر حق تعالیٰ سے عرض کریں گے کہ اے پروردگار! جو اپنی شقاوت سے یہ بلا اور مصیبت ہمارے سر پر لایا۔ اس کو دوزخ میں دوگنا عذاب دیجئے۔ شاید سمجھیں گے کہ ان کا دگنا عذاب دیکھ کر ذرا دل ٹھنڈا ہو جائے گا۔ حالانکہ وہاں تسلی کا سامان کہاں؟ ایک دوسرے کو کیا سنا اور پھٹکارنا یہ بھی ایک مستقل عذاب ہو گا۔

۶۳ ۔۔۔     وہاں دیکھیں گے کہ سب جان پہچان والے لوگ ادنیٰ و اعلیٰ دوزخ میں جانے کے واسطے جمع ہوئے ہیں۔ مگر جن مسلمانوں کو پہچانتے تھے اور سب سے زیادہ برا جان کر مذاق اڑایا کرتے تھے وہ اس جگہ نظر نہیں آتے، تو حیران ہو کر کہیں گے کہ کیا ہم نے غلطی سے ان کے ساتھ ٹھٹھا کیا تھا وہ اس قابل نہ تھے کہ آج دوزخ کے نزدیک رہیں، یا اسی جگہ کہیں ہیں پر ہماری آنکھیں چوک گئیں۔ ہمارے دیکھنے میں آتے۔

۶۴ ۔۔۔       یعنی بظاہر یہ بات خلاف قیاس ہے کہ اس افراتفری میں ایک دوسرے سے جھگڑیں۔ عذاب کا ہولناک منظر کیسے دوسری طرف متوجہ رہنے دے گا۔ لیکن یاد رکھو! ایسا ہو کر رہے گا۔ یہ بالکل یقینی چیز ہے جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ اور حقیقت میں یہ ان کے عذاب کی تکمیل ہے۔

۶۶ ۔۔۔     میرا کام تو اتنا ہی ہے کہ تم کو اس آنے والی خوفناک گھڑے سے ہشیار کر دوں اور جو بھیانک مستقبل آنے والا ہے اس سے بے خبر نہ رہنے دوں۔ باقی سابقہ جس حاکم سے پڑنے والا ہے وہ تو وہ ہی اکیلا خدا ہے جس کے سامنے کوئی چھوٹا بڑا دم نہیں مار سکتا۔ ہر چیز اس کے آگے دبی ہوئی ہے۔ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کوئی چیز نہیں جو اس کے زیر تصرف نہ ہو۔ جب تک چاہے ان کو قائم رکھے جب چاہے توڑ پھوڑ کر برابر کر دے۔ اس عزیز و غالب کا ہاتھ کون پکڑ سکتا ہے۔ اس کے زبردست قبضہ سے کون نکل کر بھاگ سکتا ہے اور ساتھ ہی اس کی لامحدود و رحمت و بخشش کو کس کی مجال ہے، محدود کر دے۔

۶۸ ۔۔۔   یعنی قیامت اور اس کے احوال کوئی معمولی چیز نہیں۔ بڑی بھاری اور یقینی خبر ہے جو میں تم کو دے رہا ہوں "عم یتسائلون عن النباء العظیم الذی ھم فیہ مختلفون" (نبا، رکوع۱) مگر افسوس ہے کہ تم اس کی طرف سے بالکل بے فکر ہو۔ جو کچھ تمہاری خیر خواہی کو کہا جاتا ہے دھیان نہیں لاتے۔ بلکہ الٹا مذاق اڑاتے ہو کہ کب آئے گی۔ کیونکر آئے گی اور اتنی دیر کیوں ہی ہو رہی ہے اسے جلد کیوں نہیں بلا لیتے۔ وغیرہ ذالک۔

۷۰ ۔۔۔      ملاء اعلیٰ (اوپر کی مجلس) ملائکہ مقربین وغیرہم کی مجلس ہے جن کے توسط سے تدابیر الٰہیہ اور تصریفات کونیہ ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ یعنی ملاء اعلیٰ میں نظام عالم کے فناء و بقاء کے متعلق جو تدبیریں یا بحثیں اور قیل و قال ہوتی ہے۔ مجھے اس کی کیا خبر تھی جو تم سے بیان کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے جن اجزاء پر مطلع فرما دیا وہ بیان کر دیے۔ جو کچھ کہتا ہوں اسی کی وحی و اعلام سے کہتا ہوں۔ مجھ کو یہ ہی حکم ملا ہے کہ سب کو اس آنے والے خوفناک مستقبل سے خوب کھول کھول کر آگاہ کروں۔ رہا یہ کہ وہ وقت کب آئے گا اور قیامت کب قائم ہو گی؟نہ اندازے کے لیے اس کی ضرورت ہے نہ اس کی اطلاع کسی کو دی گئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ چند انبیاء علیہم السلام کے ایک اجتماع میں قیامت کا ذکر چلا کہ کب آئے گی سب نے حضرت ابراہیم پر حوالہ کیا انہوں نے فرمایا کہ مجھے علم نہیں۔ پھر سب نے حضرت موسیٰ پر حوالہ کیا ان کی طرف سے بھی وہ ہی جواب ملا۔ آخر سب نے حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف رجوع کیا فرمایا "وجہ الساعۃ" (عین قیامت کے وقوع کی گھڑی) تو مجھے بھی معلوم نہیں البتہ حق تعالیٰ نے مجھ سے یہ وعدہ کیا ہے الخ اور ایک حدیث میں ہے کہ حضرت موسیٰ نے حضرت جبرائیل سے قیامت کے آنے کا وقت دریافت کیا۔ فرمایا۔ "ما المسؤول عنہا باعلم من السائل" یعنی میں تم سے زیادہ نہیں جانتا۔ معلوم ہوا کہ ملاء الاعلیٰ میں قیامت کے متعلق اس قسم کی کچھ بحث و تکرار رہتی ہے۔ اور اس کے علاوہ اور بہت مسائل ہیں جن میں ایک طرح کی تکرار اور قیل و قال ہوتی ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں اللہ تعالیٰ کا آپ سے کئی مرتبہ سوال کرنا۔"فیم یختصم الملاء الاعلی" اور آپ کا جواب دینا مذکور ہے۔ مگر وہاں کے مباحثات کا علم بجز وحی الٰہی کے اور کس طرح ہو سکتا ہے۔ یہ ہی ذریعہ ہے جس سے اہل نار کے تخاصم پر آپ کو اطلاع ہوئی۔ اسی سے ملاء الاعلیٰ کے اختصام کی خبر لگی اور جو تخاصم ابلیس کا آدم کے معاملہ میں ہوا جس کا ذکر آگے آتا ہے وہ بھی اسی ذریعہ سے معلوم ہوا۔

۷۱ ۔۔۔     حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔"ایک یہ بھی تکرار تھی فرشتوں کی جو بیان فرمایا۔"

۷۲ ۔۔۔      یعنی ڈھانچہ ٹھیک تیار کر کے اپنی طرف سے ایک روح پھونکوں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "کہ "روحی" (اپنی جان) اس لیے فرمایا کہ آب و خاک سے نہیں بنی۔ عالم غیب سے آئی۔" کچھ مضمون روح کے متعلق سورہ "بنی اسرائیل" میں گزرا ہے۔ وہاں روح کی اس اضافت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ملاحظہ کر لیا جائے۔

۷۴ ۔۔۔     ۱: یہ قصہ سورہ "بقرہ"، "اعراف" وغیرہ کئی سورتوں میں گزر چکا اعراف کے فوائد میں ہم نے مفصل بحث کی ہے اسے ایک مرتبہ دیکھ لیا جائے۔

۲:   حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یہ (ابلیس اصل سے) جن تھا جو اکثر خدا کے حکم سے منکر ہیں۔ لیکن اب (اپنی کثرت عبادت وغیرہ کے سبب سے) رہنے لگا تھا فرشتوں میں۔"

۷۵ ۔۔۔       ۱: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی بدن کو ظاہر کے ہاتھ سے اور روح کو غیب (باطن) کے ہاتھ سے۔ اللہ غیب کی چیزیں ایک طرح کی قدرت سے اور ظاہر کی چیزیں دوسری طرح کی قدرت سے بناتا ہے اس انسان میں دونوں طرح کی قدرت خرچ کی۔" (سورہ "مائدہ" میں پارہ ششم کے ختم کے قریب "بل یداہ مبسوطتان ینفق کیف یشاء" کا فائدہ ملاحظہ کر لیا جائے) ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ کی نعوت و صفات میں سلف کا مسلک ہی اقوی و احوط ہے۔

۲:   یا جان بوجھ کر اپنے کو بڑا بنانا چاہا۔ یا واقعے میں تو اپنا مرتبہ ہی اونچا سمجھتا ہے۔

۷۶ ۔۔۔     سورہ اعراف میں اس کا بیان گزر چکا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ آگ ہے گرم پر جوش اور مٹی سرد ہے خاموش۔ ابلیس نے آگ کو اچھا سمجھا اللہ نے اس مٹی کو پسند رکھا۔"

۷۷ ۔۔۔       یعنی بہشت میں فرشتوں کی صحبت میں جانا تھا۔ اب نکالا گیا۔

۷۸ ۔۔۔     یعنی اس وقت تک تیرے اعمال کی بدولت پھٹکار بڑھتی جائے گی۔ بعدہٗ کیا ہو گا؟ اس کا تو پوچھنا ہی کیا ہے۔ آگے آتا ہے "لا ملان جہنم منک وممن تبعک منہم اجمعین"وہاں جو لعنت ہو گی یہاں کی لعنتیں اس کے سامنے گرد ہو جائیں گی۔

۷۹ ۔۔۔      یعنی صور کے دوسرے نفخہ تک۔

۸۱ ۔۔۔      یعنی پہلے نفخہ کے قریب تک۔ اس کے بعد نہیں۔

۸۴ ۔۔۔       یعنی میری سب باتیں سچی اور ٹھیک ہی ہوتی ہیں۔

۸۸ ۔۔۔     یعنی نصیحت سے غرض یہ ہے کہ اپنے دشمن اور دوست میں تمیز کرو۔ شیطان لعین جو ازلی دشمن ہے اس کی راہ مت چلو۔ نبیوں کا کہنا مانو تو جو تمہاری بہی خواہی کے لیے آئے ہیں۔ میں تم سے اس نصیحت کا کوئی صلہ یا معاوضہ نہیں مانگتا، نہ خواہ مخواہ اپنی طرف سے بنا کر کوئی بات کہتا ہوں۔ اللہ نے ایک فہمائش کی وہ تمہارے تک پہنچا دی۔ تھوڑی مدت کے بعد تم خود معلوم کر لو گے کہ جو خبریں دی گئیں کہاں تک درست ہیں اور جو نصیحت کی گئی کیسی سچی اور مفید تھی۔ تم سورۃ ص بعون اللہ وحسن توفیقہ وللہ الحمد والمنۃ۔