تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الفَتْح

۱۔۔۔   اس سورت کی مختلف آیات میں متعدد واقعات کی طرف اشارہ ہے۔ بغرض سہولت فہم ان کو مختصراً یہاں لکھ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ (الف) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں خواب دیکھا کہ ہم مکہ میں امن و امان کے ساتھ داخل ہوئے اور عمرہ کر کے حلق و قصر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ خواب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیان فرمایا۔ گو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدت کی تعیین نہیں فرمائی تھی، مگر شدت اشتیاق سے اکثروں کا خیال اس طرف گیا کہ امسال عمرہ میسر ہو گا اتفاقاً آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا قصد بھی عمرہ کا ہو گیا۔ (ب) آپ صلی اللہ علیہ و سلم تقریباً ڈیڑھ ہزار آدمیوں کو ہمراہ لے کر بغرض عمرہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور " ہدی" بھی آپ کے ساتھ تھی۔ یہ خبر مکہ پہنچی تو قریش نے بہت سا مجمع کر کے اتفاق کر لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مکہ میں نہ آنے دیں گے۔ حالانکہ ان کے ہاں حج و عمرہ سے دشمن کو بھی روکا نہیں جاتا تھا۔ بہرحال "حدیبیہ" پہنچ کر جو مکہ سے قریب ہے آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی اور کسی طرح اٹھنے کا نام نہ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "حَسْبَہَا حَابِسُ الْفِیْل" اور فرمایا کہ خدا کی قسم اہل مکہ مجھ سے جس بات کا مطالبہ کریں گے جس میں حرمات اللہ کی تعظیم قائم رہے میں منظور کروں گا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہیں قیام فرمایا (اسی مقام کو آجکل "شمسیہ" کہتے ہیں) (ج) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ والوں کے پاس قاصد بھیجا کہ ہم لڑنے نہیں آئے، ہم کو آنے دو، عمرہ کر کے چلے جائیں گے جب اس کا کچھ جواب نہ ملا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو وہ ہی پیغام دے کر بھیجا اور بعض مسلمان مرد و عورت جو مکہ میں مغلوب و مظلوم تھے ان کو بشارت پہنچائی کہ اب عنقریب مکہ میں اسلام غالب ہو جائے گا۔ حضرت عثمان رضی اللہ کو قریش نے روک لیا۔ ان کی واپسی میں جو دیر لگی یہاں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ حضرت عثمان رضی اللہ قتل کر دیے گئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس خیال سے کہ شاید لڑائی کا موقع ہو جائے سب صحابہ سے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر جہاد کی بیعت لی۔ جب قریش نے بیعت کی خبر سنی تو ڈر گئے اور حضرت عثمان رضی اللہ کو واپس بھیج دیا (د) پھر مکہ کے چند رؤساء بغرض صلح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صلح نامہ لکھنا قرار پایا۔ اس سلسلہ میں بعض امور پر بحث و تکرار بھی ہوئی اور مسلمانوں کو غصہ اور جوش آیا کہ تلوار سے معاملہ ایک طرف کر دیا جائے۔ لیکن آخر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ والوں کے اصرار کے موافق سب باتیں منظور فرما لیں اور مسلمانوں نے بھی بے انتہا ضبط و تحمل سے کام لیا اور صلح نامہ تیار ہو گیا جس میں ایک شرط کفار کی طرف سے یہ تھی کہ آپ اس سال واپس چلے جائیے اور سال آئندہ غیر مسلح آ کر عمرہ کر لیجیے۔ اور یہ کہ فریقین میں دس سال تک لڑائی نہ ہو گی۔ اس مدت میں جو ہمارے ہاں سے تمہارے پاس جائے اسے آپ اپنے پاس نہ رکھیں۔ اور جو تمہارا آدمی ہمارے ہاں آئے گا ہم واپس نہ کریں گے۔ صلح کا تمام معاملہ طے ہو جانے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے "حدیبیہ" میں ہی ہدی کا جانور ذبح کیا اور حلق و قصر کر کے احرام کھول دیا اور مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ (ہ) راستہ میں یہ سورت (الفتح) نازل ہوئی۔ اور یہ سب واقعہ اواخر ۰۶ ھ میں پیش آیا (و) حدیبیہ سے واپس تشریف لا کر اوائل ۰۷ھ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے "خیبر" فتح کیا جو مدینہ سے شمالی جانب چار منزل پر شام کی سمت یہود کا ایک شہر تھا۔ اس حملہ میں کوئی شخص ان صحابہ کے علاوہ شریک نہ تھا جو "حدیبیہ" میں آپ کے ہمراہ تھے۔ (ز) سال آئندہ یعنی ذیقعدہ ۰۷ھ میں آپ حسب معاہدہ عمرۃ القضاء کے لیے تشریف لے گئے اور امن و امان کے ساتھ مکہ پہنچ کر عمرہ ادا فرمایا۔ (ح) عہد نامہ میں جو دس سال تک لڑائی بند رکھنے کی شرط تھی قریش نے نقض عہد کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ پر چڑھائی کر دی اور رمضان ۰۸ھ میں اس کو فتح کر لیا۔

۲۔۔۔     ۱: "حدیبیہ" کی صلح بظاہر ذلت و مغلوبیت کی صلح نظر آتی ہے اور شرائط صلح پڑھ کر بادی النظر میں یہ ہی محسوس ہوتا ہے کہ تمام جھگڑوں کا فیصلہ کفار قریش کے حق میں ہوا۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی صلح کی ظاہری سطح دیکھ کر سخت محزون و مضطرب تھے۔ وہ خیال کرتے تھے کہ اسلام کے چودہ پندرہ سو سرفروش سپاہیوں کے سامنے قریش اور ان کے طرفداروں کی جمعیت کیا چیز ہے۔ کیوں تمام نزاعات کا فیصلہ تلوار سے نہیں کر دیا جاتا۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھیں ان احوال و نتائج کو دیکھ رہی تھیں جو دوسروں کی نگاہوں سے اوجھل تھے اور اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سینہ سخت سے سخت ناخوشگوار واقعات پر تحمل کرنے کے لیے کھول دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بے مثال استغناء اور توکل و تحمل کے ساتھ ان کی ہر شرط قبول فرماتے رہے اور اپنے اصحاب کو "اللّٰہَ وَرَسُولَہ اعْلَمُ" کہہ کر تسلی دیتے رہے۔ یعنی اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے۔ تا آنکہ یہ سورت نازل ہوئی اور خداوند قدوس نے اس صلح اور فیصلہ کا نام "فتح مبین" رکھا لوگ اس پر بھی تعجب کرتے تھے کہ یا رسول اللہ کیا یہ فتح ہے فرمایا ہاں بہت بڑی فتح۔ حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کی بیعت جہاد اور معمولی چھیڑ چھاڑ کے بعد کفار معاندین کا مرعوب ہو کر صلح کی طرف جھکنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا باوجود جنگ اور انتقام پر کافی قدرت رکھنے کے ہر موقع پر اغماض اور عفو و درگزر سے کام لینا اور محض تعظیم بیت اللہ کی خاطر ان کے بیہودہ مطالبات پر قطعاً برافروختہ نہ ہونا۔ یہ واقعات ایک طرف اللہ کی خصوصی مدد و رحمت کے استجلاب کا ذریعہ بنتے تھے اور دوسری جانب دشمنوں کے قلوب پر اسلام کی اخلاقی و روحانی طاقت اور پیغمبر علیہ السلام کی شان پیغمبری کا سکہ بٹھلا رہے تھے۔ گو عہد نامہ لکھتے وقت ظاہر بینوں کو کفار کی جیت نظر آتی تھی۔ لیکن ٹھنڈے دل سے فرصت میں بیٹھ کر غور کرنے والے خوب سمجھتے تھے کہ فی الحقیقت تمام تر فیصلہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا نام "فتح مبین" رکھ کر متنبہ کر دیا کہ یہ صلح اس وقت بھی فتح ہے اور آئندہ کے لیے بھی آپ کے حق میں بیشمار فتوحات ظاہری و باطنی کا دروازہ کھولتی ہے۔ اس صلح کے بعد کافروں اور مسلمانوں کو باہم اختلاط اور بے تکلف ملنے جلنے کا موقع ہاتھ آیا۔ کفار، مسلمانوں کی زبان سے اسلام کی باتیں سنتے اور ان مقدس مسلمانوں کے احوال و اطوار کو دیکھتے تو خود بخود ایک کشش اسلام کی طرف ہوتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صلح "حدیبیہ" سے فتح مکہ تک یعنی تقریباً دو سال کی مدت میں اتنی کثرت سے لوگ مشرف با اسلام ہوئے کہ کبھی اس قدر نہ ہوئے تھے۔ خالد بن ولید اور عمرو بن العاص جیسے نامور صحابہ اسی دوران میں اسلام کے حلقہ بگوش بنے۔ یہ جسموں کو نہیں، دلوں کو فتح کر لینا اسی صلح حدیبیہ کی اعظم ترین برکت تھی۔ اب جماعت اسلام چاروں طرف اس قدر پھیل گئی اور اتنی بڑھ گئی تھی کہ مکہ معظمہ کو فتح کر کے ہمیشہ کے لیے شرک کی گندگی سے پاک کر دینا بالکل سہل ہو گیا۔ "حدیبیہ" میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ صرف ڈیڑھ ہزار جانباز تھے لیکن دو برس کے بعد مکہ معظمہ کی فتح عظیم کے وقت دس ہزار لشکر جرار آپ کے ہمرکاب تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ نہ صرف فتح مکہ اور فتح خیبر، بلکہ آئندہ کی کل فتوحات اسلامیہ کے لیے صلح حدیبیہ بطور اساس و بنیاد اور زرین دیباچہ کے تھی۔ اور اس تحمل و توکل اور تعظیم حرمات اللہ کی بدولت جو صلح کے سلسلہ میں ظاہر ہوئی، جن علوم و معارف قدسیہ اور باطنی مقامات و مراتب کا فتح باب ہوا ہو گا اس کا اندازہ تو کون کر سکتا ہے، ہاں تھوڑا سا اجمالی اشارہ حق تعالیٰ نے ان آیتوں میں فرمایا ہے یعنی جیسے سلاطین دنیا کسی بہت بڑے فاتح جنرل کو خصوصی اعزازو اکرام سے نوازتے ہیں، خداوند قدوس نے اس فتح مبین کے صلہ میں آپ کو چار چیزوں سے سرفراز فرمایا۔ جن میں پہلی چیز غفران ذنوب ہے (ہمیشہ سے ہمیشہ تک کی سب کوتاہیاں جو آپ کے مرتبہ رفیع کے اعتبار سے کوتاہی سمجھی جائیں بالکلیہ معاف ہیں) یہ بات اللہ تعالیٰ نے اور کسی بندہ کے لیے نہیں فرمائی مگر حدیث میں آیا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم اس قدر عبادت اور محنت کرتے تھے کہ راتوں کو کھڑے کھڑے پاؤں سوج جاتے تھے۔ اور لوگوں کو دیکھ کر رحم آتا تھا۔ صحابہ عرض کرتے کہ یا رسول اللہ! آپ اس قدر محنت کیوں کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما چکا۔ فرماتے۔ "اَفَلاَاکُونُ عَبْدًا شَکُورًا۔" (تو کیا میں اس کا شکر گزار بندہ نہ بنوں) ظاہر ہے۔ اللہ بھی ایسی بشارت اسی بندہ کو سنائیں گے جو سن کر نڈر نہ ہو جائے بلکہ اور زیادہ خدا تعالیٰ سے ڈرنے لگے۔ شفاعت کی طویل حدیث میں ہے کہ جب مخلوق جمع ہو کر حضرت مسیح علیہ السلام کے پاس جائے گی تو وہ فرمائیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جاؤ جو خاتم النبیین ہیں اور جن کی اگلی پچھلی سب خطائیں اللہ تعالیٰ معاف کر چکا ہے (یعنی اس مقام شفاعت میں اگر بالفرض کوئی تقصیر بھی ہو جائے تو وہ بھی عفو عام کے تحت میں پہلے ہی آ چکی ہے (بجز ان کے اور کسی کا یہ کام نہیں۔

۲: یعنی صرف تقصیرات سے درگزر نہیں بلکہ جو کچھ ظاہری و باطنی اور مادی و روحی انعام و احسان اب تک ہو چکے ہیں ان کی پوری تکمیل و تمیم کی جائے گی۔

۳: یعنی تجھ کو ہدایت و استقامت کی سیدھی راہ پر ہمیشہ قائم رکھے گا۔ معرفت و شہود کے غیر محدود و مراتب پر فائز ہونے اور ابدان و قلوب پر اسلام کی حکومت قائم کرنے کی راہ میں تیرے لیے کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو سکے گی۔ لوگ جوق در جوق تیری ہدایت سے اسلام کے سیدھے راستہ پر آئیں گے۔ اور اس طرح تیرے اجور و حسنات کے ذخیرہ میں بیشمار اضافہ ہو گا۔

۳۔۔۔    یعنی اللہ کی ایسی مدد آئیگی جسے کوئی نہ روک سکے گا نہ دبا سکے گا۔ اور اسی کی مدد سے فتح و ظفر تیرے قدموں کے ساتھ ساتھ ہو گی۔ سورہ "نصر" میں فرمایا کہ جب خدا کی طرف سے مدد اور فتح آ جائے اور لوگ دین الٰہی میں فوج در فوج داخل ہونے لگیں تو اللہ کی تسبیح و تحمید اور اس سے استغفار کیجیے۔ ظاہر ہے کہ اس فتح مبین پر بھی آپ نے استغفار کیا ہو گا تو اس کے جواب میں "لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ " الخ کا مضمون اور بھی زیادہ صاف ہو جاتا ہے۔ نبہ علیہ ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ۔

۴۔۔۔    ۱: اطمینان اتارا۔ یعنی باوجود خلاف طبع ہونے کے رسول کے حکم پر جمے رہے۔ ضدی کافروں کے ساتھ ضد نہیں کرنے لگے۔ اس کی برکت سے ان کے ایمان کا درجہ بڑھا اور مراتب عرفان و ایقان میں ترقی ہوئی۔ انہوں نے اول بیعت جہاد کر کے ثابت کر دیا تھا کہ ہم اللہ کی راہ میں لڑنے مرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ ایمان کا ایک رنگ تھا اس کے بعد جب پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسلمانوں کے جذبات کے خلاف اللہ کے حکم سے صلح منظور کر لی تو ان کے ایمان کا دوسرا رنگ یہ تھا کہ اپنے پر جوش جذبات و عواطف کو زور سے دبا کر اللہ و رسول کے فیصلہ کے آگے گردن انقیاد خم کر دی۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ورضوانہ۔

۲: یعنی وہ ہی جانتا ہے کہ کس وقت قتال کا حکم دینا تمہارے لیے مصلحت ہے اور کس موقع پر قتال سے باز رکھنا اور صلح کرنا حکمت ہے۔ تم کو اگر قتال کا حکم ہو تو کبھی کفار کی کثرت کا خیال کر کے پس و پیش نہ کرنا کیونکہ آسمان و زمین کے لشکروں کا مالک وہ ہی ہے جو تمہاری قلت کے باوجود اپنے غیبی لشکروں سے مدد کر سکتا ہے جیسے "بدر"، "احزاب" اور "حنین" وغیرہ میں کی۔ اور اگر صلح کرنے اور قتال سے رُکنے کا حکم دے تو اسی کی تعمیل کرو۔ یہ خیال نہ کرنا کہ افسوس صلح ہو گئی اور کفار بچ نکلے ان کو سزا نہ ملی اگر قتال کا حکم ہو جاتا تو ہم ان کو ہلاک کر ڈالتے۔ کیونکہ ان کا ہلاک ہونا کچھ تم پر موقوف نہیں۔ ہم چاہیں تو اپنے دوسرے لشکروں سے ہلاک کر سکتے ہیں۔ بہرحال زمین و آسمان کے لشکروں کا مالک اگر صلح کا حکم دے گا تو ضرور اسی میں بہتری اور حکمت ہو گی۔

۵۔۔۔  ۱: جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے "اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُّبِیْنًا۔" الخ پڑھ کر صحابہ کو سنائی تو انہوں نے آپ کی خدمت میں مبارکباد عرض کی اور کہا، یا رسول اللہ! یہ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے ہوا۔ ہمارے لیے کیا ہے۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں یعنی اللہ نے اطمینان و سکینہ اتار کر مومنین کا ایمان بڑھایا۔ تاکہ انہیں نہایت اعزازو اکرام کے ساتھ جنت میں داخل کرے اور ان کی برائیوں اور کمزوریوں کو معاف فرما دے۔ حدیث میں ہے کہ جن اصحاب نے حدیبیہ میں بیعت کی ان میں سے ایک بھی دوزخ میں داخل نہ ہو گا۔

(تنبیہ) مومنات کا ذکر تعمیم کے لیے ہے۔ یعنی مرد ہو یا عورت کسی کی محبت اور ایمانداری ضائع نہیں جاتی۔ احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اس سفر میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھیں۔

۲: بعض نقال صوفی یا کوئی مغلوب الحال بزرگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ جنت طلب کرنا ناقصوں کا کام ہے، یہاں سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں یہ ہی بڑا کمال ہے۔

۶۔۔۔    ۱: یعنی مومنین کے دلوں میں صلح کی طرف سے اطمینان پیدا کر کے اسلام کی جڑ مضبوط کر دی اور اسلامی فتوحات و ترقیات کا دروازہ کھول دیا جو انجام کار سبب ہے کافروں اور منافقوں پر مصیبت ٹوٹنے اور ان کو پوری طرح سزا ملنے کا۔

۲:  "بڑی اٹکلیں" یہ کہ مدینے سے چلتے وقت منافق (بجز ایک جد بن قیس کے) مسلمانوں کے ساتھ نہیں آئے، بہانے کر کے بیٹھ رہے۔ دل میں سوچا کہ مڈ بھیڑ ضرور ہو کر رہے گی۔ یہ مسلمان لڑائی میں تباہ ہوں گے۔ ایک بھی زندہ واپس نہ آئے گا۔ کیونکہ وطن سے دور، فوج کم، اور دشمن کا دیس ہو گا ہم کیوں ان کے ساتھ اپنے کو ہلاکت میں ڈالیں اور کفار مکہ نے یہ خیال کیا کہ مسلمان بظاہر "عمرے" کے نام سے آ رہے ہیں اور فریب و دغا سے چاہتے ہیں کہ مکہ معظمہ ہم سے چھین لیں۔

۳: یعنی زمانہ کی گردش اور مصیبت کے چکر میں آ کر رہیں گے کہاں تک احتیاطیں اور پیش بندیاں کریں گے۔

۷۔۔۔    یعنی وہ سزا دینا چاہے تو کون بچا سکتا ہے۔ خدائی لشکر ایک لمحہ میں پیس کر رکھ دے۔ مگر وہ زبردست ہونے کے ساتھ حکمت والا بھی ہے۔ حکمت الٰہی مقتضی نہیں کہ فوراً ہاتھوں ہاتھ ان کا استیصال کیا جائے۔

۸۔۔۔   یعنی آپ اللہ کے فرمانبرداروں کو خوشی اور نا فرمانوں کو ڈر سناتے ہیں اور خود اپنے احوال بتلاتے ہیں جیسے "انا فتحنا" سے یہاں تک تینوں قسم کے مضامین آ چکے۔ اور آخرت میں بھی اپنی امت پر نیز انبیاء علیہم السلام کے حق میں گواہی دیں گے۔

۹۔۔۔     ۱: تُعَزِّرُوْہُ اور تُوَقِّرُوْہُ کی ضمیریں اگر اللہ کی طرف راجع ہوں تو اللہ کی مدد کرنے سے مراد اس کے دین اور پیغمبر کی مدد کرنا ہے اور اگر رسول کی طرف راجع ہوں تو پھر کوئی اشکال نہیں۔

۲: یعنی اللہ کی پاکی بیان کرتے رہو۔ خواہ نمازوں کے ضمن میں یا نمازوں سے باہر۔

۱۰۔۔۔   ۱: لوگ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر بیعت کرتے تھے اس کو فرمایا کہ نبی کے ہاتھ پر بیعت کرنا گویا خدا سے بیعت کرنا ہے کیونکہ حقیقت میں نبی خدا کی طرف سے بیعت لیتا ہے اور اسی کے احکام کی تعمیل و تاکید بیعت کے ذریعہ سے کراتا ہے۔ فہذا کما قال "مَنْ یُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہُ " (نساء، رکوع۱۱'آیت ۸۰) وَکَمَا قَالَ۔ "وَمَا رَمَیْتَ اِذْرَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمیٰ۔" (انفال، رکوع۲'آیت ۱۷) جب بیعت نبوی کی حقیقت یہ ہوئی تو یقیناً خدا تعالیٰ کا دست شفقت و حمایت ان کے ہاتھوں کے اوپر ہو گا۔ (تنبیہ) حضور صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ سے بھی اسلام پر کبھی جہاد پر کبھی کسی دوسرے امر پر بیعت لیتے تھے۔ اگر بطریق مشروع ہو تو اسی لفظ کے تحت میں مندرج ہو گی۔ "حدیبیہ" میں اس بات پر بیعت لی گئی کہ مرتے دم تک میدان جہاد سے نہیں بھاگیں گے۔

۲: یعنی بیعت کے وقت جو قول و قرار کیا ہے، اگر کوئی اس کو توڑے گا تو اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اللہ و رسول کو کچھ ضرر نہیں پہنچتا۔ اسی کو عہد شکنی کی سزا ملے گی۔ اور جس نے استقامت دکھلائی اور اپنے عہد و پیمان کو مضبوطی کے ساتھ پورا کیا تو اس کا بدلہ بھی بہت پورا ملے گا۔

۱۱۔۔۔   ۱: مدینہ سے روانہ ہوتے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی روانگی کا اعلان کر دیا اور مسلمانوں کو ساتھ چلنے کے لیے ابھارا تھا۔ شاید قرائن سے آپ کو بھی لڑائی کا احتمال ہو۔ اس پر دیہاتی گنوار جن کے دلوں میں ایمان راسخ نہ ہوا تھا، جان چرا کر بیٹھ رہے۔ اور آپس میں کہنے لگے کہ بھلا ہم ایسی قوم کی طرف جائیں گے جو محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے گھر (مدینہ) میں آ کر ان کے کتنے ساتھیوں کو قتل کر گئی۔ اب ہم اس کے گھر جا کر اس سے لڑیں گے؟ تم دیکھ لینا اب یہ اور ان کے ساتھی اس سفر سے واپس آنے والے نہیں سب وہیں کھیت رہیں گے۔ ان آیات میں حق تعالیٰ نے ان کے نفاق کا پردہ فاش کیا ہے آپ کو مدینہ پہنچنے سے قبل راستہ میں بتلا دیا کہ تمہارے صحیح و سالم واپس جانے پر وہ لوگ اپنی غیر حاضری کے جھوٹے عذر اور حیلے بہانے کرتے ہوئے آئیں گے اور کہیں گے کہ کیا کہیے ہم کو گھر بار کے دھندوں سے فرصت نہ ملی۔ کوئی ہمارے پیچھے مال اور اہل و عیال کی خبر لینے والا نہ تھا بہرحال ہم سے کوتاہی ضرور ہوئی۔ اب اللہ سے ہمارا قصور معاف کرا دیجئے۔

۲: یعنی دل میں جانتے ہیں کہ یہ عذر بالکل غلط ہے اور استغفار کی درخواست کرنا بھی محض ظاہر داری کے لیے ہے، سچے دل سے نہیں وہ دل میں نہ اس کو گناہ سمجھتے ہیں نہ آپ پر اعتقاد رکھتے ہیں۔

۳: یعنی ہر طرح کا نفع و نقصان اللہ کے قبضہ میں ہے جس کی مشیت و ارادہ کے سامنے کسی کا کچھ بس نہیں چلتا۔ اس کو منظور نہیں تھا کہ تم کو اس سفر مبارک کی شرکت کے فوائد نصیب ہوں۔ نہ اب یہ منظور ہے کہ میں تمہارے لیے استغفار کروں۔ اس نے تمہاری حیلہ تراشی سے قبل ہی ہم کو ان جھوٹے اعذار پر مطلع کر دیا تھا۔ بہرحال اس نے ارادہ کر لیا ہے کہ تمہارے اعمال و حرکات کی بدولت "غزوہ حدیبیہ" کی گوناگوں برکات و فوائد کی طرف سے تم کو نقصان اور گھاٹے میں رکھے اور وہاں تم کہتے ہو کہ اپنے مال اور گھر والوں کی حفاظت کی وجہ سے سفر میں نہ جا سکے، تو کیا خدا اگر تمہارے مال و اولاد وغیرہ میں نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے۔ تم گھر میں رہ کر اسے روک دو گے۔ یا فرض کرو اللہ تم کو کچھ فائدہ مال و عیال میں پہنچانا چاہے اور تم سفر میں ہو، تو کیا اسے کوئی روک سکتا ہے۔ جب نفع و نقصان کو کوئی روک نہیں سکتا تو اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کے مقابلہ میں ان چیزوں کی پروا کرنا محض حماقت و ضلالت ہے، ان حیلوں بہانوں سے مت سمجھو کہ ہم اللہ کو خوش کر لیں گے بلکہ یاد رکھو اللہ تمہارے سب کھلے چھپے اعمال و احوال کی پوری خبر رکھتا ہے۔

۱۲۔۔۔  یعنی واقع میں تمہارے نہ جانے کا سبب یہ نہیں جو بیان کر رہے ہو بلکہ تمہارا خیال یہ تھا کہ اب پیغمبر اور مسلمان اس سفر سے بچ کر واپس نہ آئیں گے۔ یہی تمہاری دلی آرزو تھی اور یہ غلط اور تخمینہ تمہارے دلوں میں خوب جم گیا تھا۔ اسی لیے اپنی حفاظت اور نفع کی صورت تم نے علیحدہ رہنے میں سمجھی۔ حالانکہ یہ صورت تمہارے خسران اور تباہی کی تھی اور اللہ جانتا تھا کہ یہ تباہ و برباد ہونے والے ہیں۔

۱۴۔۔۔     یعنی جس کو وہ بخشنا نہ چاہے، میں کیسے بخشواؤں، ہاں اس کی مہربانی ہو تو تم کو توبہ کی توفیق مل جائے اور بخشش ہو جائے۔ اس کی رحمت بہرحال غضب پر سابق ہے۔

۱۵۔۔۔   ۱: "حدیبیہ" سے واپس ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو "خیبر" پر چڑھائی کرنے کا حکم ہوا۔ جہاں غدار یہود آباد تھے جو بد عہدی کر کے جنگ "احزاب" میں کافر قوموں کو مدینہ پر چڑھا لائے تھے۔ حق تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر دی کہ وہ گنوار جو "حدیبیہ" نہیں گئے، اب "خیبر" کے معرکہ میں تمہارے ساتھ چلنے کو کہیں گے۔ کیونکہ وہاں خطرہ کم اور غنیمت کی امید زیادہ ہے۔ آپ ان سے فرما دیں کہ تمہاری استدعا سے پیشتر اللہ ہم کو کہہ چکا ہے کہ تم (اس سفر میں) ہمارے ساتھ ہرگز نہیں جاؤ گے۔ اندریں صورت کیا تم ہمارے ساتھ جا سکتے ہو۔ اگر جاؤ گے تو یہ معنی ہوں گے کہ گویا اللہ کا کہا بدل دیا گیا جو کسی طرح ممکن نہیں۔

۲: یعنی اللہ نے کچھ بھی نہیں فرمایا۔ محض یہ چاہتے ہو کہ ہمارا فائدہ نہ ہو۔ سب مال غنیمت بلا شرکت غیرے تمہارے ہی ہاتھ آ جائے۔

۳: یعنی بہت تھوڑی سمجھ ہے۔ احمق یہ نہیں سمجھتے کہ مسلمانوں کے زہد و قناعت کا کیا حال ہے۔ کیا وہ مال کے حریص ہیں؟ جو تم پر حسد کریں گے؟ اور پیغمبر از راہِ حسد خدا پر جھوٹ بول دے گا؟ العیاذ باللہ۔

۱۶۔۔۔   یعنی ذرا صبر کرو۔ اس لڑائی میں تو نہیں جا سکتے لیکن آگے بہت معرکے پیش آنے ہیں۔ بڑی سخت جنگجو قوموں سے مسلمانوں کے مقابلے ہوں گے جن کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ وہ قومیں مسلمان ہو کر یا جزیہ وغیرہ دے کر اسلام کی مطیع ہو جائیں۔ اگر واقعی تم کو شوق جہاد ہے تو اس وقت میدان میں آ کر دادِ شجاعت دینا۔ اس موقع پر خدا کا حکم مانو گے تو اللہ بہترین بدلہ دے گا۔ (تنبیہ) "ان جنگجو قوموں" سے "بنو حنفیہ" وغیرہ مراد ہیں جو "مسلیمہ کذاب" کی قوم تھی یا "ہوازِن" و "ثقیف" وغیرہ جن سے "حنین" میں مقابلہ ہوا یا وہ مرتدین جن پر صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ نے فوج کشی کی۔ یا فارس و روم اور کرد وغیرہ جن سے خلفائے راشدین کے زمانہ میں لڑائیاں ہوئیں۔ ان میں بہت سے بے لڑے بھڑے مسلمان ہوئے اور مال غنیمت بھی بہت آیا۔

۲: یعنی جیسے پہلے "حدیبیہ" جانے سے پیچھے ہٹ گئے تھے اگر آئندہ ان معرکوں سے پیچھے ہٹے تو اللہ سخت دردناک سزا دے گا۔ شاید آخرت سے پہلے دنیا ہی میں مل جائے۔

۱۷۔۔۔    ۱: یعنی جہاد ان معذور لوگوں پر فرض نہیں۔

۲: یعنی تمام امور اور معاملات میں عام ضابطہ یہ ہے۔

۱۸۔۔۔    ۱: وہ کیکر کا درخت تھا حدیبیہ میں۔ غالباً "لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ " الخ فرمانے کی وجہ ہی سے اس بیعت کو "بیعت الرضوان" کہتے ہیں۔ شروع سورت میں اس کا مفصل قصہ گزر چکا۔

۲: یعنی ظاہر کا اندیشہ اور دل کا توکل، حسن نیت، صدق و اخلاص اور جب اسلام وغیرہ۔ (تنبیہ) عموماً مفسرین نے "مافی قلوبہم" سے یہ ہی مراد لیا ہے مگر ابو حیان کہتے ہیں کہ صلح اور شرائط صلح کی طرف سے دلوں میں جو رنج و غم اور اضطراب تھا وہ مراد ہے اور آگے "فانزل السکینۃ علیہم" اس پر زیادہ چسپاں ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔

۱۹۔۔۔    ۱: یعنی فتح خیبر جو حدیبیہ سے واپسی کے بعد فوراً مل گئی اور مال غنیمت بہت آیا جس سے صحابہ آسودہ ہو گئے۔

۲: یعنی اپنے زور و حکمت سے حدیبیہ کی کسر یہاں نکال دی۔ اور اسی طرح کا قصہ فتح مکہ اور حنین میں ہوا۔

۲۰۔۔۔   ۱: یعنی آئے چل کے بیشمار غنیمتیں ملنے والی ہیں۔ ان میں کا یہ ایک حصہ غزوہ خیبر میں دلوا دیا۔

۲: یعنی عام لڑائی نہ ہونے دی۔ اور حدیبیہ یا خیبر میں کفار کے ہاتھوں سے تم کو کچھ ضرر نہ پہنچنے دیا اور تمہاری غیبت میں تمہارے اہل و عیال وغیرہ پر کوئی دست درازی نہ کر سکا۔

۳: یعنی مسلمان سمجھیں کہ اللہ کی قدرت کیسی ہے اور ان کا درجہ اس کے ہاں کیا ہے اور یہ کہ اسی طرح آئندہ کے وعدہ بھی پورے ہو کر رہیں گے۔

۴: یعنی اللہ کے وعدوں پر وثوق اور اس کی لامحدود قدرت پر بھروسہ ہو گا تو اور زیادہ طاعت و فرمانبرداری کی ترغیب ہو گی۔ یہ ہی سیدھی راہ ہے۔

۲۱۔۔۔   یعنی اس بیعت کے انعام میں فتح خیبر دی۔ اور مکہ کی فتح جو اس وقت ہاتھ نہ لگی وہ بھی مل ہی چکی ہے۔ کیونکہ اللہ نے اس کا وعدہ کر لیا اور فی الحقیقت عالم اسباب میں وہ نتیجہ اسی صلح حدیبیہ کا ہے۔

۲۲۔۔۔    یعنی لڑائی ہوتی تو تم ہی غالب رہتے اور کفار پیٹھ پھیر کر بھاگتے کوئی مدد کر کے ان کو آفت سے نہ بچا سکتا۔ مگر اللہ کی حکمت اسی کو مقتضی ہوئی کہ فی الحال صلح ہو جائے۔ اور اس کی عظیم الشان برکات سے مسلمان مستفید ہوں۔

۲۳۔۔۔   یعنی جب اہل حق اور باطل کا کسی فیصلہ کن موقع پر مقابلہ ہو جائے تو آخرکار اہل حق غالب اور اہل باطل مغلوب و مقہور کیے جاتے ہیں یہ ہی عادت اللہ کی ہمیشہ سے چلی آتی ہے جس میں کوئی تبدل و تغیر نہیں۔ ہاں یہ شرط ہے کہ اہل حق بہیآت مجموعی پوری طرح حق پرستی پر قائم رہیں۔ اور بعض نے "وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃَ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا" کے معنی یوں کیے ہیں کہ اللہ کی عادت کوئی دوسرا نہیں بدل سکتا۔ یعنی کسی اور کو قدرت نہیں کہ وہ کام نہ ہونے دے جو سنت اللہ کے موافق ہونا چاہیے تھا

۲۴۔۔۔  ۱: مشرکین کی کچھ ٹولیاں "حدیبیہ" پہنچی تھیں کہ موقع پا کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو شہید کر دیں یا اکیلے دکیلے مسلمان کو ستائیں۔ چنانچہ کچھ چھیڑ چھاڑ بھی کی بلکہ ایک مسلمان کو قتل بھی کر ڈالا اور اشتعال انگیز کلمات بکتے پھرے۔ آخر صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کو زندہ گرفتار کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے حضور میں پیش کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو معاف فرما دیا اور کچھ انتقام نہیں لیا۔ آیہ ہذا میں اس قسم کے واقعات کی طرف اشارہ ہے۔ اور "ببطن مکۃ' (بیچ شہر مکہ کے) یعنی شہر کے قریب، گویا شہر کا بیچ ہی سمجھو۔

۲: یعنی ان کی شرارتیں اور تمہارا عفو و تحمل سب کچھ اللہ دیکھ رہا ہے۔

۲۵۔۔۔   ۱: یعنی حرم کے اس حصہ تک قربانی کے جانور پہنچنے نہ دیے جہاں لے جا کر ذبح کرنے کا عام دستور اور معمول ہے۔ حدیبیہ ہی میں رکے پڑے رہے۔

۲: یعنی کچھ مسلمان مرد و عورت جو مکہ میں مظلوم و مقہور تھے اور مسلمان ان کو پوری طرح جانتے نہ تھے وہ لڑائی میں بے خبری سے پیس دیے جائیں گے۔ اگر یہ خطرہ نہ ہوتا تو فی الحال لڑائی کا حکم دے دیا جاتا۔ لیکن ایسا ہوتا تو تم خود اس قومی نقصان پر متاسف ہوتے۔ اور کافروں کو یہ کہنے کا موقع ملتا کہ دیکھو! مسلمان مسلمانوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔ اس خرابی کے باعث لڑائی موقوف رکھی گئی تاکہ وہ مسلمان محفوظ رہیں۔ اور تم پر اس بیمثال صبر و تحمل کی بدولت خدا اپنی رحمت نازل فرمائے نیز کافروں میں سے جن لوگوں کا اسلام لانا مقدر ہے ان کو بھی لڑائی کی خطرناک گڑ بڑ سے بچا کر اپنی رحمت میں داخل کر لے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "اس تمام قصے میں ساری ضد اور کعبہ کی بے ادبی ان ہی (مشرکین) سے ہوئی۔ تم با ادب رہے۔ انہوں نے عمرہ والوں کو منع کیا اور قربانی اپنے ٹھکانے پر نہ پہنچنے دی۔ بیشک وہ جگہ اس قابل تھی کہ اسی وقت تمہارے ہاتھ سے فتح کرائی جاتی مگر بعض مسلمان مردو زن مکہ میں چھپے ہوئے تھے اور بعض لوگ جن کا مسلمان ہونا اب مقدر تھا، اس وقت کی فتح مکہ میں وہ پیسے جاتے۔ آخر دو برس کی صلح میں جتنے مسلمان ہونے کو تھے ہو چکے اور نکلنے والے نکل آئے تب اللہ نے مکہ فتح کرا دیا۔

۳: یعنی اگر کفار مسلمانوں سے الگ ہوتے اور مسلمان ان میں رلے ملے نہ ہوتے تو تم دیکھ لیتے کہ ہم مسلمانوں کے ہاتھوں سے کافروں کو کیسی دردناک سزا دلواتے ہیں۔

۲۶۔۔۔  ۱: نادانی کی ضد یہ ہی کہ امسال عمرہ نہ کرنے دیا اور یہ کہ جو مسلمان مکہ سے ہجرت کر جائے اسے پھر واپس بھیج دو۔ اگلے دو سال عمرہ کو آؤ تو تین دن سے زیادہ مکہ میں نہ ٹھہرو۔ اور ہتھیار کھلے نہ لاؤ صلح نامہ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نہ لکھو اور بجائے محمد رسول اللہ کے صرف محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) بن عبد اللہ تحریر کرو۔ حضرت نے یہ سب باتیں قبول کیں اور مسلمانوں نے سخت انقباض و اضطراب کے باوجود پیغمبر کے ارشاد کے آگے سر تسلیم جھکا دیا اور بالآخر اسی فیصلہ پر ان کے قلوب مطمئن ہو گئے۔

۲: یعنی اللہ سے ڈر کر نافرمانی کی راہ سے بچے اور کعبہ کے ادب پر مضبوطی سے قائم رہے۔ اور کیوں نہ رہتے۔ وہ دنیا میں خدائے واحد کے سچے پرستار اور کلمہ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہ کے زبردست حامل تھے۔ ایک پکا موحد اور پیغمبر کا مطیع و وفادار ہی اپنے جذبات و رجحانات کو عین جوش و خروش کے وقت اللہ کی خوشنودی اور اس کے شعائر کی تعظیم پر قربان کر سکتا ہے۔ حقیقی توحید یہ ہی ہے کہ آدمی اس کے شعائر کی تعظیم پر قربان کر سکتا ہے۔ حقیقی توحید یہ ہی ہے کہ آدمی اس اکیلے مالک کا حکم سن کر اپنی ذلت و عزت کے سب خیالات بالائے طاق رکھ دے۔ شاید اسی لیے حدیث میں "کلمۃ التقویٰ" کی تفسیر لا الہ الا اللّٰہ سے کی گئی ہے۔ کیونکہ تمام تر تقویٰ و طہارت کی بنیاد یہ ہی کلمہ ہے۔ جس کے اٹھانے اور حق ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو چن لیا تھا۔ اور بلاشبہ اللہ کے علم میں وہ ہی اس کے مستحق اور اہل تھے۔

۲۷۔۔۔   ۱: ابتدائے سورت میں ذکر ہو چکا ہے کہ مدینہ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے خواب دیکھا تھا کہ ہم مکہ میں داخل ہوئے اور سر منڈا کر اور بال کتروا کر حلال ہو رہے ہیں۔ ادھر اتفاق سے آپ کا قصد اسی سال عمرہ کا ہو گیا۔ صحابہ نے عموماً یہ خیال جما لیا کہ اسی سال ہم مکہ پہنچیں گے اور عمرہ ادا کریں گے۔ جس وقت صلح مکمل ہو کر حدیبیہ سے واپسی ہوئی اور بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ نے نہیں فرمایا تھا کہ ہم امن و امان سے مکہ میں داخل ہوں گے اور عمرہ کریں گے؟ آپ نے فرمایا کہ کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ امسال ایسا ہو گا۔ عرض کیا نہیں۔ فرمایا تو بیشک یوں ہی ہو کر رہے گا۔ تم امن و امان سے مکہ پہنچ کر بیت اللہ کا طواف کرو گے۔ اور تم میں سے کوئی سر منڈوا کر، کوئی بال کتروا کر احرام کھولے گا اور وہاں جانے کے بعد کسی طرح کا کھٹکا نہ ہو گا۔ چنانچہ حدیبیہ سے اگلے سال یوں ہی ہوا آیہ ہذا میں اسی کو فرمایا ہے کہ بالتحقیق اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھلایا۔ باقی "اِنْ شَآء اللّٰہ" فرمانا ابن کثیر کے نزدیک تحقیق و توکید کے لیے ہے اور سیبویہ کے نزدیک اس قسم کے موافق میں قطعی طور پر ایک چیز کا بتلانا کسی مصلحت سے مقصود نہیں ہوتا اور کرنا منظور ہوتا ہے وہاں یہ عنوان اختیار کرتے ہیں۔

۲:  یعنی پھر اللہ نے اپنے علم محیط کے موافق واقعات کا سلسلہ قائم کیا وہ جانتا تھا کہ خواب کی تعبیر ایک سال بعد ظاہر کرنے میں کس قدر مصالح ہیں جن کی تمہیں خبر نہیں۔ اس لیے خواب کا وقوع امسال نہ ہونے دیا اور اس کے وقوع سے قبل تم کو لگتے ہاتھ ایک اور فتح عنایت کر دی۔ یعنی فتح خیبر یا صلح حدیبیہ جسے صحابہ فتح مبین کہتے تھے جیسا کہ سورہ ہذا کے پہلے فائدہ میں ہم مفصل لکھ چکے ہیں۔

۲۸۔۔۔    ۱: یعنی اصول و فروع اور عقائد و احکام کے اعتبار سے یہ ہی دین سچا اور یہ ہی راہ سیدھی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لے کر آئے۔

۲: اس دین کو اللہ نے ظاہر میں بھی سینکڑوں برس تک سب مذاہب پر غالب کیا اور مسلمانوں نے تمام مذاہب والوں پر صدیوں تک بڑی شان و شوکت سے حکومت کی۔ اور آئندہ بھی دنیا کے خاتمہ کے قریب ایک وقت آنے والا ہے جب ہر چہار طرف دین برحق کی حکومت ہو گی۔ باقی حجت و دلیل کے اعتبار سے تو دین اسلام ہمیشہ ہی غالب رہا اور رہے گا۔

۳: یعنی اللہ اس دین کی حقانیت کا گواہ ہے اور وہ ہی اپنے فعل سے اس کو حق ثابت کرنے والا ہے۔

۲۹۔۔۔    ۱: یعنی کافروں کے مقابلہ میں سخت مضبوط اور قوی، جس سے کافروں پر رعب پڑتا اور کفر سے نفرت و بیزاری کا اظہار ہوتا ہے۔ قال تعالیٰ "وَلْیَجِدُوْ افِیْکُمْ ِغلْظَۃً"(توبہ، رکوع۱۶') وقال تعالیٰ "وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ " (توبہ، رکوع۱۰) وقال تعالیٰ "اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ۔" (مائدہ، رکوع۸ 'آیت ۵۴(حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "جو تندی اور نرمی اپنی خوہو وہ سب جگہ برابر چلے اور جو ایمان سے سنور کر آئے وہ تندی اپنی جگہ اور نرمی اپنی جگہ۔" علماء نے لکھا ہے کہ کسی کافر کے ساتھ احسان اور حسن سلوک سے پیش آنا اگر مصلحت شرعی ہو کچھ مضائقہ نہیں۔ مگر دین کے معاملہ میں وہ تم کو ڈھیلا نہ سمجھے۔

۲: یعنی اپنے بھائیوں کے ہمدرد مہربان، ایک کے سامنے نرمی سے جھکنے والے اور تواضع و انکساری سے پیش آنے والے "حدیبیہ" میں صحابہ کی یہ دونوں شانیں چمک رہی تھیں۔ "اَشِدّآُء عَلیَ الْکُفّارِ رُحَمَاء بینھم،

۳: یعنی نمازیں کثرت سے پڑھتے ہیں۔ جب دیکھو رکوع و سجود میں پڑے ہوئے اللہ کے سامنے نہایت اخلاص کے ساتھ وظیفہ عبودیت ادا کر رہے ہیں۔ ریاء و نمود کا شائبہ نہیں۔ بس اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش ہے۔

۴: یعنی نمازوں کی پابندی خصوصاً تہجد کی نماز سے ان کے چہروں پر خاص قسم کا نور اور رونق ہے۔ گویا خشیت و خشوع اور حسن نیت و اخلاص کی شعاعیں باطن سے پھوٹ پھوٹ کر ظاہر کو روشن کر رہی ہیں۔ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب اپنے چہروں کے نور اور متقیانہ چال ڈھال سے لوگوں میں الگ پہچانے جاتے تھے۔

۲: یعنی پہلی کتابوں میں خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھیوں کی ایسی ہی شان بیان کی گئی تھی۔ چنانچہ بہت سے غیر متعصب اہل کتاب ان کے چہرے اور طورو طریق دیکھ کر بول اٹھتے تھے کہ واللہ یہ تو مسیح علیہ السلام کے حواری معلوم ہوتے ہیں۔

۳: حضرت شاہ صاحب کھیتی کی مثال کی تقریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ "یعنی اول اس دین پر ایک آدمی تھا۔ پھر دو ہوئے پھر آہستہ آہستہ قوت بڑھتی گئی۔ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں پھر خلفاء کے عہد میں" بعض کہتے ہیں کہ "اَخْرَجَ شَطْاَہ،" میں عہد صدیقی "فَاٰزَرُہ،" میں عہد فاروقی "فَاسْتَغْلَظَ" میں عہدعثمانی اور "فَاسْتَویٰ عَلیٰ سُوقِہٖ" میں عہد مرتضوی کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ بعض دوسرے بزرگوں نے "وَالَّذِیْنَ مَعَہ اَشِدَّآءُ عَلیَ الْکُفَّارِ، رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ، تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا" کو علی الترتیب خلفائے اربعہ پر تقسیم کر دیا ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ یہ آیت تمام جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم کی بہیت مجموعی مدح و منقبت پر مشتمل ہے خصوصاً اصحاب بیعت الرضوان کی جن کا ذکر آغاز سورت سے برابر چلا آ رہا ہے واللہ اعلم۔

۴:  کھیتی کرنے والے چونکہ اس کام کے مبصر ہوتے ہیں اس لیے انکا ذکر خصوصیت سے کیا۔ جس ایک چیز کا مبصر اس کو پسند کرے دوسرے کیوں نہ کریں گے۔

۵: یعنی اسلام کھیتی کی یہ تازگی اور رونق و بہار دیکھ کر کافروں کے دل غیظ و حسد سے جلتے ہیں۔ اس آیت سے بعض علماء نے یہ نکالا کہ صحابہ سے جلنے والا کافر ہے۔

۶:  حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یہ وعدہ دیا ان کو جو ایمان والے ہیں اور بھلے کام کرتے ہیں۔ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سب اصحاب ایسے ہی تھے۔ مگر خاتمہ کا اندیشہ رکھا حق تعالیٰ بندوں کو ایسی صاف خوشخبری نہیں دیتا کہ نڈر ہو جائیں۔ اس مالک سے اتنی شاباش بھی غنیمت ہے۔" تم سورۃ الفتح بفضل اللہ ورحمتہ فللہ الحمد والمنۃ۔