دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الاٴنعَام

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

           

نام

 

آیت ۱۲۶ تا ۱۴۵ میں اس مشرکانہ بدعت کی تردید کی گئی ہے جو مشرکوں نے انعام یعنی مویشیوں کے سلسلے میں اختیار کی تھی۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’الانعام‘ ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ وسطی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

شرک  کی تردید اور توحید، آخرت اور رسالت کے سلسلے منکرین کے شبہات کا ازالہ کرتے ہوئے ان کو دعوتِ ایمان۔

 

سابقہ تینوں سورتوں میں اہلِ کتاب ہر حجّت قائم کر دی گئی تھی۔ اس سورہ میں مشرکین پر حجّت قائم کی گئی ہے۔

 

نظمِ کلام

 

آیت  ۱ تا ۳ تمہیدی آیات ہیں جن میں خالق کائنات کی صحیح معرفت بخشی گئی ہے۔ آیت ۴ تا ۲۱ میں منکرین کی غیر سنجیدہ باتوں پر گرفت کر تے ہوئے ان کے شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے۔ آیت ۲۲ تا ۳۲ میں اللہ کا شریک ٹھہرانے والوں میں، اس کی آیات کا انکار کرنے والوں اور دوسری زندگی کی نفی کرنے والوں کی وہ حالت بیان کی گئی ہے جب کہ قیامت برپا ہو گی اور وہ خدا کے حضور کھڑے ہوں گے۔

 

آیت ۳۳ تا ۵۵ میں رسالت کے سلسلے میں اعتراض کرنے والوں کو جواب دیا گیا ہے اور انہیں انکار کے انجام سے خبر دار کر دیا گیا ہے۔ نیز اہلِ ایمان کو مغفرت اور رحمت کی خوش خبری سنا دی گئی ہے۔

 

آیت ۵۶ تا ۶۷ میں غیر اللہ کی عبادت سے بیزاری کا اعلان کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور توحید کو پیش کیا گیا ہے۔

 

آیت ۶۸ تا ۷۰ میں کج بحثی کرنے  والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔

 

آیت ۷۱ تا ۷۳ میں شرک کی تردید اور توحید کا اثبات ہے۔

 

آیت ۷۴ تا ۸۳ میں شرک اور بت پرستی کے خلاف اور توحید کے حق میں ابراہیم علیہ السلام کی اس حجت کو پیش کیا گیا ہے کہ وہ توحید پر کار بند تھے اور شرک سے انہیں دور کا واسطہ بھی نہیں تھا۔ اُن کی راہ ہدایت کی راہ ہے۔

 

آیت ۹۱ تا ۹۴ میں نزول وحی کے سلسلے میں اعتراضات  کا جواب دیتے ہوئے اس صورتِ حال کو پیش کیا گیا ہے جس سے منکرین موت کے وقت اور پھر قیامت کے دن دو چار ہوں گے۔

 

آیت ۹۵ تا ۱۱۵ میں منکرین کو ان کے بے جا مطالبات پر سر زنش کی گئی ہے۔

 

آیت ۱۱۶ تا ۱۲۱میں اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ مذہب کے معاملے میں آدمی عوام کی اٹکل پچّو باتوں سے متاثر نہ ہو اور مشرکانہ اوہام سے بچ کر رہے۔

 

آیت ۱۲۲ تا ۱۳۵ میں رسول کی مخالفت کرنے والوں  کو ان کے انجام سے خبر دار کیا گیا ہے۔

 

آیت ۱۳۶ تا ۱۵۰ میں مشرکین کی اس گمراہی پر گرفت کی گئی ہے کہ انہوں نے وہم پرستی میں مبتلا ہو کر بعض مویشیوں کو حرام قرار دے رکھا ہے اور اپنے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے اپنی اولاد کو ان کی بھینٹ چڑھاتے ہیں نیز کھیتی اور مویشیوں میں بھی ان کی نیاز کے لئے حصّہ مقرر کرتے ہیں۔

 

آیت ۱۵۱ تا  ۱۶۵ میں اس بات کو اجمالاً بیان کرتے ہوئے کہ خدا نے حقیقۃً کیا چیزیں حرام ٹھہرائی ہیں، قرآن پر ایمان لانے اور اس کی پیروی کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔

 

آیت ۱۵۹ تا ۱۶۵ خاتمۂ کلام ہے جس میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے الگ الگ مذہب بنا لئے ہیں، ان کا خدا کے دین سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہر شخص اپنے عمل کا ذمّہ دار ہے۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حمد ۱* اللہ ہی کے لئے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ۲* اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۳* پھر بھی کفر کرنے والے اپنے رب کا ہمسر ٹھہراتے ہیں ۴*

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۵* پھر (زندگی کی) ایک مدت مقرر کی ۶* اور اس کے ہاں ایک دوسری مد ت  بھی مقرر ہے ۷* پھر بھی تم لوگ ہو کہ شک  کرتے ہو ۸*

 

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی اللہ آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی ۹* تمہاری چھپی اور کھلی سب باتوں کو جانتا ہے اور جو (اچھی بری) کمائی تم کرتے ہو وہ بھی سب اسے معلوم ہے۱۰*۔

 

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں جو ان کے پاس آئی ہوں اور انہوں نے اس سے بے رخی نہ کر لی ہو ۱۱*۔

 

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چنانچہ جب حق ان کے پاس آیا تو اس کو انہوں نے جھٹلا دیا ۱۲* تو جن باتوں کا وہ مذاق اڑاتے رہے ہیں ان کی خبریں عنقریب ان کے پاس پہنچ جائیں گی ۱۳*

 

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے ہم کتنی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جن کو ہم نے زمین میں وہ قوت بخشی تھی جو تم کو نہیں بخشی ۱۴* ہم نے ان پر خوب برسنے والی بارش بھیج دی تھی اور ان کے نیچے نہریں جاری کر دیں تھیں ۱۵* پھر ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں ہلاک کر دیا اور ان کے بعد دوسری قوموں کو اٹھا کھڑا کیا۔

 

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اے پیغمبر) اگر ہم تم پر کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب ناز ل کرتے اور یہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے تب بھی جنہوں نے کفر کیا ہے یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادوگری ہے ۱۶*۔

 

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کہتے ہیں کہ اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا اگر ہم کوئی فرشتہ اتار تے تو معاملہ کا فیصلہ ہی ہو جاتا پھر انہیں مہلت نہ دی جاتی ۱۷*

 

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر ہم فرشتہ کو پیغمبر بنا کر بھیجتے تو انسانی شکل ہی میں بھیجتے اور انہیں ویسے ہی شبہہ میں ڈال دیتے جیسا شبہہ  یہ اب کر رہے ہیں ۱۸*

 

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اے پیغمبر) تم سے پہلے بھی رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے تو جن لوگوں نے مذاق اڑایا تھا ان کو اس چیز نے آ گھیرا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے ۱۹*

 

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ۲۰*

 

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے پوچھو آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے ؟ کہو اللہ ہی کا ہے ۲۱* اس نے اپنے اوپر رحمت لازم کر لی ہے ۲۲* وہ تمہیں ضرور قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں ۲۳* جن لوگوں نے اپنے کو گھاٹے میں ڈال دیا ہے وہی ایمان نہیں لاتے ۲۴*۔

 

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کے لئے ہے جو کچھ ٹھہرا ہوا ہے رات اور دن میں ۲۵* اور وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔

 

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو۔ کیا میں اللہ کو چھوڑ کر جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے اور (سب کو) کھلاتا ہے اور کوئی نہیں جو اس کو کھلاتا ہو ۲۶* کسی اور کو ولی (حاجت روا) بنا لوں ۲۷* کہو ، مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے اپنے کو اس کے حوالہ کرنے والا بنوں ۲۸* اور (اے پیغمبر !) تم ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ ۲۹*۔

 

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو ، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑ ے دن کے عذاب  کا ڈر ہے ۳۰*

 

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن جس کو اس سے بچا لیا گیا اس پر اللہ نے رحم کیا اور یہ کھلی کامیابی ہے ۳۱*

 

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر اللہ تمہیں کسی تکلیف میں مبتلا کرے تو اس کو دور کرنے والا اس کے سوا کوئی نہیں اور اگر کوئی بھلائی پہنچائے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے ۳۲*

 

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ اپنے بندوں کے اوپر زور و غلبہ رکھنے والا ہے ۳۳* اور وہ حکیم بھی ہے  اور باخبر بھی ۳۴*۔

 

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (ان سے) پوچھو سب سے بڑھ کر گواہی کس کی ہے ؟ کہو اللہ میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے ۳۵* اور یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعہ تم کو متنبّہ کروں ۳۶* اور ان کو بھی جن کو یہ پہنچے ۳۷* کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہیں ؟ کہو میں تو اس کی گواہی نہیں دیتا کہو ، صرف وہی ایک  خدا ہے ۳۸* اور تم جو شریک ٹھہراتے ہو ان سے میں بالکل بیزار ہوں۔

 

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں ۳۹* (لیکن) جن لوگوں نے اپنے کو گھاٹے میں ڈال دیا ہے وہ ایمان نہیں لاتے۔

 

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اسکی آیتوں کو جھٹلائے ۴۰* ؟ یقیناً ظالم کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔

 

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جس ۴۱* دن ہم ان سب کو جمع کریں گے پھر شریک ٹھہرانے والوں سے پوچھیں گے کہ تمہارے وہ شریک کہاں ہیں جس کو تم (خدا کا) شریک سمجھتے تھے ؟

 

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ اس کے سوا کوئی اور بات بنا نہ سکیں گے کہ اللہ ہمارے رب کی قسم ہم مشرک نہ تھے ۴۲*

 

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو یہ کس طرح اپنے اوپر جھوٹ بولیں گے اور جو کچھ انہوں نے گڑھ لیا تھا وہ سب ان سے گم ہو جائے گا ۴۳*

 

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں مگر ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال رکھے ہیں کہ کچھ نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ڈال دی ہے ۴۴* وہ ہر قسم کی نشانیاں دیکھ لیں جب بھی ان پر ایمان لانے والے نہیں۔ یہاں تک کہ جب تمہارے پاس آ کر تم سے جھگڑتے ہیں تو یہ کافر کہنے لگتے ہیں کہ یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں ۴۵*۔

 

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دوسروں  کو بھی اس سے روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دور رہتے ہیں (ایسا کر کے) وہ اپنے ہی کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں مگر ان کو اس کا شعور نہیں۔

 

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم اس وقت کی حالت دیکھ لیتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کر دئیے جائیں گے اس وقت وہ کہیں گے کا ش ہم پھر (دنیا میں) واپس بھیج دئیے جائیں اور اپنے رب کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور ایمان والوں میں شامل ہو جائیں ۴۶*

 

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (یہ حسرت اس لئے نہیں ہو گی کہ حق ان پر واضح نہیں ہوا تھا) بلکہ (اس لئے ہو گی کہ) جس بات کو وہ اس سے پہلے چھپا یا کرتے تھے وہ کھل کر ان کے سامنے آ گئی ہو گی ۴۷* اگر انہیں (دنیا کی طرف) واپس بھیج دیا جائے تو پھر وہی کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا تھا ۴۸* یقیناً یہ بالکل جھوٹے ہیں۔

 

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہتے ہیں زندگی تو بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہمیں (مرنے کے بعد) اٹھایا نہیں جائے گا۔ ۴۹*

 

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تم ان کی اس وقت کی حالت دیکھ لیتے جب یہ اپنے رب کے حضور کھڑے کئے جائیں گے اس وقت وہ ان سے پوچھے گا کیا یہ حقیقت نہیں ہے ۵۰* ؟ وہ کہیں گے ہاں ہمارے رب کی قسم !وہ فرمائیگا تو اب اپنے کفر کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھو۔

 

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تباہی میں پڑ گئے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا یہاں تک کہ جب وہ گھڑی ۵۱*  اچانک آ نمودار ہو گی ۵۲* تو کہیں گے افسوس !اس معاملہ میں ہم سے کیسی کوتاہی ہوئی !اور وہ اپنے بوجھ ۵۳* اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوئے ہونگے۔ تو کیا ہی برا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہوں گے !

 

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دنیا کی زندگی تو بس کھیل تماشہ ہے ۵۴* البتہ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو تقویٰ رکھتے ہیں پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ۵۵*

 

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم جانتے ہیں کہ ان کی باتیں تمہارے لئے باعثِ ملال ہوتی ہیں لیکن یہ دراصل تمہیں نہیں جھٹلا رہے ہیں بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں ۵۶*

 

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم سے پہلے بھی رسولوں کو جھٹلایا جا چکا ہے مگر اس تکذیب اور اذیت دہی پر انہوں نے صبر کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آ پہنچی۔ کوئی نہیں جو اللہ کے کلمات کو بدل سکے ۵۷* اور پیغمبروں کے واقعات کی خبریں تمہیں پہنچ ہی چکی ہیں ۵۸*

 

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر ان کی بے رخی تم پر گراں گزرتی ہے تو اگر تمہارے بس میں ہے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈ نکالو تاکہ ان لوگوں کے لئے کوئی نشانی لاسکو تو ایسا کر دیکھو ۵۹* اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کر دیتا لہذا ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو نادان ہیں ۶۰*

 

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (حق کو) قبول وہی لوگ کرتے ہیں جو سنتے ہیں ۶۱* رہے مردے تو اللہ انہیں (قبروں سے) اٹھائے گا ۶۲* پھر اسی کے حضور لوٹائے جائیں گے ۶۳*

 

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر) پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی ۶۴* کیوں نہیں اتری ؟ اللہ یقیناً اس بات پر قادر ہے کہ نشانی اتار دے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۶۵*

 

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار اور پروں سے اڑنے والا کوئی پرندہ ایسا نہیں جس کی تمہاری طرح امتیں (انواع) نہ ہوں ۶۶* ہم نے نوشتہ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۶۷* پھر سب اپنے رب کے پاس اکٹھے کئے جاتے ہیں ۶۸*

 

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا وہ بہرے اور گونگے ہیں تاریکیوں میں پڑے ہوئے ۶۹* اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستے پر لگا دیتا ہے ۷۰*

 

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو کیا تم نے  اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب آ جائے یا وہ گھڑی (قیامت) آ پہنچے تو کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے ؟ بتاؤ اگر تم سچے ہو۔

 

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں بلکہ (جب مصیبت آتی ہے تو) تم اسی کو پکارتے ہو پھر اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو جس کے لئے تم اس کو پکارتے ہو دور کر دیتا ہے اور اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو تم بھول جاتے ہو ۷۱*

 

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم سے پہلے ہم نے بہت سی امتوں کی طرف رسول بھیجے اور ان امتوں کو تنگی اور تکلیف میں مبتلا کیا تاکہ وہ گڑگڑائیں ۷۲*

 

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب ہماری طرف سے سختی آئی تو وہ گڑگڑاتے ؟ بلکہ ان کے دل اور سخت ہو گئے اور جو (برے) کام وہ کر رہے تھے ان کو شیطان نے ان کی نظروں میں خوشنما بنا دیا ۷۳*

 

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب انہوں نے اس یاد دہانی کو بھلایا جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر طرح (کی خوش حالیوں) کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ ان بخششوں پر اترانے لگے تو ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا اور وہ نا امید ہو کر رہ گئے ۷۴*

 

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غرض ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی جو ظلم کے مرتکب ہوئے تھے اور تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو ساری کائنات کا رب ہے ۷۵*

 

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو۔ تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر اللہ تمہاری سماعت اور بصارت چھین لے اور تمہارے دلوں پر مُہر لگا دے ۷۶* تو اللہ کے سوا کون سا خدا ہے جو یہ (نعمتیں) تمہیں واپس دلا سکے ؟ دیکھو کس طرح ہم اپنی نشانیاں گوناگوں طریقہ سے بیان کرتے ہیں ۷۷* پھر بھی یہ لوگ ہیں کہ کنارہ کشی کرتے ہیں۔

 

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو۔ تم نے (کبھی) سوچا کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب اچانک یا علانیہ آ جائے تو ظالموں کے سوا اور کون سا گروہ ہے جو ہلاک کیا جائے گا ۷۸* ؟

 

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم رسولوں کو اسی لئے بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبری دینے والے اور متنبہ کرنے والے ہوں ۷۹* پھر جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنی اصلاح کر لی ان کے لئے نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

 

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ان کو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے عذاب اپنی لپیٹ میں لے لے گا ۸۰*

 

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو۔ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ مجھے غیب کا علم ہے اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر کی جاتی ہے ۸۱* پوچھا کیا اندھا اور بینا دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ کیا تم غور نہیں کرتے ؟

 

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم اس وحی کے ذریعہ ۸۲* ان لوگوں کو خبردار ۸۳* کرو جو اس بات کا اندیشہ رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے حضور اکٹھا کئے جائیں گے اس حال میں کہ اس کے سوا نہ تو کوئی مددگار ہو گا اور نہ سفارشی۔ تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں ۸۴*

 

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان لوگوں کو اپنے سے دور نہ کرو جو صبح و شام اپنے رب کو اس کی خوشنودی کی طلب میں پکارتے ہیں ۸۵* ان کے حساب کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے اور نہ تمہارے حساب کی ذمہ داری ان پر ہے کہ تم ان کو دور کرو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو زیادتی کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔

 

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم نے ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ آزمائش میں ڈالا ہے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کیا یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہمارے درمیان سے چن کر اپنے فضل سے نواز ا ہے ۸۶* ؟ کیا اللہ اچھی طرح نہیں جانتا کہ شکر کرنے والے کون ہیں ۸۷* ؟

 

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اے پیغمبر !) جب وہ لوگ تمہارے پاس آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو ان سے کہو تم پر سلام ہو تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت لازم کر لی ہے جو کوئی تم میں سے نادانی سے کسی برائی کا ارتکاب  کر بیٹھا ہو پھر اس نے توبہ اور اصلاح کر لی ہو تو وہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے ۸۸*

 

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں تاکہ مجرموں کی راہ نمایاں ہو جائے۔

 

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو جن کو تم اللہ کے سوا پکار تے ہو ۸۹* ان کی عبادت کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے۔ کہو میں تمہاری خواہشوں پر چلنے والا نہیں ۹۰* اگر میں ایسا کیا تو گمراہ ہو جاؤں گا اور راہِ راست پانے والوں میں سے نہ رہوں گا۔

 

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں ۹۱* اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے تم جس چیز کے لئے جلدی مچا رہے ہو وہ میرے اختیار میں نہیں ہے ۹۲* فیصلہ کرنا تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے وہ حق بات بیان فرماتا ہے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

 

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو۔ جس چیز کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو اگر وہ میرے اختیار میں ہوتی تو میرے اور تمہارے درمیان (کبھی کا) فیصلہ ہو چکا ہوتا اور اللہ ظالموں ۹۳* کو خوب جانتا ہے۔

 

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس کے سوا کوئی ۹۴* نہیں جانتا۔ خشکی اور سمندر میں جو کچھ ہے سب اس کے علم میں ہے کوئی پتا نہیں گرتا مگر یہ کہ وہ اس کو جانتا ہے ۹۵* زمین کی تاریکیوں ۹۶*  میں کوئی دانہ اور کوئی خشک یا تر چیز ایسی نہیں جو ایک واضح کتاب  میں درج نہ ہو۔ ۹۷*

 

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جو رات کے وقت تمہیں وفات دیتا ہے ۹۸* اور جو کچھ دن میں تم نے کیا تھا اسے جانتا ہے پھر تمہیں دن کے وقت اٹھا کھڑا کرتا ہے تاکہ مقررہ مدت پوری ہو جائے ۹۹* پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔

 

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اپنے بندوں پر غلبہ رکھتا ہے ۱۰۰* اور تم پر نگرانی کرنے والے بھیجتا ہے ۱۰۱* یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی  کی موت آ جاتی ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اس کو (یعنی اس کی جان کو) قبض کرتے ہیں اور وہ (اس حکم کی تعمیل میں) کوتاہی نہیں کرتے ۱۰۲*

 

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر سب اللہ کی طرف لوٹائے جاتے ہیں جو ان کا مالک حقیقی ہے ۱۰۳* خبردار !فیصلہ کا سارا اختیار اسی کو ہے ۱۰۴* اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے ۱۰۵*

 

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے  پوچھو ، کو ن ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر کی تاریکیوں ۱۰۶* سے نجات دیتا ہے جبکہ تم گڑگڑا کر اور چپکے چپکے اسی کو پکارتے ہو کہ اگر اس نے اس (مصیبت) سے نجات دی تو ہم ضرور اس کے شکر گزار بن جائیں گے ؟

 

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو ، اللہ ہی تمہیں اس (مصیبت) سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے لیکن پھر تم شرک کرنے لگتے ہو ۱۰۷*

 

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر اوپر سے کوئی عذاب بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سے کوئی عذاب برپا کرے  ، یا تم کو گروہوں میں بانٹ کر آپس میں بھڑا دے اور ایک کو دوسرے کی طاقت کا مزا چکھائے ۱۰۸* دیکھو کس طرح ہم اپنی آیتیں مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں ۱۰۹*

 

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہاری قوم نے اسے ۱۱۰* جھٹلا دیا ہے حالانکہ وہ حق ہے۔ کہو میں تم پر داروغہ نہیں مقرر ہوا ہوں۔ ۱۱۱*

 

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر خبر کے وقوع میں آنے کا ایک وقت مقرر ہے ۱۱۲* اور عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔

 

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری آیتوں میں کج بحثی کر رہے ہیں تو ان سے کنارہ کش ہو جاؤ یہانتک کہ وہ کسی دوسری بات میں لگ جائیں اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو ۱۱۳*

 

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ سے ڈرنے والوں پر ان کے حساب کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے البتہ نصیحت کرنا چاہئے تاکہ وہ بھی ڈرنے لگیں ۱۱۴*

 

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں کو چھوڑ دو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا لیا ہے ۱۱۵* اور جن کو دنیا کی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا ہے ۱۱۶* تم اس (قرآن) کے ذریعہ یاد دہانی کرو تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اپنی شامتِ اعمال میں گرفتار ہو جائے۔ اس حال میں کہ اللہ کے مقابلہ میں نہ اس کا کوئی دوست ہو اور نہ سفارش کرنے والا اور اگر وہ فدیہ میں سب کچھ دینا چاہے تو بھی قبول نہیں کیا جائے گا ۱۱۷* یہی لوگ ہیں جو اپنی شامتِ اعمال میں گرفتار ہوں گے ان کو پینے کے لئے کھولتا ہوا پانی ملے گا اور انہیں دردناک عذاب بھگتنا ہو گا اس کفر کی پاداش میں جو وہ کرتے رہے ہیں۔

 

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو ، کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکاریں جو ہمیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان ۱۱۸* اور جبکہ اللہ نے ہمیں راہ ہدایت دکھا دی ہے تو کیا ہم الٹے پاؤں پھر جائیں اور ہمارا حال اس شخص کی طرح ہو جائے جس کو شیطانوں نے بیابانوں میں بھٹکا دیا ہو ۱۱۹  * اور وہ حیران و پریشان ہو اور اس کے ساتھی اسے سیدھی راہ کی طرف بلا رہے ہوں کہ ہمارے پاس آؤ ۱۲۰* کہو اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے ۱۲۱* اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنے کو ربّ العالمین کے حوالہ کریں ۱۲۲*

 

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ کہ نماز قائم کرو اور اس سے ڈرتے رہو ۱۲۳* اسی کے پاس تم اکٹھے کئے جاؤ گے۔

 

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو (مقصد) حق کے ساتھ پیدا کیا ۱۲۴* اور جس دن وہ فرمائے گا ہو جا تو ہو جائے گا ۱۲۵* اس کا قول حق ہے ۱۲۶* اور جس دن صور پھونکا جائیگا بادشاہت اسی کی ہو گی۔ وہ غیب اور حاضر سب کا جاننے والا ہے اور وہ حکمت والا اور باخبر ہے۔

 

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (یاد کرو) جب ابراہیم ۱۲۷* نے اپنے باپ آزر ۱۲۸* سے کہا تھا : کیا آپ بتوں کو خدا بنا تے ہیں۔ میں تو آپ کو اور آپ کی قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں ۱۲۹*

 

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی حکومت (کا نظام) دکھاتے تھے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے ۱۳۰*

 

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چنانچہ جب رات اس پر چھا گئی تو اس نے ایک ستارہ  دیکھا۔ کہا یہ میرا رب ہے۔ پھر جب وہ ڈوب گیا تو کہا ڈوب جانے والوں کو میں پسند نہیں کرتا۔

 

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب چاند کو چمکتے دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا اگر میرے رب نے میری رہنمائی نہ فرمائی تو میں گمراہ لوگوں میں سے ہو جاؤں گا

 

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب سورج کو چمکتے دیکھا تو کہا یہ میر ارب ہے یہ سب سے بڑا ہے مگر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا اے میری قوم کے 'لوگو 'میں ان سب سے بری ہوں جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ۱۳۱*

 

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے یکسو ہو کر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کر لیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۱۳۲*

 

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کی قوم اس سے جھگڑنے لگی تو اس نے کہا کیا تم اللہ کے معاملہ میں مجھ سے جھگڑتے ہو حالانکہ اس نے مجھے راہ دکھا دی ہے ۱۳۲ الف* اور میں ان سے نہیں ڈرتا جن کو تم اس کا شریک ٹھہراتے ہو۔ ہاں اگر میرا رب کچھ (نقصان پہنچانا) چاہے تو اور بات ہے ۱۳۳* میرا رب اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۱۳۴* پھر کیا تم یاد دہانی حاصل نہ کرو گے۔

 

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں ان سے کیسے ڈروں جن کو تم ان کا شریک ٹھہراتے ہو جبکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ اللہ کے  ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراؤ جس کے لئے اس نے تم پر کوئی سند ناز ل نہیں کی ۱۳۵* ہم دونوں فریقوں میں سے کون اس کا زیادہ مستحق ہے ۱۳۶* ؟ بتلاؤ اگر تم جانتے ہو۔

 

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا ۱۳۷* ان ہی کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر ہیں۔

 

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے ہماری وہ حجت جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلہ میں عطا کی تھی ۱۳۸* ہم جس کے لئے چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیں ۱۳۹* یقیناً تمہارا رب نہایت حکمت والا اور علم والا ہے ۱۴۰*

 

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے اس کو اسحاق اور یعقوب عطا کئے ۱۴۱* اور ہر ایک کو ہدایت بخشی ۱۴۲* اور نوح کو بھی اس سے پہلے ہدایت بخشی تھی ۱۴۳* اور اس  کی نسل سے ۱۴۴* داؤد ، سلیمان ، ایوب ، یوسف ، موسیٰ اور ہارون کو بھی ۱۴۵* (ہدایت بخشی تھی) اور ہم حسنِ عمل کی روش اختیار کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ عطا کرتے ہیں۔

 

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور زکریا ، یحیٰ ، عیسیٰ اور الیاس کو بھی ۱۴۶* یہ سب صالحین میں سے تھے ۱۴۷*

 

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسمٰعیل  ، الیسع ۱۴۸* ، یونس اور لوط کو بھی ۱۴۹* ان سب کو ہم نے دنیا والوں پر فضیلت عطا کی۔

 

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیز ان کے آباء و اجداد ، ان کی اولاد اور ان کے بھائی بندوں میں سے کتنوں ہی کو ہم نے ہدایت بخشی اور چن لیا ۱۵۰* اور سیدھے راستہ ۱۵۱* کی طرف ان کی رہنمائی کی۔

 

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے ۱۵۲* جس سے وہ نوازتا ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اگر یہ لوگ شرک کرتے تو ان کا سب کیا کرایا اکارت جاتا ۱۵۳*

 

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے کتاب ، حکم ۱۵۴* اور نبوت عطا کی تھی اب اگر یہ لوگ ۱۵۵* اس کا انکار کرتے ہیں تو (کچھ پرواہ نہیں) ہم نے یہ (نعمتِ دین) ایسے لوگوں کے سپر دکی ہے جو اس کے منکر نہیں ہیں ۱۵۶*

 

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی لہذا تم بھی ان ہی کی راہ پر چلو ۱۵۷* (اور) کہو میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ۱۵۸* یہ تو ایک یاد دہانی ہے دنیا والوں کے لئے ۱۵۹*

 

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے اللہ کی صحیح قدر نہیں جانی جب کہا کہ اللہ نے کسی انسان پر کوئی چیز نہیں اتاری کہو پھر وہ کتاب کس نے اتاری جس کو موسیٰ لیکر آئے تھے ۱۶۰* اور جو روشنی اور ہدایت تھی لوگوں کے لئے جس کو تم ورق ورق بنا کر دکھا تے ہو اور بہت سی باتیں چھپا تے ہو اور تم کو (اس کے ذریعہ) ان باتوں کی تعلیم دی  گئی جو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے با پ دادا۔ کہو (وہ کتاب) اللہ ہی نے اتاری ہے اور پھر انہیں ان کی کج بحثیوں میں چھوڑ دو کہ کھیلتے رہیں ۱۶۱*

 

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کتاب ہے جسے ہم نے اتار ا ہے ۱۶۲* برکت والی ۱۶۳* اور تصدیق کرنے والی ہے سابقہ کتاب کی ۱۶۴* اور اس لئے ہم نے اتاری ہے تاکہ تم ام القریٰ ۱۶۵* اور اس کے اطراف میں رہنے والوں کو خبردار کرو ۱۶۶* جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس پر بھی ایمان لاتے ہیں ۱۶۷* اور اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۱۶۸*

 

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ گھڑے ۱۶۹* یا دعویٰ کرے کہ مجھ پر وحی کی گئی ہے در آنحالیکہ اس پر کوئی وحی نہ کی گئی ہو ۱۷۰* یا کہے کہ میں بھی ایسا کلام اتاروں گا جیسا کلام کہ اللہ نے اتار ا ہے ۱۷۱* کاش کہ تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ لیتے جب کہ وہ جانکنی کی تکلیف میں ہونگے اور فرشتے ہاتھ بڑھائے ہونگے کہ نکالو اپنی جانیں ، آج تمہیں رسوا کرنے والا عذاب دیا جائے گا اس وجہ سے کہ تم اللہ کی طرف خلافِ حق باتیں منسوب کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلہ میں تکبّر کرتے تھے ۱۷۲*

 

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (پھر اللہ فرمائیگا) اور تم ہمارے حضور اکیلے اکیلے آ گئے ۱۷۳* جیسا کہ ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تمہیں دیا تھا وہ سب تم پیچھے چھوڑ آئے اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کے بارے میں تمہارا گمان تھا کہ تمہارے معاملہ میں وہ (اللہ کے) شریک ہیں ۱۷۴* تمہارا رشتہ ٹوٹ گیا ۱۷۵* اور تمہارے سارے دعوے بے حقیقت ہو کر رہ گئے۔

 

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے شک اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے ۱۷۶* وہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور وہی نکالنے والا ہے مردہ کو زندہ سے ۱۷۷* وہی ہے اللہ پھر تم کدھر بہکے چلے جا رہے ہو ؟

 

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی (تاریکی کو) پھاڑ کر صبح نمودار کرتا ہے ۱۷۸* اسی نے رات کو باعثِ سکون اور سورج اور چاند کو حساب کا معیار بنایا ہے ۱۷۹* یہ منصوبہ بندی ہے ا سکی جو غالب بھی ہے اور علم والا بھی ۱۸۰*

 

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ تم خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں ان کے ذریعہ راستہ معلوم کرو ۱۸۱* جاننے والوں کے لئے ہم نے اپنی نشانیاں کھول کھول کر بیان کر دی ہیں ۱۸۲*

 

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ۱۸۳* پھر ہر ایک کے لئے ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپر د کئے جانے کی ۱۸۴* سمجھنے والوں کے لئے ہم نے اپنی نشانیاں کھول  کر بیان کر دی ہیں ۱۸۵*

 

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا ۱۸۶* ، پھر ہم نے ۱۸۷* اس سے ہر قسم کی نباتات اگائیں ، پھر اس سے سر سبز شاخیں نکالیں جن سے ہم تہ بہ تہ دانے پیدا کر دیتے ہیں اور کھجور کے شگوفوں سے لٹکتے ہوئے گچھے اور انگوروں کے باغ اور زیتون اور انار باہم ملتے جلتے بھی اور ایک دوسرے سے مختلف بھی ۱۸۸* ان کے پھلوں کو دیکھو جب وہ پھلتے ہیں اور ان کے پکنے کو بھی دیکھو ۱۸۹* اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں۔

 

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرایا ہے حالانکہ اسی نے انہیں پیدا کیا ہے ۱۹۰* اور انہوں نے بے جانے بوجھے اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں تراش لیں ۱۹۱* وہ پاک اور برتر ہے ان باتوں سے جو یہ بیان کرتے ہیں۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے ۱۹۲* اس کے اولاد کیسے ہو سکتی ہے جبکہ ا سکی کوئی بیوی نہیں ۱۹۳* اور اس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

 

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، ہر چیز کا پیدا کرنے والا۔ لہذا تم اسی کی عبادت کرو ۱۹۴* وہ ہر چیز کی کفالت کرنے والا ہے ۱۹۵*

 

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے ۱۹۶* وہ بڑا باریک بین اور باخبر ہے۔

 

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس بصیرت کی باتیں آ چکی ہیں تو جو کوئی سوجھ بوجھ سے کام  لے گا وہ اپنا ہی بھلا کریگا اور جو اندھا بنا رہے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا میں تم پر نگران نہیں مقرر کیا گیا ہوں ۱۹۷*

 

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم مختلف طریقوں سے آیتیں بیان کرتے ہیں اور اس لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ کہیں کہ تم نے (اچھی طرح) پڑھ کر سنا دیا نیز اس لئے کہ جو لوگ جانتے ہیں ان کے لئے ہم اس کو روشن کریں ۱۹۸*

 

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارے رب کی طرف سے تم پر جو وحی نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور مشرکوں سے اعراض کرو ۱۹۹*

 

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر اللہ چاہتا تو یہ شرک نہ کرتے ۲۰۰* اور ہم نے تم کو ان پر نگران نہیں مقرر کیا ہے اور نہ تم ان کے ذمہ دار ہو ۲۰۱*

 

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں ان کوبرا بھلا نہ کہو کہ پھر وہ بھی حد سے تجاوز کر کے بے سمجھے بوجھے اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں ۲۰۲* اس طرح ہم نے ہر گروہ کے لئے اس کے عمل کو خوشنما بنا دیا ہے ۲۰۳* پھر انہیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے اس وقت وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔

 

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ اللہ کی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آ جائے ۲۰۴* تو وہ ضرور ایمان لائیں گے کہو نشانیاں تو اللہ ہی کے پاس ہیں ۲۰۵* اور تمہیں کیا معلوم ۲۰۶* کہ اگر وہ آ بھی جائیں تو وہ ایمان نہیں لائیں گے۔

 

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم اسی طرح ان کے دلوں اور ان کی نگاہوں کو الٹ رہے ہیں جس طرح یہ پہلی بار اس پر ایمان نہیں دلائے ۲۰۷* اور ہم انہیں چھوڑ رہے ہیں کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔

 

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے اتار دیتے اور مردے ان سے باتیں کرنے لگتے اور ان کے سامنے ساری چیزیں جمع کر دیتے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے اِلّا یہ کہ اللہ ہی کی مشیّت ہو ۲۰۸* مگر اکثر لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں ۲۰۹*

 

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسی طرح ہم نے انسانوں اور جنوں میں سے شیطانوں کو ہر نبی کا دشمن بنا لیا ہے ۲۱۰* جو فریب دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں خوشنما باتیں ڈالتے ہیں ۲۱۱* اگر تمہارا رب چاہتا تو وہ ایسا نہ کر پاتے لہذا تم انہیں چھوڑ دو کہ وہ افترا  پردازیں کرتے رہیں۔

 

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (انہیں یہ ڈھیل اس لئے دی جا رہی ہے) تاکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل اس کی طرف مائل ہوں ۲۱۲* اور اس کو پسند کریں اور جو کمائی انہیں کرنا ہے کر لیں۔

 

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا میں اللہ کے سوا کو ئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں حالانکہ وہی ہے جس نے تمہاری طرف کتاب نازل کی ہے جو کھول کھول کر باتیں بیان کرنے والی ہے ۲۱۳* اور جن کو ہم نے (اس سے پہلے) کتاب عطا کی ۲۱۴* وہ جانتے ہیں کہ یہ تمہارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے لہذا تم شک کرنے والوں میں سے نہ ہو جاؤ ۲۱۵*۔

 

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارے رب کی بات سچائی اور انصاف کے ساتھ پوری ہو گئی ۲۱۶* کوئی نہیں جو اس کی باتوں کو بدل سکے اور وہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے ۲۱۷*

 

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور زمین پر بسنے والوں میں اکثر لوگ ایسے ہیں کہ اگر تم ان کے کہنے پر چلو تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکاتیں گے وہ محض گمان پر چلتے ہیں اور اٹکل کی باتیں کرتے ہیں ۲۱۸*

 

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلاشبہ تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون لوگ اس کے راستہ سے بھٹکے ہوئے ہیں اور کون سیدھی راہ پر ہیں ۲۱۹*

 

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پس جس (ذبیحہ) پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اسے کھاؤ اگر تم اس کی آیات پر ایمان رکھتے ہو ۲۲۰*

 

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ (ذبیحہ) تم کیوں نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو جبکہ اس نے تم پر جو کچھ حرام کیا ہے اسے کھول کر بیان کر دیا ہے ساتھ ہی مجبوری کی حالت میں اس کی اجازت بھی دی ہے ۲۲۱* اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بنا پر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ان حد سے گزرنے والوں کو تمہارا رب اچھی طرح جانتا ہے۔

 

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کھلے گناہ کو بھی چھوڑ دو اور چھپے گناہ کو بھی ۲۲۲* جو لوگ گناہ کماتے ہیں وہ ضرور اپنی کمائی کا  بدلہ پائیں گے۔

 

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جس (ذبیحہ) پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ یہ نافرمانی ہے ۲۲۳* اور شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑیں لیکن اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو تم بھی مشرک ہو جاؤ گے ۲۲۴*

 

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کر دیا اور اس کو روشنی عطا کی جس کو لے کر وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور ان سے نکل ہی نہ سکے ۲۲۵* اسی طرح کافروں کے لئے ان کے اعمال خوشنما بنا دئیے گئے ہیں ۲۲۶*

 

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح ہم نے ہر آبادی میں بڑے بڑے مجرموں کو اٹھا کھڑا کیا ہے تاکہ وہ چالبازیاں کریں ۲۲۷* اور در حقیقت یہ چالبازیاں وہ اپنے ہی خلاف کر رہے ہیں مگر انہیں اس کا احساس نہیں ۲۲۸*

 

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب ان کے پاس کوئی آیت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم ماننے والے نہیں جب تک کہ ہمیں ویسی ہی چیز نہ دی جائے جیسی اللہ کے رسولوں کو دی گئی۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت (کا منصب) کسے عطا کرے ۲۲۹* جو لوگ جرم کے مرتکب ہوئے ہیں انہیں ان کی چالبازیوں کی پاداش میں اللہ کے ہاں ذلت اور سخت عذاب کا سامنا کرنا ہو گا ۲۳۰*

 

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کاسینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے ۲۳۱* اور جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کے سینہ کو تنگ اور بھینچا ہوا کر دیتا ہے (اور اسے ایسا محسوس ہوتا ہے) گویا اسے بلندی پر چڑھنا پڑ رہا ہے ۲۳۲* اس طرح اللہ ان لوگوں پر نا پاکی ڈال دیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے ۲۳۳*

 

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ تمہارے رب کا راستہ ہے بالکل سیدھا۔ ہم نے اپنی آیتیں تفصیل سے بیان کر دی ہیں ان لوگوں کے لئے جو یاد دہانی حاصل کرتے ہیں ۲۳۴*

 

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے لئے سلامتی کا گھر ہے ۲۳۵* ان کے رب کے پاس اور وہ ان کا رفیق ہو گا ان کی (بہتر) کارکردگی کی بنا پر۔

 

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جس دن وہ ان سب کو جمع کریگا ارشاد فرمائے گا اے گروہ جِن!۲۳۶* تم نے انسانوں کی بڑی تعداد کو گمراہ کیا انسانوں میں سے جو ان کے ساتھی تھے وہ کہیں گے اے ہمارے رب !ہم نے (گمراہی کے کاموں میں) ایک دوسرے کو خوب استعمال کیا ۲۳۷* (بالآخر) ہم اس وقت کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لئے مقرر کیا تھا ۲۳۸* ارشاد ہو گا تمہارا ٹھکانا آگ ہے جس میں تم ہمیشہ رہو گے مگر جو اللہ چاہے ۲۳۹* بیشک تمہارا رب حکمت والا اور علم والا ہے

 

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنائیں گے اس کمائی کی وجہ سے جو وہ کرتے رہے ۲۴۰*

 

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے گروہ جن و انس !کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے ۲۴۱* جو تم کو میری آیتیں سناتے تھے اور تمہارے اس دن کی ملاقات سے تم کو ڈراتے تھے وہ کہیں گے ہم اپنے خلاف خود گواہی دیتے ہیں دراصل ان کو دنیا کی زندگی نے دھوکہ میں رکھا اور وہ اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔

 

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس لئے کہ تمہارا رب ایسا نہیں ہے کہ آبادیوں کو نا انصافی کے ساتھ ہلاک کر دے جبکہ ان کے باشندے بے خبر ہوں ۲۴۲*

 

۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہر ایک کے لئے درجہ ہے اس کے عمل کے لحاظ سے ۲۴۳* اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اس سے تمہارا رب غافل نہیں ہے۔

 

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارا رب بے نیاز ہے رحمت والا اگر وہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہاری جگہ جس کو چاہے لے آئے (اسی طرح) جس طرح اس نے ایک دوسرے گروہ کی نسل سے تمہیں اٹھایا ہے ۲۴۴*

 

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ آ کر رہے گی ۲۴۵* اور تم ہمارے قابو سے نکلنے والے نہیں ہو۔

 

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اے میری قوم ۲۴۶* کے لوگو !تم اپنی جگہ عمل کرو میں اپنی جگہ عمل کر رہا ہوں۔ عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ انجام اخروی کس کا بخیر ہے یقیناً ظالم کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔

 

۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور انہوں نے اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور مویشیوں میں اللہ کا ایک حصہ مقرر کیا ہے اور محض اپنے گمان کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا ہے اور یہ ہمارے (ٹھہرائے ہوئے) شریکوں کا۔ پھر جو حصہ ان کے شریکوں کا ہوتا ہے وہ تو اللہ کی طرف نہیں جاسکتا مگر جو اللہ کا ہوتا ہے وہ ان کے شریکوں کی طرف جاسکتا ہے کیا ہی برا فیصلہ ہے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۲۴۷*

 

۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسی طرح بہت سے مشرکین کے لئے  ان کے (ٹھہرائے ہوئے) شریکوں نے ان کی اولاد کے قتل کو خوشنما بنا دیا ہے ۲۴۸* تاکہ انہیں ہلاکت میں ڈالیں ۲۴۹* اور ان کے دین کو ان پر مشتبہ کر دیں ۲۵۰* اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے تو ان کو چھوڑ دو کہ جھوٹ گھڑتے رہیں۔

 

۱۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہتے ہیں یہ کھیت اور یہ مویشی ممنوع ہیں ان کو وہی لو گ کھا سکتے ہیں جن کو ہم کھلانا چاہیں یہ باتیں انہوں نے محض گمان سے طے کر رکھی ہیں  ۲۵۱* اور کچھ چوپایوں کی پیٹھ (سواری اور بار برداری) کو حرام ٹھہرایا گیا ہے اور کچھ چوپایوں پر وہ (ذبح کرتے وقت) اللہ کا نام نہیں لیتے یہ سب ان کی من گھڑت باتیں ہیں جو انہوں نے اس کی طرف منسوب کر رکھی ہیں ۲۵۲* عنقریب اللہ ان کو ان افترا پردازیوں کا بدلہ دے گا۔

 

۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کہتے ہیں ان چوپایوں کے پیٹ میں جو (بچہ زندہ) ہے وہ خاص ہمارے مردوں کے لئے ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے اور اگر مردہ ہو تو اس میں سب شریک ہیں ۲۵۳* عنقریب اللہ ان کو ان من گھڑت باتوں کی سزاد ے گا بے شک وہ حکمت والا اور جاننے والا ہے ۲۵۴*

 

۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً وہ لوگ تباہ ہوئے جنہوں نے اپنی اولاد کو محض بے وقوفی سے اور جانے بوجھے بغیر قتل کیا اور اللہ نے انہیں جو رزق دیا تھا اسے اللہ پر افترا پردازی کر کے حرام کر دیا وہ گمراہ ہوئے اور ہدایت قبول کرنے والے نہ بنے۔

 

۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جس نے باغ پیدا کئے وہ بھی جنہیں ٹٹیوں پر چڑھایا جاتا ہے ۲۵۵* اور وہ بھی جنہیں نہیں چڑھایا جاتا ۲۵۶*  اور کھجور اور کھیتیاں جن کی پیداوار مختلف ہوتی ہے اور زیتون اور انار ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی اور (مزے میں) مختلف بھی ۲۵۷* کھاؤ ان کے پھل جب کہ وہ پھلیں اور اس کا حق ادا کرو فصل کٹنے کے دن ۲۵۸* اور اسراف نہ کرو ۲۵۹* اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

 

۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مویشیوں میں بوجھ اٹھانے والے بھی پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے بھی ۲۶۰* کھاؤ اس میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے اور شیطان کے نقشِ قدم کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

 

۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آٹھ نر و مادہ ہیں ۲۶۱* بھیڑ کے قسم دو ، بکری کے قسم سے دو، ان سے پوچھو کہ اللہ نے ان کے نر حرام کئے ہیں یا مادہ یا وہ بچے جو ان ماداؤں کے پیٹ میں ہوں ؟ اگر تم سچے ہو تو مجھے بتاؤ علمی شہادت کے ساتھ ۲۶۲*

 

۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اسی طرح) اونٹ کی قسم سے دو اور گائے کی قسم سے دو۔ پوچھو ان کے نر حرام کئے ہیں یا مادہ یا وہ بچے جو ان کی ماداؤں کے پیٹ میں ہوں ؟ کیا تم  اس وقت موجود تھے جب اللہ نے تمہیں اس کا حکم دیا تھا ۲۶۳* ؟پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی طرف جھوٹ بات منسوب کرے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کو گمراہ کرے بیشک اللہ ظالموں کو راہِ راست نہیں دکھاتا۔

 

۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو جو وحی مجھ پر کی گئی ہے اس میں کوئی چیز میں ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر جسے وہ کھائے حرام ہو اِلّا یہ کہ وہ مردار ہویا بہایا ہوا خون ہو یا سور کا گوشت ہو کہ وہ ناپاک ہے یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کا نام اس پر پکار ا گیا ہو ۲۶۴* پھر جو شخص مجبور ہو جائے اور نہ تو اس کا خواہشمند ہو اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا تو یقیناً تمہارا رب بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے ۲۶۵*

 

۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے ان لوگوں پر جو یہودی ہوئے تمام ناخن والے جانور حرام کر دئیے تھے اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجز اس کے جو ان کی پیٹھ یا آنتوں سے لگی ہوئی ہو یا کسی ہڈی کے ساتھ ملی ہوئی ہو یہ ان کی سرکشی کی سزاتھی جو ہم نے انہیں دی تھی ۲۶۶* اور بلاشبہ ہم سچے ہیں ۲۶۷*

 

۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اگر یہ لوگ تمہیں جھٹلاتے ہیں تو کہہ دو کہ تمہارا رب وسیع رحمت والا ہے ۲۶۸* مگر ا س کا عذاب  مجرموں سے ٹالا نہیں جاسکے گا۔

 

۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مشرک کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہی کسی چیز کو ہم حرام ٹھہراتے اسی طرح ان لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھ لیا کہو تمہارے پاس کوئی علم ۲۶۹*  ہے جسے ہمارے سامنے پیش کر سکو ؟ تم تو محض گمان پر چل رہے ہو ۲۷۰* ؟ اور اٹکل کی باتیں کرتے ہو۔

 

۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو دلوں میں اتر جانے والی حجت تو اللہ ہی کے پاس ہے اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا ۲۷۱*

 

۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے کہو اپنے گواہوں کو لاؤ جو اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ نے ان چیزوں کو حرام ٹھہرایا ہے پھر اگر وہ شہادت دیں تو تم ان کے ساتھ شہادت نہ دو ۲۷۲* اور ان لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلو جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور اپنے رب کا ہمسر ٹھہراتے ہیں۔

 

۱۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو۔ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے کیا چیزیں حرام کی ہیں : ۲۷۳* یہ کہ کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔ ۲۷۴* والدین کے ساتھ نیک سلو ک کرو ۲۷۵* اپنی اولاد کو مفلسی کی وجہ سے قتل نہ کرو ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے ۲۷۶* بے حیائی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی ۲۷۷* اور کسی جان کو جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے قتل نہ کرو اِلّا یہ کہ حق کی بنیاد پر قتل کرنا پڑے ۲۷۸* یہ ہیں وہ باتیں جن کی اس نے تمہیں ہدایت کی ہے تاکہ تم عقل سے کام لو ۲۷۹*

 

۱۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ مگر بہترین طریقہ پر یہاں تک کہ وہ اپنی عمر کی پختگی کو پہنچ جائے ۲۸۰* اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پورا کرو ۲۸۱* ہم کسی نفس پر اس کے مقدور سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتے ۲۸۲* اور جب بات کہو تو انصاف کی کہو خواہ (تمہارا) کوئی قرابت دار ہی کیوں نہ ہو ۲۸۳* اور اللہ کے عہد کو پورا کرو یہ وہ باتیں ہیں جن کی اللہ نے تمہیں ہدایت کی ہے تاکہ تم یاد دہانی حاصل کرو ۲۸۴*

 

۱۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ کہو کہ یہی میرا راستہ ہے بالکل سیدھا لہذا اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ تمہیں اس کے راستہ سے ہٹا کر تفرقہ میں ڈال دیں ۲۸۵* یہ ہیں وہ باتیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے تاکہ تم تقویٰ  اختیار کرو ۲۸۶*

 

۱۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی ۲۸۷* جو نیک روی اختیار کرنے والے کے حق میں تکمیل نعمت تھی اور جس میں ہر بات کھول کھول کر بیان کی گئی تھی ۲۸۸* اور جو سر تا سر ہدایت و رحمت تھی تاکہ لوگ اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں۔

 

۱۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اب) ہم نے یہ کتاب اتاری ہے برکت والی ۲۸۹* لہذا اس کی پیروی کرو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

 

۱۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اور یہ اس لئے اتاری ہے) تاکہ تم یہ نہ کہو کہ کتاب توبس ہم سے پہلے کے دو گروہوں پر اتاری گئی تھی ۲۹۰* اور وہ جو کچھ پڑھتے پڑھاتے تھے اس سے ہم بالکل بے خبر تھے ۲۹۱*

 

۱۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا یہ نہ کہو کہ اگر ہم پر کتاب نازل کی گئی ہوتی تو ہم ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے تو دیکھو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے کھلی حجت اور ہدایت و رحمت آ گئی ہے پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے اور ان سے روگردانی کرے جو لوگ ہماری آیتوں سے روگردانی کرتے ہیں انہیں عنقریب ہم اس روگردانی کی پاداش میں بدترین سزادیں گے۔

 

۱۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ فرشتے ان کے سامنے آئیں یا تمہارا رب خود آ جائے یا تمہارے رب کی بعض نشانیاں ظاہر ہو جائیں ۲۹۲* جس روز تمہارے رب کی بعض نشانیاں ظاہر ہو جائیں گی تو کسی ایسے شخص کے لئے اس کا ایمان لانا کچھ بھی مفید نہ ہو گا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو یا جس نے اپنے ایمان میں نیکی نہ کمائی ہو ۲۹۳* کہو تم انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔

 

۱۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں ۲۹۴* نے اپنے دین میں الگ الگ راہیں نکالیں اور گروہوں میں بٹ گئے ان سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ۲۹۵* ان کا معاملہ اللہ ہی کے حوالہ ہے پھر وہ انہیں بتلائے گا کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں ۲۹۶*

 

۱۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو نیکی لے کر آئے گا اس کے لئے دس گنا بدلہ ہے اور جو بدی لے کر آئے گا اس کو اسی کے بقدر بدلہ دیا جائے گا اور لوگوں کے ساتھ نا انصافی نہیں کی جائے گی ۲۹۷*

 

۱۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو میرے رب نے مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے ، بالکل صحیح دین ۲۹۸* ، ابراہیم کا طریقہ جو راست رو تھا اور ہر گز مشرکوں میں سے نہ تھا ۲۹۹*

 

۱۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو میری نماز ، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا (سب کچھ) اللہ ربّ العالمین کے لئے ہے ۳۰۰*

 

۱۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا کوئی شریک نہیں مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا مسلم ہوں ۳۰۱*

 

۱۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے اور ہر شخص پر اس کی اپنی کمائی کی ذمہ داری ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں ۳۰۲* اٹھائے گا پھر تمہارے رب ہی کی طرف تم کو لوٹنا ہو گا اس وقت وہ تمہیں بتائیگا کہ جن باتوں میں تم اختلاف کرتے تھے ان کی کیا حقیقت کیا تھی۔

 

۱۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ ۳۰۳* بنا یا اور تم میں سے بعض کے درجے بعض پر بلند کئے تاکہ اس نے جو کچھ تمہیں بخشا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے ۳۰۴* یقیناً تمہارا رب سزا دینے میں بھی تیز ہے اور بخشنے والا رحم فرمانے والا بھی ہے۔

تفسیر

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حمد کی تشریح سورۂ فاتحہ نوٹ ۲ میں گزر چکی۔ ۲۔ اللہ کا آسمان و زمین کا خالق ہونا ایک بدیہی حقیقت ہے جو محتاج دلیل نہیں۔ یہود و نصاریٰ تو اس پر اعتقاد رکھتے ہی تھے اور مشرکین عرب کو بھی اس سے انکار نہیں تھا اور جہاں تک آسمانی کتابوں کا تعلق ہے موجود کتابوں میں تورات سب سے قدیم کتاب ہے جس کا آغاز ہی اس حقیقت کا اعلان سے ہوتا ہے۔ "خدا نے ابتداء میں زمین و آسمان کو پیدا کا۔ (پیدائش ۱:۱)

 

 ۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس مسلمہ حقیقت سے انکار کی جرأت صرف ملحدین ہی کر سکے ہیں یا پھر وہ لوگ جو عقل سلیم کو چھوڑ کر فلسفیانہ بحثوں میں الجھ کر رہ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو مذہب میں خالقِ کائنات کا تصور کافی الجھا ہوا ہے۔ رگ وید میں یہ کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ کسی مقتدر اعلیٰ ہستی نے دنیا کو پیدا کیا ہے۔ ان کے مختلف دیوتا کا جو کارنامہ بیان کیا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے دنیا کو ایک خاص شکل اور ایک خاص شکل اور ایک خاص حیثیت دیدی نہ کہ دنیا کو عدم سے وجود میں لایا۔

 

It has not been said any where in the Rig-Veda that there was a creation of the world , the bringing into being of what was not existing .by some Superior Power .The various gods are related to the formation of the world . But not one of them created, the world they gave the world a form and position.

 

البتہ اُپنیشد میں یہ صراحت ملتی ہے کہ سب سے پہلے آتما تھی اور ا س نے ان دنیاؤں کو پیدا کیا۔

 

In the beginning all this was, verily, the atman alone, there was nothing else living .He created these worlds (The Essence of Principal Upanishads by Swami Sivananda P 136)

 

ایک طرف یہ الجھی ہوئی باتیں ہیں اور دوسری طرف قرآن کا خالقِ کائنات کے بارے میں بیان ہے جو کتنا واضح، معقول اور دل کی گہرائیوں میں اتر جانے والا ہے۔

 

 ۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے زرتشتیوں (مجوسیوں) کے اس تصور کی تردید ہوتی ہے کہ نور اور ظلمت کے خدا الگ الگ ہیں انہوں نے اپنے اس زعم کے مطابق ایک کا نام یزداں اور دوسرے کا نام اہرمن رکھا ہے۔ یزداں روشنی اور خیر کا خدا ہے تو اہرمن تاریکی اور شر کا۔ اس تصور نے انہیں آگ کا پرستار بنا دیا۔ دو خداؤں (Dualism) کے اس عقیدہ کا مطلب اس بات کو تسلیم کر لینا ہے کہ س کائنات پر دو متعارض قوتوں کا تسلط ہے لیکن اگر ایسا ہوتا تو کائنات کا یہ نظام کامل آہنگی کے ساتھ کس طرح چل سکتا تھا۔ پھر تو یہ کائنات دو متضاد قوتوں کی رزم گاہ بن جاتی۔ یہ ایک دلیل ہی اس عقیدہ کو باطل قرار دینے کے لئے کافی ہے۔

 

 ۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ یہ پوری کائنات اللہ ہی نے پیدا کی ہے تو پھر کسی اور کے خدا ہونے یا دیوی دیوتا ہونے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے ؟

 

 ۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی اور ان ہی سے نسلِ انسانی چلی ہے۔

 

 ۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مہلتِ عمل جس کا خاتمہ موت کر دیتی ہے۔

 

 ۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ مدت جو تمام انسانوں کے دو باہ اٹھائے جانے کے لئے مقرر ہے۔ مراد قیامت کی گھڑی۔

 

 ۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دو باہ اٹھائے جانے کے بارے میں انسان بلا وجہ شک میں پڑا ہوا ہے جس ہستی نے مٹی سے انسان کی تخلیق کی ہو وہ اسے دو  بارہ مٹی سے اٹھا کھڑ ا کیوں نہیں کر سکتا ؟اور جس نے موت کی گھڑی مقرر کی کہ کوئی شخص اس کو ٹال نہیں سکتا وہ قیامت کی گھڑی کیوں نہیں مقرر کر سکتا ؟اور جب انسان اپنی موت کی گھڑ ی کو ٹال نہیں سکتا تو وہ قیامت کی گھڑی کو کس طرح ٹال سکے گا ؟جس طرح وہ وقتِ مقررہ پر مرنے کے لئے مجبور ہوتا ہے اسی طرح وہ وقتِ مقرر ہ پر دو باہ اٹھ کھڑے ہونے کے لئے بھی مجبور ہو گا۔

 

 ۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب وہی ہے جو ایک عام قاری کے ذہن میں آ سکتا ہے اور جس کی تائید بعد کے فقرہ سے بھی ہوتی ہے یعنی اللہ ہر جگہ حاضرو ناظر ہے اور اس کا اقتدار آسمان و زمین کے چپہ چپہ پر قائم ہے۔

 

رہا حلول کا فلسفہ یعنی یہ خیال کہ خدا کی روح ہر چیز میں سرایت کر گئی ہے ، یا ہمہ اوست کا تصور یعنی یہ خیال کہ جو کچھ بھی ہے خدا ہی خدا ہے تو یہ مشرکانہ تصور ہے اور خالق کو مخلوق پر قیاس کرنے کا نتیجہ ہے۔

 

 ۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کے اس علم کا تقاضا یہ ہے کہ یومِ جزا برپا کرے اور ہر ایک کو اس کی کمائی کا بدلہ دے۔ وہ ہستی جس کے علم میں سب کا کچا چٹھا ہو وہ ان کا حساب کیوں کر نہیں چکائے گی ؟

 

 ۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کی ہر آیت اللہ کی نشانی ہے اس لئے کہ اس سے اللہ کی راہ واضح ہو جاتی ہے اور اس لئے بھی کہ وہ بولتا ہوا معجزہ ہے لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ان نشانیوں کے معاملہ میں بے رخی کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔

 

 ۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پہلے تو انہوں نے آیات الٰہی کے سلسلہ میں بے رخ اختیار کی لیکن جب ان کے ذریعہ بالکل کھل کر سامنے ا گیا تو اس کو جھٹلانے پر تل گئے۔

 

 ۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن جن باتوں پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے ان کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں لیکن جب اس کا انجام ان کے سامنے آئے گا تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ حقیقت کیا تھی۔

 

 ۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب قوم قریش یعنی مکہ کے بت پرستوں سے ہے کہ تم کس گھمنڈ میں مبتلا ہو۔ اگر تمہیں اپنی قومی طاقت پر ناز ہے تو تمہیں معلوم ہو جانا چاہئے کہ تم سے پہلے تم سے کہیں زیادہ طاقتور قومیں گزر چکی ہیں جن کی شان و شوکت کا اپنے اپنے زمانہ میں دور  دورہ رہا ہے لیکن جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا اور سرکشی کی تو ان کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کر دیا۔ یہی حشر تمہارا بھی ہو سکتا ہے اگر تم نہ سنبھلو۔

 

جن قوموں کو گناہوں کی پاداش میں ہلاک کر دیا گیا ان کا قصہ آگے سورۂ اعراف میں بیان ہوا ہے۔

 

 ۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان قوموں کو قوت کے علاوہ رزق کی فراوانی بھی بخشی تھی۔

 

 ۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ نہ ماننے کی قسم کھا بیٹھے ہیں انہیں خواہ کوئی نشانی دکھا دی جائے وہ ماننے والے نہیں ہیں۔ اگر یہ قرآن آسمان سے لکھا لکھایا کتابی شکل میں نازل کیا جاتا تب بھی جو لوگ ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں ہو آسمانی کتاب تسلیم نہ کرنے کے لئے ایک نہ ایک بہانہ بنا لیتے اور اگر کوئی بات بن نہ پڑتی تو اسے جادو گری سے تعبیر کرتے اس لئے ایسے لوگوں کے اعتراضات کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔

 

 ۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منکرین کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اگر واقعی یہ شخص پیغمبر ہے تو اس پر آسمان سے فرشتہ اس طرح کیوں نہیں نازل ہوتا کہ اسے ہم بھی دیکھ لیتے اور وہ اعلان کرتا کہ اس شخص کو اللہ نے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ ان کے اس اعتراض کا جوا ب یہ دیا گیا ہے کہ فرشتہ کو اس طرح نازل کرنے لگی صورت میں وہ مہلت عمل باقی نہیں رہے گی جو تمہیں دی گئی ہے بلکہ وہ فیصلہ کی گھڑی ہو گی کیوں کہ مہلتِ عمل اس وقت تک ہے جب تک کہ امتحان کا موقع باقی ہے لیکن جب فرشتوں کا علانیہ نزول ہونے لگے اور غیب غیب نہ رہے تو ایمان لانے کا کیا سوال باقی رہ جاتا ہے ؟اس لئے فرشتہ کا اس طرح نزول اللہ تعالیٰ کے اس منصوبہ کے خلاف ہے جو اس نے انسان کا امتحان لینے کی غرض سے بنایا ہے۔

 

 ۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی فرشتہ کے نازل ہونے کی دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ فرشتہ کو رسول بنا کر انسانی صورت میں بھیجا جاتا۔ اس صور ت میں بھی ان لوگوں کو وہی اشتباہ پیش آتا جواب ا رہا ہے یعنی یہ کہتے کہ یہ تو انسان ہے یہ پیغمبر کیسے ہو سکتا ہے۔

 

 ۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس عذاب کا وہ مذاق اڑا تے تھے وہ ان پر مسلط ہو کر رہا۔

 

 ۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جن قوموں کی طرف رسول بھیجے گئے اور انہوں نے ان کو جھٹلایا وہ عذاب الٰہی کے ز د میں آ گئے۔ ان کی اس تباہی کے آثار زمین میں کھنڈرات کی شکل میں موجود ہیں مثلاً  وادیِ قریٰ میں ثمود کی تباہی کے آثار اور وہ آثار بھی جو تاریخ کے اوراق پر ثبت ہیں مثلاً  مصر میں فرعون کا انجام (اس کی لاش آج بھی عبرت کے لئے موجود ہے۔) وغیرہ۔

 

قرآن اس قسم کے تاریخی مقامات کے مشاہدہ کے لئے سفر کرنے کی دعوت دیتا ہے مگر اس لئے نہیں کہ ان کے لئے تفریح طبع کا سامان ہو یا ان کی معلومات میں اضافہ ہو بلکہ اس لئے کہ یہ مشاہدہ ان کے لئے عبرت پذیری کا باعث بنے۔

 

آج انسان بہ کثرت سفر کرتا ہے اور مختلف مقاصد کے لئے کرتا ہے لیکن نہیں کرتا تو عبرت حاصل کرنے کے لئے !

 

 ۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم ان سے یہ سوال ضرور کرو کہ آسمان و زمین کی ساری موجودات کا مالک کون ہے تاکہ وہ غور کریں اور اصل حقیقت کو پا سکیں۔ تاہم تم اپنا یہ جواب بھی انہیں سنا دو کہ سب کچھ اللہ ہی کا ہے تاکہ حقیقت کا اظہار ہو جائے۔

 

 ۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کو رحم کرنے کے لئے کسی نے مجبور نہیں کیا ہے بلکہ اس نے خود یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر مہربان ہو گا۔

 

 ۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن سب کو جمع کرنا اس کی رحمت کا تقاضا ہے۔ قیامت اگر چہ کہ ایک ہولناک شکل میں ظاہر ہو گی اور منکرین پر خدا کا غضب ٹوٹ پڑے گا لیکن یہ قیامت کے ظہور کا صرف ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو جو اس سے زیادہ اہم اور مثبت نتائج کا حامل ہے یہ ہے کہ اللہ اپنے وفادار بندوں پر اپنی بے پایاں رحمت کا فیضان کرے گا اور وہ ہمیشہ کے لئے اس کی رحمت سے سرشار ہوں گے۔

 

 ۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جن لوگوں کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ قیامت کے دن اللہ کی رحمت کی جو بارش ہونے والی ہے اس سے اپنے دامن بھر لیں وہ اس سے محروم ہی رہنے والے ہیں اور اللہ کی رحمت سے محرومی بہت بڑے گھاٹے کا باعث ہو گی ایسا گھاٹا جو ابدی ہلاکت کے ہم معنیٰ ہے۔

 

 ۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ زمان و مکان سب کا مالک ہے۔ رات اور دن کی حالت اس کے لئے یکساں ہے۔ کوئی چیز کسی حال میں اس کے اختیار سے باہر نہیں۔

 

 ۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھانا پینا مخلوق کا خاصہ ہے خالق کا نہیں۔ اللہ خالق ہے اور اسے کھانے پینے کی کوئی ضرورت لاحق نہیں ہوتی بخلاف اس کے مشرکین اپنے دیوتاؤں کے بارے میں کھانے پینے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان کے مشرکین کا اپنے دیوتاؤں کے بارے میں یہ تصور ہے کہ وہ ایک خاص قسم کا مشروب سوما۔ پی کر زندہ رہتے ہیں اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ بت پرست اپنے خداؤں کے سامنے کھانا پیش کرتے ہیں۔

 

 ۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والا اللہ ہی ہے اور سب کھانے پینے اور پرورش کا سامان تنہا وہی کر رہا ہے اور وہ خود کھانے پینے کا محتاج نہیں ہے تو اس کے سوا کسی اور کو خدا بنانے کا کیا سوال پید ا ہوتا ہے ؟حاجت روا جب تنہا وہی ہے اور سب اس کے محتاج ہیں تو محتاج کو حاجت روا کا درجہ دینا کہاں کی عقلمندی ہے ؟

 

 ۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیغمبر دوسروں کو خداپرستی کی دعوت دینے سے پہلے خود اس پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ وہ حکم الٰہی کے بموجب اپنے کام کا آغاز اپنی ذات سے کرتا ہے یعنی وہ اپنے مکمل طور سے اللہ کے حوالہ کرتا ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کرے گا اور اس کا جو حکم بھی ہو گا بجا لائے گا۔

 

خدا کے اس حکم اور پیغمبر کے اس اسوہ میں ہر اس شخص کے لئے جو حق پسند ہے یہ رہنمائی ہے کہ وہ دینِ حق کے معاملہ میں سب سے پہلے اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرے جو اس کی اپنی ذات سے متعلق ہے قطعِ نظر اس سے کہ لوگ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہیں یا نہیں کیوں کہ سب سے پہلے اسے خدا کے حضور اپنی ذات سے متعلق جوابدہی کرنا ہو گی۔

 

 ۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے مسلم اور مشرک کا فرق واضح ہوتا ہے۔ ایک مسلم اپنے کو مکمل طور پر اللہ کے حوالہ کر دیتا ہے بخلاف اس کے مشرک اپنے کو اللہ کے حوالہ کبھی نہیں کرتا۔ وہ خدا کو مانتا بھی ہے تو کچھ تحفظات (Reservation) کے ساتھ کیوں کہ اس کی وفاداریاں مختلف "خداؤں " میں بٹی ہوئی ہوتی ہیں

 

 ۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن کے عذاب کا ڈر۔ اور یہ ڈر ہر بندۂ خدا کو ہونا چاہئے پیغمبر بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔

 

 ۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اصل کامیابی یہی ہے کہ آدمی قیامت کے دن عذابِ الٰہی سے محفوظ ہو۔ اگر آج لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں ہے تو قیامت کے دن انہیں اس کا احساس ضرور ہو گا۔

 

 ۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دکھ سکھ پہنچانا سب کچھ اللہ ہی کے اختیار میں ہے کسی اور کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ دکھ دور کر سکتا ہے اور سکھ عطا کر سکتا ہے ایک ایسی بات ہے جس کا واقعتاً کوئی وجود نہیں۔ "مشکل کشا"، "غوث " اور  "بگڑ ی کے بنانے والے " یہ سب کھوکھلے القاب ہیں جو لوگوں نے غیر اللہ کے لئے تجویز کر رکھے ہیں۔ حقیقت کا ان سے دور کا بھی تعلق نہیں۔

 

 ۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بندے پوری طرح اس کے قابو میں اور اس کی گرفت میں ہیں۔ وہ جس بندے کو جس حال میں رکھنا چاہے کوئی طاقت نہیں جو اسے اس سے روک سکے۔

 

 ۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان صفات کے ذکر سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ ان خوبیوں سے متصف ہے اس لئے اس کا الٰہ اور معبود ہونا برحق ہے۔ رہے مشرکین کے خدا تو جب ان خوبیوں میں سے کوئی خوبی بھی کسی میں پائی نہیں جاتی تو وہ خدا کہلانے کے مستحق ہی کب ہیں جوا نہیں معبود بنایا جائے۔

 

 ۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ جب اللہ ہی زمین و آسمان کا خالق ہے تو وہی یہ بات بتا سکتا ہے کہ اس نے اپنی خدائی میں کسی کو شریک کیا ہے یا نہیں۔ اس کے بتائے بغیر تمہارا یہ دعویٰ کہ اس نے فلاں اور فلاں کو اپنی خدائی میں شریک کر لیا ہے ایک بے بنیاد دعویٰ ہے۔ خدائی کے معاملہ میں خالقِ کائنات کی گواہی ہی سب سے زیادہ معتبر اور فیصلہ کن ہو سکتی ہے اور میں اسی کی گواہی پیش کر رہا ہوں اور اس کی گواہی۔ جیسا کہ اس کے بعد واضح کیا گیا ہے۔ قرآن کی شکل میں تمہارے سامنے موجود ہے۔

 

 ۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن اللہ کا کلام ہے اس لئے اس کا اللہ کی گواہی ہونا بالکل واضح ہے۔ اور اس کی گواہی یہ ہے کہ اس کی خدائی میں کوئی شریک نہیں۔ اور قرآن اس لئے نازل کیا گیا ہے کہ خدا کا شریک ٹھہرانے والوں کو اس بات سے متنبہ کر دیا جائے کہ انہیں اس جرم کی سخت سزا بھگتنا ہو گی۔

 

 ۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن صرف اہلِ مکہ کے لئے یا عربوں کے لئے نہیں ہے بلکہ عرب و عجم سب کے لئے ہے جس جس تک اور جن جن قوموں تک یہ پہنچے ان سب پر یہ حجت قائم ہو گی کہ پیغمبر نے انہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اور شرک و کفر اور سرکشی کے برے انجام سے انہیں خبردار کر دیا تھا۔

 

 ۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سچی بات یہ ہے کہ اللہ ہی خدا ہے اور وہی معبود برحق ہے اس کے سوا نہ کوئی خدا ہے اور نہ پرستش کا مستحق۔

 

 ۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس طرح کسی کو اپنی اولاد کے پہچاننے میں اشتباہ نہیں ہوتا اسی طرح ان لوگوں کو جو آسمانی کتاب کے حامل ہیں اس نبی کو پہچاننے میں کوئی اشتباہ نہیں ہوتا کیوں کہ وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک نبی کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں نیز انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ آسمانی کتابوں میں (تورات و انجیل میں) آنے والے نبی کے بارے میں جو پیش گوئیاں موجود ہیں ان کا صحیح مصداق نبیِ امیﷺ ہیں۔

 

اس آیت کا اشارہ اہلِ کتاب کے حق پسند گروہ کی طرف ہے اور اس سے مشرکین پر یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ پیغمبر اور قرآن کا ظہور کسی خلا میں نہیں ہوا ہے بلکہ اس کی ٹھوس بنیادیں ہیں اور اس کا تعلق اسی ربانی سلسلۂ ہدایت سے ہے جو پہلے سے چلا ا رہا ہے۔

 

 ۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ منکرین کو دعوتِ فکر ہے کہ اگر تمہارا یہ الزام صحیح ہے کہ اس شخص (پیغمبر) نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ہے تو پھر اس نے اللہ پر سب سے بڑا جھوٹ باندھا ہے اس لئے وہ سب سے بڑا ظالم قرار پاتا ہے لیکن کیا تم کو واقعی یہ شخص اس سطح کا نظر آتا ہے ؟کیا وہ شخصیت جو پیکرِ صد ق ہو اتنا بڑا جھوٹ گڑھ سکتی ہے ؟کیا پاکیزگی سیرت کے ساتھ جھوٹے دعووں اور افتراء پردازیوں کا جوڑ لگ سکتا ہے ؟اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر سوچ لو کہ تمہاری پوزیشن کیا ہوئی؟کیا تم اللہ کی آیات کا انکار کر کے اپنے کو سب سے بڑا ظالم اور مجرم ثابت نہیں کر رہے ہو؟

 

اس آیت کے مفہوم کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ جو شخص خدا پر یہ بہتان لگائے کہ اس نے اپنی خدائی میں فلاں اور فلاں کو شریک کر لیا ہے اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔ اسی طرح جو شخص اللہ کی واقعی آیات کی تکذیب کرے اس سے بڑا مجرم کوئی نہیں۔

 

 ۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن

 

 ۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آج تو یہ مشرکین اپنے خداؤں "کو چھوڑنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں لیکن کل جب کہ وہ عدالتِ خداوندی میں پنے کو حاضر پائیں گے تو ان سے اپنی ان مشرکانہ حرکتوں کا کوئی جواب بن نہ پڑے گا اور دردناک سزا کا ڈر انہیں ایسا بدحواس کرے گا کہ وہ شرک سے بیزاری کے لئے جھوٹ بولنے سے بھی نہیں چوکیں گے۔ مگر ان کا یہ جھوٹ ان ہی کے منہ پر مار دیا جائے گا۔

 

 ۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جن جن کو انہوں نے خدائی کا درجہ دے رکھا تھا وہ سب غائب ہو جائیں گے اور ان کا کوئی "خدا" بھی ان کی مدد کے لئے نہیں آئے گا۔

 

 ۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کچھ لوگ پیغمبر کی باتوں کو سنتے ہیں لیکن قبول حق کی غرض سے نہیں بلکہ کٹ حجتی کے لئے اور اللہ کا قانون ہے کہ جو شخص کھلے ذہن کے ساتھ حق بات سننے اور سمجھنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا اس کو قبولِ حق کی توفیق نہیں بخشی جاتی اور خواہشات کے حجابات اس کے دل پر ایسے پڑ جاتے ہیں کہ داعی کتنی ہی وزنی دلیل پیش کرے بات اس کے دل میں اترتی ہی نہیں۔ چونکہ یہ نتیجہ اللہ کے مقررہ قانون یعنی قانونِ فطرت کے تحت رونما ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس کو اس طرح تعبیر فرماتا ہے کہ ہم نے ان کے دلوں میں پر دے ڈال دئے ہیں یا ہم نے ان کے کانوں میں گرانی ڈال رکھی ہے۔

 

مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۱۵۔

 

 ۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن میں گزشتہ اقوام کی جو تاریخ پیش کی گئی ہے اور پیغمبروں کو جھٹلانے والوں کی تباہی کے جو واقعات بیان ہوئے ہیں وہ پوری طرح صداقت پر مبنی ہیں اور اس لیے بیان کئے گئے ہیں تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں اور قوموں کے عروج و زوال کے اسباب سے آگاہ ہوں لیکن منکرین قرآن اس پر یہ پھبتی کستے تھے کہ یہ داستانِ پارینہ ہے جو ہمیں سنائی جا رہی ہے اور آج کے منکرین بھی یہ پھبتی چست کرتے ہیں کہ یہ دقیانوسی باتیں ہیں۔

 

 ۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین کے اس حسرت ناک انجام کی تصویر الفاظ کے روپ میں آج ہی دکھائی دی گئی ہے تاکہ جو لوگ شرک میں مبتلا ہیں یا کسی مشرکانہ مذہب سے وابستہ ہیں وہ ہوش میں آ جائیں اور اپنا طرز عمل درست کر لیں اور انہیں قیامت کے دن پچھتانا نہ پڑے۔

 

 ۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن ا ن کی یہ حیرت اور دنیا میں دو بارہ جانے کی خواہش اس لیے نہیں ہو گ کہ حق ان پر واضح ہوا ہے بلکہ اس لی ہو گی کہ انہوں نے جن بری اغراض اور جن غلط محرکات کے تحت حق کو قبول نہیں کیا تھا اور ان کو اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے وہ سب کل کر سامنے آ گئی ہوں گی اور عذر کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔

 

 ۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر دو باہ دنیا میں بھج دیا جائے تو وہاں کا ماحول آزمائشی ماحول ہی ہو گا اور جب یہ دو بارہ امتحان میں پڑیں گے تو اپنی خواہشات اور بری اغراض کے تحت پھر وہی طرزِ عمل اختیار کریں گے جو انہوں نے پہلے کا تھا۔

 

 ۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین مکہ دوسری زندگی کے قائل نہیں تھے۔ وہ خدا کو انسان کا خالق مانتے تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ زندگی جو انسان کو عطا ہوئی ہے وہ پہلی اور آخری زندگی ہے۔ اس کے بعد دو باہ زندگی ملنے والی نہیں۔ مشرکین ہند بھی مشرکین مکہ ہی کے نقش قدم پر ہیں فرق صرف یہ ہے کہ وہ پونر جنم کا عقیدہ رکھتے ہیں یعنی انسان کے جانور، درخت وغیرہ میں تبدیل ہو جانے کا تصور اور پونر جنم اس دنیا ہی میں واقع ہو جاتا ہے۔ یہ عقیدہ انسان کے انسان کی حیثیت سے دو باہ اٹھائے جانے کی نفی کرتا ہے۔ اس میں نہ قیامت کا تصور ہے اور نہ خدا کے حضور حاضر ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینے اور اس کی طرف سے اعمال کا بدلہ پانے کا تصور رہے آج کے دور کے مذہب بیزار لوگ تو وہ مادہ پرستی میں اتنے غرق ہیں کہ انہیں دوسری زندگی کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی ہیں۔ زندگی کی خر مستیوں نے انہیں آخرت کے بارے میں بالکل غیر سنجیدہ بنایا ہے چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے۔

 

مے نوش کل کے وعدہ پہ کیا حظ اُٹھائے گا

 

پی لے ابھی کہ کل کو یہ دن نہ آئے گا

 

اے چاند چاندنی کی قسم پی بھی لے کہ چاند

 

آئے گا لوٹ لوٹ کے ہم کو نہ پائے گا۔

 

 ۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ یوم جزاء کو دلال کی روشنی میں ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں وہ اسی وقت مانیں گے جب کہ انہیں اس کا مشاہدہ کرایا جائے گا۔ یہ مشاہدہ دنیا میں تو ہو نہیں سکتا البتہ جب قیامت برپا ہو گی تو وہ اس کا ضرور مشاہدہ کریں گے اور اس وقت اس بات کا اعتراف بھی کریں گے کہ یوم جزاء ایک حقیقت ہے مگر اس وقت کا اعتراف انہیں سزا سے نہ بچا سکے گا۔

 

 ۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے لیے قرآن میں بہ کثرت "الساعۃ" کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی خاص گھڑی اور مقررہ وقت کے ہیں۔

 

 ۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت اس کائنات کا اچانک رونما ہونے والا حادثہ ہو گا۔ اس حادثہ کے واقع ہونے سے چند منٹ پہلے بھی کسی کو یہ خبر نہ ہو گی کہ اس زبردست دھماکہ کا وقت آ لگا ہے۔

 

 ۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد گناہوں کے بوجھ ہیں۔

 

 ۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آخرت کو نظر انداز کر دینے کے بعد دنیا کی حیثیت کھیل تماشے سے زیادہ کچھ بھی نہیں رہتی اسی لیے منکرینِ آخرت آج تک کسی سنجیدہ مقصد کی نشاندہی نہیں کر سکے ہیں۔

 

 ۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آخرت کا انکار عقلمندی نہیں بلکہ عقل سے کام نہ لینے کا نتیجہ ہے۔

 

 ۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قریش نبیﷺ کو امین صادق سمجھتے تھے لیکن جب آپ نے اللہ کا پیغام پہنچانا شروع کیا تو وہ آپ کو جھٹلانے لگے۔ گویا تکذیب کا اصل نشانہ نبیﷺ کی ذات نہیں بلکہ قرآن کی آیات تھیں جن کو آپ پیش فرما رہے تھے۔

 

 ۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد اللہ کی وہ سنت (دستور) ہے جس کے مطابق نصرتِ الٰہی کا ظہور ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور اہلِ ایمان سے نصرت کا جو وعدہ کیا ہے وہ لازما پورا ہو کر رہتا ہے خواہ مخالفتوں کا طوفان کتنی ہی شدت اختیار کر لے لیکن اس نصرت کا ظہور وقت سے پہلے نہیں ہوتا، چنانچہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دعوتِ حق پیش ہوئی ہو اور اہلِ حق کو آزمائشوں سے گزرے بغیر اپنے مخالفین پر غلبہ حاصل ہوا ہو۔

 

اللہ کے کلمات میں تبدیلی ممکن نہیں یعنی اس کے فیصلے، اس کے وعدے اور اس کی تمام باتیں بالکل اٹل ہیں اور کوئی طاقت ایسی نہیں جو ان کو تبدیلی کر سکے۔ اس کی ہر بات پتھر کی لکیر اور اس کا ہر فیصلہ ناقابلِ تغییر ہے۔

 

 ۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انبیاء کی جو سرگزشتیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں ان سے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت واضح ہوتی ہے کہ نصرتِ الٰہی اہلِ حق کے آزمائشوں کی بھٹی سے گزرنے اور حق کے پوری طرح واضح ہو جانے کے بعد ظہور میں آتی ہے۔ اس لئے مخالفین کی اذیتوں سے متاثر ہو کر اہلِ حق کو کبیدہ خاطر نہیں ہونا چاہئے۔

 

 ۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کفار نبیﷺ سے ایسے معجزات کا مطالبہ کرتے تھے جن کے بعد غیب غیب نہ رہے مثلاً  فرشتوں کا اپنی اصل ہیئت میں نزول وغیرہ۔ اسی کے جواب میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے جس سے مقصود نبیﷺ کو تسلی دنیا بھی ہے نیز واضح کرنا بھی کہ معجزہ دکھانا نبی کے اختیار میں نہیں ہے بلکہ یہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے اور اسی کی مشیت پر موقوف ہے۔ اور جہاں تک کفار کے مطلوبہ معجزات کا تعلق ہے اگر وہ دکھائے جائیں تو عقل و شعور کے امتحان کا کوئی موقع باقی نہیں رہتا اس لئے ان کو دکھانا حکمتِ الٰہی کے خلاف ہے۔ اس آیت سے ضمناً یہ بات بھی واضح ہوئی کہ جب ایک نبی اللہ کی مشیت کے بغیر معجزہ دکھانے پر قادر نہیں ہوتا تو کسی ولی اور کسی بزرگ کے بس میں کہاں ہو سکتا ہے کہ وہ کرامتیں دکھائے۔ طبعی قوانین پر حکومت صرف اللہ کی ہے اور ا ن کی گرفت سے آزاد ہو کر کوئی غیر معمولی چیز دکھانا کسی بھی انسان کے بس کی بات نہیں خواہ وہ نبی ہو یا ولی البتہ جب اللہ چاہتا ہے نبی کے ہاتھ سے معجزہ صادر ہو جاتا ہے اور جب وہ چاہتا ہے کسی نیک اور بزرگ شخص کی تائید غیر معمولی طریقہ پر کرتا ہے ورنہ کوئی بزرگ سے بزرگ شخصیت نہ کرامت دکھانے پر بجائے خود قادر ہوتی ہے اور نہ کرامت دکھانے کا دعویٰ کر سکتی ہے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ صحابۂ کرام میں سے کسی نے بھی کرامت دکھانے کا دعویٰ نہیں کیا۔

 

 ۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی مشیت یہ نہیں ہے کہ لوگ لا محالہ ہدایت پر مجتمع ہو جائیں اور ا ن کے لئے عقل و شعور کے امتحان کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔ اگر اللہ کی مشیت یہ ہوتی تو کوئی شخص بھی راہِ ہدایت سے انحراف نہیں کر سکتا تھا لیکن اس کی مشیت یہ ہوئی کہ انسان کو عقل و شعور سے کام لینے کا موقع دیا جائے اس لئے کوئی ایسی نشانی (معجزہ) دکھانا جس کے بعد عقل و شعور کے امتحان کا کوئی موقع باقی نہ رہے اللہ تعالیٰ کی اس اسکیم کے خلاف ہے جو اس نے اپنی حکمت کے تحت اس دنیا کے لئے بنائی ہے جو لوگ اللہ کی اس اسکیم کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے وہ نادانی کی باتیں کر نے لگتے ہیں۔

 

 ۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سننے سے مراد وہ سنتا ہے جو قبول حق کی غرض سے ہو یعنی دل اس بات کے لئے آمادہ ہو کہ جو بات سنائی جا رہی ہے وہ اگر حق ہے تو میں اسے ضرور قبول کروں گے اور اس معاملہ میں اپنی کسی خواہش یا کسی قسم کے مذہبی تعصب کو رکاوٹ نہ بننے دوں گا۔

 

 ۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مر دے ان لوگوں کو کہا گیا ہے جو پیغمبر کی دعوتِ حق کو سننے سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہ دل کے مردہ ہونے کا نتیجہ ہے اور جب آدمی کا دل ہی مر گیا ہو تو اس کا وجود کہاں رہا۔ اس کی حیثیت ایک بے جان لاش سے زیادہ نہیں ایسے لوگ جب قیامت کے دن قبروں سے اٹھائے جائیں گے تب ہی ان پر حق کھل سکے گا۔

 

 ۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پیشی کے لئے۔

 

 ۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد ایسا معجزہ ہے جو محسوس بھی ہو اور جو غیب کے پردہ کو چاک کر کے دکھلا دے کہ اس شخص کو واقعی اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے۔

 

 ۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایسا معجزہ نہ دکھانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ اس پر قادر نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ دوسری ہے جس کو یہ جانتے نہیں ہیں۔ اور وہ وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسا معجزہ طلب کر رہے ہیں جو اگر دکھایا جائے تو پھر غیب غیب نہیں رہتا۔

 

رہا یہ سوال کہ پھر دوسرے انبیاء علیہم السلام کو حسی معجزے کس طرح دیئے گئے تے تو اس کا جوا ب یہ ہے کہ اول تو کفار مکہ کا مطالبہ اس طرح کے حسی معجزے کا نہیں تھا بلکہ وہ چاہتے تھے کہ کوئی ایسی نشانی ظاہر ہو جائے جس سے وہ غیب کے بعض حقائق کا مشاہدہ کر سکیں مثلاً  فرشتہ کو اس کی اصل ہیئت میں دیکھنا۔ آسمان سے لکھی لکھائی کتاب کا اترنا ، پیغمبر کا آسمان پر سیڑھی لگا کر چڑھنا ، آسمان کا کوئی ٹکڑا زمین پر گرا دینا وغیرہ۔ ظاہر ہے پچھلے انبیاء کو جو معجزہ دئے گئے تھے ان میں سے کوئی معجزہ بھی اس نوعیت کا نہ تھا۔ دوم یہ کہ پچھلے انبیاء کو جو حسی معجزے دئے گئے تھے وہ بھی دو قسم کے تھے۔ ایک وہ جو بغیر مطالبہ کے دئے گئے تھے مثلاً  موسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزہ دیا گیا تھا کہ آپ کی لاٹھی سانپ بن جایا کر تی تھی اور دوسری قسم کے معجزے وہ جو کفار کے مطالبہ پر دئے گئے مثلاً  قوم ثمود کے مطالبہ پر صالح علیہ السلام کو اونٹنی کا معجزہ دیا گیا تھا۔ جہاں تک پہلی قسم کے معجزہ کا تعلق ہے نبیﷺ کو ان تمام وقتی معجزات سے بڑھ کر ایک دائمی معجزہ عطا کیا گیا ہے اور وہ ہے قرآن اسی لئے چیلنج کیا گیا کہ اگر قرآن تمہاری نظر میں معجزہ نہیں ہے تو تم بھی اس جیسا قرآن تصنیف کر کے لاؤ۔ رہا دوسری قسم کا معجزہ تو یہ کفار کا منہ مانگا معجزہ ہوتا ہے اور جب وہ عطا کیا جاتا ہے اور وہ ایمان نہیں لاتے تو ان کی مہلتِ عمل ختم ہو جاتی ہے اور اللہ کا عذاب انہیں آ لیتا ہے اس لئے مصلحت الٰہی اس بات کی متقاضی ہوئی کہ کفار مکہ کو ان کا منہ مانگا معجزہ نہ دکھا یا جائے تاکہ ان کی مہلت عمل جلد ختم نہ ہو جائے۔ اور بعد کے حالات نے واضح کر دیا کہ اس قسم کے معجزے نہ دکھانا قریش کے حق میں بہتر ثابت ہوا کیوں رفتہ رفتہ ان میں سے کتنے ہی لوگوں کی سمجھ میں پیغمبر کی بات آ گئی اور انہیں ایمان کی توفیق نصیب ہوئی۔

 

 ۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی چرند ہو یا پرند، خشکی کے جانور ہو یا تری کے ، چونٹیاں ہوں یا تتلیاں سب الگ الگ انواع ہیں۔ اور جس طرح انسان کی نوع اپنے اندر ایک اجتماعیت اور ایک وحدت ہے اور اس کی پرورش اور اس کی معیشت کا بھی ایک نظام ہے۔ مثال کے طور پر چیونٹیوں کے نظام اور شہد کی مکھی کے نظام کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح باہم مربوط رہتی ہیں اور کتنی باقاعدگی کے ساتھ اس راہ پر چل پڑتی ہیں جو ان کی معیشت کے لئے مقرر کر دی گئی ہے۔

 

ان انواع اور اجناس کا آدمی اگر بغور مشاہدہ کرے تو اس کو خالقِ کائنات کی ایک سے ایک عجیب نشانیاں نظر آئیں گی اور یہ نشانیاں ان ہی حقیقتوں کی طرف اس کی رہنمائی کریں گی جن کی دعوت قرآن اور پیغمبر دے رہے ہیں۔

 

 ۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نے اپنی مخلوقات کے لئے جو نوشتۂ تقدیر بنایا ہے اس میں چھوٹی بڑ ی ساری چیزیں درج ہیں۔ کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو چھوٹ گئی ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک منصوبہ کے تحت ہو رہا ہے اور اس کے پیچھے ایک ایسی ہستی کا ارادہ اور تدبیر کا ر فرما ہے جو کامل علم رکھنے والی ہے۔

 

 ۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمام جاندار مخلوق کی جانیں ان کے مرنے بعد خدا ہی کے پاس اکٹھی ہو جاتی ہیں کیوں کہ وہی سب کا خالق اور وہی سے کا مرجع ہے۔

 

 ۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حقیقت کی طرف رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو نشانیاں اس کائنات میں رکھی ہیں آدمی جب ان نشانیوں کی غلط توجیہ کر بیٹھتا ہے اور پیغمبر کی بات پر دھیان نہیں دیتا تو اس کا حال ایک بہرے اور گونگے شخص کی طرح ہو جاتا ہے کہ حق بات نہ سن سکتا ہے اور نہ بول سکتا ہے۔ ایسا شخص جہالت کی تاریکی میں پڑا رہتا ہے اگر چہ کہ اسے اپنے علم پر ناز ہو

 

 ۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی گمراہ ہونا یا راہِ راست پر ہونا اللہ ہی کی مشیت پر موقوف ہے کسی اور کا اس معاملہ میں دخل نہیں اللہ تعالیٰ کی یہ مشیت اس کی اس حکمت کے مطابق ہوتی ہے کہ نہ کسی کو گمراہی کے راستہ پر چلنے کے لئے مجبور کیا جائے اور نہ ہدایت کی راہ پر چلنے کے لئے بلکہ جو شخص ہدایت کا طالب ہو اسے ہدایت دی جائے اور جو بھٹکنا چاہتا ہو اسے اس بات کا موقع دیا جائے کہ وہ بھٹکتا رہے۔ بالفاظ دیگر کسی کا ہدایت پانا یا گمراہ ہونا اللہ کے قانونِ ہدایت و ضلالت کے مطابق ہی ہوتا ہے۔

 

 ۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ توحید کی وہ نشانی ہے جو انسان کے اپنے نفس میں موجود ہے۔ جب انسان کسی غیر معمولی مصیبت میں پھنس جاتا ہے یا زبردست خطرہ سے دوچار ہوتا ہے تو اس وقت اسے خدا یاد آ جاتا ہے اور تمام بناوٹی معبودوں کو وہ بھول جاتا ہے یہاں تک کہ جو لوگ خدا کے قائل نہیں ہیں انہیں بھی ایسے نازک وقت میں خدا یاد آ جاتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے نفس میں خدائے واحد کی شہادت موجود ہے۔

 

مشرکین مکہ اگر چہ بت پرست تھے لیکن جب کسی غیر معمولی مصیبت میں گھر جاتے تو اللہ ہی کو پکارتے۔

 

انسان کے نفس کی اسی شہادت کو پیش کرتے ہوئے اسے دعوتِ فکر دی جا رہی ہے کہ کم از کم اسے اس امکانی بات پر تو غور کرنا چاہئے کہ اگر اللہ کا عذاب آ جاتا ہے یا قیامت کا دھماکہ ہو جاتا ہے تو ا س وقت انسان اپنے بچاؤ کے لئے کس کو پکارے گا ؟اگر انسان اس کا تصور ہی کرے تو خدا کی طرف لپکے۔

 

 ۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معاشی تنگی اور جسمانی آلام میں قوموں کو جو مبتلا کیا جاتا ہے وہ بے مقصد نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے خدا کی یہ حکمت کار فرما ہوتی ہے کہ ان کو سنبھلنے کا موقع دیا جائے۔ تنگی اور تکلیف انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں ، اسے اپنے رب کی طرف متوجہ کرتی ہیں اور اس کے دل کو اس بات کے لئے ساز گار بناتی ہیں کہ وہ اللہ کے حضور جھکے۔

 

 ۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب حالات کی شدت بھی کسی قوم کے دلوں میں نرمی پیدا نہیں کرتی پھر ان کے دل ایسے سخت ہو جاتے ہیں کہ کوئی نصیحت بھی ان پر اثر انداز نہیں ہوتی اور شیطان کا جادو ایسا چل جاتا ہے کہ انہیں اپنا غلط طرزِ عمل بھی صحیح معلوم ہونے لگتا ہے ، وہ گناہ کے کاموں کو اپنا قابلِ فخر کارنامہ سمجھنے لگتے ہیں۔ اور ان کی نظر میں قدریں بدل جاتی ہیں۔ تھا جونا خوب وہی خوب ہوا۔

 

 ۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب کوئی قوم حالات کی شدت سے سبق حاصل نہیں کرتی بلکہ اس کی یہ توجیہ کرتی ہے کہ یہ محض حوادثِ زمانہ ہیں اور قوموں کو نرم گرم حالات تو پیش آتے ہی رہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آزمائش کا ایک دوسرا باب کھول دیتا ہے اور ہر طرح کی خوش حالیوں سے ان کو بہرہ مند کرتا ہے تاکہ ان کے اندر اپنے رب کی شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہو مگر جب وہ شکر گزار ہونے کے بجائے گھمنڈ کرنے اور اترانے لگتے ہیں تو پھر ان کا پیمانہ بھر جاتا ہے اور اللہ کا عذاب اچانک انہیں آ لیتا ہے۔ پھر یاس و نا امید کے سوا کچھ بھی ان کے پلے نہیں پڑتا۔

 

یہ حالات خاص طور سے رسولوں کی امتوں کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں تاکہ ان کی صداقت واضح ہو لیکن اس قسم کے حالات عام قوموں کے ساتھ بھی پیش آتے رہتے ہیں تاکہ وہ ہوش میں آئیں۔

 

 ۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرکش قوموں کو ہلاک کرنا تقاضائے عدل بھی ہے اور دنیائے انسانیت کے حق میں باعث خیر بھی کفر کا زور ٹوٹ گیا اور فاسد عناصر سے ماحول پاک ہو گیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کے ساتھ جو معاملہ کیا اس پر وہ تعریف ہی کا مستحق ہے۔

 

 ۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عقل و فہم کی قوتیں سلب کر لے۔

 

 ۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن میں توحید کے دلائل مختلف پہلوؤں سے اور مختلف اسلوب میں پیش کئے جا رہے ہیں تاکہ جو لوگ بات سمجھنا چاہیں وہ بہ آسانی سمجھ سکیں۔

 

 ۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں عذاب سے مراد وہ عذاب ہے جو پیغمبروں کو جھٹلانے والی قوموں پر حجت تمام ہونے کے بعد آتا ہے اور چونکہ یہ عذابِ حق و باطل میں فرق کرنے کے لئے آتا ہے اس لئے اس کی زد میں صرف باطل پرست آ جاتے ہیں اور اہلِ ایمان کو اس سے بچا لیا جاتا ہے چنانچہ قوم ثمود، قومِ عاد وغیرہ پر جو عذاب آئے ان کی زد میں صرف کفار آئے تھے۔ اہلِ ایمان ایسے ہر موقع پر محفوظ رہے ہیں۔

 

 ۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رسولوں کو بھیجنے کا اصل مقصد معجزے دکھانا نہیں ہے بلکہ دعوت ایمان پیش کرنا ہے۔ جو اسے قبول کریں ان کو ابدی کامیابی کی خوشخبری سناتا اور جو اس سے انکار کریں انہیں ابدی ہلاکت سے آگاہ کرنا ہے۔ معجزے اگر دکھائے جاتے ہیں تو محض اتمام حجت کے لئے جب کہ اللہ کی حکمت اس کی متقاضی ہوتی ہے اس لئے رسول کے ساتھ معجزوں کو لازم و ملزوم سمجھنا صحیح نہیں۔

 

 ۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی وہ بات ہے جس سے پیغمبر اپنی اپنی قوموں کو متنبہ کرتے رہے ہیں۔

 

 ۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منکرین نبیﷺ سے عجیب و غریب معجزے دکھانے کا جو مطالبہ کرتے تھے اس کے جواب میں آپ کی زبان سے یہ اعلان کر ا دیا گیا ہے کہ میں نے یہ دعویٰ ہی کب کیا ہے کہ میں تم کو ایک سے ایک عجیب چیز (چمتکار) دکھا سکتا ہوں جو تم مجھ سے اس طرح کے مطالبات کر رہے ہو۔ میں نے تمہارے سامنے پیغام حق پیش کر دیا ہے جو میری طرف اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے ذریعہ سے بھیجا ہے جو تمہارے لئے غیر مرئی ہے۔ تمہیں چاہئے کہ ا س پیغام کی صداقت کو دلائل کی کسوٹی پر جانچو لیکن تم حق کو اپنی چشم بصیرت سے دیکھنے کے بجائے عجوبے دیکھنا چاہتے ہو اور عجوبے دکھانا میرے اختیار کی بات نہیں ہے بلکہ خدا کے اختیار کی ہے۔ میں نے صرف پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہے یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ اللہ کے خزانے میرے اختیار میں ہیں کہ ان میں جس طرح چاہے تصرف کروں اور نہ میں ان باتوں کو جانتا ہوں جو غیب میں ہیں سوائے ان کے جو اللہ اپنی وحی کے ذریعہ مجھے بتاتا ہے۔ اور نہ ہی میں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں انسان نہیں بلکہ فرشتہ ہوں۔ میری حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ مجھے منصبِ رسالت عطاء کیا گیا ہو وہ انسان ہی رہتا ہے۔ نہ اس کے اندر خدائی صفت پیدا ہوتی ہے اور نہ وہ فرشتہ بن جاتا ہے مگر میرے دعوائے رسالت میں صداقت کا مشاہد ہ وہی شخص کر سکتا ہے جس نے اپنی آنکھوں پر پٹی نہ باندھ لی ہو کیوں کہ حقیقت کتنی ہی روشن ہو مگر اس کو وہی شخص دیکھ سکتا ہے جو آنکھیں رکھتا ہو۔

 

نبیﷺ کی زبانی یہ اعلان کہ ولا اعلم الغیب "اور نہ مجھے غیب کا علم ہے "ایک ایسی واضح بات ہے جس میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ مگر جن لوگوں کے ذہن میں ٹیڑھ ہے انہوں نے اتنی واضح بات میں بھی اختلافِ پیدا کر دیا چنانچہ مسلمانوں کے درمیان یہ بحث کھڑی ہو گئی ہے کہ نبیﷺ کو علم غیب تھا یا نہیں جو لوگ غلو اور بدعات میں مبتلا ہیں وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ کو علمِ غیب تھا جب کہ یہ آیت اس دعوے کی صریح تردید کرتی ہے اور پورے قرآن میں یہ کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ نبیﷺ کو غیب داں بنایا گیا ہے بلکہ صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ کو ہے اور وہ اپنے نبی پر غیب کی وہ باتیں ظاہر کر تا ہے جو فریضۂ رسالت سے متعلق ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے عام انسانوں کے مقابلہ میں ایک نبی کو یہ امتیاز ضرور حاصل ہوتا ہے کہ اس پر غیب کے وہ حقائق روشن ہوتے ہیں جو عام انسانوں پر نہیں ہوتے اور اس کو وہ علم حاصل ہوتا ہے جس تک کسی انسان کی رسائی ممکن نہیں مگر ان سب باتوں کا تعلق وحی الٰہی سے ہے اور علم غیب کے تعلق سے نبی کا یہ امتیاز در حقیقت کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے لیکن بلا وجہ کی نزاع پیدا کر دی گئی ہے اور جس طرح اہلِ کتاب واضح تعلیمات کے آ جانے کے بعد اختلافات کا شکار ہو گئے تھے اسی طرح علم غیب کے سلسلہ میں قرآن کے واضح ارشادات کے باوجود مسلمان اختلافات میں پڑ گئے ہیں۔

 

 ۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وحی کے لفظی معنیٰ اشارہ کرنے کے ہیں۔ اللہ اپنا پیغام اپنے پیغمبروں تک جس مخفی ذریعہ سے بھیجتا ہے اس کا اصطلاحی نام وحی ہے۔ یہاں وحی سے مراد قرآن ہے۔

 

 ۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کے ذریعہ خبردار کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ انذار و تبلیغ کے لئے براہِ راست قرآن کو پیش کیا جائے کیوں کہ کلامِ الٰہی سے بڑھ کر مؤثر کوئی چیز نہیں ہو سکتی اور اللہ کی حجت بھی اس کے کلام ہی کے ذریعہ قائم ہو سکتی ہے۔ یہ حکم نبیﷺ کو دیا گیا تھا جب کہ مخاطب قوم کی زبان عربی تھی۔ آج کے حالات میں اس حکم کی تعمیل کے لئے ضروری ہے کہ حاملین قرآن مخاطب کی زبان میں قرآن کا ترجمہ خاص طور سے ان آیات کا ترجمہ پیش کریں جو انذار پر مشتمل ہیں یعنی جن میں کفر و سرکشی کے اخروی انجام سے خبردار کیا گیا ہے۔

 

 ۸۴۔ یعنی جو لوگ اپنے اخروی انجام کی طرف سے بے پرواہ ہیں اور ان کی بے حسی کا یہ حال ہے کہ متنبہ کرنے والے کی بات سنجیدگی کے ساتھ سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور ان لوگوں کی طرف توجہ کرو جن کے دل ابھی زندہ ہیں اور جو اپنی نجات کے لئے فکر مند رہتے ہیں۔

 

واضح رہے کہ خدا کے حجور جوابدہی کا اندیشہ انسان کی فطرت میں ودیعت ہوا ہے یہ اور بات ہے کہ خواہشات کا غلبہ اسے دبا دے۔ قرآن کی تنبیہات (انذار) اس فطری اندیشہ کو قوی اور فعال بنات ہیں جس کے نتیجہ میں انسان متقیانہ زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔

 

 ۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مکہ میں دعوتِ قرآنی پر لبیک کہنے والوں میں ایسے لوگوں کی تعداد خاصی تھی جن کی نہ کوئی مالی حیثیت تھی اور نہ جو دنیوی جاہ و حشمت رکھتے تھے اور بعض تو غلامی کی زندگی گزار رہے تھے مگر وہ اپنے رب کے لئے اپنے سینہ میں دھڑکتا ہوا دل رکھتے تھے جس نے انہیں نبیﷺ کے گرد جمع کیا تھا اور وہ آپ کی مجلس میں شریک ہوتے تھے۔ لیکن قریش کے سردار ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان کا گھمنڈ اس بات کو گوارا نہیں کرتا تھا کہ وہ نبیﷺ کی اس مجلس میں آئیں جس میں امیر و غریب سب کا درجہ برابر تھا اس لئے ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹا دیجئے تو ہم آپ کے پاس آئیں ان کے اسی مطالبہ کو یہاں سختی کے ساتھ رد کر دیا گیا ہے اور مخلص اہلِ ایمان کی قدر افزائی کی گئی ہے اگر چہ کہ وہ غریب اور بے نوا ہوں۔

 

 ۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سوسائٹی کے غریب اور بے نوا لوگوں کو ایمان کی توفیق عطا کر کے ہم نے دولت اور جاہ و حشمت رکھنے والے لوگوں کو آزمائش میں ڈال دیا ہے کہ اگر وہ سوجھ بوجھ سے کام لیں تو دولتِ ایمان کے قدر داں بن سکتے ہیں اور اگر غرور میں مبتلا رہنا چاہتے ہیں توا س کی ناقدری کریں۔ اس آزمائش میں یہ لوگ ناکام ثابت ہو رہے ہیں چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ یہ لوگ غریب اہلِ ایمان کی ناقدری کرتے ہوئے ان پر اس طرح کی پھبتیاں چست کر رہے ہیں کہ کیا خدا کو اپنے فضل سے نوازنے کیلئے یہی لوگ مل گئے ؟

 

 ۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اہلِ ایمان کی توفیق کے معاملہ میں اصل چیز انسان کی دنیوی حیثیت نہیں بلکہ اس کا وہ جذبۂ شکر ہے جو اپنے رب کے لئے وہ اپنے دل میں رکھتا ہے اس لئے وہ اپنے شکر گزار بندوں ہ کو دولتِ ایمان سے نوازتا ہے اگر چہ کہ وہ دنیوی لحاظ سے کتنی ہی مفلوک الحال ہوں۔

 

 ۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کافر غریب اہلِ ایمان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ، اور ان کی دل شکنی کے درپے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کو ایسا روح پر ور سنایا ہے جو ان کے سارے غم غلط کر دینے کے لئے کافی ہے اور ان کو وہ عزت و سرفرازی بخشی ہے جس کا تصور بھی دنیا پرست نہیں کر سکتے۔

 

 ۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پکارنے سے مراد حاجت روائی کے لئے پکارنا، نام جینا اور دعا مانگنا ہے۔ یہ پکارنا عباد ت کے ہم معنی ہے اور اللہ ہی اس کا مستحق ہے کہ اسے پکارا جائے مگر مشرکین اللہ کو چھوڑ کر اپنے من گھڑت خداؤں کو پکارتے ہیں ، ان کے نام کی مالا جپتے ہیں ، ان سے دعائیں مانتے ہیں اور ان کے نام کی جے لگاتے ہیں۔

 

 ۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرک اور بت پرستی کا ہدایتِ خداوندی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ انسان کی باطل خواہشات ہیں جن کو مذہب اور دھرم کے نام سے پیش کر کے بندگانِ خدا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

 

 ۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قرآن ہے جو اللہ کی طرف سے قطعی حجت ہے۔ نبیﷺ کی دعوتِ توحید اسی حجت پر مبنی ہے۔ وہ ایک ایسی معقول بات ہے کہ ہر انصاف پسند شخص کی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ وہ فطرت کی آواز اور وجدان کو پکار ہے۔ اس کے برخلاف مشرکین جس چیز کی طرف بلاتے ہیں وہ کسی دلیل پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ محض ان کی ذہنی اپج اور خواہش پر ستی ہے۔

 

 ۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عذاب۔

 

 ۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ظالم سے مراد مشرکین ہیں۔ انہیں ظالم اس لئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے شرک اور انکارِ حق کی راہِ اختیار کر کے اپنی فطرت کی آواز کو دبایا، اپنی عقل پر جہالت کے پردے ڈال دے اور اپنے رب کے ساتھ بے وفائی کی۔ اس طرح وہ اپنے کو برے انجام کے حوالہ کر کے اپنے آپ پر ظلم ڈھانے والے بنے۔

 

 ۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی غیب کے خزانوں کا وہی مالک ہے اور ان کے دروازے اسی کے کھولنے سے کھلتے ہیں۔ جو چیز بھی عالمِ غیب سے عالمِ شہود میں آتی ہے اسی کے لانے سے آتی ہے اور اسی پر تمام اسرارِ کائنات اور راز ہائے سربستہ منکشف ہیں۔

 

 ۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کو محیط ہے وہ صرف بڑی بڑی چیزوں ہی کو نہیں چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی جانتا ہے اور صرف کلیات ہی سے نہیں جزئیات سے بھی واقف ہے۔

 

 ۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد زمین کے اندرونی حصے اور اس کی تہیں ہیں۔

 

 ۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس تمام احوال واقعات کا ان کی تمام واقعات کی تفصیلات کے ساتھ نہایت واضح شکل میں ریکارڈ موجود ہے۔ پھر جس کے پاس پوری دنیا کی کرانولوجی (Chronology) تاریخ وار ریکارڈ) موجود ہو اس کے پاس انسانی اعمال کا ریکارڈ کیسے نہیں ہو گا؟

 

 ۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیند کو وفات سے تعبیر کیا گیا ہے کیوں کہ نیند کی حالت میں آدمی دنیا سے اسی طرح بے خبر ہو جاتا ہے جس طرح کہ موت کی حالت میں ہوتا ہے۔

 

 ۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو خدا رات میں تم پر نیند طاری کرتا ہے وہ تمہارے دن کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے اور وہی ہے جو رات گزرنے کے بعد پھر تم کو اٹھا کھڑا کرتا ہے۔ اور یہ سونے اور جاگنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے ، یہاں تک کہ تمہاری مدت مقررہ پوری ہو جاتی ہے اور تم موت کے آغوش میں چلے جاتے ہو۔ گویا مرنے کے بعد دو باہ اٹھائے جانے کا مشاہدہ تمثیلی رنگ میں تم روزانہ کرتے رہتے ہو پھر کیا اس سے زندگی بعد موت کی صداقت واضح نہیں ہوتی ؟اور کیا یہ مشاہدہ تمہارے اندر دو باہ اٹھائے جانے کا یقین پیدا نہیں کرتا۔

 

 ۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمام بندے اس کے قابو میں ہیں اور اشرار اور شیاطین سب پر اس کا کنٹرول ہے۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ فرشتے ہیں جو انسان کے اعمال کا ریکارڈ محفوظ کرنے پر مامور ہیں۔ مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ انفطار نوٹ ۱۰۔

 

 ۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کی موت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس میں کسی کا حتی کہ فرشتوں کا بھی کوئی دخل نہیں فرشتے محض اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے روح قبض کرتے ہیں۔

 

 ۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مرنے کے بعد انسان کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ وہ اللہ کے حضور پہنچ جاتا ہے۔

 

 ۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہوشیار ہو جاؤ کہ تمہارے مرنے کے بعد تمہاری قسمتیں اسی کے ہاتھ میں ہوں گی اور اس خیال خام میں مبتلا نہ رہو کہ کسی کا دامن پکڑ کر نجات حاصل کر سکو گے۔

 

 ۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اربوں انسانوں کا حساب لینے میں اللہ کو کچھ دیر نہیں لگے گی۔

 

 ۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاریکیوں سے مراد وہ تاریکیاں ہیں جو آفات کی شکل اختیار کر لیں مثلاً  جب گھٹا ٹو پ اندھیر ا چھا جائے اور طوفانی ہوائیں چلنے لگیں یا صحرا میں آندھی آ جائے یا سمندر کی موجیں آدمی کو اپنی لپیٹ میں لے لیں

 

 ۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی چاہئے تو تھا کہ مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرتے مگر تم نذرانۂ شکر اپنے من گھڑت خداؤں کے حضور پیش کرتے ہو۔

 

 ۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی نافرمانی کرنے والے جب یہ دیکھتے ہیں کہ گناہ اور برائی کے کام کرتے رہنے کے باوجود خدا کا عذاب نہیں آتا تو وہ چین کی بانسری بجانے لگتے ہیں کہ کوئی عذاب آنے والا نہیں۔ ایسے ہی لوگوں کو یہاں متنبہ کیا جا رہا ہے کہ خطرہ کی گھنٹی ہر آن بج رہی ہے لیکن جن لوگوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی ہیں انہیں اس کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اللہ کے عذاب کو آتے کیا دیر لگتی ہے۔

 

ہوا کا طوفان (Cyclone) اچانک نمودار ہو کر تمہارے پرخچے اڑا سکتا ہے ، سیلاب کا ایک ریلا تمہاری فصلوں سمیت تم کو بہا لے جانے کے لئے کافی ہے ، زلزلہ کا ایک جھٹکا تمہاری آبادیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر سکتا ہے اور یہ بھی بعدی نہیں کہ تمہارے درمیان پھوٹ پڑ جائے اور تم باہم گتھم گتھا ہو جاؤ یا قوموں کے عناد کے نتیجہ میں تمہیں ایک دوسرے کی قوت کا مزہ چکھنا پڑے۔

 

 ۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ حقیقتیں جو آیات قرآنی میں بیان ہوئی ہیں مختلف اسالیب اور مختلف پہلوؤں سے پیش کی گئی ہیں تاکہ بات آسانی سے لوگوں کی سمجھ میں آ سکے۔

 

 ۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن کو۔

 

 ۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میرے سپرد جو کام ہوا ہے وہ تبلیغ و تذکیر کا ہے ایمان لانے کے لئے جبر کرنے کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ڈالی گئی ہے۔

 

 ۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن جو خبریں تمہیں دے رہا ہے مثلاً  پیغمبر کو جھٹلانے کی صورت میں عذاب کی خبر، قیامت کی خبر، کافروں کے لئے جہنم کی خبر وغیرہ تو ان میں سے ہر خبر کے ظہور کے لئے وقت مقرر ہے اور وہ لازما اپنے وقت پر ظاہر ہو کر رہے گی۔

 

 ۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تذکیر و دعوت کے سلسلہ میں ایک اہم ہدایت ہے جو اہلِ ایمان کو دی گئی ہے۔ کسی ایسی مجلس میں جہاں قرآن کا یا اس کے احکام کا مذاق اڑایا جا رہا ہو یا لوگ بحث میں الجھ کر کفر بک رہے ہوں وہاں بیٹھنا غیرتِ ایمانی کے خلاف ہے۔ کوئی مخلص مسلمان ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا گوار انہیں کر سکتا جہاں اس کے دین کو مجروح کیا جا رہا ہو۔ یہاں اس ہدایت کے ساتھ یہ تاکید بھی کر دی گئی ہے کہ اگر کبھی شیطان کے بھلاوے میں ڈالنے کی وجہ سے یہ ہدایت یا د نہ رہے تو جوں ہی یاد آ جائے ایسی مجلس سے اٹھ جاؤ۔

 

ایک طرف یہ تاکیدی ہدایت ہے اور دوسری طرف موجودہ دور کے لادینیت پسند مسلمان ہیں جو غیر مسلموں کو اپنی مجلسوں میں بلا کر ان سے ایسی تقریریں کراتے ہیں جن میں شریعت کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور جہاں موقع ملتا ہے خود بھی دین پر تیشہ چلانے ہیں تاکہ ان کے لادینی ہونے کی لاج رہ جائے۔

 

اس آیت میں جو ہدایت دی گئی ہے اس کا حوالہ سورۂ نساء کی آیت ۱۴۰ میں بھی دیا گیا ہے۔

 

 ۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اہلِ ایمان پر ان منکرین کے عمل کی کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ہے بلکہ صرف تذکیر کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔

 

پھر وہ کیوں ان کے معاملہ میں بے جا روا داری سے کام لیں ؟ان کا کام یہ ہے کہ تذکیر و نصیحت کا اگر کوئی موقع ہے تو اسے ہاتھ سے جانے نہ دیں اور اگر دیکھیں کہ مخاطب سنجیدگی کھو بیٹھا ہے اور دین کو طنز و تشنیع کا نشانہ بنا رہا ہے تو اس کے پاس سے اٹھ جائیں اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیں۔

 

 ۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دین سے مراد اسلام ہے اور اسے ان لوگوں کی طرف اس لئے منسوب کیا گیا ہے کہ اللہ نے دینِ اسلام کو پوری انسانیت کی رہنمائی کے لئے نازل کیا تھا اس لئے یہ دین ہر شخص کا اپنا دین ہے لیکن ان ناقدروں نے اپنے اس دین کو اپنا رہنما بنانے کے بجائے کھیل تماشا بنا لیا کہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔

 

اس ذہنیت کے لوگ ہر زمانہ میں پائے جاتے رہے ہیں اور آج کا" ماڈرن" انسان بھی اسلام کو دقیانوسی قرار دیکر اس کی تعلیمات کا مذاق اڑاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ "روشن خیالی" ہے۔

 

 ۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے دین کی یہ ناقدری وہ اس لئے کرتے ہیں کہ دنیا کی زندگی ان کی نظر میں ایسی کھب گئی ہے کہ وہ اس سے بلند تر کسی زندگی کا تصور تک کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

 

 ۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اول تو اس روز فدیہ میں دینے کے لئے اس کے پاس کچھ ہو گا نہیں لیکن بالفرض اس کے پاس دنیا بھر کی دولت ہوتی تو وہ سب فدیہ میں دے کر اپنی جان چھڑانے کے لئے آمادہ ہو جاتا جب کہ دنیا میں مال کی خاطر اس نے اپنی زندگی کو غلط رخ پر ڈال دیا تھا اور اپنے برے انجام کی پرواہ نہیں کی تھی۔

 

 ۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد بت ہیں جو پتھر کے ٹکڑے میں یا مٹی کے ڈھیر۔ ان میں یہ طاقت کہاں کہ کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکیں۔ دیوی دیوتاؤں کا تصور بھی محض خیالی ہے۔ نہ تو دولت کی کوئی دیوی ہے کہ آدمی کو مالامال کر دے اور نہ تکلیف اور امراض کی کوئی دیوی ہے کہ آدمی کو چیچک وغیرہ امراض اور دوسری تکلیفوں میں مبتلا کرے۔ یہ محض وہم پرستی ہے حقیقت میں ان خداؤں کا کوئی وجود ہی نہیں۔

 

 ۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیطان کا بیابان میں انسان کو بھٹکانا اسی مفہوم میں ہے جس مفہوم میں کہ شیطان کا انسان کو بھلاوے میں ڈالنا۔

 

 ۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مثال ہے شیطان کے زیرِ اثر بھٹکنے والوں کی۔ منکرین کا یہی حال ہے کہ انہیں شیاطین نے بھٹکا دیا ہے اور وہ ایسے حیران و پریشان ہیں کہ ان کے جو ساتھ انہیں راہِ راست کی طرف بلا رہے ہیں ان کی آواز پر کان دھرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں

 

یہ مثال پیش کر کے اہلِ ایمان منکرین سے کہہ رہے ہیں کہ تم خود بھٹکے ہوئے ہو اور چاہتے ہو کہ ہم بھی تمہاری ہی طرح بھٹک جائیں حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ تم ہماری پکار سنتے اور ہمارے پاس آ کر راہِ ہدایت پانے والوں میں شامل ہو جاتے۔

 

 ۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا تک پہنچنے کی راہیں وہ نہیں ہیں جو لوگوں نے اپنی خواہشات یا وہم و گمان یا مذہبی خیالات فلسفیانہ توجیہات کی بنا پر تجویز کر رکھی ہیں بلکہ اس تک پہنچنے کی واحد راہ وہ ہے جس کی نشاندہی اس نے خود کر دی ہے اور جس کا نام اسلام ہے۔

 

 ۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسلام کی حقیقت یہی ہے کہ اپنے کو مکمل طور سے اللہ کے حوالہ کر دیا جائے۔

 

 ۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے کو اللہ کے حوالے کرنے کا اولین مظہر نماز ہے۔ جب تک آدمی نماز قائم نہیں کرتا اس حوالگی کے کوئی معنی نہیں۔ اور اس سے ڈرتے رہو (تقویٰ کا عملی ثبوت آدمی شرعی احکام کی پابندی کر کے ہی دے سکتا ہے۔

 

 ۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نے اس کائنات کو بے مقصد اور بے غایت پیدا نہیں کیا ہے بلکہ اس کا ایک مقصد اور ایک غایت ہے اور وہ ہے جزا و سزا کا معاملہ جس کے لئے نئی زمین ، نئے آسمان اور نئے نظام کی ضرورت ہے۔ یہ نیا نظام اسی کائنات کے بطن سے ابھرے گا اور قیامت اسی کائناتی انقلاب کا نام ہے۔

 

 ۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت ، حشر اور دنیائے آخرت برپا کرنے میں اللہ کو کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی بلکہ جس طرح اس کے ایک حکم سے یہ کائنات وجود میں آئی اسی طرح اس کے ایک حکم سے قیامت ، حشر اور نظامِ آخرت برپا ہو گا۔

 

 ۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کی بات لازما حق ثابت ہوتی ہے اس لئے قیامت کے بارے میں بھی اس کی بات سچی ہو کر رہے گی۔

 

 ۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ تقریباً دو ہزار سال قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ ان کی بود و باش عراق کے شہر "ار "میں تھی جو فرات کے کنارے واقع تھا۔

 

 ۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آزر ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام ہے جو بت پرست تھا۔ بائبل میں اس کا نام تارح آیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہ نام بائبل کے مرتبین یا مترجمین نے غلطی سے لکھ دیا ہے اور غالباً قرآن نے اس کے اصل نام کی صراحت اسی لئے کی ہے تاکہ اس غلطی کی اصلاح ہو جائے اور ابراہیم کا نسب صحت کے ساتھ محفوظ رہے۔

 

 ۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم علیہ السلام کی قوم بت پرست تھی اور جب آپ نے بت پرستی اور شرک کے خلاف آواز اٹھانا چاہی تو اس کا آغاز اپنے گھر ہی سے کیا چنانچہ سب سے پہلے اپنے والد پر اس گمراہی کو واضح کیا اور ان کو توحید قبول کرنے کی دعوت دی۔ الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ دعوت نہایت بے لاگ طریقہ پر اور پوری جرأت ایمانی کے ساتھ اس طرح پیش فرمائی تھی کہ بت پرستی اور شرک کی نامعقولیت اور اس کا باطل ہونا واضح ہو جائے۔

 

بت پرستی کو کھلی گمراہی کہا گیا ہے کیوں کہ عقل عام (Common sense) کسی ایسی چیز کو خدا تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے جس کو انسان نے خود تراشا ہو۔

 

 ۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر چہ کہ ابراہیم نے ایک بت پرست خاندان اور ایک بت پرست قوم میں جنم لیا تھا لیکن اللہ کی بخشی ہوئی عقل سے کام لینے کے نتیجہ میں جس طرح ان پر بت پرستی کی گمراہی واضح ہو گئی تھی اسی طرح آسمان و زمین کے نظام پر غور کرنے سے انہیں اللہ کی وحدانیت پر بھی پورا یقین ہو گیا تھا کیوں کہ یہ نظام کائنات شہادت دیتا ہے کہ یہاں صرف ایک ہستی ہی کی فرماں روائی ہے جس نے تمام چیزوں کو اپنے قانون میں جکڑ رکھا ہے۔ ابراہیم نے خدا اور مذہب کے معاملہ میں اپنے آباء و اجداد کی اندھی تقلید نہیں کہ بلکہ سوجھ بوجھ سے کام لیا اور نظام کائنات کے مشاہدہ سے صحیح نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو بصیرت سے نوازا اور ان کی رہنمائی کی۔ قرآن میں دوسری جگہ فرمایا گیا ہے۔

 

ولقد آتینا ابراہیم رشدہٗ من قبل۔ اور ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سوجھ بوجھ عطاء کی تھی۔ (الانبیاء۔ ۵۱) کی تھی۔

 

نبی فطرتِ سلیمہ پر قائم ہوتا ہے اس لئے ابراہیم علیہ السلام بھی اس پر قائم تھے۔ وہ اللہ ہی کو اپنا رب مانتے تھے اور اس بارے میں وہ کسی شک و شبہ میں مبتلا نہیں تھے لیکن ملکوتِ الٰہی کے مشاہدہ نے ان کے تصور توحید کو اور پختہ کر دیا اور ان کے اندر یقین کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ قرآن اسی مشاہدہ کی دعوت دیتا ہے جو شخص بھی نظامِ کائنات پر اس پہلو سے غور کرے گا کہ اس کا کوئی خالق ہے یا نہیں اور اس پر ایک خدا کی فرمانروائی ہے یا بہت سے خداؤں کی اس پر توحید کی حقیقت منکشف ہو جائے گی۔

 

موجودہ زمانہ کے سائنس داں اور ماہرین فلکیات (Astronomers) چونکہ اس پہلو سے کائنات کا مشاہدہ نہیں کرتے اور ان کا مطالعہ معروضی (Objective) نوعیت کا نہیں ہو تا بلکہ وہ خدا سے بے پروا ہو کر یا متعصبانہ ذہنیت کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں اس لئے وہ توحید کے جلوے سے محروم رہتے ہیں اور ان کے اندر ایمان و یقین کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔

 

 ۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس واقعہ کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے درجِ ذیل باتوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔

 

۱۔ ابراہیم علیہ السلام کی قوم ستارہ پرست قوم تھی۔ سیارہ زہرا جس کو اشترا کہا جاتا تھا حسن و محبت کی دیوی تھی ، چاند جس کا نام ننار تھا۔ خوشحالی کا دیوتا تھا اور سورج (شمس) ان کے نزدیک سب سے بڑا دیوتا تھا۔ اور جب ان کے نزدیک ستاروں اور سیاروں کی حیثیت دیوتاؤں کی تھی تو انہوں نے ان کے نام پر بہت سے بت تراش لئے تھے جو ان کے زعم کے مطابق ان کی نمائندگی کرتے تھے اور اس تصور کے تحت کہ ان بتوں کے آگے مراسمِ عبودیت پیش کرنا ان دیوتاؤں کو کوش کرنے اور ان کے ضر ر سے بچنے کا ذریعہ ہے وہ ان کی پوجا کرتے، ان کے ساتھ وہ تعلق جوڑتے جو خدا کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور ان کے آگے عقیدت کے وہ نذرانے پیش کرتے جو خدا کے آگے پیش کئے جاتے ہیں۔ ا س طرح انہوں نے اپنے خداؤں کو آپ ہی تراش لیا تھا۔

 

ب۔ بت پرستی کا تعلق چونکہ ستارہ پرستی سے تھا اس لئے ابراہیم علیہ السلام نے ایک ایسی حجت پیش کی جس نے ان تمام آسمانی خداؤں کو ڈوبنے پر مجبور کیا اور جب وہ ڈوبے تو اپنے ساتھ زمینی خداؤں کو بھی لے کر ڈوبے۔

 

ج۔  تارے ، چاند اور سورج کے مشاہدہ کا یہ واقعہ ضروری نہیں کہ ایک ہی شب و روز میں پیش آیا ہو بلکہ ہو سکتا ہے کہ درمیان میں وقفہ رہا ہو یعنی ایک شب میں ستارے کے طلوع و غروب کا مشاہدہ کیا گیا ہو اور دوسری شب میں چاند کو اور پھر کسی دن سورج کو زیرِ بحث لایا گیا ہو۔

 

د۔ یہ واقعہ مناظرانہ نوعیت کا تھا جیسا کہ سیاق و سباق سے ظاہر ہے اس لئے اس کو ابراہیم علیہ السلام کے فکری ارتقاء پر محمول کرنا اور یہ خیال کرنا کہ انہوں نے ستارہ ، چاند اور سورج کے بارے میں "ھذا ربی "یہ میرا رب ہے "جو فرمایا تھا وہ تلاشِ حق کی راہ کا ایک مرحلہ تھا بہت بڑی غلط فہمی ہے اور یہ ٹھوکر افسوس ہے کہ بعض مفسرین نے بھی کھائی ہے۔ لیکن جیسا کہ علامہ ابن کثیر نے صراحت کی ہے کہ یہ ابراہیم علیہ السلام کا اپنی قوم کے ساتھ مناظرہ تھا نہ کہ اپنا ذاتی مشاہدہ اس لئے ھذا ربی کی بات انہوں نے دورانِ مناظر ہ کہی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ کیا واقعی یہ میرا رب ہے ؟ستارہ وغیرہ کو رب قرار دینے پر اظہار تعجب بھی تھا اور قوم کے سامنے یہ سوال بھی کہ کیا واقعی یہ چیزیں معبود بنائے جانے کے قابل ہیں ؟

 

جہاں تک کلام کے سیاق و سباق کا تعلق ہے اس سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کے اپنے باپ کے سامنے دعوتِ حق پیش کرنے کا ذکر ہوا ہے اور اس واقعہ کے متصلاً بعد یعنی آیت نمبر ۸۰ میں قوم کے ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ بحث و جدال کا ذکر ہے۔ پھر اس واقعہ کے دوران ابراہیم علیہ السلام چاند کو دیکھ کر جہاں ہذا ربی فرماتے ہیں وہیں یہ بھی فرماتے ہیں کہ "اگر میرے رب نے میری رہنمائی نہ فرمائی تو میں گمراہ لوگوں میں سے ہو جاؤں گا۔ اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا تھا کہ اللہ ہی حقیقتاً میرا رب ہے اور ہدایت کے لئے اسی کی طرف رجوع کرنا چاہئے ورنہ گمراہی کے سوا کچھ پلے نہیں پڑ سکتا۔ یہ بات تو ابراہیم علیہ السلام کے موحدانہ ذہن کی عکاسی کرتی ہے اس لئے اس کے بعد سورج کو دیکھ کر اس کو اپنا رب کہنا مخاطب کی دلیل کو اسی پر الٹ دینے ہی کی غرض سے تھا اور بحث و جدال کے موقع پر جو باتیں آدمی فرض کر کے کہتا ہے وہ اس کی اصل فکر نہیں ہوتی اور یہاں سیاقِ کلام دلیل ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے یہ بات قوم کو بے دلیل کرنے کی غرض سے کہی تھی جس طرح کہ انہوں نے ایک دوسرے موقع پر بتوں کو توڑنے کے فعل کی نسبت بڑے بت کی طرف کی تھی جب کہ انہوں نے خود ہی بتوں کو توڑ دیا تھا۔

 

ہ۔ ابراہیم علیہ السلام نے ستارہ پرستی کے باطل ہونے پر جو استدلال کیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تارے ہوں یا سیارے ، چاند ہو یا سورج ان کی چمک دمک سے دھوکہ کھا کر لوگ ان کو خدا یا دیوی دیوتا سمجھنے لگے ہیں اور پھر ان کی پرستش شروع کر دیتے ہیں لیکن لوگ جہاں ان کے طلوع کو دیکھتے ہیں وہاں ان کے غریب کو بھی دیکھیں تو ان کو صاف دکھائی دے گا کہ ان میں سے کوئی بھی خدا یا دیوی دیوتا نہیں ہے کیوں کہ یہ سب ایک لگے بندھے نظام کے پابند ہیں۔ یہ نہ وقت سے پہلے طلوع ہو سکتے ہیں اور نہ وقت سے پہلے غروب اور وہ خدا ہی کیا ہوا جو کسی قانون میں جکڑا ہوا ہو۔ ان کی یہ طبعی حالت اس بات کی دلیل ہے کہ ان پر ایک بالاتر ہستی کی فرماں روائی ہے جس کے قانون میں وہ جکڑے ہوئے ہیں اس لئے پرستش کی مستحق وہ بالا تر ذات ہے جو ان سب کی خالق اور ان پر فرماں روا ہے اور نہ کر یہ اجرام سماوی جو بالکل بے اختیار ہیں۔

 

و۔ ابراہیم علیہ السلام نے ستاروں اور سیاروں کے دیوی دوتا ہونے کے تصور کی جو نفی کی تھی اس کی تصدیق آج سائنس کے ذریعہ بھی ہو رہی ہے کیونکہ سائنس نے بڑی تفصیل کے ساتھ یہ بات ہمارے سامنے رکھی ہے وہ کسی طرح مختلف شمسی نظاموں میں جکڑے ہوئے ہیں اور جن سیاروں کی چمک دمک سے آدمی متاثر ہو کر ان کو دیوی دیوتا سمجھتا رہا ہے ان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی روشنی کے لیے سورج کے محتاج ہیں اور سورج اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس میں آگ دہکتی رہتی ہے اور دھماکے ہوتے رہتے ہیں پھر کیا خدا ایسا بھی ہوتا ہے جس کے پیٹ میں دھماکے ہوتے ہوں۔ اسی طرح چاند پر پہنچ کر اس کی زمین کو روندنے کا تجربہ انسان نے کر لیا ہے پھر کیا خدا ایسا بھی ہو سکتا جس کو انسان اپنے پاؤں سے روندنے میں کامیاب ہو جائے ؟

 

 ۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اعلان توحید ہے جس میں شرک سے اظہارِ برأت بھی ہے اور توحید کی دلیل بھی کہ جو آسمان و زمن کا خالق ہے وہی معبود حقیقی ہے اس لیے تمام معبود ان باطل سے کٹ کر میں نے اسی کا رخ کیا ہے اور اسی کو اپنا مقصود بنایا ہے۔ ان کلمات کی اس معنویت کے پیش نظر ان کو نماز کے آغاز میں ادا کیا جاتا ہے۔

 

 ۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ بحث و جدال کا یہ واقعہ جس کا ذکر اوپر ہوا اس وقت کی بات ہے جب کہ ابراہیم علیہ السلام نبوت سے سرفراز کئے جا چکے تھے۔

 

 ۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب لوگوں نے ابراہیم علیہ السلام کی زبانی دیوی دیوتاؤں کے خلاف باتیں سنیں تو انہیں ڈرانے لگے کہ ان کی طرف سے تم پر کوئی نہ کوئی آفت ضرور آئے گی اور تم نحوست کا شکار ہو جاؤ گے۔ اسی کے جواب میں ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تمہارے گھڑے ہوئے معبودوں سے ہرگز نہیں ڈرتا۔ نقصان پہنچانا اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ وہ چاہے گا تو نقصان پہنچے گا ورنہ ان بناؤٹی خداؤں کے بس میں کچھ بھی نہیں۔

 

 ۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ربوبیت کے لیے وسیع علم کی ضرورت ہے اور یہ صفت اللہ کے سوا کسی کی نہیں۔ پھر اس کو چھوڑ کر کسی کو رب بنانے میں کیا معقولیت ہے؟ کیا یہ بت لوگوں کے احوال سے واقف ہیں جو ان کو نفع یا نقصان پہنچا سکیں ؟

 

 ۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو کتابیں اللہ تعالیٰ پیغمبروں پر نازل فرماتا رہا ہے ان میں سے کسی کتاب میں بھی اس بات کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی کہ اس نے یہ فرمایا ہو کہ میری خدائی میں فلاں اور فلاں شریک ہیں۔ اس طرح کوئی حجت اور کوئی دلیل بھی شرک کی تائید میں پیش نہیں کی جا سکتی۔ پھر بلا سند اور بلا دلیل تم نے دوسروں کو خدائی کا درجہ کیسے دے رکھا ہے؟

 

 ۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سوچو کہ عذاب کا خطرہ ایک خدا کو ماننے والوں کے لیے ہے یا بلا دلیل اس کی خدائی میں اوروں کو شریک ٹھہرانے والوں کے لیے۔

 

 ۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہؓ نے اس کو اپنے اوپر گراں محسوس کیا اور عرض کیا ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے کو ظلم سے آلودہ نہ کر لیا ہو؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے۔ تم نے لقمان کی بات پر توجہ نہیں کی۔ انہوں نے کہا تھا "شرک سب سے بڑا ظلم ہے" (بخاری، کتاب استتابۃ المرتدین)

 

یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ اللہ کے ہاں ایمان وہی معتبر ہے جو عقیدہ و عمل کے شرک سے پاک ہو اس میں ان مسلمانوں کے لیے بھی بہت بڑ انتباہ ہے جنہوں نے ایمان کے ساتھ شرک کی آمیزش کر رکھی ہے۔

 

 ۱۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ ہماری وہ دلیل تھی جس کا فہم ہم نے ابراہیم کو بخشا تھا تاکہ وہ شرک کے باطل اور توحید کے حق ہونے پر استدلال کریں اور استدلال کے ذریعہ اپنی قوم پر حجت قائم کیں۔

 

اس سے واضح ہوا کہ اوپر جو واقعہ بیان ہوا وہ ابراہیم کا اپنی قوم کے ساتھ بحث و جدال کا واقعہ تھا نہ کہ اپنی ذات کے لیے تلاش حق کا۔ اس لے ستارہ کو دیکھ کر اس کو اپنا رب کہنا اس مفہوم میں تھا کہ کیا یہ وہ تمہارا خدا ہے جس کو میں اپنا رب مان لوں ؟ اس کے بعد جب وہ غروب ہو گی تو انہوں نے مخاطب کی دلیل ان ہی پر الٹ دی۔ اس وضاحت کے بعد ان ب سروپا روایتوں کا سہارا لینے کی ضرورت باقی نہیں رہتی جن میں اس واقعہ کو ابراہیم کا بچپن ایک بند غار میں گزر تھا ا س لیے جب وہ پہلی مرتبہ غار میں گزر ا تھ اس لیے جب وہ پہلی مرتبہ غار سے باہر آئے تو ستارہ دیکھ کر انہوں نے اسے سمجھ لیا۔ افسوس کہ اس قسم کی اسرائیلیات نے تفسیروں میں جگہ حاصل کر لی ہے۔

 

 ۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ابراہیم کو یہ حجت ، یہ فہم ، یہ بصیرت اور ایک مشرک قوم کو توحید کی دعوت دینے کا یہ حوصلہ عطا کر کے ہم نے ان کے درجات بہت بلند کر دیئے تھے اور ہم اس طرح جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں۔

 

 ۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ درجات کی یہ بلندی جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو عطا فرماتا ہے اس کے علم و حکمت کا فیضان ہ۔

 

 ۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسحاق ابراہیم کے بیٹے ہیں اور یعقوب ان کے پوتے۔ دونوں نبی تھے۔ یعقوب کا دورا نام اسرائیل ہے۔ جن کی نسل بنی اسرائیل کہلائی۔

 

 ۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کو بھی اسی دینِ توحید کی ہدایت بخشی تھی۔

 

 ۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نوح علیہ السلام کا زمانہ ابراہیم علیہ السلام سے کافی پہلے کا ہے۔ اور یہاں ان کے ذکر سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ جس دین توحید کی ہدایت ابراہیم اور ان کی اولاد کو بخشی گئی تھی وہ وہی دین ہے جس کی ہدایت ان سے کافی پہلے نوح کو بخشی گئی تھی۔ بالفاظِ دیگر اللہ کا نازل کردہ دین ایک ہی ہے جس کا سلسلہ اوپر سے نیچے تک چلا ا رہا ہے۔ کسی نبی پر کوئی اور دین نازل نہیں کیا گیا تھا اور قرآن اسی دین کا علمبردار ہے جو تمام انبیاء علیہم السلام کا مشترک دین ہے۔

 

 ۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ابراہیم کی نسل سے۔

 

 ۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مشہور اور جلیل القدر انبیائے بنی اسرائیل ہیں۔ داؤد ، سلیمان، ایوب، یوسف ، موسیٰ اور ہارون اس گروہ انبیاء سے تعلق رکھتے ہیں جن کو سیاسی غلبہ یا قیادت حاصل رہی ہے۔

 

 ۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بھی سب جلیل القدر انبیائے نبی اسرائیل ہیں جن کا دین بھی دینِ توحید یعنی اسلام تھا۔ الیاس کا نام بائبل میں ایلیاہ آیا ہے جنہوں نے بنی اسرائیل کی مشرکانہ حرکتوں پر گرفت کرتے ہوئے توحید خالص پر زور دیا تھا۔ ان کا ذکر سلاطین میں موجود ہے:

 

"اور شام کی قربانی چڑھانے کے وقت ایلیاہ نبی نزدیک آیا اور اس نے کہا اے خداوند ابرہام اور اسحاق اور اسرائیل کے خدا! آج معلوم ہو جائے کہ اسرائیل میں تو ہی خدا ہے اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں نے ان سب باتوں کو تیرے ہی حکم سے کیا ہے۔ میری سن اے خداوند میری سن تاکہ یہ لوگ جان لیں کہ اے خداوند تو ہی خدا ہے۔ "

 

۱۔ سلاطین ۱۸:۳۶، ۳۷)

 

زکریا یحیٰ، عیسیٰ اور الیاس انبیاء کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے "فقیری میں بادشاہی کی۔ "

 

 ۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ نہایت بزرگ ہستیاں تھیں لیکن ان میں سے کوئی بھی خدا نہیں تھا بلکہ سب خدا کے نیک بندے تھے۔

 

 ۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الیسع کا ذکر بائبل کی کتاب سلاطین میں الیشع کے نام سے اور الیاس (ایلیاہ) نبی کے نائب کی حیثیت سے ہوا ہے۔ (ملاحظہ ہو سلاطین ۱۹:۱۶)

 

 ۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوط علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے نہیں تھے بلکہ آپ کے بھتیجے تھے جو آپ پر ایمان لائے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت سے سرفراز فرمایا تھا اس لیے ان کا ذکر یہاں خاندانِ ابراہیمی کے انبیاء کی حیثیت سے ہوا ہے۔

 

 ۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دن کی دعوت اور اس کی خدمت کے لیے چن لیا۔

 

 ۱۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد دینِ اسلام ہے۔

 

 ۱۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ہدایت سے مراد دینِ توحید یعنی اسلام ہے۔

 

 ۱۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ بلند مرتبہ لوگ بھی اگر شرک کے مرتکب ہوتے تو ان کا یہ مقام ہر گز باقی نہیں رہتا اور ان کے تمام اعمال اکارت جاتے کیونکہ شرک ناقابل معافی جرم ہے۔ جو بھی اس کا مرتکب ہو گا سزا کا مستحق قرار پائے گا اور جب بڑے بڑے بزرگ بھی اس قانون سے مستثنیٰ نہیں ہیں تو تم اس کی گرفت سے کیونکر بچ سکتے ہو۔

 

 ۱۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حکم یعنی قوت فیصلہ ، حکمت اور ہدایتِ الٰہی کے تحت شرعی احکام دینے کا اختیار۔

 

 ۱۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد اہل مکہ ہیں۔

 

 ۱۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم نے ان انبیاء کو جن کا ذکر اوپر ہوا ہے، حکم اور نبوت سے سرفراز فرمایا تھا آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اس سے سرفراز فرمایا ہے اور یہ اہل مکہ کے لیے آپ کے واسطہ سے بہت بڑی نعمت ہے لیکن اگر یہ لوگ اس سے انکار کرتے ہیں تو کریں وہ اپنے ہی کو اس کے فیضان سے محروم رکھیں گے۔ ہم نے تو اس نعمتِ دین کو ایسے لوگوں کے سپرد کیا ہے اور انہیں اس کا ذمہ دار بنایا ہے جو اس کی ناقدری کرنے والے نہیں ہیں یہ اشارہ آپ کے ان ساتھیوں کی طرف ہے جو آپ پر ایمان لائے اور آپ کے لائے ہوئے دین کے قدرشناس بنے۔

 

 ۱۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس دین پر چلو جو ان تمام انبیاء علیہم السلام کا مشترک دین ہے۔ یہ دین دینِ توحید ہے اور اس کا نام اسلام ہے۔

 

 ۱۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میں اس خدمت پر جو انسانیت کی سب سے بڑی خدمت ہے تم سے کسی معاوضہ کا طالب نہیں ہوں بلکہ یہ تمہارے ہی فائدہ کے لیے کر رہا ہوں۔ مانو گے تو اس میں تمہارا بھلا ہے اور نہ مانو گے تو اپنا ہی نقصان کر لو گے۔

 

 ۱۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن دنیا کے تمام انسانوں کے لیے یاد دہانی اور نصیحت ہے۔ اس کا پیام عام ہے رہتی دنیا تک کے لیے۔ وہ کسی قوم اور کسی دور کے لیے مخصوص نہیں۔

 

 ۱۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ یہود کی طرف ہے جنہوں نے مشرکین مکہ کی اندھی حمایت میں یہ بات کہی تھی۔ وہ اگرچہ کہ سلسلہ رسالت کے قائل تھے اور موسیٰ کو نبی اور تورات کو خدا کی کتاب مانتے تھے لیکن اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ ان کے خاندان سے باہر بھی کوئی نبی مبعوث ہو سکتا ہے۔ اس لیے ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر انہوں نے اس حقیقت ہی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ اللہ نے کسی بھی انسان پر اپنا کلام نازل کیا ہے۔ ان کی اس بات پر گرفت کرتے ہوئے دو باتیں یہاں ارشاد فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ نزول وحی کا منکر درحقیقت اللہ کی حکمت کا منکر ہے کیونکہ یہ بات کس طرح حکیمانہ ہو سکتی ہے کہ اللہ انسان کی تمام ضرورتوں کا سامان کرے لیکن اس کی ہدایت اور رہنمائی کا کوئی سامان نہ کرے۔ اور دوسری بات یہ کہ وہ متضاد باتیں کہتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ نزولِ وحی کا انکار کرتے ہیں اور دوسری طرف موسیٰ کو نبی اور تورات کو اللہ کی نازل کردہ کتاب بھی مانتے ہیں۔

 

 ۱۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ بتا دینے کے بعد کہ اللہ ہی نے موسیٰ پر اپنا کلام نازل فرمایا تھا اور اسی نے آج اپنے پیغمبر پر قرآن نازل فرمایا ہے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ جو لوگ دلیل سے بات سمجھنا نہیں چاہتے بلکہ محض دلیل بازی کرنا چاہتے ہیں ان سے بحث کرنا بے کار ہے۔

 

 ۱۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ کتاب انسانی تصنیف نہیں بلکہ فرمانروائے کائنات کی نازل کردہ ہے اور اس بنا پر اپنی ایک امتیازی ان رکھتی ہے۔

 

 ۱۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ کتاب خیرو برکت کا سرچشمہ ہے جس سے دنیا کی قومیں فیض پاتی رہیں گی اور جس کی ضیا پاشیوں سے انسانی زندگی کے تمام گوشے روشن ہوں گے۔

 

 ۱۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد تورات ہے۔

 

 ۱۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ام القریٰ یعنی بستیوں اور آبادیوں کا مرکز۔ مراد شہر مکہ ہے۔ اسے امر القریٰ اس لیے کہا گیا ہے کہ یہاں اللہ کا گھر ہے جہاں حج کا عالمگیر اجتماع ہوتا ہے۔ اس خصوصیت کی بنا پر وہ تمام دنیا کے لیے ایک دینی اور روحانی مرکز قرار پایا ہے۔

 

 ۱۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن کے پیغام کے سب سے پہلے مکہ کے باشندوں تک پہنچاؤ اور پھر اس کے اطراف و اکناف کے لوگوں تک تاکہ تمہارا دائرہ تبلیغ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے۔

 

تبلیغ رسالت کے لیے مرکزی شہر مکہ کا انتخاب اسی لیے کیا گیا ہے کہ جو صدا مرکز سے بلند ہو گی اس سے دنیا کے دشت و جبل گونج اٹھیں گے اور اس کی صدائے بازگشت دنیا کے گوشہ گوشہ میں سنائی دے گی۔

 

 ۱۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہو نہیں سکتا کہ جو شخص واقعی آخرت کو مانتا ہو اور خدا کے حضور جوابدہی کا ڈر رکھتا ہو۔ وہ اس کتاب کو خدا کی کتاب تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ ایسا شخص اگر اس کتاب کا تھوڑا سا مطالعہ بھی کرے گا تو وہ سمجھ جائے گا کہ یہ اللہ ہی کا کلام ہے اور اس کے بعد اسے ایمان لانے میں کوئی تامل نہ ہو گا۔

 

یہاں اشارہ خاص طور سے اہل کتاب کے نیک لوگوں کی طرف ہے جو آخرت پر ایمان رکھتے تھے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ وہ قرآن پر بھی ایمان لائیں گے۔

 

 ۱۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس شخص کا آخرت پر واقعی ایمان ہو اس کی زندگی سے خدا پرستی کا اظہار ضرور ہو گا۔ اور خدا پرستی کی پہلی علامت نماز کی پابندی ہے۔

 

 ۱۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی مذہب کو گھڑنا یا کوئی بات گھڑ کر اس کو مذہبی حیثیت دینا اس کو اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرنا ہے اور ایسی حرکت کرنے والا سب سے بڑا مجرم ہے۔ اس کے جرم کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کھوٹے سکے ڈھال کر ان کو چلانے کی کوشش کرے اور چونکہ یہ تجارت وہ خدا کے خلاف کرتا ہے اس لیے وہ نہایت سنگین جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔

 

 ۱۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہو کہ نبوت کے جھوٹے دعویدار سب سے بڑے مجرم ہیں کیونکہ وہ خدا اور مخلوق دونوں کے ساتھ فریب کاری کرتے ہیں۔

 

 ۱۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دعوتِ حق کے مقابلہ میں آدمی جب مخالفت برائے مخالفت کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس میں سنجیدگی باقی نہیں رہتی پھر وہ غیر سنجیدہ اور نامعقول باتیں کہنے پر اتر آتا ہے۔ آیت میں مخالفین کا جو قول نقل کیا گیا ہے وہ اس کی واضح مثال ہے۔

 

 ۱۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ جواب ہے منکرین قرآن کے مہمل اعتراضات اور لغو دعووں کا کہ جب یہ ظالم دلیل سے کوئی بات سمجھنا نہیں چاہتے تو نہ سمجھیں۔ ان کو ہوش اس وقت آئے گا جب کہ موت کی گھڑی آ نمودار ہو گی اور فرشتے ان کے منہ پر طمانچے رسید کریں گے۔

 

آیت سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ موت کے وقت آدمی پر وہ حقیقتیں کھل جاتی ہیں جن پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے نیز یہ بھی کہ موت محض روح کے جسم سے نکل جانے کا نام ہے اور منکرینِ حق کی روحیں عالم برزخ میں مبتلائے عذاب رہتی ہیں۔

 

 ۱۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن اللہ یہ ارشاد فرمائے گا۔

 

 ۱۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم نے دنیا میں یہ خیال کر رکھا تھا کہ تمہارے کام صرف خدا کے بنانے سے نہیں بنتے بلکہ اس میں ان کا بھ دخل ہے جس سے تم کو عقیدت تھی۔ تم سمجھتے تھے کہ ان کا خدا کے ہاں زور ہے اور ان کو خوش کرنے سے تمہارا بیڑا پار ہو گا مگر آج یہ تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک کہاں غائب ہو گئے کہ تمہاری مدد کے لیے کوئی بھی موجود نہیں۔

 

 ۱۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی معبود ان باطل کے ساتھ محبت و عقیدت اور پرستش و بندگی کا جو رشتہ تم نے قائم کیا تھا وہ منقطع ہو گیا۔

 

 ۱۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے اللہ کے کرشمۂ قدرت کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے۔ وہ کون ہے جو دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر اکھوے نکلواتا ہے اور پھر سرسبز پودے اور ہرے بھرے درخت کھڑے کر دیتا ہے؟ کیا اس کی اس خدائی میں کسی کا کوئی دخل ہے؟ اگر نہیں تو پھر تمہاری قسمت کے بنانے اور بگاڑنے میں تمہیں نفع اور نقصان پہنچانے میں کسی کا کیا دخل ہو سکتا ہے؟

 

 ۱۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بھی اللہ ہی کا کرشمہ قدرت ہے کہ وہ زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے۔ انسان اس کا مشاہدہ رات دن کرتا ہے نباتات میں اس کی مثال گٹھلی سے ہرا بھرا درخت اور درخت سے گٹھلی، حیوانات میں انڈے سے پرندہ اور پرندہ سے انڈا اسی طرح مادہ سے انسان اور انسان سے مادہ۔ اس سلسلہ کی ایک واضح مثال زندہ عورت کے شکم سے مردہ بچہ کی ولادت بھی ہے۔

 

 ۱۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر کی آیت میں زمین پر ظاہر ہونے والے کرشمۂ قدرت کا ذکر تھا اس آیت میں آسمان میں ظاہر ہونے والے کرشمۂ قدرت کا ذکر ہے۔ افق پر صبح کی روشنی رات کی تاریکی کے پردہ کو چاک کر کے نمودار ہوتی ہے اور خواب غفلت میں پڑے ہوئے انسان کو جگاتی ہے کہ وہ اپنی صبح زندگی کا آغاز اپنے رب کی کرشمہ سازیوں کے اعتراف سے کرے۔

 

 ۱۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورج اور چاند وقت اور تاریخ معلوم کرنے کا ذریعہ ہیں۔ دن اور رات کا تعین سورج کے طلوع و غروب سے ہوتا ہے اور چاند کی مختلف شکلوں سے تاریخوں کا تعین ہوتا ہے پھر اسی سے مہینے اور سال بنتے ہیں۔ اوقات اور تاریخ کی تعین کا یہ معیار جو آسمان میں قائم کر دیا گیا ہے اور جو انسان کی ایک اہم ضرورت کو پورا کرتا ہے قدرت الٰہی کا کتنا بڑا کرشمہ ہے۔

 

 ۱۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی زمین و آسمان کا یہ نظام نہ الل ٹپ ہے اور نہ اس میں کسی اور کی خدائی کا کوئی دخل ہے بلکہ یہ سب اس ہستی کی پلاننگ (Planning) ہے جس کی قدرت بھی زبردست ہے اور جس کا علم بھی ہمہ گیر۔

 

 ۱۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ستارے صحرائی اور سمندری سفر کرنے والوں کے لیے تاریکیوں میں روشنی کا کام دیتے ہیں اور ان کے ذریعہ سمت کا تعین بھی ہوتا ہے اس لیے سائنس کی ایجادات سے پہلے انسان ستاروں کو اللہ نے انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا ہے لیکن انان نے اپنی حماقت سے ان کو خادم کی جگہ مخدوم سمجھ لیا اور پھر ان کی پرستش کرنے لگے۔

 

 ۱۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ عقل و شعور س کام لیتے ہیں وہ ان نشانیوں پر غور کر کے حقیقت کو جان لیتے ہیں۔

 

 ۱۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ نساء نوٹ ۲ اور ۳ میں گزر چکی۔

 

 ۱۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٹھہرنے کی جگہ (مستقر) سے مراد دیتا میں رہنے اور بسنے کی جگہ ہے۔ اور سپرد کئے جانے کی جگہ (مستود) سے مراد وہ جگہ ہے جہاں وہ موت کے بعد سپرد کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ ہی کی زمن پر بستا ہے اور اللہ ہی کی زمین میں دفن ہوتا ہے اور جب انسان مہد سے لے کر لحد تک اسی کی سلطنت میں رہتا ہے تو پھر اس سے بغاوت کی جسارت کیسے کرتا ہے!

 

 ۱۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہیں وہ ان نشانیوں کے ذریعہ توحید کو پا لیتے ہیں جس کی دعوت قرآن دے رہا ہے۔

 

 ۱۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پان چونکہ آسمان کی طرف سے یعنی بلندی سے برتا ہے، اس لیے محاورہ میں آسمان سے پانی برسنا کہتے ہیں ایسے موقع پر لفظی معنی مراد نہیں ہوتے۔

 

 ۱۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلے جملہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے غائب کی ضمیر "جس نے" نے استعمال کی ہے۔ ضمیروں کی یہ تبدیلی اسلوبِ کلام کے لحاظ سے بھی ہوتی ہے اور دوسرے پہلوؤں سے بھی۔ یہاں ضمیر کی یہ تبدیلی اس لیے ہوئی ہے کہ کلام کا رخ اللہ کی قدرت کے بیان سے ربوبیت کے بیان کی طرف ہو گیا ہے۔

 

 ۱۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شکل میں ملتے جلتے لیکن ذائقہ اور خصوصیات میں مختلف۔

 

 ۱۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کے لیے زمین پر جو دسترخوان بچھا دیا گیا ہے اس میں ہر قسم کا اناج بھی ہے اور طرح طرح کے پھل بھی۔ یہ چیزیں جس طرح پیدا ہوتی، بڑھتی اور پکتی ہیں ان پر اگر آدمی غور کرے تو اسے ہر چیز میں کاریگری کے عجیب نمونے اور ربوبیت کے حیرت انگیز کرشمے دکھائی دیں گے۔ اگر اس کی آنکھیں کھلی ہیں اور ضمیر بیدار ہے تو اس کا ذہن اس کاریگری سے اس کے صناع کی طرف اور اس نظام ربوبیت سے رب کائنات کی طرف منتقل ہو گا اور اس کی صحیح پہچان اس کے اندر پیدا ہو گی۔

 

آج علم النباتات (Botany) نے انسان پر نباتات کی دنیا اس طرح روشن کر دی ہے کہ قدرت کے بے شمار کرشمے اس کے علم میں آ گئے ہیں مگر چونکہ ان چیزوں کا مطالعہ اس متعصبانہ ذہنیت کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ انہیں اس مسئلہ سے تعرض ہی نہیں کرنا ہے کہ ان کا کوئی خالق ہے یا نہیں اور نہ اس کی معرفت حاصل کرنے سے انہیں کوئی دلچسپی ہے اس لیے معلومات کے اس ذخیرہ میں اصل حقیقت دب کر رہ جاتی ہے اور اس صنعت گری کے پیچھے ایک عظیم صناع کا ہاتھ اور اس نظام ربوبیت میں رب کائنات کا جلوہ دکھائی نہیں دیتا۔

 

 ۱۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہم پرست لوگ جنوں کے بارے میں یہ تصور رکھتے ہیں کہ وہ ان پر بلا بن کر نازل ہو سکتے ہیں ، ان کی قسمتوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور انہیں بیماریوں وغیرہ میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ مشرکین عرب اسی طرح کے اوہام میں مبتلا تھے اور ان آفتوں سے بچنے کے لیے وہ جنوں کی پرستش کرتے اور ان کو نذریں پیش کرتے تھے۔ مشرکین ، ہند بھی اس توہم پرستی میں مشرکین عرب سے پیچھے نہیں بلکہ دو قدم آگے ہی ہیں۔ جنوں کا تصور ان کے ہاں بھوت اور راکشس کی شکل میں پایا جاتا ہے اور ان کے ضر ر سے بچنے کے لیے وہ ان کی پرستش بھی کرتے ہیں ، ان پر بھینٹ بھی چڑھاتے ہیں اور ان کی جے بھی پکارتے ہیں۔

 

قرآن ان سب چیزوں کو لغو اور خرافات قرار دیتا ہے اور جنوں کے بارے میں اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ وہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوق ہیں لہذا ان کو خالق کے برابر سمجھنا پرلے درجے کی جہالت ہے۔ جس طرح انسان ایک بے بس مخلوق ہے اسی طرح جن بھی بے بس مخلوق ہیں۔ نفع نقصان کھ بھی ان کے اختیار میں نہیں ، وہ نہ بیماریاں لآ سکتے ہیں ار نہ ان کی پرستش کرنا یکسر باطل ہے۔

۱۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکینِ مکہ کا فرشتوں کے بارے میں تصور یہ تھا کہ وہ خدا کی بیٹیاں ہیں اور عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں مگر اس پر کوئی علمی دلیل نہیں ہے ، بلکہ محض جہالت سے لوگوں نے اس قسم کے تصورات پیدا کر لیے ہیں۔

 

 ۱۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عدم سے وجود میں لانے والے اور بغیر کسی مثال اور نمونہ کے پیدا کرنے والا۔

 

 ۱۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا کی بیوی ہونے کے نہ مشرکینِ مکہ قائل تھے اور نہ اہل کتاب پھر بھی وہ اس کے لیے اولاد تجویز کرتے تھے۔ گویا وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ خدا کے لیے بیوی تجویز کرنا اس کے شایانِ شان نہیں بلکہ ایک گھٹیا تصور ہے جو خدا کے تصور کے ساتھ میل نہیں کھاتا۔ لیکن ان کا یہ احسا س اس وقت مردہ ہو جاتا تھا جب کہ وہ خدا کے لیے اولاد تجویز کرتے تھے۔ یہاں ان کے ذہن کے اسی تضاد کو واضح کیا گیا ہے۔

 

ہی تو تھا مشرکینِ عرب کا تصورِ خدا لیکن مشرکینِ ہند کا تصور خدا اس سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ انہوں نے جو بہت سے خدا بنا رکھے ہیں تو ان کے لیے بیویاں بھی تجویز کی ہیں اور بعض دیوتاؤں کے بارے میں تو ان کا خیال ہے کہ ان کی کئی کئی بیویاں تھیں۔ اس طرح انہوں نے خدا کو انسان کی سطح پر لانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان جب شرک میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ خدا کی قدر بھی گھٹا دیتا ہے اور ساتھ ہی اپنے ذہنی دیوالیہ پن کا بھی ثبوت دیتا ہے۔

 

 ۱۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ ہی تمہارا اور ہر چیز کا خالق ہے تو وہی سب کا رب بھی ہے۔ جب دوسرا کوئی خالق نہیں تو وہ رب کیسے ہو سکتا ہے اور عبادت کا مستحق کیسے قرار پا سکتا ہے۔ لہذا انسان کے لیے صحیح طرز فکر یہی ہے کہ وہ اللہ ہی کو اپنا رب اور معبود مانے اور اس کے لیے صحیح طرز عمل یہی ہے کہ وہ اسی کی عبادت کرے۔

 

 ۱۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ہی کفیل ہے لہذا اسی سے امیدیں وابستہ کرو۔

 

 ۱۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگرچہ کہ تم خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں پاتے لیکن وہ اچھی طرح تمہیں دیکھ رہا ہے۔ لہذا کوئی شخص اس خیال خام میں مبتلا نہ رہے کہ جب خدا دکھائی نہیں دیتا تو اس کا وجود ہی نہیں۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ انسان کی نگاہیں مادی دنیا کی کتنی ہی چیزوں کو دیکھنے سے قاصر رہتی ہیں۔ مثلاً  وہ روح کو جو انسان ہی کے جسم میں رہتی ہے دیکھ نہیں پاتا، ہوا اور بجلی کی رو (Current) کو محسوس ہونے والی چیزیں ہیں لیکن آنکھوں کے بس کے بات نہیں کہ انہیں دکھ سکیں ، آسمان سے پرے جو کائنات ہے اس کو دیکھنے سے بھی آنکھیں قاصر ہیں تو پھر وہ خدائے ذوالجلال کو دکھنے کی تاب کہاں لآ سکتی ہے؟

 

اس لیے سر کی آنکھوں سے خدا کو دکھے کی کوشش ایک فضول کوشش ہے خواہ اس کے لے کتنی ہی اور کیسی ہی ریاضتیں کی جائیں۔ البتہ آفاق میں پھیلی ہوئی نشانیوں کا مشاہدہ کر کے انسان خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور دل کی آنکھیں روشن ہوں تو ہر گل میں اور ہر شجر میں اس کا جلوہ دیکھ سکتا ہے۔

 

 ۱۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کا کلام ہے مگر اس میں متکلم نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔

 

"میں تم پر نگراں نہیں ہوں "یعنی تمہارے عمل کی کوئی ذمہ د اری مجھ پر نہیں ڈالی گئی ہے۔

 

 ۱۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی توحید کی یہ دلیلیں جو اوپر بیان ہوئیں مختلف پہلوؤں سے اور مختلف اسلوبوں میں قرآن میں بار بار بیان کی گئیں ہیں جن سے دو باتیں مقصود ہیں۔ ایک یہ کہ لوگوں پر حجت قائم ہو اور وہ آج نہیں تو کل اس بات کا اعتراف کریں کہ پیغمبر نے ہمیں توحید کا سبق پڑھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی بلکہ اچھی طرح پڑھا دیا تھا۔ دوسری بات یہ کہ جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اللہ ہی ان کا رب ہے ان پر توحید کی حقیقت پوری طرح روشن ہو۔

 

 ۱۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں مشرکین سے اعراض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ توحید کے ان واضح دلائل کو پیش کرنے کے بعد بھی اگر مشرکین کو اپنے عقائد و اعمال پر اصرار ہے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔

 

 ۲۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ اگر دین کے معاملہ میں لوگوں کو مجبور کرنا چاہتا تو کوئی شخص بھی شرک نہیں کر سکتا تھا لیکن اللہ کی مشیت یہ نہیں ہوئی بلکہ اس نے چاہا کہ انسان کی آزمائش ہو اور اس کے لئے اس پر حق و باطل کی راہیں واضح کر کے اس کو انتخاب کی آزادی دی جائے۔ لہذا اللہ کی بخشی ہوئی اس آزادی کا کوئی شخص غلط استعمال کرنا چاہتا ہے اور تمھاری بات پرکان دھرنا نہیں چاہتا تو اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ وہ اس کا خمیازہ بھگت لے گا۔ تمہیں پریشان ہونے کے ضرورت نہیں ہے۔

 

 ۲۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہم نے تم کو پیغامبر بنایا ہے۔ لوگوں کے عقائد و اعمال کا ذمہ دار نہیں بنایا ہے کہ تم سے ان کے رویہ کے بارے میں باز پرس ہو۔

 

 ۲۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اہل ایمان کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جوش تبلیغ میں مشرکین کے معبودوں کو برا بھلا نہ کہیں ورنہ عجب نہیں کہ مشتعل ہو کر اللہ کوبرا بھلا کہنے لگیں۔ مشرکین عرب اللہ کو مانتے تھے پھر بھی یہ رد عمل ہو سکتا تھا کہ وہ اشتعال کی حالت میں خدا کو سب و شتم کرنے لگیں۔

 

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے ساتھ رواداری برتتے ہوئے ان کے معبودوں کو باطل نہ کہا جائے کیونکہ حق کو واضح کرنے کے لئے باطل کو باطل کہنا ضروری ہے۔ اگر زہر کو مہلک نہ کہا جائے تو معلوم نہیں کتنے لوگ زہر کھا کر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور اگر آگ سے بچہ کو دور نہ رکھا جائے تو وہ اس کی روشنی سے متاثر ہو کر اپنا ہاتھ اس میں ڈال ہی دے گا لہذا اگر لوگوں کو ہلاکت سے بچانا ہے تو بے جا رواداری اور غلط قسم کی رو رعایت کے بغیر مہلک چیزوں کو مہلک کہنا ہی پڑے گا اسی لئے قرآن میں بتوں کی بے بسی اور بت پرستی کے انجام بدکو دو ٹوک انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

 

 ۲۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس طرح ہم نے مشرکین کے عمل کو ان کی نظروں میں کھبا دیا ہے اسی طرح ہر گروہ کے لئے اس کے عمل کو خوشنما بنا دیا ہے۔

 

مطلب یہ ہے کہ ہر گروہ اپنے عمل کو خوب سمجھ کر ہی اس پر کار بند ہوتا ہے گو فی الواقع وہ ناخوب ہو۔ اس لئے کسی بھی گروہ کے طور طریقوں پر نا روا حملے کرنے سے اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی بلکہ سنجیدگی اور حکمت کے ساتھ ان کا غلط اور باطل ہونا ان پر واضح کر دینے سے اصلاح کی امید کی جا سکتی ہے۔

 

واضح رہے کہ ہر گروہ کو اس کے عمل کا خوشنما دکھائی دینا بھی قانون قدرت کے تحت ہوتا ہے اور یہ قانون قدرت اللہ ہی کا بنایا ہوا ہے اس لئے اللہ تعالی نے خوشنما کر کے دکھانے کی نسبت اپنی طرف کی ہے۔

 

 ۲۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں نشانی سے مراد محسوس نشانی یعنی معجزہ ہے۔

 

 ۲۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح نوٹ ۵۶ میں گزر چکی۔

 

 ۲۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب مسلمانوں سے ہے جو چاہتے تھے کہ معجزہ ظہور میں آ جائے تاکہ کفار ایمان لائیں۔

 

 ۲۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس طرح پہلی مرتبہ ایمان لانے میں ان کے دل اور ان کے نگاہوں کی کجی مانع رہی اسی طرح اب بھی مانع ہے اور اللہ کی سنت (قانون فطرت) یہ ہے کہ جو الٹی کھوپڑی سے سوچتا ہے اس کو ہر چیز الٹی دکھائی دے اس لئے ایسے لوگوں کو معجزے دکھانا بھی نتیجہ بخش نہیں ہو سکتا۔ البتہ اگر وہ سمجھنے کا طریقہ اختیار کریں تو جو دلائل پیش کئے گئے ہیں ان کی روشنی میں وہ حق کو پا سکتے ہیں۔

 

 ۲۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ضد یا عصبیت کی بنا پر حق کو قبول نہ کرنے کا ذہنی فیصلہ کر چکے ہوں ان کو حق کا قائل نہیں کیا جا سکتا خواہ ان کو ایک عجیب معجزے کیوں نہ دکھا دئے جائیں کیونکہ جب انہیں ماننا ہی نہیں ہے تو وہ ہر معجزہ کی کوئی نہ کوئی توجیہہ کر لیں گے۔ البتہ اگر اللہ ان کو ایمان لائے کے لئے مجبور کرنا چاہتا تو کوئی شخص بھی ایمان لائے بغیر نہ رہتا مگر یہ بات اللہ تعالی کی اس اسکیم کے خلاف ہے جسکے تحت اس نے انسان کو ایمان لانے یا نہ لانے کا اختیار بخشا ہے۔

 

 ۲۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی اس اسکیم کو نظر انداز کر کے وہ جو باتیں کرتے ہیں وہ محض جذباتی ہوتی ہیں۔ وہ علم اور حقیقت پر نہیں بلکہ جہالت پر مبنی ہوتی ہیں۔

 

 ۲۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آج نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف مخالفتوں کا جو طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے جس میں شیاطین انس و جن پیش پیش ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ معاملہ ہر نبی کے ساتھ پیش آتا رہا ہے۔

 

شیاطین کو شر اٹھانے کا یہ موقع اللہ تعالی کی دی ہوئی مہلت ہی کے نتیجہ میں ملتا ہے اس لئے اس صورت واقعہ کو نبی کا دشمن بنا کر کھڑا کر دینے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

 

مطلب یہ ہے کہ شیاطین یہ شر برپا نہیں کر سکتے تھے اگر اللہ انہیں اس کی مہلت نہ دیتا لیکن اللہ نے انہیں اس کی مہلت اس لئے دی ہے تاکہ حق و باطل کی اس کشمکش میں اصل جو ہر چھٹ کر سامنے آ جائے۔

 

 ۲۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 'زخرف القول' (خوشنما بات) سے مراد وہ جھوٹی باتیں ہیں جن کو پر کشش بنایا گیا ہو۔ مثال کے طور پر قرآن میں جب مردار کی حرمت کا حکم نازل ہوا تو کفار نے لوگوں کو ورغلانے کے لئے یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ جس جانور کو انسان نے مارا ہو وہ تو حلال لیکن جس کو اللہ نے مارا ہو وہ حرام۔ یہ کیسی بات ہے!

 

اور موجودہ زمانہ میں نئے انداز سے چکنی چپڑی باتیں پیش کی جا رہی ہیں مثلاً یہ کہ "سب مذہب سچے ہیں۔ "یا یہ کہ "خدا تک پہنچنے کی راہیں مختلف ہیں منزل سب کی ایک ہی ہے۔ " یا نسل انسانی کی تحدید کے لئے یہ دلفریب نعرہ کہ "ہم دو ہمارے دو۔ تیسرا ابھی نہیں اور اس کے بعد کبھی نہیں۔ " اسی طرح "مذہب کا تعلق پرائیویٹ زندگی سے ہے۔ " مساوات مرد و زن " اور "مذہب افیون ہے "جیسے خوش آئند نعرے ، من چلے اور شر پسند لوگوں ہی کی اختراعات ہیں۔

 

 ۲۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ واقعہ ہے کہ دین کے بارے میں شر پھیلانے والوں کی دلفریب باتیں ایسے ہی لوگوں کو اپیل کرتی ہیں جن کے ذہن آخرت کے تصور سے خالی ہوتے ہیں۔

 

 ۲۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حق کیا ہے اور باطل کیا ہے اس کے فیصلہ کا اختیار اللہ ہی کو ہے وہ خالق بھی ہے اور رب بھی اور اس نے اپنا فیصلہ قرآن کی شکل میں نازل فرمایا ہے اس لئے تمام نزاعی معاملات میں یہ کتاب فیصلہ کن چیز ہے اور خدائی سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر تم چاہتے ہو کہ میں اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو فیصلہ کرنے والا تسلیم کر لوں اور عقائد اور حلت و حرمت کے سلسلہ میں کسی ایسی چیز کی طرف رجوع کروں جس کو خدائی سند کا درجہ حاصل نہیں ہے مثلاً وہ باتیں جو مذہب کے نام سے رواج پا گئی ہیں یاوہ کلچر جو باپ دادا نے ورثہ میں چھوڑا ہے یاوہ اوہام و خرافات جو محض جاہلیت کی پیداوار ہیں۔

 

 ۲۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  مراد اہلِ کتاب کے گروہ سے تعلق رکھنے والے سچے اور ایمان دار لوگ ہیں۔

 

 ۲۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے لیکن روئے سخن ہر قاریِ قرآن کی طرف ہے اور سمجھا نا یہ مقصود ہے کہ قرآن کا نزول کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی اللہ تعالی کتابیں نازل کر چکا ہے جس کے گواہ اہل کتا ب ہیں اور ان میں جو لوگ حق پرست ہیں وہ قرآن کی آواز سن کر پہچان لیتے ہیں کہ یہ آسمانی آواز ہے اس لئے قرآن کے کتاب الہی ہونے کے بارے میں ادنی شبہہ کی بھی گنجائش نہیں ہے۔

 

 ۲۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے متعلق جو وعدہ اللہ تعالی نے اہل کتاب سے کیا تھا اور جس کا ذکر تورات و انجیل میں موجود ہے وہ پورا ہو کر رہا۔ اس طرح خدا کے فرمان کی سچائی بھی ثابت ہو گئی اور عدل کا تقاضا بھی پورا ہو گیا یعنی قرآن کے نزول سے اللہ کی حجت لوگوں پر قائم ہو گئی۔

 

 ۲۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ جانتا ہے کہ کون اس کی باتوں کو جھٹلاتا ہے اور کون ا س کی باتوں کی سچائی پر یقین کرتا ہے۔

 

 ۲۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حق و باطل کے معاملہ میں معیار دلیل و حجت ہے نہ کہ لوگوں کی کثرت و قلت۔ خدا اور مذہب جیسے بنیادی اہمیت رکھنے والے امور میں دنیا کی اکثریت ہمیشہ جہالت میں مبتلا رہی ہے اور اٹکل کے تیر چلاتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانیت کی تاریخ اخلاقی و عملی انحطاط کی تاریخ بن کر رہ گئی اور آج کے دور میں تو کوئی برائی ایسی نہیں جس نے وبائے عام کی شکل اختیار نہ کر لی ہو۔ ایسی صورت میں انسانوں کی عددی اکثریت لوگوں کی رہنمائی تو کرنے سے رہی البتہ ان کی گمراہیوں میں اضافہ ضرور کر سکتی ہے اس لئے قرآن کا کہنا ہے کہ حق و باطل کے معاملہ میں جمہور یا " رائے عامہ" حجت نہیں ہو سکتی بلکہ حجت یا تو وہ نشانیاں ہو سکتی ہیں جو آفاق و انفاس (یعنی نظام کائنات اور انسان کی اپنی فطرت) میں پھیلی ہوئی ہیں یا پھر کتا ب الہی جو خدائی سند کی حیثیت رکھتی ہے۔

 

 ۲۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لئے اپنے رب کی رہنمائی قبول کرو اور لوگوں کی کثرت جس طرف جا رہی ہے اس سے دھوکا نہ کھاؤ۔

 

 ۲۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لوگوں نے گمان کی بنیاد پر جو طور طریقے رائج کر رکھے ہیں ان میں کھانے کے سلسلہ کی غیر ضروری پابندیاں بھی ہیں چنانچہ مشرکین عرب نے چوپایوں کی ایک قسم کو حرام قرار دیا تھا مثلاً وہ اونٹنی جس نے اتنے اور اتنے بچے جنے ہوں۔ اگر اس کو اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو تب بھی ہو اس کا گوشت کھانا حرام سمجھتے تھے ا س لئے فرمایا گیا کہ جن جانوروں کو اللہ نے حلال ٹھہرایا ہے ان کو ذبح کرتے وقت اگر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو پھر ان کا گوشت کھانے میں اہل ایمان کو کوئی تائل نہیں ہونا چاہے۔ اس معاملہ میں پس و پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مشرکانہ توہمات کا اثر ابھی باقی ہے۔

 

کھانے کے معاملہ میں وہم پرستی مشرکین ہند کے رگ و پے میں ایسی سرایت کر گئی ہے کہ نہ صرف بعض حلال چوپایوں کے سلسلہ میں وہ حساس واقع ہوئے ہیں بلکہ سر سے گوشت خوری ہی کو انہوں نے حرام ٹھہرا دیا ہے۔

 

 ۲۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے سورۂ نحل کی آیت ۱۱۵ کی طرف جس میں یہ حکم بیان ہوا ہے : ا س نے تم پر حرام ٹھہرایا ہے صرف مردار خون سور کا گوشت اور وہ (ذبیحہ) جس پر غیراللہ کا نام پکارا گیا ہو، البتہ جو شخص مجبور ہو جائے اور نہ تو آ سکا خواہشمند ہو اور نہ حدسے تجاوز کرنے والا تو اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

 

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سورۂ نحل سورۂ انعام سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔

 

 ۲۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی گناہ کے صرف ظاہر ی پہلو سے اجتناب کافی نہیں بلکہ اس کے باطنی اثرات سے بھی بچنا ضروری ہے۔

 

یہ ایک عام ہدایت ہے جو ہر قسم کے گناہوں کے بارے میں ہے لیکن محل کلام کے لحاظ سے اشارہ اس گناہ کی طرف ہے جس کا ذکر اوپر ہوا یعنی جن جانوروں کو اللہ نے حلال ٹھہرا یا ہے ان کا گوشت محض مشرکانہ توہمات کی بنا پر نہ کھانا۔ یہاں تاکید کی گئی ہے کہ نہ صرف ان مشرکانہ طور طریقوں کو چھوڑ دو بلکہ ساتھ ہی اپنے قلب و ذہن کو بھی اس کے اثرات سے پاک کرو۔

 

مشرکانہ توہمات کی طرف دل کا میلان یا اس کا کوئی اثر جو دل میں موجود ہو گناہ ہی ہے اگرچہ کہ چھپا ہوا ہے۔

 

 ۲۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر کسی جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو تو اس کا گوشت کھانا حرام ہے۔ اس حکم میں بڑی شدت برتی گئی ہے اور واضح کر دیا گیا ہے کہ ایسا کرنا اللہ کی کھلی نافرمانی ہے۔

 

جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا اس لئے ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ یہ احساس ہمارے اندر زندہ رہے کہ کسی جانور کی جان لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے یہ حق ہمیں اللہ کی اجازت ہی سے حاصل ہوا ہے جو جان کا خالق ہے۔ اس میں شکر کا اظہار بھی ہے اور عقیدہ توحید کی تقویت کا سامان بھی۔ نیز اس سے شرک کا دروازہ بھی بند ہو جاتا ہے کیونکہ مشرکین جانوروں کی غیراللہ کے نام پر ذبح کرتے ہیں اور انکی قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ گویا یہ طریقہ مراسم عبودیت ہی میں سے ہے اس لئے قرآن نے اس طریقہ کو بھی اللہ ہی کے لئے مخصوص کر دیا۔ اور اس کو خدا پرستی کی علامت قرار دیا۔

 

 ۲۲۴۔ جب جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا توحید کی علامت اور اس کا نام نہ لینا شرک کی علامت قرار پایا تو اس معاملہ میں اہل ایمان کے لئے کسی قسم کی رعایت کرنے یا رواداری برتنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور اگر وہ اس معاملہ میں غفلت برتیں گے تو یہ ایک مجرمانہ غفلت ہو گی۔ اگر انہیں معلوم ہو کہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیا گیا ہے یاوہ جانتے ہوں کہ جن لوگوں کے ہاتھ کا یہ ذبیحہ ہے ان کا طریقہ ہی یہ نہیں ہے کہ اللہ کا نام لیکر ذبح کریں تو ایسے ذبیحہ کا گوشت کھانے سے لازماً پرہیز کرنا چاہے۔ اس معاملہ میں کسی مسلمان کے ڈھیل برتنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ایسے معاملہ میں ڈھیل برت رہا ہے جس کے ڈانڈے شرک سے ملے ہوئے ہیں اور شرک کے ساتھ سازگاری پیدا کرنا اپنے کو شرک کے حوالے کرنا ہے۔ اسی لئے یہاں متنبہ کر دیا گیا ہے کہ اگر تم نے شیطانوں کی بات مان لی تو تم بھی مشرک ہو جاؤ گے۔

 

 ۲۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس مثال میں موت سے مراد جہالت و غفلت کی حالت ہے اور حیات سے مراد علم و بصیرت اور خدا شناسی کی کیفیت ہے۔ روشنی سے مراد ہدایت کی روشنی اور تاریکیوں سے مراد گمراہیاں ہیں۔

 

مقصد اس مثال سے یہ واضح کرنا ہے کہ اہل ایمان جن کے لئے اسلام کا پیغام حیات بخش ثابت ہو رہا ہے اسے چھوڑ کر وہ جاہلیت کی باتیں کیونکر قبول کر سکتے ہیں جوان کے لئے پیام موت ہیں ؟

 

 ۲۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ حق کے لئے واضح ہو جانے کے بعد بھی اسے قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے تو قانون الہی یہی ہے کہ جو جس چیز کو پسند کرتا ہے اس کی نظر میں وہ چیز کھبا دی جائے بالفاظ دیگر حق کو رد کر دینے کے بعد آدمی کی نفسیات ایسی بن جاتی ہیں کہ غلط کاموں کو وہ اپنا کارنامہ حیات سمجھنے لگتا ہے۔

 

 ۲۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب کسی آبادی میں دعوت حق بلند ہوتی ہے تو مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ اپنے مفاد کے خلاف پا کر اس کی مخالفت کرنے لگتے ہیں اور ان کے سرغنے اہل حق کے خلاف شاطرانہ چالیں چلنے لگتے ہیں یہ صورت حال چونکہ اس قانون مہلت کے مطابق رونما ہوتی ہے جو اللہ تعالی نے اس دنیا کے لئے مقرر کیا ہے اس لئے اس حقیقت کو اللہ تعالی نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ "ہم نے ہر بستی میں بڑے بڑے مجرموں کو اٹھا کھڑا کیا ہے تاکہ وہ چالبازیاں کریں۔

 

 ۲۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ حرکتیں کر کے وہ اپنے ہی لئے تباہی کا سامان کر رہے ہیں مگر چونکہ نتیجہ پران کی نگاہ نہیں ہے اس لئے وہ محسوس نہیں کر پاتے کہ کس برے انجام کی طرف جا رہے ہیں۔

 

 ۲۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کافروں کا کہنا یہ تھا کہ اگر اللہ کی طرف سے رسولوں پر وحی نازل ہوتی ہے توہم پربھی نازل ہونی چاہے جب تک کہ ہم پر براہ راست وحی نازل نہ ہو ہم اللہ کی آیتوں  پر ایمان لانے والے نہیں۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ رسالت ایسی چیز نہیں ہے کہ یہ منصب ہر کس و ناکس کو عطا کیا جائے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس منصب جلیل کا سب سے زیادہ اہل کون ہے اور ایسے ہی شخص کو وہ اس سے سرفراز فرماتا ہے۔

 

ضمناً اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ رسالت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے انسان حاصل کرنے کی کوشش کرے بلکہ عطیہ الہی ہے جسے چاہے وہ بخشے۔

 

 ۲۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس قسم کے مطالبے کرنے والے مجرم ہیں اور وہ اپنے جرم کی سزا بھگت کر رہیں گے۔

 

 ۲۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سینہ کھول دینے کا مطلب اسلام کے دین حق ہونے پر مطمئن کر دینا ہے کہ کسی قسم کا شک و شبہہ باقی نہ رہے اور آدمی اسے بلا  پس و پیش قبول کر لے۔

 

 ۲۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایسے لوگوں کو اسلام کا راستہ ایک کٹھن چڑھائی معلوم ہوتا ہے جس کے تصور سے ان کا سینہ تنگ ہونے اور ان کا دم گھٹنے لگتا ہے۔

 

 ۲۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نا پاکی سے مراد کفر کی  نا پاکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے ایمان نہ لا نے کی اصل وجہ کفر کی نجاست ہے جس نے ان کے دل و دماغ کو نا پاک کر دکھا ہے اس لئے اللہ کا پاکیزہ دین ان کے دل و دماغ میں اتر نہیں پاتا۔

 

 ۲۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی اسلام کی راہ بالکل سیدھی ہے اس میں کوئی ایچ پیچ نہیں اور یہ بات بدلائل قرآن میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کر دی گئی ہے لیکن اس سے فائدہ وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو دلائل کو سمجھنا اور یاد دہانی حاصل کرنا چاہیں۔

 

 ۲۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سلامتی کا گھر یعنی جنت جہاں امن ہی امن ہو گا اور انسان پوری طرح چین کی زندگی گزار سکے گا نہ کوئی آفت آئے گی اور نہ کوئی خطرہ لاحق ہو گا بلکہ ہر قسم کی تکلیفوں اور اندیشوں سے محفوظ ہو گا۔

 

 ۳۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب شیاطین جن سے ہو گا۔

 

 ۲۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرکش جن گمراہی پھیلانے کے لئے انسانوں کو اپنا آلۂ کا ر بناتے رہے اور اس کام کے لئے انہوں نے وسوسہ اندازی اور پر فریب باتوں سے دل و دماغ کو مسحور کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ رہے سرکش انسان تو انہوں نے جنوں کو خدا کا شریک ٹھہرا کر اور قربانیاں اور نذرانے پیش کر کے ان کے غرور میں اضافہ کر دیا  نیز کہا نت ،جادو، ٹونا ٹوٹکا اور سفلی اعمال کے سلسلہ میں ان کی طرف رجوع کرتے رہے اور ان کے اشاروں پر لوگوں کو چکمہ دیتے رہے اور اپنا الو سیدھا کرتے رہے۔

 

 ۲۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کا دن۔

 

 ۲۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ استثنا ء اللہ کے اختیار کو واضح کرنے کے لئے ہے کہ سرکش جنوں اور انسانوں کو اگرچہ کہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں داخل کر  دیا جائے گا لیکن اس معاملہ میں حرف آخر اس کی مشیت ہی ہے اور اس کا ہر فیصلہ علم و حکمت  پر مبنی ہوتا ہے۔

 

 ۲۴۰۔ ۔ یعنی یہ ظالم جس طرح ظلم میں ایک دوسرے کے شریک رہے ہیں اسی طرح اس کی سزا بھگتنے میں بھی ایک دوسرے کے شریک ہوں گے۔

 

 ۲۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ خطاب جن و انس کے مشترک گروہ سے ہو گا اس لئے اللہ تعالی کے ارشاد " کیا تمھارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے " کا مطلب۔ اور حقیقت حال کا علم اللہ ہی کو ہے۔ یہ ہے کہ رسول اگرچہ کہ نسل انسانی میں سے تھے لیکن ان کی بعثت انس و جن دونوں گروہوں کی طرف تھی کیونکہ جن اس معاملہ میں انس کے تابع ہیں اور اس کی تائید قرآن کی متعدد آیات سے ہوتی ہے۔

 

مثلاً  جنوں کا یہ بیان کہ " ہم نے ایسی کتاب سنی جو موسیٍٰ کے بعد نازل ہوئی ہے " (الاحقاف  ۳۰)  ان کا سلیمان علیہ اسلام کے تابع ہونا۔ (النمل  ۱۷) ان کا قرآن سننا اور اس پر ایمان لانا (سورہ جن)

 

اور قرآن اور احادیث صحیحہ میں کہیں یہ صراحت نہیں ہے کہ جنوں کی طرف جنوں ہی میں سے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے البتہ بعض مفسرین نے یہ بات ضرور کہی ہے مگر وہ ایک شاذ قول ہے۔

 

 ۲۴۲۔ ۔ یعنی رسول اس لئے بھیجے گئے تاکہ اللہ کی محبت لوگوں پر قائم ہو اور اس کے بعد اگر وہ نہ سنبھلیں تو اپنی تباہی کے وہ خود ذمہ دار قرار پائیں۔ اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ کسی بستی پر اپنی حجت قائم کئے بغیر اور اس حال میں کہ لوگ راہ حق سے بالکل بے خبر ہوں۔ ظلماً ان کو ہلاک کر دے۔

 

 ۲۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس درجہ کا عمل ہو گا اچھا یا برا اسی درجہ کی کامیابی یا ناکامی ہو گی۔

 

 ۲۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ نہ سمجھو کہ اللہ تمھارا محتاج ہے اگر تم نہ رہو  تو اس کی سلطنت میں کوئی کمی واقع ہو جائے گی بلکہ وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے اور یہ اس کی مہربانی ہے کہ تمھارے غلط طرز عمل کے با وجود تمہیں مہلت عمل دے رہا ہے تاکہ تم اپنی اصلاح کرو ورنہ تمہیں صفحہ ہستی سے مٹا کر تمھاری جگہ دوسری قوموں کو لا سکتا ہے۔ اور اس کی مثال خود تمھارا اپنا قومی وجود ہے کہ یہ سلسلہ ء نسل انسانی ہی سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک گردہ جاتا ہے اور دوسرا گروہ اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ اس لئے کسی کو اپنے قومی وجود پر فخر نہیں کرنا چاہے اور یہ سمجھ لینا چاہے کہ جس ہستی نے ان کو وجود بخشا ہے اس کا ایک اشارہ ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا نے کے لئے کا فی ہے۔

 

 ۲۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کا دن ،جب خدا کے حضور سب کی پیشی ہو گی۔

 

 ۲۴۶ پیغمبر جن لوگوں کے درمیان پیدا ہوتا ہے ان کو میری قوم کہ کر خطاب کرتا ہے جس سے اپنائیت ،انسانی ہمدردی اور بہی خواہی کا اظہار ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر" یا قومی " کے الفاظ " اے میرے لوگو! "کے سادہ معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس لئے اس کو اصطلاحی قومیت کے معنی میں لینا اور اس سے مذہبی یا سیاسی نظریہ قومیت کے سلسلہ میں استدلال کرنا بالکل غلط ہے۔

 

 ۲۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین نے مذہبی رسوم کی جو شریعت گھڑ رکھی تھی اس کا ایک اہم جزء ان کی وہ خیرات تھی جو خدا اور ان کے دوسرے معبود (بت وغیرہ) کے نام سے کرتے تھے۔ اس مقصد کے لئے وہ پیداوار اور مویشیوں میں ایک حصہ جس کی مقدار انہوں نے اپنی ہی طرف سے مقرر کر رکھی تھی ، مخصوص کر دیتے تھے۔ خدا کے حصہ کی خیرات تو فقیروں میں تقسیم ہوتی۔ رہی غیراللہ کے حصہ کی خیرات تو وہ بتوں پر چڑھاوے کی صورت میں پیش کی جاتی اور پھر پجاری اور پروہت اس کے حقدار بنتے۔ اگر کسی حادثہ کی وجہ سے بتوں کے حصہ میں کوئی کمی ہو جاتی تو اس کی تلافی خدا کے حصہ سے کی جاتی لیکن اگر خدا کے حصہ میں کمی ہو جاتی تو اس کی تلافی بتوں کے حصہ سے نہیں کی جا سکتی تھی۔

 

یعنی ان کے نزدیک مقدم حق بتوں کا تھا اس کے بعد خدا کا۔

 

ان کا یہ طریقہ مشرکانہ بھی تھا اور احمقانہ بھی۔ خدا  کا حصہ کہا ں سے نکل آیا؟ پھر اس شریعت سازی کا اختیار ان کوکس نے دیا؟ اور انکی یہ تقسیم کتنی بھونڈی تھی ؟

 

یہ مشرکین مکہ کی جہالت کا ایک نمونہ ہے۔ دوسرے مشرکین کے ہاں بھی جہالت کے ایسے کتنے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں اور مسلمانوں میں بھی بزرگوں کی نذر و نیاز کے نام سے جو کچھ ہوتا ہے اس کے پیچھے بھی غلط ذہنیت ہی کام کر رہی ہوتی ہے لیکن "بزرگ پرستی "، " اولیا ء پرستی "  اور " قبر پرستی "  پر اسلام کا خوشنما لیبل لگا کران کو مسلمانوں میں رائج کر دیا گیا ہے۔

 

 ۲۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس طرح شیاطین نے ان پر یہ بات الہام کر دی کہ وہ اپنے مال کا ایک حصہ اپنے معبودوں کی نذرو نیاز کے لئے وقف کریں اسی طرح انہوں نے اپنے ان چیلوں کو یہ پٹی بھی پڑھا دی ہے کہ وہ اپنے معبودوں پر اپنی اولاد کو بھینٹ چڑھائیں۔

 

آیت میں (ان کے شریک) سے مراد شیاطین ہیں جن کے اشاروں پر مشرکین ہر قسم کی ناروا حرکتیں کرتے ہیں یہاں تک کہ انہیں اپنے بچوں کو ہلاک کرنے میں بھی تامل نہیں ہوتا۔ وہ ان کے دل میں یہ خیال ڈال دیتے ہیں کہ فلاں اور فلاں معبود (جن دیوی وغیرہ) کے۔ ضر رسے بچنے کے لئے تمہیں اپنے بچوں کی بھینٹ دینا ہو گی۔ عربوں میں جہاں شیاطین ہی کے زیر اثر لڑکیوں کو زندہ  درگور کیا جاتا تھا وہاں ایک طریقہ یہ بھی رائج تھا کہ آدمی منت مان لیتا کہ اگر میرے اتنی اور اتنی اولا د ہوئی تومیں ان میں سے ایک کو فلاں معبود پر بھینٹ چڑھاؤں گا چنانچہ سیرت ابن اسحاق میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ عبدالمطلب نے اسی قسم کی منت ہبل بت کے پاس کھڑے ہو کر مانی تھی اور جب ان کے کا فی اولاد ہوئی تو عبد اللہ کی جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے  والد ہیں، بھینٹ دنیا چاہا لیکن قریش نے انہیں اس کا فدیہ دینے پر آمادہ کیا اس لئے ان کی جان بچ گئی۔

 

 (سیرت النبی  ابن ہشام ج اس)

 

آج بھی اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ وہم پرست کسی جن یا دیوتا کو خوش کرنے یا کسی بلاسے بچنے یا کسی سفلی عمل کی غرض سے معصوم بچوں کی جانیں لے لیتے ہیں۔ اس وحشیانہ فعل پران کا دل اس لئے آمادہ ہو جاتا ہے کہ شیطان اس چیز کو مذہبی رنگ دے کریا اس کی کوئی دلفریب توجیہ کر کے ان کی نظروں میں کھبا دیتا ہے۔

 

ان شیاطین کو" شریک " اس لئے کہا گیا ہے کہ مشرکین فاسد عقائد کے تحت ان کی اس طرح اطاعت کرتے ہیں جس طرح اللہ کی اطاعت کی جانی چاہے۔ وہ ان شیطانوں کے زیر اثر بڑے سے بڑا گناہ کرنے سے بھی نہیں چوکتے جس کی مثال بچوں کو بھینٹ چڑھانا یا مفلسی کے ڈر سے ان کو زندہ در گور کرنا ہے۔

 

 ۲۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قتل اولاد کا نتیجہ اس کے سوا کیا ہے کہ آدمی اولاد جیسی نعمت سے محروم ہو جائے اور غضب الہی کا مستحق بنے۔

 

 ۲۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین مکہ جس دین کے وارث تھے وہ ابراہیم اور اسمعیل علیھم  السلام کا دین یعنی اسلام تھا لیکن شیاطین کی باتوں میں آ کر انہوں نے اپنے اس دین میں طرح طرح کی بدعتیں نکالیں۔ نتیجہ یہ کہ اللہ کا دین اپنی اصل شکل میں باقی نہ رہا بلکہ با طل کے ساتھ خلط ملط ہو کر رہ گیا۔

 

 ۲۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین عرب نے کچھ رسمیں تو غیر اللہ کی نذر و نیاز کے لئے رائج کر رکھی تھیں اور کچھ رسمیں ایسی تھیں جن کا تعلق وہم پرستی سے تھا۔ پیداوار کا جو حصہ وہ غیر اللہ کی نذر و نیاز کے لئے مخصوص کرتے اس کے بارے میں انہوں نے ایک ضابط بنا رکھا تھا کہ اس کو کون لوگ کھا سکتے ہیں اور کون نہیں۔

 

اسی طرح کا ایک ضابطہ جانوروں کا گوشت کھانے سے متعلق بھی تھا جس کی تفصیل آگے کی آیات میں بیان ہوئی ہے۔ یہ محض ڈھکوسلے تھے جن کا کوئی تعلق اللہ کے دین سے نہ تھا۔ اس سے جس اصولی بات پر روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ تمام رسمیں مردود ہیں جن کو مذہبی یا شرعی حیثیت دیکر رائج کیا گیا ہو جبکہ شریعت خداوندی کی سندان کو حاصل نہ ہو۔

 

 ۲۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ باتیں ہیں تو ان کی خوش ساختہ لیکن ان کو مذہبی رنگ دے کر اس طرح ان کی پابندی کرائی جا رہی ہے کہ لوگ باور کریں کہ یہ اللہ کی شریعت ہے۔

 

 ۲۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعض چوپا یوں کے پیٹ سے جو بچہ پیدا ہوتا وہ زندہ پیدا ہونے کی صورت میں مردوں کے لئے حلال ہوتا یعنی وہ اس کا گوشت کھا سکتے تھے لیکن عورتوں کے لئے اس کا گوشت حرام ہوتا اور اگر مردہ پیدا ہوتا  تو پھر عورت مرد دونوں کے لئے اس کا کھانا جائز ہوتا۔

 

 ۲۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ شریعت سازی کرنے والوں کو سزا دے اور جن لوگوں نے یہ جسارت کی ہے ان کو وہ جانتا ہے۔

 

 ۲۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انگور وغیرہ جن کی بیلیں ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی ہیں۔

 

 ۲۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "جنہیں ٹٹیوں پر چڑھایا نہیں جاتا ،سے مراد تناور درخت بھی ہیں اور وہ پودے بھی ہیں جو زمین ہی پر پھلتے ہیں مثلاً  ککڑ یاں ،تربوزے وغیرہ۔

 

 ۲۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے جس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ انسان کے لئے زمین پر جو دستر خوان بچھا دیا گیا ہے اس میں انواع و اقسام کے کھانے میں جو انسان کی صرف بنیادی ضرورت ہی کو پورا نہیں کرتے بلکہ اس کے ذوق کی تسکین کا سامان بھی کرتے ہیں ورنہ زندہ رہنے کے لئے تو صرف روٹی کا فی ہو سکتی تھی مگر انسان کو جو اعلیٰ ذوق بخشا گیا ہے اس کی رعایت سے ہر قسم کے پھل بھی پیدا کئے۔ یہ سب اللہ تعالی کی ربوبیت اور اس کے کرم کا فیضان ہے تاکہ انسان اس کا شکر گزا ر ہو مگر انسان کا معاملہ عجیب ہے کہ وہ اس کی بخشی ہوئی نعمتوں سے فائدہ توا ٹھا تا ہے لیکن ناشکرا بنا رہتا ہے یا شکر ادا کرتا ہے یا اس کا نہیں بلکہ غیراللہ کا چنانچہ پیداوار کا ایک حصہ وہ اپنے معبودوں کے لئے مختص کر دیتا ہے کہ یہ دولت تو لکشمی دیوی کی بخشی ہوئی ہے اور یہ فلاں دیوی کی اس لئے ان کے شکرہ کے طور پر ان کے نام سے یہ دان کیا جائے۔ اسی سے ملتی جلتی شکل وہ ہے جو اہل بدعت اختیار کرتے ہیں۔ وہ اپنے پیروں۔ ولیوں ، اور بزرگوں کے لئے نذر و نیاز کرتے ہیں اور تاویل یہ کرتے ہیں کہ ان ہی کے طفیل ہمیں یہ نعمتیں ملی ہیں۔ اس طرح دونوں گروہوں کی مشترکہ  خصوصیت یہ ہے کہ ان کو جو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں ان کو وہ براہ راست اللہ کا انعام نہیں سمجھتے اور نہ براہ راست اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ وہ واسطوں اور وسیلوں کے چکر میں اس طرح رہتے ہیں کہ ان کی شکر گزاری ان ہی تک پہنچ کر رہ جاتی ہے۔ اللہ تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔

 

یہاں جو بات ذہن نشین کرانا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ انسان کا یہ سمجھنا سراسر غلط ہے کہ خدا کی ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا حق تو مجھے پہنچتا ہے لیکن ان میں خدا کا کوئی حق نہیں ہے جس کے ادا کرنے کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہو۔ یہ تمام نعمتیں اس نے آزمائش کے طور پر انسان کو بخشی ہیں اور ان میں اپنا حق متعین کر دیا ہے تاکہ دیکھے کہ کون اس کا حق ادا کر کے اس کی شکر گزاری کا ثبوت دیتا ہے اور کون اس سے بے پروا ہو کر کفران نعمت کرتا ہے۔

 

پیداوار اور پھلوں میں اللہ کا حق کیا ہے اس کی تفصیل حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمائی ہے۔ یہاں اللہ کے حق کی ادائیگی کا اجمالی حکم دیا گیا ہے تاکہ سب سے پہلے انسان میں یہ احساس پیدا ہو کہ اللہ کا حق ادا کرنا ہے اس کے بعد اس کی تفصیلات کے لئے وہ شریعت کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔

 

یہ سورہ مکی ہے جس میں اللہ کا حق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس سے واضح ہو کہ پیداوار اور پھلوں میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم مکہ ہی میں نازل ہوا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کو اسلام نے کتنا اہم مقام دیا ہے۔

 

آیت میں کھیتی اور پھلوں کا ذکر ہوا ہے اور ساتھ ہی یہ حکم دیا گیا ہے کہ فصل کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو اس سے ایک شرعی اصول تو یہ واضح ہوا کہ ہر قسم کے غذائی اجناس اور ہر قسم کے پھل اور میوہ جات میں اللہ کا حق ہے۔ اس حق کی تشریح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح فرمائی ہے۔

 

"جسے بارش یا چشموں نے سیراب کیا ہو یا جو سیلاب وغیرہ کے پانی سے سیراب ہو گئی ہو اس میں عشر ہے اور جیس آبپاشی (بخاری) کے ذریعہ سیراب کیا گیا ہو اس میں نصف عشر ہے۔ "

 

عشر یعنی پیداوار کا دسواں حصہ (دس فیصد) نصف عشر یعنی بیسواں حصہ (پانچ فیصد) بطور زکوٰۃ ادا کرنا ہو گا۔

 

دوسرا اصول یہ واضح ہوا کہ زرعی ہے۔ سال میں جتنی فصلیں ہونگی ہر ہر فصل کی زکوٰۃ دینا ہو گی۔

 

اور تیسرا اصول یہ کہ فصل کٹنے پر لاتا خیر زکوٰۃ  ادا کی جانی چاہے۔

 

 ۲۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسراف کا مطلب خرچ کرنے میں حدِ اعتدال سے تجاوز کرنا ہے۔ جو شخص اللّے تللّے خرچ کرتا ہے وہ اپنا شوق ہی پورا نہیں کر پاتا۔ بندگانِ خدا کے حقوق کہاں سے ادا کرے گا؟

 

 ۲۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مویشیوں میں تو کچھ اونچے قد کے ہیں جو سواری اور بار برداری کے کام آتے ہیں۔ مثلاً  اونٹ، بیل، وغیرہ۔ اور کچھ پست قد ہیں گویا زمین ہی سے لگ کر چلتے ہیں، مثلاً  بھیڑ، بکری جن کے گوشت اور دودھ وغیرہ سے آدمی فائدہ اٹھاتا ہے۔

 

 ۲۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن چوپایوں کو  گوشت اور دودھ کے لئے پالا جاتا ہے اور جن کو اہلِ عرب انعام مویشی کے کہتے تھے، چار قسم کے ہیں۔ بھیڑ، بکری، اونٹ اور گائے۔ بھینس کا شمار بھی گائے ہی میں ہے۔ مگر یہ عرب میں پائی نہیں جاتی تھی۔

 

ان چار پالتو جانوروں کے نر و مادہ کل آٹھ ہوئے جن کو اہلِ عرب حلال تو مانتے تھے لیکن مشرکانہ توہمات کی بناء پر بعض صورتوں میں ان پر بھی حُرمت کا حکم لگا دیتے تھے، مثلاً  بعض چوپایوں کے پیٹ سے اگر بچہ زندہ پیدا ہوتا ہو وہ مردوں کے لئے حلال ہوتا لیکن عورتوں کے لئے اس کا گوشت کھانا حرام ہوتا۔ اور اگر بچہ مردہ پیدا ہوتا تو عورت مرد دونوں کھا سکتے تھے۔ اسی طرح ان کے نزدیک بعض چوپایوں کا دودھ اور بعض کا سواری کے لئے استعمال ممنوع تھا (ملاحظہ ہو سورۂ مائدہ، آیت نمبر ۱۰۳ اور نوٹ ۲۴۹) ۔ یہاں ان کی اسی توہم پرستی کی حقیقت واضح کی جا رہی ہے۔

 

 ۲۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی محض وہم و گمان کی بنا پر کسی چیز کو حرام سمجھنا صحیح نہیں، کیوں کہ کسی چیز کو حرام سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے  اسے حرام ٹھہرایا ہے اور اللہ کی طرف کوئی بات وہم و گمان کی بنا پر منسوب کرنا سراسر جھوٹ ہے۔ اس کی طرف وہی بات منسوب کی جا سکتی ہے جس کی علمی شہادت موجود ہو۔ ظاہر ہے کہ علمی شہادت وحیِ الٰہی ہی ہو سکتی ہے۔ اس لئے اگر ابراہیمؑ کی تعلیمات میں اس کی کہیں نشان دہی کی جا سکتی ہے یا پچھلی آسمانی کتابوں میں اس کا کوئی حکم۔ بشرطِ صحت۔ موجود ہو تو پیش کرو۔

 

علمی دلیل پیش کرنے کا یہ مطالبہ جو قرآن نے کیا ہے، عربوں ہی سے بلکہ ان تمام اقوام سے ہے جو اپنی خواہشات یا مشرکانہ توہمات کی بنا پر بعض مویشیوں کا گوشت حرام ٹھہراتے ہیں مثلاً  گائے کا گوشت، یا مطلقاً گوشت ہی کو حرام سمجھتے ہیں۔ ، خواہ وہ کسی چرند یا پرند کا گوشت ہو۔

 

 ۲۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آخر تمہیں معلوم کیسے ہوا کہ فلاں قسم کی اونٹنی یا فلاں قسم کی گائے یا ان کے فلاں قسم کے بچے اللہ نے تم پر حرام ٹھہرائے ہیں؟ انبیائی شریعت میں تم اس کی نشاندہی نہیں کر سکتے پھر کیا تم کو خدا نے براہِ راست یہ حکم دیا تھا اور تم نے اپنے کانوں سے اسے سن لیا تھا۔ اور جب یہ دونوں باتیں صحیح نہیں ہیں تو پھر ان چیزوں پر حرمت لگانے کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ تم نے رسموں کی ایک شریعت گھڑ لی ہے جس کو جھوٹ بول کر خدا کی طرف منسوب کر رہے ہو۔

 

 ۲۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آیت کا مطلب سمجھنے کے لئے اس سلسلۂ کلام کو سامنے رکھنا ضروری ہے جو اوپر سے چلا آ رہا ہے۔ بحث مویشیوں کی حلت و حرمت سے متعلق پیدا ہو گئی تھی۔ اہلِ عرب ان مویشیوں کا گوشت  جن کا ذکر اوپر آیت ۱۴۳ اور ۱۴۴ میں ہوا، غذا کے طور پر استعمال کرتے تھے، لیکن بعض صورتوں میں محض توہمات کی بنا پر انہوں نے ان کا گوشت حرام ٹھہرا لیا تھا۔ ساتھ ہی بعض حرام چیزوں کو انہوں نے حلال ٹھہرا دیا تھا۔ یہ تھیں مردار، بہایا ہوا خون، سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ۔ یہاں ان زہرِ بحث چیزوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ پیغمبر پر جو احکام نازل ہوئے ہیں، ان میں سے تمہاری حرام ٹھہرائی ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز بھی حرام نہیں ہے۔ بجز ان چار چیزوں کے۔ یعنی مردار وغیرہ۔ اس لئے آیت کا یہ مطلب لینا صحیح نہ ہو گا کہ اسلام میں ان چار چیزوں کے علاوہ کوئی چیز بھی حرام نہیں ہے۔ قرآن میں دوسرے مقام پر یہ اصولی بات واضح کر  دی ہے کہ:

 

وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطّیِّبَاتِوَ یۃحَرِّمُ عَلَیہِمُ الخَبَائِثَ (الاعراف، ۱۵۷)

 

"یہ پیغمبر ان کے لئے پاک چیزوں کو حلال ٹھہراتا ہے اور نا پاک چیزیں ان پر حرام کرتا ہے۔ "

 

اور حدیث میں اس کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

 

"کسی بھی کچلی والے درندہ کا گوشت کھانا حرام ہے۔ "

 

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر کچل والے درندہ اور ہر پنجہ والے پرندہ (کا گوشت کھانے) سے منع فرمایا ہے۔ "

 

 (صحیح مسلم کتاب الصید و الذبائح)

 

نزول قرآن کے وقت یہ بحث کھڑی نہیں ہوئی تھی کہ درندوں کا گوشت کھانا کیسا ہے یا چوہے ،سانپ ،بچھو اور کیڑے مکوڑے آدمی کھا سکتا ہے یا نہیں کیونکہ فطرت انسانی ان چیزوں پر خباثت کا حکم لگا تی ہے اور طبیعتیں عام طور سے ان چیزوں کو کھانے سے نفرت کرتی ہیں پھر ان میں سے کوئی چیز ایسی نہیں تھی جس کی قربانی بتوں کے لئے دی جاتی ہو اس لئے ان چیزوں کی حرمت کا حکم اس اہتمام کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی جس اہتمام کے ساتھ کہ خون اور غیراللہ کے ذبیحہ جیسی چیزوں کی حرمت بیان کرنا ضروری تھا یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ان چار چیزوں کی حرمت جن کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے بڑی شدت کے ساتھ بیان کی نیز متعدد سورتوں میں اس کو دہرایا تا کہ لوگوں کی ذہنی اور عملی اصلاح ہو۔

 

رہے دوسرے خبیث جانور تو ان کی حرمت بیان کرنے کا کام نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر چھوڑ دیا گیا جیسا کہ سورۂ اعراف کی آیت (یہ نبی ان پر خبیث چیزوں کو حرام کرتا ہے) سے واضح ہے چنانچہ محرمات کی تفصیلات ہمیں احادیث صحیحہ میں ملتی ہیں۔

 

 ۲۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی نیز مردار وغیرہ کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۲۰۹ تا ۲۱۴ میں گزر چکی۔

 

 ۲۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چوپایوں کی حلت و حرمت کے سلسلہ میں قرآن نے چار چیزوں کو مستثنیٰ کر کے بقیہ تمام مویشیوں کو جو حلال ٹھہرایا تو اس کا اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ ملت ابراہیم میں یہی چار چیزیں حرام تھیں۔ اس میں جو کچھ رد و بدل ہوا ہے وہ مشرکین عرب کی اپنی بدعات ہیں شریعت خداوندی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن کے اس بیان سے یہ سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ اگر پہلے سے یہ چار چیزیں ہی حرام چلی ا رہی ہیں تو پھر یہود پر جو اہل کتاب ہیں کس طرح دوسری چیزیں حرام ہوئیں ؟ اس کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے کہ ان چار چیزوں کے علاوہ یہود پر بعض اور چیزیں بھی یقیناً حرام کر دی گئی تھیں مگر یہ اسلئے نہیں کہ وہ چیزیں فی نفسہ نا پاک تھیں بلکہ وہ اصلا پاک تھیں لیکن ان کی سرکشی کی وجہ سے سزا کے طور پر ان کے لئے شریعت سخت کر دی گئی تھی۔ یہ ایک عارضی حکم تھا جوان کے فساد مزاج کے پیش نظر دیا گیا تھا جس طرح کہ ایک حکیم مرض کی شدت کو دیکھتے ہوئے مریض کو صالح غذا سے بھی پرہیز کرنے کے لئے کہتا ہے۔ اس لئے اب جبکہ قرآن کی شکل میں ایک دائمی شریعت کا نزول ہو رہا ہے تو اس میں ان تمام عارضی پابندیوں کو ختم کر دیا گیا ہے اس لئے اس میں تمام پاکیزہ چیزیں حلال ہیں اور صرف خبیث چیزیں ہی حرام ہیں۔

 

یہود پر جیسا کہ اس آیت میں واضح کیا گیا ہے دو پاک چیزیں حرام کر دی گئی تھیں۔ ایک ہر قسم کے ناخن والے جانور خواہ چرند ہوں یا پرند اور دوسرے گائے اور بکری کی چربی بجز اس کے جو پیٹھ ،آنتوں یا ہڈیوں سے لگی ہوئی ہو کیونکہ اس کو آسانی سے الگ نہیں کیا جا سکتا تھا۔

 

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ دو چیزیں بنی اسرائیل پراس وقت حرام کی گئیں جبکہ انہوں نے سرکشی کر کے یہودیت اختیار کر لی ورنہ اس سے پہلے یہ چیزیں ان پر حرام نہیں تھیں۔

 

 ۲۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر اس سے مختلف کوئی بات موجودہ تورات میں پانی جاتی ہے تو وہ غلط ہے اور اس کی نسبت اللہ کی طرف صحیح نہیں۔

 

 ۲۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لئے تمہاری مجرمانہ حرکتوں کے باوجود تم پر فور عذاب نازل نہیں کر رہا ہے بلکہ تمہیں اصلاح کا موقع دے رہا ہے ۰۔

 

 ۲۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی چیز کو حرام ٹھہرانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کو یہ چیز پسند نہیں ہے اس لئے اس نے روکا ہے۔ اگر کوئی شخص یا کوئی قوم کسی چیز کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ وہ حرام ہے تو اسے بتانا چاہے کہ اس کی بنیاد کیا ہے یعنی اسے کس طرح معلوم ہوا کہ اللہ نے اس چیز کو حرام ٹھہرایا ہے۔

 

اگر اس کی کوئی سند یا دلیل موجود نہیں ہے تو  پھر یہ محض وہم پرستی یا اٹکل کے تیر تکے چلانا نہیں تو اور کیا ہے ؟خدا کے بارے میں کوئی بات علم کی بنیاد پر ہی کہی جا سکتی ہے ورنہ سخت غیر ذمہ دارانہ بات ہو گی۔

 

 ۲۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمھارے عقائد علم پر مبنی نہیں بلکہ محض گمان کا نتیجہ ہیں کیونکہ خدا کی مرضی معلوم کرنے کا تمھارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

 

 ۲۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر خدا چاہتا تو بزور سب کو ہدایت کی راہ پر چلاتا لیکن اس کی مصیبت کا فیصلہ یہ نہیں ہوا بلکہ اس نے انسان کو یہ موقع دیا کہ وہ ہدایت اور گمراہی دونوں میں سے جس راہ کا چاہے انتخاب کرے اور ہدایت کی راہ کو واضح کرنے کے لئے اس نے ایسی حجت نازل فرمائی ہے جو دلوں میں اتر جانے والی ہے۔ اس حجت کے مقابلہ میں تمہاری یہ حجت کہ اگر اللہ چاہتا توہم شرک نہ کرتے اور اسی قسم کی تمہاری دوسری حجتیں بالکل بے معنی ،بے اثر اور بے نتیجہ ہیں۔

 

 ۲۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شہادت علم کی بنیاد پر دی جانی چاہے۔ اگر یہ لوگ اس ذمہ داری کو نہیں سمجھتے اور جھوٹی شہادت دینے کے لئے تیا رہو جائیں تو تم ان کی شہادت کی تصدیق نہ کرو کہ اللہ کی حجت کے مقابلہ میں ان کی شہادت نے وزن اور باطل ہے۔ دراصل ان سے شہادت کا مطالبہ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے نفس کو ٹٹولیں اور انہیں اندازہ ہو کو وہ کتنی جسارت کے ساتھ یہ دعوی کر رہے ہیں کہ خدا نے فلاں اور فلاں چیز کو حرام ٹھہرایا ہے در آنحالیکہ اس کا کوئی ثبوت ان کے پاس موجود نہیں ہے۔

 

 ۲۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اٹکل پچو باتوں پر چلنے اور اوہام و رسوم کی جکڑ بندیوں میں رہنے کے بجائے ان پابندیوں کو قبول کرو جن کا حکم واقعی اللہ نے دیا ہے اور ان کے اللہ کی جانب سے ہونے کے لئے قرآن کی سند کا فی ہے۔ یہ پابندیاں صرف کھانے کے مسئلہ ہی میں نہیں بلکہ ان کا تعلق پوری فکری و عملی زندگی سے ہے تاکہ انسان کے خیالات میں پاکیزگی اور نکھار پیدا ہو اور وہ ایک پابند آئین صاف ستھری زندگی گزار سکے۔

 

یہاں جو احکام دیئے گئے ہیں وہ مسلمانوں کو خطاب کر کے نہیں بلکہ مشرکین کو خطاب کر کے دیئے گئے ہیں اس لئے ان پر عمل در آمد کا  مطالبہ مسلمانوں ہی سے نہیں غیر مسلموں سے بھی ہے بالفاظ دیگر قرآن کا مطالبہ ہر انسان سے ہے کہ وہ اپنے ر ب کے ان احکام کو قبول کر کے اس کا اطاعت گزار بندہ بن جائے۔

 

 ۲۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شرک حرام چیزوں میں سب سے پہلی حرام چیز ہے جس سے اس گناہ کی شدت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

 

شرک کی تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ نساء نوٹ ۱۱۱

 

 ۲۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم مثبت انداز میں دیا گیا ہے تاکہ موثر ہو سکے۔ اس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہو گئی کہ والدین کے ساتھ بدسلوکی حرام ہے۔

 

 ۲۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قتل اولاد کی ایک صورت عربوں میں یہ تھی کہ غربت کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو قتل کر دیتے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم اپنے بچوں کے رزق کے ذمہ دار ہیں حالانکہ ایک باپ کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بچوں کا کفیل ہوتا ہے نہ کہ رزاق ، رزاق تو اللہ ہی کی ذات ہے۔ رہی خوشحالی یا بد حالی تو وہ بھی اسی کے اختیار میں ہے اور دونوں حالتوں میں انسان کی آزمائش ہوتی ہے۔

 

اللہ کی رزاقیت پرجن کو یقین نہیں ہوتا وہ بچوں کی پیدائش سے گھبرا جاتے ہیں اور پھر ان کی تعداد کو محدود کرنے کے لئے غلط طریقے اختیار کرنے لگتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ بچہ صرف پیٹ لے کر دنیا میں نہیں آتا بلکہ دو ہاتھ اور دو پاؤں بھی لیکر آتا ہے اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی آبادی میں اضافہ کے ساتھ وسائل رزق میں بھی برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا یہ اللہ کی رزاقیت کا بین ثبوت نہیں ہے؟

 

 ۲۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے حیائی کی باتوں (فواحش) میں زنا، بدکاری ، برہنگی ،عریاں تصویریں یا فلمیں دیکھنا ،عشق لڑانا ، جنسی ہیجان پیدا کرنے والے گا نے گانا یا سننا ، عورتوں کا رقص و سرود اور فحش گوئی جیسی تمام چیزیں شامل ہیں اور ان سب میں زنا اول درجہ کی بے حیائی ہے۔

 

بے حیائی کی باتوں کے ارتکاب ہی کی ممانعت نہیں کی گئی بلکہ اس کے پاس پھٹکنے سے بھی منع کیا گیا ہے یعنی اس کے محرکات اور اس کی ترغیب دینے والی چیزوں سے بھی بچنا چاہے اور اس معاملہ میں ایسا محتاط ہونا چاہے کہ اس گناہ سے ظاہر ہی نہیں باطن بھی پاک رہے۔ اپنے نفس پر گرفت ایسی مضبوط رکھی جائے کہ برے خیالات پرورش نہ پا سکیں۔ اور بے حیائی کا یہی چھپا پہلو ہے جس پراس آیت میں متنبہ کیا گیا ہے۔

 

امام رازی نے اس آیت کی تفسیر میں بڑی اہم بات بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں :

 

" انسان جب ظاہر میں گناہ سے بچتا ہے لیکن باطن میں نہیں بچتا تو اس کا یہ مطلب سے کہ اس کا یہ بچتا اللہ کی عبودیت و طاعت کی غرض سے نہیں ہوتا بلکہ وہ اس لئے بچتا ہے کہ اسے لوگوں کی طرف سے مذمت کا ڈر ہوتا ہے اور یہ چیز باطل ہے کیونکہ جس کے نزدیک لوگوں کا مذمت کرنا اللہ کی سزا سے بڑھ کر ہو اس کے بارے میں تو کفر کا اندیشہ ہے۔

 

لیکن جو شخص معصیت کو ظاہری طور پر بھی ترک کرتا ہے اور باطنی طور پر بھی وہ اس بات کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ اس نے اس گناہ کو محض اللہ کے حکم کی تعظیم، اس کے عذاب کے خوف اور اس کی عبودیت سے رغبت کی بنا پر ترک کیا ہے۔ (التفسیر الکبیر الرازی۔ ج ۱۳، ص ۲۳۳)

 

 ۲۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہر انسانی جان محترم ہے۔ اگر کسی کو قتل کیا جا سکتا ہے تو صرف اسی صورت میں جب کہ شریعت نے اس کا حق دیا ہو۔

 

 ۲۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی اگر تم عقل سے کام لو تو تمہیں یہ احکام نہایت معقول نظر آئیں گے اور تمہاری سمجھ میں آ جائے گا کہ یہ انسانی زندگی کے لئے واقعی بہترین ہدایتیں ہیں۔

 

 ۲۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ نساء، نوٹ ۱۷۔

 

 ۲۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سور ۂ تطفیف، نوٹ ۱۔

 

 ۲۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک اہم اور اصولی بات ہے جو یہاں بیان ہوئی ہے۔ جس کا تعلق ناپ تول سے بھی ہے اور دوسری تمام ذمہ داریوں سے بھی۔ ناپ تول کے معاملے میں جو ذمے داری ڈالی گئی ہے، وہ یہ کہ آدمی پیمانے اور ترازو صحیح استعمال کرے اور ناپ تول میں کوئی کمی نہ کرے۔ اس کے با وجود بلا ارادہ کوئی بھول چوک ہو جائے تو اس پر کوئی گرفت نہیں ہو گی۔ یہی اصول دوسری ذمہ داریوں کے بارے میں بھی ہے کہ آدمی حتی الوسع اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرنے کی کوشش کرے۔ اس کے باوجود اگر کوئی کمی رہ جائے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہو گا۔ بالفاظِ دیگر کسی بھی ذمے داری کی ادائیگی کے سلسلے میں آدمی کے بس میں جو کچھ ہے اسے اور اس کی نیت کو دیکھا جائے۔

 

یہ ایک رہنما اصول ہے جس سے آج کے حالات میں جب کہ غیر اسلامی معاشرہ اور غیر اسلامی نظام نے اسلام پر عمل کرنے والوں کے لئے قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں اور وضعِ قوانین کی جکڑ بندیاں شرعی احکام کی تعمیل میں مانع ہو رہی ہیں، یہ رہنمائی حاصل ہوتی ہے کہ اگر آدمی ایمان داری کے ساتھ اللہ کے احکام پر عمل کرنے کی کوشش کرے تو جس حد تک واقعی مجبوریاں ہوں گی، ان پر اللہ کی طرف سے گرفت نہیں ہو گی۔ کیوں کہ ہر شخص اپنے مقدور کی حد تک عمل کے لئے مکلف ہے۔

 

 ۲۸۳۔ ۔ یعنی مونہہ سے جو بات بھی نکلے وہ حق و انصاف کی ہو۔ اگر واسطہ کسی رشتے دار سے ہے تب بھی کسی جانب داری اور رو رعایت سے کام لئے بغیر وہ بات کہنا چاہئے جو انصاف پر مبنی ہو۔

 

 ۲۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ سبق کوئی نیا سبق نہیں ہے۔ فطرتِ انسانی اس سبق سے پہلے ہی سے آشنا ہے اور انبیائی تعلیمات میں یہ باتیں تو بنیادی اصول کی حیثیت سے شامل رہی ہیں۔ اس لئے قرآن کے یہ احکام دئے ہو سبق ہی کی یاد دہانی ہیں۔

 

 ۲۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سیدھے راستے سے مراد دینِ اسلام ہے جو اللی کی بندگی کی صحیح راہ ہے اور جس پر چلنے کی دعوت ہی صلی اللہ علیہ و سلم دے رہے ہیں۔ اور دوسرے راستوں سے معاد اللہ کی بندگی سے انحراف کی راہیں ہیں خواہ وہ مذہب کی راہ ہو یا لا مذہبیت کی راہ۔ اور کفر کی ہو یا الحاد کی۔ اسلام کے سوا جس راہ کو بھی اختیار کیا جائے گا وہ خدا کی راہ نہ ہو گی اور اصلی شاہراہ سے ہٹنے کا لازمی نتیجہ تفرقہ ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کی راہ پر چلنے سے انکار کر کے انسانیت کا قافلہ بالکل پراگندہ ہو گیا ہے۔ اور بے شمار فرقے وجود میں آ گئے ہیں۔ اس لئے انسانیت میں تفرقہ ڈالنے والے یہی فرقہ پرست لوگ ہیں نا کہ سچے پیروانِ اسلام کیوں کہ اصل اکسانی قافلے سے جو ابتدائے انسانیت ہی سے اسلام کی شاہراہ پر گامزن تھا، جدا ہونے اور اپنا الگ فرقہ بنانے والے لوگ وہ ہیں جنہوں نے نئی نئی راہیں نکالیں۔

 

مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۳۰۹)

 

 ۲۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تقوی کی راہ یہ ہے کہ آدمی ان باتوں سے بچے جن کی ان آیات میں ممانعت کی گئی ہے اور ان باتوں پر عمل پیرا ہو جن پر عمل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

 

اوپر جو احکام بیان ہوئے وہ کل دس ہیں اور ان کی حیثیت بنیادی احکام کی ہے جن کی پابندی اختیار کئے بغیر کوئی شخص بھی متقی نہیں بن سکتا۔

 

بنی اسرائیل کو بھی احکام عشرہ (Ten Commandments) دئے گئے تھے جو تورات میں اس طرح بیان ہوئے ہیں :

 

"میرے حضور تو غیر معبودوں کونہ ماننا ،تو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا۔ ۔ ۔ تو ان کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ ان کی عبادت کرنا ،۔ ۔ ۔ ۔ یاد کر کے تو سبت کا دن پاک ماننا۔ ۔ ۔ ۔ تو اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا۔ ۔ ۔ تو خون نہ کرنا۔ ۔ ۔ ۔ تو زنا نہ کرنا۔ ۔ ۔ ۔ تو چوری نہ کرنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اپنے پڑوسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا۔ "

 

ان میں کی اکثر باتیں تو دونوں میں مشترک ہیں لیکن قرآن کے احکام زیادہ جامع و مانع ہیں۔

 

 ۲۸۷۔ یعنی انسان کے لئے حلال کیا ہے اور حرام کیا اس کو معلوم کرنے کا صحیح ذریعہ وحی الہی ہی ہے اور اس وحی کے ذریعہ ہم ہمیشہ انسان کی رہنمائی کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ ملت ابراہیم کے ذریعہ ہم نے انسان کی رہنمائی کی تھی اور پھر موسی کو تو ایک مفصل کتاب عطا کی تھی جس میں وضاحت کے ساتھ دین کی تمام باتیں بیان کر دی گئی تھیں۔ اس لئے یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ حلت و حرمت کے سلسلہ میں انسان کی رہنمائی کا کوئی سامان اللہ کی طرف سے نہیں ہوا تھا یا نہیں ہوا ہے۔

 

 ۲۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انسان کے لئے حلال کیا ہے اور حرام کیا اس کو معلوم کرنے کا صحیح ذریعہ وحی الہی ہی ہے اور اس وحی کے ذریعہ ہم ہمیشہ انسان کی رہنمائی کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ ملت ابراہیم کے ذریعہ ہم نے انسان کی رہنمائی کی تھی اور پھر موسی کو تو ایک مفصل کتاب عطا کی تھی جس میں وضاحت کے ساتھ دین کی تمام باتیں بیان کر دی گئی تھیں۔ اس لئے یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ حلت و حرمت کے سلسلہ میں انسان کی رہنمائی کا کوئی سامان اللہ کی طرف سے نہیں ہوا تھا یا نہیں ہوا ہے۔

 

 ۲۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دین و شریعت سے متعلق تمام باتیں واضح طور سے پیش کی گئی تھیں۔

 

 ۲۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح نوٹ ۱۶۳ میں گزر چکی۔

 

 ۲۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو گروہ سے مرا د یہود و نصاریٰ ہیں۔ نزول قرآن کے وقت یہی دو گروہ ایسے تھے جو کتاب الہی کے حامل تھے اس لئے ان ہی کو اہل کتاب کہا گیا۔ رہی دنیا کی دوسری قومیں تو ان کے پاس مذہبی کتابیں رہیں ہوں یا نہ رہی ہوں کتاب الہی کا کوئی جزء ان کے پاس موجود نہیں تھا اس لئے ان میں سے کسی کو بھی اہل کتا ب نہیں قرار دیا گیا مثال مجوس جن کے پاس مذہبی کتاب تھی اور عرب جو اپنے مذہب کو ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے تھے لیکن ان میں سے کسی کا شمار بھی اہل کتاب میں نہیں کیا گیا۔

 

 ۲۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن کے نزول سے اس عذر کا خاتمہ ہو گیا ہے اور صرف عربوں کے عذر ہی کا خاتمہ نہیں ہو گیا ہے بلکہ دوسری قوموں کو بھی عذر پیش کرنے کا موقع باقی نہیں رہا کیونکہ اس کتاب کو اللہ تعالی نے ایسی شہرت بخشی اور اس کے پیغام کو اقوام عالم تک پہنچانے کا ایسا انتظام کیا کہ کوئی قوم بھی اس سے ناآشنا نہیں ہے اور ایسے وسائل پیدا کر دئے ہیں کہ جس قوم کے لوگ بھی اس کتاب کو سمجھنا چائیں، سمجھ سکتے ہیں۔

 

 ۲۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد ایسی نشانیاں ہیں جو غیبی حقیقتوں سے پردہ ہٹا دیں اور آدمی سرکی آنکھوں سے ان کا مشاہدہ کرنے لگے۔

 

 ۲۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس دن خدا کی وہ مخصوص نشانیاں ظاہر ہو جائیں گی جو غیب کی حقیقتوں کو بے نقاب کرنے والی ہوں گی تو آزمائش کا موقع باقی نہیں رہے گا اس لئے نہ کسی کافر کا ایمان لانا معتبر ہو گا اور نہ کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے لئے سودمند ثابت ہو سکے گا جو ایمان کا مدعی تو تھا لیکن اس کی عملی زندگی میں ایمان کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوا۔

 

قرآن میں دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے کہ جن قوموں پر اللہ کا عذاب نازل ہوا وہ عذاب کو دیکھ لینے کے بعد  ایمان لائی تھیں لیکن اس وقت ان کا ایمان لانا بے سود تھا۔ "

 

حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آیت کے حوالہ سے متنبہ فرمایا ہے کہ قرب قیامت میں سورج  مغرب سے طلوع ہو گا اور ایسی کھلی اور زبردست نشانی کو دیکھ کر کسی کا ایمان لانا اس کے لئے سود مند نہ ہو گا۔

 

چنانچہ بخاری کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

 

"قیامت کھڑی نہ ہو گی جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہو۔ جب سورج مغرب سے طلوع ہو گا اور لوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے لیکن اس وقت کسی کا ایمان لانا اس کے لئے مفید نہ ہو گا۔ "

 

 ۲۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورہ کے آغاز سے مشرکین کے ساتھ جو بحث چلی آ رہی تھی اس کو یہاں چند اصولی باتیں بیان فرما کر ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ اصولی باتیں دین کی شاہراہ کو نمایاں کرتی ہیں اور ان سے واضح ہوتا ہے کہ دین کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔

 

  ۲۹۵۔ ۔ یعنی اللہ کی طرف سے انسان کی رہنمائی کے لئے جو دین نازل ہوا تھا وہ خالصتہً توحید کی راہ تھی لیکن لوگوں نے اپنے اس دین میں الگ الگ اور نئی نئی راہیں نکالیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ فرقوں میں بٹ گئے۔ یہودیت ہو، نصرانیت ہو،عربوں کا مشرکانہ مذہب ہو یا کسی ملک اور کسی قوم کا کوئی اور مذہب سب کی حقیقت یہ ہے کہ اہل مذاہب نے دین خداوندی کی شاہراہ سے ہٹ کر الگ الگ پگڈنڈیاں نکالیں چنانچہ عبادات کی جگہ بدعات نے اور خدا کی شریعت کی جگہ خود ساختہ شریعت نے لی یہاں تک کہ ایک خدا کی جگہ کئی خدا بھی ایجاد کر لئے گئے۔ اب مختلف مذاہب کے نام سے جو فرقہ بندیاں پائی جاتی ہیں ان میں سے کسی کی بھی راہ حق کی راہ نہیں ہے اس لئے اللہ کا رسول ان تمام راہوں سے بالکل بے تعلق ہے اور ہراس شخص کو جو راہ حق پر چلنا چاہتا ہو ان تمام مذاہب اور ان تمام فرقہ بندیوں سے بے تعلق ہونا چاہئے۔

 

 ۲۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پیغمبر کا کام راہ حق واضح کرنا ہے اس کے بعد بھی اگر اہل  مذاہب اپنی فرقہ پرستی سے باز نہیں آتے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ ان کا معاملہ اللہ کے حوالہ ہے وہ قیامت کے دن اپنا انجام دیکھ لیں گے۔

 

 ۲۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن ہر شخص کو اپنی نیکی اور بدی کا بدلہ ملے گا اور اس بدلہ کے لئے اصول یہ ہو گا کہ نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا لیکن بدی کا بدلہ بدی ہی کے بقدر۔ اور مقصود اس سے یہ واضح کرنا ہے کہ جزا و سزا کے معاملہ میں نا انصافی تو کسی کے ساتھ بھی نہیں ہو گی البتہ نیکی کا نذرانہ لے کہہ آنے والوں کی اللہ تعالی اس طرح قدر افزائی فرمائیگا کہ انہیں ہر نیکی کا کم از کم دس گنا اجر ملے گا۔

 

واضح رہے کہ نیکی وہی معتبر ہو گی جو اللہ کو واحد الہ مان کراس کی رضا حاصل کرنے کی غرض سے کی گئی ہو۔

 

 ۲۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو دین حضرت محمدؐ صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل کیا گیا ہے وہ صحیح معنی میں اللہ کا دین ہے۔ یہ دین ہر قسم کی کجی سے پاک ہے۔ یہود،نصاریٰ اور مشرکین نے اللہ کے دین کا جو حلیہ بگاڑ دیا تھا اس سے پاک کر کے اس کو اپنی اصل شکل میں پیش کر دیا گیا ہے۔ اب اس کی شکل دیکھ کر ہی پہچانا جا سکتا ہے کہ یہ ہے سچا دین۔

 

 ۲۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ مشرکین عرب اپنے مذہب کو ابراہیم کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن ابراہیم ہرگز مشرک نہیں تھے بلکہ حنیف یعنی موحد اور راستی کے ساتھ اللہ کے دین پر چلنے والے تھے۔ اور حضرت محمدؓ صلی اللہ علیہ و سلم کا دین بھی وہی دین توحید ہے جو ابراہیم علیہ اسلام صرف عربوں ہی کے پیشوا نہیں تھے بلکہ دنیا کے پیشوا تھے۔ اللہ تعالی نے ان ک لوگوں کا امام بنایا تھا اس لئے ان کا دین ان کے پیروؤں کے ذریعہ مختلف ملکوں اور مختلف قوموں تک پہنچا تھا یہ اور بات ہے کہ ان قوموں نے بعد میں بدعتیں ایجاد کر کے دین ابراہیم کو بگاڑا اور اس کا ایک نیا نام رکھا۔

 

 ۳۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ یہ دین دو رنگی اور پچرنگی کا قائل نہیں بلکہ یک رنگی کا قائل ہے۔ خالص خدا پرستی کا رنگ جو پوری زندگی پر چڑھا ہوا ہو۔ پرستش جو نہایت اعلی جذبہ ہے اللہ کے لئے خاص ہو، زندگی اللہ کے احکام کے مطابق بسر کی جائے اور اسی کو مقصود بنا کر بسر کی جائے اور جان کی بازی لگا دی جائے تو اسی کی راہ میں اور اسی کی خاطر۔ دین کی پیروی رسمی طور پر نہیں بلکہ اسی مقصد اور اسی روح کے ساتھ کی جائے۔

 

 ۳۰۱۔ ۔ یعنی کوئی اس کے حکم کو مانے  یا نہ مانے اور اس کے دین کو قبول کرے یا نہ کرے میں نے سب سے پہلے اس کے حکم کو مان لیا ہے۔ اور اس کے دین۔ اسلام۔ کو سب سے پہلے قبول کرنے والا (مسلم) میں ہوں۔

 

 ۳۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی گناہ کا بوجھ۔

 

 ۳۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خلیفہ یعنی صاحب اختیار۔ انسان کو زمین پر ایک با اختیار مخلوق بنایا گیا ہے یہ اختیار ات اللہ کی طرف سے امانت ہیں اور وہ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ ان اختیارات کو اس کی ہدایت کے مطابق استعمال کرے۔

 

مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۴۱۔

 

 ۳۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی صلاحیت ،قوت کار کردگی اور وسائل کے لحاظ سے انسانوں اور انسانوں کے درمیان درجات کا فرق ہے اور یہ فرق اس لئے رکھا گیا ہے تاکہ انہیں آزمایا جائے کہ کون خدا کا  شکر گزار بندہ بنتا ہے اور کون ناشکرا،کون صبر کا دامن تھام لیتا ہے اور کون چھوڑ دیتا ہے ،کون انصاف کرتا ہے اور کون ظلم مختصر یہ کہ درجات میں تفاوت کے بغیر نہ انسانیت کا جوہر کھل سکتا تھا اور نہ اس کا کھوٹ ظاہر ہو سکتا تھا۔

٭٭٭٭