تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الاٴنعَام

(سورۃ الانعام ۔ سورہ نمبر ۶  ۔ تعداد آیات ۵۶۱)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے ۔

 

ترجمہ

 

۱۔۔۔     سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے پیدا فرمایا (ان عظیم الشان) آسمانوں اور (اس حکمت بھری) زمین کو، اور اس نے بنائے اندھیرے اور روشنی، پھر بھی کافر لوگ اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں (دوسروں کو)،

۲۔۔۔      وہ (اللہ) وہی تو ہے جس نے پیدا فرمایا تم سب کو مٹی سے ، پھر اس نے مقرر فرما دی ایک مدت (تمہاری موت کی) اور ایک اور مدت بھی اس کے یہاں طے شدہ ہے ، (تو کیا) پھر بھی تم لوگ شک کرتے ہو

۳۔۔۔      اور وہی اللہ (معبود برحق) ہے آسمانوں میں بھی، اور زمین میں بھی، وہ جانتا ہے تمہارے پوشیدہ (احوال) کو بھی، اور کھلے کو بھی، اور اسے خوب معلوم ہے وہ سب کچھ جو تم لوگ کرتے ہو،

۴۔۔۔      اور نہیں آتی ان کے پاس کوئی نشانی ان کے رب کی نشانیوں میں سے مگر یہ لوگ اس سے منہ موڑے ہی رہتے ہیں ،

۵۔۔۔      چنانچہ اب انہوں نے اس حق کو بھی جھٹلا دیا جب کہ وہ ان کے پاس پہنچ گیا، سو عنقریب ہی آ جائے گی ان کے پاس حقیقت ان خبروں کی جن کا یہ لوگ مذاق اڑاتے تھے

۶۔۔۔      کیا دیکھا نہیں ان لوگوں نے (اور سبق نہیں لیا اس سے ) کہ ہم ان سے پہلے کتنی ہی ایسی قوموں کو ہلاک کر چکے جن کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا تھا جو تمھیں نہیں بخشا ان پر ہم نے اوپر سے موسلا دھار مینہ برسائے ، اور ان کے نیچے سے نہریں جاری کر دیں مگر آخرکار (جب ان لوگوں نے ان نعمتوں کے کفران ہی سے کام لیا تو) ہم نے ان کو ہلاک کر دیا، ان کے گناہوں کی پاداش میں ، اور ان کے بعد (ان کی جگہ) ہم نے پیدا کر دیا دوسری قوموں کو،

۷۔۔۔      اور (ان لوگوں کے عناد اور ہٹ دھرمی کا یہ حال ہے کہ) اگر ہم آپ پر (اے پیغمبر! کاغذ میں لکھی کوئی کتاب بھی اتار دیتے جسے یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے چھو کر دیکھ بھی لیتے ، تب بھی ان کافروں نے یقیناً یہی کہنا تھا کہ یہ کچھ نہیں مگر ایک جادو ہے کھلم کھلا

۸۔۔۔     اور کہتے ہیں کہ کیوں نہیں اتارا گیا اس (پیغمبر) پر کوئی فرشتہ، اور اگر ہم (ان فرمائش کے مطابق) کوئی فرشتہ اتار دیتے تو فیصلہ کبھی کا چکا دیا گیا ہوتا، پھر کوئی مہلت نہ ملتی ان (منکر) لوگوں کو،

۹۔۔۔     اور اگر ہم کوئی فرشتہ اتارتے بھی تو یقیناً اس کو کسی انسان کی شکل ہی میں اتارتے ، اور (اس صورت میں ) انکو اس پر بھی یقیناً وہی شبہ ہوتا جس میں یہ اب پڑے ہوئے ہیں ،

۱۰۔۔۔      اور (آپ ان کی باتوں سے دل گیر نہ ہوں اے پیغمبر! کہ) بلاشبہ آپ سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے ، آخرکار آ گھیرا مذاق اڑانے والوں کو اسی عذاب نے جس کا وہ مذاق اڑاتے رہے تھے

۱۱۔۔۔     ان سے کہا کہ چلو (پھرو) تم لوگ (عبرتوں بھری) اس زمین میں ، پھر دیکھو کہ کیسا ہوا انجام (حق و صداقت کے ) جھٹلانے والوں کا،

۱۲۔۔۔      (ان سے ) پوچھو کہ کس کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں اور زمین (کی عظیم الشان کائنات) میں ہے ؟ کہو یہ سب کچھ اللہ ہی کا ہے ، اس نے لازم فرما دیا اپنے اوپر رحمت کو (اپنے کرم بے پایاں سے ) وہ یقیناً جمع کر لائے گا تم سب کو قیامت کے اس دن میں جس میں کوئی شک نہیں (مگر) جن لوگوں نے خود خسارے میں ڈال دیا اپنے آپ کو، وہ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے

۱۳۔۔۔      اور اسی (وحدہٗ لاشریک) کا ہے وہ سب کچھ جو کہ ساکن ہوتا ہے رات (کے اندھیرے ) میں ، اور (جو متحرک ہوتا ہے ) دن (کے اجالے ) میں اور وہی ہے ہر کسی کی سنتا، سب کچھ جانتا

۱۴۔۔۔      کہو کیا میں اس اللہ کے سوا اور کسی کو اپنا سرپرست (و کارساز) بنا لوں ؟جو کہ پیدا کرنے والا ہے آسمانوں اور زمین (کی اس پوری کائنات) کا؟ اور وہ روزی دیتا ہے روزی لیتا نہیں ؟ کہو مجھے تو قطعی طور پر یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے اس کا فرمانبردار ہو جاؤں ، نیز یہ کہ تم ہرگز کبھی مشرکوں میں سے نہیں ہونا،

۱۵۔۔۔      کہو کہ میں تو بہر حال ڈرتا ہوں ایک بڑے (ہی ہولناک) دن کے عذاب سے ، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کر لوں ،

۱۶۔۔۔      جو بچا دیا گیا اس عذاب سے اس روز، تو یقیناً رب تعالیٰ کا اس پر بڑا ہی کرم ہو گیا، اور یہی ہے کھلی (اور حقیقی) کامیابی،

۱۷۔۔۔      اور اگر اللہ تمہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو اس کو دور کر سکے اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو کوئی اسے روکنے والا نہیں ، کہ وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے ،

۱۸۔۔۔      اور وہی (وحدہٗ لاشریک) ہے غالب (اور کنٹرول رکھنے والا) اپنے بندوں پر، اور وہی ہے حکمتوں والا، پورا باخبر،

۱۹۔۔۔      (ان سے ) پوچھو کہ کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے ، کہو اللہ ہی (سب سے بڑا اور سب سے سچا گواہ ہے ، میرے اور تمہارے درمیان، اور وحی کے ذریعے بھیجا گیا میری طرف یہ قرآن تاکہ اس کے ذریعے میں خبردار کروں تم لوگوں کو بھی اور ہر اس شخص کو بھی جس کو یہ پہنچے ، کیا (اس کے بعد بھی) تم لوگ واقعی یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں ، کہو میں تو بہر حال یہ گواہی نہیں دے سکتا، کہو کہ بے شک معبود تو بس وہی ایک (اللہ) ہے ، اور میں قطعی بیزار ہوں ان سے جنہیں تم لوگ شریک ٹھہراتے ہو

۲۰۔۔۔      جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی وہ ایسا پہچانتے ہیں اس پیغمبر) کو، جیسا کہ وہ پہچانتے ہیں اپنے بیٹوں کو، مگر جن لوگوں نے خسارے میں ڈال رکھا ہے اپنے آپ کو، وہ پھر بھی ایمان نہیں لاتے

۲۱۔۔۔      اور اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو جھوٹا بہتان باندھے اللہ پر، یا جھٹلائے اس کی آیتوں کو، بے شک کبھی فلاح نہیں پا سکتے ایسے ظالم

۲۲۔۔۔      اور جس دن اکٹھا کر لائیں گے ہم ان سب کو، پھر مشرکوں سے ہم (ان تذلیل و توبیخ کے لئے ) کہیں گے کہ کہاں ہیں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک جن کا تمہیں بڑا دعویٰ (او گھمنڈ) تھا؟

۲۳۔۔۔      پھر ان کا کوئی (عذر اور) بہانہ نہ ہو گا سوائے اس کے کہ وہ کہیں گے کہ ہمیں قسم ہے اللہ کی، جو کہ رب ہے ہمارا کہ ہم مشرک نہیں تھے

۲۴۔۔۔     دیکو تو سہی کہ (اس وقت) وہ کیسا صاف جھوٹ بولیں گے خود اپنے خلاف؟ اور گم ہو جائیں گے ان کے وہ سب معبود جن کو وہ جھوٹ موٹ گھڑا کرتے تھے

۲۵۔۔۔      اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو آپ کی طرف کان لگاتے ہیں ، مگر (ان کی بدنیتی اور ان کے خبث باطن کے سبب) ہم نے پردے ڈال دیئے ان کے دلوں پر، اس سے کہ وہ اسے سمجھ سکیں ، اور ڈاٹ لگا دیئے انکے کانوں پر، (اس سے کہ یہ اسے سن سکیں صحیح طور پر) اور (ان لوگوں کی ہٹ دھرمی کا حال یہ ہے کہ) اگر یہ ہر نشانی بھی دیکھ لیں تو بھی اس پر ایمان نہیں لائیں گے ، یہاں تک کہ جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے جھگڑتے ہیں ، اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ نہیں ہے ، یہ (قرآن) مگر (قصے ) کہانیاں پہلے لوگوں کی

۲۶۔۔۔      اور یہ (لوگ اوروں کو بھی) روکتے ہیں اس (پیغام حق) سے ، اور خود بھی اس سے (رکتے اور) بھاگتے ہیں اور اس طرح یہ ہلاک نہیں کرتے مگر اپنے ہی آپ کو مگر یہ سمجھتے نہیں

۲۷۔۔۔     اور اگر تم دیکھ سکو حالت اس وقت کی جب کہ کھڑا کیا گیا ہو گا ان لوگوں کو دوزخ کے کنارے پر اور یہ (مارے حیرت و حسرت کے اس طرح) کہہ رہے ہوں گے کہ اے کاش ہمیں کسی طرح واپس بھیج دیا جائے (دنیا میں ) تو ہم کبھی نہ جھٹلائیں گے اپنے رب کی آیتوں کو اور ہم ہو جائیں گے ایمانداروں میں سے

۲۸۔۔۔     (مگر یہ کوئی اطاعت کی نیت سے نہیں ) بلکہ (اس لئے کہیں گے کہ) ظاہر ہو جائے گا ان کے سامنے وہ کچھ جسے یہ اس سے پہلے (زندگی بھر) چھپاتے رہے تھے ، اور اگر (بالفرض) ان کو واپس بھیج بھی دیا جائے تو بھی انہوں نے یقیناً پھر وہی کچھ کرنا ہے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور یہ پرلے درجے کے جھوٹے ہیں ،

۲۹۔۔۔     اور کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور بس ہم نے دوبارہ نہیں اٹھنا

۳۰۔۔۔      اور اگر تم دیکھ سکو (حال اس وقت کا) جب کہ ان لوگوں کو کھڑا کر دیا گیا ہو گا ان کے رب کے حضور (تو تم بڑا ہی عجیب اور عبرتناک منظر دیکھو) وہ ان سے پوچھے گا کیا یہ حق نہیں ہے ؟ تو یہ کہیں گے ہاں کیوں نہیں ، قسم ہے ہمارے رب کی تب وہ فرمائے گا کہ اچھا تو اب چکھو تم لوگ مزہ اس عذاب کا اپنے اس کفر (و انکار) کے بدلے میں جو تم زندگی بھر) کرتے رہے تھے

۳۱۔۔۔      قطعی طور پر خسارے میں ہیں وہ لوگ جنہوں نے جھٹلایا اللہ کی ملاقات (اور پیشی) کو یہاں تک کہ جب ان پر اچانک آ پہنچے گی (قیامت کی) وہ گھڑی، تو (اس وقت ایسے لوگ بصد حسرت) کہیں گے کہ ہائے افسوس ہماری اس کوتاہی (اور کم بختی) پر جو ہم نے اس کے بارے میں (زندگی بھر) روا رکھی اور یہ اٹھائے ہوں گے اپنے (گناہوں کے ) بوجھ اپنی پیٹھوں پر، آگاہ رہو کہ بڑا ہی برا ہے وہ بوجھ جس کو یہ لوگ اٹھائے ہوں گے اپنے (گناہوں کے ) بوجھ اپنی پیٹھوں پر

۳۲۔۔۔      اور کچھ نہیں دنیا کی یہ زندگی مگر اک کھیل اور تماشہ، اور آخرت کا گھر تو یقیناً اس سے کہیں بہتر ان لوگوں کیلئے جو (ڈرتے اور) بچتے ہیں (اپنے رب کی نافرمانی و ناراضگی سے ) تو کیا تم لوگ (پھر بھی) نہیں سمجھتے ؟

۳۳۔۔۔     بلاشبہ ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کے لئے (اے پیغمبر) غم کا باعث بن رہی ہیں ان لوگوں کی وہ باتیں جو یہ لوگ بناتے ہیں مگر (آپ پرواہ نہ کریں کہ) یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیتوں کا انکار کر رہے ہیں

۳۴۔۔۔      اور بلاشبہ آپ سے پہلے بھی جھٹلایا جا چکا ہے بہت سے رسولوں کو، مگر انہوں نے صبر (برداشت) ہی سے کام لیا اس تکذیب اور ایذا رسانی پر جس سے ان کو پالا پڑا، یہاں تک کہ آ پہنچی ان کو ہماری مدد اور کوئی نہیں بدل سکتا اللہ کی باتوں کو، اور بلاشبہ پہنچ گئے آپ کے پاس کچھ حالات پہلے گزرے ہوئے رسولوں کے

۳۵۔۔۔     اور اگر گراں گزرے آپ پر ان لوگوں کا (حق سے ) منہ موڑنا (جس سے آپ ان کے فرمائشی معجزات ہی چاہنے لگیں ) تو اگر آپ سے ہو سکے تو ڈھونڈ لو کوئی سرنگ زمین میں (اترنے کو) یا کوئی سیڑھی آسمان میں (چڑھنے کو) پھر لا سکو ان لوگوں کے پاس کوئی نشانی (تو بے شک لے آؤ) اور اگر اللہ کو (خواہ مخواہ ان لوگوں کو ایمان پر لانا ہی) منظور ہوتا تو وہ یقیناً ان سب کو یونہی ہدایت پر جمع کر دیتا، پس تم مت بنو نادانوں میں سے

۳۶۔۔۔     (ہدایت تو) وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو سنتے ہیں ، رہے مردے تو انھیں بس اللہ ہی زندہ کر کے اٹھائے گا، پھر وہ سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے

۳۷۔۔۔      اور کہتے ہیں کہ کیوں نہیں اتاری گئی اس (پیغمبر) پر کوئی نشانی اس کے رب کی طرح سے (ہماری فرمائش کے مطابق،) کہو کہ بے شک اللہ قادر ہے اس پر کہ اتار دے ایسی کوئی نشانی لیکن ان میں سے اکثر جانتے نہیں

۳۸۔۔۔     اور نہیں ہے کوئی جانور جو چلتا ہو اس زمین میں ، اور نہ کوئی پرندہ جو اڑتا ہو اپنے پروں کے ساتھ (ان فضاؤں میں ) مگر یہ سب مختلف جماعتیں ہیں تم ہی جیسی ہم نے کوئی کسر نہیں چھوری نوشتۂ تقدیر میں ، پھر ان سب کو بہر حال اپنے رب ہی کے حضور آنا ہے اکٹھا ہو کر،

۳۹۔۔۔      اور جنہوں ں ے جھٹلایا ہماری آیتوں کو وہ بہرے اور گوں گے ہیں ، طرح طرح کی تاریکیوں میں (ڈوبے پڑے ) ہیں ، اللہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے ڈال دے سیدھے راستے پر،

۴۰۔۔۔      (ان سے ) کہو کہ بھلا یہ تو بتاؤ کہ اگر آ جائے تم لوگوں پر اللہ کا عذاب، یا آ پہنچے تم کو (قیامت کی) وہ گھڑی، تو کیا اس وقت تم لوگ اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے اگر تم سچے ہو؟

۴۱۔۔۔     (نہیں ) بلکہ ایسے موقع پر تو تم اللہ ہی کو پکارتے ہو، پھر وہ دور فرما دیتا ہے تم سے وہ عذاب جس کے لئے تم اس کو پکارتے ہو اگر وہ چاہے ، اور (اس موقع پر) تم بھول جاتے ہو، ان سب کو جن کو تم لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہو،

۴۲۔۔۔      اور بلاشبہ ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت سی امتوں کی طرف اپنے رسول بھیجے ، پھر (ان کے نہ ماننے پر) ہم نے ان کو پکڑا تنگی اور تکلیف میں ، تاکہ وہ لوگ عاجزی کرتے ہوئے جھک جائیں (اپنے رب کے حضور)

۴۳۔۔۔      پھر ایسے کیوں نہ ہوا کہ وہ جھک جاتے (اپنے رب کے حضور، اور عاجزی کرتے ) جب کہ آ پہنچا تھا ان کے پاس ہمارا عذاب مگر سخت ہو گئے ان کے دل، اور خوشنما بنا دیئے شیطان نے ان کے لئے ان کے وہی کام جو وہ کرتے آ رہے تھے

۴۴۔۔۔      پھر جب بھلا (کر پس پشت ڈال) دیا انہوں نے اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی، تو ہم نے ان پر کھول دیئے دروازے ہر چیز کے ، یہاں تک کہ جب وہ خوب مگن ہو گئے ، ان چیزوں میں جو ان کو دی گئی تھیں ، تو ہم نے اچانک ان کو ایسا پکڑا کہ کٹ کر رہ گئیں ان کی سب امیدیں ،

۴۵۔۔۔      سو جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی ان لوگوں کی جو اڑے ہوئے تھے اپنے ظلم (و عدوان) پر، اور سب تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں جو پروردگار ہے سب جہانوں کا

۴۶۔۔۔      (ان سے ) کہا کہ کیا تم لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ چھین لے تم سے تمہاری قوت شنوائی اور (اچک لے تم سے ) تمہاری آنکھیں اور مہر لگا دے تمہارے دلوں پر، تو پھر اللہ کے سوا اور کون سا ایسا معبود ہو سکتا ہے ، جو تمہیں یہ سب کچھ واپس دلا دے ، دیکھو تو کس طرح انداز بدل بدل کر ہم بیان کرتے ہیں اپنی آیتوں کو، مگر یہ لوگ پھر بھی نہ موڑے ہوئے ہیں (حق اور حقیقت سے

۴۷۔۔۔     کہو کیا تم نے کبھی یہ بھی دیکھا کہ اگر آ جائے تم پر اللہ کا عذاب اچانک، یا اعلانیہ طور پر، تو کیا اور کوئی ہلاک ہو گا سوائے ظالم لوگوں کے

۴۸۔۔۔      اور ہم پیغمبروں کو صرف اسی لئے بھیجتے ہیں کہ وہ خوشخبری دیں اور خبردار کریں ، پھر جو کوئی ایمان لے آئے اور وہ اپنی اصلاح کر لے تو ایسے لوگوں پر (آخرت میں ) نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے

۴۹۔۔۔     اور جنہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو ان کو پہنچ کر رہے گا وہ عذاب ان کی ان نافرمانیوں کی پاداش میں جو کہ وہ کرتے رہے تھے

۵۰۔۔۔     (ان سے ) کہو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ، اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں ، اور نہ ہی میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں ، میں تو صرف پیروی کرتا ہوں اس وحی کی جو میری طرف بھیجی جاتی ہے ، (ان سے ) کہو کیا برابر ہو سکتے ہیں اندھا اور آنکھوں والا؟ تو کیا تم لوگ (اتنا بھی) نہیں سوچتے

۵۱۔۔۔      اور خبردار کرتے رہو اس (کتاب حق) کے ذریعے ان لوگوں کو جو ڈرتے ہیں اس بات سے کہ ان کو اکٹھا کر کے لایا جائے گا ان کے رب کے حضور اس حال میں کہ اس کے سوا ان کا نہ کوئی حمایتی ہو گا نہ سفارشی، تاکہ یہ بچ جائیں

۵۲۔۔۔      اور دور نہیں کرنا اپنی مجلس سے ان (بندگان صدق و صفا) کو جو صبح و شام پکارتے ہیں اپنے رب کو اس کی رضا چاہتے ہوئے ، آپ کے ذمے ان کا کوئی حساب نہیں ، اور نہ ہی آپ کا کوئی حساب ان کے ذمے پھر آپ ان کو دور کر کے ظالموں میں سے ہو جائیں گے ،

۵۳۔۔۔      اور ہم نے اسی طرح (کچھ کو امیر اور کچھ کو غریب بنا کر) ان میں سے بعض کو بعض کے لئے آزمائش کا سامان بنا دیا ہے ، تاکہ وہ (یعنی کافر و نافرمان مالدار، غریب و نادار اہل ایمان نیکوکاروں کے لئے ) یوں کہیں کہ کیا یہی ہیں وہ لوگ جن پر اللہ نے فضل کرنا تھا ہمارے درمیان میں سے ؟ کیا اللہ اچھی طرح نہیں جانتا شکر گزاروں کو؟

۵۴۔۔۔      اور جب آئیں آپ کے پاس (اے پیغمبر) وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں ہماری آیتوں پر، تو (ان کی دلجوئی اور طیب خاطر کیلئے ) آپ ان سے یوں کہیں کہ سلام ہو تم پر، لکھ دیا تمہارے رب نے (اپنے کرم بے پایا سے ) اپنے اوپر رحمت فرمانا، کہ تم میں سے جس نے ارتکاب کر لیا کسی برائی کا جہالت کی بنا پر پھر اس کے بعد اس نے توبہ کر لی اور اصلاح کر لی، تو بلاشبہ وہ (رب کریم) بڑا ہی بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے ،

۵۵۔۔۔     اور اسی طرح تفصیل سے بیان کرتے ہیں ہم اپنی آیتوں کو (تاکہ حق کھل کر سامنے آ جائے ) اور تاکہ واضح ہو جائے راستہ مجرم لوگوں کا

۵۶۔۔۔      کہو مجھے تو بہر حال اس سے روکا گیا ہے کہ میں ان کی بندگی کروں جنہیں تم لوگ (پوجتے ) پکارتے ہو اللہ کے سوا، کہو کہ میں کبھی پیروی نہیں کر سکتا تمہاری خواہشات کی بلاشبہ اس صورت میں میں بھٹک جاؤں گا اور راہ راست پر چلنے والوں میں سے نہ رہوں گا

۵۷۔۔۔      کہو کہ میں تو بہر حال ایک روشن دلیل پر قائم ہوں اپنے رب کی طرف سے اور تم لوگوں نے اس کو جھٹلا دیا ہے میرے اختیار میں نہیں ہے ، وہ چیز جس کی تم لوگ جلدی مچا رہے ہو، حکم تو بس اللہ ہی کا ہے ، وہی بیان کرتا ہے حق کو اور وہی ہے سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا

۵۸۔۔۔      (ان سے ) کہو کہ اگر میرے اختیار میں ہوتا وہ کچھ جس کی تم لوگ جلدی مچا رہے ہو تو کبھی کا چکا دیا ہوتا اس معاملے کو میرے اور تمہارے درمیان، اور اللہ خوب جانتا ہے ظالموں کو،

۵۹۔۔۔      اور اسی کے پاس ہیں کنجیاں غیب کی، نہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور وہ جانتا ہے وہ سب کچھ جو کہ خشکی اور تری میں ہے اور نہیں کرتا کوئی پتہ مگر وہ اس کو جانتا ہے اور نہ ہی پڑتا ہے کوئی دانہ زمین (کی تاریکیوں ) میں ، اور نہ کوئی تر اور خشک چیز ہے مگر یہ سب کچھ (مسطور و مندرج ہے ایک روشن کتاب میں ،

۶۰۔۔۔      اور وہ (مالک) وہی تو ہے ، جو تمہاری روحیں قبض کر لیتا ہے رات کو، اور وہ جانتا ہے وہ سب کچھ جو کہ تم لوگ کرتے ہو دن میں ، پھر وہ (اپنے کرم سے زندہ) اٹھاتا ہے تمہیں دن میں تاکہ پوری ہو جائے مقررہ مدت تمہاری زندگی کی) آخر کار تم سب کو بہر حال اسی طرف لوٹ کر جانا ہے ، پھر وہ تمہیں بتا دے گا وہ سب کچھ جو تم لوگ کرتے رہے تھے (اپنی زندگی میں )

۶۱۔۔۔      اور وہ قاہر (و غالب) ہے اپنے بندوں پر، اور وہ بھیجتا ہے تم پر نگرانی کرنے والے (فرشتے ) یہاں تک کہ جب آ پہنچا ہے تم میں سے کسی کی موت کا وقت، تو قبض کر لیتے ہیں ہمارے فرشتے اس (کی جان) کو، اور وہ اس میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے ،

۶۲۔۔۔      پھر لوٹا دیا جاتا ہے اس سب کو اللہ کی طرف جو کہ مالک حقیقی ہے ان سب کا، آگاہ رہو کہ حکم اللہ ہی کا ہے اور وہ بہت ہی جلد حساب چکانے والا ہے ،

۶۳۔۔۔     (اور ان سے ذرا یہ تو) پوچھو کہ کون ہے وہ جو تمہیں نجات دیتا ہے خشکی اور تری کی تاریکیوں میں تم پکارتے ہو اس کو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے ، کہ اگر وہ ہمیں بچا لے اس (مصیبت و بلا) سے ، تو ہم ضرور اس کے شکر گزار بن کر رہیں گے

۶۴۔۔۔      کہو وہ اللہ ہی ہے جو تمہیں بچا نکالتا ہے اس مصیبت سے بھی، اور (اس کے علاوہ دوسری) ہر سختی سے بھی، پھر بھی تم لوگ شرک کرتے ہو؟

۶۵۔۔۔      کہو کہ وہ اس پر بھی قادر ہے کہ بھیج دے تم پر کوئی ہولناک عذاب تمہارے اوپر سے ، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے ، یا وہ ٹکرا دے تم لوگوں کو آپس میں مختلف گروہ بنا کر، اور چکھا دے تم کو آپس میں ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ، ذرا دیکھو تو کہ ہم کسی طرح پھیر پھیر کر (اور طرح طرح سے ) بیان کرتے ہیں اپنی آیتوں کو، تاکہ یہ لوگ سمجھ سکیں ،

۶۶۔۔۔      مگر (اس سب کے باوجود) جھٹلا دیا تمہاری قوم نے اس (پیغام صدق و صفا) کو حالانکہ یہ سراسر حق ہے ، (ان سے ) کہو کہ میں تمہارا کوئی ذمہ دار نہیں ہوں

۶۷۔۔۔      ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے اور عنقریب تم لوگ خود ہی جان لو گے ،

۶۸۔۔۔      اور جب تم دیکھو (اے مخاطب) ان لوگوں کو جو نکتہ چینیاں کرتے ہیں ہماری آیتوں میں ، تو ان سے الگ ہو جاؤ یہاں تک کہ وہ (اس گفتگو کو چھوڑ کر) لگ جائیں کسی اور بات میں ، اور اگر کبھی بھلاوے میں ڈال دے تم کو (تمہارا ازلی دشمن) شیطان تو یاد آ جانے کے بعد تم مت بیٹھو ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ

۶۹۔۔۔      اور پرہیزگاروں پر ان لوگوں کے حساب میں سے کسی چیز کی کوئی ذمہ داری نہیں ، البتہ (بقدر استطاعت) نصیحت کرنا ان کا فرض ہے ، شاید کہ وہ لوگ باز آ جائیں ،

۷۰۔۔۔      اور چھوڑ دو ان لوگوں کو جنہوں نے ٹھہرا رکھا ہے اپنے دین کو کھیل تماشے کا سامان، اور دھوکے میں ڈال رکھا ہے ان کو دنیا کی زندگی (کی چکا چوند) نے اور نصیحت (و یاددہانی) کرتے رہو اس (قرآن) کے ذریعے کہ کہیں کوئی پکڑا جائے اپنے کئے کی پاداش میں ، اس طور پر کہ اس کے لئے اللہ کے سوا نہ کوئی حمایتی ہو نہ سفارشی، اور اگر وہ اپنے بدلے میں (دنیا بھر کا) ہر معاوضہ بھی دے تو بھی وہ اس سے نہ لیا جائے ، یہی ہیں وہ لوگ جو پکڑے گئے اپنے کئے (کرائے ) کی پاداش میں ، ان کے پینے کے لئے کھولتا پانی ہو گا، اور ان کے لئے ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہو گا اس کفر کی پاداش میں جو کہ یہ بات کرتے رہے تھے ،

۷۱۔۔۔     (ان سے ) کہو کہ کیا ہم اللہ کے سوا ایسوں کو پکاریں جو نہ ہمیں کچھ نفع دے سکیں ، نہ نقصان پہنچا سکیں ، اور کیا ہم الٹے پاؤں پھر جائیں اس کے بعد کہ اللہ نے نواز دیا ہمیں ہدایت کی دولت سے ، اس شخص کی طرح جس کو بے راہ کر دیا ہو شیطانوں نے صحرا میں حیران (و سرگرداں ) کر کے ، جب کہ اس کے ساتھی اس کو پکار رہے ہوں سیدھی راہ کی طرف، کہ چلے آؤ تم ہمارے پاس، کہو کہ بے شک اللہ کی (بتلائی ہوئی) راہ ہی سیدھی راہ ہے ، اور ہمیں اسی کا حکم ملا ہے کہ ہم گردن ڈال دیں ، پروردگار عالم کے حضور

۷۲۔۔۔      اور یہ کہ تم قائم کرو نماز اور ڈرتے رہو اسی (وحدہٗ لاشریک) سے ، اور وہ وہی ہے جس کے حضور تم سب کو بہر حال حاضر ہونا ہے اکٹھے ہو کر،

۷۳۔۔۔      اور وہ وہی ہے جس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ، اور جس دن وہ فرمائے گا (ہر فنا شدہ چیز سے ) کہ ہو جا تو وہ ہو جائے گی اس کی بات بہر حال سچی ہے ، اور اسی کی باشاہی ہو گی (حقیقت میں بھی اور ظاہر میں بھی اس روز) جس روز کہ پھونک ماردی جائے گی صور میں ، وہی ہے جاننے والا چھپی کو بھی، اور ظاہر کو بھی، اور وہی ہے نہایت حکمت والا، پورا باخبر،

۷۴۔۔۔      اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب ابراہیم نے کہا اپنے باپ آزر سے ، کہ کیا آپ نے (من گھڑت) بتوں کو معبود قرار دے رکھا ہے ، بے شک میں دیکھ رہا ہوں آپ کو بھی اور آپ کی قوم کو بھی (ڈوبا ہوا) کھلی گمراہی میں ،

۷۵۔۔۔      اور اسی طرح دکھاتے رہے ہم ابراہیم کو بادشاہی آسمانوں اور زمین کی (حقیقت کے عین مطابق، تاکہ وہ اس سے حق پر استدلال کر سکیں ) اور تاکہ وہ ہو جائے کامل یقین والوں میں سے

۷۶۔۔۔      پھر جب چھا گئی اس پر رات کی تاریکی تو ابراہیم نے ایک ستارے کو دیکھ کر کہا کہ یہ میرا رب ہے ، مگر جب وہ ڈوب گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں محبت نہیں کر سکتا ڈوب جانے والوں سے

۷۷۔۔۔      پھر جب انہوں نے دیکھا چاند کو چمکتا ہوا تو کہا کہ یہ میرا رب ہے ، مگر جب وہ بھی ڈوب گیا تو فرمایا کہ اگر میرے رب نے مجھے ہدایت (کی دولت) سے نہ نوازا ہوتا، تو یقیناً میں شامل ہو گیا ہوتا گمراہ لوگوں میں ،

۷۸۔۔۔      پھر جب دیکھا اس نے سورج کو چمکتا ہوا (نہایت آبو تاب سے ) تو کہا یہ ہے میرا رب، کہ یہ سب سے بڑا ہے ، مگر جب وہ بھی ڈوب گیا، تو آپ پکار اٹھے کہ اے میری قوم! میں قطعی طور پر بری (اور بیزار) ہوں ان سب سے جن کو تم لوگ شریک ٹھہراتے ہو،

۷۹۔۔۔      بے شک میں نے موڑ دیا اپنا رخ اس (معبود حقیقی) کی طرف جس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین (کی اس حکمتوں بھری کائنات) کو، یکسو ہو کر اور میرا کوئی لگاؤ نہیں مشرکوں سے ،

۸۰۔۔۔      اور جھگڑے نے لگی ان سے ان کی قسم تو آپ نے فرمایا کیا تم لوگ مجھ سے جھگڑے (اور حجت بازی کرتے ) ہو اللہ کے بارے میں ؟ جب کہ اس نے مجھے نواز دیا نور ہدایت سے ، اور میں نہیں ڈرتا ان چیزوں سے جن کو تم لوگوں نے خدا کا شریک ٹھہراتے ہو اس (وحدہٗ لاشریک) کا مگر یہ کہ میرا رب ہی کوئی بات چاہے ، میرے رب کا علم ہر چیز پر (پوری طرح) حاوی ہے تو کیا تم لوگ ہوش میں نہیں آتے ؟

۸۱۔۔۔     اور (آخر) میں ان چیزوں سے کیوں ڈروں جن کو تم لوگوں نے خدا کا شریک ٹھہرا رکھا ہے ، جب کہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو ایسی چیزوں کو جن کے لئے اللہ نے تم پر کوئی سند نہیں اتاری؟ تو (تم ہی بتاؤ کہ ایمان و کفر کے ) ان دونوں گروہوں میں سے کون زیادہ حق دار ہے امن کا اگر تم جانتے ہو؟

۸۲۔۔۔      جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے آلودہ نہیں کیا اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ، انہی کے لیے ہے امن، اور وہی ہیں سیدھی راہ پر

۸۳۔۔۔     اور یہ تھی ہماری وہ حجت جو ہم نے ابراہیم کو عطا کی تھی ان کی قوم کے مقابلے میں ہم جس کے چاہیں درجے بلند کر دیتے ہیں ، بلاشبہ تمہارا رب بڑا ہی حکمت والا، سب کچھ جانتا ہے ،

۸۴۔۔۔      اور ہم ہی نے عطا کیا تھا ابراہیم کو اسحاق (جیسا بیٹا) اور یعقوب (جیسا پوتا) ان میں سے ہر ایک کو ہم نے سرفراز کیا تھا ہدایت سے اور نوح کو بھی ہم نے اس سے پہلے ہدایت بخشی تھی، اور ان (یعنی ابراہیم) کی اولاد میں سے داؤد، سلیمٰن، ایوب یوسف اور موسیٰ و ہارون کو بھی اور ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو

۸۵۔۔۔      اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور ا لیاس کو بھی (ہم نے ہدایت و نبوت کے نور سے سرفراز کیا تھا) یہ سب (ہمارے قریب خاص کے ) سزاواروں میں سے تھے ،

۸۶۔۔۔      اور اسماعیل، یسع و یونس اور لوط کو بھی اور ان سب کو ہم نے (اپنے اپنے دور میں ) فضیلت بخشی تھی سب جہانوں پر،

۸۷۔۔۔      اور ان کے باپ دادوں ، ان کی اولادوں ، اور ان کے بھائیوں میں سے بھی بعض کو، (ہم نے اس دولت سے نوازا تھا) ان سب (مذکورین) کو ہم نے چنا اور ان کو سیدھی راہ کی ہدایت بخشی،

۸۸۔۔۔     یہ (جس کا ذکر ہوا) اللہ کی ہدایت ہے جس کے ذریعے وہ راہنمائی فرماتا ہے جس کی چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے اور اگر (بالفرض) یہ حضرات بھی شرک کرتے تو یقیناً اکارت چلے جاتے ان کے وہ سب عمل جو یہ کرتے رہے تھے

۸۹۔۔۔      یہ ہیں وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی تھی، اور جن کو ہم نے نوازا تھا حکم اور نبوت سے بھری پس اگر (اس سب بیان اور توضیح کے باوجود) یہ لوگ (اہل مکہ) آپ کی نبوت کا انکار ہی کرتے ہیں ، تو (آپ اس کی کوئی پرواہ نہ کریں کہ) ہم نے اس کے لئے ایسے لوگ مقرر کر دیئے ہیں جو اس کے منکر نہیں ،

۹۰۔۔۔      ان حضرات کو (جن کا ذکر ہوا) اللہ نے (براہ راست) اپنی ہدایت سے نوازا تھا پس تم انہی کی ہدایت کی، پیروی کرو، (ان سے ) کہو کہ میں (تبلیغ حق کے ) اس کام پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا یہ تو محض ایک عظیم الشان نصیحت ہے سب جہانوں کے لئے

۹۱۔۔۔      اور قدر نہیں کی ان لوگوں نے اللہ (پاک) کی، جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق تھا، جب کہ انہوں نے کہا کہ اللہ نے کسی بھی انسان پر کچھ بھی نہیں اتارا پوچھو کہ کس نے اتاری وہ کتاب جس کو موسیٰ سے لے آئے تھے ؟، ایک عظیم الشان روشنی اور سراسر ہدایت کے طور پر (اپنے زمانے کے ) سب لوگوں کیلئے ، جس کو تم لوگوں نے اب ورقے ورقے کر رکھا ہے ، کچھ کو تم ظاہر کرتے ہو، اور بہت کچھ تم چھپا جاتے ہو، حالانکہ (اس کے ذریعے ) تمہیں وہ کچھ سکھایا گیا جو نہ تم جانتے تھے نہ تمہارے باپ دادا، کہو اللہ ہی ہے (اتارنے والا پھر انھیں چھوڑ دو، کہ یہ اپنی بیہودگی میں پڑے کھیلتے رہیں ،

۹۲۔۔۔      اور (اسی طرح) یہ ایک عظیم الشان برکتوں بھری کتاب ہے ، جسے ہم نے (اب) اتارا ہے ، جو تصدیق کرنے والی ہے ان کتابوں کی جو کہ اس سے پہلے آ چکی ہیں (تاکہ دنیا اس کی برکتوں سے مالا مال ہو) اور تاکہ آپ (اس کے ذریعے ) خبر دار کریں بستیوں کے مرکز (مکہ مکرمہ کے باشندوں ) کو، اور ان سب کو جو اس کے گرد ہیں اور جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس پر ایمان لاتے ہیں ، اور وہ اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں

۹۳۔۔۔      اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹا، بہتان گھڑے یا کہے کہ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے ، حالانکہ اس پر کسی بھی چیز کی وحی نہیں کی گئی اور جو کہے کہ میں بھی ویسی ہی چیز اتار سکتا ہوں ، جیسی کہ اللہ نے اتاری ہے اور اگر تم دیکھ سکو (حال اس وقت کا) جب کہ ظالم لوگ (گرفتار) ہوں کہ موت کی سختیوں میں اور فرشتے ہاتھ بڑھائے (ان سے کہہ رہے ہوں گے کہ) نکالو تم اپنی جانوں کو آج تمہیں عذاب دیا جائے گا ذلت کا تمہاری ان ناحق باتوں کی پاداش میں جو تم لوگ بنایا کرتے تھے اللہ (کی ذات اقدس و اعلیٰ) کے بارے میں ، اور اس بناء پر کہ تم لوگ منہ موڑا کرتے تھے اس کی آیتوں (پر ایمان لانے ) سے اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں ،

۹۴۔۔۔      اور البتہ تحقیق آ گئے تم لوگ ہمارے پاس اکیلے ، اکیلے ، جیسا کہ ہم نے پیدا کیا تھا تم کو پہلی مرتبہ اور وہ سب کچھ تم نے اپنے پیچھے چھوڑ دیا جو ہم نے تمہیں دیا تھا (اور جس پر تم پھولے نہ سماتے تھے ) اور (کیا بات ہے کہ آج) ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھ رہے ، جن کے بارے میں تم سمجھتے تھے کہ وہ تمہارے (امور میں ) شریک ہیں ، آج بالکل کٹ کر رہ گئے وہ سب روابط جو تمہارے درمیان تھے ، اور گم ہو گیا تم سے وہ سب کچھ جس کا تمہیں بڑا دعویٰ (اور گھمنڈ) تھا،

۹۵۔۔۔      بے شک اللہ ہی ہے پھاڑ نکالنے والا دانے اور گٹھلی کو، وہی نکالتا ہے ، زندہ کو مردہ سے اور اسی کا کام ہے مردہ کو نکالنا زندہ سے ، یہ ہے اللہ پھر تم لوگ کدھر الٹے پھیرے جا رہے ہو؟

۹۶۔۔۔      وہی ہے (تاریکی شب کو چاک کر کے ) سپیدہ صبح کو نکالنے والا، اسی نے بنایا رات کو (آرام و) سکون کی چیز، اور سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ، یہ (نہایت ٹھوس اور پر حکمت) منصوبہ بندی ہے اس کی جو سب پر غالب، نہایت علم والا ہے ،

۹۷۔۔۔      اور وہ (وحدہٗ لاشریک) وہی تو ہے جس نے بنایا تمہارے لئے ستاروں کو تاکہ تم لوگ ان کے ذریعے راستہ پا سکو، خشکی اور تری کے اندھیروں میں بے شک ہم نے کھول کر بیان کر دیا اپنی نشانیوں کو ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں ،

۹۸۔۔۔      اور وہ وہی ہے جس نے پیدا کیا تم سب کو ایک جان سے ، پھر (ہر ایک کے لئے ) ایک جائے قرار ہے اور ایک امانت رکھنے کی جگہ بے شک ہم نے کھول کر بیان کر دیا اپنی نشانیوں کو ان لوگوں کے لئے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں

۹۹۔۔۔      اور وہ (قادر مطلق) وہی تو ہے جس نے اتارا آسمان سے پانی (ایک نہایت ہی حکمت بھرے نظام کے تحت پھر اس کے ذریعے ہم نے نکالی ہر قسم کی پیداوار پھر اس سے ہم نے نکالی سبز کھیتی جس سے ہم نکالتے ہیں طرح طرح کے غلے ، تہ بہ تہ چڑھے ہوتے ہیں جن کے دانے اور کھجور کے شگوفوں میں سے پھلوں کے گچھے بھی، جو (بوجھ کے مارے ) جھکے پڑتے ہیں ، اور انگوروں کے (قسما قسم کے ) باغات بھی، اور زیتون اور انار بھی، جو آپس میں ملتے جلتے بھی ہوتے ہیں ، اور ایک دوسرے سے مختلف بھی، تم دیکھو ان میں سے ہر ایک کے پھل کی طرف جب کہ وہ پھل لاتا ہے اور اس کے پکنے کی طرف (جب کہ وہ پکتا ہے ) بے شک ان چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کیلئے جو ایمان رکھتے ہیں ،

۱۰۰۔۔۔      مگر (اس کے باوجود) انہوں نے اللہ کا شریک بنا دیا جنوں کو، حالانکہ پیدا اسی (وحدہٗ لاشریک) نے کیا ہے ان سب کو اور انہوں نے از خود گھڑ لیئے اس کے لئے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی بغیر کسی علم (اور دلیل) کے وہ پاک اور برتر ہے ان تمام باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں

۱۰۱۔۔۔     وہ پیدا کرنے والا ہے آسمانوں اور زمین کو بغیر کسی نمونہ و مثال کے اس کی کوئی اولاد کیسے ہو سکتی ہے جب کہ اس کی کوئی بیوی نہیں ؟ اور اس نے پیدا فرمایا ہے ہر چیز کو اور وہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے

۱۰۲۔۔۔     یہ ہے اللہ رب تم سب کا (اے لوگو) کوئی معبود نہیں سوائے اس کے وہی پیدا کرنے والا ہے ہر چیز کو پس تم سب بندگی کرو اسی (وحدہٗ لاشریک) کی اور وہ ہر چیز پر نگہبان (اور اس کارساز) ہے ،

۱۰۳۔۔۔      نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں پر احاطہ کئے ہوئے ہے ، اور وہی ہے نہایت باریک بیں ، پورا باخبر،

۱۰۴۔۔۔     بے شک آ گئیں تمہارے پاس (اے لوگو!) آنکھیں کھولنے والی نشانیاں تمہارے رب کی جانب سے سو جس نے آنکھ کھولی تو اپنے ہی نفع کے لئے اور جو اندھا بنا رہا تو اس کا وبال خود اسی پر ہو گا اور میں تم پر کوئی نگہبان نہیں ہوں

۱۰۵۔۔۔     اور اسی طرح مختلف طریقوں سے کھول کر بیان کرتے ہیں ہم اپنی آیتوں کو (تاکہ معاندین پر حجت قائم ہو) اور تاکہ وہ کہیں کہ تم نے پڑھ لیا ہے اور تاکہ ہم اسے واضح کر دیں ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں

۱۰۶۔۔۔     پیروی کرتے رہو آپ اس وحی کی جو بھیجی گئی ہے آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے (اے پیغمبر) کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں سوائے اس کے ، اور منہ موڑ لو تم ان مشرکوں سے

۱۰۷۔۔۔     اور اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ کبھی شرک نہ کرتے اور ہم نے آپ کو ان پر کوئی نگہبان نہیں بنایا اور نہ ہی آپ (ان کو ان کے اعمال بد پر سزا دینے کے ) مختار ہیں

۱۰۸۔۔۔     اور تم گالی مت دینا (اے مسلمانو!) ان کو جن کو (پوجتے ) پکارتے ہیں یہ (مشرک) لوگ، کہ کہیں اس کے جواب میں یہ گا لیاں نہ بکنے لگیں اللہ (پاک) کو (ظلم و) زیادتی کی بنا، پر بغیر کسی علم کے اسی طرح خوشنما بنا دیا ہے ہم نے ہر گروہ کے لئے اس کے لئے اس کے عمل کو، آخر کار ان سب کو لوٹ کر بہر حال اپنے رب ہی کے حضور پہنچنا ہے تب وہ بتا دے گا ان کو وہ سب کچھ جو یہ لوگ کرتے رہے تھے (زندگی بھر)

۱۰۹۔۔۔     اور یہ لوگ اللہ کے نام کی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آ جائے ان کے پاس کوئی نشانی (ان کی طلب و فرمائش کے مطابق) تو یہ ضرور بالضرور ایمان لے آئیں گے اس پر تو کہو کہ نشانیاں تو سب اللہ ہی کے اختیار میں ہیں اور تمہیں کیا پتہ (اے مسلمانو! کہ اگر وہ نشانی آ بھی جائے تو بھی انہوں نے ایمان نہیں لانا

۱۱۰۔۔۔     اور ہم پھیر دیں گے ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو (حق کے سمجھنے اور دیکھنے سے ) جس طرح کہ یہ ایمان نہیں لائے اس (قرآن عظیم) پر پہلی مرتبہ اور انھیں چھوڑ دیں گے کہ یہ اپنی سرکشی میں پڑے بھٹکتے رہیں

۱۱۱۔۔۔     اور (ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کا عالم یہ ہے کہ) اگر ہم ان پر فرشتے بھی اتار دیں ، اور مردے بھی ان سے باتیں کرنے لگیں ، اور ہم ہر چیز کو ان کے سامنے لا کر پیش کر دیں ، تو انہوں نے پھر بھی ایمان نہیں لانا (اپنے عناد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر) مگر یہ کہ اللہ ہی چاہے (اور وہ ان کی کایا پلٹ کر دے ) لیکن ان میں سے اکثر جہالت برت رہے ہیں ،

۱۱۲۔۔۔     اور اسی طرح ہم نے بنا دیئے ہر نبی کے بہت سے (اور مختلف قسم کے ) دشمن، شیاطین صفت انسان بھی اور جن بھی، جو چپکے سے (اور خفیہ طور پر) سکھلاتے ہیں ، ایک دوسرے کو ملمع کی ہوئی باتیں ، دھوکہ دینے (اور گمراہ کرنے ) کے لئے ، اور اگر تمہارا رب (ان کو جبرا راہ راست پر لانا) چاہتا تو یہ ایسا کبھی نہ کر سکتے ، پس تم چھوڑ دو ان کو اور ان کی ان افتراء پردازیوں کو جو یہ لوگ کرتے ہیں ،

۱۱۳۔۔۔      اور یہ (ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ تاکہ اس طرح یہ پھسلا دیں ایمان والوں کو اور) تاکہ مائل ہو جائیں اس کی طرف دل ان لوگوں کے جو ایمان نہیں رکھتے آخرت پر، اور تاکہ وہ انھیں پسند کریں تاکہ یہ کما لیں جو کچھ کہ انہوں نے کمانا ہے ،

۱۱۴۔۔۔      تو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور منصف تلاش کروں ، حالانکہ وہی ہے جس نے اتار دی تمہاری طرف یہ کتاب مفصل کر کے ، اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی (یعنی یہود و نصاریٰ) وہ یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ یہ (قرآن) ٹھیک تمہارے رب ہی کی طرف سے نازل ہوا، پس تم کبھی شک کرنے والوں میں شامل نہ ہونا

۱۱۵۔۔۔      اور پوری ہو گئی بات تمہارے رب کی سچائی میں بھی، اور عدل کے اعتبار سے بھی، کوئی بدلنے والا نہیں اس کے فرمان (صدق ترجمان) کو، اور وہی ہے ہر کسی کی سنتا، سب کچھ جانتا ہے ،

۱۱۶۔۔۔      اور اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کی بات ماننے لگے جو زمین میں رہتے ہیں تو وہ تمہیں بھٹکا دیں گے اللہ کی راہ سے ، یہ لوگ پیروی نہیں کرتے مگر ظن کی اور یہ محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں اور بس،

۱۱۷۔۔۔      بے شک تمہارا رب خوب جانتا ہے ان کو بھی جو (بہکتے ہیں ) بھٹکتے ہیں اس کی راہ سے ، اور وہ خوب جانتا ہے ان لوگوں کو بھی جو سیدھی راہ پر ہیں ،

۱۱۸۔۔۔      پس کھاؤ تم لوگ ان چیزوں میں سے جن پر اللہ کا نام لیا گیا، اگر تم واقعی ایمان رکھنے والے ہو اس کی آیتوں پر،

۱۱۹۔۔۔      اور تمہارے لئے کیا عذر ہو سکتا ہے کہ تم نہ کھاؤ ان چیزوں میں سے جن پر نام لیا گیا ہے اللہ کا، جب کہ اس نے تفصیل سے بیان کر دیا ہے ، تمہارے لئے وہ سب کچھ جو کہ اس نے حرام فرمایا ہے تم پر (خود تمہارے بھلے کے لئے ) مگر جس کے لئے تم مجبور ہو جاؤ، اور بے شک بہت سے لوگ ایسے ہیں جو گمراہ کرتے ہیں (دوسروں کو) اپنی خواہشات کی بناء پر، بغیر کسی علم کے ، بے شک تمہارا رب خوب جانتا ہے حد سے بڑھنے والوں کو

۱۲۰۔۔۔      اور چھوڑ دو تم لوگ ظاہر گناہ کو بھی، اور پوشیدہ کو بھی، بے شک جو لوگ گناہ کما رہے ہیں ، وہ یقینی طور پر بدلہ پا کر رہیں گے ، اپنے ان گناہوں کا جو وہ کماتے رہیں تھے ،

۱۲۱۔۔۔      اور مت کھاؤ تم لوگ ان چیزوں میں سے جن پر نام نہیں لیا گیا اللہ کا، اور بے شک قطعی طور پر گناہ ہے اور شیطان تو رہ رہ کر اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں (طرح طرح کی حجت بازیاں ) تاکہ وہ تم لوگوں سے جھگڑا کریں اور اگر تم نے ان کی بات مان لی تو یقیناً تم بھی مشرک ہو جاؤ گے ،

۱۲۲۔۔۔      بھلا وہ شخص جو مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندگی بخشی، اور اس کو نواز دیا ایک ایسی عظیم الشان روشنی سے جس کے اجالے میں وہ چلتا ہے لوگوں کے درمیان کیا وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو پڑا ہوا ہے اندھیروں میں ؟ کہ وہ ان سے نکلنے ہی نہ پاتا ہو، اسی طرح خوش نما بنا دیئے گئے کافروں کے لئے ان کے وہ کام جو وہ کرتے رہے ہیں ،

۱۲۳۔۔۔      اور اسی طرح (جس طرح کہ مکہ کے یہ جرائم پیشہ سردار ہیں ) ہم نے مقرر کر دیئے ہر بستی میں وہاں کے بڑے مجرم، تاکہ وہ اس میں اپنے مکر و فریب کی کاروائیاں کرتے رہیں ، حالانکہ حقیقت میں یہ مکر و فریب وہ اپنی ہی جانوں سے کرتے ہیں ، مگر وہ شعور نہیں رکھتے

۱۲۴۔۔۔      اور جب آ پہنچتی ہے ان کے پاس کوئی نشانی، تو یہ کہتے ہیں کہ ہم ہرگز نہ مانیں گے یہاں تک کہ ہمیں بھی وہی کچھ نہ دیا جائے جو کہ دیا گیا اللہ کے رسولوں کو، اللہ خوب جانتا ہے کہ کس سے کام لے اپنی رسال (و پیغمبری) کا، عنقریب ہی پہنچ کر رہے گی مجرموں کو اللہ کے یہاں ایک بڑی ذلت، اور بڑا سخت عذاب ان کی ان مکاریوں کی پاداش میں جن سے وہ کام لیتے رہے ،

۱۲۵۔۔۔      پس (ظاہر ہو گیا کہ) جسے اللہ ہدایت بخشتا ہے اس کا سینہ کھول دیتا ہے اسلام کے لئے ، اور جس کو وہ گمراہی (کے اندھیروں میں ) ڈالنا چاہتا ہے تو اس کے سینے کو تنگ (اور) بہت تنگ کر دیتا ہے ، گویا کہ اسے بزور آسمان پر چڑھنا پڑ رہا ہے ، اسی طرح اللہ پھٹکار ڈال دیتا ہے ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے ،

۱۲۶۔۔۔      اور یہ (دین حق یعنی اسلام ہی) ہے تیرے رب تک پہنچنے کا سیدھا راستہ، بے شک ہم نے کھول کر بیان کر دیں اپنی آیتیں ان لوگوں کے لئے جو نصیحت قبول کرتے ہیں ،

۱۲۷۔۔۔      ان کے سلامتی کا وہ عظیم الشان اور بے مثال گھر ہے ان کے رب کے یہاں ، اور وہی ان کا کارساز و مددگار ہے ان کے ان کاموں کے باعث جو وہ کرتے رہے تھے (زندگی بھر)

۱۲۸۔۔۔      اور جس دن وہ اکٹھا کر لائے گا ان سب کو تو جنوں سے خطاب کر کے فرمائے گا، اے جنوں کے گروہ! تم نے بہت سے آدمیوں کو اپنے تابع بنا لیا تھا اور (اسی طرح جب انسانوں سے سوال ہو گا تو) ان کے دوست انسانوں میں سے اس موقعہ پر اپنے جرم کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم نے فائدہ اٹھایا ایک دوسرے سے اور ہم انکار کرتے رہے حق اور حقیقت کا، یہاں تک کہ ہم پہنچ گئے اپنے اس وقت کو جو کہ آپ نے مقرر فرما رکھا تھا ہمارے لئے ، تب اللہ فرمائے گا سو اب جہنم کی یہ آگ ٹھکانہ ہے تم سب کا، جس میں تمہیں رہنا ہو گا ہمیشہ کے لئے ، مگر جو اللہ چاہے ، بے شک تمہارا رب بڑا ہی حکمت والا، نہایت علم والا ہے ،

۱۲۹۔۔۔      اور اسی طرح ہم مسلط کر دیتے ہیں بعض ظالموں کو بعض پر بوجہ ان کی اس کمائی کے جو وہ کرتے ہیں ،

۱۳۰۔۔۔      (نیز اللہ فرمائے گا کہ) اے گروہ جن و انس (تم کیسے پھنس گئے مکاروں کے جال میں ) کیا تمہارے پاس نہیں آئے تھے ہمارے رسول خود تم ہی لوگوں میں سے ؟ جو تم کو سناتے میری آیتیں اور خبردار کرتے تم کو اپنے اس (ہولناک) دن سے ؟ وہ کہیں گے کہ ہاں ہم خود گواہی دیتے ہیں اپنے خلاف اور آج ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے دنیا کی زندگی نے ، مگر اس روز وہ خود اپنے خلاف دو ٹوک گواہی دیں گے کہ وہ قطعی طور پر کافر تھے ،

۱۳۱۔۔۔      یہ انبیاء و رسل کی بعثت کا سلسلہ اس لئے کہ تمہارا رب ایسا نہیں کہ وہ یونہی کر دے بستیوں کو ان کے ظلم کی بناء پر، جب کہ ان کے باشندے بے خبر ہوں (اس کے احکام سے )

۱۳۲۔۔۔      اور ہر کسی کے درجے ہیں ان کے اپنے کئے کے باعث، اور تیرا رب بے خبر نہیں ان کے ان کاموں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ،

۱۳۳۔۔۔      اور تمہارا رب بڑا ہی بے نیاز نہایت ہی رحمت والا ہے ، وہ اگر چاہے تو لے جائے تم سب کو اور لا بسائے تمہاری جگہ تمہارے بعد اور جس کو چاہے ، جیسا کہ اس نے خود تم لوگوں کو پیدا فرمایا ہے دوسری قوم کی نسل سے ،

۱۳۴۔۔۔      بے شک جس چیز کا وعدہ تم سے کیا جارا ہے (اے لوگو!) اس نے یقیناً اور بہر حال آ کر رہنا ہے اور تم اس بل بوتے کے نہیں ہو کہ عاجز کر سکو، (ان سے )

۱۳۵۔۔۔     کہہ دو کہ اے میری قوم کے لوگو! (اگر تم نہیں مانتے تو آخری بات یہ ہے کہ) تم اپنی جگہ کام کرتے رہو اور میں اپنی جگہ اپنے کام میں لگا رہوں ، عنقریب تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کس کو ملتا ہے آ کر وہ عظیم الشان گھر، بے شک ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکیں گے

۱۳۶۔۔۔      اور انہوں نے (توحید کے ان قطعی اور صریح دلائل و براہین کے باوجود) اللہ کے لئے حصہ مقرر کر رکھا ہے اس کھیتی اور ان مویشیوں میں سے ، جن کو اللہ ہی نے پیدا فرمایا ہے ، پھر یہ کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کے لئے ان کے اپنے گمان کے مطابق، اور یہ ہمارے شریکوں کے لئے ، پھر مزید ظلم یہ کہ جو حصہ ان کے شریکوں کا ہوتا ہے وہ تو اللہ کی طرف نہیں جا سکتا، اور جو حصہ اللہ کا ہوتا ہے وہ ان کے شریکوں کی طرف جا سکتا ہے ، کیسا برا ہے وہ فیصلہ جو یہ لوگ کرتے ہیں

۱۳۷۔۔۔      اور اسی طرح مزین و خوشنما بنا دیا ہے بہت سے مشرکوں کے لئے قتل کر دینا ان کا خود اپنی اولاد کو ان کے (خود ساختہ) شریکوں نے ، تاکہ اس طرح وہ ان کو ہلاکت میں ڈال دیں ، اور مشتبہ کر دیں ان پر ان کے دین کو، اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا کبھی نہ کرتے ، پس چھوڑ دو تم ان کو اور ان کی تمام افتراء پردازیوں کو جو یہ لوگ کر رہے ہیں ،

۱۳۸۔۔۔      اور کہتے ہیں کہ یہ جانور اور کھیتی ممنوع ہیں ، ان کو کوئی نہیں کھا سکتا بجز اس کے جس کو ہم چاہیں ، ان کے اپنے گمان کے مطابق، اور کچھ جانوروں (کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ ان) پر سواری حرام کر دی گئی، اور کچھ جانور وہ ہیں جن پر یہ لوگ اللہ کا کام نہیں لیتے ، (یہ سب کچھ محض) اللہ پر افتراء باندھتے ہوئے ، عنقریب ہی اللہ بدلہ دے گا ان کو ان کی ان افتراء پردازیوں کا جو یہ لوگ کر تے رہے تھے ،

۱۳۹۔۔۔      اور کہتے ہیں کہ جو کچھ ان جانوروں کے پیٹوں میں ہے ، وہ ہمارے مردوں کے لئے خاص ہے ، اور ہماری عورتوں پر حرام ہے ، اور اگر وہ (جو پیٹ میں ہے ) مردہ ہو تو اس میں یہ سب برابر ہیں ، عنقریب ہی اللہ پورا بدلہ دے گا ان کو ان کی باتوں کا، بلاشبہ وہ بڑا ہی حکمت والا، سب کچھ جانتا ہے ،

۱۴۰۔۔۔      یقینی طور پر سخت خسارے میں پڑ گئے ہیں وہ لوگ جنہوں نے قتل کیا اپنی اولاد کو حماقت کی بناء پر بغیر کسی علم و سند کے ، اور انہوں نے حرام ٹھہرا لیا ان چیزوں کو جو اللہ نے بھیجیں تھیں ان کو (اپنے کرم و عنایت) بہتان باندھ کر اللہ پر، یقیناً بھٹک گئے وہ اور نہ آئے سیدھی راہ پر

۱۴۱۔۔۔      اور وہ اللہ وہی ہے جس نے پیدا فرمائے طرح طرح کے عظیم الشان باغات، وہ بھی جو چھتوں پر چڑھائے جاتے ہیں اور وہ بھی جو نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت اور کھیتی بھی، جن سے کھانے کی طرح طرح کی چیزیں حاصل کی جاتی ہیں ، اور (اسی نے پیدا فرمایا) زیتون اور انار کو بھی، جو کہ آپس میں ملتے جلتے بھی ہیں اور جدا جدا بھی)، کھاؤ تم اس کے پھلوں میں سے جب کہ وہ پھل دے ، اور ادا کرو اس کا حق جس دن اسے کاٹو، اور حد سے نہ بڑھو، بے شک اللہ پسند نہیں فرماتا حد سے بڑھنے والوں کو،

۱۴۲۔۔۔      اور چوپایوں میں سے کچھ کو اس نے پیدا فرمایا بوجھ اٹھانے کو، اور کچھ کو زمین میں لگا ہوا، کھاؤ پیو تم لوگ ان چیزوں میں سے جو بخشی ہیں تم کو اللہ نے ، اور مت پیروی کرو تم شیطان کے نقش قدم کی، کہ وہ قطعی طور پر تمہارا دشمن ہے کھلم کھلا،

۱۴۳۔۔۔      اور اس خالق حقیقی اور مالک مطلق نے پیدا فرمائے تمہارے لئے ) آٹھ قسم کے جانور یعنی بھیڑ میں سے دو، اور بکری میں سے دو (نر اور مادہ، اب) پوچھو ان سے اے پیغمبر!) کہ کیا اللہ نے دونوں نر حرام کئے ہیں ؟ یا دونوں مادہ؟ یا وہ بچے جو ان دونوں قسم کے ماداؤں کے پیٹوں میں ہوتے ہیں ؟ مجھے بتاؤ علم اور سند کے ساتھ، اگر تم لوگ سچے ہو (اپنے قول و قرار میں )

۱۴۴۔۔۔      اور اسی طرح اس نے اونٹ اور گائے سے بھی دو دو قسمیں پیدا کیں (نر اور مادہ تو ان سے ) پوچھو کہ کیا اللہ نے دونوں نر حرام کئے ؟ یا دونوں مادہ؟ یا وہ بچے جو دونوں قسم کی مادہ کے رحموں کے اندر ہوتے ہیں ، (کہو) کیا تم لوگ خود اس وقت موجود تھے جب اللہ نے ان کے حرام ہونے کا یہ حکم تم کو دیا تھا؟ پھر اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو خود جھوٹ گھڑ کر اللہ کے ذمے لگا دے تاکہ وہ گمراہ کرے لوگوں کو بغیر کسی علم و سند کے ؟ بے شک اللہ ہدایت سے سرفراز نہیں فرماتا ایسے ظالم لوگوں کو، ف

۱۴۵۔۔۔     ۱ (ان سے ) کہہ دو کہ میں بہر حال کسی بھی چیز کو حرام نہیں پاتا اس وحی میں جو بھیجی گئی ہے میری طرف (میرے رب کی جانب سے ) کسی بھی کھانے والے پر، جو اسے کھاتا ہو، مگر یہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون، یا سور کا گوشت کہ یہ نری نجاست ہے ، یا وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو، پھر بھی جو شخص مجبور ہو جائے (اور وہ کوئی چیز ان میں سے کھا لے ) بشرطیکہ نہ تو وہ لذت کا متلاشی ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا، تو (اسے معاف ہے کہ) بے شک تمہارا رب بڑا ہی بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے ،

۱۴۶۔۔۔      اور ان لوگوں پر جو یہودی بن گئے ، ہم نے حرام کر دیا ہر ناخن والے جانور کو اور گائے اور بکری کی چربی کو بھی ان پر حرام کر دیا تھا، سوائے اس کے جو چڑھی ہو ان کی پیٹھوں یا انتڑیوں پر یا لگی ہوئی ہو کسی ہڈی کے ساتھ، یہ ہم نے ان کو بدلہ دیا ان کی بغاوت کا اور بے شک ہم قطعی طور پر ( اور ہر لحاظ سے ) سچے ہیں ،

۱۴۷۔۔۔      پھر بھی اگر یہ لوگ جھٹلاتے ہی جائیں آپ کو (کہ ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا) تو کہو کہ تمہارا رب بڑی ہی وسیع رحمت والا ہے اور وہ سخت عذاب دینے والا بھی ہے اور) ٹالا نہیں جا سکتا اس کا عذاب مجرم لوگوں سے ،

۱۴۸۔۔۔      اب یہ مشرک لوگ یوں کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم نہ شرک کرتے اور نہ ہی ہمارے باپ داد، اور نہ ہی ہم از خود کسی چیز کو حرام ٹھہراتے اور جس طرح آج یہ لوگ حق کو جھٹلاتے ہیں اسی طرح ان لوگوں نے جو گزر چکے ہیں ان سے پہلے ، یہاں تک کہ انہوں نے مزہ چکھا ہمارے عذاب کو (ان سے یہ تو) پوچھو کہ کیا ہے تمہارے پاس کوئی علم، جسے تم پیش کر سکو ہمارے سامنے ؟ تم لوگ تو محض خیالی باتوں کے پیچھے چلتے ہو، اور تمہارا تو کام ہی بس یونہی اٹکلیں لڑانا ہے ،

۱۴۹۔۔۔     کہو، اللہ کے لئے ہے کامل حجت، پس اگر وہ (زبردستی تم سب کو راہ راست پر لانا) چاہتا تو یقیناً وہ تم سب کو (یونہی) ہدایت دے دیتا،

۱۵۰۔۔۔      (ان سے ) کہو کہ لاؤ تم لوگ اپنے ان گواہوں کو جو گواہی دیں اس بات کی کہ اللہ نے حرام کیا ہے ان (مذکورہ بالا) اشیاء کو پھر اگر وہ کبھی ڈھٹائی اور بے حیائی پر اتر کر) ایسی گواہی دے بھی دیں تو تم ان کے ساتھ کبھی بھی گواہی نہ دینا، اور پیروی نہیں کرنی ان لوگوں کی خواہشات کی جنہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو، اور جو ایمان نہیں رکھتے آخرت پر اور وہ اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں (دوسروں کو)

۱۵۱۔۔۔      ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں جو کچھ حرام کیا ہے تم پر تمہارے رب نے یہ کہ اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرانا کسی چیز کو، اور اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، اور یہ کہ قتل نہیں کرنا اپنی اولاد کو تنگدستی کے ڈر سے کہ روزی ہم ہی دیتے ہیں تمہیں بھی اور انہیں بھی، اور (یہ کہ) قریب نہیں جانا (بے شرمی اور) بے حیائی کے کاموں کے ، خواہ وہ کھلے ہوں یا چھپے ، اور یہ کہ تم لوگ قتل نہیں کرنا کسی ایسی جان کو جس کو حرام ٹھہرایا ہو اللہ نے مگر حق کے ساتھ، یہ وہ باتیں ہیں جن کی تاکید فرمائی ہے اس نے تم کو تاکہ تم لوگ عقل سے کام لو،

۱۵۲۔۔۔      اور (چھٹے یہ کہ) قریب نہ جانا تم یتیم کے مال کے ، مگر اس طریقے کے ساتھ جو کہ سب سے اچھا ہو، یہاں تک کہ وہ پہنچ جائے اپنی بھرپور قوتوں کو، اور یہ کہ پورا کرو تم ناپ اور تول کو (عدل و) انصاف کے ساتھ، ہم تکلیف نہیں دیتے کسی بھی جان کو مگر اس کی طاقت کے مطابق، اور جب تم بات کرو تو انصاف کی کرو، اگرچہ وہ شخص رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، اور اللہ کے عہد کو پورا کرو، یہ ہیں وہ (اہم) باتیں جن کی تاکید فرمائی اس نے تم کو، تاکہ تم لوگ نصیحت حاصل کرو،

۱۵۳۔۔۔      اور کہو کہ یہ ہے میرا سیدھا راستہ پس تم اسی پر چلو، اس کے سوا دوسرے راستوں پر نہیں چلنا، کہ وہ تم کو ہٹا دیں اس کی راہ (حق و صواب) سے ، اسی کی تاکید فرمائی ہے اس نے تم کو تاکہ تم لوگ بچ سکو،

۱۵۴۔۔۔      پھر ہم نے موسیٰ کو بھی وہ کتاب دی تمام کرنے کے اپنی نعمت کو ان لوگوں پر جو اچھائی کریں ، اور تفصیل بیان کرنے کے لئے ضرورت کی ہر چیز کی، اور سراسر ہدایت اور عین رحمت کے طور پر تاکہ وہ لوگ بنی اسرائیل اپنے سے ملنے پر ایمان لائیں ،

۱۵۵۔۔۔      اور اب اس برکتوں بھری عظیم الشان کتاب (قرآن مجید) کو بھی ہم ہی نے اتارا ہے ، پس تم لوگ اس کی پیروی کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ،

۱۵۶۔۔۔      اور یہ اس لئے اتاری کہ کبھی تم یوں کہنے لگو کہ اجی کتاب تو ہم سے پہلے کے دو گروہوں (یہود و نصاریٰ) پر اتاری گئی اور ہم تو ان کے پڑھنے پڑھانے سے بالکل بے خبر تھے ،

۱۵۷۔۔۔      یا کبھی تم یوں کہنے لگو کہ اگر ہم بھی کوئی ایسی کتاب نازل کی گئی ہوتی، تو ہم ضرور ان سے کہیں بڑھ کر راست رو ہوتے ، سو آ چکی تمہارے پاس ایک عظیم الشان دلیل روشن تمہارے رب کی طرف سے اور سراسر ہدایت اور عین رحمت، سو اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو جھٹلائے اللہ کی آیتوں کو، اور منہ موڑے ان کی (تعلیمات) سے ہم عنقریب ہی بڑا برا عذاب دیں گے ان لوگوں کو جو روگردانی کرتے ہیں ہماری آیتوں سے ان کی اس روگردانی کی پاداش میں ، جس کا ارتکاب ایسے لوگ کرتے رہے تھے

۱۵۸۔۔۔      تو کیا اب یہ لوگ بس اسی کے منتظر ہیں کہ آ پہنچیں ان کے پاس فرشتے ، یا خود آ جائے تمہارا رب، یا نمودار ہو جائیں تمہارے رب کی بعض (خاص) نشانیاں ، جس دن نمودار ہو جائیں گی، تمہارے رب کی بعض نشانیاں تو اس دن کام نہیں آ سکے گا کسی بھی شخص کو اس کا ایمان لانا، جو کہ ایمان نہیں لایا تھا اس سے پہلے ، یا جس نے کوئی نیکی نہیں کی تھی اپنے ایمان میں ، اچھا (اگر اب بھی یہ لوگ نہیں مانتے تو ان سے ) کہو کہ تم انتظار کرو ہم بھی انتظار میں ہیں ،

۱۵۹۔۔۔      بے شک جن لوگوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اپنے دین کو، اور وہ مختلف (فرقے اور) گروہ بن گئے آپس میں ، آپ کا ان سے (اے پیغمبر!) کوئی واسطہ نہیں ، ان کا معاملہ تو اللہ ہی کے حوالے ہے ، پھر قیامت کے دن وہ ان کو خبر کر دے گا ان کے ان تمام کاموں کی جو یہ کرتے رہے تھے ،

۱۶۰۔۔۔      جو کوئی ایک نیکی کرے گا تو اس کے لئے (کم سے کم) دس گنا اجر ہے اور جو کوئی برائی کرے گا تو اس کو بس اسی کے برابر سزا دی جائے گی، اور ان پر کوئی ظلم نہ ہو گا،

۱۶۱۔۔۔      کہو کہ بے شک مجھے ہدایت (ور رہنمائی) فرما دی ہے ، میرے رب نے سیدھے راستے کی، یعنی اس دین عظیم کی جو کہ ہر لحاظ سے درست ہے ، (جس میں کسی طرح کی کوئی کجی نہیں) یعنی ابراہیم کی اس ملت کی جس کو انہوں نے اختیار کیا تھا اور ان کو کوئی لگاؤ نہیں تھا مشرکوں سے ،

۱۶۲۔۔۔      کہو بے شک میری نماز اور میری سب عبادتیں ، اور میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ ہی لئے ہے ، جو کہ پروردگار ہے سب جہانوں کا،

۱۶۳۔۔۔      اس کا کوئی شریک نہیں ، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا فرمانبردار ہوں ،

۱۶۴۔۔۔      کہو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں حالانکہ و ہی رب ہے ہر چیز کا، اور جو شخص بھی کوئی گناہ کرے گا وہ اسی کے ذمے ہو گا، اور نہیں اٹھائے گا کوئی بوجھ اٹھانے والا، بوجھ کسی دوسرے کا، پھر تم سب کو بہرحال اپنے رب ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ، تب وہ تمہیں بتا دے گا وہ سب کچھ جس میں تم لوگ اختلاف کرتے رہے تھے ،

۱۶۵۔۔۔      اور وہ وہی ہے جس نے تمہیں جانشین بنایا اپنی اس زمین کا، اور اس نے تم میں سے بعض کو بعض کے اوپر (دنیا میں ) بلند درجہ عطا فرمائے ، تاکہ وہ تمہاری آزمائش کرے ان چیزوں میں جو اس نے تمہیں دی ہیں ، بے شک تمہارا رب سزا دینے میں بھی بڑا تیز ہے ، اور بے شک وہ بڑا بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے ۔

تفسیر سورۂ انعام

 

۱.  یعنی جب تمہارے سامنے یہ حقیقت واضح ہے۔ اور تمہیں خود بھی اس کا احساس و ادراک اور اعتراف و اقرار ہے کہ تم سب کو اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا فرمایا، اور اسی مٹی سے پیدا فرمایا۔ اور اسی نے تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک خاص اور متعین مدت ٹھرا رکھی ہے۔ جس پر تم میں سے ہر ایک نے بہرحال اس دنیا سے رخصت ہونا ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ جو پیدا ہو گیا وہ لافانی ہو کر ہمیشہ کے لئے اس دنیا میں رہتا ہو۔ اور یہ بھی کسی کے علم میں نہیں کہ اس کی یہ مدت کب پوری ہوتی ہے۔ اور اس کو کب یہاں سے کوچ کرنا پڑے گا۔ اور تمہاری تخلیق کے اس پُر حکمت اہتمام سے یہ امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ تمہارا وجود عبث اور بیکار نہیں ہو سکتا۔ لازماً تم لوگوں نے اپنے خالق و مالک کے حضور ہو کر اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے۔ تو پھر تم لوگوں کے لئے بعث بعد الموت کے بارے میں کسی شک و شبہہ کی کوئی گنجائش آخر کس طرح باقی رہ سکتی ہے؟ مگر تم ہو کہ اس سب کے باوجود اس واضح حقیقت کے بارے میں کٹ حجتی سے کام لیتے۔ اور شک کرتے ہو۔ حالانکہ تمہارا وجود خود، اس دنیا میں تمہاری آمد وشد، اس پُر حکمت کائنات کے وجود اور عقل و نقل سب کا تقاضا ہے کہ تم سب کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔ اور تم سے تمہاری زندگی بھر کے کئے کرائے کا محاسبہ ہو۔ اور ہر کوئی اپنے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ پائے۔

۲. سو آسمان اور زمین میں الگ الگ معبودوں کی کار فرمائی نہیں جس طرح کہ کچھ مشرک قوموں نے سمجھ رکھا ہے، بلکہ ان دونوں میں ایک ہی خدا کی خدائی اور اسی کی حکومت و فرمانروائی کار فرما ہے، سبحانہ و تعالیٰ زمین و آسمان دونوں کا خالق و مالک بھی وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ اور ان دونوں میں حکم و تصرف بھی اسی کا چلتا ہے اور آسمان و زمین دونوں کا وجود اور ان کی بقاء بذات خود اور اپنی زبان حال سے اس کی گواہی دے رہی ہے کہ ان دونوں کے اندر ایک ہی خدائے واحد قہار کا ارادہ و حکم کار فرما ہے۔ ورنہ ان کا وجود اور یہ سارا نظام کبھی کا درہم برہم ہو گیا ہوتا، سو اس سے مشرکین کے اس مشرکانہ زعم و گمان کی بیخ کنی فرما دی گئی کہ آسمان و زمین کا خالق تو ایک اللہ ہی ہے۔ مگر زمین چونکہ اس کی مملکت کا دور دراز کا حصہ و علاقہ ہے اس لئے اس کے انتظام و انصرام کو اس نے دوسرے مختلف کارندوں کے سپرد کر رکھا ہے۔ پس وہی ان کے کرتا دھرتا اور اہل زمین کے معبود ہیں۔ ہم انہی کی پوجا پاٹ کریں گے یہ ہمیں اس خدائے واحد تک پہنچا دیں گے جو کہ سب کا خالق و مالک ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ان کے اس مشرکانہ فکر و فلسفہ کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا مَانَعْبُدُہُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفیٰ الآیۃ (الزمر۔۳) اور اسی مشرکانہ زعم و خیال کی بناء پر انہوں نے طرح طرح کے ناموں سے مختلف معبود گھڑ لئے۔ اور شرک کے طرح طرح کے دروازے کھول دیئے، پہلے بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے اور اس کے مظاہر آج بھی جگہ جگہ اور طرح طرح کے ناموں سے پائے جاتے ہیں۔ اور ان خود ساختہ اور بناوٹی خداؤں کے پجاریوں کا کہنا ہے کہ ہماری ان کے آگے اور ان کی اس کے آگے سو اس ارشاد ربانی سے ایسے لوگوں کے اس مشرکانہ زعم و گھمنڈ کی جڑ کاٹ دی گئی۔ اور اسی حقیقت کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے وَھوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآءِ اِلٰـہٌ وَّ فِی الْاَرْضِ اِلٰـہٌ وَہُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُ(الزخرف۔٨۴) یعنی وہ اللہ وہی ہے جو کہ معبود ہے آسمان میں اور وہی معبود ہے زمین میں، اور وہی ہے نہایت حکمت والا، سب کچھ جانتا، سبحانہ و تعالیٰ

۷. سو اس ارشاد سے ان لوگوں کے اس مطالبے کا جواب دیا گیا کہ اس پیغمبر کے ساتھ کوئی ایسا فرشتہ کیوں نہیں اتارا جاتا جو ہمیں نظر آئے، اور جو ان کے ساتھ ساتھ چلتا اور لوگوں کو خبردار کرتا رہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُوْنَ مَعَہٗ نَذِیْرًا (الفرقان۔ ۷) سو ان کے اس مطالبے کے جواب میں اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اگر اس طرح کا کوئی فرشتہ آ جاتا تو پھر غیب غیب نہ رہتا۔ بلکہ ظاہر اور مشہود بن جاتا۔ اور اس کے بعد بھی اگر یہ لوگ حق کو نہ مانتے تو ان کا معاملہ چکا دیا جاتا اور ان کو کوئی مہلت نہ ملتی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا مَا نُنَزِّلُ الْملٰائِکَۃَ اِلاَّ بِالْحَقِّ وَمَا کَانُوْآ اِذًا مُّنْظَرِیْنَ (الحجر۔٨) سو سنت اللہ یہی ہے، اور جس کو قرآن پاک میں جگہ جگہ اور طرح طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ایمان وہی معتبر ہے جو بالغیب یعنی بن دیکھے ہو۔ اور آفاق و انفس میں غور و فکر اور عقل و فطرت کے دلائل کی بنیاد پر ہو۔ نہ کہ وہ جو کہ کشف حقائق اور چشم سر کے مشاہدہ کے بعد ہو۔ کہ وہ ایمان ایمان بالغیب نہیں۔ بلکہ ایمان بالشہود والمشاہدہ ہے جو کہ نہ مفید ہے اور نہ مطلوب۔

۸. سو اگر ان لوگوں کے مطالبے پر بالفرض کسی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجا جاتا، جیسا کہ ان لوگوں کا بعثت بشر پر بطور تعجب و استہزاء کہنا تھا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشرًا رَّسُوْلًا (اسراء۔٩۴) یعنی کیا اللہ نے انسان اور بشر ہی کو رسول بنا کر بھیجنا تھا؟ یا یہ کہا اَبَشَرٌ یَّہْدُوْنَنَا (التغابن۔۶) یعنی کیا انسان اور بشر ہی ہمیں ہدایت دیں گے؟ یا اگر ہم رسول کے ساتھ کسی فرشتے کو نذیر بنا کر بھجتے۔ تو ان میں سے جو بھی صورت ہوتی فرشتہ بہرحال انسانی شکل ہی میں ہوتا تو اس صورت میں ان کو پھر وہی گھپلا پیش آتا جس میں یہ لوگ اب مبتلا ہیں۔ تو پھر ان کے مطالبہ کے پورا کرنے کا فائدہ کیا؟ یعنی ان کا یہ مطالبہ سراسر نامعقول ہے۔

۹. سو اس ارشاد میں ایک طرف تو پیغمبر کے لئے تسکین و تسلیہ کا سامان ہے، اور دوسری طرف اس میں حق کا مذاق اڑانے والے منکرین کے لئے تنبیہ و تہدید، سو پیغمبر کے لئے اس میں تسلیہ و تسکین کا یہ سامان ہے کہ کفار و منکرین کی طرف سے آپ کو آج جس مذاق و استہزاء سے سابقہ پیش آرہا ہے یہ کوئی نئی اور انوکھی چیز نہیں بلکہ اس سے پہلے کے انبیاء و رسل کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا آیا ہے لہٰذا آپ بھی اسی طرح صبر و برداشت اور استقلال و استقامت سے کام لیں اور لیتے رہیں جس طرح کہ اس سے پہلے کے رسولوں نے اسی لئے کام لیا جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ مَا یُقَالُ لَکَ اِلاَّ مَا قَدْ قِیْلَ لِلرَّسُلِ مِنْ قَبْلِکَ الایۃ (حٰم السجدۃ۔ ۴۳) یعنی آپ سے بھی وہی کچھ کہا جا رہا ہے جو آپ سے پہلے کے رسولوں کو کہا گیا۔ نیز دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُل الایٰۃ (الاحقاف۔ ۳۵) یعنی آپ بھی اسی طرح صبر سے کام لیں جس طرح کہ آپ سے پہلے کے اولوالعزم رسولوں نے لیا اور دوسری طرف اس میں منکرین و مکذبین کے لئے یہ تنبیہ و تہدید بھی ہے کہ جن لوگوں نے انبیاء و رسل کا مذاق اڑایا ان کو آخرکار اسی چیز نے آ گھیرا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ پس تم لوگ سنبھل جاؤ۔ ورنہ تمہارا انجام بھی وہی ہو گا جو ان لوگوں کا ہو چکا ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۱۴. یعنی جب مجھے اس بات کا حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے کہ میں سب سے پہلا اسلام لانے والا بنوں تو پھر میرے لئے یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ میں اپنے رب کے اس حکم کی خلاف ورزی کروں؟ اور اگر بالفرض میں ایسا کر لوں تو میں ایک بڑے ہی ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ والعیاذُ باللہ۔ سو اس سے ایک تو اس بات کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی بڑے سخت، عذاب کا باعث ہے۔ اور جب پیغمبر اور پیغمبروں کے امام پیغمبر کے لئے ابھی اس ضمن میں کوئی استثناء نہیں، تو پھر اور کسی کے لئے اس کا کیا سوال پیدا ہو سکتا ہے؟ اور دوسری بات اس سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ کلام کے اندر کسی امر محال کا فرض کرنا جائز ہے۔ کیونکہ پیغمبر کا یہاں پر یہ قول فرض محال ہی کے قبیل سے ہے۔ کیونکہ پیغمبر معصوم اور خداوند قدوس کی حفاظت و پناہ میں ہوتے ہیں سو فرض محال بلاغت کلام، اور عقل و نقل سب کا تقاضا ہے۔ پس برصغیر کے بعض اکابر اہل حق کی بعض اسی طرح کی عبارات پر اہل بدعت کا واویلا کرنا اور طوفان بدتمیزی بپا کرنا ان لوگوں کی اپنی جہالت، اور بدبختی کا نتیجہ ہے۔ والعیاذ باللہ، جعل اللہ کیدہم فی نحورہم واعاذنا من شرور ہم۔

۱۵. سو عقل و نقل، اور فطرت مستقیم سب کا تقاضا یہی ہے کہ اسی کامیابی کے حصول اور اس سے سرفرازی کو اپنا اصل مقصد اور حقیقی نصب العین بنایا جائے کہ اس سے سرفرازی اگر نصیب ہو گئی تو اصل اور حقیقی کامیابی نصیب ہو گئی اور سب کام بن گیا، ورنہ کچھ بھی نہیں اور حقیقت یہی اور صرف یہی ہے کہ جس کو اس دن کے عذاب سے بچا لیا گیا۔ حقیقت میں وہی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے سرفراز ہو گیا۔

۱۶. سو نفع اور نقصان دونوں اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہیں۔ جس کو وہ کوئی تکلیف اور نقصان پہچانا چاہے، اس کو اس سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اور جس کو وہ کوئی بہتری اور بھلائی پہچانا چاہیے اس کو اس سے کوئی روک نہیں سکتا۔ پس توجہ اور رجوع بہرحال اسی وحدہٗ لاشریک کی طرف رہنا چاہئے۔ پس جو اس کے سوا اوروں کے آگے جھکتے اور ان کی طرف رجوع کرتے ہیں وہ بڑے بہکے لوگ ہیں، اور اس طرح وہ اپنی ہی تذلیل و تحقیر کا سامان خود کرتے ہیں والعیاذ باللّٰہ جَلَّ وَعَلَا

۱۸. سو اس حقیقت کے بارے میں فیصلہ کن گواہی اللہ تعالیٰ ہی کی ہو سکتی ہے کہ اس نے کسی کو اپنی خدائی میں شریک ٹھہرایا ہے کہ نہیں۔ اور اس نے مجھ پر یہ قرآن نازل فرما کر اس حقیقت کو واضح فرما دیا اور یہ گواہی دے دی کہ وہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ اس کی خدائی میں کوئی بھی اس کا شریک و سہیم نہیں، تو اس کے باوجود اگر تم لوگ یہ کہتے ہو کہ اس کی خدائی میں دوسرے شریک ہیں تو میں اس بے دلیل اور بے حقیقت گواہی کے لئے تیار نہیں ہوں۔ مجھے تو بہرحال یہی حکم ملا ہے کہ میں اس حقیقت کا اعلان کروں کہ وہ معبود واحد ہے اور میں ان تمام چیزوں سے بری اور بیزار ہوں جن کو تم لوگ اس وحدہٗ لاشریک کا شریک ٹھہراتے ہو، پس ہر قسم کی عبادت و بندگی، اور اس کی ہر شکل اسی کا، اور صرف اسی وحدہٗ لاشریک کا حق ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۱۹. سو اگر یہ لوگ صدق دل سے حضرت امام الانبیاء علیہ وعلیہم الصلوٰۃ والسلام پر، اور آپ پر اتاری گئی خاتم الکتب پر ایمان لے آتے تو اس سے خود انہی کا بھلا ہوتا۔ دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی جو کہ اس دنیا کے بعد آنے والا ہے۔ کہ اس سے ان کو اس دنیا میں حیات طیبہ یعنی پاکیزہ زندگی ملتی۔ اور آخرت میں جنت کی نعیم مقیم سے سرفرازی نصیب ہوتی۔ مگر انہوں نے اس کے برعکس اعراض و استکبار سے کام لیکر الٹا اپنے آپ کو دارین کے خسارے میں ڈال دیا والعیاذ باللہ العظیم

۲۰. سو جب حق پوری طرح واضح ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کی گواہی بھی اس قرآن حکیم کی صورت میں سب کے سامنے آ گئی تو اب اس سے بڑھ کر ظالم، بدبخت اور نامراد اور کون ہو سکتا ہے؟ جو اس گواہی کے خلاف اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے، اور یوں کہے کہ اس نے فلاں اور فلاں کو اپنا شریک بنایا ہے؟ یا وہ اس کی آیتوں کی تکذیب کرے، جبکہ وہ توحید کی واضح تعلیم کے ساتھ اس کے پاس پہنچ گئیں؟ سو ایسے ظالم لوگ کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔

۲۱. اور جن کے زعم اور گھمنڈ میں تم لوگ حق بات سنتے اور ماننے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ اور تم کہا کرتے تھے کہ یہ ہمارے سفارشی ہیں، اور یہ ہمیں اللہ کی پکڑ سے چھڑا اور بچا لیں گے۔ بتاؤ اب وہ کہاں گئے؟ اور تمہارے کام کیوں نہیں آتے؟ اور ظاہر ہے کہ یہ سوال ان سے ان کی توبیخ و تذلیل کے لئے کیا جائے گا، سو یہ خدائے مہربان کا کتنا بڑا کرم و احسان ہے کہ اس نے آخرت میں پیش آنے والے اس جہان غیب کے ان احوال کو اس دنیا میں اس قدر پیشگی اور اتنی صراحت و وضاحت کے ساتھ پیش فرما دیا، تاکہ ایسے لوگ ہوش کے ناخن لیں، اور اس انجام کے پیش آنے سے پہلے سنبھل جائیں۔ اور اپنی اصلاح کر لیں، قبل اس سے کہ فرصت عمر کی یہ مہلت محدود ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔ اور پھر ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے خسارے میں مبتلا ہونا پڑے۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔

۲۳. اور جن کی حاجت روائی و مشکل کشائی کا یہ لوگ زعم رکھتے، اور دم بھرا کرتے تھے، سو اس دن ان میں سے کوئی بھی ان کے کچھ بھی کام نہیں آ سکے گا، کہ وہ سب کچھ بالکل بے حقیقت تھا، اور بے بنیاد تھا

۲۴.    ۱: اَکِنَّہ جمع ہے کِنّ اور کنان کی۔ جس کے معنی پردے اور ڈھکنے وغیرہ کے آتے ہیں اور وَقْرِ کے معنی بوجھ، ثقل اور گرانی کے آتے ہیں، سو اس سے مراد وہ معنوی پردے، حائل، اور ثقل ہیں۔ جو ایسے لوگوں کے اعراض و استکبار اور عناد ہٹ دھرمی کی بناء پر ان کے دل و دماغ اور ان کی آنکھوں اور کانوں پر پڑ جاتے ہیں، جن سے ان کے دل و دماغ اور کان آنکھ وغیرہ فہم و ادراک حق و حقیقت اور علم و شعور کی اہلیت و صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اور جس کے نتیجے میں یہ لوگ شرف انسانیت سے محروم ہو کر حیوانوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بدتر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ سو اس سے اس ضابطہ خداوندی اور سنت الٰہی کو بیان فرمایا گیا ہے جس کو قرآن حکیم میں سورہ بقرہ وغیرہ دوسرے مختلف مقامات پر مختلف اسالیب و انداز سے بیان فرمایا گیا ہے، اسی لئے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمائی جاتی ہے۔ کہ یہ سب کچھ اسی کے قانون و دستور اور اس کی سنت کے مطابق اور اسی کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ

۲:  سو یہ ان کے اعراض و استکبار اور ہٹ دھرمی کا نتیجہ ہے کہ یہ لوگ ہر نشانی دیکھنے پر بھی ایمان لانے کو تیار نہیں ہوتے اور یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں، بلکہ بیان حقیقت ہے سو ان لوگوں کے ایمان نہ لانے کا سبب یہ نہیں کہ ان کے سامنے کوئی عجائب اور کرشمے ظاہر نہیں ہوئے، عجائب سے تو یہ ساری کائنات بھری پڑی ہے۔ آخر یہ سورج و چاند، دریا و پہاڑ، ابر و باد، اور دن رات کا ادلنا بدلنا وغیرہ کیا عظیم الشان عجائب قدرت و حکمت نہیں؟ اور ان میں غور و فکر کا کوئی تھوڑا سامان ہے؟ لیکن جن لوگوں نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہوں اہو و اعراض کی پٹیاں ان پر بندھ چکی ہوں، ان کا کیا علاج؟ ان کو جو بھی اور جتنے بھی کرشمے دکھائے جائیں یہ ان سے بھی اسی طرح آنکھیں بند کر لیں گے۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔

۲۷. یعنی یہ لوگ اپنے اس اعتراف و اقرار میں بھی جھوٹے ہیں کہ اگر ہمیں دنیا میں دوبارہ لوٹا دیا جائے تو ہم اپنے رب کی آیتوں کا انکار نہیں کریں گے، اور ہم ضرور اہل ایمان میں سے ہو جائیں گے۔ چنانچہ اگر ان کو دنیا میں دوبارہ لوٹا بھی دیا جائے تو بھی انہوں نے وہی کچھ کرنا ہے جو اس سے پہلے کرتے رہے تھے، کیونکہ ان کی تکذیب کی علت اور اس کا اصل سبب یہ نہیں تھا کہ ان پر اصل حقیقت واضح نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ یہ لوگ دل سے جانتے تھے کہ یہ قرآن حق ہے اور یہ کہ پیغمبر سچے ہیں اور جزاء و سزا ایک ہونی شدنی حقیقت ہے لیکن حب دنیا، اتباع ہویٰ کبر و غرور اور حسد و ہٹ دھرمی وغیرہ نے ان کی آنکھیں کھلنے نہیں دی تھیں، سو اب اگر یہ لوگ دنیا میں دوبارہ چلے بھی جائیں تو جس طرح یہ لوگ اس سے پہلے دل کی شہادت کے خلاف حق کو جھٹلاتے رہے تھے، آئندہ بھی اسی طرح جھٹلائیں گے اور اپنے اس مشاہدے کو یہ لوگ زیادہ سے زیادہ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح سمجھیں گے اور بس، والعیاذ باللہ

۳۱. سو منکرین آخرت اگرچہ دنیا میں کتنی ہی عیش و عشرت کی زندگی گزاریں وہ بہرحال خسارے میں ہیں۔ اور ایسے ہولناک خسارے میں کہ اس جیسا دوسرا کوئی خسارہ نہیں ہو سکتا، کہ یہ وہ خسارہ ہو گا جس کی تلافی و تدارک کی پھر کوئی صورت ان کے لئے ممکن نہ ہو گی جس قیامت کی تکذیب پر آج یہ لوگ اپنے عناد و ہٹ دھرمی کی بناء پر کمربستہ ہیں کل وہ جب اپنے وقت مقرر ایک حقیقت واقعیہ کی صورت میں ان کے سامنے آ جائے گی تو اس وقت انکی آنکھیں پوری طرح کھل جائینگی، اور ان کو سب کچھ معلوم ہو جائے گا، اور وہ ان کے سامنے اچانک اس طرح ظاہر ہو گی کہ ان کے ہوش اڑ جائیں گے کہ جس چیز کو یہ لوگ بعید از امکان و وقوع سمجھتے تھے۔ وہ اپنی تمام تر قہر مانیوں کے ساتھ ان کے سامنے موجود ہے۔ تو اس وقت یہ لوگ چیخ اٹھیں گے کہ ہائے ہماری کم بختی ہماری اس تقصیر اور کوتاہی پر جو ہم لوگوں نے اپنی دنیاوی زندگی میں اس کے بارے میں روا رکھی تھی۔ اور اس وقت ان کا حال یہ ہو گا کہ انہوں نے اپنے گناہوں کے بوجھ اپنی پیٹھوں پر اٹھا رکھے ہوں گے۔ اور بڑے ہی بُرے بوجھ ہوں گے وہ جو ان لوگوں نے کشف حقائق، اور ظہور نتائج کے اس یوم عظیم میں سب دنیا کے سامنے اپنی پیٹھوں پر اٹھا رکھے ہوں گے۔ وہ ایسے ہولناک بوجھ ہوں گے جو کبھی ان سے کبھی اتریں گے ہی نہیں والعیاذ باللہ جَل وعلا

۳۲. کہ آخرت کی اس اصل حقیقی اور اَبَدی زندگی کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر اسی دنیا کی اس فانی اور عارضی زندگی کے عیش و عشرت کو سب کچھ سمجھے بیٹھے ہو۔ اور اسی کے کھیل تماشے میں مست اور محو ہو۔ اور اسی کے متاع اور حطام کے جوڑنے جمع کرنے میں لگے ہوئے ہو۔ حالانکہ آخرت کا وہ گھر اس سے کہیں بہتر اور بڑھ کر بھی ہے اور دائمی اور ابدی بھی۔ جبکہ اس کے مقابلے میں دنیا اور اس کی ہر چیز عارضی، فانی، اور وقتی ہے سو دائمی اور ابدی زندگی کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر عارضی اور فانی چیزوں کو اپنا مقصد اور نصب العین بنا لینا خساروں کا خسارہ ہے۔ اور ایسا ہولناک خسارہ جس کی تلافی و تدارک کی پھر کوئی صورت ممکن ہو گی والعیاذ باللہ العظیم، اور آخرت کی اس حقیقی اور ابدی زندگی کی کامیابی اور اس کی نعیم مقیم سے سرفرازی کی اساس و بنیاد تقوی و پرہیزگاری ہے۔ جس کے حصول کا موقع یہی دنیاوی زندگی ہے وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی مایحب ویرید، بکل حالٍ من الاحوال

۳۴. سو اس ارشاد سے پیغمبر کی تسکین و تسلیہ کے لئے اس سنت الٰہی اور دستور خداوندی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے جو اس نے اپنے انبیاء اور انکی امتوں کے امتحان کے لئے اختیار فرمایا ہے۔ کہ حضرات انبیاء و رسل اور ان کے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ کی براہِ راست مدد سے سرفرازی کے لئے ابتلاء و آزمائش کے ایک طویل اور صبر آزما مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے اس دوران ان کو انکی امتوں کی طرف سے طرح طرح کی ایذائیں پہنچائی گئیں۔ ان کی تکذیب کی گئی۔ اور اس طرح حق کے مخالفین کے اندر جو کچھ تھا وہ بھی ابھر کر باہر آگیا، اور حضرات انبیاء و رسل اور ان کے ساتھیوں کے اندر جو جو جوہر مخفی و مستور تھے وہ بھی نکھر کر سب کے سامنے آ گئے۔ سو یہی وقت وہ وقت ہوتا ہے جب منکرین حق پر حجت تمام ہو جاتی ہے۔ اور حضرات انبیاء و رسل اور ان کے ساتھیوں کے لئے اللہ کی مدد ظاہر ہوتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر فرمودہ سنت اور اس کا دستور ہے اور اللہ کی سنت کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ تمام رسولوں کی سرگزشتیں اللہ تعالیٰ کی اس سنت کی شاہد ہیں اور ان کی ان سرگزشتوں کا کچھ حصہ آپ کو سنایا بھی جا چکا ہے۔ پس آپ بھی اسی طرح صبر و استقامت سے کام لیں جس طرح کہ ان پہلے رسولوں نے کام لیا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ الایۃ (الاحقاف۔۳۵)

۳۵. کہ جبری ہدایت نہ مفید ہے نہ مطلوب مفید و مطلوب تو وہی ہدایت ہے جو انسان کی چاہت و رغبت اور اس کے اپنے ارادہ و اختیار سے ہو۔ اور وہ چیز ان لوگوں کے اندر ہے نہیں۔ اس لئے ان کو دولت حق و ہدایت سے سرفرازی نصیب نہیں ہو سکتی، پس آپ ان کے پیچھے نہ پڑیں۔ بلکہ ان کو انکے اپنے حال پر چھوڑ دیں، کہ یہ اپنے طبعی اور منطقی انجام کو پہنچ کر رہیں۔ کہ ایسے ہٹ دھرموں کے پیچھے پڑھنا جہالت اور نادانی ہے۔ کہ پتھر پر جونک لگانا کسی کے بس میں نہیں ہو سکتا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔

۳۶. سو انہوں نے بہرحال لوٹ کر اللہ تعالیٰ ہی کے حضور آنا اور وہاں اپنے زندگی بھر کے لئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے۔ وہاں پر ان کا سب حساب کتاب چکا دیا جائے گا۔ اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق چکا دیا جائے گا اور انہی کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کیا جائے گا۔ اور یُرْجَعُوْنَ کے صیغہ مجہول کے ساتھ اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ ایسا بہرحال ہو گا، اور یہ لوگ چاہیں یا نہ چاہیں انہوں نے بہرحال اور آخرکار لوٹ کر اس کے حضور پہنچنا ہے نیز اس ارشاد میں پیغمبر کے لئے تسلیہ و تسکین کا سامان بھی ہے۔ کہ اس سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ لوگ زندہ نہیں مردہ ہیں، جو سننے سمجھنے اور فہم و ادراک کی اہلیت و صلاحیت سے محروم ہیں۔ پس یہ اگر دعوت حق کو سننے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے تو اس میں قصور آپ کا، یاآپ کی دعوت کا نہیں بلکہ خود ان لوگوں کا ہے کہ یہ مردے ہیں جو سنتے سمجھتے نہیں۔ ان کو تو اللہ ہی قیامت کے روز اٹھائے گا۔ اور وہی ان کو اس موقع پر سنائے گا جس کو یہ اس وقت خوب سنیں سمجھیں گے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اَسْمِعْ بِہِمْ وَاَبْصِرْ یَوْمَ یَأْتُوْنَنَا۔ مگر اس وقت اس کے سننے ماننے سے ان کو کوئی فائدہ بہرحال نہیں ہو گا، کہ وہ ماننے اور قبول کرنے کا وقت نہیں ہو گا، پس آپ ان کی وجہ سے غمگین و پریشان نہ ہوں۔ بلکہ ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے حوالے کر دیں، وہی ہے سب کچھ جاننا سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا

۳۹. سو اس سے مشرکین کے ضمیروں کو جھنجھوڑا گیا ہے۔ اور شرک کی تردید کے لئے ایک انفسی دلیل کو ان کے سامنے پیش فرمایا گیا ہے، چنانچہ ان سے خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ جو اس طنطنہ اور غطرسہ کے ساتھ عذاب کا مطالبہ کرتے ہو، تو بھلا یہ تو بتلاؤ کہ تم نے اس سے بچاؤ کے لئے آخر کیا سامان کر رکھا ہے؟ فرض کرو اللہ تعالیٰ وہی عذاب تم پر بھیج دے جس کا مطالبہ تم لوگ کرتے ہو، یا قیامت کی وہی گھڑی تم پر اچانک آ دھمکے جس سے تم لوگوں کو خبردار کیا جا رہا ہے۔ تو پھر کون ہے جس کو تم اپنی مدد کے لئے پکارو گے؟ اگر تم لوگ اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ اس کے کچھ اور شریک بھی ہیں۔ظاہر ہے ایسا کوئی بھی نہیں جس کو تم لوگ ایسے کسی موقع پر اپنی مدد کے لئے پکار سکو۔ سو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمہارا شرک اور شرکاء کا یہ دعوی غلط اور بے بنیاد ہے۔ کیونکہ کسی ایسے ہولناک وقت میں تم لوگ ایک اللہ ہی کو پکارتے ہو۔ اور اس کے سوا دوسروں کو تم یکسر بھول جاتے ہو۔ اور اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے اس وقت تم اسی وحدہٗ لاشریک کو پکارتے ہو۔ اور وہی ہے جو ایسی مصیبت کے وقت تمہاری یا کسی بھی مصیبت زدہ کی مشکل کشائی اور فریاد رسی فرماتا ہے، اور فرما سکتا ہے۔ سو وہ اگر چاہے تو تم سے اس مصیبت کو دور فرما دے کہ حاجت روا و مشکل کشا سب کا بہرحال وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ

۴۳. سو اس ارشاد سے اللہ تعالیٰ کی اس سنت کو بیان فرمایا گیا ہے جو اس نے کسی قوم کے عذاب کے لئے مقرر فرما رکھی ہوتی ہے اور اس کے لئے تاریخی شہادت کو بھی پیش فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ پیغمبر کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے آپ سے پہلے بہت سی قوموں کے پاس اپنے رسول بھیجے تو ان کو مختلف قسم کی مالی اور جسمانی مصیبتوں میں مبتلا کیا تاکہ ان کے دلوں میں خدا کا خوف پیدا ہو۔ ان کی اکڑی ہوئی گردنوں میں خم آ سکے۔ اور وہ سوچیں کہ اگر انہوں نے پیغمبر کی بات نہ مانی۔ تو بالآخر وہ خداوند قدوس کی فیصلہ کن کی گرفت میں آ جائیں گے اور انکو تباہ و برباد کر دیا جائے گا۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ایسے منکر و معاند اور ہٹ دھرم لوگوں نے ان تنبیہی قسم کے عذابوں سے اس طرح کا کوئی سبق نہیں لیا۔ ان کے دل نرم پڑنے کے بجائے اور سخت ہو گئے، شیطان ان کے کاموں کو ان کے سامنے مزین کر کے، اور خوشنما بنا کر ہی دکھاتا گیا جس سے وہ لوگ اپنی بغاوت و سرکشی ہی کی روش پر چلتے گئے۔ اور حق کے آگے جھکنے اور اس کی طرف رجوع کرنے کے بجائے وہ الٹا مست و مغرور ہو گئے اور اس خبط میں پڑھتے چلے گئے کہ ہم جس روش اور راہ پر چل رہے ہیں وہی صحیح اور درست ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے، اور ایسے کہ ان کو قصہ پارینہ بنا کر رکھ دیا جو کہ طبعی نتیجہ اور منطقی انجام ہے کفر و انکار کا، والعیاذ باللہ

۴۴. سو اس سے دستور الٰہی اور سنت خداوندی کے اگلے مرحلے کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ جب ان لوگوں نے ان تنبیہی عذابوں سے کوئی سبق نہ لیا۔ اور یہ اکڑتے اور بگڑتے ہی گئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت امہال کے مطابق ان کے لئے ان کی تمام مطلوبات و مرغوبات کے دروازے کھول دیئے۔ یہاں تک کہ یہ اپنی کامیابیوں پر مست اور مگن ہو گئے، اور ان کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو اس وقت اللہ کے عذاب نے ان کو یکایک اس طرح آپکڑا کہ ان کے حواس اڑ گئے۔ اور یہ اپنے اس آخری اور انتہائی ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے جس کا مستحق انہوں نے اپنے آپ کو بنا لیا تھا۔ اور اس طرح جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی ایسے ظالم لوگوں کی، اور اللہ کی زمین کو پاک کر دیا گیا ان کے ناپاک وجود سے، والحمد للہ رب العالمین

۴۶.    ۱:سو تم لوگ ہماری رحمت و عنایت کی شانوں کو بھی دیکھو کہ ہم کس طرح انداز بدل بدل کر ان لوگوں کو اپنی آیتیں اور نشانیاں سناتے ہیں تاکہ یہ راہ حق و ہدایت کو اپنائیں، تاکہ اس کے نتیجے میں خود ان کا بھلا ہو۔ مگر یہ ہیں کہ اسے موڑے ہوئے ہیں، اور راہ راست کو اپنانے کو تیار نہیں ہوتے۔ سو اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کے قلوب و ضمائر کو جھنجھوڑتے ہوئے اور ان کے دلوں پر دستک دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے پوچھو کہ اگر اللہ تعالیٰ تم لوگوں کی قوت سمع و بصر کو تم سے چھین لے، اور تمہارے دلوں پر ٹھپہ لگا دے تو پھر کون سا ایسا معبود ہے جو تمہاری ان قوتوں کو بحال کر سکے؟ اور تمہیں یہ کھوئی ہوئی چیزیں واپس دے سکے؟ سو جب ایسا کوئی معبود نہیں ہے، اور تم لوگوں کو خود اس کا اعتراف و اقرار بھی ہے، کہ ایسی کوئی بھی ہستی نہیں۔ تو پھر بھی تم لوگ غفلت ولاپروہی کے ساتھ اس کے عذاب کا مطالبہ آخر کیوں اور کس طرح کرتے ہو؟ یہ تم لوگوں کی کیسی مت ماری ہے؟سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ انسان پر اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی عذاب کسی بھی وقت، اور کسی بھی صورت میں آ سکتا ہے، یہ کسی بھی طرح اس کی گرفت و پکڑ سے باہر نہیں ہو سکتا، اس لئے اس کو اس کی گرفت و پکڑ سے ہمیشہ ڈرتے، اور اس کی پناہ مانگتے رہنا چاہیئے، فَلَا یأْمَنُ مَکْرَ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْخَاسِرُوْنَ، والعیاذُ باللہ جل وعلا۔      

۲ : سو اس سے منکرین و غافلین کے دلوں پر ایک اور دستک دی گئی ہے کہ ان سے کہو کہ تم لوگ یہ تو بتاؤ کہ اگر اللہ کا عذاب تم پر بالکل اچانک بغیر کسی انذار اور نوٹس کے بالکل غفلت اور بے خبری میں آ جائے، یا کھلم کھلا دن دہاڑے اور ڈنکے کی چوٹ آ جائے، تو اس کا راستہ آخر کون روک سکتا ہے؟ اور ایسے عذاب کی زد میں وہی لوگ آئیں گے جو اپنے اعراض و انکار پر اڑے ہوئے ہیں۔ اور جو اپنی بد اعمالیوں کی بناء پر اس کے مستحق اور سزاوار ہوں گے۔ سو عقل و نقل کا تقاضہ یہ ہے کہ تم لوگ اس عذاب کا مطالبہ کرنے کے بجائے اس سے بچنے کی فکر کرو۔ کہ اس کے آ جانے کے بعد اس سے بچنے اور بھاگنے کی پھر کوئی صورت تم لوگوں کے لئے ممکن نہیں ہو گی۔

۴۹. اور اسی وحی کی پیروی میں میں تم لوگوں کو اس ہولناک عذاب سے آگاہ اور خبردار کر رہا ہوں جو تمہارے کفر و انکار کے نتیجے میں تم لوگوں پر بالآخر آکر رہنے والا ہے۔ تاکہ تم لوگ اس سے بچنے کی فکر کر سکو۔ سو میری دعوت و پکار سراسر تم لوگوں کی بھلائی اور خیر خواہی کے جذبے پر مبنی ہے اس سے آگے بڑھ کر میں نے نہ کوئی دعوی کیا ہے، اور نہ کر سکتا ہوں۔ تو پھر تم لوگ مجھ سے ان چیزوں کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو، جو میرے علم و اختیار میں نہیں؟میرے پاس نہ تو اللہ کے خزانے ہیں۔ نہ میں غیب جانتا ہوں۔ اور نہ ہی میں نے کبھی یہ دعوی کیا کہ میں کوئی فرشتہ ہوں۔ میں تو تم لوگوں سے صرف یہ بات کہتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور میرا کام اس وحی کی پیروی کرنا ہے جو میری طرف میرے رب کی جانب سے بھیجی جاتی ہے اور بس اب یہاں دیکھئے کہ اس ارشاد ربانی میں پیغمبر کس صراحت و وضاحت اور صحت و صفائی کے ساتھ اپنے سے علم غیب کی نفی کرتے ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ میں غیب نہیں جانتا۔ مگر اہل بدعت کا اس کے باوجود کہنا اور ماننا ہے کہ پیغمبر عالم غیب ہوتے ہیں۔ فالی اللہ المشتکیٰ۔ وہو المستقان بکل حال من الاحوال، وفی کل حین من الاحبان، آیت کریمہ کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا کہ اندھا اور آنکھوں والا باہم برابر نہیں ہو سکتے۔ تو کیا تم لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے؟

۵۱. واضح رہے کہ مشرکین مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کے مقابلے میں اور ان کی مخالفت میں جن حیلوں بہانوں سے کام لیتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپ کے پیروکار غریب اور مفلس لوگ ہیں اس بناء پر اول تو ان لوگوں کا کہنا تھا کہ اگر یہ دین اللہ کی طرف سے ہوتا۔ اور حق ہوتا جیسا کہ محمد کا دعوی ہے (صلی اللہ علیہ و سلم) تو پھر یہ غریب اور مفلس لوگ ہم سے پہلے اس کو نہ اپناتے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا لَوْ کَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَا اِلَیْہِ الایٰۃ (الاحقاف۔۱۱) یعنی کافر لوگوں کا ایمان والوں کے بارے میں کہنا ہے کہ اگر یہ دین سچا اور کوئی خیر کی چیز ہوتا تو یہ لوگ ہم سے کبھی اس کی طرف آگے نہ نکل سکتے۔ بلکہ ان کے بجائے ہم اس کو سب سے پہلے اپناتے۔ اور جب ہم نے ایسے نہیں کیا، تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ خیر اور حق نہیں ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم، پھر ان کا کہنا تھا کہ کم از کم یہ کیا جائے کہ ان مفلسوں اور قلاشوں کو ہماری مجلسوں سے دور رکھا جائے جہاں ہم بیٹھیں ان کو وہاں نہ آنے دیا جائے کہ ان کے ساتھ بیٹھنا ہماری توہین ہے والعیاذُ باللہ جل وعلا، تو ان متکبروں کے اس متکبرانہ مطالبے کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ ان بندگان صدق و صفا کو اپنے سے دور نہیں کرنا جو صبح و شام اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں، اور اسی کی رضا و خوشنودی کے طالب و متلاشی ہیں۔ اگر ان کو اپنے سے دور کر دیا تو آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔ یہاں پر خطاب اگرچہ پیغمبر سے ہے، لیکن سنانا دراصل ان منکرین و مکذبین ہی کو مقصود ہے جو ان مخلصین کو دور کرنے کا مطالبہ کرتے تھے اور اس انداز خطاب میں دراصل بلاغتِ کلام کا یہ طریقہ و اسلوب کار فرما ہے کہ اہل حق کو حقیر جاننے والے، اور ان کو اپنی مجلسوں سے ہٹانے کا مطالبہ کرنے والے یہ لوگ اس قابل نہیں کہ ان سے براہ راست خطاب کیا جائے۔ اس لئے ان کو یہ بات پیغمبر کے توسط سے سنائی جا رہی ہے۔ کہ ان لوگوں کا یہ کافرانہ اور متکبرانہ مطالبہ بالکل مردود اور ناقابل قبول ہے۔

۵۴. سو اس ارشاد سے پیغمبر کو ان بندگان صدق و صفا کے ساتھ لطف و عنایت اور رحمت و شفقت کا معاملہ کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے جن کے لئے کفار قریش نے دھتکار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اصل قدر و قیمت صدق و اخلاص، اور ایمان و یقین ہی کی ہے، جس سے یہ بندگان صدق و صفا مالا مال ہیں، سو پیغمبر کو خطاب کر کے ہدایت فرمائی گئی کہ جب آپ کے پاس ہمارے یہ بندے آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ سلامتی اور رحمت کی دعا کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا کریں اور ان کو ہماری طرف سے یہ خوشخبری سنا دیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے با ایمان بندوں پر رحمت فرمانے کو اپنے اوپر واجب کر رکھا ہے، کہ اس کی یہاں اصل قدر و قیمت صدق و اخلاص اور ایمان و یقین کی دولت ہی کی ہے جس سے یہ حضرات مالا مال ہیں، پس وہ ان کو اپنی رحمت سے ضرور نوازے گا اگر انھی میں سے کسی سے نادانی کی بناء پر کوئی غلطی صادر ہو جائے اور اس کے بعد وہ توبہ اور اصلاح کرے تو اللہ بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے۔ فاغفرلی وارحمنی یا ربی فانک الغفور الرحیم، وانا استغفرک واتوب الیک،

۵۶. یعنی جس عذاب کے لئے تم لوگ مجھ سے جلدی مچائے ہوئے ہو وہ میرے پاس نہیں ہے، اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، وہی حق بیان فرماتا ہے، اور وہی ہے سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے، اس لئے عذاب کے بارے میں فیصلہ اسی کے حوالے اور اسی کے علم میں ہے۔ میرا اس میں کوئی دخل نہیں، میرا کام تو صرف یہ ہے کہ میں تم لوگوں کے عذاب سے خبردار کر دوں تاکہ تم اس سے بچ سکو قبل اس سے کہ وہ تم پر آ دھمکے والعیاذُ باللہ، سو پیغمبر کا اصل کام انذار اور تبلیغ ہوتا ہے اور بس منکروں پر عذاب لے آنا نہ ان کے بس میں ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے ذمے، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی مشیئت پر مبنی و موقوف ہوتا ہے، سبحانہ و تعالیٰ۔

۵۷. سو اس ارشاد میں ایک طرف تو ظالموں کے لئے تہدید اور دھمکی ہے کہ یہ لوگ اور ان کا ظلم سب اللہ کے علم میں ہے، پس یہ اپنے ظلم کے بھگتان سے بچ نہیں سکیں گے، اللہ تعالیٰ اپنے حلم و کرم سے ان کو ڈھیل دے رہا ہے تاکہ یہ اس ہولناک انجام سے بچنے کی فکر و کوشش کر سکیں۔ نہیں تو پھر یہ اپنے بچانے کو لبریز کر لیں تاکہ اس کے بعد ان کے لئے کسی عذر و معذرت کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ جائے۔ دوسری طرف اس میں اہل ایمان کے لئے تفویض کا درس ہے کہ جب یہ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں تو پھر تمہیں انکے بارے میں زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ ان سے خود نبٹ لے گا، اور اپنے علم و حکمت اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق نبٹے گا۔ تیسری طرف اس میں ان ظالموں کی حماقت اور بدبختی کا بھی اظہار ہے کہ یہ لوگ پیغام حق و ہدایت سے منہ موڑ کر خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ تو ان کو اپنی رحمتوں سے نوازنا چاہتا ہے مگر یہ لوگ اپنے لئے عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں، اللہ ان کو روٹی دے رہا ہے مگر یہ اس سے پتھر مانگ رہے ہیں، اس کی طرف سے ان کو مچھلی عنایت فرمائی جا رہی ہے، مگر یہ سانپ کے درے ہیں، سو یہ کتنی بڑی بدبختی اور کس قدر حرمان نصیبی ہے اپنا رہے ہیں، اور یہی نتیجہ ہوتا ہے نور ایمان سے محرومی کا، کہ اس سے انسان کی مت مار دی جاتی ہے، والعیاذ باللہ

۵۸. سو اس کا علم ایک ایسی عظیم الشان اور کھلی کتاب میں ہے جس سے کوئی چیز غائب اور مخفی نہیں ہو سکتی۔ ہر خشک و تر اس کے اس بے مثال رجسٹر میں درج ہے اس کی کائنات کے سب خزانے اور ان خزانوں کی تمام چابیاں اسی کے علم اور اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہیں، وہی جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کرتا ہے اور جس کے لئے چاہے تنگ فرماتا ہے جیسا کہ اس کے علم اور اس کی حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔ سو معاملہ اسی کی مشیئت و حکمت کے تابع ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا لَہ، مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیَقْدِرُ(الشوریٰ۔ ۱۲) یعنی اسی کے پاس ہیں چابیاں آسمانوں اور زمین کے تمام خزانوں کی۔ وہ جس کے لئے چاہتا ہے روزی کشادہ فرماتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ فرماتا ہے، یعنی اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق سو اس کے کمال علم و حکمت کا یہ اعتقاد ہی ہے جو اہل ایمان کے اندر کامل تفویض کامل رضابالقضاء اور کامل توکل و اعتماد پیدا کرتا ہے اور اس ضمن میں معمولی غلطی بھی شرک کی راہیں کھول دیتی ہے۔ اور یہی چیز آخرت پر سچے پکے ایمان کی اساس و بنیاد ہے، اور اسی سے انسان کے اندر خشیت خداوندی پیدا ہوتی ہے جو انسان کو صحیح راہ پر ڈالتی ہے۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلی مایحب ویرید، بکل حال من الاحوال،

۶۱. سو مالک اور مولائے حقیقی سب کا وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ سب نے آخرکار لوٹ کر بہرحال اسی وحدہٗ لاشریک کے حضور حاضر ہونا ہے۔ جہاں انہوں نے اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے۔ تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہو سکیں، سو اس کے حضور لوٹ کر ان سب نے جانا ہے، اور بہرحال جانا ہے کہ مولائے حقیقی سب کا وہی وحدہٗ لاشریک ہے اس کے سوا لوگوں نے جو مختلف شرکاء اور شفعاء گھڑ رکھتے ہیں، وہ سب بے حقیقت اور بے بنیاد ہیں۔ وہ ان کے کچھ بھی کام نہیں آ سکیں گے، کہ ان کی کوئی اصل اور حقیقت ہے ہی نہیں۔

۶۲. سو اس سے ایک طرف تو توحید کی ایک انفسی دلیل سامنے آتی ہے کہ مشکل اور سختی کے ایسے مواقع پر مشرک لوگ اپنے خود ساختہ اور من گھڑت حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کو بھول کر اسی وحدہٗ لاشریک کو پکارتے ہیں، جس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کے اندر اگرچہ وہ مشرک انسان ہی کیوں نہ ہو، اس کے تحت الشعور میں توحید خداوندی کا عقیدہ مرکوز اور موجود ہے۔ مگر فطرت کی اس آواز کو دبا کر مشرک لوگوں نے شرک کو اپنے اوپر خود سوا کر رکھا ہے اور دوسری طرف اس سے ایسے لوگوں کی ناشکری، بے انصافی اور بدعہدی بھی سامنے آتی ہے کہ مشکل اور سختی کے اس وقت میں تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو پکار کر اس سے یہ عہد کرتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اس مشکل سے بچا کر نکال لیا تو ہم ضرور تیرے شکر گزار رہیں گے۔ مگر اس کے بعد ان کا حال پھر وہی پہلے والا ہو جاتا ہے۔ سوائے کچھ ہی لوگوں کے جو راہ راست پر رہتے ہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا فَلَمَّا نَجّٰہُمُ اِلَی الْبَرِّ فَمِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ (لقمٰن۔۳۲) یعنی جب اللہ تعالیٰ ان کو سمندر کی موجوں سے نکال کر خشکی میں لے آتا ہے تو ان میں سے کچھ ہی راست رو رہتے ہیں۔

۶۴. سو اللہ کا عذاب کبھی بھی کہیں سے بھی۔ اور کسی بھی شکل میں آ سکتا ہے۔ والعبادُ بِہٖ جَلَّ وَعلا۔ پس اس سے کبھی بھی غافل اور بے فکر و لاپروا نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اس سے ہمیشہ ڈرتے اور بچتے رہنے کی فکر و کوشش میں رہنا چاہیے یہی کہ اس کے عذاب سے بے فکری و لاپرواہی بڑے ہی سخت اور انتہائی ہولناک خسارے کا سودا ہے۔ اس لئے اس سے بے فکر اور لاپروا وہی لوگ ہوتے ہیں جو سخت خسارے میں مبتلا ہونے والے ہوتے ہیں، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا فَـلَا یَأْمَنُ مَکْرَ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْخَاسِرُوْنَ (الاعراف۔٩٩) والعیاذ باللہ العظیم۔

۶۶. نباء کسی بڑے حادثے کی خبر کو کہا جاتا ہے، یہاں اس سے مراد اسی عذاب کی خبر ہے جس سے قرآن حکیم خبردار کرتا ہے۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر کی اصل ذمہ داری تو  انذار اور تبلیغ ہے۔ اور اس کو انہوں نے پورا کر دیا۔ اور با حسن وجوہ پورا کر دیا۔ اور اس سے وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے، اب رہ گئی یہ بات کہ وہ عذاب کب اور کس شکل میں آئے گا تو اس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے، البتہ اس بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ مقرر وقت آ جائے گا تو تم لوگ اصل حقیقت کو خود دیکھ لو گے اور اچھی طرح دیکھ لو گے، والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین،

۶۷. سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ کوئی شخص یا گروہ اگر کھلم کھلا، اور اعلانیہ طور پر خدا و رسول کے خلاف کسی طرح کا کوئی بکواس کرے اور داعیِ حق کے لئے اس کی مخالفت اور تردید کرنا بھی ممکن نہ ہو۔ تو ایسے میں وہاں پر اور ایسے لوگوں کے ساتھ خاموش بیٹھے رہنا ناجائز، اور اس کی غیرت ایمانی اور تقاضائے دین کے خلاف ہے۔ کہ اس سے وہ حمیت حق مجروح ہوتی ہے جو کہ تقاضائے ایمان ہے۔ اور جس کا ضعف شدہ شدہ انسان کو اس نفاق میں مبتلا کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں آخرکار وہ حمیت و حمایت حق کی دولت سے ہی محروم ہو جاتا ہے۔ اور وہ توہین دین کے ارتکاب کرنے والوں کے خلاف زبان کھولنے کی توفیق و سعادت سے بھی عاری ہو جاتا ہے جو کہ بہت بڑا خسارہ ہے اور بڑی ہولناک، محرومی والعیاذُ باللہ العظیم۔

۶۹.    ۱: سو دنیاوی زندگی کی عیش و عشرت کی بناء پر اور اس کی خواہشات و ملذات کو اپنا اصل مقصد بنا کر یہ لوگ دنیا میں ایسے مست و مگن اور اس قدر غافل و لاپروہ ہو گئے کہ حق بات کو سننے اور ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے، دنیاوی زندگی کی چکا چوند نے ان کی آنکھوں پر ایسی پٹی باندھ رکھی ہے کہ اس کی بناء پر یہ اسی دنیا کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور اپنے زعم کے مطابق ان کا کہنا اور ماننا ہے کہ ہم کامیاب زندگی گزار رہے ہیں، ہم عیش کر رہے ہیں کہیں سے ہمارے اطمینان میں کوئی رخنہ نہیں ہے اگر ہم لوگ غلط ہیں اور ہمارا راستہ اگر صحیح نہیں جیسا کہ اہل ایمان کا کہنا ہے تو پھر ہمیں یہ سب کچھ آخر کیوں ملا ہوا ہے؟ اور اگر موت کے بعد دوبارہ ہمیں اٹھنا ہوا بھی تو وہاں بھی سب کچھ ہم ہی لوگوں کو ملے گا کہ ہم کو یہ دنیا جو ملی ہوئی ہے، جو اس بات کی دلیل اور علامت ہے کہ ہم لوگ ٹھیک اور راست رو ہیں، سو دنیاوی عیش و عشرت کا یہ پہلو بڑا خطرناک اور تباہ کن ہے کہ اس کی بناء پر اہل باطل کلمہ حق کو سننے اور ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے اور اس طرح یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے اس خسارے میں جا گرتے ہیں جس سے نکلنے اور بچنے کی پھر کوئی صورت ان کے لئے ممکن نہیں رہتی۔ حالانکہ اس دنیا ساری کی حیثیت بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک پرکاہ یعنی مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں تو پھر اس میں سے کچھ کروڑوں یا اربوں کا مل جانا بھی کیا حیثیت اور وقعت رکھ سکتا ہے؟سو بڑے ہی مغالطے اور سخت دھوکے میں ہیں وہ لوگ جو اس بناء پر دین حق سے منہ موڑے ہوئے ہیں، والعیاذُ باللہ العظیم۔      

۲:  سو معاند اور ہٹ دھرم لوگوں کے اس معاندانہ رویے کی پرواہ کئے بغیر آپ اس قرآن کے ذریعے لوگوں کو ان کے انجام سے آگاہ اور خبردار کرتے رہیں۔ اور ان کو اس حقیقت سے آگہی بخشتے رہیں۔ کہ آگے کی منزل میں ہر کسی کو اس کے اپنے ایمان و عقیدہ ہی سے سابقہ پیش آنا ہے۔ وہاں پر نہ کوئی کسی کا حامی و مددگار ہو گا اور نہ کوئی کسی کا شفیع اور سفارشی ہو گا، اور نہ کسی سے کسی طرح کا کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا۔ سو ان کو ان اہم اور بنیادی حقائق سے خبردار کرتے ہیں۔ تاکہ لوگوں کو آگہی ہو جائے اور کوئی بے خبری میں اپنے اعمال کی شامت میں گرفتار نہ ہو جائے۔ والعیاذ باللہ العظیم، کیونکہ آپ کا کام بہرحال خبردار کرنا، اور لوگوں کو ان کے انجام سے آگہی بخشنا ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا فَذَکِّرْ اِنَّمَا اَنْتَ مُذَکِّرْ (الغاشیۃ،۲۱) آگے حق بات کو منوا لینا، اور ان کو راہِ حق پر ڈال دینا نہ آپ کے ذمے ہے، اور نہ ہی آپ کے بس میں،

۷۰. کہ وہی وحدہٗ لاشریک جو اس سارے جہاں کا پروردگار ہے وہی اس لائق اور اس کا مستحق ہے کہ ہم اپنی گردنیں اس کے آگے ڈال دیں، اور اسی کے حضور سر تسلیم خم ہو جائیں، سو اس سے مشرکین کی دعوت شرک کا جواب دے دیا گیا کہ تم لوگ تو ہمیں ان چیزوں کی پوجا و پرستش کی طرف بلا رہے ہو جو ہمیں نہ کوئی نفع دے سکیں، اور نہ کسی طرح کا کوئی نقصان پہنچا سکیں، جبکہ ہمیں اس ذات اقدس و اعلیٰ کے آگے سرافگندگی اور حوالگی کا حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے، جو کہ سب جہانوں کا خالق و مالک، اور ان کا پروردگار ہے۔ اور جب سارے جہانوں کا رب اور ان کا پروردگار اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے۔ تو پھر اس کے سوا اور کون ہو سکتا ہے جس کے آگے اپنے آپ کو جھکایا جائے اور کیونکر اور کس بنیاد پر؟ سو اگر رب العالمین کے اسی ایک لفظ میں صحیح طور پر غور و فکر سے کام لیا جائے تو شرک کے سب دروازے بند ہو جاتے ہیں وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی مایحب ویرید۔

۷۱. سو کوئی مانے یا نہ مانے اور تسلیم کرے یا نہ کرے، یہ بہرحال ایک اٹل اور قطعی حقیقت ہے کہ سب نے بہرحال آخرکار اسی وحدہٗ لاشریک کے حضور حاضر ہونا ہے، اور وہاں پہنچ کر اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا جواب دینا، اور اس کا پھل پانا ہے اور وہاں ہر انسان کو اس کے اپنے ایمان و عقیدہ عمل و کردار اور تقویٰ و پرہیزگاری کی پونجی ہی کام آ سکے گی، پس ہر کوئی دیکھ لے کہ وہ آنے والے اس وقت کے لئے کیا پونجی لے کر جا رہا ہے؟ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَّاتَّقُوا اللّٰہَ، الایۃ۔

۷۴. سو کائنات میں غور و فکر کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ اس کے ذریعے انسان اپنے خالق و مالک کی معرفت سے سرشار ہو، اسی سے صحیح غور و فکر اور صحیح عمل کے دروازے کھلتے ہیں، انسان کو راہ حق و ہدایت نصیب ہوتی ہے، اور اسی سے اس کو زندگی کا سرا بھی ہاتھ آتا ہے، اور اس کے منتہاء کا بھی پتہ چلتا ہے۔ کہ اس حکمتوں بھری کائنات کا خالق و مالک کون ہے؟ اس کا ہم پر حق کیا ہے؟ اور اس کے اس حق کو ادا کرنے کی صورت کیا ہو سکتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ؟ جبکہ فلسفی اور سائنسدان کے غور و فکر کا سارا زور اور مدار و محور صرف مادہ اور معدہ کے تقاضوں پر ہوتا ہے، اور بس، جس کے نتیجے میں وہ نہ صرف یہ کہ انسان اصل مقصود کی معرفت اور اس کے ادراک سے محروم ہوتا ہے۔ بلکہ اس سے اور دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور اس کا غورو فکر اس کو راہ حق و ہدایت سے قریب کرنے۔ اور اس کو اپنانے کے بجائے۔ الٹا اس کے لئے بُعد اور دوری کا باعث بن جاتا ہے اور وہ مادیت اور مادہ پرستی ہی میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ الا ماشاء اللہ

۷۵. کیونکہ جو خود چڑھتے ڈوبتے اور آتے جاتے ہیں وہ اپنی زبان حال سے پکار پکار کہہ رہے ہیں کہ وہ خود مختار نہیں ہیں۔ بلکہ وہ کسی اور کے بندے اور محکوم اور اس کے حکم و ارشاد کے پابند ہیں۔ سو ڈوبنے والے خدا نہیں ہو سکتے پس ڈوب گئے مقدر ان کے جن کے خدا ڈوب گئے۔ والعیاذُ باللہ العظیم، سو حضرت ابراہیم نے لَا اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ (میں ڈوب جانے والوں سے محبت نہیں کرتا) کے اس چھوٹے سے جملے سے ایک طرف تو شرک کی جڑ کاٹ دی کہ ڈوبنے چڑھنے والی مخلوق کبھی معبود نہیں بن سکتی۔ اور دوسری طرف اس سے آپ نے حضرت معبود برحق کے ساتھ تعلق کی نوعیت اور اس کے حق عبادت و بندگی کے سبب اور باعث کو بھی واضح فرما دیا، اور وہ ہے محبت، کہ محبت کا اصل اور حقیقی حقدار وہی ہے۔ پس عبادت و بندگی کی ہر قسم اور شکل بھی اسی کا حق ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۷۶. سو اس سے حضرت ابراہیم نے دعوت حق و ہدایت اور اس کی تعلیم و تلقین کے سلسلہ میں اپنا قدم مزید آگے بڑھایا۔ چنانچہ اس سے پہلے تو آپ نے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرمایا تھا کہ ڈوبنے والے خدا اور معبود نہیں بن سکتے۔ مگر اب اس میں ترقی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ڈوبنے والوں کو معبود بنانا کھلی ہوئی ضلالت اور گمراہی ہے، اور ساتھ ہی اس کی بھی تصریح فرما دی کہ یہ ضلالت و گمراہی کوئی معمولی چیز نہیں، بلکہ یہ بڑی ہی حسرت و اندوہ کی چیز ہے، نیز اس ارشاد سے آنجناب نے اس اہم اور بنیادی حقیقت کی بھی تصریح فرما دی کہ ہدایت کا سرچشمہ خداوند قدوس کی ذات اقدس ہی ہے وہ اگر ہدایت نہ بخشے تو انسان ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر اس کے درپے ہو جاتا ہے، اور وہ مخلوق میں سے مختلف اشیاء کی چمک دمک دیکھ کر، اور ان کے اثرات و فوائد کی بناء پر، ان کے آگے جھک پڑتا ہے، اور سجدہ ریز ہو جاتا ہے اس لئے اللہ وحدہٗ لاشریک کی ہدایت و عنایت کے بغیر کسی کو حق و ہدایت کی دولت نصیب نہیں ہو سکتی، اور پھر یہ ساری باتیں چونکہ حضرت ابراہیم نے ان مشرکوں کو خطاب کئے بغیر اپنے آپ ہی سے کہیں اس لئے ان کے سننے سے کسی کے اندر چڑنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی تھی بلکہ جس کے اندر بھی غور و فکر کی کچھ صلاحیت ہوئی ہو گی، وہ ضرور سوچ میں پڑ گیا ہو گا، کہ ایک طرف تو اس شخص کا یہ حال ہے کہ یہ اپنی ہدایت کے لئے اس قدر مضطرب و بے قرار ہے اور ایک طرف ہم لوگ ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اور اپنی جگہ سے ہلنے کھلنے، اور حرکت کرنے کا نام بھی نہیں لیتے، یہ کیسی بے حسی اور بدبختی ہے؟

۷۸. سو اس موقع پر حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے عقیدہ توحید اور شرک سے اپنی برأت و بیزاری کے بارے میں صاف و صریح طور پر اعلان بھی فرما دیا اور اس کے لئے ان لوگوں کے سامنے ایک واضح حجت اور دلیل بھی پیش فرما دی۔ چنانچہ آپ نے اعلان فرمایا کہ میں نے تو اپنا رُخ اس ذات کی طرف موڑ دیا، اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیا جو آسمانوں اور زمین کی اس پوری کائنات کی خالق و مالک ہے۔ کہ جب اس کائنات کی تخلیق و تکوین، اور اس کی حکومت و فرمانروائی میں کوئی اس کا شریک نہیں، تو پھر اس کے حق عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک وسہیم آخر کس طرح اور کیونکر ہو سکتا ہے؟ پس میں ہر طرف سے یکسو ہو کر اسی کا ہو گیا ہوں۔ اور میرا مشرکوں سے کسی بھی طرح کا کوئی لگاؤ نہیں۔

۷۹. یعنی کیا تم لوگ ہوش میں آتے اور سبق نہیں لیتے جو مجھ سے اس طرح کی باتیں کرتے ہو؟ بہر کیف جب حضرت ابراہیم نے صاف طور پر عقیدہ توحید کا اعلان بھی فرما دیا، اور اس کا بھی کہ میرا مشرکوں سے کوئی لگاؤ اور واسطہ نہیں، تو اس پر آپ کی قوم آپ سے بحث و جدال کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اور آپ کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا، جیسا کہ اوہام پرست مشرکوں کا طریقہ اور وطیرہ ہوتا ہے۔ پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے، سو انہوں نے حضرت ابراہیم کو ڈراتے اور دھمکائے ہوئے ان سے کہا کہ آپ ہمارے معبودوں سے نفرت و بغاوت کا اعلان کرتے ہو تو ان کی پکڑ میں آ جاؤ گے۔ یہ تمہیں اندھا کر دیں گے۔ اپاہج بنا دیں گے، تم پر آسمان سے بجلی گرا دیں گے، تم بری موت مرو گے، وغیرہ وغیرہ، مگر حضرت ابراہیم نے اس کے جواب میں تو بہرحال ان لوگوں سے فرمایا کہ میں ان چیزوں سے نہیں ڈرتا جن کو تم لوگوں نے اس کا شریک ٹھہرا رکھا ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۸۲. پس وہ رب علیم و حکیم اپنے کمالِ علم اور اپنی حکمت بے پایاں کے تقاضوں کے مطابق جس کو چاہے اور جس قدر چاہے نوازے، اور وہ جس کو بھی مراتب و درجات سے نوازتا ہے، اپنے کمالِ علم و حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہی نوازتا ہے۔ اور جس کو جو کچھ عطاء فرماتا ہے اس کی اہلیت اور لیاقت کے مطابق ہی عطاء فرماتا ہے۔ سو انسان اگر عقل و فکر سے کام نہ لے تو اپنے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھروں کو بھی معبود بنا کر سجدے کرتا، اور ان سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کا امیدوار بن جاتا ہے۔ اور اگر وہ عقل و فکر سے صحیح کام لے تو شمس و قمر، اور زہرہ و مشتری تک بھی اس کے آگے گرد راہ بن جاتے ہیں، سبحان اللہ! کتنی بڑی اور کس قدر عظیم الشان اور انقلاب آفریں دولت و عنایت ہے حق و ہدایت کی یہ دولت عنایت کہ اس سے انسان کیسا بدل جاتا ہے کیا سے کیا ہو جاتا ہے، اور یہ کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے؟ اور اس سے سرفرازی کا اصل دار و مدار انسان کے اپنے قلب و باطن پر ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، سبحانہ و تعالیٰ۔

۸۳. سو ان حضرات کو ہدایت کی یہ دولت اسی لئے نصیب ہوئی کہ یہ نیکوکار تھے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی دی بخشی صلاحیتوں کو ان کے صحیح مصارف میں صرف کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ان عظیم الشان عنایات سے نوازا، کہ اس کی تو شان ہی نوازنا ہے۔ اور وہی جانتا ہے کہ کس کے اندر کی صلاحیت و کیفیت کیا ہے، اور کون کس اور کتنی عنایت و نوازش کا مستحق اور اس کا اہل ہے؟ سبحانہ و تعالیٰ، سو ان حضرات کو جو کچھ ملا وہ ان کو کسی خاندانی وراثت وغیرہ کی وجہ سے نہیں ملا۔ بلکہ یہ سب کچھ ان کی اپنی صفات اور اخلاق کا نتیجہ تھا۔ سو نیکوکاری ذریعہ سرفرازی ہے اللہ نصیب فرمائے اور علی وجہ الکمال نصیب فرمائے۔ اٰمین ثم اٰمین یا ربِّ العالمین۔

۸۷. سو اس سے راہ حق و ہدایت کی تعیین و تشخیص فرما دی کہ وہ وہی ہے جو حضرات انبیاء و رسل اور ان کی پیروی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عنایت فرمائی گئی ہے۔ اس کے سوا باقی جتنی بھی راہیں ہیں وہ سب شیطان کی نکالی ہوئی راہیں ہیں، پس ہدایت و نجات کی راہ صرف توحید خداوندی کی راہ ہے۔ اور اسی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی ایسی خاص عنایات سے نوازتا ہے، ورنہ اگر اس میں شرک کی کوئی آمیزش آ جائے تو سب کچھ اکارت چلا جاتا ہے۔ والعیاذ باللہ، اسی لئے یہاں پر اس کے بعد ارشاد فرمایا گیا کہ اگر یہ حضرات بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے ایسے عظیم الشان درجات و مراتب سے نوازا ہے، اگر بالفرض یہ بھی کہیں شرک میں مبتلاء ہو جاتے تو ان کا کیا کرایا بھی سب اکارت چلا جاتا۔ محض اس بناء پر انکی یہ برگزیدگی قائم نہ رہتی کہ یہ حضرت نوح یا حضرت ابراہیم جیسی عظیم الشان ہستیوں کی اولاد ہیں، کہ وہاں کا معاملہ صرف فلاں ابن فلاں کی بناء پر نہیں ہو سکتا،

۸۸. یعنی یہ حضرات جن کا ذکر اوپر ہوا ہے ان کو ہم نے کتاب حکم، اور نبوت، کی عظیم الشان عنایات سے نوازا ہے۔ اور انہوں نے ان عظیم الشان عنایات کی قدر کی تو یہ اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان انعامات کے مستحق ٹھہرے۔ اب انہی نعمتوں اور عنایتوں سے ہم نے تمہارے ذریعے (اے پیغمبر!) ان لوگوں یعنی اہل مکہ کو نوازا ہے۔ اگر یہ اس کی قدر کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے انعامات کے مستحق ٹھہریں گے، کہ اللہ تعالیٰ کی عطاء عام ہے۔ لیکن اگر انہوں نے ان نعمتوں کی ناقدری کی تو تم ان کی پرواہ نہ کرو کہ ہم نے اس ذمہ داری کو اٹھانے کے لئے ایسے لوگوں کو مقرر کر دیا ہے جو اس کے ناقدری کرنے والے نہیں ہوں گے یعنی حضرت صحابہ کرام اور ان کے متبعین، علیہم الرحمۃ والرضوان،

۸۹. سو اس ارشاد سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ یہ قرآن حکیم محض ایک عظیم الشان تذکیر و یاد دہانی ہے ان بنیادی حقائق کی جو انسان کی فطرت کے اندر و دیعت ہیں، مگر لوگوں نے اتباع ہویٰ، اور اپنی خود ساختہ بدعات و خرافات اور اپنی جہالت کی بناء پر ان کو دبا دیا ہے۔ اور جن کی تعلیم و تلقین ان تمام رسل نے فرمائی تھی جن کا ذکر اس سے پہلے ہو چکا ہے سو جو لوگ اس تذکیر و یاد دہانی کو اپنائیں گے وہ خود اپنا ہی بھلا کریں گے اور جو اس سے منہ موڑیں گے وہ خود اپنی دنیا و آخرت خراب کریں گے۔ کیونکہ ایسا کرنے والے لوگ اندھے اور اُوندھے بن کر رہ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ آخرکار وہ اپنے بطن و فرج کی خواہشات کی تحصیل و تکمیل سے آگے سوچنے سمجھنے کے اہل ہی نہیں رہتے، اور یہی ہے سب سے بڑا خسارہ جو کہ خساروں کا خسارہ ہے والعیاذُ باللہ العظیم۔

۹۰.    ۱: یہ قول یہود بے بہبود کا تھا جن کا اصل مقصد یہ تھا کہ حضرت موسیٰ کی کتاب و شریعت کے بعد چونکہ کسی نئی کتاب و شریعت کی ضرورت نہیں تھی۔ اس لئے ان کے بعد کسی بشر پر کوئی چیز نہیں اتری۔ یعنی اس سے ان کا اصل مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت و رسالت اور آپ کی طرف بھیجی جانے والی وحی و کتاب کا انکار کرنا تھا۔ لیکن چونکہ صاف اور صریح لفظوں میں ایسا کہنے سے عربوں کی قومی حمیت و غیرت کے بھڑک اٹھنے کا اندیشہ تھا، اس لئے انہوں نے اس بات کو اس انداز و اسلوب میں کہا تاکہ اپنا مطلب بھی نکال لیں، اور کسی بدگمانی کے پیدا ہونے کا اندیشہ بھی نہ ہو۔      

۲:  سو اس سے یہود کے اس قولِ باطل کی تردید کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے پوچھو کہ اچھا تو پھر اس کتاب کو کس نے اتارا تھا جو حضرت موسیٰ پر ہدایت اور نور بن کر نازل ہوئی تھی؟جس کو تم لوگوں نے ورقے ورقے کر رکھا ہے۔ جن میں سے کچھ کو تو تم لوگ ظاہر کرتے ہو، اور بہت کو تم چھپاتے ہو، سو اس سے ان بدبختوں کی بے قدری اور ناشکری کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ اور نئی کتاب اور نئی وحی کی ضرورت کا انکار بھی۔ کیونکہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے روشنی اور ہدایت بنا کر اتارا تھا اس کو تو ان لوگوں نے ضائع کر دیا۔ تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو کس طرح روشنی سے محروم، اور تاریکیوں میں بھٹکتا چھوڑ سکتا ہے؟ جبکہ اس نے اپنے وعدہ کرم کے مطابق اپنے بندوں کی ہدایت و راہنمائی کو اپنے اوپر لازم قرار دے رکھا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اِنَّ عَلَیْنَا لَلْہُدیٰ (اللیل۔ ۱۲) یعنی ہمارے ذمے ہے ہدایت دینا۔ سو اسی لئے اس نے اب اپنی یہ کتاب ہدایت نازل فرمائی یعنی قرآن حکیم، جو کہ تمام کتب سماویہ کی جامع، انکے لئے مہیمن اور ان کی خاتم ہے، تاکہ وہ اس کے ذریعے لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائے، سبحانہ و تعالیٰ فلہ الحمدلہ الشکر،

۹۱. سو اس ارشاد ربانی سے اس کتاب حکیم یعنی قرآن مجید کی عظمت شان سے متعلق دو اہم پہلو بھی واضح فرما دیئے گئے ایک یہ کہ یہ بڑی ہی مبارک اور برکتوں بھری کتاب ہے۔ اور دوسرے یہ کہ یہ ان تمام کتب سماویہ کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے آچکی ہیں، نیز یہ کہ اس کا اصل اور اہم مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے اہالیان مکہ اور اس کے اردگرد کے سب لوگوں اور پوری دنیا کو خبردار کیا جائے۔ نیز اس سے ان لوگوں کی نشاندہی بھی فرما دی گئی جو اس پر ایمان لانے کے شرف سے مشرف ہوں گے۔ سو وہ وہ لوگ ہیں جو آخرت پر ایمان رکھتے اور اپنی نمازوں کی نگہداشت کرتے ہیں۔ پس آخرت کا ایمان و یقین، اور اپنی نمازوں کی حفاظت و نگہداشت کی دو صفتیں انسان اور ایک صالح انسان کی تعمیر و اصلاح کے لئے دو عظیم الشان، پاکیزہ مقدس، اور انقلاب، آفریں صفتیں، اور بنیادی عامل ہیں، والحمدللہ جل وعلا

۹۲. سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ استکبار یعنی اپنی بڑائی کا گھمنڈ بیماریوں کی بیماری، اور محرومیوں کی محرومی ہے کہ اسی کی بناء پر انسان حق سے محروم ہو کر ہلاکت و تباہی کے ہولناک گڑھے میں جا گرتا ہے۔ اور اسی استکبار کی بناء پر وہ حق بات سننے ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا۔ اور ہمیشہ جہالت ولا علمی کے اندھیروں میں ڈوب کر جہالت ہی کی باتیں کرنے لگتا ہے، یہاں تک کہ وہ حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کے بارے میں بھی بے ادبی اور گستاخی سے کام لینے لگتا ہے اور اس کی ذات و صفات کے بارے میں بھی اپنے ذہن، اور اپنے اوہام و خرافات کی بناء پر، من گھڑت اور بے بنیاد باتیں کرنے لگتا ہے، اور اس طرح وہ محروم سے محروم تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ مگر اس کو اپنی اس محرومی اور ہلاکت و تباہی کا کوئی احساس و شعور ہی نہیں ہوتا۔ سو ایسے ظالموں کے لئے ذلت و رسوائی کا عذاب ہے، جو کہ الجزاء ُ مِنْ حِنْسِ العمل کے اصول و ضابطہ کے مطابق ان کے اس استکبار کا طبعی تقاضا، اور منطقی نتیجہ ہو گا جس کو انہوں نے اپنائے رکھا تھا۔ اور ان کی اس تذلیل و تحقیر کا سلوک ان سے وقت نزع ہی سے شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم۔

۹۳. سو اس ارشاد سے ان اسباب و عوامل سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ جو بالعموم استکبار واستنکار کا باعث بنتے ہیں، جو کہ بنیادی طور پر تین بڑے اسباب و عوامل ہیں، ایک اپنے جتھے پارٹی اور عوامی اکثریت اور دورِ حاضر کی سیاسی اصطلاح میں اپنے ووٹ بینککا زعم و گھمنڈ ہے، جس کی بناء پر انسان ایک خاص قسم کے کبر و غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اور دوسرا عامل ہے اپنے مال و دولت اور اسباب دنیا کی کثرت و فراوانی کا زعم و گھمنڈ۔ جبکہ تیسرا عامل ان عوامل اعراض و استکبار میں سے اپنے ان خود ساختہ اور من گھڑت سفارشیوں اور مددگاروں کا زعم و گھمنڈ ہے۔ جو ایسے لوگوں نے از خود گھڑ رکھے ہوتے ہیں، کہ یہ ہمارے سفارشی اور ہمارے وسیلے ہیں۔ یہ ہمارا سارا کام کرا دیں گے، اور ہماری بگڑی بنا دیں گے ہماری ان کے آگے اور ان کی اس کے آگے، وغیرہ وغیرہ، سو اس وقت ان کی تذلیل و تحقیر کے لئے ان سے کہا جائے گا کہ آج تو تم لوگ ہمارے پاس یکہ و تنہا ہی چلے آئے ہو۔ تمہارے ان جتھوں اور پارٹیوں کا تمہارے ساتھ کوئی نام و نشان نہیں جن کا تم لوگوں کو دنیا میں بڑا زعم اور گھمنڈ ہوا کرتا تھا۔ اور تم لوگوں نے اپنے اس سارے مال و دولت اور اسباب و متاع کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ جو ہم ہی نے تم لوگوں کو دنیا کے اس دار الامتحان میں دیا بخشا تھا۔ آج اس میں سے کچھ بھی تمہارے ساتھ نہیں ہے اور اسی طرح آج ہم تمہارے ان شرکاء اور سفارشیوں میں سے بھی کسی کو تمہارے ساتھ نہیں دیکھتے جو تم لوگوں نے اپنی دنیاوی زندگی میں از خود فرض کر رکھے تھے، اور جن کے بارے میں تمہارا کہنا اور ماننا تھا کہ یہ تمہارے امور میں شریک اور تمہارے معاون ہیں۔ اب تو وہ سب کچھ تم سے کھو گیا۔ اور تمہارے سب روابط کٹ گئے اور تم خالی خولی اور یکہ تنہا ہمارے سامنے موجود ہو سو اس وقت ان لوگوں کی یاس و حسرت کا اندازہ ہی کون کر سکتا ہے؟ سو یہ قرآن حکیم دنیا پر کس قدر عظیم الشان احسان ہے کہ اس نے غیب کے ان عظیم الشان حقائق سے اس قدر صراحت و وضاحت کے ساتھ آگاہی بخش دی ہے۔ اور اس قدر پیشگی، تاکہ جنہوں نے بچنا ہو وہ بچ جائیں۔ قبل اس سے کہ عمر رواں کی یہ فرصت محدود ان کے ہاتھوں سے نکل جائے اور ان کو ہمیشہ کے لئے کف افسوس ملنا پڑے، والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنا ہی بنائے رکھے۔ اور حیاتِ مستعار کا ایک ایک لمحہ اپنی رضا و خوشنودی کے لئے صرف کرنے کی توفیق بخشے، آمین ثم آمین

۹۸.    ۱:  سو پانی جو قدرت کا دیا بخشا ایک عظیم الشان اور ما بہ الحیاۃ جوہر ہے، ہر چیز کی زندگی اسی سے وابستہ اور اسی پر منحصر ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّی اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ(الانبیاء۔ ۳٠) یعنی ہم ہی نے ہر زندہ چیز کو پانی ہی سے بنایا ہے تو کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے؟ سو پانی کے اس عظیم الشان اور ما بہ الحیاۃ جوہر کو وجود بخشنا، اور اس کو پیدا کرنا، اور اس کو آسمان سے اتارنا حضرت خالق جَلَّ مَجْدُہ، ہی کی قدرت و حکمت اور اس کی رحمت و عنایت کا نتیجہ و ثمرہ ہے، اور ایک عظیم الشان معجزہ اور انعام و احسان ہے۔ جس سے اس نے اپنی گوناگوں مخلوق اور خاص کر اس کا کائنات کے مخدوم و مطاع اس انسان کو نوازا ہے، سو اس قادر مطلق سبحانہ و تعالیٰ کی قدرت و عنایت نے اول تو پانی کی اس عظیم الشان نعمت کو ایک نہایت ہی حیرت انگیز طریقے سے وجود بخشا، اس میں گوناگوں ایسے عظیم الشان فوائد و منافع رکھے، کہ یہ تمام جاندار مخلوق کے لئے ایک ما بہ الحیاۃ جوہر بن گیا، اور پھر اس نے اس کو ایسے پُر حکمت طریقے سے اور ایسے محیر العقول نظام کے تحت اپنی مخلوق کے لئے محفوظ کیا ہے کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے جس کا ذکر دوسرے مختلف مواقع پر فرمایا گیا ہے۔ اور پانی کے اس عظیم الشان جوہر کی تخلیق اور اس کی اس پُر حکمت تقسیم سے متعلق کسی بھی مرحلے میں اور کسی بھی اعتبار سے اس کا کوئی شریک و سہیم نہیں ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ سو انسان اگر پانی کے اسی جوہر ما بہ الحیات کے بارے میں صحیح طریقے سے غور و فکر سے کام لے لے تو اس سے اس کی قدرت و حکمت رحمت و عنایت، اور اس کی وحدانیت و یکتائی کے طرح طرح کے دلائل اس کے سامنے آئیں گے۔ اور ایسے اور اس طور پر کہ یہ دل و جان سے اس کے آگے جھک جائے گا، اور اسی کے آگے سرنگوں رہے گا، مگر مشکل اور مشکلوں کی مشکل یہ ہے کہ غفلت کا مارا انسان ادھر توجہ کرتا ہی نہیں، الا ماشاء اللہ، سو کائنات میں صحیح طور پر غور و فکر سے کام لینا، ایک عظیم الشان مطلب اور اہم مقصد ہے، وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل۔    

۲ :  سو یہ نشانیاں تو عام ہیں اور اپنی زبان حال سے ہر کسی کو دعوت غور و فکر دے رہی ہیں، لیکن ان سے مستفید و فیضیاب وہی لوگ ہوتے ہیں، اور وہی ہو سکتے ہیں جو ایمان رکھتے ہوں، یا ایمان لانا چاہتے ہوں، ورنہ عام انسانوں اور غور و فکر سے محروم لوگوں کا معاملہ تو حیوانوں کا معاملہ ہے۔ وہ قدرت کی دی بخشی ان نعمتوں سے دن رات مستفید و فیضیاب ہوتے ہیں اور طرح طرح سے مستفید و فیضیاب ہوتے ہیں، مگر ان سے درس عبرت و بصیرت لینے کے لئے متوجہ ہوتے ہی نہیں۔ اس لئے حقیقی گوہر مقصود سے محروم ہی رہتے ہیں الا ماشاء اللہ والعیاذ باللہ۔ اس ارشاد سے دراصل انسان کو حکمتوں بھری اس عظیم الشان کائنات میں صحیح طریقے سے غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔

۱۰۰. کیونکہ انسان اگر اپنے پاؤں تلے بچھے ہوئے زمین کے اس عظیم الشان فرش اور بچھونے میں اور اپنے اوپر تنے ہوئے آسمان کے اس عظیم الشان و بے مثال چھت ہی میں صحیح طور پر غور و فکر سے کام لے لے۔ اور سوچے کہ کون ہے وہ جس نے زمین و آسمان کی حکمتوں بھری اس کائنات کو بطن عدم سے نکال کر خلعت وجود سے نوازا ہے۔ اور اس کو ان گنت و لاتعداد نعمتوں، حکمتوں، اور عظیم الشان نشانیوں سے بھر دیا؟ سو وہی ہے اللہ وحدہٗ لاشریک، خالق کل اور مالک مطلق، جس نے آسمانوں اور زمین کی اس کائنات کو بغیر کسی نمونہ و مثال کے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے پیدا فرمایا ہے اور اس کو وجود بخشا ہے، اور جب اس کو پیدا کرنے، وجود بخشنے، اور اس کو چلانے، اور باقی رکھنے میں کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں، تو پھر اس کے حقِ عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک و سہیم کس طرح ہو سکتا ہے؟ پس وہی ہے معبودِ برحق اور ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۱۰۳.  ۱:  پس انسان جو کچھ کرتا ہے وہ سب دراصل اپنے ہی بھلے یا بُرے کے لئے کرتا ہے، پس آنکھیں کھولنے، اور حق اور حقیقت کو دیکھنے اور اپنانے سے خود ان ہی کا بھلا ہو گا۔ کہ اس سے ان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی نصیب ہو گی۔ جبکہ اس کے برعکس اس سے آنکھیں بند کر لینے، اور اندھا پن جانے کا نقصان بھی خود انہی کو ہو گا، کہ اس سے یہ سعادت دارین سے محروم ہو کر ہمیشہ کے خسارے میں مبتلا ہوں گے، پس آنکھیں کھولنے اور راہ حق و صواب کو اپنانے کا فائدہ بھی خود انہی کو ہو گا اور اس کا صلہ و ثمرہ بھی انہی کو ملے گا۔ جبکہ اس سے اعراض و رُوگردانی برتنے کا خسارہ و نقصان بھی خود انہی کو بھگتنا ہو گا والعیاذُ باللہ العظیم      

۲ : کہ تم لوگوں کو راہ حق پر لا کر چھوڑوں، اور تم سے حق کو منوا کر رہوں سو یہ چیز نہ میرے ذمے ہے۔ اور نہ ہی یہ میرے بس میں ہے، میرا کام تو پیغام حق کو بلا کم و کاست پہنچا دینا ہے اور تم لوگوں کو تمہارے انجام سے آگاہ کر دینا ہے اور بس، آگے کا معاملہ تمہارے اپنے ارادہ و اختیار پر ہے، اس معاملے میں کوئی جبرو اکراہ نہ ہے، اور نہ اس کی ضرورت ہے۔ کہ اس کا اصل تعلق خود تم لوگوں کے اپنے بھلے بُرے اور فائدے اور نقصان سے ہے۔

۱۰۶. لیکن ایسا جبری ایمان نہ مفید ہے نہ مطلوب، مفید و مطلوب تو وہ ایمان ہے جو اپنے ارادہ و اختیار سے ہو۔ ورنہ جبری ایمان کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے لئے کیا مشکل ہو سکتا ہے کہ وہ ان سب کو ایمان ہی پر پیدا کر دے؟ اور اس طور پر کہ یہ اس کے خلاف کچھ کر ہی نہ سکیں، یا وہ کوئی ایسی نشانی آسمان سے اتار دے کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا اِنْ نَّشَأُ نُنَزِّلْ عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَآءِ ایَٰۃً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُہُمْ لَہَا خَاضِعِیْنَ (الشعراء۔ ۴) یعنی اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتار دیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں۔ لیکن ایسا جبری و قہری ایمان تو مطلوب ہی نہیں۔ کہ اس پر نہ کسی ثواب کا کوئی استحقاق بنتا ہے۔ اور نہ کسی جزاء و عقاب کا، پس مفید و مطلوب دراصل وہ ایمان ہے جو انسان کے اپنے ارادہ و اختیار سے ہو۔

۱۰۷. سو اس سے اہل ایمان کو یہ اہم اور بنیادی ہدایت فرمائی گئی ہے، اور ان کو مخالفین سے بحث و جدال کے سلسلہ میں پابندیِ حدود سے متعلق یہ تنبیہ فرمائی گئی کہ کہیں شرک کی تردید کے سلسلہ میں بات یہ رنگ نہ اختیار کرنے پائے کہ پُر جوش مسلمان کہیں ان چیزوں کو برا بھلا کہنے لگیں، جن کی مشرکین پُوجا و پرستش کرتے ہیں، کہ اس کے نتیجے میں کہیں وہ لوگ اپنی مشرکانہ حمیت کے جوش میں، اور اپنی حماقت میں پڑ کر، خداوند قدوس کے بارے میں یادہ گوئی پر نہ اتر آئیں۔ اپنی جہالت اور زیادتی کی بناء پر، اس لئے اہلِ ایمان کو اس طرح کے فرط جوش سے منع فرمایا گیا، پس اس سے سدّ ذرائع کے اصول کی تعلیم دی گئی ہے، یعنی کوئی ایسی چیز جو فی حدذانہ تو مباح ہو، لیکن وہ آگے چل کر کسی برائی کا باعث بن سکتی ہو، تو اس سے بھی اجتناب کیا جائے تاکہ برائی پیدا نہ ہو۔ اور اس طرح اصلاح کے بجائے فساد و بگاڑ کی صورت نہ پیدا ہونے پائے، سو حسد ذرائع کا اصول دین حنیف کا ایک اہم اصول ہے، جو کہ عقل سلیم اور طبع مستقیم کے تقاضوں کے عین مطابق ہے، وباللہ التوفیق لمایحب ویرید۔ وعلی مایحب ویرید۔ وہو الہادی الی سواء السبیل

۱۱۰. یعنی اکثر لوگ چونکہ جہالت ہی سے کام لیتے ہیں اس لئے وہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ ایسے فرمائشی معجزات دکھا دیے جائیں تو وہ ایمان لائیں گے ورنہ نہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا دستور جو اس کے علم کامل اور اس کی حکمت مطلقہ پر مبنی ہے یہ ہے کہ وہ ایمان و ہدایت کی دولت سے انہی لوگوں کو نوازتا اور سرفراز فرماتا ہے جو اس کے طالب اور متمنی و مشتاق ہوتے ہیں اور اس کی نعمت کی قدردانی کرتے ہیں اور اس کے لئے وہ اپنی ان صلاحیتوں کو صحیح طور پر استعمال کرتے ہیں جو قدرت کی طرف سے ان کے اندر ودیعت فرمائی گئی ہوتی ہیں سو وہ جب ان کو صحیح استعمال کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو مزید از مزید توفیق و عنایت سے نوازتا ہے ورنہ اس کا طریقہ یہ نہیں کہ وہ ایمان و ہدایت کی نعمت کو یُونہی زبردستی اور خواہی نخواہی کسی پر بھی تھوپ دے سو وہ اس کو کسی پر زبردستی نہیں ٹھونستا جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا اَنُلْزِمُکُمُوْہَا وَاَنْتُمْ لَہَا کَارِہُوْنَ (ہود۔۲٨) یعنی کیا ہم اس کو تم لوگوں پر چپکا دیں گے جب کہ تم اس کو ناپسند کرتے ہو؟ اور استفہام ظاہر ہے کہ یہاں پر انکاری ہے یعنی ایسے نہیں ہو سکتا کہ تم لوگ اس کو ناپسند کرتے رہو اور ہم اس کو یونہی تم لوگوں پر چپکا دیں پس جو لوگ اپنے فرمائشی معجزوں کی بناء پر ایمان لانا چاہتے ہیں وہ اپنی خواہشات و جذبات کے غلبہ سے اندھے ہو رہے ہیں تو پھر ان کے لئے حق و ہدایت کی یہ راہ آخر کس طرح اور کیونکر کھل سکتی ہے؟ ایسوں کے لئے تو محرومی ہی محرومی ہے، والعیاذُ باللہ جل وعلا

۱۱۱. سو اس میں پیغمبر کے لئے تسکین و تسلیہ کا سامان ہے کہ آج آپ کو اپنے مخالفین اور منکرین کی طرف سے جو دکھ جھیلنے پڑ رہے ہیں، یہ کوئی نئی اور انوکھی چیز نہیں، بلکہ آپ سے پہلے بھی جو انبیاء و رسل دنیا میں آئے۔ ان کو بھی اپنے اپنے زمانوں کے شیاطین جن و انس سے اسی طرح کے صدمے اٹھانے اور دکھ جھیلنے پڑے اور جَعَلْنَا یعنی ہم نے مقرر کئے سے مقصود دراصل یہ بتانا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی اسی سنت ابتلا و آزمائش کا تقاضا ہے، جس سے گزشتہ زمانوں کے سب ہی انبیاء ورسل کو گزرنا پڑا ہے اسی سے راست بازوں کی راست بازی کے جوہر نکھرتے ہیں۔ اور اسی سے اہل باطل کے اندر کا فساد پوری طرح ظہور پذیر ہوتا ہے اور ان کی اصل حقیقت سب کے سامنے واضح ہو جاتی ہے اور ان پر اللہ کی حجت تمام ہوتی ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔

۱۱۳. اور ایسی مفصل کہ اس نے حق و باطل صحیح و غلط اور جائز و ناجائز سب کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان فرما دیا۔ اور اس طور پر کہ اس کے بعد کسی طرح کے شک و شبہہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی اور اس طور پر جو کہ عقل و نقل اور فطرتِ مستقیم کے تقاضوں کے عین مطابق ہے جبکہ اس کے برعکس تم لوگوں کے پاس اہوا و اغراض اور خود ساختہ بدعات وخرافات کے سوا کچھ بھی نہیں تو پھر ایسے میں آخر یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہو سکتا ہے؟ کہ میں اللہ تعالیٰ کی اس کتاب حکیم کے ہوتے جس کو اس نے اس طرح مفصل کر کے اتارا ہے اور اس کی موجودگی کے باوجود میں کسی اور کو اپنا حَکَمْ بنا لوں؟ یعنی ایسے کبھی نہیں ہو سکتا ورنہ میں بھٹک جاؤں گا اور راہ راست پر نہیں رہوں گا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے میں اس سے بھی زیادہ صاف و صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا قُلْ لاَّ اَتَّبِعُ اَہْوَاءَ کُمْ قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّ مَا اَنَا مِنْ الْمُہْتَدِیْنَ (الانعام۔۵۶) یعنی ان سے کہو کہ میں کبھی بھی تم لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہیں کر سکتا کیونکہ ایسی صورت کے اندر میں یقیناً راہ راست سے بھٹک جاؤں گا اور میں کبھی بھی ہدایت یافتہ لوگوں میں نہیں رہونگا۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۱۱۴. سو اس ارشاد سے اللہ تعالیٰ کی ایک اور سنت اور اس کے دستور کا حوالہ دیا گیا ہے کہ شیطان نے اللہ تعالیٰ کے حضور جو چیلنج دیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ میں ضرور بالضرور آدم کی اولاد کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں اس سے فرمایا تھا کہ جا تو جو مرضی کر لیکن یہ یاد رکھنا کہ میں تجھ سے یعنی تیری اولاد اور تیرے پیروکاروں سب سے جہنم کو بھر کر چھوڑوں گا سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ دونوں ہی باتیں پوری ہو گئیں ان بدبختوں نے حق کی مخالفت کر کے اور شیطان کی غلامی کا پھندہ اپنے گلوں میں ڈال کر اس لعین کی بات کو پورا کر دیا۔ جیسا کہ سورہ سبا کی آیت نمبر۲٠ میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے بارے میں شیطان کو جو اپنا فیصلہ سنایا تھا وہ بھی پورا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ سچائی اور عدل کے دونوں معیاروں پر پورا ہے سو اس کی بات سچی بھی ہے اور مبنی پر عدل و انصاف بھی اس لئے کہ اس نے ان لوگوں پر اپنی حجت پوری فرما دی اب یہ لوگ ہدایت الٰہی کے بجائے القائے شیطانی کو اپنا کر اسی ہولناک انجام کے مستحق اور سزاوار ہو گئے جس کی دھمکی ابلیس نے دی تھی اور جس کے لئے اس نے حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ کے روبرو کھلا چیلنج کیا تھا سو لوگوں کی اکثریت اپنے اسی دشمن کے پیچھے لگ گئی بجز اہل ایمان کے ایک چھوٹے سے گروہ کے جیسا کہ سورہ سبا کی محولہ بالا آیت کریمہ میں اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْہِمْ اِبْلَیْسُ ظَنَّہ، فَاتَّبَعُوْہُ اِلاَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ (سبا۔۲٠) والعیاذُ باللہ العظیم۔

۱۱۵. سو ان کی بات جب کسی دلیل و سند اور کسی علم و حجت پر مبنی نہیں بلکہ یہ لوگ محض ظن و گمان کی پیروی کرتے اور اٹکل کے تیر چلاتے ہیں تو ایسے میں انکی بات کے ماننے کا لازمی نتیجہ اور منطقی انجام اللہ کے راستے سے بھٹکنا ہی ہے کیونکہ ظن و گمان کی پیروی راہ حق میں کچھ بھی کام نہیں آ سکتی جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَاِنَّ الظَّنَّ لَایُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا (النجم۔۶٨) سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ کتنے غلط کار ہیں جو کہ عوام کَالْاَنْعام کی اکثریت ہی کی رائے کو حق سمجھتے اور اس کو حجت قرار دیتے ہیں جیسے مغربی جمہوریت کے پرستار اور ہمارے یہاں کے اہل بدعت جن کا گزارا ہی اسی مفروضے پر ہوتا ہے کہ چونکہ فلاں فلاں بدعات عوام کی فلاں اکثریت میں مروج ہیں لہٰذا وہ حق اور درست ہیں والعیاد باللہ العظیم۔

۱۱۹. سو جس طرح ایک درخت کا بیج اور اس کی جڑیں ہوتی ہیں جو زمین کے اندر ہوتی ہیں اور ظاہر میں نظر نہیں آتیں۔ اور ایک اس کی شاخیں اور اس کے پھل پھول وغیرہ بھی ہوتے ہیں جو ظاہر میں نظر آتے ہیں اسی طرح برائی کی ظاہری شکلیں اور مظاہر بھی ہوتے ہیں جو ظاہر میں اور کھلی آنکھوں سے نظر آتے ہیں اور اس کی وہ جڑ بنیاد بھی ہوتی ہے، جو انسان کے قلب و باطن میں جاگزین ہوتی ہے سو برائی سے پوری طرح بچاؤ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ جب اس کے ظاہری اور باطنی دونوں پہلوؤں کا صفایا اور خاتمہ کر دیا جائے ورنہ اگر ظاہری برائی چھوڑ دی لیکن قلب و باطن میں اس کی جڑ بنیاد باقی و برقرار رہی تو وہ کل پھر کسی اور شکل میں اپنے پل پرزے نکال لے گی اور معاملہ پھر وہیں پہنچ جائے گا اس لئے ارشاد فرمایا گیا کہ گناہ کے ظاہر کو بھی چھوڑو اور اس کے باطن کو بھی تاکہ اسطرح برائی کا پوری طرح خاتمہ ہو جائے اللّہُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنْ الذنوب والفتن کلہا، ماظہر منہا ومابطن،

۱۲۰. یعنی اگر تم لوگوں نے مشرکوں کے شور و غوغا اور ان کے ابلیسی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر ان کی بات مان لی تو یقیناً تم بھی مشرک ہو جاؤ گے سو مشرکوں کی بات مان لینا اور اپنے دین کی مقدس تعلیمات کے خلاف ان کی ہاں میں ہاں ملانا شرک ہے والعیاذُ باللہ العظیم، بکل حالٍ من الاحوال

۱۲۱. سو اس سے اہل ایمان اور اہل کفر و باطل دونوں کی تمثیل بیان فرمائی گئی ہے موت سے یہاں پر مراد کفر و باطل کی زندگی ہے جو کہ اصل میں موت ہے اور حیات سے مراد ایمان و یقین کی زندگی ہے جو کہ اصل اور حقیقی زندگی ہے اور نور سے مراد کتاب ہدایت یعنی قرآن حکیم ہے سو اس سے واضح فرمایا گیا کہ اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ نے کفر و باطل کی موت سے نکال کر ایمان و یقین کی زندگی سے سرفراز فرما دیا اور ان کو کتاب حکیم قرآن مجید کے اس نور مبین سے سرفراز فرما دیا جس کے ساتھ وہ لوگوں کے درمیان چلتے ہیں اور اس طرح اس نور مبین سے وہ خود بھی مستفید و فیضیاب ہوتے ہیں اور دوسری کو بھی مستفید و فیضیاب کرتے ہیں تو کیا یہ اور وہ لوگ باہم ایک برابر ہو سکتے ہیں؟ جو کفر و باطل کی طرح طرح کی تاریکیوں میں ڈوبے پڑے ہیں؟ ظاہر ہے کہ نہیں اور یقیناً و ہرگز نہیں تو پھر مومن و کافر کے باہم برابر ہونے کا کیا سوال پیدا ہو سکتا ہے؟ یَمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ یعنی وہ اس کے ساتھ لوگوں میں چلتا ہے کے جملے کے اندر دو خاص پہلو پائے جاتے ہیں ایک یہ کہ بندہ مومن اس عظیم الشان روشنی کے ساتھ چلتا ہے جبکہ دوسرے لوگ اس روشنی سے محروم اور اندھیروں کے اندر ہیں اور دوسرا پہلو اس میں یہ ہے کہ وہ اس روشنی کے ساتھ لوگوں کے اندر چلتا ہے سو اس طرح وہ اس سے خود بھی مستفید و فیضیاب ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی مستفید و فیضیاب کرتا ہے کہ روشنی کا حق یہی ہے کہ انسان اس سے خود بھی مستفید و فیضیاب ہو اور دوسروں کو بھی اس سے استفادے کا موقع دے اسی حکمت کو حضرت عیسیٰ نے یوں بیان فرمایا کہ جس کے پاس چراغ ہوتا ہے وہ اس کو پیمانے کے نیچے ڈھانپ کر نہیں رکھتا بلکہ وہ اس کو اونچی جگہ رکھتا ہے تاکہ اس سے اس کا گھر بھی روشن ہو۔ اور دوسروں کو بھی راستہ ملے۔ سو اس سے مومن صادق اور اس کی زندگی کی عظمت شان بھی واضح ہو جاتی ہے، کہ اس کی زندگی روشنی پر روشنی میں، اور روشنی کے ساتھ ہے۔ جبکہ باقی تمام دنیا اندھیروں کے اندر ہے، کیونکہ حق و ہدایت کی روشنی اب صرف قرآن پاک ہی کی صورت میں موجود ہے۔ سابقہ آسمانی کتابوں کو اس حد تک بدل اور بگاڑ دیا گیا کہ اب ان کا اصل نسخہ بھی نہیں مل سکتا بلکہ انکی وہ اصل زبان ہی ناپید ہو گئی ہے جس میں ان کو اتارا گیا تھا۔

۱۲۴. سو اس ارشاد سے منکرین کے ایمان نہ لانے کی اصل علت کو واضح فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ اپنی بد باطنی اور سُوء اختیار کی وجہ سے توفیق ہدایت اور عنایت خداوندی سے محروم ہو گئے ہیں کفر و شرک کی نجاست ان لوگوں کے دلوں پر جم گئی ہیں جس کے نتیجے میں ان کو اسلام کا راستہ ایک سخت اور کٹھن چڑھائی نظر آتا ہے جس کے تصور سے ہی ان کا سینہ بھیجنے اور دم اکھڑنے لگتا ہے۔ اور ان کو یوں لگنے لگتا ہے کہ گویا کہ ان کو بڑی کٹھن چڑھائی چڑھنا پڑ رہی ہے سو جن کے دلوں پر کفر و شرک کی میل اس طرح جم جاتی ہے اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا دستور یہی ہے کہ ان کے سینوں کو اسلام کے لئے تنگ کر دیا جاتا ہے، جس سے راہ حق میں آگے بڑھنا ان کو ایسے لگنے لگتا ہے جیسا کہ ان کو زور لگا کر آسمان میں چڑھنا پڑ رہا ہو۔ سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ انسان کے بناؤ بگاڑ اور اس کی صحت و فساد کا اصل اور بنیادی تعلق اس کے اپنے قلب و باطن اور ارادہ و نیت سے ہے۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلی مایحب ویرید،

۱۲۵. سو دین حق کا یہ راستہ جو تمہارے رب کا بتایا ہوا اور عقیدہ توحید پر مبنی واحد راستہ ہے یہ بالکل سیدھا اور صاف راستہ ہے جو عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے اس میں نہ کسی طرح کا کوئی پیچ و خم ہے اور نہ کسی طرح کی چڑھائیاں اور گھاٹیاں پس جن کی عقلیں صحیح اور انکی فطرتیں مستقیم ہوتی ہیں ان کو تو یہ فطرت کی آواز لگتا ہے لیکن جنہوں نے اپنے اوپر غیر فطری نجاستیں لاد رکھی ہوں ان کو یہ راہ دشوار گزار معلوم ہوتی ہے اس کے دین فطرت اور ملت ابراہیم ہونے کے سب دلائل ہم نے تفصیل سے بیان کر دئے ہیں۔ لیکن یہ کارآمد انہی لوگوں کے لئے ہوتے ہیں جو یاددہانی حاصل کرنا اور سبق لینا چاہتے ہوں لیکن جن لوگوں کی عقلیں ٹیڑھی، اور ان کی فطرتیں مسخ ہو چکی ہوتی ہیں ان کے لئے یہ ہدایت میں اضافے کے بجائے۔ ان کی محرومی اور بدبختی ہی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں، سو یہ قرآن حکیم اہل ایمان کے لئے تو سراسر ہدایت اور نری شفاء ہے۔ لیکن بے ایمانوں کے لئے ان کے کانوں کا ڈاٹ اور ان کے باطن کے لئے اندھا یا جیسا کہ سورہ حٰم السجدۃ کی آیت نمبر ۴۴ میں بعینہ اسی مضمون کی تصریح فرمائی گئی ہے۔

۱۲۷.  ۱: سو اس موقع پر وہ لوگ جو انسانوں میں سے شیاطین جن کے ساتھی اور ان کے آلہ کار بنے رہے ہوں گے وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم نے ایک دوسرے کی معیت و رفاقت سے دنیا میں خوب خوب فائدے اٹھائے۔ یہاں تک کہ ہم اس یوم حساب کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لئے مقرر فرما رکھا تھا سو اسطرح وہ اس بات کا صاف اور صریح طور پر اقرار و اعتراف کریں گے کہ دنیا میں وہ ایک دوسرے کے آلہ کار بنے رہے تھے یعنی ہم نے شیاطین کی پوچا پاٹ کی ان کے تھانوں پر نذریں مانیں نیازیں دیں چڑھاوے چڑھائے ان کے پاس قربانیاں کہیں، بھینٹیں چڑھائیں ان کے کہنے سکھانے پر حلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھہرایا۔ اور اسی طرح ان کے کاہنوں، نجومیوں اور ساحروں وغیر نے ان کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا اور ان سے کئی طرح کے فائدے اٹھائے اور نفع حاصل کئے اور ہم ایسے کاموں میں اسطرح الجھے اور پھنسے رہے کہ ہمیں اپنے عمل کے انجام پر غور کرنے کی توفیق نہ ملی۔ اور ہم اسی طرح کی خر مستیوں اور لذت کوشیوں میں سست اور محو و مگن رہے یہاں تک کہ یہ دن آ پہنچا۔ اور ہم تیرے حضور حاضر ہو گئے۔    

۲: سو شیاطین انس یہ بات تو اس روز بطور اعتراف و اقرار جرم کہیں گے۔ اور اس سے مقصود ان کا اظہار ندامت ہو گا۔ تاکہ اس طرح یہ تمہید باندھ کر وہ اللہ تعالیٰ سے معافی کی درخواست کر سکیں۔ لیکن اسلوب کلام سے یہ ظاہر ہو رہا ہے۔ اور اس کی صاف شہادت مل رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی بات ان کی تمہید پوری ہونے سے پہلے ہی کاٹ دے گا اور ان کو معذرت اور درخواست معافی کا موقع دیے بغیر ہی اپنا فیصلہ سنا دے گا کہ اب تمہارا ٹھکانا بہرحال دوزخ ہے جس میں تم نے ہمیشہ کے لئے رہنا ہے۔ اس لئے اب تم لوگ ایسی باتیں بنانے کی کوشش نہ کرو۔ کہ اب عذر و معذرت، معافی تلافی اور اصلاح کے سب دروازے بند ہو چکے ہیں۔ اب مشیئت و مرضی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہو گی جو وہ چاہے گا وہی ہو گا۔ کسی کی سعی و سفارش، کسی کا اثر و رسوخ اور کسی کی آہ و پکار، اور دعا و فریاد کچھ کام نہیں آئے گی۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت کار فرما ہو گی، سبحانہ و تعالیٰ، سو یہی مطلب ہے الا ماشاء اللہ کا۔

۱۳۰. سو اس سے بعثت رسول کی وجہ اور اس کی غرض و غایت کو واضح فرما دیا گیا کہ ہر قوم کے اندر انہی میں سے ایک رسول اس لئے مبعوث فرمایا گیا کہ آپ کے رب کی رحمت سے یہ بات بعید تھی کہ وہ کسی قوم کو اس کے کفر و شرک پر اس کے عواقب و نتائج سے خبردار کئے بغیر کوئی عذاب بھیج دے۔ کہ یہ بات اس کے عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں اس لئے وہ اگر کسی قوم کو سزا دیتا ہے۔ تو پہلے ان کو اچھی طرح آگاہ کر دیتا ہے۔ تاکہ وہ اگر توبہ و اصلاح کرنا چاہیں تو کر لیں۔ اور اگر ایسا نہ کرنا چاہیں تو اپنے کئے کرائے کے نتیجے کے طور پر اس کا انجام بھگتیں، جس کا حقدار و مستحق انہوں نے اپنے آپ کو بنا لیا۔ والعیاذُ باللہ، جل وعلا

۱۳۱. سو اس ارشاد ربانی سے ایک طرف تو اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کسی کے درجہ و مرتبہ کا اصل دارومدار اس کے اپنے عمل و کردار پر ہے نہ کہ کسی قوم قبیلے، یا حسب و نسب، وغیرہ کی بناء پر، اور دوسری حقیقت اس سے یہ واضح فرما دی گئی کہ ان لوگوں کا کوئی عمل و کردار اللہ تعالیٰ سے مخفی و مستور نہیں ہو سکتا۔ وہ ان کے تمام کاموں سے پوری طرح واقف و آگاہ ہے۔ اس لئے اس کو انکی درجہ بندی کے سلسلہ میں کوئی زحمت اور مشکل نہیں پیش آ سکتی۔ پس وہ ہر کسی کے ساتھ وہی معاملہ فرمائے گا جس کا وہ اپنے عمل و کردار کے اعتبار سے مستحق ہو گا۔ فَبِاللّٰہ التوفیق لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ۔ وعَلیٰ مَا یُحِبُّ وَیُرِیْدُ، وَہُوَ الْہَادِی اِلیٰ سَوَاءِ السَّبِیْل۔ سبحانہ و تعالیٰ

۱۳۲. سو وہ چونکہ غنی و بے نیاز ہے اس لئے اس کو نہ کسی کی ضرورت ہو سکتی ہے اور نہ کوئی حاجت وہ سب سے غنی اور ہر اعتبار سے مستغنی و بے پرواہ ہے۔ اگر خدانخواستہ سب اس کا انکار کر دیں تو اس کا کچھ بھی بگڑنے والا نہیں۔ اور اگر سب مل کر اس کی حمد و ثنا کے ترانے گانے لگیں تو اس سے اس کی خدائی میں ذرہ برابر کسی اضافے کا کوئی سوال و امکان نہیں وہ ایسے تمام تصورات اور جملہ شوائب سے پاک اور اعلیٰ و بالا ہے سبحانہ و تعالیٰ، لیکن وہ چونکہ غنی اور بے نیاز ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی رحمت والا بھی ہے اس لئے وہ اپنے بندوں کو ایمان و اسلام کی دعوت دیتا ہے اور ان کی ہدایت کے لئے اپنے رسول بھیجتا ہے اور ان کے لئے اپنی کتابیں اتارتا ہے۔ تاکہ خود ان کا بھلا ہو۔ دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی۔ اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہان میں بھی جو اس کے بعد آنے والا ہے۔ اور تاکہ اس طرح وہ ان کو دوزخ کے ہولناک عذاب سے بچا کر اپنی جنت اور اس کی نعمتوں، اور اپنی عظیم الشان رعنائیوں اور گونا گوں رحمتوں سے نوازے اور اتمام حجت کے بغیر کسی کو عذاب نہ دے۔ اور اسی لئے وہ لوگوں کو مہلت دیتا ہے۔ تاکہ جنہوں نے اپنی اصلاح کرنی ہو وہ کر لیں۔ نہیں تو وہ اپنا پیمانہ بھر لیں اور اس کے نتیجے میں وہ اپنے آخری انجام اور منطقی نتیجے کو پہنچ کر رہیں، سو وہ اگر منکروں اور سرکشوں کو فوراً نہیں پکڑتا تو اس لئے نہیں کہ وہ ایسا کر نہیں سکتا یا ایسا کرنے سے اس کی دنیا اجڑ جائے گی۔ اور پھر اس کو اس کے آباد کرنے والے نہیں مل سکیں گے نہیں اور ہرگز نہیں وہ اگر چاہے تو تم سب کو لے جائے اور تمہاری جگہ کسی اور مخلوق کو لا بسائے جیسا کہ اس نے خود تم لوگوں کو دوسروں کی نسل سے پیدا فرمایا ہے، سبحانہ و تعالیٰ، پس تم لوگوں کو اس سے سبق سیکھنا، اور درس عبرت لینا چاہئے۔ وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلی مایُحِبُّ ویرید، وہو الہادی الی سواء السبیل

۱۳۶. ۱: یعنی ان کے اس دین فطرت کو جو ان کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل سے وراثت میں ملا تھا۔ اور جو کہ فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق بالکل سیدھا سادا دین فطرت تھا، جس کو اس قسم کے شیاطین نے بگاڑ کر گورکھ دھندا بنا دیا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں جہاں جہاں بتوں کے تھان اور استھان ہوتے تھے ان کے مجاور، پروہت، اور کاہن اپنی طرف رجوع کرنے والے سادہ لوح لوگوں کو ورغلاتے اور ان کو یہ باور کراتے کہ فلاں جن تم پر بہت غضبناک ہے۔ اگر تم نے اپنی اولاد میں سے کسی کی قربانی کر کے اس کو راضی نہ کیا تو وہ تمہارے سارے خاندان کو چٹ کر جائے گا، تو اس سے بیوقوف لوگ ان کے چکمے میں آکر قتل اولاد کے اس انتہائی سنگدلانہ فعل کا ارتکاب کر لیتے۔ اور اس طرح وہ اپنے دین اور اپنی دنیا دونوں کو برباد کر دیتے، اور جنوں کی ان ہلاکت خیزیوں میں شیاطین انس جو ان کے ایجنٹ اور آلہ کار بنے ہوئے تھے، وہ بڑا اہم کردار ادا کرتے تھے کیونکہ عام لوگوں کو ایسی پٹیاں پڑھانا اصل میں انہی انسانی شکل کے شیطانوں کا کام ہوتا تھا اور یہ صرف زمانہ جاہلیت ہی کی بات نہیں، بلکہ جہاں جہاں جہالت کے اندہیروں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں وہاں آج بھی اس کے نمونے پیش آتے رہتے ہیں چنانچہ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل اخبارات میں یہ خبرچھپی تھی کہ ہندوستان کے مشہور شہر مدراس کے کسی علاقے میں ایک شخص نے اپنے جواں سال بیٹے کو اپنی دیوی کے چرنوں میں قتل کر کے اس کی بھینٹ چڑھا دیا تھا، والعیاذُ باللہ۔ سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام نے اپنی پاکیزہ روشن اور مقدس تعلیمات کے ذریعے دنیائے انسانیت پر کتنے کتنے اور کیسے کیسے احسانات کئے ہیں، والحمد للہ رب العالمین۔

۲ :  سو ہدایت و ضلالت کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ جبر کو پسند نہیں فرماتا۔ بلکہ اس بارے اس نے لوگوں کو آزادی اور اختیار سے نوازا ہے، تاکہ ہر کوئی اپنی مرضی سے، اور اپنے ارادہ و اختیار کے مطابق جونسا راستہ چاہے اختیار کرے۔ کہ ثواب و عقاب کا ترتب و حصول اور اس کا مدار و انحصار اسی چیز پر ہے۔ ورنہ وہ اگر اپنی مشیت اور جبر سے ہدایت پر لانا چاہتا تو کسی کی کیا جان تھی کہ وہ اس سے کسی طرح کی کوئی سرتابی یا انکار کر سکے، بلکہ پھر تو سب ہی کے سب لوگ بلا کسی چون و چرا کے مومن و مسلمان ہو جاتے، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا، لہذا اللہ نے جبر کو پسند نہیں فرمایا بلکہ اس نے ان کو مہلت اور آزادی دے رکھی ہے، تو پھر آپ کو اے پیغمبر! ان لوگوں کی بے راہ روی پر اس قدر پریشان اور فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، پس چھوڑ دو ان کو اور ان کی ان افتراء پردازیوں کو جن سے یہ لوگ کام لیتے ہیں یہ اپنے انجام کو خود پہنچ کر رہیں گے سو اس میں پیغمبر کے لئے تسلی کا سامان ہے۔

۱۳۸. سو اس سے مشرکین کے ان من گھڑت فتنوں کے کچھ نمونے پیش فرمائے گئے ہیں جو وہ ذاتی مفادات کے لئے لگاتے تھے اور جو کہ ان کے پروہتوں کی خود ساختہ اور من گھڑت شریعت پر مبنی ہوتے تھے کہ وہی ان کے عالم ہوتے تھے اور انہی کی طرف سے ان چڑھاووں کے بارے میں بڑی بڑی قیدیں اور پابندیاں عائد ہوتی تھیں جس طرح کہ آج ہمارے یہاں کے بدعتی گھرانوں میں بھی اس کے طرح طرح کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر طرح سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین۔

۱۴۰. سو اپنے خالق و مالک کی معرفت سے سرفرازی کے لئے تم لوگوں کو کہیں دور جانے اور منطقی صغرے کبرے ملانے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے لئے تم لوگ خود اپنے وجود کے اندر اور اپنے اردگرد پھیلی بکھری ان عظیم الشان اور گوناگوں نعمتوں ہی کو دیکھ لو اور ان میں نگاہ عبرت و بصیرت ڈال لو تو تم لوگوں کو اس واہب مطلق جَلَّ جَلَالُہ، کے وجودِ با جود اس کی قدرت و حکمت، اور اس کی رحمت و عنایت، کے عظیم الشان مظاہر اور نمونے ملیں گے پس تم دیکھو اور سوچو کہ اس نے کس قدر قدرت و حکمت، اور رحمت و عنایت سے تمہارے لئے اس قدر عظیم الشان نعمتوں کو اس کثرت سے و بہتات اور اس قدر پُر حکمت طریقے کے ساتھ ہر چہار سُو پھیلا دیا ہے اور اس قدر عظیم الشان تنوع اور بوقلمونی کے ساتھ کہ ہمارے جسم کے اندر کی ہر ضرورت کی تکمیل کا سامان نہایت ہی پُر حکمت طریقے سے فرما دیا گیا اگر ہمارے جسم کے اندر گلوکوز اور فولاد کی ضرورت اور اس کا تقاضا ودیعت فرمایا گیا ہے، تو اس کے لئے اس نے انگور اور انار جیسے عظیم الشان پھلوں کے خوبصورت دانوں کے اندر عظیم الشان رس بھر دیا۔ اگر ہماری زبانوں کے اندر مختلف قسم کے ذائقے ودیعت فرمائے گئے، تو اس کے لئے اس نے ان گنت اور گوناگوں مزوں والے اناج غلے اور پھل پیدا فرما دئے۔ ہماری نگاہوں کو حسن و جمال کا ذوق بخشا۔ تو اس کی تسکین کے لئے طرح طرح کی اشیاء میں حسن و رعنائی، اور دلکشی و زیبائی، کے ان گنت اور بے مثال نمونے رکھ دیے۔ اور حضرت خالق حکیم و قدیر جَلَّ جَلَالُہ، وعمّ نوالہ، نے ان بیحد و حساب اشیاء کے اندر ان کے ظاہری تنوع اور اختلاف کے باوجود مقصد کی جو وحدت رکھی ہے وہ اپنی زبان حال سے پکار پکار کر حضرت خالق و مالک جل مجدہ، کی وحدت و یکتائی کا اظہار و اعلان کر رہی ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ فلہ الحمد ولہ الشکر۔ بکل حالٍ من الاحوال،

۱۴۱. یعنی جانوروں کی ان دو قسموں کا پیدا کرنا اس خالق و مالک کا تم لوگوں پر ایک اور عظیم الشان انعام و احسان ہے کہ یہ دونوں قسمیں تمہارے لئے دو الگ الگ قسموں کی ضرورتوں کی تکمیل کا سامان کرتی ہیں۔ سو حمولۃ کی قسم کے جانور تمہارے لئے سواری اور باربرداری وغیرہ کی عظیم الشان اور بے شمار خدمات انجام دیتے ہیں۔ جیسے اونٹ، گھوڑے، خچر اور گدھے وغیرہ جبکہ فرشاً یعنی زمین سے لگے ہوئے جانور تمہارے لئے گوشت اور خوراک وغیرہ کی دوسری طرح طرح کی اور بے شمار ضرورتوں کی تکمیل کا سامان کرتے ہیں۔ سو دیکھو کہ یہ اس خالق و مالک کی تم لوگوں پر کتنی بڑی عنایت اور کس قدر عظیم الشان رحمت ہے۔ پھر بھی اس سے سرکشی و سرتابی کتنا بڑا ظلم اور کس قدر بڑی ناشکری اور بے انصافی ہے؟ والعیاذ باللّٰہ، اَللّٰہُمَّ فَخُذْنَا بِنَواصِیْنَا اِلیٰ ما فیہٖ حُبُّکَ وَرَضاکَ۔

۱۴۲. یعنی تم لوگ اگر اپنے دعوے میں سچے ہو کہ ان میں سے بعض قسمیں دین ابراہیمی میں حرام تھیں تو تم اس کے لئے کوئی نقلی یا عقلی دلیل پیش کرو۔ یعنی یا تو دین ابراہیمی کی کوئی ایسی قابل اعتماد سند پیش کرو۔ جس سے ثابت ہو کہ فلاں فلاں چیزیں اس دین میں حرام تھیں۔ یا کوئی ایسی عقلی و فطری دلیل، جس سے تمہارے اس دعوے کی صحت پر اعتماد کیا جا سکے۔ اور جب ایسی کوئی دلیل موجود نہیں، اور یقیناً نہیں، تو پھر یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ تم لوگ اپنے اس دعوے میں جھوٹے ہو۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۱۴۳. کیونکہ ایسے ظالم لوگ جب اپنے ظلم پھر اڑے ہوئے ہیں اور وہ نور ہدایت سے سرفرازی چاہتے ہی نہیں تو پھر ان کو ہدایت آخر کیسے اور کیونکر مل سکتی ہے؟ جبکہ نُور ہدایت سے سرفرازی کے لئے اولین شرط طلب صادق ہے۔ سو انسان کی ہدایت و غوایت کا اصل تعلق اس کے اپنے قلب و باطن، اور ارادہ و نیت سے ہے۔ اور ایسے لوگ جب اپنے کفر و باطل پر اڑے ہوئے ہیں اور اللہ پر جھوٹ باندھ کر دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کے درپے ہیں تو پھر ان کو ہدایت سے سرفرازی آخر کیسے نصیب ہو سکتی ہے؟ والعیاذُ باللہ جل وعلا

۱۴۴. سو یہ ہیں وہ چیزیں جو کہ انعام یعنی چوپایوں سے متعلق ملت ابراہیمی میں حرام تھیں اور جن کا اعلان اب حضرت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے کرایا جا رہا ہے جو کہ اصل ملت ابراہیمی کے داعی اور اس کے علمبردار ہیں سو اس کے برعکس مشرکین نے جن چیزوں کو از خود حرام ٹھہرا رکھا ہے۔ وہ ان کے اپنے اوہام و خرافات کا نتیجہ ہے جن کا اصل ملت ابراہیمی سے کوئی تعلق اور سروکار نہیں، وہ سب خرافات ہیں۔ والعیاذُباللہ جل وعلا

۱۴۵. سو ملت ابراہیمی کے ذکر و بیان کے بعد اب اس ارشاد سے ملت یہود کا ذکر و بیان فرمایا جا رہا ہے کہ ان پر ان کی بغاوت و سرکشی کے نتیجے میں بعض ایسی طیبات یعنی پاکیزہ چیزیں حرام کر دی گئی تھیں جن میں ان کی اصل کے اعتبار سے حرمت کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ جیسے ناخن والے جانور، اور گائے بکری وغیرہ کی چربی، وغیرہ سو ان کی حرمت چونکہ یہود کی سرکشی کی بناء پر تھی۔ اس لئے اب ملت اسلام میں ان کی حرمت باقی نہیں رہی۔ اس لئے اب ایسی تمام طیب اور پاکیزہ چیزیں حلال و مباح ہیں۔ اور یہود پر جو قیدیں اور پابندیاں (اِصْر وً اَغْلال) عائد تھیں۔ وہ حضرت خاتم الانبیاء کی بعثت و تشریف آوری کے بعد اب اٹھا لی گئیں۔ جس طرح کہ ان سے وعدہ کیا گیا تھا جیسا کہ سورہ اعراف کی آیت نمبر۱٠۷ میں تصریح موجود ہے۔

۱۴۶. سو اس سے پیغمبر کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ اس ساری وضاحت کے باوجود اگر یہ لوگ ایمان نہ لائیں بلکہ آپ کی تکذیب ہی کرتے جائیں تو ان سے کہہ دو کہ اللہ بڑی ہی وسیع رحمت والا ہے۔ اس لئے وہ سرکشوں اور ہٹ دھرموں کو فوراً نہیں پکڑتا۔ بلکہ ان کو ڈھیل ہی دیئے جاتا ہے۔ اور وہ ایسوں کو بڑی لمبی ڈھیل دیتا ہے تاکہ وہ اپنا پیمانہ اتنا لبریز کر لیں کہ اس کے بعد ان کے لئے کسی عذر و معذرت کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ اس لئے وہ تم لوگوں کو بھی ڈھیل دے رہا ہے۔ پس اس سے تم لوگ مغرور نہ ہو جاؤ، کہ ڈھیل بہرحال ڈھیل ہی ہوتی ہے۔ جس نے بالآخر ختم ہو جانا ہوتا ہے۔ لیکن آخرکار جب وہ ظالموں اور مجرموں کو پکڑنے پر آتا ہے تو اس کی پکڑ بھی بڑی سخت ہوتی ہے۔ اور جب اس کی پکڑ کے ظہور کا وقت آ جاتا ہے، تو پھر وہ کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتی۔ پس تم لوگ اس سے بچنے کی فکر کر لو قبل اس سے کہ اس کی فرصت تمہارے ہاتھ سے نکل جائے۔ اور تم لوگوں کو ہمیشہ کے لئے پچھتانا پڑے۔ والعیاذُ باللہ العظیم پس اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کے لئے صحت و سلامتی، امن و امان، اور فوز و فلاح کی راہ یہی اور صرف یہی ہے کہ وہ صدق و اخلاص کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی ہدایت اور ان کے ارشادات کے آگے جھک جائے، اور ان کو صدق دل سے اپنا لے اور اپنی زندگی انہی کے مطابق گزارے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید،

۱۴۷. سو تم لوگ بغیر کسی دلیل اور سند کے محض اٹکل پچو باتوں سے کام لیتے ہو، تمہارا کام ظن و تخمین کی پیروی کرنا اور محض اٹکل کے تیر چلانا اور قیاس کے گھوڑے دوڑانا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مشیئت الٰہی اور چیز ہے، اور اس کی رضا و مرضی بالکل الگ چیز۔ تمہارا کفر و شرک اللہ تعالیٰ کی مشیئت میں تو ضرور داخل ہے کہ اس کی بادشاہی میں اس کی مشیئت کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اور اس کی مشیئت یہی ہے کہ اس دنیا میں ہر کسی کو اس کے ارادہ و اختیار کی آزادی دی جائے، کہ ابتلاء و آزمائش کا دارو مدار اسی پر ہے۔ لیکن تمہارا یہ کفر و شرک اس کی رضا اور مرضی کی چیز بہرحال نہیں کہ وہ کفر و شرک پر کبھی راضی نہیں ہو سکتا۔ سبحانہ و تعالیٰ، چنانچہ اس کا اپنا ارشاد ہے، اور صاف و صریح ارشاد ہے، وَلَا یَرْضیٰ لِعِبَادِہِ الْکُفْرَ، کہ وہ اپنے بندوں کے لئے کفر پر کبھی راضی نہیں ہو سکتا۔ اور اگر تم لوگوں کی اس احمقانہ اور من گھڑت منطق کو مان لیا جائے تو پھر اس کو ہر ظالم اور سرکش انسان اپنے ظلم اور اپنی بغاوت و سرکشی کے جواز کے لئے استعمال کر سکتا ہے اور ہر قاتل اس کو اپنے قتل کے جواز پر اور ہر چور اپنی چوری کی درستی کے لئے دلیل بنا سکتا ہے اور ہر بدمعاش اس کو اپنی بدمعاشی کے حق میں استعمال کر سکتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس طریق استدلال و احتجاج کی تصویب کوئی بھی نہیں کر سکتا پس یہ کوئی دلیل نہیں بلکہ یہ ان لوگوں کی شرارت کی ایجاد اور اپنی ضد پر اڑے رہنے کے لئے ایک بہانہ ہے۔ یہی روش ان سے پہلے کے منکروں نے بھی اختیار کی جس سے آخرکار وہ اپنے انجام کو پہنچ کر رہے۔ سو یہ بھی اپنے انجام کا انتظار کریں۔ وقت آنے پر اس سب کا نتیجہ ان کے سامنے خود آ جائے گا۔

۱۴۸ . سو اگر اس کو ایسی جبری ہدایت منظور و مطلوب ہوتی تو اس کے لئے اس قادر مطلق کو کچھ بھی مشکل نہیں تھا کہ وہ تم سب ہی کو محض اپنے ارادے اور اشارے ہی سے راہِ حق و ہدایت پر ڈال دیتا لیکن اس کے یہاں مطلوب و مفید وہی ایمان ہے جو اپنے ارادہ و اختیار اپنے دل کی چاہت و خواہش اور حجت و برہان کی بناء پر ہو۔ کہ ثواب اور عذاب کا اصل دار و مدار انسان کے اپنے ارادہ و اختیار ہی پر ہے نہ کہ جبری اور قہری ایمان پر۔

۱۴۹. سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ جب ان لوگوں کے پاس عقل و نقل کی کوئی دلیل نہیں اور نہ ہو سکتی ہے۔ تو یہ اگر اس کے باوجود اپنی ان خرافات کے حق میں کوئی گواہی دیتے ہیں تو آپ ان کے ساتھ گواہی نہ دینا۔ کیونکہ جس چیز کو یہ لوگ دین کہتے اور بتاتے ہیں وہ دین نہیں بلکہ ان کی خواہشات اور من گھڑت خرافات کا پلندہ ہے، اور خواہشات کی پیروی کا نتیجہ و انجام ہلاکت و تباہی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ پھر ان لوگوں کے اس ارشاد میں تین جرائم ذکر فرمائے گئے ہیں جو دراصل ان کے اتباع ہویٰ کے اس جرم ہی سے پھوٹنے والے ہیں ایک یہ کہ انہوں نے اللہ کی آیتوں کی تکذیب کی جس سے ان کی تاریکی اور گہری ہو گئی۔ اور دوسرا جرم یہ کہ یہ لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے جو کہ آیات الٰہی کی تکذیب کا لازمی نتیجہ ہے، اور تیسرا یہ کہ یہ لوگ اپنے رب کے ہمسر ٹھہراتے ہیں، جو کہ تکذیب آیات اور ایمان بالآخرۃ سے محرومی کا طبعی نتیجہ اور منطقی تقاضا ہے۔ ورنہ اس وحدہٗ لاشریک کا کوئی ہمسر نہ ہے نہ ہو سکتا ہے کہ اس کی صفت و شان وَلَمْ یَکُنْ لَہ، کُفُوًا اَحَدْ کی شان ہے، سبحانہ و تعالیٰ، سو ایمان و یقین کی دولت سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم

۱۵۰. یعنی تم لوگ سوچو کہ تمہارا بھلا کس میں ہے اور برا کس میں؟ اور یہ کہ اصل ملت ابراہیمی کیا تھی اور تم نے اس کو کیا سمجھ رکھا ہے؟ اور اس کو تم نے کیا سے کیا بنا دیا؟ اصل چیز کو چھوڑ کر تم لوگوں نے چند اچھے بھلے جانوروں کو از خود اور اپنے طور پر حرام قرار دے دیا۔ اور اس پر تم ملت ابراہیمی کے دعویدار بن بیٹھے ہو تم لوگ کہاں سے نکل کر کہاں پہنچ گئے ہو اور کیا سے کیا بن گئے ہو؟ دعوی تو تم لوگ ملت ابراہیمی کا کرتے ہو مگر کام اس کے بالکل برعکس کرتے ہو۔ سو تم لوگ عقل سے کام لو۔ اور ان باتوں کو صدق دل سے اپناؤ جو میں تم کو پڑھ کر سنا رہا ہوں کہ یہی احکام اصل ملت ابراہیمی اور اس کا خلاصہ ہے۔ اور یہی تقاضا ہے کہ عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا۔ اور اسی میں سب کا بھلا اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا سامان ہے جبکہ اس سے اعراض و روگردانی سراسر خسارہ اور محرومی ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۱۵۲. سو توحید خداوندی کے عقیدے پر مبنی یہی راستہ صراطِ مستقیم اور صحت و سلامتی کا راستہ اور فوز و فلاح کا واحد ذریعہ ہے جو اب میں تم لوگوں کو بتا رہا ہوں۔ اسی کی دعوت و تبلیغ کا پیغام حضرت ابراہیم نے دنیا کو دیا اور اسی کو اپنانے کی تعلیم و تلقین انہوں نے اپنی اولاد کو فرمائی، پس اس سیدھی راہ سے ہٹ کر جو دوسری مختلف ٹیڑھی ترچھی راہیں لوگوں نے نکالی ہیں وہ سب کی سب غلط، اور صراط مستقیم سے انحراف پر مبنی ہیں۔ پس تم لوگ ان سے بچو کہ وہ سب ملت ابراہیمی سے محروم کرنے والی، اور ہلاکت و تباہی کی راہیں ہیں۔ ملت ابراہیمی کی اسی صراط مستقیم سے اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو اب میرے ذریعے آگہی بخشی ہے، اور اس کو از سرنو باز کیا ہے۔ تاکہ اس کو اپنا کر تم لوگ ہلاکت و تباہی کی وادیوں میں بھٹکنے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی گرفت و پکڑ سے بچ سکو، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید، بکل حالٍ من الاحوال، وہو الہادی الی سبیل الرشاد

۱۵۴. سو یہ رحمتوں اور برکتوں بھری کتاب جس کو اب ہم نے اپنے بندوں کے لئے اتارا ہے۔ گزشتہ تمام آسمانی کتابوں کی اصل اور بنیادی تعلیمات کی جامع ان کی حامل کتاب ہے اور یہ ان کے لئے مہیمن اور ان کی امین و پاسدار ہے یعنی قرآن مجید جو کہ گزشتہ تمام آسمانی کتابوں کی ناسخ اور ان کی خاتم کتاب ہے۔ اور جو کہ اب ہدایت خداوندی کا واحد ذریعہ ہے۔ واضح رہے کہ مبارک کا لفظ قرآن حکیم میں بار بار اس بارش کے لئے استعمال ہوا ہے جو زمین کی سیرابی اس کی روئیدگی، اور سرسبزی، کا ذریعہ بنتی ہے، جو اس کے خزانوں کو ابھارتی اور اس کے مردہ اور بے آب و گیاہ ہو جانے کے بعد اس کو از سر نو حیات تازہ بخشتی ہے پس قرآن حکیم کے لئے اس لفظ کے استعمال میں یہ استعارہ ہے کہ یہ کتاب حکیم بھی دنیا کو اس کی روحانی موت کے بعد از سر نو حیات تازگی بخشنے، اور شریعت و ہدایت کے خزاں رسیدہ چمن کو پھر سے بہار کی رونقوں سے معمور کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے پس اس میں یہ عظیم الشان درس ہے کہ اس کی ناقدری نہ کرو۔ بلکہ دل و جان سے اس کی قدر کرتے ہوئے اس کی مقدس تعلیمات کو اپناؤ اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم اس کی رحمتوں اور برکتوں سے سرفراز و مالا مال ہو سکو۔ اور تمہارے دلوں کی اجڑی ہوئی دنیا پھر سے آباد و معمور ہو کے وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید، پس جنہوں نے اس سے منہ موڑا اور اس کی بے قدری اور ناشکری کی انہوں نے خود اپنے دلوں کی دنیا کو اجاڑنے اور بگاڑنے کا سامان کیا۔ والعیاذ باللہ العظیم

۱۵۵. یعنی اگر یہ کتاب نہ آئی ہوتی تو تم لوگ کل قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے حضور یہ عذر پیش کرتے کہ جس طرح کہ ہم سے پہلے یہود اور نصاری کے دو گروہوں پر آسمانی کتاب اتاری گئی۔ ایسی کوئی کتاب ہم پر کیوں نہیں اتاری گئی۔ کہ ان کی کتاب کے علم و مطالعہ اور اس کے درس و تعلّم سے ہم لوگ بے خبر تھے۔ یا تم لوگ یوں کہنے لگتے کہ اگر ہم پر کوئی کتاب اتاری گئی ہوتی تو ہم ان سے کہیں بڑھ کر ہدایت یافتہ ہوتے۔ تو پھر ہم پر کوئی ایسی کتاب کیوں نہ اتاری گئی؟ اور ہمیں اس نعمت سے کیوں محروم رکھا گیا؟ سو اب اس کتاب حکیم کے نزول کے بعد تم لوگ اس طرح کا کوئی عذر اور بہانہ پیش نہیں کر سکو گے۔ کہ اب تم پر یہ کتاب اتار دی گئی، اور تم لوگوں پر حجت قائم کر دی گئی، پس اب تم اپنے بارے میں خود دیکھ اور سوچ لو۔

۱۵۶. ۱: سو تم لوگوں پر کتاب اتاری گئی۔ اور وہ بھی ایسی خاص صفات والی کتاب، جو کہ بحیثیت مجموعی اس کے سوا اور کسی بھی کتاب میں نہ ہوئی ہیں نہ ہو سکتی ہیں۔ بلکہ وہ اسی کتاب حکیم کی خصوصیات اور اس کی اہم صفات ہیں۔ جن میں سے اس کی ایک اہم صفت اور اس کی امتیازی شان یہ ہے کہ اس کو تمہارے رب کی طرف سے بَیّنۃ یعنی ایک ایسی واضح دلیل، اور قطعی حجت، کے طور پر اتارا گیا ہے۔ جو اپنی صداقت و حقانیت کی دلیل خود ہے۔ اس کا کتاب الٰہی ہونا کسی خارجی دلیل کا محتاج نہیں، اور دوسرا پہلو اس کے بَیِّنۃ یعنی روشن دلیل ہونے کا یہ ہے کہ اس میں تورات کی طرح صرف احکام ہی نہیں ذکر فرمائے گئے، اور یہ محض خالی خولی احکام و ہدایات کا مجموعہ نہیں، بلکہ اس میں ہر دعوے کے ساتھ اس کی دلیل بھی موجود ہے، اور اس کی ہر ہدایت و تعلیم کے ساتھ ایسے دلائل و براہین بھی موجود و مذکور ہیں۔ جس سے وہ حکم و ارشاد دلوں میں اترتا اور عقول سلیمہ کو اپیل کرتا ہے۔ اور یہ دلائل و براہین ایسے ہیں جو عقول سلیمہ اور طبائع مستقیمہ کے عین مطابق ہیں، جن کے مقابلے میں کٹ حجتی تو کی جا سکتی ہے، لیکن ان کی تردید ممکن نہیں، والحمدللہ جل وعلا، اور دوسری بڑی اور ہم صفت اس کتاب ہدایت کی یہ ہے کہ یہ سراسر ہدایت ہے، یہ زندگی کے ہر گوشے سے متعلق اور ہر اعتبار سے ہدایت و راہنمائی فرماتی ہے، اور اس کی تیسری، اہم صفت اس کی یہ ہے کہ یہ عین رحمت ہے۔ یہ انسان کو اس دنیا میں بھی طرح طرح کی رحمتوں سے نوازتی ہے جس سے اس کو حیات طیبہ یعنی ایک عظیم الشان پاکیزہ زندگی کی سعادتیں نصیب ہوتی ہیں۔ اور پھر اس کو آخرت میں یہ جنت اور اس کی ان بے مثال نعمتوں سے سرفراز کرے گی جو سدا بہار اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہونگی اللہ نصیب فرمائے آمین ثم آمین

۲:  استفہام ظاہر ہے کہ یہاں پر انکاری ہے۔ یعنی اس سے بڑھ کر ظالم بدبخت اور محروم القسمت اور کوئی نہیں ہو سکتا، جس کے پاس یہ رحمتوں اور برکتوں بھری کتاب ہدایت آ جائے جو تمام عذرات خاتمہ کرنے والی، اور قطعی حجت و برہان ہے۔ اور جو ابر رحمت بن کر برسے، جو راہنمائی کے لئے روشنی کا مینار، دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ، اور آخرت میں رحمت خداوندی سے سرفرازی کی ضامن ہو۔ مگر اس سب کے باوجود وہ اس سے منہ موڑے، اور اس سے اعراض و روگردانی برتے، اور دوسروں کو بھی اس سے روکے۔ تو پھر اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے، والعیاذُ باللہ العظیم، سو ایسے ظالموں کو اپنے ظلم و عدوان کا بھگتان آخرکار، اور بہرحال بھگتنا ہو گا، اور بڑے ہی ہولناک انداز میں بھگتنا ہو گا، کہ یہ حضرت خالق حکیم کے عدل و انصاف اور اس کی حکمت بے پایاں، اور اس کی رحمت و عنایت کا تقاضا ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۱۵۹. سو یہ اسی رب رحمان کی رحمتوں بھری تعلیمات کا ایک نمونہ و مظہر ہے جس سے اس نے اس کتاب حکیم کے ذریعے اپنے بندوں کو نوازا ہے، یعنی نیکی کا صلہ و بدلہ تو کم سے کم دس گنا، اور برائی کی سزا اسی کے برابر اور یہ کہ ان لوگوں پر کسی طرح کا کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ نہ کسی کی کوئی نیکی کم کی جائے گی اور نہ کسی کے نامہ اعمال میں کسی ناکردہ گناہ کا کوئی اضافہ کیا جائے گا، بلکہ معاملہ اس سے بھی کہیں آگے ہے جیسا کہ دوسری مختلف نصوص میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ مثلاً یہ کہ نیکی کے سلسلے میں تو محض ارادہ کرنے پر بھی نیکی لکھ دی جائے گی، مگر برائی کے سلسلہ میں محض ارادہ کرنے پر برائی نہیں لکھی جائے گی جب تک کہ برائی کا بالفعل ارتکاب کر نہ لیا جائے، والعیاذُ باللہ العظیم، وغیرہ وغیرہ

۱۶۳. ۱: سو اس ارشاد سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے ملت ابراہیم یعنی ملت اسلام کی اصل روح کی تعبیر کرائی گئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان کی نماز اس کی قربانی اور اس کی ہر عبادت، اور اس کا مرنا اور جینا سب اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے۔ وہ جیتا ہے تو خداوند قدوس کی رضا و خوشنودی کے لئے اور مرتا ہے تو بھی اسی وحدہٗ لاشریک کی رضا و خوشنودی کیلئے۔ اس کی زندگی میں کوئی تقسیم نہیں بلکہ وہ از ابتداء تا انتہاء ہم رنگ اور ہم آہنگ ہے جب خداوند قدوس کا کوئی شریک نہیں، بلکہ وہ وحدہٗ لاشریک ہے تو اس لئے بندے کی زندگی میں بھی کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں۔ بلکہ وہ پوری کی پوری بغیر کسی تجزیہ و تقسیم کے اور بدوں کسی تحفظ و استثناء کے اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کے لئے ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہی میری فطرت ہے اور اسی کا مجھے میرے خالق و مالک کی طرف سے حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے۔ اور اسی کے لئے میں نے اپنی گردن اسی کے آگے ڈال دی ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۲: یعنی جہاں پر وہ عملی طور پر اس کا فیصلہ فرما دے گا۔ ورنہ علمی طور پر تو اس نے ان سب کا فیصلہ اپنی کتاب حکیم کے ذریعے اسی دنیا میں فرما دیا ہے، بہر کیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ہر کوئی اپنے کئے کرائے کا ذمہ دار خود ہے۔ ہر کسی کو اپنے کئے کرائے کا بھگتان خود ہی بھگتنا ہو گا۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور سب کو آخرکار لوٹ کر اپنے رب ہی کے پاس جانا اور اس کے حضور حاضر ہونا ہے اور اسی کے یہاں تمام اختلافات کا آخری اور عملی فیصلہ ہو گا۔ تو پھر ایسے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو اپنا حَکمَ و منصف ماننا اور اپنا معبود بنانا کس طرح اور کیونکر درست ہو سکتا ہے؟ سو خالق و مالک اور حَکمَ و معبود وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْا اِلاَّ اِیّاہ۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ وبہٰذا قدتَمَّ التفسیر المختصر لسورۃ الانعام بتوفیق اللہ و عنایتہ سبحانہ و تعالیٰ فلہ الحمد ولہ الشکر قبل کل شیئ وبعد کل شیئ،٩ رجب ۱۴۲۵ھ مطابق ۲۵ اگست ۲٠٠۴ بروز بدھ بوقت سوا گیارہ بجے شب سطوہ دبی والحمدللہ رب العالمین۔ الذی بِیَدہٖ اَزِمَّۃُ التَّوفیق والعنایۃ، سبحانہ و تعالیٰ