خزائن العرفان

سُوۡرَةُ القِیَامَة

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ قیامہ مکّیہ ہے، اس میں دو۲ رکوع، چالیس ۴۰ آیتیں، ایک سو ننانوے ۱۹۹کلمے، چھ سو بانوے ۲۹۶حرف ہیں۔

(۱) روزِ قیامت کی قسم! یاد  فرماتا ہوں۔

(۲)  اور اس جان کی قسم! جو اپنے  اوپر ملامت کرے  (ف ۲)

۲                 باوجود متّقی و کثیر الطاعۃ ہونے کے کہ تم مرنے کے بعد ضرور اٹھائے جاؤ گے۔

(۳) کیا آدمی (ف ۳)  یہ سمجھتا ہے  کہ ہم ہرگز اس کی ہڈیاں جمع نہ فرمائیں گے۔

۳                 یہاں آدمی سے مراد کافر منکِرِ بعث ہے۔

شانِ نزول : یہ آیت عدی بن ربیعہ کے حق میں نازل ہوئی جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے کہا تھا کہ اگر میں قیامت کا دن دیکھ بھی لوں جب بھی نہ مانوں اور آپ پر ایمان نہ لاؤں کیا اللہ تعالیٰ بکھری ہوئی ہڈیاں جمع کر دے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ کیا اس کافر کا یہ گمان ہے کہ ہڈیاں بکھرنے اور گلنے اور ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں ملنے اور ہواؤں کے ساتھ اڑ کر دور دراز مقامات میں منتشر ہو جانے سے ایسی ہو جاتی ہیں کہ ان کا جمع کرنا کافر ہماری قدرت سے باہر سمجھتا ہے؟ یہ خیالِ فاسد اس کے دل میں کیوں آیا اور اس نے کیوں نہیں جانا کہ جو پہلی بار پیدا کرنے پر قادر ہے وہ مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنے پر ضرور قادر ہے ؟۔

(۴) کیوں نہیں ہم قادر ہیں کہ اس کے  پور ٹھیک بنا دیں (ف ۴)

۴                 یعنی اس کی انگلیاں جیسی تھیں بغیر فرق کے ویسی ہی کر دیں اور ان کی ہڈیاں ان کے موقع پر پہنچا دیں، جب چھوٹی چھوٹی ہڈیاں اس طرح ترتیب دے دی جائیں تو بڑی کا کیا کہنا۔

(۵)  بلکہ آدمی چاہتا ہے  کہ اس کی نگاہ کے  سامنے  بدی کرے  (ف ۵)

۵                 انسان کا انکارِ بعث اشتباہ اور عدمِ دلیل کے باعث نہیں ہے بلکہ حال یہ ہے کہ وہ بحالِ سوال بھی اپنے فجور پر قائم رہنا چاہتا ہے کہ بطریقِ استہزاء پوچھتا ہے، قیامت کا دن کب ہو گا (جمل) حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس آیت کے معنیٰ میں فرمایا کہ آدمی بعث و حساب کو جھٹلاتا ہے جو اس کے سامنے ہے۔ سعید بن جبیر نے کہا کہ آدمی گناہ کو مقدّم کرتا ہے اور توبہ کو مؤخر، یہی کہتا رہتا ہے اب توبہ کروں گا، اب عمل کروں گا، یہاں تک کہ موت آ جاتی ہے اور وہ اپنی بدیوں میں مبتلا ہوتا ہے۔

(۶)  پوچھتا ہے  قیامت کا دن کب ہو گا۔

(۷) پھر جس دن آنکھ چوندھیائے  گی (ف ۶)

۶                 اور حیرت دامن گیر ہو گی۔

(۸) اور چاند کہے  گا (ف ۷)

۷                 تاریک ہو جائے گا اور روشنی زائل ہو جائے گی۔

(۹) اور سورج اور چاند ملا دیے  جائیں گے  (ف ۸)

۸                 یہ ملا دینا یا طلوع میں ہو گا دونوں مغرب سے طلوع کریں گے یا بے نور ہونے میں۔

(۱۰) اس دن آدمی کہے  گا کدھر بھاگ کر جاؤں (ف ۹)

۹                 جو اس حال و دہشت سے رہائی ملے۔

(۱۱) ہرگز نہیں کوئی پناہ نہیں۔

(۱۲) اس دن تیرے  رب ہی کی طرف جا کر ٹھہرنا ہے  (ف ۱۰)

۱۰               تمام خَلق اس کے حضور حاضر ہو گی، حساب کیا جائے گا، جزا دی جائے گی، جسے چاہے گا اپنی رحمت سے جنّت میں داخل کرے گا، جسے چاہے گا اپنے عدل سے جہنّم میں ڈالے گا۔

(۱۳) اس دن آدمی کو اس کا سب اگلا پچھلا جتا دیا جائے  گا (ف ۱۱)

۱۱               جو اس نے کیا ہے۔

(۱۴) بلکہ آدمی خود ہی اپنے  حال پر پوری نگاہ رکھتا ہے ۔

(۱۵) اور اگر اس کے  پاس جتنے  بہانے  ہوں سب لا  ڈالے۔

(۱۶) جب بھی نہ سنا جائے  گا تم یاد کرنے  کی جلدی میں قرآن کے  ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دو (ف ۱۲)

۱۲               شانِ نزول : سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم جبریلِ امین کے وحی پہنچا کر فارغ ہونے سے قبل یاد فرمانے کی سعی فرماتے تھے اور جلد جلد پڑھتے اور زبانِ اقدس کو حرکت دیتے اللہ تعالیٰ نے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی مشقّت گوارا نہ فرمائی اور قرآنِ کریم کا سینہ پاک میں محفوظ کرنا اور زبانِ اقدس پر جاری فرمانا اپنے ذمّۂ کرم پر لیا اور یہ آیتِ کریمہ نازل فرما کر حضور کو مطمئن فرما دیا۔

(۱۷) بیشک اس کا محفوظ  کرنا (ف ۱۳) اور پڑھنا (ف ۱۴) ہمارے  ذمہ ہے۔

۱۳               آپ کے سینۂ پاک میں۔

۱۴               آپ کا۔

(۱۸) تو جب ہم اسے  پڑھ چکیں (ف ۱۵) اس وقت اس پڑھے  ہوئے  کی اتباع کرو (ف ۱۶)

۱۵               یعنی آپ کے پاس وحی آ چکے۔

۱۶               اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم وحی کو باطمینان سنتے اور جب وحی تمام ہو جاتی تب پڑھتے تھے۔

(۱۹) پھر بیشک اس کی باریکیوں کا تم پر ظاہر فرمانا ہمارے  ذمہ ہے ۔

(۲۰) کوئی نہیں بلکہ اے  کافرو! تم پاؤں تلے  کی (دنیاوی فائدے  کو) عزیز دوست رکھتے  ہو (ف ۱۷)

۱۷               یعنی تمہیں دنیا کی چاہت ہے۔

(۲۱) اور آخرت کو چھوڑ بیٹھے  ہو۔

(۲۲) کچھ منہ  اس دن (ف ۱۸) تر و تازہ ہوں گے  (ف ۱۹)

۱۸               یعنی روزِ قیامت۔

۱۹               اللہ تعالیٰ کے نعمت و کرم پر مسرور چہروں سے انوارِ تاباں یہ مومنین کا حال ہے۔

(۲۳) اپنے  رب کا دیکھتے  (ف ۲۰)

۲۰               انہیں دیدارِ الٰہی کی نعمت سے سرفراز فرمایا جائے گا۔

مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ آخرت میں مومنین کو دیدارِ الٰہی میسّر آئے گا، یہی اہلِ سنت کا عقیدہ و قرآن و حدیث و اجماع کے دلائلِ کثیرہ اس پر قائم ہیں اور یہ دیدار بے کیف اور بے جہت ہو گا۔

(۲۴)  اور کچھ منہ اس دن بگڑے  ہوئے  ہوں گے  (ف ۲۱)

۲۱               سیاہ تاریک غمزدہ مایوس۔ یہ کفّار کا حال ہے۔

(۲۵) سمجھتے  ہوں گے  کہ ان کے  ساتھ وہ کی جائے  گی جو کمر کو توڑ دے  (ف ۲۲)

۲۲               یعنی وہ شدّتِ عذاب اور ہولناک مصائب میں گرفتار کئے جائیں گے۔

(۲۶) ہاں ہاں جب جان گلے  کو پہنچ جائے  گی (ف ۲۳)

۲۳               وقتِ موت۔

(۲۷) اور کہیں گے  (ف ۲۴) کہ ہے  کوئی جھاڑ پھونک کرے  (ف ۲۵)

۲۴               جو اس کے قریب ہوں گے۔

۲۵               تاکہ اس کو شفا حاصل ہو۔

(۲۸) سمجھ لے  گا (ف ۲۶) کہ یہ جدائی کی گھڑی ہے  (ف ۲۷)

۲۶               یعنی مرنے والا۔

۲۷               کہ اہلِ مکّہ اور دنیا سب سے جدا ئی ہوتی ہے۔

(۲۹) اور پنڈلی سے  پنڈلی لپٹ جائے  گی (ف ۲۸)

۲۸               یعنی موت کی کرب و سختی سے پاؤں باہم لپٹ جائیں گے، یا یہ معنیٰ ہیں کہ دونوں پاؤں کفن میں لپیٹے جائیں گے، یا یہ معنیٰ ہیں کہ شدّت پر شدّت ہو گی ایک دنیا کی جدائی کی سختی اس کے ساتھ موت کی کرب یا ایک موت کی سختی اور اس کے ساتھ آخرت کی سختیاں۔

(۳۰)  اس دن تیرے  رب ہی کی طرف ہانکنا ہے  (ف ۲۹)

۲۹               یعنی بندوں کا رجوع اسی کی طرف ہے، وہی ان میں فیصلہ فرمائے گا۔

(۳۱) اس نے  (ف ۳۰) نہ تو سچ مانا (ف ۳۱) اور نہ نماز پڑھی۔

۳۰               یعنی انسان نے۔ مراد اس سے ابوجہل ہے۔

۳۱               رسالت اور قرآن کو۔

(۳۲) ہاں جھٹلایا اور منہ پھیرا  (ف ۳۲)

۳۲               ایمان لانے سے۔

(۳۳) پھر اپنے  گھر کو اکڑتا  چلا (ف ۳۳)

۳۳               متکبّرانہ شان سے۔ اب اس سے خطاب فرمایا جاتا ہے۔

(۳۴)  تیری خرابی آ  لگی اب آ  لگی۔

(۳۵) پھر تیری خرابی آ لگی اب آ  لگی، (ف ۳۴)

۳۴               جب یہ آیت نازل ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے بطحا میں ابوجہل کے کپڑے پکڑ کر اس سے فرمایا اَوْلیٰ لَکَ فَاَوْلیٰ ثُمَّ اَوْلیٰ لَکَ فَاَوْلیٰ یعنی تیری خرابی آ لگی، اب آ لگی، پھر تیری خرابی آ لگی، اب آ لگی تو ابوجہل نے کہا اے محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) کیا تم مجھے دھمکاتے ہو تم اور تمہارا رب میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، مکّہ کے پہاڑوں کے درمیان میں سب سے زیادہ قوی، زور آور، صاحبِ شوکت و قوّت ہوں مگر قرآنی خبر ضرور پوری ہونی تھی اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا فرمان ضرور پورا ہونے والا تھا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جنگِ بدر میں ابوجہل ذلّت و خواری کے ساتھ بُری طرح مارا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا : ہر امّت میں ایک فرعون ہوتا ہے، میری امّت کا فرعون ابوجہل ہے، اس آیت میں اس کی خرابی کا ذکر چار مرتبہ فرمایا گیا ہے، پہلی خرابی بے ایمانی کی حالت میں ذلّت کی موت، دوسری خرابی قبر کی سختیاں اور وہاں کی شدّتیں، تیسری خرابی مرنے کے بعد اٹھنے کے وقت گرفتارِ مصائب ہونا، چوتھی خرابی عذابِ جہنّم۔

(۳۶) کیا آدمی اس گھمنڈ میں ہے  کہ آزاد چھوڑ دیا جائے  گا (ف ۳۵)

۳۵               کہ نہ اس پر امر و نہی وغیرہ کے احکام ہوں، نہ وہ مرنے کے بعد اٹھایا جائے، نہ اس سے اعمال کا حساب لیا جائے، نہ اسے آخرت میں جزا دی جائے ایسا نہیں۔

(۳۷) کیا وہ ایک بوند نہ تھا اس منی کا کہ گرائی جائے  (ف ۳۶)

۳۶               رحم میں۔ تو جو ایسے گندے پانی سے پیدا کیا گیا اس کا تکبّر کرنا اترانا اور پیدا کرنے والے کی نافرمانی کرنا نہایت بے جا ہے۔

(۳۸) پھر خون کی پھٹک ہوا تو اس نے  پیدا فرمایا (ف ۳۷) پھر ٹھیک بنایا (ف ۳۸)

۳۷               انسان بنایا۔

۳۸               اس کے اعضاء کو کامل کیا، اس میں روح ڈالی۔

(۳۹)  تو اس سے  (ف ۳۹) دو جوڑ بنائے  (ف ۴۰) مرد اور عورت۔

(۴۰) کیا جس نے  یہ کچھ کیا  وہ مردے  نہ جِلا سکے  گا۔

۳۹               یعنی منی سے یا انسان سے۔

۴۰               دو صفتیں پیدا کیں۔