تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ القِیَامَة

۱ ۔۔۔        ۱: یعنی قیامت کا دن جس کا ممکن ہونا عقل سے اور متیقن الوقوع ہونا ایسے مخبر صادق کی خبر سے ثابت ہو چکا ہے جس کے صدق پر دلائل قطعیہ قائم ہیں اس کی قسم کھاتا ہوں کہ تم یقیناً مرے پیچھے اٹھائے جاؤ گے اور ضرور بھلے برے کا حساب ہو گا۔

(تنبیہ) واضح ہو کہ دنیا میں کئی قسم کی چیزیں ہیں جن کی قسم لوگ کھاتے ہیں ، اپنے معبود کی، کسی معظم و محترم ہستی کی، کسی مہتم بالشان چیز کی، کسی محبوب یا نادر شے کی، اس کی خوبی یا ندرت جتانے کے لیے، جیسے کہتے ہیں کہ فلاں کی قسمت کی قسم کھائیے۔ پھر بلغاء یہ بھی رعایت کرتے ہیں کہ مقسم بہ مقسم علیہ کے مناسب ہو۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر جگہ مقسم بہ کو مقسم علیہ کے لیے شاہد ہی گردانا جائے۔ جیسے ذوق نے کہا ہے

۲: اتنا ہوں تری تیغ کا شرمندہ احساں سر میرا ترے سر کی قسم اٹھ نہیں سکتا،    یہاں اپنے سر کے نہ اٹھ سکنے پر محبوب کے سر کی قسم کھانا کس قدر موزوں ہے شریعت حقہ نے غیر اللہ کی قسم کھانا بندوں کے لیے حرام کر دیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی شان بندوں سے جداگانہ ہے۔ وہ اپنے غیر کی قسم کھاتا ہے اور عموماً ان چیزوں کو جو اس کے نزدیک محبوب یا نافع یا وقیع و مہتم بالشان ہوں ، یا مقسم علیہ کے لیے بطور شاہد و حجت کے کام دے سکیں یہاں یوم قیامت کی قسم اس کے نہایت وقیع و مہتم بالشان ہونے کی وجہ سے ہے اور جس مضمون پر قسم کھائی ہے اس سے مناسبت ظاہر ہے کیونکہ بعث و مجازات کا ظرف ہی یوم قیامت ہے۔ واللہ اعلم۔

۲ ۔۔۔      محققین نے لکھا ہے کہ آدمی کا نفس ایک چیز ہے لیکن اس کی تین حالتوں کے اعتبار سے تین نام ہو گئے ہیں ۔ اگر نفس عالم علوی کی طرف مائل ہو اور اللہ کی عبادت و فرمانبرداری میں اس کو خوشی حاصل ہوئی اور شریعت کی پیروی میں سکون اور چین محسوس کیا اس نفس کو "مطمئنہ" کہتے ہیں ۔ "یااَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِی اِلیٰ رَبِّکَ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً (الفجر، آیت:۲۷،۲۸) اور اگر عالم سفلی کی طرف جھک پڑا اور دنیا کی لذات و خواہشات میں پھنس کر بدی کی طرف رغبت اور شریعت کی پیروی سے بھاگا اس کو نفس "امارہ" کہتے ہیں کیونکہ وہ آدمی کو برائی کا حکم کرتا ہے۔ "وَمَا اُبَرِّیئُ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌمبِالسُّوْ ءِ اِلَّا مَارَحِمَ رَبِّی" (یوسف، رکوع۷، آیت:۵۳) اور اگر کبھی عالم سفلی کی طرف جھکتا اور شہوت و غضب میں مبتلا ہوتا ہے اور کبھی عالم علوی کی طرف مائل ہو کر ان چیزوں کو برا جانتا ہے اور ان سے دور بھاگتا ہے اور کوئی برائی یا کوتاہی ہو جانے پر شرمندہ ہو کر اپنے تئیں ملامت کرتا ہے اس کو "نفس لوامہ" کہتے ہیں ۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "آدمی کا جی اول کھیل میں اور مزوں میں غرق ہوتا ہے ہرگز نیکی کی طرف رغبت نہیں کرتا۔ ایسے جی کو "امارہ بالسوئ" کہتے ہیں ۔ پھر ہوش پکڑا، نیک و بد سمجھا تو باز آیا کبھی (غفلت ہوئی تو) اپنی خو پر دوڑ پڑا، پیچھے کچھ سمجھ آئی تو اپنے کیے پر پچھتانے اور ملامت کرنے لگا۔ ایسا نفس (جی) "لوامہ" کہلاتا ہے۔ پھر جب پورا سنور گیا، دل سے رغبت نیکی ہی پر ہو گئی بیہودہ کام سے خود بخود بھاگنے لگا اور بدی کے ارتکاب بلکہ تصور سے تکلیف پہنچنے لگی وہ نفس "مطمئنہ" ہو گیا۔" اھ بتغیریسیر۔ یہاں نفس لوامہ کی قسم کھا کر اشارہ فرمادیا کہ اگر فطرت صحیح ہو تو خود انسان کا نفس دنیا ہی میں برائی اور تقصیر پر ملامت کرتا ہے۔ یہی چیز ہے جو اپنی اعلیٰ و اکمل ترین صورت میں قیامت کے دن ظاہر ہو گی۔

۳ ۔۔۔     یعنی یہ خیال ہے کہ ہڈیوں تک کا چورا ہو گیا اور ان کے ریزے مٹی وغیرہ کے ذرات میں جا ملے۔ بھلا اب کس طرح اکٹھے کر کے جوڑ دیے جائیں گے؟ یہ چیز تو محال معلوم ہوتی ہے۔

 ۴ ۔۔۔     یعنی ہم تو انگلیوں کی پوریاں بھی درست کر سکتے ہیں اور پوریوں کی تخصیص شاید اس لیے کی کہ یہ اطراف بدن ہیں اور ہر چیز کے بننے کی تکمیل اس کے اطراف پر ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمارے محاورہ میں ایسے موقع پر بولتے ہیں کہ میری پور پور میں درد ہے۔ اس سے مراد تمام بدن ہوتا ہے۔ دوسرے پوریوں میں باوجود چھوٹی ہونے کے صنعت کی رعایت زیادہ اور عادۃً یہ زیادہ دشوار اور باریک کام ہے۔ لہٰذا جو اس پر قادر ہو گا وہ آسان پر بطریق اولیٰ قادر ہو گا۔

۶ ۔۔۔      یعنی جو لوگ قیامت کا انکار کرتے اور دوبارہ زندہ کیے جانے کو محال جانتے ہیں اس کا سبب یہ نہیں کہ یہ مسئلہ بہت مشکل ہے اور اللہ کی قدرت کاملہ کے دلائل و نشانات غیر واضح ہیں ۔ بلکہ آدمی چاہتا ہے کہ قیامت کے آنے سے پہلے اپنی اگلی عمر میں جو باقی رہ گئی ہے بالکل بے باک ہو کر فسق و فجور کرتا رہے اگر کہیں قیامت کا اقرار کر لیا اور اعمال کے حساب کتاب کا خوف دل میں بیٹھ گیا تو فسق و فجور میں اس قدر بے باکی اور ڈھٹائی اس سے نہ ہو سکے گی۔ اس لیے ایسا خیال دل میں آنے ہی نہیں دیتا۔ جس سے عیش منغض ہو اور لذت میں خلل پڑے۔ بلکہ استہزاء و تعنت اور سینہ زوری سے سوال کرتا ہے کہ ہاں صاحب وہ آپ کی قیامت کب آئے گی۔ اگر واقعی آنے والی ہے تو بقید سنہ و ماہ اس کی تاریخ تو بتلائیے۔

۷ ۔۔۔      یعنی حق تعالیٰ کی تجلی قہری سے جب آنکھیں چندھیانے لگیں گی اور مارے حیرت کے نگاہیں خیرہ ہو جائیں گی اور سورج بھی سر کے قریب آ جائے گا۔

۸ ۔۔۔      یعنی بے نور ہو جائے۔ چاند کو شاید الگ اس لیے ذکر کیا کہ عرب کو بوجہ قمری حساب رکھنے کے اس کا حال دیکھنے کا زیادہ اہتمام تھا۔

۹ ۔۔۔      یعنی بے نور ہونے میں دونوں شریک ہوں گے۔

۱۲ ۔۔۔       یعنی اب تو کہتا ہے کہ وہ دن کہاں ہے۔ اور اس وقت بدحواس ہو کر کہے گا کہ آج کدھر بھاگوں اور کہاں پناہ لوں ۔ ارشاد ہو گا کہ آج نہ بھاگنے کا موقع ہے نہ سوال کرنے کا۔ آج کوئی طاقت تیرا بچاؤ نہیں کر سکتی، نہ پناہ دے سکتی ہے۔ آج کے دن سب کو اپنے پروردگار کی عدالت میں حاضر ہونا اور اسی کی پیشی میں ٹھہرنا ہے پھر وہ جس کے حق میں جو کچھ فیصلہ کرے۔

۱۳ ۔۔۔       یعنی سب اگلے پچھلے اعمال نیک ہوں یا بد، اس کو جتلا دیے جائیں گے۔

۱۵ ۔۔۔       حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ۔ "یعنی اپنے احوال میں غور کرے تو رب کی وحدانیت جانے (اور یہ کہ سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے) اور جو کہے میری سمجھ میں نہیں آتا، یہ سب بہانے ہیں ۔" لیکن اکثر مفسرین نے اس کا تعلق "یُنَبَّؤا الْاِنْسَانُ یَوْمَئِذٍ" الخ سے رکھا ہے یعنی جتلانے پر بھی موقوف نہیں ۔ انسان اپنی حالت پر خود مطلع ہو گا گو باقتضائے طبیعت وہاں بھی بہانے بنائے اور حیلے حوالے پیش لائے جیسے کفار کہیں گے۔ "وَاللّٰہُ رَبَّنَا مَاکُنَّا مُشْرِکِیْنَ۔" بلکہ یہاں دنیا میں بھی وہ انسان جس کا ضمیر بالکل مسخ نہ ہو گیا ہو اپنی حالت کو خوب سمجھتا ہے۔ گو دوسروں کے سامنے حیلے بہانے بنا کر اس کے خلاف ثابت کرنے کی کتنی ہی کوشش کرے۔

۱۹ ۔۔۔      شروع میں جس وقت حضرت جبرائیل اللہ کی طرف سے قرآن لاتے، ان پر پڑھنے کے ساتھ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم بھی دل میں پڑھتے جاتے تھے تاکہ جلد اسے یاد کر لیں اور سیکھ لیں ۔ مبادا جبرائیل چلے جائیں اور وحی پوری طرح محفوظ نہ ہو سکے۔ مگر اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سخت مشقت ہوتی تھی۔ جب تک پہلا لفظ کہیں اگلا سننے میں نہ آتا۔ اور سمجھنے میں بھی ظاہر ہے دقت پیش آتی ہو گی اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس وقت پڑھنے اور زبان ہلانے کی حاجت نہیں ہمہ تن متوجہ ہو کر سننا ہی چاہیے۔ یہ فکر مت کرو کہ یاد نہیں رہے گا۔ پھر کیسے پڑھوں گا۔ اور لوگوں کو کس طرح سناؤں گا۔ اس کا تمہارے سینے میں حرف بحرف جمع کر دینا اور تمہاری زبان سے پڑھوانا ہمارے ذمہ ہے۔ جبرائیل جس وقت ہماری طرف سے پڑھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو خاموشی سے سنتے رہیے۔ آگے اس کا یاد کرانا اور اس کے علوم و معارف کا تمہارے اوپر کھولنا اور تمہاری زبان سے دوسروں تک پہنچانا، ان سب باتوں کے ہم ذمہ دار ہیں ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جبرائیل کے ساتھ ساتھ پڑھنا ترک کر دیا۔ یہ بھی ایک معجزہ ہوا، کہ ساری وحی سنتے رہے اس وقت زبان سے ایک لفظ نہ دہرایا۔ لیکن فرشتے کے جانے کے بعد پوری وحی لفظ بہ لفظ کامل ترتیب کے ساتھ بدون ایک زبر زیر کی تبدیلی کے فرفر سنا دی اور سمجھا دی، یہ اس دنیا میں ایک چھوٹا سا نمونہ ہوا۔ یُنَبَّؤُا اِلَّاِنْسَانُ یَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ" کا یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اپنی وحی فرشتے کے چلے جانے کے بعد پوری ترتیب کے ساتھ حرف بحرف بدون ادنیٰ فروگزاشت کے اپنے پیغمبر کے سینے میں جمع کر دے، کیا اس پر قادر نہیں کہ بندوں کے اگلے پچھلے اعمال جن میں سے بعض کو کرنے والا بھی بھول گیا ہو گا سب جمع کر کے ایک وقت میں سامنے کر دے اور ان کو خوب طرح یا دلا دے اور اسی طرح ہڈیوں کے منتشر ذرات کو سب جگہ سے اکٹھا کر کے ٹھیک پہلی ترتیب کو از سر نو وجود عطا فرما دے۔ بیشک وہ اس پر اور اس سے کہیں زیادہ پر قادر ہے۔

۲۱ ۔۔۔      یعنی تمہارا قیامت وغیرہ سے انکار کرنا ہرگز کسی دلیل صحیح پر مبنی نہیں ، بلکہ دنیا میں انہماک اس کا سبب ہے۔ دنیا چونکہ نقد اور جلد ملنے والی چیز ہے اسی کو تم چاہتے ہو۔ اور آخرت کو ادھار سمجھ کر چھوڑتے ہو کہ اس کے ملنے میں ابھی دیر ہے۔ انسان کی طبیعت میں جلد بازی داخل ہے۔ "خُلِقَ الْاِنْسٰنُ مِنْ عَجْلٍ" (انبیاء رکوع۳) فرق اتنا ہے کہ نیک لوگ پسندیدہ چیزوں کے حاصل کرنے میں جلدی کرتے ہیں جس کی ایک مثال ابھی "لَاتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ" میں گزری اور بدتمیز آدمی اس چیز کو پسند کرتے ہیں جو جلد ہاتھ آئے خواہ آخرکار اس کا نتیجہ ہلاکت ہی کیوں نہ ہو۔

۲۳ ۔۔۔     یہ آخرت کا بیان ہوا۔ یعنی مومنین کے چہرے اس روز تروتازہ اور ہشاش بشاش ہوں گے۔ اور ان کی آنکھیں محبوب حقیقی کے دیدار مبارک سے روشن ہوں گی۔ قرآن کریم اور احادیث متواترہ سے یقینی طور پر معلوم ہو چکا ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا۔ گمراہ لوگ اس کے منکر ہیں کیونکہ یہ دولت ان کے نصیب میں نہیں ۔ اللہم لاتحرمنا من ہذالنعمۃ التی لیس فوقہا نعمۃ۔

۲ ۴ ۔۔۔     یعنی پریشان اور بے رونق ہوں گے۔

۲۵ ۔۔۔     یعنی یقین رکھتے ہیں کہ اب وہ معاملہ ہونے والا ہے اور وہ عذاب بھگتنا ہے جو بالکل ہی کمر توڑ دے گا۔

۲۶ ۔۔۔       یعنی آخرت کو ہرگز دور مت سمجھو۔ اس سفر آخرت کی پہلی منزل تو موت ہے جو بالکل قریب ہے یہیں سے باقی منزلیں طے کرتے ہوئے آخری ٹھکانے پر جا پہنچو گے۔ گویا ہر آدمی کی موت اس کے حق میں بڑی قیامت کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔ جہاں مریض کی روح سمٹ کر ہنسلی تک پہنچی اور سانس حلق میں رکنے لگی سمجھو کہ سفر آخرت شروع ہو گیا۔

۲۷ ۔۔۔      ایسی مایوسی کے وقت طبیبوں اور ڈاکٹروں کی کچھ نہیں چلتی جب لوگ ظاہری علاج و تدبیر سے عاجز آ جاتے ہیں تو جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کی سوجھتی ہے۔ کہتے ہیں کہ میاں کوئی ایسا شخص ہے جو جھاڑ پھونک کر کے اس کو مرنے سے بچا لے اور بعض سلف نے کہا کہ "من راقٍ" فرشتوں کا کلام ہے جو ملک الموت کے ساتھ روح قبض کرنے کے وقت آتے ہیں وہ آپس میں پوچھتے ہیں ہیں کہ کون اس مردے کی روح کو لے جائے گا رحمت کے فرشتے یا عذاب کے؟ اس تقدیر پر "راقی"، "رقی" سے مشتق ہو گیا، جس کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں ۔ "رقیہ" سے نہ ہو گا۔ جو افسوس کے معنی میں ہے۔

۲۸ ۔۔۔     یعنی مرنے والا سمجھ چکا کہ تمام عزیز و اقارب اور محبوب و مالوف چیزوں سے اب اس کو جدا ہونا ہے یا یہ مطلب کہ روح بدن سے جدا ہونے والی ہے۔

۲۹ ۔۔۔      یعنی بعض اوقات سکرات موت کی سختی سے ایک پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ لپٹ جاتی ہے۔ نیز نیچے کے بدن سے روح کا تعلق منقطع ہونے کے بعد پنڈلیوں کا ہلانا اور ایک کو دوسرے سے جدا رکھنا اس کے اختیار میں نہیں رہتا۔ اس لیے ایک پنڈلی دوسری پر بے اختیار جا گرتی ہے۔ اور بعض سلف نے کہا کہ عرب کے محاورات میں 'ساق" کنایہ ہے سخت مصیبت سے۔ تو آیت کا ترجمہ یوں کیا جائے گا کہ "ملی ایک سختی دوسری سختی کے ساتھ" کیونکہ مرنے والے کو اس وقت دو سختیاں پیش آتی ہیں ۔ پہلی سختی تو یہی دنیا سے جانا، مال و اسباب، اہل و عیال، جاہ و حشم، سب کو چھوڑنا دشمنوں کی خوشی و طعنہ زنی، اور دوستوں کے رنج و غم کا خیال آنا، اور دوسری اس سے بڑی قبر اور آخرت کے احوال کی ہے۔ جس کی کیفیت بیان ہی نہیں آ سکتی۔

۳۰ ۔۔۔      یعنی سفر آخرت کی ابتداء یہاں سے ہے گویا بندہ اپنے رب کی طرف کھنچنا شروع ہوا مگر افسوس اپنی غفلت و حماقت سے کوئی سامان سفر کا پہلے سے درست نہ کیا نہ اتنے بڑے سفر کے لیے کوئی توشہ ساتھ لیا۔

۳۳ ۔۔۔       یعنی بجائے سچا سمجھنے اور یقین لانے کے پیغمبروں کو جھوٹا بتلاتا رہا، اور بجائے نماز پڑھنے اور مالک کی طرف متوجہ ہونے کے ہمیشہ ادھر سے منہ موڑ کر چلا۔ نہ صرف یہی بلکہ اپنی اس سرکشی اور بدبختی پر اتراتا اور اکڑتا ہوا اپنے متعلقین کے پاس جاتا تھا۔ گویا کوئی بہت بڑی بہادری اور ہنر مندی کا کام کر کے آ رہا ہے۔

۳۵ ۔۔۔       یعنی او بدبخت اب تیری کم بختی آئی، ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ اب تیرے لیے خرابی پر خرابی اور تباہی پر تباہی ہے۔ تجھ سے بڑھ کر اللہ کی نئی نئی سزاؤں کا مستحق اور کون ہو گا۔ (تنبیہ) شاید اول خرابی یقین نہ لانے اور نماز نہ پڑھنے پر، دوسری اس سے بڑھ کر جھٹلانے اور منہ موڑنے، پر تیسری اور چوتھی ان دونوں امور میں سے ہر ایک کو قابل فخر سمجھنے پر ہو۔ جس کی طرف۔ "ثُمَّ ذَہَبَ اِلیٰ اَہْلِہٖ یَتَمَطّیٰ" میں اشارہ ہے۔ واللہ اعلم۔

۳۶ ۔۔۔      یعنی کیا آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اس کو یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟ اور امرونہی کی کوئی قید اس پر نہ ہو گی؟ یا میرے پیچھے اٹھایا نہ جائے گا؟ اور سب نیک و بد کا حساب نہ لیں گے؟

۳۷ ۔۔۔      یعنی عورت کے رحم میں ۔

 ۴۰ ۔۔۔       یعنی نطفہ سے جمے ہوئے خون کی شکل میں آیا۔ پھر اللہ نے اس کی پیدائش کے سب مراتب پورے کر کے انسان بنا دیا اور تمام ظاہری اعضاء اور باطنی قوتیں ٹھیک کر دیں ۔ ایک نطفۂ بے جان سے انسان عاقل بن گیا۔ پھر اسی نطفہ سے عورت اور مرد دو قسم کے آدمی پیدا کیے جن میں سے ہر ایک قسم کی ظاہری و باطنی خصوصیات جداگانہ ہیں ۔ کیا وہ قادرِ مطلق جس نے اولاً سب کو ایسی حکمت و قدرت سے بنایا، اس پر قادر نہیں کہ دوبارہ زندہ کر دے؟ "سبحانک اللہم فبلیٰ۔" پاک ہے تیری ذات اے خدا! کیوں نہیں ، تو بیشک قادر ہے۔