اس سورت کو سورۃ الدین سورۃ ارأیت اور سورۃ الیتیم بھی کہتے ہیں (فتح القدیر)
١۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب ہے اور استفہام سے مقصد اظہار تعجب ہے۔رؤیت معرفت کے مفہوم میں ہے اور دین سے مراد آخرت کا حساب اور جزا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ کلام میں حذف ہے۔ اصل عبادت ہے " کیا تو نے اس شخص کو پہچانا جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے ؟ آیا وہ اپنی اس بات میں صحیح یا غلط۔
۲۔اس لیے کہ ایک تو بخیل ہے، دوسرا قیامت کا منکر ہے بھلا ایسا شخص یتیم کے ساتھ کیوں کر حسن سلوک کر سکتا ہے ؟ یتیم کے ساتھ وہی شخص اچھا برتاؤ کرے گا جس کے دل میں مال کے بجائے انسانی قدروں اور اخلاقی ضابطوں کی اہمیت ومحبت ہو گی۔ دوسرے اسے اس امر کا یقین ہو کہ اس کے بدلے میں مجھے قیامت والے دن اچھی جزا ملے گی۔
٣۔ یہ کام بھی وہی کرے گا جس میں مذکورہ خوبیاں ہوں گی ورنہ یتیم کی طرح مسکین کو بھی دھکا ہی دے گا۔
٥۔ اس مراد وہ لوگ ہیں نماز یا تو پڑھتے ہی نہیں یا پہلے پڑھتے رہے پھر سست ہو گئے یا نماز کو اس کے اپنے مسنوں وقت میں نہیں پڑھتے۔ جب جی چاہتا ہے پڑھ لیتے ہیں یا تاخیر سے پڑھنے کو معمول بنا لیتے ہیں یا خشوع خضوع کے ساتھ نہیں پڑھتے۔ یہ سارے ہی مفہوم اس میں آ جاتے ہیں اس لیے نماز کی مذکورہ ساری ہی کوتاہیوں سے بچنا چاہیے۔کہاں اس مقام پر ذکر کرنے سے یہ بھی واضح ہے کہ نماز میں ان کوتاہیوں کے مرتکب وہی لوگ ہوتے ہیں جو آخرت کی جزا اور حساب کتاب پر یقین نہیں رکھتے۔ اسی لیے منافقین کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے۔(واذا قاموا الی الصلوٰۃ قاموا کسالیٰ یراءون الناس ولا یذکرون اللہ الا قلیلا) (النساء)
٦۔یعنی ایسے لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ ہوئے تو نماز پڑھ لی بصورت دیگر نماز پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے، یعنی صرف نمود و نمائش اور ریا کاری کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔
٧۔معن شیء قلیل کہتے ہیں۔ بعض اس سے مراد زکوٰۃ لیتے ہیں، کیونکہ وہ بھی اصل مال کے مقابلے میں بالکل تھوڑی سی ہوتی ہے (ڈھائی فی صد) اور بعض اس سے گھروں میں برتنے والی چیزیں مراد لیتے ہیں جو پڑوسی ایک دوسرے سے عاریتا مانگ لیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ گھریلو چیزیں عاریتا دے دینا اور اس میں کبیدگی محسوس نہ کرنا اچھی صفت ہے اور اس کے برعکس بخل اور کنجوسی برتنا، یہ منکرین قیامت ہی کا شیوہ ہے۔