تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ المَاعون

نام

آخری آیت کے آخر لفظ الماعون کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول

ابنِ مَرْدُوْیَہ نے ابن عباس اور ابن الزُّبَیر رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے کہ یہ سورہ مکّی ہے،  اور یہی قول عطاء اور جابر کا بھی ہے۔  لیکن ابو حَیان نے البحر المُحِیط میں  ابن عباس اور قَتادہ  اور ضحّاک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہ مدینہ میں  نازل ہوئی ہے۔  ہمارے نزدیک خود اِس سورہ کے اندر ایک داخلی شہادت ایسی موجود ہے جو اس کے مدنی ہونے پر دلالت کرتی ہے،  اور وہ یہ ہے کہ اِس میں  اُن نماز پڑھنے والوں  کو تباہی کی وعید سُنائی گئی ہے جو اپنی نمازوں  سے غفلت برتتے اور دکھاوے کے لیے نماز پڑھتے ہیں ۔  منافقین کی یہ قسم مدینے ہی میں  پائی جاتی تھی،  کیونکہ وہیں  اسلام اور اہلِ اسلام کو یہ قوّت حاصل ہوئی تھی کہ  بہت سے لوگوں  کو مصلحۃً ایمان لانا پڑا تھا اور وہ مجبوراً مسجد میں  آتے تھے،  جماعت میں  شریک ہوتے تھے اور دکھاوے کی نمازیں  پڑھتے تھے،  تاکہ اُنہیں  مسلمانوں  میں  شمار کیا جائے،   اس کے برعکس مکّے میں  ایسے حالات سِرے سے موجود ہی نہ تھے  کہ وہاں  کسی کو دکھاوے کی نماز پڑھنی پڑتی۔ وہاں  تو اہلِ ایمان کے لیے نمازِ با جماعت کا اہتمام بھی مشکل تھا۔ اُن کو چھُپ چھُپ کر نما ز پڑھنی پڑتی تھی اور کوئی عَلانیہ پڑھتا تھا تو جان پر کھیل کر پڑھتا تھا۔ منافقین کی جو قسم وہاں  پائی جاتی تھی وہ ریاکارانہ ایمان لانے اور دکھاوے کی نمازیں  پڑھنے والوں  کی نہیں،  بلکہ اُن لوگوں  کی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے برسرحق ہونے کو جان اور مان گئے تھے،  مگر اُن میں  سے کوئی  اپنی ریاست و وجاہت اور مشیخت کو برقرار رکھنے کی خاطر اسلام قبول کرنے سے گریز کر رہا تھا اور کوئی یہ خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہ تھا کہ مسلمان ہو کر اُن مصائب میں  مبتلا ہو جائے جن میں  وہ ایمان لانے والوں  کو اپنی آنکھوں  کے سامنے مبتلا دیکھ رہا تھا۔ مکّی دور کے منافقین کی یہ حالت سورۂ عنکبوت،  آیات ۱۱-۱۰ میں  بیان کی گئی ہے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، العنکبوت، حواشی ۱۳ تا ۱۶)۔

موضوع اور مضمون

اس کا موضوع یہ بتاتا ہے کہ آخرت پر ایمان نہ لانا انسان کے اندر  کس قسم کے ا خلاق پیدا کرتا ہے۔  آیت ۲ اور ۳ میں  اُن  کفار کی حالت بیان کی گئی ہے جو عَلانیہ آخرت کو جھٹلاتے ہیں۔  اور آخری چار آیتوں  میں  اُن منافقین کا حال بیان کیا گیا ہے جو بظاہر مسلمان ہیں ،  مگر دل میں  آخرت اور اُس کی جزا و سزا اور اُس کے ثواب و عِقاب کا  کوئی تصور نہیں  رکھتے۔  مجموعی طور پر دونوں  قسم کے گروہوں  کے طرزِ عمل کو بیان کرنے سے مقصود یہ حقیقت  لوگوں  کے ذہن نشین کرنا ہے کہ انسان کے اندر ایک مضبوط اور مستحکم پاکیزہ کردار عقیدۂ آخرت کے بغیر پیدا نہیں  ہو سکتا۔

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
 تم نے دیکھا 1 اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا 2 کو جھُٹلاتا ہے ؟ 3 وہی تو ہے 4 جو یتیم کو دھکّے دیتا ہے،  5 اور مسکین کا کھانا 6 دینے پر نہیں  اُکساتا۔ 7 پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں  کے لیے 8 جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں،  9 جو ریا کاری کرتے ہیں  10 اور معمولی ضرورت کی چیزیں  11 (لوگوں  کو)دینے سے گریز کرتے ہیں۔  ؏۱

 

1: تم نے دیکھا کا خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے ہے مگر قرآن کا اندازِ بیان یہ ہے کہ ایسے مواقع پر وہ عموماً ہر صاحب عقل اور سوچنے سمجھنے والے شخص کو مخاطب کرتا ہے۔  اور دیکھنے کا مطلب آنکھوں  سے دیکھنا بھی ہے،  کیونکہ آگے لوگوں  کا جو حال بیان کا  گیا ہے وہ ہر دیکھنے والا اپنی آنکھوں  سے دیکھ سکتا ہے۔  اور اس کا مطلب جاننا، سمجھنا ور غور کرنا بھی ہے۔  عربی کی طرح اردو میں  بھی دیکھنے کا لفظ اس دوسرے معنی میں  استعمال ہوتا ہے۔  مثلاً ہم کہتے ہیں  کہ ’’میں  دیکھ رہا ہوں ‘‘ اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں  جانتا ہوں،  یا مجھے خبر ہے۔  یا مثلاً ہم کہتے ہیں  کہ ’’ذرا یہ بھی تو دیکھو‘‘ اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ذرا اس بات پر بھی غور کرو۔ پس اگر لفظ اَرَءَیْتَ کو اِس دوسرے معنی میں  لیا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ ’’جانتے ہو وہ کیسا شخص ہے جو جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ‘‘؟ یا ’’تم نے غور کیا اُس شخص کے حال پر جو جزائے اعمال کی تکذیب کرتا ہے ‘‘؟

2: اصل میں  یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ فرمایا گیا ہے۔  الدّیْن کا لفظ قرآن کی اصطلاح میں  آخرت کی جوائے اعمال کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور دینِ اسلام کے لیے بھی۔ لیکن جو مضمون آگے بیان ہوا ہے اس کے ساتھ پہلے معنی ہی زیادہ مناسبت رکھتے ہیں،  اگرچہ دوسرے معنی بھی سلسلۂ کلام سے غیر مطابق نہیں  ہیں۔  ابن عباس ؓ نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے،  اور اکثر مفسّرین پہلے معنی کو ترجیح دیتے ہیں۔  اگر پہلے معنی لیے جائیں  تو پوری سورۃ کے مضمون کا مطلب یہ ہو گا کہ آخرت کے انکار کا عقیدہ انسان میں  یہ سیرت و کردار پیدا کرتا ہے۔  اور  دوسرے معنی لیے جائیں  تو پوری سورۃ کا مدّعا دین اسلام کی اخلاقی اہمیت واضح کرنا قرار پائے گا۔ یعنی کلام کا مقصد یہ ہو گا کہ اسلام اُس کے برعکس سیرت و کردار پیدا کرنا چاہتا ہے جو اِس دین کا انکار کرنے والوں  میں  پائی جاتی ہے۔

3: اندازِ کلام سے محسوس  ہوتا ہے کہ یہاں  اس سوال سے بات کا آغاز  کرنے کا مقصد یہ پوچھنا نہیں  ہے کہ تم نے اُس شخص کو دیکھا ہے یا نہیں،  بلکہ سامع کو اِس بات پر غور کرنے کی دعوت دینا ہے کہ آخرت کی جزا و سزا کا انکار آدمی  میں  کس قسم کا کردار پیدا کرتا ہے،  اور اُسے یہ جاننے کا خواہشمند بنانا ہے کہ اِس عقیدے کو جھٹلانے والے کیسے لوگ ہوتے ہیں  تاکہ وہ ایمان بالآخر ۃ کی اخلاقی اہمیت سمجھنے کی کوشش کرے۔

4: اصل میں  فَذٰلِکَ الَّذِی فرمایا گیا ہے۔  اس فقرے میں  ف ایک پورے جملے کا مفہوم ادا کرتا ہے۔  اس کے معنی یہ ہیں  کہ ’’اگر تم نہیں  جانتے تو تمہیں  معلوم ہو کہ وہی تو ہے جو‘‘ یا پھر یہ اِس  معنی میں  ہے کہ  ’’اپنے اِس انکارِ  آخرت کی وجہ سے وہ ایسا شخص ہے جو‘‘۔

5: اصل میں  یَدُعُّ الْیَتِیْمَ کا فقرہ استعملا ہوا ہے جس کے کئی معنی ہیں۔  ایک یہ کہ وہ یتیم کا حق مار کھا تا ہے اور اس کے  باپ کو چھوڑی ہوئی میراث سے بے دخل کر کے اسے دھکے مار کر نکال دیتا ہے۔  دوسرے یہ کہ یتیم اگر اس سے مدد مانگنے آتا ہے تو رحم کھانے کے بجائے اسے دَھتکار دیتا ہے اور پھر بھی اگر وہ اپنی پریشان حالی کی بنا پر رحم کی امید لیے ہوئے کھڑا رہے تو اسے دھکّے دے کر دفع کر دیتا ہے۔  تیسرے یہ کہ وہ یتیم پر ظلم ڈھاتا ہے،  مثلاً اس کے گھر میں  اگر اس کا اپنا ہی کوئی رشتہ دار یتیم ہو تو اس کے نصیب میں  سارے گھر کی خدمتگاری کرنے اور بات بات پر جھڑکیاں   اور ٹھوکریں  کھانے کے سوا کچھ نہیں   ہوتا۔ علاوہ بریں  اِس فقرے میں  یہ معنی بھی پوشیدہ ہیں  کہ اُس شخص سے کبھی کبھار یہ ظالمانہ حرکت سرزد  نہیں  ہو جاتی، بلکہ اس کی عادت اور اس کا مستقل رویّہ یہی ہے۔  اُسے یہ احساس ہی نہیں   ہے کہ یہ کوئی بُرا کام ہے جو وہ کر رہا ہے۔  بلکہ وہ بڑے اطمینان کے ساتھ یہ روش اختیار کیے رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یتیم ایک بے بس اور بے یار و مددگار مخلوق ہے،  اس لیے کوئی ہرج نہیں  اگر اس کا حق مار کھایا جائے،  یا اسے ظلم و ستم کا تختۂ مشق بنا کر رکھا جائے،  یا وہ مدد مانگنے کے لیے آئے تو اُسے دَھتکار دیا جائے۔  اس سلسلے میں  ایک بڑا عجیب واقعہ قاضی ابو الحسن لماوَرْدِی نے اپنی کتاب اَعلامُ النُّبُوَّۃ میں  لکھا ہے۔  ابو جہل ایک یتیم کا وصی تھا۔ وہ بچہ ایک روز اِس حالت میں  اُس کے پاس آیا کہ اس کے بدن پر کپڑے تک نہ تھے۔  اوراس نے التجا کی کہ اُس کے باپ کے چھوڑے ہوئے مال میں  سے وہ اُسے کچھ دیدے۔  مگر اس ظالم نے اس کی طرف توجّہ تک نہ کی اور وہ کھڑے کھڑے آخر کار مایوس ہو کر پلٹ گیا۔ قریش کے سرداروں  نے از راہِ شرارت اس سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم) کے پاس جا کر شکایت کر،  وہ ابو جہل سے سفارش کر کے تجھے تیرا مال دلوا دیں  گے۔  بچہ بے چارہ ناواقف تھا کہ ابوجہل کا حضور ؐ سے کیا تعلق ہے اور یہ بدبخت اُسے کس غرض کے لیے یہ مشورہ دے رہے ہیں۔  وہ سیدھا حضور ؐ کے پاس پہنچا اور اپنا حال آپ ؐ سے بیان کیا۔ آپ ؐ اُسی وقت اُٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر اپنے بدترین دشمن ابو جہل کے ہاں  تشریف لے گئے۔  آپؐ کو دیکھ کر اُس نے آپ ؐ کا استقبال کیا اور جب آپؐ  نے فرمایا کہ اِس بچے کا حق اِسے دے دو۔ تو وہ فوراً مان گیا اور اس کا مال لا کر اسے دے دیا۔ قریش کے سردار تاک میں  لگے ہوئے تھے کہ دیکھیں ،  اِن دونوں  کے درمیان کیا معاملہ پیش آتا ہے۔  وہ کسی مزے دار جھڑپ کی امید کر رہے تھے۔  مگر جب انہوں  نے یہ معاملہ دیکھا تو حیران  ہو کر ابو جہل کے پاس آئے اور اسے طعنہ دیا کہ تم بھی اپنا دین چھوڑ گئے۔  اس نے کہا خدا کی قسم،  میں  نے اپنا دین نہیں  چھوڑا، مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم) کے دائیں  اور بائیں  ایک ایک حربہ ہے جو میرے اندر گھس جائے گا اگر میں  نے ذرا بھی ان کی مرضی کے خلاف حرکت کی۔ اِس واقعہ سے نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں  عرب کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور معزز قبیلے تک کے بڑے بڑے سرداروں  کا یتیموں  اور دوسرے بے یار و مددگار لوگوں  کے ساتھ کیا سلوک تھا،  بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کس بلند اخلاق کے مالک تھے اور آپ کے اِس اخلاق کا آپ کے بدترین دشمنوں  تک پر کیا رعب تھا۔ اِسی قِسم کا ایک واقعہ ہم اس سے پہلے تفہیم القرآن،  جلد سوم، صفحہ ۱۴۶ پر نقل کر چکے ہیں  جو حضور ؐ کے اُس زبردست اخلاقی رعب پر دلالت کرتا ہے جس کی وجہ سے کفارِ قریش آپ کو جادوگر کہتے تھے۔

6: اِطْعَامِ الْمِسْکِیْن نہیں  بلکہ طَعَا مِ الْمِسْکِیْن کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔  اگر اِطعام المسکین کہا گیا ہوتا تو معنی یہ ہوتے کہ وہ مسکین کو کھانا کھلانے پر نہیں  اُکساتے۔  لیکن طعام المسکین کے معنی یہ ہیں  کہ وہ مسکین کا کھانا دینے پر نہیں  اُکساتا۔ بالفاظِ دیگر جو کھانا مسکین کو دیا جاتا ہے وہ دینے والے کا کھانا نہیں  بلکہ اُسی مسکین کا کھانا ہے،  وہ اُس کا حق ہے جو دینے والے پر عائد ہوتا ہے،  اور دینے والا کوئی بخشش نہیں  دے رہا ہے بلکہ اُس کا حق ادا کر رہا ہے۔  یہی بات ہے جو سورۂ ذاریات آیت ۱۹ میں  فرمائی گئی ہے کہ وَفِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّآ ئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ  ’’اور ان کے مالوں  میں  سائل اور محروم کا حق ہے ‘‘۔

7: لَا یَحُضُّ کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اپنے نفس کو بھی اِس کام پر آمادہ نہیں  کرتا، اپنے گھر والوں  کو بھی یہ نہیں  کہتا کہ مسکین کا کھانا دیا کریں ،  اور دوسرے لوگوں  کو بھی اِس بات پر نہیں  اُکساتا تا کہ معاشرے میں  جو غریب و محتاج لوگ بھوکے مر رہے ہیں  ان کے حقوق پہچانیں  اور ان کو بھوک مٹانے کے لیے کچھ کریں۔   یہاں  اللہ تعالیٰ نے صرف دو نمایاں  ترین مثالیں  دے کر دراصل یہ بتایا ہے کہ اِنکارِ آخرت لوگوں  میں  کس قسم کی اخلاقی برائیاں  پیدا کرتا ہے۔  اصل مقصود اِن دو ہی باتوں  پر گرفت کرنا نہیں  ہے کہ آخرت کو نہ ماننے سے بس یہ دو خرابیاں  پیدا ہوتی ہیں  کہ لوگ یتیموں  کو دھتکار تے ہیں اور مسکینوں  کو کھانا  دینے پر نہیں  اُکساتے۔  بلکہ جو بے شمار خرابیاں  اِس گمراہی کے نتیجے میں  رُو نما ہوتی ہیں  ان میں  سے دو ایسی چیزیں  بطورِ  نمونہ پیش کی گئی ہیں  جن کو ہر شریف الطبع اور سلیم الفطرت انسان مانے گا کہ وہ نہایت قبیح اخلاقی رذائل ہیں۔  اِس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین کرنی مقصود ہے  کہ اگر یہی شخص خدا کے حضور اپنی حاضری اور جواب دہی کا قائل ہوتا تو اس سے ایسی کمینہ حرکتیں  سرزد نہ ہوتیں  کہ یتیم کا حق مارے،  اس پر ظلم ڈھائے،  اس کو دھُتکارے،  اور مسکین کو نہ خود کھلائے نہ کسی سے یہ کہے کہ اس کا کھانا اس کو دو۔ آخرت کا یقین رکھنے والوں  کے اوصاف تو وہ ہیں  جو سورۂ عصر اور سُورۂ بلد میں  بیان کیے گئے ہیں  کہ وَتَوَا صَوْ ا بِالْحَقِّ  (وہ ایک دوسرے کو حق پرستی اور ادائے حقوق کی نصیحت کرتے ہیں ) اور وَتَوَا صَوْ ا بِا لْمَرْحَمَۃ (وہ ایک دُوسرے کو خلق خدا پر رحم کھانے کی نصیحت کرتے ہیں )۔

8: فَوَیْلٌ لّلْمُصَلِّیْنَ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔  یہاں  ف اس معنی میں   ہے کہ کھلے کھلے منکرینِ آخرت کا حال تو یہ  تھا جو ابھی تم نے سنا، اب ذرا اُن منافقوں  کا حال بھی دیکھو جو نماز پڑھنے والے گروہ،  یعنی مسلمانوں  میں  شامل ہیں۔  وہ چونکہ بظاہر مسلمان ہونے کے باوجود آخرت کو جھُوٹ سمجھتے ہیں،  اس لیے ذرا دیکھو کہ وہ اپنے لیے کس تباہی کا سامان کر رہے ہیں۔  مُصَلِّیْن کے معنی تو ’’نماز پڑھنے والوں ‘‘ کے ہیں ،  لیکن  جس سلسلۂ کلام میں  یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آگے ان لوگوں  کی جو صفات بیان کی گئی ہیں  اُن کے لحاظ سے اِس لفظ کے معنی درحقیقت نمازی ہونے کے نہیں  بلکہ اہلِ صلوٰۃ،  یعنی مسلمانوں  کے گروہ میں  شامل ہونے کے ہیں۔

9: فِیْ صَلَاتِہِمْ سَاھُوْنَ نہیں  کہا گیا ہے بلکہ عَنْ صَلَا تِہِمْ سَاھُوْنَ کہا گیا ہے۔  اگر فی صَلوٰ تِہِمْ کے الفاظ استعمال ہوتے تو مطلب یہ ہوتا کہ وہ اپنی نماز میں  بھولتے ہیں۔  لیکن نماز پڑھتے پڑھتے کچھ بھول جانا شریعت  میں  نفاق تو درکنار گناہ بھی نہیں  ہے،  بلکہ سرے سے کوئی عیب یا قابلِ  گرفت بات تک نہیں  ہے۔  خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی کسی وقت نماز میں  بھول  لاحق ہوئی ہے۔  اور حضور ؐ نے اپس کی تلافی کے لیے سجدۂ سَہْو کا طریقہ مقرر فرمایا ہے۔  اِس کے بر عکس عَنْ صَلوٰ تِہِمْ سَاھُوْنَ کے معنی یہ ہیں  کہ وہ اپنی نماز سے غافل ہیں۔  نماز پڑھی تو اور نہ پڑھی تو،  دونوں  کی ان کی نگاہ میں  کوئی اہمیت نہیں  ہے۔  کبھی پڑھتے  ہیں  اور کبھی نہیں  پڑھتے۔  پڑھتے ہیں  تو اِس طرح کہ نماز کے وقت کو ٹالتے رہتے ہیں  اور جب وہ بالکل ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے کہ تو اُٹھ کر چار ٹھونگیں  مار لیتے ہیں۔  یا نماز  کے لیے اُٹھتے ہیں  تو بے دلی کے ساتھ اٹھتے ہیں،  اور بادل ناخواستہ پڑھ لیتے ہیں  جیسے کوئی مصیبت ہے جو ان پر نازل ہو گئی ہے۔  کپڑوں  سے کھیلتے ہیں۔  جماہیاں  لیتے ہیں۔  خدا کی یاد کا کوئی شائبہ تک ان کے اندر نہیں  ہوتا۔ پوری نماز میں  نہ اُن کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں ،  اور نہ یہ خیال رہتا ہے  کہ انہوں  نے کیا پڑھا ہے۔  پڑھ رہے ہوتے ہیں  نماز اور دل کہیں  اور پڑا رہتا ہے۔  مارا مار اِس طرح پڑھتے ہیں  کہ نہ قیام ٹھیک ہوتا ہے اور رکوع نہ سجود۔ بس کسی نہ کسی طرح نماز کی سی شکل بنا کر جلدی سے جلدی فارغ ہو جانے کی کو شش کرتے ہیں۔  اور بہت سے لوگ تو ایسے ہیں   کہ کسی جگہ پھنس گئے تو نماز پڑھ لی،  ورنہ اِس عبادت کا کوئی مقام ان کی زندگی میں  نہیں  ہوتا۔ نماز کا وقت آتا ہے تو انہیں  محسوس تک نہیں  ہوتا کہ یہ نماز کا وقت ہے۔  مؤذّن کی آواز کان میں  آتی ہے تو انہیں  یہ خیال تک نہیں  آتا کہ یہ کیا پکار رہا ہے،  کس کو پکار رہا ہے اور کس لیے پکار رہا ہے۔  یہی آخرت پر ایمان نہ ہونے کی علامات ہیں۔  کیونکہ دراصل اسلام کے مدّعیوں  کا یہ طرزِ عمل اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ نہ نماز پڑھنے پر کسی جزا کے قائل ہیں  اور نہ انہیں  اس بات کا یقین ہے کہ اس کے نہ پڑھنے پر کوئی سزا ملے گی۔ اسی بنا پر حضرت اَنَس ؓ بن مالک اور عطاء بن دِینار کہتے ہیں  کہ خدا کا شکر ہے اس نے فِیْ صَلَاتِہِمْ سَاھُوْنَ نہیں  بلکہ عَنْ صَلَا تِہِمْ سَاھُوْنَ فرمایا۔  یعنی ہم نماز میں  بھولتے تو ضرور ہیں  مگر نماز سے غافل نہیں  ہیں  اس لیے ہمارا شمار منافقوں  میں  نہیں  ہو گا۔ قرآن مجید میں  منافقین کی اِس کیفیت کو دوسری جگہ یوں  بیان کیا گیا ہے کہ وَلَا یَاْ تُوْنَ الصَّلوٰۃَ اِلَّا وَھُمْ کُسَالیٰ وَلَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَھُمْ کٰرھِوْنَ، ’’ وہ نماز کے لیے نہیں  آتے مگر کَسْمَساتے ہوئے اور (اللہ کی راہ میں ) خرچ نہیں  کرتے مگر بادل ناخواستہ‘‘(التوبہ۔۵۴)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم فرماتے ہیں  تلک صلوٰۃ المنافق، تلک صلوٰۃ المنافق، تلک صلوٰۃ المنافق یجلس یرقب الشمس حتّیٰ اذا کانت بین قرنی الشیطان قام فنقرار بعاً لا یذکر اللہ فیہا الّا قلیلا ’’ یہ منافق کی نماز  ہے۔ یہ منافق کی نماز  ہے۔  یہ منافق کی نماز  ہے۔  عَصر کے وقت بیٹھا سورج کو دیکھتا رہتا ہے،  یہاں  تک کہ جب وہ شیطان کے دونوں  سینگوں  کے درمیان پہنچ جاتا ہے (یعنی غروب کا وقت قریب آ جاتا ہے ) تو اُٹھ کر چار ٹھونگیں  مار لیتا ہے  جن میں  اللہ کو کم ہی یاد کرتا ہے ‘‘۔(بخاری۔ مسلم۔ مُسند احمد)۔ حضرت سعد ؓ بن ابی وَقّاص سے ان کے صاحبزادے مُصْعَب بن سعد روایت کرتے ہیں  کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے اُن لوگوں  کے بارے میں  پوچھا تھا جو نماز سے غفلت برتتے ہیں ۔  آپ نے فرمایا کہ یہ  وہ لوگ ہیں  جو نماز کو اُس کا وقت ٹال کر پڑھتے ہیں  (ابن جریر، ابو یَعلیٰ۔ ابن المُنْذِر۔ ابن ابی حاتم۔ طَبَرانی فی الاوسط۔ ابن مَرْدُوْیَہ۔ بیہقی فی اسُّنَن۔ یہ روایت حضرت سعد کے اپنے قول کی حیثیت سے بھی موقوفاً نقل ہوئی ہے اور اُس کی سند زیادہ قوی ہے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم  کے ارشاد کی حیثیت سے اِس کی مرفوعاً روایت کو بیہقی اور حاکم نے ضعیف قرار دیا ہے )۔ حضرت مصعب کی دوسری روایت یہ ہے کہ انہوں   نے اپنے والد ماجد سے پوچھا کہ  اِس آیت پر آپ نے غور فرمایا؟ کیا اِس کا مطلب نہیں  کو چھوڑ دینا ہے ؟ اِس سے مراد نماز پڑھتے پڑھتے آدمی کا خیال کہیں  اور چلا جانا ہے ؟ خیال بٹ جانے کی حالت ہم میں  سے کس پر نہیں   گزرتی؟ انہوں  نے جواب دیا نہیں،  اِس سے مراد نماز کے وقت کو ضائع کرنا اور اسے وقت ٹال کر پڑھنا  ہے ( ابن جریر، ابن ابی شَیْبَہ، ابو یَعلیٰ، ابن المُنْذِر، ابن مَرْدُوْیَہ،  بیہقی فی السنن)۔ اس مقام پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ نماز میں  دوسرے خیالات کا آ جانا اور چیز ہے اور نماز کی طرف کبھی متوجہ ہی نہ ہونا اور اس میں  ہمیشہ دوسری باتیں  ہی سوچتے رہنا بالکل دوسری چیز۔ پہلی حالت تو بشریت کا تقاضا ہے،  بلا اِرادہ دوسرے خیالات آہی جاتے ہیں ،  اور مومن کو جب بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ نماز سے اُس کی توجہ ہٹ گئی ہے تو وہ  پھر کوشش کر کے اُس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔  دوسری حالت نماز سے غفلت برتنے کی تعریف میں  آتی ہے،  کیونکہ اس میں  آدمی صرف نماز کی ورزش کر لیتا ہے،  خدا کی یاد کا کوئی ارادہ اس کے دل میں  نہیں  ہوتا، نماز شروع کرنے سے سلام پھیرنے تک ایک لمحہ کے لیے بھی اس کا دل خدا کی طرف متوجہ نہیں  ہوتا، اور جن خیالات کو لیے ہوئے وہ نماز میں  داخل ہوتا ہے اُنہی میں  مستغرق رہتا ہے۔

10: یہ فقرہ ایک مستقل فقرہ بھی ہو سکتا ہے اور پہلے فقرے سے متعلق بھی۔ اگر اسے ایک مستقل فقرہ قرار دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کوئی نیک کام بھی وہ خالص نیت کے ساتھ خدا کے لیے نہیں  کرتے بلکہ جو کچھ کرتے ہیں  دوسروں  کو دکھانے کے لیے کرتے ہیں  تاکہ ان کی تعریف  ہو، لوگ ان کو نیکو کار سمجھیں ،  ان کے کارِ خیر کا ڈھنڈورا دنیا میں  پِٹے،  اور اس کا فائدہ کسی نہ کسی صورت میں  انہیں  دنیا  ہی میں  حاصل ہو جائے۔  اور اگر اس کا تعلق پہلے فقرے کے ساتھ مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ وہ دکھاوے کی نمازیں  پڑھتے ہیں۔  مفسّرین نے بالعموم دوسرے ہی معنی کو ترجیح دی ہے کیونکہ پہلی نظر میں  یہی محسوس ہوتا ہے کہ اِس کا تعلق پہلے فقرے سے ہے۔  ابن عباس ؓ فرماتے ہیں، ’’اس سے مراد منافقین ہیں  جو دکھاوے کی نماز پڑھتے تھے،  اگر دوسرے لوگ موجود ہوتے تو پڑھ لیتے اور کوئی دیکھنے والا نہ ہوتا تو نہیں  پڑھتے تھے ‘‘۔ دوسری روایت میں  اُن کے الفاظ یہ ہیں : ’’تنہا ہوتے تو نہ پڑھتے اور عَلانیہ پڑھ لیتے تھے ‘‘ (ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، بیہقی فی الشعب)۔ قرآن مجید میں  بھی منافقین کی یہ حالت بیان کی گئی ہے کہ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلوٰۃِ قَامُوْا کُسَالیٰ یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِیْلاً۔ ’’اور جب وہ نماز کے لیے اُٹھتے ہیں  تو کَسْمَساتے ہوئے اُٹھتے ہیں،  لوگوں  کو دکھاتے ہیں ،  اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں ‘‘(النساء۔ ۱۴۲)

11:  اصل میں  لفظ ماعون استعمال ہوا ہے۔  حضرت علیؓ، ابن عمرؓ، سعید بن جُبَیر، قَتَادہ، حسن بصری، محمد بن حَنَفِیّہ، ضَحّاک،  ابن زید، عِکْرِمَہ، مجاہد، عطاء اور زُہری رحمہم اللہ کا قول یہ ہے کہ اس سے  مراد زکوٰۃ ہے۔  ابن عباس ؓ، ابن مسعودؓ، ابراہیم ؓ نخعی، ابو مالکؒ اور بہت سے دوسرے حضرات کا قول ہے کہ اس سے مراد  عام ضرورت کی اشیاء مثلاً ہَنڈیا، ڈول، کلہاڑی، ترازو، نمک، پانی، آگ، چقماق(جس کی  جانشین اب دیا سلائی ہے ) وغیرہ ہیں  جو عموماً لوگ ایک دوسرے سے عاریۃً مانگتے رہتے ہیں۔  سعید بن جبیر اور مجاہد کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں  ہے۔  حضرت علی ؓ کا بھی ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد زکوٰۃ بھی ہے اور یہ چھوٹی چھوٹی عام ضروریات کی چیزیں  بھی۔ عِکْرِمَہ سے  ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے کہ ماعون کا اعلیٰ مرتبہ زکوٰۃ ہے اور ادنیٰ ترین مرتبہ یہ ہے کہ کسی کو چھلنی، ڈول یا سوئی عاریۃً دی جائے۔  حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  کہ ہم اصحابِ  محمد صلی اللہ علیہ و سلم یہ کہا کرتے تھے (اور بعض روایات میں  ہے کہ حضورؐ کے عہد مبارکہ میں  یہ  کہا کرتے تھے ) کہ ماعون سے مراد ہنڈیا، کلہاڑی، ڈول، ترازو، اور ایسی ہی دوسری چیزیں  مستعار دینا ہے (ابن جریر، ابن ابی شَیبہ، ابو داؤد، نَسائی، بَزّار، ابن المنذر، ابن ابی حاتم،  طَبَرانی فی الاوسط، ابن مردویہ، بیہقی فی السنن، سعد بن عِیاض ناموں  کی تصریح کے بغیر قریب قریب یہی قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے صحابہ سے نقل کرتے ہیں  جس کے معنی یہ ہیں  کہ انہوں  نے متعدد صحابہ سے یہ بات سُنی تھی (ابن جریر، ابن ابی شَیبَہ) دَیلَمی، ابن عَساکِر اور ابو نعیم نے حضرت ابوہریرہ کی ایک روایت نقل کی ہے کہ جس میں  وہ کہتے ہیں  کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آیت کی یہ تفسیر بیان فرمائی کہ اس سے مراد کلہاڑی اور ڈول اور ایسی ہی دوسری چیزیں  ہیں۔  اگر یہ روایت صحیح ہے تو غالباً یہ دوسرے لوگوں  کے علم میں  نہ آئی ہو گی، ورنہ ممکن نہ تھا کہ پھر کوئی شخص اس آیت کی کوئی اور تفسیر کرتا۔ اصل میں  بات یہ ہے کہ ماعون چھوٹی اور قلیل چیز کو کہتے ہین جس میں  لوگوں  کے لیے کوئی  منفعت یا فائدہ ہو۔ اس معنی کے لحاظ سے زکوٰۃ بھی ماعون ہے،  کیونکہ وہ بہت سے مال میں  سے تھوڑا  سا مال ہے جو غریبوں  کی مدد کے لیے دینا ہوتا ہے،  اور وہ دوسری عام ضرورت کی اشیاء بھی ماعون ہیں  جن کا ذکر حضرت عبد اللہ بن مسعود اور ان کے ہم خیال حضرات نے کیا ہے۔  اکثر مفسرین کا خیال یہ ہے کہ ماعون کا اِطلاق اُن تمام چھوٹی چھوٹی چیزوں  پر ہوتا ہے کہ جو عادۃً ہمسایے ایک دوسرے سے مانگتے رہتے ہیں ۔  اُن کا مانگنا کوئی ذلت کی بات نہیں  ہوتا، کیونکہ غریب اور امیر سب ہی کو کسی نہ کسی وقت ان کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔  البتہ ایسی چیزوں  کو دینے  سے بخل برتنا اخلاقاً ایک ذلیل حرکت سمجھا جاتا ہے۔  عموماً ایسی چیزیں  بجائے کود باقی رہتی ہیں  اور  ہمسایہ ان سے کام لے کر انہیں  جوں  کا توں  واپس دے دیتا ہے۔  اِسی ماعون کی تعریف میں  یہ بھی آتا ہے کہ کسی کے ہاں  مہمان آ جائیں  اور وہ ہمسائے سے چارپائی یا بستر مانگ لے۔  یا کوئی ا پنے ہمسائے کے تنور میں  اپنی روٹی پکا لینے کی اجازت مانگے۔  یا کوئی کچھ دنوں  کے لیے بار جا رہا ہو اور حفاظت کے لیے اپنا کوئی قیمتی سامان دوسرے کے ہاں  رکھوانا چاہے۔  پس آیت کا مقصود یہ بتانا ہے کہ آخرت کا انکار آدمی کو اتنا تنگ دل بنا دیتا ہے  کہ وہ دوسروں  کے لیے کوئی معمولی ایثار کرنے کے لیے بھی تیار نہیں  ہوتا۔