اس کے بعد سورۃ الناس ہے، ان دونوں کی مشترکہ فضیلت متعدد احادیث میں بیان کی گئی ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا"آج کی رات مجھ پر کچھ ایسی آیات نازل ہوئی ہیں جن کی مثل میں نے کبھی نہیں دیکھی"یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دونوں سورتیں پڑھیں (صحیح مسلم) ابوحابس جہنی رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا"اے ابوحابس! کیا میں تمہیں سب سے بہترین تعویذ نہ بتاؤں جس کے ذریعے سے پناہ طلب کرنے والے پناہ مانگتے ہیں انہیں نے عرض کیا، ہاں ضرور بتلایئے ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں سورتوں کا ذکر کر کے فرمایا یہ دونوں معوذتان ہیں "(صحیح النسائی) نبی صلی اللہ علیہ و سلم انسانوں اور جنوں کی نظر سے پناہ مانگا کرتے تھے، جب یہ دونوں سورتیں نازل لوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے پڑھنے کو معمول بنا لیا اور باقی دوسری چیزیں چھوڑ دیں (صحیح الترمذی) حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کوئی تکلیف ہوتی تو معوذتین (قل اعوذ برب الفلق ) اور (قل اعوذ برب الناس) پڑھ کر اپنے جسم پر پھونک لیتے، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تکلیف زیادہ ہو گئی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں کو برکت کی امید سے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جسم پر پھیرتی (بخاری) جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کیا گیا تو جبرائیل علیہ السلام یہی دو سورتیں لے کر حاضر ہوئے اور فرمایا کہ ایک یہودی نے آپ صلی اللہ علی و سلم پر جادو کیا ہے، اور یہ جادو فلاں کنویں میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ کو بھیج کر اسے منگوایا، (یہ ایک کنگھی کے دندانوں اور بالوں کے ساتھ ایک دانتوں کے اندر گیا گرہیں پڑی ہوئی تھیں اور موم کا ایک پتلا تھا جس میں سوئیاں چبھوئی ہوئی تھیں ) جبرائیل علیہ السلام کے حکم مطابق آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان دونوں سورتوں میں سے ایک ایک آیت پڑھتے جاتے اور گرہ کھلتی جاتی اور سوئی نکلتی جاتی خاتمے تک پہنچتے پہنچتے ساری گرہیں بھی کھل گئیں اور سوئیاں بھی نکل گئیں آپ صل اللہ علی و سلم اس طرح صحیح ہو گئے جیسے کوئی شخص جکڑ بندی سے آزاد ہو جائے (صحیح ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ معمول بھی تھا کہ رات کو سوتے وقت سورۂ اخلاص اور معوذتین پڑھ کر اپنی ہتھیلیوں پر پھونکتے اور پھر انہیں پورے جسم پر ملتے، پہلے سر،چہرے اور جسم کے اگلے حصے پر ہاتھ پھیرتے، اس کے بعد جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پہنچتے تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایسا کرتے۔(صحیح بخاری)
١۔ فلَق کے معنی صبح کے ہیں۔ صبح کی تخصیص اس لئے کی کہ جس طرح اللہ تعالیٰ رات کا اندھیرا ختم کر کے دن کی روشنی لا سکتا ہے، وہ اللہ اسی طرح خوف اور دہشت کو دور کر کے پناہ مانگنے والے کو امن بھی دے سکتا ہے۔ یا انسان جس طرح رات کو اس بات کا منتظر ہوتا ہے کہ صبح روشنی ہو جائے گی، اسی طرح خوف زدہ آدمی پناہ کے ذریعے سے صبح کامیابی کے طلوع کا امیدوار ہوتا ہے۔ (فتح القدیر)
۲۔یہ عام ہے اس میں شیطان اور اس کی ذریت، جہنم اور ہر اس چیز سے پناہ ہے جس سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
۳۔رات کے اندھیرے میں خطرناک درندے اپنی کچھاروں سے اور موذی جانور اپنے بلوں سے اور اسی طرح جرائم پیشہ افراد اپنے مذموم ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نکلتے ہیں ان الفاظ کے ذریعے سے ان تمام سے پناہ طلب کی گئی۔غاسق، رات وقت داخل ہو جائے،چھا جائے۔
٤۔١نفاثات، مونث کا صیغہ ہے، جو النفوس (موصوف محذوف ) کی صفت ہے من شر النفوس النفاثات یعنی گرہوں میں پھونکنے والے نفسوں کی برائی سے پناہ اس سے مراد جادو کا کالا عمل کرنے والے مرد اور عورت دونوں ہیں یعنی اس میں جادوگروں کی شرارت سے پناہ مانگی گئی ہے، جادوگر پڑھ پڑھ کر پھونک مارتے اور گرہ لگاتے جاتے ہیں۔عام طور پر جس پر جادو کرنا ہوتا ہے اس کے بال یا کوئی چیز حاصل کر کے اس پر یہ عمل کیا جاتا ہے۔
۵۔حسد یہ ہے کہ حاسد، محسود سے زوال کی نعمت کی آرزو کرتا ہے چنانچہ اس سے بھی پناہ طلب کی گئی ہے کیونکہ حسد بھی ایک نہایت بری اخلاقی بیماری ہے جو نیکیوں کو کھا جاتی ہے۔