تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الفَلَق

(سورۃ الفلق ۔ سورہ نمبر ۱۱۳ ۔ تعداد آیات ۵)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     کہو (اے پیغمبر!) میں پناہ مانگتا ہوں نمودار کرنے والے رب کی

۲۔۔۔     ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا فرمائی ہے

۳۔۔۔     اور اندھیری رات کے شر سے جب کہ وہ چھا جائے

۴۔۔۔     اور گروہوں میں پھونکیں مارنے والیوں یا (پھونکنے والوں ) کے شر سے

۵۔۔۔     اور حسد کرنے والے کے شر سے جب کہ وہ حسد کرے

تفسیر

اس سورہ کریمہ میں مخلوق کے شرور سے بچنے کے لئے خالق کی پناہ مانگنے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے کہ مخلوق کے شر سے حضرت خالق جَلَّ مَجْدُہٗ ہی پناہ دے سکتا ہے فلق کے اصل معنی چیرنے پھاڑنے کے ہوتے ہیں۔ مخلوق میں سے ہر چیز چونکہ کسی دوسری چیز کو چیر پھاڑ کر ہی وجود میں آتی ہے اس لئے فلق کا اطلاق ہر مخلوق پر ہوتا ہے چنانچہ صبح کی سفیدی رات کے اندھیرے کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے پودا گٹھلی اور دانے کو پھاڑ کر ظاہر ہوتا ہے نباتات زمین کو پھاڑ کر نکلتی ہیں چشمے اور دریا، پہاڑوں کو پھاڑ کر جاری ہوتے ہیں، بچہ انڈے کو پھاڑ کر باہر نکلتا ہے، دوسری مختلف مخلوقات رحم کے منہ کو کھول کر وجود پذیر ہوتی ہیں اس لئے فلق کے لفظ کا عموم ان سب ہی کو شامل اور محیط ہے اس لئے ہم نے ترجمہ اسی عموم کے اعتبار سے کیا ہے و الحمد للہ۔ اسی طرح مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ کا عموم بھی تمام مخلوق کو شامل ہے۔ سو ان سب کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے اس کے بعد رات کے اندر کے شر گرہوں کے اندر پھونکیں مارنے والوں کے شر اور حاسد کے حسد کے شر سے بطور خاص پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی گئی ہے، حالانکہ مِنْ شَرِّ ماخلق کے عموم میں یہ سب ہی داخل ہیں اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے ہر قسم کے شرور و فتن سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین۔