تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الفَلَق

نام

اگرچہ  قرآن مجید کی یہ آخری دو سورتیں  بجائے خود الگ الگ ہیں،  اور مُصْحَف میں  الگ ناموں  ہی سے لکھی ہوئی ہیں ،  لیکن اِن کے درمیان باہم اتنا گہرا تعلق ہے،  اور اِن کے مضامین ایک دوسرے سے اِتنی قریبی مناسبت رکھتے ہیں  کہ اِن کا ایک مشترک نام’’مُعَوِّذَتَیْن‘‘ (پناہ مانگنے والی دو سورتیں ) رکھا گیا ہے۔  امام بَیْہَقی نے دلائلِ نبوت میں  لکھا ہے کہ یہ نازل بھی ایک ساتھ ہی ہوئی ہیں،  اِسی وجہ سے دونوں  کا مجموعی نام مُعَوِّذَتَیْن ہے۔  ہم یہاں  دونوں  پر ایک ہی دیباچہ  لکھ رہے ہیں  کیونکہ ان سے متعلقہ مسائل و مباحث بالکل یکساں  ہیں۔  البتہ آگے ان کی ترجمانی و تفسیر الگ الگ کی جائے گی۔

زمانۂ نزول

حضرت حسن بصری، عِکْرِمہ،  عطاء اور جابر بن زید کہتے ہیں  کہ یہ سورتیں  مکّی ہیں۔  حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بھی ایک روایت یہی ہے۔  مگر اُن سے دوسری روایت یہ ہے کہ یہ مدنی ہیں  اور یہی قول حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ قَتادہ کا بھی ہے۔  اِس دوسرے قول کو جو روایات تقویت پہنچاتی ہیں  ان میں  سے ایک مسلم، تِرمذی، نَسائی اور مُسندِ امام احمد بن حنبل میں  حضرت عُقْبَہؓ بن عامِر  کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے ایک روز مجھ سے فرمایا المُ تراٰیاتٍ اُنزِلَت اللیلۃ، لم یُرَمثلھن، اَعُوّذُ بِرَبّ الْفَلَقِ، اَعُوّذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ ’’تمہیں  کچھ پتہ ہے کہ آج رات مجھ پر کیسی آیات نازل ہوئی ہیں  ؟ یہ بے مثل آیات ہیں ۔  اعوذ بربّ الفلق اور اعوذ بربّ النّاس‘‘۔ یہ حدیث اس بنا پر اِن سورتوں  کے مدنی ہونے کہ دلیل ہے کہ حضرت عُقْبہ ؓ بن عامر ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں  ایمان لائے تھے،  جیسا کہ ابو داؤد اور نسائی نے خود اُن کے اپنے بیان سے نقل کیا ہے۔ (تفہیم القرآن ڈاٹ نیٹ)

دوسری روایات جو اِس قول کی تقویت کی موجب نبی ہیں  وہ ابن سعد، محیُّ السُّنَّہ بَغَوِی، امام نَسَفِی، امام بَیْہقَیِ، حافظ ابن حَجرَ، حافظ بدر الدین عَینی، عَبْد بن حُمیَد و غَیر ہم کی نقل کردہ یہ روایات ہیں  کہ جب مدینے میں  یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم پر جادو کیا تھا اور اس کے اثر سے حضورؐ بیمار ہو گئے تھے اس وقت یہ سورتیں  نازل ہوئی تھیں۔  ابن سعد نے واقِدی کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ یہ سن ۷ ہجری کا واقعہ ہے۔  اِسی بنا پر سُفیان بن عُیَیْنَہ نے بھی اِن سورتوں  کو مدنہ کہا ہے۔

لیکن جیسا کہ ہم سورۂ اخلاص کے دیباچے میں  بیان کرچکے ہیں ،  کسی سورۃ یا آیت کے متعلق جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ فلاں  موقع پر نازل ہوئی تھی تو اس کا مطلب لازماً یہی نہیں  ہوتا کہ وہ پہلی مرتبہ اُسی موقع پر نازل ہوئی تھی، بلکہ بعض اوقات ایسا ہوا ہے کہ ایک سورت یا آیت پہلے نازل ہو چکی ہوتی تھی، اور پھر کوئی خاص واقعہ یا صورتِ حال پیش آنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسی کی طرف دوبارہ بلکہ کبھی کبھی بار بار حضور ؐ کو توجہ دلائی جاتی تھی۔ ہمارے نزدیک ایسا ہی معاملہ  مُعَوِّذَتَیْن کا بھی ہے۔  اِن کا مضمون صاف بتارہا ہے کہ یہ ابتداءً مکّہ میں  اُس وقت نازل ہوئی ہوں  گی جب وہاں  حضور ؐ کی مخالفت خوب زور پکڑ چکی تھی۔ بعد میں  جب مدینہ طیبہ میں  منافقین، یہود اور مشرکین کی مخالفت کے طوفان اٹھے تو حضورؐ کو پھر اِنہی دونوں  سورتوں  کے پڑھنے کی تلقین کی گئی جیسا کہ حضرت عقبہؓ بن عامر کی مندرجۂ بالا روایت میں  ذکر آیا ہے۔  اسی کے بعد جب آپ پر جادو کیا گیا اور آپ کی علالتِ مزاج نے شدّت اختیار کی تو اللہ کے حکم سے جبریل علیہ السلام نے آ کر پھر یہی سورتیں  پڑھنے کی آپ کو ہدایت کی۔ اس لیے ہمارے نزدیک اُن مفسّرین کا بیان ہی زیادہ معتبر ہے جو اِن دونوں  سورتوں  کو مکّی قرار دیتے ہیں۔  جادو کے معاملہ کے ساتھ اِن کو مخصوص سمجھنے میں  تو یہ امر بھی مانع ہے کہ اُس کے ساتھ صرف سورۂ فلق کی صرف ایک آیت وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ ہی تعلق رکھتی ہے،  سورۂ فَلَق کی باقی آیات اور پوری سورۂ الناس کا اِس معاملہ سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں  ہے۔ موضوع اور مضمون        مکۂ معظمہ میں  یہ دونوں  سورتیں  جن حالات میں  نازل ہوئی تھیں  وہ یہ تھے کہ اسلام کی دعوت شروع ہوتے ہی ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے گویا بھِڑوں  کے چھتّے میں  ہاتھ ڈال دیا ہے۔  جوں  جوں  آپ کی دعوت پھیلتی گئی، کفّارِ قریش کی مخالفت بھی شدید ہوتی چلی گئی۔ جب تک اُنہیں  یہ امید رہی کہ شاید وہ کسی طرح کی سود سے بازی کر کے،  یا بہلا پھُسلا کر آپ کو اس کام سے باز رکھ سکیں  گے،  اُس وقت تک تو پھر بھی عَناد کی شدّت میں  کچھ کمی رہی۔ لیکن جب حضور ؐ نے اُن کو اس طرف سے بالکل مایوس کردیا کہ آپ ان کے ساتھ دین کے معاملہ میں  کوئی مصالحت کرنے پر آمادہ ہو سکیں  گے،  اور سورۂ کافرون میں  صاف صاف اُن سے کہہ دیا گیا کہ جن کی بندگی تم کرتے ہو اُن کی بندگی کرنے والا میں  نہیں  ہوں،  اور جس کی بندگی میں  کرتا ہوں  اُس کی بندگی کرنے والے تم نہیں  ہو، اس لیے میرا راستہ الگ ہے اور تمہارا راستہ الگ، تو کفار کی دشمنی اپنے پورے عروج پر پہنچ گئی۔ خصوصیت کے ساتھ جن خاندانوں  کے افراد  (مردوں  یا عورتوں،  لڑکوں  یا لڑکیوں ) نے اسلام قبول کر لیا تھا ان کے دلوں  میں  تو حضور کے خلاف ہر وقت بھٹّیاں  سُلگتی رہتی تھیں۔  گھر گھر آپ کو کوسا جا رہا تھا۔ خفیہ مشورے کیے جا رہے تھے کہ کسی وقت رات کو چھپ کر آپ کو قتل کردیا جائے تاکہ بنی ہاشم کو قاتل کا پتہ نہ چل سکے اور وہ بدلہ نہ لے سکیں ۔  آپ کے خلاف جادو ٹونے کیے جا رہے تھے تاکہ آپ یا تو وفات پاجائیں  یا سخت بیمار پڑجائیں،  یا دیوانے ہو جائیں۔  شیاطینِ جِنّ و انس ہر طرف پھیل گئے تھے تاکہ عوام کے دلوں  میں  آپ کے خلاف اور آپ کے لائے ہوئے دین اور قرآن کے خلاف کوئی نہ کوئی وسوسہ ڈال دیں  جس سے لوگ بدگمان ہو کر آپ سے دور بھاگنے لگیں۔  بہت سے لوگوں  میں  حسد کی آگ بھی جل رہی تھی، کیونکہ وہ اپنے سوا، یا اپنے قبیلے کے کسی آدمی کے سوا، دوسرے کسی شخص کا چراغ جلتے نہ دیکھ سکتے تھے۔  مثال کے طور پر، ابو جَہل جس بنا  پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی مخالفت میں  حد سے بڑھتا چلا جاتا تھا اس کی وجہ وہ خود یہ بیان کرتا ہے کہ ’’ہمارا اور بنی عبدِ مَناف  (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے خاندان) کا باہم مقابلہ تھا۔ اُنہوں  نے کھانے کھِلائے تو ہم نے بھی کھِلائے۔  اُنہوں  نے لوگوں  کو سواریاں  دیں  تو ہم نے بھی دیں۔  اُنہوں  نے عطیّے دیے تو ہم نے بحی دیے۔  یہاں  تک کہ وہ اور ہم جب عزت و شرف میں  برابر کی ٹکّر ہو گئے تو اب وہ کہتے ہیں  کہ ہم میں  ایک نبی ہے جس پر آسمان سے وحی اترتی ہے۔  بھلا اس میدان میں  ہم کیسے اُن کا مقابلہ کر سکتے ہیں ؟ خدا کی قسم ہم ہرگز اِس کو نہ مانیں  گے اور نہ اس کی تصدیق کریں  گے ‘‘ (ابنِ ہشام، جلد اول، ص ۳۳۷  - ۳۳۸)۔

اِن حالات میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے فرمایا گیا کہ اِن لوگوں  سے کہہ دو کہ میں  پناہ مانگتا ہوں   طلوعِ صبح کے رب کی، تمام مخلوقات کے شر سے،  رات کے اندھیرے اور جادوگروں  اور جادوگرنیوں  کے شر سے،  اور ھاسدوں  کے شر سے۔  اور ان سے کہہ دو کہ میں  پناہ مانگتا ہوں  انسانوں  کے رب، انسانوں  کے بادشاہ اور انسانوں  کے معبود کی ہر اُس وسوسہ انداز کے شر سے جو بار بار پلٹ کر آتا ہے اور لوگوں  کے دلوں  میں  وسوسے ڈالتا ہے،  خواہ وہ شیاطینِ جن میں  سے ہو یا شیاطینِ اِنس میں  سے۔  یہ اُسی طرح کی بات ہے جیسی حضرت موسیٰ نے اُس وقت فرمائی تھی جب فرعون نے بھرے دربار میں  اُن کے قتل کا ارادہ ظاہر کیا تھا کہ اِنِّی عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّکُمْ مِّنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لَّا یُؤمِنُ بِیَوْمِالْحِسَبِ،  ’’میں  نے اپنے اور تمہارے رب کی پناہ لے لی ہے ہر اُس متکبِّر کے مقابلے میں  جو روزِ حساب پر ایمان نہیں  رکھتا‘‘(المومن، ۲۷) وَانِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّکُمْ اَنْ تَرْ جُمُوْنِ، ’’اور میں  نے اپنے اور تمہارے رب کی پناہ لے لی ہے اِس بات سے کہ تم مجھ پر حملہ آور ہو‘‘۔ (الدُّخان - ۲۰)۔

دونوں  مواقع پر اللہ کے اِن جلیل القدر پیغمبروں  کا مقابلہ بڑی بے سروسامانی کی حالت میں  بڑے سروسامان اور وسائل و ذرائع اور قوت و شوکت رکھنے والوں  سے تھا۔ دونوں  مواقع پر وہ طاقت ور دشمنوں  کے آگے اپنی دعوتِ حق پر ڈٹ گئے درانحالیکہ اُن کے پاس کوئی مادّی طاقت اپنی نہ تھی جس کے بل پر وہ اُن کا مقابلہ کر سکتے۔  اور دونوں  مواقع پر انہوں  نے دشمنوں  کی دھمکیوں  اور خطرناک تدبیروں  اور مُعانِدانہ چالوں  کو یہ کہہ کر نظر انداز کردیا کہ تمہارے مقابلے میں  ہم نے ربّ کائنات کی پناہ لے لی ہے۔  ظاہر ہے کہ یہ اولوالعزمی اور ثابت قدمی وہی شخص دکھا سکتا ہے جس کو یہ یقین ہوکہ اُس رب کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہے،  اُس کے مقابلے میں  دنیا کی ساری طاقتیں  ہیچ ہیں،  اور اس کی پناہ جسے حاصل ہو اس کا کوئی کچھ نہیں  بگاڑسکتا۔ وہی یہ کہہ سکتا ہے کہ میں  کلمۂ حق کے اعلان سے ہرگز نہیں  ہٹوں  گا، تم جو چاہو کر لو، مجھے اِس کی کوئی پروا نہیں،  کیونکہ میں  تمہارے اور اپنے اور ساری کائنات کے رب کی پناہ لے چکا ہوں۔

معّوذتین کی قُرآنیت

ان دونوں  سورتوں  کے موضوع اور مضمون کو سمجھنے کے لیے تو اتنی بحث ہی کافی ہے جو اوپر کی جا چکی ہے۔  لیکن چونکہ حدیث و تفسیر کی کتابوں  میں  اِن کے متعلق تین ایسے مباحث آگئے ہیں  جو دلوں  میں  شبہات پیدا کر سکتے ہیں،  اس لیے ہم اُن کو بھی صاف کردینا ضروری سمجھتے ہیں۔

ان میں  سے اوّلین قابلِ توجہ مسئلہ یہ ہے کہ آیا اِن دونوں  سورتوں  کا قرآنی سورتیں  ہونا قطعی طور پر ثابت ہے،  یا اس میں  کسی شک کی گنجائش ہے ؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوا کہ حضرت عبداللہؓ بن مسعود جیسے عظیم المرتبہ صحابی سے متعدد روایتوں  میں  یہ بات منقول ہوئی ہے کہ وہ اِن دونوں  سورتوں  کو قرآن کی سورتیں  نہیں  مانتے تھے اور اپنے مُصْحَف سے اُنہوں  نے اِن کو ساقط کردیا تھا۔ امام احمد، بَزّار، طَبَرانی، ابن مَرْ دُوْیَہ، ابو یَعلیٰ، عبداللہ بن احمد بن حَنَبل، حُمَیدی، ابو نُعیم، ابن حِبّان، وغیرہ محدّثین نے مختلف سندوں  سے،  اور اکثر و بیشتر صحیح سندوں  سے یہ بات حضرت ابنِ مسعود سے نقل کی ہے۔  اِن روایات میں  نہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ اِن سورتوں  کو مُصحف سے ساقط کردیتے تھے،  بلکہ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ کہتے تھے ’’قرآن کے ساتھ وہ چیزیں  نہ ملاؤ جو قرآن کا جُز نہیں  ہیں۔  یہ دونوں  قرآن میں  شامل نہیں  ہیں۔  یہ تو ایک حکم تھا جو بنی صلی اللہ علیہ وسلّم کو دیا گیا تھا کہ آپ اِن الفاظ میں  خدا کی پناہ مانگیں ‘‘۔ بعض روایات میں  اِس پر یہ اضافہ بھی ہے کہ وہ اِن سورتوں  کو نماز میں  نہیں  پڑھتے تھے۔

اِن روایات کی بنا پر مخالفینِ اِسلام کو قرآن کے بارے میں  یہ شبہات اُبھارنے کا موقع مل گیا کہ معاذاللہ یہ کتاب تحریف سے محفوظ نہیں  ہے بلکہ اِس میں  جب یہ دوسورتیں  ابنِ مسعودؓ جیسے صحابی کے بیان کے مطابق اِلحاقی ہیں  تو نہ معلوم اور کیا کیا حذف و اضافے اِس کے اندر ہوئے ہوں  گے۔  اِس طعن سے پیچھا چھڑانے کے لیے قاضی ابوبکر الباقِلّانِی اور قاضی عِیاض وغیرہ نے یہ تاویل کی کہ ابنِ مسعودؓ مُعَوِّذتَین کی قرانیت کے منکر نہ تھے بلکہ صرف ان کو مُصْحَف میں  درج کرنے سے انکار کرتے تھے،  کیونکہ اُن کے نزدیک مُصْحَف میں  صرف وہی چیز درج کی جانی چاہیے تھی جس کے ثبت کرنے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اجازت دی ہو، اور ابن مسعودؓ تک یہ اطلاع نہیں  پہنچی تھی کہ حضورؐ نے اس کی اجازت دی ہے۔  لیکن یہ تاویل درست نہیں  ہے،  کیونکہ صحیح سندوں  کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ ابن مسعودؓ نے اِن کے قرآنی سورتیں  ہونے کا انکار کیا ہے۔  کچھ دوسرے بزرگوں ،  مثلاً مام نَوَوی، امام ابن حَزْم اور امام فخرالدین رازی نے سرے سے اِس بات ہی کو جھوٹ اور باطل قرار دیا ہے کہ ابن مسعود ؓ نے ایسی کوئی بات کہی ہے۔  مگر مستند تاریخی حقائق کو بلا سند رد کردینا کوئی علمی طریقہ نہیں  ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ابن مسعود ؓ کی اِن روایات سے قرآن پر جو طعن وارد ہوتا ہے اس کا صحیح رو کیا ہے ؟ اِس سوال کے کئی جواب ہیں  جن کو ہم سلسلہ وار درج کرتے ہیں :

(۱)      حافظ بَزّار نے اپنی مُسند میں  ابن مسعودؓ کی یہ روایات نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اپنی اِس رائے میں  وہ بالکل منفرد ہیں۔  صحابہ میں  سے کسی نے بھی اُن کے اِس قول کی تائید نہیں  کی ہے۔

(۲)      تمام صحابہ کے اتفاق سے خلیفۂ ثالث سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کے جو نسخے مرتّب کروائے تھے اور خلافتِ اسلامیہ کی طرف سے جن کو دنیائے اسلام کے مراکز میں  سرکاری طور پر بھیجا تھا، اُن میں  یہ دونوں  سورتیں  درج تھیں۔

(۳)     رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے عہدمبارک سے آج تک تمام  دنیائے اسلام کا جس مُصْحَف پر اجماع ہے اُس میں  یہ دونوں  سورتیں  درج ہیں۔  تنہا عبداللہ بن مسعودؓ کی رائے،  اُن کی جلالت قدر کے باوجود، اِس عظیم اِجماع کے مقابلے میں  کوئی وزن نہیں  رکھتی۔

(۴)     رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے نہایت صحیح و معتبرا حادیث کے مطابق یہ ثابت ہے کہ آپ نے اِن سورتوں  کو نماز میں  خود پڑھا ہے،  دوسروں  کو پڑھنے کی ہدایت فرمائی ہے اور قرآن کی سورتوں  کی حیثیت ہی سے لوگوں  کو اِن کی تعلیم دی ہے۔  مثال کے طور پر ذیل کی احادیث ملاحظہ ہوں :

مسلم، احمد، تِرْمِذِی، اور نَسائی کے حوالہ سے حضرت عُقْبہ بن عامِرؓ کی یہ روایت ہم اوپر نقل کرچکے ہیں  کہ حضورؐ نے سورۂ ناس کے متعلق اُن سے یہ فرمایا کہ آج رات یہ آیات مجھ پر نازل ہوئی ہیں۔  نَسائی کی ایک روایت عُقْبہ بن عامِر ؓ سے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے یہ دونوں  سورتیں  صبح کی نماز میں  پڑھیں۔  ابن حِبّان نے اِنہی حضرت عُقْبہ سے روایت نقل کی ہے کہ حضورؐ نے اُن سے فرمایا ’’اگر ممکن ہو تو تمہاری نمازوں  سے اِن دونوں  سورتوں  کی قراءت چھوٹنے نہ پائے ‘‘۔ سعید بن منصور نے حضرت مُعاذ بن حَبَلؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضورؐ نے صبح کی نماز میں  یہ دونوں  سورتیں   پڑھیں۔  امام احمد اپنی مُسند میں  صحیح سند کے ساتھ ایک اور صحابی کی یہ روایت لائے ہیں  کہ حضورؐ نے اُن سے فرمایا جب تمج نماز پڑھو تو اس میں  یہ دونوں  سورتیں  پڑھا کرو۔ مُسند احمد، ابوداؤد اور نَسائی میں  عُقْبہ بن عامِرؓ کی یہ روایت آئی ہے کہ حضورؐ نے اُن سے فرمایا ’’کیا میں  دو ایسی سورتیں  تمہیں  نہ سکھاؤں  جو اُن بہترین سورتوں  میں  سے ہیں  جنہیں  لوگ پڑھتے ہیں ؟‘‘انہوں  نے عرض کیا ضرور یا رسول اللہ۔ اس پر حضورؐ نے ان کو یہی معوّذتین پڑھائیں۔  پھر نماز کھڑی ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے یہی دو سورتیں  اس میں  بھی پڑھیں۔  اور نماز کے بعد پلٹ کر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم اُن کے پاس سے گزرے تو فرمایا ’’اے عقب، کیسا پایا تم نے ‘‘؟ اور اس کے بعد اُن کو ہدایت فرمائی کہ جب تم سونے لگو اور جب سو کر اٹھو تو اِن سورتوں  کو پڑھا کرو۔مُسند احمد، ابو داود، ترمذی اور نسائی میں  عُقبہ بن عامر کی ایک روایت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے ان کو ہر نماز کے بعد معوّ ذات (یعنی قل ہو اللہ احد اور معوّذتین) پڑھنے کی تلقین کی۔ نسائی، ابن مردویہ اور حاکم نے عُقبہ بن عامر کی یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سواری پر چلے جا رہے تھے اور میں  آپ کے قدم مبارک پر ہاتھ رکھے ہوئے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ میں  نے عرض کیا مجھے سورہ ہود یا سورہ یوسف سکھا دیجیے۔  فرمایا’’اللہ کے نزدیک بندے کے لیے قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ سے زیادہ نافع کوئی چیز نہیں  ہے ‘‘۔ عبد اللہ بن عابس الجُہَنِی کی روایت نسائی، بَیْقَہی، لَغَوی اور ابن سعد نے نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے مجھ سے فرمایا’’ابن عابس، کیا میں  تمہیں  نہ بتاوں  کہ پناہ مانگنے والوں  نے جتنی چیزوں  کے ذریعہ سے اللہ کی پناہ مانگی ہے ان میں  سب سے افضل کون سی چیزیں  ہیں ؟‘‘ میں  نے عرض کیا ضرور یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم۔ فرمایا’’قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ  اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ، یہ دونوں  سورتیں ‘‘ابن مردویہ نے حضرت امّ سلمہ کی روایت نقل کی ہے  کہ اللہ کو جو سورتیں  سب سے زیادہ پسند ہیں  وہ قل اعوذ بربّ الفلق اور قل اعوذ بربّ الناس ہیں۔

یہاں  یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مسعود کو یہ غلط فہمی آخر کیسے لاحق ہوئی کہ یہ دونوں  قرآن مجید کی سورتیں  نہیں  ہیں ؟ اِ س کا جواب ہمیں  دو روایتوں  کو جمع کر کے دیکھنے سے ملتا ہے۔  ایک یہ روایت کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے تھے کہ یہ تو ایک حکم تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو دیا گیا تھا کہ آپ اِس طرح تعوّذ کیا کریں۔  دوسری وہ روایت جو کئی مختلف سندوں  سے امام بخاری نے صحیح البخاری میں ،  امام احمد نے اپنی مُسند میں۔  حافظ ابو بکر الحُمیدی نے اپنی سُند میں،  ابو نُعَیم نے اپنی المُسْتَخْرج میں  اور نسائی نے اپنی سُنن میں  زربن حُبَیش کے حوالے سے تھوڑے تھوڑے لفظی اختلاف کے ساتھ حضرت اُبَیّ بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے،  جو علم قرآن کے لحاظ سے صحابہ کرام میں  ایک ممتاز مقام رکھتے تھے،  نقل کی ہے۔  زرین حُبَیش کا بیان ہے کہ میں  نے  حضرت اُبَیّ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  کہا کہ آپ کے بھائی عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مسعود ایسا اور ایسا کہتے ہیں۔  آپ ان کے اس اقوال کے متعلق کیا کہتے ہیں ؟ انہوں  نے جواب دیا  کہ ’’میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے اس کے بارے میں  سوال کیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے فرمایا کہ مجھ سے کہا گیا قُل، تو میں  نے بھی کہا قُل۔ اس لیے ہم بھی اُسی طرح کہتے ہیں  جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کہتے تھے ‘‘۔ امام احمد کی روایت میں  حضرت اُبَیّ کے الفاظ یہ ہیں : ’’میں  شہادت دیتا ہوں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے مجھے بتایا کہ جبریل علیہ السلام نے آپ سے قُل اعوذ برب الفلق کہا تھا اس لیے اپ نے بھی ایسا ہی کہا، اورا نہوں  نے قُل اعوذ برب الناس کہا تھا اس لیے آپ نے بھی  ایسا ہی کیا۔ لہٰذا ہم بھی اُسی طرح کہتے ہیں  جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے کہا۔‘‘ان دونوں  روایتوں  پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دونوں  سورتوں  میں  لفظ قُل(کہو) دیکھ کر یہ غلط فہمی ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو اعوذ برب الفلق اور اعوذ برب الناس کہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ لکن) انہوں  نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اِس کے متعلق سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ حضرت اُبَیّ بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہن میں  بھی اس کے متعلق سوال پیدا ہوا اور انہوں  نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے اِس کو پوچھ لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے بتایا کہ جبریل علیہ السلام نے چونکہ قُل کہا تھا اس لیے میں  بھی قُل کہتا ہوں۔  اس بات کو یوں  سمجھیے کہ اگر کسی کو حکم دینا مقصود ہواور اس سے کہا جائے کہ’’میں  پناہ مانگتاہوں ‘‘، تو وہ حکم کی تعمیل  میں  یہ نہیں  کہے گا کہ ’’کہو، میں  پناہ مانگتا ہوں ‘‘، بلکہ وہ ’’کہو‘‘کا لفظ ساقط کر کے ’’میں  پناہ مانگتا ہوں ‘‘کہے گا۔ بخلاف اس کے اگر کسی کو بالا دست حاکم کا پیغام بر اِن الفاظ میں  پیغام پہنچائے کہ’’کہو، میں  پناہ مانگتا ہوں ‘‘ اور یہ پیغام اُسے اپنے تک رکھنے کے لیے نہیں  بلکہ دوسروں  تک پہنچانے کے لیے دیا جائے تو وہ لوگوں  تک پیغام  کے الفاظ کوجوں  کا توں  پہنچائے گا، اُس میں  سے کوئی چیز ساقط کرنے کا مجاز نہ ہو گا۔پس اِن دونوں  سورتوں  کی ابتدا لفظ قُل سے ہونا اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ یہ کلام دی ہے  جسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو دیا گیا ہو۔ قرآن مجید میں  اِن دونوں  سورتوں  کے علاوہ ۱۳۳۰ آیتیں  ایسی ہیں  جو لفظ قُل(کہو)سے شروع ہوئی ہیں۔  ان سب میں  قُل کا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ یہ کلامِ وحی ہے جسے اُنہی الفاظ میں  پہنچانا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے ذمہ فرض تھا جن الفاظ میں  یہ آپ پر نازل کیا گیا تھا، اور اُسے قرآن میں  درج نہ کیا جاتا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم صرف اِس حکم کی تعمیل میں  وہ بات کہہ دینے پر اکتفا فرماتے جسے کہنے کا آپ کو حکم دیا گیا  تھا۔

اس مقام پر اگر آدمی کچھ غور کرے تو اُس کی سمجھ میں  یہ بات اچھی طرح آ سکتی ہے کہ صحابہ کرام کو  بے خطا سمجھنا اور اُن کی کسی بات کے لیے غلط کا لفظ سنتے ہی توہین صحابہ کا شور مچا دینا کس قدر بے جا حرکت ہے۔  یہاں  آپ دیکھ رہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی سے قرآن کی دوسورتوں  کے بارے میں  کتنی بڑی چُوک ہو گئی۔ ایسی چوک اگر اتنے عظیم مرتبہ کے صحابی سے ہو سکتی ہے تو دوسروں  سے بھی کوئی چوک ہو جاتی ممکن ہے۔  ہم علمی تحقیق کے لیے اُس چھان بین بھی کر سکتے ہیں،  اور کسی صحابی کو کوئی بات یا چند باتیں  غلط ہوں  تو انہیں  غلط بھی کہہ سکتے ہیں۔  البتہ سخت ظالم ہو گا وہ شخص جو غلط کہنے سے آگے بڑھ کر اُن پر زبان طعن دراز کرے۔  اِنہی معوّذتین کے بارے میں  مفسرین و محدثین نے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کو غلط کہا ہے،  مگر کسی نے یہ کہنے کی جرأت نہیں  کی کہ قرآن کی دوسورتوں  کا انکار کر کے معاذ اللہ وہ کافر ہو گئے تھے۔ حضورؐ پر جادو کا اثر: دوسرا مسئلہ جو اِن سورتوں  کے معاملہ میں  پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ روایات کی رو سے حضورؐ پر جادو کیا گیا تھا، اور اس کے اثر سے آپ بیمار ہو گئے تھے،  اور اس اثر کو  دور کرنے کے لیے جبریل علیہ السلام نے آ کر آپ کو یہ سورتیں  پڑھنے کی ہدایت کی تھی۔ اس پر قدیم اور جدید زمانے کے بہت سے عقلیت پسندوں  نے اعتراض کیا ہے کہ روایات اگر مان لی جائیں  تو شریعت ساری کی ساری مُشْتَبہ ہو جاتی ہے۔  کیونکہ اگر نبی پر جادو کا اثر ہو سکتا تھا، اور ان روایات کی رو سے ہو گیا تھا، تو ہم نہیں  کہہ سکتے کہ مخالفین نے جادو کے زور پر نبی سے کیا کیا کہلوا اور کروالیا ہو، اور اُس کی دی ہوئی تعلیم میں  کتنی چیزیں  خدا کی طرف سے ہوں  اور کتنی جادو کے زیر اثر۔ یہی نہیں  بلکہ وہ کہتے ہیں  کہ اس بات کو سچ مان لینے کے بعد تو یہ بھی نہیں  کہا جا سکتا کہ جادو ہی کے ذریعہ سے نبی کو نبوت کے دعوے پر اُکسایا گیا ہو اور نبی نے غلط فہمی میں  مبتلا ہو کر یہ سمجھ لیا ہو کہ اُس کے پاس فرشتہ آیا ہے۔  اُن کا استدلال یہ بھی ہ ہے کہ یہ سِحر زدہ آدمی ہے (یَقُوْلُ الظّٰلِمُؤنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلّاَ رَجُلاً مَّسْحُوْراً۔ بنی اسرائیل ۴۷)، مگر یہ احادیث کفارہ کے الزام کی تصدیق کرتی ہیں  کہ واقعی نبی پرسِحر کا اثر ہوا تھا۔

اس مسئلے  کی تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ کیا درحقیقت مستند تاریخی روایات کی رو سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم پر جادو کا اثر ہوا تھا؟ اور اگر ہوا تھا تو وہ کیا تھا اور کس حد تک تھا؟ اس کے بعد یہ دیکھا جائے کہ جو کچھ تاریخ سے ثابت ہے اس پر اعتراضات وارد بھی ہوتے ہیں  یا نہیں  جو کیے گئے ہیں ؟

قرونِ اولیٰ کے مسلمان علماء کی یہ انتہائی راستبازی تھی کہ انہوں  نے اپنے خیالات اور مزعومات کے مطابق تاریخ کو مسخ کرنے یا حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں  کی، بلکہ جو کچھ تاریخی طور پر ثابت تھا اسے جوں  کا توں  بعد کی نسلوں  تک پہنچا دیا اور اُس بات کی کوئی پروا نہیں  کی کہ اِن حقائق سے اگر کوئی اُلٹے نتائج نکالنے پر اتر آئے تو اُن کا فراہم کردہ یہ مواد کس طرح اُس کے کام آ سکتا ہے۔  اب اگر ایک بات نہایت مُستند اور کثیر تاریخی ذرائع سے ثابت ہو تو کسی دیانت دار صاحبِ علم کے لیے نہ تو یہ درست ہے کہ وہ اِس بنا پر تاریخ کا انکار کردے کہ اُس کو مان لینے سے اُس کے نزدیک فلاں  فلاں  قباحتیں  رونما ہوتی ہیں،  اور نہ یہی درست ہے کہ جتنی بات تاریخ سے ثابت ہے اس کو قیاسات کے گھوڑے دوڑا کر اُس اصلی حد سے پھیلانے اور بڑھانے کی کوشش کرے۔  اس کے بجائے اُس کا کام یہ ہے کہ تاریخ کو تاریخ کی حیثیت سے مان لے اور پھر دیکھے کہ اُس سے فی الواقع کیا ثابت ہوتا ہے اور کیا نہیں  ہوتا۔

جہاں  تک تاریخی حیثیت کا تعلق ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم پر جادو کا اثر ہونے کا واقعہ قطعی طور پر ثابت ہے اور علمی تنقید سے اُس کا اگر غلط ثابت کیا جا سکتا ہو تو پھر دنیا کا کوئی تاریخی واقعہ بھی صحیح ثابت نہیں  کیا جا سکتا۔ اسے حضرت عائشہؓ،  حضرت زیدؓبن ارقم اور حضرت عبد اللہؓبن عباس سے بخاری، مسلم، نَسائی، ابن ماجہ، امام احمد، عبد الرزاق، حُمَیدی، بیقہی، طَبرانی، ابن سَعد، ابن مردویہ، ابن ابی شیبہ، حاکم،  عبد بن حمید وغیرہ محدثین نے اتنی مختلف اور کثیر التعداد سندوں  سے نقل کیا ہے کہ اُس کا نفس مضمون تو اُتر کی حد کو پہنچا ہوا ہے،  اگرچہ ایک ایک روایت بجائے خود خبرِ واحد ہے۔  اس کی تفصیلات جو روایات میں  آئی ہیں  انہیں  ہم مجموعی طور پر تمام روایات سے مرتب کر کے ایک مربوط واقعہ کی صورت میں  یہاں  درج کرتے ہیں۔ صلح حُدیبیہ کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم مدینہ واپش تشریف لائے تو محرم۷؁ھ میں  خیبر سے یہودیوں  کا ایک وفد مدینہ آیا اور ایک مشہور جا دوگر لَبید بن اَعصم سے ملا جو انصار کے قبیلہ بنی زُرَیق سے تعلق رکھتا تھا۔ ۱؎

ان لوگوں  نے اُس سے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے ہمارے ساتھ جو کچھ کیا ہے تو تمہیں  معلوم ہے۔  ہم نے اُن پر بہت جادو کرنے کی کوشش کی، مگر کوئی کامیابی نہیں  ہوئی۔ اب ہم تمہارے پاس آئے ہیں،  کیونکہ تم ہم سے بڑے جادوگر ہو۔ لو، یہ تین اشرفیاں  حاضر ہیں،  انہیں  قبول کر و اور محمدؐ پر ایک  زور کا جادو کردو۔ اُس زمانے میں  حضورؐ کے ہاں  ایک یہودی لڑکا خدمت گار تھا۔ اُس سے سازباز کر کے اِن لوگوں  نے حضورؐ کی کنگھی کا ایک ٹکڑا حاصل کر لیا جس میں  آپ کے موئے مبارک تھے۔  انہی بالوں  اور کنگھی کے دندانوں  پر جادو کیا گیا۔ بعض روایات میں  یہ ہے کہ لَبید بن اعصم نے خود جادو کیا تھا، اور بعض میں  یہ ہے کہ اس کی بہنیں  اس سے زیادہ جادوگرنیاں  تھیں،  اُن سے اُس نے جادو کروایا تھا۔ بہر حال ان دنوں  صورتوں  میں  سے جو صورت بھی ہو، اس جادو کو ایک نَر کھجور کے خوشے کے غلاف ۲؎ میں  رکھ کر لَبید نے بنی زُریق کے کنویں  ذَرْوان یا ذی اَزوان نامی کی تہ میں   ایک پتھر کے نیچے دبا دیا۔اس جادو کا اثر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم پر ہوتے ہوتے پورا ایک سال لگا، دوسری ششماہی میں  کچھ تغیرِ مزاج محسوس ہونا شروع ہوا، آخری چالیس دن سخت اور آخری تین دن زیادہ سخت گزرے۔  مگر اس کا زیادہ سے زیادہ جو اثر حضورؐ پر ہوا وہ بس یہ تھا کہ آپ گھلتے چلے جا رہے تھے،  کسی کام کے متعلق خیال فرماتے کہ ہو کر  لیا ہے مگر نہیں  کیا ہوتا تھا، اپنی اَزواج کے متعلق خیال فرماتے کہ آپ ان کے پاس گئے ہیں  مگر نہیں  گئے ہوتے  تھے،  اور بعض اوقات آپ کو اپنی نظر پر بھی شبہ ہوتا تھا کہ کسی چیز کو دیکھا ہے مگر نہیں  دیکھا ہوتا تھا۔ یہ تمام اثرات آپ کی ذات تک محدود رہے،  حتی کہ دوسرے لوگوں  کو یہ معلوم تک نہ ہو سکا کہ آپ پر کیا گزررہی ہے۔  رہی آپ کے نبی ہونے کی حیثیت تو اُس میں  آپ کے فرائض کے اندر کوئی خلل واقع نہ ہونے پایا۔ کسی روایت میں  یہ نہیں  ہے کہ اُس زمانے میں  آپ قرآن کی کوئی آیت بھول گئے ہوں،  یا کوئی آیت آپ نے غلط پڑھ ڈالی ہو، یا اپنی صحبتوں  میں  اور اپنے وعظوں  اور خطبوں  میں  آپ کی تعلیمات کے اندر کوئی فرق واقع ہو گیا ہو، یا کوئی ایسا کلام آپ نے وحی کی حیثیت سے پیش کر دیا ہو جو فی الواقع آپ پر نازل نہ ہوا ہو، یا نماز آپ سے چھوٹ گئی ہو اور اس کے متعلق بھی کبھی آپ نے سمجھ لیا ہو کہ پڑھ لی ہے مگر نہ پڑھی ہو۔ ایسی کوئی بات معاذ اللہ پیش آ جاتی تو دھوم مچ جاتی، اور پورا ملک عرب اس سے واقف ہو جاتا کہ جس نبی کی کوئی طاقت چت نہ کس سکی تھی اسے ایک جادو گر نے چت کر دیا۔ لیکن آپ کی حیثیت نبوت اس سے بالکل غیر متاثر رہی اور صرف اپنی ذاتی زندگی  میں  آپ اپنی جگہ اسے محسوس کر کے پریشان ہوتے رہے۔  آخر کار ایک روز آپ حضرت عائشہؓ کے ہاں  تھے کہ آپ نے بار بار اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی۔ اسی حالت میں  نیند آگئی یا غنودگی طاری ہوئی اور پھر بیدار ہو کر آپ نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ میں  نے جو بات اپنے رب سے پوچھی تھی وہ اس نے مجھے بتا دی ہے۔  حضرت عائشہؓ نے عرض کیا وہ کیا بات ہے ؟ آپ نے فرمایا دو آدمی (یعنی فرشتے دو آدمیوں  کی صورت میں ) میرے پاس آئے۔  ایک سرھانے کی طرف تھا اور دوسرا پائینتی کی طرف۔ ایک نے پوچھا انہیں  کیا ہوا؟ دوسرے نے جواب دیا ان پر جادو ہوا ہے۔  اُس نے پوچھا کس نے کیا ہے ؟ جواب دیا لَبِید بن اَعصم نے۔  پوچھا کس چیز میں  کیا ہے ؟ جواب دیا کنگھی اور بالوں  میں  ایک نَرکھجورخوشے کے غلاف کے اندر۔ پوچھا وہ کہاں  ہے ؟ جواب دیابنی زُریق کے کنویں  ذی اَرْوان (یا ذَرْوان) کی تہہ کے پتھر  کے نیچے ہے۔  پوچھا اب اس کے  لیے کیا کیا جائے ؟ جواب دیا کہ کنویں  کا پانی سونت کر دیا جائے اور پھر پتھر کی نیچے سے اُس کو نکالا جائے۔  اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ، حضرت عَمّار بن یاسرؓ اور حضرت زُبیرؓ کو بھیجا۔ ان کے ساتھ جُبَیر بنؓ اِیاس الزّرقی اور قیسؓ بن مُحِسن الزّرقی (یعنی بنی زُریق کے یہ دو اصحاب) بھی  شامل ہو گئے۔  بعد میں  حضورؐ خود بھی چند اصحاب کے ساتھ وہاں  پہنچ گئے۔  پانی نکالا گیا اور وہ غلاف بر آمد کر لیا گیا۔ اُ س میں  کنگھی اور بالوں  کے ساتھ ایک تانت کے اندر گیارہ گرھیں  پڑی ہونی تھیں  اور موم کا ایک پُتلا تھا جس میں  سُوئیاں  چُبھوئی ہوئی تھیں۔  جبریل علیہ السلام نے آ کر بتایا کہ آپ معوّذَتین پڑھیں۔  چنانچہ آپ ایک ایک آیت پڑھتے جاتے اور اس کے ساتھ ایک ایک گرہ کھولی جاتی اور پُتلے میں  سے ایک ایک سوئی نکالی جاتی رہی۔ خاتمہ تک پہنچتے ہی ساری گرھیں  کھل گئیں،  ساری سوئیاں  نکل گئیں،  اور آپ جادو کے اثر سے نکل کر بالکل ایسے ہو گئے جیسے کوئی شخص بندھا ہواتھا، پھر کھل گیا۔ اس کے بعد آپ نے لَبید کو بلا کر باز پرس کی۔ اُس نے اپنے قصور کا اعتراف کر لیا اور آپ نے اس کو چھوڑ دیا، کیونکہ اپنی ذات کے لیے آپ نے کبھی کس سے انتقام نہیں  لیا۔ یہی نہیں  بلکہ آپ نے اِ س معاملہ کا چرچا کرنے سے بھی یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مجھے اللہ نے شفا دے دی ہے،  اب میں  نہیں  چاہتا کہ کسی کے خلاف لوگوں  کو بھڑکاؤں۔

یہ ہے سارا قصہ اس جادو کا۔ اس میں  کوئی چیز ایسی نہیں  ہے جو آپ کے منصبِ نبوت میں  قادِ ح ہو۔ ذاتی حیثیت سے اگر آپ کو زخمی کیا جا سکتا تھا جیسا کہ جنگِ اُحد میں  ہوا، اگر آپ گھوڑے سے گِر کر چوٹ کھا سکتے تھے،  جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے،  اگر آپ کو بچھو کاٹ سکتا تھا، جیسا کہ کچھ اور احادیث میں  وارد ہوا ہے،  اور ان میں  سے کوئی چیز بھی اُس تحفظ کے مُنافی نہیں  ہے جس کا نبی ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا تھا، تو آپ اپنی ذاتی حیثیت میں  جادو کے اثر سے بیمار بھی ہو سکتے تھے۔  نبی پر جادو کا اثر ہو سکتا ہے،  یہ بات تو قرآن مجید سے بھی ثابت ہے۔  سورہ اعراف میں  فرعون کے جادوگروں  کے متعلق بیان ہوا ہے کہ  حضرت موسیٰ کے مقابلے میں   جب وہ آئے تو اُنہوں  نے ہزار ہا آدمیوں  کے اُس پورے مجمع کی نگاہوں  میں  جادو کر دیا جو وہاں  دونوں  کا مقابلہ دیکھنے کے لیے جمع ہوا تھا ( سَحَرُوْٓ اَعْیُنْ النَّاسِ۔ آیت ۱۱۶)، اور سورہ طٰہٰ میں  ہے کہ جو لاٹھیاں  اور رسیاں  انہوں  نے پھینکی تھیں  ان کے متعلق عام لوگوں  ہی نے نہیں  حضرت موسیٰ نے بھی یہی سمجھا کہ وہ اُن کی طرف سانپوں   کی طرح ددوڑی چلی آرہی ہیں  اور اس سے حضرت موسیٰ خوف زدہ ہو گئے،  یہاں  تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی نازل کی کہ خوف نہ کرو تم ہی غالب رہو گے،  ذرا اپنا عصا پھینکو (فَاِذَا حِبَالھُُمْ وَعِصِیّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ اِنَّھَا تَسْعیٰ۔ فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسیٰ، قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْا عْلیٰ، وَاَلْقِ مَا فِیْ یَمِیْنِکَ۔ آیات۶۶ تا ۶۹)۔ رہا یہ اعتراض کہ یہ تو کفارِ مکہ  کے اُس القام کی تصدیق ہو گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو  وہ سحر زدہ آدمی کہتے تھے،  تو اس کا جوا ب یہ ہے کہ کفار آپ کو سحر زدہ آدی اس معنی میں  نہیں  کہتے  تھے کہ آپ کسی جادوگر کے اثر سے بیمار ہو گئے ہیں،  بلکہ اس معنی میں  کہتے تھے کہ کسی جادو گر نے معاذ اللہ آپ کو یہ پاگل کر دیا ہے اور اِسی پاگل پن میں  آپ نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے ہیں  اور جنت و دوزخ  کے افسانے سنا رہے ہیں۔  اب ظاہر ہے کہ یہ اعتراض ایسے معاملہ پر سرے سے چسپاں  ہی نہیں  ہوتا جس کے متعلق تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ جادو کا اثر صرف ذاتِ محمدؐ پر ہوا تھا، نبوت محمدؐ اس سے بالکل غیر متاثر  رہی۔

اس سلسلے میں  یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جو لوگ جادو کو محض اَوہام کے قبیل کی چیز قرار دیتے ہیں  اُن کی یہ رائے صرف اس وجہ سے ہے کہ جادو کے اثرات کی کوئی سائنٹفک توجیہ نہیں  کی جا سکتی۔ لیکن دنیا میں  بہت سی چیزیں  ایسی ہیں  جو تجربے اور مشاہدے میں  آتی ہیں،  مگر سائنٹفک  طریقہ سے یہ بیان  نہیں  کیا جا سکتا کہ وہ کیسے رونما ہوتی ہیں۔  اس طرح کی توجیہ پر اگر ہم قادر نہیں  ہیں  تو اس سے یہ لازم نہیں  آتا کہ اُس چیز ہی کا انکار کر دیا جائے جس کی ہم توجیہ نہیں  کر سکتے۔  جادو دراصل ایک نفسیاتی اثر ہے جو نفس سے گزر کر جسم کو بھی اُسی طرح متاثر کر سکتا ہے جس طرح جسمانی اثرات جسم سے گزر کر نفس کو متاثر کرتے ہوہیں،  مثال کے طور پر خوف ایک نفسیاتی چیز ہے،  مگر اس کا اثر جسم پر یہ ہوتا ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں  اور بدن میں  تھر تھری چھوٹ جاتی ہے۔  دراصل جادو سے حقیقت تبدیل نہیں  ہوتی، مگر انسان کا نفس اور اس کے حواس اُس سے متاثر ہو کر یہ محسوس کرنے لگتے ہیں  کہ حقیقت تبدیل ہو گئی ہے۔  حضرت موسیٰ کی طرف جادو گروں  نے جو لاٹھیاں  اور رسیاں  پھینکی تھیں  وہ واقعی سانپ نہیں  بن گئی تھیں،  لیکن ہزاروں  کے مجمع کی آنکھوں  پر ایسای جادو ہوا کہ سب نے انہیں  سانپ ہی محسوس کیا، اور حضرت موسیٰ تک کے حواس جادو کی اِس تاثیر سے محفوظ نہ رہ سکے۔  اسی طرح قرآن (البقرہ، آیت۱۰۲) میں  بیان کیا گیا ہے کہ بابِل میں  ھاروت اور ماروت سے لوگ ایسا جادو سیکھتے تھے جو شوہر اور بیوی میں  جدائی ڈال دے۔  یہ بھی ایک نفسیاتی اثر تھا،  اور ظاہر ہے کہ اگ تجربے سے لوگوں  کواس عمل کی کامیابی معلوم نہ ہوتی تو وہ  اس کے خریدار نہ بن  سکتے تھے۔  بلا شبہ یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ بندوق کی گولی اور ہوائی جہاز سے گرنے والے بن کی طرح جادو کا مؤثر ہونا بھی اللہ کے اذن کے بغیر ممکن نہیں  ہے،  مگر جو چیز ہزارہا سال سے انسان کے تجربے اور مشاہدے میں  آرہی  ہو اس کے وجود کو  جھُٹلا دینا محض ایک ہٹ دھرمی ہے۔ اسلام میں  جھاڑ پھونک کی حیثیت: تیسرا مسئلہ اِن سورتوں  کے معاملہ میں  یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا جھاڑ پھونک کی اسلام میں  کوئی گنجائش ہے ؟ اور یہ کہ جھاڑ پھونک بجائے خود مؤثر بھی ہے یا نہیں ؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ بکثرت صحیح احادیث میں  یہ ذکر آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم ہر رات کو سوتے وقت، اور خاص طور پر بیماری کی حالت میں  معوّذتین، یا بعض روایات کے مطابق مُعوّذات (یعنی قل ہو اللہ اور معوِّذتین) تین مرتبہ پڑھ کر اپنے دونوں  ہاتھوں  میں  پھونکتے اور سر سے لے کر پاؤں  تک پورے جسم پر، جہاں  جہاں  تک بھی آپ کے ہاتھ پہنچ سکتے،  انہیں  پھیرتے تھے۔ آخر بیماری میں  جب آپ کے لیے خود ایسا کرنا ممکن نہ رہا تو حضرت عائشہ نے یہ سورتیں  (بطور خود یا حضورؐ کے حکم سے ) پڑھیں  اور آپ کے دست مبارک کی برکت کے خیال سے آپ ہی کے ہاتھ لے کر آپ کے جسم پر پھیرے۔  اس مضمون کی روایات صحیح سندوں   کے ساتھ بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ، ابو داؤد اور مؤطا امام مالک میں  خود حضرت عائشہ سے مروی ہیں  جن سے بڑھ کر کوئی بھی  حضورؐ کی خانگی زندگی سے واقف نہ ہو سکتا تھا۔

اِس معاملہ میں  پہلے مسئلہ شرعی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔  احادیث میں  حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی طویل روایت آئی ہے جس کے آخر میں  حضورؐ فرماتے ہیں  کہ میری امت کے و ہ لوگ بلا احساب جنت میں  داخل ہوں  گے جو نہ داغنے کا علاج کراتے ہیں،  نہ جھاڑ پھونک کراتے ہیں،  نہ فال لیتے ہیں ،  بلکہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں  (مسلم)۔ حضرت مُغِرہؓ بن شُعبہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا جس نے داغنے سے علاج کرایا اور جھاڑ پھونک کرائی وہ اللہ پر توکل سے بے تعلق ہو گیا (ترمذی)۔ حضڑت عبد اللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم دس چیزوں  کو نا پسند فرماتے تھے جن میں  سے ایک جھاڑ پھونک بھی ہے سوائے معوّذتین یا معوّذات کے (ابو داؤد، احمد، نسائی، ابن حبان، حاکم)۔ بعض احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں  حضورؐ نے جھاڑ پھونک سے بالکل منع فرما دیا تھا، لیکن بعد میں  اِس شرط کے ساتھ اس کی اجازت دے دی کہ اس میں  شرک نہ ہو، اللہ کے پاک ناموں  یا اس کے کلام سے جھاڑا جائے، کلام ایسا ہو جو سجھ میں  آئے اور یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس میں  کوئی گناہ کی چیز نہیں  ہے،  اور بھروسہ جھاڑ پھونک پر نہ کیا جائے کہ وہ بجائے خود شفا دینے والی ہے،  بلکہ اللہ پر اعتماد کیا جائے کہ وہ چاہے گا تو اسے نافع بنا دے گا۔ یہ مسئلہ شرعی واضح ہو جانے کے بعد اب دیکھیے کہ احادیث اِس بارے میں  کیا کہتی ہیں :

طبرانی نے صغیر میں  حضرت  علیؓ کی روایت نقل کی ہے کہ حضورؐ کو ایک دفعہ نماز کی حالت میں  بچھو نے  کاٹ لیا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا بچھو پر خدا کی لعنت، یہ نہ کسی نمازی کو چھوڑتا ہے نہ کسی اور کو۔ پھر پانی اور نمک منگوایا اور جہاں  بچھو نے کاٹا تھا وہاں  آپ نمکین پانی ملتے جاتے اور قل یا ایہا الکافرون، قل ھو اللہ احد، قل اعوذ برب الفلق اور قل  اعوذ برب الناس پڑھتے جاتے تھے۔

ان عباس کی یہ روایت بھی احادیث میں  آئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ پر یہ دعا پڑھتے تھے اُعِیْذُکُمَا بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَّھَا مَّۃٍ وَّمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَّا مَّۃٍ۔ ’’میں  تم کو اللہ کے بے عیب کلمات کی پناہ میں  دیتا ہوں  ہر شیطان اور موذی سے اور ہر نظر بد سے ‘‘(بخاری، مسند احمد، ترمذی اور ابن ماجہ)۔

عثمان بن ابی العاص الثَقَفی کے متعلق مسلم، مُوَطَّا، طبرانی اور حاکم میں  تھوڑے لفظی اختلاف کے ساتھ یہ روایت آءی ہے کہ انہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے شکایت کی کہ میں  جب سے مسلمان ہوا ہوں  مجھے ایک درد محسوس ہوتا ہے جو مجھ کو مارے ڈالتا ہے۔  آپ نے فرمایا اپنا سیدھا ہاتھ اُس جگہ پر رکھو جہاں  درد ہوتا ہے،  پھر تین مرتبہ بسم اللہ کہو اور سات مرتبہ یہ کہتے ہوئے ہاتھ پھیرو کہ اَعُوْذُ بِاللہِ وَ قُدْرَتِہِ مِنْ شَرِّ مَآ اَجِدُ وَ اُحَاذِرُ، ’’میں  اللہ اور اس کی قدرت کی پناہ مانگتا ہوں  اُس چیز کے شر سے جس کو میں  محسوس کرتا ہوں  اور جس کے لاحق ہونے کا مجھے خوف ہے ‘‘۔ موطاء میں  اس پر یہ اضافہ ہے کہ عثمانؓ بن ابی العاص نے کہا کہ اس کے بعد میرا وہ درد جاتا رہا،  اور اِسی چیز کی تعلیم میں  اپنے گھر والوں  کو دیتا ہوں۔

مُسند احمد اور طحاوی میں  طَلقْ بن علیؓ کی روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی موجودگی میں  بچھو نے کاٹ لیا۔حضورؐ نے مجھ پر  پڑھ کر پھونکا اور اس جگہ پر ہاتھ پھیرا۔

مسلم میں  ابو سعیدؓ خُدری کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم بیمار ہوئے تو جبریل نے آ کر پوچھا ’’اے محمدؐ، کیا آپ بیمار ہو گئے ‘‘؟آپ نے فرمایا ہاں۔  انہوں  نے کہا بِاسْمِ اللہِ اَرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ شَیٍْ یُّؤْذِیْکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْعِیْنٍ حَا سِدٍ، اَللہُ یَشْفِیْکَ بِاسْمِ اللہِ اَرْقِیْکَ، ’’میں  اللہ کے نام پر آپ کو جھاڑتا ہوں  ہر اُس چیز سے جو آپ کو اذیت دے اور ہر نفس اور حاسد کی نظر کے شر سے،  اللہ آپ کو شفا دے،  میں  اُس کے نام پر آپ کو جھاڑتا ہوں۔ ‘‘اسی سے ملتی جلتی روایت مُسند احمد میں حضرت عُبادہ بن صامت سے منقول ہے کہ حضورؐ بیمار تھے۔  میں  عیادت کے لیے گیا تو آپ کو سخت تکلیف میں  پایا۔ شام کو گیا تو آپ بالک تندرست تھے۔  میں  نے اس قدر جلدی تندرست ہو جانے کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ جبریلؑ آئے تھے اور انہوں  نے مجھے چند کلمات سے جھاڑا۔ پھر آپ نے قریب قریب اُسی طرح کے الفاظ اُن کو سُنائے جو اوپر والی حدیث میں  نقل کیے گئے ہیں۔  حضرت عائشہؓ سے بھی  مسلم اور مسند احمد میں  ایسی ہی روایت نقل کی گئی ہے۔ امام احمد نے اپنی مُسند میں  حضرت حفصہؓ ام المومنین کی روایت نقل کی ہے کہ ایک روز نبی صلی اللہ علیہ و سلم میرے ہاں  آئے اور میرے پاس ایک  خاتون شفا ۳؎ نامی بیٹھی تھیں  جو نَمِلہ (ذُباب) کو جھاڑا کرتی تھیں۔  حضورؐ نے فرمایا حفصہؓ کو بھی وہ عمل سکھا دو۔ خود شفاؓ بنت عبداللہ کی یہ روایت امام احمد، ابو داؤد اور نسائی نے نقل کی ہے کہ حضورؐ نے مجھ سے فرمایا کہ تم نے حفصہ کو جس طرح لکھنا پڑھنا سکھایا ہے نَمِلہ کا جھاڑنا بھی سکھا دو۔

مسلم میں  عوف بنؓ مالک اشجعی کی روایت ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں  ہم لوگ جھاڑ پھونک کیا کرتے تھے۔  ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے پوچھا کہ اس معاملہ میں  حضورؐ کی رائے کیا ہے۔  حضورؐ نے فرمایا جن چیزوں  سے تم جھاڑتے تھے وہ میرے سامنے پیش کرو، جھاڑنے میں  مضائقہ نہیں  ہے جب تک اُس میں  شرک نہ ہو۔مسلم، مسند احمد، اور ابن ماجہ میں  حضرت جابر بن عبد اللہؓ کی روایت ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولم نے جھاڑ پھونک سے روک دیا تھا۔ پھر حضرت عمر و بن حزم کے خاندان کے لوگ آئے اور کہا کہ ہمارے پاس ایک عمل تھا جس سے ہم بچھو (یا سانپ) کاٹے کو جھاڑتے تھے۔  مگر آپ نے اِس کام سے منع فرما دیا ہے۔  پھر انہوں  نے وہ چیز آپ کو سنائی جو وہ پڑھتے تھے۔  آپ نے فرمایا’’اس میں  تو کوئی مضائقہ نہیں  پاتا، تم میں  سے جو شخص اپنے کسی بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے وہ ضرور پہنچائے ‘‘۔ جابر بن ؓعبداللہ کی دوسری حدیث مسلم میں  یہ ہے کہ آلِ حَزْم کے پاس سانپ کاٹے کا عمل تھا اور حضورؐ نے ان کو اس کی اجازت دیدی۔ اس کی تائید مسلم، مسند احمد، ار ابن ماجہ میں  حضرت عائشہؓ کی یہ روایت بھی کرتی ہے  کہ حضورؐ نے انصار کے ایک خاندان کو ہر زہریلے جانور کے کاٹے کو جھاڑنے کی اجازی مرحمت فرمائی۔ مُسند احمد اور ترمذی اور مسلم اور ابن ماجہ میں  حضرت انس سے بھی اس سے ملتی جلتی روایات نقل کی گئی ہیں  جن میں  حضورؐ نے زہریلے جانوروں  کے کاٹے، اور ذُباب کے مرض اور نظرِ بد کے جھاڑنے کی اجازت دی۔

مُسند احمد،  ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم نے حضرت عُمیرؓ مولیٰ اٰبِی اللَّحم سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں  میرے پاس ایک عمل تھا جس سے میں  جھاڑا کرتا تھا۔ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے سامنے اسے پیش کیا۔ آپ نے فرمایا فلاں  فلاں  چیزیں  اس میں  سے نکال دو، باقی سے تم جھاڑ سکتے ہو۔مُوطاء میں  ہے کہ حضرت ابو بکر اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ بیمار ہیں  اور ایک یہودیہ اُن کو جھاڑ رہی ہے۔  اس پر انہوں  نے فرمایا کہ کتاب اللہ پڑھ کر جھاڑ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ کتاب اگر توراۃ یا انجیل کی آیات پڑھ کر جھاڑیں  تب بھی یہ جائز ہے۔

رہا یہ سوال کہ آیا جھاڑ پھونک مفید بھی ہے یا نہیں ،  تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے دوا ور علاج سے نہ صرف یہ کہ کبھی منع نہیں  فرمایا، بلکہ خود فرمایا کہ ہر مرض کی دوا اللہ نے پیدا کی ہے اور تم لوگ دوا کیا کرو۔ حضورؐ نے خود لوگوں  کو بعض امراض کے علاج بتائے ہیں،  جیسا کہ احادیث میں  کتاب الطب کو دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے۔  لیکن دوا بھی اللہ ہی کے حکم اور اذن سے نافع ہوتی ہے،  ورنہ اگر دوا اور طبی معالجہ ہرحال میں  نافع ہوتا تو ہسپتالوں  میں  کوئی نہ مرتا۔ اب اگر دوا اور علاج کرنے کے ساتھ اللہ کے کلام اور اس کے اسمائے حسنیٰ سے بھی استفادہ کیا جائے،  یا ایسی جگہ جہاں  کوئی طبی امداد میسر نہ ہو اللہ ہی کی طرف رجوع کر کے اس کے کلام اور اسماء و صفات سے استعانت کی جائے تو یہ مادّہ پرستوں  کے سوا کسی کی عقل کے بھی خلاف نہیں ہے۔  ۴؎ البتہ یہ صحیح نہیں  ہے کہ دوا اور علاج کو، جہاں  وہ میسر ہو، جان بوجھ کر چھوڑ دیا جائے،  اور صرف جھاڑ پھونک سے کام لینے ہی پر اکتفا کیا جائے،  اور کچھ لوگ علیات اور تعویذوں  کے مَطب کھول کر بیٹھ جائیں  اور اسی کو کمائی کا ذریعہ بنا لیں۔           اس معاملہ میں  بہت سے لوگ حضرت ابو سعیدؓ خدری کی اُس روایت سے استدلال کرتے ہیں  جو بخاری، مسلم،  ترمذی، مسند احمد، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں  منقول ہوئی ہے اور اس کی تائید بخاری میں  ابن عباسؓ کی بھی ایک روایت کرتی ہے۔  اس میں  یہ بیان ہوا ہے کہ حضورؐ نے ایک مہم پر اپنے چند اصحاب کو بھیجا جن میں  حضرت ابو سعیدؓ خُدری بھی تھے۔  یہ حضرات راستہ میں  عرب کے ایک قبیلے کی بستی پر جا کر ٹھیرے اور انہوں  نے قبیلے والوں  سے کہا کہ ہماری میز بانی کرو۔ انہوں  نے انکار کر دیا۔ اتنے میں  قبیلے کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا، اور وہ لوگ اِن مسافروں  کے پاس آئے  اور کہا کہ تمہارے پاس کوئی دوا یا عمل ہے جس سے تم ہمارے سردار کا علاج کر دو؟ حضرت ابو سعید نے کہا ہے تو سہی مگر چونکہ تم نے ہماری میزبانی سے انکار کیا ہے اس لیے جب تک تم کچھ دینا نہ کرو، ہم اس کا علاج نہیں  کریں  گے۔  انہوں  نے بکریوں  کا ایک ریور(بعض روایات میں  ہے ۳۰ بکریاں ) دینے کا وعدہ کیا اور ابو سعیدؓ نے جا کر اس پر سورۃ الفاتحہ پڑھنی شروع کی اور لعاب دھن اس پر ملتے گئے۔  ۵؎ آخر کار بچھو کا اثر زائل ہو گیا اور قبیلے والوں  نے جتنی بکریاں  دینے کا وعدہ کیا تھا وہ لا کر دے دیں۔  مگر ان حضرات نے آپس میں  کہا ان بکریوں  سے کوئی فائدہ نہ اٹھاؤ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم  سے پوچھ نہ لیا جائے۔  نہ معلوم اس کام پر اجر لینا جائز ہے یا نہیں۔  چنانچہ یہ لوگ حضورؐ کی خدمت میں  حاضر ہوئے اور ماجرا عرض کیا۔ حضورؐ نے مسکرا کر فرمایا’’تمہیں  کیسے معلوم ہوا کہ یہ سورہ جھاڑنے کے کام بھی آ سکتی ہے ؟ بکریاں  لے لو اور ان میں  میرا حصہ بھی لگاؤ‘‘۔          لیکن اِس حدیث سے تعویذ، گنڈے اور جھاڑ پھونک کے مطلب چلانے کا جواز نکالنے سے پہلے عرب کے اُن حالات کا نگاہ میں  رکھنا چاہیے جن میں  حضرت ابو سعید خُدری نے یہ کام کیا تھا اور حضورؐ نے اسے نہ صرف جائز رکھا تھا، بلکہ یہ بھی فرمایا تھا کہ میرا حصہ بھی لگاؤ، تا کہ اس کے جواز و عدمِ  جواز کے معاملہ میں  اِن اصحاب کے دلوں  میں  کوئی شبہ باقی نہ رہے۔  عرب کے حالات اُس زمانے میں   بھی یہ تھے اور آج تک یہ ہیں  کہ پچاس پچاس،  سوسو، ڈیڑھ ڈیڑھ سو میل تک آدمی کو ایک بستی سے چل کر دوسری بستی نہیں  ملتی۔  بستیاں  بھی اُس وقت ایسی نہ تھیں  جن میں  ہوٹل، سرائے یا کھانے کی دوکانیں  موجود ہوں  اور مسافر کئی کئی روز کی مسافت طے کر کے جب وہاں  پہنچے تو سامانِ خوردنوش خرید سکے۔  ان حالات میں  یہ بات عرب کے معروف اصولِ اخلاق میں  شامل تھی کہ مسافر جب کسی بستی پر پہنچیں  تو بستی کے لوگ ان کی میزبانی کریں۔  اس سے انکار کے معنی بسا اوقات مسافروں  کے لیے مَوت کے ہوتے تھے،  اور عرب میں  اِس طرز عمل کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے اپنے صحابہ کے اس  فعل کو جائز رکھا کہ جب قبیلے والوں  نے میز بانی سے انکار کر دیا تھا تو ان کے سردار کا علاج کرنے سے انہوں  نے بھی انکار کر دیا، اور اس شرط پر اس کا علاج کرنے پر راضی ہوئے کہ وہ ان کو کچھ دینا کریں۔  پھر جب ان میں  سے ایک صاحب نے اللہ کے بھروسے پر سورہ فاتحہ اُس سردار پر پڑھی اور وہ اس سے اچھا ہو گیا تو طے شدہ اجرت قبیلے والوں  نے لا کر دے دی اور حضورؐ نے اس اجرت کے لینے کو حلال و طیب قرار دیا۔ بخار ی میں  اس واقعہ کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس کی جو روایت ہے اس میں  حضورؐ کے الفاظ یہ ہیں  کہ اِنَّ احقَّ ما اخذ تم علیہ اجراً کتاب اللہِ، یعنی بجائے اس کے کہ تم کوئی اور عمل کرتے،  تمہارے لیے یہ زیادہ برحق بات تھی کہ تم نے اللہ کی کتاب پڑھ کر اس پر اجرت لی۔ یہ آپ نے اس لیے فرمایا کہ دوسرے تمام عملیات سے اللہ کا کلام بڑھ کر ہے،  علا وہ بریں  اس طرح عرب کے اُس قبیلے پر حق تبلیغ بھی ادا ہو گیا کہ انہیں  اس کلام کی برکت معلوم ہو گئی جو اللہ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم لائے ہیں۔  اِس واقعہ کو اُن لوگوں  کے لیے نظیر قرار نہیں  دیا جا سکتا جو شہروں  اور قصبوں  میں  بیٹھ کر جھاڑ پھونک کے مطب چلاتے ہیں  اور اسی کو انہوں  نے وسیلہ معاش بنا رکھا ہے۔  اس کی کوئی نظیر نبی کریم  صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم یا صحابہ و تابعین اور ائمہ سلف کے ہاں  نہیں  ملتی۔

سورہ فاتحہ اور اِن سورتوں  کی مناسبت: آخری چیز جو معوّذتین کے بارے میں   قابل توجہ ہے  وہ قرآن کے آغاز اور اختتام کی مناسبت ہے۔ اگر چہ قرآن مجید ترتیب نزول پر مرتب نہیں  کیا گیا ہے،  مگر ۲۳ سال کے دوران میں  مختلف حالات اور  مواقع اور ضروریات کے لحاظ سے  نازل ہونے والی آیات اور سورتوں  کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے بطور خود نہیں  بلکہ  ان کے نازل کرنے والے خدا کے حکم سے  اس شکل میں  مرتب  فرمایا جس میں  ہم  اب اس کو پاتے ہیں۔  اس ترتیب کے لحاظ سے قرآن کا آغاز سورہ فاتحہ سے ہوتا ہے اور اختتام معوّذتین پر۔ اب ذرا دونوں  پر ایک نگاہ ڈالیے۔  آغاز میں  اللہ رب العالمین، رحمٰن الرحیم،  اور مالک یوم الدین کی حمد و ثناہ کر کے بندہ عرض کرتا ہے کہ آپ ہی کی میں   بندگی کرتا ہوں  اور آپ ہی سے مدد چاہتا ہوں،  اور سب سے بڑی مدد جو مجھے درکار ہے وہ یہ ہے کہ مجھے سیدھا راستہ بتائیے۔  جو اب میں  اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیدھا راستہ دکھانے کے لیے اسے پورا قرآن دیا جاتا ہے،  اور اس کو ختم اس بات پر کیا جاتا ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے جو رب الفلق،  رب الناس،  مالک الناس اور الہ الناس ہے،  عرض کرتا ہے کہ میں  ہر مخلوق کے ہر فتنے اور شر سے محفوظ رہنے کے لیے آپ ہی کی پناہ لیتا ہوں،  ا اور خصوصیت کے ساتھ  شیاطین جن و انس کے وسوسوں  سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں،  کیونکہ رائے راست کی پیروری میں  وہی سب سے زیادہ مانع ہوتے ہیں۔  اس آغاز کے ساتھ یہ اختتام جو مناسبت رکھتا ہے وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں  رہ سکتی۱؎ بعض راویوں  نے اُسے یہودی کہا ہے،  اور بعض نے منافق اور یہود کا حلیف۔ لیکن اس پر سب متفق ہیں  کہ وہ بنی زُریق میں  سے تھا، اور یہ سب کو معلوم ہے کہ بنی زُریق یہودیوں  کا کوئی قبیلہ نہ تھا بلکہ خَزْرج میں  سے انصار کا ایک قبیلہ تھا۔ اس لیے یا تو وہ اُن لوگوں میں  سے تھا جو اہلِ مدینہ میں  سے یہودی ہو گئے تھے،  یا یہود کا حلیف ہونے کی بنا پر بعض لوگوں  نے اسے بھی یہودی شمار کر لیا۔ تاہم اس کے لیے منافق کا لفظ استعمال ہونے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر و ہ مسلمان بنا ہوا تھا۔ ۲؎ ابتدا میں  کھجور کا خوشہ ایک غلاف کے اندر ہوتا ہے۔  اور نَر کھجور کے غلا ف کا رنگ انسان کے رنگ سے ملتا جلتا ہوتا ہے۔  اور اس کی بو انسان کے مادہ منویہ جیسی ہوتی ہے۔  ۳؎ اِن خاتون کا اصل نام لیلیٰ تھا۔  مگر شفابنتؓ عبد اللہ کے نام سے مشہور تھیں ۔  ہجرت سے پہلے ایمان لائیں۔  قریش کے خاندان بنی عَدِی سے ان کا تعلق تھا۔ یہ وہی خاندان ہے جس کے ایک فرد حضرت عمرؓ تھے۔  اِس طرح یہ حضرت حفصہؓ کی رشتہ داری ہوتی تھیں۔ ۴؎ مادہ پرست دنیا کے بھی بہت  سے ڈاکٹروں  نے اعتراف کیا ہے  کہ دعا اور رجوع الی اللہ مریضوں  کی شفا یابی میں  بہت کار گرچیز ہے۔  اور اِ س کا خود مجھے ذاتی طور پر اپنی زندگی میں  دو مرتبہ تجربہ ہوا ہے۔  ۱۹۴۸؁ء میں   جب مجھے نظر بند کیا گیا تو چند روز بعد ایک پتھری میرے مثانے میں  آ کر اَڑ گئی اور ۱۶ گھنٹے تک پیشاب بند رہا۔ میں  نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میں  ظالموں  سے علاج کی درخواست نہیں  کرنا چاہتا، تو ہی میرا علاج فرمادے۔  چنانچہ وہ پتھری پیشاب کے راستے سے ہٹ گئی اور ۲۰ برس تک ہٹی رہی یہاں  تک کہ ۱۹۶۸؁ء میں  اس نے پھر تکلیف دی اور اس کو آپریشن کر کے نکالا گیا۔ دوسری مرتبہ جب ۱۹۵۳؁ء میں  مجھے گرفتار کیا گیا تو میری دونوں  پنڈلیاں  کئی مہینے سے داد کی سخت تکلیف میں  مبتلا تھیں  اور کسی علاج سے آرام نہیں  آرہا تھا۔ گرفتاری کے بعد میں  نے اللہ تعالیٰ سے پھر وہی دعا کی جو ۱۹۴۸؁ء میں  کی تھی اور کسی علاج کے دوا کے بغیر پنڈلیاں  داد سے بالکل صاف ہو گئیں۔  آج تک پھر کبھی وہ بیماری مجھے نہیں  ہوئی۔ ۵؎ اکثر روایات میں  یہ صراحت نہیں  ہے کہ یہ عمل کرنے والے حضرت ابو سعید تھے۔  بلکہ ان میں  یہ صراحت بھی نہیں  ہے کہ حضرت ابو سعید خود اس مہم میں  شریک تھے۔  لیکن ترمذی کی روایت میں  دونوں  باتوں  کی صراحت ہے۔  

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
 کہو، 1 میں  پناہ مانگتا ہوں  2 صبح کے ربّ 3 کی،  ہر اُس چیز کے شر سے جو اُس نے پیدا کی ہے،  4 اور رات کی تاریکی کے شر سے جب کہ وہ چھا جائے،  5 اور گِرہوں  میں  پھُونکنے والوں  (یا والیوں )کے شر سے،  6 اور حاسد کے شر سے جب کہ وہ حسد کرے۔  7 ؏۱

 

1: چونکہ قُل (کہو) کا لفظ اُس کا پیغام کا ایک حصہ ہے جو تبلیغِ رسالت کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر بذریعہ وحی نازل ہوا ہے،  اس لیے اگر چہ اِس ارشاد کے اولین مخاطب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم ہی ہیں،  مگر آپ کے بعد ہر مومن بھی اِس کا مخاطب ہے۔ 2: پناہ مانگنے کے فعل میں  لازماً تین اجزاء شامل ہوتے ہیں۔  ایک بجائے خود پناہ مانگنا۔ دوسرے پناہ مانگنے والا۔ تیسرا وہ جس کی پناہ مانگی جائے۔  پناہ مانگنے سے مراد کسی  چیز سے خوف محسوس کر کے اپنے آپ کو اس سے  بچانے کے لیے کسی دوسرے کی حفاظت میں  جانا، یا اس کی آڑ لینا، یا اُس سے لپٹ جانا یا اُص کے سایہ میں  چلاجانا ہے۔  پناہ مانگنے والا بہر حال وہی شخص ہوتا ہے جو محسوس کرتا ہے کہ جس چیز سے وہ دوڑ رہا ہے اس کا مقابلہ وہ خود نہیں  کر سکے گا  بلکہ وہ اس کا حاجت  مند ہے کہ اُس سے بچنے کے لیے دوسرے کی پناہ لے۔  پھر جس کی پناہ مانگی جاتی ہے وہ لازماً کوئی ایسا ہی شخص یا وجود ہوتا ہے جس کے متعلق پناہ لینے والا یہ سمجھتا ہے کہ اُس خوفناک چیز سے وہی اس کو بچا سکتا ہے۔  اب پناہ کی ایک قسم تو وہ ہے جو قوانینِ  طبعی کے مطابق عالمِ اسباب کے اندر کسی محسوس مادّی چیز یا شخص یا طاقت سے حاصل کی جاتی ہے۔  مثلاً دشمن کے حملہ سے بچنے کے لیے کسی قلعہ میں  پناہ لینا، یا گولیوں  کی بوچھاڑ سے بچنے کے لیے خندق یا کسی دمدمے یا کسی دیوار کی آڑ لینا، یا کسی طاقت ور ظالم سے بچنے کے لیے کسی انسان یا قوم یا حکومت کے پاس پناہ لینا، دھوپ سے بچنے کے لیے کسی درخت یا عمارت کے سایہ میں  پناہ لینا۔ بخلاف اس کے دوسری قسم وہ ہے جس میں  ہر طرح کے خطرات اور ہر طرح کی مادّی، اخلاقی یارو حانی مضرتوں  اور نقصان رساں  چیزوں  سے کسی فوق الفطر ی ہستی کی پناہ اِس عقیدے کی بنا پر مانی جاتی ہے کہ وہ ہستی عالم  اسباب پر حکمراں  ہے اور بالا تر از حِس و ادراک طریقے سے وہ اس شخص کی ضرور حفاظت کر سکتی ہے جو اس کی پناہ ڈھونڈ رہا ہے۔  پناہ کی یہ دوسری قسم کی نہ صرف سورہ فلق  اور سورہ ناس میں   مراد ہے۔  بلکہ قرآن اور حدیث میں  جہاں  بھی اللہ تعالی ٰ کی پناہ مانگنے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد یہی خاص قسم کی پناہ ہے۔  اور عقیدہ توحید کا  لازمہ یہ ہے کہ  اس نوعیت کا تعوذ یا استعاذہ(پناہ مانگنا) اللہ کے سوا کسی اور سے نہ کیا جائے۔  مشرکین اس نوعیت کا تحفظ اللہ کے سوا دوسری ہستیوں ،  مثلاً جنوں   یا دیویوں  اور دیوتاؤں  سے مانگتے تھے اور آج بھی مانگتے ہیں ۔ مادہ پرست لوگ اس کے لیے بھی مادی ذرائع ووسائل ہی کی  طرف رجوع کرتے ہیں،  کیونکہ فوق الفطری طاقت کے قائل نہیں  ہیں ۔  مگر مومن ایسی تمام آفات و بلیآت کے مقابلہ میں ،  جن کو دفع کرنے پر وہ خود اپنے آپ کو قادر نہیں  سمجھتا،  صرف اللہ کی طرف رجوع کرتا اور اسی کی پناہ مانگتا۔ مثال کے طور پر مشرکین کے متعلق قرآن میں  بیان کیا گیا ہے : وَاَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْ ذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ، ’’اور یہ کہ  انسانوں  میں  سے کچھ لوگ جنوں  میں  سے  کچھ لوگوں  کی پناہ مانگا کرتے تھے ‘‘(الجن۔۶)۔ اور اس کی تشریح کرتے ہوئے ہم سورہ جن حاشیہ ۷ میں   حضرت عبدا للہ بن عباس کی یہ روایت نقل کر چکے ہیں  کہ مشرکین عرب کو جب رات کسی سنسان وادی میں  گزارنی پڑتی تو وہ پکار کر کہتے ’’ہم اس وادی کے رب کی (یعنی اس جن کی جو اس وادی کا حکمران ہے یا اس وادی کا مالک ہے ) پناہ مانگتے ہیں ‘‘۔ بخلاف اس کے فرعون کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ کی پیش کردہ عظیم نشانیوں   کو دیکھ کر  فَتَوَلّیٰ بِرُکْنِہٖ، ’’وہ اپنی بل بوتے پر  اکڑ گیا‘‘ (الذاریات، ۳۹)۔ لیکن خدا پرستوں  کا رویہ قرآن میں  بتایا گیا ہے کہ جس چیز کا بھی وہ خوف محسوس کیا کرتے ہیں،  خواہ مادی ہو یا اخلاقی یا روحانی اس کے شر سے بچنے کے لیے وہ خدا کی پناہ مانگتے ہیں ۔  چنانچہ حضرت مریم کے متعلق بیان ہوا ہے کہ جب اچانک تنہائی میں  خدا کا فرشتہ ایک مرد کی شکل میں  ان کے سامنے آیا(جبکہ وہ نہ جانتی تھیں  کہ یہ فرشتہ ہے )تو انہوں  نے کہا  اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِیّاً، ’’اگر تو خدا سے ڈرنے والا آدمی ہے  تو میں  تجھ سے خدائے رحمٰن کی پناہ مانگی ہوں ‘‘( مریم۔ ۱۸)۔حضرت نوح نے جب اللہ تعالی ٰ سے ایک بے جا دعا کی اور جواب اللہ کی طرف سے  ان پر ڈانٹ پڑی تو انہوں  نے فوراً عرض کیا رَبِّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْئَلُکَ مَالَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ، ’’میرے رب میں  تیری پناہ مانگتا ہوں  اس بات سے کہ میں  تجھ سے ایسی چیز کی درخواست کروں  جس کا مجھے علم نہیں   ‘‘(ہود۔۴۷)۔ حضرت موسیٰ نے جب بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا اور انہوں  نے کہا کہ آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں،  تو انہوں  نے جواب میں  فرمایا اَعُوْذُ بِا للہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ، ’’میں  خدا کی پناہ مانگا ہوں  اس بات سے کہ  جاہلوں  کی سی باتیں  کروں ‘‘(البقرہ۔ ۶۷)۔ یہی شان اُن تمام تَعَوُّذات کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم  سے کتب حدیث میں  منقول ہوئے  ہیں۔  مثال کے طور پر حضورؐ کی حسب ذیل دعاؤں  کو ملاحظہ کیجیے : عن عائشہ ان النبی صلّی اللہ علیہ و سلم کان یقول فی دعآ ۂ الّٰھُمَّ اِنِّیٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ اَعْمَلْ (مسلم) حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم اپنی دعاؤں  میں  یہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’خدا یا میں  تیری پناہ مانگتا ہوں  اُن کاموں  کے شر سے جو میں  نے کیے اور ان کاموں  کے شر سے جو میں  نے نہیں  کیے ‘‘(یعنی اگر میں  نے کوئی غلط کام کیا ہے تو اس کے برے نتیجے سے پناہ مانگتا ہوں،  اور اگر کوئی کام جو کرنا چاہیے تھا میں  نے نہیں  کیا تواُس کے نقصان سے بھی پناہ مانگتا ہوں،  یا اِس بات سے پناہ مانگتا ہوں  کہ جو کام نہ کرنا چاہیے وہ میں  کبھی کر گزروں )۔ عن ابن عمر ؓ کان من دعآءِ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم اَلّٰھُمَّ اِنّیْٓ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ زَوَا لِ نِعْمَتِکَ، وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ، وَفَجْأَۃِ نِقْمَتِکَ وَجَمِیْعِ سَخَطِکَ۔ (مسلم) ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی دعاؤں  میں  سے ایک یہ بھی تھی کہ ’’خدا یا میں  تیری پناہ مانگتا ہوں  اِس سے کہ تیری جو نعمت مجھے حاصل ہے وہ چھن جائے،  اور تجھ سے جو عافیت مجھے نصیب ہے وہ نصیب نہ رہے،  اور تیرا غضب یکایک ٹوٹ پڑے،   اور پناہ مانگتا ہوں  تیری ہر طرح کی ناراضی سے ‘‘۔ عن زید بن ارقم کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم یقول الّٰھُمَّ اِ نِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عِلْمٍ لَّا یَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَّا یَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَّا تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَۃ ٍلَّا یَسْتَجَابُ( مسلم) زید بن ارقم کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم فرمایا کرتے تھے ’’خدا یا میں  تیری پناہ مانگتا ہوں  اُس علم سے جو نافع نہ ہوں  اس دل سے جو تیرا خوف نہ کرے،  اس نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ کی جائے ‘‘۔ عن ابی ھریرۃ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم یقول اَللّٰھُمَّ اِنِّیٓ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُوْعِ فَاِنَّہٗ بِئْسَ الضَّجِیْعُ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْخِیَا نُۃِ فَاِنَّہٗ بِئْسَتِ الْبِطَا نَۃُ (ابو داؤد) حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم فرماتے تھے ’’خدایا میں  تیری پناہ مانگتا ہوں  بھوک سے کیونکہ وہ بد ترین چیز ہے جس کے ساتھ کوئی رات گزارے،  اور تیری پناہ مانگتا ہوں  خیانت سے کیونکہ  وہ بڑی بد باطنی ہے۔  عن انس ان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کان یقول اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبَرَ صِ وَ الْجُنُوْنِ وَالْجُذَامِ وَسِّیِٔ الْاَسْقَامِ (ابو داؤد) حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم فرمایا کرتے تھے ’’خدایا میں  تیری پناہ مانگتا ہوں  کوڑھ اور جنون اور جُذام اور تمام بریر بیماریوں  سے ‘‘۔ عن عائشہ ان النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کان یدعو بھٰؤ لاء الکلمات اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ النَّارِ  وَمِنْ شَرِّ الْغِنیٰ وَالْفَقِرْ (ترمذی و ابو داؤد) حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ ان کلمات کے ساتھ دعا مانگا کرتے تھے : ’’خدایا میں  تیری پناہ مانگتا ہوں  آگ کے فتنے سے اور مالداری اور مفلسی کے شر سے ‘‘۔ عن قُطبۃ بن مالک کان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم یقول اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ مُّنْکَرَاتِ الْاَخْلَا قِ و َالْا عْمَالِ وَ الْا َھْوَاءِ (ترمذی) قطبہ بن مالک کہتے ہیں  کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم فرمایا کرتے تھے۔ ’’خدایا، میں  برے اخلاق اور برے اعمال اور بری خواہشات سے تیری پناہ مانگتا ہوں ‘‘۔ شَکَل بن حُمید نے حضورؐ سے عرض کیا مجھے کوئی دعا بتا ئے ے۔  فرمایا کہو: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ سَمْعِیْ،  وَمِنْ شَرِّ بَصَرِیْ،  وَمِنْ شِرِّ لِسَانِیْ، وِمِنْ شَرِّ قَلْبِیْ، وَمِنْ شَرِّ مَنِیِّیْ۔ (ترمذی و ابو داؤد) خدایا میں  تیری پناہ مانگتا ہوں  اپنی سماعت کے شر سے،  اور اپنی بصارت کے شر سے ،  اور اپنی زبان کے شر سے،  اور اپنے دل کے شر سے،  اور اپنی شہوت کے شر سے۔  عن انس بن مالک کان رسُول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم یقول اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجِزْ وَ الْکَسَلِ وَ الْجُبْنِ وَ الْھَدَمِ وَالْبُخْلِ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَاوَالْمَمَا تِ (وفی روایۃ لمسلم) وَضَلَعِ الدَّیْنِ وَغَلَبَۃِ الرِّجَالِ (بخاری و مسلم) انس بن مالک کی روایت ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم فرمایا کرتے ’’خدایا میں  تیری پناہ مانگتا ہوں  عاجزی اور سُستی اور بزدلی اور بُڑھاپے اور بخل سے،  اور تیر ی پناہ مانگتا ہوں  قبر کے عذاب  اور زندگی و موت کے فتنے سے ( اور مسلم کی ایک روایت میں  یہ بھی ہے ) اور قرض کے بوجھ سے اور اس بات سے کہ لوگ مجھ پر غالب ہوں ‘‘۔ ھن خَوْلَۃ بنت حُکَیْم السُّلَمِیَّۃ سمعتُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم یقول مَنْ نَّزَلَ مَنْزِ لاً ثُمَّ قَالَ اَعُوْ ذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ لَمْ یَضُرُّہٗ شَیْٔ حَتّیٰ یَرْ تَحِلَ مِنْ ذٰلِکَ الْمَنْزِلِ (مسلم) خَوْلَہ بنت حُکَیم سُلَمِیّہ کہتی ہیں  کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص کسی نئی منزل پر اترے اور یہ الفاظ کہے کہ ’’ میں  اللہ کے بے عیب کلمات کی پناہ مانگتا ہوں  مخلوقات کے شر سے،  تو اسے کوئی چیز نقصان نہ پہنچائے گی یہاں  تک کہ وہ اس منزل سے کوچ کر جائے۔            یہ حضور ؐ  کے چند تَعوُّذات بطور نمونہ ہم نے احادیث سے نقل کیے ہیں  جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کا کام ہر خطرے اور شر سے خدا کی پناہ مانگتا ہے نہ کہ کسی اور کی پناہ،  اور نہ اس کا یہ کام ہے کہ خدا سے بے نیاز ہو کر وہ اپنے آپ پر بھروسہ کرے۔   3: اصل میں  لفظ رَبُّ الْفَلَق‘‘ استعمال ہوا ہے۔ فلق کے اصل معنی پھاڑ نے کے ہیں۔  مفسرین کی عظیم اکثریت نے اس سے مراد رات کی تاریکی کو پھاڑ کر سپیدہ صبح نکالنا لیا ہے کیونکہ عربی زبان میں  فَلَقُ الصبح کا لفظ طلوعِ صبح کے معنی میں  بکثرت استعمال ہوتا ہے،  اور قرآن میں  بھی  اللہ تعالیٰ کے لیے فَالِقُ الْاِ  صْباح کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں،  یعنی ’’وہ جو رات کی تاریکی کو پھاڑ کر صبح نکالتا ہے ‘‘(الانعام۔۹۶)۔ فَلَق کے دوسرے معنی خَلْق بھی لیے گئے ہیں،  کیونکہ دنیا میں  جتنی چیزیں  بھی پیدا ہوتی ہیں  وہ کسی نہ کسی چیز کو پھاڑ کر نکلتی ہیں۔  تمام نباتات بیج اور زمین کو پھاڑ کر اپنی کونپل نکالتے ہیں ۔  تمام  حیوانات یا تو رحم مادر سے  بر آمد ہوتے ہیں،  یا تو انڈا توڑ کر نکلتے ہیں،  یا کسی اور مانع ظہو چیز کر چیر کو باہر آتے ہیں  تمام چشمے پہاڑ یا زمین کو شق کر کے نکلتے ہیں۔  دن  رات کا پردہ چاک ک کے نمودار ہوتا ہے۔  بارش کے قطرے بادلوں  کو چیر کر زمین کا رخ کرتے ہیں۔  غرض  موجودات میں  سے ہر چیز کسی نہ کسی طرح کے انشقاق کے نتیجے میں   عدم سے وجود میں  آتی ہے،  حتیٰ کہ زمین اور  سارے آسمان بھی پہلے ایک ڈھیر تھے جس کو پھاڑ کر انہیں  جدا جدا کیا گیا،  کَانَتَا رَتْقاً فَفَتَقْنٰھُمَا (الانبیاء۔۳۰)۔ پس اس معنی کے لحاظ سے فلق کا لفظ تمام مخلوقات کے لیے عام ہے۔  اب اگر پہلے معنی لیے جائیں  تو آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ میں  طلوع صبح کے مالک کی پناہ لیتا ہوں۔  اور دوسرے معنی لیے جائیں  تو مطلب ہو گا میں  تمام خلق کے رب کے  پناہ لیتا ہوں۔  اس جگہ اللہ تعالیٰ کا اسم ذات چھوڑ کر اس کا اسم صفت’’رب‘‘اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ پناہ مانگنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ’’رب ‘‘، یعنی مالک و پروردگار اور آقا دمربی ہونے کی صفت زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔  پھر رَبُّ الْفَلَقْ سے مراد اگر طلوع صبح کا رب ہوتو اس کی پناہ لینے کے معنی یہ ہوں گے کہ جو رب تاریکی کو چھانٹ کر صبح روشن نکالتا ہے میں  اس کی پناہ لیتا ہوں  تاکہ وہ آفات کے ہجوم کو چھانٹ کر میرے لیے  عافیت پیدا کردے،  اور اگر اس سے مراد رَبِّ خَلْق ہو تو معنی یہ ہوں  گے کہ  میں  ساری خلق کے مالک کی پناہ لیتا ہوں  تا کہ وہ  اپنی مخلوق کے  شرسے مجھے بچائے۔ 4: بالفاظ دیگر تمام مخلوقات کے شر سے  میں  اُس کی پناہ مانگتا ہوں۔  اس فقرے میں  چند باتیں  قابل غور  ہیں : اول یہ کہ شر کو پیدا کرنے کی نسبت اللہ کی طرف نہیں  کی گئی،  بلکہ مخلوقات کی پیدائش کی نسبت اللہ کی  طرف اور شر کی نسبت مخلواقات کی طرف کی گئی ہے۔  یعنی یہ نہیں  فرمایا کہ اُن شرُور سے پناہ مانگتا ہوں  جو اللہ نے پیدا کیے ہیں،  بلکہ یہ فرمایا کہ اُن چیزوں  کے شر سے پناہ مانگتا ہوں  جو اُس نے پیدا کی ہیں۔  اِس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مخلوق کو شر کے لیے پیدا نہیں  کیا ہے۔  بلکہ اُس کا ہر کام خیر اور کسی  مصلحت ہی کے لیے ہوتا ہے،  البتہ مخلوقات کے اندر جو اوصات اُس نے  اس لیے پیدا کیے ہیں  کہ  اُن کی تخلیق  کی مصلحت پوری ہو، ان سے بعض اوقات اور بعض اقسام کی مخلواقت سے اکثر شرور رنما ہوتا ہے۔  دوم یہ کہ اگر صرف اسی ایک فقرے پر اکتفا کیا جاتا  اور بعد کے فقروں  میں  خاص خاص قسم کی مخلوقات  کی شُرور سے الگ الگ خدا کی پناہ مانگنے کا نہ بھی ذکر کیا جاتا تو یہ فقرہ مدعا پورا کرنے کے لیے کافی تھا، کیونکہ اس میں  ساری مخلوقات کے شر سے خدا کی پناہ مانگ لی گئی ہے۔  اس عام اِستعاذ ے کے بعد چند مخصوص شرور سے  پناہ مانگنے کا ذکر خود بخود یہ معنی دیتا ہے کہ ویسے تو میں  خدا کی پیدا کی ہوئی  ہر مخلوق  کے شر سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں،  لیکن خاص طور پر  وہ چند شرور جن کا ذکر سورہ فلق کی باقی آیات اور سورہ ناس میں  کیا گیا ہے،  ایسے ہیں  جن سے خدا کی  امان پانے کا میں  بہت محتاج ہوں۔  سوم یہ کہ مخلوقات کے شر سے پناہ حاصل کرنے کے لیے موزوں  ترین‘‘ اور مؤثر ترین استعاذہ اگر کوئی ہو سکتا ہے تو  وہ یہ ہے کہ اُن کے خالق کی پناہ مانگی جائے،  کیونکہ وہ بہر حال اپنی مخلوق پر غالب ہے،  اور ان کے ایسے شرور کو بھی جانتا ہے  جنہیں  ہم جانتے ہیں  اور ایسے شرور سے بھی واقف ہے جنہیں  ہم نہیں  جانتے۔  لہٰذا اُس کی پناہ گویا اُس حاکم اعلیٰ کی پناہ ہے جس کے مقابلے کی طاقت کسی مخلوق میں  نہیں  ہے،  اور اس کی پناہ مانگ کر ہم ہر مخلوق کے ہر شر سے اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں ،  خواہ وہ ہمیں  معلوم ہو یا نہ ہو۔  نیز اس میں  دنیا ہی کے نہیں  آخرت کے بھی ہر شے سے استعاذہ شامل ہے۔  چہارم یہ کہ شر کا لفظ نقصان،  ضرر، تکلیف اور اَلَم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے،  اور اُن اسباب کے لیے بھی جو نقصان و ضرور اور تکلیف والم کے موجب ہوتے ہیں۔  مثلاً بیماری،  بھوک، کسی حادثے یا جنگ میں  زخمی ہونا، آگ سے جل جانا،  سانپ بچھو وغیرہ سے ڈسا جانا، اولاد کی موت کے غم میں  مبتلا ہونا، اور ایسے ہی دوسرے شرور پہلے معنی میں  شر  ہیں،  کونکہ یہ بجائے خود تکلیف اور اذیت ہیں۔  بخلاف اس کے مثال کے طور پر کفر، شرک،  اور ہر قسم کے گناہ اور ظلم دوسرے معنی میں  شر ہیں  کیونکہ ان کا انجام نقصان اور ضرر ہے اگرچہ بظاہر ان سے فی الوقت کوئی تکلیف نہ پہنچتی ہو، بلکہ بعض گناہوں  سے لذت ملتی یا نفع حاصل ہوت ہو۔ پس شر سے پناہ مانگنا اِن دونوں  مفہومات کا جامع ہے۔            پنجم یہ کہ شر سے پناہ مانگنے میں  دو مفہوم اور بھی شامل ہیں۔  ایک یہ کہ جو شر واقع ہو چکا ہے،  بندہ اپنے خدا سے دعا مانگ رہا ہے کہ وہ اسے دفع کر دے۔  دوسرے یہ کہ جو شر واقع نہیں  ہوا ہے،  بندہ یہ دعا مانگ رہا ہے کہ خدا مجھے اُس شر سے محفوظ رکھے۔   5: مخلوقات کے شر سے عموماً خدا کی پناہ مانگنے کے بعد اب بعض خاص مخلوقات کے شر سے خصوصیت کے ساتھ پناہ مانگنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔  آی میں  غَاسِق اِذَا وَقَبَ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔  غاسق کے لغوی معنی تاریک کے ہیں۔  چنانچہ قرآن میں  ایک جگہ ارشاد ہوا ہے۔  اَقِمِ الصَّلوٰ ۃَ لِدُ لُوْکِ الشَّمْسِ اِلیٰ غَسَقِ الَّیْلِ’’نماز قائم کرو زوالِ آفتاب کے وقت سے رات کے اندھیرے تک‘‘(بنی اسرائیل۔۷۸)۔ اور وَقَب کے معنی داخل ہونے یا چھا جانے کے ہیں۔  رات کی تاریکی کے شر سے خاص طور پر اس لیے پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے کہ اکثر جرائم اور مظالم رات ہی کے وقت ہوتے ہیں۔  موذی جانور بھی رات ہی کو نکلنے ہیں۔  اور عرب میں  طوائف الملو کی کا  جو حال اِن آیات کے نزول کے وقت تھا اس میں  تورات بڑی خوفناک چیز تھی، اس کے اندھیرے میں  چھاپہ مار نکلتے تھے اور بستیوں  پر غارت گری کے لیے ٹوٹ پڑتے تھے۔  جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی جان کے درپے تھے وہ بھی رات ہی کے وقت آپ کے قتل کر دینے کی  تجویز سوچا کرتے تھے تا کہ قاتل کا پتہ نہ چل سکے۔  اس لیے اُن تمام شرور آفات سے خدا کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا جو رات کے وقت نازل ہوتی ہیں۔  یہاں  اندھیری رات کے شر سے طلوعِ فجر کے رب کی پناہ مانگنے میں  جو لطیف مناسبت ہے وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں   رہ سکتی۔           اس آیت کی تفسیر میں  ایک اِشکال یہ پیش آتا ہے کہ متعدد صحیح احادیث میں  حضرت عائشہ ؓ کی یہ روایت آئی ہے کہ رات کو چاند نکلا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر اُس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اللہ کی پناہ  مانگو، ھٰذا الغاسق اذا وقب، یعنی یہ الغاسق اذا قب ہے (احمد،  ترمذی، نسائی، ابن جریر، ابن المُنذر، حاکم، ابن مردویہ)۔ اِس کی تاویل میں  بعض لوگوں  نے کہا ہے کہ اِذَا وَقَبَ کا مطلب یہاں  اِذَا خَسَفَ ہے،  یعنی جبکہ وہ گہنا جائے یا چاند گرہن اس کو ڈھانک لے۔  لیکن کسی روایت میں  بھی یہ نہیں  آیا ہے کہ جس وقت حضورؐ نے چاند کی طرف اشارہ کر کے یہ بات فرمائی تھی اُس وقت وہ گرہن میں  تھا۔ اور لغتِ عرب میں  بھی اِذَاوَقَبَ کے معنی اِذَا خَسَفَ کسی طرح نہیں  ہو سکتے۔  ہمارے نزدیک اِ س حدیث کی صحیح تاویل یہ ہے کہ چاند نکلنے کا وقت  چونکہ رات ہی کو ہوتا ہے،  دن کو اگر چاند آسمان پر ہوتا بھی ہے تو روشن نہیں  ہوتا،  اس لیے حضورؐ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اس کے (یعنی چاند کے ) آنے کے وقت یعنی رات سے خدا کی پناہ مانگو، کیونکہ چاند کی روشنی مدافعت کرنے والے کے لیے اُتنی مدد گار نہیں  ہوتی جتنی حملہ کرنے والے کے لیے ہوتی ہے،  اور جرم کا شکار ہونے والے کے لیے اُتنی مددگار نہیں  ہوتی جتنی مجرم کے لیے ہوا کرتی ہے۔  اسی بنا پر حدیث میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کا ارشاد ہے کہ اِنَّ الشَّمْسَ اِذَا غَرَ بَتْ انتشرت الشیاطین، فالَفتو اصبیانکم و احبسو امواشیکم حتی تذھب فحمۃ العشاء’’جب سورج غروب ہو جائے تو شیاطین ہر طرف پھیل جاتے ہیں،  لہٰذا اپنے بچوں  کو گھروں  میں  سمیٹ لو اور اپنے جانوروں  کو باندھ رکھو جب تک رات کی تاریکی ختم نہ ہو جائے ‘‘۔6: اصل الفاظ ہیں  نَفَّا ثَاتِ فِی الْعُقَدِ۔ عُقَد جمع ہے عُقْدہ کی جس کے معنی گرہ کے ہیں،  جیسی مثلاً تا گے یا رسی میں  ڈالی جاتی ہے۔  نَفْث کے معنی پھونکنے کے ہیں۔  نَفَّا ثَات جمع ہے نَفَّا ثَہ کی جو کو اگر علامہ کی طرح سمجھا جائے تو مراد بہت پھونکنے والے مرد ہوں  گے،  اور اگر مؤنث کا صیغہ سمجھا جائے تو مرد بہت پھونکنے والی عورتیں  بھی ہو سکتی ہیں،  اور نفوس یا جماعتیں  بھی، کیونکہ عربی میں  نفس اور جماعت دونوں  مؤنث ہیں۔  گرہ میں  پھونکنے کا لفظ اکثر، بلکہ تمام تر مفسرین کے نزدیک جادو کے لیے استعارہ ہے،  کیونکہ جادوگر عموماً کسی ڈور یا تاگے میں  گرہ  دیتے اور اس پر پھونکتے جاتے ہیں۔  پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں  طلوعِ فجر کے رب کی پناہ مانگتا ہوں  جادوگر یا جادوگرنیوں  کے شر سے۔  اِ س مفہوم کی تائید وہ روایات بھی کرتی ہیں  جن میں  یہ بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم پر جب جادو ہوا تھا تو جبریل علیہ السلام نے آ کر حضورؐ کو معوِّذتین پڑھنے کی ہدایت کی تھی، اور معوِّذتین میں  یہی ایک فقرہ ہے جو براہِ راست جادو سے تعلق رکھتا ہے۔  ابو مسلم اصفہانی اور زمخْشَری نے نَفَّاثات فی العقد کا ایک اور مفہوم بھی بیان کیا ہے،  اور وہ یہ ہے کہ اس سے مراد عورتوں  کی مکاری، اور مردوں  کے عزائم اور آراء اور خیالات پر اُن کی اثر اندازی ہے ار اس کو جادو گری سے تشبیہ دی گئی ہے،  کیونکہ عورتوں  کی محبت میں  مبتلا ہو کر آدمی کا وہ حال ہو جاتا ہے گویا اُس پر جادو کر دیا گیا ہے۔  یہ تفسیر اگرچہ پرلطف ہے،  لیکن اُس تفسیر کے خلاف  ہے جو سلف سے مسلم چلی آتی ہے۔  اور اُن حالات سے بھی یہ مطابقت نہیں  رکھتی جن میں  معوِّ ذتین نازل ہوئی ہیں  جیسا کہ ہم دیباچے میں  بیان کر چکے ہیں۔            جادو کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ اس میں  چونکہ دوسرے شخص پر بُرا اثر ڈالنے کے لیے شیاطین یا ارواحِ خبیثہ یا ستاروں  کی مدد مانگی جاتی ہے اس لیے قرآن میں  اسے کفر کہا گیا ہے : وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاس السِّحْر، ’’سلیمان نے کفر نہیں  کیا تھا بلکہ شیاطین نے کفر کیا تھا، وہ لوگوں  کو جادو سکھاتے تھے ‘‘(البقرہ۔۱۰۲)۔ لیکن اگر اُس میں  کوئی کلمہ کفر یا کوئی فعلِ شرک نہ بھی ہو تو وہ بالاتفاق حرام ہے  اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے اُسے سات ایسے کبیرہ گناہوں  میں  شمار کیا ہے جو انسان کی آخرت کو برباد کردینے والے ہیں۔  بِخاری ومسلم  میں  حضرت ابو ہریرہؓ کیر وایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا سات غارت گر چیزوں  سے پر ہیز کرو۔ لوگوں  نے پوچھا وہ کیا ہیں  یا رسول اللہ؟ فرمایا خدا کے ساتھ کوئی شریک کرنا، جادو، کسی ایسی جان کو ناحق قتل کرنا جسے اللہ نے حرام کیا ہے،  سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جہاد میں  دشمن کے مقابلہ سے پیٹھ پھیر کا بھاگ نکلنا، اور بھولی بھالی عَفیف مومن عورتوں  پر زنا کی تُہمت لگانا۔  7: حسد کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو اللہ نے جو نعمت یا فضیلت یا خوبی عطا کی ہو اس پر کوئی دوسرا شخص چلے اور یہ چاہے کہ وہ اُسے سے سلب ہو کر حاسد کو مل جائے یا کم از کم یہ کہ اُس سے ضرور چھِن جائے۔  البتہ حسد کی تعریف میں  یہ بات نہیں  آتی کہ کوئی شخص یہ چاہے کہ جس فضل دوسرے کو ملا ہے وہ مجھے بھی مل جائے،  یہاں  حاسد کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ اُس حالت میں  مانگی  گئی ہے جب کہ وہ حسد کرے،  یعنی اپنے دل کی آگ بجھانے کے لیے قول یا عمل سے کوئی اقدام کرے۔  کیونکہ جب تک وہ کوئی اقدام نہیں  کرتا اُس وقت تک اُس کا جلنا بجائے خود چاہے بُراسہی، مگر محسود کے لیے ایسا شر نہیں  بنتا کہ اس سے پناہ مانگی جائے۔  پھر جب ایسا شر کسی حاسد سے  ظاہر ہو تو اُس سے بچنے کے لیے اولین تدبیر یہ ہے کہ اللہ کی پناہ مانگی جائے۔  اس کے ساتھ حاسد کے شر سے امان پانے کے لیے چند چیزیں  اور بھی مددگار ہوتی ہیں۔  ایک یہ کہ انسان اللہ پر بھروسہ کرے اور یقین رکھے کہ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی اُس کا کچھ نہیں  بگاڑ سکتا۔ دوسرے یہ کہ حاسد کی باتوں  پر صبر کرے،  بے صبر ہو  کر ایسی باتیں  یا کاروائیاں  نہ کرنے لگے جن سے وہ خود بھی اخلاقی طور پر حاسد ہی کی سطح پر آ جائے۔ تیسرے یہ کہ حاسد خواہ خدا سے بے خوف اور خلق سے بے شرم ہو کر کیسی ہی بیہودہ حرکتیں  کرتا رہے،  محسود بہر حال تقویٰ پر قائم رہے۔  چوتھے یہ کہ اپنے دل کو اُس کی فکر سے بالکل فارغ کر لے اور اُص کو اِس طرح نظر انداز کر دے کہ گویا وہ ہے ہی نہیں۔  کیونکہ اُس کی فکر میں  پڑنا حاسد سے مغلوب ہونے کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔  پانچویں  یہ کہ حاسد کے ساتھ بدی سے پیش آنا تو درکنار، جب کبھی ایسا موقع آئے کہ محسود اس کے ساتھ بھلائی اور احسان کا برتاؤ کر سکتا ہو تو ضرور ایسا ہی کرے،  قطع نظر اِس سے کہ حاسد کے دل کی جلن محسود کے اِس نیک رویّہ سے مٹتی ہے یا نہیں۔  چھٹے یہ کہ محسود توحید کے عقیدے کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اس بات پر ثابت قدم رہے،  کیونکہ جس دل میں  توحید بسی ہو ئی ہو اس میں  خدا کے خوف کے ساتھ کسی اور کا خوف جگہ ہی نہیں  پا سکتا۔