احسن البیان

سورة مَریَم

ہجرت حبشہ کے واقعات میں بیان کیا گیا کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی اور اس کے مصاحبین اور امرا کے سامنے جب سورہ مریم کا ابتدائی حصہ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ نے پڑھ کر سنایا تو ان سب کی ڈاڑھیاں آنسوؤں سے تر ہو گئیں اور نجاشی نے کہا کہ یہ قرآن اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو لے کر آئے ہیں، یہ سب ایک ہی مشعل کی کرنیں ہیں (فتح القدیر)۔

٢۔ حضرت زکریا علیہ السلام، انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہیں۔ یہ بڑھئی تھے اور یہی پیشہ ان کا ذریعہ آمدنی تھا (صحیح مسلم)

٣۔ خفیہ دعا اس لئے کی کہ ایک تو یہ اللہ کو زیادہ پسند ہے کیونکہ اس میں تضرع و انابت اور خشوع و خضوع زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ انہیں بیوقوف نہ قرار دیں کہ یہ بڈھا اب بڑھاپے میں اولاد مانگ رہا ہے جب کہ اولاد کے تمام ظاہری امکانات ختم ہو چکے ہیں۔

٤۔ (۱)یعنی جس طرح لکڑی آگ سے بھڑک اٹھتی ہے اسی طرح میرا سر بالوں کی سفیدی سے بھڑک اٹھا ہے مراد ضعف و کبر (بڑھاپے ) کا اظہار ہے۔

٤۔ (۲)  اور اسی لیے ظاہری اسباب کے فقدان کے باوجود تجھ سے اولاد مانگ رہا ہوں۔

٥۔ (۱)اس ڈر سے مراد یہ ہے کہ اگر میرا کوئی وارث میری مسند وعظ و ارشاد نہیں سنبھالے گا تو میرے قرابت داروں میں اور تو کوئی اس مسند کا اہل نہیں ہے۔ میرے قرابت دار بھی تیرے راستے سے گریز و انحراف نہ اختیار کر لیں۔

٥۔ (۲)  ' اپنے پاس سے ' کا مطلب یہی ہے کہ گو ظاہری اسباب اس کے ختم ہو چکے ہیں، لیکن تو اپنے فضل خاص سے مجھے اولاد سے نواز دے۔

٧۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف دعا قبول فرمائی بلکہ اس کا نام بھی تجویز فرما دیا

٨۔ عَاقِر اس عورت کو بھی کہتے ہیں جو بڑھاپے کی وجہ سے اولاد جننے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہو اور اس کو بھی کہتے ہیں جو شروع سے ہی بانجھ ہو۔ یہاں یہ دوسرے معنی میں ہی ہے۔ جو لکڑی سوکھ جائے، اسے عِتِیّاً کہتے ہیں۔ مراد بڑھاپے کا آخری درجہ ہے۔ جس میں ہڈیاں اکڑ جاتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ میری بیوی تو جوانی سے ہی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کے آخری درجے پر پہنچ چکا ہوں، اب اولاد کیسے ممکن ہے ؟ کہا جاتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کی اہلیہ کا نام اشاع بنت فاقود بن میل ہے یہ حضرت حنہ (والدہ مریم) کی بہن ہیں۔ لیکن زیادہ قول صحیح یہ لگتا ہے کہ اشاع بھی حضرت عمران کی دختر ہیں جو حضرت مریم کے والد تھے۔ یوں حضرت یحیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ حدیث صحیح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (فتح القدیر)

٩۔ فرشتوں نے حضرت زکریا کا تعجب دور کرنے کے لئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے بیٹا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے مطابق یقیناً تجھے بیٹا ملے گا، اور یہ اللہ کے لئے قطعاً مشکل کام نہیں ہے کیوں کہ جب وہ تجھے نیست سے ہست کر سکتا ہے تو تجھے ظاہری اسباب سے ہٹ کر بیٹا بھی دے سکتا ہے۔

١٠۔ راتوں سے مراد، دن اور رات ہیں اور سَوِیاًّ کا مطلب ہے بالکل ٹھیک ٹھاک، تندرست، یعنی ایسی کوئی بیماری نہیں ہو گی جو تجھے بولنے سے روک دے۔ لیکن اس کے باوجود تیری زبان سے گفتگو نہ ہو سکے تو سمجھ لینا کہ خوشخبری کے دن قریب آ گئے ہیں۔

١١۔ (۱)مِحْرَاب سے مراد حجرہ ہے جس میں وہ اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ یہ حَرْب سے ہے جس کے معنی لڑائی کے ہیں۔ گویا عبادت گاہ میں اللہ کی عبادت کرنا ایسے ہے گویا وہ شیطان سے لڑ رہا ہے۔

١١۔ (۲)  صبح و شام اللہ کی تسبیح سے مراد عصر اور فجر کی نماز ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ دو وقتوں میں اللہ کی تسبیح و تمحید اور پاکی کا خصوصی اہتمام کرو۔

١٢۔ (۱)یعنی اللہ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو یحییٰ علیہ السلام عطا فرمایا اور جب وہ کچھ بڑا ہوا، گو ابھی بچہ ہی تھا، اس اللہ نے کتاب کو مضبوطی سے پکڑنے یعنی اس پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ کتاب سے مراد تورات ہے یا ان پر مخصوص نازل کردہ کوئی کتاب ہے جس کا ہمیں علم نہیں۔

١٢۔ (۲)  حُکْم سے مراد دانائی، عقل، شعور، کتاب میں درج احکام دین کی سمجھ، علم و عمل کی جامعیت یا نبوت سے مراد ہے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ اس امر میں کوئی مانع نہیں ہے کہ حکم میں یہ ساری ہی چیزیں داخل ہوں۔

١٣۔ حَنَاناً، شفقت، مہربانی، یعنی ہم نے اس کو والدین اور اقربا پر شفقت و مہربانی کرنے کا جذبہ اور اسے نفس کی آلائشوں اور گناہوں سے پاکیزگی و طہارت بھی عطا کی۔

١٤۔ یعنی اپنے ماں باپ کی یا اپنے رب کی نافرمانی کرنے والا نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے دل میں والدین کے لئے شفقت و محبت کا اور ان کی اطاعت و خدمت اور حسن سلوک کا جذبہ اللہ تعالیٰ پیدا فرما دے تو یہ اس کا خاص فضل و کرم ہے اور اس کے برعکس جذبہ یا رویہ، یہ اللہ تعالیٰ کے فضل خاص سے محرومی کا نتیجہ ہے۔

١٥۔ تین مواقع انسان کے لئے سخت و دہشت ناک ہو تے ہیں، ١۔ جب انسان رحم مادر سے باہر آتا ہے، ٢۔ جب موت کا شکنجہ اسے اپنی گرفت میں لیتا ہے،٣۔ اور جب اسے قبر سے زندہ کر کے اٹھایا جائے گا تو وہ اپنے کو میدان محشر کی ہولناکیوں میں گھرا ہوا پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان تینوں جگہوں میں اس کیلئے ہماری طرف سے سلامتی اور امان ہے۔ بعض اہل بدعت اس آیت سے یوم ولادت پر عید میلاد "کا جواز ثابت کرتے ہیں لیکن کوئی ان سے پوچھے تو پھر یوم وفات پر عید وفات یا عید ممات "بھی منانی ضروری ہوئی کیوں کہ جس طرح یوم ولادت کے لیے سلام ہے یوم وفات کے لیے بھی سلام ہے اگر محض لفظ "سلام "سے عید میلاد "کا اثبات ممکن ہے تو پر اسی لفظ سے "عید وفات "کا بھی اثبات ہوتا ہے لیکن کہاں وفات کی عید تو کجا سرے سے وفات و ممات ہی کا انکار ہے یعنی وفات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا انکار کر کے نص قرآنی کا تو انکار کرتے ہی ہیں خود اپنے استدلال کی رو سے بھی آیت کے ایک جز کو تو مانتے ہیں اور اسی آیت کے دوسرے جز سے ان ہی کے استدلال کی روشنی میں جو ثابت ہوتا ہے اس کا انکار ہے۔ (افتؤمنون ببعض الکتٰب وتکفرون ببعض) (البقرہ) کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟

١٧۔ (۱)یہ علیحدگی اور حجاب (پردہ) اللہ کی عبادت کی غرض سے تھا تاکہ انہیں کوئی نہ دیکھے اور یکسوئی حاصل رہے یا طہارت حیض کے لئے۔ اور مشرقی مکان سے مراد بیت المقدس کی مشرقی جانب ہے۔

١٧۔ (۲)  رُوْح سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں، جنہیں کامل انسانی شکل میں حضرت مریم کی طرف بھیجا گیا، حضرت مریم نے جب دیکھا کہ ایک شخص بے دھڑک اندر آ گیا ہے تو ڈر گئیں کہ یہ بری نیت سے نہ آیا ہو۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا میں وہ نہیں ہوں جو تو گمان کر رہی ہے بلکہ تیرے رب کا قاصد ہوں اور یہ خوشخبری دینے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھے لڑکا عطا فرمائے گا، بعض قرأتوں میں لِیَھَبَ صیغہ غائب ہے۔ متکلم کا صیغہ (جو موجودہ قرت میں ہے ) اس لئے بولا کہ ظاہری اسباب کے لحاظ سے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ان کے گریبان میں پھونک ماری تھی جس سے باذن اللہ ان کو حمل ٹھہر گیا تھا۔ اس لئے ہبہ کا تناسب اپنی طرف منسوب کر لیا۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کا قول ہو اور یہاں حکایتاً نقل ہوا ہو۔ اس اعتبار سے تقدیر کلام یوں ہو گی۔ (اَ رْسَلَنِیْ، یَقُولُ لَکَ اَرْسَلٰتُ رَسُوْلِیْ اِلَیْکِ الأھَبَ لَکِ) 'یعنی اللہ نے مجھے تیرے لئے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ میں نے تیری طرف اپنا قاصد یہ بتلانے کے لئے بھیجا ہے کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بچہ عطا کروں گا 'اس طرح حذف اور تقدیر کلام قرآن میں کئی جگہ ہے۔

٢١۔ (۱)یعنی یہ بات تو صحیح ہے کہ تجھے مرد سے مقاربت کا کوئی موقع نہیں ملا ہے، جائز طریقے سے نہ ناجائز طریقے سے۔ جب کہ حمل کے لئے عادتاً یہ ضروری ہے۔

٢١۔ (۲)  یعنی میں اسباب کا محتاج نہیں ہوں، میرے لئے یہ بالکل آسان ہے اور ہم اسے اپنی قدرت تخلیق کے لئے نشانی بنانا چاہتے ہیں۔ اس سے قبل ہم نے تمہارے باپ آدم کو مرد اور عورت کے بغیر، اور تمہاری ماں حوا کو صرف مرد سے پیدا کیا اور اب عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کر کے چوتھی شکل میں بھی پیدا کرنے پر اپنی قدرت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور وہ ہے صرف عورت کے بطن سے، بغیر مرد کے پیدا کر دینا۔ ہم تخلیق کی چاروں صورتوں پر قادر ہیں۔

٢١۔ (۳) اس سے مراد نبوت ہے جو اللہ کی رحمت خاص ہے اور ان کے لئے بھی جو اس نبوت پر ایمان لائیں گے۔

٢١۔(٤) یہ اسی کلام کا ضمیمہ ہے جو جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی طرف سے نقل کیا ہے۔ یعنی یہ اعجازی تخلیق۔ تو اللہ کے علم اور اس کی قدرت و مشیت میں مقدر ہے۔

٢٣۔ موت کی آرزو اس ڈر سے کی کہ میں بچے کے مسئلے پر لوگوں کو کس طرح مطمئن کر سکوں گی، جب کہ میری بات کی کوئی تصدیق کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہو گا۔ اور یہ تصور بھی روح فرسا تھا کہ کہاں شہرت ایک عابدہ و زاہدہ کے طور پر ہے اور اس کے بعد لوگوں کی نظروں میں بدکار ٹھہروں گی۔

٢٥۔ سَرِبّاَ چھوٹی نہر یا پانی کا چشمہ۔ یعنی بطور کرامت اور خلاف قانون قدرت، اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کے پاؤں تلے پینے کے لئے پانی کا اور کھانے کے لئے ایک سوکھے ہوئے درخت میں پکی ہوئے تازہ کھجوروں کا انتظام کر دیا۔ آواز دینے والے حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے، جنہوں نے وادی کے نیچے سے آواز دی اور کہا جاتا ہے کہ سَرِیّ بمعنی سردار ہے اور اس سے مراد عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور انہی نے حضرت مریم کو نیچے سے آواز دی تھی۔

٢٦۔(۱) یعنی کھجوریں کھا، چشمے کا پانی پی اور بچے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کر۔

٢٦۔ (۲)  یہ کہنا بھی اشارے سے تھا، زبان سے نہیں، علاوہ ازیں ان کے ہاں روزے کا مطلب ہی کھانے اور بولنے سے پرہیز ہے۔

٢٨۔ ہارون سے مراد ممکن ہے ان کا کوئی عینی یا علاتی بھائی ہو، یہ بھی ممکن ہے ہارون سے مراد ہارون رسول (برادر موسیٰ علیہ السلام) ہی ہوں اور عربوں کی طرح ان کی نسبت اخوت ہارون کی طرف کر دی، جیسے کہا جاتا ہے، تقویٰ و پاکیزگی اور عبادت میں حضرت ہارون علیہ السلام کی طرح انہیں سمجھتے ہوئے، انہیں کی مثل اور مشابہت میں اخت ہارون کہا ہو، اس کی مثالیں قرآن کریم میں بھی موجود ہیں (ابن کثیر)

٣٠۔ یعنی قضا و قدر ہی میں اللہ نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ مجھے کتاب اور نبوت سے نوازے گا

٣١۔ اللہ کے دین میں ثابت قدم، یا ہر چیز میں زیادتی، برتری اور کامیابی میرا مقدر ہے یا لوگوں کے لئے نافع، نیکی کے کام کرنے کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا۔ (فتح القدیر)

٣٢۔ (۱)صرف والدہ کے ساتھ حسن سلوک کے ذکر سے بھی واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت بغیر باپ کے ایک اعجازی شان کی حامل ہے، ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی، حضرت یحییٰ علیہ السلام کی طرح (ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا) کہتے، یہ نہ کہتے کہ میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں۔

٣٢۔ (۲)  اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ماں باپ کا خدمت گزار اور اطاعت شعار نہیں ہوتا، اس کی فطرت میں سرکشی اور قسمت میں بد بختی لکھی ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ساری گفتگو ماضی کے صیغوں میں کی ہے حالاں کہ ان تمام باتوں کا تعلق مستقبل سے تھا، کیوں کہ ابھی تو وہ شیر خوار بچے ہی تھے۔ یہ اس لئے کہ یہ اللہ کی تقدیر کے اٹل فیصلے تھے کہ گو ابھی یہ معرض ظہور میں نہیں آئے تھے لیکن ان کا وقوع اس طرح یقینی تھا جس طرح کے گزرے ہوئے واقعات شک و شبہ سے بالا ہوتے ہیں۔

٣٤۔ یعنی یہ ہیں وہ صفات، جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام صفت کئے گئے تھے نہ کہ ان صفات کے حامل، جو نصاریٰ نے حد سے گزر کر ان کے بارے میں باور کرائیں اور نہ ایسے، جو یہودیوں نے کمی کی اور نقص نکالنے سے کام لیتے ہوئے ان کی بابت کہا۔ اور یہی حق بات ہے۔ جس میں لوگ خواہ مخواہ شک کرتے ہیں۔

٣٥۔ جس اللہ کی یہ شان اور قدرت ہو اسے بھلا اولاد کی کیا ضرورت ہے ؟ اور اسی طرح اس کے لئے بغیر باپ کے پیدا کر دینا کون سا مشکل امر ہے۔ گویا جو اللہ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اعجازی ولادت سے انکار کرتے ہیں، وہ دراصل اللہ کی قدرت و طاقت کے منکر ہیں۔

٣٧۔ (۱) یہاں الاحزاب سے مراد کتاب کے فرقے اور خود عیسائیوں کے فرقے ہیں۔ جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں باہم اختلاف کیا۔ یہود نے کہا کہ وہ جادوگر اور یوسف نجار کے بیٹے ہیں نصاریٰ کے ایک فرقے نے کہا کہ وہ ابن اللہ ہیں۔ (کیتھولک) فرقے نے کہا وہ ثالثُ ثَلَاثلَۃِ(تین خداؤں میں سے تیسرے ) ہیں اور تیسرے فرقے یعقوبیہ (آرتھوڈکس) نے کہا، وہ اللہ ہیں۔ پس یہودیوں نے تفریط اور تقصیر کی عیسائیوں نے افراط و غلو (الیسرا لتفاسیر، فتح القدیر)

٣٧۔ (۲)  ان کافروں کے لئے جنہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اس طرح اختلاف اور افراط کا ارتکاب کیا، قیامت والے دن جب وہاں حاضر ہوں گے، ہلاکت ہے۔

٣٨۔ یہ تعجب کے صیغے ہیں یعنی دنیا میں تو یہ حق کے دیکھنے اور سننے سے اندھے اور بہرے رہے لیکن آخرت میں یہ کیا خوب دیکھنے اور سننے والے ہوں گے ؟ لیکن وہاں یہ دیکھنا سننا کس کام کا؟

٣٩۔(۱) روز قیامت کو یوم حسرت کہا، اس لئے کہ اس روز سب ہی حسرت کریں گے۔ بدکار حسرت کریں گے کہ کاش انہوں نے برائیاں نہ کی ہوتیں اور نیکوکار اس بات پر حسرت کریں گے کہ انہوں نے اور زیادہ نیکیاں کیوں نہیں کمائیں ؟

٣٩۔ (۲)  یعنی حساب کتاب کر کے صحیفے لپیٹ دیئے جائیں گے اور جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اس کے بعد موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا اور جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا کر دیا جائے گا، جنتیوں اور دوزخیوں دونوں سے پوچھا جائے گا، اسے پہچانتے ہو، یہ کیا ہے ؟ وہ کہیں گے، ہاں یہ موت ہے پھر ان کے سامنے اسے ذبح کر دیا جائے گا اور اعلان کر دیا جائے گا کہ اہل جنت! تمہارے لئے جنت کی زندگی ہمیشہ کے لئے ہے، اب موت نہیں آئے گی۔ دوزخیوں سے کہا جائے گا۔ اے دوزخیو! تمہارے لئے دوزخ کا عذاب دائمی ہے۔ اب موت نہیں آئے گی (صحیح بخاری)

٤١۔ صدیق صدق (سچائی سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ بہت راست باز، یعنی جس کے قول و عمل میں مطابقت اور راست بازی اس کا شعار ہو۔ صدیقیت کا یہ مقام، نبوت کے بعد سب سے اعلیٰ ہے ہر نبی اور رسول بھی اپنے وقت کا سب سے بڑا راست باز اور صداقت شعار ہوتا ہے، اس لئے وہ صدیق بھی ہوتا ہے۔ تاہم ہر صدیق، نبی نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں حضرت مریم کو صدیقہ کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تقویٰ و طہارت اور راست بازی میں بہت اونچے مقام پر فائز تھیں تاہم نبیہ نہیں تھیں۔ امت محمدیہ میں بھی صدیقین ہیں۔ اور ان میں سر فہرست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ ہیں جو انبیاء کے بعد امت میں خیر البشر تسلیم کئے گئے ہیں۔ رَ ضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ۔

٤٣۔ (۱)جس سے مجھے اللہ کی معرفت اور اس کا یقین حاصل ہوا، بعث بعد الموت اور غیر اللہ کے پجاریوں کے لئے دائمی عذاب کا علم ہوا۔

٤٣۔ (۲)  جو آپ کی سعادت کو ابدی اور نجات سے ہمکنار کر دے گی۔

٤٤۔ یعنی شیطان کے وسوسے اور اس کے بہکاوے سے آپ جو ایسے بتوں کی پرستش کرتے ہیں جو سننے اور دیکھنے کی طاقت رکھتے ہیں نہ نفع نقصان پہنچانے کی قدرت، تو یہ دراصل شیطان ہی کی پرستش ہے۔ جو اللہ کا نافرمان ہے اور دوسروں کو بھی اللہ کا نافرمان بنا کر ان کو اپنے جیسا بنانے پر تلا رہتا ہے۔

٤٥۔ اگر آپ اپنے شرک و کفر پر باقی رہے اور اسی حال میں آپ کو موت آ گئی، تو عذاب الٰہی سے آپ کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔ یا دنیا میں ہی آپ عذاب کا شکار نہ ہو جائیں اور شیطان کے ساتھی بن کر ہمیشہ کے لئے راندہ بارگاہ الٰہی ہو جائیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کے ادب و احترام کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے، نہایت شفقت اور پیار کے لہجے میں باپ کو توحید کا وعظ سنایا، لیکن توحید کا سبق کتنے ہی شیریں اور نرم لہجے میں بیان کیا جائے، مشرک کے لئے ناقابل برداشت ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ مشرک باپ نے اس نرمی اور پیار کے جواب میں نہایت درشتی اور تلخی کے ساتھ موحد بیٹے کو کہا اگر تو میرے معبودوں سے روگردانی کرنے سے باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔

٤٦۔ دراز مدت، ایک عرصہ۔ دوسرے معنی اس کے صحیح و سالم کے کئے گئے ہیں۔ یعنی مجھے میرے حال پر چھوڑ دے، کہیں مجھ سے اپنے ہاتھ پیر نہ تڑوا لینا۔

٤٧۔ یہ سلام دعایہ نہیں ہے جو ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو کرتا ہے بلکہ ترک مخاطب کا اظہار ہے جیسے (وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰماً) (الفرقان۔٦٣) 'جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے ' اس میں اہل ایمان اور بندگان الٰہی کا طریقہ بتلایا گیا ہے۔

٤٧۔ (۲)  یہ اس وقت کہا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مشرک کے لئے مغفرت کی دعا کرنے کی ممانعت کا علم نہیں تھا، جب یہ علم ہوا تو آپ نے دعا کا سلسلہ موقوف کر دیا (التوبہ۔١١٤)

٤٩۔ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر بھی بیٹے کے ساتھ اور بیٹے ہی کی طرح کیا۔ مطلب یہ ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام توحید الٰہی کی خاطر باپ کو، گھر کو اور اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کر بیت المقدس کی طرف ہجرت کر گئے، تو ہم نے انہیں اسحاق و  یعقوب علیہما السلام سے نوازا تاکہ ان کی انس و محبت، باپ کی جدائی کا صدمہ بھلا دے۔

٥٠۔(۱)یعنی نبوت کے علاوہ بھی اور بہت سی رحمتیں ہم نے انہیں عطا کیں، مثلاً مال مزید اولاد اور پھر اسی سلسلہ نسب میں عرصہ دراز تک نبوت کے سلسلے کو جاری رکھنا یہ سب سے بڑی رحمت تھی جو ان پر ہوئی اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام ابو الانبیا کہلاتے ہیں۔

٥٠۔ (۲)  لسان صدق سے مراد ثنائے حسن اور ذکر جمیل ہے لسان کی اضافت صدق کی طرف کی اور پھر اس کا وصف علو بیان کیا جس سے اس طرف اشارہ کر دیا کہ بندوں کی زبانوں پر جو ان کا ذکر جمیل رہتا ہے، تو وہ واقعی اس کے مستحق ہیں۔ چنانچہ دیکھ لیجئے کہ تمام دیگر مذاہب کو ماننے والے بلکہ مشرکین بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کا تذکرہ بڑے اچھے الفاظ میں اور نہایت ادب و احترام سے کرتے ہیں۔ یہ نبوت و اولاد کے بعد ایک اور انعام ہے جو ہجرت فی سبیل اللہ کی وجہ سے انہیں حاصل ہوا۔

٥١۔(۱)مخلص، مصطفیٰ، مجتبیٰ اور مختار،چاروں الفاظ کا مفہوم ایک ہے یعنی رسالت و پیامبری کے لیے چنا ہوا پسندیدہ شخص رسول بمعنی مرسل ہے (بھیجا ہوا) اور نبی کے معنی اللہ کا پیغام لوگوں کو سنانے والا یا وحی الٰہی کی خبر دینے والا تاہم مفہوم دونوں کا ایک ہے کہ اللہ جس بندے کو لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے چن لیتا ہے اور اسے اپنی وحی سے نوازتا ہے، اسے رسول اور نبی کہا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم سے اہل علم میں ایک بحث یہ چلی آ رہی ہے کہ آیا کہ ان دونوں میں فرق ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے ؟ فرق کرنے والے بالعموم کہتے ہیں کہ صاحب شریعت یا صاحب کتاب کو رسول اور نبی کہا جاتا ہے اور جو پیغمبر اپنی سابقہ پیغمبر کی کتاب یا شریعت کے مطابق ہی لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچاتا رہا، وہ صرف نبی ہے، رسول نہیں۔ تاہم قرآن کریم میں ان کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوا ہے اور بعض جگہ مقابلہ کرنے والے بھی آئے ہیں، مثلاً سورۃ الحج آیت ٥٢ میں۔

٥٧۔ حضرت ادریس علیہ السلام، کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد پہلے نبی تھے اور حضرت نوح علیہ السلام کے یا ان کے والد کے دادا تھے، انہوں نے ہی سب سے پہلے کپڑے سیئے، بلندی مکان سے مراد؟ بعض مفسرین نے اس کا مفہوم رُفِعَ اِلَی السَّمَآءِ سمجھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح انہیں بھی آسمان پر اٹھا لیا گیا لیکن قرآن کے الفاظ اس مفہوم کے لئے صاف نہیں ہیں اور کسی صحیح حدیث میں بھی یہ بیان نہیں ہوا۔ البتہ اسرائیلی روایات میں ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر ملتا ہے جو اس مفہوم کے اثبات کے لئے کافی نہیں۔ اس لئے زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد مرتبے کی وہ بلندی ہے جو نبوت سے سرفراز کر کے انہیں عطا کی گئی۔ واللہ اعلم

٥٨۔ گویا اللہ کی آیات کو سن کر وجد کی کیفیت کا طاری ہو جانا اور عظمت الٰہی کے آگے سجدہ ریز ہو جانا، بندگان الٰہی کی خاص علامت ہے۔ سجدہ تلاوت کی مسنون دعا یہ ہے (وَ سَجَدَ وَ جْھِیَ لِلَّذِیْ خَلَہُ، وَصَوَّرَہُ، وَ شَقَّ سَمْعَہُ وَ بَصَرَہَ بِحَوْلِہِ وَ قُوَّتِہِ) (ابو داؤد، ترمذی، نسائی۔ بحوالہ مشکوٰۃ، باب سجود القرآن) بعض روایات میں اضافہ ہے۔

٥٩۔ انعام یافتہ بندگان الٰہی کا تذکرہ کرنے کے بعد ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے، جو ان کے برعکس اللہ کے احکام سے غفلت و اعراض کرنے والے ہیں۔ نماز ضائع کرنے سے مراد یا تو بالکل نماز کا ترک ہے جو کفر ہے یا ان کے اوقات کو ضائع کرنا ہے یعنی وقت پر نماز نہ پڑھنا، جب جی چاہا، نماز پڑھ لی، یا بلا عذر اکٹھی کر کے پڑھنا کبھی دو، کبھی چار، کبھی ایک اور کبھی پانچوں نمازیں۔ یہ بھی تمام صورتیں نماز ضائع کرنے کی ہیں جس کا مرتکب سخت گناہ گار اور آیت میں بیان کردہ وعید کا سزاوار ہو سکتا ہے۔غیا کے معنی ہلاکت، انجام بد کے ہیں یا جہنم کی ایک وادی کا نام ہے۔

٦٠۔ یعنی جو توبہ کر کے ترک صلوٰۃ اور جنسی خواہش کی پیروی سے باز آ جائیں اور ایمان و عمل صالح کے تقاضوں کا اہتمام کر لیں تو ایسے لوگ مذکورہ انجام بد سے محفوظ اور جنت کے مستحق ہوں گے۔

٦١۔ یعنی یہ ان کے ایمان و یقین کی پختگی ہے کہ انہوں نے جنت کو دیکھا بھی نہیں، صرف اللہ کے غائبانہ وعدے پر ہی اس کے حصول کے لئے ایمان و تقویٰ کا راستہ اختیار کیا۔

٦٢۔ (۱)یعنی فرشتے بھی انہیں ہر طرف سے سلام کریں گے اور اہل جنت بھی آپس میں ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کیا کریں گے۔

٦٢۔ (۲)  امام احمد نے اس کی تفسیر میں کہا کہ جنت میں رات اور دن نہیں ہوں گے، صرف اجالا ہی اجالا اور روشنی ہی روشنی ہو گی۔ حدیث میں ہے۔ جنت میں داخل ہونے والے پہلے گروہ کی شکلیں چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوں گی، وہاں انہیں تھوک آئے گا نہ رینٹ اور بول و بزاز۔ ان کے برتن اور کنگھیاں سونے کی ہوں گی، ان کا بخور، خوشبودار (لکڑی) ہو گی۔ ان کا پسینہ کستوری (کی طرح) ہو گا۔ ہر جنتی کی دو بیویاں ہوں گی، ان کی پنڈلیوں کا گودا ان کے گوشت کے پیچھے نظر آئے گا، ان کے حسن جمال کی وجہ سے۔ ان میں باہم بغض اور اختلاف نہیں ہو گا، ان کے دل، ایک دل کی طرح ہوں گے، صبح شام اللہ کی تسبیح کریں گے (صحیح بخاری)

٦٤۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام سے زیادہ اور جلدی جلدی ملاقات کی خواہش ظاہر فرمائی جس پر یہ آیت اتری (صحیح بخاری)، تفسیر سورہ مریم)

٦٥۔ یعنی نہیں ہے، جب اس کی مثل کوئی اور نہیں تو پھر عبادت بھی کسی اور کی جائز نہیں

٦٦۔ (۱)انسان سے مراد یہاں کافر با حیثیت جنس کے ہے، جو قیامت کے وقوع اور بعث بعد الموت کے قائل نہیں۔

٦٦۔ (۲)  استفہام، انکار کے لئے ہے۔ یعنی جب میں بوسیدہ اور مٹی میں رل مل جاؤں گا، تو مجھے دوبارہ کس طرح نیا وجود عطا کر دیا جائے گا؟ یعنی ایسا ممکن نہیں۔

٦٧۔ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ جب پہلی مرتبہ بغیر نمونے کے ہم نے انسان پیدا کر دیا، تو دوبارہ پیدا کرنا ہمارے لئے کیوں کر مشکل ہو گا؟ پہلی مرتبہ پیدا کرنا مشکل ہے یا دوبارہ اسے پیدا کرنا؟ انسان کتنا نادان اور خود فراموش ہے اسی خود فراموشی نے اسے خدا فراموش بنا دیا ہے۔

٦٨۔١جثیی، جاث کی جمع ہے جثا یجثو سے۔جَاثٍ گھٹنوں کے بل گرنے والے کو کہتے ہیں۔ یہ حال ہے یعنی ہم دوبارہ انہیں کو نہیں بلکہ ان شیاطین کو بھی زندہ کر دیں گے جنہوں نے ان کو گمراہ کیا تھا یا جن کی وہ عبادت کرتے تھے پھر ان سب کو اس حال میں جہنم کے گرد جمع کر دیں گے کہ یہ محشر کی ہولناکیوں اور حساب کے خوف سے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوں گے، میرے لئے پہلی مرتبہ پیدا کرنا دوسری مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے (یعنی مشکل اگر ہے تو پہلی مرتبہ پیدا کرنا نہ کہ دوسری مرتبہ) اور اس کا مجھے ایذا پہنچانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے میری اولاد ہے، حالاں کہ میں ایک ہوں، بے نیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنا اور نہ خود جنا گیا ہوں میرا کوئی ہمسر نہیں ہے (صحیح بخاری۔ تفسیر سورہ اخلاص)

٦٩۔ مطلب یہ ہے کہ ہر گمراہ فرقے کے بڑے بڑے سرکشوں اور لیڈروں کو ہم الگ کر لیں گے اور ان کو اکٹھا کر کے جہنم میں پھینک دیں گے۔ کیوں کہ یہ قائدین دوسرے جہنمیوں کے مقابلے میں سزا وعقوبت کے زیادہ سزا وار ہیں، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

٧٠۔ یعنی جہنم میں داخل ہونے اور اس میں جلنے کے کون زیادہ مستحق ہیں، ہم ان کو خوب جانتے ہیں

٧٢۔ اس کی تفسیر صحیح حدیث میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ جہنم کے اوپر پل بنایا جائے گا جس میں ہر مومن و کافر کو گزرنا ہو گا۔ مومن تو اپنے اعمال کے مطابق جلد یا بدیر گزر جائیں گے، کچھ تو پلک جھپکنے میں، کچھ بجلی اور کچھ ہوا کی طرح، کچھ پرندوں کی طرح اور کچھ عمدہ گھوڑوں اور دیگر سواریوں  کی طرح گزر جائیں گے یوں کچھ بالکل صحیح سالم، کچھ زخمی تاہم پل عبور کر لیں گے کچھ جہنم میں گر پڑیں گے جنہیں بعد میں شفاعت کے ذریعے سے نکال لیا جائے گا۔ لیکن کافر اس پل کو عبور کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے اور سب جہنم میں گر پڑیں گے۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ ' جس کے تین بچے بلوغت سے پہلے وفات پا گئے ہوں، اسے آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف قسم حلال کرنے کے لئے (البخاری) یہ قسم وہی ہے جسے اس آیت میں حَتْماً مَّقْضِیّاً (قطعی طے شدہ امر) یعنی اس کا در جہنم میں صرف پل پر گزرنے کی حد تک ہی ہو گا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ابن کثیر وایسر التفاسیر)

٧٣۔ یعنی قرآنی دعوت کا مقابلہ یہ کفار مکہ فقرا مسلمین اور اغنیائے قریش اور ان کی مجلسوں اور مکانوں کے باہمی موازنے سے کرتے ہیں، کہ مسلمانوں میں عمار، بلال، صہیب رضی اللہ عنہم جیسے فقیر لوگ ہیں، انکا دار الشوریٰ دار ارقم ہے۔ جب کہ کافروں میں ابوجہل، نفر بن حارث، عتبہ، شیبہ وغیرہ جیسے رئیس اور ان کی عالی شان کوٹھیاں اور مکانات ہیں، ان کی اجتماع گاہ بہت عمدہ ہے۔

٧٤۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، دنیا کی یہ چیزیں ایسی نہیں ہیں کہ ان پر فخر اور ناز کیا جائے، یا ان کو دیکھ کر حق و باطل کا فیصلہ کیا جائے۔ یہ چیزیں تو تم سے پہلی امتوں کے پاس تھیں، لیکن تکذیب حق کی پاداش میں انہیں ہلاک کر دیا گیا، دنیا کا یہ مال و اسباب انہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکا۔

٧٥۔ علاوہ ازیں یہ چیزیں گمراہوں اور کافروں کو مہلت کے طور پر بھی ملتی ہیں، اس لئے یہ کوئی معیار نہیں۔ اصل اچھے برے کا پتہ تو اس وقت چلے گا، جب مہلت عمل ختم ہو جائے گی اور اللہ کا عذاب انہیں آ گھیرے گا یا قیامت برپا ہو جائے گی۔ لیکن اس وقت کا علم، کوئی فائدہ نہیں دے گا، کیونکہ وہاں ازالے اور تدارک کی کوئی صورت نہیں ہو گی۔

٧٦۔(۱) اس میں ایک دوسرے اصول کا ذکر ہے جس طرح قرآن سے، جن کے دلوں میں کفر اور شرک و ضلالت کا روگ ہے۔ ان کی بدبختی و ضلالت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے، اسی طرح اہل ایمان کے دل ایمان و ہدایت میں اور پختہ ہو جاتے ہیں۔

٧٦۔ (۲)  اس میں فقرا مسلمین کو تسلی ہے کہ کفار و مشرکین جن مال و اسباب پر فخر کرتے ہیں، وہ سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے اور تم جو نیک اعمال کرتے ہو، یہ ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں۔ جن کا اجر و ثواب تمہیں اپنے رب کے ہاں ملے گا۔ اور ان کا بہترین صلہ اور نفع تمہاری طرف لوٹے گا۔

٨٠۔ ان آیات کی شان نزول میں بتلایا گیا ہے۔ کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ کے والد عاص بن وائل، جو اسلام کے شدید دشمنوں میں سے تھا۔ اس کے ذمے حضرت خباب بن ارت کا قرضہ تھا جو آہن گری کا کام کرتے تھے۔ حضرت خباب رضی اللہ نے اس سے اپنی رقم کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا جب تک تو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کفر نہیں کرے گا میں تجھے تیری رقم نہیں دونگا۔ انہوں نے کہا یہ کام تو، تو مر کر دوبارہ زندہ ہو جائے تب بھی نہیں کرونگا۔ اس نے کہا اچھا پھر ایسے ہی سہی، جب مجھے مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے گا اور وہاں بھی مجھے مال و اولاد سے نوازا جائے گا تو میں وہاں رقم ادا کر دونگا (صحیح بخاری) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جو دعویٰ کر رہا ہے کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہاں بھی اس کے پاس مال اور اولاد ہو گی؟ یا اللہ سے اس کا کوئی عہد ہے ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے یہ صرف تعلی اور آیات الٰہی کا استہزا و تمسخر ہے یہ جس مال و اولاد کی بات کر رہا ہے اس کے وارث تو ہم ہیں یعنی مرنے کے ساتھ ہی ان سے اس کا تعلق ختم ہو جائے گا اور ہماری بارگاہ میں یہ اکیلا آئے گا نہ مال ساتھ ہو گا نہ اولاد اور نہ کوئی جتھہ۔ البتہ عذاب ہو گا جو اس کے لیے اور ان جیسے دیگر لوگوں کے لیے ہم بڑھاتے رہیں گے۔

٨٢۔ عِزّاً کا مطلب ہے یہ معبود ان کے لئے عزت کا باعث اور مددگار ہوں گے اور ضِدّاً کے معنی ہیں، دشمن، جھٹلانے والے اور ان کے خلاف دوسروں کے مددگار۔ یعنی یہ معبود ان کے گمان کے برعکس ان کے حمایتی ہونے کی بجائے، ان کے دشمن، ان کو جھٹلانے والے اور ان کے خلاف ہوں گے۔

٨٣۔ یعنی گمراہ کرتے، بہکاتے اور گناہ کی طرف کھینچ کر لے جاتے ہیں

٨٤۔ اور جب وہ مہلت ختم ہو جائے گی تو عذاب الٰہی ان کیلئے ہمیشگی کے لئے بن جائیگا۔ آپ کو جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے

٨٦۔١وفد وافد کی جمع ہے جیسے رکب راکب کی جمع ہے۔ مطلب یہ کہ انہیں اونٹوں، گھوڑوں پر سوار کرا کے نہایت عزت و احترام سے جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔ وزدا کے معنی پیاسے۔ اس کے برعکس مجرمین کو بھوکا پیاسا جہنم میں ہانک دیا جائے گا۔

٨٧۔ قول و قرار (عہد) کا مطلب ایمان و تقویٰ ہے۔ یعنی اہل ایمان و تقویٰ میں سے جن کو اللہ شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، وہی شفاعت کریں گے، ان کے سوا کسی کو شفاعت کرنے کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔

٩١۔ ادا کے معنی بہت بھیانک معاملہ اور داھیۃ (بھاری چیز اور مصبیت) کے ہیں۔ یہ مضمون پہلے بھی گزر چکا ہے کہ اللہ کی اولاد قرار دینا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس سے آسمان و زمین پھٹ سکتے ہیں اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو سکتے ہیں۔

٩٣۔ جب سب اللہ کے غلام اور اس کے عاجز بندے ہیں تو پھر اسے اولاد کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ اور یہ اس کے لائق بھی نہیں ہے

٩٤۔ یعنی آدم سے لے کر صبح قیامت تک جتنے بھی انسان، جن ہیں، سب کو اس نے گن رکھا ہے، سب اس کے قابو اور گرفت میں ہیں، کوئی اس سے چھپا ہے اور نہ چھپا رہ سکتا ہے۔

٩٥۔ یعنی کوئی کسی کا مددگار نہیں ہو گا، نہ مال ہی وہاں کچھ کام آئے گا (یوم لا ینفع مال ولا بنون)"الشعراء"اس دن نہ مال نفع دے گا، نہ بیٹے، ہر شخص کو تنہا اپنا اپنا حساب دینا پڑے گا اور جن کی بابت انسان دنیا میں یہ سمجھتا ہے کہ یہ میرے وہاں حمایتی اور مددگار ہوں گے، وہاں سب غائب ہو جائیں گے۔ کوئی کسی کی مدد کے لئے حاضر نہیں ہو گا۔

٩٦۔ یعنی دنیا میں لوگوں کے دلوں میں اس کی نیکی اور پارسائی کی وجہ سے محبت پیدا کر دے گا، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے ' جب اللہ تعالیٰ کسی (نیک) بندے کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے تو اللہ جبرائیل علیہ السلام کو کہتا ہے، میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔ پس جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنی شروع کر دیتے ہیں پھر جبرائیل علیہ السلام آسمان میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں آدمی سے محبت کرتا ہے، پس تمام آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر زمین میں اس کے لئے قبولیت اور پذیرائی رکھ دی جاتی ہے ' (صحیح بخاری)۔

٩٧۔ (۱)قرآن کو آسان کرنے کا مطلب اس زبان میں اتارنا ہے جس کو پیغمبر جانتا تھا یعنی عربی زبان میں، پھر اس کے مضمون کا کھلا ہونا، واضح اور صاف ہونا۔

٩٧۔ (۲)  لُدَّا (أَلَدُّ کی جمع) کے معنی جھگڑا لو کے ہیں مراد کفار و مشرکین ہیں۔

٩٨۔ احساس کے معنی ہیں، حس کے ذریعے سے معلومات حاصل کرنا۔ یعنی کیا تو ان کو آنکھوں سے دیکھ سکتا یا ہاتھوں سے چھو سکتا ہے ؟ استفہام انکاری ہے۔ یعنی ان کا وجود ہی دنیا میں نہیں ہے کہ تو انہیں دیکھ یا چھو سکے یا دیکھ سکے یا اس کی ہلکی سی آواز ہی تجھے کہیں سے سنائی دے سکے۔