تفسیر مدنی

سورة مَریَم

(سورۃ مریم ۔ سورہ نمبر ۱۹ ۔ تعداد آیات ۹۸)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     كہیعص

۲۔۔۔     یہ ذکر ہے تیرے رب کی اس رحمت کا جو اس نے اپنے ایک خاص بندے زکریا پر فرمائی

۳۔۔۔     جب کہ اس نے پکارا اپنے رب کو چپکے سے

۴۔۔۔     اور عرض کیا اے میرے پروردگار میری ہڈیاں تک گھل گئی ہیں اور بڑھاپے سے میرا سر بھڑک اٹھا ہے ۔ اور میں کبھی آپ سے دعا مانگنے میں نامراد و ناکام نہیں ہوا

۵۔۔۔     اور میں ڈرتا ہوں اپنے پیچھے اپنے رشتہ داروں سے اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو اے میرے مالک! مجھے اپنے یہاں سے ایک ایسا جانشین عطا فرما دے

۶۔۔۔     جو میرا بھی وارث ہو اور یعقوب کے خاندان کا بھی اور اے میرے رب اس کو ایک پسندیدہ انسان بنا ۔

۷۔۔۔     جواب ملا اے زکریا ہم تمہیں ایک ایسے لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہو گا اور ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی ہم نام پیدا نہیں کیا ۔

۸۔۔۔      عرض کیا اے میرے رب میرے یہاں لڑکا کیسے ہو گا، جب کہ میری بیوی بانجھ ہے ، اور میں خود پہنچ چکا ہوں بڑھاپے کی انتہا کو؟

۹۔۔۔      جواب ملا ایسے ہی ہو گا، تمہارے رب نے کہا کہ یہ میرے لیے بڑا آسان ہے آخر میں اس سے پہلے خود تمہیں بھی پیدا کر چکا ہوں ، جب کہ تم کچھ بھی نہ تھے ،

۱۰۔۔۔      اس پر زکریا علیہ السلام نے عرض کیا اچھا تو اے میرے رب، میرے لیے اس پر کوئی نشانی مقرر فرما دیجئے ، ارشاد ہوا تمہارے لیے نشانی یہ ہے کہ تم تین دن رات تک لوگوں سے بات نہیں کر سکو گے جب کہ تم صحیح سالم ہو گے ،

۱۱۔۔۔      چنانچہ وہ اپنے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے ، تو انہیں اشارے سے کہا کہ تم لوگ تسبیح کرو اپنے رب کی صبح و شام،

۱۲۔۔۔     پھر جب یحییٰ پیدا ہو کر سن شعور کو پہنچ گئے تو ان کو حکم ہوا اے یحییٰ مضبوطی سے تھام لو تم ہماری کتاب کو اور ہم نے انہیں بچپن ہی میں نواز دیا تھا حکم سے

۱۳۔۔۔     اور نہیں ہم نے اپنی طرف سے ایک عظیم رحمدلی بھی عطا کی تھی اور پاکیزگی بھی اور وہ بڑے پرہیزگار تھے

۱۴۔۔۔      اور وہ بڑے نیکوکار اور خدمت گزار تھے اپنے ماں باپ کے ساتھ، اور ان میں کسی بھی طرح کی نہ کوئی سرکشی تھی نہ نافرمانی،

۱۵۔۔۔      سلام ہو اس پر، جس دن کہ وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے گا، اور جس دن اس کو اٹھایا جائے گا زندہ کر کے ۔

۱۶۔۔۔      اور اس کتاب میں ان کو مریم علیہ السلام کا قصہ بھی پڑھ کر سنا دو، جب کہ وہ اپنے گھر والوں سے علیحدہ ہو کر مشرقی جانب کی ایک جگہ میں جا بیٹھیں

۱۷۔۔۔      پھر انہوں نے ان لوگوں کے سامنے ایک پردہ ڈال لیا، اس وقت ہم نے اپنا فرشتہ ان کے پاس بھیجا تو وہ ایک پورے انسان کی شکل میں ان کے سامنے نمودار ہوا

۱۸۔۔۔      تب مریم علیہ السلام اسے ایک انسان سمجھ کر فوراً بول اٹھیں کہ میں تجھ سے خدائے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو کوئی خدا ترس انسان ہے ،

۱۹۔۔۔      اس نے کہا ڈرو نہیں کہ میں کوئی انسان نہیں بلکہ میں تو تمہارے رب کا فرستادہ ہوں اور اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تاکہ تمہیں ایک پاکیزہ لڑکا دوں ،

۲۰۔۔۔      مریم علیہ السلام نے کہا کہ میرے یہاں لڑکا کیسے ہو گا، جب کہ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیں ، اور نہ ہی میں کوئی بدکار عورت ہوں ؟

۲۱۔۔۔      کہا ایسے ہی ہو گا تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ یہ میرے لیے بہت آسان ہے اور یہ بھی فرمایا کہ ہم یہ اس لیے کریں گے تاکہ ہم اس لڑکے کو ایک نشانی بنا دیں اپنی قدرت و عنایت کی سب لوگوں کے لیے اور ایک رحمت اپنی طرف سے ، اور یہ ایک طے شدہ بات ہے ،

۲۲۔۔۔      سو مریم علیہ السلام کو اس بچے کا حمل ہو گیا، تو وہ اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں ،

۲۳۔۔۔      پھر پہنچا دیا ان کو دردِ زہ کی شدت نے کھجور کے درخت کے نیچے ، تب انہوں نے حسرت بھرے انداز میں کہا اے کاش کہ میں مر گئی ہوتی اس سے پہلے ، اور میرا کوئی نام و نشان بھی باقی نہ رہ گیا ہوتا،

۲۴۔۔۔      تب فرشتے نے ان کو ان کے ایک نشیبی مقام سے پکار کر کہا، غم نہ کر، تمہارے رب نے تمہارے نیچے ایک چشمہ رواں کر دیا ہے

۲۵۔۔۔      اور ہلاؤ تم اپنی طرف کھجور کے اس تنے کو، یہ گرائے گا تم پر تر و تازہ کھجوریں ،

۲۶۔۔۔      پس تم کھاؤ پیو اور ٹھنڈا کرو اپنی آنکھوں کو، پھر اگر تمہیں کوئی آدمی نظر آئے اور اعتراض کرے تو تو اس کو اشارے سے کہہ دو کہ میں نے خدائے رحمان کے لیے نہ بولنے کے روزے کی نذر مان رکھی ہے لہٰذا میں آج کسی انسان سے بات نہیں کروں گی،

۲۷۔۔۔      پھر وہ اس بچے کو لیے اپنی قوم کے پاس آئیں تو وہ لوگ بچے کو دیکھتے ہی بول پڑے کہ اے مریم، تو نے تو بڑے غضب کا کام کر ڈالا،

۲۸۔۔۔      اے ہارون کی بہن، نہ تو تیرا باپ کوئی برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں کوئی بدکار عورت تھی

۲۹۔۔۔      تو پھر تو نے یہ غضب کس طرح ڈھایا ہے ؟ اس کے جواب میں مریم علیہ السلام نے اس بچے کی طرف اشارہ کر دیا، اس پر ان لوگوں نے کہا کہ ہم گہوارے میں پڑے ہوئے ایک بچے سے کیونکر بات کر سکتے ہیں ؟

۳۰۔۔۔     اتنے میں وہ معصوم بچہ خود بول اٹھا کہ بے شک میں اﷲ کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب بخشی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے

۳۱۔۔۔      اور مجھے برکت والا بنایا ہے ، جہاں کہیں بھی میں ہوں گا اور مجھے تاکید فرمائی نماز اور زکوٰۃ کی جب تک میں زندہ رہوں

۳۲۔۔۔      اس نے مجھے نیک سلوک کرنے والا بنایا اپنی والدہ کے ساتھ، اور مجھے کوئی سرکش اور بدبخت انسان نہیں بنایا،

۳۳۔۔۔      اور سلام ہو مجھ پر جس دن کہ میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا، اور جس دن مجھے اٹھایا جائے گا زندہ کر کے ۔

۳۴۔۔۔      یہ ہے عیسیٰ علیہ السلام بیٹا مریم کا، ہم عینِ حق کہتے ہیں اس بات کے بارے میں جس میں کہ یہ لوگ جھگڑ رہے ہیں ،

۳۵۔۔۔     اﷲ کے شایان نہیں کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے ، وہ پاک ہے ، اس کو جب کوئی کام کرنا ہوتا ہے تو وہ صرف اتنا فرماتا ہے کہ ہو جا پس وہ ہو چکا ہوتا ہے

۳۶۔۔۔      اور عیسیٰ علیہ السلام نے یہ بھی کہا کہ بلا شبہ اﷲ ہے رب میرا بھی اور تمہارا بھی، پس تم لوگ اسی کی بندگی کرو کہ خالص توحید والا یہی ہے سیدھا راستہ ۔

۳۷۔۔۔     پھر بھی مختلف جماعتیں آپس میں اختلاف میں پڑ گئیں ۔ سو بڑی خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر و انکار کیا ایک بڑے دن کے آنے سے

۳۸۔۔۔     کیا ہی خوب سنتے اور دیکھتے ہوں گے یہ لوگ اس دن جس دن کہ یہ ہمارے پاس آئیں گے مگر آج یہ ظالم حق سے آنکھ اور کان بند کر کے کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں

۳۹۔۔۔     اور خبردار کرتے رہو ان کو اے پیغمبر! حسرت کے اس دن سے جب کہ فیصلہ کر دیا جائے گا معاملے کا عملی اور آخری طور پر اور یہ ہیں کہ غفلت میں پڑے ایمان نہیں لاتے ۔

۴۰۔۔۔      اور بلاشبہ آخرکار ہماری ہی ہو کر رہے گی یہ زمین اور وہ سب بھی جو اس کے اوپر ہیں اور ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے ان سب نے ،

۴۱۔۔۔      اور ان کو اے پیغمبر اس کتاب میں ابراہیم کا قصہ بھی پڑھ کر سناؤ، بے شک وہ بڑے ہی راست باز اور عظیم الشان پیغمبر تھے

۴۲۔۔۔      اور خاص کر یاد کرو کہ جب انہوں نے درد بھرے انداز میں اپنے باپ سے کہا، ابا جان آپ کیوں ایسی چیزوں کی پوجا کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ ہی وہ آپ کے کچھ کام آ سکتی ہیں ؟

۴۳۔۔۔      ابا جان، میرے پاس ایسا علم آگیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا، لہٰذا آپ میرے کہنے پر چلیں ، میں آپ کو سیدھا راستہ بتاؤں گا،

۴۴۔۔۔      ابا جان، آپ شیطان کی بندگی مت کریں ، کیونکہ شیطان تو بلاشبہ خدائے رحمان کا نافرمان ہے ،

۴۵۔۔۔     ابا جان مجھے تو اس بات کا سخت ڈر ہے کہ کہیں آپ پر خدائے رحمان کی طرف سے کوئی ایسا عذاب آ پڑے کہ آپ ہمیشہ کے لیے شیطان کے ساتھی بن کر رہ جائیں

۴۶۔۔۔     یہ سب کچھ سن لینے کے بعد اس نے کہا ابراہیم کیا تم میرے معبودوں سے پھر رہے ہو؟ سن لو اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کر دوں گا اور تم دور ہو جاؤ مجھ سے ہمیشہ کے لیے ۔

۴۷۔۔۔     ابراہیم نے کہا اچھا تو سلام ہو آپ پر البتہ میں آپ کے لیے اپنے رب سے بخشش کی دعا کرتا رہوں گا کہ میرا رب بلاشبہ وہ مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے

۴۸۔۔۔     اور میں آپ لوگوں سے بھی کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں اور ان سب چیزوں سے بھی جن کو تم لوگ پوجتے پکارتے ہو اﷲ کے سوا، اور میں تو بہر حال اپنے رب کو ہی پکارتا رہوں گا، امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کر کبھی محروم نہیں رہوں گا،

۴۹۔۔۔      پھر جب وہ الگ ہو گئے ان سے اور ان کے ان تمام معبودانِ باطلہ سے جن کو وہ پوجتے پکارتے تھے خدا کے سوا، تو ہم نے انہیں اسحاق جیسا بیٹا بھی عطا کیا اور یعقوب جیسا پوتا بھی اور ان میں سے ہر ایک کو ہم نے نبوت سے سرفراز کیا

۵۰۔۔۔      ہم نے ان سب کو اپنی رحمت سے نوازا اور ان کو سرفراز کیا سچی ناموری سے ،

۵۱۔۔۔      اور اس کتاب میں اے پیغمبر ان کو موسیٰ کا قصہ بھی سناؤ بے شک وہ بھی ہمارے ایک چنے ہوئے بندے اور بھیجے ہوئے پیغمبر تھے ،

۵۲۔۔۔      اور ہم نے ان کو پکارا طور کی دائیں جانب سے اور ان کو اپنے قرب سے نوازا راز کی باتیں کرنے کے لیے ،

۵۳۔۔۔      اور ہم نے ان کی مدد کے لیے ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کو بھی اپنی مہربانی سے نبی بنا دیا،

۵۴۔۔۔      اور اس کتاب میں ان کو اسماعیل علیہ السلام کا ذکر بھی سناؤ، بلاشبہ وہ بھی وعدے کے سچے اور ہمارے بھیجے ہوئے پیغمبر تھے ۔

۵۵۔۔۔     وہ اپنے گھر والوں کو خاص طور پر حکم دیا کرتے تھے نماز اور زکوٰۃ کا، اور وہ اپنے رب کے یہاں ایک پسندیدہ انسان تھے ۔

۵۶۔۔۔     اور اس کتاب میں ان کو ادریس کا ذکر بھی سناؤ بلاشبہ وہ بھی ایک بڑے ہی سچے پیغمبر تھے

۵۷۔۔۔      اور ہم نے انہیں ایک بڑے بلند مرتبے تک پہنچا دیا تھا،

۵۸۔۔۔      یہ حضرات جن کا ذکر ہوا وہ لوگ ہیں جن پر اﷲ نے خاص انعام فرمایا اولاد آدم کے پیغمبروں میں سے اور ان لوگوں کی نسل میں سے جن کو ہم نے سوار کیا تھا نوح کے ساتھ ان کی کشتی میں اور ابراہیم علیہ السلام اور اسرائیل علیہ السلام کی اولاد میں سے اور یہ سب ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت سے نوازا تھا اور ان کو چن لیا تھا مگر اس قدر مرتبہ و مقام کے باوجود ان کی شانِ عبدیت و بندگی کا عالم یہ تھا کہ جب ان کو پڑھ کر سنائی جاتیں خدائے رحمان کی آیتیں ، تو یہ سنتے ہی اس کے حضور سجدے میں گر پڑتے روتے ہوئے

۵۹۔۔۔      پھر ان کے بعد ان کے ایسے نا خلف جانشین ہوئے جنہوں نے ضائع کر دیا نماز کو، اور وہ پیچھے لگ گئے اپنی خواہشات کے ، سو وہ پا کر رہیں گے انجام اپنی گمراہی کا،

۶۰۔۔۔      ہاں مگر جنہوں نے توبہ کر لی، اور وہ ایمان لے آئے سچے دل سے اور انہوں نے کام بھی اچھے کیے تو وہ داخل ہوں گے جنت میں اور ان کی ذرہ برابر کوئی حق تلفی نہ ہو گی،

۶۱۔۔۔      یعنی ہمیشہ رہنے والی ان عظیم الشان جنتوں میں جن کا وعدہ فرما رکھا ہے خدائے رحمان نے اپنے بندوں سے بن دیکھے ، بلاشبہ اس کے وعدہ نے بہر حال پورا ہو کر رہنا ہے ۔

۶۲۔۔۔     وہاں یہ خوش نصیب کوئی بے ہودہ بات نہ سننے پائیں گے ۔ بجز سلامتی کی دلنواز صداؤں کے اور وہاں ان کو ان کا رزق صبح و شام ملتا رہے گا ۔

۶۳۔۔۔     یہ ہے وہ جنت جس کا وارث بنا دیں گے ہم اپنے بندوں میں سے ان لوگوں کو جو پرہیزگار رہے ہوں گے ۔

۶۴۔۔۔     اور اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم ہم فرشتے تو آپ کے رب کے حکم کے بغیر نہیں اتر سکتے اسی کا ہے وہ سب کچھ جو کہ ہمارے سامنے ہے اور وہ سب کچھ بھی جو کہ ہمارے پیچھے ہے اور جو اس کے درمیان ہے اور آپ کا رب بھولنے والا نہیں

۶۵۔۔۔     وہ رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور ان سب چیزوں کا جو کہ ان دونوں کے درمیان ہیں پس تم اسی کی بندگی کرو اور پکے رہو اس کی عبادت و بندگی پر کیا تمہارے علم میں ہے کوئی ایسی ہستی جو اس کی ہم پایہ ہو؟

۶۶۔۔۔     اور آخرت کا منکر انسان کہتا ہے کہ کیا واقعی جب میں مر چکوں گا تو پھر زندہ کر کے نکال لایا جاؤں گا؟

۶۷۔۔۔     کیا ایسے انسان کو خود اپنے بارے میں یہ حقیقت یاد نہیں کہ ہم اس سے پہلے خود اس کو پیدا کر چکے ہیں جب کہ یہ کچھ بھی نہ تھا؟

۶۸۔۔۔      پس سن لیں یہ لوگ کہ قسم ہے تمہارے رب کی ہم ضرور بالضرور اکٹھا کر لائیں گے ان سب کو بھی، اور ان کے شیطانوں کو بھی پھر ہم حاضر کریں گے ان سب کو جہنم کے گرد گھٹنوں کے بل گھسٹتا ہوا

۶۹۔۔۔     پھر ہم چھانٹ کر نکال لائیں گے ہر گروہ میں سے ہر ایسے شخص کو جو خدائے رحمان کے مقابلے میں سب سے زیادہ سرکش بنا ہوا تھا

۷۰۔۔۔     پھر یہ نہیں کہ اس چھانٹی کے سلسلہ میں ہمیں کسی تحقیق کی ضرورت ہو گی کہ ہم خود ہی خوب جانتے ہیں ان لوگوں کو جو سب سے زیادہ حق دار ہوں گے دوزخ میں جھونک دئیے جانے کے

۷۱۔۔۔      اور تم میں سے کوئی بھی نہیں جس کا دوزخ پر سے گزر نہ ہو، تمہارے رب کے ذمے ایک لازم اور طے شدہ امر ہے

۷۲۔۔۔     پھر اس گزرنے کے دوران ان لوگوں کو تو ہم بچا لیں گے جو دنیا میں پرہیزگار رہے ہوں گے اور ظالموں کو اسی میں پڑا ہوا چھوڑ دیں گے گھٹنوں کے بل

۷۳۔۔۔      اور جب ان لوگوں کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ، ہماری آیتیں کھلی کھلی تو وہ لوگ جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر و باطل پر اپنے دنیاوی مال و اسباب کے بل بوتے پر ایسے لوگ ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ ذرا یہ تو بتاؤ کہ ہم دونوں گروہوں میں سے کس کی حالت زیادہ اچھی ہے ؟ اور کس کی مجلس زیادہ شاندار ہے ؟

۷۴۔۔۔     حالانکہ ان سے پہلے ہم کتنی ہی ایسی قوموں کو ملیامیٹ کر چکے ہیں جو دنیاوی سازو سامان اور ظاہری شان و شوکت میں ان سے بھی کہیں بڑھ کر تھیں

۷۵۔۔۔      (ان سے ) کہو کہ جو شخص گمراہی میں مبتلا ہوتا ہے (خدائے ) رحمان اسے ڈھیل دئیے چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ جب ایسے لوگ اس چیز کو دیکھ لیتے ہیں جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہوتا ہے ، خواہ عذاب الہٰی ہو یا قیامت کی وہ گھڑی، تو اس وقت انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کس کا حال سب سے برا ہے اور کس کا جتھا سب سے کمزور ہے ،

۷۶۔۔۔      اس کے برعکس، جو لوگ راہ راست اختیار کرتے ہیں ، اللہ انہیں راست روی میں اور ترقی عطا فرماتا ہے ، اور باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے یہاں سب سے زیادہ اچھی ہیں ثواب کے اعتبار سے بھی، اور انجام کے لحاظ سے بھی

۷۷۔۔۔      پھر کیا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جو انکار کرتا ہے ہماری آیتوں کا، اور کہتا ہے کے مجھے (آخرت میں بھی اگر وہ ہوئی تو) ضرور نوازا جائے گا مال و اولاد سے ،

۷۸۔۔۔     کیا اس نے غیب پر اطلاع پالی؟ یا اس نے (خدائے ) رحمان سے کوئی عہد لے رکھا ہے ؟

۷۹۔۔۔     ہرگز نہیں ، ہم لکھتے چلے جا رہے ہیں جو بھی کچھ وہ کہتا ہے اور (اس طرح) اس کے لئے ہم بڑھاتے جائیں گے (اپنا عذاب) اور بڑھانا، اور ہم ہی وارث ہوں اس (کے اس تمام سازو سامان اور لاؤ لشکر) کے

۸۰۔۔۔      جن کا یہ (اس قدر فخر و غرور سے ) ذکر کرتا ہے ، اور اسے تن تنہا ہمارے پاس آنا ہو گا،

۸۱۔۔۔      اور ان لوگوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کے مددگار ہوں ،

۸۲۔۔۔      ہرگز نہیں ، وہ تو ان کی عبادت ہی کا انکار کر دیں گے اور وہ الٹے ان کے مخالف بن جائیں گے ،

۸۳۔۔۔     کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم نے شیطانوں کو ان کافروں پر چھوڑ رکھا ہے جو انہیں طرح طرح سے اکساتے ہیں (حق اور اہل حق کی مخالفت پر)

۸۴۔۔۔      پس تم ان پر (نزول عذاب کے لئے ) جلدی نہ کرنا، ہم خود ہی ان کے دن پوری طرح گن رہے ہیں ،

۸۵۔۔۔      جس دن کہ ہم پرہیزگاروں کو تو اکٹھا کر لائیں گے (خدائے ) رحمان کے حضور (معزز) مہمانوں کے طور پر،

۸۶۔۔۔      اور مجرموں کو ہم ہانک لائیں گے دوزخ کی طرف پیاسے جانوروں کی طرح،

۸۷۔۔۔      وہاں ان کو کسی سفارش کا بھی کوئی اختیار نہیں ہو گا سوائے اس شخص کے جس نے (خدائے ) رحمان سے (اس بارے ) کوئی اجازت لی ہو،

۸۸۔۔۔      اور کہتے ہیں کہ (خدائے ) رحمان نے اولاد ٹھہرا رکھی ہے ،

۸۹۔۔۔      (ظالمو!) تم نے ایک اتنی سخت بے جا اور بیہودہ بات کہہ دی ہے ،

۹۰۔۔۔      کہ قریب ہے کہ پھٹ پڑیں اس سے آسمان شق ہو جائے زمین، اور گر پڑیں پہاڑ دھماکے سے ،

۹۱۔۔۔      اس لئے کہ ان لوگوں نے (خدائے ) رحمان کے لئے اولاد کا دعوی کیا ہے ،

۹۲۔۔۔      حالانکہ (خدائے ) رحمان کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی کو اپنی اولاد بنائے ،

۹۳۔۔۔     (کیونکہ) آسمانوں اور زمین (کی اس ساری کائنات) میں جو بھی کچھ ہے ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو (خدائے ) رحمان کے حضور پیش نہ ہو بندہ (سرا فگندہ) ہو کر،

۹۴۔۔۔      یقیناً اس نے احاطہ کر رکھا ہے ان سب کا، اور ان کو شمار کر رکھا ہے گن کر،

۹۵۔۔۔      اور ان سب کو قیامت کے دن اس (وحدہٗ لا شریک) کے یہاں حاضر ہونا ہو گا فرداً فرداً،

۹۶۔۔۔      بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے (اس کے مطابق) نیک کام بھی کئے ، (خدائے ) رحمان ان کو نواز دے گا (اپنے فضل و کرم سے ) ایک خاص محبت سے ،

۹۷۔۔۔      سو (آپ حق کی تبلیغ کرتے رہیں کہ) بلاشبہ ہم نے آسان کر دیا ہے اس (قرآن) کو آپ کی زبان میں ، تاکہ آپ اس کے ذریعے بشارت (و خوشخبری) سنا سکیں پرہیزگاروں کو اور ڈرا سکیں ہٹ دھرم لوگوں کو،

۹۸۔۔۔      اور (یہ بھی ان کو بتا دیں کہ) ہم ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو تباہ کر چکے ہیں ، (اور اس طرح کہ ان کا نام و نشان مٹا کر رکھ دیا) کیا تم ان میں سے کسی کو بھی دیکھتے ہو؟ یا ان کی کوئی بھنک بھی سن سکتے ہو؟

تفسیر

 

۴.      سورہ مریم: سو اس سے حضرت زکریا کی اس دعاء کا ذکر فرمایا گیا ہے جو انہوں نے اپنے رب کے حضور فرزند صالح کی نوازش کے لئے کی تھی، جس سے ایک طرف تو یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اولاد کی نعمت سے سرفرازی اللہ تعالیٰ ہی کی عطا و بخشش سے نصیب ہو سکتی ہے سب کچھ اسی وحدہٗ لاشریک کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ اور سب اسی کے محتاج ہیں یہاں تک کہ حضرات انبیاء و رسل بھی اسی کے حضور دست دعا و سوال دراز کرتے ہیں، اور جب حضرات انبیاء ورسل بھی اسی کے محتاج اور اسی کے در کے سوالی ہیں، تو پھر اور کون ہو سکتا ہے جو کسی کو اولاد دے سکے؟ پس غلط کہتے اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں وہ لوگ جو پیروں فقیروں کے بارے میں یہ گمان رکھتے ہیں کہ وہ بچے دے اور دلا سکتے ہیں، اور اسی بناء پر ایسے لوگ ان کے نام بھی شرکیہ رکھتے ہیں۔ اور دوسری طرف اس میں دعا سے متعلق بعض خاص آداب کی تعلیم و تلقین بھی فرمائی گئی ہے جن میں سب سے پہلا ادب یہ ہے کہ دعاء چپکے چپکے اور اپنے رب سے راز و نیاز کے انداز میں ہو، اور دوسرا یہ کہ دعا عاجزی اور تضرع کے ساتھ ہو۔ اور تیسرا یہ کہ دعا اللہ تعالیٰ کی رحمت کی پوری امید کے ساتھ ہو۔ سو دعا کے یہ آداب رب کی رحمت کو کھینچنے اور اپنی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ و وسیلہ ہیں، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید،

۶.      موالی سے مراد کسی شخص کے بنی اعمام، اس کے بھائی بند، اور اس کے نسبی اعزاء و اقارب ہوتے ہیں، حضرت زکریا علیہ السلام کو اپنے اعزاء و اقارب کے بارے میں اس بات کا اندیشہ تھا کہ یہ لوگ آنجناب کی وفات کے بعد ان کی، اور آل یعقوب کی ان دینی روایات کو قائم اور برقرار نہیں رکھ سکیں گے، جو اس پاکیزہ خاندان کا اصل سرمایہ امتیاز تھیں۔ اس لئے آپ چاہتے تھے اور آپ کی یہ فکر و خواہش تھی کہ آپ کے خاندان میں کوئی ایسا شخص اٹھے جو اس خاندان کی روایات کو برقرار اور ان کے مشن کو جاری رکھ سکے۔ اس لئے آپ نے اپنے رب کے حضور ایسی صالح اور پاکیزہ اولاد کے لئے دعا و درخواست کی۔ تاکہ وہ اٰل یعقوب کی ان پاکیزہ روایات کی حفاظت و پاسداری کر سکے، جو کہ ان کا اصل سرمایہ اور حقیقی ورثہ تھیں۔ اگرچہ حضرت زکریا کے ظاہری حالات ایسے تھے کہ ان میں آنجناب کی اس آرزو کے بر آنے کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی تھی، لیکن آپ اس رمز سے واقف و آگاہ تھے کہ حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی قدرت بے پایاں سلسلہ اسباب و وسائل کی پابند نہیں۔ بلکہ وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے، اور اس کی شان علیٰ کل شئی قدیر کی شان ہے۔ وہ جو چاہے، اور جیسا چاہے کر سکتا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ، اس لئے اپنے حالات کی ناسازگاری کا حو آلہ دیتے ہوئے آپ نے اپنے رب کے حضور عرض کیا کہ مجھے ایک ایسے صالح اور ہونہار بیٹے سے نواز دے۔ جو پسندیدہ و پاکیزہ صفات و خصال کا مالک ہو۔ وہ ان کمزوریوں سے پاک اور محفوظ ہو جو اب ان کے اس خاندان میں در آئی ہیں۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔

۷.      سو اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ دعا جب صحیح وقت پر، صحیح مقصد کے لئے سچے جذبے کے ساتھ اور صحیح الفاظ میں کی جاتی ہے، تو اس کے اور اس کی قبولیت کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں رہ جاتا۔ اسباب کے فقدان اور حالات کی نامساعدات کے باوجود بندہ جب اپنے آپ کو اپنے رب کے دروازے پر ڈال دیتا ہے۔ اور اس امید کے ساتھ ڈال دیتا ہے کہ میرے لئے بہر حال یہی دروازہ ہے۔ مجھے جو کچھ ملا اسی سے ملا۔ اور جو ملے گا اسی سے ملے گا، تو ایسے میں ایسے شخص کے لئے خداوند قدوس کی رحمت وہاں سے نمودار ہوتی ہے، جہاں سے اس کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ اور وہ اس شان سے ظاہر ہوتی ہے کہ اسباب و ظواہر کے غلام اس کو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ کہ یہ کیسے ہو گیا؟حضرت زکریا کی یہ دعا چونکہ ایسی ہی شان کی تھی۔ کہ آپ نے یہ دعا بڑے عظیم الشان اور صحیح مقصد کے لئے کی تھی، اور ٹھیک وقت پر اور صحیح جذبے کے ساتھ کی تھی۔ اور بڑے عمدہ پیرائے میں اور نہایت مؤثر الفاظ کے ساتھ کی تھی۔ اس لئے جونہی آپ نے یہ دعا کی آپ کو اس کی قبولیت کی بشارت و خوشخبری سے نواز دیا گیا۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف و صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا، کہ اے زکریا ہم تمہیں ایک ایسے عظیم الشان لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہو گا۔ اور یہ ایسا عظیم الشان فرزند ہو گا، کہ اس کی اس سے پہلے کوئی نظیر و مثال موجود نہیں ہو گی، صورت حال یہ ہے کہ آپ بوڑھے ہیں اور آپکی بیوی بانجھ، اور بوڑھے مرد، اور بانجھ بیوی کے یہاں اولاد کی کوئی نظیر موجود نہیں، لیکن ہماری مرضی ہے کہ ہم آپ کو ایسی بے نظیر اولاد سے نوازیں گے، اور پھر آنجناب کو اس سے نواز دیا گیا، کہ اس کی شان ہی نوازنا ہے، سبحانہ و تعالیٰ، اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَاسَاَلَکَ نَبِیِّکَ محمد صلی اللّٰہ علیہ و سلم ونعوذ بک مِنْ شَرِّ مَااسْتَعَاذَکَ مِنْہُ نَبِیُّک محمد صلی اللّٰہ علیہ و سلم،

۱۶.    یعنی حضرت مریم اپنے لوگوں سے کٹ کر، اور ان سے علیحدہ ہو کر ہیکل کی مشرقی جانب معتکف ہو گئیں۔ اور یہ اس لئے کہ ہیکل کا جو حصہ عورتوں کے اعتکاف اور ان کی عبادت کے لئے مخصوص و مختص تھا، وہ اس کی مشرقی جانب ہی میں تھا۔ اور نصاریٰ نے جو مشرق کو اپنا قبلہ بنایا تو اس میں بڑا اثر و دخل اس چیز کا بھی تھا، کہ وہ لوگ ہیکل کی مشرقی سمت کو اپنی خاص سمت سمجھتے تھے۔ بہر کیف ارشاد فرمایا گیا کہ اس وقت کو یاد کرو کہ جب حضرت مریم علیہ السلام اپنے لوگوں سے کٹ کر مشرقی جانب جا بیٹھیں۔

۱۷.    سو حضرت مریم علیہا السلام کا اپنے اور لوگوں کے درمیان پردہ حائل کر لینا اس بات کا قرینہ اور ثبوت تھا کہ وہ اعتکاف میں بیٹھ گئیں۔ تو اس دوران اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس اپنا فرشتہ بھیجا۔ جو ایک تندرست و توانا آدمی کی شکل میں ان کے سامنے نمودار ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا مقصود حضرت مریم علیہا السلام کا امتحان لینا تھا کہ فرشتہ حضرت مریم علہیا السلام کے سامنے انسانی شکل میں ظاہر ہوا۔ ورنہ حضرات انبیاء کرام کے لئے بھی فرشتوں کا ظہور عام طور پر اس طرح نہیں ہوتا تھا۔ سو اس حادثے کا جو اثر حضرت مریم پر ہوا جو کہ ابھی تک فرشتہ اور ہاتف غیبی وغیرہ سے ناآشنا تھیں اس کا اندازہ کرنا کچھ آسان کام نہیں۔ لیکن حضرت مریم نے اس موقع پر بے مثال کردار کا مظاہر فرمایا۔ جس سے آپ کی طہارت و پاکیزگی اور عفت و پاکدامنی کا عظیم الشان اور بے مثال نمونہ سامنے آتا ہے۔

۱۷.    سو حضرت مریم نے بڑے وقار کے ساتھ اس اچانک نمودار ہونے والے شخص کو مخاطب کر کے اس سے کہا کہ میں تجھ سے اپنے آپ کو خدائے رحمان کی پناہ میں دیتی ہوں اگر تو کوئی خدا ترس انسان ہے۔ جس میں ایک طرف تو اس بشر سَوِیّ (کامل انسان) کے دل کے لئے دستک ہے اور دوسری طرف خدائے رحمان کی رحمتوں بھرے آسرے اور سہارے پر اعتماد کا درس بھی، کہ اہل ایمان کے لئے بے بسی کے عالم میں ہمیشہ یہی سب سے بڑا سہارا ہے۔

۱۹.    سو فرشتے نے حضرت مریم کی تسکین و تسلیہ کے طور پر ان سے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں، میں کوئی انسان اور بشر نہیں کہ آپ مجھ سے خوفزدہ ہوں۔ بلکہ میں تو آپ کے رب کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں۔ اور آیا بھی اس لئے ہوں کہ آپ کو ایک پاکیزہ بچہ عطا کروں۔ فرشتے کو چونکہ قدرت کی طرف سے بھیجا ہی اسی لئے گیا تھا اس لئے انہوں نے اس فعل عطا کی نسبت مجازی طور پر اپنے طرف کر لی۔ اس لئے اہل بدعت کا اس سے اپنے شرکیہ عقائد کے لئے استدلال کرنا قیاس مع الفارق، اور اس سے ان لوگوں کا یہ استدلال محض خام خیالی ہے آخر اور کون ایسا ہو سکتا ہے جس کے لئے اس طرح کی کسی نص کے ذریعے فرستادہ رب ہونے کی تصریح فرمائی گئی ہو؟ جب نہیں، اور یقیناً نہیں تو پھر یہ قیاس کس طرح صحیح ہو سکتا ہے؟

۲۳.    سو ان الفاظ سے حضرت مریم کے اندرونی احساسات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایک ایسے پاکیزہ گھرانے کی ایسی کنواری عفیفہ نے جب اپنے گمان کے مطابق اپنی رسوائی کا سامان اس طرح اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا ہو گا تو ان کے احساسات اس کے سوا اور ہو ہی کیا سکتے تھے؟ سو آپ نے نہایت حسرت بھرے انداز میں کہا کاش کہ میں اس سے پہلے ہی مر مٹ کر ختم ہو گئی ہوتی۔ اور ایسی اور اس طور پر، کہ لوگوں کے ذہنوں اور ان کے حافظوں سے بھی میری یاد مٹ گئی ہوتی۔ مجھے یہ سخت اور کٹھن وقت نہ دیکھنا پڑتا، اور لوگوں کے سامنے اس فضیحت کا وقت نہ آتا، سو اس سے حضرت مریم قدیسہ کی طہارت و پاکدامنی اور ان کے پاکیزہ جذبات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، اللہ تعالیٰ حوا کی بیٹی کو عریانی اور بے حیائی کے اس دور میں بھی کوئی شمہ نصیب فرما دے، آمین

۲۶.    سو چپ اور خاموشی کا یہ روزہ جس کی ہدایت حضرت مریم علیہا السلام کو فرمائی گئی تھی ان اشرار کی باتوں اور ان کی ایذاء رسانیوں اور دلآزاریوں سے بچنے کا بہترین طریقہ تھا۔ ورنہ ایسے بدبختوں اور بدنیتوں کو بحث اور حجت کے ذریعے خاموش کرنا کس کے بس میں اور کس طرح ممکن ہو سکتا تھا؟ اور ویسے بھی یہ ضرب المثل مشہور ہے کہ خاموشی معنئی دارد کہ درگفتن نمی آید، یعنی خاموشی میں ایک ایسا زور اور خاص مطلب پایا جاتا ہے۔ جو بولنے میں نہیں پایا جا سکتا۔ بہر کیف حضرت مریم نے ان اشرار کے شر اور انکی دلآزاریوں سے بچنے کے لئے ان کے سامنے اپنی زبان بندی اور چپ کے روزے کا اعلان فرما دیا۔

۲۹.    حضرت مریم نے چونکہ چپ کا روزہ رکھا ہوا تھا اس لئے آپ نے اس نومولود کی طرف اشارہ کر دیا کہ اس سے پوچھو۔ تمہاری ان تہمتوں کا جواب یہی دے گا۔ میرے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدرت کی طرف سے حضرت مریم کے دل میں یہ بات ڈال دی گئی تھی کہ یہ نومولود خود اپنا، اور اپنی والدہ ماجدہ کا مقدمہ لڑے گا۔ اور یہ کہ اس کے لئے اس کو قدرت کی طرف سے مسلح کر دیا گیا ہے۔ اس لئے حضرت مریم نے ان لوگوں کی ان دلآزار باتوں کے جواب میں اسی نومولود کی طرف اشارہ کر دیا جس پر وہ لوگ اور بھی بھڑکے کہ اس نومولود سے ہم کس طرح بات کر سکتے ہیں جو ابھی گہوارے میں پڑا ہوا ہے؟ یعنی اسطرح ہمارا مذاق اڑایا جا رہا ہے، وغیرہ وغیرہ

۳۱.    سو جب بات یہاں تک پہنچ گئی تو وہ نومولود معجزانہ طور پر بول پڑا۔ اور اس نے کلام بھی ایسا جامع مانع، اور اس قدر پُر حکمت کیا کہ اس سے نہ صرف یہ کہ ان تہمت طرازوں کے منہ بند ہو گئے بلکہ آئندہ پیش آنے والے تمام فتنوں کے دروازوں کو بھی بند کر دیا گیا۔ سو پہلی بات اس نومولود نے یہ کہی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں نہ کہ اس کا بیٹا سو اس سے محرف عیسائیت کے ان علمبرداروں کی تردید ہو گئی جو آنجناب کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ دوسری بات انہوں نے اس ضمن میں یہ کہی کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے کتاب بھی عنایت فرمائی ہے، اور مجھے نبوت سے بھی سرفراز فرمایا ہے سو اس سے آنجناب کا مرتبہ و مقام بھی واضح ہو جاتا ہے۔ اور یہود بے بہود کے مزاعم باطلہ اور ان کی اس سنگین تہمت کی تردید بھی ہو جاتی ہے جو یہ بدبخت لوگ آنجناب کے نسب طاہر پر لگاتے تھے۔ کیونکہ پیغمبر کی ذات کا اسطرح کے ہر شائبے سے پاک ہونا ضروری ہوتا ہے۔ عَلیٰ نَبِّیْنَا وَعَلیٰ سَائِرِہِمُ الصَّلٰوۃُ والسَّلام اور تیسری بات اس نومولود نے اپنے اس معجزانہ کلام کے دوران یہ کہی کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے مبارک بنایا ہے پس میں جہاں بھی ہونگا مجھ سے خلق خدا کو خیرات و برکات ہی ملیں گی۔ اور چوتھی بات یہ فرمائی کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید فرمائی ہے۔ جب تک میں زندہ رہوں گا، سو اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ نماز اور زکوٰۃ دو ایسی بنیادی عبادتیں ہیں جن کا حکم و ارشاد ہر دین و شریعت میں فرمایا گیا ہے، انکی ظاہری شکلیں اگرچہ مختلف ادیان میں مختلف رہی ہیں۔ لیکن بندگی رب اور ہمدردی خلق کی صفت ان کی ہر شکل میں ہمیشہ محفوظ رہی، نماز انسان کو اس کے رب کے ساتھ صحیح طور پر جوڑتی ہے، اور زکوٰۃ سے اس کا تعلق مخلوق کے ساتھ صحیح طور پر استوار ہوتا ہے۔ اور انہی دو چیزوں کی استواری پر تمام دین کے قیام کا انحصار ہے اس لئے ہر سماوی دین کے اندر ان کی ہمیشہ تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے۔ اور حضرت عیسیٰ نے بھی اپنے اس معجزانہ کلام میں ان کا ذکر فرمایا ہے۔

۳۶.    سو اس سے سلامتی و نجات کی اس راہ کی تعیین و تشخیص فرما دی گئی۔ جو کہ عقل و نقل کے تقاضوں کے عین مطابق، اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز و بہرہ ور کرنے والی واحد راہ ہے، اور یہ راہ توحید کی راہ ہے، کہ عبادت و بندگی اور اس کی ہر قسم و شکل اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کا حق اور اسی کا اختصاص ہے۔ پس اس راہ کو اپنانے اور اس پر چلنے سے انسان اس دنیاوی زندگی میں حیاتِ طیبہ یعنی پاکیزہ زندگی کی سعادت سے سرفراز ہوتا ہے۔ اور آخرت کے اس حقیقی اور اَبَدی جہاں میں وہ جنت کی ابدی اور سدا بہار نعمتوں سے سرفراز ہو گا، وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی مایُحِبُّ ویرید،

۳۷.    یعنی آج تو یہ لوگ حق بات سننے اور ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ نہ حق بات ان کے کانوں کے اندر اترتی ہے اور نہ راہ حق و ہدایت کو دیکھنے کے لئے ان کی آنکھیں کھلتی ہیں۔ لیکن کشف حقائق اور ظہور نتائج کے اس یوم عظیم میں ان کے کانوں کے سب پردے بھی ہٹ جائیں گے۔ اور ان کی آنکھوں پر پڑی سیاہ پٹیاں بھی اتر جائینگی۔ اور اس کے نتیجے میں یہ پوری طرح دیکھ اور سن رہے ہونگے۔ اور چیخ چیخ کر کہہ رہے ہونگے۔ اٰمَنَّا بِہٖ کہ ہم اس سب پر ایمان لے آئے۔ لیکن وہ وقت ماننے اور ایمان لانے کا نہیں ہو گا۔ بلکہ اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کے نتائج کو بھگتنے کا ہو گا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَاَنّیٰ لَہُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَکَانٍ بَعِیْدٍ (سبا۔۵۲) یعنی ان کے لئے اتنے دور سے دولت ایمان کا پانا کیسے اور کیونکر ممکن ہو گا؟ سو بڑے ظالم اور بدبخت ہیں وہ لوگ جو دنیا کے اس مزرعہ آخرت میں پیغام حق و ہدایت سے منہ موڑے ہوئے ہیں والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر گامزن رہنے کی توفیق بخشے۔ اور ہر قسم کے زیغ وضلال سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین۔

۳۹.    سو آج جو لوگ غفلت و لاپراہی میں پڑے ایمان نہیں لا رہے، اور وہ حق بات سننے ماننے کو تیار نہیں ہو رہے، اس روز یہ چیخ چیخ کر اپنے ایمان کا اعلان کریں گے۔ مگر کشف حقائق اور ظہور نتائج کے اس وقت کا انکا وہ ایمان نہ مفید ہو گا اور نہ معتبر، کیونکہ مطلوب و مفید وہ ایمان ہے جو بالغیب یعنی بن دیکھے ہو۔ اور اس سے سرفرازی کا وقت اور اس کا موقع دنیاوی زندگی کی فرصت محدود میں تھا، جو کہ اس وقت بہر حال ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہو گی۔ سو اس وقت ان کی آنکھیں تو خوب کھل جائیں گی، مگر ایمان لانے، سعی وعمل، اور توبہ و اصلاح، کے سب دروازے بند ہو چکے ہونگے، تب ایسے ظالم لوگ رہ رہ کر افسوس کریں گے، رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ۔ اور افسوس بھی ایسا کریں گے کہ مارے افسوس کے اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائیں گے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلیٰ یَدَیْہِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلٰا (الفرقان۔۲۷) یعنی اس دن کو یاد کرو کہ جب ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائے گا، اور مارے افسوس کے کہے گا کہ کاش کہ میں نے رسول کے ساتھ اپنا راستہ اپنایا ہوتا۔ سو یہاں پر اس بارہ ارشاد فرمایا گیا کہ سو اس یوم عظیم کے بارے میں ان غفلت کے ماروں کو خبردار کرو تاکہ یہ ہوش میں آ جائیں۔ قبل اس سے کہ فرصت حیات ان کے ہاتھ سے نکل جائے، اور ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پچھتانا پڑے۔ والعیاذ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال،

۴۶.    سو حضرت ابراہیم کی اس درد بھری اور نہایت معقول و مؤثر تقریر کو سننے پر آپ کا باپ آزر ہوش کے ناخن لینے، اور دعوت حق و ہدایت پر لبیک کہنے کے بجائے الٹا اپنے غصے میں بھڑک اٹھا۔ اور اپنے اس عظیم الشان اور جلیل القدر بیٹے کو سخت دھمکی دیتے ہوئے ان سے کہا کہ ابراہیم یاد رکھو کہ اگر تم اپنی اس روش سے باز نہ آئے، تو میں تم کو سنگسار کر دوں گا۔ پس اب تم مجھ سے دور ہو جاؤ۔ اور کبھی مجھے اپنی شکل بھی نہ دکھانا، سو یہ نتیجہ ہوتا ہے کفر و شرک کی نحوست، اور عناد اور ہٹ دھرمی کا۔ کہ جب یہ چیز کسی کے دل و دماغ پر جم جاتی ہے، تو وہ حق بات کو سننا ماننا تو درکنار حق والوں کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔

۴۷.    باپ کے اس قدر سنگدلانہ رویے کے جواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سے فرمایا کہ آپ کے غیظ و غضب کا جب یہ عالم ہے اور مجھ سے آپ اس حد تک بیزار ہیں تو پھر میرا سلام لیجئے میں چلا، کہ اب نہ آپ سے کچھ کہنے کی گنجائش، اور نہ یہاں رہنے کا کوئی فائدہ، البتہ میں آپ کے لئے اپنے رب سے بخشش کی دعا پھر بھی کرتا ہی رہوں گا۔ اور مجھے امید ہے کہ وہ میری دعا کو قبول فرمائے گا۔ کیونکہ میں اپنے رب کو پکار کر کبھی ناکام و نامراد نہیں ہوا، میں نے اپنے رب کے سوا اور کسی کو نہ کبھی پکارا ہے نہ پکاروں گا۔ کہ اپنے رب کے سوا اور کسی سے میں آشنا ہی نہیں ہوں۔ میرا رب اور میرا ماویٰ و ملجا وہی ہے۔ اور میرا آسرا اسی پر ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ،

۴۹.    سو حضرت ابراہیم علیہ السلام جب ان سب سے اور ان کے تمام معبودانِ باطلہ سے اعلان برأت و بیزاری کر کے الگ ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی خاص عنایات سے نوازا، سو یہاں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس ہجرت فی سبیل اللہ کے انہی بعض خاص ثمرات اور عظیم الشان برکات کو ذکر فرمایا گیا ہے۔ جس سے یہ درس ملتا ہے کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر اپنے قوم قبیلہ اعزہ و اقارب وغیرہ سے الگ ہو جاتا ہے اور اپنے گھر در کو اللہ کی خاطر، اور اس کی رضا و خوشنودی کی نیت سے چھوڑ دیتا ہے تو اللہ اس کو اپنی خاص عنایات سے نوازتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے بعد نہ صرف یہ کہ اولاد سے نوازا۔ بلکہ اس کے بعد اس نے آنجناب کو حضرت اسحاق اور یعقوب جیسی عظیم الشان اولاد سے نوازا اور سرفراز فرمایا۔ ایسی عظیم الشان اولاد کہ آئندہ نبوت و رسالت کا سلسلہ انہی کے اندر جاری ہوا۔ اور اس طور پر کہ ان کا یہ فیض قیامت تک جاری رہے گا۔ اور حضرت ابراہیم کی امامت و پیشوائی قیامت تک قائم اور باقی رہے گی۔ اور آنجناب کو ایسی عظیم الشان انفرادیت سے نوازا گیا کہ آپ خود نبی، آپ کے بیٹے حضرت اسحاق و اسماعیل دونوں نبی، اور آپ کے پوتے حضرت یعقوب اور ان کے بیٹے حضرت یوسف بھی نبی، سو پشت در پشت نبوت و رسالت سے سرفرازی کی یہ شان حضرت ابراہیم کے سوا اور کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔ سچ فرمایا گیا مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللًّہُ لَہ۔ یعنی جو اللہ کا ہو گیا۔ اللہ اس کا ہو گیا اور جب اللہ اس کا ہو گیا تو پھر ساری کائنات اس کی ہو گئی۔ سو فکرو کوشش ہمیشہ اسی کی ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کو ہمیشہ اپنا اصل مقصد بنایا جائے، کہ یہ اس خالق و مالک کا ایک بندوں پر حق بھی ہے، اور اسی میں ان کا بھلا بھی ہے، دنیا کی اس عارضی اور فانی اور عارضی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس اَبَدی جہان میں بھی جو اس کے بعد آنے والا ہے اور جہاں کی کامیابی اصل حقیقی اور اَبَدی کامیابی ہے، وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید، وعلی سبیل الدوام والتابید۔ یہاں پر حضرت اسماعیل کا ذکر اس لئے نہیں فرمایا گیا کہ ان کا ذکر آگے مستقل طور پر آرہا ہے علی نبینا وعلیہم الصلوٰۃ والسلام،

۵۵.    سو اس سے حضرت ابراہیم کی ذریت کے دوسرے سلسلے کے سربراہ یعنی حضرت اسماعیل کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور ان کے بعض اہم اور خاص صفات کا بھی۔ قریش انہی کی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ان ہی کی ملت کے پیروی کے دعویدار تھے، ذرّیت ابراہیم کے اس سلسلے کے پہلے رسول اور نبی حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے۔ اور اس کے آخری رسول و نبی امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم تھے۔ علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ اور حضرت اسماعیل اور ان کی بعض خاص صفات کے ذکر سے قریش کے سامنے آئینہ رکھ دیا گیا، کہ جس اسماعیل کے یہ نام لیوا، اور اس کی ملت کی پیروی کے دعویدار ہیں ان کا عمل و کردار، اور ان کا کام و پیام کیا تھا۔ اور ان لوگوں کے کرتوت کیا؟ اور کیسے ہیں؟ حضرت اسماعیل کی ایک اہم، اور امتیازی صفت یہ تھی کہ وہ وعدے کے سچے تھے۔ جس کا ایک عظیم الشان نمونہ و مظہر آپ نے اس وقت پیش فرمایا جب کہ آپ کے والد ماجد نے آپ کے ذبح سے متعلق آپ کی رائے جاننے کے لئے آپ سے فرمایا کہ بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں۔ سو اب تم بتاؤ کہ اس بارہ تمہاری رائے کیا ہے؟ تو آپ نے اس کے جواب میں نہایت مؤدبانہ طور پر ان سے عرض کیا کہ ابا جان آپ کو جو حکم دیا گیا ہے، آپ اسے پورا کریں۔ مجھے آپ ان شاء اللہ صبر کرنے والوں ہی میں سے پائیں گے۔ چنانچہ اس کے بعد جب اس وعدے کی تکمیل کا وقت آیا تو آپ نے بلا کسی جھجک کے فوراً اپنی گردن باپ کی چھری کے نیچے دے دی۔ اور اس طور پر کہ جونہی چھری چلتی گردن الگ ہو جاتی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہاتھ روک دیا۔ اور باپ اور بیٹا دونوں کو ان کے بے مثال صدق و اخلاص کے نتیجے میں وفاداری راست بازی کی سند عطا فرما دی۔ اور دوسری صفت آنجناب کی یہ ذکر فرمائی گئی کہ آپ اپنے لوگوں کو نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی و پابندی کی تعلیم و تلقین فرماتے تھے۔ جو کہ تمام حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی جامع تعبیر ہے۔ اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی معرفت اور ان کی ادائیگی ہی خلاصہ اور نچوڑ ہے پورے دین حق کا، اور یہ دونوں چیزیں جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں، ایسی عظیم الشان ہیں، کہ یہ جملہ شرائع سماوی کی اساس و بنیاد ہیں۔ جس نے ان کا اہتمام کیا۔ اس نے تمام دین و شریعت کو قائم کیا۔ اور جس نے ان کے ہدم کی روش کو اپنایا اس نے پورے دین کی عمارت کے ہدم کی روش کو اپنایا، والعیاذُ باللہ العظیم۔ اور سب سے بڑی امتیازی صفت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اس ضمن میں یہ بیان فرمائی گئی وَکَانَ عِنْدَاللّٰہِ مَرْضِیًّا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں پسندیدہ شخصیت کے مالک تھے۔ کیونکہ یہ ایسی جامع اور عظیم الشان صفت اور تعریف ہے کہ اس پر ایک حرف کے اضافے کی بھی گنجائش نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ رب کے یہاں مرضی اور پسندیدہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بالکل ویسے ہی ہے جیسا کہ رب اپنے بندے کے لئے چاہتا ہے کہ وہ اس معیار پر ہو، اور جب رب خود گواہی دے کہ وہ اس کی پسند کے معیار پر پورا اترتا ہے، تو پھر اس کے بعد کسی اور چیز کی کیا گنجائش باقی رہ سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں، اور ہر اعتبار سے اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر ہی چلنا نصیب فرمائے۔ اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر موقع پر، اور ہر لحاظ سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین، یا ربَّ العالمین،

۶۴.    سو اس ارشاد ربانی میں ایک طرف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے صبر و استقامت کی تعلیم و تلقین ہے، اور دوسری طرف اس میں فرشتوں کے مرتبہ و مقام کا ذکر و بیان اور ان کے حدود اختیار کی تحدید و تعیین ہے اور تیسری طرف اس میں مشرکین کے مشرکانہ عزائم پر ضرب کاری ہے۔ اور یہ سب کچھ اس طرح کہ حق و باطل کی کشمکش کے اس موقع پر جو کہ حضرت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کو درپیش تھا۔ آپ کا واحد سہارا وحی خداوندی ہی کا سہارا تھا۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم طبعی اور فطری طور پر ہمیشہ اس کی انتظار میں رہتے تھے۔ کہ اسی آسمانی کمک سے آپ کو مشکلات کے مقابلے میں تقویت و راہنمائی ملتی تھی، اور اسی کے ذریعے آپ کو مخالفین کی طرف سے اٹھائے گئے نت نئے اعتراضات اور سوالات کے توڑ کا سامان بھی ملتا تھا۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو قدرتی طور پر حضرت جبرائیل امین کے نزول اور ان کی آمد کا انتظار رہتا تھا، کہ وہ آسمان سے وحی لے کر آئیں۔ اس لئے اگر کبھی جبرائیل امین کے آنے میں دیر ہو جاتی تو یہ امر آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر بہت شاق گزرتا۔ اسی لئے قرآنِ پاک میں جگہ جگہ اور طرح طرح سے آپ کو صبر و استقامت کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی کہ آپ بہر حال حق پر ہیں، لہٰذا آپ ان ابنائے کفر و باطل کی شر انگیزیوں اور غوغہ آرائیوں کی پرواہ نہ کریں۔ اور ان کے بارے میں جلد بازی سے کام نہ لیں۔ مثلاً ایک مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا وَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوالْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلُ لَّہُمْ الایٰۃ (الاحقاف۔ ۳۵) یعنی آپ اسی طرح صبر و استقامت سے کام لیں جس طرح کہ دوسرے اولوالعزم رسولوں نے لیا، اور ان لوگوں کے لئے جلد بازی سے کام نہ لیں۔ دوسری طرف اس ارشاد ربانی سے حضرت جبرائیل کے ذریعے صاف اور صریح طور پر یہ اعلان کرایا گیا کہ فرشتے اور فرشتوں کے سردار حضرت جبرائیل امین خود مختار نہیں، کہ وہ کہ اپنی مرضی سے جو چاہیں کریں۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد کے پابند ہیں۔ وہ وہی کرتے ہیں اور ویسا ہی کرتے ہیں جیسا کہ ان کو ان کے رب کی طرف سے حکم و ارشاد ہوتا ہے سو ان کی حدود معلوم و مقرر ہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس حقیقت کی تصریح اس طرح فرمائی گئی۔ وَمَا مِنَّا اِلاَّ وَلَہ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ (الصافات۔۱۶۴) یعنی ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جس کا ایک مقرر اور محدود مقام نہ ہو، سو اس سے ان مشرکین کی مشرکانہ ذہنیت کی بیخ کنی فرما دی گئی جن کا کہنا ماننا تھا کہ فرشتے چونکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ اس لئے ہم انہی کی پوجا پاٹ کرتے ہیں۔ یہ اللہ سے ہمارے سب کرا دیں گے۔ یہاں تک کہ اگر آخرت ہوئی تو وہاں بھی ہمارا سب کام یہی کرا دیں گے۔ اور یہی مشرکانہ فلسفہ مشرکوں کے یہاں آج تک موجود ہے۔ چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ ہماری ان کے آگے اور انکی اس کے آگے وغیرہ وغیرہ۔ سو اس ارشاد سے اس مشرکانہ ذہنیت کی بیخ کنی فرما دی گئی، اور اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ آسمانوں اور زمین اور ان دنوں کے درمیان کی اس پوری کائنات میں جو بھی کچھ ہے وہ سب اللہ تعالیٰ ہی کا مخلوق و مملوک ہے، اس سب پر اسی وحدہٗ لاشریک کا حکم اور تصرف چلتا ہے اس میں اور کسی کا بھی کوئی عمل دخل نہ ہے نہ ہو سکتا ہے، اور جب نوری فرشتوں اور ان کے سردار حضرت جبرائیل امین کا بھی یہ حال ہے تو پھر اور کسی کے لئے اس طرح کے کسی عمل دخل اور تصرف کا سوال ہی کیا پیدا ہو سکتا ہے؟ سو اس سے تمام مشرکانہ مزاعم و تصورات کی بیخ کنی ہو جاتی ہے والحمد للہ جَلَّ وَعَلَا،

۷۳.    ابنائے دنیا ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ وہ دنیا کے متاع فانی اور حُطامِ زائل سے ملنے والے ان چند ٹکوں کو جو ان کو یہاں مل جاتے ہیں، ان کو وہ اپنی صداقت و حقانیت کی دلیل سمجھنے لگتے ہیں، اور اس بناء پر وہ حق بات کو سننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ اگر ہم غلط ہیں تو پھر ہمیں یہ دنیا آخر کیوں ملی ہوئی ہے؟ اس طرح دنیاوی مال و دولت ان کی محرومی اور بدبختی میں مزید اضافے ہی کا باعث بنتا جاتا ہے۔ کل بھی یہی تھا اور آج بھی ہے۔ قرآن حکیم نے اس بات کو جا بجا اور طرح طرح سے ذکر و بیان فرمایا ہے، یہاں بھی اسی کا ذکر فرمایا گیا کہ جب ان لوگوں کو جزاء و سزا سے متعلق اور عذاب دنیا و آخرت کے بارے میں مبنی بر دلائل آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ایسے مغرور و متکبر لوگ بڑی لاپرواہی اور دیدہ دلیری سے کہتے ہیں کہ بھلا بتاؤ کہ ہم میں سے کون مرتبہ و مقام، جاہ و منصب، اعوان و انصار اور مجلس و سوسائٹی کے اعتبار سے بہتر ہے؟ ہم یا تم؟ اور جب دنیاوی اعتبار سے ہم ہی تم سے آگے اور بڑھ کر ہیں، تو پھر ہم کس طرح مان لیں کہ ہم غلط راستے پر اور اللہ کے عذاب کے مستحق ہیں؟ اور تم لوگ صحیح اور اللہ کی رحمت کے حق دار ہو؟

۷۷.    سو اس سے ان مغرور و متکبر لوگوں کے زعم و گھمنڈ اور ان کے پندار پر تاریخ کے حوالے سے ضرب لگائی گئی ہے۔ جس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ دنیاوی مال و دولت اور شان و شوکت کے اعتبار سے بڑھوتری اور کثرت نہ تو کسی قوم کے اللہ تعالیٰ کے یہاں محبوب ہونے کی دلیل ہو سکتی ہے۔ اور نہ ہی یہ چیزیں کسی کو خدا کی گرفت و پکڑ سے بچا سکتی ہیں، چنانچہ تاریخ میں کتنی ہی ایسی قوموں کی مثالیں موجود ہیں، جو اپنے سرو سامان اور ظاہری چمک دمک اور ٹیپ ٹاپ کے اعتبار سے ان مغرور سرکشوں سے کہیں بڑھ کر تھیں۔ لیکن جب وہ اپنے کفر انکار ہی پر اڑی رہیں تو آخرکار ان کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔ اور ایسی اور اس طور پر کہ ان کو پھر احادیث اور قصہ پارینہ بنا کر رکھ دیا گیا، والعیاذُ باللہ العظیم، سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ دنیاوی مال و دولت کامل جانا، اللہ تعالیٰ کے یہاں کسی محبوب ہونے کی دلیل اور علامت نہیں بن سکتا۔

۷۱.    مشرکوں کو سب سے بڑا دھوکہ ان کے ان خود ساختہ بتوں اور من گھڑت معبودوں سے لگتا تھا جن کو انہوں نے از خود اور اپنے طور پر اپنا حاجت روا و مشکل کشا اور دانا و کرم فرما قرار دے رکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں ان کو رزق و روزی اور اولاد وغیرہ جو کچھ ملتا ہے انہی سے ملتا ہے، اسی لئے وہ کہا کرتے تھے اور آج بھی کہتے ہیں کہ ہماری ان کے آگے اور انکی اس کے آگے، مشرکوں کا کل بھی یہی حال تھا اور آج بھی یہی ہے، اور اسی بناء پر ان کا کہنا اور ماننا تھا کہ اگر مرنے کے بعد کسی مدد کی ضرورت پڑی تو اس وقت بھی یہ ہماری مدد کریں گے، اسی کو یہاں پر عِزّ کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ جس کے اصل معنی قوت کے آتے ہیں۔ سو ان کے اس زعم باطل کی تردید کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ اس وقت تو وہ ان بدبختوں کی عبادت ہی کا انکار کر دیں گے، اور ان کے دشمن بن جائیں گے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا کہ وہ ان سے کہیں گے مَا کُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَ (یونس۔۲٨) یعنی تم لوگ ہماری عبادت کرتے ہی نہیں تھے، نیز وہ ان سے کہیں گے کہ اللہ گواہ ہے ہم تو تمہاری عبادت سے قطعی طور پر بے خبر تھے (یونس ۲٩) سو اس وقت ان کو اچھی طرح معلوم ہو جائے گا کہ جس کو وہ عزت کا سامان سمجھ رہے تھے وہ ان کے لئے دائمی ہلاکت اور تباہی کا باعث تھا۔ والعیاذُ باللہ العظیم،

۷۴.    سو اس سے اللہ پاک کی ایک سنت اور اس کے تقاضے کو بیان فرمایا گیا ہے، اور وہ سنت اور دستور خداوندی یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی یادِ دلشاد سے منہ موڑ کر اپنے کفر و باطل ہی پر اڑ جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر ان کی اپنی پسند اور اختیار کے نتیجے میں کسی شیطان کو مسلط فرما دیتا ہے جو ان کا ہمہ وقتی ساتھی بن جاتا ہے۔ جس سے ایسے بدبخت لوگ راہ حق و ہدایت سے اور دور اور محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اور اہل حق کے خلاف اپنی شر انگیزیوں میں وہ اور چلے بڑھتے جاتے ہیں، اسی سنت خداوندی کا ذکر و بیان دوسرے مقام پر اس طرح فرمایا گیا ہے وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہ، شَیْطَانًا فَہُوَ لَہ قَرِیْنٌ (الزخرف۔ ۳۶) یعنی جو خدائے رحمان کی یاد سے آنکھیں بند کر لیتا ہے اس پر ہم کوئی شیطان مسلط کر دیتے ہیں۔ پھر وہی اس کا ساتھی بن جاتا ہے، سو اسی سنت خداوندی کے مطابق یہاں پر ارشاد فرمایا گیا کہ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ ہم نے ان کافروں پر شیاطین کو چھوڑ رکھا ہے، جو ان کو طرح طرح سے حق اور اہل حق کے خلاف اکساتے بھڑکاتے ہیں، پس آپ اے پیغمبر! ان لوگوں کی ایسی شرانگیزیوں سے ہراساں و پریشان نہیں ہونا۔ اور ان کے بارے میں عذاب الٰہی کے ظہور کے لئے جلدی نہیں کرنا۔ یہ خود اپنی ان شر انگیزیوں کے نتیجے میں ہلاکت و تباہی کے ہولناک گڑھے میں گر کر رہیں گے، ہم پورے اہتمام کے ساتھ ان کے اوقات کو انکی شر انگیزیوں کے ساتھ گن رہے ہیں یہ اتمام حجت کی مہلت پوری ہونے پر بہر حال اپنے انجام کو پہنچ کر رہیں گے۔

۷۷.    سو اس سے شرک کی ایک خاص قسم اور اس کی ہولناکی کا ذکر و بیان فرمایا گیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد ماننے کے شرک کا۔ وَلَد کا لفظ مفرد و جمع اور مذکر و مؤنث سب ہی کے لئے آتا ہے۔ سو اس شرک کا ارتکاب بھی مختلف لوگوں نے کیا۔ چنانچہ یہود نے حضرت عزیر کو اللہ کا بیٹا قرار دیا۔ اور نصاریٰ نے حضرت مسیح کو اور مشرکین مکہ نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیا۔ سو یہ سب کفر و باطل محض اور نہایت سنگین جرم ہے۔ جس کا ارتکاب ان لوگوں نے کیا، اور اس کا بھگتان ان سب کو بہر حال بھگتنا ہو گا، والعیاذ باللہ

۹۱.    سو اس سے خدائے رحمان کے لئے اولاد ٹھہرانے کے اس جرم کی سنگینی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ یہ اتنا سنگین اور اس قدر ہولناک جرم ہے کہ قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے، اور پہاڑ دھماکے سے گر پڑیں، اور یہ کوئی مبالغے کا اسلوب نہیں۔ بلکہ حقیقت کا اظہار و بیان ہے اور یہ اس لئے کہ جس طرح ایک غیرت مند بیٹا اس بات کو گوارا نہیں کر سکتا کہ کوئی اس کو اپنے باپ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کرے۔ یا اس کے باپ کے ساتھ کسی اور کو بھی شریک قرار دے۔ اسی طرح آسمانوں اور زمین کی یہ کائنات اس بات کو گوارا اور برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کو اس کے خالق و مالک کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کیا جائے۔ یا اس کے ساتھ کسی اور کو اس کا شریک ٹھہرایا جائے۔ سو آسمان و زمین اور سورج و چاند وغیرہ کی فطرت ابراہمی ہے۔ شرک سے اس کی حمیت اور غیرت اس طرح بھڑک اٹھتی ہے، کہ یہ ایسے نابکاروں کے وجود کو ایک منٹ کے لئے بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ مگر خداوند قدوس کے حکم و ارشاد کے مطابق یہ اپنے غیظ و غضب کو ضبط کئے ہوئے ہیں، کہ اللہ نے ان لوگوں کو ایک خاص وقت تک ڈھیل دے رکھی ہے، سبحانہ و تعالیٰ، سو اس سے توحید خداوندی کی عظمت شان، اور شرک کی خطوت و سنگینی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، والعیاذُ باللہ العظیم،

۹۷.    سو اس ارشاد میں ایک طرف تو منکرین و مکذبین کے لئے تنبیہ و تذکیر ہے، اور دوسری طرف پیغمبر کے لئے تسلیہ وتسکین، کہ اس سے پہلے کتنی ہی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں، جو اپنے کفر و انکار پر اڑی رہیں۔ اور ان کو اس طرح مٹا دیا گیا کہ اب نہ تم ان میں سے نہ کسی کی کوئی بو محسوس کر سکتے ہو۔ اور نہ کسی کی کوئی آہٹ سن سکتے ہو۔ سو اگر یہ لوگ تکذیب و انکار حق کے اس سنگین جرم سے باز نہ آئے تو ان کا انجام بھی وہی ہو گا جو گذشتہ قوموں کے ان منکرین و مکذبین کا ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قانون بے لاگ اور سب کے لئے یکساں ہے والعیاذُ باللہ جَلَّ وَعَلَا وبہٰذا قد تَمَّ التفسیر المختصر لسورۃمریم والحمد للہ جَلَّ وَعَلَ