خزائن العرفان

سورة مَریَم

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف ۱)

۱                 سورۂ مریم مکّیہ ہے اس میں چھ رکوع اٹھانوے۹۸ آیتیں سات سو اسّی ۷۸۰کلمے ہیں۔

(۱) کھیٰعص

(۲) یہ مذکور ہے  تیرے  رب کی اس رحمت کا جو اس نے  اپنے  بندہ زکریا پر کی۔

(۳) جب اس نے  اپنے  رب کو آہستہ پکارا  (ف ۲)

۲                 کیونکہ اخفاء ریا سے دور اور اخلاص سے معمور ہوتا ہے نیز یہ بھی فائدہ تھا کہ پیرانہ سالی کی عمر میں جب کہ سن شریف پچھتّر یا اسّی برس کا تھا اولاد کا طلب کرنا احتمال رکھتا تھا کہ عوام اس پر ملامت کریں اس لئے بھی اس دعا کا اخفاء مناسب تھا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ضعفِ پیری کے باعث حضرت کی آواز بھی ضعیف ہو گئی تھی۔ (مدارک، خازن)۔

(۴) عرض کی اے  میرے  رب میری ہڈی کمزور ہو گئی (ف ۳) اور سرے  سے  بڑھاپے  کا بھبھوکا پھوٹا (شعلہ چمکا) (ف ۴) اور اے  میرے  رب میں تجھے  پکار کر کبھی نامراد نہ رہا (ف ۵)

۳                 یعنی پیرانہ سالی کا ضعف غایت کو پہنچ گیا کہ ہڈی جو نہایت مضبوط عضو ہے اس میں کمزوری آ گئی تو باقی اعضا و قویٰ کا حال محتاجِ بیان ہی نہیں۔

۴                 کہ تمام سر سفید ہو گیا۔

۵                 ہمیشہ تو نے میری دعا قبول کی اور مجھے مستجابُ الدعوات کیا۔

(۵) اور مجھے  اپنے  بعد اپنے  قرابت والوں کا ڈر ہے  (ف ۶) اور میری عورت بانجھ ہے  تو مجھے  اپنے  پاس سے  کوئی ایسا دے  ڈال جو میرا کام اٹھائے  (ف ۷)

۶                 چچازاد وغیرہ کا کہ وہ شریر لوگ ہیں کہیں میرے بعد دین میں رخنہ اندازی نہ کریں جیسا کہ بنی اسرائیل سے مشاہدہ میں آ چکا ہے۔

۷                 اور میرے علم کا حامل ہو۔

(۶) وہ میرا  جانشین ہو اور اولاد یعقوب کا وارث ہو، اور اے  میرے  رب! اسے  پسندیدہ کر (ف ۸)

۸                 کہ تو اپنے فضل سے اس کو نبوّت عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کی یہ دعا قبول فرمائی اور ارشاد فرمایا۔

(۷) اے  زکریا ہم تجھے  خوشی سناتے  ہیں ایک لڑکے  کی جن کا نام یحییٰ ہے  اس کے  پہلے  ہم نے  اس نام کا کوئی نہ کیا۔

(۸) عرض کی اے  میرے  رب! میرے  لڑکا کہاں سے  ہو گا میری عورت تو  بانجھ ہے  اور میں بڑھاپے  سے  سوکھ جانے  کی حالت کو پہنچ گیا (ف ۹)

۹                 یہ سوال استبعاد نہیں بلکہ مقصود یہ دریافت کرنا ہے کہ عطائے فرزند کس طریقہ پر ہو گا کیا دوبارہ جوانی مرحمت ہو گی یا اسی حال میں فرزند عطا کیا جائے گا۔

(۹) فرمایا ایسا ہی ہے  (ف ۱۰) تیرے  رب نے  فرمایا وہ مجھے  آسان ہے  اور میں نے  تو اس سے  پہلے  تجھے  اس وقت بنایا جب تک کچھ بھی نہ تھا (ف ۱۱)

۱۰               تمہیں دونوں سے لڑکا پیدا فرمانا منظور ہے۔

۱۱               تو جو معدوم کے موجود کرنے پر قادر ہے اس سے بڑھاپے میں اولاد عطا فرمانا کیا عجب ہے۔

(۱۰) عرض کی اے  میرے  رب! مجھے  کوئی نشانی دے  دے  (ف ۱۲) فرمایا تیری نشانی یہ ہے  کہ تو تین رات دن لوگوں سے  کلام نہ کرے  بھلا چنگا ہو کر (ف ۱۳)

۱۲               جس سے مجھے اپنی بی بی کے حاملہ ہونے کی معرفت ہو۔

۱۳               صحیح سالم ہو کر بغیر کسی بیماری کے اور بغیر گونگا ہونے کے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ان ایام میں آپ لوگوں سے کلام کرنے پر قادر نہ ہوئے، جب اللہ کا ذکر کرنا چاہتے زبان کھُل جاتی۔

(۱۱)  تو اپنی قوم پر مسجد سے  باہر آیا (ف ۱۴) تو انہیں اشارہ سے  کہا کہ صبح و شام تسبیح کرتے  رہو (ف ۱۵)۔

۱۴               جو اس کی نماز کی جگہ تھی اور لوگ پسِ محراب انتظار میں تھے کہ آپ ان کے لئے دروازہ کھولیں تو وہ داخل ہوں اور نماز پڑھیں، جب حضرت زکریا علیہ السلام باہر آئے تو آپ کا رنگ بدلا ہوا تھا، گفتگو نہیں فرما سکتے تھے یہ حال دیکھ کر لوگوں نے دریافت کیا، کیا حال ہے۔

۱۵               اور حسبِ عادت فجر و عصر کی نمازیں ادا کرتے رہو، اب حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنے کلام نہ کر سکنے سے جان لیا کہ آپ کی بیوی صاحبہ حاملہ ہو گئیں اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت سے دو سال بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا۔

 (۱۲) اے  یحییٰ کتاب (ف ۱۶) مضبوط تھام، اور ہم نے  اسے  بچپن ہی میں نبوت دی (ف ۱۷)

۱۶               یعنی توریت کو۔

۱۷               جب کہ آپ کی عمر شریف تین سال کی تھی اس وقت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو عقلِ کا مل عطا فرمائی اور آپ کی طرف وحی کی۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا یہی قول ہے اور اتنی سی عمر میں فہم و فراست اور کمالِ عقل و دانش خوارقِ عادات میں سے ہے اور جب بکرمہٖ تعالیٰ یہ حاصل ہو تو اس حال میں نبوّت ملنا کچھ بھی بعید نہیں لہٰذا اس آیت میں حکم سے نبوّت مراد ہے یہی قول صحیح ہے۔ بعض مفسِّرین نے اس سے حکمت یعنی فہمِ توریت اور فقہ فی الدین بھی مراد لی ہے۔ (خازن و مدارک، کبیر) منقول ہے کہ اس کم سنی کے زمانہ میں بچوں نے آپ کو کھیل کے لئے بلایا تو آپ نے فرمایا مَا لِلُعْبٍ خُلِقْنَا ہم کھیل کے لئے پیدا نہیں کئے گئے۔

(۱۳) اور اپنی طرف سے  مہربانی (ف ۱۸) اور ستھرائی (ف ۱۹) اور کمال ڈر والا تھا (ف ۲۰)

۱۸               عطا کی اور ان کے دل میں رقت و رحمت رکھی کہ لوگوں پر مہربانی کریں۔

۱۹               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ زکوٰۃ سے یہاں طاعت و اخلاص مراد ہے۔

۲۰               اور آپ خوفِ الٰہی سے بہت گریہ و زاری کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کے رخسار مبارکہ پر آنسوؤں سے نشان بن گئے تھے۔

(۱۴) اور اپنے  ماں باپ سے  اچھا سلوک کرنے  والا تھا زبردست و نافرمان نہ تھا (ف ۲۱)

۲۱               یعنی آپ نہایت متواضع اور خلیق تھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطیع۔

(۱۵) اور سلامتی ہے  اس پر جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے  گا اور جس دن مردہ اٹھایا جائے  گا (ف ۲۲)

۲۲               کہ یہ تینوں دن بہت اندیشہ ناک ہیں کیونکہ ان میں آدمی وہ دیکھتا ہے جو اس سے پہلے اس نے نہیں دیکھا اس لئے ان تینوں موقعوں پر نہایت وحشت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کا اکرام فرمایا انہیں ان تینوں موقعوں پر امن و سلامتی عطا کی۔

(۱۶) اور کتاب میں مریم کو  یاد  کرو (ف ۲۳) جب اپنے  گھر والوں سے  پورب کی طرف ایک جگہ الگ گئی (ف ۲۴)

۲۳               یعنی اے سیدِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم قرآنِ کریم میں حضرت مریم کا واقعہ پڑھ کر ان لوگوں کو سنائیے تاکہ انہیں ان کا حال معلوم ہو۔

۲۴               اور اپنے مکان میں یا بیتُ المقدس کی شرقی جانب میں لوگوں سے جدا ہو کر عبادت کے لئے خلوت میں بیٹھیں۔

(۱۷) تو ان سے  ادھر (ف ۲۵) ایک پردہ کر لیا، تو اس کی طرف ہم نے  اپنا روحانی (روح الامین) بھیجا (ف ۲۶) وہ اس کے  سامنے  ایک تندرست آدمی کے  روپ میں ظاہر ہوا۔

۲۵               یعنی اپنے اور گھر والوں کے درمیان۔

۲۶               جبریل علیہ السلام۔

(۱۸) بولی میں تجھ سے  رحمان کی پناہ مانگتی ہوں اگر تجھے  خدا کا ڈر ہے۔

(۱۹) بولا میں تیرے  رب کا بھیجا ہوا  ہوں، کہ میں تجھے  ایک ستھرا بیٹا دوں۔

(۲۰) بولی میرے  لڑکا  کہاں سے  ہو گا مجھے  تو کسی آدمی نے  ہاتھ نہ لگایا نہ میں بدکار ہوں۔

(۲۱) کہا یونہی ہے  (ف ۲۷) تیرے  رب نے  فرمایا ہے  کہ یہ (ف ۲۸) مجھے  آسان ہے، اور اس لیے  کہ ہم اسے  لوگوں کے  واسطے  نشانی (ف ۲۹) کریں اور اپنی طرف سے  ایک رحمت (ف ۳۰) اور یہ کام ٹھہر چکا ہے  (ف ۳۱)

۲۷               یہی منظورِ الٰہی ہے کہ تمہیں بغیر مرد کے چھوئے ہی لڑکا عنایت فرمائے۔

۲۸               یعنی بغیر باپ کے بیٹا دینا۔

۲۹               اور اپنی قدرت کی برہان۔

۳۰               ان کے لئے جو اس کے دین کا اِتّباع کریں اس پر ایمان لائیں۔

۳۱               علمِ الٰہی میں، اب نہ رد ہو سکتا ہے نہ بدل سکتا ہے۔ جب حضرت مریم کو اطمینان ہو گیا اور ان کی پریشانی جاتی رہی تو حضرت جبریل نے ان کے گریبان میں یا آستین میں یا دامن میں یا منہ میں دم کیا اور بقدرتِ الٰہی فی الحال حاملہ ہو گئیں اس وقت حضرت مریم کی عمر تیرہ سال یا دس سال کی تھی۔

(۲۲) اب مریم نے  اسے  پیٹ میں لیا پھر اسے  لیے  ہوئے  ایک دور جگہ چلی گئی (ف ۳۲)

۳۲               اپنے گھر والوں سے اور وہ جگہ بیت اللحم تھی۔ وہب کا قول ہے کہ سب سے پہلے جس شخص کو حضرت مریم کے حمل کا علم ہوا وہ ان کا چچا زاد بھائی یوسف نجار ہے جو مسجدِ بیت المقدس کا خادم تھا اور بہت بڑا عابد شخص تھا اس کو جب معلوم ہوا کہ مریم حاملہ ہیں تو نہایت حیرت ہوئی، جب چاہتا تھا کہ ان پر تہمت لگائے تو ان کی عبادت و تقویٰ، ہر وقت کا حاضر رہنا،کسی وقت غائب نہ ہونا یاد کر کے خاموش ہو جاتا تھا اور جب حمل کا خیال کرتا تھا تو ان کو بُری سمجھنا مشکل معلوم ہوتا تھا بالآخر اس نے حضرت مریم سے کہا کہ میرے دل میں ایک بات آئی ہے ہر چند چاہتا ہوں کہ زبان پر نہ لاؤں مگر اب صبر نہیں ہوتا ہے آپ اجازت دیجئے کہ میں کہہ گزروں تاکہ میرے دل کی پریشانی رفع ہو، حضرت مریم نے کہا کہ اچھی بات کہو تو اس نے کہا کہ اے مریم مجھے بتاؤ کہ کیا کھیتی بغیر تخم اور درخت بغیر بارش کے اور بچہ بغیر باپ کے ہو سکتا ہے ؟ حضرت مریم نے فرمایا کہ ہاں تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو سب سے پہلے کھیتی پیدا کی بغیر تخم ہی کے پیدا کی اور درخت اپنی قدرت سے بغیر بارش کے اگائے کیا تو یہ کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پانی کی مدد کے بغیر درخت پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟ یوسف نے کہا میں یہ تو نہیں کہتا بے شک میں اس کا قائل ہوں کہ اللہ ہر شے پر قادر ہے جسے کن فرمائے وہ ہو جاتی ہے، حضرت مریم نے کہا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور ان کی بی بی کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا، حضرت مریم کے اس کلام سے یوسف کا شبہ رفع ہو گیا اور حضرت مریم حمل کے سبب سے ضعیف ہو گئیں تھیں اس لئے وہ خدمتِ مسجد میں ان کی نیابت انجام دینے لگا، اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کو الہام کیا کہ وہ اپنی قوم سے علیٰحدہ چلی جائیں اس لئے وہ بیت اللحم میں چلی گئیں۔

(۲۳) پھر اسے  جننے  کا درد ایک کھجور کی جڑ میں لے  آیا (ف ۳۳) بولی ہائے  کسی طرح میں اس سے  پہلے  مر گئی ہوتی اور بھولی بسری ہو جاتی۔

۳۳               جس کا درخت جنگل میں خشک ہو گیا تھا، وقت تیز سردی کا تھا، آپ اس درخت کی جڑ میں آئیں تاکہ اس سے ٹیک لگائیں اور فضیحت کے اندیشہ سے۔

(۲۴) تو اسے  (ف ۳۴) اس کے  تلے  سے  پکارا کہ غم نہ کھا (ف ۳۵) بیشک تیرے  رب نے  نیچے  ایک نہر بہا دی ہے  (ف ۳۶)

۳۴               جبریل نے وادی کے نشیب سے۔

۳۵               اپنی تنہائی کا اور کھانے پینے کی کوئی چیز موجود نہ ہونے کا اور لوگوں کی بد گوئی کرنے کا۔

۳۶               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یا حضرت جبریل نے اپنی ایڑی زمین پر ماری تو آبِ شیریں کا ایک چشمہ جاری ہو گیا اور کھجور کا درخت سرسبز ہو گیا، پھل لایا وہ پھل پختہ اور رسیدہ ہو گئے اور حضرت مریم سے کہا گیا۔

(۲۵) اور کھجور کی جڑ پکڑ کر اپنی طرف ہلا تجھ پر تازی  پکی کھجوریں گریں گی (ف ۳۷)

۳۷               جو زچہ کے لئے بہترین غذا ہیں۔

(۲۶) تو کھا اور پی اور آنکھ ٹھنڈی رکھ (ف ۳۸) پھر اگر تو کسی آدمی کو دیکھے  (ف ۳۹) تو کہہ دینا میں نے  آج رحمان کا روزہ مانا ہے  تو آج ہرگز کسی آدمی سے  بات نہ کرو ں گی (ف ۴۰)

۳۸               اپنے فرزند عیسیٰ سے۔

۳۹               کہ تجھ سے بچے کو دریافت کرتا ہے۔

۴۰               پہلے زمانہ میں بولنے اور کلام کرنے کا بھی روزہ ہوتا تھا جیسا کہ ہماری شریعت میں کھانے اور پینے کا روزہ ہوتا ہے، ہماری شریعت میں چپ رہنے کا روزہ منسوخ ہو گیا۔ حضرت مریم کو سکوت کی نذر ماننے کا اس لئے حکم دیا گیا تاکہ کلام حضرت عیسیٰ فرمائیں اور ان کا کلام حجّتِ قویہ ہو جس سے تہمت زائل ہو جائے اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے۔ مسئلہ : سفیہ کے جواب میں سکوت و اعراض چاہیئے ؎ جواب جاہلاں باشد خموشی۔

مسئلہ : کلام کو افضل شخص کی طرف تفویض کرنا اولیٰ ہے، حضرت مریم نے یہ بھی اشارہ سے کہا کہ میں کسی آدمی سے بات نہ کروں گی۔

(۲۷) تو اسے  گود میں لے  اپنی قوم کے  پاس آئی (ف ۴۱) بولے  اے  مریم! بیشک تو نے  بہت بری بات کی۔

۴۱               جب لوگوں نے حضرت مریم کو دیکھا کہ ان کی گود میں بچہ ہے تو روئے اور غمگین ہوئے کیونکہ وہ صالحین کے گھرانے کے لوگ تھے اور۔

(۲۸) اے  ہارون کی بہن (ف ۴۲) تیرا باپ (ف ۴۳)  برا  آدمی نہ تھا اور نہ تیری ماں (ف ۴۴) بدکار۔

۴۲               اور ہارون یا تو حضرت مریم کے بھائی کا نام تھا یا بنی اسرائیل میں اور نہایت بزرگ اور صالح شخص کا نام تھا جن کے تقویٰ اور پرہیزگاری سے تشبیہ دینے کے لئے ان لوگوں نے حضرت مریم کو ہارون کی بہن کہا یا حضرت ہارون برادرِ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی کی طرف نسبت کی باوجود یکہ ان کا زمانہ بہت بعید تھا اور ہزار برس کا عرصہ ہو چکا تھا مگر چونکہ یہ ان کی نسل سے تھیں اس لئے ہارون کی بہن کہہ دیا جیسا کہ عربوں کا محاورہ ہے کہ وہ تمیمی کو یا اخا تمیم کہتے ہیں۔

۴۳               یعنی عمران۔

۴۴               حنّہ۔

(۲۹) اس پر مریم نے  بچے  کی طرف اشارہ کیا (ف ۴۵) وہ بولے  ہم کیسے  بات کریں اس سے  جو پالنے  میں بچہ ہے  (ف ۴۶)

۴۵               کہ جو کچھ کہنا ہے خود ان سے کہو اس پر قوم کے لوگوں کو غصّہ آیا اور۔

۴۶               یہ گفتگو سن کر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے دودھ پینا چھوڑ دیا اور اپنے بائیں ہاتھ پر ٹیک لگا کر قوم کی طرف متوجہ ہوئے اور داہنے دستِ مبارک سے اشارہ کر کے کلام شروع کیا۔

(۳۰) بچہ نے  فرمایا میں اللہ کا بندہ (ف ۴۷) اس نے  مجھے  کتاب دی اور مجھے  غیب کی خبریں بتانے  والا (نبی) کیا (ف ۴۸)

۴۷               پہلے اپنے بندہ ہونے کا اقرار فرمایا تاکہ کوئی انہیں خدا اور خدا کا بیٹا نہ کہے کیونکہ آپ کی نسبت یہ تہمت لگائی جانے والی تھی اور یہ تہمت اللہ تبارک و تعالیٰ پر لگتی تھی اس لئے منصبِ رسالت کا اقتضا یہی تھا کہ والدہ کی براءت بیان کرنے سے پہلے اس تہمت کو رفع فرما دیں جو اللہ تعالیٰ کے جنابِ پاک میں لگائی جائے گی اور اسی سے وہ تہمت بھی رفع ہو گئی جو والدہ پر لگائی جاتی کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس مرتبۂ عظیمہ کے ساتھ جس بندے کو نوازتا ہے بالیقین اس کی ولادت اور اس کی سرشت نہایت پاک و طاہر ہے۔

۴۸               کتاب سے انجیل مراد ہے۔ حسن کا قول ہے کہ آپ بطنِ والدہ ہی میں تھے کہ آپ کو توریت کا الہام فرما دیا گیا تھا اور پالنے میں تھے جب آپ کو نبوّت عطا کر دی گئی اور اس حالت میں آپ کا کلام فرمانا آپ کا معجزہ ہے۔ بعض مفسِّرین نے آیت کے معنیٰ میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ نبوّت اور کتاب ملنے کی خبر تھی جو عنقریب آپ کو ملنے والی تھی۔

(۳۱) اور اس نے  مجھے  مبارک کیا (ف ۴۹) میں کہیں ہوں اور مجھے  نماز  و زکوٰۃ کی تاکید فرمائی جب تک جیوں۔

۴۹               یعنی لوگوں کے لئے نفع پہنچانے والا اور خیر کی تعلیم دینے والا اور اللہ تعالیٰ اور اس کی توحید کی دعوت دینے والا۔

(۳۲) اور اپنی ماں سے  اچھا سلوک کرنے  والا (ف ۵۰) اور مجھے  زبردست بدبخت نہ کیا۔

۵۰               بنایا۔

(۳۳) اور دی سلامتی مجھ پر (ف ۵۱) جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں (ف ۵۲)

۵۱               جو حضرت یحییٰ پر ہوئی۔

۵۲               جب حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ کلام فرمایا تو لوگوں کو حضرت مریم کی براءت و طہارت کا یقین ہو گیا اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام اتنا فرما کر خاموش ہو گئے اور اس کے بعد کلام نہ کیا جب تک کہ اس عمر کو پہنچے جس میں بچے بولنے لگتے ہیں۔ (خازن)۔

(۳۴)  یہ ہے  عیسیٰ مریم کا بیٹا سچی بات جس میں شک کرتے  ہیں (ف ۵۳)

۵۳               کہ یہود تو انہیں ساحر کذّاب کہتے ہیں (معاذ اللہ) اور نصاریٰ انہیں خدا اور خدا کا بیٹا اور تین میں کا تیسرا کہتے ہیں تَعَا لیٰ اللہُ عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوّاً کَبِیْراً۔ اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی تنزیہ بیان فرماتا ہے۔

(۳۵) اللہ کو لائق نہیں کہ کسی کو اپنا بچہ ٹھہرائے  پاکی ہے  اس کو (ف ۵۴) جب کسی کام کا حکم فرماتا ہے  تو یونہی کہ اس سے  فرماتا ہے  ہو جاؤ وہ فوراً ہو جاتا ہے۔

۵۴               اس سے۔

(۳۶) اور عیسیٰ نے  کہا بیشک اللہ رب ہے  میرا اور تمہارا (ف ۵۵) تو اس کی بندگی کرو، یہ راہ سیدھی ہے۔

۵۵               اور اس کے سوا کوئی ربّ نہیں۔

(۳۷) پھر جماعتیں آپس میں مختلف ہو گئیں (ف ۵۶) تو خرابی ہے، کافروں کے  لیے  ایک بڑے  دن کی حاضری سے  (ف ۵۷)

۵۶               اور حضرت عیسیٰ کے باب میں نصاریٰ کے کئی فرقے ہو گئے، ایک یعقوبیہ، ایک نسطور یہ، ایک ملکانیہ۔ یعقوبیہ کہتا تھا کہ وہ اللہ ہے، زمین پر اتر آیا تھا، پھر آسمان پر چڑھ گیا۔ نسطوریہ کا قول ہے کہ وہ خدا کا بیٹا ہے، جب تک چاہا اسے زمین پر رکھا پھر اٹھا لیا اور تیسرا فرقہ یہ کہتا تھا کہ وہ اللہ کے بندے ہیں، مخلوق ہیں، نبی ہیں، یہ مؤمن تھا۔ (مدارک)۔

۵۷               بڑے دن سے روزِ قیامت مراد ہے۔

(۳۸) کتنا سنیں گے  اور کتنا دیکھیں گے  جس دن ہمارے  پاس حاضر ہونگے  (ف ۵۸) مگر آج ظالم کھلی گمراہی میں ہیں (ف ۵۹)

۵۸               اور اس دن کا دیکھنا اور سننا کچھ نفع نہ دے گا جب انہوں نے دنیا میں دلائلِ حق کو نہیں دیکھا اور اللہ تعالیٰ کے مواعید کو نہیں سنا۔ بعض مفسِّرین نے کہا کہ یہ کلام بطریقِ تہدید ہے کہ اس روز ایسی ہولناک باتیں سنیں اور دیکھیں گے جن سے دل پھٹ جائیں۔

۵۹               نہ حق دیکھیں نہ حق سنیں، بہرے اندھے بنے ہوئے ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اِ لٰہ اور معبود ٹھہراتے ہیں باوجود یکہ انہوں نے بصراحت اپنے بندہ ہونے کا اعلان فرمایا۔

(۳۹) اور انہیں ڈر سناؤ پچھتاوے  کے  دن کا (ف ۶۰) جب کام ہو چکے  گا (ف ۶۱) اور وہ غفلت میں ہیں (ف ۶۲) اور نہیں مانتے۔

۶۰               حدیث شریف میں ہے کہ جب کافِر منازلِ جنّت دیکھیں گے جن سے وہ محروم کئے گئے تو انہیں ندامت و حسرت ہو گی کہ کاش وہ دنیا میں ایمان لے آئے ہوتے۔

۶۱               اور جنّت والے جنّت میں اور دوزخ والے دوزخ میں پہنچیں گے ایسا سخت دن درپیش ہے۔

۶۲               اور اس دن کے لئے کچھ فکر نہیں کرتے۔

(۴۰) بیشک زمین اور جو کچھ اس پر ہے  سب کے  وارث ہم ہوں گے  (ف ۶۳) اور وہ ہماری ہی طرف پھریں گے  (ف ۶۴)

۶۳               یعنی سب فنا ہو جائیں گے ہم ہی باقی رہیں گے۔

۶۴               ہم انہیں ان کے اعمال کی جزا دیں گے۔

(۴۱) اور کتاب میں (ف ۶۵) ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ صدیق (ف ۶۶) تھا (نبی) غیب کی خبریں بتاتا۔

۶۵               یعنی قرآن میں۔

۶۶               یعنی کثیرُ الصدق۔ بعض مفسِّرین نے کہا کہ صدیق کے معنی ہیں کثیرُ التصدیق جو اللہ تعالیٰ اور اس کی وحدانیّت اور اس کے انبیاء اور اس کے رسولوں کی اور مرنے کے بعد اٹھنے کی تصدیق کرے اور احکامِ الٰہیہ بجا لائے۔

(۴۲)  جب اپنے  باپ سے  بولا (ف ۶۷) اے  میرے  باپ کیوں ایسے  کو پوجتا ہے  جو نہ سنے  نہ دیکھے  اور نہ کچھ تیرے  کام آئے  (ف ۶۸)

۶۷               یعنی آزر بُت پرست سے۔

۶۸               یعنی عبادت معبود کی غایت تعظیم ہے اس کا وہی مستحق ہو سکتا ہے جو صاحبِ اوصافِ کمال اور ولیِ نِعَم ہو، نہ کہ بُت جیسی ناکارہ مخلوق۔ مدعا یہ ہے کہ اللہ واحد لاشریک لہ کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں۔

(۴۳) اے  میرے  باپ بیشک میرے  پاس (ف ۶۹) وہ علم آیا جو تجھے  نہ آیا تو  تُو میرے  پیچھے  چلا  آ (ف ۷۰) میں تجھے  سیدھی راہ دکھاؤں (ف ۷۱)

۶۹               میرے ربّ کی طرف سے معرفتِ الٰہی کا۔

۷۰               میرا دین قبول کر۔

۷۱               جس سے تو قربِ الٰہی کی منزلِ مقصود تک پہنچ سکے۔

(۴۴)  اے  میرے  باپ شیطان کا بندہ نہ بن (ف ۷۲) بیشک شیطان رحمان کا نافرمان ہے۔

۷۲               اور اس کی فرمانبرداری کر کے کُفر و شرک میں مبتلا نہ ہو۔

(۴۵) اے  میرے  باپ میں ڈرتا ہوں کہ تجھے  رحمن کا کوئی عذاب پہنچے  تو  تُو شیطان کا رفیق ہو جائے  (ف ۷۳)

۷۳               اور لعنت و عذاب میں اس کا ساتھی ہو۔ اس نصیحتِ لطف آمیز اور ہدایتِ دلپذیر سے آزر نے نفع نہ اٹھایا اور اس کے جواب میں۔

(۴۶) بولا کیا تو میرے  خداؤں سے  منہ پھیرتا ہے، اے  ابراہیم بیشک اگر تو (ف ۷۴) باز نہ آیا تو میں تجھے  پتھراؤ کروں گا اور مجھ سے  زمانہ دراز تک بے  علاقہ ہو جا (ف ۷۵)

۷۴               بُتوں کی مخالفت اور ان کو برا کہنے اور ان کے عیوب بیان کرنے سے۔

۷۵               تاکہ میرے ہاتھ اور زبان سے امن میں رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے۔

(۴۷) کہا بس تجھے  سلام ہے  (ف ۷۶) قریب ہے  کہ میں تیرے  لیے  اپنے  رب سے  معافی مانگوں گا (ف ۷۷) بیشک وہ مجھ مہربان ہے۔

۷۶               یہ سلامِ متارکت تھا۔

۷۷               کہ وہ تجھے توفیقِ توبہ و ایمان دے کر تیری مغفرت کرے۔

(۴۸) اور میں ایک کنارے  ہو جاؤں گا (ف ۷۸) تم سے  اور ان سب سے  جن کو اللہ کے  سوا پوجتے  ہو اور اپنے  رب کو پوجوں گا (ف ۷۹) قریب ہے  کہ میں اپنے  رب کی بندگی سے  بدبخت نہ ہوں (ف ۸۰)

۷۸               شہرِ بابل سے شام کی طرف ہجرت کر کے۔

۷۹               جس نے مجھے پیدا کیا اور مجھ پر احسان فرمائے۔

۸۰               اس میں تعریض ہے کہ جیسے تم بُتوں کی پوجا کر کے بدنصیب ہوئے خدا کے پرستار کے لئے یہ بات نہیں اس کی بندگی کرنے والا شقی و محروم نہیں ہوتا۔

(۴۹) پھر جب ان سے  اور اللہ کے  سوا ان کے  معبودوں سے  کنارہ کر گیا (ف ۸۱) ہم نے  اسے  اسحاق (ف ۸۲) اور یعقوب (ف ۸۳) عطا کیے، اور ہر ایک کو غیب کی خبریں بتانے  والا کیا۔

۸۱               ارضِ مقدّسہ کی طرف ہجرت کر کے۔

۸۲               فرزند۔

۸۳               فرزند کے فرزند یعنی پوتے۔

فائدہ : اس میں اشارہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کی عمر شریف اتنی دراز ہوئی کہ آپ نے اپنے پوتے حضرت یعقوب علیہ السلام کو دیکھا۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا کہ اللہ کے لئے ہجرت کرنے اور اپنے گھر بار کو چھوڑنے کی یہ جزا ملی کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹے اور پوتے عطا فرمائے۔

(۵۰) اور ہم نے  انہیں اپنی رحمت عطا کی (ف ۸۴) اور ان کے  لیے  سچی بلند ناموری رکھی (ف ۸۵)

۸۴               کہ اموال و اولاد بکثرت عنایت کئے۔

۸۵               کہ ہر دین والے مسلمان ہوں خواہ یہودی خواہ نصرانی سب ان کی ثنا کرتے ہیں اور نمازوں میں ان پر اور ان کی آل پر درود پڑھا جاتا ہے۔

(۵۱) اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چنا ہوا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتانے  والا۔

(۵۲)  اور اسے  ہم نے  طور کی داہنی جانب سے  ندا فرمائی (ف ۸۶) اور اسے  اپنا راز کہنے  کو قریب کیا (ف ۸۷)

۸۶               طور ایک پہاڑ کا نام ہے جو مِصر و مدیَن کے درمیان ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مدین سے آتے ہوئے طور کی اس جانب سے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے داہنی طرف تھی ایک درخت سے ندا دی گئی یٰمُوْسیٰ اِنِّیْ اَنَا اللہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ اے موسیٰ میں ہی اللہ ہوں تمام جہانوں کا پالنے والا۔

۸۷               مرتبۂ قرب عطا فرمایا، حجاب مرتفع کئے یہاں تک کہ آپ نے صریرِ اقلام سنی اور آپ کی قدر و منزلت بلند کی گئی اور آپ سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا۔

(۵۳) اور اپنی رحمت سے  اس کا بھائی  ہارون عطا کیا (غیب کی خبریں بتانے  والا نبی) (ف ۸۸)

۸۸               جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی کہ یاربّ میرے گھر والوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے یہ دعا قبول فرمائی اور حضرت ہارون علیہ السلام کو آپ کی دعا سے نبی کیا اور حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بڑے تھے۔

(۵۴) اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو (ف ۸۹) بیشک وہ وعدے  کا سچا تھا (ف ۹۰) اور رسول تھا غیب کی خبریں بتاتا۔

۸۹               جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے جد ہیں۔

۹۰               انبیاء سب ہی سچے ہوتے ہیں لیکن آپ اس وصف میں خاص شہرت رکھتے ہیں۔ ایک مرتبہ کسی مقام پر آپ سے کوئی شخص کہہ گیا تھا کہ آپ یہیں ٹھہرے رہیئے جب تک میں واپس آؤں آپ اس جگہ اس کے انتظار میں تین روز ٹھہرے رہے آپ نے صبر کا وعدہ کیا تھا ذبح کے موقع پر اس شان سے اس کو وفا فرمایا کہ سُبحان اللہ۔

(۵۵) اور اپنے  گھر والوں کو (ف ۹۱) نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا اور اپنے  رب کو پسند تھا  (ف ۹۲)

۹۱               اور اپنی قوم جُرہم کو جن کی طرف آپ مبعوث تھے۔

۹۲               بسبب اپنے طاعت و اعمال و صبر و استقلال و احوال و خصال کے۔

(۵۶) اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو (ف ۹۳) بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔

۹۳               آپ کا نام اخنوخ ہے، آپ حضرت نوح علیہ السلام کے والد کے دادا ہیں، حضرت آدم علیہ السلام کے بعد آپ ہی پہلے رسول ہیں، آپ کے والد حضرت شیث بن آدم علیہ السلام ہیں، سب سے پہلے جس شخص نے قلم سے لکھا وہ آپ ہی ہیں، کپڑوں کے سینے اور سلے کپڑے پہننے کی ابتداء بھی آپ ہی سے ہوئی، آپ سے پہلے لوگ کھالیں پہنتے تھے، سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے ترازو اور پیمانے قائم کرنے والے اور علمِ نجوم و حساب میں نظر فرمانے والے بھی آپ ہی ہیں، یہ سب کام آپ ہی سے شروع ہوئے، اللہ تعالی نے آپ پر تیس صحیفے نازِل کئے اور کتبِ الٰہیہ کی کثرتِ درس کے باعث آپ کا نام ادریس ہوا۔

(۵۷) اور ہم نے  اسے  بلند مکان پر اٹھا لیا (ف ۹۴)

۹۴               دنیا میں انہیں علوِ مرتبت عطا کیا یا یہ معنی ہیں کہ آسمان پر اٹھا لیا اور یہی صحیح تر ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے شبِ معراج حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمانِ چہارم پر دیکھا۔ حضرت کعب احبار وغیرہ سے مروی ہے کہ حضرت ادریس علیہ الصلوٰۃ و السلام نے مَلک الموت سے فرمایا کہ میں موت کا مزہ چکھنا چاہتا ہوں کیسا ہوتا ہے ؟ تم میری روح قبض کر کے دکھاؤ انہوں نے اس حکم کی تعمیل کی اور روح قبض کر کے اسی وقت آپ کی طرف لوٹا دی آپ زندہ ہو گئے فرمایا کہ اب مجھے جہنّم دکھاؤ تاکہ خوفِ الٰہی زیادہ ہو چنانچہ یہ بھی کیا گیا جہنّم دیکھ کر آپ نے مالکِ داروغۂ جہنّم سے فرمایا کہ دروازہ کھولو میں اس پر گزرنا چاہتا ہوں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ اس پر سے گزرے پھر آپ نے مَلک الموت سے فرمایا کہ مجھے جنّت دکھاؤ وہ آپ کو جنّت میں لے گئے آپ دروازے کھلوا کر جنّت میں داخل ہوئے تھوڑی دیر انتظار کر کے مَلک الموت نے کہا کہ آپ اب اپنے مقام پر تشریف لے چلئے فرمایا اب میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ وہ میں چکھ ہی چکا ہوں اور یہ فرمایا ہے وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدھُا ہر شخص کو جہنّم پر گزرنا ہے تو میں گزر چکا اب میں جنّت میں پہنچ گیا اور جنّت میں پہنچنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَمَا ھُمْ مِّنْھَا بِمُخْرَجِیْن کہ وہ جنّت سے نکالے نہ جائیں گے اب مجھے جنّت سے چلنے کے لئے کیوں کہتے ہو ؟ اللہ تعالیٰ نے مَلک الموت کو وحی فرمائی کہ حضرت ادریس علیہ السلام نے جو کچھ کیا میرے اذن سے کیا اور وہ میرے اذن سے جنّت میں داخل ہوئے انہیں چھوڑ دو وہ جنّت ہی میں رہیں گے چنانچہ آپ وہاں زندہ ہیں۔

(۵۸) یہ  ہیں  جن پر  اللہ  نے   احسان  کیا  غیب کی خبریں بتانے   میں  سے   آدم  کی  اولاد  سے   (ف ۹۵)  اور ان میں جن کو ہم نے  نوح کے  ساتھ سوار کیا تھا (ف ۹۶) اور ابراہیم (ف ۹۷) اور یعقوب کی اولاد سے  (ف ۹۸) اور ان میں سے  جنہیں ہم نے  راہ دکھائی اور چن لیا (ف ۹۹) جب ان پر رحمن کی آیتیں پڑھی جاتیں گر پڑتے  سجدہ کرتے  اور روتے  (ف ۱۰۰) (السجدۃ)  ۵

۹۵               یعنی حضرت ادریس و حضرت نوح۔

۹۶               یعنی ابراہیم علیہ السلام جو حضرت نوح علیہ السلام کے پوتے اور آپ کے فرزند سام کے فرزند ہیں۔

۹۷               کی اولاد سے حضرت اسمٰعیل و حضرت اسحٰق اور حضرت یعقوب۔

۹۸               حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون اور حضرت زکریا اور حضرت یحیٰ اور حضرت عیسیٰ صلوٰۃ اللہ علیہم و سلامہ۔

۹۹               شرحِ شریعت و کشفِ حقیقت کے لئے۔

۱۰۰             اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں خبر دی کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو سن کر خضوع و خشوع اور خو ف سے روتے اور سجدے کرتے تھے۔

مسئلہ : اس سے ثابت ہوا کہ قرآنِ پاک بخشوعِ قلب سننا اور رونا مستحب ہے۔

(۵۹)  تو ان کے  بعد ان کی جگہ وہ نا خلف آئے  (ف ۱۰۱) جنہوں نے  نمازیں گنوائیں اور اپنی خواہشوں کے  پیچھے  ہوئے  (ف ۱۰۲) تو عنقریب وہ دوزخ میں غی کا جنگل پائیں گے  (ف ۱۰۳)

۱۰۱             مثل یہود و نصاریٰ وغیرہ کے۔

۱۰۲             اور بجائے طاعتِ الٰہی کے مَعاصی کو اختیار کیا۔

۱۰۳             حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا غی جہنّم میں ایک وادی ہے جس کی گرمی سے جہنّم کے وادی بھی پناہ مانگتے ہیں یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو زنا کے عادی اور اس پر مُصِر ہوں اور جو شراب کے عادی ہوں اور جو سود خوار، سود کے خوگر ہوں اور جو والدین کی نافرمانی کرنے والے ہوں اور جو جھوٹی گواہی دینے والے ہوں۔

(۶۰) مگر جو  تائب ہوئے  اور ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  تو یہ لوگ جنت میں جائیں گے  اور انہیں کچھ نقصان نہ دیا جائے  گا (ف ۱۰۴)

۱۰۴             اور ان کے اعمال کی جزا میں کچھ بھی کمی نہ کی جائے گی۔

(۶۱) بسنے  کے  باغ جن کا وعدہ رحمن نے  اپنے  (ف ۱۰۵) بندوں سے  غیب میں کیا (ف ۱۰۶) بیشک اس کا وعدہ آنے  والا ہے۔

۱۰۵             ایماندار صالح و تائب۔

۱۰۶             یعنی اس حال میں جنّت ان سے غائب ہے ان کی نظر کے سامنے نہیں یا اس حال میں کہ وہ جنّت سے غائب ہیں اس کا مشاہدہ نہیں کرتے۔

(۶۲) وہ اس میں کوئی بیکار بات نہ سنیں گے  مگر سلام (ف ۱۰۷) اور انہیں اس میں ان کا رزق ہے  صبح و شام (ف ۱۰۸)

۱۰۷             ملائکہ کا یا آپس میں ایک دوسرے کا۔

۱۰۸             یعنی علَی الدوام کیونکہ جنّت میں رات اور دن نہیں ہیں اہلِ جنّت ہمیشہ نور ہی میں رہیں گے یا مراد یہ ہے کہ دنیا کے دن کی مقدار میں دو مرتبہ بہشتی نعمتیں ان کے سامنے پیش کی جائیں گی۔

(۶۳) یہ وہ باغ ہے  جس کا وارث ہم اپنے  بندوں میں سے  اسے  کریں گے  جو پرہیزگار ہے۔

(۶۴) (اور جبریل نے  محبوب سے  عرض کی (ٖف ۱۰۹) ہم فرشتے  نہیں اترتے  مگر حضور کے  رب کے  حکم سے  اسی کا ہے  جو ہمارے  آگے  ہے  اور جو ہمارے  پیچھے  اور جو اس کے  درمیان ہے  (ف ۱۱۰) اور حضور کا رب بھولنے  والا نہیں (ف ۱۱۱)

۱۰۹             شانِ نُزول : بخاری شریف میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے جبریل سے فرمایا ا ے جبریل تم جتنا ہمارے پاس آیا کرتے ہو اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے ؟ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی۔

۱۱۰             یعنی تمام اماکن کا وہی مالک ہے، ہم ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف نقل و حرکت کرنے میں اس کے حکم و مشیت کے تابع ہیں، وہ ہر حرکت و سکون کا جاننے والا اور غفلت و نسیان سے پاک ہے۔

۱۱۱             جب چاہے ہمیں آپ کی خدمت میں بھیجے۔

(۶۵) آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے  بیچ میں ہے  سب کا مالک تو اے  پوجو اور اس کی بندگی پر ثابت رہو، کیا اس کے  نام کا  دوسرا جانتے  ہو (ف ۱۱۲)

۱۱۲             یعنی کسی کو اس کے ساتھ اسمی شرکت بھی نہیں اور اس کی وحدانیت اتنی ظاہر ہے کہ مشرکین نے بھی اپنے کسی معبودِ باطل کا نام اللہ نہیں رکھا۔

(۶۶) اور آدمی کہتا ہے  کیا جب میں مر جاؤں گا تو ضرور عنقریب جِلا کر نکالا جاؤں گا (ف ۱۱۳)

۱۱۳             انسان سے یہاں مراد وہ کُفّار ہیں جو موت کے بعد زندہ کئے جانے کے منکِر تھے جیسے کہ اُبی بن خلف اور ولید بن مغیرہ انہیں لوگوں کے حق میں یہ آیت نازِل ہوئی اور یہی اس کی شانِ نُزول ہے۔

(۶۷) اور کیا  آدمی کو یاد نہیں کہ ہم نے  اس سے  پہلے  اسے  بنایا اور وہ کچھ نہ تھا (ف ۱۱۴)

۱۱۴             تو جس نے معدوم کو موجود فرمایا اس کی قدرت سے مردہ کو زندہ کر دینا کیا تعجب۔

(۶۸) تو تمہارے  رب کی قسم ہم انہیں (ف ۱۱۵) اور شیطانوں سب کو گھیر لائیں گے  (ف ۱۱۶) اور انہیں دوزخ کے  آس پاس حاضر کریں گے  گھٹنوں کے  بل گرے۔

۱۱۵             یعنی منکرینِ بعث کو۔

۱۱۶             یعنی کُفّار کو ان کے گمراہ کرنے والے شیاطین کے ساتھ اس طرح کہ ہر کافِر شیطان کے ساتھ ایک زنجیر میں جکڑا ہو گا۔

(۶۹) پھر ہم (ف ۱۱۷) ہر گروہ سے  نکالیں گے  جو ان میں رحمن پر سب سے  زیادہ بے  باک ہو گا (ف ۱۱۸)

۱۱۷             کُفّار کے۔

۱۱۸             یعنی دخولِ نار میں جو سب سے زیادہ سرکش اور کُفر میں اشد ہو گا وہ مقدّم کیا جائے گا۔ بعض روایات میں ہے کہ کُفّار سب کے سب جہنّم کے گرد زنجیروں میں جکڑے طوق ڈالے ہوئے حاضر کئے جائیں گے پھر جو کُفر و سرکشی میں اشد ہوں گے وہ پہلے جہنّم میں داخل کئے جائیں گے۔

(۷۰) پھر ہم خوب جانتے  ہیں جو اس آگ میں بھوننے  کے  زیادہ لائق ہیں۔

(۷۱) اور تم میں کوئی ایسا نہیں جس کا گزر دوزخ پر نہ ہو (ف ۱۱۹) تمہارے  رب کے  ذمہ پر یہ ضرور ٹھہری ہوئی بات ہے  (ف ۱۲۰)

۱۱۹             نیک ہو یا بد مگر نیک سلامت رہیں گے اور جب ان کا گزر دوزخ پر ہو گا تو دوزخ سے صدا اٹھے گی کہ اے مومن گزر جا کہ تیرے نور نے میری لپٹ سرد کر دی۔ حسن و قتادہ سے مروی ہے کہ دوزخ پر گزرنے سے پل صراط پر گزرنا مراد ہے جو دوزخ پر ہے۔

۱۲۰             یعنی ورودِ جہنّم قضائے لازم ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر لازم کیا ہے۔

(۷۲) پھر ہم ڈر والوں کو بچا لیں گے  (ف ۱۲۱) اور ظالموں کو اس میں چھوڑ دیں گے  گھٹنوں کے  بل گرے۔

۱۲۱             یعنی ایمانداروں کو۔

(۷۳) اور جب ان پر ہماری روشن آیتیں پڑھی جاتی ہیں (ف ۱۲۲) کافر مسلمانوں سے  کہتے  ہیں کون سے  گروہ کا مکان اچھا اور مجلس بہتر ہے  (ف ۱۲۳)

۱۲۲             مثل نضر بن حارث وغیرہ کُفّارِ قریش۔ بناؤ سنگار کر کے، بالوں میں تیل ڈال کر، کنگھیاں کر کے، عمدہ لباس پہن کر، فخر و تکبُّر کے ساتھ، غریب فقیر۔

۱۲۳             مدعا یہ ہے کہ جب آیات نازِل کی جاتی ہیں اور دلائل و براہین پیش کئے جاتے ہیں تو کُفّار ان میں تو فکر نہیں کرتے اور ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور بجائے اس کے دولت و مال اور لباس و مکان پر فخر و تکبُّر کرتے ہیں۔

(۷۴) اور ہم نے  ان سے  پہلے  کتنی سنگتیں کھپا دیں (قومیں ہلاک کر دیں ) (ف ۱۲۴) کہ وہ ان سے  بھی سامان اور نمود میں بہتر تھے۔

۱۲۴             اُمّتیں ہلاک کر دیں۔

(۷۵) تم فرماؤ جو گمراہی میں ہو تو اسے  رحمن خوب ڈھیل دے  (ف ۱۲۵) یہاں تک کہ جب وہ دیکھیں وہ چیز جس کا انہیں وعدہ دیا جاتا ہے  یا تو عذاب (ف ۱۲۶) یا قیامت (ف ۱۲۷) تو اب جان لیں گے  کہ کس کا برا درجہ ہے  اور کس کی فوج کمزور (ف ۱۲۸)

۱۲۵             دنیا میں اس کی عمر دراز کر کے اور اس کو اس کی گمراہی و طغیان میں چھوڑ کر۔

۱۲۶             دنیا کا قتل و گرفتاری۔

۱۲۷             جو طرح طرح کی رسوائی اور عذاب پر مشتمل ہے۔

۱۲۸             کُفّار کی شیطانی فوج یا مسلمانوں کا مُلکی لشکر۔ اس میں مشرکین کے اس قول کا رد ہے جو انہوں نے کہا تھا کہ کون سے گروہ کا مکان اچھا اور مجلس بہتر ہے۔

(۷۶) اور جنہوں نے  ہدایت پائی (ف ۱۲۹)  اللہ  انھیں اور ہدایت بڑھائے  گا (ف ۱۳۰) اور باقی رہنے  وا لی نیک باتوں کا (ف ۱۳۱) تیرے  رب کے  یہاں سب سے  بہتر ثواب اور سب سے  بھلا انجام (ف ۱۳۲)

۱۲۹             اور ایمان سے مشرف ہوئے۔

۱۳۰             اس پر استقامت عطا فرما کر اور مزید بصیرت و توفیق دے کر۔

۱۳۱             طاعتیں اور آخرت کے تمام اعمال اور پنجگانہ نمازیں اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید اور اس کا ذکر اور تمام اعمالِ صالحہ یہ سب باقیاتِ صالحات ہیں کہ مومن کے لئے باقی رہتے ہیں اور کام آتے ہیں۔

۱۳۲             بخلاف اعمالِ کُفّار کے کہ وہ سب نکمے اور باطل ہیں۔

(۷۷) تو کیا تم نے  اسے  دیکھا جو ہماری آیتوں سے  منکر ہوا اور کہتا ہے  مجھے  ضرو ر مال و اولاد ملیں گے  (ف ۱۳۳)

۱۳۳             شانِ نُزول : بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت خبّاب بن ارت کا زمانۂ جاہلیت میں عاص بن وائل سہمی پر قرض تھا وہ اس کے پاس تقاضے کو گئے تو عاص نے کہا کہ میں تمہارا قرض نہ ادا کروں گا جب تک کہ تم سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے پھر نہ جاؤ اور کُفر اختیار نہ کرو حضرت خبّاب نے فرمایا ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ تو مرے اور مرنے کے بعد زندہ ہو کر اٹھے وہ کہنے لگا کیا میں مرنے کے بعد پھر اٹھوں گا ؟ حضرت خبّاب نے کہا ہاں عاص نے کہا تو پھر مجھے چھوڑیئے یہاں تک کہ میں مر جاؤں اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہوں اور مجھے مال و اولاد ملے جب ہی آپ کا قرض ادا کروں گا۔ اس پر یہ آیاتِ کریمہ نازِل ہوئیں۔

(۷۸) کیا غیب کو جھانک آیا ہے  (ف ۱۳۴) یا رحمن کے  پاس کوئی قرار رکھا ہے۔

۱۳۴             اور اس نے لوحِ محفوظ میں دیکھ لیا ہے کہ آخرت میں اس کو مال و اولاد ملے گی۔

(۷۹) ہرگز نہیں (ف ۱۳۵) اب ہم لکھ رکھیں گے  جو وہ کہتا ہے  اور اسے  خوب لمبا عذاب دیں گے۔

۱۳۵             ایسا نہیں ہے تو۔

(۸۰) اور جو چیزیں کہہ رہا ہے  (ف ۱۳۶) ان کے  ہمیں وارث ہوں گے  اور ہمارے  پاس اکیلا آئے  گا (ف ۱۳۷) (۸۱) اور اللہ کے  سوا اور خدا بنا لیے  (ف ۱۳۸) کہ وہ انہیں زور دیں (ف ۱۳۹)

۱۳۶             یعنی مال و اولاد ان سب سے اس کی مِلک اور اس کا تصرُّف اس کے ہلاک ہونے سے اٹھ جائے گا اور۔

۱۳۷             کہ نہ اس کے پاس مال ہو گا نہ اولاد اور اس کا یہ دعویٰ کرنا جھوٹا ہو جائے گا۔

۱۳۸             یعنی مشرکوں نے بُتوں کو معبود بنایا اور ان کی عبادت کرنے لگے اس امید پر۔

۱۳۹             اور ان کی مدد کریں اور انہیں عذاب سے بچائیں۔

(۸۲) ہرگز نہیں (ف ۱۴۰) کوئی دم جاتا ہے   کہ وہ (ف ۱۴۱) ان کی بندگی سے  منکر ہوں گے  اور ان کے  مخالفت ہو جائیں گے  (ف ۱۴۲)

۱۴۰             ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔

۱۴۱             بُت جنہیں یہ پوجتے تھے۔

۱۴۲             انہیں جھٹلائیں گے اور ان پر لعنت کریں گے اللہ تعالیٰ انہیں زبان دے گا اور وہ کہیں گے یاربّ انہیں عذاب کر۔

(۸۳) کیا تم نے  نہ دیکھا کہ ہم نے  کافروں پر شیطان بھیجے  (ف ۱۴۳) کہ وہ انہیں خوب اچھالتے  ہیں (ف ۱۴۴)

۱۴۳             یعنی شیاطین کو ان پر چھوڑ دیا اور مسلّط کر دیا۔

۱۴۴             اور مَعاصی پر ابھارتے ہیں۔

(۸۴) تو تم ان پر جلدی نہ کرو، ہم تو ان کی گنتی پوری کرتے  ہیں (ف ۱۴۵)

۱۴۵             اعمال کی جزا کے لئے یا سانسوں کی فنا کے لئے یا دنوں مہینوں اور برسوں کی اس میعاد کے لئے جو ان کے عذاب کے واسطے مقرر ہے۔

(۸۵) جس دن ہم پرہیزگاروں کو رحمن کی طرف لے  جائیں گے  مہمان بنا کر (ف ۱۴۶)

۱۴۶             حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ مومنینِ متّقین حشر میں اپنی قبروں سے سوار کر کے اٹھائیں جائیں گے اور ان کی سواریوں پر طلائی مرصّع زینیں اور پالان ہوں گے۔

(۸۶) اور مجرموں کو جہنم کی طرف ہانکیں گے  پیاسے  (ف ۱۴۷)

۱۴۷             ذلّت و اہانت کے ساتھ بسبب ان کے کُفر کے۔

(۸۷) لوگ شفاعت کے  مالک نہیں مگر وہی جنہوں نے  رحمن کے  پاس قرار رکھا ہے  (ف ۱۴۸)

۱۴۸             یعنی جنہیں شفاعت کا اذن مل چکا ہے وہی شفاعت کریں گے یا یہ معنیٰ ہیں کہ شفاعت صرف مومنین کی ہو گی اور وہی اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ حدیث شریف میں ہے جو ایمان لایا، جس نے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہا اس کے لئے اللہ کے نزدیک عہد ہے۔

(۸۸) اور کافر بولے  (ف ۱۴۹) رحمن نے  اولاد اختیار کی۔

۱۴۹             یعنی یہودی و نصرانی و مشرکین جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے کہ۔

(۸۹) بیشک تم حد کی بھاری بات لائے  (ف ۱۵۰)

۱۵۰             اور انتہا درجہ کا باطل و نہایت سخت و شنیع کلمہ تم نے منہ سے نکالا۔

(۹۰) قریب ہے  کہ آسمان اس سے  پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے  اور پہاڑ گر جائیں ڈھہ کر (مسمار ہو کر) (ف ۱۵۱)

۱۵۱             یعنی یہ کلمہ ایسی بے ادبی و گستاخی کا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ غضب فرمائے تو اس پر تمام جہان کا نظام درہم برہم کر دے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ کُفّار نے جب یہ گستاخی کی اور ایسا بے باکانہ کلمہ منہ سے نکالا تو جن و انس کے سوا آسمان، زمین، پہاڑ وغیرہ تمام خَلق پریشانی سے بے چین ہو گئی اور قریب ہلاکت کے پہنچ گئی ملائکہ کو غضب ہوا اور جہنّم کو جوش آیا پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی تنزیہ بیان فرمائی۔

(۹۱) اس پر کہ انہوں نے  رحمن کے  لیے  اولاد بتائی۔

(۹۲) اور رحمن کے  لائق نہیں کہ اولاد اختیار کرے  (ف ۱۵۲)

۱۵۲             وہ اس سے پاک ہے اور اس کے لئے اولاد ہونا مَحال ہے ممکن نہیں۔

(۹۳)  آسمانوں اور زمین میں جتنے  ہیں سب اس کے  حضور بندے  ہو کر حاضر ہوں گے، (ف ۱۵۳)

۱۵۳             بندہ ہونے کا اقرار کرتے ہوئے اور بندہ ہونا اور اولاد ہونا جمع ہو ہی نہیں سکتا اور اولاد مملوک نہیں ہوتی تو جو مملوک ہے ہر گز اولاد نہیں۔

(۹۴) بیشک وہ ان کا شمار جانتا ہے  اور ان کو ایک ایک کر کے  گن رکھا  ہے  (ف ۱۵۴)

۱۵۴             سب اس کے علم میں محصور و محاط ہیں اور ہر ایک کے انفاس، ایام، آثار اور تمام احوال اور جملہ امور اس کے شمار میں ہیں اس پر کچھ مخفی نہیں سب اس کی تدبیر و قدرت کے تحت میں ہیں۔

(۹۵)  اور ان میں ہر ایک روز قیامت اس کے  حضور اکیلا حاضر ہو گا (ف ۱۵۵)

۱۵۵             بغیر مال و اولاد اور معین و ناصر کے۔

(۹۶) بیشک وہ جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  عنقریب ان کے  لیے  رحمن محبت کر دے  گا (ف ۱۵۶)

۱۵۶             یعنی اپنا محبوب بنائے گا اور اپنے بندوں کے دل میں ان کی مَحبت ڈال دے گا۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو محبوب کرتا ہے تو جبریل سے فرماتا ہے کہ فلانا میرا محبوب ہے جبریل اس سے مَحبت کرنے لگتے ہیں پھر حضرت جبریل آسمانوں میں ندا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں کو محبوب رکھتا ہے سب اس کو محبوب رکھیں تو آسمان والے اس کو محبوب رکھتے ہیں پھر زمین میں اس کی مقبولیت عام کر دی جاتی ہے۔

 مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ مومنینِ صالحین و اولیائے کاملین کی مقبولیتِ عامہ ان کی محبوبیت کی دلیل ہے جیسے کہ حضور غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سلطان نظام الدین دہلوی اور حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور دیگر حضرات اولیائے کاملین کی عام مقبولیتیں ان کی محبوبیت کی دلیل ہیں۔

(۹۷) تو ہم نے  یہ قرآن تمہاری زبان میں یونہی آسان فرمایا کہ تم اس سے  ڈر والوں کو خوشخبری دو اور جھگڑالو  لوگوں کو اس سے  ڈر سناؤ۔

(۹۸) اور ہم نے  ان سے  پہلے  کتنی سنگتیں کھپائیں (قومیں ہلاک کیں ) (ف ۱۵۷) کیا تم ان میں کسی کو دیکھتے  ہو یا ان کی بھنک (ذرا بھی آواز) سنتے  ہو (ف ۱۵۸)

۱۵۷             تکذیبِ انبیاء کی وجہ سے کتنی بہت سی اُمّتیں ہلاک کیں۔

۱۵۸             وہ سب نیست و نابود کر دیئے گئے اسی طرح یہ لوگ اگر وہی طریقہ اختیار کریں گے تو ان کا بھی وہی انجام ہو گا۔