دعوۃ القرآن

سورة مَریَم

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

اس سورہ میں حضرت مریم اور ولادتِ مسیح کا قصہ بیان ہوا ہے اس مناسبت سے سورہ کا نام مریم قرار پایا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور ہجرت حبشہ سے پہلے نازل ہوئی تھی۔

 

مرکزی مضمون

 

واقعات کی روشنی میں نصاریٰ کے باطل عقائد کی تردید کرنا ہے اور ساتھ ہی مشرکین کو ان کی گمراہیوں پر متنبہ کرنا ہے۔ اس میں دعوت کے تینوں اجزاء توحید، رسالت اور آخرت ابھر کر سامنے آ گئے ہیں۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ حروفِ مقطعات پر مشتمل ہے۔ آیت ۲ تا ۱۵ میں حضرت یحیٰ کی ولادت کا قصہ بیان ہوا ہے جو ولادتِ مسیح کے واقعہ کی تمہید ہے۔

 

آیت ۱۶ تا ۳۶ میں حضرت مریم اور ولادتِ مسیح کا قصہ بیان ہوا ہے۔

 

آیت ۳۷ تا ۴۰ میں نصاریٰ کو ان کے اختلافات پر متنبہ کیا گیا ہے۔

 

آیت ۴۱ تا۵۰ میں حضرت ابراہیم کی دعوتِ توحید اور اس کے نتیجہ میں پیش آنے والا ہجرت کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔

 

آیت ۵۱ تا۶۳ میں حضرت موسیٰ اور دیگر انبیاء علیہم اسلام کا ذ کر ہوا ہے جس سے ایک طرف سلسلۂ رسالت کو بیان کرنا مقصود ہے اور دوسری طرف ان کی تعلیمات سے انحراف کرنے والوں کو ہلاکت سے آگاہ کرنا اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والوں کو کامیابی کی خوشخبری دینا ہے۔

 

آیت ۶۴ تا ۶۶ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو صبر و استقامت کی ہدایت ہے۔

 

آیت ۶۷ تا ۹۸ میں منکرینِ آخرت کے شبہات کو دور کرتے ہوئے ایمان و یقین پیدا کرنے والے احوال پیش کئے گئے ہیں۔

 

شاہِ حبش کے دربار میں سورہ مریم کا سنایا جانا

 

مکہ میں جب مسلمانوں پر مشرکین کے مظالم بڑھ گئے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ اگر تم حبش کی طرف نکل جاؤ تو اچھا ہے کیونکہ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کی حکومت میں کوئی ظلم نہیں کر سکتا۔ چنانچہ مسلمانوں کا ایک قافلہ حبش پہنچ گیا۔ یہ نبوت کے پانچویں سال کا واقعہ ہے۔ قریش نے بھی اپنا ایک وفد شاہ حبش کے پاس بھیجا تاکہ ان مہاجرین کو وہ واپس کر دے۔ وفد نے بادشاہ کو ہدیئے اور نذرانے پیش کئے اور اس سے کہا کہ چند نوجوان ہمارے ملک سے بھاگ آئے ہیں۔ انہوں نے اپنا دین بدل دیا ہے لہٰذا انہیں ہمارے حوالہ کر دیا جائے۔

 

بادشاہ نے جو نجاشی کہلاتا تھا اور عیسیٰ علیہ السلام کا پیرو تھا مہاجر مسلمانوں کو بلا بھیجا اور ان سے پوچھا کہ یہ تم نے کون سا دین اختیار کیا ہے ؟ اس وقت حضرت جعفر بن ابی طالب نے بڑی مؤثر تقریر کی جس میں انہوں نے زمانۂ جاہلیت کے حالات بتلاتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت اور اسلام کی ان خوبیوں کا ذ کر کیا جس نے ان کی زندگیوں کو بالکل بدل دیا اور ان کے اندر بہترین اوصاف پیدا کئے۔ نجاشی نے کہا مجھے اس کلام کا کچھ حصہ تو سناؤ جو تمہارے نبی پر نازل ہوا ہے۔ حضرت جعفر نے سورۂ مریم کا ابتدائی حصہ سنایا۔ نجاشی اس کلام کو سن کر رو پڑا اور دربار کے پادریوں پر بھی رقت طاری ہو گئی۔ نجاشی نے کہا بلا شبہ یہ کلام اور جو کچھ حضرت عیسیٰ لائے تھے ایک ہی نور کی کرنیں ہیں۔ پھر اس نے قریش کے قاصدوں سے کہا میں ان لوگوں کو ہرگز تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔ اس نے ان کے ہدئے بھی یہ کہ کر واپس کر دئے کہ مجھے رشوت کی ضرورت نہیں ہے اور مسلمان مہاجرین سے کہا تم امن و چین سے رہ سکتے ہو۔

 

کلام الٰہی کی یہ وہ تاثیر تھی جس کے آگے شاہ و گدا سب بے بس تھے ! (ہجرت حبشہ کا واقعہ تفصیل سے سیرت ابن ہشام ج ا ص ۳۴۳ تا ۳۶۴ میں بیان ہوا ہے۔)

ترجمہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ کاف۔ با۔ یا۔ عین۔ صاد ۱ *

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ یہ تمہارے رب کی اس رحمت کا ذ کر ہے جو اس نے اپنے بندہ ز کریا پر کی تھی۔ ۲ *

 

۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اس نے اپنے رب کو چپ کے چپ کے پکارا۔ ۳*

 

۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے دعا کی اے میرے رب ! میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے سفید ہو گیا ہے اور اے رب ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے تجھے پکارا ہو اور محروم رہا ہوں۔ ۴*

 

۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے اندیشہ ہے۔ ۵* اور میری بیوی بانجھ ہے ۶* تو تو خاص اپنی طرف سے مجھے وارث عطا کر۔ ۷*

 

۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو میرا وارث بھی ہو اور آل یعقوب کا بھی ۸* اور اے رب اسے پسندیدہ بنا۔ ۹*

 

۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ز کریا ہم تمہیں ایک لڑ کے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہو گا ۱۰* ہم نے اس سے پہلے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا۔ ۱۱ *

 

۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے عرض کیا اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہو گا جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہاء کو پہنچ چکا ہوں !۱۲*

 

۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا ایسا ہی ہو گا۔ ۱۳* تمہارا رب فرماتا ہے کہ یہ میرے لیے آسان ہے۔ میں اس سے پہلے تمہیں پیدا کر چکا ہوں جب کہ تم کچھ بھی نہ تھے۔ ۱۴*

 

۱۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے عرض کیا اے میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی مقرر کر دے۔ ۱۵* فرمایا تمہارے لیے نشانی یہ ہے کہ تم تین شب و روز لوگوں سے بات نہ کر سکو گے۔ ۱۶*

 

۱۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ عبادت کے حجرہ سے نکل کر اپنی قوم کے سامنے آیا اور ان سے اشارہ سے کہا کہ صبح و شام تسبیح کرو۔ ۱۷*

 

۱۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے یحیٰ کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو ۱۸*  اور ہم نے اس کو بچپن ہی سے حکمت عطا فرمائی۔ ۱۹*

 

۱۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور خاص اپنے پاس سے نرم دلی ۲۰* اور پاکیزگی۔ *۲۱ اور وہ بڑا پرہیز گار تھا۔ ۲۲*

 

۱۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا تھا۔ خود سر و نافرمان نہ تھا۔ ۲۳*

 

۱۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سلامتی ہے اس پر جس دن وہ پیدا ہوا جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا۔ ۲۴*

 

۱۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اے پیغمبر!) کتاب میں مریم کا ذ کر کرو ۲۵* جبکہ وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر مشرقی جانب گوشہ نشین ہو گئی۔ ۲۶*

 

۱۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس نے ان سے پردہ کر لیا۔ ۲۷* تو ہم نے اس کے پاس اپنی روح (فرشتہ) کو بھیجا اور وہ اس کے سامنے ٹھیک آدمی کی شکل میں ظاہر ہو گیا۔

 

۱۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بول اٹھی اگر تو خدا سے ڈرنے والا ہے تو میں تجھ سے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں۔ ۲۸*

 

۱۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا میں تو تمہارے رب کا فرستادہ ہوں تاکہ تمہیں ایک پاکیزہ لڑکا دوں۔ ۲۹*

 

۲۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بولی میرے ہاں لڑکا کیسے ہو گا جبکہ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں اور نہ میں بدکار ہوں۔ ۳۰*

 

۲۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا ایسا ہی ہو گا۔ ۳۱* تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیے آسان ہے اور ہم یہ اس لیے کریں گے کہ اس کو لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں۔ ۳۲* اور اپنی طرف سے رحمت ۳۳* اور یہ بات طے پاچکی یہ۔ ۳۴*

 

۲۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس کے حمل ٹھہر گیا اور وہ اس کو لئے ہوئے دور کے مقام کو چلی گئی۔ ۳۵ *

 

۲۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اسے درد زہ کھجور کے تنے کے پاس لے گیا۔ وہ کہنے لگی کاش! میں اس سے پہلے مر چکی ہوتی اور بھولی بسری بن گئی ہوتی۔ ۳۶*

 

۲۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت فرشتہ نے اسے نیچے سے پکارا غمگین نہ ہو۔ تمہارے رب نے تمہارے نیچے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے۔ ۳۷*

 

۲۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلالو۔ تر و تازہ کھجوریں تم پر جھڑ پڑیں گی۔ ۳۸*

 

۲۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پس کھاؤ اور پیو اور (اپنی) آنکھیں ٹھنڈی کرو ۳۹* پھر اگر کوئی آدمی نظر آئے تو کہ دو میں نے رحمن کے لیے روزہ کی نذر مانی ہے اس لیے آج کسی انسان سے بات نہیں کروں گی۔ ۴۰*

 

۲۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ اس کو لیے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئی۔ لوگ کہنے لگے اے مریم ! تو نے یہ عجیب حرکت کی۔ ۴۱*

 

۲۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہارون کی بہن! ۴۲* نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بد کار عورت تھی۔ ۴۳*

 

۲۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے اس (بچہ) کی طرف اشارہ کیا۔ ۴۴* لوگوں نے کہا ہم اس سے کیا بات کریں جو ابھی گہوارہ میں بچہ ہے۔ ۴۵*

 

۳۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بچہ بول اٹھا میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا۔ ۴۶*

 

۳۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مجھے بابرکت کیا جہاں کہیں بھی رہوں۔ ۴۷* اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے جب تک میں زندہ رہوں۔ ۴۸*

 

۳۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس نے مجھے اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا بنایا۔ ۴۹* سرکش اور بد بخت نہیں بنایا۔

 

۳۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سلامتی ہے مجھ پر جس دن پیدا ہوا" جس دن میں مروں گا اور جس دن زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔ ۵۰*

 

۳۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے عیسیٰ بن مریم۔ (اور یہ ہے) حق بات جس کے بارے میں لوگ جھگڑ رہے ہیں۔ ۵۱*

 

۳۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے یہ شایانِ شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ ۵۲* وہ پاک ہے۔ جب وہ کسی بات کا فیصلہ کر لیتا ہے تو بس فرماتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔ ۵۳*

 

۳۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (عیسیٰ نے صاف صاف کہا تھا) اللہ میر رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ تو اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھی راہ ہے۔ ۵۴*

 

۳۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر مختلف فرقوں نے باہم اختلاف کیا۔ ۵۵* تو جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے ایک سخت دن کی حاضری تباہی کا سبب ہو گی۔ ۵۶*

 

۳۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس دن یہ ہمارے حضور حاضر ہوں گے اس دن وہ خوب سنیں گے اور خوب دیکھیں گے ۵۷*۔ مگر آج یہ ظالم کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔

 

۳۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور انہیں حسرت (پچھتاوے) کے دن سے خبردار کرو جبکہ فیصلہ چکا دیا جائے گا ۵۸* اور ان کا حال یہ ہے کہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور ایمان نہیں لاتے۔

 

۴۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلا شبہ ہم ہی زمین کے اور اس پر بسنے والوں کے وارث ہوں گے ۵۹* اور سب ہماری ہی طرف لوٹائے جائیں گے۔

 

۴۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اے نبی) کتاب میں ابراہیم کا ذ کر کرو۔ ۶۰* یقیناً وہ نہایت سچا تھا ۶۱* اور نبی تھا۔

 

۴۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اس نے اپنے باپ سے کہا ابا جان!آپ کیوں ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کے کچھ کام آ سکتی ہیں ؟ ۶۲*

 

۴۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابا جان! میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا۔ ۶۳* تو آپ میرے پیچھے چلیں میں آپ کو سیدھی راہ دکھاؤں گا۔

 

۴۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابا جان ! آپ شیطان کی پرستش نہ کیجئے۔ ۶۴* شیطان تو رحمن کا نافرمان ہے۔

 

۴۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابا جان! میں ڈرتا ہوں کہ رحمن کا عذاب آپ کو آ نہ پکڑے اور آپ شیطان کے ساتھی بن کر رہ جائیں۔

 

۴۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باپ نے کہا ابراہیم ! کیا تو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے۔ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ ۶۵* تو مجھ سے ہمیشہ کے لیے الگ ہو جا ۶۶*۔

 

۴۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم نے کہا سلام ہو آپ پر۔ میں آپ کے لیے اپنے رب سے معافی کی دعا کروں گا۔ ۶۷* وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔

 

۴۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں آپ لوگوں سے نیز ان سے جن کو آپ لوگ الہ کے سوا پکارتے ہیں الگ ہو جاتا ہوں اور اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں۔ امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کے محروم نہیں رہوں گا۔

 

۴۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب وہ ان سے نیز ان ( کے معبودوں) سے جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے تھے الگ ہو گیا تو ہم نے اس کو اسحق اور یعقوب عطا کئے ۶۸* اور ان میں سے ہر ایک کو نبی بنایا۔

 

۵۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کو اپنی رحمت سے نوازا اور ان کے لیے سچائی کی زبانیں بلند کر دیں۔ ۶۹*

 

۵۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کتاب میں موسیٰ کا ذ کر کرو۔ وہ چنا ہوا بندہ) تھا ۷۰* اور رسول اور نبی تھا۔ ۷۱*

 

۵۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اس کو طور کی داہنی جانب سے پکارا ۷۲* اور سرگوشی کے لیے قریب کیا۔ ۷۳*

 

۵۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اپنی رحمت سے اس کے بھائی ہارون کو نبی بنا کر اسے عطا کیا ۷۴*

 

۵۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کتاب میں اسمٰعیل کا ذ کر کرو۔ وہ وعدے کا سچا ۷۵* اور رسول اور نبی تھا۔

 

۵۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا ۷۶* اور اپنے رب کے نزدیک پسندیدہ تھا۔

 

۵۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کتاب میں ادریس کا ذ کر کرو ۷۷*۔ وہ نہایت سچا تھا اور نبی تھا۔

 

۵۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے اسے بلند مقام پر اٹھایا تھا۔ ۷۸*

 

۵۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہیں انبیاء میں سے وہ لوگ جن پر اللہ نے انعام فرمایا ۷۹* آدم کی اولاد میں سے ۸۰* اور ان لوگوں کی نسل سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں) سوار کرایا اور ابراہیم کی نسل سے اور اسرائیل کی نسل سے ۸۱* اور ان لوگوں میں سے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور منتخب کیا۔ ان کو جب رحمن کی آیتیں سنائی جاتیں تو وہ روتے ہوئے سجدہ میں گر جاتے۔ ۸۲*

 

۵۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ان کے بعد ایسے نا خلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز ضائع کر دی اور خواہشات کے پیچھے پڑ گئے۔ ۸۳* تو قریب ہے کہ یہ گمراہی کے انجام سے دو چار ہوں۔ ۸۴*

 

۶۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ جو لوگ توبہ کر لیں ، ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں وہ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کے ساتھ ذرا بھی نا انصافی نہ ہو گی۔ ۸۵*

 

۶۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشگی کے باغ جن کا رحمن نے اپنے بندوں سے غائبانہ وعدہ کر رکھا ہے یقیناً اس کا وعدہ پورا ہو کر رہنا ہے۔ ۸۶*

 

۶۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہاں وہ کوئی لغو بات نہیں سنیں گے۔ ۸۷* جو کچھ سنیں گے سلامتی ہی کی بات ہو گی۔ اور انہیں صبح و شام اپنا رزق ملتا رہے گا۔ ۸۸*

 

۶۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے ان کو بنائیں گے جو اللہ سے ڈرتے رہے۔ ۸۹*

 

۶۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اے پیغمبر!) ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر نہیں اترتے۔ ۹۰* جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ہے اور جو اس کے درمیان ہے سب اسی کا ہے اور آپ کا رب بھولنے والا نہیں۔ ۹۱*

 

۶۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ رب ہے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کا۔ تو اسی کی عبادت کرو اور اسی کی عبادت پر قائم رہو۔ کیا تمہارے علم میں اس کا ہم نا (اس جیسا) کوئی ہے ؟ ۹۲*

۶۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور انسان کہتا ہے کیا جب میں مر جاؤں گا تو پھر زندہ کر کے نکالا جاؤں گا۔

 

۶۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا انسان کو یاد نہیں کہ ہم اس سے پہلے اسے پیدا کر چکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا۔

 

۶۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارے رب کی قسم" ہم ان سب کو نیز شیطانوں کو ضرور اکٹھا کریں گے۔ پھر ان سب کو جہنم کے گرد اس طرح حاضر کریں گے کہ وہ گھٹنوں کے بل گرے ہوئی ہوں گے۔ ۹۳*

 

۶۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہر گروہ میں سے ان لوگوں کو الگ کریں گے جو رحمن کے خلاف بہت زیادہ سرکش بنے ہوئے تھے۔ ۹۴*

 

۷۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم ان لوگوں کو بخوبی جانتے ہیں جو جہنم میں جانے کے زیادہ سزاوار ہیں۔

 

۷۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم میں سے کوئی نہیں ہے جو اس پر وارد نہ ہو۔ یہ طے شدہ بات ہے جو تمہارے رب پر لازم ہے۔ ۹۵*

 

۷۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ۹۶* ہم ان لوگوں کو بچا لیں گے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا تھا۔ ۹۷* اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔ ۹۸*

 

۷۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ہماری روشن آیتیں ان لوگوں کو سنائی جاتی ہیں تو کفر کرنے والے ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ ہم دونوں فریقوں میں سے کون ہے جو بہتر مقام رکھتا ہے اور بہتر مجلس۔

 

۷۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ ہم اس سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو کہیں زیادہ سازو سامان رکھتی تھیں اور شان و شوکت میں کہیں بڑھ کر تھیں۔ ۹۹*

 

۷۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ گمراہی میں پڑتے ہیں رحمن انہیں ڈھیل دیا کرتا ہے ۱۰۰* یہاں تک کہ جب وہ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے خواہ وہ عذاب ہو ۱۰۱* یا قیامت کی گھڑی اس وقت انہیں پتہ چلے گا کہ کس کی جگہ بدتر اور کس کا جتھا نہایت کمزور ہے۔

 

۷۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ ہدایت کی راہ اختیار کرتے ہیں اللہ ان کی ہدایت میں اضافہ فرماتا ہے۔ ۱۰۲* اور باقی رہنے والی نیکیاں تمہارے رب کے نزدیک اجر کے اعتبار سے بھی بہتر ہیں اور انجام کے اعتبار سے بھی۔ ۱۰۳*

 

۷۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے دیکھا اس شخص کو جس نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور کہتا ہے کہ میں ضرور مال اور اولاد سے نوازا جاؤں گا۔ ۱۰۴*

 

۷۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا اس نے غیب میں جھانک کر دیکھا ہے یا رحمن سے کوئی عہد لے رکھا ہے۔ ۱۰۵*

 

۷۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہرگز نہیں۔ وہ جو کچھ کہتا ہے ہم اسے لکھ لیں گے اور اس کے عذاب میں مزید اضافہ کریں گے۔

 

۸۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس چیز کا وہ دعویٰ کرتا ہے اس کے وارث ہم ہوں گے۔ اور وہ ہمارے سامنے تنہا حاضر ہو گا۔ ۱۰۶

 

۸۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کے مدد گار ہوں۔

 

۸۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہرگز نہیں۔ وہ قیامت کے دن ان کی عبادت کا انکار کریں گے اور ان کے مخالف بن جائیں گے۔ ۱۰۷*

 

۸۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ ہم نے کافروں پر شیطانوں کو چھوڑ رکھا ہے جو انہیں اکساتے رہتے ہیں۔ ۱۰۸*

 

۸۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ان کے خلاف (فیصلہ کے لیے) تم جلدی نہ کرو۔ ہم ان کے دن گن رہے ہیں۔ ۱۰۹*

 

۸۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس دن ہم متقیوں کو رحمن کے حضور شاہی مہمانوں کی طرح جمع کریں گے۔ ۱۱۰*

 

۸۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسے جانوروں کی طرح ہانک لے جائیں گے۔

 

۸۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اس دن) کسی کو شفاعت کا اختیار نہ ہو گا وہی شفاعت کرس کے گا جس نے رحمن کے حضور فرمان حاصل کر لیا ہو۔ ۱۱۱*

 

۸۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کہتے ہیں رحمن نے بیٹا بنا رکھا ہے ۱۱۲*

 

۸۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بڑی سخت بات ہے جو تم نے گھڑ لی۔

 

۹۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے ، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر پڑیں۔

 

۹۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس بات پر کہ یہ رحمن کے لیے بیٹا ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ ۱۱۳*

 

۹۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رحمن کی یہ شان نہیں کہ (کسی کو) بیٹا بنائے۔

 

۹۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں سب اس کے حضور بندہ کی حیثیت سے حاضر ہونے والے ہیں۔ ۱۱۴*

 

۹۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب کا اس نے احاطہ کر رکھا ہے اور ایک ایک کو گن رکھا ہے۔ ۱۱۵*

 

۹۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور سب قیامت کے دن اکیلے اکیلے حاضر ہوں گے۔

 

۹۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے رحمن ان کے لیے محبت پیدا کر دے گا۔ ۱۱۶*

 

۹۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اس (کتاب) کو تمہاری زبان میں اس لیے آسان بنایا ہے تاکہ تم متقیوں کو خوشخبری دے دو اور جھگڑالو لوگوں کو خبردار کرو۔ ۱۱۷*

 

۹۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں۔ کیا تم ان میں سے کسی کو موجد پاتے ہو یا تمہیں ان کی بھنک بھی سنائی دیتی ہے۔ ؟۱۱۸*

تفسیر

 ۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ حروفِ مقطعات ہیں جن کے سلسلہ میں ضروری وضاحت سورۂ بقرہ نوٹ ۱ اور سورۂ یونس نوٹ ۱ میں کی جاچکی ہے۔ ان حروف کا اشارہ اس سورہ کے بعض اہم مضامین کی طرف ہے جس کی تفصیل یہ ہے :

 

"کاف" کا اشارہ کُن فیکُونْ (وہ حکم دیتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔ آیت ۳۵) کی طرف ہے اور مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ جو خدا اپنے ایک حکم سے کسی بھی چیز کو عدم سے وجود میں لاتا ہے اس نے اگر عیسیٰ کو بغیر باپ کے پیدا کیا تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ اس کو خدا کا بیٹا قرار دیا جائے یا خدائی میں شریک ٹھہرایا جائے۔ اس سلسلۂ مضامین میں " ک" کُن (ہو جا) کے لیے ایک حرفِ علامت (Significant Letter) ہے جو ذہن کو مذکورہ حقیقت کی طرف موڑتا ہے۔

 

"ھا" کا اشارہ ھَیّنٌ (تمہارا رب فرماتا ہے کہ یہ میرے لیے آسان ہے۔ آیت ۹) اور پھر حضرت یحیٰ کی پیدائش ہو یا حضرت عیسیٰ کی غیر معمولی طریقہ پر ان کو پیدا کرنا اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہ تھا۔ اس کی قدرت کے یہ ادنیٰ کرشمے ہیں۔ " یا" کا اشارہ یحیٰ کی ط ہے جن کا ذ کر آیت ۷ تا ۱۰ میں ہوا ہے۔

 

"عین" کا اشارہ عیسیٰ کی طرف ہے جن کا نام آیت ۳۴ میں آیا ہے اور جن کی ولادت کا ذ کر اس سے پہلے کی آیات میں تفصیل سے ہوا ہے۔ " صاد" کا اشارہ صَبِیّا کی طرف ہے جس کے معنیٰ بچے کے ہیں۔ آیت ۱۲ میں حضرت یحیٰ کے بارے میں یہ اہم بات ارشاد ہوئی ہے کہ وَآتَیْنَاہ الحکم صَبِیّاً (ہم نے اسے حکم یعنی حکمت عطا کی جب کہ وہ ابھی بچہ تھے) اسی طرح آیت ۱۹ میں حضرت عیسیٰ کے بارے میں صبیّا (بچہ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور وہاں ان کے گہوارہ سے بات کرنے کا ذ کر ہوا ہے یعنی اللہ کے اس معجزہ کا ذ کر ہے کہ عیسیٰ کو اس نے جبکہ وہ گہوارہ میں صبی یعنی بچہ تھے گویائی عطا فرمائی۔

 

(اور اللہ ہی اپنے کلام کے اسرار بہتر جانتا ہے) ۔

 

۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ز کریا انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہیں اور ان کا زمانہ حضرت مسیح کی ولادت سے پہلے کا ہے اور ولادت مسیح کے بعد بھی وہ ایک عرصہ تک زندہ رہے۔

 

۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دعا کے آداب میں سے یہ ہے کہ بندہ جب اپنے لیے دعا کرے تو چپ کے چپ کے کرے تاکہ وہ ریا اور نمائش سے پاک ہو اور اپنے رب کے سامنے اپنے دل کی با توں کو پیش کرس کے۔

 

۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ز کریا نے جس وقت اولاد کے لیے دعا کی اس وقت وہ کافی بوڑھے ہو چکے تھے۔ ان کی ہڈیاں تک کمزور ہو گئی تھیں اور سر کے بال سفید ہو گئے تھے۔ بڑھاپے کی اس عمر میں اولاد کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی مگر انہوں نے اللہ سے پُر امید ہو کر دعا کی کہ وہ اپنی خاص عنایت سے انہیں نوازے۔ یہ دعا ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلی تھی اور ش کر کے ان جذبات کے ساتھ تھی کہ خدا یا جب کبھی میں نے تجھے پکارا ہے تیرے در سے نا مراد نہیں لوٹا ہوں۔ یہ دعائیہ کلمات اللہ کی رحمت کے جوش میں آنے کے لیے نہایت موزوں تھے۔

 

۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اندیشہ اس بات کا کہ کوئی شخص دینی رہنمائی اور قیادت کے منصب کو سنبھالنے والا نہیں ہے۔

 

واضح رہے کہ بنی اسرائیل میں دینی رہنمائی اور نبوت کا منصب ان کے ایک قبیلہ بنی لاوی میں چلا آ رہا تھا اور حضرت ز کریا کے زمانہ میں بنی اسرائیل جس انحطاط میں مبتلا تھے اس کے پیش نظر اس منصب کا اہل کوئی نظر نہ آتا تھا اس لیے حضرت ز کریا کو فکر ہوئی کہ ان کے بعد بنی اسرائیل کی رہنمائی و قیادت کا کیا انتظام ہو گا۔

 

۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوقا کی انجیل میں ہے :

 

" یہودیہ کے بادشاہ ہیرو دیس کے زمانہ میں ابے ّاہ کے فریق میں سے ز کریا ہ نام ایک کاہن (ایک مذہبی عہدہ رکھنے والا تھا) اور اس کی بیوی ہارون کی اولاد میں سے تھی اور اس کا نام الیشبع تھا اور وہ دونوں خدا کے حضور راستباز اور خداوند کے سب احکام و قوانین پر بے عیب چلنے والے تھے اور ان کے اولاد نہ تھی کیونکہ الیشبع بانجھ بھی تھی اور دونوں عمر رسیدہ تھے۔ " (لوقا ۱:۵ تا۷)

 

۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد اولاد ہے چنانچہ سورۂ آل عمران آیت ۳۸ میں ذُرّیَّۃً طَیبَۃً (پاکیزہ اولاد) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

 

۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وارث سے مراد سرمایۂ دین اور علمِ نبوت کا وارث ہے چنانچہ " آلِ یعقوب کا وارث" کے الفاظ اس مفہوم کی صراحت کرتے ہیں۔

 

جہاں تک مالی وراثت کا تعلق ہے انبیاء علیہم السلام نہ اس مقصد کے لیے مال جمع کرتے ہیں اور نہ انہیں اس کی فکر ہوتی بلکہ جیسا کہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمایا ہے انبیاء کے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا:۔

 

لا نُورَثُ ماتَرَکنا صَدَقَۃٌ (بخاری کتاب الجہاد) " ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ "

 

البتہ انہیں اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ ان کے بعد علم دین کی امانت کا کون اہل ہو گا اور قوم کی دینی رہنمائی و قیادت کے لیے کوئی موزوں فرد ہے یا نہیں۔

 

۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دین" اخلاق اور سیرت کے اعتبار سے اسے اپنا پسندیدہ بنا۔

 

۱۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ خوشخبری اللہ تعالیٰ نے حضرت ز کریا کو دی اور جیسا کہ سورۂ آل عمران آیت ۳۹ میں بیان ہوا یہ خوشخبری اللہ کی طرف سے فرشتوں نے سنائی تھی جبکہ وہ نماز پڑھ رہے تھے۔

 

یحیٰ کے لفظی معنی ہیں " وہ زندہ رہے گا" یہ نام اللہ نے رکھا تھا جو ظاہر ہے حکمت سے خالی نہیں ہو سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت یحیٰ کو حق گوئی کی بنا پر یہودیہ کے حکمراں ہیرودوس نے ایک رقاصہ کی فرمائش پر قتل کر دیا تھا۔ اس طرح وہ راہِ حق میں شہید ہو گئے اور شہید ہونے والے جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے مرتے نہیں بلکہ زندہ رہتے ہیں (سورۂ بقرہ آیت ۱۵۴) اس لیے حضرت یحیٰ مر کر زندہ جاوید ہو گئے گویا ان کے نام ہی میں یہ بات مضمر تھی کہ یہ شخصیت زندہ جاوید ہونے والا ہے اس طرح واقعات نے نام کی معنویت ظاہر کر دی۔

 

۱۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ سَمِیّا استعمال ہوا ہے جس کے ایک معنی تو " ہم نام" کے ہیں اور دوسرے معنی نظیر کے ہیں۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ یہ ایک انوکھا نام ہے اس سے پہلے کسی کا بھی یہ نام نہیں رکھا گیا تھا اور دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ یحیٰ کی شخصیت کچھ امتیازی اوصاف اور خصوصیات کی بنا پر ایک بے نظیر شخصیت ہو گی چنانچہ ان کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ ان کی ولادت غیر معمولی طریقہ پر ہوئی۔ ان کے والدین نہ صرف بوڑھے ہو گئے تھے بلکہ ان کی والدہ بانجھ بھی تھی اس کے باوجود ان کی ولادت ہوئی۔ دوسری یہ کہ ان کو بچپن ہی میں حکمت عطا ہوئی۔ تیسری یہ کہ ان میں کمال درجہ کا ضبطِ نفس تھا (حصوراً) چنانچہ وہ دنیا کی لذتوں سے زندگی بھر نا آشنا رہے۔ بائبل میں ان کا یہ حال بیان ہوا ہے کہ :

 

" یہ یُوحنا (یعنی یحیٰ) اونٹ کے بالوں کی پوشاک پہنے چمڑے کا ٹپکا اپنی کمر سے باندھے رہتا تھا اور اس کی خوراک ٹڈیاں اور جنگلی شہد تھا۔ " (متی ۳:۴)

 

اور یہ سادہ زندگی انہوں نے مقصدِ حق کی لگن میں بسر کی۔ ان پر ایک ہی دھن سوار تھی اور وہ یہ کہ لوگ اللہ کی طرف رجوع کریں۔ اس مقصد کے لیے وہ قریہ قریہ جاتے اور بیابان کی خاک چھانتے۔

 

۱۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سوال بطور رشک کے نہیں تھا بلکہ مزید اطمینان حاصل کرنے کے لیے تھا کہ جس لڑ کے کی ان کو خوشخبری دی جا رہی ہے اس کی ولادت کی کیا صورت ہو گی۔

 

۱۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہارے بڑھاپے کے باوجود اور تمہاری بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود تمہارے ہاں لڑکا پیدا ہو گا۔

 

۱۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس خدا نے تم کو عدم سے وجود میں لایا اس کے لیے یہ کیا مشکل ہے کہ تمہیں بڑھاپے میں اور تمہاری بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود اولاد بخشے۔

 

حضرت یحیٰ کی غیر معمولی طریقہ پر پیدائش کا یہ واقعہ دراصل تمہید ہے حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے واقعہ کی جو بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ اس سے اصلاً یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اگر غیر معمولی پیدائش کی بنا پر حضرت یحیٰ خدا یا خدا کا بیٹا قرار پا سکتے ہیں ؟ اللہ کی قدرت کے کرشموں کا ظہور تو مختلف شکلوں میں ہوتا ہی رہا ہے پھر جو کرشمۂ قدرت حضرت عیسیٰ کے بارے میں ظاہر ہوا اس کو ان کے ابن اللہ ہونے پر محمول کرنا کیا معنیٰ ؟

 

واضح رہے کہ لوقا کی انجیل میں بھی تمہید کے طور پر حضرت یحیٰ کی ولادت کا واقعہ بیان ہوا ہے۔

 

۱۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نشانی انہوں نے اس لیے طلب کی تاکہ جس بات کی خوشخبری انہیں دی گئی ہے اس کے وجود میں آنے کا ٹھیک ٹھیک وقت انہیں معلوم ہو جائے اور وہ ذ کر الٰہی میں مشغول ہو جائیں۔

 

۱۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ آل عمران نوٹ ۶۱ میں گزر چکی۔ سَوِّیَا یعنی صحت مند ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ تین دن تک حضرت ز کریا کا بات نہ کر سکنا گونگے پن یا کسی مرض کی وجہ سے نہ تھا بلکہ یہ ایک غیر معمولی حالت تھی جس میں وہ تسبیح تو کر سکتے تھے لیکن بات نہیں کر سکتے تھے۔

 

۱۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اللہ کی طرف سے ایک غیر معمولی واقعہ ظہور میں آنے والا ہے لہذا اس کی تسبیح میں سرگرم ہو جاؤ۔

 

واضح ہوا کہ تسبیح کرنا (اللہ کی پاکی بیان کرنا) عظیم عبادت ہے اور اس کا صبح و شام اہتمام کرنا اللہ کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ اس عبادت کی قدر وہی لوگ گھٹاتے ہیں جو دین کی اقدار (Values) کے معاملہ میں بے بصیرت ہوتے ہیں۔

 

۱۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طرز کلام سے واضح ہے کہ جس طرح بشارت دی گئی تھی یحیٰ کی ولادت ہوئی اور بعد میں انہیں نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ کتاب سے مراد تورات ہے اور اس کو مضبوطی سے پکڑنے کا مطلب اس پر پختہ ایمان رکھنا اور صحیح طور سے اس پر عمل پیرا ہونا ہے۔

 

اس سے یہ بات آپ ہی واضح ہو رہی ہے کہ حضرت یحیٰ کے زمانہ میں تورات کا ایک حصہ اپنی اصل شکل میں محفوظ تھا اسی لیے اس کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کا حکم دیا گیا۔

 

۱۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ حضرت یحیٰ پر اللہ کا فضل خاص ہوا کہ ان کو بچپن ہی میں سے اس نے حکمت سے نوازا یعنی انہیں سمجھ اور دانائی عطا کی۔

 

۲۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نرم دلی (رقتِ قلب) وہ اعلیٰ صفت ہے جو انسان کو نصیحت قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہے نیز اس سے نفس میں سوز و گداز پیدا ہو جاتا ہے جس سے انسان دوسروں کے درد کی چوٹ اپنے جگر میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہ چیز اسے ہمدرد انسانیت بناتی ہے اور وہ بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ حضرت یحیٰ میں اللہ کے فضل سے یہ صفت بدرجۂ کمال موجود تھی۔

 

۲۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نفس کی پوری طہارت۔ ہر قسم کے باطنی امراض سے پاک۔ بالکل قلب مصفا۔

 

۲۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس طرح باطن میں پاک صاف تھا اسی طرح ظاہر میں بھی پرہیزگار تھا۔ اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کی شریعت کے مطابق زندگی گزارنے والا۔

 

۲۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بندگانِ خدا میں پہلا اور سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔ جو شخص ان کے ساتھ بھلائی نہیں کرتا اس سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ دنیا کے ساتھ بھلائی کرے گا اور جو شخص ان کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہے وہ نیکی کی پرورش کا سامان کرتا ہے اس لیے اس سے بجا طور پر یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ بندگانِ خدا کے ساتھ بھی بھلائی کرے گا۔ بنی اسرائیل میں اس وقت جو بگاڑ پیدا ہوا تھا اس کی وجہ سے ان کے اندر سے یہ بنیادی صفت غائب ہو گئی تھی وہ لوگوں پر ظلم کرنے والے اور حکم الٰہی کی خلاف ور زی کرنے والے بن گئے تھے۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ کو مذکورہ اوصاف کے ساتھ مبعوث کر کے ان کے سامنے سیرت کا ایک نمونہ رکھ دیا تاکہ ان میں احساس ابھرے اور وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں۔

 

۲۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا نے اس کے ساتھ جو بھی سلوک کیا ہو مگر اللہ کی طرف سے اس پر سلامتی ہی سلامتی ہے۔ وہ سلامتی کے ساتھ دنیا میں آیا اور سلامتی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوا اور قیامت کے دن بھی سلامتی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ ایسی عظیم شخصیت کی جنہوں نے ناقدری کی انہوں نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ اپنی ہی تباہی کا سامان کیا۔

 

۲۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس ذ کر کی اہمیت اس وقت سمجھ میں آتی ہے جبکہ آدمی موجودہ انجیلوں کا تقابلی مطالعہ کرتا ہے اور ان میں اس واقعہ کی اہم کڑیوں کو غائب پاتا ہے۔ قرآن نے حضرت مریم کی عفت اور حضرت مسیح کی دلالت کے تمام اہم پہلوؤں کو اس طرح محفوظ کر دیا ہے کہ واقعہ کی پوری تصویر سامنے آ جاتی ہے اور بیان کی صداقت یقین کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔

 

لوقا کی انجیل میں قدرے تفصیل سے حضرت مریم کا ذ کر ہوا ہے لیکن دوسری انجیلوں میں بس سرسری طور سے ہی ہوا ہے۔

 

۲۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسا کہ سورۂ آل عمران آیت ۳۵ میں بیان ہوا حضرت مریم کو ان کی والدہ نے عبادت کے لیے وقف کر دیا تھا اس لیے وہ بیت المقدس میں ہیکل کے ایک مشرقی حصہ میں ایک حجرہ میں عزلت نشین ہو کر عبادت میں مشغول ہو گئیں۔

 

چونکہ ان کی عبادت کی جگہ ہیکل کے مشرقی حصہ میں تھی اس لیے نصاریٰ نے مشرقی جہت کو اپنا قبلہ قرار دیا اور یہ ان کی اپنی اختراع (بدعت) ہے۔

 

۲۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہیکل کے جس حصہ میں وہ گوشہ نشین ہو گئی تھیں وہاں انہوں نے پردہ ڈال دیا تھا تاکہ لوگ اسے دیکھنے نہ پائیں اور وہ یکسوئی کے ساتھ عبادت کرس کے۔

 

معلوم ہوتا ہے ہیکل میں حجرہ (محراب) اس طرح بنا ہوا تھا کہ اس کو دروازہ نہیں تھا اس لیے پردہ ڈال کر لوگوں کی نگاہوں سے اپنے کو محفوظ کر لیا تھا۔ دروازہ نہ ہونے اور صرف پردہ ڈالے رہنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کی زندگی ایک کھلی کتاب بن گئی۔ ان کی پاک دامنی پر حرف رکھنے کے لیے کسی کو کوئی گنجائش نہ رہی۔

 

۲۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم کا ایک اجنبی شخص کو اپنے حجرہ میں دیکھ کر گھبرا جانا ایک فطری بات تھی اور انہوں نے اس کو اللہ سے ڈراتے ہوئے رحمن کی پناہ جو طلب کی وہ ان کے پاک دامن ہونے کا بین ثبوت ہے۔

 

۲۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوقا کی انجیل میں ہے :

 

" اور اس کنواری کا نام مریم تھا۔ اور فرشتہ نے اس کے پاس اندر آ کر کہا سلام تجھ کو جس پر فضل ہوا ہے خداوند تیرے ساتھ ہے۔ وہ اس کلام سے بہت گھبرائی اور سوچنے لگی کہ یہ کیسا کلام ہے۔ فرشتہ نے اس سے کہا اے مریم! خوف نہ کر کیونکہ خدا کی طرف سے تجھ پر فضل ہوا ہے۔ اور دیکھ تو حاملہ ہو گی اور تیرے بیٹا ہو گا اس کا نام یسوع رکھنا۔ " (لوقا۱: ۲۷تا ۳۰)

 

۳۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انجیل میں ہے :

 

" مریم نے فرشتہ سے کہا یہ کیوں کر ہو گا جبکہ میں مرد کو نہیں جانتی۔ " (لوقا ۱: ۳۴)

 

۳۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کنواری ہونے کے باوجود تمہارے ہاں لڑکا پیدا ہو گا۔

 

قرآن کی یہ صراحت اس بارے میں ادنی شبہ کے لیے گنجائش نہیں چھوڑتی کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش بغیر باپ کے کنواری ماں سے ہوئی تھی۔ اور یہ یقیناً اللہ تعالیٰ کا معجزہ تھا۔

 

رہا بائبل کا یہ بیان کہ حضرت مریم کی منگنی یوسف نام کے ایک شخص سے ہوئی تھی تو یہ محض جھوٹ ہے جو انجیل میں داخل کر دیا گیا ہے۔ حضرت مریم کو تو ان کی والدہ نے عبادت کے لیے وقف کیا تھا مریم اسی لیے وہ ہیکل کے ایک حصہ میں گوشہ نشین ہو گئی تھیں لہٰذا ان کے نکاح کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ پھر بائبل میں ایک جگہ کچھ کہا گیا ہے اور دوسری جگہ کچھ۔ متی کی انجیل میں یوسف کو مریم کا شوہر کہا گیا ہے (متی باب۱: ۱۶) جبکہ لوقا کی انجیل یوسف کو مریم کا منگیتر بتلاتی ہے۔ (لوقا ۲: ۵) اور دوسری جگہ حضرت عیسیٰ کو یوسف کا بیٹا بھی کہا گیا ہے (لوقا ۳:۲۳) اب اگر یوسف مریم کا منگیتر تھا تو محض منگنی کی بنا پر حضرت عیسیٰ اس کے بیٹے کیوں کر ہوئے ؟ اور اگر نکاح ہو چکا تھا تو یوسف کو منگیتر کہنے کے کیا معنی؟ اور کیا یہ بات ایک کنواری کے حاملہ ہونے کو مشکوک نہیں بناتی؟ بائبل کی اس تضاد بیانی کو اس کے شارح نے بھی محسوس کیا ہے چنانچہ وہ لکھتا ہے :

 

"Furthermore, the genealogy here is not in agreement with that in Luke 3:23-38. Actually the genealogy in Matt is that of Joseph, who is represented ad Mary's husband rather than as the actual father of Jesus )V 5.16(

)The Interpreter's Commentary on the Bible P.610(

 

یہ ہے بائبل کی تضاد بیانی جو حضرت مریم کے کنواری ہونے کی حالت میں حاملہ ہونے کو مشکوک بنا دیتی ہے بخلاف اس کے قرآن کا بیان صاف ہے کہ حضرت مریم عبادت کے لیے وقف تھیں ، وہ اپنے لوگوں سے بھی الگ ہو کر عبادت کے لیے گوشہ نشین ہو گئی تھیں۔ کنواری تھیں کہ کسی مرد نے انہیں چھوا تک نہیں تھا اور اللہ کا یہ معجزہ تھا کہ اس حالت میں وہ حاملہ ہو گئیں۔

 

۳۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عیسیٰ کی ولادت معجزانہ طریقہ پر ہو اور اس بنا پر وہ اس کی قدرت کی نشانی قرار پائیں۔

 

۳۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عیسیٰ کا وجود اللہ کی رحمت کا فیضان ہو گا۔ کتنے ہی لوگ ان سے ہدایت پا کر رحمت الٰہی کے مستحق بنیں گے۔

 

۳۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا ہے لہٰذا یہ بات ہو کر رہے گی۔

 

۳۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد بیت لحم ہے جو یروشلم سے آٹھ نو میل کے فاصلہ پر ہے۔ بائبل میں اس مقام کو حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش بتلایا گیا ہے۔

 

۳۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم نے کسی سے کوئی شکوہ شکایت نہیں کی اور نہ بے صبری کا مظاہرہ کیا۔ وہ اس خیال سے پریشان تھیں کہ لوگ چونکہ حقیقتِ حال سے واقف نہیں ہیں اس لیے اس پر تہمت لگائیں گے۔ ایک عفت مآب خاتون کے لیے اس کا تصور ہی ایسا تھا کہ اس کے ہوش و حواس کو متاثر کر کے رکھ دے۔ اس اندیشہ کے پیش نظر ان کی زبان سے یہ کلمات نکل گئے کہ کاش میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور میری یاد بھی لوگوں کے ذہنوں سے فراموش ہو چکی ہوتی۔ ان کے یہ معصومانہ جذبات تھے جن کا اظہار انہوں نے اپنے رب ہی کے حضور کیا تھا۔

 

۳۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر ایک چشمہ نیچے کی جانب جاری کر دیا تھا اس لیے فرشتے نے وہاں سے آواز دی کہ دیکھو جب تم پر اللہ کی عنایات کا یہ حال ہے کہ تمہارے لیے پانی کا چشمہ جاری کر دیا تو تمہیں فکر کس بات کی ہے ؟ جب خدا ہی تمہارے ساتھ ہے تو دنیا تمہارا کیا بگاڑ سکتی ہے تسلی کا یہ سامان تھا جو حضرت مریم کے غم کو غلط کرنے کے لیے کیا گیا۔

 

۳۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کھجور کے تنے کو ذرا سا ہلانا اس بات کے لیے کافی ہے کہ وہ تمہاری تواضع کے لیے تازہ اور پکی کھجوریں ٹپکائے۔

 

اس طرح حضرت مریم کے لیے ایک ایسی جگہ جہاں اس کی مد د کے لیے کوئی نہیں تھا کھانے پینے کا غیر معمولی انتظام کیا گیا۔ ایک طرف مریم کا توکل تھا اور دوسری طرف اللہ کی شانِ رحمت!

 

۳۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بچہ کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو کہ ایک نہایت پاکیزہ اور جلیل القدر شخصیت نے جنم لیا ہے۔

 

۴۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں چُپ کا روزہ رکھا جاتا تھا اور نذر کے طور پر اس قسم کا روزہ رکھنا ان کے لیے روا تھا۔ حضرت مریم کو جس صورت حال سے واسطہ تھا اس کے پیش نظر انہیں یہ ہدایت کہ وہ بطور نذر کے خاموشی کا روزہ رکھ لیں بڑی حکیمانہ بات تھی کیونکہ معترضین کو مطمئن کرنا آسان نہ تھا ان پر حقیقت حال واضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بچہ کو گویائی عطا فرمائی جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔

 

واضح رہے کہ نذر کے معنیٰ کسی چیز کو اپنے اوپر واجب کر لینے کے ہیں (لسان العرب ج ۵ ص ۲۰۰) ۔

 

رہا یہ سوال کہ حضرت مریم اس وقت نفاس سے ہوں گی اور روزہ ایک عبادت ہے تو اس حالت میں انہوں نے روزہ کس طرح رکھا ہو گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفاس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ایک مہینہ یا چالیس دن تک جاری رہے۔ کسی کے نفاس کی مدت بہت تھوڑی ہوتی ہے چنانچہ فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے مغنی میں ہے :

 

ولیس لا قلہ حد ای وقت رأت الطہر اغتسلت (مغنی ج ۱ ص ۳۴۷) " نفاس کے خون کی کم سے کم مدت کے لیے کوئی حد نہیں ہے۔ عورت جس وقت بھی طہر کی حالت دیکھ لے غسل کر لے۔ "

 

مطلب یہ ہے کہ نفاس کا خون ایک آدھ روز میں بھی بند ہو سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ولادت میں نفاس کا خون سرے سے جاری ہی نہ ہو۔

 

۴۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم جب بچہ کو گود میں لیے ہوئے اپنی قوم کے پاس پہنچتی ہیں تو لوگوں نے اعتراضات کی بوچھار کر دی۔ وہ تہمت لگا رہے تھے کہ مریم گناہ کی مرتکب ہوئی ہے۔

 

۴۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم حضرت ہارون کے خاندان سے تھیں جو پیغمبر تھے اس لیے لوگوں نے انہیں ہارون کی بہن کہہ کر پکارا ورنہ حضرت مریم کا کوئی بھائی نہیں تھا۔ عربی زبان میں اس کی مثالیں ملتی ہیں مثلاً قبیلۂ ہمدان کے شخص کو وہ یا اخا ھمدان (اے ہمدان کے بھائی) کہ کر پکارتے ہیں۔ حضرت مریم کو حضرت ہارون کی بہن کہ کر لوگوں نے انہیں یہ احساس دلانا چاہا کہ تم ایک شریف گھرانے سے تعلق رکھتی ہو جو ایک مشہور پیغمبر کا گھرانہ ہے اس لیے تم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ ایسی حرکت کرو گی۔ عام طور سے مفسرین نے ہارون سے پیغمبر ہارون نہیں بلکہ حضرت مریم کا کوئی بھائی مراد لیا ہے۔ ان کا استدلال مغیرہ بن شعبہ کی ایک روایت سے ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نجران کے عیسائیوں کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہ حضرت ہارون تو حضرت مریم سے سینکڑوں برس پہلے گزر چکے تھے پھر حضرت مریم کو ہارون کی بہن کس طرح کہا گیا، ارشاد فرمایا کہ نبی اسرائیل اپنے نام انبیاء اور صالحین کے نام پر رکھتے تھے۔ یہ حدیث مسلم" ترمذی وغیرہ میں بیان ہوئی ہے لیکن یہ حدیث اس بارے میں صریح نہیں ہے کہ حضرت مریم کا کوئی بھائی ہارون نامی تھا" دوسرے یہ کہ اس حدیث کا ایک راوی سماک بن حَرْب ہے جس کے بارے میں محدثین کی رائیں مختلف ہیں۔ کوئی ان کو ثقہ قرار دیتا ہے اور کوئی ضعیف۔ سفیان اور شعبہ انہیں ضعیف قرار دیتے ہیں اور امام احمد کہتے ہیں وہ مضطرب الحدیث ہیں یعنی ان کی حدیثوں میں اضطراب (الجھاؤ) پایا جاتا ہے۔ (میزان الاعتدال ج ۲ ص ۲۳۲۔ ۲۳۳) اور ابن حبان کہتے ہیں وہ ثقہ ہیں لیکن بہ کثرت غلطیاں کرتے ہیں (تہذیب التہذیب ج ۴ ص ۲۳۴) ۔

 

۴۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کا اعتراف تھا کہ حضرت مریم نہایت شریف گھرانے کی خاتون ہیں۔

 

۴۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم نے اللہ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے خاموشی کا روزہ رکھا تھا اس لیے لوگوں کو کوئی جواب نہیں دیا بلکہ بچہ کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے بات کرو۔

 

۴۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو بچہ ابھی گہوارہ میں ہو اس سے ہم کس طرح بات کر سکتے ہیں ؟

 

۴۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نوزائیدہ بچے کا بول اٹھنا اللہ کی طرف سے معجزہ تھا اور یہ معجزہ اللہ تعالیٰ نے اس لیے دکھایا تاکہ یہ حضرت مریم کے پاکدامن ہونے کی دلیل ہو اور انہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا نہ پڑے نیز حضرت عیسیٰ کی نبوت کی نشانی قرار پائے۔

 

گہوارہ میں سے ان کا یہ اعلان کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس حقیقت کا اظہار تھا کہ ان کا مقام عبدیت کا مقام تھا نہ کہ اس سے مختلف کچھ اور یہ ان کو اللہ کا بیٹا قرار دئے جانے کی پیشگی تردید تھی۔

 

کتاب سے مراد انجیل ہے۔ " کتاب دی اور نبی بنایا" کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گہوارہ میں حضرت عیسیٰ کو کتاب دی گئی تھی اور نبوت کا منصب عطا کیا گیا تھا۔ یہ چیزیں تو ان کو اس وقت عطا ہوئیں جبکہ وہ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے قابل ہوئے لیکن چونکہ یہ اللہ کا فیصلہ تھا اس لیے اس کو لا محالہ وقوع میں آنا تھا۔ اس بنا پر بچہ کی زبان سے اس طرح اعلان کرا دیا گیا کہ گویا یہ چیزیں عطا ہوہی گئی ہیں۔ یہ اسلوبِ بیان وقوع میں آنے والی کسی چیز کی قطعیت کو ظاہر کرتا ہے۔

 

اس معجزہ کا ذ کر موجودہ انجیلوں میں نہیں ہے اس کی وجہ وہ حالات ہیں جن میں یہ انجیلیں مرتب ہوئی ہیں۔ یہود جو اس واقعہ کے اصل شاہد تھے حضرت مسیح کے منصب نبوت سے سر فراز ہونے کے بعد ان کے دشمن بن گئے اور جو لوگ ان کے پیرو بن گئے ان کو بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا اس لیے ان پُر فتن حالات میں حضرت مسیح کے حالاتِ زندگی اور ان کی تعلیمات کا بڑا حصہ محفوظ نہ رہ سکا۔ لیکن قرآن کے بیان کی صداقت اور معقولیت بالکل واضح ہے کیونکہ یہودیوں کا حضرت مریم پر تہمت لگانا اور پھر انہیں سزادئے بغیر چھوڑ دینا جبکہ بنی اسرائیل کی شریعت میں زنا کی سزا بڑی سخت تھی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کوئی غیر معمولی واقعہ ضرور ظہور میں آیا تھا جس سے حضرت مریم کا پاکدامن ہونا ثابت ہو گیا تھا۔ قرآن کہتا ہے یہ بچہ کی شہادت تھی جس نے ثابت کر دیا کہ یہ ایک غیر معمولی واقعہ (معجزہ) ہے اس کے بعد کسی کو کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہ رہی۔

 

۴۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے خیر مجسم بنایا ہے۔ جہاں بھی میرا رہنا ہو گا خیر و برکت کا باعث ہو گا۔ یہ نفی تھی اس بات کی کہ نہ میری ولادت باعثِ شر ہوئی ہے اور نہ مستقبل میں مجھ سے کسی شر کا صدور ہونے والا ہے۔ یہ ان الزامات کی پیشگی تردید ہے جو یہود آگے چل کر ان پر عائد کرنے والے تھے۔

 

۴۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نماز اور زکوٰۃ کا ذ کر خصوصیت سے کیا کہ یہ دین کے بنیادی ستون ہیں جن کو ضائع کرنا دین کو ضائع کرنا ہے۔ یہود نے ان کو ضائع کر دیا تھا اس لیے حضرت عیسیٰ نے زبان کھولتے ہی ان کا ذ کر کیا۔

 

۴۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیک سلوک کرنے کے تعلق سے صرف ماں کا ذ کر کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عیسیٰ بغیر باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا بنایا۔ قرآن کے اس بیان سے بائبل کی ان روایات کی تردید ہوتی ہے جن سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ اپنی ماں سے بے پروا ہو گئے تھے۔ (یوحنا۲:۴)

 

۵۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا کی طرف سے میرے لیے زندگی بھر سلامتی ہے اور دوسری زندگی میں بھی سلامتی ہی سلامتی۔ " جس دن میں مروں گا " کے الفاظ صراحت کر تے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کو بھی ایک نہ ایک دن مرنا ضرور ہے۔

 

۵۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ کو یہود سرے سے نبی ہی نہیں مانتے اور نصاریٰ نے ان کی شخصیت میں غلو کر کے انہیں اللہ کا بیٹا بنا دیا پھر اس بحث میں اس طرح الجھ گئے کہ اصل حقیقت دب کر رہ گئی مگر قرآن نے تمام حجابات اٹھائے اور اصل حقیقت کو نمایاں کیا۔

 

۵۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا کے لیے یہ نہایت فر و تر بات ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ یہ عیب ہے نہ کہ خوبی اور ایسی بات اللہ کی طرف منسوب کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ عیب اور نقص سے پاک نہیں ہے۔

 

۵۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس ہستی کے قدرت کی یہ شان ہو کہ کوئی بھی چیز محض اس کے کُن کہہ دینے یعنی ہو جانے کا حکم دینے سے وجود میں آتی ہو وہ اس بات کا کہاں محتاج ہو سکتا ہے کہ کسی کو بیٹا بنا لے۔

 

۵۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ کا وہ بیان اوپر گزر چکا جو انہوں نے گہوارہ میں سے دیا تھا۔ یہاں ان کی اس دعوت کو پیش کیا گیا ہے جو انہوں نے نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد بنی اسرائیل کے سامنے پیش کی تھی۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ آل عمران نوٹ ۷۶۔

 

۵۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اللہ کے دین میں کوئی نیا عقیدہ شامل کر لیا جاتا ہے تو لازماً اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں جن کے نتیجہ میں فرقے وجود میں آتے ہیں۔ نصاریٰ نے جب حضرت عیسیٰ کی تعلیم سے اختلاف کیا اور ان کی شخصیت کے بارے میں غلو آمیز عقیدے گڑھ لئے تو فرقہ بندی نے جنم لیا۔ یعقوبہ اور نسطوریہ جیسے فرقے ان میں پیدا ہو گئے اور بعد کے دور میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ۔ اس طرح وہ اپنے مرکزی نقطہ توحید سے بھی ہٹ گئے اور ان کی ملت بھی پارہ پارہ ہو گئی۔

 

۵۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قیامت کے دن کی تباہی ہے۔

 

۵۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن اچھی طرح جان لیں گے کہ حقیقت کیا تھی۔ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے تھے یا بندہ ؟

 

۵۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن سے خبردار کرو جو کافروں کے لیے پچھتاوے کا دن ہو گا۔ بعض مفسرین نے وہ دن مراد لیا ہے جبکہ مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کیا اور نصاریٰ کے لیے حسرت کا سبب بن گیا (ترجمان القرآن ج ۲ ص ۴۳۶) مگر آیت کے الفاظ اس تفسیر کا ساتھ نہیں دیتے۔ فیصلہ چکانے کی بات تو قرآن میں قیامت ہی کے بارے میں کہی گئی ہے۔ اور بعد کی آیت میں یہ جو فرمایا کہ " سب ہماری ہی طرف لوٹائے جائیں گے۔ " تو ظاہر ہے یہ قیامت کے دن ہی سے متعلق ہے۔

 

۵۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ حجر نوٹ ۲۱۔

 

۶۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتاب میں ذ کر کرو کا مطلب یہ ہے کہ اے پیغمبر! اللہ کی جو کتاب تم لوگوں کو سنا رہے ہو اس میں ان کو ابراہیم کا قصہ بھی سناؤ کہ یہ قصہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے اور اس کتاب (قرآن) میں شامل ہے۔

 

۶۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم علیہ السلام کی صفت میں " صدیق" بیان ہوئی ہے جس کے معنی ہیں نہایت سچا اور راست باز۔

 

اللہ تعالیٰ نے ان کو مختلف با توں میں آزمایا اور وہ ہر امتحان میں پورے اترے۔ بت پرستی کے خلاف انہوں نے زبردست جہاد کیا اور اس سلسلہ میں حکومت وقت کے چیلنج کو قبول کرنے میں پس و پیش نہیں کیا اور اپنے والد کو بھی بت پرستی کے بارے میں کھری کھری باتیں سنا دیں " شرک کے خلاف ان کی بے باکی " اللہ کی خاطر گھر بار چھوڑنا" توحید کے پرچار کے لیے سخت مشقت کے سفر کرنا اور اپنے بیٹے کو اللہ کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار ہو جانا ان کی صداقت شعاری کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔

 

قرآن کے اس بیان سے کہ ابراہیم " صدیق" تھے بائبل کے اس بیان کی آپ سے آپ تردید ہوتی ہے جس میں ابراہیم کی طرف یہ جھوٹ منسوب کیا گیا ہے کہ وہ مصر گئے تو اس اندیشہ کے پیش نظر کہ وہاں کا بادشاہ ان کی بیوی (سارہ) کو ان کی خوبصورتی کی بنا پر رکھ نہ لے اور ابراہیم کو قتل نہ کر دے ابراہیم نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم یہ کہ دینا کہ میں اس شخص کی بہن ہوں (پیدائش ۱۲: ۱۱ تا ۲۰) بائبل کا یہ قصہ بالکل بے اصل ہے اگر بادشاہ کی نیت خراب تھی تو محض بہن کہ دینے سے وہ اپنے مذموم ارادہ سے کیوں باز رہتا؟ بائبل میں مختلف مقامات پر حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ کی جو عمریں بیان ہوئی ہیں ان کے پیش نظر مصر کے سفر کے موقع پر حضرت سارہ کوئی کمسن خاتون نہیں تھیں کہ انہیں بادشاہ سے خطرہ لاحق ہوتا۔ پھر بائبل میں اسی قسم کا جھوٹ حضرت اسحٰق کی طرف بھی منسوب کیا گیا ہے۔ یعنی انہوں نے بھی اس قسم کے اندیشہ کے پیش نظر اپنی بیوی کے بارے میں کہا کہ وہ میری بہن ہے (پیدائش باب ۲۶) ۔

 

بائبل کی یہ باتیں اتنی الجھی ہوئی اور غیر معقول ہیں کہ ان پر ہرگز یقین نہیں کیا جا سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ بائبل کے مرتبین نے اپنے انبیاء کی سیرت کو داغدار بنایا ہے لیکن قرآن ان کی سیرت کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ وہ بالکل بے داغ نظر آتی ہیں اور یہ اس کی صداقت کی دلیل ہے۔

 

۶۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام نوٹ ۱۲۷ ، ۱۲۸ اور۱۲۹۔

 

۶۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علم سے مراد علم وحی اور علم نبوت ہے۔

 

۶۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ بتوں کی پرستش در حقیقت شیطان کی پرستش ہے کیونکہ یہ شیطان کے اشارہ پر کی جا رہی ہے اور شیطان کی ایسی اطاعت کہ وہ خدا کی اطاعت کی جگہ لے لے اس کو معبود بنانا اور شریک ٹھہرانا ہے۔

 

۶۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس زمانہ میں اولاد پر باپ کا زبردست دباؤ رہتا تھا اور مذہبی تعصب کی بنا پر وہ اپنی اولاد پر ظلم کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ اور یہ مذہبی تعصب ہی تھا جس کی بنا پر حضرت ابراہیم کے والد نے انہیں سنگسار کرنے کی دھمکی دی۔

 

۶۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہاری خیریت اسی میں ہے کہ تم گھر چھوڑ کر چلے جاؤ اور مجھے صورت نہ دکھاؤ۔

 

۶۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تھی ابراہیم کے کردار کی بلندی کہ باپ انہیں سنگسار کرنے کی دھمکی دیتا ہے اور گھر سے نکل جانے کا حکم دیتا ہے لیکن ان کی پیشانی پر شکن نہیں آتی بلکہ وہ سلامتی کی دعا دیتے ہوئے اور اپنے رب سے ان کے لیے مغفرت کی درخواست کا وعدہ کرتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں۔

 

ابراہیم علیہ السلام نے اپنے وعدہ کو نبھایا لیکن جب ان پر یہ بات واضح ہوئی کہ ان کا باپ شرک سے باز آنے والا نہیں اور خدا کا دشمن ہے تو وہ دعا سے رک گئے جیسا کہ سورۂ توبہ آیت ۱۱۴ میں بیان ہوا ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ توبہ نوٹ ۲۰۹ اور ۲۱۰

 

۶۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب ابراہیم اپنے وطن کو چھوڑ کر شام اور فلسطین پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی اولاد عطا فرمائی کہ ان کی نسل میں بڑی برکت ہوئی اور فیض کے چشمے جاری ہو گئے۔

 

یعقوب ابراہیم کے پوتے ہیں جن کا دوسرا نام اسرائیل ہے ان ہی سے بنی اسرائیل کا سلسلہ چلا۔

 

۶۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سچے لوگوں کی زبان پر ان کی تعریف و توصیف کے کلمات جاری کر دئے۔ اہل ایمان کے دلوں میں ان کی سچی قدر ہے " وہ احترام سے ان کا نام لیتے ہیں اور ان پر سلام اور درود بھیجتے ہیں۔

 

اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوئی کہ دنیا میں سچی عزت اور خدا کے نیک بندوں میں مقبولیت اور ان کی زبانوں پر ذ کر جمیل اللہ کا بہت بڑا انعام ہے جو کسی بندہ کو حاصل ہو۔ لوگ جھوٹی شہرت اور ناموری کے پیچھے دوڑتے ہیں مگر اللہ کے نیک بندے اس سے بالکل بے نیاز ہوتے ہیں۔

 

۷۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نے اپنے تقرب کے لیے موسیٰ کو چن لیا تھا۔

 

۷۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسول کے معنی ہیں بھیجا ہوا " پیغامبر اور نبی کے معنی ہیں خبر دینے والا یعنی جو اللہ کی طرف سے لوگوں کو خبریں سنائے۔ قرآن میں یہ دونوں لفظ اللہ کے ان مخصوص بندوں کے لیے جن پر اس کی طرف سے وحی نازل کی جاتی ہے اصطلاح کے طور پر استعمال ہوئے ہیں البتہ رسول کا لفظ فرستادہ (بھیجے ہوئے) کے معنی میں کہیں کہیں مخصوص فرشتوں کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔

 

رسول اور نبی کا مفہوم ایک ہی لیکن دونوں اصطلاحات ایک ساتھ استعمال کرنے سے مقصود ان کی امت کے تعلق سے ان کی پیغمبرانہ حیثیت کو واضح کرنا ہے چنانچہ آیت ۴۱ تا ۵۷ میں متعدد انبیاء علیہم السلام کا ذ کر ہوا ہے لیکن حضرت موسیٰ اور حضرت اسمعٰیل کا ذ کر اس انداز سے ہوا ہے کہ وہ رسول اور نبی تھے۔ چونکہ حضرت ابراہیم کی نسل کی دو شاخیں ہوئیں ایک نبی اسرائیل اور دوسری بنی اسمعٰیل اور بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کی امت قرار پائے اور بنی اسمٰعیل حضرت اسمٰعیل کی اس لیے ان کی رسالت کی حیثیت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت اسمٰعیل اس شان کے نبی تھے کہ آج جو دو بڑی امتیں تم دیکھ رہے ہو وہ ان ہی سے وابستہ ہیں۔

 

۷۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایمن (داہنا) کا لفظ عربی میں مبارک کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یہاں طور کی داہنی جانب سے مراد طور کی وہ مبارک سر زمین ہے جہاں حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے پکارا تھا اور انہیں نبوت عطا کی تھی۔ قرآن میں دوسری جگہ اس سر زمین کو طویٰ کی مقدس وادی فرمایا گیا ہے۔ اِذْ نَادَاہُ رَبُّہُ بِالَوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی۔ " جبکہ اس کے رب نے اسے طویٰ کی مقدس وادی میں پکارا۔ "

 

داہنی جانب کے اگر لفظی معنیٰ مراد لئے جائیں تو مطلب ہو گا کہ حضرت موسیٰ جب مدین سے مصر کی طرف چلے ہیں تو طور کے اس حصہ سے جو ان کی داہنی جانب تھا اللہ تعالیٰ نے انہیں آواز دی۔

 

۷۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی موسیٰ سے تنہائی میں اللہ تعالیٰ نے باتیں کیں اور دو بدو باتیں کرنے کا اعزاز بخشنے کے لیے انہیں اپنے سے قریب کیا۔

 

۷۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہارون کو نبی بنا کر موسیٰ کا معاون بنایا۔

 

۷۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے قربانی کے واقعہ کی طرف کہ انہوں نے اپنے والد سے یہ جو کہا تھا کہ : سَتجِدُنِیْ اِنْ شَاءَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِریْنَ (صافات ۱۰۲) " آپ مجھے انشاء اللہ صابر پائیں گے۔ "

 

تو یہ وعدہ انہوں نے پورا کیا اور خدا کی خاطر قربان ہونے کے لیے پیشانی کے بل لیٹ گئے۔ وعدہ وفائی کی اس سے زیادہ اونچی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔

 

۷۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت اسمٰعیلؑ  کا یہ وصف کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کی تاکید کرتے تھے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تاکہ عرب جو ان کی نسل سے ہیں غور کریں کہ ان کے کرنے کا کام کیا تھا اور وہ کر کیا رہے ہیں نیز اہل ایمان کے لیے بھی یہ اسوہ ہو۔ وہ اپنے گھر والوں کی اصلاح کی فکر کریں اور خاص طور سے نماز کا اہتمام کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید کریں۔

 

۷۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ادریس کا ذ کر قرآن میں مختصراً ہوا ہے۔ ایک یہاں اور دوسرے سورۂ انبیاء آیت ۸۵ میں۔ ان کے حالات کسی صحیح حدیث میں بیان نہیں ہوئے ہیں بجز معراج والی حدیث کے جس میں ان کے چوتھے آسمان پر ہونے کا ذ کر ہے۔ بائبل میں بھی اس نام کی کسی شخصیت کا ذ کر نہیں ہے۔ مفسرین نے ان کے بارے میں جو روایتیں بیان کی ہیں وہ اسرائیلیات میں سے ہیں اس لیے ہمیں قرآن کے بیان ہی پر اکتفا ء کرنا چاہیے۔

 

حضرت ادریس کی شخصیت جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے صدق و وفا کے لحاظ سے عظیم شخصیت تھی۔ تاریخ نے انہیں بھلا دیا تھا لیکن قرآن نے ان کے ذ کر کو دوام بخشا۔

 

۷۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کا مرتبہ بلند کر دیا تھا۔

 

۷۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر کی آیات سے واضح ہے کہ ان انبیاء کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح کے انعام (فضل) سے نوازا تھا۔ یہی وہ انعام ہے جس کا ذ کر سورۂ فاتحہ میں اس طرح ہوا ہے الذین انعمت علیہم (جن پر تیرا انعام ہوا) ۔

 

۸۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ سب انبیاء آدم کی اولاد میں سے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی نہ خدا تھا" نہ خدا کا بیٹا اور نہ خدا کا اوتار۔

 

۸۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسی" ہارون" ز کریا" یحیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام اسرائیل یعنی یعقوب علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔

 

۸۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں انبیاء علیہم السلام کا یہ اسوہ بیان ہوا ہے کہ جب آیات الٰہی انہیں سنائی جاتیں تو ان پر رقت طاری ہوتی اور وہ بے اختیار سجدے میں گر جاتے۔

 

کلام الٰہی کی تاثیر " سوزو گداز اور خشوع و خضوع ہے مگر موجودہ زمانہ کے قاری عام طور سے خوش الحانی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کی قرأت سوز و گداز سے خالی ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ سننے والے کلام الٰہی کا اثر قبول کرنے کے بجائے قاری کی خوش الحانی کی داد دینے لگتے ہیں۔

 

یہ آیت سجدہ ہے اس لیے اس کی تلاوت کرنے یا سننے پر سجدہ کرنا چاہیے۔

 

۸۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے یہود و نصاریٰ کی طرف جنہوں نے انبیاء کے اسوہ کو چھوڑا اور ان کے صرف عقیدت مند ہو کر رہ گئے۔ نماز کے اہتمام کی جو تاکید انہوں نے کی تھی اس کو انہوں نے بھلا دیا نتیجہ یہ کہ وہ خواہشات کے غلام بن کر رہ گئے۔

 

بنی اسمٰعیل (عربوں) کا حال بھی یہی تھا۔ حضرت اسمعیلؑ نے اپنی اولاد کو نماز قائم کرنے کا تاکیدی حکم دیا تھا مگر ان کی نسل نے نماز کی جگہ بت پرستی اختیار کی۔

 

نماز کو ضائع کرنے اور خواہشات کے پیچھے چلنے کا جو ایک ساتھ ذ کر ہوا ہے اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ نماز کو ترک کرنے کے بعد شریعت کی پابندی کرنا اور نیک عملی کی زندگی گزارنا ممکن ہی نہیں رہتا۔ ایسا شخص لازماً اپنے نفس کی خواہشات کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے اور اس کی زندگی غلط رخ اختیار کر جاتی ہے۔

 

اس آیت میں مسلمانوں کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ سابقہ امتوں کے نماز کو ضائع کرنے کے عبرتناک انجام کے سامنے آ جانے کے بعد ان کو سختی کے ساتھ نماز کے حکم پر کار بند ہونا چاہیے تھا مگر افسوس کہ آج مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد نماز کو ترک کئے ہوئے ہے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کی اخلاقی اور عملی حالت گر گئی ہے اور ان کی زندگیاں خواہشات کے تابع ہو کر رہ گئی ہیں۔

 

۸۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ نماز ترک کرنا گمراہی ہے۔

 

۸۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جنہوں نے نماز کو ضائع کر کے خواہشات کی پیروی کی ان کے لیے اصلاح کا موقع ہے۔ اگر وہ اپنی غلط روی سے باز آ جائیں " اپنے گنا ہوں کی اللہ سے معافی مانگیں " قرآن اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں تو وہ جنت کے مستحق ہوں گے اور ان کی کوئی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔

 

۸۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگرچہ جنت کے باغ ان بندوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں مگر ان کا ان میں داخل ہونا یقینی ہے کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے جسے لازماً پورا ہونا ہے۔

 

۸۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ غاشیہ نوٹ ۱۳۔

 

۸۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جنت میں رزق کے لیے کوئی جدوجہد نہیں کرنا پڑے گی بلکہ دائمی طور پر انہیں رزق مہیا ہوتا رہے گا۔

 

۸۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جنت کے مالک وہ لوگ بنیں گے جنہوں نے اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کی تھی۔ اوپر کے سلسلہ بیان سے تقویٰ کا مفہوم بالکل واضح ہے۔ جو شخص ان اوصاف حمیدہ کو اپنے اندر پیدا کرتا ہے وہی در حقیقت متقی ہے۔

 

۹۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ جملہ معترضہ ہے جو وحی لانے والے فرشتوں کی زبان سے ادا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔

 

وحی کا سلسلہ جب کچھ دنوں کے لیے رک جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم بے چینی محسوس کرنے لگتے۔ کیونکہ جن صبر آزما حالات سے آپ گزر رہے تھے ان میں وحی کا نزول آپؐ کے لیے باعث تسلی ہوتا نیز مزید رہنمائی کے لیے بھی آپؐ وحی الٰہی کے شدت سے منتظر رہتے آپ کے اسی انتظار کے پیش نظر جبرئیل اور ان کے ساتھی فرشتوں نے اپنی یہ حیثیت واضح کر دی کہ ہمارے اختیار میں یہ بات نہیں ہے کہ جب چاہیں نازل ہوں بلکہ جب اللہ ہمیں حکم دیتا ہے ہم اس کے حکم کی تعمیل میں اترتے ہیں۔

 

اگرچہ یہ جملۂ معترضہ ہے لیکن اوپر کے سلسلۂ بیان سے بھی اس کا ربط ہے۔ اوپر انبیاء علیہم السلام کی حیثیت واضح کی گئی ہے یہاں فرشتوں کی حیثیت واضح کی گئی ہے کہ سب اس کے مطیع فرمان ہیں۔

 

۹۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ سارے زمان و مکاں کا مالک ہے۔ مستقبل ماضی اور حال سب سے وہ اچھی طرح باخبر ہے اس سے کسی بھول کا امکان نہیں لہٰذا اے پیغمبر جو حالات ہمیں پیش آ رہے ہیں وہ اس سے مخفی نہیں اور اس کی حکمت جب متقاضی ہوتی ہے وہ وحی نازل کرتا ہے جسے لی کر ہم (یعنی فرشتے) اترتے ہیں۔ یہاں فرشتوں کا بیان ختم ہوا۔

 

۹۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی کوئی نظیر نہیں۔ وہ اپنی ذات میں بھی یکتا ہے اور صفات میں بھی نیز اس کا نام " اللہ" اسی کے لیے خاص ہے۔ کوئی اس کا ہم نام نہیں۔ پھر عبادت کا مستحق اس کے سوا اور کون ہو سکتا ہے ؟

 

۹۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نہایت ذلت کی حالت میں۔

 

۹۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ان کے پیشوا" سردار اور لیڈ ر ہوں گے جو دنیا میں بہت سرکش بنے ہوئے تھے اور اپنی قوم کو گمراہ کرتے رہے۔

 

۹۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر کی آیات میں ان لوگوں کا ذ کر ہوا ہے جو انسان کے دوبارہ پیدا کئے جانے کے من کر تھے۔ ان کے بارے میں آیت ۶۸ میں فرمایا گیا ہے کہ ان سب کو ہم جہنم کے گرد اس حال میں جمع کریں گے کہ وہ گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہوں گے۔ یہاں ان منکرین سے براہ راست خطاب کر کے فرمایا ہے کہ یاد رکھو تم میں سے کوئی بھی چھوٹنے والا نہیں ہر کافر کو جہنم پر لازماً پہنچنا ہو گا۔

 

پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے رب کا یہ قطعی فیصلہ ہے کہ کافر جہنم کی سزا بھگتیں لہٰذا یہ فیصلہ قیامت کے دن نافذ ہو کر رہے گا یہاں چند با توں کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے تاکہ اس آیت کا صحیح مفہوم واضح ہو۔

 

۱۔ آیت کے پہلے فقرہ " تم میں سے کوئی نہیں جو اس پر وارد نہ ہو" میں خطاب کافروں سے ہے اور دوسرے فقرہ " یہ ایک طے شدہ بات ہے جو تمہارے رب پر لازم ہے۔ " میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہے۔ ایک ہی آیت میں خطاب کی یہ تبدیلی بلاغت کے تقاضوں کے تحت ہے۔ قرآن میں یہی اسلوب دوسری جگہ بھی اختیار کیا گیا ہے چنانچہ سورۂ انعام آیت ۱۲۸ میں ہے۔

 

قَالَ النَّارُ مَثْولٰکُمْ خَالِ دِیْنَ فِیْہَا اٍلّا مَا شَآءَ اللّٰہُ اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ۔ " ارشاد ہو گا تمہارا ٹھکانا آگ ہے جس میں تم ہمیشہ رہو گے مگر جو اللہ چاہے (اے پیغمبر) بے شک تمہارا رب حکمت والا اور علم والا ہے۔ "

 

اس آیت میں بھی پہلے فقرہ میں خطاب منکرین سے ہے اور دوسرے فقرے " اِنَّ رَبّکََ "۔ " تمہارا رب"  میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔

 

۲۔ متن میں لفظ " وارد" استعمال ہوا ہے جو " ورود" سے ہے۔ عربی میں یہ لفظ پہنچنے کے معنی میں بھی آتا ہے اور داخل ہونے کے معنی میں بھی۔ صحاح جوہری میں ہے : ورد فلان وروداً حضر " فلاں وارد ہوا یعنی حاضر ہوا۔ " (الصحاح للجوہری ج۲ص ۵۴۹) ۔

 

لسان العرب میں ہے :

 

ورد علیہ: اشرف علیہ،دخلہ اولم یدخلہُ "اس پر وارد ہوا یعنی اس پر پہنچ گیا خواہ وہ اس میں داخل ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ " (لسان العرب ج۳ ص ۴۵۷) اور قرآن میں بھی یہ لفظ ان دونوں معنی میں استعمال ہوا ہے۔ پہلے معنی کی مثال سورۂ قصص کی آیت ۲۳ ہے : وَلَمَّا وَرَدَمَآء مَدْیَنَ " جب وہ مدین کے پانی پر پہنچا وارد ہوا۔ "

 

ظاہر ہے یہاں وَرَدَ کے معنی پانی پر پہنچنے کے ہیں نہ کہ پانی میں داخل ہونے کے۔ اور دوسرے معنی کی مثال سورہ انبیاء کی آیت ۹۹ ہے : لَوکَانَ ھٰٓؤُلآَءِ آلِہَۃٌ مَاوَرَدُوْہَا۔ " اگر یہ (بت) خدا ہوتے تو جہنم میں وارد (داخل) نہ ہوتے۔ "

 

اس آیت میں وَرَدَ کا لفظ جہنم میں داخل ہونے کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ اس بنا پر مفسرین کے ایک گروہ نے آیت کی تاویل یہ کی ہے کہ اس میں خطاب عام انسانوں سے ہے اور فرمایا یہ گیا ہے کہ ہر شخص کہ خواہ وہ کافر ہو یا مومن متقی جہنم پر حاضر ہونا ضرور ہو گا۔ کافروں کی حاضری تو اس میں داخل ہونے کے لیے ہو گی لیکن متقیوں کی حاضری محض گزرنے کے طور پر ہو گی اور اللہ تعالیٰ انہیں اس سے نجات دے گا۔ مگر یہ تاویل قرآن کی دوسری آیتوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ایک جگہ فرمایا گیا ہے :

 

اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَہُمُ مِنَّا الحُسْنیٰ اُولٓئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ۔ لاَ یَسْمَعُونَ حَسِیْسَہَاوَہُمْ فیِ مَا اْشتَہَتْ اَنْفُسُہُمْ خَالِدُوْنَ۔ (سورۂ انبیاء: ۱۰۱) " جن کے لیے ہماری طرف سے پہلے ہی بھلائی کا فیصلہ ہو چکا ہے وہ اس سے دور رکھے جائیں گے۔ وہ اس کی بھنک بھی نہیں سنیں گے اور اپنی دل پسند چیزوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ "

 

انہیں قیامت کے دن کوئی پریشانی لاحق نہ ہو گی:

 

لَایَحْزُنُہُمُ الْفَرَعُ الْاَکْبَرُوتَتَلَقِّ یہُمرُالمَلآَءِ کۃُ ہٰذَا یومُکُمُ الَّذِیْ کُنْتُم تُوعَدوْنَ (انبیاء:۱۰۳) " (اس روز کی) بڑی گھبراہٹ انہیں پریشان نہیں کرے گی اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا تھا۔ "

 

اور اسی سورہ کی آیت ۸۵ میں فرمایا گیا ہے :

 

یَوْمَ نَحْشُرُالْمُتَّقِیْنَ اِلی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا (مریم:۸۵) " جس دن ہم متقیوں کو رحمٰن کے حضور مہمانوں کی طرح جمع کریں گے۔ "

 

۳۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر یہ بات ارشاد ہوئی ہے کہ شیطان کی پیروی کرنے والے انسانوں اور جنوں سے جہنم کو بھر دوں گا۔ اس لیے یہاں جو فرمایا گیا کہ " یہ ایک طے شدہ بات ہے جس کو پورا کرنا تمہارے رب پر لازم ہے۔ " تو اس سے مراد وہی فیصلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے کافروں سے جہنم کو بھر دینے کے سلسلہ میں کیا ہے۔

 

۹۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ثُمَّ (پھر) عربی میں " بعد" (تراخی) کے معنی ہی میں نہیں آتا بلکہ" اور" (ترتیب اِخباری) کے معنی میں بھی آتا ہے۔ (ملاحظہ ہو النحوالوافی ج۳ ص ۵۷۸) مثال کے طور پر اوپر آیت ۷۰ میں فرمایا گیا ہے :

 

ثُمّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بالَذِّیْنَ ہُمْ اَوْلٰی بِہَا صَلِیَّا۔ پھر ہم ان لوگوں کو بخوبی جانتے ہیں جو جہنم میں جانے کے زیادہ سزا وار ہیں۔ "

 

ظاہر ہے اس آیت میں ثم (پھر) کا مطلب ہے " اور" یا " یہ بھی" اسی طرح زیر تفسیر آیت میں ثم ترتیب زمانی کو نہیں بلکہ ترتیب اِخباری کو ظاہر کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جہاں ہم کافروں کو جہنم پر وارد کریں گے وہاں متقیوں کو بچا لیں گے۔

 

۹۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نُنَجّی " نجات دیں گے " کا مطلب یہ نہیں ہے کہ متقیوں کو پہلے تو جہنم پر وارد کریں گے اور پھر اس مصیبت سے انہیں نجات دیں گے بلکہ مطلب یہ ہے کہ انہیں اس طرح بچا لیں گے کہ جہنم کے عذاب اور اس کی تکلیف سے وہ بالکل محفوظ رہیں گے۔ نجات کا یہ مفہوم سورۂ ہود کی آیت ۵۸ سے بھی واضح ہے جس میں فرمایا گیا ہے۔

 

ونَجَّینَاہُمْ مِنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ۔ " ہم نے ان کو سخت عذاب سے نجات دی۔ "

 

ظاہر ہے یہاں نجات دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو عذاب قومِ ہود پر آیا تھا اس میں اہل ایمان بھی گھر گئے تھے اور پھر اس سے انہیں نجات دی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس عذاب کے آنے سے پہلے ہی اہل ایمان کو وہاں سے محفوظ مقام پر منتقل کرا دیا گیا اور عذاب سے بچا لیا گیا۔

 

۹۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ظالموں (مشرکوں اور کافروں) کے لیے نجات کی کوئی صورت نہیں ہو گی۔ انہیں جس طرح گھٹنوں کے بل ذلت کی حالت میں جہنم میں جھونک دیا گیا تھا اسی حالت میں انہیں دائمی عذاب بھگتنے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔

 

۹۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غریب مسلمانوں کے مقابلہ میں منکرین حق کو جو دنیوی شان و شوکت حاصل تھی اور ان کی مجلسوں میں جو جمگھٹ ہوتا تھا اس پر ان کو نہ صرف فخر تھا بلکہ وہ اس زعم میں مبتلا تھے کہ وہ اللہ کی نظر میں پسندیدہ ہیں ورنہ انہیں یہ شان و شوکت حاصل نہ ہوتی۔

 

ان کے اس خیال کو غلط قرار دیتے ہوئے یہاں فرمایا ہے کہ اس سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو ان سے کہیں زیادہ ساز و سامان اور شان و شوکت رکھتی تھیں ان کی تباہی اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی قوم کو دنیوی شان و شوکت کا حاصل ہو جانا اس کے خدا کی نظر میں پسندیدہ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ اگر وہ کفر کی راہ اختیار کرتی ہے تو وہ اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکتی۔

 

۱۰۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا کی رحمت کا تقاضا ہے کہ بگڑے ہوئے لوگوں کو سنبھلنے کا موقع دے اس لیے وہ گمراہی میں مبتلا ہونے والوں کو فوراً نہیں پکڑتا بلکہ ڈھیل دے دیتا ہے۔

 

۱۰۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد دنیا کا عذاب ہے۔

 

۱۰۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی راہ ہدایت اختیار کرنے والوں پر مزید ہدایت کے دروازے کھلتے ہیں۔ انہیں نیک کاموں کی مزید توفیق ملتی ہے اور و ہ راہ ہدایت پر آگے بڑھے چلے جاتے ہیں۔

 

۱۰۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ کہف نوٹ ۶۵۔

 

۱۰۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد کوئی متعین شخص نہیں بلکہ ہر وہ شخص ہے جو آخرت کا من کر ہو اور ساتھ ہی اس بات کا دعویٰ کرتا ہو کہ اگر آخرت برپا ہوئی تو وہاں بھی اس کو اسی طرح مال اور اولاد کی نعمتیں ملیں گی جس طرح دنیا میں ملی ہیں۔ دنیا کے پرستار ہمیشہ شاندار مستقبل کے خواب ہی دیکھا کرتے ہیں۔

 

۱۰۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کا یہ خیال اور یہ دعویٰ کس بنیاد پر ہے ؟ آیا اس نے غیب میں جھانک کر دیکھ لیا ہے کہ آخرت میں اس کے لیے خیریت ہی خیریت ہے یا خدا نے اس بات کا عہد لے رکھا ہے کہ وہ اسے ہمیشہ مال و اولاد سے نوازتا رہے گا؟ اگر دونوں با توں میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں ہے تو پھر روشن مستقبل کی کیا ضمانت؟

 

۱۰۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مال و اولاد کی جو نعمتیں اسے اس عارضی زندگی میں دی گئی ہیں اور جن کے بارے میں وہ دعوے کے ساتھ کہتا ہے کہ یہ چیزیں آئندہ بھی اسے ملیں گی وہ بالآخر اللہ ہی کی مِلک ہونے والی ہیں اور قیامت کے دن اسے تنہا خدا کے حضور حاضر ہونا ہو گا۔

 

۱۰۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان لوگوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود اس لیے بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کی عبادت سے خوش ہو کر ان کی مد د کریں " بلاؤں کو ٹال دیں اور ہرقسم کی آفتوں سے انہیں نجات دلائیں مگر یہ سب ان کے غلط خیالات اور باطل عقائد ہیں۔ وہ آج اپنے ان عقائد کے خلاف کچھ سننے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن قیامت کے دن وہ دیکھ لیں گے کہ ان کے معبود ان کے مخالف بن گئے ہیں وہ کہیں گے ہمیں نہیں معلوم کہ تم ہماری عبادت کرتے تھے اور ہم نے تم سے کب کہا تھا کہ ہماری عبادت کرو۔ اس طرح میدان حشر میں وہ ان کی مد د کرنے سے رہے الٹے ان کے مخالف بن جائیں گے۔

 

۱۰۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ کفر کرتے ہیں ان پر شیطانوں کو مسلط کر دیا جاتا ہے جو انہیں اہل ایمان کے خلاف خوب اکساتے ہیں اس طرح یہ کافر دعوت حق کے مخالف اہل ایمان کے دشمن بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور پھر یہ زمین حق و باطل کی رزم گاہ بن جاتی ہے۔

 

۱۰۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم صبر کے ساتھ ہمارے فیصلہ کا انتظار کرو۔ ان کے لیے جو مہلت ہم نے مقرر کی ہے وہ بہر حال پوری ہونا ہے ہم اس کا ایک ایک لمحہ گن رہے ہیں۔ عذاب ان پر نہ ایک لمحہ پہلے آ سکتا ہے اور نہ ایک لمحہ بعد۔

 

۱۱۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ " رحمن کے حضور" کہنے میں اللہ کی شان رحمت کا اظہار ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ہم متقیوں کو اپنے حضور اس اعزاز و ا کرام کے ساتھ جمع کریں گے کہ یہ نہایت معز ز وفد ہے جو فرمانروائے کائنات سے ملنے کے لیے آیا ہے اور پھر ہم انہیں اپنی رحمت اور نوازشوں سے مالا مال کر دیں گے۔

 

۱۱۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جن کو انہوں نے معبود بنا رکھا ہے وہ قیامت کے دن خدا کے حضور ان کے حق میں کوئی سفارش نہ کر سکیں گے۔ سورۂ زخرف میں یہ بات زیادہ صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔

 

وَلَاَیمْلِکُ الَّذِیْنَ یَدْغُونَ مِنْ دُوْنِہٖ الشَّفَاعَہَ اِلاّ مَنْ شَہِدَ بِالحَقِّ وَہُمْ یَعْلَمُوْن (سورۂ زخرف:۸۶) " اللہ کو چھوڑ کر جن کو یہ پکارتے ہیں وہ شفاعت کا کوئی اختیار نہیں رکھتے مگر جو حق کی شہادت دیں گے اور وہ جانتے ہوں گے۔ "

 

شفاعت کرنا صرف ان ہی کے لیے ممکن ہو گا جنہوں نے رحمن سے فرمان حاصل کر لیا ہو اور یہ اعزاز ان ہی کو بخشا جائے گا جو حق کی گواہی دینے والے ہوں گے اور جانتے ہوں گے کہ کون اس بات کے اہل ہیں کہ ان کے حق میں شفاعت کی جائے۔ ان میں انبیاء علیہم السلام پیش پیش ہوں گے۔

 

شفاعت کے ان کڑی شرائط کے پیش نظر مشرکوں اور کافروں کے لیے کوئی بھی شفاعت نہیں کرے گا۔ رہے وہ گنہگار جو اہل ایمان میں سے ہوں گے تو ان میں سے جن کے حق میں اللہ تعالیٰ اجازت دے گا ان ہی کے لیے شفاعت کی جاس کے گی۔

 

قرآن کے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ شفاعت ایک استثنائی صورت ہو گی جو اللہ تعالیٰ کی مغفرت ہی کی ایک شکل ہے ورنہ نجات کے لیے اصل اصول وہ صالحانہ زندگی ہے جو ایمان کی بنیاد پر بسر کی گئی ہو۔

 

آج مسلمانوں کی بڑی تعداد شفاعت پر تکیہ کئے ہوئے ہے۔ ان کی زندگیاں بالکل فاسقانہ ہیں مگر وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں پیدا ہوئے ہیں اس لیے ہمارا بیڑا پار ہے۔ وہ اس خوش فہمی میں اس لیے مبتلا ہیں کہ انہوں نے قرآن کی ان آیتوں کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں جن میں جزا و سزا کا بے لاگ قانون بیان ہوا ہے مثلاً:

 

بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیّئَۃً وَّ اَحَاطَتْ بِہٖ خطَیٓئَتُہ" فَاُولٰٓئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَاخَالِدُوْنَ (سورۂ بقرہ: ۸۱) " کیوں نہیں ؟ جس نے بھی برائی کمائی اور اس کے گنا ہوں نے اس کو گھیرے میں لے لیا تو ایسے ہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ " اور یہود کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ آخرت کے بجائے دنیا کے فائدے بٹورنے لگے تھے اور کہتے تھے سَیُغْفَرُلَنَا (ہمیں بخش دیا جائے گا)

 

۱۱۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سورت کی اختتامی آیات ہیں اس لیے بیان کا رخ پھر اسی گمراہی کی تردید کی طرف ہے جس میں نصاریٰ مبتلا تھے۔ ان کا یہ دعویٰ کہ حضرت مسیح خدا کے بیٹے ہیں ایک ایسی گمراہی تھی جس نے ان کو توحید کی راہ سے ہٹا کر شرک کے گڑھے میں دھکیل دیا تھا اور انجیل میں تحریف کی بنا پر اس نے ایک پختہ عقیدہ کی شکل اختیار کی تھی۔ مثال کے طور پر مرقس کی انجیل کا آغاز ہی اس طرح ہوتا ہے :

 

" یسوع مسیح ابن خدا کی خوشخبری کا شروع" (مرقس ۱:۱) ۔

 

اس میں بڑی جسارت کے ساتھ حضرت مسیح کو ابن خدا کہا گیا ہے حالانکہ یہ بات اس انجیل میں موجود نہیں تھی جو عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ " "ابن خدا" کا اضافہ بعد کی چیز ہے اور اس بات کا اعتراف تو بائبل کا شارح کرتا ہے کہ انجیل کے بعض قدیم نسخوں میں " ابن خدا" کے الفاظ نہیں تھے۔

 

"Some ancient manuscript have the descriptive phase the Son of God at the end and others do not have it."

 

) Interpreter's one volume Commentary on The Bible__U.S.A. P. (645)

 

سوال یہ ہے کہ اگر موجودہ انجیلیں خدا کا کلام ہیں تو اس کے بعض قدیم نسخوں سے " ابن خدا" کے الفاظ غائب کیسے ہوئے ؟ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ اصل انجیل میں حضرت مسیح کو " ابن اللہ "کہا ہی نہیں کیا گیا تھا۔ پھر مرقس کے انجیل کے تمہیدی فقرہ میں حضرت مسیح کا نسب خدا سے جوڑ دیا گیا ہے گویا خدا نے ان کو جنم دیا تھا (نعوذ باللہ من ذالک) لیکن لوقا کی انجیل میں ہے کہ جب حضرت مسیح نے بپتسمہ (ایک خاص قسم کا غسل) لیا اس وقت انہیں بیٹا ہونے کا اعزاز بخشا گیا۔

 

" جب سب لوگوں نے بپتسمہ لیا اور یسوع بھی بپتسمہ پا کر دعا کر رہا تھا تو ایسا ہوا کہ آسمان کھل گیا اور روح القدس جسمانی صورت میں کبوتر کی مانند اس پر نازل ہوا اور آسمان سے آواز آئی کہ تو میرا پیارا بیٹا ہے تجھ سے میں خوش ہوں۔ " (لوقا ۳:۲۱۔ ۲۲)

 

لوقا کے اس بیان سے واضح ہے کہ حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا ہونے کا لقب عطا کیا گیا تھا بالفاظ دیگر وہ متبنّٰی تھے جبکہ مرقس کی انجیل ان کو حقیقی بیٹے کی حیثیت سے پیش کرتی ہے۔ انجیلوں کی یہ تضاد بیانی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ " ابنیّت" کی بات ایک گھڑی ہوئی بات ہے جو انجیل میں داخل کر کے خدا پر زبردست جھوٹ بولا گیا ہے اور سچی بات وہی ہے جو قرآن کہتا ہے کہ حضرت مسیح نہ حقیقی معنی میں خدا کے بیٹے تھے اور نہ مجازی معنی میں یعنی نہ خدا نے ان کو جنم دیا تھا اور نہ وہ متبنّی تھے بلکہ خدا کے عبد یعنی بندے تھے۔

 

۱۱۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی طرف بیٹے کی نسبت کو تم معمولی خیال کرتے ہو حالانکہ یہ ایسی سنگین بات ہے کہ اس پر اللہ کا غضب ٹوٹ پڑے تو عجب نہیں۔ یہ اللہ کی طرف عیب کو منسوب کرنے کے علاوہ اس کی توہین بھی ہے اور اس کی غیرت کو چیلنج بھی۔ اس چیلنج کے نتیجہ میں اللہ کا غضب بھڑک سکتا ہے اور اس کے غضب سے آسمان و زمین کا نظام درہم برہم ہو سکتا ہے لیکن وہ رحمن ہے اس لیے وہ اپنے بندوں کو عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ انہیں اپنے طرز عمل کو درست کرنے کا موقع دیتا ہے۔

 

۱۱۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب سب پیدائشی بندے ہیں اور بندے ہی کی حیثیت سے خدا کے حضور حاضر ہونے والے ہیں تو حضرت عیسیٰ اس سے مستثنیٰ کیسے ہوئے ؟ وہ بھی دوسرے بندوں کی طرح بندہ ہی ہیں اور بندہ ہی کی حیثیت سے خدا کے حضور حاضر ہوں گے۔

 

۱۱۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سب اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں اور ہر نفس کی اس نے گنتی کر رکھی ہے۔ کوئی نہیں جو اس کے شمار میں نہ ہو اس لیے اس کے حضور حاضر سب کو ہونا ہو گا۔

 

۱۱۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ خوشخبری ہے جو اہل ایمان کو اس وقت دی گئی جبکہ پوری سوسائٹی ان کے مخالفت میں سرگرم ہو گئی تھی۔ فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دلوں میں ان کے لیے محبت پیدا کر دے گا۔ چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ ساتھی محبوبِ خلائق بن گئے اور آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں صحابۂ کرام کے لیے جو محبت ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ سچے مؤمنوں کو اللہ تعالیٰ دنیا میں یہ صلہ دیتا ہے کہ اس کے مخلص بندوں کے دلوں میں ان کے لیے محبت پیدا ہو جاتی ہے۔

 

اس سورہ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں رحمن کا نام بار بار آیا ہے جو رحمن کی صحیح معرفت عطا کرتا ہے۔ اس سے اس کی رحمت کے تقاضے سامنے آتے ہیں اور ان غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتا ہے جن میں مبتلا ہونے کی وجہ سے مذہبی دنیا اپنے مہربان خدا کو پہچان نہیں سکی ہے۔

 

۱۱۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جھگڑالو لوگوں سے مراد عرب ہیں جنہوں نے توحید، رسالت اور آخرت وغیرہ کے بارے میں بڑی بحثیں کھڑی کر دی تھیں اور حق کو آسانی سے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔

 

قرآن کے نزول کا اولین مقصد یہ ہے کہ خدا سے غافل لوگوں کو برے انجام سے ہوشیار اور خبردار کر دیا جائے اور اس سے ڈرنے والوں کو اچھے انجام کی خوشخبری دی جائے۔ قرآن میں یہ باتیں عام فہم اور نہایت سہل انداز میں بیان ہوئی ہیں لہٰذا جن کی زبان عربی ہیں یا جنہوں نے عربی زبان سیکھ لی ہے ان کے لیے قرآن کی دعوت کو براہ راست قرآن سے سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ رہے وہ لوگ جو عربی نہیں جانتے تو وہ بھی ترجمہ کی مد د سے قرآن کی دعوت کو بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ البتہ تعبیر و استنباط کا مسئلہ اس سے مختلف ہے اور اس کے لیے یقیناً عربی زبان میں مہارت ضروری ہے۔

 

۱۱۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تباہ شدہ قوموں کا کوئی وجود نہیں رہا اور ان کا غلغلہ اور ان کی ہنگامہ آرائیاں اس طرح ختم ہو گئیں کہ اب ان کی آہٹ بھی سنائی نہیں دیتی۔ پھر کیا تم بھی اپنی مادی خوشحالیوں میں مگن ان ہی قوموں کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہو؟

٭٭٭٭٭