احسن البیان

سُوۡرَةُ الزّخرُف

٣۔ جو دنیا کی فصیح ترین زبان ہے، دوسرے، اس کے اولین مخاطب بھی عرب تھے، انہی کی زبان میں قرآن اتارا تاکہ وہ سمجھنا چاہیں تو آسانی سے سمجھ سکیں۔

٤۔ اس میں قرآن کریم کی اس عظمت اور شرف کا بیان ہے جو ملاء اعلیٰ میں اسے حاصل ہے تاکہ اہل زمین بھی اس کے شرف و عظمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کو قرار واقعی اہمیت دیں اور اس سے ہدایت کا وہ مقصد حاصل کریں جس کے لئے اسے دنیا میں اتارا گیا ہے اُمْ الْکِتَابِ سے مراد لوح محفوظ ہے۔

٥۔ اس کے مختلف معنی کئے گئے ہیں مثلاً ١۔ تم چونکہ گناہوں میں بہت بڑھ چکے ہو اور ان پر مصر ہو، اس لئے کہ یہ گمان کرتے ہو کہ ہم وعظ و نصیحت کرنا چھوڑ دیں گے ؟ ٢۔ یا تمہارے کفر اور اسراف پر ہم تمہیں کچھ نہ کہیں گے اور تم سے درگزر کر لیں گے ٣۔ یا تمہیں ہلاک کر دیں گے اور کسی چیز کا تمہیں حکم دیں نہ منع کریں، ٤۔ چونکہ تم قرآن پر ایمان لانے والے نہیں ہو۔

٨۔ یعنی اہل مکہ سے زیادہ زور آور تھے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (کَانُوْا اَکْثَرَ مِنْھُمْ وَاَشَدَّ قُوَّۃً) ' وہ ان سے تعداد اور قوت میں کہیں زیادہ تھے۔

١٠۔ (۱)   ایسا بچھونا، جس میں ثبات و قرار ہے، تم اس پر چلتے ہو، کھڑے ہوتے اور سوتے ہو اور جہاں چاہتے ہو، پھرتے ہو اس نے اس کو پہاڑوں کے ذریعے سے جما دیا تاکہ اس میں حرکت و جنبش نہ ہو۔

١٠۔ (۲)  یعنی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانے کے لئے راستے بنا دیئے تاکہ کاروباری، تجارتی اور دیگر مقاصد کے لئے تم آ جا سکو۔

١١۔ (۱)   جس سے تمہاری ضرورت پوری ہو سکے، کیونکہ قدرت حاجت سے کم بارش ہوتی وہ تمہارے لئے مفید ثابت نہ ہوتی اور زیادہ ہوتی تو وہ طوفان بن جاتی، جس سے تمہارے ڈوبنے اور ہلاک ہونے کا خطرہ ہوتا۔

١١۔ (۲)  یعنی جس طرح بارش سے مردہ زمین شاداب ہو جاتی ہے۔ اسی طرح قیامت والے دن تمہیں بھی زندہ کر کے قبروں سے نکال لیا جائے گا۔

١٣۔ یعنی اگر ان جانوروں کو ہمارے تابع اور ہمارے بس میں نہ کرتا تو ہم انہیں اپنے قابو میں رکھ کر ان کی سواری، بار برداری اور دیگر مقاصد کے لئے استعمال نہیں کر سکتے تھے۔

١٥۔ عِبَاد سے مراد فرشتے اور جُزْء سے مراد بیٹیاں یعنی فرشتے، جن کو مشرکین اللہ کی بیٹیاں قرار دے کر ان کی عبادت کرتے تھے۔ یوں وہ مخلوق کو اللہ کا شریک اور اس کا جزء مانتے تھے۔

١٩۔ یعنی جزا کے لئے۔ کیوں کہ فرشتوں کے اللہ کی بیٹیاں ہونے کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہو گی۔

٢٠۔ یعنی اپنے طور پر اللہ کی مشیت کا سہارا، یہ ان کی ایک بڑی دلیل ہے کیوں کہ ظاہراً یہ بات صحیح ہے کہ اللہ کی مشیت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا نہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ اس کی مشیت، اس کی رضا سے مختلف چیز ہے۔ ہر کام یقیناً اس کی مشیت ہی سے ہوتا ہے لیکن راضی وہ انہی کاموں سے ہوتا ہے جن کا اس نے حکم دیا ہے نہ کہ ہر اس کام سے جو انسان اللہ کی مشیت سے کرتا ہے، انسان چوری، بدکاری، ظلم اور بڑے بڑے گناہ کرتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو کسی کو یہ گناہ کرنے کی قدرت ہی نہ دے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لے، اور اس کے قدموں کو روک دے اس کی نظر سلب کر لے۔ لیکن یہ جبر کی صورتیں ہیں جب کہ اس نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے تاکہ اسے آزمایا جائے، تاہم یہ اختیار اللہ دنیا میں اس سے واپس نہیں لے گا، البتہ اس کی سزا قیامت والے دن دے گا۔

٢١۔ یعنی قرآن سے پہلے کوئی کتاب، جس میں ان کو غیر اللہ کی عبادت کرنے کا اختیار دیا ہے جسے انہوں نے مضبوطی سے تھام رکھا ہے ؟ یعنی ایسا نہیں ہے بلکہ اپنے آباو اجداد کی پیروی کے سوا ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔

٢٤۔ یعنی اپنے آبا کی تقلید میں اتنے پختہ تھے کہ پیغمبر کی وضاحت اور دلیل بھی انہیں اس سے نہیں پھیر سکی۔ یہ آیت اندھی تقلید کے بطلان اور اس کی قباحت پر بہت بڑی دلیل ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے فتح القدیر، للشوکافی)

٢٧۔ یعنی جس نے مجھے پیدا کیا وہ مجھے اپنے دین کی سمجھ بھی دے اور اس پر ثابت قدم بھی رکھے گا، میں صرف اسی کی عبادت کروں گا۔

٢٨۔ (۱)   یعنی اس کا کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی وصیت اپنی اولاد کو کر گئے جیسے فرمایا ' یعنی اللہ نے اس کلمہ کو ابراہیم علیہ السلام کے بعد ان کی اولاد میں باقی رکھا اور وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے رہے۔

٢٨۔ (۲)  یعنی اولاد ابراہیم میں یہ موحدین اس لئے پیدا کئے تاکہ ان کی توحید کے وعظ سے لوگ شرک سے باز آتے رہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دین تھا جو خالص توحید پر مبنی تھا نہ کہ شرک پر۔

٢٩۔ (۱)   یہاں سے پھر ان نعمتوں کا ذکر ہو رہا ہے جو اللہ نے انہیں عطا کی تھیں اور نعمتوں کے بعد عذاب میں جلدی نہیں کی بلکہ انہیں پوری مہلت دی، جس سے وہ دھوکے میں مبتلا ہو گئے اور خواہش کے بندے بن گئے۔

٢٩۔ (۲)  حق سے قرآن اور رسول سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مراد ہیں۔ مُبِیْن رسول کی صفت ہے، کھول کر بیان کرنے والا بیان کی رسالت واضح اور ظاہر ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔

٣٠۔ قرآن کو جادو قرار دے کر اس کا انکار کر دیا اور اگلے الفاظ میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی تحقیر و تنقیص کی۔

٣١۔ دونوں بستیوں سے مراد مکہ اور طائف ہے اور بڑے آدمی سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک مکے کا ولید بن مغیرہ اور طائف کا عروہ بن ثقفی ہے۔

٣٢۔ اس رحمت سے مراد آخرت کی وہ نعمتیں ہیں جو اللہ نے اپنے نیک بندوں کے لئے تیار کر رکھی ہیں۔

٣٣۔ یعنی دنیا کے مال و اسباب میں رغبت کرنے کی وجہ سے طالب دنیا ہی ہو جائیں گے اور رضائے الٰہی اور آخرت کی طلب سب فراموش کر دیں گے۔

٣٥۔ جو شرک و معاصی سے اجتناب اور اللہ کی اطاعت کرتے رہے، ان کے لئے آخرت اور جنت کی نعمتیں ہیں جن کو زوال و فنا نہیں۔

٣٦۔ (۱)   عَشَا یَعْشُوْ کے معنی ہیں آنکھوں کی بیماری اس کی وجہ سے جو اندھا پن ہوتا ہے۔ یعنی جو اللہ کے ذکر سے اندھا ہو جائے۔

٣٦۔ (۲)  وہ شیطان، اللہ کی یاد سے غافل رہنے والے کا ساتھی بن جاتا ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے اور نیکیوں سے روکتا ہے۔

٣٧۔ یعنی وہ شیطان ان کے حق کے راستے کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں اور اس سے انہیں روکتے ہیں اور انہیں برابر سمجھاتے رہتے ہیں کہ تم حق پر ہو، حتیٰ کہ وہ واقعی اپنے بارے میں یہی گمان کرنے لگ جاتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں یا کافر شیطانوں کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہیں اور ان کی اطاعت کرتے رہتے ہیں (ابن کثیر)۔

٣٨۔ مراد مشرق اور مغرب کی دوری ہے، یہ کافر قیامت والے دن کہے گا لیکن اس دن اس اعتراف کا کیا فائدہ؟

٤٠۔ یعنی جس کے لئے شقاوت ابدی لکھ دی گئی، وہ وعظ نصیحت کے اعتبار سے بہرہ اور اندھا ہے دعوت و تبلیغ سے وہ راہ راست پر نہیں آ سکتا۔

٤١۔ (۱)   یعنی تجھے موت آ جائے، قبل اس کے کہ ان پر عذاب آئے، یا تجھے مکے سے نکال لے جائیں۔

٤١۔ (۲)  دنیا میں اگر ہماری مشیت طلب کرنے والی ہوئی، بصورت دیگر عذاب اُخروی سے تو وہ کسی صورت نہیں بچ سکتے۔

٤٢۔ (۱)   یعنی تیری موت سے قبل ہی، یا مکے میں ہی تیرے رہتے ہوئے عذاب بھیج دیں۔

٤٢۔ (۲)  یعنی ہم جب چاہیں ان پر عذاب نازل کر سکتے ہیں، کیوں کہ ہم ان پر قادر ہیں۔ چنانچہ آپ کی زندگی میں ہی بدر کی جنگ میں کافر عبرت ناک شکست اور ذلت سے دو چار ہوئے۔

٤٣۔ یعنی قرآن کریم کو، چاہے کوئی بھی اسے جھٹلاتا رہے۔

٤٤۔ یعنی یہ قرآن تیرے لئے اور تیری قوم کے لئے شرف و عزت کا باعث ہے کہ یہ ان کی زبان میں اترا، اس کو وہ سب سے زیادہ سمجھنے والے ہیں اور اس کے ذریعے سے وہ پوری دنیا پر فضل و برتری پا سکتے ہیں اس لئے ہم کو چاہیے کہ اس کو اپنائیں اور اس پر سب سے زیادہ عمل کریں۔

٤٥۔ جواب یقیناً نفی میں ہے۔ اللہ نے کسی بھی نبی کو یہ حکم نہیں دیا۔ بلکہ اس کے برعکس ہر نبی کو دعوت توحید کا حکم دیا گیا۔

٤٧۔ یعنی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دعوت توحید دی تو انہوں نے ان کے رسول ہونے کی دلیل طلب کی، جس پر انہوں نے وہ دلائل و معجزات پیش کئے جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے تھے، جنہیں دیکھ کر انہوں نے مذاق کیا اور کہا یہ کون سی چیزیں ہیں۔ یہ تو جادو کے ذریعے ہم بھی پیش کر سکتے ہیں۔

٤٨۔ (۱)   ان نشانیوں سے وہ نشانیاں مراد ہیں جو طوفان، ٹڈی دل، جوئیں، مینڈک اور خون وغیرہ کی شکل میں یکے بعد دیگرے انہیں دکھائیں گئیں، جن کا تذکرہ سورہ اعراف، آیات۔١٣٣،١٣٥ میں گزر چکا ہے۔ بعد میں آنے والی ہر نشانی پہلی نشانی سے بڑی چڑھی ہوتی، جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صداقت واضح سے واضح تر ہو جاتی۔

٤٨۔ (۲)  مقصد ان نشانیوں یا عذاب سے یہ ہوتا تھا کہ شاید وہ تکذیب سے باز آ جائیں۔

٤٩۔ (۱)   'اپنے رب سے ' کے الفاظ اپنی مشرکانہ ذہنیت کی وجہ سے کہے کیوں کہ مشرکوں میں مختلف رب اور اللہ ہوتے تھے، موسیٰ علیہ السلام اپنے رب سے یہ کام کروا لو!

٤٩۔ (۲)  یعنی ہمارے ایمان لانے پر عذاب ٹالنے کا وعدہ۔

 ٤٩۔ (۳) اگر عذاب ٹل گیا تو ہم تجھے اللہ کا سچا رسول مان لیں گے اور تیرے ہی رب کی عبادت کریں گے لیکن ہر دفعہ وہ اپنا یہ عہد توڑ دیتے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے اور سورہ اعراف میں بھی گزرا۔

٥١۔ اس سے مراد دریائے نیل یا اس کی بعض شاخیں ہیں جو اس کے محل کے نیچے سے گزرتی تھیں۔

٥٢۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لکنت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ سورہ طہ میں گزرا۔

٥٣۔ (۱)   اس دور میں مصر اور فارس کے بادشاہ اپنی امتیازی شان اور خصوصی حیثیت کو نمایاں کرنے کے لئے سونے کے کڑے پہنتے تھے۔ اسی طرح قبیلوں کے سردار کے ہاتھوں میں بھی سونے کے کڑے اور گلے میں سونے کے طوق اور زنجیریں ڈال دی جاتی ہیں۔ اسی اعتبار سے فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہا کہ اگر اس کی حیثیت اور امتیازی شان ہوتی تو اس کے ہاتھ میں سونے کے کڑے ہونے چاہیے تھے۔

 ٥٣۔ (۲)  جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ اللہ کا رسول ہے یا بادشاہوں کی طرح اس کی شان کو نمایاں کرنے کے لئے اس کے ساتھ ہوتے۔

٥٦۔ یعنی ان کو بعد میں آنے والوں کے لئے نصیحت اور مثال بنا دیا۔ کہ وہ اس طرح کفر و ظلم اور علو و فساد نہ کریں جس طرح فرعون نے کیا تاکہ وہ اس جیسے عبرت ناک حشر سے محفوظ رہیں۔

٥٨۔ شرک کی تردید اور جھوٹے معبودوں کی بے وقعتی کی وضاحت کے لئے جب مشرکین مکہ سے کہا جاتا کہ تمہارے ساتھ تمہارے معبود بھی جہنم جائیں گے تو اس سے مراد وہ پتھر کی مورتیاں ہوتی ہیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے نہ کہ وہ نیک لوگ جو اپنی زندگیوں میں لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے، مگر ان کی وفات کے بعد ان کے معتقدین نے انہیں بھی معبود سمجھنا شروع کر دیا ان کی بابت قرآن کریم نے ہی واضح کر دیا ہے کہ یہ جہنم سے دور رہیں گے۔

٥٩۔ ایک اس اعتبار سے کہ بغیر باپ کے ان کی ولادت ہوئی، دوسرے، خود انہیں جو معجزات دیئے گئے، احیائے موتی وغیرہ، اس لحاظ سے بھی۔

٦٠۔ یعنی تمہیں ختم کر کے تمہاری جگہ زمین پر فرشتوں کو آباد کر دیتے، جو تمہاری ہی طرح ایک دوسرے کی جانشینی کرتے، مطلب یہ ہے کہ فرشتوں کا آسمان پر رہنا اشرف نہیں ہے کہ ان کی عبادت کی جائے یہ تو ہماری مشیت ہے اور قضا ہے کہ فرشتوں کو آسمان اور انسانوں کو زمین پر آباد کیا، ہم چاہیں تو فرشتوں کو زمین پر بھی آباد کر سکتے ہیں۔

٦١۔ اکثر مفسرین کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے قریب ان کا آسمان سے نزول ہو گا، جیسا کہ، صحیح متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ یہ نزول اس بات کی علامت ہو گا کہ اب قیامت قریب ہے اس لئے بعض نے اسے عین اور لام کے زبر کے ساتھ (عَلَم) پڑھا ہے، جس کے معنی نشانی اور علامت کے۔

٦٣۔ اس کے لئے دیکھئے آل عمران، آیت۔٥ کا حاشیہ۔

٦٥۔ اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں، یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں نقص نکالا اور انہیں نعوذ باللہ ولد الزنا قرار دیا، جب کہ عیسائیوں نے غلو سے کام لے کر انہیں معبود بنا لیا۔ یا مراد عیسائیوں ہی کے مختلف فرقے ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ایک دوسرے سے شدید اختلاف رکھتے ہیں، ایک انہیں ابن اللہ، دوسرا اللہ اور ثالث ثلاثہ کہتا اور ایک فرقہ مسلمانوں ہی کی طرح انہیں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول تسلیم کرتا ہے۔

٦٨۔ یہ قیامت والے دن ان متقین کو کہا جائے گا جو دنیا میں صرف اللہ کی رضا کے لئے ایک دوسرے سے محبت رکھتے تھے۔ جیسا کہ حدیث میں بھی اس کی فضیلت ہے۔ بلکہ اللہ کے لئے بغض اور اللہ کے لئے محبت کو کمال ایمان کی بنیاد بتلایا گیا ہے۔

٧٠۔ اَ زْوَاجُکُمْ سے بعض نے مومن بیویاں، بعض نے مومن ساتھی اور بعض نے جنت میں ملنے والی حور عین بیویاں مراد لی ہیں۔ یہ سارے ہی مفہوم صحیح ہیں کیونکہ جنت میں یہ سب کچھ ہی ہو گا۔ تُحْبَرُونَ حَبْر سے ماخوذ ہے یعنی وہ فرحت و مسرت جو انہیں جنت کی نعمت و عزت کی وجہ سے ہو گی۔

٧١۔ مطلب ہے اہل جنت کو جو کھانے ملیں گے، وہ سونے کی رکابیوں میں ہوں گے (فتح القدیر)

٧٥۔ یعنی نجات سے مایوس۔

٧٧۔ (۱)   مالک، دروغہ جہنم کا نام ہے۔

٧٧۔ (۲)  یعنی ہمیں موت ہی دے دے تاکہ عذاب سے جان چھوٹ جائے۔

٧٧۔ (۳) یعنی وہاں موت کہاں ؟ لیکن یہ عذاب کی زندگی موت سے بھی بدتر ہو گی، تاہم اس کے بغیر بھی چارہ نہیں ہو گا۔

٧٨۔ یہ اللہ کا ارشاد ہے یا فرشتوں کا ہی قول بطور نیابت الٰہی ہے۔ جیسے کوئی افسر مجاز ' ہم ' کا استعمال حکومت کے مفہوم میں کرتا ہے۔ اکثر سے مراد کل ہے یعنی سارے ہی جہنمی، یا پھر اکثر سے مراد رؤسا اور لیڈر ہیں۔ باقی جہنمی ان کے پیروکار ہونے کی حیثیت سے اس میں شامل ہوں گے۔ حق سے مراد، اللہ کا وہ دین اور پیغام ہے جو وہ پیغمبروں کے ذریعے سے ارسال کرتا رہا۔ آخری حق قرآن اور دین اسلام ہے۔

٧٩۔ یعنی ان جہنمیوں نے حق کو ناپسند ہی نہیں کیا بلکہ یہ اس کے خلاف منظم تدبیریں اور سازشیں کرتے رہے۔ جس کے مقابلے میں پھر ہم نے بھی اپنی تدبیر کی اور ہم سے زیادہ مضبوط تدبیر کس کی ہو سکتی ہے ؟

٨٠۔ (۱)   یعنی جو پوشیدہ باتیں وہ اپنے نفسوں میں چھپائے پھرتے ہیں یا خلوت میں آہستگی سے کرتے ہیں یا آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں، کیا وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم وہ نہیں سنتے ؟

 ٨٠۔ (۲)  یعنی یقیناً سنتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے الگ ان کی ساری باتیں نوٹ کرتے ہیں۔

٨١۔ کیوں کہ اللہ کا مطیع اور فرماں بردار ہوں اگر واقع اس کی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے میں ان کی عبادت کرنے والا ہوتا۔ مطلب مشرکین کے عقیدے میں اللہ کی اولاد ثابت کرتے ہیں۔

٨٣۔ (۱)   یعنی اگر یہ ہدایت کا راستہ نہیں اپناتے تو اب انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیں اور دنیا کے کھیل کود میں لگا رہنے دیں۔

٨٣۔ (۲)  ان کی آنکھیں اس دن کھلیں گی جب ان کے اس رویے کا انجام ان کے سامنے آئے گا۔

٨٤۔ یہ نہیں ہے کہ آسمانوں کا معبود کوئی اور بلکہ جس طرح ان دونوں کا خالق ایک ہی معبود بھی ایک ہی ہے۔

٨٥۔ (۱)   جس کو اپنے وقت پر ظاہر فرمائے گا۔

 ٨٥۔ (۲)  جہاں وہ ہر ایک کو اس کے عملوں کے مطابق جزا و سزا دے گا۔

٨٦۔ (۱)   یعنی دنیا میں جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں، یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے ان معبودوں کو شفاعت کا قطعاً کوئی اختیار نہیں ہو گا۔

٨٦۔ (۲)  حق بات سے مراد کلمہ توحید لا الٰہ الا اللہ ہے اور یہ اقرار بھی علم و بصیرت کی بنیاد ہو، محض رسمی اور تقلیدی نہ ہو یعنی زبان سے کلمہ توحید ادا کرنے والے کو پتہ ہو کہ اس میں صرف ایک اللہ کا اثبات اور دیگر تمام معبودوں کی نفی ہے۔

٨٨۔ اللہ کے پاس ہی قیامت اور اپنے پیغمبر کے شکوہ کا علم ہے۔

٨٩۔ یعنی دین کے معاملے میں میری اور تمہاری راہ الگ الگ ہے، تم اگر باز نہیں آتے تو اپنا عمل کئے جاؤ، میں اپنا کام کئے جا رہا ہوں، عنقریب معلوم ہو جائے گا سچا کون ہے اور جھوٹا کون؟