تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الزّخرُف

۳۔۔۔   کیونکہ عربی تمہاری مادری زبان ہے اور تمہارے ذریعہ سے دنیا کی قومیں اس کتاب کو سیکھیں گی۔

۴۔۔۔    یعنی وجوہ اعجاز اور اسرار عظیمہ پر مشتمل ہونے کی وجہ سے نہایت بلند اور تبدیل و تحریف سے محفوظ رہنے کی وجہ سے نہایت مستحکم ہے۔ اس کے دلائل و براہین نہایت مضبوط اور اس کے احکام غیر منسوخ ہیں۔ کوئی حکم سے خالی نہیں اور تمام مضامین اصلاح معاش و معاد کی اعلیٰ ترین ہدایات پر مشتمل اور حکیمانہ خوبیوں سے مملو ہیں۔ اور قرآن کے ان تمام محاسن پر جو خود قرآن ہی شاہد ہے۔ آفتاب کی آمد دلیل آفتاب۔ (تنبیہ) قرآن اور تمام کتب سماویہ نزول سے پہلے لوح محفوظ میں لکھی گئی ہیں۔

۵۔۔۔    حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "اس سبب سے کہ تم نہیں مانتے کیا ہم حکم کا بھیجنا موقوف کریں گے۔" یعنی ایسی توقع مت رکھو اللہ کی حکمت و رحمت اسی کو مقتضی ہے کہ باوجود تمہاری زیادتیوں اور شرارتوں کے کتاب الٰہی کا نزول اور دعوت و نصیحت کا سلسلہ بند نہ کیا جائے۔ کیونکہ بہت سی سعید روحیں اس سے مستفید ہوتی ہیں۔ اور منکرین پر کامل طور سے اتمام حجت ہوتا ہے۔

۷۔۔۔      یعنی پہلے رسولوں کے ساتھ بھی استہزاء کیا گیا اور ان کی تعلیمات کو جھٹلایا گیا۔ مگر اس کی وجہ سے پیغامبری کا سلسلہ مسدود نہیں ہوا۔

۸۔۔۔   یعنی عبرت کے لیے ان مکذبین کی تباہی کی مثالیں پیش آ چکیں اور پہلے مذکور ہو چکیں جو زور و قوت میں تم سے کہیں زیادہ تھے۔ جب وہ اللہ کی پکڑ سے نہ بچ سکے تو تم کا ہے پر مغرور ہوتے ہو۔ آگے اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت اور کمال تصرف کا ذکر کرتے ہیں جو ایک حد تک ان کے نزدیک بھی مسلم تھا۔

۱۰۔۔۔    یعنی جہاں تک انسان بستے ہیں آپس میں مل سکیں، ایک دوسرے تک راہ پائیں اور چل پھر کر دنیاوی و آخروی مقاصد میں کامیابی کا راستہ معلوم کر لیں۔

۱۱۔۔۔   ۱: یعنی ایک خاص مقدار میں جو اس کی حکمت کے مناسب اور اس کے علم میں مقدور تھی۔

۲: یعنی جس طرح مردہ زمین کو بذریعہ بارش زندہ اور آباد کر دیتا ہے۔ ایسے ہی تمہارے مردہ جسموں میں جان ڈال کر قبروں سے نکال کھڑا کرے گا۔

۱۲۔۔۔     یعنی دنیا میں جتنی چیزوں کے جوڑے ہیں اور مخلوق کی جتنی قسمیں اور متماثل یا متقابل انواع ہیں سب کو خدا ہی نے پیدا کیا۔

۱۳۔۔۔     ۱: یعنی خشکی میں بعض چوپایوں کی پیٹھ پر اور دریا میں کشتی پر سوار ہوتے۔

۲: یعنی چوپایوں یا کشتی پر سوار ہوتے وقت اللہ کا احسان دل سے یاد کرو کہ ہم کو اس نے اس قدر قوی اور ہنرمند بنا دیا کہ اپنی عقل و تدبیر وغیرہ سے ان چیزوں کو قابو میں لے آئے۔ یہ محض خدا کا فضل ہے ورنہ ہم میں اتنی طاقت اور قدرت کہاں تھی کہ ایسی ایسی چیزوں کو مسخر کر لیتے۔ نیز دلی یاد کے ساتھ زبان سے سواری کے وقت یہ الفاظ کہنے چاہئیں۔ "سبحن الذی سخرلنا ہذا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمتقلبون۔" اور بھی اذکار و ادعیہ احادیث میں آئی ہیں جو کتب حدیث و تفسیر میں مذکور ہیں۔

۱۴۔۔۔     یعنی اس سفر سے آخرت کا سفر یاد کرو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سوار ہوتے تو یہ ہی تسبیح کہتے تھے۔

۱۶۔۔۔   یعنی چاہیے تھا اللہ کی نعمتوں کو پہچان کر شکر ادا کرے۔ یہ صریح ناشکری پر اترآیا۔ اور اس کی جناب میں گستاخیاں کرنے لگا۔ اس سے بڑی گستاخی اور ناشکری کیا ہو گی کہ اس کے لیے اولاد تجویز کی جائے، وہ بھی بندوں میں سے اور وہ بھی بیٹیاں، اول تو اولاد باپ کے وجود کا ایک جزو ہوتا ہے تو خداوند قدوس کے لیے اولاد تجویز کرنے کے یہ معنی ہوئے کہ وہ اجزاء سے مرکب ہے اور مرکب کا حادث ہونا ضروری ہے، دوسرے ولد اور والد میں مجانست ہونی چاہیے دونوں ایک جنس نہ ہوں تو ولد یا والد کے حق میں عیب ہے۔ یہاں مخلوق و خالق و مجانست کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ تیسرے لڑکی باعتبار قوائے جسمیہ و عقلیہ کے عموماً لڑکے سے ناقص اور کمزور ہوتی ہے گویا معاذ اللہ خدا نے اپنے لیے اولاد بھی رکھی تو گھٹیا اور ناقص۔ کیا تم کو شرم نہیں آتی کہ اپنے حصہ میں عمدہ اور بڑھیا چیز اور خدا کے حصہ میں ناقص اور گھٹیا چیز لگاتے ہو۔

۱۷۔۔۔    یعنی جو اولاد اناث خدا کے لیے تجویز کر رہے ہیں۔ وہ ان کے زعم میں ایسی عیب دار اور ذلیل و حقیر ہے کہ اگر خود نہیں اس کے ملنے کی خوشخبری سنائی جائے تو مارے رنج اور غصہ کے تیور بدل جائیں۔ اور دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتے رہیں۔ اس کی پوری تقریر سورہ "صافات" کے اخیر رکوع میں گزر چکی ہے۔

۱۸۔۔۔   یعنی کیا خدا نے اولاد بنانے کے لیے لڑکی کو پسند کیا ہے جو عادۃً و زیبائش میں نشوونما پائے اور زیورات وغیرہ کے شوق میں مستغرق رہے جو دلیل ہے ضعف رائے و عقل کی، اور وہ بوجہ ضعف قوتِ فکریہ کے مباحثہ کے وقت قوتِ بیانہ بھی نہ رکھے۔ چنانچہ عورتوں کی تقریروں میں ذرا غور کرنے سے مشاہدہ ہوتا ہے کہ نہ اپنے دعوے کو کافی بیان سے ثابت کر سکیں، نہ دوسرے کے دعوے کو گرا سکیں، ہمیشہ ادھوری بات کہیں گے یا فضول باتیں اس میں ملا دیں گے جن کو مطلوب میں کچھ دخل نہ ہو کہ اس سے بھی تبیین مقصود میں خلل پڑ جاتا ہے اور مباحثہ کی تخصیص اس حیثیت سے ہے کہ اس میں بوجہ بیان کی احتیاج زیادہ ہونے کے ان کا عجز زیادہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ پس ہر کلام طویل اسی کے حکم میں ہے اور معمولی جملوں کا ادا ہو جانا مثلاً میں آئی تھی وہ گئی تھی، قوتِ بیانہ کی دلیل نہیں۔

۱۹۔۔۔    ۱: یعنی یہ ان کا ایک اور جھوٹ ہے کہ فرشتوں کو عورتوں کی صف میں داخل کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ نہ عورت نہ مرد جنس ہی علیحدہ ہے۔

۲: یعنی کوئی دلیل عقلی و نقلی تو ان کے پاس اس دعوے پر نہیں۔ پھر کیا اللہ نے جب فرشتوں کو بنایا تو یہ کھڑے دیکھ رہے تھے کہ مرد نہیں عورت بنایا ہے۔ بہت اچھا! ان کی یہ گواہی دفتر اعمال میں لکھ لی جاتی ہے خدائی عدالت میں جس وقت پیش ہوں گے تب اس کے متعلق ان سے پوچھا جائے گا کہ تم نے ایسا کیوں کہا تھا۔ اور کہاں سے کہا تھا۔

۲۰۔۔۔   ۱: اور لیجیے اپنی ان مشرکانہ گستاخیوں کے جواز و استحسان پر ایک دلیل عقلی بھی پیش کرتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم کو اپنے سوا دوسری چیزوں کی پرستش سے روک دیتا۔ جب ہم برابر کرتے رہے نہ روکا تو ثابت ہوا کہ یہ کام بہتر ہیں اور اس کو پسند ہیں۔

۲: یعنی یہ تو سچ ہے کہ بدون خدا کے چاہے کوئی چیز نہیں ہو سکتی لیکن اس چیز کا ہمارے حق میں بہتر ہونا اس سے نہیں نکلتا۔ ایسا ہو تو دنیا میں کوئی کام اور کوئی چیز بری ہی نہ رہے۔ سارا عالم خیر محض ہو جائے۔ شر کا بیج ہی دستیاب نہ ہو۔ ہر ایک جھوٹا اور ظالم و خونخوار یہ کہہ دے گا کہ خدا چاہتا تو مجھے ایسا ظلم و ستم نہ کرنے دیتا۔ جب کرنے دیا تو معلوم ہوا کہ وہ اس کام سے خوش اور راضی ہے بہرحال مشیت اور رضاء میں لزوم ثابت کرنا کوئی اعلی اصول نہیں محض اٹکل کے تیر ہیں۔ جس کا بیان آٹھویں پارہ کے نصف سے پہلے آیت "سیقول الذین اشرکوا لوشآء اللہ مآاشرکنا" کے حواشی میں گزر چکا۔

۲۲۔۔۔     عقلی دلیل کا حال تو سن چکے۔ اسے چھوڑ کر کیا کوئی نقلی دلیل اپنے دعوے پر رکھتے ہیں؟ یعنی خدا کی اتاری ہوئی کوئی کتاب ان کے ہاتھ میں ہے؟ جس میں شرک کا پسندیدہ ہونا لکھا ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسی کوئی سند ان کے پاس نہیں۔ پھر آگے باپ دادا کی اندھی تقلید کے سوا کیا باقی رہ گیا۔ وہ ہی ان کی سب سے زیادہ زبردست دلیل ہے جس کو ہر زمانہ کے مشرک پیش کرتے آئے ہیں آگے اسی کا بیان ہے۔

۲۴۔۔۔   ۱: یعنی پیغمبر نے فرمایا کہ تمہارے باپ دادوں کی راہ سے اچھی راہ تم کو بتلا دوں تو کیا پھر بھی تم اسی پرانی لکیر کے فقیر بنے رہو گے۔

۲: یعنی کچھ بھی ہو، ہم تمہاری بات نہیں مان سکتے۔ اور پرانا آبائی طریقہ ترک نہیں کر سکتے۔

۲۷۔۔۔   یعنی صرف ایک خدا سے میرا تعلق ہے جس نے مجھے پیدا کیا اور وہ ہی مجھے منزل مقصود کے راستہ پر آخر تک لے چلے گا۔ (تنبیہ) یہاں یہ قصہ اس پر بیان کیا کہ دیکھو تمہارے مسلم پیشوا نے باپ کی راہ غلط دیکھ کر چھوڑ دی تھی۔ تم بھی وہ ہی کرو۔ اور اگر آباؤ اجداد کی تقلید ہی پر مرتے ہو تو اس باپ کی راہ پر چلو جس نے دنیا میں حق و صداقت کا جھنڈا گاڑ دیا تھا اور اپنی اولاد کو وصیت کر گیا تھا کہ میرے بعد ایک خدا کے سوا کسی کو نہ پوجنا۔ کما قال تعالیٰ "ووصی بہا ابراہیم بنیہ ویعقوب" (بقرہ، رکوع۱۶)

۲۸۔۔۔    یعنی ایک دوسرے سے توحید کا بیان اور دلائل سن کر راہ حق کی طرف رجوع ہوتا رہے۔

۲۹۔۔۔   یعنی افسوس ابراہیم کی ارث حاصل نہ کی اور اس کی وصیت پر نہ چلے بلکہ اللہ نے جو دنیا کا سامان دیا تھا اس کے مزوں میں پڑ کر خداوند قدوس کی طرف سے بالکل غافل ہو گئے۔ یہاں تک کہ ان کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے حق تعالیٰ نے اپنا وہ پیغمبر بھیجا جس کی پیغمبری بالکل روشن اور واضح ہے۔ اس نے سچا دین پہنچایا، قرآن پڑھ کر سنایا اور اللہ کے احکام پر نہایت صفائی کے ساتھ مطلع کیا۔

۳۰۔۔۔   یعنی قرآن کو جادو بتلانے لگے۔ اور پیغمبر کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔

۳۱۔۔۔     یعنی اگر قرآن کو اترنا ہی تھا تو مکہ یا طائف کے کسی بڑے سردار پر اترا ہوتا۔ یہ کیسے باور کر لیا جائے کہ بڑے بڑے دولت مند سرداروں کو چھوڑ کر خدا نے منصب رسالت کے لیے ایک ایسے شخص کو چن لیا ہو جو ریاست و دولت کے اعتبار سے کوئی امتیاز نہیں رکھتا۔

۳۲۔۔۔     ۱: یعنی نبوت و رسالت کے مناصب کی تقسیم کیا تمہارے ہاتھ میں دے دی گئی ہے جو انتخاب پر بحث کر رہے ہو۔

۲: یعنی کسی کو غنی، کسی کو فقیر کر دیا۔ ایک کو بیشمار دولت دے دی ایک کو اس سے کم۔ کوئی تابع ہے کوئی متبوع۔

۳: یعنی نبوت و رسالت کا شرف تو ظاہری مال و جاہ اور دنیاوی سازو سامان سے کہیں اعلیٰ ہے۔ جب اللہ نے دنیا کی روزی ان کی تجویز پر نہیں بانٹی، پیغمبری ان کی تجویز پر کیونکر دے۔ آگے دنیا کے مال و دولت اور مادی سامان کا اللہ کے ہاں بے وقعت اور حقیر ہونا بیان کرتے ہیں۔

۳۵۔۔۔   ۱: یعنی اللہ کے ہاں دنیاوی مال و دولت کی کوئی قدر نہیں نہ اس کا دیا جانا کچھ قرب و وجاہت عند اللہ کی دلیل ہے۔ یہ تو ایسی بے قدر اور حقیر چیز ہے کہ اگر ایک خاص مصلحت مانع نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کافروں کے مکانوں کی چھتیں، زینے، دروازے، چوکھٹ، قفل اور تخت چوکیاں سب چاندی اور سونے کی بنا دیتا۔ مگر اس صورت میں لوگ یہ دیکھ کر کافروں ہی کو ایسا سامان ملتا ہے۔ عموماً کفر کا راستہ اختیار کر لیتے (الا ماشآء اللہ) اور یہ چیز مصلحت خداوندی کے خلاف ہوتی۔ اس لیے ایسا نہیں کیا گیا۔ حدیث میں ہے کہ اگر اللہ کے نزدیک دنیا کی قدر ایک مچھر کے بازو کے برابر ہوتی تو کافر کو ایک گھونٹ پانی کا نہ دیتا۔ بھلا جو چیز خدا کے نزدیک اس قدر حقیر ہو اسے سیادت و وجاہت عند اللہ اور نبوت و رسالت کا معیار قرار دینا کہاں تک صحیح ہو گا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی کافر کو اللہ نے پیدا کیا، تو اس کو آرام دے، آخرت میں تو دائمی عذاب ہے۔ کہیں تو آرام ملتا۔ مگر ایسا ہو تو سب وہ ہی کفر کا راستہ پکڑ لیں۔

۲: یعنی دنیا کی بہار میں تو سب شریک ہیں مگر آخرت مع اپنی ابدی نعماء و آلاء کے متقین کے لیے مخصوص ہے۔

۳۶۔۔۔    یعنی جو شخص سچی نصیحت اور یاد الٰہی سے اعراض کرتا رہتا ہے اس پر ایک شیطان خصوصی طور سے مسلط کر دیا جاتا ہے جو ہر وقت غویٰ کرتا اور اس کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈالتا ہے۔ یہ شیطان دوزخ تک اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔

۳۷۔۔۔   یعنی شیطان ان کو نیکی کی راہ سے روکتے رہتے ہیں، مگر ان کی عقلیں ایسی مسخ ہو جاتی ہیں کہ اسی کو ٹھیک راستہ سمجھتے ہیں۔ بدی اور نیکی کی تمیز بھی باقی نہیں رہتی۔

۳۸۔۔۔   یعنی خدا کے ہاں پہنچ کر کھلے گا کہ کیسے برے ساتھی تھے۔ اس وقت حسرت اور غصہ سے کہے گا کہ کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق اور مغرب کا فاصلہ ہوتا، اور ایک لمحہ تیرے صحبت میں نہ گزرتا کم بخت! اب تو مجھ سے دور ہو۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی دنیا میں شیطان کے مشورہ پر چلتا ہے اور وہاں اس کی صحبت سے پچھتائے گا۔ اس طرح کا ساتھی شیطان کسی کو جن بن کر ملتا ہے کسی کو آدمی۔

۳۹۔۔۔     دنیا کا قاعدہ ہے کہ جس مصیبت میں عام طور پر چھوٹے بڑے سب شریک ہوں تو کچھ ہلکی معلوم ہونے لگتی ہے۔ مشہور ہے "مرگ انبوہ جشنے دارد۔" مگر دوزخ میں تمام شیاطین الانس و الجن اور تابعین و متبوعین کا عذاب میں شریک ہونا کسی کو کچھ فائدہ نہ دے گا۔ عذاب کی شدت ایسی ہو گی کہ اس طرح کی سطحی باتوں سے تسلی اور تخفیف نہیں ہو سکتی حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی کافر کہیں گے کہ انہوں نے ہم کو عذاب میں ڈلوایا، خوب ہوا یہ بھی نہ بچے۔ لیکن اگر دوسرا بھی پکڑا گیا تو اس کو کیا فائدہ۔

۴۳۔۔۔     یعنی اندھوں کو راہِ حق دکھلا دینا بہروں کو حق کی آواز سنا دینا اور جو صریح غلطی اور گمراہی میں پڑے بھٹک رہے ہوں ان کو تاریکی سے نکال کر سچائی کی صاف سڑک پر چلا دینا آپ کے اختیار میں نہیں ہاں خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ جو چاہے آپ کی آواز میں تاثیر پیدا کر دے۔ بہرحال آپ اس غم میں نہ رہیے کہ یہ سب لوگ حق کو کیوں قبول نہیں کرتے، اور کیوں اپنا انجام خراب کر رہے ہیں۔ ان کا معاملہ خدا کے سپرد کیجئے، وہ ہی ان کے اعمال کی سزا دے گا۔ اگر آپ کی وفات کے بعد دی تب اور آپ کو دکھلا کر دی تب، بہرصورت نہ ہمارے قابو سے نکل کر جا سکتے ہیں اور نہ ہم ان کو سزا دیے بدون چھوڑیں گے۔ آپ کا کام یہ ہے کہ جو وحی آئے اور جو حکم ملے اس پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں اور برابر اپنا فرض ادا کیے جائیں۔ کیونکہ دنیا کہیں اور کسی راستہ پر جائے، آپ اللہ کے فضل سے سیدھی راہ پر ہیں جس سے ایک قدم ادھر ادھر ہٹنے کی ضرورت نہیں نہ کسی ہوا پرست کی خواہش و آرزو کی طرف التفات کرنے کی حاجت ہے۔

۴۴۔۔۔   یعنی قرآن کریم تیرے اور تیری قوم کے لیے خاص فضل و شرف کا سبب ہے۔ اس سے بڑی عزت اور خوش نصیبی کیا ہو گی کہ اللہ کا کلام اور ساری دنیا کی نجات و فلاح کا ابدی دستور العمل ان کی زبان میں اترا اور وہ اس کے اولین مخاطب قرار پائے۔ اگر عقل ہو تو یہ لوگ اس نعمت عظمیٰ کی قدر کریں۔ اور قرآن جو ان سب کے لیے بیش بہا نصیحت نامہ ہے اس کی ہدایات پر چل کر سب سے پہلے دنیاوی و اخروی سعادتوں کے مستحق ہوں۔

۲: یعنی آگے چل کر پوچھ ہو گی کہ اس نعمت عظمیٰ کی کیا قدر کی تھی؟ اور اس فضل و شرف کا کیا شکر ادا کیا تھا؟

۴۵۔۔۔   یعنی آپ کا راستہ وہی ہے جو پہلے انبیاء علیہم السلام کا تھا۔ شرک کی تعلیم کسی نبی نے نہیں دی نہ اللہ تعالیٰ نے کسی دین میں اس بات کو جائز رکھا کہ اس کے سوا دوسرے کی پرستش کی جائے اور یہ ارشاد کہ "پوچھ دیکھو" یعنی جس وقت ان سے ملاقات ہو (جیسے شبِ معراج میں ہوئی) یا ان کے احوال کتابوں سے تحقیق کرو۔ بہرحال جو ذرائع تحقیق و تفتیش کے ہوں ان کو استعمال میں لانے سے صاف ثابت ہو جائے گا کہ کسی دین سماوی میں کبھی شرک کی اجازت نہیں ہوئی۔

۴۷۔۔۔   یعنی معجزات کا مذاق اڑانے لگے۔

۴۸۔۔۔    یعنی ایک سے ایک بڑھ کر نشان اپنی قدرت کا اور موسیٰ کی صداقت کا دکھلایا۔

۲: یعنی آخر وہ نشان بھیجے جو ایک طرح کے عذاب کا رنگ اپنے اندر رکھتے تھے۔ جیسا کہ سورہ "اعراف" میں گزرا۔ "فارسلنا علیہم الطوفان والجراد والقمل والضفادع والدم ایٰات مفصلاتٍ" (اعراف، رکوع۱۶) غرض یہ تھی کہ ڈر کر اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں۔

۴۹۔۔۔   "ساحر" ان کے محاورات میں عالم کو کہتے تھے۔ کیونکہ بڑا علم ان کے نزدیک یہ ہی سحر تھا۔ شاید اس خوشامد اور لجاجت کے وقت حضرت موسیٰ کو بظاہر تعظیمی لقب سے پکارا ہو اور خبث باطن سے اشارہ اس طرف بھی کیا ہو کہ ہم تجھ کو نبی اب بھی نہیں سمجھتے۔ صرف ایک ماہر جادوگر سمجھتے ہیں۔

۲: یعنی تیرے رب نے جو طریقہ دعا کا بتلایا ہے اور جو کچھ تجھ سے عہد کر رکھا ہے اس کے موافق ہمارے حق میں دعاء کرو کہ یہ عذاب ہم سے دفع ہو۔ اگر تیری دعاء سے ایسا ہو گیا تو ہم ضرور راہ پر آ جائیں گے۔ اور تیری بات مان لیں گے۔

۵۰۔۔۔     یعنی جہاں تکلیف رفع ہوئی اور مصیبت کی گھڑی ختم ہوئی ایک دم اپنے قول و قرار سے پھر گئے، گویا کچھ وعدہ کیا ہی نہ تھا۔

۵۱۔۔۔   اس کے گرد و پیش کے ملکوں میں مصر کا حاکم بہت بڑا سمجھا جاتا تھا اور نہریں اسی نے بنائی تھیں۔ دریائے نیل کا پانی کاٹ کر اپنے باغ میں لایا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ ان سامانوں کی موجودگی میں کیا ہماری حیثیت ایسی ہے کہ موسیٰ جیسے معمولی حیثیت والے آدمی کے سامنے گردن جھکا دیں۔

۵۲۔۔۔     یعنی موسیٰ کے پاس نہ روپیہ نہ پیسہ، نہ حکومت نہ عزت، نہ کوئی ظاہری کمال، حتی کہ بات کرتے ہوئے بھی زبان پوری طرح صاف نہیں چلتی۔

۵۳۔۔۔   کہتے ہیں کہ وہ خود جواہرات کے کنگن پہنتا تھا اور جس امیر وزیر پر مہربان ہوتا سونے کے کنگن پہناتا تھا اور اس کے سامنے فوج پر باندھ کر کھڑی ہوتی تھی۔ مطلب یہ تھا کہ ہم کسی کو عزت دیتے ہیں تو ایسا کرتے ہیں۔ کیا خدا کسی کو اپنا نائب بنا کر بھیجے تو اس کے ہاتھ میں سونے کے کنگن اور جلو میں فرشتوں کی فوج بھی نہ ہو۔

۵۴۔۔۔    یعنی اپنی ابلہ فریب باتوں سے قوم کو اُلو بنا لیا۔ وہ سب احمق اسی کی بات ماننے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کی طبائع میں خدا کی نافرمانی پہلے سے رچی ہوئی تھی، اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ہو گیا۔

۵۵۔۔۔    یعنی وہ کام کیے جن پر عادۃً خدا کا غضب نازل ہوتا ہے۔

۵۶۔۔۔      یعنی پیچھے آنے والی نسلوں کے لیے ان کا قصہ ایک عبرتناک نظیر کے طور پر بیان ہوتا ہے۔

۵۸۔۔۔   حضرت مسیح علیہ السلام کا جب ذکر آتا تو عرب کے مشرکین خوب شور مچاتے اور قسم قسم کی آوازیں اٹھاتے تھے۔ روایات میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کی یہ آیت پڑھی "انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جہنم" (انبیاء، رکوع۷) کہنے لگے نصاریٰ حضرت مسیح کی عبادت کرتے ہیں۔ اب بتاؤ! تمہارے خیال میں ہمارے معبود اچھے ہیں یا مسیح علیہ السلام ظاہر ہے تم مسیح کو اچھا کہو گے۔ جب وہ ہی (معاذ اللہ) آیت کے عموم میں داخل ہوئے تو ہمارے معبود بھی سہی۔ بعض روایات میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ فرمایا "لیس احد یعبد من دون اللہ فیہ خیر۔" کہنے لگے کیا مسیح میں کوئی خیر اور بھلائی نہیں؟ ظاہر ہے کہ آیت کا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ان الفاظ کا مطلب ان چیزوں سے متعلق تھا جن کی پرستش لوگ کرتے ہیں۔ اور وہ ان کو اس سے نہیں روکتے۔ اور اپنی بیزاری کا اظہار نہیں کرتے۔ مگر ان معترضین کا منشاء تو محض جھگڑے نکالنا اور کٹ حجتی کر کے حق کو رلانا تھا۔ اس لیے جان بوجھ کر ایسے معنی پیدا کرتے تھے جو مراد متکلم کے مخالف ہوں۔ کبھی کہتے تھے کہ بس معلوم ہو گیا آپ بھی اسی طرح ہم سے اپنی پرستش کرانا چاہتے ہیں جیسے نصاریٰ حضرت مسیح کی کرتے ہیں۔ شاید کبھی یہ بھی کہتے ہوں گے کہ خود قرآن نے مسیح کی مثل یہ بیان کی ہے۔ "ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم خلقہ من ترابٍ ثم قال لہ کن فیکون۔" (آل عمران، رکوع۶) اب دیکھ لو ہمارے معبود اچھے ہیں یا مسیح؟ انہیں کیوں بھلائی سے یاد کرتے ہو؟ اور ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہو؟ اور خدا جانے کیا کیا کچھ کہتے ہوں گے۔ ان سب باتوں کا جواب آگے دیا گیا ہے۔

۵۹۔۔۔    یعنی کچھ اسی ایک مسئلہ میں نہیں ان کی طبیعت ہی جھگڑالو واقع ہوئی ہے۔ سیدھی اور صاف بات کبھی ان کے دماغوں میں نہیں اترتی۔ یوں ہی مہمل بحثیں اور دوراز کار جھگڑے نکالتے رہتے ہیں۔ بھلا کہاں وہ شیطان جو لوگوں سے اپنی عبادت کراتے اور اس پر خوش ہوتے ہیں یا وہ پتھر کی بے جان مورتیں جو کسی کو کفر و شرک سے روکنے پر اصلاً قدرت نہیں رکھتیں اور کہاں وہ خدا کا مقبول بندہ جس پر اللہ نے خاص فضل فرمایا اور بنی اسرائیل کی ہدایت کے واسطے کھڑا کیا۔ جس کو اپنے بندہ ہونے کا اقرار تھا اور جو اپنی امت کو اسی چیز کی طرف بلاتا تھا کہ "ان اللہ ہو ربی وربکم واعبدوہ ہذا صراط مستقیم" کیا اس مقبول بندہ کو العیاذ باللہ "حصب جہنم" یا "لیس فیہ خبیر" کہا جا سکتا ہے؟ یا یہ پتھر کی مورتیاں اس کی ہمسری کر سکتی ہیں۔ یاد رکھو! قرآن کریم کسی بندہ کو بھی خدائی کا درجہ نہیں دیتا۔ اس کا تو سارا جہاد ہی اس مضمون کے خلاف ہے۔ ہاں یہ بھی نہیں کر سکتا کہ محض احمقوں کے خدا بنا لینے سے ایک مقرب و مقبول بندہ کو پتھروں اور شریروں کے برابر کر دے۔

۶۰۔۔۔   یعنی عیسیٰ علیہ السلام میں آثار فرشتوں کے سے تھے (جیسا کہ سورہ مائدہ، آل عمران، اور کہف کے فوائد میں اشارہ کیا جا چکا ہے) اتنی بات سے کوئی شخص معبود نہیں بن جاتا۔ اگر ہم چاہیں تو تمہاری نسل سے ایسے لوگ پیدا کریں یا تمہاری جگہ آسمان سے فرشتوں ہی کو لا کر زمین پر آباد کر دیں۔ ہم کو سب قدرت حاصل ہے۔

۶۱۔۔۔   یعنی حضرت مسیح کا اول مرتبہ آنا تو خاص نبی اسرائیل کے لیے ایک نشان تھا کہ بدون باپ کے پیدا ہوئے اور عجیب و غریب معجزات دکھلائے اور دوبارہ آنا قیامت کا نشان ہو گا۔ ان کے نزول سے لوگ معلوم کر لیں گے کہ قیامت بالکل نزدیک آ لگی ہے۔

۶۲۔۔۔     یعنی قیامت کے آنے میں شک نہ کرو۔ اور جو سیدھی راہ ایمان و توحید کی بتلا رہا ہوں اس پر چلے آؤ۔ مبادا تمہارا ازلی دشمن شیطان تم کو اس راستہ سے روک دے۔

۶۳۔۔۔     ۱: یعنی پکی باتیں دانائی اور حکمت کی۔

۲: یعنی دینی باتیں یا بعض وہ چیزیں جن کو شریعت موسویہ نے حرام ٹھہرایا تھا ان کا حلال ہونا بیان کرتا ہوں۔ "ولاجل لکم بعض الذی حرم علیکم" (آل عمران، رکوع۵)

۶۴۔۔۔     یہ تعلیم تھی حضرت مسیح علیہ السلام کی۔ دیکھ لو کیسی صفائی سے خدائے واحد کی ربوبیت اور معبودیت کو بیان فرمایا ہے اور اسی توحید اور اتقاء و اطاعت رسول کو صراط مستقیم قرار دیا ہے۔

۶۵۔۔۔   یعنی اختلاف پڑ گیا۔ یہود ان کے منکر ہوئے اور نصاریٰ قاتل ہوئے۔ پھر نصاریٰ آگے چل کر کئی فرقے بن گئے، کوئی حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا بتلاتا ہے، کوئی ان کو تین خداؤں میں ایک کہتا ہے، کوئی کچھ اور کہتا ہے۔ حضرت مسیح کی اصل تعلیم پر ایک بھی نہیں۔

۶۶۔۔۔   ایسے ایسے کھلے بیانات اور واضح ہدایات کے باوجود بھی جو لوگ نہیں مانتے آخر وہ کاہے کے منتظر ہیں۔ ان کے احوال کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بس قیامت ایک دم ان کے سر پر آ کھڑی ہو تب مانیں گے۔ حالانکہ اس وقت کا ماننا کچھ کام نہ دے گا۔

۶۷۔۔۔    اس دن دوست سے دوست بھاگے گا کہ اس کے سبب سے کہیں میں نہ پکڑا جاؤں۔ دنیا کی سب دوستیاں اور محبتیں منقطع ہو جائیں گی۔ آدمی پچھتائے گا کہ فلاں شریر آدمی سے دوستی کیوں کی تھی جو اس کے اکسانے سے آج گرفتار مصیبت ہونا پڑا۔ اس وقت بڑا گرم جوشی محب محبوب کی صورت دیکھنے سے بیزار ہو گا۔ البتہ جن کی محبت اور دوستی اللہ کے واسطے تھی اور اللہ کے خوف پر مبنی تھی وہ کام آئے گی۔

۶۸۔۔۔   یعنی نہ آگے کا ڈر، نہ پیچھے کا غم۔

۶۹۔۔۔   یعنی دل سے یقین کیا اور جوارح سے اس کے حکم بردار رہے۔ یہاں سے ایمان اور اسلام کا فرق ظاہر ہوتا ہے۔ جیسا کہ حدیث جبرائیل میں اس کا مفصل بیان ہوا ہے۔

۷۱۔۔۔     ۱: یعنی غلمان لیے پھریں گے۔

۲: سب سے اعلیٰ چیز جس سے آنکھیں آرام پائیں گی وہ دیدار ہے حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا (رزقنا اللہ بفضلہ ومنہ)

۷۲۔۔۔   یعنی تمہارے باپ آدم کی میراث واپس مل گئی، تمہارے اعمال کے سبب سے اور اللہ کے فضل سے۔

۷۳۔۔۔     یعنی چن چن کر۔

۷۵۔۔۔   یعنی عذاب نہ کسی وقت ملتوی ہو گا نہ ہلکا کیا جائے گا۔ دوزخی نا امید ہو جائیں گے کہ اب یہاں سے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں۔

۷۶۔۔۔    یعنی ہم نے دنیا میں بھلائی برائی کے سب پہلو سمجھا دیے تھے اور پیغمبروں کو بھیج کر حجت تمام کر دی تھی۔ کوئی معقول عذر ان کے لیے باقی نہیں چھوڑا تھا۔ اس پر بھی نہ مانے اور اپنی زیادتیوں سے باز نہ آئے۔ ایسوں کو سزا دی جائے تو ظلم کون کہہ سکتا ہے۔

۷۷۔۔۔    ۱: "مالک" نام ہے فرشتہ کا جو دوزخ کا داروغہ ہے۔ دوزخی اس کو پکاریں گے کہ ہم نہ مرتے ہیں نہ چھوٹتے ہیں۔ اپنے رب سے کہہ کر ایک دفعہ عذاب دے کر ہمارا کام ہی تمام کر دے۔ گویا نجات سے مایوس ہو کر موت کی تمنا کریں گے۔

۲: یعنی چلانے سے کچھ فائدہ نہیں۔ تم کو اسی حالت میں ہمیشہ رہنا ہے۔ کہتے ہیں دوزخی ہزار برس چلائیں گے تب وہ یہ جواب دے گا۔

۷۸۔۔۔    یعنی وہ سزا اس جرم پر ملی کہ تم میں سے اکثر سچائی سے چڑتے تھے (اور بہت سے اندھوں کی طرح ان کے پیچھے ہو لیے)

۷۹۔۔۔   کفارِ عرب پیغمبر کے مقابلہ میں طرح طرح کے منصوبے گانٹھتے اور تدبیریں کرتے تھے۔ مگر اللہ کی خفیہ تدبیر ان کے سب منصوبوں پر پانی پھیر دیتی تھی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "کافروں نے مل کر مشورہ کیا کہ تمہارے تغافل سے اس نبی کی بات بڑھی۔ آئندہ جو اس دین میں آئے اسی کے رشتہ دار اس کو مار مار کر الٹا پھیریں اور جو اجنبی شخص شہر میں آئے اس کو پہلے سنا دو کہ اس شخص کے پاس نہ بیٹھے۔" یہ بات انہوں نے ٹھہرائی اور اللہ نے ٹھہرایا ان کو ذلیل و رسوا کرنا اور اپنے دین اور پیغمبر کو عروج دینا۔ آخر اللہ کا ارادہ غالب رہا۔

۸۰۔۔۔    یعنی ان کے دلوں کے بھید ہم جانتے اور ان کے خفیہ مشورے ہم سنتے ہیں اور حکومت کے انتظامی ضابطہ کے موافق ہمارے فرشتے (کراماً کاتبین) ان کے سب اعمال و افعال لکھتے جاتے ہیں۔ یہ ساری مثل قیامت میں پیش ہو گی۔

۸۱۔۔۔   یعنی اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ اللہ کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تجویز کی جائیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اگر بفرض محال خدا کے اولاد ہو تو پہلا شخص میں ہوں جو اس کی اولاد کی پرستش کرے۔ کیونکہ میں دنیا میں سب سے زیادہ خدا کی عبادت کرنے والا ہوں۔ اور جس کو جس قدر علاقہ خدا کے ساتھ ہو گا اسی نسبت سے اس کی اولاد کے ساتھ ہونا چاہیے۔ پھر جب میں باوجود اول العابدین ہونے کے کسی ہستی کو اس کی اولاد نہیں مانتا تو تم کون سے اللہ کا حق ماننے والے ہو جو اس کی فرضی اولاد تک کے حقوق پہچانو گے۔ (تنبیہ) بعض مفسرین نے آیت کا یہ مطلب لیا ہے کہ اگر تمہارے اعتقاد میں اللہ کی کوئی اولاد ہے تو یاد رکھو! کہ تمہارے مقابلہ میں اس اکیلے خدا کی عبادت کرنے والا ہوں جو اولاد و احفاد سے منزہ و مقدس ہے۔ بعض نے "عابد" کے معنی لغتہ جامد (منکر) کے بتلائے ہیں یعنی اس فاسد عقیدہ کا سب سے پہلا انکار کرنے اور رد کرنے والا میں ہوں۔ بعض کے نزدیک "ان" نافیہ ہے۔ یعنی رحمان کے کوئی اولاد نہیں۔ مگر یہ کچھ زیادہ قوی نہیں اور بھی احتمالات ہیں جن کے استیعاب کا یہاں موقع نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

۸۲۔۔۔   یعنی جن باتوں کی نسبت یہ لوگ اس کی طرف کرتے ہیں۔ مثلاً اولاد وغیرہ، اس سے خدا تعالیٰ کی ذات برتر اور منزہ ہے۔ اس کی ذات میں یہ امکان ہی نہیں کہ معاذ اللہ کسی کا باپ یا بیٹا بنے۔

۸۳۔۔۔     یعنی غفلت و حماقت کے نشہ میں جو کچھ بکتے ہیں بکنے دیجئے۔ یہ لوگ چند روز اور دنیا کے کھیل تماشے میں گزار لیں، آخر وہ موعود دن آنا ہے جس میں ایک ایک کر کے ان کی گستاخیوں اور شرارتوں کا مزہ چکھایا جائے گا۔

۸۴۔۔۔     نہ آسمان میں فرشتے اور شمس و قمر معبود بن سکتے ہیں نہ زمین میں اصنام و اوثان وغیرہ۔ سب زمین و آسمان والوں کا معبود اکیلا وہ ہی خدا ہے جو فرش سے عرش تک کا مالک اور تمام عالم کون میں اپنے علم و اختیار سے متصرف ہے۔

۸۵۔۔۔   ۱: یعنی قیامت کب آئے گی؟ اس کا علم صرف اسی مالک کو ہے۔

۲: یعنی وہاں پہنچ کر سب کی نیکی بدی کا حساب ہو جائے گا۔

۸۶۔۔۔   یعنی اتنی سفارش کر سکتے ہیں کہ جس نے ان کے علم کے موافق کلمہ اسلام کہا اس کی گواہی دیں۔ بغیر کلمہ اسلام کسی کے حق میں ایک حرف سفارش کا نہیں کہہ سکے۔ اور اتنی سفارش بھی صالحین کریں گے جو سچائی کو جانتے اور اس کو زبان و دل سے مانتے ہیں۔ دوسروں کو اجازت نہیں۔

۸۷۔۔۔    یعنی جب بنانے والا ایک اللہ ہے تو بندگی کا مستحق کوئی دوسرا کیوں کر ہو گیا۔ عبادت نام ہے انتہائی تذلل کا۔ وہ اسی کا حق ہونا چاہیے جو انتہائی عظمت رکھتا ہے۔ عجیب بات ہے مقدمات کو تسلیم کرتے ہیں اور نتیجہ سے انکار۔

۸۸۔۔۔    یعنی نبی کا یہ کہنا بھی اللہ کو معلوم ہے اور اس کی اس مخلصانہ التجاء اور درد بھری آواز کی اللہ قسم کھاتا ہے کہ وہ اس کی ضرور مدد کرے گا۔ اور اپنی رحمت سے اس کو غالب و منصور کرے گا۔

۸۹۔۔۔      ۱: یعنی غم نہ کھا، اور زیادہ ان کے پیچھے نہ پڑ۔ فرض تبلیغ ادا کر کے ادھر سے منہ پھیر لے اور کہہ دے کہ اچھا نہیں مانتے تو ہمارا اسلام لو۔

۲: یعنی آخرکار ان کو پتہ لگ جائے گا کہ کس غلطی میں پڑے ہوئے تھے۔ چنانچہ کچھ تو دنیا ہی میں لگ گیا۔ اور پوری تکمیل آخرت میں ہونے والی ہے۔ تم سورۃ الزخرف بعون اللہ زتوفیقہ فللہ الحمد والمنتہ۔