دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الزّخرُف

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الر حیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

نام

 

آیت ۳۵ میں زُخْرُفْ (سونے) کا ذکر متاعِ دنیا کی حیثیت سے ہوا ہے۔ اس مناسبت سے سورہ کا نام الزخرف ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورہ مکہ کے وسطی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

شرک کرنا نامعقولیت کو واضح کرتے ہوئے توحید کے حق ہونے کا یقین پیدا کرنا ہے۔

 

نظمِ کلام

 

آیت ۱ تا ۴ تمہیدی آیات ہیں جو قرآن کی افادیت اور اس کی عظمت کو واضح کرتی ہیں۔ آیت ۵ تا ۱۴میں ان نشانیوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جن پر غور کرنے سے اللہ کی وحدانیت کا یقین پیدا ہو جاتا ہے۔

 

آیت ۱۵ تا ۲۵ میں مشرکانہ عقائد کی نا معقولیت واضح کی گئی ہے خاص طور سے فرشتوں کے شریکِ خدا ہونے کی۔

 

آیت ۲۶ تا ۳۲ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس تاریخی اعلان کو پیش کیا گیا جو انہوں نے غیر اللہ کی پرستش سے بے تعلقی کے سلسلہ میں کیا تھا اور جو ایک یادگار کلمہ کی حیثیت سے باقی رہا۔ مگر قریش جو ان ہی کی نسل سے ہیں اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کر کے شرک اور بت پرستی کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اللہ کے رسول کی اس بنا پر مخالفت کر رہے ہیں کہ وہ توحید کی دعوت دیتا ہے۔

 

آیت ۳۳ تا ۴۵ میں دنیا کے حقیر فائدوں کی خاطر آخرت کو نظر انداز کرنے اور وحی و رسالت کا انکار کرنے کا انجام بیان کیا گیا ہے۔

 

آیت ۴۶ تا ۶۵ میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے کچھ احوال پیش کئے گئے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی دعوت بھی توحید ہی کی دعوت تھی اور ان کی مخالفت کرنے والے سرکش لوگ تھے جو اپنے کیفر کردار کو پہنچ کر رہے۔

 

آیت ۶۶ تا ۸۹ سورہ کی اختتامی آیتیں ہیں جن میں منکرین کو تنبیہ بھی ہے اور اللہ سے ڈرنے والوں کو خوشخبری بھی۔ نیز مجرموں کو ان کے انجام بد سے بھی آگاہ کیا گیا ہے اور بعض شبہات کا ازالہ بھی کیا گیا ہے۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمٰن الر حیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔ حا۔ میم ۱*

 

۲۔۔۔۔۔۔۔ قسم ہے روشن کتاب کی ۲*

 

۳۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے اس کو عربی قرآن بنایا ہے تاکہ تم لوگ اسے سمجھو۔ ۳*

 

۴۔۔۔۔۔۔۔ اور در حقیقت یہ ام الکتاب میں ہمارے پاس ہے بلند مرتبہ اور حکمت سے لبریز۔ ۴*

 

۵۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم تمہاری یاد دہانی سے اس لیے صرفِ نظر کریں کہ تم حد سے تجاوز کرنے والے لوگ ہو؟ ۵*

 

۶۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے گزرے ہوئے لوگوں میں بھی کتنے ہی نبی بھیجے تھے۔ ۶*

 

۷۔۔۔۔۔۔۔ جو نبی بھی ان کے پاس آتا وہ اس کا مذاق اڑاتے۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔ تو ہم نے ان لوگوں کو ہلاک کر دیا جو ان سے زیادہ زور آور تھے۔ ۷* اور سابق قوموں کی مثالیں گزر چکی ہیں۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ یہی کہیں گے کہ ان کو اسی ہستی نے پیدا کیا ہے جو غالب اور علیم ہے۔ ۸*

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔ وہی ۹* جس نے زمین کو تمہارے لیے گہوارہ بنایا اور اس میں تمہارے لیے راستے بنا دئے ۱۰* تاکہ تم راہ پاسکو۔ ۱۱*

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔ اور جس نے آسمان سے ایک خاص مقدار میں پانی اتار اور اس سے مردہ زمین کو جِلا اٹھایا۔ اسی طرح تم (قبروں سے) نکالے جاؤ گے۔ ۱۲*

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔ جس نے ہر قسم کے جوڑے پیدا کئے ۱۳* اور تمہارے لیے کشتیوں اور چو پایوں کو سواری بنایا۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ تم ان کی پشت پر سوار ہو اور جب تم ان پر سوار ہو تو اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو ۱۴* اور کہو  "پاک ہے وہ ذات جس نے ان چیزوں کو ہمارے لیے مسخر کر دیا ورنہ ہمارے بس میں نہ تھا کہ ان کو قابو میں کر لیتے۔ "

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم اپنے رب ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ ۱۵*

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں نے اس کے بعض بندوں کو اس کا جزء بنا دیا ۱۶* بلا شبہ انسان کھلا نا شکرا ہے۔ ۱۷*

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس نے (اللہ نے) اپنی مخلوق میں سے اپنے لیے بیٹیاں رکھ لیں اور تمہارے لیے بیٹے خاص کر دئے ؟ ۱۸*

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔ اور جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوشخبری دی جاتی ہے جو رحمن کے لیے وہ تجویز کرتا ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ غم سے گھٹنے لگتا ہے۔ ۱۹*

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ (صنف) جو زیوروں میں پلتی ہے اور بحث و نزاع میں واضح بات نہیں کر پاتی! ۲۰*

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے فرشتوں کو جو رحمن کے بندے ہیں لڑکیاں بنا دیا ہے۔ کیا وہ ان کی پیدائش کے وقت موجود تھے ؟ ۲۱*ان کی گواہی لکھ لی جائے گی اور ان سے باز پرس ہو گی۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں اگر رحمن چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے۔ ۲۲* اِن کو اس کا کوئی علم نہیں۔ یہ محض اٹکل کی باتیں کرتے ہیں۔ ۲۳*

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم نے اس سے پہلے ان کو کوئی کتاب دی تھی جس کی سند وہ پکڑ رہے ہوں ؟ ۲۴*

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔ نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم ان ہی کے نقشِ قدم پر چل کر ٹھیک راہ پر جارہے ہیں۔ ۲۵*

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح تم سے پہلے جس بستی میں بھی ہم نے کوئی خبردار کرنے والا بھیجا اس کے خوشحال لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم ان کے نقشِ قدم کی پیروی کر رہے ہیں۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔ اس خبردار کرنے والے نے کہا اگر میں اس طریقہ کے مقابلے میں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ بہترین ہدایت لے کر تمہارے پاس آیا ہوں تو کیا اس صورت میں بھی تم ان ہی کے نقشِ قدم پر چلو گے ؟ انہوں نے جواب دیا تم جو پیغام دے کر بھیجے گئے ہو ہم اس کے منکر ہیں۔ ۲۶*

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔ آخر کار ہم نے ان کو سزا دی تو دیکھو کیسا انجام ہوا جھٹلانے والوں کا !

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔ اور جب ابراہیم ؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا میں ان چیزوں سے بالکل بے تعلق ہوں جن کی تم پرستش کرتے ہو۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔ میں صرف اسی کی پرستش کرتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ وہی میری رہنمائی فرمائے گا۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔ اور اس نے اس کو باقی رہنے والے کلمہ کی حیثیت سے اپنی اولاد میں چھوڑا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ ۲۷*

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔ واقعہ یہ ہے کہ میں نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو سامانِ زندگی دیا یہاں تک کہ ان کے پاس حق اور ایک آشکارا رسول ا گیا۔ ۲۸*

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔ اور جب حق ان کے پاس ا گیا تو انہوں نے کہا یہ نو جادو ہے اور ہم اس کے کافر ہیں۔ ۲۹*

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔ اور انہوں نے کہا یہ قرآن ان دو شہروں کے بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا؟* ۳۰

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔ کیا تمہارے رب کی رحمت کو یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں ؟۳۱* دنیا کی زندگی میں ان کی معیشت کا سامان ہم نے ان کے درمیان تقسیم کر دیا ہے ۳۲* اور ان میں سے بعض کے درجے بعض پر بلند کر دئے ہیں تاکہ وہ ایک دوسرے سے خدمت لیں ۳۳* اور تمہارے رب کی رحمت اس (دولت) سے بدرجہا بہتر ہے جو یہ لوگ جمع کر رہے ہیں ۳۴*

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر اس کا امکان نہ ہوتا کہ لوگ ایک ہی طریقہ پر چل پڑیں تے تو ہم رحمن سے کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں اور زینے جن پر وہ چڑھتے ہیں چاندی کے بنا دیتے۔

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔ نیز ان کے گھروں کے دروازے اور ان کے تخت بھی جن پر وہ تکئے لگا کر بیٹھتے ہیں۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔ اور سونے سے بھی انہیں مالا مال کرتے۔ یہ سب دنیا کی زندگی ہی کا سامان ہے۔ اور آخرت تمہارے رب کے ہاں صرف متقیوں کے لیے ہے۔ ۳۵*

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔ اور جو رحمن کے ذکر سے بے پرواہ ہو جاتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں اور وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔ ۳۶*

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔ وہ (شیاطین) ان کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم راہِ راست پر ہیں۔

 

۳۸۔۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ جب ایسا شخص ہمارے پاس پہنچے گا تو (اپنے شیطان سے) کہے گا کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کی دوری ہوتی۔ ۳۷* تو کیا ہی برا ساتھی ہوا۔

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔ اور جب تم ظلم کر چکے ہو تو یہ بات تمہارے لیے کچھ بھی مفید نہ ہو گی کہ تم عذاب میں ایک دوسرے کے شریک ہو۔ ۳۸*

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔ (اے نبی) کیا تم بہروں کو سناؤ گے یا اندھوں اور صریح گمراہی میں پڑے ہوئے لوگوں کو راہ دکھاؤ گے۔ ۳۹ *

 

۴۱۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہم تمہیں اٹھا لیتے ہیں تو (اس کے بعد) انہیں سزا ضرور دیں گے۔ ۴۰*

 

۴۲۔۔۔۔۔۔۔ یا یہ ہو گا کہ تم کو ان کا انجام دکھا دیں گے جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ ۴۱* ایسا کرنے پر ہم پوری طرح قادر ہیں۔

 

۴۳۔۔۔۔۔۔۔ تو جو وحی تمہاری طرف کی گئی ہے اس کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔ ۴۲* یقیناً تم سیدھی راہ پر ہو۔

 

۴۴۔۔۔۔۔۔۔ اور بے شک یہ تمہارے لیے اور تمہاری قوم کے لیے نصیحت ہے۔ عنقریب تم سے باز پرس ہو گی۔ ۴۳*

 

۴۵۔۔۔۔۔۔۔ تم سے پہلے ہم نے جو رسول بھیجے تھے ان سے پوچھ دیکھو کیا ہم نے رحمن کے سوا دوسرے معبود مقرر کئے تھے کہ ان کی پرستش کی جائے ؟ ۴۴*

 

۴۶۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے موسیٰ ۴۵* کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے امراء کے پاس بھیجا تو اس نے کہا میں رب العالمین کا رسول ہوں۔

 

۴۷۔۔۔۔۔۔۔ اور جب وہ ان کے پاس ہماری نشانیوں کے ساتھ آیا تو وہ ان کامذاق اڑانے لگے۔

 

۴۸۔۔۔۔۔۔۔ ہم ان کو ایک سے بڑھ کر ایک نشانی دکھاتے رہے۔ ۴۶* اور ہم نے ان کو عذاب کی گرفت میں لے لیا تاکہ وہ رجوع کریں۔ ۴۷*

 

۴۹۔۔۔۔۔۔۔ مگر وہ کہتے اے جادوگر! اپنے رب سے اس عہد کی بنا پر جو اس نے تم سے کر رکھا ہے ہمارے لیے دعا کرو۔ ہم ضرور ہدایت قبول کریں گے۔ ۴۸*

 

۵۰۔۔۔۔۔۔۔ اور جب ہم ان پر سے عذاب ہٹا دیتے تو وہ اپنا عہد توڑ دیتے۔

 

۵۱۔۔۔۔۔۔۔ اور فرعون نے اپنی قوم کو پکار کر کہا اے میری قوم کے لوگو ! کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے ؟ اور کیا یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہ رہی ہیں۔ کیا تم لوگ دیکھتے نہیں ہو! ۴۹*

 

۵۲۔۔۔۔۔۔۔ تو میں بہتر ہوں یا یہ شخص جو حقیر ہے ۵۰* اور اپنی بات کھل کر کہہ بھی نہیں سکتا؟ ۵۱*

 

۵۳۔۔۔۔۔۔۔ کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے یا فرشتے اس کے ساتھ پرے باندھے ہوئے آئے ! ۵۲*

 

۵۴۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنی قوم کو بے وقوف بنایا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی۔ وہ تھے ہی نافرمان لوگ۔ ۵۳*

 

۵۵۔۔۔۔۔۔۔ جب انہوں نے ہمارے غضب کو دعوت دی تو ہم نے ان کو سزا دی اور ان سب کو غرق کر دیا۔ ۵۴*

 

۵۶۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کو ایسا بنا دیا کہ وہ گئے گزرے ہو گئے اور بعد والوں کے لیے نمونہ عبرت بن کر رہ گئے۔ ۵۵*

 

۵۷۔۔۔۔۔۔۔ اور جب ابن مریم کا حال بیان کیا جاتا ہے تو تمہاری قوم کے لوگ شور مچانے لگتے ہیں۔ ۵۶*

 

۵۸۔۔۔۔۔۔۔ اور کہتے ہیں ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ؟ یہ بات محض کٹ حجتی کے لیے وہ پیش کرتے ہیں۔ ۵۷* در حقیقت یہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو۔

 

۵۹۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو بس ہمارا ایک بندہ تھا جس کو ہم نے انعام سے نوازا اور بنی اسرائیل کے لیے ایک مثال بنایا۔ ۵۸*

 

۶۰۔۔۔۔۔۔۔ ہم چاہیں تو تمہارے اندر سے فرشتے بنائیں جو زمین میں خلیفہ ہوں۔ ۵۹*

 

۶۱۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ یقیناً قیامت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ ۶۰* لہٰذا اس میں شک نہ کرو اور میری پیروی کرو ۶۱*یہی سیدھی راہ ہے۔

 

۶۲۔۔۔۔۔۔۔ شیطان تمہیں اس سے روکنے نہ پائے۔ بلا شہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

 

۶۳۔۔۔۔۔۔۔ اور جب عیسیٰ ؑ واضح نشانیوں کے ساتھ آیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ میں تم لوگوں کے پاس حکمت لے کر آیا ہوں ۶۲* اور اس لیے آیا ہوں تاکہ تم پر بعض وہ باتیں واضح کر دوں جن کے بارے میں تم اختلاف میں پڑ گئے ہو۔ ۶۳* لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

 

۶۴۔۔۔۔۔۔۔ اللہ ہی میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھی راہ ہے۔ ۶۴*

 

۶۵۔۔۔۔۔۔۔ مگر ان کے مختلف گروہوں نے اختلاف برپا کیا۔ ۶۵* تو تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے ظلم کیا ۶۶* ایک دردناک دن کے عذاب سے۔

 

۶۶۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ ان پر قیامت آ جائے اور انہیں اس کی خبر بھی نہ ہو؟ ۶۶

 

۶۷۔۔۔۔۔۔۔ اس دن دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے متقیوں کے۔ ۶۷*

 

۶۸۔۔۔۔۔۔۔ اے میرے بندو! آج تمہارے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ تم غمگین ہو گے۔ ۶۸*

 

۶۹۔۔۔۔۔۔۔ جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے تھے اور مسلم (فرمانبردار) بن کر رہے تھے۔ ۶۹*

 

۷۰۔۔۔۔۔۔۔ داخل ہو جاؤ جنت میں تم اور تمہاری بیویاں۔ ۷۰* تمہیں خوش و خر ّم رکھا جائے گا۔

 

۷۱۔۔۔۔۔۔۔ ان کے آگے سونے کے طشتریاں اور ساغر گردش کریں گے۔ ۷۱* اور اس میں وہ کچھ ہو گا جو دل کو پسند اور آنکھوں کے لیے لذّت بخش ہو گا۔ ۷۲* اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔

 

۷۲۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ جنت ہے جس کے وارث تم اپنے اعمال کے صلہ میں بنائے گئے ہو۔ ۷۳*

 

۷۳۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے لیے اس میں بہ کثرت میوے ہوں گے جن کو تم کھاؤ گے۔ ۷۴*

 

۷۴۔۔۔۔۔۔۔ بلا شبہ مجرم ۷۵* ہمیشہ جہنم کے عذاب میں رہیں گے۔

 

۷۵۔۔۔۔۔۔۔ ان کے عذاب میں کمی نہ ہو گی اور وہ اس میں مایوس پڑے رہیں گے۔

 

۷۶۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے رہے۔ ۷۶*

 

۷۷۔۔۔۔۔۔۔ وہ پکاریں گے اے خازن! تمہارا رب ہمارا خاتمہ ہی کر دے ۷۷* وہ جواب دیں گے تم کو اسی حال میں رہنا ہے۔

 

۷۸۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے تمہارے سامنے حق پیش کیا تھا مگر تم میں سے اکثر لوگوں کو حق ناگوار تھا ۷۸*

 

۷۹۔۔۔۔۔۔۔ کیا ان لوگو ں نے قطعی فیصلہ کر لیا ہے (ایسا ہے) تو ہم بھی قطعی فیصلہ کر لیں گے۔ ۷۹*

 

۸۰۔۔۔۔۔۔۔ کیا انہوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم ان کی راز کی باتوں اور ان کی سرگوشیوں کو سنتے نہیں ہیں؟  ۸۰* ہم ضرور سن رہے ہیں اور ہمارے فرستادے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں ۸۱*

 

۸۱۔۔۔۔۔۔۔ کہوا گر رحمن کے کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلا عبادت کرنے والا میں ہوں۔ ۸۲*

 

۸۲۔۔۔۔۔۔۔ پاک ہے آسمانوں اور زمینوں کا رب ، عرش کا مالک ان باتوں سے جو یہ بیان کرتے ہیں۔ ۸۳*

 

۸۳۔۔۔۔۔۔۔ تو ان کو چھوڑ دو کہ بحث میں الجھے رہیں اور کھیل میں مشغول رہیں یہاں تک کہ اس دن کو دیکھ لیں جس سے ان کو ڈرایا جا رہا ہے۔ ۸۴*

 

۸۴۔۔۔۔۔۔۔ وہی آسمان میں بھی اِلٰہ (خدا) ہے اور زمین میں بھی اِلٰہ اور وہی حکمت والا علم والا ہے۔

 

۸۵۔۔۔۔۔۔۔ بڑا بابرکت ہے وہ جس کے قبضہ میں آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کی بادشاہی ہے۔ اسی کے پاس قیامت کی گھڑی کا علم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔

 

۸۶۔۔۔۔۔۔۔ اس کو چھوڑ کر یہ لوگ جن کو پکارتے ہیں وہ شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے مگر وہ جو علم کی بنا پر حق کی گواہی دیں گے۔ ۸۵*

 

۸۷۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم ان سے پوچھو انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو کہیں گے اللہ نے۔ پھر یہ کس طرح فریب میں آتے ہیں۔ ۸۶*

 

۸۸۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی (یعنی رسول کی) یہ فریاد کہ اے میرے رب! یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں لاتے۔ ۸۷*

 

۸۹۔۔۔۔۔۔۔ تو ان سے درگزر کرو اور کہو سلام۔ ۸۸* عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔ ۸۹*

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔ یہ حروفِ مقطعات ہیں جن کی تشریح اس سے پہلے گزر چکی۔ اس سورہ میں حم کا اشارہ اللہ کی صفت " حکیم" کی طرف ہے جو آیت ۸۴ میں بیان ہوئی ہے نیز قرآن کے " حکیم" ہونے کی صفت کی طرف بھی جو آیت ۴ میں بیان ہوتی ہے۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کے روشن کتاب ہونے کی تشریح سورۂ یوسف نوٹ ۲ اور سورۂ نمل نوٹ ۲ میں گزر چکی۔

 

یہاں روشن کتاب کی قسم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب جن غیبی حقیقتوں پر سے پردہ اٹھا رہی ہے اور عقل و دل کو اپیل کرنے والی جو تعلیم پیش کر رہی ہے اور جس وضاحت کے ساتھ پیش کر رہی ہے وہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ یہ کتاب اللہ ہی کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور اس نے ہدایت کی راہ کھول دی ہے۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ یوسف نوٹ ۳

 

۴۔۔۔۔۔۔۔ امّ الکتاب سے مراد " لوحِ محفوظ" ہے جیسا کہ سورۂ بروج میں ارشاد ہوا ہے۔

 

بَدْہُوَقُرْآنٌ مَّجِیْدٌ فِی لَوحٍ مَّحْفُوظٍ۔ (بروج:۲۴) "بلکہ یہ عظمت والا قرآن ہے جو لوحِ محفوظ میں (ثبت) ہے۔ "

 

یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اپنے کلام کو ضبط تحریر میں لانے کا جو اہتمام کر رکھا ہے اس میں اللہ کا یہ کلام درج ہے اور وہاں اس کی شان نہایت اعلیٰ و ارفع ہے اس خصوصیت کے ساتھ کہ وہ علم و حکمت کا خزانہ ہے۔ اگر تم اس کی قدر نہ کرو تو یہ تمہاری نا اہلی کا ثبوت ہو گا ورنہ آسمان میں اس کو بلند پایہ اور گرامی قدر کتاب ہونے کا شرف حاصل ہے اس لعلِ درخشاں کو وہی لوگ پتھر سمجھتے ہیں جن کی عقل پر پتھر پڑے ہیں۔

 

قرآن شیطان کی دخل اندازی سے بھی محفوظ ہے اور انسان کی دسترس سے بھی باہر۔ اس کا سرچشمہ ایسی بلندی پر ہے جہاں کسی کی پہنچ نہیں۔

 

آیت سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ جو لوگ اس کلام عالی مقام کی قدر کریں گے ان کا مرتبہ بلند ہو گا اور وہ اپنے دامن کو علم و حکمت کے موتیوں سے بھر لیں گے۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔ خطاب قرآن کے منکرین سے ہے۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ تم اپنی سرکشی کی بنا پر چاہتے ہو کہ نصیحت اور تنبیہ کی باتیں تمہارے سامنے نہ آئیں ؟ لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں اصلاح کا موقع دینا چاہتا ہے اور تم پر اپنی حجت قائم کرنا چاہتا ہے اس لیے وہ قرآن نازل کر کے تمہاری یاد دہانی کا سامان کر رہا ہے۔ تمہاری غلط خواہشات کی بنا پر اس سلسلہ کو روکا نہیں جا سکتا۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ کوئی پہلا نبی نہیں ہے جو اللہ کی طرف سے یاد دہانی لے کر آیا ہو بلکہ اس سے پہلے بھی کتنے ہی نبی گزرے ہیں جو مختلف قوموں میں اللہ کی طرف سے نصیحت کا پیغام لے کر آئے تھے۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی فرعون جیسے جباروں کو جو قریش کے سرداروں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ زور اور غلبہ رکھتے تھے۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔ یہ توحید پر استدلال ہے کہ جب تم اتنی بڑی حقیقت کو تسلیم کرتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے جس کے قبضۂ قدرت میں یہ پوری کائنات ہے اور جو نہایت علم رکھنے والی ہستی ہے تو پھر کسی اور کے خدا اور معبود ہونے کے لیے گنجائش کہاں سے نکل آئی؟ تم نے کیسی متضاد باتوں کو جمع کر لیا ہے۔ ایک طرف حقیقت کا اعتراف بھی اور دوسری طرف اس کی نفی بھی۔ اللہ کا اقرار بھی اور اس کے تنہا الٰہ ہونے سے انکار بھی۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ کی طرف سے توحید کے سلسلہ میں مزید وضاحت ہے تاکہ اس پر یقین پیدا ہو۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔ مراد قدرتی راستے ہیں جو پہاڑوں وغیرہ کے درمیان ہوتے ہیں۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان قدرتی راستوں کے ذریعہ اپنی منزل کو پہنچ سکو نیز ان راستوں کو دیکھ کر تمہارا ذہن اللہ کے راستہ کی طرف منتقل ہو جائے اور تم راہ ہدایت پاسکو۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔ یہ قیامت کے دن اٹھائے جانے پر استدلال ہے کہ جس طرح مردہ زمین بارش کے پانی سے زندہ ہو جاتی ہے اور سر سبز و شاداب ہو کر لہلہانے لگتی ہے اسی طرح اللہ مردوں کو زندہ کر کے قبروں سے اٹھائے گا۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ یٰسین نوٹ ۳۹

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی اس نعمت کو کہ اس نے خشکی اور تری میں تمہاری سواری کا انتظام کر دیا۔ سواری کے لیے اس زمانہ میں یا تو جانور ہوتے تھے یا کشتیاں اس لیے آیت میں ان چیزوں کا ذکر ہوا ہے موجودہ زمانہ میں سواری کے لیے جو نئی چیزیں ایجاد ہوئی ہیں مثلاً موٹریں ، ٹرین، جہاز، ہوائی جہاز وغیرہ وہ اگرچہ انسان کی دریافت ہیں مگر در حقیقت اللہ ہی کی نعمت ہیں کیونکہ جس قوت سے یہ چیزیں چلتی ہیں وہ اسی کی پیدا کردہ ہے اور اسی نے انسان کے لیے اس کو سازگار بنا دیا ہے لہٰذا سواری خواہ کوئی ہو اس کو استعمال کرتے وقت یہ احساس ہونا چاہیے کہ یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اس نعمت سے نوازا۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔ ان دو آیتوں (۱۳ اور ۱۴) میں سواری کے تعلق سے چند اہم باتیں ارشاد ہوئی ہیں :

 

ایک یہ کہ آدمی کسی بھی سواری پر سوار ہوتے وقت شعوری طور پر اللہ کے اس احسان کو یاد کرے کہ اس نے یہ قوتیں اس کے لیے مسخر کر دیں۔

 

دوسری یہ کہ وہ زبان سے بھی اللہ کی پاکی اور اس کے شکر کے یہ کلمات ادا کرے :

 

سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ہٰذَاوَمَاکُنَّالَہٗ مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّا اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ۔ " پاک ہے جو ذات جس نے ہمارے لیے ان چیزوں کو مسخر کر دیا ورنہ ہمارے بس میں نہ تھا کہ ان کو قابو میں کر لیتے۔ اور ہم اپنے رب ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ "

 

اس دعا کا اہتمام سوار ہوتے وقت ضروری ہے اور اس کا مسنون ہونا حدیث سے بھی ثابت ہے۔

 

تیسری بات یہ کہ کسی بھی سواری پر سوار ہو کر تکبر کا نہیں بلکہ بندگی کی شان کا اظہار ہونا چاہیے اور یہ دعائیہ کلمات اللہ کی بندگی کا احساس پیدا کرتے ہیں۔

 

چوتھی بات یہ کہ سفر کرتے وقت آدمی سفر آخرت کو نہ بھولے اور اپنی آخری منزل کہ اللہ کے حضور لوٹنا ہے یاد رکھئیے۔

 

سواری جانور کی ہو یا کشتی کی ، موٹر کی ہو یا ہوائی جہاز کی خطرات سے خالی نہیں ہو سکتی۔ کیا معلوم کب کیا حادثہ پیش آ جائے اس لیے چوکنا ہو کر اللہ کو یاد کرتے ہوئے اور آخرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سفر کا آغاز کرنا چاہیے ، آئے دن کے تباہ کن حادثات انسان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔ مراد اللہ کے خاص بندے ہیں مثلاً فرشتے ، انبیاء وغیرہ اور ان کو اللہ کا جزء بنانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو اس کی ذات کا ایک حصہ سمجھ لیا حالانکہ اللہ کی ذات نا قابلِ تجزیہ ہے۔ اس کی ذات سے نہ کوئی چیز خارج ہوتی ہے اور نہ اس کے انر کوئی چیز داخل ہوتی ہے۔ وہ یکتا ہے اور بے مثال ہے (تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اخلاص نوٹ ۳، ۴ اور ۷) مشرکینِ عرب نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں ٹھہرا کر ان کو اللہ کی ذات کا جزء بنا دیا۔ اسی طرح نصاریٰ نے بھی حضرت مسیح ؑ کو اللہ کا بیٹا ٹھہرایا جبکہ بیٹا اور بیٹی باپ کا جزء ہوتے ہیں اور یہ معلوم حقیقت ہے کہ فرشتے ہوں یا انبیاء یا اولیاء سب اللہ کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں پھر وہ خالق کا جزء کیسے ہو سکتے ہیں ؟

 

رہا ہندو ازم تو وہ پوری کائنات کو خدا کا جزء قرار دیتا ہے۔

 

"He both is and is not the Created Universe, for while the created universe, is a part of his being it is not the whole of it." (Spiritual Heritage of India by Swami Prabhavananda P.32

 

یعنی خدا نے کائنات کو پیدا کیا بھی ہے اور نہیں بھی کیونکہ یہ تخلیق شدہ کائنات اس کی ذات کا جزء ہے مکمل اس کی ذات نہیں۔ کیسی متضاد الجھی ہوئی اور گمراہ کن باتیں ہیں یہ جن کو ایک فلسفہ کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ نعوذ باللہ من ذالک۔

 

اسی ہندوانہ فلسفہ کا اثر ہے کہ بعض صوفیاء وحدۃ الوجود کے قائل ہو گئے۔ انہوں نے خالق اور مخلوق کے فرق کو مٹا دیا اور خدا اور کائنات کو ایک ہی وجود سے تعبیر کیا یہ گمراہی مسلمانوں میں تصوف کی راہ سے آئی۔ اگر مسلمان آنکھیں کھول کر قرآن کا مطالعہ کرتے تو وہ توحیدِ خالص کو پاتے اور گمراہ صوفیوں کے چکر میں نہ آتے۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔ یہ کھلی نا شکری ہے کہ انسان فائدہ اٹھائے اللہ کی نعمتوں سے مگر عبادت کرے غیر اللہ کی۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔ مشرکین عرب کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ ان کے اسی دعوے کی نا معقولیت کو یہاں واضح کیا گیا ہے۔ وہ بیٹوں پر فخر کرتے تھے اور بیٹیوں کو اپنے لیے تنگ و عار سمجھتے تھے۔ ان کی اسی ذہنیت کے پیشِ نظر ان کے دعوے ٰ کی نامعقولیت ان پر واضح کی جا رہی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اول تو اللہ کی اولاد ہونے کا تصور ہی باطل ہے۔ مزید یہ کہ تم نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیا ہے۔ جب کہ بیٹیوں کو تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے بلکہ معیوب خیال کرتے ہو۔ تو جس چیز کو معیوب خیال کرتے ہو وہ اللہ کے لیے تجویز کرنا کہاں کی معقولیت ہے ؟ اس ایک پہلو ہی سے اگر غور کرو تو تم یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہو گے کہ بڑی احمقانہ بات ہے جو تمہاری زبان سے نکل رہی ہے۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نحل نوٹ ۸۰۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔ یہ لڑکیوں کے تعلق سے مشرکین ہی کے ذہن کا ابھرتا ہوا سوال ہے جو ان ہی پر الٹ دیا گیا ہے۔ وہ لڑکی کی پیدائش کو اپنے لیے باعث عار خیل کرتے تھے کیونکہ قبائلی سسٹم میں افرادی قوت کی بڑی اہمیت تھی اور اس کی طاقت کا انحصار مردوں ہی پر تھا۔ دشمن سے مقابلہ مرد کرتے تھے نہ کہ عورتیں۔ پھر کسی نزاعی مسئلہ میں بھی اپنے موقف کو مرد ہی وضاحت کے ساتھ پیش کر سکتے تھے۔ عورتیں بالعموم ایسے موقع پر جذبات سے مغلوب ہو جاتی ہیں اور اپنے موقف کو وضاحت کے ساتھ پیش نہیں کر پاتیں اس لیے لڑکی کی پیدائش کی خبر سن کر ان کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا تھا کہ یہ صنف جو زیورات کی جھنکار میں پرورش پاتی ہے دشمن سے مقابلہ کے لیے اور جنگ کے موقع پر ہمارے کیا کام آسکتی ہے بخلاف اس کے لڑکا صنفِ قوی سے تعلق رکھتا اور تلواروں کے سایہ میں پرورش پاتا ہے۔ اس لیے دشمن سے مقابلہ کی طاقت رکھتا ہے اور لڑائی کے لیے موزوں ہے۔ اسی طرح ان کے ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا تھا کہ قبائل کے درمیان جو نزاعات پیدا ہوتی رہتی ہیں ان میں لڑکی کیا رول ادا کر سکے گی جبکہ وہ ایسے موقع پر جذبات سے مغلوب ہو جاتی ہے۔ ان کی اسی ذہنیت کو ان پر الٹ دیا گیا ہے کہ جب تم ان وجوہ سے لڑکیوں کو اپنے لیے باعثِ عار خیال کرتے ہو تو پھر اللہ کے لیے بیٹیاں کس طرح تجویز کرتے ہو؟ اول تو اللہ کے لیے اولاد تجویز کرنا حماقت ہے اور اس پر مزید حماقت یہ کہ صنفِ نازک کو اس کی اولاد قرار دیا جائے۔ گویا اللہ نے اپنی خدائی کو چلانے اور اپنے اقتدار کو قائم کرنے کے لیے جس کا انتخاب کیا وہ صنف نازک ہے۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کا بھونڈا پن اور جس کا لغو ہونا بالکل ظاہر ہے۔ پھر اللہ کے بارے میں ایسی بھونڈی بات کہتے ہوئے تمہیں شرم محسوس نہیں ہوتی! آیت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے عورتوں کی تنقیص یا تحقیر کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے اس لیے ان کی فطرت میں بھی کوئی خرابی نہیں ہے۔ البتہ مردوں کی خصوصیات اور عورتوں کی خصوصیات میں کسی قدر فرق ہے۔ مرد قوت کی علامت ہیں تو عورتیں زینت کا نشان۔ اور جہاں تک خدائی نظام کا تعلق ہے اس میں نہ مرد دخیل ہیں اور نہ عورتیں اور کسی کے بھی دخیل ہونے کا تصور ہی سرے سے باطل ہے لیکن عورتوں کو دخیل سمجھنا بڑی بھونڈی بات ہے۔ سورۂ نجم میں یہی بات ارشاد ہوتی ہے۔

 

اَلَکُم اُلذَّکَرُوَلَہُ الْاُنْثٰی تِلْکَ اذِاً قِسْمَۃٌ ضِیْزٰی" کیا تمہارے لیے بیٹے ہیں اور اللہ کے لیے بیٹیاں ؟ یہ تقسیم تو بہت بھونڈی ہوئی۔ " (نجم:۲۱۔ ۲۲)

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آخر انہیں کیسے معلوم ہوا کہ فرشتے لڑکیاں ہیں۔ فرشتے غیب سے تعلق رکھتے ہیں اور غیب کی حقیقتوں کو جاننے کا ذریعہ وحی ہے جس کے یہ لوگ قائل نہیں ہیں۔ پھر کیا یہ ان کی پیدائش کے وقت موجود تھے جو انہیں فرشتوں کی صنف معلوم ہو گئی؟

 

واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ فرشتوں کی صنف کے بارے میں ان کا دعویٰ غلط ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ خدا کا جزء نہیں ہیں کہ بیٹیاں قرار پائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ خدائے رحمن کے خاص بندے ہیں۔ جن کو کسی بھی صنف سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔ یہ کٹ حجتی ہے۔ آدمی جب بحث پر اتر آتا ہے تو اللہ کی مشیت پر ساری ذمہ داری ڈالتا ہے۔ گویا وہ تقدیر کے ہاتھوں مجبور ہے اور بالکل بے اختیار ہے مگر انسان دوسروں کے ساتھ معاملہ کرنے میں یہ رویہ اختیار نہیں کرتا۔ اگر کوئی شخص اس کا مال چراتا ہے یا اس کو مارتا ہے یا اس پر ظلم کرتا ہے تو وہ یہ کیوں نہیں سمجھتا کہ وہ ایسا کرنے کے لیے تقدیر کے ہاتھوں مجبور ہے اس لیے وہ سزا کا مستحق نہیں ہے۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔ عقیدہ اور عبادت کا معاملہ علم پر مبنی ہونا چاہیے نہ کہ قیاس پر مشرکین کا فرشتوں کو اللہ کے اقتدار میں شریک اور لائق عبادت سمجھنا کسی تحقیق پر مبنی نہیں تھا بلکہ محض اٹکل پچو بات تھی جو بہت بڑی گمراہی ہے۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی فرشتوں کو انہوں نے جو معبود (دیویاں) بنا رکھا ہے تو اس کی تائید میں آسمانی کتاب کی کوئی حجت ان کے پاس موجود نہیں ہے کیونکہ عربوں (بنی اسمعیل) میں اللہ تعالیٰ نے قرآن سے پہلے کوئی کتاب نازل نہیں کی تھی۔ پھر یہ کس دلیل کی بنا پر یہ دعویٰ کر رہے ہیں ؟

 

واضح رہے کہ اللہ کے رسول مختلف قوموں اور ملکوں میں آتے رہے مگر اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کو کتاب عطا نہیں کی کیونکہ اس زمانہ میں پڑھنے لکھنے کا رواج کم ہونے کی وجہ سے ہر قوم اس کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ عرب ایک امی قوم تھی اس لیے حضرات ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہم السلام نے جو کچھ نقوش چھوڑے وہ ان کی رہنمائی کا ذریعہ تھے۔ اسی طرح کا معاملہ دنیا کی مختلف قوموں کے ساتھ رہا ہو گا۔ ان کے لیے انبیائی ہدایت کا سامان کیا جاتا رہا البتہ بنی اسرائیل میں رسول بھی آئے اور کتابیں بھی نازل ہوئیں۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس شرک اور بت پرستی میں وہ مبتلا ہیں اس کے لیے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ اپنے گمراہ باپ دادا کی اندھی تقلید کر رہے ہیں اور اس زعم میں مبتلا ہیں کہ باپ دادا کے مذہب پر چلنا راہیاب ہونا ہے۔

 

عقیدہ و مذہب کے معاملہ میں انسان کی سب سے بڑی گمراہی یہی رہی ہے کہ وہ الہ کی حجت کے مقابلہ میں تقلید کو ترجیح دیتا رہا ہے خواہ وہ آباء و اجداد کی تقلید ہو یا مذہبی پیشواؤں کی یا لیڈروں کی مگر قرآن ہر قسم کی تقلید کی جڑ کاٹ دیتا ہے اور وحی الٰہی کی راہ روشن کرتا ہے جو علم کی راہ ہے۔ امام رازی تقلید کی گمراہی کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 

" اگر اللہ کی کتاب میں صرف یہی آیتیں ہوتیں تو وہ تقلید کو باطل قرار دینے کے لیے کافی ہوتیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ ان کافروں کے پاس اپنے مسلک کی تائید میں نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ نقلی جس کو یہ پکڑے ہوئے ہوں بلکہ محض تقلید ہے اپنے آباؤ اجداد اور گزرے ہوئے لوگوں کی۔ " (التفسیر الکبیر ج۲۷ ص ۲۰۶)

 

اور علامہ شوکانی نے اس آیت کے ذیل میں مسلمانوں مے پائے جانے والے تقلیدی ذہن پر سخت گرفت کرتے ہوئے لکھا ہے :

 

"یہ بہت بڑی دلیل ہے تقلید کے باطل اور اس کے بُرا ہونے کی مگر اسلام میں رہتے ہوئے یہ مقلدین اپنے گزرے ہوئے لوگو ں کی بات پر عمل کرتے ہیں ، ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں اور ان کی پیروی کرتے ہیں۔ جب حق کی طرف دعوت دینے والا انہیں گمراہی سے نکالنا یا اس بدعت سے بچانا چاہتا ہے جس کو انہوں نے مضبوط پکڑ رکھا ہے اور اپنے بزرگوں سے کسی روشن دلیل اور واضح حجت کے بغیر ورثہ میں پایا ہے اور جو غلط شبہات ، بودے دلائل اور باطل اقوال پر مبنی ہونے کی وجہ سے محض قیل و قال کی حیثیت رکھتے ہیں تو یہ لوگ وہی جواب دیتے ہیں جو ان مذاہب کے خوشحال لوگوں نے دیا تھا کہ ہم نے اپنے باپ داد کو ایک مسلک پر پایا ہے اور ہم ان کے نقش قدم کی پیروی میں راہیاب ہیں۔ یا ان معنی میں کوئی بات کہہ دیتے ہیں۔ " (فتح القدیر ج۴ ص ۵۵۲)

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔ ان کا یہ جواب سراسر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ تھا۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ کو پیش کر کے مشرکین عرب کو فہمائش کی گئی ہے کہ تم نے اپنے گمراہ آباؤ اجداد کی تقلید میں شرک اور بت پرستی اختیار کی لیکن اپنے جدِ امجد ابراہیم ؑ کے اسوہ کو جو اللہ کے رسول تھے چھوڑ دیا۔ حالانکہ لائق اتباع رسول کا طریقہ ہوتا ہے نہ کہ باپ داد کا طریقہ۔

 

حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم کی تقلید نہیں کی تھی بلکہ ان کے مشرکانہ عقائد اور ان کی بت پرستی سے بے زاری کا اعلان کیا تھا اور توحید کو فطرت کی آواز اور دلائل کی بنا پر اختیار کیا تھا۔ توحید کا یہ کلمہ انہوں نے اپنی اولاد اور اپنے اَخلاف میں ایک یادگار کلمہ کی حیثیت سے چھوڑا تاکہ اگر سماج میں گمراہی پیدا ہو جائے تو لوگ اس تاریخی کلمہ کی طرف رجوع کریں۔ یہ کلمہ اس لیے یادگار کلمہ قرار پایا کہ اس کی پشت پر زبردست قربانیاں تھیں جو انہوں نے دیں نیز ایک تاریخ تھی جو انہوں نے بنائی۔ اور اسی کلمہ کا یہ اثر تھا کہ جب عربوں میں بت پرستی رائج ہوئی تو جو لوگ اپنی فطرت سلیمہ پر قائم تھے وہ بت پرستی سے دور رہے اور حضرت ابراہیم ؑ کے نقش قدم پر صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا قبل نبوت غارِ حراء میں صرف اللہ کی عبادت کرنا ثابت ہے۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کی اولاد (عربوں) کو جو مال و اسباب دیا اس میں وہ مگن رہے اور خدا اور آخرت سے بالکل بے پرواہ ہو گئے۔ ایک مدت کے ان کا یہی حال رہا یہاں تک کہ حق کی روشنی نمودار ہو گئی اور ایک ایسا رسول ان میں مبعوث ہوا جس کا رسول ہونا بالکل واضح ہے۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن کے ذریعہ جب حق ظاہر ہو گیا تو انہوں نے اس کی تاثیر کو دیکھ کر اسے جادو قرار دیا اور ماننے سے انکار کر دیا۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔ دو شہروں سے مراد مکہ اور طائف ہیں جو مرکزی شہر تھے۔ مشرکین مکہ کا اعتراض یہ تھا کہ قرآن اگر واقعی الہ کی طرف سے ہے تو وہ مکہ یا طائف کے کسی رئیس پر نازل کیا جانا چاہیے تھا۔ ایک ایسا شخص اس کے لیے کس طرح موزوں ہوا جو نہ دولتمند ہے اور نہ جاہ و منصب رکھتا ہے ؟

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔ یہ ان کے اعتراض کا جواب ہے کہ نبوت اللہ کی رحمت ہے اور اللہ کی رحمت کو تقسیم کرنا اللہ کا کام ہے یا ان کا؟ اگر یہ اللہ ہی کا کام ہے تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس کی رحمت کے لیے کون شخص موزوں ہے۔ تم کو کیا حق کہ کسی کے موزوں ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کر بیٹھو۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نبوت تو بڑی بات ہے لوگوں کے درمیان معیشت کی تقسیم بھی تو اللہ ہی کی مشیت سے ہو رہی ہے وہ جس کو چاہتا ہے امیر بناتا ہے اور جس کو چاہتا ہے غریب۔ اور کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں کہ فلاں شخص کو امیر کیوں بنایا اور فلاں شخص کو غریب کیوں۔ بندوں کی مصلحتوں کو اللہ بہتر جانتا ہے اور اس کی حکمت جس طرح متقاضی ہوتی ہے وہ اپنے بندوں کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ نے معیشت کی تقسیم میں جو تفاوت رکھا ہے کہ کسی کو وسائل زیادہ عطا کئے اور کسی کو کم ، کوئی امیر گھرانہ میں پیدا ہوا اور ورثہ میں بہت بڑی دولت پائی اور کوئی غریب گھرانہ میں پیدا ہوا اور ورثہ میں کچھ نہیں پایا، کسی کی کھیتی زر اگلتی ہے اور کوئی سرے سے کھیتی ہی سے محروم ہے ، کسی کو کاروبار کے ذرائع حاصل ہیں اور کوئی محنت مزدوری ہی کر سکتا ہے تو یہ تفاوت ایک طرح سے درجات کا تفاوت ضرور ہے مگر اس کا کوئی تعلق عزت و ذلت سے نہیں ہے اور نہ اس بنا پر اللہ کے یہاں کسی کا درجہ بڑھتا یا گھٹتا ہے اس لیے نبی کی شخصیت کو اس نظر سے دیکھنا کہ اس کے پاس اسباب معیشت کی فراوانی نہیں ہے لہٰذا وہ اس منصب کے لیے موزوں نہیں ہو سکتا نری جہالت ہے۔

 

پھر جب بات معیشت میں درجات کے تفاوت کی آئی تو اس کی مصلحت بھی واضح کر دی اور وہ یہ کہ لوگ ایک دوسرے سے خدمت لے سکیں۔ اگر سب لوگ یکساں صلاحیت لے کر آتے اور یکساں وسائل پاتے تو کوئی کسی کو نہ پوچھتا اور انسانی سوسائٹی کا نظام تعاون کی بنیاد پر نہ چلتا۔ اگر سب افلاطون کا دماغ لے کر آتے تو سب ہی فلسفی بن کر رہ جاتے۔ کاشتکار، تاجر، معمار اور کاریگر کہاں سے آتے اور اگر سب پیدائشی طور پر امیر ہی امیر یا غریب ہی غریب ہوتے تو نہ امیر کسی کے تعاون کا محتاج ہوتا اور نہ غریب سے کوئی سروکار رکھتا۔ اس طرح انسانی سوسائٹی کے نظام میں باہمی تعاون کی روح مفقود ہوتی ہے۔

 

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسانی سوسائٹی میں دولت کے تفاوت کو کم کرنے کے لیے جائز اور منصفانہ ذرائع اختیار نہ کئے جائیں اور ان کو طبقات میں تقسیم کر دیا جائے۔ قرآن کے واضح احکام اس کی تردید کرتے ہیں مثلاً یہ حکم کہ دولت تمہارے مالداروں کے درمیان گردش نہ کرتی رہے (سورۂ حشر:۷) اسی طرح وراثت کا نظام زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم وغیرہ۔

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا کی جو دولت یہ لوگ سمیٹ رہے ہیں اس کے مقابلہ میں وہ دولت جس سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں نوازا ہے ہر لحاظ سے بہتر ہے کیونکہ یہ دولت (نبوت) اللہ کی خاص رحمت ہے جس سے وہ اپنے خاص بندوں ہی کو نوازتا ہے۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔ یہاں اس شبہ کا ازالہ کیا گیا ہے جو عام طور سے کافروں کو خوش حال دیکھ کر سطحیت پسند ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ جب اللہ نے ان کو خوشحال اور دولت مند بنایا ہے تو وہ ضرور ان سے خوش ہو گا اور اگر آخرت برپا ہوئی تو وہاں بھی انہیں سب نعمتیں حاصل ہوں گی۔ یہاں اس خیال کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ کافروں کا خوشحال اور دولت مند ہونا اس بات کی علامت نہیں ہے کہ اللہ ان سے خوش ہے اور آخرت میں بھی وہ خوشحال ہوں گے۔ دنیا میں جو کچھ بھی انہیں دیا جا رہا ہے وہ دنیا کی زندگی تک ہی محدود رہنے والا ساز و سامان ہے اور انہیں اس لیے دیا جا رہا ہے تاکہ وہ کفر میں جتنا آگے نکل جانا چاہیں نکل جائیں اور اپنا پیمانہ خوب بھر لیں اس کے بعد آخرت کی نعمتوں میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ اللہ کے نزدیک دنیوی مال و متاع بالکل بے وقعت ہے اور جس فراوانی کے ساتھ کافروں کو دیا جاتا ہے اس سے کہیں زیادہ فراوانی کے ساتھ انہیں دیا جاتا یہاں تک کہ وہ اپنے گھروں کو چاندی سے آراستہ کر لیتے اور سونے سے انہیں مالا مال کر دیا جاتا مگر اس صورت میں لوگ سونے چاندی کی چمک دمک سے متاثر ہو کر کفر کی راہ پر جا پڑتے۔ ہر شخص دنیا بٹورنے کے لیے آگے بڑھتا اور پوری انسانیت کفر پر مجتمع ہو جاتی۔ یہ ایسا زبردست امتحان ہوتا کہ خال خال لوگ ہی ایسے نکلتے جو اپنی فطرت سلیمہ پر قائم رہتے اور دنیا کے سامانِ عشرت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اللہ پر ایمان لاتے اور تقویٰ کی زندگی بسر کرتے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر رحم فرمایا اور اسے اتنے کڑے امتحان میں نہیں ڈالا۔

 

اس ارشاد الٰہی سے یہ بات خود بخود واضح ہوتی ہے کہ کافروں کو اللہ تعالیٰ دنیوی عیش و عشرت کا سامان کچھ زیادہ ہی دیتا ہے اور تمدنی ترقی کے اسباب بالعموم ان کے لیے زیادہ مہیا کر دیتا ہے مگر اہل ایمان کے لیے یہ چیزیں رشک کرنے کی نہیں ہیں کیونکہ یہ چند روزہ زندگی کے متاعِ حقیر ہے۔ آخرت کی بہترین اور لازوال نعمتیں متقیوں ہی کے حصہ میں آنے والی ہیں۔

 

آج مسلمانوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جنہوں نے صاف ذہن سے اس حقیقت کو قبول کر لیا ہو اور جو دنیوی زخارف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تقویٰ کی زندگی کو اپنے لیے باعثِ سعادت خیال کرتے ہوں۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔ سلسلہ بیان سے واضح ہے کہ جو لوگ سیم و زر پر ریجھتے ہیں اور دنیوی عیش و عشرت کے دل دادہ بن جاتے ہیں وہ اللہ کے ذکر سے غافل ہو جاتے ہیں اور اللہ کے ذکر سے غافل ہونے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شیطان ان پر مسلط ہو جاتا ہے اور وہ ان کا ساتھی بن کر ان کو گمراہ کرتا ہے۔

 

یہاں اللہ کے ذکر سے مراد پورے شعور کے ساتھ اپنے رب کو یاد کرنا اور یاد رکھنا ہے۔ یعنی قلب و ذہن کا اللہ کی طرف متوجہ رہنا۔ ذکرِ لسانی (زبان سے اللہ کا ذکر کرنا) اس میں بڑا معاون ہے اور اس لحاظ سے اس کی بری اہمیت ہے۔

 

اس موقع پر سورۂ طٰہٰ نوٹ ۱۵۲ بھی پیش نظر رہے۔

 

شیطان کا مسلط ہونا اور اس کا ساتھی بن کر رہنا ظاہری آنکھوں سے دکھائی نہ دینے والی چیز ہے مگر اس کے اثرات انکار و خیالات اور اخلاقی و عملی زندگی میں محسوس کئے جا سکتے ہیں اور قرآن ہمیں ان چیزوں سے آگاہ کرتا ہے جو اگرچہ ہماری نظروں سے پوشیدہ ہیں لیکن ہمارے عقائد و اعمال پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔ اصل میں "بُعد المشرقین" کی ترکیب استعمال ہوئی ہے جس کے لفظی معنی ہیں دو مشرقوں کے درمیان کی دوری۔ لیکن عربی محاورہ میں مشرق اور مغرب کے لیے مشرقین (دو مشرق) کہا جاتا ہے جیسا کہ شمس و قمر کے لیے قمران (دو قمر) بولنے کا محاورہ ہے۔ اسی لیے بعد المشرقین کا ترجمہ مشرق و مغرب کی دوری کیا گیا ہے۔

 

آیت کا مطلب یہ ہے کہ آج تو یہ ہے کہ آج تو یہ کافر شیطان کو اپنا ساتھی بنائے ہوئے ہیں لیکن قیامت کے دن وہ اپنے اس ساتھی سے سخت نفرت کریں گے اور اس سے برملا  کہہ دیں گے کہ کاش میرے اور تیرے درمیان انتہائی دوری ہوتی!

 

۳۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب دنیا میں تم اپنے نفس پر ظلم ڈھا کر  آئے ہو تو آج تم اپنے شیاطین کے ساتھ عذاب میں شریک ہو اور تمہاری یہ شرکت تمہارے عذاب میں کسی تخفیف کا باعث نہیں ہو سکتی۔ یعنی یہ شیاطین تمہارا کوئی بار ہلکا نہیں کر سکتے اور تمہارا دوزخ میں مجتمع ہونا احساسِ درد میں کمی کا باعث نہیں ہو سکتا۔

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنہوں نے حق بات کو سننے اور راہ حق کو دیکھنے کی صلاحیت کھو دی ہے ان پر نہ کوئی نصیحت اثر انداز ہو سکتی ہے اور نہ ان کی رہنمائی کی جا سکتی ہے۔

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اے پیغمبر یہ لوگ تمہاری وفات کا انتظار کر رہے ہیں لیکن اگر ہم نے تمہیں دنیا سے اٹھا بھی لیا تو یہ لوگ اللہ کے عذاب سے جو کفر کی پاداش میں ان پر آنا ہے ہرگز بچنے والے نہیں۔

 

اس موقع پر سورۂ یونس نوٹ ۷۵ بھی پیشِ نظر رہے۔

 

۴۱۔۔۔۔۔۔۔ اور یہی دوسری صورت پیش آئی۔ کافروں کا انجام نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو آپ کی زندگی ہی میں دکھا دیا گیا۔

 

۴۲۔۔۔۔۔۔۔ مراد قرآن ہے جس کو مضبوطی کے ساتھ تھام لینے کا مطلب اس کو دل کی گہرائیوں میں جگہ دینا اور یکسوئی کے ساتھ اس راہ پر چلنا ہے جو وہ دکھا رہا ہے۔

 

۴۳۔۔۔۔۔۔۔ باز پرس اس بات کی کہ تم نے قرآن کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔

 

۴۴۔۔۔۔۔۔۔ رسولوں سے پوچھنے کا مطلب ان کی کتابوں اور ان کی تعلیمات میں یہ بات تلا ش کرنا ہے کہ کیا واقعی انہوں نے خدائے رحمن کے سوا کسی اور کی عبادت کا حکم دیا تھا۔ اس کے ثبوت میں کوئی مستند حوالہ پیش نہیں کیا جا سکتا اور جب حقیقت یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نے بھی، غیر اللہ کی عبادت کا حکم نہیں دیا تھا تو شرک اور بت پرستی کے لیے کیا بنیاد رہ جاتی ہے ؟

 

یہ اسلوب کہ رسولوں سے پوچھ دیکھو بلاغت کا اسلوب ہے اور یہ اسی مفہوم میں ہے جس مفہوم میں کہ آیت فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ (اگر تمہارے درمیان کوئی اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو۔ سورۂ نساء:۵۹) ظاہر ہے یہاں بھی کتاب و سنت مراد ہیں نہ کہ اللہ کے پاس پہنچ کر اور رسول کے پاس پہنچ کر جب کہ آپ دنیا سے رخصت ہو گئے کسی مسئلے کی شرعی حقیقت معلوم کرنا۔

 

۴۵۔۔۔۔۔۔۔ موسیٰ علیہ السلام کا قصہ اس سے پہلے کئی سورتوں میں تفصیل سے گزر چکا۔ یہاں اس قصہ کے چند پہلو نمایاں کئے گئے ہیں اور مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ منصب نبوت کے لیے جس کو چن لیتا ہے وہ کوئی متمول اور دنیوی شان و شوکت رکھنے والی شخصیت نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے اوصاف کے لحاظ سے عظیم شخصیت ہوتی ہے۔ موسیٰ کو فرعون کی طرف جو عظیم الشان سلطنت کا مالک تھا رسول بنا کر بھجا گیا تھا لیکن ان کے ساتھ کوئی دنیوی شان و شوکت نہیں تھی لہٰذا اگر پیغمبر قرآن کے ساتھ دنیا کا ساز و سامان نہیں ہے تو اس سے ان کی رسالت پر کیا حرف آتا ہے ؟

 

۴۶۔۔۔۔۔۔۔ مراد معجزے ہیں۔

 

۴۷۔۔۔۔۔۔۔ مراد تنبیہی عذاب ہیں یعنی ایسی آفتیں اور مصیبتیں جن سے اس بات کی تائید ہوتی تھی کہ موسیٰ اللہ کے رسول ہیں۔ اور یہ عذاب اس لیے آتے رہے تاکہ وہ ہوش میں آئیں اور انہیں اپنی غل روی کا احساس ہو۔

 

تفصیل کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۱۸۷ تا ۱۹۲۔

 

۴۸۔۔۔۔۔۔۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس قدر غیر سنجیدہ تھے یہ لوگ۔ وہ حضرات موسیٰ ؑ سے دعا کے لیے درخواست بھی کرتے اور ساتھ ہی انہیں جادوگر بھی کہتے۔ ان کی نظر میں حضرت موسیٰ کے معجزے محض ان کی جادوگری تھی مگر جو آسمانی آفتیں ان پر نازل ہو رہی تھیں ان سے بچنے کے لیے وہ حضرت موسیٰ کی دعا کو موثر خیال کرتے تھے۔ اس طرح انہوں نے دو متضاد باتوں کو جمع کر لیا تھا ایک طرف وہ حضرت موسیٰ کو نیک اور اللہ کا مقبول بندہ بھی سمجھتے تھے اور دوسری طرف جادوگر بھی۔

 

۴۹۔۔۔۔۔۔۔ یہ تھا فرعون کا دعوائے فرعونیت کہ جب میں مصر کا بادشاہ ہوں اور ایسی سلطنت کا مالک ہوں جس میں زمین کو زر خیز کرنے والی نہریں بہتی ہیں تو کون ہے جو مجھ سے بڑا ہو۔ حکومت کا یہ گھمنڈ ایسا تھا کہ وہ اپنے رب کو بھول گیا۔

 

۵۰۔۔۔۔۔۔۔ حضرت موسیٰ کو فرعون نے حقیر خیال کیا محض اس بنا پر کہ ان کے پاس نہ سلطنت تھی اور نہ دولت۔ قریش بھی اسی عینک سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ رہے تھے۔ اور جب ان کی عقل ہی ماری گئی تو ان کو کیا معلوم کی نبوت کا مقام کتنا بلند ہے۔

 

۵۱۔۔۔۔۔۔۔ یہ فرعون کا الزام تھا نہ کہ حقیقتِ واقعہ کیونکہ حضرت موسیٰ کی وہ دعا جو انہوں نے نبوت سے سرفراز کئے جانے پر اپنی زبان کی گرہ کھول دینے کے لیے کی تھی مقبول ہوئی تھی اور قرآن نے ان کی جو تقریریں نقل کی ہیں وہ اپنے مدعا میں بالکل واضح ہیں۔ معلوم ہوتا ہے فرعون نے پرانی بات کو جبکہ حضرت موسیٰ میں زبان آوری کی کمی تھی دہرا کر ان کے بارے میں غلط تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔

 

۵۲۔۔۔۔۔۔۔ اس زمانہ میں بادشاہ سونے کے کنگن پہنتے تھے اور ان کے جلو میں فوج رہتی تھی۔ اسی کے پیش نظر فرعون کا اعتراض یہ تھا کہ اگر واقعی موسیٰ کو کائنات کے رب نے رسول بنا کر بھیجا ہے تو ان کو شاہی شان و شوکت کیوں نہیں عطا کی گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کے لیے آسمان سے سونے کے کنگن نازل کئے جاتے اور فرشتوں کے پرے ان کے جلو میں ہوتے۔ اس نے منصب نبوت کو بادشاہت کی سطح پر رکھا حالانکہ یہ منصب اس سے بدرجہا بلند ہے۔

 

۵۳۔۔۔۔۔۔۔ یعنی فرعون نے اپنی قوم کو بے وزن سمجھ کر خوب بیوقوف بنایا۔ ان کو ایسا مرعوب کیا کہ وہ اپنی عقل سے کام نہ لے سکے اور اس کی پُر فریب باتوں میں آ گئے۔ فرعون ان کو بے وقوف بنانے میں اس لیے کامیاب ہوا کہ تھے ہی وہ فاسق لوگ۔ اور فاسق لوگ فاسق قیادت ہی کو پسند کرتے ہیں۔

 

۵۴۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ طٰہٰ نوٹ ۹۳۔

 

۵۵۔۔۔۔۔۔۔ گزرے ہوئے (سلفا) یعنی ماضی کی داستان بنا کر رکھ دیا اور بعد والوں کے لیے نمونہ عبرت (مثلاً) بنا دیا کہ ہوش مند لوگ اس واقعہ سے سبق لیں۔

 

۵۶۔۔۔۔۔۔۔ ابن مریم سے مراد جیسا کہ ظاہر ہے عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ ان کو ماں کی طرف منسوب کرنا ان کے بغیر باپ کے پیدا ہونے پر دلالت کرتا ہے نیز اس بات پر بھی کہ وہ خدا کے بیٹے نہیں تھے بلکہ مریم کے بیٹے تھے۔

 

قرآن میں حضرت عیسیٰ کو اس حیثیت سے پیش کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول تھے چنانچہ سورۂ مریم میں جو اس سورہ سے پہلے نازل ہوئی تھی ان کی ولادت کے واقعہ کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے تاکہ ان کے خدا کا بیٹا ہونے اور معبود ہونے کی بالکل نفی ہو جائے لیکن مشرکین مکہ حقیقت پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کرتے اور لوگوں کو یہ کہہ کر ورغلاتے کہ عیسائی تو انہیں اللہ کا بیٹا مانتے ہیں لہٰذا اگر ہم فرشتوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں تو کیا غلط ہے ؟

 

۴۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم نے تو فرشتوں کو معبود بنایا ہے جبکہ عیسائیوں نے عیسیٰ کو معبود بنایا جو بہر حال انسان تھے۔ لہٰذا ہمارے معبود عیسائیوں کے معبود سے اچھے ہوئے۔ یہ بات وہ محض کٹ حجتی کے لیے پیش کرتے تھے ورنہ ان پر یہ بات اچھی طرح واضح تھی کہ قرآن حضرت عیسیٰ کو نہ اللہ کا بیٹا قرار دیتا ہے اور نہ معبود۔ وہ صراحت کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ بھی اللہ کے بندے ہیں اور فرشتے بھی اس کے بندے۔

 

۵۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عیسیٰ تھے تو اللہ کے بندے ہی مگر اللہ نے انہیں اپنے خصوصی فضل سے نوازا تھا اس لیے ان سے طرح طرح کے معجزے صادر ہوئے اور ان کا ظہور بنی اسرائیل میں ایک مثالی شخصیت کا ظہور تھا تاکہ ظاہری دینداری کے مقابلہ میں حقیقی دینداری کا اعلیٰ نمونہ ان کے سامنے آئے۔

 

۵۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی فرشتوں کو اس بنا پر معبود سمجھنا صحیح نہیں کہ وہ انسان سے الگ ایک نوع ہیں۔ وہ الگ نوع ہونے کے باوجود اللہ کے مخلوق ہیں اور اگر اللہ چاہے تو انسانوں میں سے بھی فرشتے پیدا کر سکتا ہے جو زمین میں خلافت کا کام انجام دیں۔ اللہ کی قدرت سے کوئی چیز بعید نہیں لہٰذا اس کی کسی مخلوق کو اس کی امتیازی خصوصیات کی بنا پر معبود بنا لینے کے لیے کوئی وجہ جواز Justification نہیں ہے۔

 

۶۰۔۔۔۔۔۔۔ حضرت عیسیٰ کی پیدائش غیر معمولی طریقہ پر یعنی بغیر باپ کے ہوئی تھی جو اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا معجزہ تھا نیز اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو عجیب و غریب معجزے عطا ء کئے تھے مثلاً مٹی کے پرندے بنا کر ان میں پھونکنا کہ وہ واقعی پرندہ بن جائے۔ پیدائشی کوڑھیوں اور اندھوں کو شفا یاب کرنا، مردوں کو زندہ کرنا وغیرہ۔ ان کی یہ معجزات سے بھری ہوئی زندگی اللہ کے کرشمہ قدرت کا ظہور تھا۔ اس سے اس بات کا یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ قیامت کے آنے اور اس دن مردہ انسانو ں کو دوبارہ زندہ کئے جانے کی جو خبر اللہ تعالیٰ نے دی ہے وہ برحق ہے۔ اصل چیز اللہ کا حکم ہے نہ کہ طبقی قوانین۔ وہ جب چاہے طبعی قوانین کو بدل سکتا ہے اور عالم اسباب کو تہ و بالا کر سکتا ہے۔

 

یہ تو ہے اس آیت کا ابھرا ہوا مفہوم جو کافروں کے لیے حجت ہے لیکن اس کے مفہوم میں قیامت کے قریبی زمانہ میں حضرت عیسیٰ کا نازل ہونا بھی شامل ہے جس کی صراحت حدیث میں ہوئی ہے۔ ان کا دوبارہ دنیا میں آنا اور اسی جسم کے ساتھ آنا جس جسم کے ساتھ وہ ایک طویل عرصہ پہلے دنیا سے اٹھا لئے گئے تھے ، ان کا اس یلغار کا مقابلہ کرنا جو دشمنان اسلام کی طرف سے پورے عالم اسلام پر ہو رہی ہو گی، دجال کا جو اپنی غیر معمولی قوت کے ساتھ ظاہر ہو کر دنیا کو شر اور فتنہ میں جھونک رہا ہو گا۔ خاتمہ کر دینا، یہود کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا اور عیسائیوں کا صلیب کو تور کر ان پر صحیح طور سے ایمان لانا اور ملت اسلامیہ کا ملت واحدہ اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھرنا اور اسلام کا دنیا پر چھا جانا دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑا انقلاب ہو گا اور یہ انقلاب قیامت کا پیش خیمہ ہو گا کیونکہ حضرت عیسیٰ کا یہ معجزانہ کارنامہ اللہ کی طرف سے انسانیت کے لیے آخری حجت ہو گا۔ اس کے بعد بھی جو لوگ شر پر آمادہ ہوں گے وہ بدترین لوگ ہوں گے اور ان ہی پر قیامت قائم ہو گی۔

 

اس موقع پر سورۂ نسا کا نوٹ ۲۶۱ پیش نظر رہے۔

 

۶۱۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی کہلوائی گئی ہے کہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں جو حقائق قرآن میں پیش کئے گئے ہیں ان میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں لہٰذا ان پر یقین رکھو اور یکسوئی کے ساتھ میری پیروی کرو۔

 

۶۲۔۔۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل نے دین کی روح کھو دی تھی اور صرف رسمی دینداری کو لے کر بیٹھ گئے تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان پر دین کی حکمتیں واضح کیں یعنی دین کی روح Spirit کو نمایاں کیا تاکہ وہ سمجھ لیں کہ حقیقی دینداری کیا ہے۔ موجودہ انجیل میں بھی اس کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔

 

۶۳۔۔۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل میں اختلافات توبہ کثرت پیدا ہو گئے تھے لیکن ان میں س جو اختلافات بنیادی نوعیت کے تھے اور جن کی بنا پر وہ فرقوں میں بٹ گئے تھے ان کی حقیقت انہوں نے ان پر کھول دی۔ اور انبیاء علیہم السلام کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ وہ سِرے کو پکڑ لیتے ہیں جس کے بعد گتھیاں خود بخود سلجھنے لگتی ہیں۔

 

۶۴۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ آل عمران نوٹ ۷۶۔

 

۶۵۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ مریم نوٹ ۵۵۔

 

۶۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی شرک اور کفر کیا۔ حضرت عیسیٰ کے بارے میں عیسائیوں کا یہ عقیدہ کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں شرک بھی ہے کفر بھی اور بہت بڑی ظالمانہ حرکت بھی۔

 

۶۷۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۲۸۷۔

 

۶۸۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں کافر گمراہوں کو اپنا دوست بنا لیتے ہیں۔ مگر قیامت کے دن وہ ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے کیونکہ وہ محسوس کریں گے کہ یہ دوستی ان کی گمراہی کا سبب بنی۔ البتہ متقیوں کی باہم دوستی قیامت کے دن بھی برقرار رہے گی کیونکہ وہ محسوس کریں گے کہ وہ ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے۔

 

قرآن کی یہ آیت متنبہ کرتی ہے کہ ہر شخص دیکھ لے کہ اس نے کس شخص کے ساتھ دوستی کر لی ہے اور وہ اس کو کدھر لے جا رہا ہے۔

 

۶۹۔۔۔۔۔۔۔ یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ جنت کی بشارت ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لاکر اللہ کے فرمانبردار (مسلم) بن کر رہے یعنی جن کی زندگیوں میں اسلام رچ بس گیا۔

 

۷۰۔۔۔۔۔۔۔ مراد مومن بیویاں ہیں۔ اہل ایمان کے لیے یہ بشارت بھی ہے کہ ان کے ساتھ ان کی مومن بیویاں بھی جنت میں داخل ہوں گی۔

 

۷۱۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت کے ظروف بھی نہایت اعلیٰ قسم کے ہوں گے۔ اللہ کے خزانہ میں سونے کی کوئی کمی نہیں ہے اس لیے وہ جنتیوں کے لیے ظروف سونے کے بنا دے گا اور جب ساغر سونے کے ہوں گے تو

 

یار ب اس ساغرِ لبریز کی مَے کیا ہو گی!

 

۷۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت کا جمال ایسا ہو گا کہ دل کے لیے سرور اور آنکھوں کے لیے لذت بخش۔ جنت کی ہر چیز آرٹ کا ایسا نمونہ پیش کرے گی جو ذوق نظر کے لیے نہایت خوب ہو گا۔

 

۷۳۔۔۔۔۔۔۔ اہل ایمان سے کہا جائے گا کہ تم اپنے اعمال کے صلہ میں جنت کے وارث (مالک) بنائے گئے ہو تاکہ انہیں اس بات سے مسرت ہو کہ ہماری کوششیں مقبول ہوئیں اور ہمیں اپنی محنت کا پھل ملا۔

 

۷۴۔۔۔۔۔۔۔ جنت کی خوشخبری دیتے ہوئے میووں کا خاص طور سے ذکر کیا گیا ہے کیونکہ میوے ایک لطیف اور لذیذ غذا ہے نیز فرحت بخش بھی۔

 

۷۵۔۔۔۔۔۔۔ مراد کافر و مشرک ہیں۔

 

۷۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کافروں کے لیے اتنی سخت سزا اللہ کی طرف سے ظلم نہیں بلکہ اس کے عدل کا تقاضا ہو گا۔ قانونِ قدرت یہی ہے کہ جو آگ میں کود پڑتا ہے آگ اسے جلا دیتی ہے اور جو زہر کھاتا ہے اپنی زندگی کو ختم کر دیتا ہے۔

 

۷۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہمارا وجود ہی نہ رہے تو بہتر ہے۔

 

۷۸۔۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان دوزخیوں کو جواب ہو گا کہ ہم نے جب اپنے رسولوں کے ذریعہ حق تمہارے سامنے پیش کیا تھا تو تم کو اس کا سننا بھی گوارا نہ تھا۔ اب انکارِ حق کی سزا بھگتو۔

 

۷۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان لوگوں نے اگر انکارِ حق کا آخری طور سے فیصلہ کر لیا ہے تو ہم بھی انہیں سزا دینے کا قطعی فیصلہ کر لیں گے۔

 

۸۰۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے ان خفیہ سازشیوں کی طرف جو اسلام اور اس کے پیغمبر کے خلاف کی جا رہی تھیں۔

 

۸۱۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ تو خفیہ سے خفیہ بات کو جانتا اور سنتا ہی ہے ساتھ ہی اس نے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ فرشتے ان باتوں کا ریکارڈ تیار کریں تاکہ قیامت کے دن وہ شہادت کا کام دے سکے۔

 

۸۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بالفرض خدا کی کوئی اولاد ہوتی تو میں کس طرح انکار کر سکتا تھا جب کہ میں اس کی عبادت میں پہل کرنے والا اور سب سے آگے رہنے والا ہوں۔ تمہیں سوچنا چاہیے کہ ایک ایسا شخص جو اللہ کی عبادت میں مخلص بھی ہے اور سب سے زیادہ سرگرم بھی وہ آخر اللہ کے لیے اولاد ہونے سے کیوں انکار کرتا ہے۔

 

فَاَنَااَوَّلُ الْعَابِدِیْنَ کا مطلب ہمارے نزدیک یہی ہے کہ " تو میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا ہوں " میں اس سے انکار کیوں کرنے لگتا۔ آیت کی لغوی ترکیب کے لحاظ سے جملہ شرطیہ ہے اور جواب شرط میں یہ الفاظ کہ "میں اس کا انکار کیسے کرتا" محذوف ہیں مگر فحوائے کلام سے واضح ہیں۔ اس کی مثال سورۂ یونس کی یہ آیت ہے :

 

قُلْ یٰٓاَیہَاالنَّاسُ اِنْکُنْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِنْ دِینِیْ فَلاَ اَعْبُدُ الَّذِینَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ اَعْبُدُ اللّٰہَالَّذِیْ یتَوَفٰکُمْ (یونس۔ ۱۰۴) " کہو اے لوگو! اگر تم میرے دین کے بارے میں شک میں ہو تو (سن لو) میں ان کی پرستش نہیں کرتا جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو بلکہ میں اللہ کی پرستش کرتا ہوں جو تم کو وفات دیتا ہے۔ "

 

اس آیت میں بھی جواب شرط میں " سن لو" یا اس طرح کے اور الفاظ محذوف ہیں جو قرینہ کی بنا پر واضح ہیں۔

 

خلاصہ یہ کہ آیت زیر بحث میں اللہ کے لیے اولاد ہونے کی جو بات فرضSupposeکر کے کہی گئی ہے وہ اس کی تردید کا ایک حکیمانہ اسلوب ہے۔ کسی بات کی تردید کی غرض سے یہ کہنا کہ بفرضِ محال یہ بات صحیح ہوتی اس کے ممکن ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ اس کی مثال سورۂ انبیاء کی یہ آیت۔

 

لَوْکَانَ فِیہَما آلِہَۃٌ اِلاَّ اللّٰہُ لَفَسَدَتَا: (سورۂ انبیاء:۲۱) اگر ان میں اللہ کے سوا اور خدا بھی ہوتے تو یہ درہم برہم ہو کر رہ جاتے۔ "

 

اس آیت میں بھی جو بات فرضSuppose کر کے کہی گئی ہے وہ مشرکین کے دعوے کی تردید کے لیے ہے اور اس سے ایک سے زائد خداؤں کے وجود کا کوئی امکان ثابت نہیں ہوتا۔

 

۸۳۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ ان تمام باتوں سے پاک ہے جو اس کے شایانِ شان نہیں ہیں اور اس کے لیے اولاد کا تصور ہرگز اس کے شایانِ شان نہیں۔

 

۸۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لوگ جب ان باتوں کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور بحث میں الجھنا اور اللہ کی آیتوں سے کھیلنا ہی چاہتے ہیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ قیامت کے دن ان کو پتہ چلے گا کہ انہوں نے کتنا غلط موقف اختیار کیا تھا اور اس کے نتیجہ میں ان کو کیا کچھ بھگتنا پڑ رہا ہے۔

 

۸۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی شفاعت کا اختیار تو کسی کو نہیں البتہ اللہ جن کو اجازت دے گا وہ شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت اندھا دھند نہیں ہو گی بلکہ علم کی بنیاد پر ہو گی اور حق بات ہی وہ پیش کریں گے۔ جہاں تک مشرکین اور کافروں کا تعلق ہے ان کے لیے کوئی بھی سفارش نہیں کرے گا نہ فرشتے اور نہ انبیاء کیونکہ ان کے لیے شفاعت ممنوع ہو گی۔ رہے دوسرے گنہگار بندے تو ان میں سے بھی کسی کے بارے میں شفاعت کرنے سے پہلے وہ یہ معلوم کریں گے کہ وہ اللہ کے نزدیک شفاعت کا مستحق ہے یا نہیں۔ اگر وہ مستحق ہے تو سفارش کریں گے ورنہ نہیں۔ لہٰذا غلط کار لوگوں کا شفاعت پر تکیہ کرنا صحیح نہیں۔ اصل چیز عمل ہے جس کا بدلہ ہر شخص کو ملنا ہے لہٰذا اپنے عمل کو درست کرنے کی فکر کرنا چاہیے۔

 

مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مریم نوٹ ۱۱۱۔

 

۸۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لوگ شیطان کے ورغلانے میں کس طرح آتے ہیں کہ فرشتے اللہ کے حضور شفاعت کے لیے وسیلہ ہیں لہٰذا ان کی عبادت کرو۔ وہ تمہاری عبادت سے خوش ہو کر اللہ کے حضور تمہارے لیے سفارش کریں گے اور تمہیں ہر طرح کے عذاب اور مصیبت سے نجات دلا کر رہیں گے۔ شفاعت کا یہ تصور ہی ہے جس نے فرشتوں کے معبود ہونے کا اعتقاد پیدا کر دیا ہے ورنہ حقیقت بالکل واضح ہیں کہ خالق اللہ ہی ہے اور جب خالق اللہ ہی ہے تو معبود بھی وہی ہے فرشتے جب خالق نہیں ہیں تو معبود کیسے ہوئے ؟

 

۸۷۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہٹ دھرم لوگوں کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اپنے رب سے فریاد ہے کہ یہ لوگ گمراہی میں اتنے دور نکل گئے ہیں کہ قرآن کی واضح حجتیں بھی ان پر اثر انداز نہیں ہو رہی ہیں اور انہیں اس بات پر اصرار یہ کہ ایمان نہیں لائیں گے۔

 

فحوائے کلام سے واضح ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کی یہ فریاد سن لی اور اب ان کے ساتھ وہ معاملہ کیا جائے جس کی ہدایت آگے دی جا رہی ہے۔

 

نحوی لحاظ سے ہمارے نزدیک آیت میں واو کے بعد (لَقَدْ سَمِعْنَا (ہم نے سن لی) محذوف ہے اور قِیْلِہٖ میں لام کا زیر زبر کی جگہ ہے اور اس قسم کا تغیر بعض مواقع پر کلام میں روانی اور آہنگ پیدا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے جس کی مثال سورۂ فتح آیت ۱۰ میں عَلَیہٗ اللّٰہَ میں ضمیرہٗ کا پیش ہے۔)

 

۸۸۔۔۔۔۔۔۔ یہ سلام تحیہ کے طور پر نہیں ہے جو مسلمانوں کے باہمی ملاقات کے لیے شعار کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ کٹ حجتی کرنے والوں سے ان پر حجت قائم کرنے کے بعد خوبصورتی کے ساتھ ان سے رخصت ہونے کا سلام ہے۔

 

آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی تمہاری فریاد ہم نے سن لی۔ یہ نہیں مانتے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ ان سے درگزر کرو اور سلام کہہ کر خوبصورتی کے ساتھ ان سے رخصت ہو جاؤ۔

 

۸۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عنقریب وہ اپنا انجام دیکھ لیں گے۔

 

***