خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الزّخرُف

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف ۱)

۱                 سورۂ زخرف مکّیہ ہے، اس سورت میں سات ۷رکوع، نواسی ۸۹ آیتیں اور تین ہزار چارسو ۳۴۰۰ حرف ہیں۔

(۱)  حٰمٓ

(۲)  روشن کتاب کی قسم (ف ۲)

۲                 یعنی قرآنِ پاک کی، جس میں ہدایت و ضلالت کی راہیں جدا جدا اور واضح کر دیں اور امّت کے تمام شرعی ضروریات کو بیان فرما دیا۔

(۳)  ہم نے  اسے  عربی قرآن اتارا کہ تم سمجھو (ف ۳)

۳                 اس کے معانی و احکام کو۔

(۴) اور بیشک وہ اصل کتاب میں (ف ۴) ہمارے  پاس ضرور بلندی و حکمت والا ہے۔

۴                 اصلِ کتاب سے مراد لوحِ محفوظ ہے، قرآنِ کریم اس میں ثبت ہے۔

(۵) تو کیا ہم تم سے  ذکر کا پہلو پھیر دیں اس پر کہ تم لوگ حد سے  بڑھنے  والے  ہو (ف ۵)

۵                 یعنی تمہارے کفر میں حد سے بڑھنے کی وجہ سے کیا ہم تمہیں مہمل چھوڑ دیں اور تمہاری طرف سے وحیِ قرآن کا رخ پھیر دیں اور تمہیں امر و نہی کچھ نہ کریں۔ معنیٰ یہ ہیں کہ ہم ایسا نہ کریں گے۔ حضرت قتادہ نے فرمایا کہ خدا کی قَسم اگر یہ قرآنِ پاک اٹھا لیا جاتا اس وقت جب کہ اس امّت کے پہلے لوگوں نے اس سے اعراض کیا تھا تو وہ سب ہلاک ہو جاتے لیکن اس نے اپنی رحمت و کرم سے اس قرآن کا نزول جاری رکھا۔

(۶) اور ہم نے  کتنے  ہی غیب بتانے  والے  (نبی) اگلوں میں بھیجے۔

(۷) اور ان کے  پاس جو غیب بتانے  والا (نبی)  آیا اس کی ہنسی ہی بنایا کیے  (ف ۶)

۶                 جیسا آپ کی قوم کے لوگ کرتے ہیں،کفّار کا قدیم سے یہ معمول چلا آیا ہے۔

(۸) تو ہم نے  وہ ہلاک کر دیے  جو ان سے  بھی پکڑ میں سخت  تھے  (ف ۷) اور اگلوں کا حال گزر چکا ہے۔

۷                 اور ہر طرح کا زور و قوّت رکھتے تھے، آپ کی امّت کے لوگ جو پہلے کفّار کی چال چلتے ہیں، انہیں ڈرنا چاہئے کہ کہیں ان کا بھی وہی انجام نہ ہو جو ان کا ہوا کہ ذلّت و رسوائی کی عقوبتوں سے ہلاک کئے گئے۔

(۹) اور اگر تم ان سے  پوچھو (ف ۸) کہ آسمان اور زمین کس نے  بنائے  تو ضرور کہیں گے  انہیں بنایا اس عزت والے  علم والے  نے  (ف ۹)

۸                 یعنی مشرکین سے۔

۹                 یعنی اقرار کریں گے کہ آسمان و زمین کو ا ﷲ تعالیٰ نے بنایا اور یہ بھی اقرار کریں گے کہ وہ عزّت و علم والا ہے باوجود اس اقرار کے بعث کا انکار کیسی انتہا درجہ کی جہالت ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے اظہارِ قدرت کے لئے اپنے مصنوعات کا ذکر فرماتا ہے اور اپنے اوصاف و شان کا اظہار کرتا ہے۔

(۱۰) جس نے  تمہارے  لیے   زمین کو بچھونا کیا اور تمہارے  لیے  اس میں راستے  کیے  کہ تم راہ پاؤ (ف ۱۰)

۱۰               سفروں میں اپنے منازل و مقاصد کی طرف۔

(۱۱)  اور وہ جس نے  آسمان سے  پانی اتارا  ایک اندازے  سے  (ف ۱۱) تو ہم نے  اس سے  ایک مردہ شہر زندہ فرما دیا، یونہی تم نکالے  جاؤ گے  (ف ۱۲)

۱۱               تمہاری حاجتوں کی قدر نہ اتنا کم کہ اس سے تمہاری حاجتیں پوری نہ ہوں، نہ اتنا زیادہ کہ قومِ نوح کی طرح تمہیں ہلاک کر دے۔

۱۲               اپنی قبروں سے زندہ کر کے۔

(۱۲) اور جس نے  سب جوڑے  بنائے  (ف ۱۳) اور تمہارے  لیے  کشتیوں اور چوپایوں سے  سواریاں بنائیں۔

۱۳               یعنی تمام اصناف و انواع۔ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرد ہے ضد اور نِد اور زوجیّت سے منزّہ و پاک ہے، اس کے سوا خَلق میں جو ہے زوج ہے۔

(۱۳) کہ تم ان کی پیٹھوں پر ٹھیک بیٹھو (ف ۱۴) پھر اپنے  رب کی نعمت یاد کرو جب اس پر ٹھیک بیٹھ لو اور یوں کہو پاکی ہے  اسے  جس نے  اس سواری کو ہمارے  بس میں کر دیا اور یہ ہمارے  بوتے  (قابو) کی نہ تھی۔

۱۴               خشکی اور تری کے سفر میں۔

(۱۴) اور بیشک ہمیں اپنے  رب کی طرف پلٹنا ہے  (ف ۱۵)

۱۵               آخر کار۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم جب سفر میں تشریف لے جاتے تو اپنے ناقہ پر سوار ہوتے وقت پہلے الحمد ﷲ پڑھتے، پھر سبحان اﷲ اور اﷲ اکبر، یہ سب تین تین بار پھر یہ آیت پڑھتے : سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہ مُقْرِنِیْنَoوَاِنَّآ اِلیٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ، اس کے بعد اور دعائیں پڑھتے اور جب حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کَشتی میں سوار ہوتے تو فرماتے بِسْمِ اللہِ مَجْرٖھَا وَمُرْسٰھَا ط اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْر رَّحِیْم۔

(۱۵)  اور اس کے  لیے  اس کے  بندوں میں سے  ٹکڑا ٹھہرایا (ف ۱۶) بیشک آدمی (ف ۱۷) کھلا ناشکرا ہے  (ف ۱۸)

۱۶               یعنی کفّار نے اس اقرار کے باوجود کہ اﷲ تعالیٰ آسمان و زمین کا خالق ہے یہ ستم کیا کہ ملائکہ کو اﷲ تعالیٰ کی بیٹیاں بتایا اور اولاد صاحبِ اولاد کا جز ہوتی ہے، ظالموں نے اﷲ تبارک و تعالیٰ کے لئے جز قرار دیا،کیسا عظیم جُرم ہے۔

۱۷               جو ایسی باتوں کا قائل ہے۔

۱۸               اس کا کفر ظاہر ہے۔

(۱۶) کیا اس نے  اپنے  لیے  اپنی مخلوق میں سے  بیٹیاں لیں اور  تمہیں بیٹوں کے  ساتھ خاص کیا (ف ۱۹)

۱۹               ادنیٰ اپنے لئے اور اعلیٰ تمہارے لئے،کیسے جاہل ہو،کیا بکتے ہو۔

(۱۷) اور جب ان میں کسی کو خوشخبری دی جائے  اس چیز کی (ف ۲۰) جس کا وصف رحمن کے  لیے  بتا چکا ہے  (ف ۲۱) تو دن بھر اس کا منہ کالا رہے  اور غم کھایا کرے  (ف ۲۲)

۲۰               یعنی بیٹی کی کہ تیرے گھر میں بیٹی پیدا ہوئی ہے۔

۲۱               کہ معاذ اﷲ وہ بیٹی والا ہے۔

۲۲               اور بیٹی کا ہونا اس قدر ناگوار سمجھے باوجود اس کے خدائے پاک کے لئے بیٹیاں بتائے تَعَالیٰ اللہُ عَنْ ذٰلِکَ۔

(۱۸) اور کیا (ف ۲۳) وہ جو گہنے  (زیور) میں پروان چڑھے  (ف ۲۴) اور بحث میں صاف  بات نہ کرے  (ف ۲۵)

۲۳               کافر حضرت رحمٰن کے لئے اولاد کی قِسموں میں سے تجویز کرتے ہیں۔

۲۴               یعنی زیوروں کی زیب و زینت میں نازو نزاکت کے ساتھ پرورش پائے۔ فائدہ : اس سے معلوم ہوا کہ زیور سے تزئین دلیلِ نقصان ہے تو مَردوں کو اس سے اجتناب چاہئے، پرہیزگاری سے اپنی زینت کریں۔ اب آگے آیت میں لڑکی کی ایک اور کمزوری کا اظہار فرمایا جاتا ہے۔

۲۵               یعنی اپنے ضعفِ حال اور قلّتِ عقل کی وجہ سے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ عورت جب گفتگو کرتی ہے اور اپنی تائید میں کوئی دلیل پیش کرنا چاہتی ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے خلاف دلیل پیش کر دیتی ہے۔

(۱۹)  اور انہوں نے  فرشتوں کو، کہ رحمٰن کے  بندے  ہیں عورتیں ٹھہرایا  (ف ۲۶) کیا ان کے  بناتے  وقت یہ حاضر تھے  (ف ۲۷) اب لکھ لی جائے  گی ان کی گواہی (ف ۲۸) اور ان سے  جواب طلب ہو گا (ف ۲۹)

۲۶               حاصل یہ ہے کہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں بتانے میں بے دینوں نے تین کفر کئے، ایک تو اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت، دوسرے اس ذلیل چیز کا اس کی طرف منسوب کرنا جس کو وہ خود بہت ہی حقیر سمجھتے ہیں اور اپنے لئے گوارا نہیں کرتے، تیسرے ملائکہ کی توہین انہیں بیٹیاں بتانا۔ (مدارک ) اب اس کا رد فرمایا جاتا ہے۔

۲۷               فرشتوں کا مذکر یا مؤنث ہونا ایسی چیز تو ہے نہیں جس پر کوئی عقلی دلیل قائم ہو سکے اور ان کے پاس خبر کوئی آئی نہیں تو جو کفّار ان کو مؤنث قرار دیتے ہیں ان کا ذریعۂ علم کیا ہے ؟ کیا ان کی پیدائش کے وقت موجود تھے اور انہوں نے مشاہدہ کر لیا ہے ؟ جب یہ بھی نہیں تو محض جاہلانہ گمراہی کی بات ہے۔

۲۸               یعنی کفّار کا فرشتوں کے مؤنث ہونے پر گواہی دینا لکھ لیا جائے گا۔

۲۹               آخرت میں اور اس پر سزا دی جائے گی۔ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے کفّار سے دریافت فرمایا کہ تم فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کس طرح کہتے ہو ؟ تمہارا ذریعۂ علم کیا ہے ؟ انہوں نے کہا ہم نے اپنے باپ دادا سے سنا ہے اور ہم گواہی دیتے ہیں وہ سچّے تھے۔ اس گواہی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لکھی جائے گی اور اس پر جواب طلب ہو گا۔

(۲۰) اور بولے  اگر رحمٰن چاہتا ہم  انہیں نہ پوجتے  (ف ۳۰) انہیں اس کی حقیقت کچھ معلوم نہیں (ف ۳۱) یونہی اٹکلیں دوڑاتے  ہیں (ف ۳۲)

۳۰               یعنی ملائکہ کو۔ مطلب یہ تھا کہ اگر ملائکہ کی پرستش کرنے سے اﷲ تعالیٰ راضی نہ ہوتا تو ہم پر عذاب نازل کرتا اور جب عذاب نہ آیا تو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ یہی چاہتا ہے، یہ انہوں نے ایسی باطل بات کہی جس سے لازم آئے کہ تمام جُرم جو دنیا میں ہوتے ہیں ان سے خدا راضی ہے، اللہ تعالیٰ ان کی تکذیب فرماتا ہے۔

۳۱               وہ رضائے الٰہی کے جاننے والے ہی نہیں۔

۳۲               جھوٹ بکتے ہیں۔

(۲۱) یا اس سے  قبل ہم نے  انہیں کوئی کتاب دی ہے  جسے  وہ تھامے  ہوئے  ہیں (ف ۳۳)

۳۳               اور اس میں غیرِ خدا کی پرستش کی اجازت ہے ایسا نہیں، یہ باطل ہے اور اس کے سوا بھی ان کے پاس کوئی حجّت نہیں ہے۔

(۲۲) بلکہ بولے  ہم نے  اپنے  باپ دادا کو ایک دین پر  پایا اور  ہم ان کی لکیر پر چل رہے  ہیں (ف ۳۴)

۳۴               آنکھیں میچ کر بے سوچے سمجھے ان کا اتباع کرتے ہیں، وہ مخلوق پرستی کیا کرتے تھے، مطلب یہ ہے کہ اس کی کوئی دلیل بجز اس کے نہیں ہے کہ یہ کام وہ باپ دادا کی پیروی میں کرتے ہیں، اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سے پہلے بھی ایسا ہی کہا کرتے تھے۔

(۲۳) اور ایسے  ہی ہم نے  تم سے  پہلے  جب کسی شہر میں ڈر سنانے  والا بھیجا وہاں کے  آسُودوں (امیروں ) نے  یہی کہا کہ ہم نے  اپنے  باپ دادا کو ایک دین پر  پایا اور ہم ان کی لکیر کے  پیچھے  ہیں (ف ۳۵)

۳۵               اس سے معلوم ہوا کہ باپ دادا کی اندھے بن کر پیروی کرنا کفّار کا قدیمی مرض ہے اور انہیں اتنی تمیز نہیں کہ کسی کی پیروی کرنے کے لئے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ وہ سیدھی راہ پر ہو، چنانچہ۔

(۲۴) نبی نے  فرمایا اور کیا جب بھی کہ میں تمہارے  پاس وہ  (ف ۳۶) لاؤں جو سیدھی راہ ہو اس سے  (ف ۳۷) جس پر تمہارے  باپ دادا تھے  بولے  جو کچھ تم لے  کر بھیجے  گئے  ہم اسے  نہیں مانتے  (ف ۳۸)

۳۶               دِینِ حق۔

۳۷               یعنی اس دِین سے۔

۳۸               اگرچہ تمہارا دِین حق و صواب ہو مگر اپنے باپ دادا کا دِین چھوڑنے والے نہیں چاہے وہ کیسا ہی ہو، اِس  پر اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔

(۲۵)  تو ہم نے  ان سے  بدلہ لیا (ف ۳۹) تو دیکھو جھٹلانے  والوں کا کیسا انجام ہوا۔

۳۹               یعنی رسولوں کے نہ ماننے والوں اور انہیں جھٹلانے والوں سے۔

(۲۶) اور جب ابراہیم نے  اپنے  باپ اور اپنی قوم سے  فرمایا میں بیزار ہوں تمہارے  معبودو ں سے۔

(۲۷) سوا اس کے  جس نے  مجھے  پیدا  کیا  کہ ضرور وہ بہت جلد مجھے  راہ دے  گا۔

(۲۸) اور اسے  (ف ۴۰)  اپنی نسل میں باقی کلام رکھا (ف ۴۱) کہ کہیں وہ باز آئیں (ف ۴۲)

۴۰               یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اس توحیدی کلمہ کو جو فرمایا تھا کہ میں بیزار ہوں ۴۱                   تمہارے معبودوں سے سوائے اس کے جس نے مجھ کو پیدا کیا۔

۴۱               تو آپ کی اولاد میں موحِّد اور توحید کے داعی ہمیشہ رہیں گے۔

۴۲               شرک سے اور یہ دِینِ برحق قبول کریں۔ یہاں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر فرمانے میں تنبیہ ہے کہ اے اہلِ مکّہ اگر تمہیں اپنے باپ دادا کا اتباع کرنا ہی ہے تو تمہارے آباء میں جو سب سے بہتر ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کا اتباع کرو اور شرک چھوڑ دو اور یہ بھی دیکھو کہ انہوں نے اپنے باپ اور قوم کو راہِ راست پر نہیں پایا تو ان سے بیزاری کا اعلان فرما دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو باپ دادا راہِ راست پر ہوں دِینِ حق رکھتے ہوں ان کا اتباع کیا جائے اور جو باطل پر ہوں،گمراہی میں ہوں ان کے طریقہ سے بیزاری کا اعلان کیا جائے۔

(۲۹) بلکہ میں نے  انہیں (ف ۴۳) اور ان کے  باپ دادا کو دنیا کے  فائدے  دیے  (ف ۴۴) یہاں تک کہ ان کے  پاس حق (ف ۴۵) اور صاف بتانے  والا رسول تشریف لایا (ف ۴۶)

۴۳               یعنی کفّارِ مکّہ کو۔

۴۴               دراز عمریں عطا فرمائیں اور انکے کفر کے باعث ان پر عذاب نازل کرنے میں جلدی نہ کی۔

۴۵               یعنی قرآن شریف۔

۴۶               یعنی سیدِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم روشن ترین آیات و معجزات کے ساتھ رونق افروز ہوئے اور آپ نے شرعی احکام واضح طور پر بیان فرمائے اور ہمارے اس انعام کا حق یہ تھا کہ اس رسولِ مکرّم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی اطاعت کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔

(۳۰) اور جب ان کے  پاس حق  آیا بولے  یہ جادو ہے   اور ہم اس کے  منکر ہیں۔

(۳۱) اور بولے  کیوں نہ اتارا گیا یہ قرآن ان دو شہروں (ف ۴۷) کے  کسی بڑے  آدمی پر (ف ۴۸)

۴۷               مکّہ مکرّمہ و طائف۔

۴۸               جو کثیرُ المال، جتھے دار ہو جیسے کہ مکّہ مکرّمہ میں ولید بن مغیرہ اور طائف میں عروہ بن مسعود ثقفی۔ اﷲ تعالیٰ ان کی اس بات کا رد فرماتا ہے۔

(۳۲) کیا تمہارے  رب کی رحمت وہ بانٹتے  ہیں (ف ۴۹) ہم نے  ان میں ان کی زیست کا سامان دنیا کی زندگی میں بانٹا (ف ۵۰) اور ان میں ایک دوسرے  پر درجوں بلندی دی (ف ۵۱) کہ ان میں ایک دوسرے  کی ہنسی بنائے  (ف ۵۲) اور تمہارے  رب کی رحمت (ف ۵۳) ان کی جمع جتھا سے  بہتر (ف ۵۴)

۴۹               یعنی کیا نبوّت کی کنجیاں انکے ہاتھ میں ہیں کہ جس کو چاہیں دے دیں، کس قدر جاہلانہ بات کہتے ہیں۔

۵۰               تو کسی کو غنی کیا، کسی کو فقیر، کسی کو قوی، کسی کو ضعیف۔ مخلوق میں کوئی ہمارے حکم کو بدلنے اور ہماری تقدیر سے باہر نکلنے کی قدرت نہیں رکھتا تو جب دنیا جیسی قلیل چیز میں کسی کو مجالِ اعتراض نہیں تو نبوّت جیسے منصبِ عالی میں کیا کسی کو دم مارنے کا موقع ہے ؟ ہم جسے چاہتے ہیں غنی کرتے ہیں، جسے چاہتے ہیں مخدوم بناتے ہیں، جسے چاہتے ہیں خادم بناتے ہیں، جسے چاہتے ہیں نبی بناتے ہیں، جسے چاہتے ہیں امّتی بناتے ہیں، امیر کیا کوئی اپنی قابلیّت سے ہو جاتا ہے ؟ ہماری عطا ہے جسے جو چاہیں کریں۔

۵۱               قوّت و دولت وغیرہ دنیوی نعمت میں۔

۵۲               یعنی مالدار فقیر کی ہنسی کرے، یہ قرطبی کی تفسیر کے مطابق ہے۔ اور دوسرے مفسّرین نے سُخْرِیًّا ہنسی بنانے کے معنیٰ میں نہیں لیا ہے بلکہ اعمال و اشغال کے مسخّر بنانے کے معنیٰ میں لیا ہے، اس صورت میں معنیٰ یہ ہوں گے کہ ہم نے دولت و مال میں لوگوں کو متفاوت کیا تاکہ ایک دوسرے سے مال کے ذریعہ خدمت لے اور دنیا کا نظام مضبوط ہو، غریب کو ذریعۂ معاش ہاتھ آئے اور مالدار کو کام کرنے والے بہم پہنچیں تو اس پر کون اعتراض کر سکتا ہے کہ فلاں کو کیوں غنی کیا اور فلاں کو فقیر اور جب دنیوی امور میں کوئی شخص دم نہیں مار سکتا تو نبوّت جیسے رتبۂ عالی میں کسی کو کیا تابِ سخن و حقِ اعتراض ؟ اس کی مرضی جس کو چاہے سرفراز فرمائے۔

۵۳               یعنی جنّت۔

۵۴               یعنی اس مال سے بہتر ہے جس کو دنیا میں کفّار جمع کر کے رکھتے ہیں۔

(۳۳) اور اگر یہ نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک دین پر ہو جائیں (ف ۵۵) تو ہم ضرور رحمٰن کے  منکروں کے  لیے   چاندی کی چھتیں اور سیڑھیاں بناتے  جن پر چڑھتے۔

۵۵               یعنی اگر اس کا لحاظ نہ ہوتا کہ کافروں کو فراخیِ عیش میں دیکھ کر سب لوگ کافر ہو جائیں گے۔

(۳۴) اور ان کے  گھروں کے  لیے  چاندی کے  دروازے   اور چاندی کے  تخت جن پر تکیہ لگاتے۔

(۳۵) اور طرح طرح کی آرائش (ف ۵۶) اور یہ جو کچھ ہے  جیتی دنیا ہی کا اسباب ہے، اور آخرت تمہارے  رب کے  پاس پرہیزگاروں کے  لیے  ہے  (ف ۵۷)

۵۶               کیونکہ دنیا اور اس کے سامان کی ہمارے نزدیک کچھ قدر نہیں، وہ سریعۃ الزوال ہے۔

۵۷               جنہیں دنیا کی چاہت نہیں۔ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا مچھّر کے پر کے برابر بھی قدر رکھتی تو کافر کو اس سے ایک پیاس پانی نہ دیتا۔ (قال الترمذی حدیث حسن غریب) دوسری حدیث میں ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نیاز مندوں کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف لے جاتے تھے، راستہ میں ایک مُردہ بکری دیکھی، فرمایا دیکھتے ہو، اس کے مالکوں نے اسے بہت بے قدری سے پھینک دیا، دنیا کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنی بھی قدر نہیں جتنی بکری والوں کے نزدیک اس مری بکری کی ہو۔

( اخرجہ الترمذی و قال حدیث حسن) حدیث : سیدِ عالَم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے پر کرم فرماتا ہے تو اسے دنیا سے ایسا بچاتا ہے جیسا تم اپنے بیمار کو پانی سے بچاؤ۔

(الترمذی و قال حسن غریب) حدیث : دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنّت ہے۔

(۳۶) اور جسے  رند تو  آئے  (شب کوری ہو) رحمن کے  ذکر سے  (ف ۵۸) ہم اس پر ایک شیطان تعینات کریں کہ وہ اس کا ساتھی رہے۔

۵۸               یعنی قرآنِ پاک سے اندھا بن جائے کہ اس کی ہدایتوں کو نہ دیکھے اور ان سے فائدہ نہ اٹھائے۔

(۳۷) اور بیشک وہ شیاطین ان کو (ف ۵۹) راہ سے  روکتے  ہیں اور (ف ۶۰) سمجھتے  یہ ہیں کہ وہ راہ پر ہیں۔

۵۹               یعنی اندھا بننے والوں کو۔

۶۰               وہ اندھا بننے والے باوجود گمراہ ہونے کے۔

(۳۸) یہاں تک کہ جب (ف ۶۱) کافر ہمارے  پاس آئے  گا اپنے  شیطان سے  کہے  گا ہائے  کسی طرح مجھ میں تجھ میں پورب پچھم کا فاصلہ ہوتا تو کیا ہی برا ساتھی ہے۔

۶۱               روزِ قیامت۔

(۳۹) اور ہرگز تمہارا  اس  (ف ۶۲) سے  بھلا نہ ہو گا  آج جبکہ (ف ۶۳) تم نے  ظلم کیا کہ تم سب عذاب میں شریک ہو۔

۶۲               حسرت و ندامت۔

۶۳               ظاہرو ثابت ہو گیا کہ دنیا میں شرک کر کے۔

(۴۰) تو کیا تم بہروں کو سناؤ گے  (ف ۶۴) یا  اندھوں کو راہ دکھاؤ گے  (ف ۶۵) اور انہیں جو کھلی گمراہی میں ہیں (ف ۶۶)

۶۴               جو گوشِ قبول نہیں رکھتے۔

۶۵               جو چشمِ حق بیں سے محروم ہیں۔

۶۶               جن کے نصیب میں ایمان نہیں۔

(۴۱) تو اگر ہم تمہیں لے  جائیں (ف ۶۷) تو ان سے  ہم ضرور بدلہ لیں گے  (ف ۶۸)

۶۷               یعنی انہیں عذاب کرنے سے پہلے تمہیں وفات دیں۔

۶۸               آپ کے بعد۔

(۴۲) یا تمہیں دکھا دیں (ف ۶۹) جس کا انہیں ہم نے  وعدہ دیا ہے  تو ہم ان پر بڑی  قدرت والے  ہیں۔

۶۹               تمہارے حیات میں ان پر اپنا وہ عذاب۔

(۴۳) تو مضبوط تھامے  رہو اسے  جو تمہاری طرف وحی کی گئی (ف ۷۰) بیشک تم سیدھی راہ پر ہو۔

۷۰               ہماری کتاب قرآنِ مجید۔

(۴۴) اور بیشک وہ (ف ۷۱) شرف ہے  تمہارے  لیے  (ف ۷۲) اور تمہاری قوم کے  لیے  (ف ۷۳) اور عنقریب تم سے  پوچھا جائے  گا  (ف ۷۴)

۷۱               قرآن شریف۔

۷۲               کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں نبوّت و حکمت عطا فرمائی۔

۷۳               یعنی امّت کے لئے کہ انہیں اس سے ہدایت فرمائی۔

۷۴               روزِ قیامت کہ تم نے قرآن کا کیا حق ادا کیا ؟ اس کی کیا تعظیم کی ؟ اس نعمت کا کیا شکر بجا لائے ؟

(۴۵) اور ان سے  پوچھو جو ہم نے  تم سے  پہلے  رسول بھیجے  کیا ہم نے  رحمان کے  سوا کچھ اور خدا ٹھہرائے  جن کو پوجا ہو (ف ۷۵)

۷۵               رسولوں سے سوال کرنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ ان کے ادیان و مِلَل کو تلاش کرو،کہیں بھی کسی نبی کی امّت میں بت پرستی روا رکھی گئی ہے اور اکثر مفسّرین نے اس کے معنیٰ یہ بیان کئے ہیں کہ مومنینِ اہلِ کتاب سے دریافت کرو کہ کیا کبھی کسی نبی نے غیرُ اللہ کی عبادت کی اجازت دی تاکہ مشرکین پر ثابت ہو جائے کہ مخلوق پرستی نہ کسی رسول نے بتائی، نہ کسی کتاب میں آئی یہ بھی۔ ایک روایت ہے کہ شبِ معراج سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے بیتُ  المقدِس میں تمام انبیاء کی امامت فرمائی جب حضور نماز سے فارغ ہوئے جبریلِ امین نے عرض کیا کہ اے سرورِ اکرم اپنے سے پہلے انبیاء سے دریافت فرما لیجئے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے سوا کسی اور کی عبادت کی اجازت دی، حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ اس سوال کی کچھ حاجت نہیں یعنی اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ تمام انبیاء توحید کی دعوت دیتے آئے، سب نے مخلوق پرستی کی ممانعت فرمائی۔

(۴۶) اور بیشک ہم نے  موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے  ساتھ فرعون اور اس کے  سرداروں کی طرف بھیجا تو اس نے  فرمایا بیشک میں اس کا رسول ہوں جو سارے  جہاں کا مالک ہے۔

(۴۷) پھر جب وہ ان کے  پاس ہماری نشانیاں لایا (ف ۷۶) جبھی وہ ان پر ہنسنے  لگے  (ف ۷۷)

۷۶               جو موسیٰ علیہ السلام کی رسالت پر دلالت کرتی تھیں۔

۷۷               اور ان کو جادو بتانے لگے۔

(۴۸) اور ہم انہیں جو نشانی دکھاتے  وہ پہلے  سے  بڑی ہوتی (ف ۷۸) اور ہم نے  انہیں مصیبت میں گرفتار کیا کہ وہ بام آئیں (ف ۷۹)

۷۸               یعنی ہر ایک نشانی اپنی خصوصیت میں دوسری سے بڑھی چڑھی تھی، مراد یہ ہے کہ ایک سے ایک اعلیٰ تھی۔

۷۹               کفر سے ایمان کی طرف اور یہ عذاب قحط سالی اور طوفان و ٹڈی وغیرہ سے کئے گئے، یہ سب حضرت موسیٰ عَلیٰ نبیّنا و علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نشانیاں تھیں جو ان کی نبوّت پر دلالت کرتی تھیں اور ان میں ایک سے ایک بلند و بالا تھی۔

(۴۹) اور بولے  (ف ۸۰) کہ اے  جادوگر (ف ۸۱) ہمارے  لیے  اپنے  رب سے  دعا کر کہ اس عہد کے  سبب جو اس کا تیرے  پاس  ہے  (ف ۸۲) بیشک ہم ہدایت پر آئیں گے  (ف ۸۳)

۸۰               عذاب دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے۔

۸۱               یہ کلمہ انکے عرف اور محاورہ میں بہت تعظیم و تکریم کا تھا وہ عالِم و ماہر و  حاذقِ کامل کو جادوگر کہا کرتے تھے اور اس کا سبب یہ تھا کہ ان کی نظر میں جادو کی بہت عظمت تھی اور وہ اس کو صفتِ مدح سمجھتے تھے، اس لئے انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بوقتِ التجا اس کلمہ سے ندا کی، کہا۔

۸۲               وہ عہد یا تو یہ ہے کہ آپ کی دعا مستجاب ہے یا نبوّت یا ایمان لانے والوں اور ہدایت قبول کرنے والوں پر سے عذاب اٹھا لینا۔

۸۳               ایمان لائیں گے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی اور ان پر سے عذاب اٹھا لیا گیا۔

(۵۰) پھر جب ہم نے  ان سے  وہ مصیبت ٹال دی جبھی وہ عہد توڑ گئے  (ف ۸۴)

۸۴               ایمان نہ لائے کفر پر مصِر رہے۔

(۵۱) اور فرعون اپنی قوم میں (ف ۸۵) پکارا  کہ اے  میری قوم! کیا میرے  لیے  مصر کی سلطنت نہیں اور یہ نہریں کہ میرے  نیچے  بہتی ہیں (ف ۸۶) تو کیا تم دیکھتے  نہیں (ف ۸۷)

۸۵               بہت افتخار کے ساتھ۔

۸۶               یہ دریائے نیل سے نکلی ہوئی بڑی بڑی نہریں تھیں جو فرعون کے قصر کے نیچے جاری تھیں۔

۸۷               میری عظمت و قوّت اور شان و سطوت۔ اﷲ تعالیٰ کی عجیب شان ہے، خلیفہ رشید نے جب یہ آیت پڑھی اور حکومتِ مصر پر فرعون کا غرور دیکھا تو کہا کہ میں وہ مصر اپنے ادنیٰ غلام کو دے دوں گا چنانچہ انہوں نے مصر خصیب کو دے دیا جو ان کا غلام تھا اور وضو کرانے کی خدمت پر مامور تھا۔

(۵۲) یا میں بہتر ہوں (ف ۸۸) اس سے  کہ ذلیل ہے  (ف ۸۹)  اور بات  صاف کرتا  معلوم  نہیں  ہوتا  (ف ۹۰)

۸۸               یعنی کیا تمہارے نزدیک ثابت ہو گیا اور تم نے سمجھ لیا کہ میں بہتر ہوں۔

۸۹               یہ اس بے ایمان متکبّر نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان میں کہا۔

۹۰               زبان میں گرہ ہونے کی وجہ سے، جو بچپن میں آگ منہ میں رکھنے سے پڑ گئی تھی اور یہ اس ملعون نے جھوٹ کہا کہ کیونکہ آپ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے زبانِ اقدس کی وہ گرہ زائل کر دی تھی لیکن فرعونی پہلے ہی خیال میں تھے۔ آگے پھر اسی فرعون کا کلام ذکر فرمایا جاتا ہے۔

(۵۳)  تو اس پر کیوں  نہ ڈالے  گئے  سونے  کے  کنگن  (ف ۹۱) یا اس کے  ساتھ فرشتے  آتے  کہ اس کے  پاس رہتے  (ف ۹۲)

۹۱               یعنی اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام سچّے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو واجبُ الاطاعت سردار بنایا ہے تو انہیں سونے کا کنگن کیوں نہیں پہنا یا یہ بات اس نے اپنے زمانہ کے دستور کے مطابق کہی کہ اس زمانہ میں جس کسی کو سردار بنایا جاتا تھا اس کو سونے کے کنگن اور سونے کا طوق پہنایا جاتا تھا۔

۹۲               اور اس کے صدق کی گواہی دیتے۔

(۵۴) پھر اس نے  اپنی قوم کو کم عقل کر لیا (ف ۹۳) تو وہ اس کے  کہنے  پر چلے  (ف ۹۴) بیشک وہ بے  حکم لوگ تھے۔

۹۳               ان جاہلوں کی عقل خبط کر دی انہیں بَہلا پھُسلا لیا۔

۹۴               اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کرنے لگے۔

(۵۵)  پھر جب انہوں نے  وہ کیا جس پر ہمارا غضب ان پر آیا ہم نے  ان سے  بدلہ لیا تو ہم نے  ان سب کو ڈبو دیا۔

(۵۶)  انہیں ہم نے  کر دیا اگلی داستان اور کہاوت پچھلوں کے  لیے  (ف ۹۵)

۹۵               کہ بعد والے ان کے حال سے نصیحت و عبرت حاصل کریں۔

(۵۷)  اور جب ابنِ مریم کی مثال بیان کی جائے، جبھی تمہاری قوم اس سے  ہنسنے  لگتے  ہیں (ف ۹۶)

۹۶               شانِ نزول : جب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے قریش کے سامنے یہ آیت وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ حَصَبُ جَھَنَّمَ پڑھی جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اے مشرکین تم اور جو چیز اللہ کے سوا تم پوجتے ہو سب جہنّم کا ایندھن ہے، یہ سن کر مشرکین کو بہت غصّہ آیا اور ابنِ زبعری کہنے لگا یا محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) کیا یہ خاص ہمارے اور ہمارے معبودوں ہی کے لئے ہے یا ہر امّت و گروہ کے لئے ؟ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ یہ تمہارے اور تمہارے معبودوں کے لئے بھی ہے اور سب امّتوں کے لئے بھی، اس پر اس نے کہا کہ آپ کے نزدیک عیسیٰ بن مریم نبی ہیں اور آپ ان کی اور انکی والدہ کی تعریف کرتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے نصاریٰ ان دونوں کو پوجتے ہیں اور حضرت عزیر اور فرشتے بھی پوجے جاتے ہیں یعنی یہود وغیرہ ان کو پوجتے ہیں تو اگر یہ حضرات (معاذ اﷲ)جہنّم میں ہوں تو ہم راضی ہیں کہ ہم اور ہمارے معبود بھی ان کے ساتھ ہوں اور یہ کہہ کر کفّار خوب ہنسے، اس پر یہ آیت اﷲ تعالیٰ نے نازل فرمائی اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤی اُولٰۤئِکَ عَنْھَا مُبْعَدُوْنَ اور یہ آیت نازل ہوئی وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ الآیۃ جس کا مطلب یہ ہے کہ جب ابنِ زبعری نے اپنے معبودوں کے لئے حضرت عیسیٰ بن مریم کی مثال بیان کی اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے مجادلہ کیا کہ نصاریٰ انہیں پوجتے ہیں تو قریش اس کی اس بات پر ہنسنے لگے۔

(۵۸) اور کہتے  ہیں کیا ہمارے  معبود بہتر ہیں یا  وہ  (ف ۹۷) انہوں نے  تم سے  یہ نہ کہی مگر ناحق جھگڑے  کو (ف ۹۸) بلکہ وہ ہیں جھگڑالو لوگ (ف ۹۹)

۹۷               یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ مطلب یہ تھا کہ آپ کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام بہتر ہیں تو اگر (معاذ اﷲ) وہ جہنّم میں ہوئے تو ہمارے معبود یعنی بت بھی ہوا کریں کچھ پروا نہیں، اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

۹۸               یہ جانتے ہوئے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں باطل ہے اور آیۂ کریمہ اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ سے صرف بت مراد ہیں، حضرت عیسیٰ و حضرت عزیر اور ملائکہ کوئی مراد نہیں لئے جا سکتے، ابنِ زبعری عربی تھا، عربی زبان کا جاننے والا تھا، یہ اس کو خوب معلوم تھا کہ ماتعبدون میں جو ما  ہے اس کے معنیٰ چیز کے ہیں، اس سے غیرِ ذوی العقول مراد ہوتے ہیں لیکن باوجود اس کے اس کا زبانِ عرب کے اصول سے جاہل بن کر حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر اور ملائکہ کو اس میں داخل کرنا کٹھ حجّتی اور جہل پروری ہے۔

۹۹               باطل کے درپے ہونے والے۔ اب حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ارشاد فرمایا جاتا ہے۔

(۵۹) وہ تو نہیں مگر ایک بندہ جس پر ہم نے  احسان فرمایا (ف ۱۰۰) اور اسے  ہم نے  بنی اسرائیل کے  لیے  عجیب نمونہ بنایا (ف ۱۰۱)

۱۰۰             نبوّت عطا فرما کر۔

۱۰۱             اپنی قدرت کا کہ بغیر باپ کے پیدا کیا۔

(۶۰) اور اگر ہم چاہتے  تو (ف ۱۰۲) زمین میں تمہارے  بدلے  فرشتے  بساتے  (ف ۱۰۳)

۱۰۲             اے اہلِ مکّہ ہم تمہیں ہلاک کر دیتے اور۔

۱۰۳             جو ہماری عبادت و اطاعت کرتے۔

(۶۱)  اور بیشک عیسی ٰ قیامت کی خبر ہے  (ف ۱۰۴) تو ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا اور میرے  پیرو ہونا (ف ۱۰۵) یہ سیدھی راہ ہے۔

۱۰۴             یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا علاماتِ قیامت میں سے ہے۔

۱۰۵             یعنی میری ہدایت و شریعت کا اتباع کرنا۔

(۶۲) اور ہرگز شیطان تمہیں نہ روک دے  (ف ۱۰۶) بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

۱۰۶             شریعت کے اتباع یا قیامت کے یقین یا دِینِ الٰہی پر قائم رہنے سے۔

(۶۳)  اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں (ف ۱۰۷) لایا اس نے  فرمایا میں تمہارے  پاس حکمت لے  کر آیا (ف ۱۰۸) اور اس لیے  میں تم سے  بیان کر دوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے  ہو (ف ۱۰۹) تو اللہ سے  ڈرو اور میرا حکم مانو۔

۱۰۷             یعنی معجزات۔

۱۰۸             یعنی نبوّت اور انجیلی احکام۔

۱۰۹             توریت کے احکام میں سے۔

(۶۴)  بیشک اللہ میرا رب اور تمہارا  رب تو اسے  پوجو،  یہ سیدھی راہ ہے  (ف ۱۱۰)

۱۱۰             حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلامِ مبارک تمام ہو چکا، آگے نصرانیوں کے شرکوں کا بیان فرمایا جاتا ہے۔

(۶۵) پھر وہ گروہ آپس میں مختلف ہو گئے  (ف ۱۱۱) تو ظالموں کی خرابی ہے  (ف ۱۱۲) ایک درد  ناک دن کے  عذاب سے  (ف ۱۱۳)

۱۱۱             حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ان میں سے کسی نے کہا کہ عیسیٰ خدا تھے،کسی نے کہا خدا کے بیٹے،کسی نے کہا، تین میں کے تیسرے، غرض نصرانی فرقے فرقے ہو گئے یعقوبی، نسطوری، ملکانی، شمعونی۔

۱۱۲             جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کفر کی باتیں کہیں۔

۱۱۳             یعنی روزِ قیامت کے۔

(۶۶) کاہے  کے  انتظار میں ہیں مگر قیامت کے  کہ ان پر اچانک آ جائے  اور انہیں خبر نہ ہو۔

(۶۷) گہرے  دوست اس دن ایک دوسرے  کے  دشمن ہوں گے  مگر پرہیزگار (ف ۱۱۴)

۱۱۴             یعنی دینی دوستی اور وہ محبّت جو اللہ تعالیٰ کے لئے ہے باقی رہے گی۔ حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے آپ نے فرمایا دو دوست مومن اور دو دوست کافر، مومن دوستوں میں ایک مر جاتا ہے تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتا ہے یارب فلاں مجھے تیری اور تیرے رسول کی فرمانبرداری کا اور نیکی کرنے کا حکم کرتا تھا اور مجھے برائی سے روکتا تھا اور خبر دیتا تھا کہ مجھے تیرے حضور حاضر ہونا ہے، یارب اس کو میرے بعد گمراہ نہ کر اور اس کو ہدایت دے جیسی میری ہدایت فرمائی اور اس کا اکرام کر جیسا میرا اکرام فرمایا، جب اس کا مومن دوست مر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دونوں کو جمع کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم میں ہر ایک دوسرے کی تعریف کرے تو ہر ایک کہتا ہے کہ یہ اچھا بھائی ہے، اچھا دوست ہے، اچھا رفیق ہے۔ اور دو کافر دوستوں میں سے جب ایک مر جاتا ہے تو دعا کرتا ہے، یارب فلاں مجھے تیری اور تیرے رسول کی فرماں برداری سے منع کرتا تھا اور بدی کا حکم دیتا تھا، نیکی سے روکتا تھا اور خبر دیتا تھا کہ مجھے تیرے حضور حاضر ہونا نہیں، تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک دوسرے کی تعریف کرے تو ان میں سے ایک دوسرے کو کہتا ہے بُرا بھائی، بُرا دوست، بُرا رفیق۔

(۶۸)  ان سے  فرمایا جائے  گا اے  میرے  بندو آج نہ تم پر خوف نہ تم کو غم ہو۔

(۶۹) وہ جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے  اور مسلمان تھے۔

(۷۰) داخل ہو جنت میں تم اور تمہاری بیبیاں اور تمہاری خاطریں ہوتیں (ف ۱۱۵)

۱۱۵             یعنی جنّت میں تمہارا اکرام ہو گا، نعمتیں دی جائیں گی، ایسے خوش کئے جاؤ گے کہ تمہارے چہروں پر خوشی کے آثار نمودار ہوں گے۔

(۷۱) ان پر دورہ ہو گا سونے  کے  پیالوں اور جاموں  کا اور اس میں جو جی چاہے  اور جس سے  آنکھ کو لذت پہنچے  (ف ۱۱۶) اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔

۱۱۶             انواع و اقسام کی نعمتیں۔

(۷۲) اور یہ ہے  وہ جنت جس کے  تم وارث کیے  گئے  اپنے  اعمال سے۔

(۷۳) تمہارے  لیے  اس میں بہت میوے  ہیں کہ ان میں سے  کھاؤ (ف ۱۱۷)

۱۱۷             جنّتی درخت ثمر دار، سدا بہار ہیں، ان کی زیب و زینت میں فرق نہیں آتا۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر کوئی ان سے ایک پھل لے گا تو درخت میں اس کی جگہ دو پھل نمودار ہو جائیں گے۔

(۷۴) بیشک مجرم (ف ۱۱۸) جہنم کے  عذاب میں ہمیشہ رہنے  والے  ہیں۔

۱۱۸             یعنی کافر۔

(۷۵) وہ کبھی ان پر سے  ہلکا نہ پڑے  گا اور وہ اس میں بے  آس رہیں گے  (ف ۱۱۹)

۱۱۹             رحمت کی امید بھی نہ ہو گی۔

(۷۶) اور ہم نے  ان پر کچھ ظلم نہ کیا، ہاں وہ خود ہی ظالم تھے  (ف ۱۲۰)

۱۲۰             کہ سرکشی و نافرمانی کر کے اس حال کو پہنچے۔

(۷۷) اور وہ پکاریں گے  (ف ۱۲۱) اے  مالک تیرا رب ہمیں تمام کر چکے  (ف ۱۲۲) وہ فرمائے  گا (ف ۱۲۳) تمہیں تو ٹھہرنا (ف ۱۲۴)

۱۲۱             جہنّم کے داروغہ کو کہ۔

۱۲۲             یعنی موت دے دے، مالک سے درخواست کریں گے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے ان کی موت کی دعا کرے۔

۱۲۳             ہزار برس بعد۔

۱۲۴             عذاب میں ہمیشہ کبھی اس سے رہائی نہ پاؤ گے، نہ موت سے اور نہ کسی طرح۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اہلِ مکّہ سے خطاب فرماتا ہے۔

(۷۸) بیشک ہم تمہارے  پاس حق لائے  (ف ۱۲۵) مگر تم میں اکثر کو حق ناگوار ہے۔

۱۲۵             اپنے رسولوں کی معرفت۔

(۷۹) کیا انہوں نے  (ف ۱۲۶) اپنے  خیال میں کوئی کام پکا کر لیا ہے  (ف ۱۲۷)

۱۲۶             یعنی کفّارِ مکّہ نے۔

۱۲۷             نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ساتھ مَکر کرنے اور فریب سے ایذا پہنچانے کا اور در حقیقت ایسا ہی تھا کہ قریش دارُ النّدوہ میں جمع ہو کر حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی ایذا رسانی کے لئے حیلے سوچتے تھے۔

(۸۰) تو ہم  اپنا کام پکا کرنے  والے  ہیں (ف ۱۲۸) کیا اس گھمنڈ میں ہیں کہ ہم ان کی آہستہ بات اور ان کی مشورت نہیں سنتے، ہاں کیوں نہیں (ف ۱۲۹) اور ہمارے  فرشتے  ان کے  پاس لکھ رہے  ہیں۔

۱۲۸             ان کے اس مَکر و فریب کا بدلہ جس کا انجام ان کی ہلاکت ہے۔

۱۲۹             ہم ضرور سنتے ہیں اور پوشیدہ ظاہر ہر بات جانتے ہیں، ہم سے کچھ نہیں چھُپ سکتا۔

(۸۱) تم فرماؤ بفرض محال رحمٰن کے  کوئی بچہ ہوتا، تو سب سے  پہلے  میں پوجتا (ف ۱۳۰)

۱۳۰             لیکن اس کے بچّہ نہیں اور اس کے لئے اولاد محال ہے یہ نفیِ ولد میں مبالغہ ہے۔ شانِ نزول : نضر بن حارث نے کہا تھا کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی تو نضر کہنے لگا دیکھتے ہو قرآن میں میری تصدیق آ گئی ولید نے کہا کہ تیری تصدیق نہیں ہوئی بلکہ یہ فرمایا گیا کہ رحمٰن کے ولد نہیں ہے اور میں اہلِ مکّہ میں سے پہلا موحِّد ہوں، اس سے ولد کی نفی کرنے والا، اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ کی تنزیہ کا بیان ہے۔

(۸۲) پاکی ہے  آسمانوں اور زمین کے  رب کو، عرش کے  رب کو  ان باتوں سے  جو یہ بناتے  ہیں (ف ۱۳۱)

۱۳۱             اور اس کے لئے اولاد قرار دیتے ہیں۔

(۸۳) تو تم انہیں چھوڑو  کہ بیہودہ باتیں کریں اور کھیلیں (ف ۱۳۲) یہاں تک کہ اپنے  اس دن کو پائیں جس کا ان سے  وعدہ ہے  (ف ۱۳۳)

۱۳۲             یعنی جس لغو و باطل میں ہیں اسی میں پڑے رہیں۔

۱۳۳             جس میں عذاب کئے جائیں گے اور وہ روزِ قیامت ہے۔

(۸۴) اور وہی آسمان والوں کا خدا اور زمین والوں کا خدا  (ف ۱۳۴) اور وہی حکمت  و علم والا ہے۔

۱۳۴             یعنی وہی معبود ہے، آسمان و زمین میں اسی کی عبادت کی جاتی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

(۸۵) اور بڑی برکت والا ہے  وہ کہ اسی کے  لیے  ہے  سلطنت آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان کے  درمیان ہے  اور اسی کے  پاس ہے  قیامت کا علم، اور تمہیں اس کی طرف پھرنا۔

(۸۶) اور جن کو یہ اللہ  کے  سوا پوجتے  ہیں شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے،  ہاں شفاعت کا  اختیار انہیں ہے  جو حق کی گواہی دیں (ف ۱۳۵) اور علم رکھیں (ف ۱۳۶)

۱۳۵             یعنی توحیدِ الٰہی کی۔

۱۳۶             اس کا کہ اللہ ان کا رب ہے، ایسے مقبول بندے ایمان داروں کی شفاعت کریں گے۔

(۸۷) اور اگر تم ان سے  پوچھو (ف ۱۳۷)  انہیں کس نے  پیدا کیا تو ضرور کہیں گے  اللہ نے  (ف ۱۳۸) تو کہاں اوندھے  جاتے  ہیں (ف ۱۳۹)

۱۳۷             یعنی مشرکین سے۔

۱۳۸             اور اللہ تعالیٰ کے خالقِ عالَم ہونے کا اقرار کریں گے۔

۱۳۹             اور باوجود اس اقرار کے اس کی توحید و عبادت سے پھرتے ہیں۔

(۸۸) مجھے  رسول (ف ۱۴۰) کے  اس کہنے  کی قسم (ف ۱۴۱) کہ اے  میرے  رب! یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔

۱۴۰             سیدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔

۱۴۱             اﷲ تبارک و تعالیٰ کا حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے قولِ مبارک کی قَسم فرمانا حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے اکرام اور حضور کی دعا و التجا کے احترام کا اظہار ہے۔

(۸۹)  تو ان سے  درگزر کرو (ف ۱۴۲) اور فرماؤ بس سلام ہے  (ف ۱۴۳) کہ آگے  جان جائیں گے  (ف ۱۴۴)

۱۴۲             اور انہیں چھوڑ دو۔

۱۴۳             یہ سلامِ متارکت ہے۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہم تمہیں چھوڑتے ہیں اور تم سے امن میں رہنا چاہتے ہیں، وَکَانَ ھٰذَا قَبْلُ الْاَمْرِبِالْجِہَادِ۔

۱۴۴             اپنا انجام کار۔