٥۔ (۱) آسمانوں و زمین، انسانی تخلیق، جانوروں کی پیدائش، رات دن کے آنے جانے اور آسمانی بارش کے ذریعے سے مردہ زمین میں زندگی کی لہر کا دوڑ جانا وغیرہ، آفاق و انفس میں بے شمار نشانیاں ہیں جو اللہ کی وحدانیت و ربوبیت پر دال ہیں۔
٥۔ (۲) یعنی کبھی ہوا کا رخ شمال جنوب، کبھی پچھم (مشرق و مغرب) کو ہوتا ہے، کبھی بحری ہوائیں اور کبھی بری ہوائیں، کبھی رات کو، کبھی دن کو، بعض ہوائیں بارش خیز، بعض نتیجہ خیز، بعض ہوائیں روح کی غذا اور بعض سب کچھ جھلسا دینے والی اور محض گردو غبار کا طوفان، ہواؤں کی اتنی قسمیں بھی دلالت کرتے ہیں کہ اس کائنات کا کوئی چلانے والا ہے اور وہ ایک ہی ہے دو یا دو سے زائد نہیں تمام اختیارات کا مالک وہی ایک ہے، ان میں کوئی شریک نہیں سارا اور ہر قسم کا تصرف وہی کرتا ہے کسی اور کے پاس ادنیٰ سا تصرف کرنے کا بھی اختیار نہیں۔
٦۔ یعنی اللہ کا نازل کردہ قرآن، جس میں اس کی توحید کے دلائل و براہین ہیں۔ اگر یہ اس پر بھی ایمان نہیں لاتے تو اللہ کی بات کے بعد کس کی بات ہے اور اس کی نشانیوں کے بعد کون سی نشانیاں ہیں جن پر ایمان لائیں گے۔
٧۔ بہت گنہگار، وَیْل بمعنی ہلاکت یا جہنم کی ایک وادی کا نام۔
٨۔ یعنی کفر پر اڑا رہتا ہے اور حق کے مقابلے میں اپنے کو بڑا سمجھتا ہے اور اسی غرور میں سنی ان سنی کر دیتا ہے۔
٩۔ یعنی اول تو وہ قرآن کو غور سے سنتا ہی نہیں اور اگر کوئی بات اس کے کان میں پڑ جاتی ہے یا کوئی بات اس کے علم میں آ جاتی ہے تو اسے مذاق کا موضوع بنا لیتا ہے۔ اپنی کم عقلی اور نا فہمی کی وجہ سے یا کفر و معصیت پر اصرار و استکبار کی وجہ سے۔
١٠۔ یعنی ایسے کردار کے لوگوں کے لئے قیامت میں جہنم ہے۔
١١،١ یعنی قرآن! کیوں کہ اس کے نزول کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں کو کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لایا جائے۔
١٢۔ یعنی اس کو ایسا بنا دیا کہ تم کشتیوں اور جہازوں کے ذریعے اس پر سفر کر سکو۔
١٣۔ مطیع کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ان کو تمہاری خدمت پر مامور کر دیا ہے، تمہارے منافع اور تمہاری معاش سب انہی سے وابستہ ہے، جیسے چاند، سورج ستارے، بارش، بادل اور ہوائیں وغیرہ ہیں۔ اور اپنی طرف سے کا مطلب، اپنی رحمت اور فضل خاص سے۔
١٥۔ یعنی ہر گروہ اور فرد کا عمل، اچھا یا برا، اس کا فائدہ یا نقصان خود کرنے والے ہی کو پہنچے گا، کسی دوسرے کو نہیں اس میں نیکی کی ترغیب بھی ہے اور بدی سے ترہیب بھی۔
١٦۔ کتاب سے مراد تورات، حکم سے حکومت و بادشاہت یا فہم و قضا کی وہ صلاحیت ہے جو فضل خصوصیات اور لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لئے ضروری ہے۔
١٧۔ (۱) آپس میں ایک دوسرے سے حسد اور بغض و عناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا جاہ و منصب کی خاطر۔ انہوں نے اپنے دین میں، علم آ جانے کے باوجود، اختلاف یا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت سے انکار کیا۔
١٧۔ (۲) یعنی اہل حق کو اچھی جزا اور اہل باطل کو بری جزا دے گا۔
١٨۔ (۱) شریعت کے لغوی معنی ہیں، ملت اور منہاج۔ شاہراہ کو بھی شارع کہا جاتا ہے کہ وہ مقصد اور منزل تک پہنچاتی ہے پس شریعت سے مراد، وہ دین ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا ہے تاکہ لوگ اس پر چل کر اللہ کی رضا کا مقصد حاصل کر لیں۔ آیت کا مطلب ہے ہم نے آپ کو دین کے ایک واضح راستے یا طریقے پر قائم کر دیا ہے جو آپ کو حق تک پہنچا دے گا۔
١٨۔ (۲) جو اللہ کی توحید اور اس کی شریعت سے ناواقف ہیں۔ مراد کفار مکہ اور ان کے ساتھی ہیں۔
٢٠۔ (۱) یعنی ان کے دلائل کا مجموعہ ہے جو احکام دین سے متعلق ہیں اور جن سے انسانی ضروریات و حاجات وابستہ ہیں۔
٢٠۔ (۲) یعنی دنیا میں ہدایت کا راستہ بتلانے والا اور آخرت میں رحمت الٰہی کا موجب ہے۔
٢١۔ یعنی دنیا اور آخرت میں دونوں کے درمیان کوئی فرق نہ کریں۔ اس طرح ہرگز نہیں ہو سکتا یا یہ مطلب ہے کہ جس دنیا میں وہ برابر تھے، آخرت میں بھی برابر رہیں گے کہ مر کر یہ بھی ناپید اور وہ بھی ناپید؟ نہ بدکار کو سزا، نہ ایمان و عمل صالح کرنے والے کو انعام، ایسا نہیں ہو گا اس لئے آگے فرمایا ان کا یہ فیصلہ برا ہے جو وہ کر رہے ہیں۔
٢٣۔(۱) یعنی بلوغ علم اور قیام حجت کے باوجود، وہ گمراہی ہی کا راستہ اختیار کرتا ہے جیسے بہت سے پندار علم میں مبتلا گمراہ۔
٢٣۔ (۲) چنانچہ وہ حق کو دیکھ بھی نہیں پاتا۔
٢٤۔ یہ دہریہ اور ان کے ہم نوا مشرکین مکہ کا قول ہے جو آخرت کے منکر تھے وہ کہتے تھے کہ بس یہ دنیا کی زندگی ہی پہلی اور آخری زندگی ہے، اس کے بعد کوئی زندگی نہیں اور اس میں موت و حیات کا سلسلہ، محض زمانے کی گردش کا نتیجہ ہے، جیسے فلاسفر کا ایک گروہ کہتا ہے چھتیس ہزار سال کے بعد ہر چیز دوبارہ اپنی حالت لوٹ آتی ہے اور یہ سلسلہ، بغیر کسی سانح اور مدبر کے، یوں ہی چل رہا ہے اور چلتا رہے گا نہ اس کی کوئی ابتداء ہے نہ انتہاء۔ یہ گروہ دوریہ کہلاتا ہے (ابن کثیر) ظاہر بات ہے یہ نظریہ، اسے عقل بھی قبول نہیں کرتی اور نقل کے بھی خلاف ہے، حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ' ابن آدم مجھے ایذاء پہنچاتا ہے۔ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے (یعنی اس کی طرف افعال کی نسبت کر کے، اسے برا کہتا ہے، حالانکہ (زمانہ بجائے خود کوئی چیز نہیں ) میں خود زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں تمام اختیارات ہیں، رات دن بھی میں ہی پھیرتا ہوں ' (البخاری)۔
٢٥۔ یہ ان کی سب سے بڑی دلیل ہے جو ان کی کٹ حجتی کا مظہر ہے۔
٢٨۔ ظاہر آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر گروہ ہی (چاہے وہ انبیاء کے پیروکار ہوں یا ان کے مخالفین) خوف اور دہشت کے مارے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوں گے (فتح القدیر) تاآنکہ سب کو حساب کتاب کے لئے بلایا جائے گا، جیسا کہ آیت کے اگلے حصے سے واضح ہے۔
٢٩۔ یعنی ہمارے علم کے علاوہ، فرشتے بھی ہمارے حکم سے تمہاری ہر چیز نوٹ کرتے اور محفوظ رکھتے تھے۔
٣٠۔ یہاں بھی ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ذکر کر کے اس کی اہمیت واضح کر دی اور عمل صالح وہ اعمال خیر ہیں جو سنت کے مطابق ادا کئے جائیں نہ کہ ہر وہ عمل جسے انسان اپنے طور پر اچھا سمجھ لے اور اسے نہایت اہتمام اور ذوق شوق کے ساتھ کرے۔
٣١۔ (۱) یہ بطور توبیخ کے ان سے کہا جائے گا، کیونکہ رسول ان کے پاس آئے تھے، انہوں نے اللہ کے احکام انہیں سنائے تھے، لیکن انہوں نے پروا ہی نہیں کی تھی۔
٣١۔ (۲) یعنی حق کے قبول کرنے سے تم نے تکبر کیا اور ایمان نہیں لائے، بلکہ تم تھے ہی گناہ گار۔
٣٢۔ یعنی قیامت کا وقوع، محض ظن و تخمین ہے، ہمیں تو یقین نہیں کہ یہ واقعی ہو گی۔
٣٣۔ یعنی قیامت کا عذاب، جسے وہ مذاق یعنی انہونا سمجھتے تھے، اس میں وہ گرفتار ہوں گے۔
٣٤۔ جیسے حدیث میں آتا ہے۔ اللہ اپنے بعض بندوں سے کہے گا 'کیا میں نے تجھے بیوی نہیں دی تھی؟ کیا میں نے تیرا اکرام نہیں کیا تھا؟ کیا میں نے گھوڑے اور بیل وغیرہ تیری ماتحتی میں نہیں دیئے تھے ؟ تو سرداری بھی کرتا اور چنگی بھی وصول کرتا رہا۔ وہ کہے گا ہاں یہ تو ٹھیک ہے میرے رب! اللہ تعالیٰ پوچھے گا، کیا تجھے میری ملاقات کا یقین تھا؟ وہ کہے گا، نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا پس آج میں بھی (تجھے جہنم میں ڈال کر) بھول جاؤں گا جیسے تو مجھے بھولے رہا (صحیح مسلم
٣٧۔ جیسے حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلْعَظَمَۃُ اِذَارِیْ وَالْکِبْریاءُ رِدَائیْ فَمَنْ نَازَعَنِیْ وَاحِداً مِنْھُمَا اَسْکَنْتُہُ نَارِیْ(صحیح مسلم)