دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الجَاثیَة

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الر حیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

آیت ۲۸ میں قیامت کے دن ہر گروہ کے جاثیہ یعنی گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہونے کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام "الجاثیہ" ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ سورہ دخان کے بعد قریبی زمانہ میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

توحید اور آخرت کی نشانیوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے انکار کے نتائج سے خبردار کرنا ہے۔

 

نظمِ کلام

 

آیت ۱ تا ۶ میں توحید کی نشانیوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جس کی دعوت قرآن دے رہا ہے۔

 

آیت ۷ تا ۱۵ میں اللہ کی آیتوں کو سننے سے انکار کرنے والوں کو اس کے اخروی انجام سے خبردار کر دیا گیا ہے۔ اور اہل ایمان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان سے درگزر کریں۔

 

آیت ۱۰ تا ۲۰ میں بنی اسرائیل کو تنبیہ کہ انہوں نے دین کی نعمت پانے کے بعد اس میں اختلاف کیا اور یہ ہدایت کہ اب جو شریعت نازل کی جا رہی ہے اس کی پیروی کی جائے۔ آیت ۲۱ تا ۳۵ میں یوم جزا و سزا کے بارے میں بعض اعتراضات کا جواب اور شبہات کا ازالہ۔

 

آیت ۳۶ تا اور ۳۷ سورہ کی اختتامی آیتیں ہیں جن میں اللہ کی حمد بیان ہوئی ہے۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمٰن الر حیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔حا۔ میم ۱*

 

۲۔۔۔۔۔۔۔اس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے۔ ۲* جو زبردست اور حکمت والا ہے۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔آسمانوں اور زمین میں بڑی نشانیاں ہیں ایمان لانے والوں کے لیے۔ ۳*

 

۴۔۔۔۔۔۔۔اور تمہاری خلقت میں اور ان حیوانات میں جو اس نے پھیلا رکھے ہیں نشانیاں ہیں یقین کرنے والوں کے لیے۔ ۴*

 

۵۔۔۔۔۔۔۔اور رات اور دن کی آمد و رفت میں اور اس رزق میں جسے اللہ آسمان سے اتارتا ہے پھر اس سے زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کر دیتا ہے اور ہواؤں کی گردش میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیں۔ ۵*

 

۶۔۔۔۔۔۔۔یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم تمہیں حق کے ساتھ سنا رہے ہیں۔ ۶* اب اللہ اور اس کی آیتوں کے بعد وہ کون سی بات ہے جس پر یہ لوگ ایمان لائیں گے۔ ۷*

 

۷۔۔۔۔۔۔۔تباہی ہے ہر جھوٹے گنہگار شخص کے لیے۔ ۸*

 

۸۔۔۔۔۔۔۔جو الہ کی آیتوں کو جو اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں سنتا ہے پھر تکبر کے ساتھ (اپنے کفر پر) اصرار کرتا ہے گویا اس نے ان کو سنا ہی نہیں تو ایسے شخص کو درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دو۔ ۹*

 

۹۔۔۔۔۔۔۔ہماری آیتوں میں سے کوئی بات اس کے علم میں آتی ہے تو وہ اس کو مذاق بنا لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔ان کے آگے جہنم ہے۔ ۱۰* جو کچھ انہوں نے کمایا ہے ۱۱* وہ ان کے کچھ بھی کام آنے والا نہیں۔ اور نہ وہ ان کے کام آئیں گے جن کو انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر کارساز بنا رکھا ہے۔ ۱۲* ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔یہ سراسر ہدایت ہے۔ ۱۳* اور جن لوگوں نے اپنے رب کی آیتوں کا انکار کیا ان کے لیے شدت کا درد ناک عذاب ہے۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کر دیا۔ ۱۴* تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو۔ ۱۵* اور تاکہ تم اس کے شکر گزار رہو۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔اور اس نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو اپنی طرف سے تمہاری خدمت میں لگا رکھا ہے۔ ۱۶* اس میں یقیناً نشانیاں ہیں۔ ۱۷* ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کریں۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔ایمان لانے والوں سے کہو کہ وہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو الہ کی طرف سے ظاہر ہونے والے عبرتناک دنوں کا اندیشہ نہیں رکھتے تاکہ اللہ ایک گروہ کو اس کی کمائی کا جو وہ کرتی رہی ہے بدلہ دے۔ ۱۸*

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔جو کوئی نیک عمل کرے گا وہ اپنے ہی لیے کرے گا اور جو برائی کرے گا اس کا وبال اسی پر ہو گا۔ ۱۹* پھر تم اپنے رب ہی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ ۲۰*

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی تھی۔ ۲۱* ان کو ہم نے پاکیزہ رزق بخشا تھا۔ ۲۲* اور دنیا والوں پر فضیلت عطا کی تھی۔ ۲۳*

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔انہیں دین کے معاملہ میں واضح احکام ہوئے۔ تو انہوں نے جو اختلاف کیا وہ علم آ جانے کے بعد کیا محض آپس میں ایک دوسرے کے خلاف زیادتی کی بناء پر بے شک تمہارا رب قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ ۲۴*

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔پھر ہم نے تم کو ایک واضح شریعت پر قائم کیا لہٰذا تم اس کی پیروی کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو جو علم نہیں رکھتے۔ ۲۵*

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔یہ لوگ اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ بھی کام آنے والے نہیں ہیں۔ ۲۶* یہ ظالم ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اللہ متقیوں کا رفیق ہے۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔یہ لوگوں کے لیے بصیرت کی باتیں ہیں۔ ۲۷* اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو یقین کریں۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔کیا وہ لوگ جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا ہے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں ان لوگوں کی مانند کر دیں گے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہو جائے ؟ ۲۸* بہت بُرا فیصلہ ہے جو وہ کر رہے ہیں !۲۹ *

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔اللہ نے آسمانوں اور زمین کو (مقصد) حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ ۳۰* اور اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے۔ ۳۱* اور ان کے ساتھ نا انصافی ہرگز نہیں کی جائے گی۔ ۳۲*

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا ہے ؟ ۳۳* اور اللہ نے اسے جانتے ہوئے گمراہ کر دیا۔ ۳۴* اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ ۳۵* اب کون ہے جو اللہ کے بعد اسے ہدایت دے ؟۳۶* پھر کیا تم لوگ ہوش میں نہیں آتے ؟ ۳۷*

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔یہ لوگ کہتے ہیں ہماری زندگی تو بس دنیا کی زندگی ہے۔ یہیں ہمیں مرنا اور جینا ہے اور ہمیں بس زمانہ کی گردش ہلاک کرتی ہے۔ ۳۸* (در حقیقت) ان کو اس بارے میں کوئی علم نہیں۔ یہ محض اٹکل پچو باتیں کرتے ہیں۔ ۳۹*

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔اور جب ان کو ہماری روشن آیتیں سنائی جاتی ہیں تو ان کی حجت بس یہ ہوتی ہے کہ لاؤ ہمارے باپ دادا کو اگر تم سچے ہو۔ ۴۰*

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔ان سے کہو اللہ ہی تمہیں زندگی بخشا ہے پھر تمہیں موت دیتا ہے پھر وہی تم کو قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ ۴۱*

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے اور جس دن قیامت قائم ہو گی اس دن باطل پرست خسارہ میں پڑیں گے۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔اور تم ہر گروہ کو گھٹنوں کے بل گرا ہوا دیکھو گے۔ ۴۲* ہر گروہ کو اس کے نامۂ اعمال کی طرف بلایا جائے گا۔ جو تم کرتے رہے اس کا آج تمہیں بدلہ دیا جائے گا۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔یہ ہمارا دفتر ہے جو تمہارے بارے میں ٹھیک ٹھیک بول رہا ہے۔ ۴۳* جو کچھ تم کرتے تھے ہم اسے لکھواتے جاتے تھے۔ ۴۴*

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔تو جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کو ان کا رب اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ یہ صریح کامیابی ہے۔ ۴۵*

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔اور جن لوگوں نے کفر کیا ان سے کہا جائے گا کیا میری آیتیں تم کو پڑ ھ کر سنائی نہیں جاتی تھیں ؟ مگر تم نے تکبر کیا اور تم مجرم لوگ تھے۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔اور جب کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت کے بارے میں کوئی شک نہیں تو تم کہتے تھے ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہے۔ ہم تو ایک گمان رکھتے ہیں اور ہم اس کا یقین کرنے والے نہیں ہیں۔ ۴۶*

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔اور ان پر ان کے عمل کی برائیاں واضح ہو جائیں گی ۴۷* اور جس چیز کا وہ مذاق اڑاتے رہے ہیں وہ ان کو گھیر لے گی۔ ۴۸*

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔اور ان سے کہا جائے گا آج ہم تمہیں بھلائے دیتے ہیں۔ ۴۹* جس طرح تم نے اپنی پیشی کے اس دن کو بھلا دیا تھا۔ تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہے اور کوئی تمہارا مددگار نہیں ہے۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔یہ اس لیے کہ تم نے اللہ کی آیتوں کو مذاق بنا لیا تھا اور تمہیں دنیا کی زندگی نے دھوکہ میں ڈال دیا تھا۔ ۵۰* تو آج ان کو نہ اس سے نکالا جائے گا اور نہ توبہ کا موقع دیا جائے گا۔ ۵۱*

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔پس حمد اللہ ہی کے لیے ہے۔ ۵۲* جو آسمانوں کا بھی رب ہے اور زمین کا بھی رب، سارے جہاں کا رب۔

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔اور اسی کے لیے ہے بڑائی آسمانوں اور زمین میں اور وہ غالب ہے حکمت والا۔

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ان حروف کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مومن نوٹ ۱۔

 

اس سورہ میں "ح" "م" کا اشارہ اللہ کے حکیم (حکمت والا) ہونے کی طرف ہے جس کا ذکر آیت ۲ میں ہوا ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۲ قرآن بار بار صراحت کرتا ہے کہ یہ کتاب اللہ نے اپنے پیغمبر پر نازل کی ہے تاکہ لوگوں کے لیے شک کی گنجائش باقی نہ رہے اور وہ اس کتاب کے تعلق سے اپنی ذمہ داری محسوس کریں۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو لوگ اللہ کی طرف متوجہ کرنے والی نشانیوں کو دیکھ کر ایمان لانے کے لیے تیار ہوں ان کے لیے آسمان  وزمین میں بڑی بڑی نشانیاں موجود ہیں۔ قرآن ان نشانیوں کو تفصیل سے بیان کرتا ہے تاکہ لوگ غور و فکر کریں۔ آگے کچھ نشانیوں کا ذکر ہوا ہے۔

 

آیت سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ ایمان ایک وجدانی کیفیت ہے جو آسمان و زمین کے مشاہدہ سے انسان کے اندر پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر انسان اپنی فطرت سلیمہ پر قائم ہو تو آسمان و زمین کو دیکھ کر اس کا وجدان خود پکار اٹھے گا کہ یہ ایک خدا کی کاریگری ہے اور وہی معبود برحق ہے۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ان نشانیوں پر غور کرنے سے اللہ کی وہ معرفت حاصل ہوتی ہے جو اس کے الٰہ واحد ہونے کا یقین پیدا کرتی ہے۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان نشانیوں پر غور کرنے سے جہاں ایمان و یقین پیدا ہوتا ہے وہاں ذہن بھی اللہ کی وحدانیت پر مطمئن ہو جاتا ہے۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی یہ آیتیں تمہیں اس طرح سنائی جا رہی ہیں کہ وہ ہر طرح کی آمیزش سے پاک ہیں۔ ان کا ایک ایک لفظ اللہ جل شانہ" کا اپنا کلام ہے اور اس کے ذریعہ حق بالکل واضح ہو کر سامنے آ رہا ہے۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب اللہ کا وجود ایک واضح حقیقت ہے اور اس کی آیتوں نے اس کے وجود اور اس کی وحدانیت کو اور روشن کر دیا ہے تو ان کے ایمان لانے کے لیے مزید کس دلیل کی ضرورت باقی رہ اتی ہے۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا کے بارے میں جو شخص جھوٹ بولتا ہے اس کی زندگی لازماً معصیت کی زندگی ہوتی ہے۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ درد ناک عذاب کوئی خوشخبری نہیں لیکن اس کو خوش خبری سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے تاکہ کافر چونک پڑیں اور ہوش میں آ جائیں۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مستقبل کی زندگی میں ان کو جہنم سے واسطہ ہے۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ کمانے میں مال و دولت بھی شامل ہے اور اعمال بھی۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ خواہ وہ بت ہوں " دیوی دیوتا ہوں " فرشتے ہوں یا بزرگ شخصیتیں جن کی عقیدت میں وہ اس طرح مبتلا ہیں جس طرح اللہ سے عقیدت ہونی چاہیے اور جن سے وہ ایسی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں جو اللہ ہی سے کی جا سکتی ہے۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ قرآن۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ مسخر کر دیا یعنی تمہاری خدمت میں لگا دیا۔ یہ اسی کا بنایا ہوا طبعی قانون ہے کہ سمندر میں کشتیاں اور بڑے بڑے جہاز کھڑے ہوتے ہیں اور ڈوبتے نہیں ورنہ ایک پتھر بھی پھینکا جائے تو ڈوب جاتا ہے۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد تجارتی سفر ہیں جو کسب معاش کا ذریعہ ہیں۔ کسبِ معاش کو اللہ کے فضل سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ یہ اللہ کی ربوبیت (پروردگاری) ہی ہے جو انسان کو سامانِ معیشت عطا کرتی ہے جس پر اس کا شکر لازم ہے۔

 

تجارت اور کاروبار ایک مومن بھی کرتا ہے اور ایک کافر بھی لیکن دونوں کا اندازِ فکر (سوچنے کا طریقہ) بنیادی طور پر مختلف ہوتا ہے۔ ایک مومن سمجھتا ہے میری دوڑ دھوپ اللہ کے فضل کی تلاش میں ہے کہ اس نے اپنے فضل سے جو رزق مہیا کیا ہے اسے میں حاصل کر کے اس کی نعمت کا قدر داں بن جاؤں بخلاف اس کے ایک کافر سمجھتا ہے کہ مجھے اپنا معاش اپنی قابلیت کی بنیاد پر حاصل کرنا ہے۔ پھر جو کچھ حاصل ہوتا ہے اس کو وہ بس اپنی محنت کا نتیجہ سمجھتا ہے۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی سب چیزیں اس کی پیدا کردہ ہیں اور تمہاری خدمت میں بھی اسی نے لگا رکھی ہیں اس کے سوا نہ کوئی کسی چیز کا خالق ہے اور نہ متصرف (کام میں لگانے والا)۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نشانیاں جن کی طرف انسان کو متوجہ کیا گیا ہے خدا کی معرفت (پہچان) عطا کرنے اور اس سے صحیح تعلق پیدا کرنے کا بہترین اور اہم ترین ذریعہ ہیں اور ہر شخص قرآن کی رہنمائی میں ان نشانیوں پر غور کر کے ان نتائج تک پہنچ سکتا ہے جو قرآن اس کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ یہ نشانیاں ہر خاص و عام کی سمجھ میں آنے والی اور دل کو اپیل کرنے والی ہیں۔ ا ن کے مقابلہ میں خدا کے وجود وغیرہ پر جو منطقی دلائل (صغریٰ اور کبریٰ) قائم کر کے پیش کئے جاتے ہیں وہ نہ عام انسان کی سمجھ میں آنے والے ہوتے ہیں اور نہ وہ اس درجہ موثر ہوتے ہیں۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔" ایام اللہ" سے مراد وہ تاریخی دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے مجرم قوموں کو عبرتناک سزائیں دیں۔ ایسی سزائیں آئندہ بھی ان لوگوں کو مل سکتی ہیں جو مجرم قوموں کے نقش قدم پر چلیں۔ مگر جو لوگ اپنی مجرمانہ حرکتوں کے باوجود اس قسم کا کوئی اندیشہ محسوس نہیں کرتے اور اہلِ ایمان کو اذیت پہنچاتے رہتے ہیں ان کی اذیتوں سے درگزر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ خود ان کو ان کے کئے کی سزا دے۔

 

ایک طرف قرآن کی یہ ہدایت ہے اور دوسری طرف موجودہ مسلمانوں کا یہ طرزِ عمل ہے کہ وہ کافروں کی ہر اذیت پر جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہوتے ہیں اور احتجاج کی تحریک چلانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

 

واضح رہے کہ درگزر کی اس ہدایت پر عمل کرنے کا بھی ایک موقع و محل ہے اور کافروں سے جنگ کرنے کا بھی ایک موقع و محل ہے۔ دونوں میں کوئی تضاد نہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ اس آیت کو ان آیتوں سے جن میں قتال کا حکم دیا گیا ہے منسوخ مانا جائے۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ حٰم السجدہ نوٹ ۷۱۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جہاں سے تمہارا آغاز ہوا تھا وہیں تمہارا مرجع بھی ہو گا۔ تمہاری پیدائش کی ابتداء تمہارے رب کی طرف سے ہوئی تھی لہٰذا تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ نہ کسی اور نے ہمیں پیدا کیا ہے اور نہ کسی اور کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل کو تورات" زبور اور انجیل جیسی کتابیں عطا کی گئیں۔ ساتھ ہی حکمت (حکم) یعنی کتاب الٰہی کا فہم بخشا گیا تاکہ وہ عملی زندگی میں اس سے رہنمائی حاصل کریں اور ان میں انبیاء کا سلسلہ چلایا۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی پاکیزہ اور حلال رزق کے دروازے ان پر کھول دئے تھے۔ مصر میں تو انہیں مظلومانہ زندگی بسر کرنا پڑی تھی لیکن اس ماحول سے نکلنے کے بعد جو آزاد فضا ان کو میسر آئی اور پھر فلسطین میں انہیں اقتدار حاصل ہوا تو حرام سے ملوث ہونے کے لیے انہیں کوئی مجبوری نہیں رہی۔ شرعی حدود میں رہ کر پاکیزہ رزق کا حصول ان کے لیے آسان ہو گیا تھا۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دوسری قوموں کے مقابلہ میں اس قوم کو دین حق کی طرف دعوت دینے اور دنیا والوں کی رہنمائی کے لیے منتخب کیا گیا۔ یہ بہت بڑا اعزاز تھا جو بنی اسرائیل کو بخشا گیا اور اس مقصد کے لیے بیت المقدس کو دعوت اسلامی کا مرکز بنایا گیا۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ آل عمران نوٹ ۲۷، ۲۸۔

 

اور سورۂ حٰم السجدہ نوٹ ۶۸ اور سورۂ یونس نوٹ ۱۴۴۔

 

بنی اسرائیل کے جس اختلاف کا ذکر قرآن کرتا ہے وہ قرآن کے پیروؤں کے لیے درس عبرت ہے مگر اس کے باوجود مسلمانوں نے بنی اسرائیل کی سی روش اختیار کی۔ ان کے سامنے قرآن کے واضح احکام اور اس کے رسول کی سنتِ ثابتہ موجود ہے پھر بھی وہ گروہوں اور فرقوں میں بٹ گئے ہیں اور ایک دوسرے کی مخالفت میں دین کی من مانی تاویلیں کر رہے ہیں۔ تقلید اور عقیدت کے بندھنوں سے آزاد اور گروہی تعصبات سے پاک ہو کر قرآن و سنت کا مطالعہ کرنے والے اور اس کی روشنی میں چلنے والے مسلمان بہ مشکل نظر آتے ہیں ورنہ مسلمانوں کی سوسائٹی میں بہ کثرت بدعتیں رائج ہو گئی ہیں اور وہ بری طرح خواہش پرستی میں مبتلا ہیں۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو شریعت اب قرآن کے ذریعہ تمہیں دی جا رہی ہے اس کی پیروی کرو اور اس کو چھوڑ کر اہل کتاب کے طور طریقوں کی پیروی نہ کرو جو انہوں نے اپنی خواہش سے رائج کر رکھے ہیں اور جو دین میں بدعت کی حیثیت رکھتے ہیں۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ انتباہ ہے کہ اگر تم نے قرآن کی شریعت کو چھوڑ کر اہل کتاب کی من گھڑت باتوں کی پیروی کی تو قیامت کے دن وہ تمہیں اللہ کی پکڑ سے بچا نہ سکیں گے۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ بصیرت کی باتیں ہیں یعنی علم کی روشنی میں لانے والی باتیں ہیں۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ ص نوٹ ۳۹۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ بڑی نا معقول اور غیر منصفانہ بات ہے کہ بدکاروں کو نیکو کاروں کی سطح پر رکھا جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ جو رویہ بھی آدمی اختیار کرے اللہ کی نظریں یکساں ہے۔ وہ نہ تو برائی اور ظلم کرنے والوں کا کوئی نوٹس لیتا ہے اور نہ نیکی اور بھلائی کرنے والوں سے خوش ہوتا اور انہیں ان کی اچھی جزا دیتا ہے۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ ا س کی تشریح سورۂ دخان نوٹ ۴۲ میں گزر چکی۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ مقصدِ حق جس کے لیے کائنات کو پیدا کیا گیا ہے اگر جزا و سزا کا معاملہ پیش آنے والا نہ ہوتا تو پھر اس کائنات کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا۔ جو لوگ جزا و سزا کا انکار کرتے ہیں وہ اس کائنات کی کوئی غرض و غایت متعین نہیں کر پاتے۔ اور یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ انسان اپنی اور کائنات کی تخلیق ہی کے بارے میں اندھیرے میں رہے اور اس طرح زندگی گزارے کہ اسے کچھ خبر نہیں کہ آگے کیا پیش آنے والا ہے اور اس کے لیے کیا تیاری کرنا ہے۔ اس شخص کی نا کامیابی میں کیا بہ رہ جاتا ہے جو امتحان گاہ کو تفریح گاہ سمجھتا ہے ؟

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ کافروں کو جو سخت اور ہمیشگی کی سزا دی جائے گی وہ بالکل منصفانہ ہو گی۔ اس کو ظلم سے وہی لوگ تعبیر کرتے ہیں جو اس میزان عدل سے نا آشنا ہیں جو اس کائنات میں قائم کر دی گئی ہے۔

 

وَ السَّمَاءرَفَعَہَا وَوَضَعَ اَلْمِیزَانَ (الرحمن:۷) " آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کی۔ "

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ فرقان نوٹ ۵۷

 

علم و عقل اور وحی الٰہی کی روشنی کو چھوڑ کر اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنا گویا ان کی پرستش کرنا ہے اس لیے ان کو معبود بنانے سے تعبیر کیا گیا ہے ورنہ اپنی خواہش کی پوجا کوئی نہیں کرتا۔ علامہ آلوسی نے آیت کی تفسیر اس طرح کی ہے :

 

" یہ اظہار تعجب ہے اس شخص کے حال پر جو ہدایت کی پیروی کرنے کے بجائے اپنی خواہشات کا تابع بن کر رہ جاتا ہے گویا وہ ان کی پرستش کر رہا ہے۔ تو یہ کلام بلیغ تشبیہ یا استعارہ کے طور پر ہے :" (روح المعانی جزء ۲۵ ص ۱۵۲)

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ نے اسے خواہ مخواہ گمراہ نہیں کیا بلکہ اس کی حالت کو جانتے ہوئے گمراہ کیا کہ وہ ہدایت کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔ اس کے دل کا یہ حال اللہ کو معلوم تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۱۵۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو شخص اللہ کے قانون ضلالت کی گرفت میں آگیا اس کو نہ کوئی شخص سمجھا سکتا ہے اور نہ ہدایت دے سکتا ہے۔

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ قرآن سننے والوں کو تنبیہ ہے کہ تم ہوش سے کام لو اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے خواہش پرستی کی راہ اختیار کی۔

 

۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ آیت میں لفظ " دہر" استعمال ہوا ہے جس کے معنی زمانہ کے ہیں اور مراد اس سے گردش ایام ہے۔ مشرکینِ مکہ خدا کے منکر نہیں تھے بلکہ اس کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے دوسری ہستیوں کو نفع و نقصان پہنچانے والا سمجھتے تھے اور ان ہی میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو موت کا فاعل اللہ کو نہیں بلکہ گردش ایام کو قرار دیتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ موت نہ خدائی منصوبہ کا جزء ہے اور نہ اس کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے اس لیے وہ اپنی ہلاکت کو زمانہ کی گردش پر محمول کرتے تھے کہ وقت آتا ہے اور آدمی مر جاتا ہے جس طرح آدمی وقت کے ساتھ جوان اور بوڑھا ہوتا ہے۔ اسی بناء پر وہ کسی آفت کے نازل ہونے پر یا کسی تکلیف کے پہنچ جانے پر زمانہ کو بُرا بھلا کہتے تھے جس کی ممانعت حدیث میں وارد ہوئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: قَالَ اللّٰہُ یَسُبُّ الدَّہِرُ بِیَدِی الّیْلُ وَالنَّہارُ (صحیح البخاری کتاب الادب) " اللہ فرماتا ہے آدم کی اولاد زمانہ کو بُرا بھلا کہتی ہے حالانکہ زمانہ مَیں ہوں " رات اور دن میرے قبضہ میں ہیں۔ "

 

"زمانہ مَیں ہوں " کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ زمانہ کی شکل میں مادی وجود رکھتا ہے۔ اللہ اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی مادی وجود ہو۔ مادی وجود رکھنے والی سب چیزیں مخلوق ہیں جب کہ اللہ ان سب کا خالق ہے اس لیے زمانہ بھی مخلوق ہے نہ کہ خالق۔ اس حدیث قدسی میں جو بات ارشاد ہوئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو جب تکلیف پہنچتی ہے تو وہ گردش ایام کی طرف اسے منسوب کر کے زمانہ کو برا بھلا کہنے لگتا ہے لیکن در حقیقت زمانہ کا الٹ پھیر کرنے والا اللہ ہے اس لیے جو تکلیف بھی پہنچتی ہے وہ تقدیر الٰہی کے تحت پہنچتی ہے۔ اس پر زمانہ کو مطعون کرنا در حقیقت خدا کو مطعون کرنا ہے کیونکہ زمانہ اپنی طرف سے کوئی مصیبت نہیں لاتا۔

 

واضح رہے کہ " دہریہ" رائج الوقت اصطلاح میں ا س شخص کو کہا جاتا ہے جو خدا کا بالکل منکر ہو اور گردش زمانہ ہی کو مسبب الاسباب (عالمِ اسباب پر کار فرما) سمجھتا ہو۔ مگر آیت میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ مشرکین کے بارے میں ہے گو منکرین خدا پر بھی چسپاں ہو جاتی ہے۔

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ان کی یہ بات کسی علمی دلیل پر مبنی نہیں ہے بلکہ محض اٹکل سے وہ ایسی باتیں کرتے ہیں ورنہ انہیں کیسے معلوم ہو گیا کہ مرنے کے بعد نہ روح کے ساتھ کوئی معاملہ پیش آتا ہے اور نہ دوبارہ زندہ ہونا ہے۔

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔  ان کی یہ حجت واقعی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ وہ اسے اپنے طور پر دلیل سمجھ کر پیش کرتے ہیں اور وہ یہ کہ اگر مردے زندہ کئے جانے والے ہیں تو ہم مارے باپ داد کو زندہ کر کے ہمارے سامنے کیوں نہیں لاتے۔ ان کا یہ مطالبہ بالکل بے جا تھا کیونکہ قرآن دوسری زندگی کی جو خبر دے رہا ہے وہ قیامت کے دن وقوع میں آنے والی بات ہے نہ کہ دنیا میں وقوع میں آنے والی۔ اگر دنیا میں وقوع میں آتی تو ایمان لانے کا سوال ہی کیا باقی رہتا اور امتحان کا کیا موقع رہتا۔

 

۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ ان کے اعتراض کا مثبت انداز میں جواب ہے کہ زمانہ کی گردش سے نہ کسی کو زندگی ملتی ہے اور نہ موت آتی ہے بلکہ اللہ کے زندگی بخشنے سے زندگی ملتی ہے اور اس کے موت دینے سے آدمی مرتا ہے اور دوسری زندگی کے لیے اس نے قیامت کا دن مقرر کر رکھا ہے مگر لوگوں کی بڑی تعداد اتنی بری حقیقت سے بے خبر ہے۔

 

۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قیامت کے دن الہ کے حضور ہر انسانی گروہ کی پیشی اس طرح ہو گی کہ وہ گھٹنوں کے بل گرا ہوا ہو گا۔ گھٹنوں کے بل گرنا خضوع کا اظہار ہے۔ برے بڑے متکبرین بھی اس روز گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور ہوں گے۔ اور اجتماعی طور پر وہ قومیں بھی جو فخر سے اپنا سر اونچا کرتی رہی ہیں میدانِ حشر میں انتہائی خضوع کی حالت میں پیش ہوں گی۔

 

اس آیت میں محشر کی جو جھلک دکھائی گئی ہے وہ غرورِ نفس کو توڑنے اور قوموں کی خود سری کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے بشرطیکہ وہ کھلے ذہن سے اس کا مطالعہ کریں۔

 

۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ دفتر گویا اعمال کا ٹیپ ریکارڈ ہو گا اور ہر شخص اپنا ریکارڈ سن لے گا۔ قرآن کا یہ بیان کہ اعمال کا دفتر ناطق (بولنے والا) ہو گا انسان کے لیے تعجب کی بات نہیں رہی جبکہ وہ ٹیپ ریکارڈ ایجاد کر چکا ہے۔ نئے انکشافات اور ایجادات کے ساتھ قرآن کی صداقت اور زیادہ روشن ہوتی جا رہی ہے۔

 

۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ہمارے فرشتے اسے ضبط تحریر میں لاتے ہیں۔

 

۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔  آدمی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اللہ کی رحمت میں داخل ہو جائے اس سے زیادہ نمایاں کامیابی کیا ہو سکتی ہے ؟

 

۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔  لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو قیامت کے بالکل منکر ہیں اور ایسے بھی جن کو قیامت کے بارے میں شک ہے اور وہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ قیامت لازماً  آئے گی۔ یہ دونوں ہی قسم کے لوگ کافر اور مجرم ہیں کیونکہ دونوں آخرت کو نظر انداز کر کے زندگی گزارتے ہیں اس لیے دونوں کا انجام بھی یکساں ہے۔

 

۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اس روز اپنے اعمال کے نتائج کو دیکھ کر انہیں احساس ہو جائے گا کہ انہوں نے آخرت کا انکار کر کے کتنے غلط اور کیسے برے کام کئے۔

 

۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جہنم کا عذاب جس کا وہ دنیا میں مذاق اڑاتے رہے۔

 

۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی تم کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ تم رحم کے مستحق نہیں ہو۔

 

۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔  دنیا کی رونق کو دیکھ کر انسان اس پر ایسا فریفتہ ہو جاتا ہے کہ اس کے بعد کی زندگی کے بارے میں کچھ سوچنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ اسے بس یہی فکر رہتی ہے کہ دنیا کے فائدے زیادہ سے زیادہ حاصل کروں۔ رہی آخرت تو اگر وہ برپا ہو ہی گئی تو دیکھا جائے گا۔ یہ بہت بڑا دھوکہ ہے مگر آج بھی اکثر لوگ اس دھوکہ میں مبتلا نہیں۔ اور وہ قرآن ہی ہے جو انہیں اس دھوکہ سے نکالنا چاہتا ہے۔ کاش وہ قرآن کا سنجیدگی سے مطالعہ کرتے !

 

۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔  کیونکہ توبہ کی جگہ دنیا ہے نہ کہ آخرت۔ دنیا کے امتحان میں فیل (ناکام) ہو جانے کے بعد دوبارہ امتحان دینے کا کوئی موقع نہیں۔

 

۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ سورہ کی آخری آیتیں ہیں جو اللہ کی حمد و ثنا پر ختم ہو رہی ہیں اور اس بات کا احساس دلا رہی ہیں کہ اس سورہ میں جو حکیمانہ باتیں ارشاد ہوئی ہیں اس پر اللہ تعریف اور شکر کا مستحق ہے۔

 

٭٭٭٭٭