تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الجَاثیَة

۳۔۔۔   یعنی آدمی ماننا چاہے تو اسی آسمان و زمین کی پیدائش اور ان کے محکم نظام میں غور کر کے مان سکتا ہے ہے کہ ضرور کوئی ان کا پیدا کرنے والا اور تھامنے والا ہے۔ جس نے کمال حکمت و خوبی سے ان کو بنایا اور لامحدود قدرت سے ان کی حفاطت کی۔ "البعرۃ تدل علی البعیرد الاقدام تدل علی المسیر فکیف لا یدل ہذا النظام العجیب الغریب علی الصانع اللطیف الخبیر۔

۴۔۔۔    یعنی انسان خود اپنی بناوٹ اور دوسرے حیوانات کی ساخت میں غور کرے۔ تو درجہ عفان و ایقان تک پہنچانے والی ہزارہا نشانیاں اس کو ملیں گی۔

۵۔۔۔    ۱: یعنی پانی آسمان کی طرف سے اتارا جو مادہ ہے روزی کا۔

۲: یعنی ذرا بھی سمجھ سے کام لیں تو معلوم ہو جائے کہ یہ امور بجز اس زبردست قادر حکیم کے اور کسی کے بس میں نہیں۔ جیسا کہ پہلے متعدد مواضع میں اس کی تقریر گزر چکی۔

۶۔۔۔    یعنی اللہ کو چھوڑ کر دوسرا کون ہے اور اس کی باتیں چھوڑ کر کس کی بات ماننے کے قابل ہے۔ جب اس بڑے مالک کی ایسی سچی اور صاف باتیں بھی کوئی بدبخت قبول نہ کرے تو آخر کس چیز کا منتظر ہے جسے قبول کرے گا۔

۸۔۔۔   یعنی ضد اور غرور کی وجہ سے اللہ کی بات نہیں سنتا۔ اس کی شیخی اجازت نہیں دیتی کہ اپنی جہالت سے ہٹے۔ حق کو سن کر اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا سنا ہی نہیں۔

۹۔۔۔   یعنی جس طرح وہ آیات اللہ کے ساتھ اہانت و استخاف کا معاملہ کرتا ہے، سزا بھی سخت اہانت و ذلت کی ملے گی۔ جو آگے آ رہی ہے۔

۱۰۔۔۔     یعنی اموال و اولاد وغیرہ کوئی چیز اس وقت کام نہ آئے گی۔ نہ وہ کام آئیں گے جن کو اللہ کے سوا معبود یا رفیق و مددگار بنا رکھا تھا اور جن سے بہت کچھ اعانت و امداد کی توقعات تھیں۔

۱۱۔۔۔     یعنی یہ قرآن عظیم الشان ہدایت ہے جو سب طرح کی برائی بھلائی انسان کو سمجھانے کے لیے آتی ہے جو اس کو نہ مانیں وہ سخت غلیظ اور دردناک عذاب بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔

۱۲۔۔۔   ۱: یعنی سمندر جیسی مخلوق کو ایسا مسخر کر دیا کہ تم بے تکلف اپنی کشتیاں اور جہاز اس میں لیے پھرتے ہو۔ میلوں کی گہرائیوں کو پایاب کر رکھا ہے۔

۲: یعنی بحری تجارت کرو، یا شکار کھیلو، یا اس کی تہ میں سے موتی نکالو۔ اور یہ سب منافعے و فوائد حاصل کرتے وقت منعم حقیقی کو نہ بھولو۔ اس کا حق پہچانو، زبان و دول اور قلب و قالب سے شکر ادا کرو۔

۱۳۔۔۔    ۱: یعنی اپنے حکم اور قدرت سے سب کو تمہارے کام میں لگا دیا۔ یہ اسی کی مہربانی ہے کہ ایسی ایسی عظیم الشان مخلوقات انسان کی خدمت گزاری میں لگی ہوئی ہیں۔

۲: آدمی دھیان کرے تو سمجھ سکتا ہے کہ یہ چیز اس کے بس کی نہ تھی محض اللہ کے فضل اور اس کی قدرت کاملہ سے یہ اشیاء ہمارے کام میں لگی ہوئی ہیں۔ تو لامحالہ ہم کو بھی کسی کے کام میں لگنا چاہیے وہ کام یہ ہی ہے کہ اس منعم حقیقی اور محسن علی الاطلاق کی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری میں اپنی حیاتِ مستعار کے لمحات صرف کر دیں تاکہ آئندہ چل کر ہمارا انجام درست ہو۔

۱۴۔۔۔   ۱: "ایام اللہ" (اللہ کے دنوں) سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ اپنے دشمنوں کو کوئی خاص سزا دے، یا اپنے فرمانبرداروں کو کسی خصوصی انعام و اکرام سے سرفراز فرمائے۔ لہٰذا "للذین لا یرجون ایام اللہ" سے وہ کفار مراد ہوئے جو اس کی رحمت سے نا امید اور اس کے عذاب سے بے فکر ہیں۔

۲: یعنی مسلمان آپ سے بدلہ لینے کی فکر نہ کریں۔ اللہ پر چھوڑ دیں، وہ ان کی شرارتوں پر کافی سزا، اور مومنین کے صبر و تحمل اور عفو و درگزر کا مناسب صلہ دے گا۔

۱۵۔۔۔   ۱: یعنی بھلے کام کا فائدہ کام کرنے والے کو پہنچتا ہے۔ اللہ کو اس کی کیا ضرورت؟ اور بدی کرنے والا خود اپنے حق میں برا بیج بو رہا ہے۔ ایک کی برائی دوسرے پر نہیں پڑتی۔ غرض ہر شخص اپنے نفع نقصان کی فکر کر لے۔ اور جو عمل کرے یہ سمجھ کر کرے کہ اس کا سود و زیاں اسی کی ذات کو پہنچے گا۔

۲: یعنی وہاں پہنچ کر سب برائی بھلائی سامنے آ جائے گی۔ اور ہر ایک اپنی کرتوت کا پھل چکھے گا۔

۱۶۔۔۔     ۱: یعنی تورات دی اور سلطنت یا قوتِ فیصلہ یا دانائی کی باتیں یا دین کی سمجھ عطا کی، اور کس قدر کثرت سے پیغمبر ان میں سے اٹھائے یہ تو روحانی غذا ہوئی، جسمانی غذا دیکھو تو وہ بھی بہت افراط سے دی گئی حتی کہ من و سلوی اتارا گیا۔

۲: یعنی اس زمانہ میں سارے جہان پر ان کو فضیلت کلی حاصل تھی اور بعض فضائل جزئیہ کے اعتبار سے تو "اس زمانہ" کی قید لگانے کی بھی ضرورت نہیں۔

۱۷۔۔۔   ۱: یعنی نہایت واضح اور مفصل احکام، کھلے کھلے معجزات جو دین کے باب میں بطور حجت و برہان کے پیش کیے جاتے ہیں۔

۲: یعنی آپس کی ضد اور نفسانیت سے اصل کتاب کو چھوڑ کر بیشمار فرقے بن گئے۔ جن کا عملی فیصلہ قیامت کے دن کیا جائے گا اس وقت پتہ لگے کہ ان کا منشاء نفس پروری اور ہوا پرستی کے سوا کچھ نہ تھا۔

۱۸۔۔۔   یعنی ان اختلافات اور فرقہ وارانہ کشمکش کی موجودگی میں ہم نے آپ کو دین کے صحیح راستہ پر قائم کر دیا تو آپ کو اور آپ کی امت کو چاہیے کہ اس راستہ پر برابر مستقیم رہے۔ کبھی بھول کر بھی جاہلوں اور نادانوں کی خواہشات پر نہ چلے۔ مثلاً ان کی خواہش یہ ہے کہ آپ ان کے طعن و تشنیع اور ظلم و تعدی سے تنگ آ کر دعوت و تبلیغ ترک کر دیں، یا مسلمانوں میں بھی ویسا ہی اختلاف و تفریق پڑ جائے جس میں وہ لوگ خود مبتلا ہیں۔ اندریں صورت واجب ہے کہ ان کی خواہشات کو بالکل پامال کر دیا جائے۔

۱۹۔۔۔    ۱: یعنی ان کی طرف جھکنا تم کو خدا کے ہاں کچھ کام نہ دے گا۔

۲: یعنی منصف اور راستی پسند مسلمان، ظالم اور بے راہ و کافروں کے رفیق نہیں ہو سکتے۔ وہ تو اللہ کے مطیع بندے ہیں اور اللہ ہی ان کا رفیق و مددگار ہے۔ لازم ہے کہ اسی کی راہ چلیں اور اسی پر بھروسہ رکھیں۔

۲۰۔۔۔      یعنی قرآن بڑی بڑی بصیرت افروز حقائق پر مشتمل ہے۔ لوگوں کو کام کی باتیں اور کامیابی کی راہ سجھاتا ہے۔ اور جو خوش قسمت اس کی ہدایات و نصائح پر یقین کر کے عمل پیرا ہوتے ہیں ان حق میں میں خصوصی طور پر قرآن و رحمت و برکت ہے۔

۲۱۔۔۔    یعنی اللہ تعالیٰ کی شؤن حکمت پر نظر کرتے ہوئے کیا کوئی عقلمند یہ گمان کر سکتا ہے کہ ایک بدمعاش آدمی، اور ایک مرد صالح کے ساتھ خداوند تعالیٰ یکساں معاملہ کرے گا۔ اور دونوں کا انجام برابر کرے گا؟ ہرگز نہیں۔ نہ ان زندگی میں دونوں برابر ہو سکتے ہیں نہ مرنے کے بعد جو حیاتِ طیبہ مومن صالح کو یہاں نصیب ہوتی ہے اور جس نصرت اور علو و رفعت کے وعدے دنیا میں اس سے کیے گئے وہ ایک کافر بدکار کو کہاں میسر ہیں۔ اس کے لیے دنیا میں معیشت ضنک اور آخرت میں لعنت و خسران کے سوا کچھ نہیں۔ الغرض یہ دعویٰ بالکل غلط اور یہ خیال بالکل مہمل ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکوں اور بدوں کا مرنا اور جینا برابر کرے گا۔ اس کی حکمت اس کو مقتضی نہیں۔ بلکہ ضروری ہے کہ دونوں کے اعمال کا ٹھیک ٹھیک نتیجہ ظاہر ہو کر رہے۔ اور ہر ایک کی نیک یا بدی کے آثار فی الجملہ یہاں بھی مشاہد ہوں اور ان کا پوری طرح مکمل معائنہ موت کے بعد ہو۔

۲۲۔۔۔   یعنی زمین و آسمان کو یوں ہی بیکار پیدا نہیں کیا۔ بلکہ نہایت حکمت سے کسی خاص مقصد کے لیے بنایا ہے تاکہ ان کے احوال میں غور کر کے لوگ معلوم کر سکیں کہ بیشک جو چیز بنائی گئی ٹھیک موقع سے بنائی اور تاکہ اندازہ کر لیا جائے کہ ضرور ایک دن اس کارخانہ ہستی کا کوئی عظیم الشان نتیجہ نکلنے والا ہے۔ اسی کو آخرت کہتے ہیں۔ جہاں ہر ایک کو اس کی کمائی کا پھل ملے گا اور جو بویا تھا وہ بھی کاٹنا پڑے گا

گندم از گندم بروید جوز جواز مکافاتِ عمل غافل مشو۔

۲۳۔۔۔    ۱: یعنی اللہ جانتا تھا کہ اس کی استعداد خراب ہے اور اسی قابل ہے کہ سیدھی راہ سے ادھر ادھر بھٹکتا پھرے۔ یا یہ مطلب ہے کہ وہ بدبخت علم رکھنے کے باوجود اور سمجھنے بوجنے کے بعد گمراہ ہوا۔

۲:  جو شخص محض خواہش نفس کو اپنا حاکم اور معبود ٹھہرالے، جدھر اس کی خواہش لے چلے ادھر چل پڑے اور حق و ناحق کے جانچنے کا معیار اس کے پاس یہ ہی خواہش نفس رہ جائے، اللہ تعالیٰ بھی اسے اس کی اختیار کردہ گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے۔ پھر اس کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ نہ کان نصیحت کی بات سنتے ہیں، نہ دل سچی بات کو سمجھتا ہے، نہ آنکھ سے بصیرت کی روشنی نظر آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ جس کو اس کے کرتوت کی بدولت ایسی حالت پر پہنچا دے، کون سی طاقت ہے جو اس کے بعد اس راہ پر لے آئے۔

۲۴۔۔۔   ۱: یعنی اس دنیا کی زندگی کے سوا کوئی دوسری زندگی نہیں۔ بس یہ ہی ایک جہان ہے جس میں ہمارا مرنا اور جینا ہے۔ جیسے بارش ہونے پر سبزہ زمین سے اگا، خشکی ہوئی تو سوکھ کر ختم ہو گیا۔ یہ ہی حال آدمی کا سمجھو، ایک وقت آتا ہے پیدا ہوتا ہے۔ پھر معین وقت تک زندہ رہتا ہے۔ آخر زمانہ کا چکر اسے ختم کر دیتا ہے۔ یہ ہی سلسلہ موت و حیات کا دنیا میں چلتا رہتا ہے۔ آگے کچھ نہیں۔

۲: یعنی زمانہ نام ہے دہر کا۔ وہ کچھ کام کرنے والا نہیں۔ کیونکہ ان میں حس نہ شعور نہ ارادہ، لامحالہ وہ کسی اور چیز کو کہتے ہوں گے جو معلوم نہیں ہوتی لیکن دنیا میں اس کا تصرف چلتا ہے۔ پھر اللہ ہی کو کیوں نہ کہیں جس کا وجود اور متصرف علی الاطلاق ہونا دلائل فطریہ اور براہین عقلیہ و نقلیہ سے ثابت ہو چکا ہے۔ اور زمانہ کا الٹ پھیر اور رات دن کا ادل بدل کرنا اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اسی معنی سے حدیث میں بتلایا گیا کہ دہر اللہ ہے اس کو برا نہ کہنا چاہیے۔ کیونکہ جب آدمی دہر کو برا کہتا ہے اسی نیت سے کہتا ہے کہ حوادثِ دہر اس کی طرف منسوب ہیں حالانکہ تمام حوادثِ دہر اللہ کے ارادے اور مشیت سے ہیں تو دہر کی برائی کرنے سے حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی جناب میں گستاخی ہوتی ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔

۲۵۔۔۔     یعنی جب قرآن کی آیات با بعث بعدالموت کے دلائل اس کو سنائی جاتے ہیں تو کہتا ہے کہ میں کسی دلیل کو نہیں مانوں گا۔ بس اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو ہمارے مرے ہوئے باپ دادوں کو زندہ کر کے دکھلا دو۔ تب ہم تسلیم کریں گے کہ بیشک موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونا حق ہے۔

۲۶۔۔۔   یعنی جس نے ایک مرتبہ زندہ کیا پھر مارا، اسے کیا مشکل ہے کہ دوبارہ زندہ کر کے سب کو ایک جگہ اکٹھا کر دے۔

۲۷۔۔۔     اس دن ذلیل و خوار ہو کر پتہ لگے گا کہ کس دھوکہ میں پڑے ہوئے تھے۔

۲۸۔۔۔   ۱: یعنی خوف و ہیبت سے۔

۲: یعنی اعمال نامہ کی طرف بلایا جائے گا کہ آؤ اس کے موافق حساب دو۔ آج ہر ایک کو اسی کا بدلہ ملے گا۔ جو اس نے دنیا میں کمایا تھا۔

۲۹۔۔۔   ۱: یعنی جو کام کیے تھے یہ اعمالنامہ ٹھیک ٹھیک وہ ہی بتلاتا ہے۔ ذرہ بھر کمی بیشی نہیں۔

۲: یعنی ہمارے علم میں تو ہر چیز ازل سے ہے۔ مگر ضابطہ میں ہمارے فرشتے لکھنے پر مامور تھے ان کی لکھی ہوئی مکمل رپورٹ آج تمہارے سامنے ہے۔

۳۰۔۔۔   یعنی جنت میں جہاں اعلیٰ درجہ کی رحمت اور ہر قسم کی مہربانیاں ہوں گی۔

۳۱۔۔۔   یعنی ہماری طرف سے نصیحت و فہمائش اور تمام حجت کا کوئی دقیقہ اٹھا کر نہ رکھا گیا۔ اس پر بھی تمہارے غرور کی گردن نیچی نہ ہوئی۔ آخرت کے پکے مجرم بن کر رہے۔ یا "وکنتم قوماً مجرمین۔" کا مطلب یہ لیا جائے کہ تم پہلے ہی سے جرائم پیشہ تھے۔

۳۲۔۔۔     یعنی ہم نہیں جانتے قیامت کیسی ہوتی ہے۔ تم جو کچھ قیامت کے عجیب و غریب احوال بیان کرتے ہو ہم کو کسی طرح ان کا یقین نہیں ہوتا۔ یوں سنی سنائی باتوں سے کچھ ضعیف سا امکان اور دھندلا سا خیال کبھی آ جائے وہ دوسری بات ہے۔

۳۳۔۔۔     یعنی جب قیامت آئے گی ان کی تمام بدکاریاں اور ان کے نتائج سامنے آ جائیں گے اور عذاب وغیرہ کی دھمکیوں کا جو مذاق اڑایا کرتے تھے وہ خود ان پر ہی الٹ پڑے گا۔

۳۴۔۔۔   یعنی دنیا میں تم نے آج کے دن کو یاد نہ رکھا تھا۔ آج ہم تم کو مہربانی سے یاد نہ کریں گے۔ ہمیشہ کے لیے اسی طرح عذاب میں پڑا چھوڑ دیں گے۔ جیسے تم نے اپنے کو دنیا کے مزوں میں پھنسا کر چھوڑ دیا تھا۔

۳۵۔۔۔     ۱: یعنی دنیا کے مزوں میں پڑ کر خیال ہی نہ کیا کہ یہاں سے کبھی جانا اور خدا کے سامنے پیش ہونا بھی ہے اور اگر کبھی کچھ خیال آیا بھی تو یوں سمجھ کر دل کی تسلی کر لی کہ جس طرح دنیا میں ہم مسلمانوں سے مقابل ہیں، وہاں بھی ہمارا یہ ہی زور رہے گا۔

          ۲: یعنی نہ ان کو دوزخ سے نکالا جائے گا نہ موقع دیا جائے گا کہ وہ اب خدا کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔

۳۷۔۔۔    چاہیے آدمی اسی کی طرف متوجہ ہو۔ اس کے احسانات و انعامات کی قدر کرے۔ اسی کی ہدایت پر چلے، سب کو چھوڑ کر اسی کی خوشنودی حاصل کرنے کی فکر رکھے۔ اور اس کی بزرگی و عظمت کے سامنے ہمیشہ باختیار خود مطیع و منقاد رہے۔ کبھی سرکشی و تمرد کا خیال دل میں نہ لائے۔ حدیث قدسی میں ہے "الکبریاء ردائی واعظمۃ ازاری فمن نازعنی واحدًا منہما قذفتہ فی النار" (کبریائی میری چادر اور عظمت میرا تہ بند ہے۔ لہٰذا جو کوئی ان دونوں میں سے کسی میں مجھ سے منازعت اور کشمکش کرے گا، میں اسے اٹھا کر آگ میں پھینک دوں گا) اللہم اجعلنا مطیعین لامرک وجنبنا غضبک وقناعذاب النار۔ انک سمیع قریب مجیب الدعوات۔    ثم سورۃ الجاثیۃ یعونہ وصونہ فللہ والمنتہ وبہ التوفیق والعمصمۃ۔