خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الجَاثیَة

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 یہ سورۂ جاثیہ ہے، اس کا نام سورۂ شریعہ بھی ہے، یہ سورت مکّیہ ہے سوائے آیت قُلْ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَغْفِرُوْا کے، اس سورت میں چار ۴رکوع، سینتیس آیتیں، چار سو اٹھاسی ۴۸۸کلمے، دو ہزار ایک سو اکیانوے ۲۱۹۱ حرف ہیں۔

(۱) حٰمٓ

(۲)  کتاب کا اتارنا ہے  اللہ عزت و حکمت والے  کی طرف سے۔

(۳) بیشک آسمانوں اور زمین میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے  لیے  (ف ۲)

۲                 اﷲ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیّت پر دلالت کرنے والی۔

(۴)  اور تمہاری پیدائش میں (ف ۳) اور جو جو جانور وہ پھیلاتا ہے  ان میں نشانیاں ہیں یقین والوں کے  لیے۔

۳                 یعنی تمہاری پیدائش میں بھی اس کی قدرت و حکمت کی نشانیاں ہیں کہ نطفہ کو خون بناتا ہے، خون کو بستہ کرتا ہے، خونِ بستہ کو گوشت پارہ یہاں تک کہ پورا انسان بنادیتا ہے۔

(۵) اور رات اور دن کی تبدیلیوں میں (ف ۴) اور اس میں کہ اللہ نے  آسمان سے  روزی کا سبب مینہ اتارا تو اس سے  زمین کو اس کے  مَرے  پیچھے  زندہ کیا اور ہواؤں کی گردش میں (ف ۵) نشانیاں ہیں عقل مندوں کے  لیے۔

۴                 کہ کبھی گھٹتے ہیں،کبھی بڑھتے ہیں اور ایک جاتا ہے، دوسرا آتا ہے۔

۵                 کہ کبھی گرم چلتی، کبھی سرد، کبھی جنوبی، کبھی شمالی، کبھی شرقی، کبھی غربی۔

(۶) یہ اللہ کی آیتیں ہیں کہ ہم تم پر حق کے  ساتھ پڑھتے  ہیں، پھر اللہ اور اس کی  آیتوں کو چھوڑ کر کونسی بات پر ایمان لائیں گے۔

(۷) خرابی ہے  ہر بڑے  بہتان ہائے  گنہگار کے  لیے  (ف ۶)

۶                 یعنی نضر بن حارث کے لئے۔

 شانِ نزول :کہا گیا ہے کہ یہ آیت نضر بن حارث کے حق میں نازل ہوئی جو عجم کے قصّے کہانیاں سنا کر لوگوں کو قرآنِ پاک سننے سے روکتا تھا اور یہ آیت ہر ایسے شخص کے لئے عام ہے جو دِین کو ضرر پہنچائے اور ایمان لانے اور قرآن سننے سے تکبر کرے۔

(۸) اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے  کہ اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر ہٹ پر جمتا ہے  (ف ۷) غرور کرتا (ف ۸) گویا انہیں سنا ہی نہیں تو اسے  خوشخبری سناؤ درد ناک عذاب کی۔

۷                 یعنی اپنے کفر پر۔

۸                 ایمان لانے سے۔

(۹) اور جب ہماری آیتوں میں سے  کسی پر اطلاع پائے  اس کی ہنسی بناتا ہے  ان کے  لیے  خواری کا عذاب۔

(۱۰) ان کے  پیچھے  جہنم ہے  (ف ۹) اور انہیں کچھ کام نہ دے  گا ان کا کمایا  ہوا  (ف ۱۰)  اور  نہ وہ جو اللہ کے  سوا حمایتی ٹھہرا رکھے  تھے  (ف ۱۱) اور ان کے  لیے  بڑا عذاب ہے۔

۹                 یعنی بعدِ موت ان کا انجام کار اور مآل دوزخ ہے۔

۱۰               مال جس پر وہ بہت نازاں ہیں۔

۱۱               یعنی بت جن کو پوجا کرتے تھے۔

(۱۱) یہ (ف ۱۲) راہ دکھانا ہے  اور جنہوں نے  اپنے  رب کی آیتوں کو نہ مانا  ان کے  لیے  دردناک عذاب میں سے  سخت تر عذاب ہے۔

۱۲               قرآن شریف۔

(۱۲) اللہ ہے  جس نے  تمہارے  بس میں دریا کر دیا کہ اس میں اس کے  حکم سے  کشتیاں چلیں اور اس لیے  کہ اس کا فضل تلاش کرو (ف ۱۳) اور اس لیے  کہ حق مانو (ف ۱۴)

۱۳               بحری سفروں سے اور تجارتوں سے اور غوّاصی کرنے اور موتی وغیرہ نکالنے سے۔

۱۴               اس کے نعمت و کرم اور فضل و احسان کا۔

(۱۳)  اور تمہارے  لیے  کام میں لگائے  جو کچھ آسمان میں ہیں (ف ۱۵) اور جو کچھ زمین میں (ف ۱۶) اپنے  حکم سے   بے   شک  اس  میں  نشا نیاں ہیں  سوچنے  والوں  کے   لئے ۔

۱۵               سورج، چاند، ستارے وغیرہ۔

۱۶               چوپائے، درخت، نہریں وغیرہ۔

(۱۴)  ایمان  وا لوں  سے  فرماؤ  درگزریں ان سے  جو اللہ کے  دنوں کی امید نہیں رکھتے  (ف ۱۷) تاکہ اللہ ایک قوم کو اس کی کمائی کا بدلہ دے  (ف ۱۸)

۱۷               جو دن کہ اس نے مومنین کی مدد کے لئے مقرر فرمائے، یا اللہ تعالیٰ کے دنوں سے وہ وقائع مراد ہیں جن میں وہ اپنے دشمنوں کو گرفتار کرتا ہے۔ بہرحال ان امید نہ رکھنے والوں سے مراد کفّار ہیں اور معنیٰ یہ ہیں کہ کفّار سے جو ایذا پہنچے اور ان کے کلمات جو تکلیف پہنچائیں، مسلمان ان سے در گزر کریں، منازعت نہ کریں وَقِیْلَ اِنَّ الایَٰۃَ مَنْسُوْخۃبِآیَۃِ الْقِتَالِ۔

شانِ نزول : اس آیت کی شانِ نزول میں کئی قول ہیں ایک یہ کہ غزوہ بنی مصطلق میں مسلمان بیرِ مُریسیع پر اترے یہ ایک کنواں تھا عبداللہ بن اُ بَیْ منافق نے اپنے غلام کو پانی کے لئے بھیجا وہ دیر میں آیا تو اس سے سبب دریافت کیا اس نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کنوئیں کے کنارے پر بیٹھے تھے جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشکیں نہ بھر گئیں اس وقت تک انہوں نے کسی کو پانی بھرنے نہ دیا یہ سن کر اس بدبخت نے ان حضرات کی شان میں گستاخانہ کلمے کہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ تلوار لے کر تیار ہوئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اس تقدیر پر آیت مدنی ہو گی۔ مقاتل کا قول ہے کہ قبیلہ بنی غفّار کے ایک شخص نے مکّہ مکرّمہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گالی دی تو آپ نے اس کو پکڑنے کا ارادہ کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

اور ایک قول یہ ہے کہ جب آیت مَنْ ذَالَّذِیْ یُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا نازل ہوئی تو فِنْحَاص یہودی نے کہا کہ محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) کا رب محتاج ہو گیا (معاذ اﷲ تعالیٰ) اس کو سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تلوار کھینچی اور اس کی تلاش میں نکلے حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے آدمی بھیج کر انہیں واپس بلوالیا۔

۱۸               یعنی ان کے اعمال کا۔

(۱۵) جو بھلا کام کرے  تو اپنے  لیے  اور برا کرے  تو اپنے  برے  کو (ف ۱۹) پھر اپنے  رب کی طرف پھیرے  جاؤ گے  (ف ۲۰)

۱۹               نیکی اور بدی کا ثواب اور عذاب اس کے کرنے والے پر ہے۔

۲۰               وہ نیکوں اور بدوں کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔

(۱۶) اور بیشک ہم نے  بنی اسرائیل کو کتاب  (ف ۲۱) اور حکومت اور نبوت عطا فرمائی (ف ۲۲) اور ہم نے  انہیں ستھری روزیاں دیں (ف ۲۳) اور انہیں ان کے  زمانے  والوں پر فضیلت بخشی۔

۲۱               یعنی توریت۔

۲۲               ان میں بکثرت انبیاء پیدا کر کے۔

۲۳               حلال کشائش کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے اموال و دیار کا مالک کر کے اور مَنْ و سَلْویٰ نازل فرما کر۔

(۱۷) اور ہم نے  انہیں اس کام کی (ف ۲۴) روشن دلیلیں دیں تو انہوں نے  اختلاف نہ کیا (ف ۲۵) مگر بعد اس کے  کہ علم ان کے  پاس آ چکا (ف ۲۶) آپس  کے  حسد سے  (ف ۲۷) بیشک تمہارا رب قیامت کے  دن ان میں فیصلہ کر دے  گا جس بات میں اختلاف کرتے  یں۔

۲۴               یعنی امرِ دِین اور بیانِ حلال و حرام اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے معبوث ہونے کی۔

۲۵               حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی بعثت میں۔

۲۶               اور علم زوالِ اختلاف کا سبب ہوتا ہے اور یہاں ان لوگوں کے لئے اختلاف کا سبب ہوا، اس کا باعث یہ ہے کہ علم ان کا مقصود نہ تھا بلکہ مقصود ان کا جاہ و ریاست کی طلب تھی، اسی لئے انہوں نے اختلاف کیا۔

۲۷               کہ انہوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی جلوہ افروزی کے بعد اپنے جاہ و ریاست کے اندیشہ سے آپ کے ساتھ حسد اور دشمنی کی اور کافر ہو گئے۔

(۱۸) پھر ہم نے  اس کام کے  (ف ۲۸) عمدہ راستہ پر تمہیں کیا (ف ۲۹) تو اسی راہ پر چلو اور نادانوں کی خواہشوں کا ساتھ نہ دو (ف ۳۰)

۲۸               یعنی دِین کے۔

۲۹               اے حبیبِ خدا محمّد صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔

۳۰               یعنی رؤسائے قریش کی جو اپنے دِین کی دعوت دیتے ہیں۔

(۱۹)  بیشک وہ اللہ کے  مقابل تمہیں کچھ کام نہ دیں گے،  اور بیشک ظالم ایک دوسرے  کے  دوست ہیں (ف ۳۱) اور ڈر والوں کا دوست اللہ (ف ۳۲)

۳۱               صرف دنیا میں، آخرت میں ان کا کوئی دوست نہیں۔

۳۲               دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، ڈر والوں سے مراد مومنین ہیں اور آگے قرآنِ پاک کی نسبت ارشاد ہوتا ہے۔

(۲۰) یہ لوگوں کی آنکھیں کھولنا ہے  (ف ۳۳) اور ایمان والوں کے  لیے  ہدایت و رحمت۔

۳۳               کہ اس سے انہیں امورِ دِین میں بینائی حاصل ہوتی ہے۔

(۲۱) کیا جنہوں نے  برائیوں کا ارتکاب کیا (ف ۳۴) یہ سمجھتے  ہیں کہ ہم انہیں ان جیسا کر دیں گے  جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے   کہ ان کی ان کی زندگی اور موت برابر ہو جائے  (ف ۳۵) کیا ہی برا حکم لگاتے  ہیں۔

۳۴               کفر و معاصی کا۔

۳۵               یعنی ایمانداروں اور کافروں کی موت و حیات برابر ہو جائے ایسا ہر گز نہیں ہو گا کیونکہ ایماندار زندگی میں طاعت پر قائم رہے اور کافر بدیوں میں ڈوبے رہے تو ان دونوں کی زندگی برابر نہ ہوئی، ایسے ہی موت بھی یکساں نہیں کہ مومن کی موت بشارت و رحمت و کرامت پر ہوتی ہے اور کافر کی رحمت سے مایوسی اور ندامت پر۔ شانِ نزول : مشرکینِ مکّہ کی ایک جماعت نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ اگر تمہاری بات حق ہو اور مرنے کے بعد اٹھنا ہو تو بھی ہمیں ہی افضل رہیں گے جیسا کہ دنیا میں ہم تم سے بہتر رہے، ان کی رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔

(۲۲) اور اللہ نے  آسمان اور (ف ۳۶) زمین کو حق کے  ساتھ بنایا (ف ۳۷) اور اس لیے  کہ ہر جان اپنے  کیے  کا بدلہ پائے  (ف ۳۸) اور ان پر ظلم نہ ہو گا۔

۳۶               مخالف سرکش مخلص فرمانبردار کے برابر کیسے ہو سکتا ہے ؟ مومنین جَنّاتِ عالیات میں عزّت و کرامت اور عیش و راحت پائیں گے اور کفّار اسفلُ السافلین میں ذلّت و اہانت کے ساتھ سخت ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔

۳۷               کہ اس کی قدرت و وحدانیّت کی دلیل ہو۔

۳۸               نیک نیکی کا اور بد بدی کا، اس آیت سے معلوم ہوا کہ اس عالَم کی پیدائش سے اظہارِ عدل و رحمت مقصود ہے اور یہ پوری طرح قیامت ہی میں ہو سکتا ہے کہ اہلِ حق اور اہلِ باطل میں امتیاز کامل ہو، مومن مخلص درجاتِ جنّت میں ہوں اور کافر نافرمان درکاتِ جہنّم میں۔

(۲۳) بھلا دیکھو تو وہ جس نے  اپنی خواہش کو اپنا خدا ٹھہرا لیا (ف ۳۹)  اور اللہ نے  اسے  با  وصف علم کے  گمراہ کیا (ف ۴۰) اور اس کے  کان اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر  پردہ ڈالا (ف ۴۱) تو اللہ کے  بعد اسے  کون راہ دکھائے، تو کیا تم دھیان نہیں کرتے۔

۳۹               اور اپنی خواہش کا تابع ہو گیا، جسے نفس نے چاہا پوجنے لگا، مشرکین کا یہی حال تھا کہ وہ پتّھر اور سونے اور چاندی وغیرہ کو پوجتے تھے، جب کوئی چیز انہیں پہلی چیز سے اچھی معلوم ہوتی تھی تو پہلی کو توڑ دیتے پھینک دیتے، دوسروں کو پوجنے لگتے۔

۴۰               کہ اس گمراہ نے حق کو جان پہچان کر بے راہی اختیار کی۔ مفسّرین نے اس کے یہ معنیٰ بھی بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے انجام کار اور اس کے شقی ہونے کو جانتے ہوئے اسے گمراہ کیا یعنی اللہ تعالیٰ پہلے سے جانتا تھا کہ یہ اپنے اختیار سے راہِ حق سے منحرف ہو گا اور گمراہی اختیار کرے گا۔

۴۱               تو اس نے ہدایت و موعظت کو نہ سنا اور نہ سمجھا اور راہِ حق کو نہ دیکھا۔

(۲۴) اور بولے  (ف ۴۲) وہ تو نہیں مگر یہی ہماری دنیا کی زندگی (ف ۴۳) مرتے  ہیں اور جیتے  ہیں (ف ۴۴)  اور ہمیں ہلاک نہیں کرتا مگر زمانہ (ف ۴۵) اور انہیں اس کا علم نہیں (ف ۴۶) وہ تو نرے  گمان دوڑاتے  ہیں (ف ۴۷)

۴۲               منکِرینِ بعث۔

۴۳               یعنی اس زندگی کے علاوہ اور کوئی زندگی نہیں۔

۴۴               یعنی بعضے مرتے ہیں اور بعضے پیدا ہوتے ہیں۔

۴۵               یعنی روز و شب کا دورہ وہ اسی کو مؤثر اعتقاد کرتے تھے اور مَلَک الموت کا اور بحکمِ الٰہی روحیں قبض کئے جانے کا انکار کرتے تھے اور ہر ایک حادثہ کو دہر اور زمانہ کی طرف منسوب کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

۴۶               یعنی وہ یہ بات بے علمی سے کہتے ہیں۔

۴۷               خلافِ واقع۔

مسئلہ : حوادث کو زمانہ کی طرف نسبت کرنا اور ناگوار حوادث رونما ہونے سے زمانہ کو بُرا کہنا ممنوع ہے، احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔

(۲۵) اور جب ان پر ہماری روشن آیتیں پڑھی جائیں (ف ۴۸) تو بس ان کی حجت یہی ہوتی ہے  کہ کہتے  ہیں کہ ہمارے  باپ دادا کو لے  آؤ (ف ۴۹) اگر تم سچے  ہو (ف ۵۰)

۴۸               یعنی قرآنِ پاک کی آیتیں جن میں اللہ تعالیٰ کے بعث بعد الموت پر قادر ہونے کی دلیلیں مذکور ہیں، جب کفّار ان کے جواب سے عاجز ہوتے ہیں۔

۴۹               زندہ کر کے۔

۵۰               اس بات میں کہ مردے زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔

(۲۶) تم فرماؤ اللہ تمہیں جِلاتا ہے  (ف ۵۱) پھر تم کو مارے  گا (ف ۵۲) پھر تم سب کو اکٹھا کریگا  (ف ۵۳) قیامت کے  دن جس میں کوئی شک نہیں لیکن بہت آدمی نہیں جانتے  (ف ۵۴)

۵۱               دنیا میں بعد اس کے کہ تم بے جان نطفہ تھے۔

۵۲               تمہاری عمریں پوری ہونے کے وقت۔

۵۳               زندہ کر کے تو جو پروردگار ایسی قدرت والا ہے وہ تمہارے باپ دادا کے زندہ کرنے پر بھی بالیقین قادر ہے، وہ سب کو زندہ کرے گا۔

۵۴               اس کو کہ اللہ تعالیٰ مُردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے اور ان کا نہ جاننا دلائل کی طرف ملتفت نہ ہونے اور غور نہ کرنے کے باعث ہے۔

(۲۷) اور اللہ ہی کے  لیے  ہے  آسمانوں اور زمین کی سلطنت، اور جس دن قیامت قائم ہو گی باطل  والوں کی اس دن ہار ہے  (ف ۵۵)

۵۵               یعنی اس دن کافروں کا ٹوٹے میں ہونا ظاہر ہو گا۔

(۲۸)  اور تم ہر گرو ه (ف ۵۶) کو دیکھو گے  زانو کے  بل گرے  ہوئے  ہر گروہ اپنے  نامۂ اعمال کی طرف بلایا جائے  گا (ف ۵۷)  آج تمہیں تمہارے  کیے  کا بدلہ دیا جائے  گا۔

۵۶               یعنی ہر دِین والے۔

۵۷               اور فرمایا جائے گا۔

(۲۹) ہمارا یہ نوشتہ تم پر حق بولتا ہے، ہم لکھتے  رہے  تھے  (ف ۵۸) جو تم نے  کیا۔

۵۸               یعنی ہم نے فرشتوں کو تمہارے عمل لکھنے کا حکم دیا تھا۔

(۳۰) تو وہ جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  ان کا رب انہیں اپنی رحمت میں لے  گا (ف ۵۹) یہی کھلی کامیابی ہے۔

۵۹               جنّت میں داخل فرمائے گا۔

(۳۱) اور جو کافر ہوئے  ان سے  فرمایا جائے  گا، کیا نہ تھا کہ میری آیتیں تم پر پڑھی جاتی تھیں تو تم تکبر کرتے  تھے  (ف ۶۰) اور تم مجرم لوگ تھے۔

۶۰               اور ان پر ایمان نہ لاتے تھے۔

(۳۲) اور جب کہا جاتا بیشک اللہ کا وعدہ  (ف ۶۱) سچا ہے  اور قیامت میں شک نہیں (ف ۶۲) تم کہتے  ہم نہیں جانتے  قیامت کیا چیز ہے  ہمیں تو یونہی کچھ گمان سا ہوتا ہے  اور ہمیں (ف ۶۳) یقین نہیں۔

۶۱               مُردوں کو زندہ کرنے کا۔

۶۲               وہ ضرور آئے گی تو۔

۶۳               قیامت کے آنے کا۔

 (۳۳) اور ان پر کھل گئیں (ف ۶۴) ان کے  کاموں کی برائیاں (ف ۶۵) اور انہیں گھیر لیا اس عذاب نے  جس کی ہنسی بناتے  تھے۔

۶۴               یعنی کفّار پر آخرت میں۔

۶۵               جو انہوں نے دنیا میں کئے تھے۔ اور ان کی سزائیں۔

 (۳۴) اور فرمایا جائے  گا آج ہم تمہیں چھوڑ دیں گے  (ف ۶۶) جیسے  تم اپنے  اس دن کے  ملنے  کو بھولے  ہوئے  تھے  (ف ۶۷) اور تمہارا ٹھکانا  آگ ہے  اور تمہارا کوئی مددگار نہیں (ف ۶۸)

۶۶               عذابِ دوزخ میں۔

۶۷               کہ ایمان و طاعت چھوڑ بیٹھے۔

۶۸               جو تمہیں اس عذاب سے بچا سکے۔

(۳۵) یہ اس لیے  کہ تم نے  اللہ کی آیتوں کا ٹھٹھا (مذاق) بنایا اور دنیا کی زندگی نے  تمہیں فریب دیا (ف ۶۹) تو  آج نہ وہ  آگ سے  نکالے  جائیں اور نہ ان سے  کوئی منانا چاہے  (ف ۷۰)

۶۹               کہ تم اس کے مفتوں ہو گئے اور تم نے بعث و حساب کا انکار کر دیا۔

۷۰               یعنی اب ان سے یہ بھی مطلوب نہیں کہ وہ توبہ کر کے اور ایمان و طاعت اختیار کر کے اپنے رب کو راضی کریں کیونکہ اس روز کوئی اور توبہ قبول نہیں۔

(۳۶)  تو اللہ ہی کے  لیے  سب خوبیاں ہیں آسمانوں کا رب اور زمین کا رب اور سارے  جہاں کا رب۔

(۳۷) اور اسی کے  لیے  بڑائی ہے  آسمانوں اور زمین میں، اور وہی عزت و حکمت والا ہے۔