١۔ یہ تسبیح زبان حال سے نہیں، بلکہ زبان کی بات چیت سے ہے اسی لئے فرمایا گیا 'کہ تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے ساتھ پہاڑ بھی تسبیح کرتے تھے۔
٣۔ وہی اول ہے یعنی اس سے پہلے کچھ نہ تھا، وہی آخر ہے، اس کے بعد کوئی چیز نہ ہو گی، وہی ظاہر ہے۔ یعنی وہ سب پر غالب ہے، اس پر کوئی غالب نہیں، وہی باطن ہے، یعنی باطن کی ساری باتوں کو صرف وہی جانتا ہے۔
٤۔(۱) اس مفہوم کی آیات سورہ اعراف، ٥٤، سورہ یونس،۳، اور الم السجدہ،٤ وغیرھا من الآیات میں گزر چکی ہیں، ان کے حواشی ملاحظہ فرما لیے جائیں۔
٤۔ (۲) یعنی زمین میں بارش کے جو قطرے اور غلہ جات و میوہ جات کے جو بیج داخل ہوتے ہیں کی کیفیت کو وہ جانتا ہے۔
۴۔ (۳) جو درخت، چاہے وہ پھلوں کے ہوں یا غلوں کے یا زینت اور آرائش کے اور خوشبو والے پھولوں یہ جتنے بھی اور جیسے بھی باہر نکلتے ہیں۔ سب اللہ کے علم میں ہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں تمام مخفی اشیاء کے خزانے، ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے، اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں۔ کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اسکو بھی جانتا ہے، اور کوئی دانہ کوئی زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے، مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں۔
۴۔ (٤) بارش، اولے، برف تقدیر اور وہ احکام، جو فرشتے لے کر اترتے ہیں۔
۴۔ (٥) فرشتے انسانوں کے جو عمل لے کر چڑھتے ہیں جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ اللہ کی طرف رات کے عمل دن سے پہلے اور دن کے عمل رات سے پہلے چڑھتے ہیں۔
٦۔ یعنی تم خشکی میں ہو یا تری میں، رات ہو یا دن، گھروں میں ہو یا صحراؤں میں، ہر جگہ ہر وقت وہ اپنے علم و بصر کے لحاظ سے تمہارے ساتھ ہے یعنی تمہارے ایک ایک عمل کو دیکھتا ہے، تمہاری ایک ایک بات کو جانتا اور سنتا ہے۔ یہی مضمون سورہ ہود، ۳۔ سورہ رعد۱۰ اور دیگر آیات میں بھی بیان کیا گیا ہے۔
٨۔ ابن کثیر نے اخذ کا فاعل الرسول کو بنایا ہے اور مراد وہ بیعت لی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام سے لیتے تھے کہ خوشی اور ناخوشی ہر حالت میں اطاعت کرنی ہے اور امام ابن جریر کے نزدیک اس کا فاعل اللہ ہے اور مراد وہ عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں سے اس وقت لیا تھا جب انہیں آدم علیہ السلام کی پشت سے نکالا تھا، جو عہد الست کہلاتا ہے، جس کا ذکر سورہ الاعراف، ۱۷۲ میں ہے۔
١٠۔ (۱) فتح سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک فتح مکہ ہے۔ بعض نے صلح حدیبیہ کو فتح مبین کا مصداق سمجھ کر اسے مراد لیا ہے۔ بہر حال صلح حدیبیہ یا فتح مکہ سے قبل مسلمان تعداد اور قوت کے لحاظ سے بھی کم تر تھے اور مسلمانوں کی مالی حالت بھی بہت کمزور تھی۔ ان حالات میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور جہاد میں حصہ لینا، دونوں کام نہایت مشکل اور بڑے دل گردے کا کام تھا، جب کہ فتح مکہ کے بعد یہ صورت حال بدل گئی۔ مسلمان قوت وتعداد میں بھی بڑھتے چلے گئے اور انکی مالی حالت بھی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہو گئی۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے دونوں ادوار کے مسلمانوں کی بابت فرمایا کہ یہ اجر میں برابر نہیں ہو سکتے۔
۱۰۔ (۲) کیونکہ پہلوں کا انفاق اور جہاد، دونوں کام نہایت کٹھن حالات میں ہوئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل فضل و عزم کو دیگر لوگوں کے مقابلے میں مقدم رکھنا چاہیے۔ اسی لیے اہل سنت کے نزدیک شرف وفضل میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے مقدم ہیں، کیونکہ مومن اول بھی وہی ہیں اور منفق اول اور مجاہد اول بھی وہی۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اپنی زندگی اور موجودگی میں نماز کے لیے آگے کیا، اور اسی بنیاد پر مومنوں (صحابہ کرام) نے انہیں استحقاق خلافت میں مقدم رکھا۔ رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ۔
۱۰۔ (۳) اس میں وضاحت فرما دی ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان شرف و فضل میں فرق تو ضرور ہے لیکن فرق درجات کا مطلب یہ نہیں کہ بعد میں مسلمان ہونے والے صحابہ کرام ایمان اور اخلاق کے اعتبار سے بالکل ہی گئے گزرے تھے، جیسا کہ بعض حضرات، حضرت معاویہ ان کے والد حضرت ابوسفیان اور دیگر بعض ایسے ہی جلیل القدر صحابہ کے بارے میں ہرزہ سرائی یا انہیں طلقاء کہہ کر انکی تنقیص و اہانت کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایا ہے کہ لا تسبوا اصحابی میرے صحابہ پر سب و شتم نہ کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کر دے تو وہ میرے صحابی کے خرچ کیے ہوئے ایک مد بلکہ نصف مد کے بھی برابر نہیں۔
۱۱۔ اللہ کو قرض حسن دینے کا مطلب ہے، اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات کرنا، یہ مال، جو انسان اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اللہ ہی کا دیا ہوا ہے، اس کے باوجود اسے قرض قرار دینا، یہ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ وہ اس انفاق پر اسی طرح اجر دے گا جس طرح قرض کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔
١٢۔ (۱) یہ عرصہ محشر میں پل صراط میں ہو گا، یہ نور ان کے ایمان اور عمل صالح کا صلہ ہو گا، جس کی روشنی میں وہ جنت کا راستہ آسانی سے طے کر لیں گے۔ امام ابن کثیر اور امام ابن جریر وغیرہما نے وَ بِاَیْمَانِھِمْ کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ان کے دائیں ہاتھوں میں ان کے اعمال نامے ہوں گے۔
۱۲۔ (۲) یہ وہ فرشتے کہیں گے جو ان کے استقبال اور پیشوائی کے لیے وہاں ہوں گے۔
١٣۔ (۱) یہ منافقین کچھ فاصلے تک اہل ایمان کے ساتھ ان کی روشنی میں چلیں گے، پھر اللہ تعالیٰ منافقین پر اندھیر مسلط فرما دے گا، اس وقت وہ اہل ایمان سے یہ کہیں گے۔
١٣۔ (۲) اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جا کر اسی طرح ایمان اور عمل صالح کی پونجی لے کر آؤ، جس طرح ہم لائے ہیں یا مذاق کے طور پر اہل ایمان کہیں گے کہ پیچھے جہاں سے ہم نور لائے تھے وہی جا کر تلاش کرو۔
١٣۔ (۳) یعنی مومنین اور منافقین کے درمیان۔
۱۳۔ (٤) اس سے مراد جنت ہے جس میں اہل ایمان داخل ہو چکے ہوں گے۔
۱۳۔ (٥) یعنی وہ حصہ ہے جس میں جہنم ہو گی۔
١٤۔ (۱) یعنی دیوار حائل ہونے پر منافقین مسلمانوں سے کہیں گے کہ دنیا میں ہم تمھارے ساتھ نمازیں نہیں پڑھتے تھے اور جہاد وغیرہ میں حصہ نہیں لیتے تھے۔
١٤۔ (۲) تم نے اپنے دلوں میں کفر اور نفاق چھپا رکھا تھا۔
١٤۔ (۳) کہ شاید مسلمان کسی گردش کا شکار ہو جائیں
١٤۔(۴) دین کے معاملے میں، اسی لیے قرآن کو مانا نہ دلائل ومعجزات کو۔
۱٤۔(۵) جس میں تمہیں شیطان نے مبتلا کیے رکھا۔
۱٤۔ (٦) یعنی تمہیں موت آ گئی، یا مسلمان بالآخر غالب رہے اور تمہاری آرزوں پر پانی پھر گیا۔
۱٤۔(۷) یعنی اللہ کے حلم اور اس کے قانون امہال کی وجہ سے تمہیں شیطان نے دھوکے میں ڈالے رکھا۔
۱۵۔مولیٰ اسے کہتے ہیں جو کسی کے کاموں کا متولی یعنی ذمے دار بنے گویا اب جہنم ہی اس بات کی ذمہ دار ہے کہ انہیں سخت سے سخت تر عذاب کا مزا چکھائے بعض کہتے ہیں کہ ہمیشہ ساتھ رہنے والے کو بھی مولیٰ کہہ لیتے ہیں یعنی اب جہنم کی آگ ہی ان کی ہمیشہ کی ساتھی اور رفیق ہو گی، بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جہنم کو بھی عقل و شعور عطا فرمائے گا پس وہ کافروں کے خلاف غیظ و غضب کا اظہار کرے گی، یعنی ان کی والی بنے گی اور انہیں عذاب الیم سے دوچار کرے گی۔
۱۶۔ خطاب اہل ایمان کو ہے اور مطلب ان کو اللہ کی یاد کی طرف مزید متوجہ اور قرآن کریم سے کسب ہدایت کی تلقین کرنا ہے خشوع کے معنی ہیں دلوں کا نرم ہو کر اللہ کی طرف جھک جانا حق سے مراد قرآن کریم ہے۔
١٦۔ (۲) جیسے یہود و نصاریٰ ہیں، یعنی تم ان کی طرح نہ ہو جانا۔
۱۶۔ (۳) چنانچہ انہوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف اور تبدیلی کر دی اس کے عوض دنیا کا ثمن قلیل حاصل کرنے کو انہوں نے شعار بنا لیا، اس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا اللہ کے دین میں لوگوں کی تقلید اختیار کر لی۔
۱۶۔(۴) یعنی ان کے دل فاسد اور اعمال باطل ہیں۔
۱۸۔ (۱) یعنی ایک کے بدلے میں کم از کم دس گنا اور اس سے زیادہ سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ تک۔ اور یہ زیادتی اخلاص نیت، حاجت و ضرورت اور مکان کی بنیاد پر ہو سکتی ہے۔
۱۸۔ (۲) یعنی جنت اور اس کی نعمتیں، جن کو کبھی زوال اور فنا نہیں۔
٢٠۔ (۱) یعنی اہل کفر کے لئے جو دنیا کے کھیل کود میں ہی مصروف رہے اور اسی کو انہوں نے حاصل زندگی سمجھا۔
٢٠۔ (۲) یعنی اہل ایمان و طاعت کے لئے، جنہوں نے دنیا کو ہی سب کچھ نہیں سمجھا، بلکہ اسے عارضی، فانی اور دارالا متحان سمجھتے ہوئے اللہ کی ہدایات کے مطابق اس میں زندگی گزاری۔
۲۱۔(۱) یعنی اعمال صالحہ اور توبۃ النصوح کی طرف کیونکہ یہی چیزیں مغفرت رب کا ذریعہ ہیں۔
٢١۔ (۲) اور جس کا عرض اتنا ہو، اس کا طول کتنا ہو گا؟ کیونکہ طول عرض سے زیادہ ہی ہوتا ہے
۲۱۔ (۳) ظاہر ہے اس کی چاہت اسی کے لیے ہوتی ہے جو کفر و معصیت سے توبہ کر کے ایمان وعمل صالح کی زندگی اختیار کر لیتا ہے اسی لیے وہ ایسے لوگوں کو ایمان صالحہ کی توفیق سے بھی نوازتا دیتا ہے۔
۲۱۔(۴) وہ جس پر چاہتا ہے اپنا فضل فرماتا ہے جس کو وہ کچھ دے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے روک لے اسے کوئی نہیں دے سکتا۔ تمام خیر اسی کے ہاتھ میں ہے۔
٢٢۔ (۱) مثلاً قحط، سیلاب اور دیگر آفات زمینی اور آسمانی۔
٢٢۔ (۲) مثلاً بیماریاں، تعب و تکان اور تنگ دستی وغیرہ۔
۲۲۔ (۳) یعنی اللہ نے اپنے علم کے مطابق تمام مخلوقات کی پیدائش سے پہلے ہی باتیں لکھ دی ہیں جیسے حدیث میں آتا ہے کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار پہلے ہی ساری تقدیریں لکھ دی تھیں۔
۲۳۔ یہاں جس حزن اور فرح سے روکا گیا ہے وہ غم اور خوشی ہے جو انسان کو ناجائز کاموں تک پہنچا دیتی ہے ورنہ تکلیف پر رنجیدہ اور راحت پر خوش ہونا یہ ایک فطری عمل ہے لیکن مومن تکلیف پر صبر کرتا ہے کہ اللہ کی مشیت اور تقدیر ہے جزع فزع کرنے سے کوئی اس میں تبدیلی نہیں آسکتی اور راحت پر اتراتا نہیں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔
٢٤۔ یعنی انفاق فی سبیل اللہ سے، کیونکہ اصل بخل یہی ہے۔
٢٥۔ (۱) میزان سے مراد انصاف ہے اور مطلب ہے کہ ہم نے لوگوں کو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ترازو کیا ہے ترازو کے اتارنے کا مطلب ہے کہ ہم نے ترازو کی طرف لوگوں کی رہنمائی کی کہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو تول کر پورا پورا حق دو۔
٢٥۔ (۲) یہاں بھی اتارا، پیدا کرنے اور اس کی صنعت سکھانے کے معنی میں ہے۔ لوہے سے بے شمار چیزیں بنتی ہیں یہ سب اللہ کے الہام وارشاد کا نتیجہ ہے جو اس نے انسان کو کیا ہے۔
۲۵۔ (۳) یعنی لوہے سے جنگی ہتھیار بنتے ہیں جیسے تلوار، نیزہ، بندوق وغیرہ جن سے دشمن پر وار کیا جا سکتا ہے اور اپنا دفاع بھی۔
۲۵۔(۴) یعنی جنگی ہتھیاروں کے علاوہ بھی لوہے سے اور بھی بہت سی چیزیں بنتی ہیں جو گھروں میں اور مختلف صنعتوں میں کام آتی ہیں جیسے چھریاں، چاقو، قینچی، سوئی اور عمارت وغیرہ کا سامان اور چھوٹی بڑی مشینیں اور سازو سامان۔
۲۵۔(۵) یعنی رسولوں کو اس لیے بھیجا ہے تاکہ وہ جان لے کہ کون اس کے رسولوں پر اللہ کو دیکھے بغیر ایمان لاتا اور ان کی مدد کرتا ہے۔
۲۵۔ (٦) اس کو اس بات کی حاجت نہیں کہ لوگ اس کے دین کی اور اس کے رسول کی مدد کریں بلکہ وہ چاہے تو اس کے بغیر ہی ان کو غالب فرما دے لوگوں کو تو ان کی مدد کرنے کا حکم ان کی اپنی بھلائی کے لیے دیا گیا ہے تاکہ وہ اس طرح اپنے اللہ کو راضی کر کے اس کی مغفرت کے مستحق بن جائیں۔
٢٧۔ (۱) رَأْفَةً، کے معنی نرمی اور رحمت کے معنی شفقت کے ہیں۔ پیروکاروں سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری ہیں، یعنی ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے پیار اور محبت کے جذبات پیدا کر دئیے۔ جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ایک دوسرے کے لیے رحیم و شفیق تھے۔ رحماء بینہم۔ یہود، آپس میں اس طرح ایک دوسرے کی ہمدر اور غم خوار نہیں، جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار تھے۔
٢٧۔ (۲) رَهْبَانِیَّةً رھب (خوف) سے ہے یا رھبان (درویش) کی طرف منسوب ہے اس صورت میں رے پر پیش رہے گا، یا اسے رہبنہ کی طرف منسوب مانا جائے تو اس صورت میں رے پر زبر ہو گا۔ رہبانیت کا مفہوم ترک دنیا ہے یعنی دنیا اور علائق دنیا سے منقطع ہو کر کسی جنگل، صحرا میں جا کر اللہ کی عبادت کرنا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ایسے بادشاہ ہوئے جنہوں نے تورات اور انجیل میں تبدیلی کر دی، جسے ایک جماعت نے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے بادشاہوں کے ڈر سے پہاڑوں اور غاروں میں پناہ حاصل کر لی۔ یہ اس کا آغاز تھا، جسکی بنیاد اضطرار پر تھی۔ لیکن انکے بعد آنے والے بہت سے لوگوں نے اپنے بزرگوں کی اندھی تقلید میں اس شہر بدری کو عبادت کا ایک طریقہ بنا لیا اور اپنے آپ کو گر جاؤں اور معبودوں میں محبوس کر لیا اور اسکے لیے علائق دنیا سے انقطاع کو ضروری قرار دے لیا۔ اسی کو اللہ نے ابتداع (خود گھڑنے ) سے تعبیر فرمایا ہے۔
۲۷۔ (۳) یہ پچھلی بات کی تاکید ہے کہ یہ رہبانیت ان کی اپنی ایجاد تھی، اللہ نے اس کا حکم نہیں دیا تھا۔
٢٧۔(۴) یعنی ہم نے تو ان پر صرف اپنی رضا جوئی فرض کی تھی۔ دوسرا ترجمہ اس کا ہے کہ انہوں نے یہ کام اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لئے کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمادی کہ اللہ کی رضا، دین میں اپنی طرف سے بدعات ایجاد کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتی، چاہے وہ کتنی ہی خوش نما ہو۔ اللہ کی رضا تو اس کی اطاعت سے ہی حاصل ہو گی۔
۲۷۔ (٥) یعنی گو انہوں نے مقصد اللہ کی رضا جوئی بتلایا، لیکن اس کی انہوں نے پوری رعایت نہیں کی، ورنہ وہ ابتداع (بدعت ایجاد کرنے ) کے بجائے اتباع کا راستہ اختیار کرتے۔
۲۷۔ (٦) یہ وہ لوگ ہیں جو دین عیسیٰ پر قائم رہے تھے۔
٢٨۔ یہ دگنا اجر اہل ایمان کو ملے گا جو نبی سے قبل پہلے کسی رسول پر ایمان رکھتے تھے پھر نبی پر بھی ایمان لے آئے جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے (صحیح بخاری) ایک دوسری تفسیر کے مطابق جب اہل کتاب نے اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ انہیں دوگنا اجر ملے گا، تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے حق میں یہ آیت نازل فرمائی۔(تفصیل کیلئے دیکھئے، تفسیر ابن کثیر)