تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الحَدید

نام

آیت ۲۵ کے فقرے وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْد سے ماخوذ ہے ۔ 

زمانۂ نزول

یہ بالاتفاق مدنی سورت ہے اور اس کے مضامین پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ غالباً یہ جنگ احد اور صلح حدیبیہ کے درمیان کسی زمانہ میں نازل ہوئی ہے ۔ وہی زمانہ تھا جب مدینہ کی مختصر سی اسلامی ریاست کو ہر طرف سے کفار نے اپنے نرغے میں لے رکھا تھا اور سخت بے رسو سامانی کی حالت میں اہل ایمان کی مٹھی بھر جماعت پورے عرب کی طاقت کا مقابلہ کر رہی تھی۔ اس حالت میں اسلام کو اپنے پردوں سے صرف جانی قربانی ہی درکار نہ تھی بلکہ مالی قربانی بھی درکار تھی، اور اس سورۃ میں اسی قربانی کے لیے پر زور اپیل کی گئی ہے ۔ اس قیاس کو آیت ۱۰ مزید تقویت پہنچاتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی جماعت کو خطاب کر کے فرمایا ہے کہ فتح کے بعد جو لوگ اپنے مال خرچ کریں گے اور خدا کی راہ میں جنگ کریں گے وہ ان لوگوں کے برابر کبھی نہیں ہو سکتے جو فتح سے پہلے جان و مال کی قربانیاں دیں ۔ اس اسی کی تائید حضرت اَنَسؓ کی وہ روایت کرتی ہے جسے ابن مردویہ نے نقل کیا ہے اَلَمْ یَأ نِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْ آ اَنْ تَخْشَعَ قُلُو بھُُمْ لِزِکْرِ اللہِ کے متعلق فرماتے ہیں کہ نزول قرآن کے آغاز سے ۱۷ برس بعد اہل ایمان درمیان قرار پاتا ہے ۔

موضوع اور مضمون

اس کا موضوع انفاق فی سبیل اللہ کی تلقین ہے ۔ اسلام کی تاریخ کے اس نازک ترین دور میں ، جبکہ عرب کی جاہلیت سے اسلام کا فیصلہ کن معرکہ برپا تھا، یہ سورۃ اس غرض کے لیے نازل فرمائی گئی تھی کہ مسلمانوں کو خاص طور مالی قربانیوں کے لیے آمادہ کیا جائے اور یہ بات ان کے ذہن نشین کرائی جائے کہ ایمان محض زبانی اقرار اور کچھ ظاہری اعمال کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ اور اس کے دین کے لیے مخلص ہونا اس کی اصل روح اور حقیقت ہے ۔ جو شخص اس روح سے خالی ہو اور خدا اور اس کے دین کے مقابلہ میں اپنی جان و مال اور مفاد کو عزیز تر رکھے اس کا اقرار ایمان کھوکھلا ہے جس کی کوئی قدر و قیمت خدا کے ہاں نہیں ہے ۔

اس مقصد کے لیے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کی گئی ہیں تاکہ سامعین کو اچھی طرح یہ احساس ہو جائے کہ کس عظیم ہستی کی طرف سے ان کو مخاطب کیا جا رہا ہے ۔ اس کے بعد حسب ذیل مضامین سلسلہ وار ارشاد ہوئے ہیں ؛

ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی راہ خدا میں مال صرف کرنے سے پہلو تہی نہ کرے ۔ ایسا کرنا صرف ایمان ہی کے منافی نہیں ہے بلکہ حقیقت کے اعتبار سے بھی غلط ہے ۔ کیونکہ یہ مال در اصل خدا ہی کا مال ہے جس پر تم کو خلیفہ کی حیثیت سے تصرف کے اختیارات دیے  گئے ہیں ۔ کل یہی مال دوسروں کے پاس تھا، آج تمہارے پاس ہے ، اور کل کسی اور کے پاس چلا جائے گا۔ آخر کار اسے خدا ہی کے پاس رہ جانا ہے جو کائنات کی ہر چیز کا وارث ہے ۔ تمہارے کام اس مال کا کوئی حصہ اگر آسکتا ہے تو صرف وہ جسے تم اپنے  زمانہ تصرف میں خدا کے کام پر لگا دو۔

خدا کی راہ میں جان و مال کی قربانی دینا اگرچہ ہر حال میں قابل قدر ہے ، مگر ان قربانیوں کی ادر و قیمت مواقع کی نزاکت کے لحاظ سے متعین ہوتی ہے ۔ ایک موقع وہ ہوتا ہے جب کفر کی طاقت بڑی زبردست ہو اور ہر وقت یہ خطرہ ہو کہ کہیں اسلام اس کے مقابلہ میں مغلوب نہ ہو جائے۔ دوسرا موقع وہ ہوتا ہے جب کفر و اسلام کی کشمکش میں اسلام کی طاقت کا پلڑا بھاری ہو جائے اور ایمان کو دشمنان حق کے مقابلہ میں فتح نصیب ہو رہی ہو۔ یہ دونوں حالتیں اپنی اہمیت کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیَ اس لیے جو قربانیاں ان مختلف حالتوں میں دی جائیں وہ بھی اپنی قیمت میں برابر نہیں ہیں ۔ جو لوگ اسلام کے ضعف کی حالت میں اس کو سربلند کرنے کے لیے جانیں لڑائیں اور مال صرف کریں ان کے درجہ کو وہ لوگ نہیں پہنچ سکتے جو اسلام کے غلبے کی حالت میں اس کو مزید فروغ دینے کے لیے جان و مال قربان کریں ۔

راہ حق میں جو مال بھی صرف کیا جائے وہ اللہ کے ذمے قرض ہے ، اور اللہ اسے نہ صرف یہ کہ کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس دے گا بلکہ اپنی طرف سے مزید اجر بھی عنایت فرمائے گا۔

آخرت میں نور انہی اہل ایمان کو نصیب ہو گا جنہوں نے راہ خدا میں اپنا مال خرچ کیا ہو۔ رہے وہ منافق جو دنیا میں اپنے ہی مفاد کو دیکھتے رہے اور جنہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں رہی کہ حق غالب ہوتا ہے یا باطل، وہ خواہ دنیا کی اس زندگی میں مومنوں کے ساتھ ملے جلے رہے ہوں ، مگر آخرت میں ان کو مومنوں سے الگ کر دیا جائے گا، نور سے وہ محروم ہوں گے اور ان کا حشر کافروں کے ساتھ ہو گا۔

مسلمانوں کو ان اہل کتاب کی طرح نہ ہو جاتا چاہیے جن کی عمریں دنیا پرستی میں بیت گئی ہیں اور جن کے دل زمانہ دراز کی غفلتوں سے پتھر ہو گئے ہیں ۔ وہ مومن ہی کیا جس کا دل خدا کے ذکر سے نہ پگھلے اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے نہ جھکے ۔

اللہ کے نزدیک صدیق اور شہید صرف وہ اہل ایمان ہیں جو اپنا مال کسی جذبہ ریا کے بغیر صدق دل سے اس کی راہ میں صرف کرتے ہیں ۔

دنیا کی زندگی محض چند روز کی بہار اور ایک متاع غرور ہے ۔ یہاں کا کھیل کود، یہاں کی دلچسپیاں ،یہاں کی آرائش و زیبائش، یہاں کی بڑائیوں پر فخر، اور یہاں کا دھن و دولت، جس میں لوگ ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوششیں کرتے ہیں ، سب کچھ نا پائدار ہے ۔ اس کی مثال اس کھیتی کی سی ہے جو پہلے سر سبز ہوتی ہے ، پھر زرد پڑ جاتی ہے اور آخر کار ٹھیس بن کر رہ جاتی ہے ۔ پائیدار زندگی دراصل آخرت کی زندگی ہے جہاں بڑے نتائج نکلنے والے ہیں ۔ تمہیں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرنی ہے تو یہ کوشش جنت کی طرف دوڑنے میں صرف کرو۔

دنیا میں راحت اور مصیبت جو بھی آتی ہے اللہ کے پہلے ہوئے فیصلے کے مطابق آتی ہے ۔ مومن کا کردار یہ ہونا چاہیے کہ مصیبت آئے تو ہمت نہ ہار بیٹھے ، اور راحت آئے تو اترا نہ جائے۔ یہ تو ایک منافق اور کافر کا کردار ہے کہ اللہ اس کو نعمت بخشے تو وہ اپنی جگہ پھول جائے، فخر جتانے لگے ، اور اسی نعمت دینے والے خدا کے کام میں خرچ کرتے ہوئے خود بھی تنگ دلی دکھائے اور دوسروں کو بھی بخل کرنے کا مشورہ دے ۔

اللہ نے اپنے رسول کھلی کھلی نشانیوں اور کتاب اور میزان عدل کا سر نیچا کرنے کے لیے طاقت استعمال کی کائے۔ اس طرح اللہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ انسانوں میں سے کون لگ ایسے نکلتے ہیں جو اس کے این کی حمایت و نصرت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اس کی خاطر جان لڑا دیں ۔ یہ مواقع اللہ نے تمہاری اپنی ہی ترقی و سرفرازی کے لیے پیدا کیے ہیں ، ورنہ اللہ اپنے کام کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے انبیاء آتے رہے جن کی دعوت سے کچھ لوگ راہ راست پر آئے اور اکثر فاسق بنے رہے ۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام آئے جن کی تعلیم سے لوگوں میں بہت سی اخلاقی خوبیاں پیدا ہوئیں ، مگر ان کی امت نے رہبانیت کی بدعت اختیار کر لی۔ اب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیجا ہے ۔ ان پر جو لوگ ایمان لائیں گے اور خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کریں گے ، اللہ ان کو اپنی رحمت کا دہرا حصہ دے گا اور انہیں وہ جور بخشے گا جس سے دنیا کی زندگی میں وہ ہر ہر قدم پر ٹیڑھے راستوں کے درمیان سیدھی راہ صاف دیکھ کر چل سکیں گے ۔ اہل کتاب چاہے اپنے آپ کو اللہ کے فضل کا ٹھیکہ دار سمجھتے رہیں ، مگر اللہ کا فضل اس کے اپنے ہی ہاتھ میں ہے ، اسے اختیار ہے جسے چاہے اپنے فضل سے نواز دے ۔

یہ ہے ان مضامین کا خلاصہ جو اس سورت میں ایک ترتیب کے ساتھ مسلسل بیان ہوئے ہیں ۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اُس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے، ۱ اور وہی زبر دست دانا ہے۔ ۲ زمین وآسمانوں کی سلطنت کا مالک وہی ہے، زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے، اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ وہی اوّل بھی ہے اور آخر بھی ، اور ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی، ۳ اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا۔ ۴ اُس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اُترتا ہے اور جو کچھ اُس میں چڑھتا ہے۔ ۵ وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو۔ ۶ جو کام بھی تم کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے۔ وہی زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے اور تمام معاملات فیصلے کے لیے اُسی کی طرف رجوع کیے جاتے ہیں۔ وہی رات کو دن میں اور دن  کو رات میں داخل کرتا ہے،  اور دلوں کے چھُپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔
ایمان لاؤ اللہ اور اُس کے رسول پر ۷ اور خرچ کرو ۸ اُن چیزوں میں سے جن پر اُس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے۔ ۹ جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں گے اور مال خرچ کریں گے ۱۰ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے ۱۱ اور وہ تم سے عہد لے چکا ہے ۱۲ اگر تم واقعی  ماننے والے ہو۔ وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں نازل کر رہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہر بان ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے۔ ۱۳ تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی اُن لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے۔ اُن کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں۔ ۱۴ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے۔ ۱۵ ؏۱

 

۱۔ یعنی ہمیشہ کائنات کی ہر چیز نے اس حقیقت کا اظہار وہ اعلان کیا ہے کہ اس کا خالق و پروردگار ہر عیب اور نقص اور کمزوری اور خطا اور برائی سے پاک ہے ۔ اس کی ذات پاک ہے ، اس کی صفات پاک ہیں ، اس کے افعال پاک ہیں ، اور اس کے احکام بھی، خواہ وہ تکوینی احکام ہوں یا شرعی، سراسر پاک ہیں ۔ یہاں سَبَّحَ صیغہ ماضی استعمال کیا گیا ہے ، اور بعض دوسرے مقامات پر یُسَبِّحُ  صیغہ مُضارع استعمال ہو ا ہے جس میں حال اور مستقبل دونوں کا مفہوم شامل ہے ۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ ہمیشہ اپنے خالق و رب کی پاکی بیان کرتا رہا ہے ، آج بھی کر رہا ہے ، اور ہمیشہ کرتا رہے گا۔

۲۔ اصل الفاظ ہیں ھُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ لفظ ھُوَ کو پہلے لانے سے خود بخود حصر کا مفہوم پیدا ہوتا ہے ، یعنی بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ عزیز اور حکیم ہے ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہی ایسی ہستی ہے جو عزیز بھی ہے اور حکیم بھی۔ عزیز  کے معنی ہیں ایسا زبردست اور قادر و قاہر جس کے فیصلے کو نافذ ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی، جس کی مزاحمت کسی کے بس میں نہیں ہے ، جس کی اطاعت ہر ایک کو کرنی ہی پڑتی ہے خواہ کوئی چاہے یا نہ چاہے ، جس کی فرمانی کرنے والا اس کی پکڑ سے کسی طرح جچ ہی نہیں سکتا۔ اور حکیم کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے حکمت اور دانائی ے ساتھ کرتا ہے ۔ اس کی تخلیق، اس کی تدبیر، اس کی فرمانروائی، اس کے احکام، اس کی ہدایات، سب حکمت پر مبنی ہیں ۔ اس کے کسی کام میں نادانی اور حماقت و جہالت کا شائبہ تک نہیں ہے ۔

اس مقام پر ایک لطیف نکتہ اور بھی ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ قرآن مجید میں کم ہی مقامات ایسے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کے ساتھ قوی، مقتدر، جبار اور ذو انتقام جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن سے محض اس کے اقتدار مطلق کا اظہار ہوتا ہے ، اور یہ صرف ان مواقع پر ہوا ہے جہان سلسلہ کلام اس بات کا متقاضی تھا کہ ظالموں اور نا فرمانوں کو اللہ کی پکڑ ڈرایا جائے۔ اس طرح کے چند مقامات کو چھوڑ کر باقی جہاں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے عزیز کا لفاظ استعمال کیا گیا ہے ، وہاں اس کے ساتھ حکیم، علیم، رحیم، غفور، وہاب اور حمید میں سے کوئی لفظ ضرور لایا گیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی ہوتی ایسی ہو جسے بے پناہ طاقت حاصل ہو مگر اس کے ساتھ وہ نادان ہو، جاہل ہو، بے رحم ہو، در گزر اور معاف کرنا جانتی ہی نہ ہو، بخیل ہو، اور  بد سیرت ہو تو اس کے اقتدار کا نتیجہ ظلم کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہو رہا ہے اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ جس شخص کو دوسروں پر بالاتری حاصل ہے وہ یا تو اپنی طاقت کو نادانی اور جہالت کے ساتھ استعمال کر رہا ہے ، یا وہ بے رحم اور سنگدل ہے ، یا بخیل اور تنگ دل ہے ، یا بد خو اور بد کردار ہے ، طاقت کے ساتھ ان بری صفات کا اجتماع جہاں بھی ہو وہاں کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اسی لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کے ساتھ اس کے حکیم و علیم اور رحیم و غفور اور حمید و وہاب ہونے کا ذکر لازماً کیا گیا ہے تاکہ انسان یہ جان لے کہ جو خدا اس کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے وہ ایک طرف تو ایسا کامل اقتدار رکھتا ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک کوئی اس کے فیصلوں کر نافذ ہونے سے روک نہیں سکتا، مگر دوسری طرف وہ حکیم بھی ہے ، اس کا ہر فیصلہ سراسر دانائی پر مبنی ہوتا ہے ۔ علیم بھی ہے ، جو فیصلہ بھی کرتا ہے ٹھیک ٹھیک علم کے مطابق کر تا ہے ۔ رحیم بھی ہے ، اپنے بے پناہ اقتدا کو بے رحمی کے ساتھ استعمال نہیں کرتا۔ غفور بھی ہے ، اپنے زیر دستوں کے ساتھ خرُدہ گیری کا نہیں بلکہ چشم پوشی و درگزر کا معاملہ کرتا ہے ۔ وہاب بھی ہے ، اپنی رعیت کے ساتھ بخیلی کا نہیں بلکہ بے انتہا فیاضی کا برتاؤ کر رہا ہے ۔ اور حمید بھی ہے ، تمام قابل تعریف صفات و کمالات اس کی ذات میں جمع ہیں ۔

قرآن کے اس بیان کی پوری اہمیت وہ لوگ زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جو حاکمیت (Sovereignty) کے مسئلے  پر فلسفہ سیاست اور فلسفہ قانون کی بحثوں سے واقف ہیں ۔ حاکمیت نام ہی اس چیز کا ہے کہ صاحب حاکمیت غیر محدود اقتدار کا مالک ہو، کوئی داخلی و خارجی طاقت اس کے حکم اور فیصلے کو نفاذ سے روکنے ، یا اس کو بدلنے ، یا اس پر نظر ثانی کرنے والی نہ ہو، اور کسی کے لیے اس کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو۔ اس غیر محدود اقتدار کا تصور کرتے ہی انسانی عقل لازماً یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ایسا اقتدار جس کو بھی حاصل ہوا سے بے عیب اور علم و حکمت میں کامل ہونا چاہیے ۔ کیونکہ اگر اس اقتدار کا حامل نادان، جاہل، بے رحم، اور بد خو ہو تو اس کی حاکمیت سراسر  ظلم و فساد ہو گی۔ اسی لیے جن فلسفیوں نے کسی انسان، یا انسانی ادارے ، یا انسانوں کے مجموعے کو حاکمیت کا حامل قرار دیا ہے ان کو یہ فرض کرنا پڑا ہے کہ وہ غلطی سے مبرا ہو گا۔ مگر ظاہر ہے کہ نہ تو غیر محدود حاکمیت فی الواقع کسی انسانی اقتدار کو حاصل ہو سکتی ہے ، اور نہ یہی ممکن ہے کہ کسی بادشاہ، یا پارلیمنٹ، یا قوم، یا پارٹی  کو ایک محدود دائرے میں جو حاکمیت حاصل ہو اسے وہ بے عیب اور بے خطا طریقے سے استعمال کر سکے ۔ اس لیے کہ ایسی حکمت جس میں نادانی کا شائبہ نہ ہو اور ایسا علم جو تمام متعلقہ حقائق پر حاوی ہو، سے سے پوری نوع انسانی ہی کو حاصل نہیں ہے کجا کہ وہ انسانوں میں سے کسی شخص یا ادارے یا قوم کو نصیب ہو جائے۔ اور اسی طرح انسان جب تک انسان ہے اس کا خود غرضی، نفسانیت، خوف، لالچ، خواہشات، تعصب، اور جذباتی رضا و غضب اور محبت و نفرت سے بالکل پاک اور بالاتر ہونا بھی ممکن نہیں ہے ۔ ان حقائق کو اگر کوئی شخص نگاہ میں رکھ کر غور کرے تو اسے محسوس ہو گا کہ قرآن اپنے اس بیان میں در حقیقت حاکمیت کا بالکل صحیح اور مکمل تصور پیش کر رہا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ ’’عزیز‘‘ یعنی اقتدار مطلق کا حامل اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے ، اور اس غیر محدود اقتدار کے ساتھ وہی ایک ہستی ایسی ہے جو بے عیب ہے ، حکیم و علیم ہے ، رحیم و غفور ہے اور حمید و وہاب ہے ۔

۳۔ یعنی جب کچھ نہ تھا تو وہ تھا اور جب کچھ نہ رہے تو وہ رہے گا۔ وہ سب ظاہروں سے بڑھ کر ظاہر ہے ، کیونکہ دنیا میں جو کچھ بھی ظہور ہے اسی کی صفات اور اسی کے افعال اور اسی کے نور کا ظہور ہے ۔ اور وہ ہر مخفی سے بڑھ کر مخفی ہے ، کیونکہ حواس سے اس کی ذات کو محسوس کرنا تو درکنار، عقل و فکر و خیال تک اس کی کنہ و حقیقت  کو نہیں پا سکتے ۔ اس کی بہترین تفسیر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک دعا کے یہ الفاظ ہیں جنہیں امام احمد، مسلم، ترمذی، اور بیہقی نے حضرت ابو ہریرہؓ سے اور حافظ ابو یعلیٰ موسلی نے اپنی مسند میں حضرت عائشہؓ سے نقل کیا ہے :

وانت الاول فلیس قبلک شیءٍ                      تو ہی پہلا ہے ، کوئی تجھ سے پہلے نہیں

وانت الاٰخر فلیس بعدک شیءٍ                        تو ہی آخر ہے ، کوئ تیرے بعد نہیں  

و انت الظاھر فلیس فوقک شئٍ                      تو ہی ظاہر ہے کوئی تیرے تجھ سے اوپر نہیں  

و انت الباطن فلیس دونک شئٍ                      تو ہی باطن ہے ، کوئی تجھ سے مخفی تر نہیں

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں اہل جنت اور اہل دوزخ کے لیے خلود اور ابدی زندگی کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے ساتھ یہبات کیسے نبھ سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آخر ہے ، یعنی جب کچھ نہ رہے گا تو وہ رہے گا؟ اس کا جواب خود قرآن مجید ہی میں موجود ہے کہ کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا  وَجْھَہٗ (القصص۔۸۸)۔ یعنی ’’ ہر چیز فانی ہے اللہ کی ذات کے سوا‘‘۔ دوسرے الفاظ میں ذاتی بقا کسی مخلوق کے لیے نہیں ہے ۔ اگر کوئی چیز باقی ہے یا باقی رہے تو وہ اللہ کے باقی رکھنے ہی سے باقی ہے ۔ اور اس کے باقی رکھنے ہی سے باقی رہ سکتی ہے ، ورنہ بذات خود اس کے سوا سب فانی ہیں ۔ جنت اور دوزخ میں کسی کو خلو د اس لیے نہیں ملے گا کہ وہ بجائے خود غیر فانی ہے ، بلکہ اس لیے ملے گا کہ الہ اس کو حیات ابدی عطا فرمائے گا۔ یہی معاملہ فرشتوں کا بھی ہے کہ وہ بذات خود غیر فانی نہیں ہیں ۔ جباللہ نے چاہا تو وہ وجود میں آئے، اور جب تک وہ چاہے اسی وقت تک وہ موجود رہ سکتے ہیں ۔

۴۔ یعنی کائنات کا خالق بھی وہی ہے اور فرمانروا بھی وہی (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حواشی ۴۱۔ ۴۲ یونس، حاشیہ ۴۔ الرعد، حواشی ۲ تا ۵۔ جلد چہارم، حٰم السجدہ، حواشی ۱۱ تا ۱۵)۔

۵۔ بالفاظ دیگر وہ محض کلیات ہی کا عالم نہیں ہے بلکہ جزئیات کا علم بھی رکھتا ہے ۔ ایک ایک دانہ جو زمین کی تہوں میں جاتا ہے ، ایک ایک پتی اور کونپل جو زمین سے پھوٹتی ہے ، بارش کا ایک ایک قطرہ جو آسمان سے گرتا ہے ، اور بخارات کی ہر مقدر جو سمندروں اور جھیلوں سے اٹھ کر آسمان کی طرف جاتی ہے ، اس کی نگاہ میں ہے اس کو معلوم ہے کہ کونسا دانہ زمین میں کس جگہ پڑا ہے ، تبھی تو وہ اسے پھاڑ کر اس میں سے کونپل نکالتا ہے اور اسے پرورش کر کے بڑھاتا ہے ۔ اس کو معلوم ہے کہ بخارات کی کتنی کتنی مقدار کہاں کہاں سے اٹھی ہے اور کہاں پہنچی ہے ، تبھی تو وہ ان س کو جمع کر کے بادل بناتا ہے اور زمین کے مختلف حصوں پر بانٹ کر ہر جگہ ایک حساب سے بارش برساتا ہے ۔اسی پر ان دوسری تمام چیزوں کی تفصیلات کو قیاس کیا جا سکتا ہے جو زمین میں جاتی اور اس سے نکلتی ہیں اور آسمان کی طرف چڑھتی اور اس سے نازل ہوتی ہیں ۔ ان سب پر اللہ کا علم حاوی نہ ہو تو ہر چیز کی علیٰحدہ علیٰحدہ تدبیر اور ہر ایک کا انتہائی حکیمانہ طریقہ سے انتظام کیسے ممکن ہے ۔

۶۔ یعنی کسی جگہ بھی تم اس کے علم، اس کی قدرت، اس کی فرمانروائی اور اس کی تدبیر و انتظام سے باہر نہیں ہو۔ زمین میں ، ہوا میں ، پانی میں ، یا کسی گوشہ تنہائی میں ، جہاں بھی تم ہو، اللہ کو معلوم ہے کہ تم کہاں ہو۔ وہاں تمہاری ہونا بجائے خود اس کی علامت ہے کہ اللہ اسی جگہ تمہاری زندگی کا سامان کر رہا ہے ۔ تمہارا دل اگر دھڑک رہا ہے ۔ تمہارے پھیپھڑے اگر سانس لے رہے ہیں ، تمہاری سماعت اور بینائی اگر کام کر رہی ہے تو یہ سب کچھ اسی وجہ سے ہے کہ اللہ کے انتظام سے تمہارے جسم کے سب کُل پرزے چل رہے ہیں ۔ اور اگر کسی جگہ بھی تمہیں موت آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے بقا کا انتظام ختم کر کے تمہیں واپس بلا لینے کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے ۔

۷۔ یہ خطاب غیر مسلموں سے نہیں ہے ، بلکہ بعد کی پوری تقریر یہ ظاہر کر رہی ہے کہ مخاطب وہ مسلمان ہیں جو کلمہ اسلام کا اقرار کر کے ایمان لانے والوں کے گروہ میں شامل ہو چکے تھے ، مگر ایمان کے تقاضے پورے کرنے اور مومن کا سا طرز عمل اختیار کرنے سے پہلو تہی کر رہے تھے ۔ ظاہر ہے کہ غیر مسلموں کو ایمان کی دعوت دینے کے ساتھ ہی فوراً ان سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جہاد فی سبیل اللہ کے مصارف میں دل کھول کر اپنی حصہ ادا کرو، اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تم میں سے جو فتح سے پہلے جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ کرے گا اس کا درجہ ان لوگوں سے بلند تر ہو گا جو بعد میں یہ خدمات انجام دیں گے ۔ غیر مسلم کو دعوت ایمان دینے کی صورت میں تو پہلے اس کے سامنے ایمان کے ابتدائی تقاضے پیش کیے جاتے ہیں جہ کہ انتہائی۔ اس لیے فحوائے کلام کے لحاظ سے یہاں اٰمِنُوْ ابِا للہِ وِرَسْوْلِہٖ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو گئے ہو، اللہ اور اس کے رسول کو سچے دل سے مانو اور وہ طرز عمل اختیار کرو جو اخلاص کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اختیار کرنا چاہیے ۔

۸۔ اس مقام پر خرچ کرنے سے مراد عام بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا نہیں ہے ، بلکہ آیت نمبر ۱۰ کے الفاظ صاف بتارہے ہیں کہ یہاں اس سے مراد اس جدوجہد کے مصارف میں حصہ لینا ہے جو اس وقت کفر کے مقابلے میں اسلام کو ر بلند کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں برپا تھی۔ خاص طور پر دو ضرورتیں اس وقت ایسی تھیں جن کے لیے اسلامی حکومت کو مالی مدد کی سخت حاجت در پیش تھی ایک، جنگی ضروریات۔ دوسرے ، ان مظلوم مسلمانوں کو سہارا دینا جو کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر عرب کے ہر حصے سے ہجرت کر کے مدینے آئے تھے اور آ رہے تھے ۔ مخلص اہل ایمان ان مصارف کو پورا کرنے کے لیے اپنی ذات پر اتنا بوجھ برداشت کر رہے تھے جو ان کی طاقت اور وسعت سے بہت زیادہ تھا، اور اسی چیز کی داد ان کو آگے آیات ۱۰۔۱۲۔۱۸۔اور ۱۸ میں دی گئی ہے ۔ لیکن مسلمانوں کے گروہ میں بکثرت اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ ایسے موجود تھے جو کفر و اسلام کی اس کشمکش کو محض تماشائی بن کر دیکھ رہے تھے اور اس بات کا انہیں کوئی احساس نہ تھا کہ جس چیز پر ایمان لانے کا وہ دعویٰ کر رہے ہیں اس کے کچھ حقوق بھی ان کی جان و مال پر عائد ہوتے ہیں ۔ یہ دوسری قسم کے لوگ اس آیت کے مخاطب ہیں ۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ سچے مومن بنو اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو۔

۹۔ اس کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد بھی ہیں ۔ ایک مطلب یہ ہے کہ جو مال تمہارے پاس ہے یہ دراصل تمہارا ذاتی مال نہیں بلکہ الہ کا بخشا ہوا مال ہے ۔ تم بذاتِ خود اس کے مال نہیں ہو، اللہ نے اپنے خلیفہ کی حیثیت سے یہ تمہارے تصرف میں دیا ہے ۔ لہٰذا مال کے اصل مالک کی خدمت میں اسے صرف کرنے سے دریغ نہ کرو۔ نائب کا یہ کام نہیں ہے کہ مالک کے مال کو مالک ہی کے کام میں خرچ کرنے سے جی چرائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ مال نہ ہمیشہ سے تمہارے پاس تھا نہ ہمیشہ تمہارے پاس رہنے والا ہے ۔ کل یہ کچھ دوسرے لوگوں کے پاس تھا، پھر اللہ نے تم کو ان کا جانشین بنا کر اسے تمہارے حوالہ کیا، پھر ایک وقت ایسا آئے گا جب یہ تمہارے پاس نہ رہے گا اور کچھ دوسرے لوگ اس پر تمہارے جانشین بن جائیں گے ۔ اس عارضی جانشینی کی توڑی سی مدت میں ، جبکہ یہ تمہارے قبض و تصرف میں ہے ، اسے اللہ کے کام میں خرچ کرو، تاکہ آخرت میں اس کا مستقل اور دائمی اجر تمہیں حال ہو۔ یہی بات ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک حدیث میں بین فرمایا ہے ۔ ترمذی کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے ہاں ایک بکری ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا گیا۔ آپؐ گھر میں تشریف لائے تو پوچھا بکری میں سے کیا باقی رہا؟ حضرت عائشہ نے عرض کیا مَابَقِیَ الّا کَتِفھُا ’’ایک شانے کے سوا کچھ نہیں بچا’’ فرمایا بقی کلّھا غیر کتفھا ’’ ایک شانہ کے سوا ساری بکری بچ گئی‘‘ یعنی جو کچھ خدا کی راہ میں صَرف ہوا وہی دراصل باقی رہ گیا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ کس صدقے کا اجر سب سے زیادہ  ہے ؟ فرمایا اَنْتَسَدَّ قَ وا نت صحیح شحیح تخشی الفقر و تأ مَلُ الغِنیٰ، ولا تُمْھِل حتّیٰ اذا بلغت الحلقوم قلت لفالان کذا ولفالن کذا وقد کان لفالن۔’’ یہ کہ تو صدقہ کرے اس حال میں کہ تو صحیح و تندرست ہو، مال کی کمی کے باعث اسے بچا کر رکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہو اور اسے کیس کام میں لگا کر زیادہ کما لینے کی امید رکھتا ہو۔ اس وقت کا انتظار نہ کر کہ جب جان نکلنے لگے تو تو کہے کہ یہ فلاں کو دیا جائے اور یہ لفاں کو۔ اس وقت تو یہ مال فلاں کو جانا ہی ہے ‘‘۔ (بخاری و مسلم)۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : یقول ابن اٰدم مالی مالی، وھل لک من مالک الا ما اکلت فافنیت، او لبست فابلیتَ، او تصدیقت فامضیت؟ وما سویٰ ذٰ لک فذا ھب و تارکہ للناس۔ ’’آدمی کہتا ہے میرا مال، میرا مال۔ حالانکہ تیرے مال میں سے تیرا حصہ اس کے سوا کیا ہے جو تو نے کھا کر ختم کر دیا، یا پہن کر پرانا کر دیا، یا صدقہ کر کے آگے بھیج دیا؟ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ تیرے ہاتھ سے جانے والا ہے اور تو اسے دوسروں کے لیے چھوڑ جانے والا ہے ‘‘ (مسلم)۔

۱۰۔ یہاں پھر جہاد میں مال خرچ کرنے کو ایمان کا لازمی تقاضا اور اخلاص فی الایمان کی ضروری علامت قرار دیا گیا ہے ۔ بالفاظ دیگر، گویا یہ فرمایا گیا ہے کہ حقیقی اور مخلص مومن وہی ہے جو ایسے موقع پر مال صرف کرنے سے جی نہ چرائے۔

۱۱۔ یعنی تم یہ غیر ایمانی روش اس حالت میں اختیار کر رہے ہو کہ اللہ کا رسولؐ خود تمہارے درمیان موجود ہے اور دعوت ایمانی تمہیں کسی دور دراز واسطے سے نہیں بلکہ براہ راست اللہ کے رسول کی زبان سے پہنچ رہی ہے ۔

۱۲۔ بعض مفسرین نے اس عہد سے مراد اللہ کی بندگی کا وہ عہد لیا ہے جو ابتدائے آفرینش میں آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی ذریت کو نکال کر لیا گیا تھا۔ اور بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد وہ عہد لیا ہے جو ہر انسان کی فطرت اور اس کی فطری عقل میں اللہ کی بندگی کے لیے موجود ہے ۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو وہ شعوری عہد ہے جو ہر مسلمان ایمان لا کر اپنے رب سے باندھتا ہے ۔ قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ اس عہد کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے :۔

وَاذکُرُوْانِعْمَۃَاللہِ عَلَیْکُمْ وَ مِیْثَاقَہُ الَّذِیْوَا ثَقَکُمْ بِہٖاِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاتَّقُواللہَ ؕ اِنَّ اللہَ عَلِیْم؍ٌ بَذاتِ الصُّدُورِ o (المائدہ۔ ۷)

یاد رکھو اس نعمت کو جو اللہ نے تم کو عطا کی ہے اور اس عہد و پیمان کو جو اللہ نے تم سے لیا ہے ، جبکہ تم نے کہا ’’ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی ’’ اور اللہ سے ڈرو اللہ دلوں کا حال جانتا ہے ۔

حدیث میں حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ:

بَا یَعْنَا رَسُوْل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم علی السمع و الطا عۃ فی النشاط  والکسل و علی النفقۃ فی العسر و الیسُر و علی الامر بالمعروف و النھی عن المنکر و علی ان نقول فی اللہ تعالیٰ و لا نخاف لَوْمَۃَ لَا ئمٍ (مسند احمد)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ ہم چستی اور سستی، ہر حال میں سمع و طاعت پر قائم رہیں گے ، خوشحالی اور تنگ حالی، دونوں حالتوں میں راہ خدا پر خرچ کریں گے ، نیکی کا حکم سین گے اور بدی سے منع کریں گے ، اللہ کی خاطر حق بات کہیں گے اور اس معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔

۱۳۔ اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ مال تمہارے پاس ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے ۔ ایک دن تمہیں لازماً اسے چھوڑ کر ہی جانا ہے  اور اللہ ہی اس کا وارث ہونے والا ہے ، پھر کیوں نہ اپنی زندگی میں اسے اپنے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں خرچ کر دو تاکہ اللہ کے ہاں اس کا اجر تمہارے لیے ثابت ہو جائے۔ نہ خرچ کرو گے تب بھی یہ اللہ ہی کے پاس واپس جا کر رہے گا، البتہ فرق یہ ہو گا کہ اس پر تم کسی اجر کے مستحق نہ ہو گے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہوئے تم کو کسی فقر اور تنگ دستی کا اندیشہ لاحق نہ ہونا چاہیے ، کیونکہ جس خدا کی خاطر تم اسے خرچ کرو گے وہ زمین و آسمان کے سارے خزانوں کا مال ہے ، اس کے پاس تمہیں دینے کو بس اتنا ہی کچھ نہ تھا جو اس نے آج تمہیں دے رکھا ہے ،بلکہ کل وہ تمہیں اس سے بہت زیادہ دے سکتا ہے یہی بات دوسری جگہ اس طرح فرمائی گئی ہے :

قُلْاِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الِّرزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَہٗ، وَمَآ اَنْفَقُتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ وَھُوَ خَیْرُ الرَّا زِقِیْنَo (سبا۔ ۳۹)۔   

اے نبیؐ، ان سے کہو کہ میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے ، اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس کی جگہ وہی مزید رزق تمہیں دیتا ہے اور وہ بہترین رازق ہے ۔

۱۴۔ یعنی اجر کے مستحق تو دونوں ہی ہیں ، لیکن ایک گروہ کا رتبہ دوسرے گروہ سے لازماً بلند تر ہے ، کیونکہ اس نے زیادہ سخت حالات میں اللہ تعالیٰ کی خاطر وہ خطرات مول لیے جو دوسرے گروہ کو در پیش نہ تھے ۔ اس نے ایسی حالت میں مال خرچ کیا جب دور دور کہیں یہ امکان نظر نہ آتا تھا کہ کبھی فتوحات سے اس خرچ کی تلافی ہو جائے گی، اور اس نے ایسے نازک دور میں کفار سے جنگ کی جب ہر وقت یہ اندیشہ تھا کہ دشمن غالب آ کر اسلام کا نام لینے والوں کو پیس ڈالیں گے ۔ مفسرین میں سے مجاہد، قَتَادہ اور زید بن اسلم کہتے ہیں کہ اس آیت میں جس چیز کے لیے لفظ ’’ فتح‘‘ استعمال کیا گیا ہے اس کا اطلاق فتح مکہ پر ہوتا ہے ، اور عامر شعبی کہتے ہیں کہ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے ۔ پہلے قول کو اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے ، اور دوسرے قول کی تائید میں حضرت ابو سعید خدری کی یہ روایت پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے صلح حدیبیہ کے زمانہ میں فرمایا، عنقریب ایسے لوگ آنے والے ہیں جن کے اعمال کو دیکھ کر تم لوگ اپنے اعمال کو حقیر سمجھو گے ، مگر لو کان لا حد ھم جبل من ذھب فانفقہ ما ادرک مد احد کم ولا نصیفہ۔ ’’ ان میں سے کسی کے پاس پہاڑ برابر بھی سونا ہو اور وہ سارا کا سارا خدا کی راہ میں خرچ کر دے تو وہ تمہارے دور طل بلکہ ایک رطل خرچ کرنے کے برابر بھی نہ پہنچ سکے گا‘‘ (ان جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، ابو تعیم اصفہانی)۔ نیز اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام احمدؒ نے حضرت انسؓ سے نقل کی ہے ۔ وہ فرمانے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت خالدؓ بن ولید اور حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ دوسران نزاع میں حضرت خالد نے حضرت عبد الرحمٰنؓ سے کہا ’’ تم لوگ اپنی پچھلی خدامت کی بنا پر ہم سے دوں کی لیتے ہو‘‘۔ یہ بات جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچی تو آپؐ نے فرمایا ’’ اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر تم لوگ احد کے برابر، یا پہاڑوں کے برابر سونا بھی خرچ کرو تو ان لوگوں کے اعمال کو نہ پہنچ سکو گے ’‘۔ اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے ، کیونکہ حضرت خالدؓ اسی صلح کے بعد ایمان لائے تھا اور فتح مکہ میں شریک تھے ۔ لیکن اس خاص موقع پر فتح سے مراد خواہ صلح حدیبیہ لی جائے یا فتح مکہ، بہر حال اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ درجات کا یہ فرق بس اسی ایک فتح پر ختم ہو گیا ہے ۔ بلکہ اصولاً اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب کبھی اسلام پر ایسا کوئی وقت آ جائے جس میں کفر اور کفار کا پلڑا بہت بھاری ہو اور بظاہر اسلام کے غلبہ کے آثار دور دور کہیں نظر نہ آتے ہوں ، اس وقت جو لوگ اسلام کی حمایت میں جانیں لڑائیں اور مال خرچ کریں ان کے مرتبے کو وہ لوگ نہیں پہنچ سکتے جو کفر و اسلام کی کشمکش  کا فیصلہ اسلام کے حق میں ہو جانے کے بعد قربانیاں دیں ۔

۱۵۔ یعنی اللہ جس کو جو اجر اور مرتبہ بھی دیتا ہے یہ دیکھ کر دیتا ہے کہ کس نے کن حالا ت میں کس جذبے کے ساتھ کیا عمل کیا ہے ۔ اس کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے ۔ وہ ہر ایک کا درجہ اور اس کے عمل کا اجر پوری باخبری کے ساتھ تعین کرتا ہے ۔

 

کون ہے جو اللہ کو قرض دے؟ اچھا قرض، تاکہ اللہ اسے کئی گُنا بڑھا کر واپس دے، اور اُس کے لیے بہترین اجر ہے ۱۶ اُس دن جبکہ تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور اُن کے آگے آگے  اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا۔ ۱۷ (ان سے کہا جائے گا کہ ) ’’آج بشارت ہے تمہارے لیے‘‘۔ جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ  رہیں گے یہی ہے بڑی کامیابی۔ اُس روز منافق مردوں اور عورتوں کا حال یہ ہو گا کہ وہ مومنوں  سے کہیں گے ذرا ہماری طرف دیکھو تاکہ ہم تمہارے نُور سے کچھ فائدہ اُٹھائیں، ۱۸ مگر ان سے کہا جائے گا  پیچھے ہٹ جاؤ، اپنا نور کہیں اور تلاش کرو۔ پھر ان کے درمیان  ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہو گا۔ اُس دروازے کے اندر رحمت ہو گی اور باہر عذاب۔ ۱۹ وہ مومنوں سے پکار پکار کر کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ ۲۰ مومن جواب دیں گے ہاں، مگر تم نے اپنے  آپ کو خود فتنے میں ڈالا، ۲۱ موقع پرستی کی، ۲۲ شک میں پڑے رہے، ۲۳ اور جھُوٹی توقعات تمہیں فریب دیتی رہیں، ۲۴ یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آگیا، اور آخر وقت تک وہ بڑا دھوکے باز ۲۵ تمہیں اللہ کے معاملہ میں دھوکا دیتا رہا۔لہذا آج نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا  اور نہ اُن لوگو ں سے جنہوں نے کھُلا کھُلا کُفر کیا تھا۔ ۲۶ تمہارا ٹھکانا جہنم ہے، وہی تمہاری خبر گیری کرنے والی ہے ۲۷ اور یہ بدترین انجام ہے۔
کیا ایما ن لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اُس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں ۲۸ اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدّت اُن پر گزر گئی تو اُن کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں؟ ۲۹ خوب جان لو کہ اللہ زمین کو اُس  کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے، ہم نے نشانیاں تم کو صاف صاف دکھا دی ہیں، شاید کہ تم عقل سے کام لو۔ ۳۰
مَردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات ۳۱ دینے والے ہیں اور جنہوں نے اللہ کو قرضِ حَسَن دیا ہے، اُن کو یقیناً کئی گُنا بڑھا کر دیا جائے گا اور ان کے لیے بہترین اجر ہے۔ اور جو لوگ اللہ اور اُس کے رسُولوں  پر ایمان لائے ہیں ۳۲ وہی اپنے رب کے نزدیک صِدّیق ۳۳ اور شہید ۳۴ ہیں،اُن کے لیے اُن کا اجر  اور اُن کا نُور ہے۔ ۳۵ اور جن لوگوں نے  کُفر کیا ہے اور ہماری آیات کو جھُٹلایا ہے وہ دوزخی ہیں۔ ؏۲

 

۱۶۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ آدمی اگر اس کے بخشے ہوئے مال کو اسی کی راہ میں صرف کرے تو اسے وہ اپنے ذمہ قرض قرار دیتا ہے ، بشرطیکہ وہ قرض حسن(اچھا قرض)ہو، یعنی خالص نیت کے ساتھ کسی ذاتی غرض کے بغیر دیا جائے، کسی قسم کی ریا کاری اور شہرت و ناموری کی طلب اس میں شامل نہ ہو، اسے دے کر کسی پر احسان نہ جتا یا جائے، اس کا دینے والا صرف اللہ کی رضا کے لیے دے اور اس کے سوا کسی کے اجر اور کسی کی خوشنودی پر نگاہ نہ رکھے ۔ اس قرض کے متعلق اللہ کے دو وعدے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ اس کو کئی بڑھا چڑھا کر واپس دے گا، دوسرے یہ کہ وہ اس پر اپنی طرف سے بہترین اجر بھی عطا فرمائے گا۔

حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اور حضورؐ کی زبان مبارک سے لگوں نے اس کو سنا تو حضرت ابو الد حداح انصاری نے عرض کیا یا رسول اللہ، کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض چاہتا ہے ؟ حضورؐ نے جواب دیا، ہاں ، اے ابو الدحداح۔ انہوں نے کہا، ذرا اپنا ہاتھ مجھے  دکھایئے۔ اپ نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا۔ انہوں نے آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا ’’ میں نے اپنے رب کو اپنا باغ قرض میں دے دیا۔ حضرت عبداللہ  بن مسعود فرماتے ہیں کہ اس باغ میں کھجور کے ۶۰۰ درخت تھے ، اسی میں ان کا کھر تھا، وہیں ان کے بال بچے رہتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بات کر رکے وہ سیدھے گھر پہنچے اور بیوی کو پکارا کر کہا  ‘’دحداح کی  ماں ، نکل آؤ، میں نے یہ باغ اپنے رب کو قرض دے دیا ہے ‘‘ وہ بولیں ’’ تم نے نفع کا سودا کیا دحداح کے باپ’’، اور اسی وقت اپنا سامان اور اپنے بچے لے کر باغ سے نکل گئیں (اب ابی حاتم)۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مخلص اہل ایمان کا طرز عمل اس وقت کیا تھا، اور اسی سے یہ بات بھی سمجھ میں آسکتی ہے کہ وہ کیسا قرض حسن ہے جسے کئی گنا بڑھا کر واپس دینے اور پھر اوپر سے اجر کریم عطا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے ۔

۱۷۔ اس آیت اور بعد والی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ میدان حشر میں تور صرف مومنین صالحین کے لیے مخصوص ہو گا،رہے کفار و منافقین اور فساق و فجار، تو وہ وہاں بھی اسی طرح تاریکی میں بھٹک رہے ہوں گے جس طرح دنیا میں بھٹکتے رہے تھے ۔ وہاں روشنی جو کچھ بھی ہو گی، صالح عقیدے اور صالح عمل کی ہو گی۔ ایمان کی صداقت اور سیرت و کردار کی پاکیزگی ہی نور میں تبدیل ہو جائے گی جس سے نیک بندوں کی شخصیت جگمگا اٹھے گی جس شخص کا عمل جتنا تابندہ ہو گا اس کے وجود کی روشنی اتنی ہی زیادہ تیز ہو گی اور جب وہ میدان حشر سے جنت کی طرف چلے گا تو اس کا نور اس کے آگے آگے  دوڑ رہا ہو گا۔ اس کی بہترین تشریح قتادہ کی وہ مرسل روایت ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’کسی کا نور اتنا تیز ہو گا کہ مدینہ سے عدن تک کی مسافت کے برابر فاصلے تم پہنچ رہا ہو گا، اور کسی کو نور مدینہ سے صنعاء تک، اور کسی کا اس سے کم، یہاں تک کہ کوئی مومن ایسا بھی ہو گا جس کا نور اس کے قدموں سے آگے نہ بڑھے گا’’(ابن جریر)۔ بالفاظ دیگر جو کی ذات سے دنیا میں جتنی بھلائی پھیلی ہو گی اس کا نور اتنا ہی تیز ہو گا، اور جہاں جہاں تک دنیا میں اس کی بھلائی پہنچی ہو گی میدان حشر میں اتنی ہی مسافت تک اس کے نور کی شعاعیں دوڑ رہی ہوں گی۔

یہاں ایک سوال آدمی کے ذہن میں کھٹک پیدا کر سکتا ہے ۔ وہ یہ کہ آگے آ گے نور کا دوڑنا تو سمجھ میں آتا ہے ، مگر نور کا سرف دائیں جانب دوڑنا کیا معنی؟ کیا ان کے بائیں جانب تاریکی ہو گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایک شخص اپنے دائیں ہاتھ پر روشنی لیے ہوئے چل رہا ہو تو اس سے روشن تو بائیں جانت بھی ہو گی مگر امر واقعہ یہی ہو گا کہ روشنی اس کے دائیں ہاتھ پر ہے ۔ اس بات کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ حدیث کرتی ہے جسے حضرت ابوذر اور ابوالدرداء نے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا اَعر فہم بنورھم الذی یسعیٰ بین ایدیھم و عب اَیمانہم و عن شمائلہم ’’ میں اپنی امت کے صالحین کو وہاں ان کے اس نور سے پہچانوں گا جو ان کے آگے اور ان کے دائیں اور بائیں دوڑ رہا ہو گا ‘‘ (حاکم،ابن ابی حاتم،ابن مردویہ)۔

۱۸۔ مطلب  یہ ہے کہ اہل ایمان جب جنت کی طرف جا رہے  ہوں گے تو روشنی ان کے آگے ہو گی اور پیچھے منافقین اندھیرے میں ٹھوکریں کھا رہے ہوں گے ۔ اس وقت وہ ان اہل ایمان کو جو دنیا میں ان کے ساتھ ایک ہی مسلم معاشرے میں رہتے تھے ، پکار پکار کر کہیں گے کہ ذرا ہماری طرف پلٹ کر دیکھو تاکہ ہمیں بھی کچھ روشنی مل جائے۔

۱۹۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل جنت اس دروازے سے جنت میں داخل ہو جائیں گے اور دروازہ بند کر دیا جائیگا۔ دروازے کے ایک طرف جنت کی نعمتیں ہوں گی، اور دوسری طرف دوزخ کا عذاب۔ منافقین کے لیے اس حد فاصل کو پار کرنا ممکن نہ ہو گا جو ان کے اور جنت کے درمیان حائل ہو گی۔

۲۰۔ یعنی کیا ہم تمہارے ساتھ ایک ہی مسلم معاشرے میں شامل نہ تھے ؟ کیا ہم کلمہ گو نہ تھے ؟ کیا تمہاری طرح ہم بھی نمازیں نہ پڑھتے تھے ؟ روزے نہ رکھتے تھے ؟ حج اور زکوٰۃ ادا نہ کرتے تھے ؟ کیا تمہاری مجلسوں میں ہم شریک نہ ہوتے تھے ؟ تمہارے ساتھ ہمارے شادی بیاہ اور رشتہ داری کے تعلقات نہ تھے ؟ پھر آج ہمارے اور تمہارے درمیان یہ جدائی کیسی پڑ گئی؟

۲۱۔ یعنی مسلمان ہو کر بھی تم مخلص مسلمان نہ بنے ، ایمان اور کفر کے درمیان لٹکتے رہے ، کفر اور کفار سے تمہاری دلچسپیاں کبھی ختم نہ ہوئیں ، اور اسلام سے تم نے کبھی اپنے آپ کو پوری طرح وابستہ نہ کیا۔

۲۲۔ اصل الفاظ ہیں تَرَبَّصْتُمْ۔ تَرَبُّص عربی زبان میں انتظار کرنے اور موقع کی تلاش میں ٹھیرے رہنے کو کہتے ہیں ۔ جب کوئی شخص دو راستوں میں سے کسی ایک پر جانے کا قطعی فیصلہ نہ کرے ، بلکہ اس فکر میں کھڑا ہو کہ جدھر جانا مفید ہوتا نظر آئے اسی طرف چل پڑے ، تو کہا جائے گا کہ وہ تربص میں مبتلا ہے ۔ منافقین نے کفر و اسلام کی کشمکش کے اس نازک دور میں یہی رویہ اختیار کر رکھا تھا۔ وہ نہ کھل کر کفر  کا ساتھ دے رہے تھے ، نہ پورے اطمینان کے ساتھ اپنی طاقت اسلام کی نصرت و حمایت میں صرف کر رہے تھے ۔ بس اپنی جگہ بیٹھے یہ دیکھ رہے تھے کہ اس قوت آزمائی میں آخر کار پلڑا کدھر جھکتا ہے ، تاکہ اسلام کامیاب ہوتا نظر آئے تو اس کی طرف جھک جائیں اور اس وقت مسلمانوں کے ساتھ کلمہ گوئی کا تعلق ان کے کام آئے، اور کفر کو غلبہ حاصل ہو تو اس کے حامیوں سے جا ملیں اور اسلام کی طرف سے جنگ میں کسی قسم کا حصہ نہ لینا اس وقت ان کے حق میں مفید ثابت ہو۔

۲۳۔ اس سے مراد مختلف قسم کے شکوک میں جو ایک منافق کو لاحق ہوتے ہیں ، اور وہی اس کی منافقت کا اصل سبب ہوا کرتے ہیں ۔ اسے خدا کی ہستی میں شک ہوتا ہے ۔ قرآن کے کتاب اللہ ہونے میں شک ہوتا ہے ۔ آخرت اور وہاں کی باز پرس اور جزا و سزا میں شک ہوتا ہے اور اس امر میں شک ہوتا ہے کہ حق اور باطل کا یہ جھگڑا واقعی کوئی حقیقت بھی رکھتا ہے یا یہ سب محض ڈھکوسلے ہیں اور اصل چیز بس یہ ہے کہ خوش باش دمے کہ زندگانی این است۔ کوئی شخص جب ایک ان شکوک میں مبتلا نہ ہو وہ کبھی منافق نہیں ہو سکتا۔

۲۴۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک کہ تم کو موت آ گئی اور مرتے دم تک تم اس فریب سے نہ نکلے ۔ دوسرے یہ کہ اسلام کو غلبہ نصیب ہو گیا اور تم تماشا دیکھتے رہ گئے ۔

۲۵۔ مراد ہے شیطان۔

۲۶۔ یہاں اس امر کی تصریح ہے کہ آخرت میں منافق کا انجام وہی ہو گا جو کافر کا ہو گا۔

۲۷۔ اصل الفاظ میں ھِیَ مَوْلَا کُمْ، ’’ دوزخ ہی تمہاری مولیٰ ہے ‘‘ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہی تمہارے لیے موزوں جگہ ہے ۔ دوسرا یہ کہ اللہ کو تو تم نے اپنا مولیٰ بنایا نہیں کہ وہ تمہاری خبر گیری کرے ، اب تو دوزخ ہی تمہاری مولیٰ ہے ، وہی تمہاری خوب خبر گیری کرے گی۔

۲۸۔ یہاں پھر ’’ ایمان لانے والوں ‘‘ کے الفاظ تو عام ہیں مگر ان سے مراد تمام مسلمان نہیں بلکہ مسلمانوں کا وہ خاص گروہ ہے جو ایمان کا اقرار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا تھا اور اس کے باوجود اسلام کے درد سے اس کا دل خالی تھا۔ آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ کفر کی تمام طاقتیں اسلام کو مٹا دینے پر تُلی ہوئی ہیں ، چاروں طرف سے انہوں نے اہل ایمان کی مٹھی بھر جماعت پر نرغہ کر رکھا ہے ، عرب کی سر زمین میں جگہ جگہ مسلمان تختہ مشق ستم بنائے جا رہے ہیں ، ملک کے گوشے گوشے سے مظلوم مسلمان سخت بے سر و سامانی کی حالت میں پناہ لینے کے لیے مدینے کی طرف بھاگے چلے آ رہے ہیں ، مخلص مسلمانوں کی کمر ان مظلوموں کو سہارا دیتے دیتے ٹوٹی جا رہی ہے ، اور دشمنوں کے مقابلے میں بھی یہی مخلص مومن سر بکف ہیں ، مگر یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ایمان کا دعویٰ کرنے والا یہ گروہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔ اس پر ان لوگوں کو شرم دلائی جا رہی ہے کہ تم کیسے ایمان لانے والے ہو؟ اسلام کے لیے حالات نزاکت کی اس حد کو پہنچ چکے ہیں ، کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ اللہ کا ذکر سن کر تمہارے دل پگھلیں اور اس کے دین کے لیے تمہارے دلوں میں ایثار و قربانی اور سر فروشی کا جذبہ پیدا ہو؟ کیا ایمان لانے والے ایسے ہی ہوتے ہیں کہ اللہ کے دین پر برا وقت آئے اور وہ اس کی ذرا سی ٹیس بھی اپنے دل میں محسوس نہ کریں ؟ اللہ کے نام پر انہیں پکارا جائے اور وہ اپنی جگہ سے ہلیں تک نہیں ؟ اللہ اپنی نازل کردہ کتاب میں کود چندے کی اپیل کرے ، اور اسے اپنے ذمہ قرض قرار دے ، اور صاف صاف یہ بھی سنا دے کہ ان حالات میں جو اپنے مال کو میرے دین سے عزیز تر رکھے گا وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہو گا، اس پر بھی ان کے دل نہ خدا کے خوف سے کانپیں ، نہ اس کے حکم کے آگے جھکیں ؟

۲۹۔ یعنی یہود و نصاریٰ تو اپنے انبیاء کے سینکڑوں برس بعد آج تمہیں اس بے حسی اور روح کی مردنی اور اخلاق کی پستی میں مبتلا نظر آ رہے ہیں ۔ کیا تم اتنے گئے گزرے ہو کہ ابھی رسول تمہارے سامنے موجود ہے ، خدا کی کتاب نازل ہو رہی ہے ، تمہیں ایمان لائے کچھ زیادہ زمانہ بھی نہیں گزرا ہے ، اور ابھی سے تمہارا حال وہ ہو رہا ہے جو صدیوں تک خدا کے دین اور اس کی آیات سے کھیلتے رہنے کے بعد یہود و نصاریٰ کا ہوا ہے ؟

۳۰۔ یہاں جس مناسبت سے یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر نبوت اور کتاب کے نزول کو بارش کی برکات سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ انسانیت پر اس کے وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو زین پر بارش کے ہوا کرتے ہیں ۔ جس طرح مردہ پڑی ہوئی زمین بار ان رحمت کا ایک چھینٹا پڑتے ہی لہلہا اٹھتی ہے ، اسی طرح جس ملک میں اللہ کی رحمت سے ایک نبی مبعوث ہوتا ہے اور وحی و کتا ب کا نزول شروع ہوتا ہے وہاں مری ہوئی انسانیت یکایک جی اٹھتی ہے ۔ اس کے وہ جوہر کھلنے لگتے ہیں جنہیں زمانہ پائے دراز سے جاہلیت نے پیوند خاک کر رکھا تھا۔ اس کے اندر سے اخلاق فاضلہ کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں اور خیرات و حسنات کے گلزار لہلہانے لگتے ہیں ۔ اس حقیقت کی طرف جس کی طرف جس غرض کے لیے یہاں اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہ کہ ضعیف الایمان مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں اور وہ اپنی حالت پر غور کریں ۔ نبوت اور وحی کے بارانِ رحمت سے انسانیت جس شان سے از سر نو زندہ ہو رہی تھی اور جس طرح اس کا دامن برکات سے مالا مال ہو رہا تھا وہ ان کے لیے کوئی دور کی داستان نہ تھی۔ وہ خود اپنی آنکھوں سے صحابہ کرامؓ کے پاکیزہ معاشرے میں اس کا مشاہدہ کر رہے تھے ۔ رات دن اس کا تجربہ ان کو ہو رہا تھا۔ جاہلیت بھی اپنے تمام مقاصد کے ساتھ ان کے سامنے موجود تھی، اور اسلام سے پیدا ہونے والے محاسن بھی ان کے مقابلے میں اپنی پوری بہار دکھا رہے تھے ۔ اس لیے ان کو تفصیل کے ساتھ یہ باتیں بتانے کی کوئی حاجت نہ تھی۔ بس یہ اشارہ کر دینا کافی تھا کہ مردہ زمین کو اللہ اپنے باران رحمت سے کس طرح زندگی بخشتا ہے ، اس کی نشانیاں تم کو صاف صاف دکھا دی گئی ہیں ، اب تم خود عقل سے کام لے کر اپنی حالت پر غور کر لو کہ اس نعمت سے تم کیا فائدہ اٹھا رہے ہو۔

۳۱۔ صَدَقَہ اردو زبان میں تو بہت ہی بڑے معنوں میں بولا جاتا ہے ، مگر اسلام کی اصطلاح میں یہ اس عطئے کو کہتے ہیں جو سچے دل اور خالص نیت کے ساتھ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے دیا جائے، جس میں کوئی ریا کاری نہ ہو، کسی پر احسان نہ جتایا جائے، دینے والا صرف اس لیے دے کہ وہ اپنے رب کے  لیے عبودیت کا سچا جذبہ رکھتا ہے ۔ یہ لفظ صِدق سے ماخوذ ہے اس لیے صداقت  عین اس کی حقیقت میں شامل ہے ۔ کوئی عطیہ اور کوئی طرف مال اس وقت تک صدقہ نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تہہ میں انفاق فی سبیل اللہ کا خالص اور بے کھوٹ جذبہ موجود نہ ہو۔

۳۲۔ یہاں ایمان لانے والوں سے مراد وہ صادق الامان لوگ ہیں جن کا طرز عمل جھوٹے مدعیان ایمان اور ضعف الایمان لوگوں سے بالکل مختلف تھا۔ جو اس وقت ایک دوسرے سے بڑھ کر مالی قربانیاں دے رہے تھے اور اللہ کے دین کی خاطر جانیں لڑا رہے تھے ۔

۳۳۔ یہ صدق کا مبالغہ ہے ۔ صادق سچا، اور صدیق نہایت سچا۔ مگر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ صدق محض سچے اور مطابق حقیقت قول کو نہیں کہتے بلکہ اس کا اطلاق صرف اس قول پر ہوتا ہے جو بجائے خود بھی سچا ہو اور جس کا قائل ہی سچے دل سے اس حقیقت کو مانتا ہو جسے وہ زبان سے کہہ رہا ہے ۔ مثلاً ایک شخص اگر کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں ، تو یہ بات بجائے خود عین حقیقت کے مطابق ہے ، کیونکہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں ، لیکن وہ شخص اپنے اس قول میں صادق صرف اسی وقت کہا جائے گا جبکہ اس کا اپنا عقیدہ بھی یہی ہو کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ لہٰذا صدق کے لیے ضروری ہے کہ قول کی مطابقت حقیقت کے ساتھ بھی ہو اور قائل کے بغیر کے ساتھ بھی۔ اسی طرح صدق کے مفہوم میں وفا اور خلوص اور عملی راستبازی بھی شامل ہے ۔ صادق الوعد (وعدے کا سچا) اس شخص کو کہیں گے جو عملاً اپنا وعدہ پورا کرتا ہو اور کبھی اس کی خلاف ورزی نہ کرتا ہو۔ صدیق (سچا دوست) اسی کو کہا جائے گا جس نے آزمائش کے مواقع پر دوستی کا حق ادا کیا ہو اور کبھی آدمی کو اس سے بے وفائی تجربہ نہ ہوا ہو۔ جنگ میں صادق فی القتال (سچا سپاہی) صرف وہی شخص کہلائے گا جو جان توڑ کر لڑا ہو اور جس نے اپنے عمل سے اپنی بہادری ثابت کر دی ہو۔ پس صدق کی حقیقت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ قائل کا عمل اس کے قول سے مطابقت رکھتا ہو۔ قول کے خلاف عمل کرنے والا صادق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی بنا پر تو آپ اس شخص کو جھوٹا واعظ کہتے ہیں جو کہے کچھ اور کرے کچھ۔ اب غور کرنا چاہیے کہ یہ تعریف جب صدق اور صادق کی ہے تو مبالغہ کے صیغہ میں کسی کو صدیق کہنے کا مطلب کیا ہو گا۔ اس کے معنی لازماً ایسے راستباز آدمی کے ہیں جس میں کوئی کھوٹ نہ ہو، جو کبھی حق اور راستی سے نہ ہٹا ہو، جس سے یہ توقع ہی نہ کی جا سکتی ہو کہ وہ کبھی اپنے ضمیر کے خلاف کوئی بات کہے گا۔ جس نے کسی بات کو مانا ہو تو پورے خلوص کے ساتھ مانا ہو، اس کی وفاداری کا حق ادا کیا ہو اور اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہو کہ وہ فی لواقع ویسا ہی ماننے والا ہے جیسا ایک ماننے والے کو ہونا چاہیے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، النساء، حاشیہ ۹۹)۔

۳۴۔ اس آیت کی تفسیر میں اکابر مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ اب عباسؓ، مسروق، ضحاک مقاتل بن حیان وغیرہ کہتے ہیں کہ اُلیٰٓئِکَ ھُمُ الصِّدِّ یْقُوْنَ پر ایک جملہ ختم ہو گیا۔ اس کے بعد وَ الشُّہَدَآءُ عِنْدِرَبِّھِمْ لَھُمْ اَجْرھُُمْ وَنُوْدھُُمْ ایک الگ مستقل جملہ ہے ۔ اس تفسیر کے لحاظ سے آیت کا ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی صدیق ہیں ۔ اور شہداء کے لیے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر اور ان کا نور ہے ‘‘ بخلاف اس کے مجاہد اور متعدد دوسرے مفسرین اس پوری عبارت کو ایک ہی جملہ مانتے ہیں اور ان کی تفسیر کے لحاظ سے ترجمہ وہ ہو گا جو اوپر ہم نے متن میں کیا ہے ۔ دونوں تفسیروں میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ پہلے گروہ نے شہید کو مقتول فی سبیل اللہ کے معنی میں لیا ہے ،اور یہ دیکھ کر کہ ہر مومن اس معنی میں شہید نہیں ہوتا انہوں نے وَالشّھَُدَآءُ عِنْدَ رَبِّھِمْ کو ایک الگ جملہ قرار دے دیا ہے ۔ مگر دوسرا گروہ شہید کو مقتول فی سبیل اللہ کے معنی میں نہیں بلکہ حق کی گواہی دینے والے کے معنی میں لیتا ہے اور اس لحاظ سے ہر مومن شہید ہے ۔ ہمارے نزدیک یہی دوسری تفسیر قابل ترجیح ہے اور قرآن و حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے :

وَکَذٰ لِکَ جَعَلْنٰکُمْاُ مَّۃً وَّ سَطاً  لِّتَکُوْ نُوْا شھَُدَ آءَ عَلَیالنَّا سِ وَیَکُوْ نَ الرَّسُوْ لُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدا۔ (البقرہ۔۱۴۳)

اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک متوسط امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔

ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُشَھِیْداً عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شَھَدَآءَ عَلَ النَّاسِ (لحج۔۸۷ )

اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس قرآن میں بھی (تمہارا یہی نام ہے ) تاکہ رسول تم گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔

حدیث میں حضرت بَراء بن عازِب کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو انہوں نے یہ فرماتے سنا مؤمنوا امَّتی شھدآء، ’’ میری امت کے مومن شہید ہیں ،‘‘ پھر حضورؐ نے سورہ حدید کی یہی آیت تلاوت فرمائی (ابن جریر )۔ ابن مردویہ نے اسی معنی میں حضرت ابوالدرداء سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : من فریدینہ من ارضٍ مخافۃ الفتنۃ علیٰ نفسہٖ و دینہٖ کتب عنداللہ صدیقا فاذامات قبضہ اللہ شھیداً ثم تلا ھٰذاہ الایٰۃ۔ ’’ جو شخص اپنی جان اور اپنے دین کو فتنے سے بچانے کے لیے کسی سرزمین سے نکل جائے وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے اور جب وہ مرتا ہے تو اللہ شہید کی حیثیت سے اس کی روح قبض فرماتا ہے ،’’ پر یہ بات ارشاد فرمانے کے بعد حضورؐ نے یہی آیت پڑھی (شہادت کے اس مفہوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ ۱۴۴۔ النساء حاشیہ ۹۹۔ جلد چہارم، الاحزاب، حاشیہ ۸۲)۔

۳۵۔ یعنی ان میں سے ہر ایک جس مرتبے کے اجر اور جس درجے کے نور کا مستحق ہو گا وہ اس کو ملے گا۔ وہ اپنا اپنا اجر اور اپنا اپنا نور پائیں گے ۔ ان کے لیے ان کا حصہ آج ہی سے محفوظ ہے ۔

 

 

خُوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر  جتانا اور مال و اولاد میں ایک دُوسرے سے بڑھ  جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہو گئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے۔ پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ  وہ زرد ہو گئی ۔ پھر وہ بھُس بن کر رہ جاتی ہے ۔ اِس  کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے ۔ دنیا کی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹّی کے سوا کچھ نہیں۔ ۳۶ دَوڑو اور ایک دُوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو ۳۷ اپنے رب کی مغفرت اور اُس جنّت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے، ۳۸ جو مہیّا کی گئی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ اوراُس کے رسُولوں پر ایمان لائے ہوں۔یہ اللہ کا فضل ہے، جسےچاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
کوئی مصیبت  ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو  پیدا کرنے سے پہلے ۳۹ ایک کتاب میں لکھ نہ رکھا ہو۔ ۴۰ ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے۔ ۴۱ ( یہ سب کچھ اس لیے ہے) تاکہ جو کچھ بھی نقصان تمہیں ہو اس پر تم دل شکستہ نہ ہو اور جو کچھ اللہ تمہیں عطا فرمائے اس پر پھول نہ جاؤ ۴۲۔ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر  جتاتے ہیں، جو خود بُخل  کرتے ہیں اور دوسروں  کو بُخل کرنے پر اُکساتے ہیں۔ ۴۳ اب اگر کوئی رُوگردانی کرتا ہے تو اللہ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے۔ ۴۴
ہم نے اپنے رسُولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، ۴۵ اور لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔ ۴۶ یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہو جائے کہ کون اُس کو دیکھے بغیر اُس کی اور اُس کے رسُولوں کی مدد کرتا ہے۔ یقیناً اللہ بڑی قوّت والا اور زبردست ہے۔ ۴۷ ؏ ۳

۳۶۔ اس مضمون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے قرآن مجید کے حسب ذیل مقامات کو نگاہ میں رکھنا چاہیے ۔ سورہ آل عمران، آیات ۱۴۔۱۵۔ یونس، ۲۴۔۲۵۔ ابراہیم، ۱۸۔ الکہف، ۴۵۔۴۶۔ النور، ۳۹۔ اِن سب مقامات پر جو بات انسان کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ دنیا کی زندگی دراصل ایک عارضی زندگی ہے ۔ یہاں کی بہار بھی عارضی ہے اور خزاں بھی عارضی۔ دل بہلانے کا سامان یہاں بہت کچھ ہے ، مگر در حقیقت وہ نہایت حقیر اور چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جنہیں اپنی کم ظرفی کی وجہ سے آدمی بڑی چیز سمجھتا ہے اور اس دھوکے میں پڑ جاتا ہے کہ انہی کو پا لینا گویا کامیابی کے منتہیٰ تک پہنچ جانا ہے ۔ حالانکہ جو بڑے سے بڑے فائدے اور لطف و لذت کے سامان بھی یہاں حاصل ہونے ممکن ہیں وہ بہت حقیر اور صرف چند سال کی حیات مستعار تک محدود ہیں ، اور ان کا حال بھی یہ ہے کہ تقدیر کی ایک ہی گردش خود اسی دنیا میں ان سب پر جھاڑو پھیر دینے کے لیے کافی ہے ۔ اس کے بر عکس آخرت کی زندگی ایک عظیم اور ابدی زندگی ہے ۔ وہاں کے فائدے بھی عظیم اور مستقل ہیں اور نقصان بھی عظیم اور مستقل۔ کسی نے اگر وہاں اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی پالی تو اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہ نعمت نصیب ہو گئی جس کے سامنے دنیا بھر کی دولت و حکومت بھی ہیچ ہے ۔ اور جو وہاں خدا کے عذاب میں گرفتار ہو گیا اس نے اگر دنیا میں وہ سب کچھ بھی پا لیا ہو جسے وہ اپنے نزدیک بڑی چیز سمجھتا تھا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ وہ بڑے خسارے کا سودا کر کے آیا ہے ۔

۳۷۔ اصل میں لفظ سَا بِقُوْا  استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم محض ’’دوڑو‘‘ کے لفظ سے ادا نہیں ہوتا۔ مسابقت کے معنی مقابلے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرنے کے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ تم دنیاکی دولت اور لذتیں اور فائدے سمیٹنے میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی جو کوشش کر رہے ہو اسے چھوڑ کر اس چیز کو ہدف مقصود بناؤ اور اس کی طرف دوڑنے میں بازی جیت لے جانے کی کوشش کرو۔

۳۸۔ اصل الفاظ ہیں عَرْ ضھَُا کَعَرْضِ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ۔ بعض مفسرین نے عرض کو چوڑائی کے معنی میں لیا ہے ۔ لیکن دراصل یہاں یہ لفظ وسعت و پہنائی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ عربی زبان میں لفظ عرض صرف چوڑائی ہی کے لیے نہیں بولا جاتا جو طول کا مد مقابل ہے ، بلکہ اسے مجرد وسعت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ، جیسا کہ ایک دوسری جگہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے فَذُوْ دُعَآ ءٍ عَرِیْضٍ، ’’ انسان پھر لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے ‘‘ (حٰم السجدہ۔۵۱)۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اس ارشاد سے مقصود جنت کا رقبہ بتانا نہیں ہے بلکہ اس کی وسعت کا تصور دلانا ہے ۔ یہاں اس کی وسعت آسمان و زمین جیسی بتائی گئی ہے ، اور سورہ آل عمران میں فرمایا گیا ہے سَرِعُوْآ اِلیٰ مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضھَُا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقَیْنَ (آیت۔ ۱۳۳)۔’’دوڑو اپنے رب کی مغفرت اور اس مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت ساری کائنات ہے ، جو مہیا کی گئی ہے متقی لوگوں کے لیے ‘‘۔ ان دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھنے سے کچھ ایسا تصور ذہن میں آتا ہے کہ جنت میں ایک انسان کو جو باغ اور محلات ملیں گے وہ تو صرف اس کے قیام کے لیے ہوں گے ، مگر در حقیقت پوری کائنات اس کی سیر گاہ ہو گی۔ کہیں وہ بند نہ ہو گا۔ وہاں اس کا حال اس دنیا کی طرح نہ ہو گا کہ چاند جیسے قریب ترین سیارے تک پہنچنے کے لیے بھی وہ برسوں پاپڑ بیلتا رہا اور اس ذرا سے سفر کی مشکلات کو رفع کرنے میں اسے بے تحاشا وسائل صرف کرنے پڑے ۔ وہاں ساری کائنات اس کے لیے کھلی ہو گی، جو کچھ چاہے گا پنی جگہ سے بیٹھے بیٹھے دیکھ لے گا اور جہاں چاہے گا بے تکلف جا سکے گا۔

۳۹۔ ’’اس کو‘‘ کا شارہ مصیبت کی طرف بھی ہو سکتا ہے ، زمین کی طرف بھی، نفس کی طرف بھی، اور فحوائے کلام کے لحاظ سے مخلوقات کی طرف بھی۔

۴۰۔ کتاب سے مراد ہے نوشتہ تقدیر۔

۴۱۔ یعنی اپنی مخلوقات میں سے ایک ایک کی تقدیر پہلے سے لکھ دینا اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔

۴۲ ۔ اس سلسلہ بیان میں یہ بات جس غرض کے لیے فرمائی گئی ہے اسے سمجھنے کے لیے ان حالات کو نگاہ میں لکھنا  چاہیے جو اس سورت کے نزول کے وقت اہل ایمان کو پیش آ رہے تھے ۔ ہر وقت دشمنوں کے حملے کا خطرہ، پے در پے لڑائیاں دائماً  محاصرہ کی سی کیفیت، کفار کے معاشی مقاطعہ کی وجہ سے سخت بد حالی، عرب کے گوشے گوشے میں ایمان لانے والوں پر کفار کا ظلم و ستم، یہ کیفیات تھیں جن سے مسلمان اس وقت گزر رہے تھے ۔ کفار ان کو مسلمانوں کے مخذول اور راندۂ درگاہ ہونے کی دلیل قرار دیتے تھے ۔ منافقین انہیں اپنے شکوک و شبہات کی تائید میں استعمال کرتے تھے ۔ اور مخلص اہل ایمان اگر چہ بڑی ثابت قدمی کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کر رہے تھے ، مگر بعض اوقات مصائب کا ہجوم ان کے لیے بھی انتہائی صبر آزما ہو جاتا تھا۔ اس پر مسلمانوں کو تسلی دینے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ تم پر کوئی مصیبت بھی معاذاللہ تمہارے رب کی بے خبری میں نازل نہیں ہو گئی ہے ۔ جو کچھ پیش آ رہا ہے ، یہ سب اللہ کی طے شدہ اسکیم کے مطابق ہے جو پہلے سے اس کے دفتر میں لکھی ہوئی موجود ہے ۔ اور ان حالات سے تمہیں اس لیے گزارا جا رہا ہے کہ تمہاری تربیت پیش نظر ہے ۔ جو کار عظیم اللہ تعالیٰ تم سے لینا چاہتا ہے اس کے لیے یہ تربیت  ضروری ہے ۔ اس سے گزارے بغیر تمہیں کامیابی کی منزل پر پہنچا دیا جائے تو تمہاری سیرت میں وہ خامیاں باقی رہ جائیں گی جن کی بدولت نہ تم عظمتو اقتدار کی ثقیل خوراک ہضم کر سکو گے اور نہ باطل کی طوفان خیز موجوں کے تھپیڑے سہہ سکو گے ۔

۴۳۔ یہ اشارہ ہے اس سیرت کی طرف جو خود مسلم معاشرے کے منافقین میں اس وقت سب کو نظر آ رہی تھی۔ ظاہری اقرار ایمان کے لحاظ سے ان میں اور مخلص مسلمانوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ لیکن اخلاص کے فقدان کی وجہ سے وہ اس تربیت میں شامل نہ ہوئے تھے جو مخلصین کو دی جا رہی تھی، اس لیے ان کا حال یہ تھا کہ جو ذرا سی خوشحالی اور مشیخت ان کو عرب کے ایک معمولی قصبے میں میسر آئی ہوئی تھی وہی ان کے چھوٹے سے ظرف کو پھلائے دے رہی تھی، اسی پر وہ پھٹے پڑتے تھے ، اور دل کی تنگی اس درجے کی تھی کہ جس خدا پر ایمان لانے اور جس رسول کے پیرو ہونے اور جس دین کو ماننے کا دعویٰ کرتے تھے اس کے لیے خود ایک پیشہ تو کیا دیتے ، دوسرے دینے والوں کو بھی یہ کہہ کہہ کر روکتے تھے کہ کیوں اپنا پیسہ اس بھاڑ میں جھونک رہے ہو۔ ظاہر بات ہے کہ اگر مصائب کی بھٹی گرم نہ کی جاتی تو اس کھوٹے مال کو، جو اللہ کے کسی کام کا نہ تھا، زر خالص سے الگ نہ کیا جا سکتا تھا، اور اس کو الگ کیے بغیر کچے پکے مسلمانوں کی ایک مخلوط بھیڑ کو دنیا کی امامت کا وہ منصب عظیم نہ سونپا جا سکتا تھا جس کی عظیم الشان برکات کا مشاہدہ آ کر کار دنیا نے خلافت راشدہ میں کیا۔

۴۴۔ یعنی یہ کلمات نصیحت سننے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اللہ اور اس کے دین کے لیے خلوص، فرمانبرداری اور ایثار و قربانی کا طریقہ اختیار نہیں کرتا اور اپنی اسی کج رہی پر اڑا رہنا چاہتا ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے ، تو اللہ کو اس کی کچھ پروا نہیں ۔ وہ غنی ہے ، اس کی کوئی حاجت ان لوگوں سے اٹکی ہوئی نہیں ہے ۔ اور وہ ستو وہ صفات ہے ، اس کے ہاں اچھی صفات رکھنے والے لوگ ہی مقبول ہو سکتے ہیں ، بد کردار لوگ اس کی نگاہ التفات کے مستحق نہیں ہو سکتے ۔

۴۵۔ اس مختصر سے فقرے میں انبیاء علیہم السلام کے مشن کا پورا لب لباب بیان کر دیا گیا ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں خدا کے جتنے رسول بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے وہ سب تین چیزیں لے کر آئے تھے :

(۱) بینات، یعنی کھلی کھلی نشانیاں جو واضح کر رہی تھیں کہ یہ واقعی اللہ کے رسول ہیں ، بنے ہوئے لوگ نہیں ہیں ۔ روشن دلائل جو اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بالکل کافی تھے کہ جس چیز کو وہ حق کہہ رہے ہیں وہ واقعی حق ہے اور جس چیز کو وہ باطل قرار دے رہے ہیں وہ واقعی باطل ہے ۔ واضح ہدایات جن میں کسی اشتباہ کے بغیر صاف صاف بتا دیا گیا تھا کہ عقائد، اخلاق، عبادات اور معاملات میں لوگوں کے لیے راہ راست کیا ہے جسے وہ اختیار کریں اور غلط راستے کون سے ہیں جن سے وہ اجتناب کریں ۔

(۲) کتاب، جس میں وہ ساری تعلیمات لکھ دی گئی تھیں جو انسان کی ہدایت کے لیے درکار تھیں تاکہ لوگ رہنمائی کے لیے اس کی طرف رجوع کر سکیں ۔

(۳) میزان، یعنی وہ معیار حق و باطل جو ٹھیک ٹھیک ترازو کی تول تول کر یہ بتا دے کہ افکار، اخلاق اور معاملات میں افراط و تفریط کی مختلف انتہاؤں کے درمیان انصاف کی بات کیا ہے ۔

ان تین چیزوں کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کو جس مقصد کے لیے بھیجا گیا وہ یہ تھا کہ دنیا میں انسان کا رویہ اور انسانی زندگی کا نظام، فرداً  فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی، عدل پر قائم ہو۔ ایک طرف ہر انسان اپنے خدا کے حقوق، اپنے نفس کے حقوق اور ان تمام بندگان خدا کے حقوق، جن سے اس کو کسی طور پر سابقہ پیش آتا ہے ، ٹھیک ٹھیک جان لے اور پورے انصاف کے ساتھ ان کو ادا کرے ۔ اور دوسری طرف اجتماعی زندگی کا نظام ایسے اصولوں پر تعمیر کیا جائے جن سے معاشرے میں کسی نوعیت کا ظلم باقی نہ رہے ، تمدن و تہذیب کا ہر پہلو افراط و تفریط سے محفوظ ہو، حیات اجتماعی کے تمام شعبوں میں صحیح صحیح توازن قائم ہو، اور معاشرے کے تمام عناصر انصاف کے ساتھ اپنے حقوق پائیں اور  اپنے فرائض ادا کریں ۔ بالفاظ دیگر انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصود عدل انفرادی بھی تھا اور عدل اجتماعی بھی۔ وہ ایک ایک فرد کی شخصی زندگی میں بھی عدل قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ اس کے ذہن، اس کی سیرت، اس کے دردار اور اس کے برتاؤ میں توازن پیدا ہو۔ اور انسانی معاشرے کے پورے نظام کو بھی عدل پر قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ فرد اور جماعت دونوں ایک دوسرے کی روحانی، اخلاقی اور مادی فلاح میں مانع و مزاحم ہونے کے بجائے معاون و مدد گار ہوں ۔

۴۶۔ لوہا اتارنے کا مطلب زمین میں لوہا پیدا کرنا ہے ، جیسا کہ ایک دوسری جگہ قرآن میں فرمایا سَاَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَالْاَنْعَامِ ثَمَانِیَۃَاَزْوَاجٍ (الزمر، ۶)۔ ’’ اس نے تمہارے لیے مویشیوں کی قسم کے آٹھ نر و مادہ اتارے ۔ ‘‘چونکہ زمیں میں جو کچھ پایا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہاں آیا ہے ، خود بخود نہیں بن گیا ہے ، اس لیے ان کے پیدا کیے جانے کو قرآن مجید میں نازل کیے جانے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

انبیاء علیہم السلام کے مشن کو بیان کرنے کے معاً بعد یہ فرمانا کہ ’’ ہم نے ہوہا نازل کیا جس میں بڑا زور اور لوگوں کے لیے منافع ہیں ‘‘، خود بخود اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں لوہے سے مراد سیاسی اور جنگی طاقت ہے ، اور کلام کا مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو قیام عدل کی محض ایک اسکیم پیش کر دینے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا تھا بلکہ یہ بات بھی ان کے مشن میں شامل تھی  کہ اس کو عملاً نافذ کرنے کی کوشش کی جائے اور وہ قوت فراہم کی جائے جس سے فی الواقع عدل قائم ہو سکے ، اسے درہم برہم کرنے والوں کو سزا دی جا سکے اور اس کی مزاحمت کرنے والوں کا زور توڑا جا سکے ۔

۴۷۔ یعنی اللہ کو اس مدد کی ضرورت کچھ اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ کمزور ہے ، اپنی طاقت سے یہ کام نہیں کر سکتا۔ بلکہ یہ طریق کار اس نے انسانوں کی آزمائش کے لیے اختیار فرمایا ہے اور اسی آزمائش سے گزر کر انسان اپنی ترقی اور فلاح کی راہ پر آگے بڑھ سکتا ہے ۔ اللہ تو ہر وقت یہ قدرت رکھتا ہے کہ جب چاہے اپنے ایک اشارے سے تمام کافروں کو مغلوب کر دے اور اپنے رسولوں کو ان پر غلبہ و تسلط عطا فرما دے ۔ مگر  اس میں پھر رسولوں پر ایمان لانے والوں کا کیا کمال ہو گا جس کی بنا پروہ کسی انعام کے مستحق ہوں ؟ اسی لیے اللہ نے اس کام کو اپنی غالب قدرت سے انجام دینے کے بجائے طریق کار یہ اختیار  فرمایا کہ اپنے رسولوں کو بینات اور کتاب اور میزان دے کر انسانوں کے درمیان مبعوث کر دیا۔ ان کو اس بات پر مامور فرمایا کہ لوگوں کے سامنے عدل کا راستہ پیش کریں اور ظلم و جور اور بے انصافی سے باز آ جانے کیا ان کو دعوت دیں ۔ انسانوں  کو اس امر کا پورا اختیار دے دیا کہ ان میں سے جو چاہے رسولوں کی دعوت قبول کرے اور جو چاہے اسے رد کر دے ۔ قبول کرنے والوں کو پکارا کہ آؤ، اس عدل کے نظام کو قائم کرنے میں میرا اور میرے رسولوں کا ساتھ دو اور ان لوگوں کے مقابلہ میں جان توڑ جدو جہد کرو جو ظلم و جور کے نظام کو باقی رکھنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ انسانوں میں سے کون ہیں جو انصاف کی بات کو رد کرتے ہیں ، اور کون ہیں جو انصاف کے مقابلے میں بے انصافی قائم رکھنے کے لیے اپنی جان لڑاتے ہیں ، اور کون ہیں جو انصاف کی بات قبول کر لینے کے بعد اس کی حمایت اور اس کی خاطر جد و جہد کرنے سے جی چراتے ہیں ، اور کون ہیں جو ان دیکھے خدا کی خاطر دنیا میں اس حق کو غالب کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دیتے ہیں ۔ اس امتحان سے جو لوگ کامیاب ہو کر نکلیں گے انہی کے لیے آئندہ ترقیوں کے دروازے کھلیں گے ۔

 

۴۸ ہم نے نوحؑ  اور ابراہیمؑ  کو بھیجا اور اُن دونوں کی نسل میں نبوّت اور کتاب رکھ دی۔ ۴۹ پھر ان کی اولاد میں سے کسی نے ہدایت اختیار کی اور بہت سے فاسق ہو گئے۔ ۵۰ اُن کے بعد ہم نے پے در پے اپنے رسُول  بھیجے، اور ان سب کے بعد عیسٰیؑ  ابن مریم کو مبعوث کیا اور اُس کو انجیل عطا کی، اور جن لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی اُن کے دلوں میں ہم نے ترس اور رحم ڈال دیا۔ ۵۱ اور رہبانیت ۵۲ انہوں نے خود ایجاد کر لی، ہم نے اُسے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے آپ ہی یہ بدعت نکالی ۵۳ اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا۔ ۵۴ اُن میں سے جو لوگ ایمان لائے ہوئے تھے اُن کا اجر ہم نے عطا کیا، مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور اس کے رسُول (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر ایمان لاؤ، ۵۵ اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصّہ عطا فرمائے گا اور تمہیں وہ نور بخشے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے، ۵۶ اور تمہارے قصُور معاف  کر دے  گا، ۵۷ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔ (تم کو یہ روش اختیار کرنی چاہیے) تاکہ اہلِ کتاب کو معلوم ہو جائے کہ اللہ کے فضل پر اُن کا کوئی اجارہ نہیں ہے، اور یہ کہ اللہ کا فضل اس کے اپنے ہی ہاتھ میں ہے، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور وہ بڑے فضل والا ہے۔ ؏۴

۴۸۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے جو رسول بینات اور کتاب اور میزان لے کر آئے تھے ان کے ماننے والوں میں کیا بگاڑ پیدا ہوا۔

۴۹۔ یعنی جو رسول بھی اللہ کی کتاب لے کر آئے وہ حضرت نوحؑ کی، اور ان کے بعد حضرت ابراہیمؑ کی نسل سے تھے ۔

۵۰۔ یعنی نافرمان ہو گئے، اللہ کی اطاعت کے دائرے سے نکل گئے۔

۵۱۔  اصل الفاظ ہیں رافت اور رحمت۔ یہ دونوں لفظ قریب قریب ہم معنی ہیں مگر جب یہ ایک ساتھ بولے جاتے ہیں تو رافت سے مراد وہ رقیق القلبی ہوتی ہے جو کسی کو تکلیف و مصیبت میں دیکھ کر ایک شخص کے دل میں پیدا ہو۔ اور زحمت سے مراد وہ جذبہ ہوتا ہے جس کے تحت وہ اس کی مدد کی کوشش کرے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چونکہ نہایت رقیق القلب اور خلق خدا کے لیے رحیم و شفیق تھے ۔ اس لیے ان کی سیرت کا یہ اثر ان کے پیروؤں میں سرایت کر گیا کہ وہ اللہ کے بندوں پر ترس کھاتے تھے اور ہمدردی کے ساتھ ان کی خدمت کرتے تھے ۔

۵۲۔ اس کا تلفظ رَہْبانیت بھی کیا جاتا ہے اور رہبانیت بھی۔ اس کا مادہ رَہب ہے جس کے معنی خوف کے ہیں ۔ رَہبانیت کا مطلب ہے مسلک خوف زدگی، اور رہبانیت کے معنی ہیں مسلک خوف زدگان۔ اصطلاحاً اس سے مراد ہے کسی شخص کا خوف کی بنا پر (قطع نظر اس سے کہ وہ کسی کے ظلم کا خوف، یا اپنے نفس کی کمزوریوں کا خوف) تارک الدنیا بن جانا اور دنیوی زندگی سے بھاگ کر جنگلوں اور پہاڑوں میں پناہ لینا یا گوشہ ہائے  عزلت میں جا بیٹھنا۔

۵۳۔ اصل الفاظ ہیں اِلَّا ابْتِغَآ ءَ رِضْوَانِ اللہ۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہم نے ان پر اس رہبانیت کو فرض نہیں کیا تھا بلکہ جو چیز ان پر فرض کی تھی وہ یہ تھی کہ وہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ یہ رہبانیت ہماری فرض کی ہوئی نہ تھی بلکہ اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے اسے خود اپنے اوپر فرض کر لیا تھا۔ دونوں صورتوں میں یہ آیت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ رہبانیت ایک غیر اسلامی چیز ہے اور یہ کبھی دین حق میں شامل نہیں رہی ہے ۔ یہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمائی ہے کہ : لَا رَھبَا نیّۃ۔ فی الاسْلام، ’’ اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں ‘‘ (مسند احمد )۔ ایک اور حدیث میں حضورؐ نے فرمایا  رھبانیۃ ھٰذہالامّۃ الجھاد فی سبیل اللہ، ’’ اس امت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے ‘‘ مسند احمد۔ مسند ابی یَعلیٰ)۔ یعنی اس امت کے لیے روحانی ترقی کا راستہ ترک دنیا نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے ، اور یہ امت فتنوں سے ڈر کر جنگلوں اور پہاڑوں کی طرف نہیں بھاگتی بلکہ راہ خدا میں جہاد کر کے ان کا مقابلہ کرتی ہے ۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ صحابہ میں سے ایک صاحب نے کہا میں ہمیشہ ساری رات نماز پڑھا کروں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی ناغہ نہ کروں گا، تیسرے نے کہا میں کبھی شادی نہ کروں گا اور عورت سے کوئی واسطہ نہ  رکھوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی یہ باتیں سنیں تو فرمایا اماد اللہ انی الأ خشا کم للہ واتقا کم لَہٗ لکنی اصوم اُ فطر واُصلی و ارقد و اتزوج النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی‘‘ خدا کی قسم میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا اور اس سے تقویٰ کرتا ہوں ۔ مگر میرا طریقہ یہ ہے کہ روزہ رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا، راتوں کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ۔ جس کو میرا طریقہ پسند نہ ہو اس کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں ‘‘ حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے لا تشدد و اعلیٰ انفسکم فیشدد  اللہ علیہکم فان قوما شدد و افشدد اللہ علیہ فتلک بقا یا ھم فی الصوامع والد یار۔ ’’ اپنے اوپر سختی نہ کرو کہ اللہ تم پر سختی کرے ۔ ایک گروہ نے یہی تشدد اختیار کیا تھا تو اللہ نے بھی پھر اسے سخت پکڑا۔ دیکھ لو، وہ ان کے بقایا راہب خانوں اور کنیسوں میں موجود ہیں ۔‘‘(ابوداؤد)۔

۵۴۔ یعنی وہ دہری غلطی میں مبتلا ہو گئے۔ ایک غلطی یہ کہ اپنے اوپر وہ پابندیاں عائد کیں جن کا اللہ نے کوئی حکم نہ دیا تھا۔ اور دوسری غلطی یہ کہ جن پابندیوں کو اپنے نزدیک اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ سمجھ کر خود اپنے اوپر عائد کر بیٹھے تھے ان کا حق ادا نہ کیا اور وہ حرکتیں کیں جن سے اللہ کی خوشنودی کے بجائے الٹا اس کا غضب مول لے بیٹھے ۔

اس مقام کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ایک نظر مسیحی رہبانیت کی تاریخ پر ڈال لینی چاہیے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد دو سو سال تک عیسائی کلیسا رہبانیت سے نا آشنا تھا۔ مگر ابتدا ہی سے مسیحیت میں اس کے جراثیم پائے جاتے تھے اور وہ تخیلات اس کے اندر موجود تھے جو اس چیز کو جنم دیتے ہیں ۔ ترک و تجرید کو اخلاقی آئیڈیل قرار دینا اور درویشانہ کو شادی بیاہ اور دنیوی کاروبار کی زندگی کے مقابلے میں اعلیٰ و افضل سمجھنا ہی رہبانیت کی بنیاد ہے ، اور یہ دونوں چیزیں مسیحیت میں ابتدا سے موجود تھیں ۔ خصوصیت کے ساتھ تجرد کو تقدس کا ہم معنی سمجھنے کی وجہ سے کلیسا میں مذہبی خدمات انجام دینے والوں کے لیے یہ بات نا پسند دیدہ خیال کی جاتی تھی کہ وہ شادی کریں ، بال بچوں والے ہوں اور خانہ داری کے بکھیڑوں میں پڑیں ۔ اسی چیز نے تیسری صدی تک پہنچتے پہنچتے ایک فتنے کی شکل اختیار کر لی اور رہبانیت ایک وبا کی طرح مسیحیت میں پھیلنی شروع ہوئی۔ تاریخی طور پر اس کے تین بڑے اسباب تھے :

ایک یہ کہ قدیم مشرک سوسائٹی میں شہوانیت، بد کرداری اور دنیا پرستی جس شدت کے ساتھ پھیلی ہوئی تھی اس کا توڑ کرنے کے لیے عیسائی علماء نے اعتدال کی راہ اختیار کرنے کے بجائے انتہا پسندی کی راہ اختیار کی۔ انہوں نے عفت پر اتنا زور دیا کہ عورت اور مرد کا تعلق بجائے خود نجس قرار پا گیا، خواہ وہ نکاح ہی کی صورت میں ہو۔ انہوں نے دنیا پرستی کے خلاف اتنی شدت برتی کہ آخر کار ایک دین دار آدمی کے لیے سرے سے کسی قسم کی املاک رکھنا ہی گناہ بن گیا اور اخلاق کا معیار یہ ہو گیا کہ آدمی بالکل مفلس اور ہر لحاظ سے تارک الدنیا ہو۔ اسی طرح مشرک سوسائٹی کی لذت پرستی کے جواب میں وہ اس انتہا پر جا پہنچے کہ ترک الذات، نفس کو مارنا اور خواہشات کا قلع قمع کر دینا اخلاق کا مقصود بن گیا، اور طرح طرح کی ریاضتوں سے جسم کو اذیتیں دینا آدمی کی روحانیت کا کمال اور اس کا ثبوت سمجھا جانے لگا۔

دوسرے یہ کہ مسیحیت جب کامیابی کے دور میں داخلہ و کر عوام میں پھیلنی شروع ہوئی تو اپنے مذہب کی توسیع و اشاعت کے شوق میں کلیسا ہر اس برائی کو اپنے دائرے میں داخل کرتا چلا گیا جو عام لوگوں میں مقبول تھی۔ اولیاء پرستی نے قدیم معبودوں کی جگہ لے لی۔ ہورس (Horus) اور آئسس (Isis) کے مجسموں کی جگہ مسیح اور مریم کے بت پوجے جانے لگے ۔ سیٹرنیلیار (Saturnalia) کی جگہ کرسمس کا تہوار منایا جانے لگا۔ قدیم زمانے کے تعویذ گنڈے ، عملیات، فال گیری و غیب گوئی جن بھوت بھگانے کے عمل، سب عیسائی درویشوں نے شروع کر دیے ۔ اسی طرح چونکہ عوام اس شخص کو خدا رسیدہ سمجھتے تھے جو گندا اور ننگا ہو اور کسی بھٹ یا کھوہ میں رہے ، اس لیے عیسائی کلیسا میں ولایت کا یہی تصور مقبول ہو گیا اور ایسے ہی لوگوں کی کرامتوں کے قصوں سے عیسائیوں کے ہاں تذکرۃ الاولیاء قسم کی کتابیں لبریز ہو گئیں ۔

تیسرے یہ کہ عیسائیوں کے پاس دین کی سرحدیں متعین کرنے کے لیے کوئی مفصل شریعت اور کوئی واضح سنت موجود نہ تھی۔ شریعت موسوی کو وہ چھوڑ چکے تھے ، اور تنہا انجیل کے اندر کوئی مکمل ہدایت نامہ نہ پایا جاتا تھا۔ اس لیے مسیحی علماء کچھ باہر  کے فلسفوں اور طور طریقوں سے متاثر ہو کر اور کچھ خود اپنے رجحانات کی بنا پر طرح طرح کی بدعتیں دین میں داخل کرتے چلے گئے۔ رہبانیت بھی انہی بدعتوں میں سے ایک تھی۔ مسیحی مذہب کے علماء اور ائمہ نے اس کا فلسفہ اور اس کا طریق کا ر بدھ مذہب کے بھکشوؤں سے ہندو جوگیوں اور سنیاسیوں سے ، قدیم مصری فقراء (Anchorites) سے ، ایران کے مانویّوں سے ، اور افلا طینوس کے پیرو اشراقیوں سے اخذ کیا اور اسی کو تزکیہ نفس کا طریقہ، روحانی ترقی کا ذریعہ، اور تقرب الی اللہ کا وسیلہ قرار دے لیا۔ اس غلطی کے مرتکب کوئی معمولی درجہ کے لوگ نہ تھے ۔ تیسری صدی سے ساتویں صدی عیسوی(یعنی نزول قرآن کے زمانے ) تک جو لوگ مشرق اور مغرب میں مسیحیت کے اکابر علماء، بزرگ ترین پیشوا اور امام مانے جاتے ہیں ، سینٹ اَتھانا سیوس، سینٹ باسل، سینٹ گریگوری نازیا نزین، سینٹ کرائی سُوسٹم، سینٹ اَیمبروز، سینٹ جیروم، سینٹ آگسٹائن، سینٹ بینیڈکٹ، گریگوری اعظم، سب کے سب خود راہب اور رہبانیت کے زبردست علمبردار تھے ۔ انہی کی کوششوں سے کلیسا میں رہبانیت نے رواج پایا۔

تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں میں رہبانیت کا آغاز مصر سے ہوا۔ اس کا بانی سینٹ اینتھُنی (St. Anthony) تھا جو ۲۵۰ ء میں پیدا ہوا اور ۳۵۰ ء میں دنیا سے رخصت ہوا۔ اسے پہلا مسیحی راہب قرار دیا جاتا ہے ۔ اس نے فَیُّوم کے علاقے میں پَسپیر کے مقام پر (جواب دیرالیمون کے نام سے معروف ہے ، پہلی خانقاہ قائم کی۔ اس کے بعد دوسری خانقاہ اس نے بحر احمر کے ساحل پر قائم کی جسے اب دیر مارُانْطُونیوس کہا جاتا ہے ۔ عیسائیوں میں رہبانیت کے بنیادی قواعد اس کی تحریروں اور ہدایات سے ماخوذ ہیں ۔ اس آغاز کے بعد یہ سلسلہ مصر میں سیلاب کی طرح پھیل گیا اور جگہ جگہ راہبوں اور راہبات کے لیے خانقاہی قائم ہو گئیں جن میں سے بعض میں تین تین ہزار راہب بیک وقت رہتے تھے ۔ ۳۲۵ ء میں مصر ہی کے اندر ایک اور مسیحی ولی پاخوہیوس نمودار ہوا جس نے دس بڑی خانقاہیں راہبین و راہبات کے لیے بنائیں ۔ اس کے بعد یہ سلسلہ شام و فلسطین اور افیقہ و یوروپ کے مختلف ملکوں میں پھیلتا چلا گیا۔ کلیسائی نظام کو اول اول اس رہبانیت کے معاملہ میں سخت الجھن سے سابقہ پیش آیا، کیونکہ وہ ترک دنیا اور تجرد اور غریبی و مفلسی کو روحانی زندگی کا آئیڈیل تو سمجھتا تھا، مگر راہبوں کی طرح شادی بیاہ اور اولاد پیدا کرنے اور ملکیت رکھنے کو گناہ بھی نہ ٹھیرا سکتا تھا۔ بالآخر سینٹ اَتھانا ہیوس (متوفی ۳۷۳ ء) سینٹ باسِل (متوفی ۳۷۹ ء)، سینٹ آگسٹائن (متوفی ۴۳۰ ء)اور گریگوری اعظم (متوفی ۶۰۹ ء) جیسے لوگوں کے اثر سے رہبانیت کے بہت سے قواعد چرچ کے نظام میں باقاعدہ داخل ہو گئے۔

اس راہبانہ بدعت کی چند خصوصیات تھیں جنہیں ہم اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں :

(۱)سخت ریاضتوں اور نت نئے طریقوں سے اپنے جسم کو اذیتیں دینا۔ اس معاملہ میں ہر راہب دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔ عیسائی اولیاء کے تذکروں میں ان لوگوں کے جو کمالات بیان کیے گئے ہیں وہ کچھ اس قسم کے ہیں : اسکندریہ کاسینٹ مکاریوس ہر وقت اپنے جسم پر ۸۰ پونڈ کا بوجھ اٹھائے رکھتا تھا۔ ۶ مہینے تک وہ ایک دلدل میں سوتا رہا اور زہریلی مکھیاں اس کے برہنہ جسم کو کاٹتی رہیں ۔ اس کے مرید سینٹ یوسیبیوس نے پِیْر سے بھی بڑھ کر ریاضت کی۔ وہ ۱۵۰ پونڈ کا بوجھ اٹھائے پھرتا تھا اور ۳ سال تک ایک خشک کنویں میں پڑا رہا۔ سینٹ سابیوس صرف وہ مکئی کھاتا تھا جو مہینہ بھر پانی میں بھیگ کر بدبو دار ہو جاتی تھی۔ سینٹ بیساریون ۴۰ دن تک خاردار جھاڑیوں میں پڑا رہا اور ۴۰ سال تک اس نے زمین کو پیٹھ نہیں لگائی۔ سینٹ پا خومیوس نے ۱۵ سال، اور ایک روایت کے مطابق پچاس سال زمین کو پیٹھ لگائے بغیر گزار دیے ۔ ایک ولی سینٹ جان تین سال تک عبادت میں کھڑا رہا۔ اس پوری مدت میں وہ نہ کبھی بیٹھا نہ لیٹا۔ آرام کے لیے جس ایک چٹان کا سہارا لے لیتا تھا اور اس کی غذا صرف وہ تبرک تھا جو ہر اتوار کو اس کے لیے لایا جاتا تھا۔ سینٹ سِیمیون اِسٹائلائٹ (۳۹۰ ء ۴۴۹ ء) جو عیسائیوں کے اولیائے کبار میں شمار ہوتا ہے ، ہر ایسٹر سے پہلے پورے چالیس دن فاقہ کرتا تھا۔ ایک دفعہ وہ پورے ایک سال تک ایک ٹانگ پر کھڑا رہا۔ بسا اوقات وہ اپنی خانقاہ سے نکل کر ایک کنویں میں جا رہتا تھا۔ آخر کار اس نے شمالی شام کے قلعہ سیمان کے قریب ۶۰ فیٹ بلند ایک ستون بنوایا جس کا بالائی حصہ صرف تین فیٹ کے گھیر میں تھا اور اوپر کٹہرا بنا دیا گیا تھا۔ اس ستون پر اس نے پورے تیس سال گزار دیے ۔ دھوپ، بارش، سردی، گرمی سب اس پر سے گزرتی رہتی تھیں اور وہ کبھی ستون سے نہ اترتا تھا۔ اس کے مرید سیڑھی لگا کر اس کو کھانا پہنچاتے اور اس کی گندگی صاف کرتے تھے ۔ پھر اس نے ایک رسی لے کر اپنے آپ کو اس ستوں سے باندھ لیا یہاں تک کہ رسی اس کے گوشت میں پیوست ہو گئی، گوشت سڑ گیا اور اس میں کیڑے پڑ گئے۔ جب کوئی کیڑا اس کے پھوڑوں گر جاتا تو وہ اسے اٹھا کر پھر پھوڑے ہی میں رکھ لیتا اور کہتا ’’کھا جو کچھ خدا نے تجھے دیا ہے ‘‘ مسیحی عوام دور دور سے اس کی زیارت کے لیے آتے تھے ۔ جب وہ مرا تو مسیحی عوام کا فیصلہ یہ تھا کہ وہ عیسائی ولی کی بہترین مثال تھا۔

اس دور کے عیسائی اولیاء کی جو خوبیاں بیان کی گئی ہیں وہ ایسی ہی مثالوں سے بھری پری ہیں ۔ کسی ولی کی تعریف یہ تھی کہ ۳۰ سال تک وہ بالکل خاموش رہا ور کبھی اسے بولتے نہ دیکھا گیا۔ کسی نے اپنے آپ کو ایک چٹان سے باندھ رکھا تھا۔ کوئی جنگلوں میں مارا مارا پھرتا اور گھاس پھونس کھا کر گزارا کرتا۔ کوئی بھاری بوجھ ہر وقت اٹھائے پھرتا۔ کوئی طوق و سلاسل سے اپنے اعضا جکڑے رکھتا۔ کچھ حضرات جانوروں کے بھٹوں ، یا خشک کنوؤں ، یا پرانی قبروں میں رہتے تھے ۔ اور کچھ دوسرے بزرگ ہر وقت ننگے رہتے اور اپنا ستر اپنے لمبے لمبے بالوں سے چھپاتے اور زمین پر رینگ کر چلتے تھے ۔ ایسے ہی ولیوں کی کرامات کے چرچے ہر طرف پھیلے ہوئے تھے اور ان کے مرنے کے بعد ان کی ہڈیاں خانقاہوں میں محفوظ رکھی جاتی تھیں ۔ میں نے خود کوہ سینا کے نیچے سینٹ کیتھرائن کی خانقاہ میں ایسی ہی ہڈیوں کی ایک پوری لائبریری سجی ہوئی دیکھی ہے جس میں کہیں اولیاء کی کھوپڑیاں قرینے سے رکھی ہوئی تھیں ، کہیں پاؤں کی ہڈیاں ، اور کہیں ہاتھوں کی ہڈیاں ۔ اور ایک ولی کاتو پورا ڈھانچہ ہی شیشے کی ایک الماری میں رکھا ہوا تھا۔

(۲) ان کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہر وقت گندے رہتے اور صفائی سے سخت پرہیز کرتے تھے ۔ نہانا یا جسم کو پانی لگا نا ان کے نزدیک خدا پرستی کے خلاف تھا۔ جسم کی صفائی کو وہ روح کی نجات سمجھتے تھے ۔ سینٹ اتھاناسیوس بڑی عقیدت کے ساتھ سینٹ اینتھُنی کی یہ خوبی بیان کرتا ہے کہ اس نے مرتے دم تک کبھی اپنے پاؤں نہیں دھوئے۔ سینٹ ابراہام جب سے داخل مسیحیت ہوا، پورے ۵ سال اس نے نہ منہ دھویا نہ پاؤں ۔ ایک مشہور راہبہ کنواری سلوِیا نے عمر بھر اپنی انگلیوں کے سوا جسم کے کسی حصے پانی نہیں لگنے دیا۔ ایک کانونٹ کی ۱۳۰ راہبات کی تعریف میں لکھا ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے پاؤں نہیں دھوئے، اور غسل کا تو نام سن کر ہی ان کے بدن پر لرزہ چڑھ جاتا تھا۔

(۳) اس رہبانیت نے ازدواجی زندگی کو عملاً بالکل حرام کر دیا اور نکاح کے رشتے کو کاٹ پھینکنے میں سخت بیدردی سے کام لیا۔ چوتھی اور پانچویں صدی کی تمام مذہبی تحریریں اس خیال سے بھری ہوئی ہیں کہ تجرد سب سے بڑی اخلاقی قدر ہے ، اور عفت کے معنی یہ ہیں کہ آدمی جنسی تعلق سے قطعی احتراز کرے خواہ وہ میاں اور بیوی کا تعلق ہی کیوں نہ ہو۔ پاکیزہ روحانی زندگی کا کمال یہ سمجھا جاتا تھا کہ آدمی اپنے نفس کو بالکل مار دے اور اس میں جسمانی لذت کی کوئی خواہش تک باقی نہ چھوڑے ۔ ان لوگوں کے نزدیک خواہش کو مار دینا اس لیے ضروری تھا کہ اس سے حیوانیت کو تقویت پہنچتی ہے ، ان کے نزدیک لذت اور گناہ ہم معنی تھے ، حتیٰ کہ مسرت بھی ان کی نگاہ میں خدا فراموشی کی مترادف تھی۔سینٹ باسل ہنسنے اور مسکرانے تک کو ممنوع قرار دیتا ہے ۔ان ہی تصورات کی بنا پر عورت اور مرد کے درمیان شادی کا تعلق ان کے ہاں قطعی نجس قرار پا گیا تھا۔ راہب کے لیے ضروری تھا کہ وہ شادی کرنا تو در کنار، عورت کی شکل تک نہ دیکھے ، اور اگر شادی شدہ ہو تو بیوی کو چھوڑ کر نکل جائے۔ مردوں کی طرح عورتوں کے دل میں بھی یہ بات بٹھائی گئی تھی کہ وہ اگر آسمانی بادشاہت میں داخل ہونا چاہتی ہیں تو ہمیشہ کنواری رہیں ، اور شادی شدہ ہوں تو اپنے شوہروں سے الگ ہو جائیں ۔ سینٹ جِیروم جیسا ممتاز مسیحی عالم کہتا ہے کہ جو عورت مسیح کی خاطر راہبہ بن کر ساری عمر کنواری رہے وہ مسیح کی دلہن ہے اور اس عورت کی ماں کو خدا، یعنی مسیح، کی ساس (Mother-in-law of God) ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ ایک اور مقام پر سینٹ جیروم کہتا ہے کہ ’’عفت کی کلہاڑی سے ازدواجی تعلق کی لکڑی کو کاٹ  پھینکنا سالک کا اولین کام ہے ’’۔ ان تعلیمات کی وجہ سے مذہبی جذبہ طاری ہونے کے بعد ایک مسیحی مرد یا ایک مسیحی عورت پر اس کا پہلا اثر یہ ہوتا تھا کہ اس کی خوش گوار ازدواجی زندگی ہمیشہ کے لیے ختم کے لیے ختم ہو جاتی تھی۔ اور چونکہ مسیحیت میں طلاق و تفریق کا راستہ بند تھا، اس لیے نکاح کے رشتے میں رہتے ہوئے میاں اور بیوی ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے تھے ۔ سینٹ نائلس St. Nitus دو بچوں کا باپ تھا۔ جب اس پر رہبانیت کا دورہ پڑا تو اس کی بیوی روتی رہ گئی اور سہ اس سے الگ ہو گیا۔ سینٹ اَمون(St. Ammon) نے شادی کی پہلی رات ہی اپنی دلہن کو ازدواجی تعلق کی نجاست پر وعظ سنایا اور دونوں نے بالاتفاق طے کر لیا کہ جیتے جی ایک دوسرے سے الگ رہیں گے ۔ سینٹ ابراہام شادی کی پہلی رات ہی اپنی بیوی کو چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ یہی حرکت سینٹ ایلیکسس (St. Alexis) نے کی۔ اس طرح کے واقعات سے عیسائی اولیاء کے تذکرے بھرے پڑے ہیں ۔

کلیسا کا نظام تین صدیوں تک اپنے حدود میں ان انتہا پسندانہ تصورات کی کسی نہ کسی طرح مزاحمت کرتا رہا۔ اس زمانے میں ایک پادری کے لیے مجرد ہونا لازم نہ تھا۔ اگر اس نے پادری کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے شادی کر رکھی ہو تو وہ بیوی کے ساتھ رہ سکتا تھا، البتہ تقرر کے بعد شادی کرنا اس کے لیے ممنوع تھا۔ نیز کسی ایسے شخص کو پادری مقرر نہیں کیا جا سکتا تھا جس نے کسی بیوہ یا مطلقہ سے شادی کی ہو، یا جس کی دو بیویاں ہوں ، یا جس کے گھر میں لونڈی ہو۔ رفتہ رفتہ چوتھی صدی میں  یہ خیال پوری طرح زور پکڑ گیا کہ جو شخص کلیسا میں مذہبی خدمات انجام دیتا ہو اس کے لیے شادی شدہ ہونا بڑی گھناؤنی بات ہے ۔ ۳۶۲ ء کی گنگرا کونسل (Council of Gengra) آخری مجلس تھی جس میں اس طرح کے خیالات کو خلاف مذہب ٹھیرایا گیا۔ مگر اس کے تھوڑی ہی مدت بعد ۳۸۶ ء کی رومن سیناڈ (Synod) نے تمام پادریوں کو مشورہ دیا کہ وہ ازدواجی تعلقات سے کنارہ کش رہیں ، اور دوسرے سال پوپ سائر یکیس(Siricius)نے حکم دے دیا کہ جو پادری شادی کرے ، شادی شدہ ہونے کی صورت میں اپنی بیوی سے تعلق رکھے ، اس کو اس منصب سے معزول کر دیا  جائے۔ سینٹ جیروم، سینٹ ایمبروز، اور سینٹ آگسٹائن جیسے اکابر علماء نے بڑے زور شور سے اس فیصلے کی حمایت کی اور ٹھوڑی سے مزاحمت کے بعد مغربی کلیسا میں یہ پوری شدت کے ساتھ نافذ ہو گیا۔ اس دور میں متعدد کو نسلیں ان شکایات پر غور کرنے کے لیے منعقد ہوئیں کہ جو لوگ پہلے سے شادی شدہ تھے وہ مذہبی خدمات پر مقرر ہونے کے بعد بھی اپنی بیویوں کے ساتھ ’’ناجائز‘‘ تعلقات رکھتے ہیں ۔آخر کار ان کی اصلاح کے لیے یہ قواعد بنائے گئے کہ وہ کھلے مقامات پر سوئیں ، اپنی بیویوں سے کبھی علیحدگی میں نہ ملیں ، اور ان کی ملاقات کے وقت کم از کم دو آدمی موجود ہوں ۔ سینٹ گریگوری ایک پادری کی تعریف میں لکھتا ہے کہ ۴۰ سال تک وہ اپنی بیوی سے الگ رہا حتیٰ کہ مرتے وقت جب اس کی بیوی اس کے قریب گئی تو اس نے کہا، عورت، دور ہٹ جا !

(۴) سب سے زیادہ درد ناک باب اس رہبانیت کا یہ ہے کہ اس نے ماں باپ، بھائی بہنوں کی محبت، اور باپ کے لیے اولاد تک سے آدمی کا رشتہ کاٹ دیا۔ مسیحی ولیوں کی نگاہ میں بیٹے کے لیے ماں باپ کی محبت، بھائی کے  لیے بھائی بہنوں کی محبت، اور باپ کے لیے اولاد کی محبت بھی ایک گناہ تھی۔ ان نزدیک روحانی ترقی کے لیے یہ نا گزیر تھا کہ آدمی ان سارے تعلقات کو توڑ دے ۔ مسیحی اولیاء کے تذکروں میں اس کے ایسے ایسے دل دوز واقعات ملتے ہیں جنہیں پڑھ کر انسان کے لیے ضبط کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ ایک راہب ایوا گریَس (Evagrius) سالہا سال سے صحرا میں ریاضتیں کر رہا تھا۔ ایک روز یکایک اس کے پاس اس کی ماں اور اس کے باپ کے خطوط پہنچے جو رسوں سے اس کی جدائی میں تڑپ رہے تھے ۔ اسے اندیشہ ہوا کہ کہیں ان خطوں کو پڑھ کر اس کے دل میں انسانی محبت کے جذبات نہ جاگ اٹھیں ۔ اس نے ان کو کھولے بغیر فوراً آگ میں جھونک دیا۔ سینٹ تھیوڈورس کی ماں اور بہن بہت سے پادریوں کے سفارشی خطوط لے کر اس خانقاہ میں پہنچیں جس میں وہ مقیم تھا اور خواہش کی کہ وہ صرف ایک نظر بیٹے اور بھائی کو دیکھ لیں ۔ مگر اس نے ان کے سامنے آنے تک سے انکار کر دیا۔ سینٹ مارکس (St. Marcus) کی ماں اس سے ملنے کے لیے اس کی خانقاہ میں گئی اور خانقاہ کے شیخ (Abbot) کی خوشامدیں کر کے اس کو راضی کیا کہ وہ بیٹے کو ماں کے سامنے آنے حکم دے ۔ مگر بیٹا کسی طرح ماں سے نہ ملنا چاہتا تھا۔ آخر کار اس نے شیخ کے حکم کی تعمیل اس طرح کی کہ بھیس بدل کر ماں کے سامنے گیا اور آنکھیں بند کر لیں اس طرح نہ ماں نے بیٹے کو پہچانا، نہ بیٹے نے ماں کی شکل دیکھی۔ ایک اور ولی سینٹ پوئمن(St. Poemen) اور اس کے ۶ بھائی مصر کی ایک صحرائی خانقاہ میں رہتے تھے ۔ برسوں بعد ان کی بوڑھی ماں کو ان کا پتہ معلوم ہوا اور وہ ان سے  ملنے کے لیے وہاں پہنچی۔ بیٹے ماں کو دور سے دیکھتے ہی بھاگ کر اپنے حجرے میں چلے گئے اور دروازہ بند کر لیا۔ ماں باہر بیٹھ کر رونے لگی اور اس نے چیخ چیخ کر کہا میں اس بڑھاپے میں اتنی دور چل کر صرف تمہیں دیکھنے آئی ہوں ، تمہارا کیا نقصان ہو گا اگر میں تمہاری شکلیں دیکھ لوں ۔ کیا میں تمہاری ماں نہیں ہوں ؟ مگر ان ولیوں نے دروازہ نہ کھولا اور ماں سے کہہ دیا کہ ہم تجھ سے خدا کے ہاں ملیں گے ۔ اس سے بھی زیادہ درد ناک قصہ سینٹ سیمیون اِسٹائلاٹٹس (St. Simeon Stylites) کا ہے جو ماں باپ کو چھوڑ کر ۲۷ سال غائب رہا۔ باپ اس کے غم میں مر گیا۔ ماں زندہ بھی بیٹے کی ولایت کے چرچے جب دور و نزدیک پھیل گے تو اس کو پتہ چلا کہ وہ کہاں ہے ۔ بے چاری اس سے ملنے کے لیے اس کی خانقاہ پر پہنچے ۔ مگر وہاں کسی عورت کو داخلے کی اجازت نہ تھی۔ اس نے لاکھ منت سماجت کی کہ بیٹا یا تو اسے اندر بلالے یا باہر نکل کر اسے اپنی صورت دکھا دے ۔ مگر اس ’’ولی اللہ‘‘ نے صاف انکار کر دیا۔ تین رات اور تین دن وہ خانقاہ کے دروازے پر پڑی رہی اور آخر کار وہیں لیٹ کر اس نے جان دے دی۔ تب ولی صاحب نکل کر آئے۔ ماں کی لاش پر آنسو بہائے اور اس کی مغفرت کے لیے دعا کی۔

ایسی ہی بے دردی ان ولیوں نے بہنوں کے ساتھ اور اپنی اولاد کے ساتھ برتی۔ ایک شخص کیوٹیس (Mutius) کا قصہ لکھا ہے کہ وہ خوشحال آدمی تھا۔ یکایک اس پر مذہبی جذبہ طاری ہوا اور وہ اپنے ۸ سال کے اکلوتے بیٹے کو لے کر ایک خانقاہ میں جا پہنچا۔ وہاں اس کی روحانی ترقی کے لیے ضروری تھا کہ وہ بیٹے کی محبت دل سے نکال دے ۔ اس لیے پہلے تو بیٹے کو اس سے جدا کر دیا گیا۔ پھر اس کی آنکھوں کے سامنے ایک مدت تک طرح طرح کی سختیاں اس معصوم بچے پر کی جاتی رہی اور وہ سب کچھ دیکھتا رہا۔ پھر خانقاہ کے شیخ ے اسے حکم دیا کہ اسے لے جا کر اپنے ہاتھ سے دریا میں پھینک دے ۔ جب وہ اس حکم کی تعمیل کے لیے بھی تیار ہو گا تو عین اس وقت راہبوں نے بچے کی جان بچائی جب وہ اسے دریا میں پھینکنے لگا تھا۔ اس کے تسلیم کر لیا گیا کہ وہ واقعی مرتبہ ولایت کو پہنچ گیا ہے ۔

مسیحی رہبانیت کا نقطہ نظر ان معاملات میں یہ تھا کہ جو شخص خدا کی محبت   چاہتا ہو اسے انسانی محبت کی وہ ساری زنجیریں کاٹ دینی چاہییں جو دنیا میں اس کو اپنے والدین، بھائی بہنوں اور بال بچوں کے ساتھ باندھتی ہیں ۔ سینٹ جیروم کہتا ہے کہ ’’اگرچہ تیرا بھتیجا تیرے گلے میں بانہیں ڈال کر تجھ سے لپٹے ، اگر چہ تیری ماں اپنے دودھ کا واسطہ دے کر تجھے روکے ، اگر چہتیرا باپ تجھے روکنے کے لیے تیرے آگے لیٹ جائے، پھر بھی تو سب کو چھوڑ کر اور باپ کے جسم کو روند کر ایک آنسو بہائے بغیر صلیب کے جھنڈے کی طرف دوڑ جا۔ اس معاملہ میں بے رحمی ہی تقویٰ ہے ۔‘‘ سینٹ گریگوری لکھتا ہے کہ ‘‘ ایک نوجوان راہب ماں باپ کی محبت دل سے نہ نکال سکا اور ایک رات چپکے سے بھاگ کر ان سے مل آیا۔ خدا نے اس قصور کی سزا اسے یہ دی کہ خانقاہ واپس پہنچتے ہی وہ مر گیا۔ اس کی لاش زمین میں دفن کی گئی تو زمین نے اسے قبول نہ کیا۔ برا بار قبر میں ڈالا جاتا اور زمین اسے نکال کر پھینک دیتی۔ آخر کار اینٹ بینیڈکٹ نے اس کے سینے پر تبرک رکھا تب قبر نے اسے قبول کیا ‘‘۔ ایک راہبہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ مرنے کے بعد تین دن عذاب میں اس لیے مبتلا رہی کہ وہ اپنی ماں کی محبت دل سے نہ نکال سکی تھی۔ ایک دلی کی تعریف میں لکھا ہے کہ اس نے کبھی اپنے رشتہ داروں کے سوا کسی کے ساتھ بے دردی نہیں برتی۔

 (۵) اپنے قریب ترین رشتہ داروں کے ساتھ بے رحمی، سنگدلی اور قساوت برتنے کی جو مشق یہ لوگ کرتے تھے اس کی وجہ سے ان کی انسانی جذبات مر جاتے تھے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ جن لوگوں سے انہیں مذہبی اختلاف ہوتا تھا ان کے مقابلے  میں یہ ظلم و ستم کی انتہا کر دیتے تھے ۔ چوتھی صدی تک پہنچتے پہنچتے مسیحیت میں ۸۰۔ ۹۰ فرقے پیدا ہو چکے تھے ۔ سینٹ آگسٹائن نے اپنے زمانے میں ۸۸ فرقے گنائے ہیں ۔ یہ فرقے ایک دوسرے کے خلاف سخت نفرت رکھتے تھے ۔ اس نفرت کی آگ کو بھڑکانے والے بھی راہب ہی تھے اور اس آگ میں مخالف گروہوں کو جلا کر خاک کر دینے کی کوششوں میں بھی راہب ہی پیش پیش ہوتے تھے ۔ اسکندریہ اس فرقہ وارانہ کشمکش کا ایک بڑا اکھاڑا تھا۔ وہاں پہلے ایرین(Arian)  فرقے کے بشپ نے اتھا ناسیوس کی پارٹی پر حملہ کیا، اس کی خانقاہوں سے کنواری راہبات پکڑ پکڑ نکالی گئیں ، ان کو ننگا کر کے خاردار شاخوں سے پٹیا گیا اور ان کے جسم پر داغ لگائے گئے تاکہ وہ اپنے عقیدے سے توبہ کریں ۔ پھر جب مصر میں کیتھولک گروہ کو غلبہ حاصل ہوا تو اس نے ایرین فرقے کے خلاف یہی سب کچھ کیا، حتیٰ کہ غالب خیال یہ ہے کہ خود ایریس (Arius) کو بھی زہر دے کر مار دیا گیا۔ اسی اسکندریہ میں ایک مرتبہ سینٹ سائر (St. Cyril) کے مرید راہبوں نے ہنگامہ عظیم برپا کیا، یہاں تک کہ مخالف فرقے کی ایک راہبہ کو پکڑ کر اپنے کلیسا میں لے گئے، اسے قتل کیا، اس کی لاش کی بوٹی بوٹی نوچ ڈالی اور پھر اسے آگ میں جھونک دیا۔ روم کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھا۔ ۳۶۶ ء میں پوپ لبیریس (Liberius) کی وفات پر دو گروہوں نے پا پانی کے لیے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کیے ۔ دونوں کے درمیان سخت خونریزی ہوئی۔ حتیٰ کہ ایک دن میں صرف ایک چرچ سے ۱۳۷ لاسیں نکالی گئیں ۔

(۶) اس ترک و تجرید اور فقر و درویشی کے ساتھ دولت دنیا سمیٹنے میں بھی کمی نہ کی گئی۔ پانچویں صدی کے آغاز ہی میں حالت یہ ہو چکی تھی کہ روم کا بشپ بادشاہوں کی طرح اپنے محل میں رہتا تھا اور اس کی سواری جب شہر میں نکلتی تھی تو اس کے ٹھاٹھ باٹھ قیصر کی سواری سے کم نہ ہوتے تھے ۔ سینٹ جیروم اپنے زمانے (چوتھی صدی کے آخری دور) میں شکایت کرتا ہے کہ بہت سے بشپوں کی دعوتیں اپنی شان میں گورنروں کی دعوتوں کو شرماتی ہیں ۔ خانقاہوں اور کنیسوں کی طرف دولت کا یہ بہاؤ ساتویں صدی (نزول قرآن کے زمانے )تک پہنچتے پہنچتے سیلاب کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ یہ بات عوام کے ذہن نشین کرادی گئی تھی کہ جس کسی سے کوئی گناہ عظیم سرزد ہو جائے اس کی بخشش کسی نہ کسی ولی کی درگاہ پر نذرانہ چڑھانے ، یا کسی خانقاہ یا چرچ کو بھینٹ دینے ہی سے ہو سکتی ہے ۔ اس کے بعد وہی دنیا راہبوں کے قدموں میں آ رہی جس سے فرار ان کا طرہ امتیاز تھا۔ خاص طور پر جو چیز اس تنزل کی موجب ہوئی وہ یہ تھی کہ راہبوں کی غیر معمولی ریاضتیں اور ان کی نفس کشی کے کمالات دیکھ کر جب عوام میں ان کے لیے بے عقیدت پیدا ہو گئی تو بہت سے دنیا پرست لوگ لباس درویشی پہن کر راہبوں کے گروہ میں داخل ہو گئے اور انہوں نے ترک دنیا کے بھیس میں جلب دنیا کا کاروبار ایسا چمکایا کہ بڑے بڑے طالبین دنیا ان سے مات کھا گئے ۔ 

(۷) عفت کے معاملہ میں بھی فطرت سے لڑ کر رہبانیت نے بارہا شکست کھائی اور جب شکست کھائی تو بری طرح کھائی۔ خانقاہوں میں نفس کُشی کی کچھ مشقیں ایسی بھی تھیں جن میں راہب اور راہبات مل کر ایک ہی جگہ رہتے تھے اور بسا اوقات ذرا زیادہ مشق کرنے کے لیے ایک ہی بستر پر رات گزارتے تھے ۔ مشہور راہب سینٹ ایوا گریس (St. Evagrius) بڑی تعریف کے ساتھ فلسطین کے ان راہبوں کے ضبط نفس کا ذکر کرتا ہے جو ’’ اپنے جذبات پر اتنا قابو پا گئے تھے کہ عورتوں کے ساتھ یک جا غسل کرتے تھے اور ان کی دید سے ، ان کے لمس سے ، حتیٰ کہ ان کے ساتھ ہم آغوشی سے بھی ان کے اوپر طرف غلبہ نہ پاتی تھی‘‘ غُسل اگرچہ رہبانیت میں سخت ناپسندیدہ تھا مگر نفس کشی کی مشق کے لیے اس طرح کے غسل بھی کر لیے جاتے تھے ۔ آخر کار اسی فلسطین کے متعلق نیسا (Nyssa) کا سینٹ گریگوری  متوفی ۳۹۶ ء لکھتا ہے کہ وہ بد کرداری کا اڈا بن گیا ہے ۔ انسانی فطرت کبھی ان لوگوں سے انتقام لیے بغیر نہیں رہتی جو اس سے جنگ کریں ۔ رہبانیت اس سے لڑ کر بالآخر بد اخلاقی کے جس گڑھے میں جا گری اس کی داستان آٹھویں صدی سے گیارہویں صدی عیسوی تک کی مذہبی تاریخ کا بد نما ترین داغ ہے ۔ دسویں صدی کا ایک اطالوی  بشپ لکھتا ہے کہ ’’ اگر چرچ میں مذہبی خدمات انجام دینے والوں کے خلاف بد چلنی کی سزائیں نافذ کرنے کا قانون عملاً جاری کر دیا جائے تو لڑکوں کے سوا کوئی سزا سے نہ بچ سکے گا، اور اگر حرامی بچوں کو بھی مذہبی خدمات سے الگ کر دینے کا قاعدہ نافذ کیا جائے تو شاید چرچ کے خادموں میں کوئی لڑکا تک باقی نہ رہے ‘‘۔ قرون  متوسطہ کے مصنفین کی کتابیں ان شکایتوں سے بھری ہوئی ہیں کہ راہبات کی خانقاہیں بد اخلاقی کے چکلے بن گئی ہیں ، ان کی چار دیواریوں میں نو زائیدہ بچوں کا قتل عام ہو رہا ہے ، پادریوں اور چرچ کے مذہبی کارکنوں میں محرمات تک سے ناجائز تعلقات اور خانقاہوں میں خلاف وضع فطری جرائم تک پھیل گئے ہیں ، اور کلیساؤں میں اعتراف گناہ(Confession) کی رسم بد کرداری کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے ۔

ان تفصیلات سے صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید یہاں رہبانیت کی بدعت ایجاد کرنے اور پھر اس کا حق ادا نہ کرنے کا ذکر کر کے مسیحیت کے کس بگاڑ کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔

۵۵۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک اختلاف ہے ۔ ایک گروہ کہاتا ہے کہ یہاں یٰٓاَیّھَُا الَّذِیْنَ اٰمَنْوْا، کا خطاب ان لوگوں سے ہے جو حضرت عیسیٰؑ پر ایمان لائے ہوئے  تھے ۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاؤ، تمہیں اس پر دہرا اجر ملے گا، ایک اجر ایمان بر عیسیٰ کا اور دوسرا اجر ایمان بر محمدؐ کا۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ خطاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے والوں سے ہے ۔ ان سے ارشاد ہو رہا ہے کہ تم محض زبان سے آپ کی نبوت کا اقرار کر کے نہ رہ جاؤ، بلکہ صدق دل سے ایمان لاؤ اور ایمان لانے کا حق ادا کرو۔ اس پر تمہیں دہرا اجر ملے گا۔ ایک اجر کفر سے اسلام کی طرف آنے کا، اور دوسرا اجر اسلام میں اخلاص اختیار کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کا۔ پہلی تفسیر کی تائید سورہ قصص کی آیات ۵۲  تا ۵۴ کرتی ہیں اور مزید بر آں  اس کی تائید حضرت ابو موسیٰ اشعری کی یہ روایت بھی کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، تین آدمی ہیں جن کے لیے دہرا اجر ہے ۔ان میں سے ایک ہے رجُل مِّن اھل الکتاب اٰمن بنبیہ و اٰمن بمحمدؐ، ’’ اہل کتاب میں سے وہ شخص جو اپنے سابق نبی پر ایمان رکھتا تھا اور پھر محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) پر بھی ایمان لے آیا ‘‘ (بخاری و مسلم)۔ دوسری تفسیر کی تائید سورہ سبا کی آیت ۳۷ کرتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ مومنین صالحین کے لیے دو گنا اجر ہے ۔ دلیل کے اعتبار سے دونوں تفسیروں کا وزن مساوی ہے ۔ لیکن آگے کے مضمون پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دوسری تفسیر ہی اس مقام سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے ، بلکہ در حقیقت اس سورت کا پورا مضمون از اول تا آخر اسی تفسیر کی تائید کرتا ہے ۔ شروع سے اس سورت کے مخاطب وہی لوگ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کا اقرار کر کے داخل اسلام ہوئے تھے ، اور پوری سورت میں انہی کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ وہ محض زبان کے مومن نہ بنیں بلکہ اخلاص کے ساتھ سچے دل سے ایمان لائیں ۔

۵۶۔ یعنی دنیا میں علم و بصیرت کا وہ نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم کو قدم قدم پر صاف نظر آتا رہے گا کہ زندگی کے مختلف معاملات میں جاہلیت کی ٹیڑھی راہوں کے درمیان اسلام کی سیدھی راہ کونسی ہے ۔ اور آخرت میں وہ نور بخشے گا جس کا ذکر آیت ۱۲ میں گزر چکا ہے ۔

۵۷۔ یعنی ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی مخلصانہ کوشش کے باوجود بشری کمزوریوں کی بنا پر جو قصور بھی تم سے سرزد ہو جائیں ان سے درگزر فرمائے گا، اور وہ قصور بھی معاف کرے گا جو ایمان لانے سے پہلے جاہلیت کی حالت میں تم سے سرزد ہوئے تھے ۔