پہلی آیت کے فقرہ اِذَاجَآءَکَ الْمُنٰفِقُوْنَ سے ماخوذ ہے۔ یہ اس سورۃ کا نام بھی ہے اور اس کے مضمون کا عنوان بھی، کیونکہ اس میں منافقین ہی کے طرز عمل پر تبصرہ کیا گیا ہے۔
جیسا کہ ہم آگے چل کر بتائیں گے ، یہ سورۃ غزوہ بنی المُصطَلِق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی واپسی پر یا تو دوران سفر میں نازل ہوئی ہے ، یا حضورؐ کے مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد فوراً ہی اس کا نزول ہوا ہے۔ اور ہم سورہ نور کے دیباچے میں یہ بات بتحقیق بیان کر چکے ہیں کہ غزوہ بنی المصطلق شعبان ۶ ھجری میں واقع ہوا تھا۔ اس طرح اس کی تاریخ نزول ٹھیک ٹھیک متعین ہو جاتی ہے۔
جس خاص واقعہ کے بارے میں یہ سورۃ نازل ہوئی ہے اس کا ذکر کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مدینے کے منافقین کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال لی جائے ، کیونکہ جو واقعہ اس موقع پر پیش آیا تھا وہ محض ایک اتفاقی حادثہ نہ تھا بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا سلسلۂ واقعات تھا جو بالآخر اس نوبت تک پہنچا۔
مدینہ طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری سے پہلے اَوس اور خز رج کے قبیلے آپس کی خانہ جنگیوں سے تھک کر ایک شخص کی قیادت و سیادت پر قریب قریب متفق ہو چکے تھے اور اس بات کی تیاریاں کر رہے تھے کہ اس کو اپنا بادشاہ بنا کر باقاعدہ اس کی تاج پوشی کی رسم ادا کر دیں ، حتیٰ کہ اس کے لیے تاج بنا بھی لیا گیا تھا۔ یہ قبیلہ خز رج کا رئیس عبداللہ بن اُبی بن سَلول تھا۔ محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ قبیلہ خز رج میں اس کی بزرگی بالکل متفق علیہ تھی،اور اَوس و خز رج اس سے پہلے کبھی ایک شخص کی قیادت پر جمع نہیں ہوئے تھے (ابن ہشام، ج ۲ ص ۲۳۴)۔
اس صورت حال میں اسلام کا چرچا مدینے پہنچا اور ان دونوں قبیلوں کے با اثر آدمی مسلمان ہونے شروع ہو گئے۔ ہجرت سے پہلے بیعت عَقَبہ ثانیہ کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مدینہ طیبہ تشریف لانے کی دعوت دی جا رہی تھی اس وقت حضرت عباس بن عبادہ بن نَضْلَۂ انصاری اس دعوت کو صرف اس مصلحت سے مؤخر کرنا چاہتے تھے کہ عبداللہ بن ابی بھی بیعت اور دعوت میں شریک ہو جائے ، تاکہ مدینہ بالاتفاق اسلام کا مرکز بن سکے۔ لیکن جو وفد بیعت کے لیے حاضر ہوا تھا اس نے اس مصلحت کو کوئی اہمیت نہ دی اور اس کے تمام شرکاء جن میں دونوں قبیلوں کے ۷۵ آدمی شامل تھے ، ہر خطرہ مول لے کر حضورؐ کو دعوت دینے کے لیے تیار ہو گئے (ابن ہشام، ج ۲، ص ۸۹)۔ اس واقعہ کی تفصیلات ہم سورہ انفال کے دیباچے میں بیان کر چکے ہیں۔
اس کے بعد جب حضورؐ مدینے پہنچے تو انصار کے ہر گھرانے میں اسلام اتنا پھیل چکا تھا کہ عبداللہ بن ابی بے بس ہو گیا اور اس کو اپنی سرداری بچانے کی اس کے سوا کوئی صورت نظر نہ آئی کہ خود بھی مسلمان ہو جائے۔ چنانچہ وہ اپنے ان بہت سے حامیوں کے ساتھ، جن میں دونوں قبیلوں کے شیوخ اور سردار شامل تھے ، داخل اسلام ہو گیا، حالانکہ دل ان سب کے جل رہے تھے ، اور خاص طور پر ابن ابی کو اس بات کا سخت غم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی بادشاہی چھین لی ہے۔ کئی سال تک اس کا یہ منافقانہ ایمان اور اپنی ریاست چھن جانے کا یہ غم طرح طرح کے رنگ دکھاتا رہا۔ ایک طرف حال یہ تھا کہ ہر جمعہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے بیٹھتے تو عبداللہ بن ابی اٹھ کر کہتا کہ ’’ حضرت، یہ اللہ کے رسول آپ کے درمیان موجود ہیں جن کی ذات سے اللہ نے آپ کو عزت اور شرف بخشا ہے ، لہٰذا آپ ان کی تائید کریں اور جو کچھ یہ فرماتے ہیں اسے غور سے سنیں اور ان کی اطاعت کریں ‘‘ (ابن ہشام، ج ۳،ص ۱۱۱)۔ دوسری طرف کیفیت یہ تھی کہ روز بروز اس کی منافقت کا پردہ چاک ہوتا چلا جا رہا تھا اور مخلص مسلمانوں پر یہ بات کھلتی چلی جاتی تھی کہ وہ اس کے ساتھی اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور گروہ اہل ایمان سے سخت بغض رکھتے ہیں۔
ایک مرتبہ حضورؐ کسی راستے سے گزر رہے تھے کہ ابن ابی نے آپ کے ساتھ بد تمیزی کی۔ آپ نے حضرت سعد بن عبادہ سے اس کی شکایت فرائی تو انہوں نے عرض کیا، ’’ یا رسول اللہ، اس شخص کے ساتھ نرمی برتیے آپ کی تشریف آوری سے پہلے ہم اس کے لیے تاج شاہی تیار کر رہے تھے ، اب یہ سمجھتا ہے کہ آپ نے اس سے بادشاہی چھین لی ہے ‘‘ (ابن ہشام، ج۲، ص ۲۳۷۔ ۲۳۸ )۔
جنگ بدر کے بعد جب یہود نبی قینقاع کی صریح بد عہدی اور بلا اشتعال سرکشی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر چڑھائی کی تو یہ شخص ان کی حمایت پر اٹھ کھڑا ہوا اور حضورؐ کی زرہ پکڑ کر کہنے لگا کہ ’’یہ سات سو مردان جنگی، جو ہر دشمن کے مقابلے میں میرا ساتھ دیتے رہے ہیں ، آج ایک دن میں آپ انہیں ختم کر ڈالنا چاہتے ہیں ؟ خدا کی قَسم، میں آپ کو ہر گز نہیں چھوڑوں گا جب تک آپ میرے ان حلیفوں کو معاف نہ کر دیں گے ‘‘ (ابن ہشام، ج ۳، ص ۵۱۔۵۲)۔
جنگ احد کے موقع پر اس شخص نے صریح غداری کی اور عین وقت پر اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر میدان جنگ سے الٹا واپس آ گیا۔ جس نازک گھڑی میں اس نے یہ حرکت کی تھی اس کی نزاکت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ قریش کے لوگ تین ہزار کا لشکر لے کر مدینے پر چڑھ آئے تھے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے مقابلے میں صرف ایک ہزار آدمی ساتھ لے کر مدافعت کے لیے نکلے تھے۔ ان ایک ہزار میں سے بھی یہ منافق تین سو آدمی توڑ لایا اور حضورﷺ کو صرف سات سو کی جمعیت کے ساتھ تین ہزار دشمنوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔
اس واقعہ کے بعد مدینے کے عام مسلمانوں کو یقین کے ساتھ یہ معلوم ہو گیا کہ یہ شخص قطعی منافق ہے ، اور اس کے وہ ساتھی بھی پہچان لیے گئے جو منافقت میں اس کے شریک کار تھے۔ اسی بنا پر جنگ احد کے بعد جب پہلا جمعہ آیا اور یہ شخص حضورؐ کے خطبہ سے پہلے حسب معمول تقریر کرنے کے لیے اٹھا تو لوگوں نے اس کا دامن کھینچ کر کہا ’’ بیٹھ جاؤ، تم یہ باتیں کرنے کے اہل نہیں ہو‘‘۔ مدینے میں یہ پہلا موقع تھا کہ علانیہ اس شخص کی تذلیل کی گئی۔ اس پر برہم ہو کر وہ لوگوں کی گردنوں پر سے کودتا پھاندتا مسجد سے نکل گیا۔ مسجد کے دروازے پر بعض انصاریوں نے اس سے کہا ’’ یہ کیا حرکت کر رہے ہو، واپس چلو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے استغفار کی درخواست کرو‘‘۔ اس نے بگڑ کر جواب دیا ’’ میں ان سے کوئی استغفار نہیں کرانا چاہتا‘‘(ابن ہشام، ج ۳، ص ۱۱۱)۔
پھر ۴ ہجری میں غزوہ بنی النضیر پیش آیا اور اس موقع پر اس شخص نے اور اس کے ساتھیوں نے اور بھی زیادہ کھل کر اسلام کے خلاف اعدائے اسلام کی حمایت کی۔ ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ ان یہودی دشمنوں سے جنگ کی تیاری کر رہے تھے ، اور دوسری طرف یہ منافقین اندر ہی اندر یہودیوں کو پیغام بھیج رہے تھے کہ ڈٹے رہو، ہم تمہارے ساتھ ہیں ، تم سے جنگ کی جائے گی تو ہم تمہاری مدد کریں گے اور تم کو نکالا جائے گا تو ہم تمہارے ساتھ نکلیں گے۔ اس خفیہ ساز باز کا راز اللہ تعالیٰ نے خود کھول دیا، جیسا کہ سورہ حشر کے دوسرے رکوع میں گزر چکا ہے۔
لیکن اس کی اور اس کے ساتھیوں کی اتنی پردہ دری ہو جانے کے باوجود جس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے ساتھ در گزر کا معاملہ فرما رہے تھے وہ یہ تھی کہ منافقین کا ایک بڑا جتھا اس کے ساتھ تھا۔ اَوس اور خز رج دونوں قبیلوں کے بہت سے سردار اس کے حامی تھے۔ مدینے کی آبادی میں کم از کم ایک تہائی تعداد اس کے ساتھیوں کی موجود تھی، جیسا کہ غزوہ احد کے موقع پر ظاہر ہو چکا تھا۔ ایسی حالت میں یہ کسی طرح مناسب نہ تھا کہ باہر کے دشمنوں سے لڑائی کے ساتھ ساتھ اندر کے ان دشمنوں سے بھی جنگ مول لے لی جاتی۔ اسی بنا پر ان کی منافقت کا حال جانتے ہوئے بھی حضورؐ ایک مدت تک ان کے ساتھ ان کے ظاہری دعوائے ایمان کے لحاظ سے معاملہ فرماتے رہے۔ دوسری طرف یہ لوگ بھی نہ اتنی طاقت رکھتے تھے ، نہ ہمت کہ علانیہ کافر بن کر اہل ایمان سے لڑ لیتے ، یا کسی حملہ آور دشمن کے ساتھ کھلم کھلا مل کر میدان میں آ جاتے۔ بظاہر وہ اپنا ایک مضبوط جتھا بنائے ہوئے تھے مگر ان کے اندر وہ کمزور یاں موجود تھیں جن کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے سورہ حشر کی آیات ۱۲۔ ۱۴ میں صاف صاف کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ اس لیے وہ مسلمان بنے رہنے میں ہی اپنی خیر سمجھتے تھے۔ مسجدوں میں آتے تھے۔ نمازیں پڑھتے تھے۔ زکوٰۃ بھی دے ڈالتے تھے۔ زبان سے ایمان کے وہ لمبے چوڑے دعوے کرتے تھے جن کے کرنے کی مخلص مسلمانوں کو کبھی ضرورت پیش نہ آ تی تھی۔ ان کے پاس اپنی ہر منافقانہ حرکت کے لیے ہزار جھوٹی توجہیں موجود تھیں جن سے وہ خاص طور پر اپنے ہم قبیلہ انصار کو یہ دھو کا دینے کی کوشش کرتے رہتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ان تدبیروں سے وہ اپنے آپ کو ان نقصانات سے بھی بچا رہے تھے جو انصار کی برادری سے الگ ہو جانے کی صورت میں ان کو پہنچ سکتے تھے ، اور فتنہ پروازی کے ان مواقع سے بھی فائدہ اٹھا رہے تھے جو اس برادری میں شامل رہ کر انہیں مل سکتے تھے۔
یہی وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے عبداللہ بنا ابی اور اس کے ساتھی منافقین کو غزوہ بنی المصْطَلِق کی مہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جانے کا موقع مل گیا، اور انہوں نے بیک وقت دو ایسے عظیم فتنے اٹھا دیے جو مسلمانوں کی جمعیت کو بالکل پارہ پارہ کر سکتے تھے۔ مگر قرآن پاک کی تعلیم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت سے اہل ایمان کو جو بہترین تربیت ملی تھی اس کی بدولت ان دونوں فتنوں کا بر وقت قلع قمع ہو گیا اور یہ منافقین الٹے خود ہی رسوا ہو کر رہ گئے۔ ان میں سے ایک فتنہ وہ تھا جس کا ذکر سورہ نور میں گزر چکا ہے۔ اور دوسرا فتنہ یہ ہے کہ جس کا اس سورہ میں ذکر کیا گیا ہے۔
اس واقعہ کو بخاری، مسلم، احمد، نسائی، ترمذی، بیہقی، طبرانی، ابن مردویہ، عبدالرزاق، ابن جریر طبری، ابن سعد اور محمد بن اسحاق نے بکثرت سندوں سے نقل کیا ہے۔ بعض روایات میں اس مہم کا نام نہیں لیا گیا ہے جس میں یہ پیش آیا تھا: اور بعض میں اسے غزوہ تبوک کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ مگر مغازی اور سیر کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ یہ واقعہ غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر پیش آیا تھا۔ صورت واقعہ تمام روایات کو جمع کرنے سے یہ معلوم ہوتی ہے :
بنی المصطلق کو شکست دینے کے بعد ابھی لشکر اسلام اس بستی میں ٹھیرا ہوا تھا جو مریسبع نامی کنویں پر آباد تھی کہ یکایک پانی پر دو صاحبوں کا جھگڑا ہو گیا۔ ان میں سے ایک کا نام جہجاہ بن مسعود غِفاری تھا جو حضرت عمرؓ کے ملازم تھے اور ان کا گھوڑا سنبھالنے کی خدمت انجام دیتے تھے۔ اور دوسرے صاحب سنان بن وَبَرالجہنی(دونوں اصحاب کے نام مختلف روایات میں مختلف بیان کیے گئے ہیں۔ ہم نے یہ نام ابن ہشام کی روایت سے لیے ہیں ) تھے جن کا قبیلہ خز رج کے ایک قبیلے کا حلیف تھا۔ زبانی ترش کلامی سے گزر کر نوبت ہاتھا پائی تک پہنچی اور جہجاہ نے سنان کے ایک لات رسید کر دی جسے اپنی قدیم یمنی روایات کی بنا پر انصار سخت توہین و تذلیل سمجھتے تھے۔ اس پر سنان نے انصار کو مدد کے لیے پکارا، اور جہجاہ نے مہاجرین کو آواز دی۔ ابن ابی نے اس جھگڑے کی خبر سنتے ہیں اَوس اور خز رج کے لوگوں کو بھڑکانا اور چیخنا شروع کر دیا کہ دوڑو اور اپنے حلیف کی مدد کرو۔ ادھر سے کچھ مہاجرین بھی نکل آئے قریب تھا کہ بات بڑھ جاتی اور اسی جگہ انصار و مہاجرین آپس میں لڑ پڑتے جہاں ابھی ابھی وہ مل کر ایک دشمن قبیلے سے لڑے تھے اور اسے شکست دے کر ابھی اسی کے علاقے میں ٹھیرے ہوئے تھے۔ لیکن یہ شور سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نکل آئے اور آپ نے فرمایا : ما بالُ دعوی الجاھلیۃ؟ مالکم ولدعوۃ الجاھلیۃ؟ دعوھا نانھا مُنْتِنَۃ‘‘۔ یہ جاہلیت کی پکار کیسی؟ تم لوگ کہاں اور یہ جاہلیت کی پکار کہاں ؟ اسے چھوڑ دو، یہ بڑی گندی چیز ہے ‘‘۔ (یہ ایک بڑی اہم بات ہے جو اس موقع پر حضورؐ نے ارشاد فرمائی۔ اسلام کی صحیح روح کو سمجھنے کے لیے اسے ٹھیک ٹھیک سمجھ لینا ضروری ہے۔ اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ دو آدمی اگر اپنے جھگڑے میں لوگوں کو مدد کے لیے پکارنا چاہیں تو وہ کہیں ، مسلمانو، آؤ اور ہماری مدد کرو، یا یہ کہ لوگو ہماری مدد کے لیے پکارنا چاہیں تو وہ کہیں ، مسلمانو، آؤ اور ہماری مدد کرو، یا یہ کہ لوگو ہماری مدد کے لیے آؤ۔ لیکن اگر ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے قبیلے ، یا برادری، یا نسل و رنگ، یا علاقے کے نام پر لوگوں کو پکارتا ہے تو یہ جاہلیت کی پکار ہے ، اور اس پکار پر لبیک کہہ کر آنے والے اگر یہ نہیں دیکھتے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون، اور حق و انصاف کی بنا پر مظلوم کی حمایت کرنے کے بجائے اپنے اپنے گروہ کے آدمی کی حمایت میں ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہو جاتے ہیں تو یہ جاہلیت کا فعل ہے جس سے دنیا میں فساد برپا ہوتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے گندی اور گھناؤنی چیز قرار دیا اور مسلمانوں سے فرمایا کہ تمہارا اس جاہلیت کی پکار سے کیا واسطہ؟ تم اسلام کی بنیاد پر ایک ملت بنے تھے ، اب یہ انصار اور مہاجر کے نام پر تمہیں کیسے پکارا جا رہا ہے ، اور اس پکار پر تم کہاں دوڑے جا رہے ہو؟ علامہ سُہیلی نے روض الانف میں لکھا ہے کہ فقہائے اسلام نے کسی جھگڑے یا اختلاف میں جاہلیت کی پکار بلند کرنے کو ایک فوج داری جرم قرار دیا ہے۔ ایک گروہ اس کی سزا پچاس ضرب تازیانہ قرار دیتا ہے۔ دوسرا گروہ دس ضرب تجویز کرتا ہے ، اور تیسرا گروہ کہتا ہے کہ اس کی سزا حالات کی مناسبت سے دی جانی چاہیے۔ بعض حالات میں صرف زجر و توبیخ کافی ہے ، بعض دوسرے حالات میں ایسی پکار بلند کرنے والے کو قید کرنا چاہیے ، اور اگر یہ زیادہ شر انگیز ہو تو اس کے مرتکب کو سزائے تازیانہ دینی چاہیے۔) اس پر دونوں طرف کے صالح لوگوں نے آگے بڑھ کر معاملہ رفع دفع کا دیا اور سِنان نے جہجاہ کو معاف کر کے صلح کر لی۔
اس کے بعد ہر وہ شخص جس کے دل میں نفاق تھا عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا اور ان لوگوں نے جمع ہو کر اس سے کہا کہ ’’اب تک تو تم سے امیدیں وابستہ تھیں اور تم مدافعت کر رہے تھے ، مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمارے مقابلے میں ان کنگلوں (مدینہ کے منافقین ان تمام لوگوں کو جز اسلام قبول کر کر کے مدینہ میں آ رہے تھے ، ’’جلابیب‘‘ کہا کرتے تھے۔ لغوی معنی تو اس لفظ کے گلیم پوش یا موٹے جھوٹے کپڑے پہننے والے کے ہیں ، مگر اصل مفہوم جس میں وہ لوگ غریب مہاجرین کی تذلیل کے لیے یہ لفظ استعمال کرتے تھے ، کنگلے کے لفظ سے زیادہ صحیح طور پر ادا ہوتا ہے۔ ) کے مدد گار بن گئے ہو ‘‘۔ ابن ابی پہلے ہی کھول رہا تھا۔ ان باتوں سے وہ اور بھی زیادہ بھڑک اٹھا کہنے لگا ’’ یہ سب کچھ تمہارا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ تم نے ان لوگوں کو اپنے ملک میں جگہ دی، ان پر اپنے مال تقسیم کیے ، یہاں تک کہ اب یہ پھل پھول کر خود ہمارے ہی حریف بن گئے۔ ہماری اور ان قریش کے کنگلوں (یا اصحاب محمدؐ ) کی حالت پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ اپنے کتے کو کھلا پلا کر موٹا کرتا کہ تجھی کو پھاڑ کھائے۔ تم لوگ ان سے ہاتھ روک لو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں۔ خدا کی قسم، مدینے واپس پہنچ کر ہم میں سے جو عزت والا بنے وہ ذلیل کو نکال دے گا‘‘۔
مجلس میں اتفاق سے حضرت زید بن ارقم بھی موجود تھے جو اس وقت ایک کم عمر لڑکے تھے۔ انہوں نے یہ باتیں سن کر اپنے چچا سے ان کا ذکر کی، اور ان کے چچا نے جو انصار کے رئیسوں میں سے تھے ، جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کر دیا۔ حضرت نے زید کو بلا کر دریافت کیا تو انہوں نے جو کچھ سنا تھا من و عن دہرا دیا۔ (فقہاء نے اس سے یہ حکم اخذ کیا ہے کہ ایک شخص کی بری بات دوسرے شخص تک پہنچانا اگر کسی دینی، اخلاقی یا ملی مصلحت کے لیے ہو تو یہ چغلی کی تعریف میں نہیں آتا۔ شریعت میں جس چغل خوری کو حرام کیا گیا ہے وہ فساد کی غرض سے اور لوگوں کو آپس میں لڑانے کے لیے چغلی کھانا ہے۔ )حضورؐ نے فرمایا شاید تم ابن ابی سے ناراض ہو۔ ممکن ہے تم سے سننے میں کچھ غلطی ہو گئی ہو۔ ممکن ہے تمہیں شبہ ہو گیا ہو کہ ابن ابی یہ کہہ رہا ہے۔ مگر زید نے عرض کیا نہیں حضور، خدا کی قسم میں نے اس کو یہ باتیں کہتے سنا ہے۔ اس پر حضورؐ نے ابن ابی کو بلا کر پوچھا تو وہ صاف مکر گیا اور قسمیں کھانے لگا کہ میں نے یہ باتیں ہر گز نہیں کہیں۔ انصار کے لوگوں نے بھی کہا کہ حضورؐ، لڑکے کی بات ہے۔ شاید اسے وہم ہو گیا ہو۔ یہ ہمارا شیخ اور بزرگ ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک لڑکے کی بات کا اعتبار نہ فرمایئے۔ قبیلے کے بڑے بوڑھوں نے زید کو بھی ملامت کی اور وہ بیچارے رنجیدہ ہو کر اپنی جگہ بیٹھ رہے۔ مگر حضورؐ زید کو بھی جانتے تھے اور عبداللہ بن ابی کو بھی، اس لیے آپ سمجھ گئے کہ اصل بات کیا ہے۔
حضرت عمرؓ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے آ کر عرض کیا ’’ مجھے اجازت دیجیے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ یا اگر مجھے یہ اجازت دینا مناسب خیال نہیں فرماتے تو خود انصار ہی میں سے معاذ بن جبل، یا عبّاد بن بشر، یا سعد بن معاذ، یا محمد بن مسلمہ کو حکم دیجیے (مختلف روایات انصاری بزرگوں کے نام آئے ہیں جن کے متعلق حضرت عمرؓ نے عرض کیا تھا کہ آپ ان میں سے کسی شخص سے یہ خدمت لے لیں اگر مجھ سے اس لیے یہ کام لینا مناسب خیال نہیں فرماتے کہ میں مہاجر ہوں ، میرے ہاتھوں اس کے مارے جانے سے فتنے بھڑک اٹھنے کا امکان ہے )۔ کہ وہ اسے قتل کر دیں ‘‘۔ مگر حضورؐ نے فرمایا، ’’ ایسا نہ کرو، لوگ کہیں گے کہ محمدؐ کے معمول کے لحاظ سے وہ کوچ کا وقت نہ تھا۔ مسلسل ۳۰ گھنٹے چلتے رہے یہاں تک کہ لوگ تھک کر چور ہو گئے۔ پھر آپ نے ایک جگہ پڑاؤ کیا اور تھکے ہوئے لوگ زمین پر کمر ٹکاتے ہی سو گئے۔ یہ آپ نے اس لیے کیا کہ جو کچھ میسیع کے کنوئیں پر پیش آیا تھا اس کے اثرات لوگوں کے ذہن سے محو ہو جائیں۔ راستے میں انصار کے ایک سردار حضرت اُسید بن حضیر آپ سے ملے اور عرض کیا ’’ یا رسول اللہ، آج آپ نے ایسے وقت کوچ کا حکم دیا جو سفت کے لیے موزوں نہ تھا اور آپ کبھی ایسے وقت میں سفر کا آغاز نہیں فرمایا کرتے تھے ‘‘؟ حضورؐ نے جواب دیا، ’’ تم نے سنا نہیں کہ تمہارے ان صاحب نے کیا گوہر افشانی کی ہے ؟’’ انہوں نے پوچھا کون صاحب؟ فرمایا عبداللہ بن ابی۔ انہوں نے پوچھا اس نے کیا کہا؟ فرمایا ’’ اس نے کہا ہے کہ مدینہ پہنچ کر عزت والا ذلیل کو نکال باہر کرے گا ‘‘۔ انہوں نے عرض کیا، ’’ یا رسول اللہ، خدا کی قسم، عزت والے تو آپ ہیں اور ذلیل وہ ہے ، آپ جب چاہیں اسے نکال سکتے ہیں ‘‘۔
رفتہ رفتہ یہ بات تمام انصار میں پھیل گئی اور ان میں ابن ابی کے خلاف سخت غصہ پیدا ہو گیا۔ لوگوں نے ابن ابی سے کہا جا رک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے معافی مانگو۔مگر اس نے تڑخ کر جواب دیا ’’ تم نے کہا کہ ان پر ایمان لاؤ۔ میں ایمان لے آیا تم جے کہا کہ اپنے مال کی زکوٰۃ دو۔ میں نے زکوٰۃ بھی دے دی۔ اب بس یہ کسر رہ گئی ہے کہ میں محمدؐ کو سجدہ کروں ‘‘۔ ان باتوں سے اس کے خلاف مومنین انصار کی ناراضی اور زیادہ بڑھ گئی اور ہر طرف سے اس پر پھٹکار پڑنے لگی۔ جب یہ قافلہ مدینہ طیبہ میں داخل ہونے لگا تو عبداللہ بن ابی کے صاحبزادے ، بن کا نام بھی عبداللہ ہی تھا، تلوار سونت کر باپ کے آگے کھڑے ہو گئے اور بولے ،’’ آپ نے کہا تھا کہ مدینہ واپس پہنچ کر عزت والا ذیل کو نکال دے گا، اب آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ عزت آپ کی ہے یا اللہ اور اس کے رسولؐ کی۔ خدا کی قسم، آپ مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ کو اجازت نہ دیں ’’۔ اس پر ابن ابی چیخ اٹھا،’’ خز رج کے لوگو ! ذرا دیکھو، میرا بیٹا ہی مجھے مدینہ میں داخل ہونے سے روک رہا ہے ‘‘۔ لوگوں نے یہ خبر حضورؐ تک پہنچائی اور آپ نے فرمایا ’’ عبداللہ سے کہو، اپنے باپ کو گھر آنے دے ‘‘۔ عبد اللہؓ نے کہا ’’ ان کا حکم ہے تو اب آپ داخل ہو سکتے ہیں ‘‘۔ اس وقت حضورؐ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا، ’’ کیوں عم، اب تمہارا کیا خیال ہے ؟ جس وقت تم نے کہا تھا کہ مجھے اس کو قتل کرنے کی اجازت دیجیے اس وقت اگر تم اسے قتل کر دیتے تو بہت سی ناکیں اس پر پھڑ کنے لگتیں۔ آج اگر میں اس کے قتل کا حکم دوں تو اسے قتل تک کیا جا سکتا ہے ‘‘۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا، ’’ خدا کی قسم اب مجھے معلوم ہو گیا کہ اللہ کے رسول کی بات میری بات سے زیادہ مبنی بر حکمت تھی‘‘۔(اس سے دو اہم شرعی مسئلوں پر روشنی پڑتی ہے۔ ایک یہ کہ جو طرز عمل ابن بی نے اختیار کیا تھا، اگر کوئی شخص مسلم ملت میں رہتے ہوئے اس طرح کا رویہ اختیار کرے تو وہ قتل کا مستحق ہے۔ دوسرے یہ کہ محض قانوناً کسی شخص کے مستحق قتل ہو جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ضرور اسے قتل ہی کر دیا جائے۔ ایسے کسی فیصلے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا اس کا قتل کسی عظیم تر فتنے کا موجب تو نہ بن جائے گا۔ حالات سے آنکھیں بن کر کے قانون کا اندھا دھند استعمال بعض اوقات اس مقصد کے خلاف بالکل اُلٹا نتیجہ پیدا کر دیتا ہے جس کے لیے قانون استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ایک منافق اور مفسد آدمی کے پیچھے کوئی قابل لحاظ سیاسی طاقت موجود ہو تو اسے سزا دے کر مزید فتنوں کو سر اٹھانے کا موقع دینے سے بہتر یہ ہے کہ حکمت اور تدبر کے ساتھ اس اصل سیاسی طاقت کا استیصال کر دیا جائے جس کے بل پر وہ شرارت کر رہا ہو۔ یہی مصلحت تھے جس کی بنا پر حضورؐ نے عبداللہ بنا بی کو اس وقت بھی سزا نہ دی جب آپ اسے سزا دینے پر قادر تھے ، بلکہ اس کے ساتھ برابر نرمی کا سلوک کرتے رہے ، یہاں تک کہ دو تین سال کے اندر مدینہ میں منافقین کا زور ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا۔ )
یہ تھے وہ حالات جن میں یہ سورت، اغلب یہ ہے کہ حضورؐ کے مدینہ پہنچنے کے بعد نازل ہوئی۔
۱۔ یعنی جو بات وہ زبان سے کہہ رہے ہیں وہ ہے تو بجائے خود سچی، لیکن چونکہ ان کا اپنا عقیدہ وہ نہیں ہے جسے وہ زبان سے ظاہر کر رہے ہیں ،اس لیے اپنے اس قول میں وہ جھوٹے ہیں کہ وہ آپ کے رسول ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ شہادت دو چیزوں سے مرکب ہوتی ہے۔ ایک وہ اصل بات جس کی شہادت دی جائے۔ دوسرے اس بات کے متعلق شہادت دینے والے کا اپنا عقیدہ اب اگر بات بجائے خود بھی سچی ہو، اور شہادت دینے والے کا عقیدہ بھی وہی ہو جس کو وہ زبان سے بیان کر رہا ہو، تو ہر لحاظ سے وہ سچا ہو گا۔ اور اگر بات اپنی جگہ جھوٹی ہو، لیکن شہادت دینے والا اسی کے حق ہونے کا عقیدہ بیان کرنے میں صادق ہے ، اور ایک دوسرے لحاظ سے اس کو جھوٹا کہیں گے ، کیونکہ جس بات کی وہ شہادت دے رہا ہے وہ بجائے خود غلط ہے۔ اس کے برعکس اگر بات اپنی جگہ سچی ہو لیکن شہادت دینے والے کا اپنا عقیدہ اس کے خلاف ہو، تو ہم اس لحاظ سے اس کو سچا کہیں گے کہ وہ صحیح بات کی شہادت دے رہا ہے ، اور اس لحاظ سے اس کو جھوٹا کہیں گے کہ اس کا اپنا عقیدہ وہ نہیں ہے جس کا وہ زبان سے اظہار کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مومن اگر اسلام کو بر حق کہے تو وہ ہر لحاظ سچا ہے۔ لیکن ایک یہودی اپنی یہودیت پر قائم رہتے ہوئے اس دین کو اگر بر حق کہے تو بات اس کی سچی ہو گی مگر شہادت اس کی جھوٹی قرار دی جائے گی، کیونکہ وہ اپنے عقیدے کے خلاف شہادت دے رہا ہے۔ اور اگر وہ اس دین کو باطل کہے ، تو ہم کہیں گے کہ بات اس کی جھوٹی ہے ، مگر شہادت وہ اپنے عقیدے کے مطابق سچی دے رہا ہے۔
۲۔ یعنی اپنے مسلمان اور مومن ہونے کا یقین دلانے کے لیے جو قَسمیں وہ کھاتے ہیں ، ان سے وہ ڈھال کا کام لیتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے غصے سے بچے رہیں اور ان کے ساتھ مسلمان وہ برتاؤ نہ کر سکیں جو کھُلے کھُلے دشمنوں سے کیا جاتا ہے۔
ان قَسموں سے مراد وہ قَسمیں بھی ہو سکتی ہیں جو وہ بالعموم اپنے ایمان کا یقین دلانے کے لیے کھایا کرتے تھے ، اور وہ قَسمیں بھی ہو سکتی ہیں جو اپنی کسی منافقانہ حرکت کے پکڑے جانے پر وہ کھاتے تھے تاکہ مسلمانوں کو یہ یقین دلائیں کہ وہ حرکت انہوں نے منافقت کی بنا پر نہیں کی تھی، اور وہ قَسمیں بھی ہو سکتی ہیں جو عبداللہ بن ابی نے حضرت زید بن اَرقم کی دی ہوئی خبر کو جھٹلانے کے لیے کھائی تھیں۔ ان سب احتمالات کے ساتھ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کو قَسم قرار دیا ہو کہ ’’ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ‘‘۔ اس آخری احتمال کی بنا پر رقہاء کے درمیان یہ بحث پیدا ہوئی ہے کہ کوئی شخص ’’ میں شہادت دیتا ہوں ‘‘ کے الفاظ کہہ کر کوئی بات بیان کرے تو آیا اسے قَسم یا حلف (Oath) قرار دیا جائے گا یا نہیں۔ امام ابو حنیفہ ؒ اور ان کے اصحاب (امام زُفَر کے سوا) اور امام سفیان ثوری اور امام اَوزاعی اسے حلف (شرعی اصطلاح میں یمین ) قرار دیتے ہیں۔ امام زفر کہتے ہیں کہ یہ حلف نہیں ہے۔ امام مالک سے دو قول مروی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مطلقاً حلف ہے ، اور دوسرا قول یہ ہے کہ اگر اس نے ’’ شہادت دیتا ہوں ‘‘ کے الفاظ کہتے وقت بیت یہ کی ہو کہ ’’خدا کی قَسم میں شہادت دیتا ہوں ‘‘، یا ’’ خدا کو گواہ کر کے میں شہادت دیتا ہوں ‘‘ تو اس صورت میں یہ حلفیہ بیان ہو گا ورنہ نہیں۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ اگر کہنے والا یہ الفاظ بھی کہے کہ میں ’’ خدا کو گواہ کر کے شہادت دیتا ہوں ‘‘ تب بھی اس کا یہ بیان حلفیہ بیان نہ ہو گا، الا یہ الفاظ اس نے حلف اٹھانے کی نیت سے کہے ہوں (احکام القرآن للجصاص۔ احکام القرآن لابن العربی)۔
۳۔ صد کا لفظ عربی زبان میں لازم بھی ہے اور متعدی بھی۔ اس لیے صَدُّ وْا عَنْ سَبِیْلِ اللہِ کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہ اللہ کے راستے سے خود رُکتے ہیں ، اور یہ بھی کہ وہ اس راستے سے دوسروں کو روکتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں دونوں معنی درج کر دیے ہیں۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ اپنی ان قَسموں کے ذریعہ سے مسلمانوں کے اندر اپنی جگہ محفوظ کر لینے کے بعد وہ اپنے لیے ایمان کے تقاضے پورے نہ کرنے اور خدا و رسول کی اطاعت سے پہلو تہی کرنے کی آسانیاں پیدا کر لیتے ہیں۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ اپنی ان جھوٹی قَسموں کی آڑ میں وہ شکار کھیلتے ہیں ، مسلمان بن کر مسلمانوں کی جماعت میں اندر سے رخنے ڈالتے ہیں ، مسلمانوں کے اسرار سے واقف ہو کر دشمنوں کو ان کی خبریں پہنچاتے ہیں ، اسلام سے غیر مسلموں کو بد گمان کرنے اور سادہ لوح مسلمانوں کے دلوں میں شبہات اور وسوسے ڈالنے کے لیے وہ وہ حربے استعمال کرتے ہیں جو صرف ایک مسلمان بنا ہوا منافق ہی استعمال کر سکتا ہے ، کھلا کھلا دشمن اسلام ان سے کام نہیں لے سکتا۔
۴۔ اس آیت میں ایمان لانے سے مراد ایمان کا اقرار کر کے مسلمانوں میں شامل ہونا ہے۔ اور کفر کر نے سے مراد دل سے ایمان نہ لانا اور اسی کفر پر قائم رہنا ہے جس پر وہ اپنے ظاہری اقرار ایمان سے پہلے قائم تھے۔ کلام کا مدعا یہ ہے کہ جب انہوں نے خوب سوچ سمجھ کر سیدھے سیدھے ایمان یا صاف صاف کفر کا طریقہ اختیار رکنے کے بجائے یہ منافقانہ روش اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اور ان سے یہ توفیق سلب کر لی گئی کہ وہ ایک سچے اور بے لاگ اور شریف انسان کا سا رویہ اختیار کریں۔ اب ان کی سمجھ بوجھ کی صلاحیت مفقود ہو چکی ہے۔ ان کی اخلاقی حس مر چکی ہے۔ انہیں اس راہ پر چلتے ہوئے کبھی یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ شب و روز کا جھوٹ اور یہ ہر وقت کا مکر و فریب اور یہ قول و فعل کا دائمی تضاد، کیسی ذلیل حالت ہے جس میں انہوں نے اپنے آپ کو مبتلا کر لیا ہے۔
یہ آیت من جملہ ان آیات کے ہے جن میں اللہ کی طرف سے کسی کے دل پر مہر لگانے کا مطلب بالکل واضح طریقہ سے بیان کر دیا گیا ہے۔ ان منافقین کی یہ حالت اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی تھی اس لیے ایمان ان کے اندر اتر ہی نہ سکا اور وہ مجبوراً منافق بن کر رہ گئے۔ بلکہ اس نے ان کے دلوں پر یہ مہر اس وقت لگائی جب انہوں نے اظہار ایمان کرنے کے باوجود کفر پر قائم رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ تب ان سے مخلصانہ ایمان اور اس سے پیدا ہونے والے اخلاقی رویہ کی توفیق سلب کر لی گئی اور اس منافقت اور منافقانہ اخلاق ہی کی توفیق انہیں دے دی گئی جسے انہوں نے خود اپنے لیے پسند کیا تھا۔
۵۔ حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی بڑے ڈیل ڈول کا، تندرست، خوش شکل اور چرب زبان آدمی تھا۔اور یہی شان اس کے بہت سے ساتھیوں کی تھی۔ یہ سب مدینہ کے رئیس لوگ تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں آتے تو دیواروں سے تکیے لگا کر بیٹھتے اور بڑی لچھے دار باتیں کرتے۔ ان کے جُثّے بشرے کو دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر کوئی یہ گمان تک نہ کر سکتا تھا کہ بستی کے یہ معززین اپنے کردار کے لحاظ سے اتنے ذلیل ہوں گے۔
۶۔ یعنی یہ جو دیواروں کے ساتھ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں ، یہ انسان نہیں ہیں بلکہ لکڑی کے کندے ہیں۔ ان کو لکڑی سے تشبیہ دے کر یہ بتایا گیا کہ یہ اخلاق کی روح سے خالی ہیں جو اصل جو ہر انسانیت ہے۔ پھر انہیں دیوار سے لگے ہوئے کندوں سے تشبیہ دے کر یہ بھی بتا دیا گیا کہ یہ بالکل ناکارہ ہیں۔ کیونکہ لکڑی بھی اگر کوئی فائدہ دیتی ہے تو اس وقت جب کہ وہ کسی چھت میں ، یا کسی دروازے میں یا کسی فرنیچر میں لگ کر استعمال ہو رہی ہو۔ دیوار سے لگا کر کندے کی شکل میں جو لکڑی رکھ دی گئی ہو وہ کوئی فائدہ بھی نہیں دیتی۔
۷۔ اس مختصر سے فقرے میں ان کے مجرم ضمیر کی تصویر کھینچ دی گئی ہے۔ چونکہ وہ اپنے دلوں میں خوب جانتے تھے کہ وہ ایمان کے ظاہر پردے کی آڑ میں منافقت کا کیا کھیل کھیل رہے ہیں ، اس لیے انہیں ہر وقت دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کب ان کے جرائم کا راز فاش ہو، یا ان کی حرکتوں پر اہل ایمان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور ان کی خبر لے ڈالی جائے۔ بستی میں کسی طرف سے بھی کوئی زور کی آواز آتی یا کہیں کوئی شور بلند ہوتا تھا تو وہ سہم جاتے اور یہ خیال کرتے تھے کہ آ گئی ہماری شامت۔
۸۔ دوسرے الفاظ میں کھلے دشمنوں کی بہ نسبت یہ چھپے ہوئے دشمن زیادہ خطرناک ہیں۔
۹۔ یعنی ان کے ظاہر سے دھوکا نہ کھاؤ۔ ہر وقت خیال رکھو کہ یہ کسی وقت بھی دغا دے سکتے ہیں۔
۱۰۔ یہ بد دعا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے بارے میں اس فیصلے کا اعلان ہے کہ وہ اس کی مار کے مستحق ہو چکے ہیں ، ان پر اس کی مار پڑ کر رہے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ نے لُغوی معنی میں استعمال نہ فرمائے ہوں بلکہ عربی محاورے کے مطابق لعنت اور پھٹکار اور مصمت کے لیے استعمال کیے ہوں ، جیسے اردو میں ہم کسی کی برائی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ستیاناس اس کا، کیسا خبیث آدمی ہے۔ اس لفظ ستیاناس سے مقصود ا س کی خیانت کی شدت ظاہر کرنا ہوتا ہے نہ کہ اس کے حق میں بد دعا کرنا۔
۱۱۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کو ایمان سے نفاق کی طرف الٹا پھرانے والا کون ہے۔ اس کی تصریح نہ کرنے سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ ان کی اس اوندھی چال کا کوئی ایک محرک نہیں ہے بلکہ بہت سے محرکات اس میں کار فرما ہیں۔ شیطان ہے۔ برے دوست ہیں۔ ان کے اپنے نفس کی اغراض ہیں۔ کسی کی بیوی اس کی محرک ہے۔ کسی کے بچے اس کے محرک ہیں۔ کسی کی براری کے اشرار اس کے محرک ہیں۔ کسی کو حسد اور بغض اور تکبر نے اس راہ پر ہانک دیا ہے۔
۱۲۔ یعنی صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے کہ رسول کے پاس استغفار کے لیے آئیں ، بلکہ یہ بات سن کر غرور اور تمکنت کے ساتھ سر کو جھٹکا دیتے ہیں اور رسول کے پاس آنے اور معافی طلب کرنے کو اپنی توہین سمجھ کر اپنی جگہ جمے بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ ان کے مومن نہ ہونے کی کھلی علامت ہے۔
۱۳۔ یہ بات سورہ توبہ میں (جو سورہ منافقون کے تین سال بعد نازل ہوئی ہے ) اور زیادہ تاکید کے ساتھ فرما دی گئی۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے منافقین کے متعلق فرمایا کہ ’’ تم چاہے ان کے لیے استغفار کرو یا نہ کرو، اگر تم ستر(۷۰) مرتبہ بھی ان کے لیے دعائے مغفرت کرو گے تو اللہ ان کو ہر گز معاف نہ کرے گا۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے ، اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ’’ (التوبہ۔ آیت ۸۰)۔ آگے چل کر پھر فرمایا’’ اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کی نماز جنازہ کبھی نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے اور یہ فاسق ہونے کی حالت میں مرے ہیں ‘‘(التوبہ۔ آیت ۸۴)۔
۱۴۔ اس آیت میں دو مضمون بیان کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ دعائے مغفرت صرف ہدایت یافتہ لوگوں ہی کے حق میں مفید ہو سکتی ہے۔ جو شخص ہدایت سے پھر گیا ہو اور جس نے اطاعت کے بجائے فسق و نا فرمانی کی راہ اختیار کر لی ہو، اس کے لیے کوئی عام آدمی تو در کنار، خود اللہ کا رسول بھی مغفرت کی دعا کرے تو اسے معاف نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے یہ کہ ایسے لوگوں کو ہدایت بخشنا اللہ کا طریقہ نہیں ہے جو اس کی ہدایت کے طالب نہ ہوں۔اگر ایک بندہ خود اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے منہ موڑ رہا ہو، بلکہ ہدایت کی طرف اسے بلایا جائے تو سر جھٹک کر غرور کے ساتھ اس دعوت کو رد کر دے ، تو اللہ کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ اس کے پیچھے پیچھے اپنی ہدایت لیے پھرے اور خوشامد کرے اسے راہ راست پر لائے۔
۱۵۔ حضرت زید بن ارقم کہتے ہیں کہ جب میں نے عبداللہ بن ابی کا یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچایا، اور اس نے آ کر صاف انکار کر دیا اور اس پر قَسم کھا گیا، تو انصار کے بڑے بوڑھوں نے اور خود میرے اپنے چچا نے مجھے بہت ملامت کی، حتیٰ کہ مجھے یہ محسوس ہو ا کہ حضورؐ نے بھی مجھے جھوٹا اور عبداللہ بن ابی کو سچا سمجھا ہے۔ اس چیز سے مجھے ایسا غم لاحق ہوا جو عمر بھی کبھی نہیں ہوا اور میں دل گرفتہ ہو کر اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے بلا کر ہنستے ہوئے میرا کان پکڑا اور فرمایا لڑکے کا کان سچا تھا، اللہ نے اس کی خود تصدیق فرما دی (ابن جریر۔ترمذی میں بھی اس سے ملتی جلتی روایت موجود ہے )۔
۱۶۔ یعنی عزت اللہ کے لیے بالذات مخصوص ہے ، اور رسول کے لیے بر بنائے رسالت، اور مومنین کے لیے بر بنائے ایمان۔ رہے کفار و فُسّاق و منافقین، تو حقیقی عزت میں سرے سے ان کا کوئی حصہ ہی نہیں ہے۔
۱۷۔ اب تمام ان لوگوں کو جو دائرہ اسلام میں داخل ہوں ، قطع نظر اس سے کہ سچے مومن ہوں یا محض زبانی اقرار ایمان کرنے والے ، عام خطاب کر کے ایک کلمۂ نصیحت ارشاد فرمایا جا رہا ہے۔ یہ بات اس سے پہلے ہم کئی مرتبہ بیان کر چکے ہیں کہ قرآن مجید میں اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے کبھی تو سچے اہل ایمان کو خطاب کیا جاتا ہے ، اور کبھی اس کے مخاطب منافقین ہوتے ہیں کیونکہ وہ زبانی اقرار ایمان کرنے والے ہوا کرتے ہیں ،اور کبھی ہر طرح کے مسلمان بالعموم اس سے مراد ہوتے ہیں۔ کلام کا موقع و محل یہ بتا دیتا ہے کہ کہاں کونسا گروہ ان الفاظ کی مخاطب ہے۔
۱۸۔ مال اور اولاد کا ذکر تو خاص طور پر اس لیے کیا گیا ہے کہ انسان زیادہ تر انہی کے مفاد کی خاطر ایمان کے تقاضوں سے منہ موڑ کر منافقت، یا ضعف ایمان، یا فسق و نافرمانی میں مبتلا ہوتا ہے ، ورنہ در حقیقت مراد دنیا کی ہر وہ چیز ہے جو انسان کو اپنے اندر اتا مشغول کر لے کہ وہ خدا کی یاد سے غافل ہو جائے۔ یہ یاد خدا سے غفلت ہی ساری خرابیوں کی اصل جڑ ہے۔ اگر انسان کو یہ یاد رہے کہ وہ آزاد نہیں ہے بلکہ ایک خدا کا بندہ ہے ، اور وہ خدا اس کے تمام اعمال سے با خبر ہے ، اور اس کے سامنے جا کر ایک دن اسے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے ، تو وہ کبھی کسی گمراہی و بد عملی میں مبتلا نہ ہو، اور بشری کمزوری سے اس کا قدم اگر کسی وقت پھسل بھی جائے تو ہوش آتے ہی وہ فوراً سنبھل جائے۔