تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء

نام

اس سورت کا نام کسی خاص آیت سے ماخوذ نہیں ہے۔ چونکہ اس میں مسلسل بہت سے انبیاء کا ذکر آیا ہے،  اس لیے اس کا نام ’’ الانبیاء‘‘ رکھ دیا گیا۔ یہ بھی موضوع کے لحاظ سے سورۃ کا عنوان نہیں ہے بلکہ محض پہچاننے کے لیے ایک علامت ہے۔ 

زمانۂ نزول

مضمون اور انداز بیان، دونوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا زمانہ نزول مکے کا دور متوسط یعنی ہماری تقسیم کے لحاظ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مکی زندگی کا تیسرا دور ہے۔ اس کے پس منظر میں حالات کی وہ کیفیت نہیں پائی جاتی جو آخری دور کی سورتوں میں نمایا ں طور پر محسوس ہوتی ہے۔ 

موضوع و مضمون

اس سورہ میں ہو کشمکش زیر بحث ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور سرداران قریش کے درمیان برپا تھی۔ وہ لوگ آں حضرتؐ کے دعوائے رسالت اور آپ کی دعوت توحید و عقیدہ آخرت پر جو شکوک اور اعتراضات پیش کرتے تھے ان کا جواب دیا گیا ہے۔ انکی طرف سے آپ کی مخالفت میں جو چالیں چلی جا رہی تھیں ان پر زجر و توبیخ کی گئی ہے اور ان حرکتوں کے برے نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے۔ وہ جس غفلت اور بے پروائی سے آپ کی دعوت کا استقبال کر رہے تھے اس پر متنبہ کیا گیا ہے۔ اور آخر میں ان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ جس شخص کو تم اپنے لیے زحمت اور مصیبت سمجھ رہے ہو وہ در اصل تمہارے لیے رحمت بن کر آیا ہے۔

دوران تقریر میں خاص طور پر جو امور زیر بحث آئے ہیں وہ یہ ہیں :

۱) کفار مکہ کی یہ غلط فہمی کہ بشر کبھی رسول نہیں ہو سکتا اور اس بنا پر ان کا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول ماننے سے انکار کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا بڑی تفصیل کے ساتھ رد کیا گیا ہے۔

۲) ان کا آپ پر اور قرآن پر مختلف اور متضاد قسم کے اعتراضات کرنا اور کسی ایک بات پر نہ جمنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس پر مختصر مگر نہایت پر زور اور معنی خیز طریقے سے گرفت کی گئی ہے۔

۳) ان کا یہ تصور کہ زندگی بس ایک کھیل ہے جسے چند روز کھیل کر یونہی ختم ہو جانا ہے،  اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہے،  کسی حساب کتاب اور جزا و سزا سے سابقہ نہیں پیش آنا ہے۔۔۔۔۔۔۔یہ چیز چونکہ اس عجلت و بے اعتنائی کی اصل جڑ تھی جس کے ساتھ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا استقبال کر رہے تھے،  اس لیے بڑے ہی مؤثر انداز میں اس کا توڑ کیا گیا ہے۔

۴) شرک پر ان کا اصرار اور توحید کے خلاف ان کا جاہلانہ تعصب جوان کے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان اصل بنائے نزاع تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس اصلاح کے لیے شرک کے خلاف اور توحید کے حق میں مختصر مگر بہت وزنی اور دلنشین دلائل دیے گئے ہیں۔

۵) ان کی یہ غلط فہمی کہ نبی کو بار بار جھٹلانے کے باوجود جب ان پر کوئی عذاب نہیں آتا تو ضرور نبی جھوٹا ہے اور عذاب الٰہی کی وہ وعیدیں جو وہ خدا کی طرف سے ہمیں  سناتا ہے محض خالی خولی دھمکیاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اس کو استدلال اور نصیحت،  دونوں طریقوں سے رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس کے بعد انبیاء الیہم السلام کی سیرتوں کے اہم واقعات سے چند نظیریں پیش کی گئی ہیں جن سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ تمام وہ پیغمبر جو انسانی تاریخ کے دورا ن میں خدا کی طرف سے آئے تھے تھے،  انسان تھے اور نبوت کے امتیازی وصف کو چھوڑ کر دوسری صفات میں وہ ویسے ہی انسان ہوتے تھے جیسے دنیا کے عام انسان ہوا کرتے ہیں۔ اُلوہیت اور خدائی کا ان میں شائبہ تک نہ بتھا بلکہ اپنی ہر ضرورت کے لیے وہ خود خدا کے آگے ہاتھ پھیلاتے تھے۔ اس اس کے ساتھ انہی تاریخی نظیروں سے دو باتیں اور بھی واضح کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ انبیاء پر طرح طرح کے مصائب آئے ہیں،  اور ان کے مخالفین نے بھی ان کو برباد کرنے کی کوششیں کی ہیں،  مگر آخر کار اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی طریقوں پر ان کی نصرت فرمائی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ تمام انبیاء کا دین ایک تھا اور وہ وہی دین تھا جسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں۔ نوع انسانی کا اصل دین یہی ہے،  اور باقی جتنے مذاہب دنیا میں بنے ہیں وہ محض گمراہ انسانوں کے ڈالے ہوئے تفرقے ہیں۔

آخر میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کی نجات کا انحصار اسی دین کی پیروی اختیار  کرنے پر ہے۔ جو لوگ اسے قبول کریں گے وہی خدا کی آخری عدالت سے کامیاب نکلیں گے ور زمین کے وارث ہوں گے۔اور جو لوگ اسے رد کر دیں گے وہ آخرت میں بد ترین انجام سے دوچار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ بڑی مہربانی ہے کہ وہ فیصلے کے وقت سے پہلے اپنے نبی کے ذریعہ سے لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کر رہا ہے۔ نادان ہیں وہ لوگ جو نبی کی آمد کو اپنے لیے رحمت کے بجائے زحمت سمجھ رہے ہیں۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت،  ۱ اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ۲ ان کے پاس جو تازہ نصیحت ہی ان کے ربّ کی طرف سے آتی ہے ۳ اُس کو بے تکلف سُنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں، ۴ دل اُن کے ( دوسری ہی فکروں میں)منہمک ہیں۔ اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتےہیں کہ ’’یہ شخص آخر تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے جادُو کے پھندے میں پھنس جاؤ گے؟‘‘  ۵ رسُولؐ نے کہا،  میرا ربّ ہر اُس بات کو جانتا ہے جو آسمان اور زمین میں کی جائے، وہ سمیع اور علیم ہے۔ ۶ وہ کہتے ہیں ’’بلکہ یہ پراگندہ خواب ہیں،  بلکہ یہ اِس کی من گھڑت ہے، بلکہ یہ شخص شاعر ہے۔ ۷ ورنہ یہ لائے کوئی نشانی جس طرح پرانے زمانے کے رسُول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے۔‘‘ حالانکہ ان سے پہلے کوئی بستی بھی جسے ہم نے ہلاک کیا، ایمان نہ لائی۔ اب کیا یہ ایمان لائیں گے؟ ۸
اور اے محمدؐ،  تم سے پہلے بھی ہم نے انسانوں ہی کو رسُول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے۔ ۹ تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہلِ کتاب سے پوچھ لو۔ ۱۰ اُن رسُولوں  کو ہم نے کوئی ایسا جسم نہیں دیا تھا کہ وہ کھاتے نہ ہوں، اور نہ وہ سدا جینے والے تھے۔ پھر دیکھ لو کہ آخر کار ہم نے اُن کے ساتھ اپنے وعدے پُورے کیے، اور اُنہیں اور جس جس کو ہم نے چاہا بچا لیا، اور حد سے گزر جانے والوں کو ہلاک کر دیا۔ ۱۱ لوگو، ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے،  کیا تم سمجھتے نہیں  ہو؟ ۱۲  ؏١

 

۱: مراد ہے قریب قیامت۔ یعنی اب وہ وقت دُور نہیں ہے جب لوگوں کو اپنا  حساب دینے کے لیے اپنے رب کے آگے حاضر ہونا پڑے گا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت اس بات کی علامت ہے کہ نوع انسانی کی تاریخ اب اپنے آخری دَور میں داخل ہو رہی ہے۔ اب وہ اپنے آغاز کی بہ نسبت اپنے انجام سے قریب تر ہے۔ آغاز اور وسط کے مرحلے گزر چکے ہیں اور آخری مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ یہی مضمون ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے۔ آپ ؐ نے اپنی دو انگلیاں کھڑی کر کے فرمایا   بُعِثتُ انا وَ السَّا عَۃُ کَھَا تَیْنِ،  ’’ میں ایسے وقت پر مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اور قیامت اِن دو انگلیوں کی طرح ہیں۔‘‘  یعنی میرے بعد بس قیامت ہی ہے۔ کسی اور نبی کی دعوت بیچ میں حائل نہیں ہے۔ سنبھلنا ہے تو میری دعوت پر سنبھل جا ؤ۔ کوئی اور ہادی اور بشیر و نذیر آنے والا نہیں ہے۔

۲: یعنی کسی تنبیہ کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ نہ خود سوچتے ہیں کہ ہمارا انجام کیا ہونا ہے اور نہ اُس پیغمبر کی بات سُنتے ہیں جو انہیں خبردار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

۳: یعنی قرآن کی ہر نئی سورت جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوتی ہے اور انہیں سُنائی جاتی ہے۔

۴: وَھُمْ یَلْعَبُوْنَ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو اوپر ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے،  اور اس میں کھیل سے مراد یہی زندگی کا کھیل ہے جسے خدا اور آخرت سے غافل لوگ کھیل رہے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے سنجیدگی  کے ساتھ نہیں سنتے بلکہ کھیل اور مذاق کے طور پر سُنتے ہیں۔

۵: ’’پھنسے جاتے ہو‘‘  بھی ترجمہ ہو سکتا ہے،  اور دونوں ہی مطلب صحیح ہیں۔ سرگوشیاں کفارِ مکہ کہ وہ بڑے بڑے سردار آپس میں بیٹھ بیٹھ کر کیا کرتے تھے جن کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا مقابلہ کر نے کی بڑی فکر لاحق تھی۔ وہ کہتے تھے کہ یہ شخص بہر حال نبی تو ہو نہیں سکتا،  کیونکہ ہم ہی جیسا انسان ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے،  بیوی بچے رکھتا ہے۔ آخر اِس میں وہ نِرالی بات کیا ہے جو اس کو ہم سے ممتاز کرتی ہون اور ہماری بہ نسبت اِس کو خدا سے ایک غیر معمولی تعلق کا مستحق بناتی ہو؟ البتہ اس شخص کی باتوں میں اور اس کی شخصیت میں ایک جادو ہے کہ جو اس کی بات کان لگا کر سنتا ہے اور اس کے قریب جاتا ہے وہ اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے اگر اپنی خیر چاہتے ہو تو نہ اس کی سنو اور نہ اس سے میل جو ل رکھو،  کیونکہ اس کی باتیں سننا اور اس کے قریب جانا گویا آنکھوں دیکھتے  جادو کے پھندے میں پھنسنا ہے۔ جس چیز کی وجہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ’’سحر‘‘  کا الزام چسپاں کرتے تھے اس کی چند مثالیں آپ کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق (متوفی سن ۱۵۲ ھ) نے بیان کی ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ ایک دفعہ عُتْبَہ بن رَبِیعہ (ابو سفیان کے خسر، ہند جگر خوار کے باپ) نے سردارانِ قریش سے کہا، اگر آُ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمد ؐ سے ملوں اور اسے سمجھانے کی کوشش کروں۔ یہ حضرت حمزہ کے اسلام لانے کے بعد کا واقعہ ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کی تعداد روز بروز بڑھتی دیکھ کر اکابرِ قریش سخت پریشان ہو رہے تھے۔ لوگوں نے کہا ابو الولید،  تم پر پورا اطمینان ہے، ضرور جا کر اس سے بات کرو۔ وہ حضور ؐ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا، ’’ بھتیجے، ہمارے ہاں تم کو جو عزّت حاصل تھی،  تم خود جانتے ہو، اور نسب میں بھی تم ایک شریف ترین گھرانے کے فرد ہو۔ تم اپنی قوم پر یہ کیا مصیبت لے آئے ہو؟ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا۔ ساری قوم کو بے وقوف ٹھیرایا۔ اس کے دین اور اس کے معبُودوں کی بُرائی کی۔ باپ دادا جو مر چکے ہیں ان سب کو تم نے گمراہ اور کافر بنایا۔ بھتیجے، اگر ان باتوں سے تمہارا مقصد دنیا میں اپنی بڑائی قائم کرنا ہے تو آؤ ہم سب مل کر تم کو اتنا روپیہ دے دیتے ہیں کہ تم سب سے زیادہ مال دار ہو جاؤ۔ سرداری  چاہتے ہو تو ہم تمہیں سردار  مانے لیتے ہیں۔ بادشاہی چاہتے ہو تو بادشاہ بنا دیتے ہیں۔ اور اگر تمہیں کوئی بیماری  ہو گئی ہے جس کی وجہ سے تم کو واقعی سوتے یا جاگتے  میں کچھ نظر آنے لگا ہے تو ہم سب مِل کر بہترین طبیبوں سے تمہارا علاج کرائے دیتے ہیں ‘‘۔ یہ باتیں وہ کرتا رہا  اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاموش سنتے رہے۔ جب وہ خوب بول چکا تو آپؐ نے فرمایا ’’ ابو الولید،  جو کچھ آپ کہنا چاہتے تھے کہہ چکے ہیں یا اور کچھ کہنا ہے؟ ‘‘  اس نے کہا بس مجھے جو کچھ  کہنا تھا میں  نے کہہ دیا۔ آپؐ نے فرمایا اچھا اب   میری سُنو۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، حٰمٓ،  تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اس کے بعد  کچھ دیر تک مسلسل آپؐ  سورۂ حٰم السجدہ  کی تلاوت فرماتے رہے اور عتبہ پیچھے زمین پر ہاتھ ٹیکے غور سے سنتا رہا۔ اڑتیسویں آیت پر پہنچ کر آپؐ نے سجدہ کیا،  اور پھر سر اُٹھا کر عُتبہ سے فرمایا، ’’ابو الولید،   جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ آپ نے سُن لیا،  اب آپ جانیں اور آپ کا کام‘‘۔ عتبہ یہاں اُٹھ کر سردارانِ قریش کی طرف پلٹا تو لوگوں  نے دُور سے ہی اس کو آتے دیکھ کر کہا ’’خدا کی قسم، ابوالولید کا چہرا بدلا ہوا ہے۔ یہ وہ صورت نہیں ہے  جسے لے کر وہ گیا تھا‘‘۔ اس کے  پہنچتے ہی لوگوں نے سوال کیا،  ’’ کہو ابوالولید، کیا کر آئے ہو‘‘ ؟ اس نے کہا ’’ خدا کی قسم، آج میں نے ایسا کلام سُنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہ سُنا تھا۔ واللہ یہ شعر نہیں ہے،  نہ سحر ہے اور نہ کہانت۔ اے معشر قریش،  میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اس کی باتیں جو میں نے سُنی ہیں رنگ لا کر رہیں گی۔ اگر عرب اس پر غالب آ گئے تو اپنے بھائی کا خون تمہاری گردن پر نہ ہو گا،  دوسروں پر ہو گا۔ اور اگر  یہ عرب پر غالب آگیا تو  اس کی حکومت تمہاری حکومت  ہو گی  اور اس کی عزّت تمہاری عزّت ‘‘۔ لوگوں نے کہا ’’واللہ،  ابو الولید  تم پر بھی اس کا جادو چل گیا ‘‘۔ اس نے کہا ’’ یہ میری رائے ہے،  اب تم جانو اور تمہارا کام‘‘۔ (ابنِ ہشام، جلد اوّل، ص ۳۱۳ – ۳۱۴)۔ بیہقی نے اِس واقعہ کے متعلق جو روایات جمع کی ہیں ان میں سے ایک  روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب حضور ؐ سورۂ حٰم السجدہ کی تلاوت کرتے ہوئے اِس آیت پر پہنچے کہ    فَاِنْ اَعْرَضُوْ ا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صَا عِقَۃِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدٍ،  تو عتبہ نے بے اختیار آگے بڑھ کر آپ کے منہ  پر ہاتھ رکھ دیا  اور کہنے لگا کہ خدا کے لیے اپنی قوم پر رحم کرو۔ ’’دوسرا واقعہ ابن اسحاق نے یہ بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ قبیلۂ اَرَاش کا ایک شخص کچھ اُونٹ لے کر مکّہ آیا۔ ابو جہل نے اس کے اُونٹ خرید لیے اور جب اس نے قیمت طلب کی تو ٹال مٹول کرنے لگا۔ اَرَاشی نے تنگ آ کر ایک روز حرمِ کعبہ میں قریش کے سرداروں کو جا پکڑا اور مجمعِ عام میں فریاد شروع کر دی۔ دوسرے طرف حرم کے ایک گوشے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم تشریف  فرما تھے۔ سردارانِ قریش نے اس شخص سے کہا کہ ’’ہم کچھ نہیں کر سکتے، دیکھو، وہ صاحب جو اس کونے میں بیٹھے ہیں، ان سے جا کر کہو، وہ تم کو تمہارا روپیہ دلوا دیں گے‘‘۔ اراشی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف چلا، اور قریش کے سرداروں نے آپس میں کہا ’’آج لطف آئے گا‘‘۔ اراشی نے جا کر حضور سے اپنی شکایت بیان کی۔ آپؐ اسی وقت اُٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر ابو جہل کے مکان  کی طرف روانہ ہو گئے۔ سرداروں نے پیچھے ایک آدمی لگا دیا کہ جو کچھ گزرے اس کی خبر لا کر دے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سیدھے ابو جہل کے دروازے  پر پہنچے اور کنڈی کھٹکھٹائی۔ اس نے پوچھا ’’کون‘‘ ؟ آپؐ نے جواب دیا ’’محمد ؐ‘‘۔ وہ حیران ہو کر باہر نکل آیا۔ آپؐ نے اس سے کہا ’’ اس شخص کا حق ادا کر دو‘‘۔ اس نے جواب میں کوئی چون و چرا نہ کی،  اندر گیا اور اس کے اُونٹوں کی قیمت لا کر اس کے ہاتھ میں دے دی۔ قریش کا مخبر یہ  حال دیکھ کر حرم کی طرف دوڑا اور سرداروں کو سارا ماجرا سُنا دیا اور کہنے لگا کہ واللہ آج وہ عجیب معاملہ دیکھا ہے کہ جو کبھی نہ دیکھا تھا،  حَکَم بن ہِشام (ابو جہل) جب نکلا ہے تو محمد ؐ کو دیکھتے ہی اُس کا  رنگ فق ہو گیا اور جب محمد ؐ نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کر دو تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے حکم بن ہشام  کے جسم میں جان نہیں ہے۔(ابن ہشام،  جلد ۲، ص ۲۹ – ۳۰) یہ تھا شخصیت اور سیرت و کردار کا اثر اور وہ تھا کلام کا اثر، جس کو وہ لوگ جادو قرار دیتے تھے اور ناواقف لوگوں کو یہ کہہ کہہ کر ڈراتے تھے کہ اس شخص کے پاس نہ جانا ورنہ جادو کر دے گا۔

۶: یعنی رسول نے کبھی اس جھوٹے پروپیگنڈے اور سرگوشیوں کی اس مہم (Whispering Campaign ) کا جواب اس کے سوا نہ دیا کہ ’’تم لوگ جو کچھ باتیں بناتے ہو سب خدا سنتا اور جانتا ہے،  خواہ زور سے کہو، خواہ چپکے چپکے کانوں میں پھونکو‘‘۔ وہ کبھی بے انصاف دشمنوں کے مقابلے میں ترکی بہ ترکی جواب دینے پر نہ اُتر آیا۔

۷: ’’اس کا پس منظر یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کا اثر جب پھیلنے لگا تو مکہ کے سرداروں نے آپس میں مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ آپ کے مقابلے میں پروپیگنڈا کی ایک مہم شرو ع  کی جائے اور ہر اس شخص کو،  جو مکہ میں زیارت کے لیے آئے آپ کے خلاف پہلے ہی سے اتنا بدگمان  کر دیا جائے کہ وہ آپ کی بات سننے کے لیے آمادہ  ہی نہ ہو۔ یہ مہم ویسے تو بارہ مہینے جاری رہتی تھی،   مگر خاص طور پر حج کے زمانے میں کثرت سے آدمی پھیلا دیے جاتے تھے جو تمام بیرونی زائرین کے خیموں میں پہنچ کر ان کو خبر دار کرتے تھے کہ یہاں ایسا ایسا ایک آدمی ہے،  اس سے ہوشیار رہنا۔ ان گفتگوؤں میں طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی تھیں۔ کبھی کہا جاتا کہ یہ شخص جادوگر ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ ایک کلام اس نے خود گھڑ  رکھا ہے، اور کہتا ہے کہ خدا کا کلام ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ اجی وہ کلام کیا ہے،  دیوانوں کی بڑ اور پراگندہ خیالات کا پلندا ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ شاعرانہ  تخیلات اور تُک بندیاں ہیں جن کا نام اس نے کلامِ الہٰی رکھا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کو بہکایا جائے۔ صداقت کا ان کے سامنے سرے سے کوئی سوال ہی نہ تھا کہ جم کر کوئی ایک قطعی اور جچی تُلی رائے ظاہر کرتے۔ لیکن اس جھوٹے پروپیگنڈے کا حاصل جو کچھ ہُوا وہ یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام انہوں نے خود ملک کے گوشے گوشے میں پہنچا دیا۔ آپ کی جتنی شہرت مسلمانوں کی کوششوں سے سالہا سال میں بھی نہ ہو سکتی تھی وہ قریش کی اس مخالفانہ مہم سے تھوڑی مدّت  ہی کے اندر ہو گئی۔ ہر شخص کے دل میں  ایک سوال پیدا ہو گیا کہ آخر معلوم تو ہو  وہ کون ایسا آدمی ہے جس کے خلاف یہ طوفان برپا ہے، اور بہت سے سوچنے والوں نے سوچا کہ اس شخص کی بات سُنی تو جائے۔ ہم کوئی بچے تو نہیں ہیں کہ خواہ مخواہ بہک جائیں گے۔ اس کی دلچسپ مثال طُفَیل بن عَمر و دَوسی کا قصہ ہے جسے  ابن اسحاق  نے خود ان کی روایت سے بڑی تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں قبیلۂ دَوس کا ایک شاعر تھا۔ کسی کام سے مکہ گیا۔ وہاں پہنچتے ہی قریش کی چند لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلاف خوب میرے کان بھرے یہاں تک کہ میں آپ سے سخت بدگمان ہو گیا اور میں نے یہ طے کر لیا کہ  آپ سے بچ کر ہی رہوں گا۔ دوسرے روز میں نے حرم میں حاضری دی تو آپ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ میرے کونوں میں چند جملے جو پڑے تو میں نے محسُوس کیا کہ یہ تو کوئی بڑا اچھا کلام ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں شاعر ہوں، جوان مرد ہوں، عقل رکھتا ہوں، کوئی بچہ نہیں ہوں کہ صحیح اور غلط میں تمیز نہ کر سکوں۔ آخر کیوں نہ اس شخص سے مل کر معلوم کروں کہ یہ  کیا کہتا ہے۔ چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو کر واپس چلے تو میں آپ کے پیچھے پیچھے ہو لیا اور آ پ کے مکان پر پہنچ کر میں نے عرض کیا کہ آپ کی قوم نے آپ کے متعلق مجھ سے یہ کچھ کہا تھا، اور میں آپ سے اس قدر بدگمان ہو گیا تھا کہ میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی تاکہ آپ کی آواز نہ سننے پاؤں۔ لیکن ابھی  جو چند کلمے میں نے آپ کی زبان سے سُنے ہیں وہ مجھے کچھ اچھے معلوم ہوئے ہیں۔ آپ مجھے ذرا تفصیل سے بتائیے،  آپ کیا کہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب میں مجھ کر قرآن کا ایک حصہ سُنایا اور میں اس سے  اس قدر متاثر ہوا کہ اسی وقت ایمان لے آیا۔ پھر واپس جا کر میں نے اپنے باپ اور بیوی کو مسلمان کیا۔ اس کے بعد اپنے قبیلے میں مسلسل اشاعتِ اسلام کرتا رہا، یہاں تک کہ غزوۂ خندق کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے میرے قبیلے کے ستّر اسّی گھرانے مسلمان ہو گئے۔ (ابن ہشام، جلد ۲،  ص ۲۲ – ۲۴) ایک اور روایت جو ابن اسحاق نے نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سردارانِ قریش  اپنی محفلوں میں خود اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ جو باتیں وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف بناتے ہیں وہ محض جھوٹ ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ایک مجلس میں نَضر بن حارِث نے تقریر کی کہ ’’ تم لوگ محمد ؐ کا مقابلہ جس طرح کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا۔ وہ جب تمہارے درمیان نو عمر  جوان تھا تو تمہارا سب سے زیادہ خوش اطوار آدمی تھا۔ سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑ ھ کر امین سمجھا جاتا تھا۔ اب کہ اس کے بال سفید ہونے  کو آ گئے،  تم کہتے ہو  یہ ساحر ہے، کاہن ہے، شاعر ہے، مجنون ہے۔ بخدا وہ ساحر نہیں ہے، ہم نے ساحروں کو دیکھا ہے اور ان کی جھاڑ پھونک سے ہم واقف ہیں۔ بخدا وہ کاہن بھی نہیں ہے،   ہم نے کاہنوں کی تک بندیاں سُنی ہیں اور جیسی گول مول باتیں وہ کیا کرتے ہیں ان کا ہمیں علم ہے۔ بخدا وہ شاعر بھی نہیں ہے،  شعر کی تمام اصناف سے ہم واقف ہیں اور اُس کا کلام ان میں سے کسی صنف میں نہیں آتا۔ بخدا وہ مجنون بھی نہیں ہے،  مجنون کی جو حالت ہوتی ہے اور جیسی بے تکی بڑ وہ ہانکتا ہے کیا اس سے ہم بے خبر ہیں؟ اے سردارانِ قریش،  کچھ اَور بات سوچو، جس چیز کا مقابلہ تمہیں درپیش ہے وہ اس سے زیادہ بڑی ہے کہ یہ باتیں بنا کر تم اسے شکست دے سکو‘‘۔ اس  کے بعد اُس نے  یہ تجویز پیش کی کہ عجم سے رستم و اسفند یار کے قصّے لا کر پھیلائے جائیں تاکہ لوگ ان میں دلچسپی لینے لگیں اور وہ انہیں قرآن سے زیادہ عجیب معلوم ہوں۔ چنانچہ کچھ دنوں اس پر عمل کیا گیا  اور خود نَضر نے داستان گوئی شروع کر دی۔ (ابن ہشام،  جلد اوّل،  ص ۳۲۰ – ۳۲۱)

۸: اس  مختصر سے جملے میں نشانی کی مطالبے کا جو جواب دیا گیا ہے وہ تین مضمونوں پر مشتمل ہے۔ ایک یہ کہ تم پچھلے رسُولوں کی سی نشانیاں مانگتے ہو،  مگر یہ بھُول جاتے ہو کہ ہٹ دھرم لوگ اُن نشانیوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہ  لائے تھے۔ دوسرے یہ کہ تم نشانی کا مطالبہ تو کرتے ہو، مگر یہ یاد نہیں رکھتے کہ  جس قوم نے بھی صریح معجزہ آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایمان لانے سے انکار کیا ہے وہ پھر ہلاک ہوئے بغیر نہیں رہی ہے۔ تیسرے یہ کہ تمہاری  منہ مانگی نشانی نہ بھیجنا تو تم پر خدا کی ایک بڑی مہربانی ہے۔ اب تک تم انکار پر انکار کیے جاتے رہے اور مبتلائے عذاب نہ ہوئے۔ کیا اب نشانی اس لیے مانگتے ہو کہ ان قوموں کا سا انجام دیکھو جو نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں اور تباہ کر دی گئیں؟

۹: یہ جواب ہے ان کے اس قول کا کہ ’’یہ شخص تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے‘‘۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بشریت کو اس بات کی دلیل قرار دیتے تھے کہ آپ نبی نہیں ہو سکتے۔ جواب دیا گیا ہے کہ پہلے زمانے کے  جن لوگوں کو تم خود مانتے ہو کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجے گئے تھے،  وہ سب بھی بشر ہی تھے اور بشر ہوتے ہوئے  ہی خدا کی وحی سے سرفراز ہوئے تھے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد چہارم،  یٰسین،  حاشیہ نمبر ۱۱)۔

۱۰: یعنی یہ یہودی،  جو آج اسلام کی دشمنی میں تمہارے ہم نوا ہیں اور تم کو مخالفت کے داؤ  پیچ سکھایا کرتے ہیں، انہی سے پوچھ لو کہ   موسیٰ اور دوسرے انبیاء ِ بنی اسرائیل کون تھے۔ انسان ہی تھے یا کوئی اور مخلوق؟

۱۱: یعنی پچھلی تاریخ کا سبق صرف اتنا ہی نہیں بتاتا کہ  پہلے جو رسول بھیجے گئے تھے وہ انسان تھے،  بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ان کی نصرت و تائید کے،   اور ان کی مخالفت کرنے والوں کو ہلاک کر دینے کے،  جتنے وعدے اللہ نے ان سے کیے تھے وہ سب پورے ہوئے اور ہر وہ قوم برباد ہوئی جس نے ان کو نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ اب تم اپنا انجام خود سوچ لو۔

۱۲: یہ اکٹھا جواب ہے کفار مکہ کے ان مضطرب اقوال کا جو وہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق کہتے تھے کہ یہ شاعری ہے، یہ ساحری ہے،  یہ پراگندہ خواب ہیں، یہ من گھڑت افسانے ہیں، وغیرہ۔ اس پر فرمایا  جا رہا ہے کہ اس کتاب میں آخر وہ کونسی نرالی بات ہے جو تمہاری سمجھ میں نہ آتی ہو، جس کی وجہ سے اس کے متعلق تم اتنی متضاد راہیں قائم کر رہے ہو۔ اس میں تو تمہارا اپنا ہی حال بیان کیا گیا ہے۔ تمہارے ہی نفسیات اور تمہارے ہی معاملاتِ زندگی  زیرِ بحث ہیں۔ تمہاری ہی فطرت اور ساخت اور آغاز و انجام پر گفتگو ہے۔ تمہارے ہی ماحول سے وہ نشانیاں چن چن کر پیش کی گئی ہیں جو حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ اور تمہارے ہی اخلاقی اوصاف  میں سے فضائل اور قبائح کا فرق نمایاں کر کے دکھا یا جا رہا ہے جس کے صحیح ہونے پر تمہارے اپنے ضمیر گواہی دیتے ہیں۔ ان سب باتوں میں کیا چیز ایسی گنجلک اور پیچیدہ ہے کہ اِس کو سمجھنے سے تمہاری عقل عاجز ہو؟

 

کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے پِیس کر رکھ دیا اور اُن کے بعد دوسری کسی قوم کو اُٹھایا۔ جب اُن کو ہمارا عذاب محسوس ہوا ۱۳ تو لگے وہاں سے بھاگنے۔ (کہا گیا) ’’بھاگو نہیں، جاؤ اپنے اُنہی گھروں اور عیش کے سامانوں میں جن کے اندر تم چین کر رہے تھے، شاید کہ تم سے پوچھا جائے۔ ‘‘  ۱۴ کہنے لگے ’’ہائے ہماری کم بختی، بے شک ہم خطاوار تھے۔‘‘  اور وہ یہی پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے اُن کو کھلیان کر دیا، زندگی کا ایک شرارہ تک اُن میں نہ رہا۔
ہم نے اِس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ ۱۵ اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کر لیتے۔ ۱۶ مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مِٹ جا تا ہے اور تمہارے لیے تباہی ہے اُن باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو۔ ۱۷
زمین اور آسمانوں میں جو مخلوق بھی ہے اللہ کی ہے۔ ۱۸ اور جو (فرشتے)اُس کے پاس ہیں ۱۹ وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اُس کی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ ملُول ہوتے ہیں۔ ۲۰ شب و روز اُس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، دَ م نہیں لیتے۔ کیا اِن لوگوں کے بنائے ہوئے ارضی خدا ایسے ہیں کہ ( بے جان کو جان بخش کر)اُٹھا کھڑا کرتے ہوں؟ ۲۱
اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو ( زمین اور آسمان)دونوں کا نظام بگڑ جاتا۔ ۲۲ پس پاک ہے اللہ ربّ العرش ۲۳ اُن باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ وہ اپنے کاموں کے لیے ( کسی کے آگے)جواب دہ نہیں ہے اور سب جواب دہ ہیں۔ کیا اُسے چھوڑ کر انہوں نے دوسرے خدا بنا لیے ہیں؟ اے محمد ؐ،  ان سے کہو کہ ’’لاؤ اپنی دلیل، یہ کتاب بھی موجود ہے جس میں میرے دور کے لوگوں کے لیے نصیحت ہے اور وہ کتابیں بھی موجود ہیں جن میں مجھ سے پہلے لوگوں کے لیے نصیحت تھی۔ ‘‘  ۲۴ مگر ان میں سے اکثر لوگ حقیقت سے بے خبر ہیں، اس لیے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ۲۵ ہم نے تم سے پہلے جو رسُول بھی بھیجا ہے اُس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔
یہ کہتے ہیں ’’رحمٰن اولاد رکھتا ہے۔‘‘  ۲۶ سُبحان اللہ، وہ تو بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی ہے۔ اُس کے حضور بڑھ کر نہیں بولتے اور بس اُس کے حکم پر عمل کرتے ہیں جو کچھ اُن کے سامنے ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے  اوجھل ہے اُس سے بھی وہ باخبر ہے۔ وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس کے جس کے حق میں سفارش سُننے پر اللہ راضی ہو، اور وہ اُس کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں۔ ۲۷ اور جو اُن میں سے کوئی کہہ دے کہ اللہ کے سوا میں بھی ایک خدا ہوں، تو اُسے ہم جہنّم کی سزا دیں، ہمارے ہاں ظالموں کا یہی بدلہ ہے۔ ؏ ۲

 

۱۳: یعنی جب عذابِ الہٰی سر پر آگیا اور انہیں معلوم ہو گیا کہ آ گئی شامت۔

۱۴: نہایت معنی خیز فقرہ ہے اور اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں، مثلاً: ذرا اچھی طرح اِس عذاب کا معائنہ کرو تا کہ کل کوئی اس کی کیفیت پوچھے تو ٹھیک بتا سکو۔ اپنے وہی ٹھا ٹھ جما کر پھر مجلسیں گرم کرو، شاید اب بھی تمہارے خدم و حشم ہاتھ باندھ کر پوچھیں کہ حضور کیا حکم ہے۔ اپنی وہی کونسلیں اور کمیٹیاں جمائے بیٹھے رہو،  شاید اب بھی تمہارے عاقلانہ مشوروں اور مدبرانہ آراء سے استفادہ کرنے  کے لیے دنیا حاضر ہو۔

۱۵: یہ تبصرہ ہے اُن کے اُس پورے نظریۂ حیات پر جس کی وجہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت پر توجہ نہ کرتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ انسان دنیا میں بس یونہی آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ جو کچھ چاہے کرے اور جس طرح چاہے جیے، کوئی باز پرس اس سے نہیں ہونی ہے۔ کسی کو اسے حساب نہیں دینا ہے۔ چند روز کی بھلی بُری زندگی گزار کر سب کو بس یونہی فنا ہو جانا ہے۔ کوئی دوسری زندگی نہیں ہے جس میں بھلائی کی جزا اور بُرائی کی سزا ہو۔ یہ خیال در حقیقت اِس بات کا ہم معنی  تھا کہ کائنات کا یہ سارا نظام محض کسی کھلنڈرے کا کھیل ہے جس کا کوئی سنجیدہ مقصد نہیں ہے۔ اور یہی خیال دعوتِ پیغمبر سے ان کی بے اعتنائی کا  اصل سبب  تھا۔

۱۶: یعنی ہمیں کھیلنا ہی ہوتا تو کھلونے بنا کر ہم خود ہی کھیل لیتے۔ اِس صورت میں یہ ظلم تو ہر گز نہ کیا جاتا کہ خواہ مخواہ ایک ذی حِس،  ذی شعور، ذمہ دار مخلوق کو پیدا کر ڈالا جاتا، اُس کے درمیان حق و باطل کی یہ کشمکش اور کھینچا تانیاں کرائی جاتیں، اور محض اپنے لطف و تفریح کے لیے ہم دوسروں کو بلاوجہ تکلیفوں میں ڈالتے۔ تمہارے خدا نے یہ دنیا کچھ رومی اکھاڑے(Coliseum ) کے طور پر نہیں بنائی ہے کہ بندوں کی درندوں سے لڑوا کر اور ان کی بوٹیاں نچوا کر خوشی کے ٹھٹھے لگائے۔

۱۷: یعنی ہم بازی گر نہیں ہیں،  نہ ہمارا کام کھیل تماشا کرنا ہے۔ ہماری یہ دنیا ایک سنجیدہ نظام ہے جس میں کوئی باطل چیز نہیں جم سکتی۔ باطل یہاں جب بھی سر اُٹھاتا ہے، حقیقت  سے اس کا تصادم ہو کر رہتا ہے اور آخر کار وہ مٹ کر ہی رہتا ہے۔ اس دنیا کو اگر تم تماشا گاہ سمجھ کر جیو گے،   یا حقیقت  کے خلاف باطل نظریات پر کام کرو گے تو نتیجہ تمہاری اپنی ہی تباہی ہو گا۔ نوع انسانی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لو کہ دنیا کو محض ایک تماشا گاہ،  محض ایک خوانِ  یغما، محض ایک عیش کدہ سمجھ کر جینے والی، اور انبیاء کی بتائی ہوئی حقیقت سے منہ موڑ کر باطل نظریات پر کام کرنے والی قومیں پے در پے کس انجام سے دوچار ہوتی رہی ہیں۔ پھر یہ کونسی عقلمندی ہے کہ جب سمجھانے والا سمجھائے تو اس کا مذاق اُڑاؤ، اور جب اپنے ہی کیے کرتُوتوں کے نتائج عذاب الہٰی کی صورت میں سر پر آئیں تو چیخنے لگو کہ ’’ہائے ہمارے کم بختی، بے شک ہم خطا وار تھے‘‘۔

۱۸: یہاں سے توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال پر گفتگو شروع ہوتی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مشرکینِ مکہ کے درمیان اصل بنائے نزاع تھی۔ اب مشرکین کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ کائنات کا یہ نظام جس میں تم جی رہے ہو (جس کے متعلق ابھی یہ بتایا جا چکا ہے کہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھلونا نہیں ہے،  جس کے متعلق یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ یہ ایک سنجیدہ اور با مقصد اور مبنی بر حقیقت نظام ہے،  اور جس کے متعلق یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ اس میں باطل ہمیشہ حقیقت سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتا ہے) اِس کی حقیقت یہ ہے کہ اس پورے نظام کا خالق، مالک، حاکم اور ربّ صرف ایک خدا ہے، اور اس حقیقت کے مقابلے میں باطل یہ ہے کہ اسے بہت سے خداؤں کی مشترک سلطنت سمجھا جائے،  یا یہ خیال کیا جائے کہ ایک بڑے خدا کی خدائی میں دوسرے چھوٹے چھوٹے خداؤں کا بھی کچھ دخل ہے۔

۱۹: یعنی وہی فرشتے جن کو مشرکینِ عرب خدا کی اولاد سمجھ کر، یا خدائی میں دخیل مان کر معبود بنائے ہوئے تھے۔

۲۰: عنی خدا کی بندگی کرنا  ان کو ناگوار بھی نہیں ہے کہ بادل نا خواستہ بندگی کرتے کرتے وہ ملول ہو جاتے ہوں۔ اصل میں لفظ  لا یستحسرون استعمال کیا گیا ہے۔ استحسار میں تکان کا مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اور اس سے مراد وہ تکان ہے جو کسی ناگوار کام کے کرنے سے لاحق ہو تی ہے۔

۲۱: اصل میں لفظ ’’یُنشرون‘‘  استعمال ہوا ہے جو ’’اِنشار‘‘  سے مشتق ہے۔ اِنشار کے معنی ہیں بے جان پڑی ہوئی چیز کو اُٹھا کھڑا کرنا۔ اگرچہ اس لفظ کو قرآن مجید میں بالعموم زندگی بعدِ موت کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن اصطلاحی مفہوم سے قطع نظر، اصل لغوی معنی کے اعتبار سے یہ لفظ بے جان مادّے میں زندگی  پھونک دینے کے لیے مستعمل ہوتا ہے۔ اور موقع  و محل کو دیکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ لفظ یہاں اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن ہستیوں کو انہوں نے خدا قرار دے رکھا ہے اور اپنا معبود بنایا ہے،  کیا ان میں کوئی ایسا ہے جو مادّۂ غیر ذی حیات میں زندگی پیدا کرتا ہو؟ اگر ایک اللہ کے سوا کسی میں یہ طاقت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ اور مشرکینِ عرب خود  مانتے تھے کہ کسی میں یہ طاقت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ تو پھر وہ اُن  کو خدا اور معبود کس لیے مان رہے ہیں؟

۲۲: یہ استدلال سادہ بھی ہے اور بہت گہرا بھی۔ سادہ سی بات،  جس کو ایک بدوی،  ایک دیہاتی، ایک موٹی  سی سمجھ کا آدمی بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے،  یہ ہے کہ ایک معمولی گھر کا نظام بھی چار دن بخیریت نہیں چل سکتا اگر اس کے دو صاحبِ خانہ ہوں۔ اور گہری بات یہ ہے کہ کائنات کا پورا نظام، زمین کی تہوں  سے لے کر بعید ترین سیاروں تک، ایک ہمہ گیر قانون پر چل رہا ہے۔ یہ ایک لمحہ کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتا اگر اس کی بے شمار مختلف قوتوں اور بے حد و حساب چیزوں کے درمیان تناسب اور توازن اور ہم آہنگی اور تعاون نہ ہو۔ اور یہ سب کچھ اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ کوئی اٹل اور غالب و قاہر ضابطہ اِن بے شمار اشیاء  اور قوتوں کو پوری مناسبت کے ساتھ باہم تعاون کرتے رہنے پر مجبور کر رہا ہو۔ اب یہ کس طرح تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ بہت سے مطلق العنان فرمانرواؤں کی حکومت میں ایک ضابطہ اس باقاعدگی کے ساتھ چل سکے ؟ نظم کا وجود خود ہی ناظم کی وحدت کو مستلزم ہے۔ قانون اور ضابطہ کی ہمہ گیری آپ ہی اس بات پر شاہد ہے کہ اختیارات ایک ہی حاکمیت میں مرکوز ہیں اور وہ حاکمیت مختلف حاکموں میں بٹی ہوئی نہیں ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن،  جلد دوم، بنی اسرائیل،  حاشیہ نمبر ۴۷۔ جلد سوم، المومنون، حاشیہ نمبر ۸۵)۔

۲۳: ربّ العرش،  یعنی کائنات کے تختِ سلطنت کا مالک۔

۲۴: پہلے دو استدلال عقلی تھے۔ اور یہ استدلال  نقلی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آج تک جتنی کتابیں بھی خدا کی طرف سے دنیا  کے کسی ملک میں کسی قوم کے پیغمبر پر نازل ہوئی ہیں،  ان میں سے کسی میں یہ نکال کر دکھا دو کہ ایک اللہ، خالقِ زمین و آسمان  کے سوا کوئی دوسرا بھی خدائی کا کوئی شائبہ رکھتا ہے اور کسی اور کو بھی بندگی و عبادت کا حق پہنچتا ہے۔ پھر یہ کیسا مذہب تم لوگوں نے بنا رکھا ہے  جس کی تائید میں نہ عقل سے کوئی دلیل ہے اور نہ آسمانی کتابیں ہی جس کے لیے کوئی شہادت فراہم کرتی ہیں۔

۲۵: یعنی نبی کی بات پر اِن کا توجہ نہ کران علم پر نہیں بلکہ جہل پر مبنی ہے۔ حقیقت سے بے خبر ہیں اس لیے سمجھانے والے کی بات کو ناقابلِ التفات سمجھتے ہیں۔

۲۶: یہاں پھر فرشتوں ہی کا ذکر ہے جن کو مشرکینِ عرب خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ بعد کی تقریر سے یہ بات خود ظاہر ہو جاتی ہے۔

۲۷: مشرکین فرشتوں کو دو وجوہ سے معبود بناتے تھے۔ ایک یہ کہ ان کے نزدیک وہ خدا کی اولاد تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ ان کی پرستش (خوشامد) کر کے انہیں خدا کے ہاں اپنا شفیع(سفارشی ) بنانا چاہتے تھے۔ وَیَقُوْلُوْنَ ھٰؤُ لَآءِ شُفَعَآ ؤُ نَا عِنْدَاللہِ (یونس،  آیت ۱۸)۔ اور   مَا نَعْبُدُ ھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّ بُوْنَآ اِلَی اللہِ زُلْفًا  (الزمر، آیت ۳)۔ ان آیات میں دونوں وجوہ کی تردید کر دی گئی ہے۔ اِس جگہ یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ قرآن بالعموم شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی تردید کرتے ہوئے اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ جنہیں تم شفیع قرار دیتے ہو وہ علم غیب نہیں رکھتے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اُن باتوں کو بھی جانتا ہے جو اُن کے سامنے ہیں اور اُن باتوں کو بھی جو اُن سے اوجھل ہیں۔ اس سے یہ ذہن نشین کرنا مقصُود ہے کہ آخر ان کو سفارش کر نے کا مطلق اور غیر مشروط اختیار کیسے حاصل ہو سکتا ہے جبکہ وہ ہر شخص کے اگلے پچھلے اور پوشیدہ و ظاہر حالات سے واقف نہیں ہیں۔ اس لیے خواہ فرشتے ہوں یا انبیاء و صالحین،  ہر ایک  کا اختیار ِ شفا لازماً اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کسی کے حق میں شفاعت کی اجازت دے۔ بطورِ خود ہر کس و ناکس کی شفاعت کر دینے کا کوئی بھی مجاز نہیں ہے۔ اور جب شفاعت سننا یا نہ سننا اور اسے قبول کرنا یا نہ کرنا  بالکل اللہ کی مرضی پر موقوف ہے تو ایسے بے اختیار شفیع اس قابل کب ہو سکتے ہیں کہ ان کے آگے سرِ نیاز جھکایا جائے اور دستِ سوال دراز کیا جائے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم، طٰہٰ،  حاشیہ نمبر ۸۵ – ۸۶)۔

 

کیا وہ لوگ جنہوں نے ( نبی کی بات ماننے سے )انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں جدا کیا، ۲۸ اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ ۲۹ کیا وہ ( ہماری اِس خلاقی کو )نہیں مانتے؟ اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تا کہ وہ اِنہیں لے کر ڈھلک نہ جائے، ۳۰ اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں، ۳۱ شاید کہ یہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں۔ ۳۲ اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا، ۳۳ مگر یہ ہیں کہ اس کی نشانیوں کی طرف ۳۴ توجہ ہی نہیں کرتے۔ اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سُورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب ایک ایک فلک میں تَیر رہے ہیں۔ ۳۵
۳۶ اور اے محمدؐ،  ہمیشگی تو ہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے نہیں رکھی ہے۔ اگر تم مر گئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے؟ ہر جاندار کو موت کا مزّہ چکھنا ہے، ۳۷ اور ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں۔ ۳۸ آخر کار تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔ یہ منکرینِ حق جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’ کیا یہ ہے وہ شخص جو تمہارے خداؤں کا ذکر کیا کرتا ہے؟‘‘  ۳۹ اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ رحمٰن کے ذکر سے منکر ہیں۔ ۴۰
انسان جلد باز مخلوق ہے۔ ۴۱ ابھی میں تم کو اپنی نشانیاں دکھائے دیتا ہوں، جلدی نہ مچاؤ ۴۲۔۔۔۔ یہ لوگ کہتے ہیں ’’آخر یہ دھمکی پُوری کب ہو گی اگر تم سچے ہو؟‘‘  کاش اِن کافروں کو اُس وقت کا کچھ علم ہوتا جب کہ یہ نہ اپنے منہ آگ سے بچا سکیں گے نہ اپنی پیٹھیں، اور نہ ان کو کہیں سے مدد پہنچے گی۔ وہ بلا اچانک آئے گی اور انہیں اس طرح یک لخت دبوچ لے گی کہ یہ نہ اُس کو دفع کر سکیں گے اور نہ ان کو لمحہ بھر مہلت ہی مل سکے گے۔ مذاق تم سے پہلے بھی رسُولوں کا اُڑایا جا چکا ہے مگر اُن کا مذاق اُڑانے والے اُسی چیز کے پھیر میں آ کر رہے جس کا وہ مذاق اُڑاتے تھے۔ ؏۳

 

۲۸: اصل میں لفظ ’’رتق‘‘  اور ’’فتق‘‘  کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ رَتق کے معنی ہیں یکجا ہونا، اکٹھا ہونا، ایک دوسرے سے جُڑا ہوا ہونا، متصل اور متلاصق ہونا۔ اور فتق کے معنی پھاڑنے اور جدا کرنے کے ہیں۔ بظاہر ان الفاظ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کی ابتدائی شکل ایک تودے (Mass ) کی سی تھی،  بعد میں اُس کے الگ الگ حصوں میں تقسیم کر کے زمین اور دوسرے اَجرامِ فلکی جدا جدا دنیاؤں کی شکل میں بنائے گئے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد چہارم،  حٰمٓ السجدہ،  حاشیہ نمبر ۱۳ – ۱۴ – ۱۵)۔

۲۹: اس سے جو مفہوم سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ پانی کو خدا نے سببِ زندگی اور اصلِ حیات بنایا، اُسی میں اور اُسی سے زندگی کا آغاز کیا۔ دوسری جگہ اس مطلب کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے،  وَاللہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنْ مَآ ءٍ  (النور، آیت نمبر ۴۵) ’’اور خدا نے ہر  جاندار کو پانی سے پیدا کیا‘‘۔

۳۰: اس کی تشریح سورۂ نحل حاشیہ نمبر ۱۲ میں گزر چکی ہے۔

۳۱: یعنی پہاڑوں کے درمیان ایسے درے  رکھ دیے اور دریا نکال دیے جن کی وجہ سے پہاڑی علاقوں سے گزرنے اور زمین کے ایک خطے سے دوسرے خطے کی طرف عبور کرنے کے راستے نکل آتے ہیں۔ اِسی طرح زمین کے دوسرے حصوں کی ساخت بھی ایسی رکھی ہے کہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک پہنچنے کے لیے راہ بن جاتی ہے  یا بنا لی جا سکتی ہے۔

۳۲: ذو معنی فقرہ ہے۔ یہ مطلب بھی ہے کہ لوگ زمین میں چلنے کے لیے  راہ پائیں،  اور یہ بھی کہ وہ اِس حکمت اور اس کاریگری اور اِس انتظام کو دیکھ کر حقیقت تک پہنچنے کا راستہ پالیں۔

۳۳: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورۂ  الحِجر، حواشی نمبر ۸،  ۱۰، ۱۱، ۱۲۔

۳۴: یعنی اُن نشانیوں کی طرف جو آسمان میں ہیں۔۳: یعنی قرآن کی ہر نئی سورت جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوتی ہے اور انہیں سُنائی جاتی ہے۔

۳۶: یہاں سے پھر سلسلۂ تقریر اُس کشمکش کی طرف مڑتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے مخالفین کے درمیان برپا تھی۔۳: یعنی قرآن کی ہر نئی سورت جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوتی ہے اور انہیں سُنائی جاتی ہے۔

۳۸: یعنی راحت اور رنج،  مفلسی اور امیری، غلبہ اور مغلوبی، قوت اور ضعف، صحت اور بیماری،  غرض تمام مختلف حالات میں تم لوگوں کی آزمائش کی جا رہی ہے،  تاکہ دیکھیں  تم اچھے حالات میں متکبّر، ظالم،  خدا فراموش، بندۂ نفس تو نہیں بن جاتے،  اور بُرے حالات میں کم ہمتی کے ساتھ پست اور ذلیل طریقے اور ناجائز راستے تو اختیار نہیں کرنے لگتے۔ لہٰذا کسی صاحبِ عقل آدمی کو اِن مختلف  حالات کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ جو حالت بھی اُسے پیش آئے،  اُس کے امتحانی اور آزمائشی پہلو کو نگاہ میں رکھنا چاہیے  اور اس سے بخیریت گزرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ صرف ایک احمق اور کم ظرف آدمی کا کام ہے کہ جب اچھے حالات آئیں تو فرعون بن جائے اور جب بُرے حالات پیش آ جائیں تو زمین پر ناک رگڑنے لگے۔

۳۹: یعنی برائی کے ساتھ اُن کا ذکر کرتا ہے۔ یہاں  اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ یہ فقرہ ان کے مذاق کا مضمون نہیں بتا رہا ہے، بلکہ مذاق اُڑانے کی وجہ اور بنیاد پر روشنی ڈال رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فقرہ بجائے خود کوئی مذاق کا فقرہ نہیں ہے۔ مذاق تو وہ دوسرے ہی الفاظ میں اُڑاتے ہوں گے اور کچھ اور ہی طرح کے آوازے کستے اور فقرے چُست کرتے ہوں گے۔ البتہ یہ سارا دل کا بخار جس وجہ سے نکالا جاتا تھا وہ یہ تھی کہ آپ ان کو خود ساختہ معبودوں کی خدائی کا رد کرتے تھے۔

۴۰: یعنی بتُوں اور بناوٹی خداؤں کی مخالفت تو انہیں اس قدر ناگوار ہے کہ اس کا بدلہ لینے کے لیے تمہاری تضحیک و تذلیل کرتے ہیں،  مگر انہیں خود اپنے حال پر شرم نہیں آتی کہ خدا سے پھرے ہوئے ہیں اور اس کا ذکر سُن کر آگ بگولا ہو جاتے ہیں۔

۴۱: اصل میں خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کا لفظی ترجمہ ہے ’’ انسان جلد بازی سے بنایا گیا ہے،  یا پیدا کیا گیا ہے ‘‘۔ لیکن یہ لفظی معنی اصل مقصود کلام نہیں ہیں۔ جس طرح ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں فلاں شخص عقل کا پُتلا ہے،  اور فلاں شخص حرفوں کا بنا ہوا ہے، اُسی طرح عربی زبان میں کہتے ہیں کہ وہ فلاں چیز سے پیدا کیا گیا ہے، اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلاں چیز اُس کی سرشت میں ہے۔ یہی بات جس کو یہاں خُلِقَ الْاِ نْسَانُ مِنْ عَجَلٍ کہہ کر ادا کیا گیا ہے،  دوسری جگہ وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا،  ’’انسان جلد باز واقع ہوا ہے‘‘  (بنی اسرائیل،  آیت ۱۱) کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔

۴۲: بعد کی تقریر صاف بتا رہی ہے کہ یہاں ’’نشانیوں‘‘  سے کیا مراد ہے۔ وہ لوگ جن باتوں کا مذاق اُڑاتے تھے اُن میں سے ایک عذاب ِ الہٰی،  اور قیامت اور جہنم کا مضمون بھی تھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ شخص آئے دن ہمیں ڈراوے دیتا ہے کہ میرا انکار کرو گے تو خدا کا عذاب ٹوٹ پڑے گا، اور قیامت میں تم پر یہ بنے گی اور تم لوگ یوں جہنم کے ایندھن بنائے جاؤ گے۔ مگر ہم روز انکار کرتے ہیں اور دندناتے پھر رہے ہیں۔ نہ کوئی عذاب آتا دکھائی دیتا ہے اور نہ کوئی قیامت ہی ٹوٹی پڑ رہی ہے۔ اسی  کا جواب ان آیات میں دیا گیا ہے۔

 

اے محمدؐ،  ان سے کہو ’’ کون ہے جو رات کو یا دن کو تمہیں رحمٰن سے بچا سکتا ہو؟‘‘  ۴۳ مگر یہ اپنے ربّ کی نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں۔ کیا یہ کچھ ایسے خدا رکھتے ہیں جو ہمارے مقابلے میں ان کے حمایت کریں؟ وہ تو نہ خود اپنی مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہماری ہی تائید ان کو حاصل ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو اور ان کے آبا و اجداد کو ہم زندگی کا سر و سامان دیے چلے گئے یہاں تک کہ ان کو دن لگ گئے۔ ۴۴ مگر کیا انہیں نظر نہیں آتا کہ ہم زمین کو مختلف سمتوں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں؟ ۴۵ پھر کیا یہ غالب آ جائیں گے؟ ۴۶ ان سے کہہ دو کہ ’’میں تو وحی کی بنا پر تمہیں متنبہ کر رہا ہوں‘‘۔۔۔۔مگر بہرے پُکار کو نہیں سُنا کرتے جب کہ انہیں خبر دار کیا جائے۔ اور اگر تیرے ربّ کا عذاب ذرا سا انہیں چھُو جائے ۴۷ تو ابھی چیخ اُٹھیں کہ ہائے ہماری کم بختی، بے شک ہم خطاوار تھے۔
قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے،  پھر کسی شخص پر ذرا برابر ظلم نہ ہو گا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہو گا ہو ہم سامنے لے آئیں گے۔ اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں۔ ۴۸ ۴۹ پہلے ہم موسیٰؑ اور ہارونؑ کو فرقان اور روشنی اور ’’ذکر‘‘  ۵۰ عطا کر چکے ہیں اُن متقی لوگوں کی بھلائی کے لیے ۵۱ جو بے دیکھے اپنے ربّ سے ڈریں اور جن کو ( حساب کی )اُس گھڑی ۵۲ کا کھٹکا لگا ہوا ہو۔ اور اب یہ بابرکت( ذکر)ہم نے ( تمہارے لیے)نازل کیا ہے۔ پھر کیا تم اس کو قبول کرنے سے انکاری ہو؟  ؏ ۴

 

۴۳: یعنی اگر  اچانک دن کو یا رات کو کسی وقت خدا کا زبردست  ہاتھ تم پر پڑ جائے تو آخر  وہ کونسا زور آور حامی و ناصر ہے جو اس کی پکڑ سے تم کو بچا لے گا؟

۴۴: یعنی ہماری اِس مہربانی اور پرورش سے یہ اس غلط فہمی میں پڑ گئے ہیں کہ یہ سب کچھ اِن کا کوئی ذاتی استحقاق ہے جس کا چھیننے والا کوئی نہیں۔ اپنی خوشحالیوں اور سرداریوں کو یہ لازوال سمجھنے لگے ہیں اور ایسے سرمست ہو گئے ہیں کہ انہیں کبھی یہ خیال تک نہیں آتا کہ اوپر کوئی خدا بھی ہے جو ان کی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کی قدرت رکھتا ہے۔

۴۵: یہ مضمون اس سے پہلے سُورۂ رعد آیت ۴۱ میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کر چکے ہیں (ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۶۰)۔ یہاں اس سیاق و سباق میں یہ ایک اور معنی بھی دے رہا ہے۔ وہ یہ کہ زمین میں ہر طرف ایک غالب طاقت کی کارفرمائی کے  یہ آثار نظر آتے ہیں کہ اچانک کبھی قحط کی شکل میں،  کبھی وبا کی شکل میں،  کبھی سیلاب کی شکل میں،  کبھی زلزلے کی شکل میں،  کبھی سردی یا گرمی کی شکل میں، اور کبھی کسی اور شکل میں کوئی بلا ایسی  آ جاتی ہے جو انسان کے سب کیے دھرے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ ہزاروں لاکھوں آدمی مر جاتے ہیں۔ بستیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔ لہلہاتی کھیتیاں غارت ہو جاتی ہیں۔ پیداوار گھٹ جاتی ہے۔ تجارتوں میں کساد بازاری آنے لگتی ہے۔ غرض انسان کے وسائل زندگی میں کبھی کسی طرف سے کمی واقع ہو جاتی ہے اور کبھی کسی طرف سے۔ اور انسان اپنا سارا زور لگا کر بھی ان نقصانات کو نہیں روک سکتا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد ۴، السجدہ، حاشیہ نمبر ۳۳)۔

۴۶: یعنی  جب کہ اِن  کے تمام وسائلِ زندگی ہمارے ہاتھ میں ہیں،  جس چیز کو چاہیں گھٹا دیں اور جسے چاہیں روک لیں،  تو کیا یہ  اتنا بل بوتا رکھتے ہیں کہ ہمارے مقابلے میں غالب آ جائیں اور ہماری پکڑ سے بچ نکلیں؟ کیا یہ آثار ان کی یہی اطمینان دلا رہے ہیں کہ تمہاری طاقت لازوال اور تمہارا عیش غیر فانی ہے اور کوئی تمہیں پکڑنے والا نہیں ہے۔

۴۷: وہی عذاب جس کے لیے یہ جلدی مچاتے ہیں اور مذاق کے انداز میں کہتے ہیں کہ لاؤ نا وہ عذاب کیوں نہیں وہ ٹوٹ پڑتا۔

۴۸: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، الاعراف، حاشیہ نمبر ۸ – ۹۔ ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل  ہے کہ اس ترازو کی نوعیت کیا ہو گی۔ بہر حال وہ کوئی ایسی چیز ہو گی جو مادّی چیزوں کو تولنے کے بجائے انسان کے اخلاقی اوصاف و اعمال اور اس کی نیکی و بدی کو تولے گی اور ٹھیک ٹھیک وزن کر کے بتا دے گی کہ اخلاقی حیثیت سے کس شخص کا کیا پایہ ہے۔ نیک ہے تو کتنا نیک ہے اور بد ہے تو کتنا بد۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ہماری زبان  کے دوسرے الفاظ کو چھوڑ کر ’’ترازو‘‘  کا لفظ یا تو اس وجہ سے انتخاب  فرمایا ہے کہ اس کی نوعیت ترازو سے اشبہ ہو گی،  یا اس انتخاب کا مقصد یہ تصوّر دلانا ہے کہ جس طرح ایک ترازو کے پلڑے دو چیزوں کے وزن کا فرق ٹھیک ٹھیک بتا دیتے ہیں،  اسی طرح ہماری میزان عدل بھی ہر انسان کے کارنامۂ زندگی کو جانچ کر بے کم و کاست بتا دے گی کہ اس میں نیکی کا پہلو غالب ہے یا بدی کا۔

۴۹: یہاں سے انبیاء علیہم السّلام کا ذکر شروع ہوتا ہے اور  پے در پے بہت سے انبیاء کی زندگی کے مفصل یا مختصر واقعات کی طرف اشارے کیے جاتے ہیں۔ یہ ذکر جس سیاق و سباق میں آیا ہے اُس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے حسب ِ ذیل باتیں ذہن نشین کرنی مقصود ہیں: اوّل یہ کہ تمام پچھلے انبیاء بھی بشر ہی تھے، کوئی نِرالی مخلوق نہ تھے۔ تاریخ میں یہ کوئی نیا واقعہ آج پہلی مرتبہ ہی پیش تھا اور یہی ان کی تعلیم تھی۔ دوم یہ کہ پہلے انبیاء بھی اسی کام کے لیے آئے تھے جو کام اب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کر رہے ہیں۔ یہی ان کا مشن تھا اور یہی ان کی تعلیم تھی۔ سوم یہ کہ انبیاء  علیہم السّلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا خاص معاملہ رہا ہے۔ بڑے بڑے مصائب سے رہ گزرے ہیں۔ سالہا سال مصاءً میں مبتلا رہے ہیں۔ شخصی اور ذاتی مصائب میں بھی اور اپنے مخالفوں کے ڈالے ہوئے مصائب میں بھی، مگر آخر کار اللہ کی نصرت و تائید ان کو حاصل ہوئی ہے،  اس نے اپنے فضل و رحمت  سے اُن کو نوازا ہے، ان کی دعاؤں کو قبول کیا ہے، ان کی تکلیفوں کو رفع کیا ہے،  ان کے مخالفوں کو نیچا دکھایا ہے، اور معجزانہ طریقوں پر ان کی مدد کی ہے۔ چہارم یہ کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب اور مقبول ِ بارگاہ ہونے کے باوجود،  اور اس کی طرف سے بڑی بڑی حیرت انگیز طاقتیں پانے کے باوجود، تھے وہ بندے اور بشر ہی۔ الوہیّت ان میں سے کسی کو حاصل نہ تھی۔ رائے اور فیصلے میں ان سے غلطی بھی ہو جاتی تھی۔ بیمار بھی  وہ ہوتے تھے۔ آزمائشوں میں بھی ڈالے جاتے تھے۔ حتّٰیٰ کہ قصور بھی ان سے ہو جاتے تھے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مواخذہ بھی ہوتا تھا۔

۵۰: تینوں الفاظ توراۃ کی تعریف میں استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی وہ حق و باطل کا فرق دکھانے والی کسوٹی تھی، وہ انسان کو زندگی کا سیدھا راستہ دکھانے والی روشنی تھی، اور وہ اولادِ آدم کو اس کا بھُولا ہوا سبق یاد دلانے والی نصیحت تھی۔

۵۱: یعنی اگرچہ بھیجی گئی تھی وہ تمام انسانوں کے لیے، مگر اس سے فائدہ عملاً وہی لوگ اُٹھا سکتے تھے جو اِن  صفات سے متصف ہوں۔

۵۲: جس کا ابھی اُوپر ذکر گزرا ہے،  یعنی قیامت۔

 

اُس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیمؑ کو اُس کی ہوشمندی بخشی تھی اور ہم اُس کو خوب جانتے تھے۔ ۵۳ ۵۴ یاد کرو  وہ موقع جب کہ اُس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’’ یہ مورتیں کیسی ہیں جن کے تم لوگ گرویدہ ہو رہے ہو؟‘‘  انہوں نے جواب دیا ’’ ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے۔‘‘  اس نے کہا ’’ تم بھی گمراہ ہو اور تمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘  انہوں نے کہا ’’ کیا تُو ہمارے سامنے اپنے اصلی خیالات پیش کر رہا ہے یا مذاق کرتا ہے؟‘‘  ۵۵ اُس نے جواب دیا ’’ نہیں، بلکہ فی الواقع تمہارا ربّ وہی ہے جو زمین اور آسمانوں کا ربّ  اور اُن کا پیدا کرنے والا ہے۔ اِس پر میں تمہارے سامنے گواہی دیتا ہوں۔ اور خدا کی قسم میں تمہاری غیر موجودگی میں ضرور تمہارے بُتوں کی خبر لوں گا۔‘‘  ۵۶ چنانچہ اس نے اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ۵۷ اور صرف ان کے بڑے کو  چھوڑ دیا تاکہ شاید وہ اس کی طرف رُجوع کریں۔ ۵۸ (اُنہوں نے آ کر بُتوں کا یہ حال دیکھا تو)کہنے لگے ’’ ہمارے خداؤں کا یہ حال کس نے کر دیا؟ بڑا ہی کوئی ظالم تھا وہ۔‘‘ (بعض لوگ)بولے ’’ ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے سُنا تھا جس کا نام ابراہیمؑ ہے۔‘‘  اُنہوں نے کہا ’’تو پکڑ لاؤ اُسے سب کے سامنے تاکہ لوگ دیکھ لیں( اُس کی کیسی خبر لی جاتی ہے)۔‘‘  ۵۹ (ابراہیمؑ کے آنے پر)اُنہوں نے پوچھا ’’ کیوں ابراہیمؑ، تُو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟‘‘  اُس نے جواب دیا ’’ بلکہ یہ سب کچھ اِن کے اس سردار نے کیا ہے، اِن ہی سے پُوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں۔‘‘  ۶۰ یہ سُن کر وہ لوگ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور (اپنے دِلوں میں)کہنے لگے ’’ واقعی تم خود ہی ظالم ہو۔‘‘  مگر پھر اُن کی مت پلٹ گئی ۶۱ اور بولے ’’تُو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں۔‘‘  ابراہیمؑ نے کہا ’’پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُن چیزوں کو پُوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان۔ تُف ہے تم پر اور تمہارے اِن معبودوں پر جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پُوجا کر رہے ہو۔ کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے؟‘‘  اُنہوں نے کہا ’’جلا ڈالو اِس کو اور حمایت کرو اپنے خداؤں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔‘‘ ہم نے کہا ’’اے آگ، ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیمؑ پر۔‘‘  ۶۲ وہ چاہتے تھے کہ ابراہیمؑ کے ساتھ بُرائی کریں۔ مگر ہم نے اُن کو بُری طرح ناکام کر دیا۔ اور ہم اُسے اور لوطؑ ۶۳ کو بچا کر اُس سر زمین کی طرف نکال لے گئے جس میں ہم نے دنیا والوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں۔ ۶۴ اور ہم نے اسے اسحاقؑ عطا کیا اور یعقوبؑ اس پر مزید، ۶۵ اور ہر ایک کو صالح بنایا۔ اور ہم نے اُن کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے۔ اور ہم نے اُنہیں وحی کے ذریعہ نیک کاموں کی اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی ہدایت کی، اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔ ۶۶
اور لُوطؑ کو ہم نے حکم اور علم بخشا ۶۷ اور اُسے اُس بستی سے بچا کر نکال دیا جو بدکاریاں کرتی تھی۔۔۔۔ درحقیقت وہ بڑی ہی بُری،  فاسق قوم تھی۔۔۔۔ اور لُوط ؑ کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا، وہ صالح لوگوں میں سے تھا۔ ؏ ۵

 

۵۳: ’’ہوشمندی‘‘  ہم نے ’’ رشید‘‘  کا ترجمہ کیا ہے جس کے معنی ہیں ’’صحیح و غلط میں تمیز کر کے صحیح بات یا طریقے کو اختیار کرنا اور غلط بات یا طریقے سے احتراز کرنا‘‘۔ اس مفہوم کے لحاظ سے ’’رشد‘‘  کا ترجمہ ’’راست روی‘‘  بھی ہو سکتا ہے، لیکن چونکہ رُشد کا لفظ محض راست روی کو نہیں بلکہ اُس راست روی کو  ظاہر کرتا ہے جو نتیجہ ہو فکر صحیح اور عقلِ سلیم کے استعمال کا،  اس لیے ہم نے ’’ہوشمندی‘‘  کے لفظ کو اس کے مفہوم سے اقرب سمجھا ہے۔ ’’ابراہیم کو اُس کی ہوشمندی بخشی‘‘  یعنی جو ہوشمندی اس کو حاصل تھی وہ ہماری عطا کر دہ تھی۔ ’’ہم اُس کو خوب جانتے تھے‘‘  یعنی ہماری یہ بخشش کوئی اندھی بانٹ نہ تھی۔ ہمیں معلوم تھا کہ وہ کیسا آدمی ہے، اس لیے ہم نے اس کو نوازا۔ اَللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَا لَتَہٗ، ’’ اللہ خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کس کے حوالے کرے‘‘۔ (الانعام،  آیت نمبر ۱۲۴)۔ اس میں ایک لطیف اشارہ ہے سردارانِ قریش کے اُس اعتراض کی طرف جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ آخر اِس شخص میں کون سے سرخاب  کے پر لگے ہوئے ہیں کہ اللہ ہم کو چھوڑ کر اسے رسالت کے منصب پر مقرر کرے۔ اس کا جواب مختلف مقامات پر قرآن مجید میں مختلف طریقوں  دیا گیا ہے۔ یہاں صرف اِس لطیف اشارے پر اکتفا کیا گیا کہ یہی سوال ابراہیم کے متعلق بھی ہو سکتا تھا، پوچھا جا سکتا تھا کہ سارے ملکِ عراق میں ایک ابراہیم ہی کیوں اس نعمت سے نوازا گیا، مگر ہم جانتے تھے کہ ابراہیم میں کیا اہلیّت ہے،  اس لیے ان کی پوری قوم میں سے اُن کو اِس نعمت کے لیے منتخب کیا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سیرتِ پاک کے مختلف پہلو اِس سے پہلے سُورۂ بقرہ آیات ۱۲۴ تا ۱۴۱ – ۲۵۸ – ۲۶۰۔ الانعام،  آیات ۱۲۰ تا ۱۳۳ میں گزر چکے ہیں جن پر ایک نگاہ ڈال لینا مفید ہو گا۔

۵۴: جس واقعہ کا آگے ذکر کیا  جا رہا ہے اس کو پڑھنے سے پہلے یہ بات اپنے ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ قریش کے لوگ حضرت ابراہیم کی اولاد تھے، کعبہ انہی کا تعمیر کردہ تھا کہ یہ اولادِ ابراہیم ہیں اور کعبۂ ابراہیمی کے مجاور ہیں۔ آج اِس زمانے اور عرب سے دُور دراز کے ماحول میں تو حضرت ابراہیم کا یہ قصہ صرف ایک سبق آموز تاریخی واقعہ ہی نظر آتا ہے،  مگر جس زمانے اور ماحول میں اوّل اوّل یہ بیا کیا گیا تھا،  اس کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے تو محسوس ہو گا کہ قریش کے مذہب اور ان کی برہمنیت پر ایک ایسی کاری ضرب تھی جو ٹھیک اس کی جڑ پر جا کر لگتی تھی۔

۵۵: اِس فقرے  کا لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’کیا تُو ہمارے سامنے حق پیش کر رہا ہے یا کھیلتا ہے‘‘۔ لیکن اصل مفہوم وہی ہے جس کی ترجمانی اوپر کی گئی ہے۔ ان لوگوں کو اپنے دین کے برحق ہونے کا اتنا یقین تھا کہ وہ یہ تصوّر کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھے کہ یہ باتیں کوئی شخص سنجیدگی کے ساتھ کر سکتا ہے۔ اس لیے انہوں نے کہا کہ یہ تم محض مذاق اور کھیل کر رہے ہو یا واقعی تمہارے یہی خیالات ہیں۔

۵۶: یعنی اگر تم استدلال سے بات نہیں سمجھتے ہو تو میں عملاً تمہیں مشاہدہ کرا دوں گا  کہ یہ بے بس ہیں،  ان کے پاس کچھ بھی اختیارات نہیں ہیں،  اور ان کو خدا بنانا غلط ہے۔ رہی یہ بات کہ عملی تجربے اور مشاہدے سے یہ بات وہ کس طرح ثابت کریں گے،  تو اس کی کوئی تفصیل حضرت ابراہیم نے اُس موقع پر نہیں بتائی۔

۵۷: یعنی موقع  پا کر جب کہ پجاری اور مجاور موجود نہ تھے،  حضرت ابراہیم ان کے مرکزی بت خانے میں گھس گئے،  اور سارے بُتوں کو توڑ ڈالا۔

۵۸: ’’اُس کی طرف‘‘  کا اشارہ بڑے بُت کی طرف بھی ہو سکتا ہے اور خود حضرت ابراہیم کی طرف بھی۔ اگر پہلی بات ہو تو یہ حضرت ابراہیم ؑ  کی طرف سے اُن کے عقائد پر ایک طنز کا ہم معنی ہے۔ یعنی اگر اِن کے نزدیک واقعی یہ خدا ہیں تو انہیں اپنے بڑے خدا کے متعلق یہ شبہ ہونا چاہیے کہ شاید بڑے حضرت ان چھوٹے حضرتوں سے کسی بات پر بگڑ گئے ہوں اور سب کا کچومر بنا ڈالا ہو۔ یا پھر بڑے حضرت سے یہ پوچھیں کہ حضور، آپ کی موجودگی میں یہ کیا ہوا؟ کون یہ کام کر گیا؟ اور  آپ نے اسے روکا کیوں نہیں ؟ اور اگر دوسرا مفہوم مراد لیا جائے تو حضرت ابراہیم کا منشا اس کاروائی سے یہ تھا کہ اپنے بتوں کا یہ حال دیکھ کر شاید اِن کا ذہن میری ہی طرف منتقل ہو گا اور یہ مجھ سے پوچھیں گے تو مجھ کو پھر ان سے صاف صاف بات کرنے کا موقع مل جائے گا۔

۵۹: یہ گویا حضرت ابراہیم کی منہ مانگی مراد تھی، کیونکہ وہ بھی  یہی چاہتے تھے کہ بات صرف پروہتوں اور پُجاریوں ہی کے سامنے نہ ہو بلکہ عام لوگ بھی موجود ہوں اور سب دیکھ لیں کہ یہ بُت جو اُن کے قاضی الحاجات بنا کر رکھے گئے ہیں کیسے بے بس ہیں اور خود یہ پروہت حضرات ان کو کیا سمجھتے ہیں۔ اِس طرح اِن پجاریوں سے بھی وہی حماقت سرزد ہوئی جو فرعون سے سرزد ہوئی تھی۔ اس نے بھی جادوگروں سے حضرت موسیٰ کا مقابلہ کرانے کے لیے ملک بھر کی خلقت جمع کرائی تھی اور اِنہوں نے بھی حضرت ابراہیم کا مقدمہ سننے کے لیے عوام کو اکٹھا کر لیا۔ وہاں حضرت موسیٰ کو سب  کے سامنے یہ ثابت کرنے کا موقع مل گیا کہ جو کچھ وہ لائے ہیں وہ جادو نہیں  معجزہ ہے۔ اور یہاں حضرت ابراہیم کو ان کے دشمنوں نے آپ ہی یہ موقع فراہم کر دیا کہ وہ عوام کے سامنے اُن کے مکر و فریب کا طلسم توڑ دیں۔

۶۰: یہ آخری فقرہ خود ظاہر کر رہا ہے کہ پہلے فقرے میں حضرت ابراہیم نے بُت شکنی کے اِس فعل کو بڑے بُت کی طرف جو منسُوب کیا ہے اِس سے اُن کا مقصد جھوٹ بولنا نہ تھا، بلکہ وہ اپنے مخالفین پر حجّت قائم کر رہے تھے۔ یہ بات انہوں نے اس لیے کہی تھی کہ وہ لوگ جو اب میں خود ان کا اقرار کریں کہ ان کے یہ معبُود بالکل بے بس ہیں اور اُن سے کسی فعل کی توقع تک نہیں کی جا سکتی۔ ایسے مواقع پر ایک شخص استدلال کی خاطر جو خلافِ واقعہ بات کہتا ہے اس کو جھُوٹ قرار نہیں دیا جا سکتا،  کیونکہ نہ وہ خود جھُوٹ کی نیّت سے ایسی بات کہتا ہے اور نہ اس کے مخاطب ہی اِسے جھُوٹ سمجھتے ہیں۔ کہنے والا اسے حجّت قائم کرنے کے لیے کہتا ہے اور سننے والا بھی اُسے اسی معنی میں لیتا ہے۔ بد قسمتی سے حدیث کی ایک روایت میں یہ بات آ گئی ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنی زندگی میں تین مرتبہ جھوٹ بولے ہیں۔ ان میں سے ایک ’’جھوٹ ‘‘ تو یہ ہے،  اور دوسرا ’’جھوٹ‘‘  سورۂ صافات میں حضرت ابراہیم کا قول ا اِنِّیْ  سَقِیْمٌ، اور تیسرا ’’جھوٹ‘‘  اُن کا اپنی بیوی کو بہن کہنا ہے جس کا ذکر قرآن میں نہیں بلکہ بائیبل  کی کتاب پیدائش میں آیا ہے۔ ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کر کے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری و مسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پروا نہیں  ہے کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے۔ دوسرا گروہ اس ایک روایت کے لے کر پورے ذخیرۂ حدیث پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ساری ہی حدیثوں کو اٹھا کر پھینک دو کیونکہ ان میں ایسی ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں۔ حالانکہ نہ ایک یا چند روایات میں کسی خرابی کے پائے جانے سے یہ لازم آتا ہے کہ ساری ہی روایات ناقابلِ اعتماد ہوں۔ اور نہ فنِ حدیث کے نقطۂ نظر سے کسی روایت کی سند کا مضبوط ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کا متن خواہ کتنا ہی قابلِ اعتراض ہو مگر اسے ضرور آنکھیں بند کر کے صحیح مان لیا جائے۔ سند کے قوی اور قابلِ اعتماد ہونے کے باوجود بہت سے اسباب ایسے ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہو جاتا ہے اور ایسے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے جن کی قباحت خود پکار رہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فرمائی ہوئی نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے سند کے ساتھ ساتھ متن کو دیکھنا بھی ضروری ہے،  اور اگر متن میں واقعی کوئی قباحت ہو تو پھر خواہ مخواہ اس کی صحت پر اصرار کرنا صحیح نہیں ہے۔ یہ حدیث،  جس میں حضرت ابراہیم کے تین ’’جھوٹ‘‘  بیان کیے گئے ہیں، صرف اِسی وجہ سے قابلِ اعتراض نہیں ہے کہ یہ ایک نبی کو جھوٹا قرار دے رہی ہے۔ بلکہ اس بنا پر بھی غلط ہے کہ اس میں جن تین واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ تینوں ہی محلِّ نظر ہیں۔ اُن میں سے ایک ’’جھوٹ‘‘  کا حال ابھی آپ دیکھ چکے ہیں کہ کوئی معمولی عقل و خرد کا آدمی بھی اِس سیاق و سباق میں حضرت ابراہیم کے اس قول پر لفظ ’’جھوٹ‘‘  کا اطلاق نہیں کر سکتا، کجا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے معاذاللہ اس سخن نا شناسی  کی توقع کریں۔ رہا اِنِّیْ  سَقِیْمٌ  والا واقعہ تو اس کا جھُوٹ ہونا ثابت نہیں ہو سکتا جب تک  یہ ثابت نہ ہو جائے کہ حضرت ابراہیم فی الواقع اُس وقت بالکل صحیح و تندرست تھے اور کوئی ادنیٰ سی شکایت بھی اُن کو نہ تھی۔ یہ بات نہ قرآن میں کہیں بیان ہوئی ہے اور نہ اِس زیر بحث روایت کے سوا کسی دوسری معتبر روایت میں اس کا ذکر آیا ہے۔ اب رہ جاتا ہے بیوی کو  بہن قرار دینے کا واقعہ تو وہ بجائے خود ایسا مہمل ہے کہ ایک شخص اس کو سنتے ہی کہ کہہ دے گا کہ یہ ہر گز واقعہ نہیں ہو سکتا۔ قصّہ اُس وقت کا بتایا جا تا ہے جب حضرت ابراہیم  اپنی بیوی حضرت سارہ کے ساتھ مصر گئے ہیں۔ بائیبل  کی رو سے اس وقت حضرت ابراہیم کی عمر ۷۵ اور حضرت سارہ کی عمر ۶۵ برس سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ اور اس عمر میں حضرت ابراہیم کو یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ شاہِ مصر اس خوبصورت خاتون کو حاصل کرنے کی خاطر مجھے قتل کر دے گا۔ چنانچہ وہ بیوی سے کہتے ہیں کہ جب مصری تمہیں پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے جانے لگیں تو تم بھی مجھے اپنا بھائی بتانا اور میں بھی تمہیں اپنی بہن بتاؤں گا تاکہ میری جان  تو بچ جائے (پیدائش،  باب ۱۲)۔ حدیث کی زیرِ بحث روایت میں تیسرے ’’جھوٹ‘‘  کی بنیاد اِسی صریح لغو اور مہمل اسرائیلی روایت  پر ہے۔ کیا یہ کوئی معقول بات ہے کہ جس حدیث کا متن ایسی باتوں پر مشتمل ہو اس کو بھی ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسُوب کرنے پر صرف اس لیے اصرار کریں کہ اس کی سند مجروح نہیں ہے؟ اسی طرح کی  اِفراط پسندیاں پھر معاملے کو بگاڑ کر اُس تفریط  تک نوبت پہنچا دیتی ہیں جس کا مظاہرہ منکرینِ حدیث کر رہے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب رسائل و مسائل،  جلد دوم، ص ۳۵ تا  ۳۹)۔

۶۱: اصل میں  نُکِسُوْ ا عَلیٰ رُءُ وْ سِھِمْ (اوندھا دیے گئے اپنے سروں کے بل) فرمایا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ انہوں نے خجالت کے مارے سر جھکا لیے۔ لیکن موقع و محل اور اسلوبِ بیان اس معنی کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ صحیح مطلب،  جو سلسلۂ  کلام  اور اندازِ کلام پر نظر کرنے سے صاف سمجھ میں آ جاتا ہے،  یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا جواب سنتے ہی پہلے تو انہوں نے اپنے دلوں  میں سوچا کہ واقعی ظالم تو تم خود ہو،  کیسے بے بس  اور بے اختیار معبودوں کو خدا بنائے بیٹھے ہو جو اپنی زبان سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان پر کیا بیتی اور کون انہیں مار کر رکھ گیا، آخر یہ ہماری کیا مدد کریں گے جب کہ خود اپنے آپ کو بھی نہیں بچا سکتے۔ لیکن اس کے بعد فوراً ہی ان پر ضد  اور جہالت سوار ہو گئی اور،  جیسا کہ ضد کا خاصہ ہے،  اس کے سوار ہوتے ہی ان کی عقل اوندھ گئی۔ دماغ سیدھا  سوچتے سوچتے یکایک اُلٹا سوچنے لگا۔

۶۲: الفاظ صاف بتا رہے ہیں،  اور سیاق و سباق بھی اس مفہوم کی تائید کر رہا ہے کہ انہوں نے واقعی اپنے اس فیصلے پر عمل کیا،  اور جب آک کا الاؤ تیار کر کے اُنہوں نے حضرت ابراہیم ؑ کو اس میں پھینکا تب اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم کے لیے ٹھنڈی ہو جائے اور بے ضرر بن کر رہ جائے۔ پس صریح طور پر یہ بھی اُن معجزات میں سے ایک ہے جو قرآن میں بیان کیے گئے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان معجزات کی اس لیے تاویلیں کرتا ہے کہ اس کے نزدیک خدا کے لیے بھی نظامِ عالم کے معمول() سے ہٹ کر کوئی غیر معمولی کام کرنا ممکن نہیں ہے،  تو آخر وہ خدا کو ماننے  ہی کی زحمت  کیوں اُٹھاتا ہے۔ اور اگر وہ اس طرح کی تاویلیں اس لیے کرتا ہے کہ جدید زمانے کے نام نہاد عقلیت پرست ایسی باتوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں،  تو ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ بندۂ خدا، تیرے اوپر یہ فرض کس نے عائد کیا تھا کہ تو کسی نہ کسی طرح انہیں منوا کر ہی چھوڑے ؟ جو شخص قرآن کو، جیسا کہ وہ  ہے،  ماننے کے لیے تیار نہیں ہے،  اسے اس کے حال پر چھوڑ و۔ اسے منوانے کی خاطر قرآن کو اس کے خیالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا، جبکہ قرآن کے الفاظ قدم قدم پر اِس ڈھلائی کی مزاحمت کر رہے ہوں، آخر کس قسم کی تبلیغ ہے اور کون معقول آدمی اسے جائز سمجھ سکتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ عنکبوت،  حاشیہ نمبر ۳۹)۔

۶۳: بائیبل کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ کے دو بھائی تھے، نَحور اور حاران۔ حضرت لوط ؑ حاران کے بیٹے تھے (پیدائش باب ۱۱، آیت ۲۶)۔ سُورۂ عنکبوت میں حضرت ابراہیم کا جو تذکرہ آیا ہے اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی قوم میں سے صرف ایک حضرت لوط ؑ ہی ان پر ایمان لائے تھے (ملاحظہ ہو آیت ۲۶)۔

۶۴: یعنی شام و فلسطین کی سرزمین۔ اس کی برکتیں مادّی بھی ہیں او ر روحانی بھی۔ مادی حیثیت سے وہ دنیا کے زرخیز ترین علاقوں میں سے ہے۔ اور روحانی حیثیت سے وہ ۲ ہزار برس تک انبیاء علیہم السّلام کا مہبط رہی ہے۔ دنیا کے کسی دوسرے خطے میں اتنی کثرت سے انبیاء مبعوث نہیں ہوئے ہیں۔

۶۵: یعنی بیٹے کے بعد پوتا بھی ایسا ہو ا جسے نبوت سے سرفراز کیا گیا۔

۶۶:  حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کے اس اہم  واقعے کا بائیبل میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ بلکہ ان کی زندگی کے عراقی دور کا کوئی واقعہ بھی اس کتاب میں جگہ نہیں پاسکا ہے۔ نمرود سے ان کی مد بھیڑ، باپ اور قوم سے ان کی کشمکش،  بت پرستی کے خلاف ان کی جدو جہد،  آگ میں ڈالے جانے کا قصہ،  اور بالآخر ملک چھوڑ نے پر مجبور ہونا،  ان میں سے ہر چیز بائیبل کی کتاب ’’پیدائش‘‘  کے مصنف کی نگاہ میں ناقابل التفات تھی۔ وہ صرف ان کی ہجرت کا ذکر کرتا ہے،  مگر وہ بھی اس انداز سے کہ جیسے ایک خاندان تلاش معاش میں ایک ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا کر آباد ہو رہا ہے۔ قرآن اور بائیبل کا اس سے بھی زیادہ دلچسپ اختلاف یہ ہے کہ قرآن کے بیان کی رو سے حضرت ابراہیمؑ کا مشرک باپ ان پر ظلم کرنے میں پیش پیش تھا، اور بائیبل کہتی ہے کہ ان کا باپ خود اپنے بیٹوں،  پوتوں اور بہوؤں کو لے کر حاران میں جا بسا (باب  ۱۱۔ آیات  ۲۷ تا  ۳۲)۔ اس کے بعد یکایک خدا حضرت ابراہیم سے کہتا ہے کہ تو حاران کو چھوڑ کر کنعان میں جا کر بس جا اور ’’ میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور برکت دوں گا اور تیرا نام سر فراز کروں گا، سو تو باعث برکت ہو، جو تجھے مبارک کہیں ان کو میں برکت دوں گا اور جو تجھ پر لعنت کرے اس پر میں لعنت کروں گا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے ‘‘  (باب  ۱۲۔ آیت ۱۔ ۳)۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اچانک حضرت ابراہیم پر یہ نظر عنایت کیوں ہو گئی۔ تَلْمود میں البتہ سیرت ابراہیمی کے عراقی دور کی وہ بیشتر تفصیلات ملتی ہیں جو قرآن کے مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہیں۔ مطر دونوں کا تقابل کرنے سے نہ صرف یہ کہ قصے کے اہم اجزاء میں بین تفاوت نظر آتا ہے،  بلکہ ایک شخص صریح طور پر یہ محسوس کر سکتا ہے کہ تلمود کا بیان بکثرت بے جوڑ اور خلاف قیاس باتوں سے بھرا ہوا ہے اور اس کے برعکس قرآن بالکل منقح صورت میں حضرت ابراہیمؑ کے اہم واقعات زندگی کو پیش کرتا ہے جن میں کوئی لغو بات آنے نہیں پائی ہے،  توضیح مدعا کے لیے ہم یہاں تلمود کی داستاں کا خلاصہ پیش کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں کی غلطی پوری طرح کھل جائے جو قرآن کو بائیبل اور یہودی لٹریچر کا خوشہ چیں قرار دیتے ہیں۔ تلمود کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم کی پیدائش کے روز نجومیوں نے آسمان پر ایک علامت دیکھ کر نمرود کو مشورہ دیا تھا کہ تارح کے ہاں جو بچہ پیدا ہوا ہے اسے قتل کر دے۔ چنانچہ وہ ان کے قتل کے درپے ہوا۔ مگر تارح نے اپنے ایک غلام کا بچہ ان کے بدلے میں دے کر انہیں بچا لیا۔ اس کے بعد تارح نے اپنی بیوی اور بچے کو ایک غار میں لے جا کر چھپا دیا جہاں  ۱۰ سال تک وہ رہے۔ گیارھویں سال حضرت ابراہیم کو تارح نے حضرت نوحؑ کے پاس پہنچا دیا اور  ۳۹ سال تک وہ حضرت نوحؑ اور ان کے بیٹے سام کی تربیت میں رہے۔ اسی زمانے میں حضرت ابراہیمؑ  کی بھتیجی تھیں۔ نیز وہ دونوں کے درمیان عمر کا فرق بھی صرف  ۱۰ سال بتاتی ہے۔ پیدائش۔ باب  ۱۱۔ آیت  ۲۹۔ اور باب  ۱۷۔ آیت ۱۷ )۔ پھر تلمود کہتی ہے کہ حضرت ابراہیم پچاس سال کی عمر میں حضرت نوح کا گھر چھوڑ  کر اپنے باپ کے ہاں آ گئے۔ یہاں انہوں نے دیکھا کہ باپ بت پرست ہے اور گھر میں سال کے بارہ مہینوں کے حساب سے  ۱۲ بت رکھے ہیں۔ انہوں نے پہلے تو باپ کو سمجھانے کی کوشش کی، اور جب اس کی سمجھ میں بات نہ آئی تو ایک روز موقع پاکر اس گھریلو بت خانے کے بتوں کو توڑ ڈالا۔ تارح نے آ کر اپنے خداؤں کا یہ حال جو دیکھا تو سیدھا نمرود نے بلا کر حضرت ابراہیم سے باز پرس کی۔ انہوں نے سخت جوابات دیے۔ نمرود نے ان کو تو فوراً جیل بھیج دیا اور پھر معاملہ اپنی کونسل میں پیش کیا تاکہ صلاح مشورے سے اس مقدمے کا فیصلہ کیا جائے۔ کونسل کے ارکان نے مشورہ دیا کہ اس شخص کو آگ میں جلا دیا جائے۔ چنانچہ آگ کا ایک بڑا الاؤ تیار کرایا گیا اور حضرت ابراہیمؑ اس میں پھینک دیے گئے۔ حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ ان کے بھائی اور خسر، حاران کو بھی پھینکا  گیا، کیونکہ نمرود نے تارح سے جب پوچھا کہ تیرے اس بیٹے کو تو میں پیدائش ہی کے روز قتل کرنا چاہتا تھا، تو نے اس وقت اسے بچا کر دوسرا بچہ کیوں اس کے بدلے قتل کرایا، تو اس نے کہا کہ میں نے حاران کے کہنے سے یہ حرکت کی تھی۔ اس لیے خود اس فعل کے مرتکب کو تو چھوڑ دیا گیا اور مشورہ دینے والے کو حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ آگ میں پھینکا گیا۔ آگ میں گرتے ہی حاران فوراً جل بھن کر کوئلہ ہو گیا مگر حضرت ابراہیمؑ کو لگوں نے دیکھا کہ ’’ آسمانی خدا کے بندے،  آگ سے نکل آ اور میرے سامنے کھڑا ہو جا‘‘۔ حضرت ابراہیم باہر آ گئے۔ نمرود ان کا معتقد ہو گیا اور اس نے بہت سے قیمتی نذرانے ان کو دے کر رخصت کر دیا۔ اس کے بعد تلمود کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیمؑ دو سال تک وہاں رہے۔ پھر نمرود نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا اور اس کے نجومیوں نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ ابراہیم تیری سلطنت کی تباہی کا موجب بنے گا، اسے قتل کرا دے۔ اس نے ان کے قتل کے لیے آدمی بھیجے،  مگر حضرت ابراہیمؑ کو خود نمرود ہی کے عطا کیے ہوئے ایک غلام،  الیعزر نے قبل از وقت اس منصوبے کی اطلاع دے دی اور حضرت ابراہیمؑ نے بھاگ کر حضرت نوح کے ہاں پناہ لی۔وہاں تارح آ کر ان سے خفیہ طور پر ملتا رہا اور آخر باپ بیٹوں کی یہ صلاح ہوئی کہ ملک چھوڑ دیا جائے۔ حضرت نوح اور سام نے بھی اس تجویز کو پسند کیا۔ چنانچہ تارح اپنے بیٹے ابراہیم اور پوتے لوط اور پوتی اور بہو سارا کو لے کر اُر سے حارن چلا گیا۔ (منتخبات تلمود از ایچ پولونو، لندن۔ صفحہ ۳۰ تا  ۴۲۔ )۔ کیا اس داستان کو دیکھ کر کوئی معقول آدمی یہ تصور کر سکتا ہے کہ یہ قرآن کا ماخذ ہو سکتی ہے؟

۶۷: ’’حکم اور علم بخشنا‘‘  بالعموم قرآن مجید میں نبوت عطا کر نے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ’’حکم‘‘  سے مراد حکمت بھی ہے، صحیح قوت فیصلہ بھی،  اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سند حکمرانی (Authority ) حاصل ہونا  بھی۔ رہا ’’علم‘‘  تو اس سے مراد وہ علم  حق ہے جو وحی کے ذریعہ عطا  کیا گیا ہو۔ حضرت لوط ؑ  کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو۔ الاعراف،  آیات ۸۰ تا ۸۴۔ ھود،  آیات ۶۹ تا ۸۳۔ الحِجر،  آیات ۵۷ تا ۷۶۔

 

اور یہی نعمت ہم نے نُوحؑ کو دی۔ یاد کرو جبکہ اِن سب سے پہلے اُس نے ہمیں پکارا ۶۸ تھا۔ ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور اسے اور اس کے گھر والوں کو کَربِ عظیم ۶۹ سے نجات دی اور اُس قوم کے مقابلے میں اُس کی مدد کی جس نے ہماری آیات کو جھُٹلا دیا تھا۔ وہ بڑے بُرے لوگ تھے،  پس ہم نے ان سب کو غرق کر دیا۔اور اسی نعمت سے ہم نے داؤدؑ و سلیمانؑ  کو سرفراز کیا۔ یاد کرو وہ موقع جبکہ وہ دونوں ایک کھیت کے مقدمے میں فیصلہ کر رہے تھے جس میں رات کے وقت دُوسرے لوگوں کی بکریاں پھیل گئی تھیں، اور ہم اُن کی عدالت خود دیکھ رہے تھے۔ اُس وقت ہم نے صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا، حالانکہ حکم اور علم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیا تھا۔ ۷۰
داؤدؑ کے ساتھ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کر دیا تھا جو تسبیح کرتے تھے، ۷۱ اِس فعل کے کرنے والے ہم ہی تھے۔ اور ہم نے اُس کے تمہارے فائدے کے لیے زرہ بنانے کی صنعت سکھا دی تھی، تاکہ تم کو ایک دُوسرے کی مار سے بچائے، ۷۲ پھر کیا تم شکر گزار ہو؟ ۷۳ اور سلیمانؑ کے لیے ہم نے تیز ہوا کو مسخّر کر دیا تھا جو اس کے حکم سے اُس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں، ۷۴ ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے تھے۔ اور شیاطین میں سے ہم نے ایسے بہت سوں کو اس کا تابع بنا دیا تھا جو اس کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے سوا دُوسرے کام کرتے تھے۔ ان سب کے نگراں ہم ہی تھے۔ ۷۵ اور یہی (ہوشمندی اور حکم و علم کی نعمت)ہم نے ایوبؑ ۷۶ کو دی تھی۔ یاد کرو، جبکہ اس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ ’’ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تُو ارحم الراحمین ہے۔‘‘  ۷۷ ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور جو تکلیف اُسے تھی اس کو دُور کر دیا، ۷۸ اور صرف اس کے اہل و عیال ہی اس کو نہیں دیے بلکہ ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دیے، اپنی خاص رحمت کے طور پر، اور اس لیے کہ یہ ایک سبق ہو عبادت گزاروں کے لیے۔ ۷۹
اور یہی نعمت اسماعیلؑ اور ادریسؑ ۸۰   اور ذوالکفلؑ ۸۱ کو دی کہ یہ سب صابر لوگ تھے۔ اور ان کو  ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا کہ وہ صالحوں میں سے تھے۔ اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا۔ ۸۲ یاد کرو جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا ۸۳ اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے۔ ۸۴ آخر کو اُس نے تاریکیوں میں سے پکارا ’’ ۸۵ نہیں ہے کوئی خدا مگر تُو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قُصور کیا۔‘‘  تب ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور غم سے اس کو نجات بخشی، اور اِسی طرح ہم مومنوں کو بچا لیا کرتے ہیں۔
اور زکریاؑ کو،  جبکہ اس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ ’’ اے پروردگار،  مجھے اکیلا نہ چھوڑ، اور بہترین وارث تو تُو ہی ہے۔‘‘  پس ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے درست کر دیا۔ ۸۶ یہ  لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑ دھُوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے آگے جھُکے ہوئے تھے۔ ۸۷ اور وہ خاتون جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی۔ ۸۸ ہم نے اُس کے اندر اپنی رُوح سے پھُونکا ۸۹ اور اُسے اور اُس کے بیٹے کو دُنیا بھر کے لیے نشانی بنا دیا۔ ۹۰
یہ تمہاری اُمّت حقیقت میں ایک ہی اُمّت ہے اور میں تمہارا ربّ ہوں، پس تم میری عبادت کرو۔ مگر (یہ لوگوں کی کارستانی ہے کہ )انہوں نے آپس میں اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ۹۱۔۔۔۔ سب کو ہماری طرف پلٹنا ہے۔ ؏ ٦

 

 

۶۸: اشارہ ہے حضرت نوح ؑ  کی اُس دُعا کی طرف جو ایک مدت دراز تک اپنی قوم کی اصلاح کے لیے مسلسل کوشش کر تے رہنے کے بعد آخر کا تھک کر انہوں نے مانگی تھی کہ  اَنِّیْ مَغْلُوْ بٌ فَا نْتِصِرْ،  ’’پروردگار،  میں مغلوب ہو گیا ہوں، اب میری مدد کو پہنچ‘‘  (القمر۔ آیت ۱۰)۔ اور  رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا،  ’’پروردگار،  زمین پر ایک کافر باشندہ بھی نہ چھوڑ‘‘ (نوح۔ آیت ۲۶)۔

۶۹: کَربِ عظیم سے مراد یا تو ایک بدکردار قوم کے درمیان زندگی بسر کرنے کی مصیبت ہے،  یا پھر طوفان۔ حضرت نوح ؑ کے قصّے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو۔ الاعراف،  آیات ۵۹ تا ۶۴۔ یونس، آیات ۷۱  تا ۷۳۔ ھُود،  آیات ۲۵ تا ۴۸، بنی اسرائیل،  آیت ۳۔

۷۰: اس واقعے کا ذکر بائیبل میں نہیں ہے،  اور یہودی لٹریچر میں بھی ہمیں اس کا کوئی نشان نہیں ملا۔ مسلمان مفسرین نے اس کو جو تشریح کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص کے کھیت میں دوسرے شخص کی بکریاں رات کے وقت گھُس گئی تھیں۔ اُس نے حضرت داؤد کے ہاں ستغاثہ کیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اُس کی بکریاں چھین کر اِسے دے دی جائیں۔ حضرت سلیمان نے اس سے اختلاف کیا  اور یہ رائے دی کہ بکریاں اُن وقت تک کھیت والے پاس رہیں جب تک بکری والا اُس کے کھیت کو پھر سے تیار نہ کر دے۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ یہ فیصلہ ہم نے سلیمان ؑ کو سمجھایا تھا۔ مگر چونکہ مقدمے کی یہ تفصیل قرآن میں بیان نہیں ہوئی ہے اور نہ کسی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کی تصریح نقل ہوئی ہے،  اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس طرح کے مقدمے میں یہی ثابت شدہ اسلامی قانون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور دوسرے فقہائے اسلام کے درمیان اس امر میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ اگر کسی کا کھیت دوسرے شخص کے جانور خراب کر دیں تو کوئی تاوان عائد ہو گا یا نہیں اور عائد ہو گا تو کس صورت میں ہو گا اور کس صورت میں نہیں،  نیز یہ کہ تاوان کی شکل کیا ہو گی۔ اس سیاق و سباق میں حضرت داؤد و سلیمان کے اس خاص واقعے کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ انبیاء علیہم السّلام نبی ہونے اور اللہ کی طرف سے غیر معمولی طاقتیں اور قابلیتیں پانے کے باوجود ہوتے انسان ہی  تھے،  الوہیت کا کوئی شائبہ ان میں نہ ہوتا تھا۔ اس مقدمے میں حضرت داؤد کی رہنمائی وحی کے ذریعہ سے نہ کی گئی تھی اور وہ فیصلہ  کرنے کرنے میں غلطی کر گئے،  حضرت سلیمان کی رہنمائی کی گئی اور انہوں نے صحیح فیصلہ کیا، حالانکہ نبی دونوں ہی تھے۔ آگے ان دونوں بزرگوں کے جن کمالات کا ذکر کیا گیا ہے وہ بھی یہی بات سمجھانے کے لیے ہے کہ یہ وہی  کمالات تھے اور اس طرح کے کمالات کسی کو خدا نہیں بنا دیتے۔ ضمنًا اِس آیت سے عدالت کا یہ اصول بھی معلوم ہوا کہ اگر دو جج ایک مقدمے کا فیصلہ کریں، اور دونوں کے فیصلے مختلف ہوں،  تو اگر چہ صحیح فیصلہ ایک ہی کا ہو گا،  لیکن دونوں برحق ہوں گے، بشرطیکہ عدالت کرنے کی ضروری استعداد دونوں میں موجود ہو، ان میں سے کوئی جہالت اور نا تجربہ کاری کے ساتھ عدالت کرنے نہ بیٹھ جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی احادیث میں اس بات کو اور زیادہ کھول کر بیان فرما دیا ہے۔ بخاری میں عمر ؓ و بن العاص کی روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا   اذا ا جتھد الحاکم فاصاب فلہ اجران و اذا اجتھد فا خطأ فلہ اجرٌ۔ ’’اگر حاکم اپنی حد تک فیصلہ کرنے کی پوری کوشش کرے تو صحیح فیصلہ کرنے کی صورت میں اس کے لیے دوہرا اجر ہے اور غلط فیصلہ کرنے کی صورت میں اکہرا اجر‘‘۔ ابوداؤد اور ابن ماجہ میں بُرَیْدَہ ؓ کی روایت ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’قاضی تین قسم کے ہیں، ایک ان میں سے جنتی ہے اور دو جہنمی۔ جنتی وہ قاضی ہے جو حق کو پہچان  جائے  تو اس کے مطابق فیصلہ دے۔ مگر جو شخص حق کو پہچاننے کے باوجود خلاف حق فیصلہ دے تو وہ جہنمی ہے۔ اور اسی طرح وہ بھی جہنمی ہے جو علم کے بغیر لوگوں کے فیصلے کرنے کے لیے بیٹھ جائے۔

۷۱: مَعَ دَاؤدَ   کے الفاظ ہیں،  لِدَاؤدَ   کے الفاظ نہیں ہیں، یعنی ’’ داؤد علیہ السّلام کے لیے‘‘  نہیں بلکہ ’’ان کے ساتھ‘‘  پہاڑ اور پرندے مسخر کیے گئے تھے،  اور اس تسخیر کا حاصل یہ تھا کہ وہ بھی حضرت ممدُوح کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے تھے۔ یہی بات سورہ ص میں بیان کی گئی ہے۔ اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِا لْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ o   وَاطَّیْرَ مَحْشُوْرَۃً کُلٌّ لَّہٗ اَوَّابٌ o ’’ہم نے اس کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کر دیا تھا کہ صبح و شام تسبیح کرتے تھے، اور پرندے بھی مسخر کر دیے تھے جو اکٹھے ہو جاتے تھے، سب اس کی تسبیح کو دوہراتے ‘‘۔ سورۂ سبا میں اس کی مزید وضاحت یہ ملتی ہے  یَا جِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ  ’’پہاڑوں کو ہم نے حکم دیا کہ اس کے ساتھ تسبیح دُہراؤ اور یہی حکم پرندوں کو دیا‘‘۔ اِن ارشادات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت داؤد جب اللہ کی حمد و ثنا کے گیت گاتے تھے تو ان کی بلند اور سریلی آواز سے پہاڑ گونج اُٹھتے تھے، پرندے ٹھیر جاتے تھے اور ایک سماں بندھ جاتا تھا۔ اس معنی  کی تائید اُس حدیث سے ہوتی ہے جس میں ذکر آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعری،  جو غیر معمولی طور پر خوش آواز بزرگ تھے،  قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔ نبی  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ادھر سے گزرے  تو اُن کی آواز سُن کر کھڑے ہو گئے اور دیر تک سُنتے رہے۔ جب وہ ختم کر چکے تو آپ ؐ نے فرمایا   لقد اوتی مزمارًا من مزا میر اٰل داؤد،  یعنی اس شخص کو داؤد کی خوش آوازی کا ایک حصّہ ملا ہے۔

۷۲: سورۂ سبا میں مزید تفصیل یہ ہے :  وَاَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَ اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرْفِیْ السَّرْدِ، ’’اور ہم نے لوہے کو اس کے لیے نرم کر دیا  (اور اس کو ہدایت کی) کہ پوری پوری زرہیں بنا اور ٹھیک انداز ے سے کڑیاں جوڑ‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو لوہے کے استعمال پر قدرت عطا کی تھی،  اور خاص طور پر جنگی اغراض کے لیے زرہ سازی کا طریقہ سکھایا تھا۔ موجودہ زمانے کی تاریخی واثری تحقیقات سے ان آیات کے معنی پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں لوہے کے استعمال کا دور ( Iron - Age ) سن ۱۲۰۰ اور سن ۱۰۰۰ ق م کے درمیان شروع ہوا ہے،  اور یہی حضرت داؤد کا زمانہ ہے۔ اوّل اوّل شام اور ایشیائے کوچک کو حِتّی قوم (Hittites ) کو جس کے عروج کا زمانہ سن ۲۰۰۰ ق م سے سن ۱۲۰۰ ق م تک رہا ہے،  لوہے کے پگھلانے اور تیار کرنے کا ایک پیچیدہ طریقہ معلوم ہو ا  اور وہ  شدت کے ساتھ اس کو دنیا بھر سے راز میں رکھے رہی۔ مگر اس طریقے سے جو لوہا تیار ہوتا تھا وہ سونے چاندی کی طرح اتنا قیمتی ہوتا تھا کہ عام استعمال میں نہ آسکتا تھا۔ بعد میں فِسِتِیوں نے یہ طریقہ معلوم کر لیا، اور وہ بھی اسے راز ہی میں رکھتے رہے۔ طالوت کی بادشاہی سے پہلے حِتّیوں اور فِلِستیوں نے بنی اسرائیل کو پیہم شکستیں دے کر جس طرح فلسطین سے تقریباً بے دخل کر دیا تھا، بائیبل کے بیان کے مطابق اس کے وجوہ میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ یہ لوگ لوہے کی رتھیں استعمال کرتےتھے اور ان کے پاس دوسرے آہنی ہتھیا ر بھی تھے ( یشوع باب ۱۷۔ آیت ۱۶۔ قُضاۃ باب ۱۔ آیت ۱۹۔ باب ۴۔ آیت ۲ – ۳) سن ۱۰۲۰ ق م میں جب طالوت خدا کے حکم سے بنی اسرائیل کا فرمانروا ہوا تو اس نے پیہم شکستیں دے کر ان لوگوں سے فلسطین کا بڑا حصّہ واپس لے لیا، اور پھر حضرت داؤد (سن ۱۰۰۴ – سن ۹۶۵ ق م) نے نہ صرف فلسطین و شرق اُردُن، بلکہ شام کے بھی بڑے حصّے پر اسرائیلی سلطنت قائم کر دی۔ اس زمانہ میں آہن سازی  کا  وہ راز جو حتّیوں اور فلستیوں کے قبضے میں تھا، بے نقاب ہو گیا، اور صرف بے نقاب ہی نہ ہوا بلکہ آہن سازی کے ایسے طریقے بھی نکل آئے جن سے عام استعمال کے لیے لوہے کی سستی چیزیں تیار ہونے لگیں۔ فلسطین کے جنوب میں اَدُوم کا علاقہ خام لوہے (Iron ore ) کی دولت سے مالا مال ہے،    اور حال میں آثار ِ قدیمہ کی جو کھُدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں، ان میں بکثرت ایسی جگہوں کے آثار ملے ہیں جہاں لوہا پگھلانے کی بھٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ عَقَبہ اور اَیلَہ سے متصل حضرت سلیمان کے زمانے کی بندر گاہ عِصیُون جابر کے آثار قدیمہ میں جو بھٹی ملی ہے اس کے معائنے سے اندازہ  کیا گیا ہے کہ اس میں بعض و ہ اصول استعمال کیے جاتے تھے جو آج جدید ترین زمانے کی (Blast Furnace ) میں استعمال ہوتے ہیں۔ اب یہ ایک قدرتی بات ہے کہ حضرت داؤد نے سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اس جدید دریافت کو جنگی اغراض کے لیے استعمال کیا ہو گا، کیونکہ تھوڑی ہی مدّت پہلے آس پاس کی دُشمن قوموں نے اِسی لوہے کے ہتھیاروں سے اُن کی قوم پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تھا۔

۷۳: حضرت داؤد کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ، آیت ۲۵۱، بنی اسرائیل حاشیہ نمبر ۷ – ۶۳۔

۷۴: اس کی تفصیل سورۂ سبا میں یہ آئی ہے : وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوّھَُا شَھْرٌ وَّ رَوَ احھَُا شَھْرٌ،  ’’اور سلیمان کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کر دیا تھا، ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا صبح کو اور ایک مہینے کی راہ تک اُس کا چلنا شام کو۔‘‘  پھر اس کی مزید تفصیل سورۂ ص میں یہ آتی ہے : فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَ مْرِہٖ رُخَآ ءً حَیْثُ یَشَآءُ،  ’’پس ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا جو اس کے حکم سے بسہولت چلتی تھی جدھر وہ جانا چاہتا ‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہوا کو حضرت سلیمان کے لیے اِس طرح تابع امر کر دیا گیا تھا کہ ان کی مملکت سے ایک مہینے کی راہ تک کے مقامات کا سفر بسہولت کیا جا سکتا تھا۔ جانے میں بھی ہمیشہ اُن کی مرضی کے مطابق بادِ موافق ملتی تھی اور واپسی پر بھی۔ بائیبل اور جدید تاریخی تحقیقات سے اس مضمون پر جو روشنی پڑتی ہے  وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان نے اپنے دَور سلطنت میں بہت بڑے پیمانے پر بحری تجارت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ایک طرف عِصیون جابر سے ان کے تجارتی جہاز بحر احمر میں یمن اور دوسرے جنوبی و مشرقی ممالک کی طرف جاتے تھے، اور دوسری طرف بحرِ روم کے بندرگاہوں سے ان بیڑہ (جسے بائیبل میں ’’ترسیسی بیڑہ‘‘  کہا گیا ہے) مغربی ممالک کی طرف جایا کرتا تھا۔ عصیون جابر میں ان کے زمانے کی جو عظیم الشان بھٹی ملی ہے اس کے مقابلے میں کوئی بھٹی مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں ابھی تک نہیں ملی۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہاں اَدوم کے علاقۂ عَرَبَہ کی کانوں سے خام لوہا اور تانبا لایا جاتا تھا اور اس بھٹی میں پگھلا  کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ جہاز سازی میں استعمال  کیا جاتا تھا اور اس بھٹی میں پگھلا کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ  جہاز سازی میں بھی استعمال  کیا جاتا تھا۔ اس سے قرآن مجید کی اُس آیت کے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے جو سورۂ سبا میں حضرت سلیمان کے متعلق آئی ہے کہ   وَاَسَلْنَا لَہٗ عَیْنَ الْقِطْرِ ’’ اور ہم نے اس کے لیے پگھلی ہوئی دھات کا چشمہ بہا دیا‘‘۔ نیز اِس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بھی سمجھ آ جاتی ہے کہ حضرت سلیمان کے لیے ایک  مہینے کی راہ تک ہوا کی رفتار کو ’’مسخر‘‘ کرنے کا کیا مطلب ہے۔ اُس زمانے میں بحری سفر کا انحصار  بادِ موافق ملنے پر تھا، اور اللہ تعالیٰ کا حضرت سلیمان پر یہ کرمِ خاص تھا کہ وہ ہمیشہ اُن کے دونوں بحری بیڑوں کو ان کی  مرضی کے مطابق ملتی تھی۔ تاہم اگر ہوا پر حضرت سلیمان کو حکم چلانے کا بھی کوئی اقتدار دیا گیا ہو،  جیسا کہ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ، (اس کے حکم سے چلتی تھی) کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے،  تو یہ اللہ کی قدرت سے بعید نہیں ہے۔ وہ اپنی مملکت کا آپ مالک ہے۔ اپنے جس بندے کو جو اختیارات  چاہے دے سکتا ہے۔ جب وہ خود کسی کو کوئی اختیار دے تو ہمارا دِل دُکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔

۷۵: ۷۵۔ سورہ سَبَا میں اس کی تفصیل یہ آئی ہے : وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْہِ بِاِ ذْنِ رَبِّہٖ وَمَنْ یَّزِغُ مِنْھُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ۔ ہ۔ یَعْمَلُوْنَ لَہٗ مَا یَشَآ ءُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَ تَمَاثِیْلَ وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُوْرٍ رَّ اسِیَاتٍ .................... فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ مَا دَ لَّہُمْ عَلٰ مَوْتِہٖٓ اِلَّا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ تَاْ کَلُ مِنْسَاَتَہٗ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ کَا نُوْ ا یَعْلَمُوْ نَ الْغَیْبَ مَلَبِثُوْ ا فِی الْعَذَابِ الْمُھِیْنِ ’’ اور جنوں میں سے ایسے جن ہم نے اس کے لیے مسخر کر دیے تھے جو اس کے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے،  اور جو ہمارے حکم سے کوئی ان میں سے انحراف کر تا تو ہم اس کو بھڑکتی ہوئی آگ کا مزا چکھاتے۔ وہ اس کے لیے جیسے وہ چاہتا قصر اور مجسمے اور حوض جیسے بڑے بڑے لگن اور بھاری جمی ہوئی دیگیں بناتے تھے ......................... پھر جب ہم نے سلیمان کو وفات دے دی تو ان جنوں کو اس کی موت پر مطلع کرنے والی کوئی چیز نہ تھی مگر زمین کا کیڑا (یعنی گھن) جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا۔ پس جب وہ گر پڑا تو جنوں کو پتہ چل گیا کہ اگر وہ واقعی غیب داں ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں اتنی مدت تک مبتلا نہ رہتے ‘‘۔ اس آیت سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جو شیاطین حضرت سلیمان کے لیے مسخر ہوۓ تھے،  اور جو ان کے لیے مختلف خدمات انجام دیتے تھے،  وہ سن تھے،  اور جن بھی جن جن کے برے میں مشرکین عرب کا یہ عقیدہ تھا، اور جو خود اپنے بارے میں بھی یہ غلط فہمی رکھتے تھے کہ انکو علم غیب حاصل ہے۔ اب ہر شخص جو قرآن مجید کو آنکھیں کھول کر پڑھے،  اور اس کو اپنے تعصبات اور پیشگی قائم کیے ہوۓ نظریات کا تابع بناۓ بغیر پڑھے،  یہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جہاں قرآن مطلق ’’ شیطان ‘‘ اور ’’جن ‘‘کے الفاظ استعمال کرتا ہے وہاں اس کی مراد کونسی مخلوق ہوتی ہے،  اور قرآن کی رو سے وہ کون سے جِن ہیں جن کو مشرکین عرب عالم الغیب سمجھتے تھے۔
جدید زمانے کے مفسرین یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں کہ وہ جن اور شیاطین جو حضرت سلیمان کے لیے مسخر کیے گئے تھے،  انسان تھے اور آس پاس کی قوموں میں سے فراہم ہوۓ تھے۔ لیکن صرف یہی نہیں ہ قرآن کے الفاظ میں ان کی اس تاویل کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے،  بلکہ قرآن میں جہا ں جہاں بھی یہ قصہ آیا ہے وہاں کا سیاق و سباق اور انداز بیان اس تاویل کو راہ دینے صاف انکار کرتا ہے۔ حضرت سلیمان کے لیے عمارتیں بنانے والے اگر انسان ہی تھے تو آخر یہ ان ہی کی کونسی خصوصیت تھی جس کو اس شان سے قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ اہرام مصری سے لے کر نیویارک کی فلک شگاف عمارتوں تک کس چیز کو انسان نے نہیں بنایا ہے اور کس بادشاہ یا رئیس یا ملک التجار کے لیے وہ ’’جن‘‘ اور ’’ شیاطین‘‘ فراہم نہیں ہوۓ جو آپ حضرت سلیمان کے لیے فراہم کر رہے ہیں ؟

 

۷۶: حضرت ایوبؑ کی شخصیت،  زمانہ،  قومیت،  ہر چیز کے بارے میں اختلاف ہے۔ جدید زمانے کے محققین میں سے کوئی ان کو اسرائیلی قرار دیتا ہے،  کوئی مصری اور کوئی عرب۔ کسی کے نزدیک ان کا زمانہ حضرت موسیٰ ؑ سے پہلے کا ہے، کوئی انہیں حضرت داؤد و سلیمان کے زمانے کا آدمی قرار دیتا ہے،  اور کوئی ان سے بھی متاخر۔ لیکن سب کے قیاسات کی بنیاد اُس سِفرِ ایّوب یا صحیفۂ ایّوب پر ہے جو بائیبل کے مجموعۂ کتب مقدسہ میں شامل ہے۔ اسی کی زبان،  اندازِ بیان، اورکلام کو دیکھ کر یہ مختلف رائیں قائم کی گئی ہیں،  نہ کہ کسی اور تاریخی شہادت پر۔ اور اس سِفرِ ایّوب کا حال یہ ہے کہ اس کے اپنے مضامین میں بھی تضاد ہے اور اس کا بیان قرآن مجید کے بیان سے بھی اتنا مختلف ہے کہ دونوں کو بیک وقت نہیں مانا جا سکتا۔ لہٰذا ہم اس پر قطعاً اعتماد نہیں کر سکتے۔ زیادہ سے زیادہ قابلِ اعتماد شہادت اگر کوئی ہے تو وہ یہ ہے کہ یسعیاہ نبی اور حزقی ایل نبی کے صحیفوں میں ان کا ذکر آیا ہے، اور یہ صحیفے تاریخی حیثیت سے زیادہ مستند ہیں۔ یسعیاہ نبی آٹھویں صدی یا اس سے پہلے کے بزرگ ہیں۔ رہی ان کی قومیت تو سورۂ نساء آیت ۱۶۳ اور سورۂ انعام آیت ۸۴ میں جس طرح ان کا ذکر آیا ہے اس سے گمان تو یہی ہوتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل ہی میں سے تھے، مگر وہب بن  مُنَبِّہ کا یہ بیان بھی کچھ بعید ازقیاس نہیں ہے کہ وہ حضرت اسحاق کے بیٹے عیسُو کی نسل سے تھے۔

۷۷: دعا کا انداز کس قدر لطیف ہے۔ مختصر ترین الفاظ میں اپنی تکلیف کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے بعد بس یہ کہہ کر رہ جاتے ہیں کہ ’’تُو ارحم الراحمین ہے‘‘۔ آگے کوئی شکوہ یا شکایت  نہیں،  کوئی عرض مدّعا نہیں،  کسی چیز کا مطالبہ نہیں۔ اس طرزِ دعا میں کچھ ایسی شان نظر آتی ہے جیسے کوئی انتہائی صابر و قانع اور شریف و خوددار آدمی پے در پے فاقوں سے بے تاب ہو اور کسی نہایت کریم النفس ہستی کے سامنے بس اتنا کہہ کر رہ جائے کہ ’’میں بھوکا ہوں اور آپ فیاض ہیں‘‘،  آگے کچھ اس کی زبان سے نہ نکل سکے۔

۷۸: سورۂ ص کے چوتھے رکوع میں اس کی تفصیل یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا   اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ، ھٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِ دٌ وَّشَرَابٌ،  ’’ اپنا پاؤں مارو، یہ ٹھنڈا پانی موجود ہے نہانے کو اور پینے کو‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر پاؤں مارتے ہی اللہ نے ان کے لیے ایک قدرتی چشمہ جاری کر دیا جس کے پانی  میں یہ خاصیت تھی کہ اس سے غسل کرنے اور اس کو پینے سے ان کی بیماری دور ہو گئی۔ یہ علاج اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کو کوئی سخت جِلدی بیماری ہو گئی تھی،  اور بائیبل کا بیان بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ ان کا جسم سر سے پاؤں تک پھوڑوں سے بھر گیا تھا (ایوب،  باب ۲، آیت ۷)۔

۷۹: اس قصے میں قرآن مجید حضرت ایوب کو اِس شان سے پیش کرتا ہے کہ وہ صبر کی تصویر نظر آتے ہیں، اور پھر کہتا ہے کہ ان کی زندگی عبادت گزاروں کے لیے ایک نمونہ ہے۔ لیکن دوسری طرف بائیبل کی سِفرِ ایّوب پڑھیے تو وہاں آپ کو ایک ایسے شخص کی تصویر نظر آئے گی جو خدا کے خلاف مجسم شکایت،  اور اپنی مصیبت پر ہمہ تن فریاد بنا ہوا ہے۔ بار بار اُس کی زبان سے یہ فقرے ادا ہوتے ہیں ’’نابود ہو وہ دن جس میں میں پیدا ہوا‘‘۔ ’’میں رحم ہی میں کیوں نہ مر گیا‘‘۔ ’’میں نے پیٹ سے نکلتے ہی کیوں نہ جان دے دی‘‘۔ اور بار بار وہ خدا کے خلاف شکایتیں کرتا ہے کہ ’’ قادرِ مطلق کے تیر میرے اندر لگے ہوئے ہیں،  میری رُوح انہی کے زہر کو پی رہی ہے،  خدا کی ڈراؤنی باتیں میرے خلاف صف باندھے ہوئے ہیں‘‘۔ ’’اے بنی آدم کے ناظر، اگر میں نے گناہ کیا ہے تو تیرا کیا بگاڑتا ہوں؟ تُو  نے کیوں مجھے اپنا نشانہ بنا لیا ہے یہاں تک کہ میں اپنے آپ پر بوجھ ہوں ؟ تُو میرا گناہ کیوں نہیں معافف کرتا اور میری بدکاری کیوں نہیں دُور کر دیتا ‘‘ ؟ ’’میں خدا سے کہوں گا کہ مجھے ملزم نہ ٹھیرا، مجھے بتا کہ تُو مجھ سے کیوں جھگڑتا  ہے ؟ کیا تجھے اچھا لگتا ہے کہ اندھیر کرے اور اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیز کو حقیر جانے اور شریروں کی مشورت کو روشن کرے‘‘ ؟ اُس کے تین دوست اسے آ کر تسلی دیتے ہیں اور اس کو صبر اور تسلیم و رضا کی تلقین کرتے ہیں،  مگر وہ نہیں مانتا۔ وہ ان کی تلقین کے جواب میں پے در پے خدا پر الزام رکھے چلا جاتا ہے اور ان کے سمجھانے کے باوجود اصرار کرتا ہے کہ خدا کے اِس فعل میں کوئی حکمت و مصلحت نہیں ہے، صرف ایک ظلم  ہے جو مجھ جیسے ایک متقی و عبادت گزار آدمی پر کیا جا رہا ہے۔ وہ خدا کے اس انتظام پر سخت اعتراضات کرتا ہے کہ ایک طرف بدکار نوازے جاتے ہیں اور دوسری طرف نیکوکار ستائے جاتے ہیں۔ وہ ایک ایک کر کے اپنی نیکیاں گناتا ہے اور پھر وہ تکلیفیں بیان کرتا ہے جو ان کے بدلے میں خدا نے اس پر ڈالیں،  اور پھر کہتا ہے کہ خدا کے پاس اگر کوئی جواب ہے تو وہ مجھے بتائے کہ یہ سلوک میرے ساتھ کس قصور کی پاداش میں کیا گیا ہے۔ اس کی یہ زبان درازی اپنے خالق کے مقابلے میں اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ آخر کار اس کے دوست اس کی باتوں کا جواب دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ چپ ہوتے ہیں تو ایک چوتھا آدمی جو ان کی باتیں خاموش سُن رہا تھا بیچ میں دخل دیتا ہے اور ایوب  کو بے تحاشا اس بات پر ڈانٹتا ہے کہ ’’اس نے خدا کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو راست ٹھیرایا‘‘۔ اس کی تقریر ختم نہیں ہوتی کہ بیچ میں اللہ میاں خود بول پڑتے ہیں اور پھر ان کے اور ایوب کے درمیان خوب دوبدو بحث ہوتی ہے۔ اِس ساری داستان کو پڑھتے ہوئے کسی جگہ بھی ہم کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم اُس صبرِ مجسّم کا حال اور کلام پڑھ رہے ہیں جس کی تصویر عبادت گزاروں کے لیے سبق بنا کر قرآن نے پیش کی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کا ابتدائی حصّہ کچھ کہہ رہا ہے،  بیچ کاحصّہ کچھ،  اور آخر میں نتیجہ کچھ اور نکل آتا ہے۔ تینوں حصّوں میں کوئی مناسبت نہیں ہے۔ ابتدائی حصّہ کہتا ہے کہ ایوب ایک نہایت راستباز،  خدا ترس اور نیک شخص تھا، اور اس کے ساتھ اتنا دولت مند کہ ’’اہلِ مشرق میں وہ سب سے  بڑا آدمی تھا‘‘۔ ایک روز خدا کے ہاں اُس کے (یعنی خود اللہ میاں کے ) بیٹے حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ شیطان بھی آیا۔ خدا نے اس محفل میں اپنے بندے ایوب پر فخر کا اظہا ر کیا۔ شیطان نے کہا آپ نے جو کچھ اسے دے رکھا ہے اس کے بعد وہ شکر نہ کرے گا تو اور  کیا کرے گا۔ ذرا اس کی نعمت چھین کر دیکھیے، وہ آپ کے منہ پر آپ کی ’’تکفیر‘‘  نہ کرے تو میرا نام شیطان نہیں۔ خدا نے کہا ’’اچھا،  اس کا سب کچھ تیرے اختیار میں دیا جاتا ہے۔ البتہ اس کی ذات کو کوئی نقصان نہ پہنچائیو۔ شیطان نے جا کر ایوب کے تمام مال و دولت کا اور اس کے پورے خاندان کا صفایا کر دیا اور ایوب ہر چیز سے محروم ہو کر بالکل اکیلا رہ گیا۔ مگر ایوب کی آنکھ پر میل نہ آیا۔ اس نے خدا کو سجدہ کیا اور کہا ’’ننگا ہی میں اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا اور ننگا ہی واپس جاؤں گا۔ خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔ خداوند کا نام مبارک ہو‘‘۔ پھر ایک دن ویسی ہی محفل اللہ میاں کے ہاں جمی۔ اُن کے بیٹے بھی آئے اور شیطان بھی حاضر ہوا۔ اللہ میاں نے شیطان کو جتایا کہ دیکھ لے، ایوب کیسا راستباز آدمی ثابت ہوا۔ شیطان نے کہا،  جناب،  ذرا اس کے جسم پر مصیبت ڈال کر دیکھیے۔ وہ آپ کے منہ پر آپ کی ’’تکفیر‘‘  کرے گا۔ اللہ میاں نے فرمایا، اچھا،  جا،  اُس کو تیرے اختیار میں دیا گیا،  بس اس کی جان محفوظ رہے۔ چنانچہ شیطان واپس ہوا اور آ کر اس نے ’’ایوب کو تلوے سے چاند تک درد ناک پھوڑوں سے دُکھ دیا‘‘۔ اس کی بیوی نے اس سے کہا ’’کیا تُو اب بھی اپنی راستی پر قائم رہے گا ؟ خدا کی تکفیر کر اور مر جا‘‘۔ اس نے جواب دیا ’’تُو نادان عورتوں کی سی باتیں کرتی ہے۔ کیا ہم خدا کے ہاتھ سے سکھ پائیں اور دُکھ نہ پائیں‘‘۔ یہ ہے سِفرِ ایّوب کے پہلے اور دوسرے باب کا خلاصہ۔ لیکن اس کے بعد تیسرے باب سے ایک دوسرا ہی مضمون شروع ہوتا ہے جو بیالیسویں باب تک ایوب کی بے صبری اور خڈا کے خلاف شکایات و الزامات کی ایک مسلسل داستان ہے، اور اس سے پوری طرح یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ایوب کے بارے میں خداکا اندازہ غلط اور شیطان کا اندازہ صحیح تھا۔ پھر بیالیسویں باب میں خاتمہ اس بات پر ہوتا ہے کہ اللہ میاں سے خوب دو بدو بحث کر لینے کے بعد، صبر و شکر اور توکل کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ میاں کی ڈانٹ کھا کر،  ایوب ان سے معافی مانگ لیتا ہے اور وہ اسے قبول کر کے اس کی تکلیفیں دور کر دیتے ہیں اور جتنا کچھ پہلے اس کے پاس تھا اس سے دو چند دے دیتے ہیں۔ اس آخری حصے کو پڑھتے وقت  آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایوب اور اللہ میاں دونوں شیطان کے چیلنج کے مقابلے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں،  اورپھر محض اپنی بات رکھنے کے لیے اللہ میاں نے ڈانٹ ڈپٹ کر اسے معافی مانگنے پر مجبور کیا ہے، اور اس کے معافی مانگتے ہی اسے قبول کر لیا ہے  تا کہ شیطاب کے سامنے ان کی ہیٹی نہ ہو۔ یہ کتاب خود اپنے منہ سے بول رہی ہے کہ یہ نہ خدا کا کلام ہے،  نہ خود حضرت ایوب کا۔ بلکہ یہ حضرت ایوب کے زمانے کا بھی نہیں ہے۔ ان کے صدیوں بعد کسی شخص نے قصۂ ایوب کو بنیاد بنا کر ’’یوسف زلیخا‘‘  کی طرح ایک داستان لکھی ہے اور اس میں ایُوب،  الیفز تَیمانی، سوخی بِلدو، نعماتی ضوفر، براکیل بوزی کا بیٹا الیہو، چند کیریکٹر ہیں جن کی زبان سے نظامِ کائنات کے متعلق دراصل وہ خود اپنا فلسفہ بیان کرتا ہے۔ اس کی شاعری اور اس کے زور ِ بیان کی جس قدر جی چاہے داد دے لیجیے،  مگر کتب مقدسہ کے مجموعے میں ایک صحیفۂ آسمانی کی حیثیت سے اس کو جگہ دینے کے  کوئی معنی نہیں۔ ایوب علیہ السّلام کی سیرت سے اس کا بس اتنا ہی تعلق ہے جتنا ’’یوسف زلیخا‘‘  کا تعلق سیرت ِ یوسفی سے ہے، بلکہ شاید اُتنا بھی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کتاب کے ابتدائی اور آخری حصّے میں جو واقعات بیان کیے گئے ہیں اُن میں صحیح تاریخ کا ایک عنصر پایا جاتا ہے، اور وہ شاعر نے یا تو زبانی روایات سے لیا ہو گا  جو اس زمانے میں مشہور ہوں گی، یا پھر کسی صحیفے سے اخذ کیا ہو گا جو اب ناپید ہے۔

۸۰: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم، سورۂ مریم، حاشیہ نمبر ۳۳۔

۸۱: ذوالکفل کا لفظی ترجمہ ہے ’’صاحب ِ نصیب‘‘،  اور مراد ہے اخلاقی بزرگی اور ثواب ِ آخرت کے لحاظ سے صاحبِ نصیب، نہ کہ دنیوی فوائد و منافع کے لحاظ سے۔ یہ ان بزرگ کا نام نہیں بلکہ لقب ہے۔ قران مجید میں دو جگہ ان کا ذکر آیا ہے  اور دونوں جگہ ان کو اسی لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ نام نہیں  لیا گیا۔ مفسرین کے اقوال اس معاملہ میں بہت مضطرب ہیں کہ یہ بزرگ کون ہیں، کس ملک اور قوم سے تعلق رکھتے ہیں، اور کس زمانے میں گزرے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ حضرت زکریا کا دوسرا نام ہے (حالانکہ یہ صریحاً غلط ہے،  کیونکہ ان کا ذکر ابھی آگے آ رہا ہے)، کوئی کہتا ہے  یہ حضر ت الیاس ہیں، کوئی یوشع بن نون کا نام لیتا ہے، کوئی کہتا ہے  یہ الیسع ہیں، (حالانکہ یہ بھی غلط ہے،  سورۂ ص میں ان کا ذکر الگ کیا گیا ہے اور ذوالکفل کا الگ)، کوئی انہیں حضرت الیسع کا خلیفہ بتاتا ہے،  اور کسی کا قول ہے کہ یہ حضرت ایوب کے بیٹے تھے جو ان کے بعد نبی ہوئے اور ان کا اصلی نام بِشر تھا۔ آلوسی نے روح المعانی میں لکھا ہے کہ ’’یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ حِزقیال (حِزقِی اِیل) نبی ہیں جو بنی اسرائیل کی اسیری (سن ۵۹۷ ق م) کے زمانے میں نبوت پر سرفراز ہوئے اور نہر خابُور کے کنارے پر ایک بستی میں فرائض نبوت انجام دیتے رہے‘‘۔ ان مختلف اقوال کی موجودگی میں یقین و اعتماد کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ فی الواقع یہ کون سے نبی ہیں۔ موجودہ زمانے میں مفسرین نے اپنا میلان حِزقی ایل نبی کی طرف ظاہر کیا ہے،  لیکن ہمیں کوئی معقول دلیل ایسی نہیں ملی جس کی بنا پر یہ رائے قائم کی جا سکے۔ تاہم اگر اس کے لیے کوئی دلیل مل سکے تو یہ رائے قابلِ ترجیح ہو سکتی ہے، کیونکہ بائییبل کے صحیفۂ حزقی ایل کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الواقع وہ اس تعریف کے مستحق ہیں جو اس آیت میں کی گئی ہے،  یعنی صابر اور صالح۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو یروشلم کی آخری تباہی سے پہلے بخت نصر کے ہاتھوں گرفتار ہو چکے تھے۔ بخت نصر نے عراق میں اسرائیلی قیدیوں کی ایک نو آبادی دریائے  خابور کے کنارے قائم کر دی تھی جس کا نام تَل ابیِب تھا۔ اِسی مقام پر سن ۵۹۴ ق م میں حضرت حزقی ایل نبوت کے منصب پر سرفراز ہوئے،  جبکہ ان کی عمر ۳۰ سال تھی، اور مسلسل ۲۲ سال ایک طرف گرفتارِ بلا اسرائیلیوں کو اور دوسری طرف یروشلم کے غافل و سرشار باشندوں اور حکمرانوں کو چونکا نے کی خدمت انجام دیتے رہے۔ اس کارِ عظیم میں ان کے انہماک کا جو حال تھا اُس کا اندازہ اِس بات سے  کیا جا سکتا ہے کہ نبوت کے نویں سال اُن کی بیوی،  جنہیں وہ خود ’’منظورِ نظر‘‘  کہتے ہیں، انتقال کر جاتی ہیں، لوگ ان کی تعزیت کے لیے جمع ہوتے ہیں، اور یہ اپنا دُکھڑا چھوڑ کر اپنی مِلّت کو اُس عذاب سے ڈرانا شروع کر دیتے ہیں جو اس کے سر پر تُلا کھڑا تھا(باب ۲۴۔ آیات ۱۵ – ۲۷)۔ بائیبل کا صحیفۂ حزقی ایل  اُن صحیفوں میں سے ہے جنہیں پڑھ کر واقعی یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ الہامی کلام ہے۔

۸۲: مراد ہیں حضرت یونس ؑ۔ کہیں ان کا نام لیا گیا ہے اور کہیں ’’ذو النون‘‘  اور  ’’صاحب الحوت‘‘  یعنی  ’’مچھلی والے‘‘   کے القاب سے یاد کیا گیا ہے۔ مچھلی والا اُنہیں اس لیے نہیں کہا گیا کہ وہ مچھلیاں پکڑتے یا بیچتے تھے، بلکہ اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا تھا،  جیسا کہ سورۂ صافات آیت ۱۴۲ میں بیان ہوا ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  یونس، حواشی ۹۸ تا ۱۰۰۔ الصٰفّٰت، حواشی ۷۷ تا ۸۵۔

۸۳: یعنی وہ اپنی قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے قبل اِس کے کہ خدا کی طرف سے ہجرت کا حکم آتا اور اُن کے لیے اپنی ڈیوٹی چھوڑنا جائز ہوتا۔

۸۴: انہوں نے خیال کیا کہ اس قوم پر  تو عذاب آنے والا ہے، اب مجھے کہیں چل کر پناہ لینی چاہیے تاکہ خود بھی عذاب میں نہ گھِر جاؤں۔ یہ بات بجائے خود تو قابلِ گرفت نہ تھی مگر پیغمبر کا اذن ِ الہٰی کے بغیر ڈیوٹی سے ہٹ جانا قابلِ گرفت تھا۔

۸۵: یعنی مچھلی کے پیٹ میں سے جو خود تاریک تھا، اور اوپر سے سمندر کی تاریکیاں مزید۔

۸۶: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اوّل، آل عمران آیات نمبر ۳۷ تا ۴۱ مع حواشی۔ جلد سوم، مریم، آیات نمبر ۲ تا ۱۵ مع حواشی۔ بیوی کو درست کر دینے سے مراد ان کا بانجھ پن دُور کر دینا اور سن رسیدگی کے باوجود حمل کے قابل بنا دینا ہے۔ ’’بہترین وارث تو تُو ہی ہے‘‘،  یعنی تُو اولاد نہ بھی دے تو غم نہیں، تیری ذات پاک وارث ہونے کے لیے کافی ہے۔

۸۲: مراد ہیں حضرت یونس ؑ۔ کہیں ان کا نام لیا گیا ہے اور کہیں ’’ذو النون‘‘  اور  ’’صاحب الحوت‘‘  یعنی  ’’مچھلی والے‘‘   کے القاب سے یاد کیا گیا ہے۔ مچھلی والا اُنہیں اس لیے نہیں کہا گیا کہ وہ مچھلیاں پکڑتے یا بیچتے تھے، بلکہ اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا تھا،  جیسا کہ سورۂ صافات آیت ۱۴۲ میں بیان ہوا ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  یونس، حواشی ۹۸ تا ۱۰۰۔ الصٰفّٰت، حواشی ۷۷ تا ۸۵۔

۸۸: مراد ہیں حضرت مریم علیہا السّلام۔

۸۹: حضرت آدم علیہ السّلام کے متعلق بھی یہ فرمایا گیا  ہے کہ  اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ، فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْ ا لَہٗ سَا جِدِیْنَ، ( ص۔ آیات ۷۱ – ۷۲) ’’ میں مٹی سے ایک بشر بنا رہا ہوں،  پس (اے فرشتو) جب میں اسے پورا بنا لوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جانا‘‘۔ اور یہی بات حضرت عیسیٰ کے متعلق مختلف مقامات پر فرمائی گئی ہے۔ سورۂ نساء میں فرمایا   رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ اَلْقٰھَا اِلیٰ مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْہُ، (آیت ۱۷۱) ’’ اللہ کا رسول اور اس کا فرمان جو مریم کی طرف القا کیا گیا  اور اس کی طرف سے ایک روح‘‘۔ اور سورۂ  تحریم میں ارشاد ہوا وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا (آیت ۱۲)۔ ’’اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی پس پھونک دیا ہم نے اُس میں اپنی رُوح سے ‘‘۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی  پیشِ نظر رہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت  عیسیٰ کی پیدائش اور حضرت آدم کی پیدائش کو ایک دوسرے کے مشابہ قرار دیتا ہے،  چنانچہ سُورۂ آل عمران میں فرمایا   اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَ مَ،  خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ،  (آیت ۵۹)۔ ’’ عیسیٰ کے مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے جس کو اللہ نے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ’’ ہو جا‘‘  اور وہ ہو جاتا ہے‘‘۔ ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ معمولی طریقۂ تخلیق کے بجائے جب اللہ تعالیٰ  کسی کو براہِ راست اپنے حکم سے وجود میں لا کر زندگی بخشتا ہے تو اس کو  ’’اپنی روح سے پھونکنے‘‘  کے الفاظ سے تعبیر فرماتا ہے۔ اس رُوح کی نسبت اللہ کی طرف غالباً اس وجہ سے کی گئی ہے کہ اس کا پھونکا جانا معجزے کی غیر معمولی  شان رکھتا ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل،  النساء،  حواشی ۲۱۲ – ۲۱۳۔

۹۰: یعنی یہ دونوں ماں بیٹے خدا یا خدائی میں شریک نہ تھے بلکہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے۔ ’’نشانی‘‘  وہ کس معنی میں تھے،  اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ مریم،  حاشیہ نمبر ۲۱۔ اور سورۂ المومنون،  حاشیہ نمبر ۴۳۔

۹۱: ’’تم ‘‘  کا خطاب تمام انسانوں کی طرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے انسانو! تم سب حقیقت میں ایک ہی اُمت اور ایک ہی ملت تھے، دنیا میں جتنے نبی بھی آئے  وہ سب ایک ہی دین  لے کر آئے تھے، اور وہ اصل دین یہ تھا کہ صرف ایک اللہ ہی انسان کا ربّ ہے اور اکیلے اللہ ہی کی بندگی و پرستش کی جانی چاہیے۔ بعد میں جتنے مذاہب پیدا ہوئے  وہ اسی دین کو بگاڑ کر بنا لیے گئے۔ اُ س کی کوئی چیز کسی نے لی، اور کوئی دوسری چیز کسی  اور نے، اور پھر ہر ایک نے ایک جُز اُس کا لے کر بہت سی چیزیں اپنی طرف سے اس کے ساتھ ملا ڈالیں۔ اس طرح یہ بے شمار ملتیں وجود میں آئیں۔ اب یہ خیال کرنا کہ فلاں نبی فلاں مذہب کا بانی تھا اور فلاں نبی نے فلاں مذہب کی بنا ڈالی، اور انسانیت میں یہ مِلتوں اور مذہبوں کا تفرقہ انبیاء کا ڈالا ہوا ہے،  محض ایک غلط خیال ہے۔ محض یہ بات کہ یہ مختلف مِلّتیں اپنے آُ کو مختلف زمانوں اور مختلف ملکوں کے انبیاء کی طرف منسوب کر رہی ہیں،  اِس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ملّتوں اور مذہبوں کا یہ اختلاف انبیاء کا ڈالا ہوا ہے۔ خدا کے بھیجے ہوئے انبیاء دس مختلف مذہب نہیں بنا سکتے تھے اور نہ ایک خدا کے سوا کسی اور کی بندگی سکھا سکتے تھے۔

 

پھر جو نیک عمل کرے گا، اِس حال میں کہ وہ مومن ہو، تو اس کے کام کی ناقدری نہ ہو گی، اور اُسے ہم لکھ رہے ہیں۔ اور ممکن نہیں ہے کہ جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا ہو وہ پلٹ سک ۹۲ ے۔ یہاں تک کہ جب یاجُوج و ماجُوج کھول دیے جائیں گے اور ہر بلندی سے وہ نکل پڑیں گے اور وعدہٴِ بر حق کے پُورا ہونے کا وقت قریب آلگے گا ۹۳ تو یکایک اُن لوگوں کے دے دے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں گے جنہوں نے کُفر کیا تھا۔ کہیں گے ’’ ہائے ہماری کم بختی، ہم اِس چیز کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے، بلکہ ہم خطا کار تھے۔‘‘  ۹۴ بے شک تم اور تمہارے وہ معبُود جنہیں تم پُوجتے ہو، جہنّم کا ایندھن ہیں، وہیں تم کو جانا ہے۔ ۹۵ اگر یہ واقعی خدا ہوتے تو وہاں نہ جاتے۔ اب سب کو ہمیشہ اسی میں رہنا ہے۔ وہاں وہ  پھُنکارے ماریں گے ۹۶ اور حال یہ ہو گا کہ اس میں کان پڑی آواز نہ سُنائی دے گی۔ رہے وہ لوگ جن کے لیے ہماری طرف سے بھلائی کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہو گا، تو وہ یقیناً  اُس سے دُور رکھے جائیں گے، ۹۷ اُس کی سرسراہٹ تک نہ سُنیں گے۔ اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اپنی من بھاتی چیزوں کے درمیان رہیں گے۔ وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت اُن کو ذرا پریشان نہ کرے گا، ۹۸ اور ملائکہ بڑھ کر اُن کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ ’’ یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔‘‘
وہ دن جبکہ آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اُسی طرح ہم پھر اُس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذِمّے، اور یہ کام ہمیں بہر حال کرنا ہے۔ اور زَبُور میں ہم نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ اِس میں ایک بڑی خبر ہے عبادت گزار لوگوں کے لیے۔ ۹۹
اے محمدؐ،  ہم نے جو تم کو بھیجا ہے  تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔ ۱۰۰   اِن سے کہو ’’میرے پاس جو وحی آتی ہے وہ یہ ہے کہ تمہارا صرف ایک خدا ہے،  پھر کیا تم سرِ اطاعت جھُکاتے ہو؟‘‘  اگر ہو منہ پھیریں تو کہہ دو کہ ’’ میں نے علی الاعلان تم کو خبر دار کر دیا ہے۔ اب یہ میں نہیں جانتا کہ وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے ۱۰۱ قریب ہے  یا دُور۔ اللہ وہ باتیں بھی جانتا ہے جو بآواز ِ بلند کہی جاتی ہیں اور وہ بھی جو تم چھُپا کر کرتے ہو۔ ۱۰۲ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شاید یہ (دیر)تمہارے لیے ایک فتنہ ہے ۱۰۳ اور تمہیں ایک وقت ِ خاص تک کے لیے مزے کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔‘‘ (آخر کار) رسُولؐ نے کہا کہ ’’ اے میرے ربّ، حق کے ساتھ فیصلہ کر دے، اور لوگو، تم جو باتیں بناتے ہو اُن کے مقابلے میں ہمارا ربِّ رحمٰن ہی ہمارے لیے مدد کا سہارا ہے۔‘‘  ؏ ۷

 

۹۲: اس آیت کے تین مطلب ہیں: ایک یہ کہ جس قوم پر ایک مرتبہ عذابِ الہٰی نازل ہو چکا ہو وہ پھر کبھی نہیں اُٹھ سکتی۔ اس کی نشاۃ ثانیہ اور اس کی حیاتِ نَو ممکن نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ ہلاک ہو جانے کے بعد پھر اِس دنیا میں اُس کا پلٹنا اور اسے دوبارہ امتحان کا موقع ملنا غیر ممکن ہے۔ پھر تو اللہ کی عدالت ہی میں اُس کی پیشی ہو گی۔ تیسرے یہ ہے جس قوم کی بد کاریاں اور زیادتیاں اور ہدایت ِ حق سے پیہم رو گردانیاں اس حد تک پہنچ جاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی ہلاکت کا فیصلہ ہو جاتا ہے، اُسے پھر رجوع اور توبہ و انابت کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اُس کے لیے پھر یہ ممکن نہیں رہتا کہ ضلالت سے ہدایت کی طرف پلٹ سکے۔

۹۳: ’’یاجوج ماجوج کی تشریح سورۂ کہف حاشیہ ۶۲، ۶۹ میں کی جا چکی ہے۔ اُن کے  کھول دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا  پر اس طرح ٹُوٹ پڑیں گے جیسے کوئی شکاری درندہ یکایک پنجرے یا بندھن سے چھوڑ دیا گیا ہو۔ ’’وعدۂ حق پورا ہونے کا وقت قریب آ لگے گا‘‘  کا اشارہ صاف طور پر اِس طرف ہے کہ یاجوج ماجوج کی یہ عالمگیر یورش آخری زمانہ میں ہو گی اور اس کے بعد جلدی ہی قیامت آ جائے گے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وہ ارشاد اس معنی کو اور زیادہ کھول  دیتا ہے جو مسلم نے حُذَیفہ بن اَسِید الغِفَاری کی روایت سے نقل کیا ہے کہ ’’قیامت قائم نہ ہو گی جب تک تم اس سے پہلے دس علامتیں نہ دیکھ لو: دھُواں، دجّال، داّبتہ الارض، مغرب سے سُورج کا طلوع، عیسیٰ ابن مریم کا نزول، یاجوج و ماجوج کی یورش، اور تین بڑے خسوف (زمین کا دھنسنا یا  Landslide ) ایک مشرق میں،  دوسرا مغرب میں، اور تیسرا جزیرۃ العرب میں، پھر سب سے آخر میں یمن سے ایک سخت آگ اُٹھے گی جو لوگوں کو محشر کی طرف ہانکے گی (یعنی بس اس کے بعد قیامت آ جائے گی )۔ ایک اور حدیث میں یاجوج ماجوج کی یورش کا ذکر کر کے حضور  ؐ نے فرمایا اُس وقت قیامت اِس قدر قریب ہو گی جیسے پورے پیٹوں کی حاملہ کہ نہیں کہہ سکتے کہ کب وہ بچہ جن دے، رات کو یا دن کو (کالحا مل المتم لا یدری اھلھا متی تفجؤ ھم بولدھا لیلا اونھارًا)۔ لیکن قرآن مجید اور احادیث میں یاجوج ماجوج کے متعلق جو کچھ بیا ن کیا گیا ہے اس سے یہ مترشح نہیں ہوتا کہ یہ دونوں متحد ہوں گے اور مل کر دنیا  پر ٹُوٹ پڑیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ قیامت کے قریب زمانے میں یہ دونوں آپس ہی میں لڑجائیں اور پھر ان کی لڑائی ایک عالمگیر فساد کی موجب بن جائے۔۹۴: ’’غفلت‘‘  میں پھر ایک طرح کی معذرت پائی جاتی ہے،  اس لیے وہ اپنی غفلت کا ذکر کرنے کے بعد پھر خود ہی صاف صاف اعتراف کریں گے کہ ہم کو انبیاء نے آ کر اِس دن سے خبردار کیا تھا، لہٰذا درحقیقت ہم غافل و بے خبر نہ تھے بلکہ خطا کار تھے۔۹۵: روایات میں آیا ہے کہ  اس آیت پر عبداللہ بن الزَّ بَعری نے اعتراض کیا کہ اس طرح تو صرف ہمارے ہی معبود نہیں، مسیح اور عُزیر اور ملائکہ بھی جہنم میں جائیں گے، کیونکہ دنیا میں ان کی بھی عبادت کی جاتی ہے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، نعم،  کل من احبّ ان یعبد من دون اللہ فھو مع من عبدہٗ،   ’’ہاں،  ہر وہ شخص جس نے پسند کیا کہ اللہ کے بجائے اُس کی بندگی کی جائے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جنہوں نے اس کی بندگی کی ‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے خلقِ خدا کو خدا پرستی کی تعلیم دی تھی اور لوگ انہی کو معبود بنا بیٹھے،  یا جو غریب اِس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ دنیا میں ان کی بندگی کی جا رہی ہے اور اس فعل میں ان کی خواہش اور مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے، ان کے جہنم میں جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ وہ اس شرک کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ البتہ جنہوں نے خود معبود بننے کی کوشش کی اور جن کا خلق خدا کے اِس شرک میں واقعی دخل ہے وہ سب اپنے عابدوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے۔ اِسی طرح وہ لوگ بھی جہنم میں جائیں گے جنہوں نے اپنی اغراض کے لیے غیر اللہ کو معبود بنوایا، کیونکہ اس صورت میں مشرکین کے اصلی  معبود ہی قرار پائیں گے نہ کہ وہ جن کو اِن اَشرار نے بظاہر معبود بنوایا تھا۔ شیطان  بھی اسی ذیل میں آتا ہے، کیونکہ اُس کی تحریک پر جن ہستیوں کو معبود بنایا جاتا ہے، اصل معبود  وہ نہیں بلکہ خود شیطان ہوتا ہے جس کے امر کی اطاعت میں یہ فعل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پتھر اور لکڑی کے بُتوں اور دوسرے سامانِ پرستش کو بھی مشرکین کے ساتھ جہنم میں داخل کیا جائے گا تاکہ وہ ان پر آتشِ جہنم کے اور زیادہ بھڑکنے کا سبب بنیں اور یہ دیکھ کر انہیں مزید تکلیف ہو کہ جن سے  وہ شفاعت کی اُمیدیں لگائے بیٹھے تھے وہ اُن پر اُلٹے عذاب کی شدّت کے موجب بنے ہوئے ہیں۔ ( ابنِ ہشام- جلد دوم-صفحہ ۱۶۵، طبع جدید)۹۶: اصل میں لفظ  زَفِیْر  استعمال ہوا ہے۔ سخت گرمی،  محنت اور تکان کی حالت میں جب آدمی لمبا  سانس لے کر اس کو ایک پھُنکار کی شکل میں نکالتا ہے تو اسے عربی میں زفیر کہتے ہیں۔۹۷: اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں نیکی اور سعادت کی راہ اختیار کی۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ  پہلے ہی یہ وعدہ فرما چکا ہے کہ وہ اس کے عذاب سے محفوظ رہیں گے اور ان کو نجات دی جائے گی۔۹۸: یعنی روز ِ محشر اور خدا کے حضور پیشی کا وقت، جو عام لوگوں کے لیے انتہائی گھبراہٹ اور پریشانی کا وقت ہو گا، اس وقت  نیک لوگوں پر ایک اطمینان کی کیفیت طاری رہے گی۔ اس لیے کہ سب کچھ اُن کی توقعات کے مطابق ہو رہا ہو گا۔ ایمان و عملِ صالح کی جو پونجی لیے ہوئے وہ دنیا سے رخصت ہوئے تھے وہ اُس وقت خدا کے فضل سے اُن کی ڈھارس بندھائے گی اور خوف و حزن کے بجائے ان کے دلوں  میں اُمید پیدا کر ے گی کہ عنقریب وہ اپنی سعی کے نتائج خیر سے ہم کنار ہو نے والے ہیں۔۹۹: ’’اِس آیت کا مطلب سمجھنے میں بعض لوگوں نے سخت ٹھوکر کھائی ہے اور اس سے ایک ایسا مطلب نکال لیا ہے جو پورے قرآن  کی تردید  اور پورے نظام ِ دین کی بیخ کنی کر دیتا ہے۔ وہ آیت کا  مطلب یہ لیتے ہیں کہ دنیا کی موجودہ زندگی میں زمین کی وراثت (یعنی حکومت و فرمانروائی اور زمین کے وسائل پر تصرف) صرف صالحین کو ملا کرتی ہے اور انہی کو اللہ تعالیٰ اس نعمت سے نوازتا ہے۔ پھر اس قاعدۂ کلیہ سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ صالح اور غیر صالح کے فرق و امتیاز کا معیار یہی وراثت ِ زمین ہے، جس کو یہ وراثت ملے وہ صالح ہے اور جس کو نہ ملے وہ غیر صالح۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھ کر  اُن قوموں پر نگاہ ڈالتے ہیں  جو دُنیا میں پہلےوارثِ زمین رہی ہیں اور آج اس وراثت کی مالک بنی ہوئی ہیں۔ یہاں وہ دیکھتے ہیں کہ کافر، مشرک، دہریے، فاسق،  فاجر، سب یہ وراثت پہلے بھی پاتے رہے ہیں اور آج بھی پا رہے ہیں۔ جن قوموں میں وہ تمام اوصاف پائے گئے ہیں اور آج پائے جاتے ہیں جنہیں قرآن صاف الفاظ میں کفر، فسق،  فجور، معصیت اور بدی سے تعبیر کرتا ہے، وہ اس وراثت سے محروم نہیں ہوئیں بلکہ نوازی گئیں اور آج بھی نوازی گئیں اور آج بھی نوازی جا رہی ہیں۔ فرعون و نمرود سے لے کر اس زمانے کے کمیونسٹ فرمانرواؤں تک کتنے ہی ہیں جو کھلم کھلا  خدا کے منکر،  مخالف،  بلکہ مدِّ مقابل بنے ہیں اور پھر بھی وارثِ زمین ہوئے ہیں۔ اِس منظر کو دیکھ کر وہ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ قرآن کا بیان کر دہ قاعدۂ کلیہ تو غلط نہیں ہو سکتا، اب لامحالہ غلطی جو کچھ ہے وہ ’’صالح‘‘     کے مفہوم میں ہے جو اب تک مسلمان سمجھتے رہے ہیں۔ چنانچہ وہ صلاح کا ایک نیا تصوّر تلاش کرتے ہیں جس کے مطابق زمین کے وارث ہونے والے سب لوگ یکساں ’’صالح‘‘  قرار پا سکیں،  قطع نظر اس سے کہ وہ ابو بکر صدیق اور عمر فاروق ہوں یا چنگیز اور ہلاکو۔ اس نئے تصوّر  کی تلاش میں ڈارو ن کا نظریۂ  ارتقاء ان کی رہنمائی کرتا ہے اور وہ قرآن کے تصوّرِ ’’اصلاح‘‘  کوڈار دینی تصوّرِ ’’صلاحیت‘‘  (Fitness ) سے لے جا کر ملا دیتے ہیں۔ اس نئی تفسیر کی رو سے آیت زیرِ بحث کے معنی یہ قرار پاتے ہیں کہ جو شخص اور گروہ بھی ممالک کو فتح کرنے اور اُن پر زورو قوت کے ساتھ اپنی حکومت چلانے اور زمین کے وسائل کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کی قابلیت رکھتا ہو وہی ’’خدا کا صالح بندہ‘‘  ہے اور اس کا یہ فعل تمام ’’عابد‘‘  انسانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ ’’عبادت‘‘  اِس چیز کا نام ہے جو یہ شخص اور گروہ کر رہا ہے،  اگر یہ عبادت تم نہیں کرتے اور نتیجہ میں وراثتِ زمین سے محرُوم رہ جاتے ہو تو نہ تمہارا شمار صالحین میں ہو سکتا ہے اور نہ تم کو خدا کا عبادت گزار بندہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ معنی اختیار کرنے کے بعد ان حضرات کے سامنے یہ سوال آیا کہااگر ’’صلاح‘‘  اور ’’عبادت‘‘  کا تصوّر یہ ہے  تو پھر وہ ایمان (ایمان  باللہ،  ایمان بالیوم الآخر، ایمان بالرُّسل اور ایمان بالکُتُب) کیا ہے جس کے بغیر، خود اِسی قرآن کی رُو سے،   خدا کے ہاں کوئی عملِ صالح مقبول نہیں ؟ اور پھر قرآن کی اِس دعوت کے کیا معنی ہیں کہ اُس نظامِ اخلاق اور قانون ِ زندگی کی پیروی کرو جو خدا نے اپنے رسول کے ذریعہ بھیجا ہے؟  اور پھر قرآن کا بار بار یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ جو رسول کو نہ مانے اور خدا کے نازل کردہ احکام کا اتباع نہ کرے وہ کافر، فاسق،  عذاب کا مستحق اور مغضُوب ِ بارگاہِ خداوندی ہے؟ یہ سوالات ایسے تھے کہ اگر یہ لوگ ان پر ایمانداری کے ساتھ غور کرتے تو محسوس کر لیتے کہ ان سے اس آیت کا مطلب سمجھنے اور صلاح کا ایک نیا تصور قائم کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔ لیکن انہوں نے اپنی غلطی محسوس کرنے کے بجائے پوری جسارت کے ساتھ ایمان، اسلام،  توحید،  آخرت،  رسالت،  ہرچیز کے معنی بدل ڈالے تاکہ وہ سب اُن کی اِس ایک آیت کی تفسیر کے مطابق ہو جائیں۔ اور اس ایک چیز کو ٹھیک بٹھانے کی خاطر انہوں نے قرآن کی ساری تعلیمات کو اُلٹ پلٹ کر ڈالا۔ اس پر لطیفہ یہ ہے کہ جو لوگ ان کی اس مرمّتِ دین سے اختلاف کرتے ہیں اُن کو  یہ اُلٹا الزام دیتے ہیں کہ ’’خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں‘‘۔ یہ دراصل مادّی ترقی کی خواہش کا ہیضہ ہے جو بعض لوگوں کو اس بُری طرح لاحق ہو گیا ہے کہ وہ قرآن کی معنوی تحریف کرنے میں بھی تامل نہیں کرتے۔ ان کی اس تفسیر میں پہلی بنیادی غلطی یہ ہے کہ یہ لوگ ایک آیت کی ایسی تفسیر کرتے ہیں جو قرآن کی مجموعی تعلیمات کی خلاف پڑتی ہے، حالانکہ اصولًا قرآن کی  ہر آیت کی وہی تفسیر صحیح ہو سکتی ہے جو اس کے دوسرے بیانات اور اس کے مجموعی نظامِ فکر سے مطابقت رکھتی ہو۔ کوئی شخص جس نے کبھی قرآن کو ایک دفعہ بھی سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کی ہے،  اس بات سے ناواقف نہیں رہ سکتا کہ قرآن جس چیز کو نیکی اور تقویٰ اور بھلائی کہتا ہے وہ ’’مادّی ترقی اور حکمرانی کی صلاحیت‘‘  کی ہم معنی نہیں ہے، اور ’’صالح ‘‘  کو اگر ’’صاحبِ صلاحیت‘‘  کے معنی میں لے لیا جائے تو یہ ایک آیت پورے قرآن سے ٹکڑا جاتی ہے۔ دوسرا سبب، جو اس غلطی کا موجب ہوا ہے،  یہ ہے کہ یہ لوگ ایک آیت کو اس کے سیاق و سباق سے الگ کر کے بے تکلّف جو معنی چاہتے ہیں اس کے الفاظ سے نکال لیتے ہیں،  حالانکہ ہر آیت کے صحیح معنی صرف وہی ہو سکتے ہیں جو سیاق و سباق سے مناسبت رکھتے ہوں۔ اگر یہ غلطی نہ کی جاتی تو آسانی کے ساتھ دیکھا جا سکتا تھا کہ اوپر  سے جو مضمون مسلسل چلا آرہا ہے وہ عالمِ آخرت میں مومنین صالحین اور کفار و مشرکین کے انجام سے بحث کرتا ہے۔ اس مضمون میں یکایک اس مضمون کے بیان کرنے کا آخر کونسا موقع تھا کہ دنیا میں وراثت زمین کا انتظام کس قاعدے پر ہو رہا  ہے۔ تفسیر کے صحیح اصولوں کو ملحوظ رکھ کر دیکھا جائے تو آیت کا مطلب صاف ہے کہ دوسری تخلیق میں،  جس کا ذکر اس سے پہلے  کی آیت  میں ہوا ہے،  زمین کے وارث صرف صالح لوگ ہوں گے اور اُس ابدی زندگی کے نظام میں موجودہ عارضی نظامِ زندگی کی سی کیفیت برقرار نہ رہے گی کہ زمین پر فاسقوں اور ظالموں کو بھی تسلط حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ مضمون سورۂ مومنون آیات ۱۰ – ۱۱ میں بھی ارشاد ہوا ہے اور اس سے زیادہ صریح الفاظ میں سورۂ زُمَر کے خاتمہ پر بیان کیا گیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ قیامت اور نفخِ صورِ اوّل و ثانی کا ذکر کرنے کے بعد اپنی عدالت کا ذکر فرماتا ہے،  پھر کفر کا انجام بیان کر کے نیک لوگوں کا انجام یہ بتاتا ہے کہ  وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْ ا رَبَّہُمْ اِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًا ط حتیٰ اِذَا جَآ ءُ وْ ھَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابھَُا وَقَالَ لَھُمْ خَزَنَتھَُا سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَا دْخُلُوْ ھَا خٰلِدِیْنَ o وَقَالُوْ ا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ  وَاَوْرَ ثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّ اُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآ ءُ ج فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ o ’’اور جن لوگوں نے اپنے رب کے خوف سے تقویٰ اختیار کیا تھا وہ جنت کی طرف گروہ در گروہ  لے جائے جائیں گے  یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور ان کے منتظم ان سے کہیں گے کہ سلام ہو تم کو، تم بہت اچھے رہے،  آؤ اب اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے داخل ہو جاؤ۔ اور  وہ کہیں گے کہ حمد ہے اُس خدا کی جس نے ہم سے اپنا  وعدہ پورا کیا اور ہم کو زمین  کا وارث   کر دیا، اب ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے ‘‘۔ دیکھیے، یہ دونوں آیتیں ایک ہی مضمون بیان کر رہی ہیں،  اور دونوں جگہ وراثتِ زمین کا تعلق عالمِ آخرت سے ہے نہ کہ اس دنیا سے۔ اب زَبُور کو لیجیے جس کا حوالہ آیت زیرِ بحث میں دیا گیا ہے۔ اگرچہ ہمارے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ بائیبل کے مجموعۂ کتب مقدسہ میں زبور کے نام سے جو کتاب اِس وقت پائی جاتی ہے  یہ اپنی اصلی غیر محَرّف صورت میں ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس میں مزامیر داوٗ د  کے علاوہ دوسرے لوگوں کے مزامیر بھی خلط ملط ہو گئے ہیں اور اصلی زبور کا نسخہ کہیں موجود نہیں ہے۔ تاہم جو زبور اس وقت موجود ہے اس میں بھی نیکی اور راستبازی اور توکّل کی نصیحت کے بعد ارشاد ہوتا ہے: ’’کیونکہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے لیکن جن کو خداوند کی آس ہے ملک کے وارث ہوں گے۔ کیونکہ تھوڑی دیر میں شریر نابود ہو جائے گا، تُو اُس کی جگہ کو غور سے دیکھے گا پر وہ نہ  ہو گا، لیکن حلیم ملک کے وارث ہوں گے اور سلامتی کی فراوانی سے شادماں رہیں گے۔۔۔۔۔۔ ان کی میراث ہمیشہ کے لیے ہو گی۔۔۔۔۔۔ صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے ‘‘  (۳۷ داؤد کا مزمور۔ آیات ۹ – ۱۰ – ۱۱ – ۱۸ – ۲۹)۔ دیکھیے، یہاں راستباز لوگوں کے لیے زمین کی دائمی وراثت کا ذکر ہے، اور ظاہر ہے کہ آسمانی کتابوں کی رو سے خلود اور ابدی زندگی کا تعلق آخرت سے ہے نہ کہ اِس دنیا کی  زندگی سے۔ دنیا میں زمین کی عارضی وراثت جس قاعدے پر تقسیم ہوتی ہے اسے سورۂ اعراف میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ یُوْرِثھَُا مَنْ یَّشَآ ءُ مِنْ عَبَادِ ہٖ۔ (آیت ۱۲۸) ’’زمین اللہ کی ہے،  اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے‘‘۔ مشیت الہٰی کے تحت یہ وراثت مومن  اور کافر،  صالح اور فاسق،  فرماں بردار اور نافرمان،  سب کو ملتی ہے،  مگر جزائے اعمال کے طور پر نہیں بلکہ امتحان کے طور پر،  جیسا کہ اِسی آیت  کے بعد دوسری آیت میں فرمایا وَ یَسْتَخْلِفَنَّکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْلَمُوْنَ o (آیت ۱۲۹) ’’اور وہ تم کو زمین میں خلیفہ بنائے گا  پھر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔ اس وراثت میں دوام اور ہمیشگی نہیں ہے۔ یہ مستقل اور دائمی بندوبست نہیں ہے۔ یہ محض ایک امتحان کا موقع ہے جو خدا کے ایک ضابطے کے مطابق دنیا میں مختلف قوموں کو باری باری دیا جاتا ہے۔ اِس کے برعکس آخرت میں اِسی زمین کا دوامی بندوبست ہو گا، اور قرآن کے متعدّد واضح ارشادات کی روشنی میں وہ اِس قاعدے پر ہو گا کہ ’’زمین اللہ کی ہے اور وہ اپنے بندوں میں سے  صرف مومنینِ صالحین کو اس کا وارث بنائے گا،  امتحان کے طور پر نہیں،  بلکہ اُس نیک رویّے کی ابدی جزاء کے طور پر جو انہوں نے دنیا میں اختیار کیا‘‘۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  النور، حاشیہ نمبر ۸۳)۔

۱۰۰: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ ہم نے تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے ‘‘۔ دونوں صورتوں میں مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت دراصل نوع انسانی کے لیے خدا کی رحمت اور مہربانی ہے،  کیونکہ آپ نے آ کر غفلت میں پڑی ہوئی دنیا کو چونکا یا ہے، اور اسے وہ علم دیا ہے جو حق اور باطل کا فرق واضح کرتا ہے،  اور اس کو بالکل غیر مشتبہ طریقہ سے بتا دیا ہے کہ اس کے لیے تباہی کی راہ کونسی ہے اور سلامتی کی راہ کونسی۔ کفارِ مکّہ حضور ؐ  کی بعثت کو اپنے لیے زحمت اور مصیبت سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس شخص نے ہماری قوم میں پھُوٹ ڈال دی ہے، ناخُن سے گوشت جدا کر  کے رکھ دیا ہے۔ اس پر فرمایا  گیا کہ نادانو، تم جسے زحمت سمجھ رہے ہو یہ درحقیقت  تمہارے لیے  خدا کی رحمت ہے۔

۱۰۱: یعنی خدا کی پکڑ جو دعوتِ رسالت کو رد کر دینے کی صورت میں آئے گی، خواہ کسی نوعیت کے عذاب کی شکل میں آئے۔

۱۰۲: اشارہ  ہے اُن مخالفانہ باتوں اور سازشوں اور سرگوشیوں کی طرف جن کا آغاز ِ سورہ میں ذکر کیا گیا تھا۔ وہاں بھی رسول کی زبان سے اِن کا یہی جواب دلوایا گیا تھا کہ جو باتیں تم بنا رہے ہو وہ سب خدا سُن رہا ہے اور جانتا ہے۔ یعنی اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ یہ ہوا میں اُڑ گئیں اور کبھی ان کی باز پرس نہ ہو گی۔

۱۰۳: یعنی تم اس تاخیر کی وجہ سے فتنے میں پڑ گئے ہو۔ تاخیر تو اس لیے کی جا رہی ہے کہ تمہیں سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دی جائے اور جلد بازی کر کے فوراً ہی نہ  پکڑ لیا جائے۔ مگر تم اِس سے اِس غلط فہمی میں پڑ گئے ہو کہ نبی کی سب باتیں جھوٹی ہیں ورنہ اگر یہ سچا نبی ہوتا اور خدا ہی کی طرف سے آیا ہوتا تو اس کو جھٹلا دینے کے بعد ہم کبھی کے  دھر لیے گئے ہوتے۔