تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ السَّجدَة

نام

آیت ۱۵ میں سجدہ کا جو مضمون آیا ہے اسی کو سورہ کا عنوان قرار دیا گیا ہے۔  

زمانۂ نزول

انداز بیاں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانۂ نزول مکّہ ک دَور متوسّط ہے،  اور اس کا بھی ابتدائی زمانہ، کیوں کہ اس کلام کے پس منظر میں ظلم و ستم کی وہ شدّت نظر نہیں آتی جو بعد کے ادوار کی سورتوں کے پیچھے نظر آتی ہے۔  

موضوع اور مباحث

سُورہ کا موضوع توحید آخرت اور رسالت کے متعلق لوگوں کے شبہات کو رفع کرنا اور ان تینوں حقیقتوں پر ایمان کی دعوت دینا ہے۔  کفارِ مکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق آپس میں چرچے کر رہے تھے کہ یہ شخص عجیب عجیب باتیں گھڑ گھڑ کر سُنا رہا ہے۔  کبھی مرنے کے بعد کی خبریں دیتا ہے اور کہتا ہے مٹی میں رَل مِل جانے کے بعد تم پھر اُٹھائے جاؤ گے اور حساب کتاب ہو گا اور دوزخ ہو گی اور جنت ہو گی کبھی کہتا ہے کہ یہ دیوی دیوتا اور بزرگ کوئی چیز نہیں ہیں،  بس اکیلا ایک خدا ہی معبُود ہے۔  کبھی کہتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں،  آسمان سے مجھ پر وحی آتی ہے اور یہ کلام جو میں تم کو سنا رہا ہوں،  میرا کلام نہیں بلکہ خدا کا کلام ہے۔  یہ عجیب افسانے ہیں جو یہ شخص ہمیں سُنا رہا ہے۔۔ انہی باتوں کا جواب اس سورہ کا موضوع بحث ہے۔  

اِس جواب میں کفّار سے کہا گیا ہے کہ بلا شک و ریب یہ خدا ہی کا کلام ہے اور اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ نبوّت کے فیض سے محروم، غفلت میں پڑی ہوئی ایک قوم کو چونکایا جائے۔ اِسے تم اِفتراء کیسے کہہ سکتے ہو جب کہ اس کا منزَّل من اللہ ہونا ظاہر و باہر ہے۔  

پھر ان سے فرمایا گیا ہے کہ یہ قرآن جن حقیقتوں کو تمہارے سامنے پیش کرتا ہے،  عقل سے کام لے کر خود سوچو کہ ان میں کیا چیز اچنبھے کی ہے۔ آسمان و زمین کے انتظام کو دیکھو، خود اپنی پیدائش اور بناوٹ پر غور کرو، کیا یہ سب کچھ اُس تعلیم کی صداقت پر شاہد نہیں ہے او اس نبی کی زبان سے اِس قرآن میں تم کو دی جا رہی ہے ؟ یہ نظام کائنات توحید پر دلالت کر رہا ہے یا شرک پر؟ اور اس سارے نظام کو دیکھ کر اور خود اپنی پیدائش پر نگاہ ڈال کر کیا تمہاری عقل یہی گواہی دیتی ہے کہ جس نے اب  تمہیں پیدا کر رکھا ہے وہ پھر تمہیں پیدا نہ کر سکے گا ؟

پھر عالمِ آخرت کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور ایمان کے ثمرات ا ور کفر کے نتائج و عواقب بیان کر کے یہ ترغیب دلائی گئی ہے کہ لوگ بُرا انجام سامنے آنے سے پہلے کفر چھوڑ دیں اور قرآن کی اس تعلیم کو قبول کر لیں جسے مان کر خود ان کی اپنی ہی عاقبت درست ہو گی۔

پھر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ وہ انسان کے قصوروں پر یکایک آخری اور فیصلہ کُن عذاب میں اسے نہیں پکڑ لیتا بلکہ اُس سے پہلے چھوٹی چھوٹی تکلیفیں مصیبتیں،  آفات اور نقصانات بھیجتا رہتا ہے۔  ہلکی ہلکی چوٹیں لگاتا رہتا ہے،  تاکہ اُسے تنبیہ ہو اور اس کی آنکھیں کھل جائیں۔  آدمی اگر ان ابتدائی چوٹوں ہی سے ہوش میں آ جائے تو اس کے حق میں بہتر ہے۔

 پھر فرمایا کہ دُنیا میں یہ کوئی پہلا اور انوکھا واقعہ تو نہیں ہے کہ ایک شخص پر خدا کی طرف سے کتاب آئی ہو۔  اس سے پہلے آخر موسیٰ (علیہ السلام ) پر بھی کتاب آئی تھی جسے تم سب لو گ جانتے ہو۔ یہ آخر کونسی ایسی بات ہے کہ اس پر تم لوگ یوں کان کھڑے کر رہے ہو یقین مانو کہ یہ کتاب خدا ہی کی طرف سے آئی ہے اور خوب سمجھ لو کہ اب پھر وہی کچھ ہو گا جو موسیٰ کے عہد میں ہو چکا ہے۔  امامت و پیشوائی اب انہی کو نصیب ہو گی جو اس کتابِ الہٰی کو مان لیں گے۔  اسے رد کر دینے والوں کے لیے ناکامی مقدر ہو چکی ہے۔  

پھر کفّارِ مکّہ سے کہا گیا ہے کہ اپنے تجارتی سفروں  کے دَوران میں تم جن پچھلی  تباہ شدہ قوموں کی بستیوں پر سے گزرتے ہو ان کا انجام دیکھ لو،  کیا یہی انجام تم اپنے لیے پسند کرتے ہو؟ ظاہر سے دھوکہ نہ کھاؤ۔ آج تم دیکھ رہے ہو کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم)کی بات چند لڑکوں اور چند غلاموں اور غریب لوگوں کے سوا کوئی نہیں سُن رہا ہے اور ہر طرف سے ان پر طعن اور ملامت اور پھبتیوں کی بارش ہو رہی ہے۔  اس سے تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ یہ چلنے والی بات نہیں ہے،  چار دن چلے گی اور پھر ختم ہو جائے  گی۔ لیکن یہ تمہاری نظر کا دھوکا ہے،  کیا یہ تمہارا رات دن کا مشاہدہ نہیں ہے کہ آج ایک زمین بالکل بے آب و گیاہ پڑی ہے جسے دیکھ کر گمان تک نہیں ہو تا کہ اس کے پیٹ میں روئیدگی کے خزانے چھپے ہوئے ہیں،  مگر کل ایک ہی بارش میں وہ اس طرح بھَبک اُٹھتی ہے کہ اس کے چپّے چپّے  سے جو کی طاقتیں پھوٹنی شروع ہو جاتی ہیں۔

 خاتمۂ کلام پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ تمہاری باتیں سُن کر مذاق اُڑاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ حضرت، یہ فیصلہ کُن فتح آپ کو کب نصیب ہونے والی ہے،  ذرا تاریخ تو ارشاد ہو۔ ان سے کہو کہ جب ہمارے اور تمہارے فیصلے کا وقت آ جائے گا اس وقت ماننا تمہارے لیے کچھ بھی مفید نہ ہو گا۔ ماننا ہے تو اب مان لو، اور آخری فیصلے ہی کا انتظار کرنا ہے تو بیٹھے انتظار کرتے رہو۔      

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

ا ل م۔  اِس کتاب کی تنزیل بِلا شبہ ربّ العالمین کی طرف سے ہے۔ (۱) (۲)کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اِس خود گھڑ لیا ہے ؟ (۳) نہیں بلکہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے (۴) تاکہ تو متنبّہ کرے ایسی قوم کو جس کے پاس تجھ سے پہلے کوئی متنبّہ کرنے والا نہیں آیا، شاید کہ وہ ہدایت پا جائیں (۵) وہ(۶) اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور اُن ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ دِنوں میں پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا(۷)، اُس کے سوا نہ تمہارا کوئی حامی و مدد گار ہے اور نہ کوئی اس کے آگے سفارش کرنے والا،  پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟(۸)،  وہ آسمان سے زمین تک دُنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد اُوپر اُس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار سے ایک ہزار سال ہے (۹)  وہی ہے ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا(۱۰)،   زبردست (۱۱)،  اور رحیم(۱۲) جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی (۱۳)
 اُس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی، پھر اُس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے (۱۴)، پھر اسے نِک سُک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی(۱۶)،  اور تم کو کان دیے،  آنکھیں دیں اور دِل دیے (۱۷)۔ تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو (۱۸)
(۱۹)اور یہ لوگ کہتے ہیں ’’ جب ہم مٹی میں رَل مِل چکے ہوں گے تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے ‘‘؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں (۲۰) اِن سے کہو ’’ موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تم کو پُورا کا پُورا اپنے قبضے میں لے لے گا اور پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹا لائے جاؤ گے (۲۱) ع

 

(۱) قرآن مجید کی متعدّد سُورتیں اس طرح کے کسی نہ کسی تعارفی فقرہ سے شروع ہوتی ہیں جس سے مقصود آغاز کلام ہی میں یہ بتانا ہوتا ہے کہ یہ کلام کہاں سے آ رہا ہے۔  یہ بظاہر اُسی طرز کا ایک تمہیدی فقرہ ہے جیسے ریڈیو پر اعلا ن کرنے والا پروگرام کے آغاز میں کہتا ہے کہ ہم فلاں اسٹیشن سے بول رہے ہیں۔  لیکن ریڈیو کے اس معمولی سے اعلان کے برعکس قرآن مجید کی کسی سورت کا آغاز جب اس غیر معمولی اعلان سے ہوتا ہے کہ یہ پیغام فرمانروائے کائنات کی طرف سے آ رہا ہے تو یہ محض مصدر کلام کا بیان ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ اس میں ایک بہت بڑا دعویٰ،  ایک عظیم چیلنج اور ایک سخت اِنذار بھی شامل ہوتا ہے۔ اس لئے کہ وہ چھوٹتے ہی اِتنی بڑی خبر دیتا ہے کہ یہ ا نسانی کلام نہیں ہے،  خدا وندِ عالم کا کلام ہے۔ یہ اعلان فوراً ہی یہ بھاری سوال آدمی کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے کہ اس دعوے کو تسلیم کروں یا نہ کروں۔  تسلیم کرتا ہو ں تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے آگے سرِ اطاعت جھکا دینا ہو گا، پھر میرے لیے اس کے مقابلہ میں کوئی آزادی باقی نہیں رہ سکتی۔  تسلیم نہیں کرتا تو لا محالہ یہ خطرۂ عظیم مول لیتا ہوں کہ اگر واقعی یہ خداوندِ عالَم کا کلام ہے تو اسے رد کرنے کا نتیجہ مجھ کو ابدی شقاوت و بد بختی کی صورت میں دیکھنا پڑے گا۔ اِس بِنا پر یہ تمہیدی فقرہ مجرد اپنی اس غیر معمولی نوعیت ہی کی بنا پر آدمی کو مجبور کر دیتا ہے کہ چوکنّا ہو کر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اِس کلام کو سنے اور یہ فیصلہ کرے کہ اس کو کلامِ الہٰی ہونے کی حیثیت سے تسلیم کرنا ہے یا نہیں۔

 یہاں صرف اتنی بات کہنے پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے کہ یہ کتاب ربّ العالمین کی طرف سے نازل ہوئی ہے،  بلکہ مزید براں پورے زور کے ساتھ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ،    بیشک یہ خدا کی کتاب ہے،  اس کے مَنَزَّل مِنَ اللہ  ہونے میں قطعاً کسی شک کی گنجائش نہیں ہے اس تاکیدی فقرے کو اگر نزولِ قرآن کے واقعاتی پس منظر اور خود قرآن کے اپنے سیاق میں دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے اندر دعوے کے ساتھ دلیل بھی مضمر ہے،  اور یہ دلیل مکّہ معظّمہ کے اُن باشندوں سے پوشیدہ نہ تھی جن کے سامنے یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا۔  اس کتاب کے پیش کرنے والے کی پوری زندگی اُن کے سامنے تھی،  کتاب پیش کرنے سے پہلے کی بھی اور اس کے بعد کی بھی۔  وہ جانتے تھے کہ جو شخص اس دعوے کے ساتھ یہ کتاب پیش کر رہا ہے وہ ہماری قوم کا سب سے زیادہ راستباز، سنجیدہ اور پاک سیرت ہے۔  وہ یہ بھی جانتے تھے کہ دعوائے نبوّت سے ایک دن پہلے تک بھی کسی نے اُس سے وہ باتیں کبھی نہ سُنی تھیں جو نبوّت کے بعد یکایک اُس نے بیان کرنی شروع کر دیں۔  وہ اس کتاب کی زبان اور طرز بیان میں اور خود محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان اور طرز بیان میں نمایاں فرق پاتے تھے اور اس بات کو ہدائتہً جانتے تھے کہ ایک ہی شخص کے دو اسٹائل اتنے صریح فرق کے ساتھ نہیں ہو سکتے۔  وہ اس کتاب کے انتہائی معجزانہ ادب کو بھی دیکھ رہے اور اہل زبان کی حیثیت سے خود جانتے تھے کہ ان کے سارے ادیب اور شاعر اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہیں۔  وہ اس سے بھی واقف نہ تھے کہ ان کی قوم کے شاعروں،  کاہنوں اور خطیبوں کے کلام میں اور اس کلام میں کتنا عظیم فرق ہے اور جو پاکیزہ مضامین اس کلام میں بیان کئے جا رہے ہیں وہ کتنے بلند پایہ ہیں۔  انہیں اس کتاب میں، اور اس کے پیش کرنے والے کی دعوت میں کہیں دور دور بھی اُس خود غرضی کا ادنیٰ شائبہ تک نظر نہیں آتا جس سے کسی جھوٹے مدّعی کاکام اور کلام کبھی خالی نہیں ہو سکتا۔ وہ خوردبین لگا کر بھی اس امر کی نشا ن دہی نہیں کر سکتے تھے کہ نبوّت کا یہ دعویٰ کر کے محمد صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ذات کے لئے یا اپنے خاندان کے لئے یا اپنی قوم کے لئے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کام میں ان کی اپنی کیا غرض پوشیدہ ہے۔  پھر وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ اس دعوت کی طرف ان کی قوم کے کیسے لوگ کھِنچ رہے ہیں اور اس سے وابستہ ہو کر ان کی زندگیوں میں  کتنا بڑا انقلاب واقع ہو رہا ہے۔  یہ ساری باتیں مل جل کر خود دلیل دعویٰ بنی ہوئی تھیں اِسی لئے اس پس منظر میں یہ کہنا بالکل کافی تھا کہ اس کتاب کا ربّ العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونا ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے۔  اس پر کسی دلیل کے اضافے کی کوئی حاجت نہ تھی۔  

 (۲) اوپر کے تمہیدی فقرے کے بعد مشرکینِ مکہ کے پہلے اعتراض کو لیا جا رہا ہے جو وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر کرتے تھے۔

 (۳)یہ محض سوال و استفہام نہیں ہے بلکہ اس میں سخت تعجب کا انداز پایا جاتا ہے۔  مطلب یہ ہے کہ اُن ساری باتوں کے باوجود،  جن کی بنا پر اس کتاب کا مُنزَّل من اللہ ہونا ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے،  کیا یہ لوگ ایسی صریح ہٹ دھرمی کی بات کہہ رہے ہیں کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) اسے خود تصنیف کر کے جھوٹ موٹ اللہ ربّ العالمین کی طرف منسُوب کر دیا ہے ؟ اتنا لغو اور بے سر و پا الزام رکھتے ہوئے کوئی شرم ان کو نہیں آتی؟ انہیں کچھ محسوس نہیں ہوتا کہ جو لوگ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کو اور اُن کے کام اور کلام کو جانتے ہیں اور اس کتاب کو بھی سمجھتے ہیں،  وہ اس بیہودہ الزام کو سُن کر کیا رائے قائم کریں گے ؟

 (۴)جس طرح پہلی آیت میں لَا رَیْبَ فِیْہِ، کہنا کافی سمجھا گیا تھا اور اس سے بڑھ کر کوئی استدلال قرآن کے کلام اِلٰہی ہونے کے حق میں پیش کر نے کی ضرورت نہ سمجھی گئی تھی،  اُسی طرح اب اِس آیت میں بھی کفّارِ مکہ کے الزامِ افترا پر صرف اتنی بات ہی کہنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے کہ ’’ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے ‘‘ اس کی وجہ وہی ہے جو اوپر حاشیہ نمبر ۱ میں ہم بیان کر چکے ہیں۔  کون،  کس ماحول میں،  کس شان کے ساتھ یہ کتاب پیش کر رہا تھا،  یہ سب کچھ سامعین کے سامنے موجود تھا۔  اور یہ کتاب بھی اپنی زبان اور اپنے ادب اور مضامین کے ساتھ سب کے سامنے تھی۔  اور اس کے اثرات و نتائج بھی مکہ اُس سوسائٹی میں سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔  اس صورت حال میں اس کتاب کا ربّ العالمین سے آیا ہوا حق ہونا ایسا صریح امر واقعہ تھا جسے صرف نعمتی طور پر بیان کر دینا ہی کفّار کے الزام کی تردید کے لیے کافی تھا۔  ا س پر کسی استدلال کی کوشش بات کو مضبوط کرنے کے بجائے الٹی اس کمزور کرنے کی موجب ہوتی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے دن کے وقت سورج چمک رہا ہو اور کوئی ڈھیٹ آدمی کہے کہ یہ اندھیری رات ہے۔  اس کے جواب میں صرف یہی کہنا کافی ہے کہ تم اسے رات کہتے ہو ؟  یہ روز روشن تو سامنے موجود ہے۔  اس کے بعد دن کے موجود ہونے پر اگر آپ منطقی دلیلیں قائم کریں گے تو اپنے جواب کے زور میں کوئی اضافہ نہیں کریں گے بلکہ درحقیقت اس کے زور کو کچھ کم ہی کر دیں گے۔  

 (۵)یعنی جس کا حق ہونا اور مِن جانب اللہ ہونا قطعی و یقینی امر ہے اُسی طرح اِس کا مبنی بر حکمت  ہونا اور خود تم لوگوں کے لیے خدا کی ایک رحمت ہونا بھی ظاہر ہے۔  تم خود جانتے کہ صد ہا برس سے تمہارے اندر کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے۔  تم خود جانتے ہو کہ تمہاری ساری قوم جہالت اور اخلاقی پستی اور سخت پسماندگی میں مبتلا ہے۔  اس حالت میں اگر تمہیں بیدار کرنے اور راہ راست دکھانے کے لیے ایک پیغمبر تمہارے درمیان بھیجا گیا ہے تو اس پر حیران کیوں ہوتے ہو۔ یہ تو ایک بڑی ضرورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پورا کیا ہے اور تمہاری اپنی بھلائی کے لیے کیا ہے۔  

  واضح رہے کہ عرب میں دینِ حق کی روشنی سب سے پہلے حضرت ہودؑ اور حضرت صالحؑ کے ذریعہ سے پہنچی تھی جو زمانۂ قبل تاریخ میں گزرے ہیں۔  پھر حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام آئے جن کا زمانہ حضورؐ سے ڈھائی ہزار برس قبل گزرا ہے۔  اس کے بعد آخری پیغمبر جو عرب کی سر زمین میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے بھیجے گئے وہ حضرت شعیب علیہ السّلام تھے۔ اور ان کی آمد پر بھی دو ہزار برس گزر چکے تھے۔  یہ اتنی طویل مدّت ہے کہ اس کے لحاظ سے یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ اس قوم کے اندر کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا۔  اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس قوم میں کبھی کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا تھا۔  بلکہ اس مطلب یہ ہے کہ ایک مدّتِ دراز سے یہ قوم ایک متنبہ کرنے والے کی محتاج چلی آ رہی ہے۔

 یہاں ایک اور سوال سامنے آ جاتا ہے جس کو صاف کر دینا ضروری ہیں۔  اس آیت کو پڑھتے ہوئے آدمی کے ذہن میں یہ کھٹک پیدا ہوتی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے صدہا برس تک عربوں میں کوئی نبی نہیں آیا تو اُس جاہلیت کے دور میں گزرے ہوئے لوگوں سے آخر باز پُرس کس بنیاد پر ہو گی ؟ انہیں معلوم ہی کب تھی کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا ہے ؟ پھر اگر وہ گمراہ تھے تو اپنی اس گمراہی کے ذمہ دار وہ کیسے قرار دیے جا سکتے ہیں ؟اس کا جواب یہ ہے کہ دین کا تفصیلی علم چاہے اُس جاہلیّت دے زمانہ میں لوگوں کے پاس نہ رہا ہو، مگر یہ بات اُس زمانے میں بھی لوگوں سے پوشیدہ نہ تھی کہ اصل دین توحید ہے اور انبیاء علیہم السلام نے کبھی بُت پرستی نہیں سکھائی ہے۔  یہ حقیقت اُن روایات میں بھی محفوظ تھی جو عرب کے لوگوں کو اپنی سر زمین کے انبیاء سے پہنچی تھیں،  اور اسے قریب کی سرزمین میں آئی ہوئے انبیاء حضرت موسیٰ، حضرت داؤد،  حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی تعلیمات کے واسطے سے بھی وہ جانتے تھے۔  عرب کی روایات میں یہ بات بھی مشہور و معروف تھی کہ قدیم زمانہ میں اہل عرب کا اصل دین،  دینِ اِبراہیمیؐ تھا اور بُت پرستی اُن کے ہاں عُمرو بن لُحیّ نامی  ایک شخص نے شروع کی تھی۔  شرک و بُت پرستی کے رواج عام کے باوجود عرب کے مختلف حصّوں میں جگہ جگہ ایسے لوگ کوجود تھے جو شرک سے انکار کرتے تھے،  توحید کا اعلان کرتے تھے اور بُتوں پر قُربانیاں کرنے کی علانیہ مذمّت کرتے تھے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد سے بالکل قریب زمانے میں قُسّ بن ساعِد ۃالایاوی، اُمَیَّہ بن ابی الصَّلْت، سُوْید بن عُمرو المُصْطَلِقی، وکیع بن سَعَمہ بن زُہَیر الاِیاوی،  عُمرو بن جُندُب  الجُہنِی، ابو قیس صَرمہ بن ابی انَس، زید بن عُمروبن نُُفَیل،  ورقہ بن نَو فَل،  عثمان بن الحُوَیزِث، عبیداللہ بن جَحش، عامر بن الظَّرب العَدْوانی، عَلّاف بن شہاب التَّمیمی،  المُتَلَمِسّ بن اُمَیّۃالکنانی،  زُہَیربن ابی سَلْمیٰ،  خالد بن سِنان بن غَیث، العَبُسی، عبداللہ القُضَاعِی اور ایسے ہی بہت سے لوگوں کے حالات ہمیں تاریخوں میں ملتے ہیں جنہیں حُنَفَاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔  یہ سب لوگ علی الا علان توحید کو اصل دین کہتے تھے اور مشرکین کے مذہب سے اپنی بے تعلقی کا صاف صاف اظہار کرتے تھے۔  ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے ذہن میں یہ تخیل انبیاء علیہم السلام کی سابقہ تعلیمات  کے باقی ماندہ اثرات ہی سے آیا تھا۔  اس کے علاوہ یمن میں چوتھی پانچویں صدی عیسوی کے جو کتبات آثار قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں برآمد ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس دَور میں وہاں ایک توحیدی مذہب موجود تھا جس کے پیرو الرحمان اور ربّ السّماء والارض ہی کو اِلٰہ واحِد تسلیم کرتے تھے۔  ۳۷۸ عیسوی کا ایک کتبہ ایک عبادت گاہ کے کھنڈر سے ملا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ یہ معبد’’ الٰہ ذدسَموی‘‘ یعنی  الٰہ السماء کی عبادت کے لئے بنایا گیا ہے۔ ۴۶۵ عیسوی کے ایک کتبہ میں  بنصرورا الٰھن بعل سمین وارضین(بنصر و بعون الالٰہ ربّ السماء والارْض)کے الفاظ لکھے ہیں جو عقیدۂ توحید پر صریح دلالت کرتے ہیں۔ اسی دور کا ایک اور کتبہ ایک قبر پر ملا ہے جس میں بِخَیل رحمنن(یعنی استعین بحولالرحمٰن)کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں،  اِسی طرح شمال عرب میں دریائے فُرات اور قِنَّسرین کے درمیان زَہَد کے مقام پر ۵۱۲ عیسوی کا ایک کتبہ ملا ہے جس میں بسْم الا لٰہٗ لَاعِزَّاِلَّا لَہٗ لَاشُکرَاِلَّالَہٗ کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔  یہ ساری باتیں بتاتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے انبیاء سابقین کی تعلیمات کے آثار عرب  سے بالکل مٹ نہیں گئے تھے اور کم از کم اِتنی بات یاد دلانے کے لیے بہت سے ذرائع موجود تھے کہ ’’ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے ‘‘۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، صفحات ۴۶۴۔ ۴۶۵)

 (۶) اب مشرکین کے دوسرے اعتراض کو لیا جاتا ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوتِ توحید پر کرتے تھے۔  ان کو اس بات پر سخت اعتراض تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کے دیوتاؤں، اور بزرگوں کی معبودیت سے انکار کرتے ہیں اور ہان کے پکارے یہ دعوت دیتے ہیں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود کوئی کار ساز،  کوئی حاجت روا،  کوئی دعائیں سننے والا، اور بگڑی بنانے والا،  اور کوئی حاکمِ ذی اختیار نہیں ہے۔  

 (۷)تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ص ۳۶۔ ۲۶۱۔ ۲۶۲۔ ۴۴۱۔ ۴۴۲۔

 (۸)یعنی تمہارا اصل خدا تو خالق زمین و آسمان ہے۔  تم کس خیالِ خام میں مبتلا ہو کہ کائنات کی اس عظیم الشان سلطنت میں اُس کے سوا دوسروں کو کار ساز سمجھ بیٹھے ہو۔  اس پوری کائنات کا اور اس کی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔  اس کی ذات کے سوا ہر دوسری چیز جو یہاں پائی جاتی ہے،  مخلوق ہے۔  اور اللہ اس دُنیا کو بنا دینے کے بعد کہیں جا کر سو بھی نہیں گیا ہے،  بلکہ اپنی اِس سلطنت کا تخت نشین اور حاکم و فرما روا بھی وہ آپ ہی ہے۔  پھر تمہاری عقل آخر کہاں چرنے چلے گئی ہے کہ تم مخلوقات میں سے چند ہستیوں کو اپنی قسمتوں کا مالک قرار دے رہے ہو ؟ اگر اللہ تمہاری مدد نہ کرے تو ان میں سے کس کی یہ طاقت ہے کہ تمہاری مدد کر سکے ؟ اگر اللہ تمہیں پکڑے تو ان میں سے کس کا یہ زور ہے کہ تمہیں چھڑا  سکے ؟اگر اللہ سفارش نہ سنے تو ان میں سے کون یہ بل بوتا رکھتا ہے کہ اس سے اپنی سفارش منوا لے ؟

 (۹) یعنی تمہاری نزدیک جو ایک ہزار برس کی تاریخ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں گویا ایک دن کا کام ہے جس کی اسکیم آج کارکنان قضا و قدر کے سپرد کی جاتی ہے اور کل وہ اس کی روداد اس کے حضور پیش کرتے ہیں تاکہ دوسرے دن ( یعنی تمہارے حساب سے ایک ہزار برس ) کا کام ان کے سپرد کیا جائے۔  قرآن مجید میں یہ مضمون دو مقامات پر اور بھی آیا ہے جنہیں نگاہ میں رکھنے سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے۔  کفّارِ عرب کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کو نبوت کا دعویٰ لے کر سامنے آئے کئی برس گزر چکے ہیں۔  وہ بار بار ہم سے کہتے ہیں کہ اگر میری اس دعوت کو تم لوگ قبول نہ کرو گے اور مجھے جھٹلاؤ گے تو تم پر خدا کا عذاب آ جائے گا۔  مگر کئی برس سے وہ اپنی یہ بات دوہرائے جا رہے ہیں اور آج تک عذاب نہ آیا،  حالانکہ ہم ایک دفعہ نہیں ہزاروں مر تبہ انہیں صاف صاف جھٹلا چکے ہیں۔  اُن کی یہ دھمکیاں واقعی سچی ہوتیں تو ہم پر نہ معلوم کبھی کا عذاب آ چکا ہوتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ سُورۂ حج میں فرماتا ہے :   

 وَیَسْتَعْجِلُوْ نَکَ بِاعَذَابِ وَلَنْ یُّخْلِف اللہُ وَعْدَہٗ وَ اِنَّ یَوْمًاعِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ o (آیت ۴۷)

یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں۔    اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا۔ مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تم لوگوں کے شمار سے ہزار برس جیسا ہوا کرتا ہے۔

      دوسری جگہ اسی بات کا جواب یہ دیا گیا ہے :

      سَاَلَ سَآئِلُٗ م  بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ(oلا) لِلْکٰفِرِیْنَ لَیْسَ لَہٗ دَافِعُٗ(oلا)مِّنَ اللّٰہ ذِی الْمَعَارِجِ O  تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ والرُّوْحُ اِلَے ْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ  خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍOفَا صْبِرْ صَبْرًاجَمِیْلًاoاِنَّھُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا (oلا)وَّنَرٰہٗ قَرِیْباًoط (المعارج۔ آیات ۱۔ ۷)

   پوچھنے والا پوچھتا ہے اُس عذاب کو جو واقع   ہونے والا ہے کافروں کے لیے جس کو  دفع کرنے والا کوئی نہیں ہے،  اُس خدا  کی طرف سے جو چَڑھتے درجوں والا ہے (یعنی درجہ بدرجہ کام کرنے والا )۔ چَڑھتے ہیں اس کی طرف ملائکہ اور روح ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے۔  پس اے نبی ! صبر جمیل سے کام لو۔  یہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔

 ان تمام ارشادات سے جو بات ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں خدا کے فیصلے دنیا کی گھڑیوں اور جنتریوں کے لحاظ سے نہیں ہوتے۔  کسی قوم سے اگر کہا جائے کہ تم فلاں روش اختیار کرو گے تو اس کا انجام تمہیں یہ کچھ دیکھنا ہو گا، تو وہ قوم سخت احمق ہو گی اگر اس کا مطلب سمجھے کہ آج وہ روش اختیار کی جائے اور کل اس کے بُرے نتائج سامنے آ جائیں۔  ظہور نتائج کے لیے دن اور مہینے اور سال تو کیا چیز ہیں،  صدیاں بھی کوئی بڑی مدّت نہیں ہیں۔

 (۱۰)یعنی دوسرے جو بھی ہیں ان کے لیے ایک چیز ظاہر ہے تو بے شمار چیزیں ان سے پوشیدہ ہیں۔  فرشتے ہوں یا جن، یا نبی اور ولی اور برگزیدہ انسان،  ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو سب کچھ جاننے والا ہو۔  یہ صفت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے کہ اس پر ہر چیز عیاں ہے۔  جو کچھ گزر چکا ہے،  جو کچھ موجود ہے،  اور جو کچھ آنے والا ہے، سب اس پر روشن ہے۔

 (۱۱) یعنی ہر چیز پر غالب۔ کائنات میں کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس کے ارادے میں مزاحم ہوسکے اور اس کے حکم کو نافذ ہونے سے روک سکے۔  ہر شے اس سے مغلوب ہے اور کسی میں اس کے مقابلے کا بل بوتا نہیں ہے۔  

 (۱۲)یعنی اس غلبے اور قوتِ قاہرہ کے باوجود وہ ظالم نہیں ہے بلکہ اپنی مخلوق پر رحیم و شفیق ہے۔  

 (۱۳) یعنی اس عظیم الشان کائنات میں اس نے بے حد و حساب چیزیں بنائی ہیں،  مگر کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جو بے ڈھنگی اور بے تُکی ہو۔ ہر شے اپنا ایک الگ حسن رکھتی ہے۔  ہر شے اپنی جگہ متناسب اور موزوں ہے۔  جو چیز جس کام کے لیے بھی اُس نے بنائی ہے اس کے لیے موزوں ترین ہے۔  جو چیز جس کام کے لیے بھی اس نے بنائی ہے اُس کے لیے موزوں ترین شکل پر،  مناسب ترین صفات کے ساتھ بنائی ہے۔  دیکھنے کے لیے آنکھ اور سننے کے لیے کان کی ساخت سے زیادہ موزوں کسی ساخت کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔  ہوا اور پانی جن مقاصد کے لیے بنائے گئے ہیں ان کے لئے ہوا ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی ہونی چاہیے، اور پانی وہی اوصاف رکھتا ہے جیسے ہونے      چاہییں۔  تم خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کے نقشے میں کسی کوتاہی کی نشاندہی نہیں کر سکتے ہو۔

(۱۴)یعنی پہلے اس نے براہ راست اپنے تخلیقی عمل(Direct Creation) سے انسان کو پیدا کیا، اور اس کے بعد خود اسی انسان کے اندر تناسل کی یہ طاقت رکھ دی کہ اس کے نطفہ سے ویسے ہی انسان پیدا ہوتے چلے جائیں۔  ایک کمال یہ تھا کہ زمین کے مواد کو جمع کر کے ایک تخلیقی حکم سے اُس میں وہ زندگی اور وہ شعور و تعقل پیدا کر دیا جس سے انسان جیسی ایک حیرت انگیز مخلوق وجود میں آ گئی۔ اور دوسرا کمال یہ ہے کہ آئندہ مزید انسانوں کی پیدائش کے لیے ایک ایسی عجیب مشینری خود انسانی ساخت کے اندر رکھ دی جس کی ترکیب اور کارگزاری کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔  

یہ آیت قرآن مجید کی اُن آیات میں سے ہے جو انسان اوّل کی براہ راست تخلیق کی تصریح کرتی ہیں۔  ڈارون کے زمانہ سے سائنس داں حضرات اس تصور پر بہت ناک بھوں چَڑھاتے ہیں اور بڑی حقارت کے ساتھ وہ اس کو ایک غیر سائنٹیفک نظریہ قرار دے کر گویا پھینک دیتے ہیں۔  لیکن انسان کی نہ سہی، تمام انواعِ حیوانی کی نہ سہی، اوّلین جرثومۂ حیات کی براہِ راست تخلیق سے تو وہ کسی طرح پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔  اس تخلیق کو نہ مانا جائے تو پھر یہ انتہائی لغو بات ماننی پڑے گی کہ زندگی کی ابتدا محض ایک حادثہ کے طور پر ہوئی ہے،  حالاں کہ صرف ایک خُلیّہ (Cell)والے حیوان میں زندگی کی سادہ ترین صورت بھی اتنی پیچیدہ اور نازک حکمتوں سے لبریز ہے کہ اسے حادثہ کا نتیجہ قرار دینا اُس سے لاکھوں درجہ غیر سائنٹیفک بات ہے جتنا نظریۂ ارتقاء کے قائلین نظریۂ تخلیق کو ٹھیراتے ہیں۔  اور اگر ایک دفعہ آدمی یہ مان لے کہ حیات کا پہلا جرثومہ براہِ راست تخلیق سے وجود میں آیا تھا،  پھر آخر یہی ماننے میں کیا قباحت ہے کہ ہر نوعِ حیوانی کا پہلا فرد خالق کے تخلیقی عمل سے پیدا ہوا ہے،  اور پھر اس نسل تناسُل (Procreation)کی مختلف صورتوں سے چلی ہے۔  اس بات کو مان لینے سے وہ بہت سی گتھیاں حل ہو جاتی ہیں جو ڈارونیت کے علمبرداروں کی ساری سائنٹیفک شاعری کے باوجود ان کے نظریۂ ارتقاء میں غیر حل شدہ رہ گئی ہیں۔ (مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل،  صفحات ۲۵۹۔ ۳۱۹۔ ۵۶۶۔ جلد دوم، صفحات ۱۰۔ ۱۱۔ ۱۰۶۔ ۵۰۴۔ جلد سوّم،  صفحات ۲۰۱۔ ۲۶۹)۔

(۱۵)یعنی ایک باریک خورد بینی وجود سے بڑھا کر اسے پوری انسانی شکل تک پہنچایا اور اس کا جسم سارے اعضاء و جوارح کے ساتھ مکمل کر دیا۔

(۱۶)روح سے مراد محض وہ زندگی نہیں ہے جس کی بدولت ایک ذی حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے،  بلکہ اس سے مُراد وہ خاص جوہر ہے جو فکر و شعور اور عقل و تمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے،  جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقاتِ ارضی سے ممتاز ایک صاحبِ شخصیّت ہستی،  صاحبِ اَنا ہستی، اور حامِل خلافت ہستی بنتا ہے۔ اِس روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح یا تو اس معنی میں فرمایا ہے کہ وہ اُسی کی مِلک ہے اور اس کی ذاتِ پاک کی طرف اس کا انتساب اُسی طرح کا ہے جس طرح ایک چیز اپنے مالک کی طرف منسُوب ہو کر اُس کی چیز کہلاتی۔  یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر علم، فکر،  شعور، ارادہ، فیصلہ، اختیار اور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کے پر تُو ہیں۔  ان کا سر چشمہ مادّے کی کوئی ترکیب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔  اللہ کے علم سے اس کو علم ملا ہے،  اللہ کی حکمت سے اس کی دانائی ملی ہے،  اللہ کے اختیار سے اس کو اختیار ملا ہے۔  یہ اوصاف کسی بے علم، بے دانش اور بے اختیار ماخذ سے انسان کے اندر نہیں آئے ہیں۔  (مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جِلد دوّم،  صفحات ۵۰۴۔ ۵۰۵)۔

(۱۷)یہ ایک لطیف انداز بیان ہے۔  روح پھونکنے سے پہلے انسان کا سارا ذکر صیغۂ غائب میں کیا جاتا رہا۔ ’’اُس کی تخلیق کی‘‘،  ’’ اُس کی نسل چلائی ‘‘، ’’اُس کو نِک سُک سے درست کیا ‘‘، ’’ اُس کے اندر روح پھونکی ‘‘۔ اس لیے اُس وقت تک وہ خطاب کے لائق نہ تھا۔  پھر جب رُوح پھونک دی گئی تو اب اُس سے فرمایا جا رہا ہے کہ ’’ تم کو کان دیے ‘‘، ’’ تم کو آنکھیں دیں ‘‘، ’’ تم کو دِل دیے ‘‘ اس لیے کہ حامِل رُوح ہو جانے کے بعد ہی وہ اس قابل ہوا کہ اُسے مخاطب کیا جائے۔  

کان اور آنکھوں سے مُراد وہ ذرائع ہیں جن سے انسان علم حاصل کرتا ہے۔  اگرچہ حصُولِ علم کے ذرائع ذائقہ اور لامسہ اور شامّہ بھی ہیں،  لیکن سماعت و بینائی تمام دوسرے حواس سے زیادہ بڑے اور اہم ذرائع ہیں،  اس لیے قرآن جگہ جگہ انہی دو کو خدا کے نمایاں عطیّوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔  اس کے بعد ’’دِل ‘‘سے مُراد وہ ذہن (Mind)ہے جو حواس کے ذریعہ سے حاصل شدہ معلومات کو مرتب کر کے ان سے نتائج نکالتا ہے اور عمل کی مختلف اِمکانی راہوں میں سے کوئی ایک راہ منتخب کرتا اور اس پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے۔

(۱۸) یعنی یہ عظیم القدر انسانی روح اِتنے بلند پایہ اوصاف کے ساتھ تم کو اس لیے  تم کو اس لیے تو عطا نہیں کی گئی تھی کہ تم دنیا میں جانوروں کی طرح رہو اور اپنے لیے بس وہی زندگی کا نقشہ بنا لو جو کوئی حیوان بنا سکتا ہے۔  یہ آنکھیں تمہیں چشم بصیرت سے دیکھنے کے لیے دی گئی تھیں نہ کہ اندھے بن کر رہنے کے لیے۔  یہ کان تمہیں گوش ہوش سے سننے کے لیے دیے گئے تھے نہ کہ بہرے بن کر رہنے کے لیے۔  یہ دِل تمہیں اس لیے دیے گئی تھے کہ حقیقت کو سمجھو اور صحیح راہِ فکر و عمل اختیار کرو، نہ اِس لیے کہ اپنی ساری صلاحیتیں صرف اپنی حیوانیت کی پرورش کے وسائل فراہم کرنے میں صرف کر دو،  اور اس سے کچھ اونچے اُٹھو تو اپنے خالق سے بغاوت کے فلسفے اور پروگرام بنانے لگو۔  یہ بیش قیمت نعمتیں خدا سے پانے کے بعد جب تم دہریّت یا شرک اختیار کرتے ہو، جب تم خود خدا یا دوسرے خداؤں کے بندے بنتے ہو،  جب تم خواہشات کے غلام بن کر جسم و نفس کی لذّتوں میں غرق ہو جاتے ہو، تو گویا اپنے خدا سے یہ کہتے ہو کہ ہم ان نعمتوں کے لائق نہ تھے،  ہمیں انسان بنانے کے بنائے تجھے ایک بندر، یا ایک بھیڑیا،  یا ایک مگر مچھ یا ایک کوّا بنانا چاہیے تھا۔

(۱۹)رسالت اور توحید پر کفار کے اعتراضات کا جواب دینے کے بعد اب اسلام کے تیسرے بُنیادی عقیدے یعنی آخرت پر اُن کے اعتراض کو لے کر اس کا جواب دیا جاتا ہے۔  آیت میں وَقَالُوْا کا واؤ عطف مضمونِ ماسبق  سے اس پیراگراف کا تعلق جوڑتا ہے۔  گویا ترتیب کلام یوں ہے کہ ’’ وہ کہتے ہیں محمدؐ اللہ کے رسول نہیں ہیں ‘‘، اور ’’ وہ کہتے ہیں کہ ہم مر کر دوبارہ نہ اُٹھیں گے ‘‘۔

(۲۰) اوپر کے فقرے اور اس فقرے کے درمیان پوری ایک داستان کی داستان ہے جسے سامع کے ذہن پر چھوڑ دیا گیا ہے۔  کفّار کا جو اعتراض پہلے فقرے میں نقل گیا ہے وہ اتنا مہمل ہے کہ اس کی تردید کی حاجت محسوس نہیں کی گئی۔ اس کا محض نقل کر دینا ہی اس کی لغویت ظاہر کرنے کے لیے کافی سمجھا گیا۔  اس لیے کہ ان کا اعتراض جن دو اجزاء پر مشتمل ہے وہ دونوں ہی سراسر غیر معقول ہیں۔  ان کا یہ کہنا کہ ’’ ہم مٹی میں رَل مِل چکے ہوں گے ‘‘ آخر کیا معنی رکھتا ہے۔ ’’ہم‘‘ جس چیز کا نام ہے وہ مٹی میں کب رَ لتی مِلتی ہے ؟( مٹی میں تو صرف وہ جسم ملتا ہے جس سے ’’ہم ‘‘ نکل چکا ہوتا ہے۔  اس جسم کا نام ’’ہم ‘‘ نہیں ہے۔  زندگی کی حالت میں جب اس جسم کے اعضاء کاٹے جاتے ہیں تو عضو پر عضو کٹتا چلا جاتا ہے مگر ’’ہم ‘‘ ہم پورا کا پورا اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔  اس کا کوئی جُز بھی کسی کٹے ہوئے عضو کے ساتھ نہیں جاتا۔  اور جب یہ ’’ہم ‘‘ کسی جسم میں سے نکل جاتا ہے تو پورا جسم موجود ہوتے ہوئے بھی اس پر اس ’’ہم ‘‘ کے کسی ادنی شائبے تک کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اسی لیے تو ایک عاشق جاں نثار اپنے معشوق کے مُردہ جسم کو لے جا کر دفن کر دیتا ہے ‘ کیونکہ معشوق اس جسم سے نکل چکا ہوتا ہے۔  اور وہ معشوق نہیں بلکہ اس کا خالی جسم کو دفن کر تا ہے جس میں کبھی اس کا معشوق رہتا تھا۔ پس معترضین کے اعتراض کا پہلا مقدمہ ہی بے بنیاد ہے۔  رہا اس کا دوسرا جز: ’’ کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے ‘‘ ؟تو یہ ا نکار و تعجب کے انداز کا سوال سرے سے پیدا ہی نہ ہوتا اگر معترضین نے بات کرنے سے پہلی اس ’’ ہم‘‘ اس اس کے پیدا کیے جانے کے مفہوم پر ایک لمحہ کے لیے کچھ غور کر لیا ہوتا۔ اس ’’ہم‘‘ کی موجودہ پیدائش اس کے سوا کیا ہے کہیں لوہا اور اسی طرح کے دوسرے اجزاء جمع ہوئے اور اس کالبُد خاکی میں یہ ’’ ہم‘‘ براجمان ہو گیا۔  پھر اس کی موت کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ اس لبدِ خاکی میں سے جب ’’ہم‘‘ نِکل جاتا ہے تو اس کا مکان تعمیر کرنے کے لیے جو اجزاء زمین کے مختلف حصوں سے فراہم کیے گئے تھے وہ سب اسی زمین میں واپس چلے جاتے ہیں۔  سوال یہ ہے کہ جس نے پہلے اس ’’ ہم ‘‘کو یہ مکان بنا کر دیا تھا، کیا وہ دوبارہ اسی سر و سامان سے وہی مکان بنا کر اسے از سر نو اس میں نہیں بسا سکتا ؟ یہ چیز جب پہلے ممکن تھی اور واقعہ کی صورت میں رونما ہو چکی ہے،  تو دوبارہ اس کے ممکن ہونے اور واقعہ بننے میں آخر کیا امر مانع ہے ؟ یہ باتیں ایسی ہیں جنہیں ذرا سی عقل آدمی استعمال تو خود ہی سمجھ سکتا ہے۔  لیکن وہ اپنی عقل کو اس رُخ پر کیوں نہیں جانے دیتا ؟ کیا وجہ ہے کہ وہ بے سوچے سمجھے حیات بعد الموت اور آخرت پر اس طرح کے لا یعنی اعتراضات جڑتا ہے ؟بیچ کی ساری بحث چھوڑ کر اللہ تعالیٰ دوسرے فقرے میں اسی فقرے میں اسی سوال کا جواب دیتا ہے کہ ’’دراصل یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں ‘‘۔ یعنی اصل بات یہ نہیں ہے کہ دوبارہ پیدائش کوئی بڑی ہی انوکھی اور بعید از امکان بات ہے جو ان کی سمجھ میں نہ آ سکتی ہو، بلکہ دراصل جو چیز انہیں یہ بات سمجھنے سے روکتی ہے وہ ان کی یہ خواہش ہے کہ ہم زمین میں چھُوٹے پھریں اور دِل کھول کر گناہ کریں اور پھر نِلُوہ (Scot-ires)یہاں سے نکل جائیں۔ پھر ہم سے کوئی پوچھ کچھ نہ ہو۔  پھر اپنے کرتوتوں کا کوئی حساب ہمیں نہ دینا پڑے۔  

(۲۱)یعنی تمہارا ’’ہم ‘‘ مِٹی میں رَل مِل نہ جائے گا، بلکہ اس کی مہلتِ عمل ہوتے ہی خدا کا فرشتہ،  موت آئے گا اور اُسے جسم سے نکال کر سَمُوچا اپنے قبضے میں لے لے گا۔  اُس کا کوئی ادنیٰ جُز بھی جسم کے ساتھ مِٹی میں نہ جا سکے گا۔  اور وہ پورا کا پورا حراست(Custody)میں لے لیا جائے گا اور اپنے رب کے حضور پیش کر دیا جائے گا۔  

اس مختصر سی آیت میں بہت سے حقائق پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے :

۱)۔ اس میں تصریح ہے کہ موت کچھ یوں ہی نہیں آ جاتی کہ ایک گھڑی چل رہی تھی،  کُوک ختم ہوئی اور وہ چلتے چلتے یکایک بند ہو گئی۔  بلکہ دراصل اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص فرشتہ مقرر کر رکھا ہے جو آ کر باقاعدہ رُوح کو ٹھیک اُسی طرح وصول کرتا ہے جس طرح ایک سرکاری امین (Official Receiver)کسی چیز کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔  قرآن کے دوسرے مقامات پر اس کی مزید تفصیلات جو بیان کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس افسرِ موت کے ماتحت فرشتوں کا ایک پورا عملہ ہے جو موت وارد کرنے اور روح کو جسم سے نکالنے اور اس کو قبضے میں لینے کی بہت سی مختلف النوع خدمات انجام دیتا ہے۔  نیز یہ کہ اس عملے کا برتاؤ مجرم روح کے ساتھ کچھ اَور ہوتا ہے اور مومنِ صالح رُوح کے ساتھ کچھ اور۔ (اِن تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ نساء، آیت ۹۷۔ الانعام،  ۹۳۔ النحل،  ۲۸۔ الواقعہ، ۸۳۔ ۹۴۔

۲)۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موت سے انسان معدوم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کی روح جسم سے نکل کر باقی رہتی ہے۔ قرآن کے الفاظ ’’ موت کا فرشتہ تم کو پورا کا پورا اپنے قبضے میں لے لے گا۔  ‘‘ اسی حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ کوئی معدوم چیز قبضے میں لینے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ مقبوضہ چیز قابض کے پاس رہے۔  

۳) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موت کے وقت جو چیز قبضے میں لی جاتی ہے وہ آدمی کی حیوانی زندگی (Biological life )نہیں بلکہ اس کی وہ خود ی ‘ اس کی وہ  اَنا (Ego)ہے جو ’’ میں ‘‘ اور ’’ ہم‘‘ اور’’ تم‘‘ کے الفاظ تعبیر کی جاتی ہے۔ یہ انا دنیا میں کام کر کے جیسی کچھ شخصیت بھی بنتی ہے وہ پوری جوں کی توں (Intact)نکال لی جاتی ہے بغیر اس کے کہ اس کے اوصاف میں کو ئی کمی بیشی ہو۔  اور ہی چیز موت کے بعد اپنے رب کی طرف پلٹا ئی جاتی ہے۔  اسی کو آخرت میں نیا جنم اور نیا جسم دیا جائے گا  اُسی پر مقدمہ قائم کیا جائے گا ‘ اسی سے حساب لیا جائے گا اور اسی کو جزا و سزا دیکھنی ہو گی۔  

 

کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مُجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے (اُس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے ) ’’ اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سُن لیا اب ہمیں واپس بھیج دے تا کہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین آ گیا ہے۔ ‘‘ (جواب میں ارشاد ہو گا) (۲۲)’’ اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے (۲۳) مگر میری وہ بات پُوری  ہو گئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنّم کو جِنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا (۲۴) پس اب چکھو مزا اپنی اِس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کر دیا(۲۵)،   ہم نے بھی اب تمہیں فراموش کر دیا ہے۔  چکھو ہمیشگی کے عذاب کا مزا اپنے کرتوتوں کی پاداش میں ‘‘۔
ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنہیں یہ آیات سُنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور تکبّر نہیں کرتے (۲۶)سجدہ۔ اُن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں،  اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں (۲۷)،   اور جو کچھ رزق ہم نے اُنھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں (۲۸)۔ پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزاء میں ان کے لیے چھُپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفِس کو خبر نہیں ہے (۲۹)  بھلا کہیں یہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص مومن ہو وہ اُس شخص کی طرح ہو جائے جو فاسق ہو؟(۳۰) یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے (۳۱)
 جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں اُن کے لیے تو جنّتوں کی قیام گاہیں ہیں (۳۲)،   ضیافت کے طور پر اُن کے اعمال کے بدلے میں۔  اور جنہوں نے فِسق اختیار کیا ہے اُن کا ٹھکِانا دوزخ ہے۔  جب کبھی وہ اس سے نکلنا چاہیں دے اسی میں دھکیل دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھو اب آگ کے عذاب کا مزا جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔  اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اِسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے ) عذاب کا مزا  اِنھیں چکھاتے رہیں گے،  شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے )باز آ جائیں (۳۳)  اور اُس سے بڑا ظالم کون ہو گا جِسے اس کے رب کی آیات کے ذریعہ سے نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیر لے (۳۴)  ایسے مجرموں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے۔ ع

 

(۲۲)  اب اُس حالت کا نقشہ پیش کیا جاتا ہے جب اپنے رب کی طرف پلٹ کر یہ انسانی ’’اَنا‘‘ اپنا حساب دینے کے لے اس کے حضور کھڑی ہو گی۔  

(۲۳)  یعنی ا س طرح حقیقت کا مشاہدہ اور تجربہ کرا کر ہی لوگوں کو ہدایت دینا ہمارے پیش نظر ہوتا تو دنیا کی زندگی میں اتنے بڑے امتحان سے گزار کر تم یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی ‘ ایسی ہدایت تو ہم پہلے ہی تم کو دے سکتے تھے لیکن تمہارے لیے تو آغاز ہی سے ہماری اسکیم یہ نہ تھی ہم تو حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل اور حواس سے مخفی رکھ کر تمہارا امتحان لینا چاہتے تھے کہ تم براہ راست اُس کو بے نقاب دیکھنے کے بجائے کائنات میں اور خود اپنے نفس میں اُس کی علامات دیکھ کر اپنی عقل سے اُس کو پہچانتے ہو یا نہیں،  ہم اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے اِس حقیقت شناسی میں تمہاری جو مدد کرتے ہیں اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہو یا نہیں،  اور حقیقت جان لینے کے بعد اپنے نفس پر اتنا قابو پاتے ہو یا نہیں کہ خواہشات اور اغراض کی بندگی سے آزاد ہو کر اس حقیقت کو مان جاؤ اور اس کے مطابق اپنا طرز عمل درست کر لو۔ اس امتحان میں تم ناکام ہو چکے ہو۔ اب دوبارہ اِسی امتحان کا سلسلہ شروع کرنے سے کیا حاصل ہو گا۔ دوسرا امتحان اگر اس طرح لیا جائے کہ تمہیں وہ سب کچھ یاد ہو جو تم نے یہاں دیکھ اور سُن لیا ہے تو یہ سرے سے کوئی امتحان ہی نہ ہو گا۔ اگر پہلے کی طرح تمہیں خالی الذہن کر کے اور حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل رکھ کر تمہیں پھر دُنیا میں پیدا کر دیا جائے اور نئے سِرے سے تمہارا اُسی طرح امتحان لیا جائے جیسے پہلے لیا گیا تھا، تو نتیجہ پچھلے امتحان سے کچھ بھی مختلف نہ ہو گا۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل،  صفحات ۱۶۰۔ ۱۶۱۔ ۵۶۵۔ ۶۲۵۔ ۵۳۲۔  ۶۰۳۔ ۶۰۴۔ جلد دوّم ص، ۲۷۶۔  جلد سوّم ص ۳۰۰)

 (۲۴)اشارہ ہے اُس قول کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم ؑ کے وقت ابلیس کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا تھا۔  سورہ ص کے آخری رکوع میں اُس وقت کا پورا قصّہ بیان کیا گیا ہے۔  ابلیس نے آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور نسل آدم کو بہکانے کے لیے قیامت تک کی مہلت مانگی۔  جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فَا لْحَقُّ وَالْحَقَّ اَقُوْلُ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ‘‘ پس حق یہ ہے اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں کہ جہنم کو بھر دوں گا تجھ سے اور اُن لوگوں  سے جو انسانوں میں سے تیری  پیروی کریں گے۔ ‘‘

        اَجْمَعِیْنَ کا لفظ یہاں اس معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے کہ تمام جن اور تمام انسان جہنم میں ڈال دیے جائیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے شیاطین اور ان شیاطین کے پیرو انسان سب ایک ساتھ ہی وصل جہنم ہوں گے۔  

      (۲۵)  یعنی دنیا کے عیش میں گم ہو کر تم نے اس بات کو بالکل بھلا دیا کہ کبھی اپنے رب کے سامنے بھی جانا ہے۔  

    (۲۶)بالفاظ دیگر وہ اپنے غلط خیالات کو چھوڑ کر اللہ کی بات مان لینے اور اللہ کی بندگی اختیار کر کے اس کی عبادت کو چھوڑ کر اللہ کی بات مان لینے اور اللہ کی بندگی اختیار کر کے اس کی عبادت بجا لانے اپنی شان سے گری ہوئی بات نہیں سمجھتے نفس کی کبریائی انہیں قبولِ حق اور اطاعت رب سے مانع نہیں ہوتی۔

     (۲۷)یعنی راتوں کو داد عیش دیتے پھرنے کے بجائے وہ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔  اُن کا حال اُن دُنیا پرستوں کا سا نہیں ہے جنہیں دِن کی محنتوں کی کلفت دُور کرنے کے لیے راتوں کو ناچ گانے اور شراب نوشی اور کھیل تماشوں کی تفریحات درکار ہوتی ہیں۔  اس کے بجائے ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ دِن بھر اپنے فرائض انجام دے کر جب وہ فارغ ہوتے ہیں تو اپنے رب کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں۔  اس کی یاد میں راتیں گزارتے ہیں۔  اس کے خوف سے کانپتے ہیں اور اسی سے اپنی ساری اُمیدیں وابستہ کرتے ہیں۔  

      بستروں سے پیٹھیں الگ رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ راتوں کو سوتے ہی نہیں ہیں، بلکہ اس سے مُراد یہ ہے کہ وہ راتوں کا ایک حصّہ خدا کی عبادت میں صرف کرتے ہیں۔  

    (۲۸)رزق سے مُراد ہے رزق حلال۔  مال حرام کو اللہ تعالیٰ اپنے دیے ہوئے رزق سے تعبیر نہیں فرماتا۔  لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو تھوڑا یا بہت پاک رزق ہم نے اُنہیں دیا ہے اسی میں سے خرچ کرتے ہیں۔  اِس سے تجاوز کر کے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے حرام مال پر ہاتھ نہیں مارتے۔  

 (۲۹)بخاری، مسلم، ترمذی اور مسند احمد میں متعدد طریقوں سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : قال اللہ تعالیٰ اعددت بعبادی الصالحین ما لا اذن سمعت ولا خطر علیٰ قلب بشرٍ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ فراہم کر رکھا ہے جسے نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا،  نہ کبھی کسی کان نے سُنا،  نہ کوئی انسان کبھی اس کا تصوّر کر سکا ہے ‘‘۔  یہی مضمون تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ حضرت ابو سعید خُدری، حضرت مُغیرو بن  شُعْبہ اور حضرت سہَل بن سَعد ساعِدی نے بھی حضورؐ سے روایت کیا ہے جسے مسلم، احمد،  ابن جریر اور ترمذی نے صحیح سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے۔    

’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ فراہم کر رکھا ہے جسے نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا،  نہ کبھی کسی کان نے سُنا، نہ کوئی انسان کبھی اس کا تصوّر کر سکا ہے ‘‘ یہی مضمون تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ،  حضرت ابو سعید خُدری، حضرت مُغیفہ بن شُعْبہ اور حضرت سہل بن سَعد ساعِدی نے بھی حضورؐ سے روایت کیا ہے جسے مسلم، احمد، ابن جرریر اور ترمذی نے صحیح سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے۔  

(۳۰) یہاں مومن اور فاسق کی دو متقابل اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں۔  مومن سے مُراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنا رب واحد مان کر اُس قانون کی اطاعت اختیار کر لے جو اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے بھیجا ہے۔  اس کے برعکس فاسق وہ جو فسق (خروج از طاعت، یا با الفاظ دیگر بغاوت،  خود مختاری اور اطاعت غیر اللہ) کا رویّہ اختیار کرے۔

(۳۱)یعنی نہ دُنیا میں ان کا طرزِ فِکر و طرز حیات یکساں ہو سکتا ہے اور نہ آخرت میں ان کے ساتھ خدا کا معاملہ یکساں ہو سکتا ہے۔  

(۳۲)یعنی وہ جنّتیں اُن کی سیر گاہیں نہیں ہوں گی بلکہ وہی ان کی قیام گاہیں بھی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

(۳۳)’’عذاب اکبر‘‘ سے مُراد آخرت کا عذاب ہے جو کفر و فسق کی پاداش میں دیا جائے گا۔ اس کے مقابلہ میں ’’ عذاب ادنیٰ ‘‘ کا الفاظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مُراد وہ تکلیفیں ہیں جو اِسی دُنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں۔  مثلاً افراد کی زندگی میں سخت بیماریاں، اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت،  المناک حادثے، نقصانات،  ناکامیاں وغیرہ۔  اور اجتماعی زندگی میں طوفان، زلزلے، سیلاب، وبائیں، قحط، فسادات، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں،  لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں۔  اُن آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ بیان کی گئی ہے کہ عذابِ اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آ جائیں اور اُس طرز فِکر و عمل کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخر کار انہیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا۔  دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ پورے آرام و سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اِس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ اُس سے بالا کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو۔  بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا اِنتظام کر رکھا ہے کہ وقتاً فوقتاً افراد پر بھی اور قوموں اور ملکوں پر بھی ایسی آفات بھیجتا رہتا ہے جو اسے اپنی بے بسی کا اور اپنے سے بالا تر ایک ہمہ گیر سلطنت کی فرمانروائی کا احساس دِلاتی ہیں۔  یہ آفات ایک ایک شخص کو،  ایک ایک گروہ کو اور ایک ایک قوم کو یہ یاد دِلاتی ہیں کہ اوپر تمہاری قسمتوں کی کوئی اور کنٹرول کر رہا ہے۔  سب کچھ تمہارے ہاتھ میں نہیں دے دیا گیا ہے۔  اصل طاقت اُسی کار فرما اقتدار کے ہاتھ میں ہے۔  اُس کی طرف سے جب کوئی آفت تمہارے اوپر آئے تو نہ تمہاری کوئی تدبیر اسے دفع کر سکتی ہے، اور نہ کسی جِن،  یا روح،  یا دیوی اور دیوتا،  یا نبی اور ولی سے مدد مانگ کر تم اس کو روک سکتے ہو۔ اس لحاظ سے یہ آفات محض آفات نہیں ہیں بلکہ خدا کی تنبیہات ہیں جو انسان کو حقیقت سے آگاہ کرنے اور اس کی غلط فہمیاں رفع کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہیں۔  ان سے سبق لے کر دُنیا ہی میں آدمی اپنا عقیدہ اور عمل ٹھیک کر لے تو آخرت میں خدا کا بڑا عذاب دیکھنے کی نوبت ہی کیوں آئے۔

(۳۴)’’رب کی آیات ‘‘ یعنی اُس کی نشانیوں کے الفاظ بہت جامع ہیں جن کے اندر تمام اقسام کی نشانیاں آ جاتی ہیں۔  قرآن مجید کے جملہ بیانات کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشانیاں حسب ذیل چھ قسموں پر مشتمل ہیں :

۱۔ وہ نشانیاں جو زمین سے لے کر آسمان تک ہر چیز میں اور کائنات کے مجموعی نظام میں پائی جاتی ہیں۔  

۲۔ وہ نشانیاں جو انسان کی اپنی پیدائش اور اس کی ساخت اور اس کے وجود میں پائی جاتی ہے۔  

۳۔ وہ نشانیاں جو انسان کے وجدان میں،  اس کے لاشعور میں،  اور اُس کے اخلاقی تصوّرات میں پائی جاتی ہیں۔

۴۔ وہ نشانیاں جو انسانی تاریخ کے مسلسل تجربات میں پائی جاتی ہیں۔  

۵۔ وہ نشانیاں جو انسان پر آفاتِ ارضی و سماوی کے نزول میں پائی جاتی ہیں۔  

۶۔ اور ان سب کے بعد وہ آیات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعہ سے بھیجیں تاکہ معقول طریقے انسان کو انہی حقائق سے آگاہ کیا جائے جن کی طرف اوپر کی تمام نشانیاں اشارہ کر رہی ہیں۔  

یہ ساری نشانیاں پوری ہم آہنگی اور بلند آہنگی کے ساتھ انسان کو یہ بتا رہی ہیں کہ تو بے خدا نہیں ہے،  نہ بہت سے خداؤں کا بندہ ہے، بلکہ تیرا خُدا صرف ایک ہی ہے جس کی عبادت و اطاعت کے سِوا تیرے لیے کوئی دوسرا راستہ صحیح نہیں ہے۔  تو اس دُنیا میں آزاد و خود مختار اور غیر ذمہ دار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ تجھے اپنا کارنامۂ حیات ختم کرنے کے بعد اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو کر جواب دہی کرنی ہے اور اپنے عمل کے لحاظ سے جزا اور سزا پانی ہے۔ پس تیری اپنی خیر اسی میں ہے کہ تیرے خدا نے تیری رہنمائی کے لیے اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے جو ہدایت بھیجی ہے اس کی پیروی کر او ر خود مختاری کی روش سے باز آ جا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جس انسان کو اتنے مختلف طریقوں سے سمجھایا گیا ہو، جس کی فہمائش کے لیے طرح طرح کی اتنی بے شمار نشانیاں فراہم کی گئی ہوں،  اور جسے دیکھنے کے لیے آنکھیں سننے کے لیے کان، اور سوچنے سمجھنے کے لیے دِل کی نعمتیں بھی دی گئی ہوں،  وہ اگر ان ساری نشانیوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتا ہے،  سمجھانے والوں کی تذکیر و نصیحت کے لیے بھی اپنے کان بند کر لیتا ہے،  اور اپنے دِل و دِماغ سے بھی اوندھے فلسفے ہی گھڑنے کا کام لیتا ہے،  اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہو سکتا۔  وہ پھر اسی کا مستحق ہے کہ دُنیا میں اپنے امتحان کی مدّت ختم کرنے کے بعد جب وہ اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو تو بغاوت کی بھر پور سزا پائے۔

 

اِس سے پہلے ہم موسیٰؑ کو کتاب دے چکے ہیں،  لہٰذا اُسی چیز کے ملنے پر تمہیں کوئی شک نہ ہونا چاہیے (۳۵)  اُس کتاب کو ہم نے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا تھا(۳۶)،   اور جب انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندر ہم نے ایسے پیشوا پیدا کیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے (۳۷)
 یقیناً تیرا رب ہی قیامت کے روز اُن باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں (بنی اسرائیل ) باہم اختلاف کرتے رہے ہیں (۳۸) اور کیا اِن لوگوں کو (اِن تاریخی واقعات میں ) کوئی ہدایت نہیں ملی کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کے رہنے کی جگہوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں ؟(۳۹) اس میں بڑی نشانیاں ہیں،  کیا یہ سُنتے نہیں ہیں ؟ اور کیا اِن لوگوں نے یہ منظر کبھی نہیں دیکھا کہ ہم ایک بے آب گیاہ زمین کی طرف پانی بَہا لاتے ہیں،  پھر اسی زمین سے وہ فصل اُگاتے ہیں جس سے ان کے جانوروں کو بھی چارہ مِلتا ہے اور یہ خود بھی کھاتے ہیں ؟ تو کیا انہیں کچھ نہیں سوجھتا ؟ (۴۰)
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’ یہ فیصلہ کب ہو گا اگر تم سچّے ہو ؟‘‘(۴۱) ان سے کہو ’’ فیصلے کے دن ایمان لانا اُن لوگوں کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہو گا جنہوں نے کفر کیا ہے اور پھر ان کو کوئی مہلت نہ ملے گی‘‘(۴۲) اچھا انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور انتظار کرو، یہ بھی منتظر ہیں۔  ع

 

(۳۵)خطاب بظاہری نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے،  مگر دراصل مخاطب وہ لوگ ہیں جو حضورؐ کی رسالت میں،  اور آپ کے اوپر کتاب اِلٰہی کے نازل ہونے میں شک کر رہے تھے۔  یہاں سے کلام کا رخ اسی مضمون کی طرف پھر رہا ہے جو آغاز سورہ (آیات نمبر ۲ اور ۳ )میں بیان ہوا تھا۔  کفارِ مکہ کہہ رہے تھے کہ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) پر خدا کی طرف سے کوئی کتاب نہیں آئی ہے انہوں نے اسے خود گھڑ لیا ہے اور دعویٰ یہ کر رہے ہیں کہ خدا نے اسے نازل کیا ہے۔  اس کا ایک جواب ابتدائی آیات میں دیا گیا تھا۔  اب اس کا دوسرا جواب دیا جا رہا ہے۔  اس سلسلے میں پہلی بات جو فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اے نبی یہ نادان لوگ تم پر کتابِ الٰہی کے نازل ہو نے کو اپنے نزدیک بعید از امکان سمجھ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہر دوسرا شخص بھی اگر اس کا انکار نہ کرے تو کم از کم اس کے متعلق شک ہی میں پڑ جائے۔  لیکن ایک بندے پر خدا کی طرف سے کتاب نازل ہونا ایک نرالا واقعہ تو نہیں ہے جو انسانی تاریخ میں آج پہلی مرتبہ ہی پیش آیا ہو۔  اس سے پہلے متعدد انبیاء پر کتابیں نازل ہو چکی ہیں جن سے مشہور ترین کتاب وہ ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام)کو دی گئی تھی۔ لہٰذا اسی نوعیت کی ایک چیز آج تمہیں دی گئی ہے تو آج آخر اس میں انوکھی بات کیا ہے جس پر خواہ مخواہ شک کیا جائے۔  

  (۳۶) یعنی وہ کتاب بنی اسرائیل کے لئے رہنمائی کا ذریعہ بنائی گئی تھی اور یہ کتاب اسی طرح تم لوگوں کی رہنمائی کے لئے بھیجی گئی ہے جیسا کہ آیت نمبر ۳ میں پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔  اس ارشاد کی پوری معنویت اس کے تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے ہی سمجھ میں آ سکتی ہے۔  یہ بات تاریخ سے ثابت ہے اور کفار مکہ بھی اس سے ناواقف نہ تھے بنی اسرائیل کئی صدی تک مصر میں انتہائی ذلت و  نکبت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔  اس حالت میں اللہ تعا لیٰ نے ان کے درمیان مو سیٰ (علیہ السّلام)کو پیدا کیا ان کے ذریعہ سے اس قوم کو غلامی کی حالت سے نکالا پھر ان پر کتاب نازل کی اور اس کے فیض سے وہی دبی اور پِسی ہوئی قوم ہدایت پاکر دنیا میں ایک نامور قوم بن گئی۔  اس تاریخ کی طرف اشارہ کر کے اہلِ عرب سے فرمایا جا رہا ہے کے جس طرح بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے وہ کتاب بھجی گئی ہے۔  

(۳۷)یعنی بنی اسرائیل کو اس کتاب نے جو کچھ بنا یا اور جن مدارج پر ان پہنچایا وہ محض ا ن کے درمیان کتاب کے آ جانے کا کرشمہ نہ تھا گویا یہ کوئی تعویذ ہو جو باندھ کر اس قوم کے گلے میں لٹکا دیا گیا ہو اور اس کے لٹکتے ہی قوم نے بامِ عروج پر چڑھنا شروع کر دیا ہو بلکہ یہ ساری کرامت اس یقین کی تھی جو وہ اللہ کی آیات پر لائے اور اس صبر اور ثابت قدمی کی تھی جو انہوں نے احکامِ الہٰی کی پیروی میں دکھائی۔ خود بنی اسرائیل کے اندر بھی پیشوائی انہی کو نصیب ہوئی جو ان سے کتاب اللہ کے سچے مومن تھے اور دُنیوی فائدوں اور لذتوں کی طمع میں پھسل جانے والے نہ تھے۔  انہوں نے جب حق پر ستی میں ہر خطر ے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہر نقصان اور ہر تکلیف کو بر داشت کیا اور اپنے نفس کی شہوات سے لے کر باہر کے اعدائے دین تک ہر ایک کے خلاف مجاہدہ کا حق ادا کر دیا تب ہی وہ دنیا کے امام بنے اس سے مقصود کفارِ عرب کو متنبہ کر نا ہے کہ جس طرح خدا کی کتاب کے نزول نے بنی اسرائیل کے اندر قسمتوں کے فیصلے کیے تھے اسی طرح اب اس کتاب کا نزول تمہارے درمیان بھی قسمتوں کا فیصلہ کر دے گا۔  اب وہی لوگ امام بنیں گے جو اس کو مان کہ صبر و ثبات کے ساتھ حق کی پیروی کریں گے اس سے منہ موڑنے والوں کی تقدیر گردش میں آ چکی ہے۔

(۳۸) یہ اشارہ ہے ان اختلافات اور فرقہ بندیوں کی طرف جن کے اندر بنی اسرائیل ایمان و یقین کی دولت سے محروم ہونے اور اپنے راست رو ائمہ کی پیروی چھوڑ دینے اور دُنیا پرستی میں پڑ جانے کے بعد مبتلا ہوئے۔  اس حالت کا ایک نتیجہ تو ظاہر ہے جسے ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ بنی اسرائیل ذلت و نکبت میں گرفتار ہیں۔  دوسرا وہ ہے جو دنیا نہیں جانتی اور وہ قیامت کے روز ظاہر ہو گا۔

(۳۹)یعنی کیا تاریخ کے اس مسلسل تجربے سے ان لوگوں نے کوئی سبق نہیں لیا کہ جس قوم میں بھی خدا کا رسول آیا ہے اس کی قسمت کا فیصلہ اس رویّے کے ساتھ معلق ہو گیا ہے جو اپنے رسول کے معاملہ میں اس نے اختیار کیا۔  رسول کو جھٹلا دینے کے بعد پھر کوئی قوم بچ نہیں سکی ہے۔  اس میں سے بچے ہیں تو صرف وہی لوگ جو اس پر ایمان لائے۔  انکار کر دینے والے  ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سامانِ عبرت بن کر رہ گئے۔

(۴۰)سیاق و سباق کو نگاہ میں رکھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں یہ ذکر حیات بعدالموت پر استدلال کرنے کے لیے نہیں کیا گیا ہے،  جیسا کہ قرآن میں بالعموم ہوتا ہے، بلکہ اِس سلسلۂ کلام میں یہ بات ایک اور ہی مقصد کے لیے فرمائی گئی ہے۔  ا س   میں دراصل ایک لطیف اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جس طرح ایک بنجر پڑی ہوئی زمین کو دیکھ کر آدمی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ یہ بھی کبھی لہلہاتی کشت زار بن جائے گی، مگر خدا کی بھیجی ہوئی برسات کا ایک ہی ریلا اس کا رنگ بدل دیتا ہے،  اُسی طرح یہ دعوتِ اسلام بھی اِس وقت تم کو ایک نہ چلنے والی چیز نظر آتی ہے،  لیکن خدا کی قدرت کا ایک ہی کرشمہ اس کو وہ فروغ دے گا کہ تم دنگ رہ جاؤ گے۔

(۴۱)یعنی تم جو کہتے ہو کہ آخر کار اللہ کی مدد آئے گی اور ہمیں جھٹلانے والوں پر اُس کا غضب ٹوٹ پڑے گا، تو بتاؤ وہ وقت کب آئے گا ؟ کب ہمارا تمہارا فیصلہ ہو گا؟

(۴۲)یعنی یہ کونسی ایسی چیز ہے جس کے لیے تم بے چین ہوتے ہو۔ خُدا کا عذاب آ گیا تو پھر سنبھلنے کا موقع تم کو نصیب نہ ہو گا۔  اس مہلت کو غنیمت جانو جو عذاب آنے سے پہلے تم کو ملی ہوئی ہے۔  عذاب سامنے دیکھ کر ایمان لاؤ گے تو کچھ حاصل نہ ہو گا۔