تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ المُلک

نام

پہلے فقرے تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ المُلکُ کے لفظ المُلک کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ 

زمانۂ نزول

کسی مُعتبر روایت سے یہ نہیں  معلوم ہوتا کہ یہ کس زمانے میں  نازل ہوئی ہے،  مگر مضامین اور اندازِ بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکہ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں  میں  سے ہے۔ 

موضوع اور مضمون

اس میں  ایک طرف مختصر طریقے سے اسلام کی تعلیمات کا تعارف کرایا گیا ہے اور دوسری طرف بڑے بڑے موثر انداز میں  اُن لوگوں  کو چونکا یا گیا ہے۔  جو غفلت میں  پڑے ہوئے تھے۔  یہ مکہ معظمہ کی ابتدائی سورتوں  کی خصوصیت ہے کہ وہ اسلام کی ساری تعلیمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے مقصدِ بعثت کو پیش کر تی ہیں،  مگر تفصیل کے ساتھ نہیں  بلکہ اختصار کے ساتھ، تا کہ وہ بتدریج لوگوں  کے ذہن نشین ہوتی چلی جائیں۔  اس کے ساتھ ان میں  زیادہ تر زور اس بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ لوگوں  کی غفلت دور کی جائے،  ان کو سوچنے پر مجبور کیا جائے،  اور ان کے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کیا جائے۔

پہلی پانچ آیتوں  میں  انسان کو احساس دلایا گیا ہے کہ وہ جس کائنات میں  رہتا ہے وہ ایک انتہائی منظم اور محکم سلطنت ہے جس میں  ڈھونڈے سے بھی کوئی عیب یا نقص یا  خلل تلاش نہیں  کیا جا سکتا۔ اس سلطنت کو عدم سے وجود میں  بھی اللہ تعالیٰ ہی لایا ہے اور اس کی تدبیر و انتظام اور فرمانروائی کے تمام اختیار ات بھی بالکل یہ اللہ ہی کے ہا تھ میں  ہیں  اور اس کی قدرت لامحدود ہے۔  اس کے ساتھ انسان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس انتہائی حکیمانہ نظام میں  وہ بے مقصد پیدا نہیں  کر دیا گیا ہے بلکہ یہاں  اسے امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے،  اور اس امتحان میں  وہ اپنے حسنِ عمل ہی سے کامیاب ہو سکتا ہے۔

آیت ۶ سے ۱۱ تک کفر کے وہ ہولناک نتائج بیان کیے گئے ہیں  جو آخرت میں  نکلنے والے ہیں  اور لوگوں  کو بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو بھیج کر تمہیں  اسی دنیا میں  ان نتائج سے خبر دار کر دیا ہے۔  اب اگر یہاں  تم انبیاء کی بات مان کر اپنا رویہ درست کر و گے تو آخرت میں  تمہیں  خود اعتراف کرنا پڑے گا کہ جو سزا تم کو دی جا رہی ہے فی الواقع تم اُس کے مستحق ہو۔

آیت ۱۲ سے ۱۴ تک یہ حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ خالق اپنی مخلوق سے بے خبر نہیں  ہو سکتا۔ وہ تمہاری ہر کھلی اور چھپی بات، حتیٰ کہ تمہارے دل کے خیالات تک سے واقف ہے۔  لہٰذا اخلاق کی صحیح بنیاد ہے کہ انسان اُس اَن دیکھے خدا کی باز پرس سے ڈر کر برائی سے بچے،  خواہ دنیا میں  کوئی طاقت اُس پر گرفت کرنے والی ہو یا نہ ہو اور دنیا  میں  اس سے کسی نقصان کا امکان ہو یا نہ ہو۔ یہ طرز عمل جو لوگ اختیار کریں  گے وہی آخرت میں  بخشش اور اجرِ عظیم کے مستحق ہوں گے۔

آیت ۱۵ سے ۲۳ تک اُن پیش یا اُفتادہ حقیقتوں  کی طرف جنہیں  انسان دنیا کے معمولات سمجھ کر قابل توجہ شمار نہیں  کرتا، پے در پے اشارے کر کے اُن پر سوچنے کی دعوت دی گئی ہے۔  فرمایا گیا ہے کہ اس زمین کو دیکھو جس پر تم اطمینان سے چل پھر رہے ہو اور جس سے اپنا رزق حاصل کر رہے ہو۔ خدا ہی نے اسے تمہارے لیے تابع کر رکھا ہے،  ورنہ کسی وقت بھی اس زمین میں  ایسا زلزلہ آ سکتا ہے کہ تم پیوندِ خاک ہو جاؤ، یا ہوا کا ایسا طوفان آ سکتا ہے جو تمہیں  تہس نہس کر کے رکھ دے۔  اپنے اوپر اڑنے والے پرندوں  کو دیکھو۔ خدا ہی تو ہے جو انہیں  فضا میں  تھامے ہوئے ہے۔  اپنے تمام ذرائع و وسائل پر نگاہ ڈال کر دیکھو۔ خدا اگر تمہیں  عذاب میں  مبتلا کرنا چاہے تو کون تمہیں  اس سے بچا سکتا اور خدا اگر تمہارے لیے رزق کے دروازے بند کر دے تو کون انہیں  کھول سکتا ہے ؟ یہ ساری چیزیں  تمہیں  حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے موجود ہیں۔  مگر انہیں  تم حیوانات کی طرح دیکھتے ہو جو مشاہدات سے نتائج اخذ کر نے کی صلاحیت نہیں  رکھتے،  اور اس سماعت و بینائی اور ان سوچنے سمجھنے والے دماغوں   سے کام نہیں  لیتے جو انسان ہونے کی حیثیت سے خدا نے تمہیں  دیے ہیں ۔  اسی وجہ سے راہ راست تمہیں  نظر نہیں  آتی۔

آیت ۲۴ سے ۲۷ تک بتایا گیا ہے کہ آخر کار تمہیں  لازماً اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے۔  نبی کا کام یہ نہیں  ہے کہ تمہیں  اُس کے آنے کا وقت اور تاریخ بتائے۔  اس کا کام بس یہ ہے کہ تمہیں  اُس آنے والے وقت سے پیشگی خبردار کر دے۔  تم آج اُس کی بات نہیں  مانتے اور مطالبہ کرتے ہو کہ وقت لا کر تمہیں  دکھا دیا جائے۔  مگر جب وہ آ جائے گا اور تم آنکھوں  سے اسے دیکھ لو گے تو تمہارے ہوش اُڑ جائیں  گے۔  اس وقت تم سے کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ چیز جسے جلدی لے آنے کا تم مطالبہ کر رہے تھے۔

آیت ۲۸ اور ۲۹  میں  کفار مکہ کی اُن باتوں  کا جواب دیا گیا ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم اور آپؐ کے ساتھیوں  کے خلاف کرتے تھے۔  وہ حضورؐ کو کوستے تھے اور آپ کے لیے اور اہل ایمان کے لیے ہلاکت کی دعائیں  مانگتے تھے۔  اس  پر فرمایا گیا  ہے کہ تمہیں  راہ راست کی طرف بلانے والے خواہ ہلاک ہوں  یا اللہ اُن پر رحم کرے،  اس سے آخر تمہاری قسمت کیسے بدل جائے گی؟ تم اپنی فکر کرو  کہ خدا کا عذاب اگر تم پر آ جائے تو کون تمہیں  بچائے گا؟ جو لوگ خدا پر ایمان لائے ہیں  اور جنہوں  نے اُس پر توکل کیا ہے۔  انہیں  تم گمراہ سمجھ رہے ہو۔ ایک وقت آئے گا جب یہ بات کھل جائے گی کہ حقیقت میں  گمراہ کون تھا۔

          آخر میں  لوگوں  کے سامنے یہ سوال رکھ دیا گیا ہے اور اسی پر سوچنے کے لیے انہیں چھوڑ دیا گیا ہے کہ عرب کے صحراؤں  اور پہاڑی علاقوں  میں ،  جہاں  تمہاری زندگی کا سارا انحصار اُس پانی پر ہے جو کسی جگہ زمین سے نکل آیا ہے،  وہاں  اگر یہ پانی زمین میں  اتر کر غائب ہو جائے تو خدا کے سوا کون تمہیں  یہ آبِ حیات لا کر دے سکتا ہے ؟

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
نہایت بزرگ و برتر ہے 1 وہ جس کے ہاتھ میں  کائنات کی سلطنت ہے،  2 اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔  3 جس نے موت اور زندگی  کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں  کو آزما کر دیکھے تم میں  سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے،  4 اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی۔ 5 جس نے تہ بر تہ سات آسمان بنائے۔  6 تم رحمٰن کی تخلیق میں  کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے۔  7 پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں  تمہیں  کوئی خلل نظر آتا ہے ؟ 8 بار بار نگاہ دوڑاؤ،  تمہاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔
ہم نے تمہارے قریب کے آسمان 9 کو عظیم الشان چراغوں  سے آراستہ کیا ہے 10 اور اُنہیں  شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنا دیا ہے۔  11 اِن شیطانوں  کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ ہم نے مہیّا کر رکھی ہے۔  
جن لوگوں  نے اپنے ربّ سے کفر کیا ہے 12 ان کے لیے جہنّم کا عذاب ہے اور وہ بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے۔  جب وہ اُس میں  پھینکے جائیں  گے تو اس کے دَھاڑنے کی ہولناک آوازیں  سُنیں  گے 13 اور وہ جوش کھا رہی ہو گی، شِدّتِ غضب سے پھٹی جاتی ہو گی۔ ہر بار جب کوئی انبوہ اس میں  ڈالا جائے گا، اُس کے کارندے اُن لوگوں  سے پوچھیں  گے ’’ کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا ‘‘نہیں  آیا تھا؟‘‘ 14 وہ جواب دیں  گے ’’ ہاں،  خبردار کرنے والا ہمارے پاس آیا تھا،  مگر ہم نے اسے جھٹلا دیا  اور کہا اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں  کیا ہے،  تم بڑی گمراہی میں  پڑے ہوئے ہو۔‘‘ 15 اور وہ کہیں  گے  ’’کاش ہم سُنتے اور سمجھتے 16 تو آج اِس بھَڑکتی ہوئی آگ کے سزا واروں  میں  نہ شامل ہوتے۔ ‘‘ اس طرح وہ اپنے قصور کا 17 خود اعتراف کر لیں  گے،  لعنت ہے ان دوزخیوں  پر۔
جو لوگ بے دیکھے اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں،  18 یقیناً اُن کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر۔ 19 تم خواہ چُپکے سے بات کرو یا اُونچی آواز سے (اللہ کے لیے یکساں  ہے )، وہ تو دلوں  کا حال تک جانتا ہے۔  20 کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے ؟ 21 حالانکہ وہ باریک بیں  22 اور باخبر ہے۔  ؏۱

 

1: تَبَا رَکَ برکت سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔  برکت میں  رفعت و عظمت،  افزائش اور فراوانی،  دوام و ثبات اور کثرتِ خیرات و حَسَنات کے مفہومات شامل ہیں۔  اس سے جب مبالغہ کا صیغہ تَبَارَکَ بنایا جائے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں  کہ وہ بے انتہا بزرگ و عظیم ہے،  اپنی ذات و صفات و افعال میں  اپنے سوا ہر ایک سے بالا تر ہے،  بے حد وحساب بھلائیوں  کا فیضان اُس کی ذات سے ہو رہا ہے،  اور اُس کے کمالا ت لازوال ہیں (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، الاعراف، حاشیہ ۴۳۔جلد سوم، المومنون، حاشیہ۱۴۔ الفرقان، حواشی۱، ۹)

2: اَلْمُلْکُ کا لفظ چونکہ مطلقاً استعمال ہوا ہے اس لیے اسے کسی محدود معنوں  میں  نہیں  لیا جا سکتا۔ لا محالہ اس سے مراد تمام موجوداتِ  عالم پر شاہانہ اقتدار ہی ہو سکتا ہے۔  اور اُس کے ہاتھ میں  اقتدار ہونے کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ وہ جسمانی ہاتھ رکھتا ہے،  بلکہ یہ لفظ محاورہ کے طور پر قبضہ کے معنی میں  استعمال ہوا ے۔  عربی کی طرح ہماری زبان  میں  بھی جب یہ کہتے ہیں  کہ اختیارات فلاں  کے ہاتھ میں  ہیں  تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہی سارے اختیارات کا مالک ہے،  کسی دوسرے کا اس میں  دخل نہیں  ہے۔

3: یعنی وہ جو کچھ چاہے کر سکتا ہے۔  کوئی چیز اُسے عاجز کرنے والی نہیں  ہے کہ وہ کوئی کام کرنا چاہے اور نہ کر سکے۔

4: یعنی دنیا میں  انسانوں  کے مرنے اور جینے کا یہ سلسلہ اُس نے اِس لیے شروع کیا ہے کہ اُن کا امتحان لے اور یہ دیکھنے کہ کس انسان کا عمل زیادہ بہتر ہے۔  اس مختصر سے فقرے میں  بہت سی حقیقتوں  کا طرف اشارہ کر دیا گیا ہے۔  اول یہ کہ موت اور حیات اُسی کی طرف سے ہے،  کوئی دوسرا نہ زندگی بخشنے والا ہے  نہ موت دینے والا۔ دوسرے یہ کہ انسان جیسی ایک مخلوق، جسے نیکی اور بدی کرنے کی قدرت عطا  کی گئی ہے،  اُس کی نہ زندگی بے مقصد ہے نہ  موت۔ خالق نے اُسے یہاں  امتحان کے لیے پیدا کیا ہے۔  زندگی اُس کے لیے امتحان کی مہلت ہے اور موت کے معنی یہ ہیں  کہ اُس کے امتحان کا وقت ختم ہو گیا۔  تیسرے یہ کہ اِسی امتحان کی غرض سے خالق نے ہر ایک کو عمل کا موقع دیا ہے تا کہ وہ دنیا میں  کام کر کے اپنے اچھائی یا برائی کا اظہار کر سکے اور عملاً یہ دکھاوے کہ وہ کیسا انسان ہے۔  چوتھے یہ کہ خالق ہی دراصل اِس بات کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کس کا علم اچھا ہے اور کس کا بُرا۔ اعمال کی اچھائی اور بُرائی کا معیار تجویز کرنا امتحان دینے والوں  کا کام نہیں  ہے بلکہ امتحان لینے والے کا کام ہے۔  لہٰذا جو بھی امتحان میں  کامیاب ہونا چاہے اُسے یہ معلوم کرنا ہو گا کہ ممتحن کے نزدیک محسن عمل کیا ہے۔  پانچواں  نکتہ خود امتحان کے مفہوم میں  پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ جس شخص کا جیسا عمل ہو گا اس کے مطابق اس کو جزا دی جائے گی، کیونکہ اگر جزا نہ ہو تو سرے سے امتحان لینے کے کوئی معنی ہی نہیں  رہتے۔

5: اس کے دو معنی ہیں  اور دونوں  ہی یہاں   مراد ہیں ۔  ایک یہ کہ وہ بے انتہا زبردست اور سب پر پوری طرح غالب ہونے کے باوجود اپنی مخلوق کے حق میں  رحیم و غفور ہے،  ظالم اور سخت گیر  نہیں  ہے۔  دوسرے یہ کہ بُرے عمل کرنے والوں  کو سزا دینے کی وہ پوری قدرت رکھتا ہے،  کسی میں   یہ طاقت نہیں  کہ اُس کی سزا سے بچ سکے۔  مگر جو نادم ہو کر بُرائی سے باز آ جائے اور معافی مانگ لے اس کے ساتھ وہ درگزر کا معاملہ کرنے والا ہے۔

6: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اول،  البقرہ، حاشیہ۳۴۔جلد دوم، الرعد، حاشیہ۲۔۱ الحجر، حاشیہ ۸۔جلد سوم، الحج، حاشیہ ۱۱۳۔ المومنون، حاشیہ ۱۵۔ جلد چہارم، الصافات، حاشیہ ۵۔  المومن، حاشیہ ۹۰۔

7: اصل تَفاوُت کا لفظ استعمال ہوا ہے،  جس کے معنی ہیں ،  عدم تناسُب۔  ایک چیز کا دوسری چیز سے میل نہ کھانا۔ اَنْمِل بے جُوڑ ہونا۔ پس اِس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ پُوری کائنات میں  تم کہیں  بد نظمی، بے تربیتی اور بے ربطی نہ پاؤ گے۔  اللہ کی پیدا کردہ اِس دنیا میں  کو ئی چیز اَنْمِل بے جوڑ نہیں  ہے۔  اس کے تمام اجزاء باہم مربوط ہیں  اور ان میں  کمال درجے کا تناسُب پایا جاتا ہے۔

8: ’’اصل میں  لفظ فُطور استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں  دراڑ، شگاف،  رخنہ، پھٹا ہوا ہونا،  ٹوٹا پھوٹا ہونا۔ مطلب یہ ہے کہ پُوری کائنات کی بندش ایسی چُست ہے،  اور زمین کے ایک ذرّے سے لے کر عظیم الشان کہکشانوں  تک ہر چیز ایسی مربوط ہے کہ کہیں  نظمِ  کائنات کا تسلسل نہیں  ٹوٹتا۔ تم خواہ کتنی ہی جستجو کر لو، تمہیں  اس میں  کسی جگہ کوئی رخنہ نہیں  مل سکتا(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد پنجم، تفسیر سورہ ق، حاشیہ۸)۔

9: قریب کے آسمان  سے مراد وہ آسمان ہے جس کے تاروں  اور سیاروں  کو ہم برہنہ آنکھوں  سے دیکھتے  ہیں۔  اس سے آگے جن چیزوں  کے مشاہدے کے لیے آلات کی ضرورت پیش آتی ہو وہ دُور کے آسمان ہیں۔  اور ان سے بھی زیادہ دُور کے آسمان وہ ہیں  جس تک آلات کی رسائی  بھی نہیں  ہے۔

 10: اصل میں  لفظ’’مصابیح‘‘ نکرہ استعمال ہوا ہے،  اور ا س کے نکرہ ہونے سے خود بخود ان چراغوں  کے عظیم الشان ہونے کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔  ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ کائنات ہم نے اندھیری اور سُنسان نہیں  بنائی ہے بلکہ اسے ستاروں  سے خوب مزین اور آراستہ کیا ہے جس کی شان اور جگمگاہٹ رات کے اندھیروں  میں  دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔

 11: اس کا یہ مطلب نہیں  ہے کہ یہی تارے شیطانوں  پر پھینک مارے جاتے ہیں،  اور یہ مطلب بھی نہیں  ہے کہ شہاب ثاقب صرف شیطانوں  کو مارنے ہی کے لیے گرتے ہیں،   بلکہ مطلب یہ ہے کہ تاروں  سے جو بے حدو حساب شہابِ ثاقب نکل کر کائنات میں  انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گھومتے رہتے ہیں،  اور جن کی بارش زمین پر بھی ہر وقت ہوتی رہتی ہے،  وہ اس امر میں  مانع ہے کہ زمین کے شیاطین عالمِ بالا میں  جا سکیں۔  اگر وہ اوپر جانے کی کوشش کریں  بھی تو یہ شہاب انہیں  مار بھگاتے ہیں۔  اس چیز کو بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ عرب کے لوگ کاہنوں  کے متعلق یہ خیال رکھتے تھے اور یہی خود کاہنوں  کا دعویٰ بھی تھا، کہ شیاطین اُن کے تابع ہیں،  یا شیاطین سے اُن کا رابطہ ہے ،  اور اُن کے ذریعہ سے اُنہیں  غیب کی خبریں  حاصل ہوتی ہیں  اور وہ صحیح طور پر لوگوں  کی قسمتوں  کا حال بتا سکتے ہیں۔  اس لیے قرآن میں  متعدد مقامات پر یہ بتایا گیا ہے کہ شیاطین کے عالمِ بالا میں  جانے اور وہاں  سے غیب کی خبریں  معلوم کرنے کا قطعاً کوئی امکان نہیں  ہے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، الحجر، حواشی۹تا۱۲۔جلد چہارم، الصافات، حواشی۶، ۷)۔           رہا یہ سوال کہ ان شہابوں  کی حقیقت کیا ہے،  تو اس کے بارے میں  انسان کی معلومات اس وقت تک کسی قطعی تحقیق سے قاصر ہیں۔  تاہم جس قدر بھی حقائق اور واقعات جدید ترین دور تک انسان کے علم میں  آئے ہیں،  اور زمین پر گرے ہوئے شہابیوں  کے معائنے سے جو معلومات حاصل کی گئی ہیں،  ان کی بنا ء پر سائنس دانوں  میں  سب سے زیادہ مقبول نظر یہ  یہی ہے کہ یہ شہابیے کسی سیارے کے انفجار کی بدولت نکل کر خلا میں  گھومتے رہتے ہیں  اور پھر کسی وقت زمین کی کشش کے دائرے  میں  آ کر  ادھر کا رُخ کر لیتے ہیں (ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا بر ٹا نیکا، ایڈیشن ۱۹۶۷؁۔ جلد ۱۵۔لفظ (Meteorites )۔

12: یعنی انسان ہو ں،  یا شیطان، جن لوگوں  نے بھی اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کا یہ انجام ہے (رب سے کفر کرنے کے مفہوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ۱۶۱۔ النساء، حاشیہ ۱۷۸۔ جلد سوم، الکہف، حاشیہ ۳۹۔ جلد چہارم، المومن،  حاشیہ۳)۔

13: اصل میں  لفظ شھیق استعمال ہوا ہے جو گدھے کی سی آواز کے لیے بولا جاتا ہے۔  اس فقرے کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں  کہ خود جہنم کی آواز ہو گی، اور یہ بھی ہو سکتے ہیں  کہ یہ آواز جہنم سے آ رہی ہو گی جہاں  اُن لوگوں  سے پہلے گرے ہوئے لوگ چیخیں  مار رہے ہوں  گے۔  اس دوسرے مفہوم کی تائید سورہ ہود ؑ کی آیات ۱۰۶ سے ہوتی ہے جس میں  فرمایا گیا ہے  کہ دوزخ میں  یہ دوزخی لوگ ’’ہانپیں  گے اور پھُنکارے ماریں  گے ‘‘۔اور پہلے مفہوم کی تائید سورہ فرقان آیت ۱۲ سے ہوتی ہے جس میں  ارشاد ہوا ہے کہ دوزخ میں  جاتے ہوئے یہ لوگ دور ہی سے اُس کے غضب اور جوش کی آوازیں  سنیں  گے۔  اس بنا پر صحیح یہ ہے کہ یہ شور خود جہنم کا بھی ہو گا اور جہنمیوں  کا بھی۔

14: اس سوال کی اصل نوعیت سوال کی نہیں  ہو گی کہ جہنم کے کارندے ان لوگوں  سے یہ معلوم کرنا چاہتے ہوں  کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خبر دار کرنے والا آیا تھا یا نہیں،  بلکہ اس سے مقصود اُن کو اِ س بات کا قائل کرنا ہو گا کہ انہیں  جہنم میں  ڈال کر اُن کے ساتھ کوئی بے انصافی نہیں  کی جا رہی ہے۔  اس لیے وہ خود اُن کی زبان سے یہ اقرار کرانا چاہیں  گے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو بے خبر نہیں  رکھا تھا، اُن کے پاس انبیاء بھیجے تھے،  اُن کو بتا دیا تھا کہ حقیقت کیا ہے اور راہِ  راست کون سی ہے،  اور ان کو متنبہ کر دیا تھا کہ اس راہ راست کے خلاف چلنے کا نتیجہ اِسی جہنم کا ایندھن بننا ہو گا جس میں  اب وہ جھونکے گئے ہیں،  مگر انہوں  نے انبیاء کی بات نہ مانی، لہٰذا اب جو سزا اُنہیں  دی جا رہی ہے وہ فی الواقع اس کے مستحق ہیں۔  یہ بات قرآن مجید میں  بار بار ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس امتحان کے لیے دنیا میں  انسان کو بھیجا ہے وہ اِس طرح نہیں  لیا جا رہا ہے کہ اُسے بالکل بے خبر رکھ کر یہ دیکھا جا رہا ہو کہ وہ خود راہِ راست پاتا ہے یا نہیں،  بلکہ اُسے راہِ  راست بتانے کا جو معقول ترین انتظام ممکن تھا وہ اللہ نے پوری طرح کر دیا ہے،  اور وہ یہی انتظام ہے کہ انبیاء بھیجے گئے ہیں  اور کتابیں  نازل کی گئی ہیں۔  اب انسان کا سارا امتحان اِس امر میں  ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام اور اُن کی لائی ہوئی کتابوں  کو مان کر سیدھا راستہ اختیار کرتا ہے یا ان سے مُنہ موڑ کر خود اپنی خواہشات اور تخیّلات کے پیچھے چلتا ہے۔  اس طرح نبوت در حقیقت اللہ تعالیٰ کی وہ حُجّت ہے جو اس نے انسان پر قائم کر دی ہے،  اور اسی کے ماننے یا نہ ماننے پر انسان کے مستقبل کا انحصار ہے۔  انبیاء کے آنے کے بعد کوئی شخص یہ عذر پشن نہیں  کر سکتا کہ ہم حقیقت سے آگاہ نہ تھے،  ہمیں  اندھیرے میں  رکھ کر ہم کو اتنے بڑے امتحان میں  ڈال دیا گیا، اور اب ہمیں  بے قصور سزا دی جا رہی ہے۔  اس مضمون کو اتنی بار اتنے مختلف طریقوں  سے قرآن میں  بیان کیا گیا ہے کہ اس کا شمار مشکل ہے۔  مثال کے طور پر حسبِ ذیل مقامات  ملاحظہ ہوں : تفہیم القرآن،  جلد اول، البقرہ، آیت۲۱۳، حاشیہ۲۳۰۔ النساء، آیات۴۱۔۴۲، حاشیہ۶۴۔آیت۱۶۵، حاشیہ ۲۰۸۔ الانعام، آیات۱۳۰۔۱۳۱، حواشی۹۸ تا ۱۰۰۔ جلد دوم، بنی اسرائیل، آیت۱۵، حاشیہ۱۷۔جلد سوم، طٰہٰ، آیت۱۳۴۔ القصص، آیت۴۷، حاشیہ۶۶۔ آیت۵۹، حاشیہ ۸۳۔  آیت۶۵۔جلد چہارم، فاطر، آیت۳۷۔ المومن، آیت۵۰، حاشیہ۶۶۔

15: یعنی تم بھی بہکے ہوئے ہو اور تم پر ایمان لانے والے لوگ بھی سخت گمراہی میں  پڑے ہوئے ہیں۔

16: یعنی ہم نے طالبِ حق بن کر انبیاء کی بات کو توجہ سے سنا ہوتا، یا عقل سے کام لے کر یہ سمجھنے کی کوشش کی ہوتی کہ فی الواقع وہ بات کیا ہے جو وہ ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں۔  یہاں  سننے کو سمجھنے پر مقدم رکھا گیا ہے۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے نبی کی تعلیم کو توجہ سے سننا(یا اگر وہ لکھی ہوئی شکل میں  ہو تو طالبِ حق بن کر اُسے پڑھنا) ہدایت پانے کے لیے شرط اول ہے۔  اُس پر غور کر کے حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرنے کا مرتبہ اس کے بعد آتا ہے۔  نبی کی رہنمائی کے بغیر اپنی عقل سے بطورِ خود کام لے کر انسان براہِ راست حق تک نہیں  پہنچ سکتا۔

17: قصور کا لفظ واحد استعمال ہوا ہے۔  اس کے معنی یہ ہیں  کہ اصل قصور جس کی بنا پر وہ جہنم کے مستحق ہوئے  رسولوں  کا جھٹلا نا اور ان کی پیروی سے انکار کرنا ہے۔  باقی سارے گناہ اُسی کی فرع ہیں۔

18: تَبَا رَکَ برکت سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔  برکت میں  رفعت و عظمت،  افزائش اور فراوانی،  دوام و ثبات اور کثرتِ خیرات و حَسَنات کے مفہومات شامل ہیں۔  اس سے جب مبالغہ کا صیغہ تَبَارَکَ بنایا جائے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں  کہ وہ بے انتہا بزرگ و عظیم ہے،  اپنی ذات و صفات و افعال میں  اپنے سوا ہر ایک سے بالا تر ہے،  بے حد وحساب بھلائیوں  کا فیضان اُس کی ذات سے ہو رہا ہے،  اور اُس کے کمالا ت لازوال ہیں (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، الاعراف، حاشیہ ۴۳۔جلد سوم، المومنون، حاشیہ۱۴۔ الفرقان، حواشی۱، ۹)

19: یعنی خدا سے بالغیب ڈرنے کے دو لازمی نتائج ہیں۔  ایک یہ کہ جو قصور بھی بشری کمزوریوں  کی بنا پر آدمی سے سرزد ہو گئے ہوں  وہ معاف کر دیے جائیں  گے،  بشرطیکہ ان کی تہ میں  خدا سے بے خوفی کار فرما نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ جو نیک اعمال بھی انسان اِس عقیدے کے ساتھ انجام دے گا اُ س پر وہ بڑا اجر پائے گا۔

20: یہ بات تمام انسانوں  کو خطاب کر کے فرمائی گئی ہے،  خواہ وہ مومن ہوں  یا کافر۔ مومن کے لیے اس میں  یہ تلقین ہے کہ اسے دنیا میں  زندگی بسر کرتے ہوئے ہر وقت یہ احساس اپنے ذہن میں  تازہ رکھنا چاہیے کہ اس کے کھلے اور چھپے اقوال و اعمال ہی نہیں ،  اس کی نیتیں  اور اس کے خیالات تک اللہ سے مخفی نہیں  ہیں۔  اور کافر کے لیے اس میں  یہ تنبیہ ہے کہ وہ اپنی جگہ خدا سے بے خوف ہو کر جو کچھ چاہے کرتا رہے،  اس کی کوئی بات اللہ کی گرفت سے چھوٹی نہیں  رہ سکتی۔

21: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’کیا وہ اپنی مخلوق ہی کو نہ جانے گا؟‘‘اصل میں  مَنْ خَلَقَ استعمال ہوا ہے۔  اس کے معنی’’جس نے پیدا کیا ہے ‘‘بھی ہو سکتے ہیں،  اور ’’جس کو اُس نے پیدا کیا ہے‘‘ بھی۔ دونوں  صورتوں  میں  مطلب ایک ہی رہتا ہے۔  یہ دلیل ہے اُس بات کی جو اوپر کے فقرے میں  ارشاد ہوئی ہے۔  یعنی آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ خالق اپنی مخلوق سے بے خبر ہو؟ مخلوق خود اپنے آپ سے بے خبر ہو سکتی ہے،  مگر خالق اُس سے بے خبر نہیں  ہو سکتا۔ تمہاری رگ رگ اس نے بنائی ہے۔  تمہارے دل و دماغ کا ایک ایک ریشہ اس کا بنایا ہوا ہے۔  تمہارا ہر سانس اس کے جاری رکھنے سے جاری ہے۔  تمہارا ہر عضو اس کی تدبیر سے کام کر رہا ہے۔  اُس سے تمہاری کوئی بات کیسے چھُپی رہ سکتی ہے ؟

 

22: اصل میں  لفظ’’لطیف‘‘استعمال ہوا ہے جس کے معنی غیر محسوس طریقے سے کام کرنے والے کے بھی ہیں  اور پوشیدہ حقائق کو جاننے والے کے بھی۔وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے،  چلو اُس کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا رزق، 23 اُسی کے حضور تمہیں  دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے۔  24 کیا تم اِس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں  ہے 25 تمہیں  زمین میں  دھنسا دے اور یکایک یہ زمین جَھکو لے کھانے لگے ؟ کیا تم اِس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں  ہے تم پر پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیج دے ؟ 26 پھر تمہیں  معلوم ہو جائے گا کہ میری تنبیہ کیسی ہوتی ہے۔  27 اِن سے پہلے گُزرے ہوئے لوگ جھُٹلا چکے ہیں۔  پھر دیکھ لو میری گرفت کیسی تھی۔ 28 کیا یہ لوگ اپنے اُوپر اُڑنے والے پرندوں  کو پر پھیلائے اور سکیڑتے نہیں  دیکھتے ؟ رحمٰن کے سوا کوئی نہیں  جو انہیں  تھامے ہوئے ہو۔ 29 وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔  30 بتاؤ، آخر وہ کون سا لشکر تمہارے پاس ہے جو رحمٰن کے مقابلے میں  تمہارے مدد کر سکتا ہے ؟ 31 حقیقت یہ ہے کہ یہ منکرین دھوکے میں  پڑے ہوئے ہیں۔  یا پھر بتاؤ، کون ہے جو تمہیں  رزق دے سکتا ہے اگر رحمٰن اپنا رزق روک لے ؟ دراصل یہ لوگ سرکشی اور  حق سے گریز پر اَڑے ہوئے ہیں۔  بھلا سوچو، جو شخص منہ اوندھائے چل رہا ہو 32 وہ زیادہ صحیح راہ پانے والا ہے یا وہ جو سر اُٹھائے سیدھا ایک ہموار سڑک پر چل رہا ہو؟ اِن سے کہو اللہ ہی ہے جس نے تمہیں  پیدا کیا، تم کو سُننے اور دیکھنے کی طاقتیں  دیں  اور سوچنے سمجھنے والے دل دیے،  مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو۔ 33
اِن سے کہو، اللہ ہی ہے جس نے تمہیں  زمین میں  پھیلا یا ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔  34 یہ کہتے ہیں ’’ اگر تم سچے ہو تو بتاؤ یہ وعدہ کب پُورا ہو گا؟ 35 ‘‘کہو’’ اِس کا علم تو اللہ کے پاس ہے،  میں  تو بس صاف صاف خبردار کر دینے والا ہوں۔ ‘‘ 36 پھر جب یہ اُس چیز کو قریب دیکھ لیں  گے تو اُن سب لوگوں  کے چہرے بگڑ جائیں  گے جنہوں  نے انکار کیا ہے،  37  اور اُس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ چیز جس کے لیے تم تقاضے کر رہے تھے۔

 

اِن سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اللہ خواہ مجھے اور میرے ساتھیوں  کو ہلاک کر دے یا ہم پر رحم کرے،  کافروں  کو دردناک عذاب سے کون بچا لے گا؟ 38 اِن سے کہو، وہ بڑا رحیم ہے،  اسی پر ہم ایمان لائے ہیں،  اور اُسی پر ہمارا بھروسا ہے،  39 عنقریب تمہیں  معلوم ہو جائے گا کہ صریح گمراہی میں  پڑا ہوا کون ہے۔  اِن سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر تمہارے کنوؤں  کا پانی زمین میں  اُتر جائے تو کون ہے  جو اِس پانی کی بہتی ہوئی سوتیں  تمہیں  نکال کر لادے گا؟ 40 ؏۲23: یعنی یہ زمین تمہارے لیے آپ سے آپ تابع نہیں  بن گئی ہے اور وہ رزق بھی جو تم کھا رہے ہو خود بخود یہاں  پیدا نہیں  ہو گیا ہے،  بلکہ اللہ نے اپنی حکمت اور قدرت سے اِس کو ایسا بنایا ہے کہ یہاں  تمہاری زندگی ممکن ہوئی اور یہ عظیم الشان کُرہ ایسا پُرسکون بن گیا کہ تم اطمینان سے  اس پر چل پھر رہے ہو اور ایسا خوانِ نعمت بن گیا کہ اس میں  تمہارے  لیے زندگی بسر کرنے کا بے حد و حساب سرو سامان موجود ہے۔  اگر تم غفلت میں  مبتلا نہ ہو اور کچھ ہوش سے کام لے دیکھو تو تمہیں  معلوم ہو کہ اِس زمین کو تمہاری زندگی کے قابل بنانے اور اس کے اندر رزق کے اتھاہ خزانے جمع کر دینے میں  کتنی حکمتیں  کار فرما ہیں ۔  (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، النمل، حواشی۷۳۔۷۴۔۸۱۔ جلد چہارم، یٰس، حواشی۲۹۔۳۲۔المومن، حواشی۹۰۔۹۱۔ الزُّخْرُف، حاشیہ۷۔ الجاثیہ، حاشیہ۷۔ جلد پنجم، ق، حاشیہ۱۸)۔

24: یعنی اِ س زمین پر چلتے پھرتے اور خدا کا بخشا ہوا رزق کھاتے ہوئے اِ س بات کو نہ بھولو کہ آخر کار تمہیں  ایک دن خدا کے حضور حاضر ہونا ہے۔

 25: اس کا یہ مطلب نہیں  ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں  رہتا ہے،  بلکہ یہ بات اس لحاظ سے فرمائی گئی ہے کہ انسان فطری طور پر جب خدا سے رجوع کرنا چاہتا ہے تو آسمان کی طرف دیکھتا ہے۔  دعا مانگتا ہے تو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے۔  کسی آفت کے موقع پر سب سہاروں  سے مایوس ہوتا ہے تو آسمان کا رُخ کر کے خدا سے فریاد کرتا ہے۔  کوئی ناگہانی بلا آ پڑتی ہے تو کہتا ہے یہ اُوپر سے نازل ہوئی ہے۔  غیر معمولی طور پر حاصل ہونے والی چیز کے متعلق کہتا ہے یہ عالمِ بالا سے آئی ہے۔  اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتابوں   کو کتبِ سماوی یا کتبِ آسمانی کہا جاتا ہے۔  ابو داؤد میں  حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص ایک کالی لونڈی کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں  حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھ پر ا یک مومن غلام آزاد کرنا واجب ہو گیا ہے،  کیا میں  اس لونڈی کو آزاد کر سکتا ہوں ؟ حضورؐ نے اُس لونڈی سے پو چھا  اللہ کہاں  ہے ؟ اُس نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کر دیا۔ حضورؐ نے پوچھا اور میں  کون ہوں ؟ اُس نے پہلے آپؐ کی طرف اور پھر آسمان کی طرف اشارہ کیا،  جس سے اُس کا یہ مطلب واضح ہو رہا تھا کہ آپ اللہ کی طرف سے آئے ہیں۔  اور پر حضورؐ نے فرمایا، اسے آزاد کر دو، یہ مومنہ ہے ( اسی سے ملتا جُلتا قصہ مُوَطَّا، مُسلم اور نسائی میں  بھی روایت ہوا ہے )۔ حضرت خَوْلَہ بنت ثعْلَبَہ کے متعلق حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ لوگوں  سے فرمایا، وہ خاتون ہیں  جن کی شکایت سات آسمانوں  پر سُنی گئی (تفسیر سورہ مجادلہ حاشیہ۲ میں  ہم اِس کی تفصیل نقل کر چکے ہیں )۔ان ساری باتوں  سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات کچھ انسان کی فطرت ہی میں  ہے کہ وہ جب خدا کا تصور کرتا ہے تو اُس کے ذہن نیچے زمین کی طرف نہیں  بلکہ اُوپر آسمان کی طرف جاتا ہے۔  اسی بات کو ملحوظ رکھ کر یہاں  اللہ تعالیٰ کے متعلق مَنْ فِی السَّمَآءِ (وہ جو آسمان میں  ہے ) کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں ۔  اس میں  اِس شبہ کی کوئی گنجائش نہیں  ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کو آسمان میں  مقیم قرار دیتا ہے۔  یہ شبہ آخر کیسے پیدا ہو سکتا ہے  جبکہ اسی سورہ مُلک کے آغاز میں  فرمایا جا چکا ہے  کہ اَلَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا  (جس نے تہ بر تہ سات آسمان پیدا کیے )اور سورہ بقرہ میں  ارشاد ہوا ہے،  فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْ ا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ ط (پس تم جدھر بھی رُخ کرو اُس طرف اللہ کا رُخ ہے )۔

26: مراد یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ اِس زمین پر تمہارا بقا اور تمہاری سلامتی ہر وقت اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے۔  اپنے بل بوتے پر تم یہاں  مزے سے نہیں  دندنا رہے ہو۔ تمہاری زندگی کا ایک ایک لمحہ جو یہاں  گزر رہا ہے،  اللہ کی حفاظت اور نگہبانی کا  رہینِ مِنّت ہے۔  ورنہ کسی وقت بھی اُس کے ایک اشارے سے ایک زلزلہ ایسا آ سکتا ہے کہ یہی زمین تمہارے لیے آغوشِ مادر کے بجائے قبر کا گڑھا بن جائے،  یا ہوا کا ایسا طوفان آ سکتا ہے جو تمہاری بستیوں  کو غارت کر کے رکھ دے۔

27: تنبیہ سے مراد وہ تنبیہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم اور قرآن پاک کے ذریعہ سے کفار مکہ کو کی جا رہی تھی کہ اگر کفر و شرک سے باز نہ آؤ گے اور اس دعوتِ توحید کو نہ مانو گے جو تمہیں  دی جا رہی ہے تو خدا کے عذاب میں  گرفتار ہو جاؤ گے۔

 28: اشارہ ہے اُن قوموں  کی طرف جو اپنے ہاں  آنے والے انبیاء کو جھُٹلا کر اِس سے پہلے مبتلائے عذاب ہو چکی تھی۔

29: یعنی ایک ایک پرندہ جو ہوا میں  اڑرہا ہے،  خدائے رحمٰن کی حفاظت میں  اڑ رہا ہے۔  اُسی نے ہر پرندے  کو وہ ساخت عطا فرمائی جس سے وہ اڑنے کے قابل ہوا۔ اسی نے ہر پرندے کو اڑنے کا طریقہ سکھایا۔ اُسی نے ہوا کو اُن قوانین کا پابند کیا جن کی بدولت ہوا سے زیادہ بھاری جسم رکھنے والی چیزوں  کا اُس میں  اڑنا ممکن ہوا۔ اور وہی ہر اڑنے والے کو فضا میں  تھامے ہوئے ہے،  ورنہ جس وقت بھی اللہ اپنی حفاظت اُس سے ہٹا لے،  وہ زمین پر آرہے۔

 30: یعنی کچھ پرندوں  ہی پر موقوف نہیں،  جو چیز بھی دنیا میں  موجود ہے اللہ کی نگہبانی کی بدولت موجود ہے۔   وہی ہر شے کے لیے وہ اسباب فراہم کر رہا ہے جو اس کے وجود کے لیے درکار ہیں،  اور وہی اس بات کی نگرانی کر رہا ہے کہ اس کی پیدا کر دہ مخلوق کو اس کی ضروریات بہم پہنچیں۔

 31: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’رحمان کے سوا  وہ کون ہے جو تمہارا لشکر بنا ہوا تمہاری دستگیری کرتا ہو‘‘۔ہم نے متن میں  جو ترجمہ کیا ہے وہ آگے کے فقرے سے مناسبت رکھتا ہے،  اور اس دوسرے ترجمہ کی مناسبت پچھلے سلسلہ کلام سے ہے۔

32: یعنی جانوروں  کی طرح منہ نیچا کیے ہوئے اُسی ڈگر پر چلا جا رہا ہو جس پر کسی نے اسے ڈال دیا ہو۔

33: یعنی اللہ نے تو تمہیں  انسان بنا یا تھا، جانور نہیں  بنایا تھا۔ تمہارا کام یہ نہیں  تھا کہ جو گمراہی بھی دنیا میں  پھیلی ہوئی ہو اس کے پیچھے آنکھیں  بند کر کے چل پڑو اور کچھ نہ سوچو کہ جس راہ پر تم جا رہے ہو وہ صحیح بھی ہے یا نہیں۔  یہ کان تمہیں  اس لیے تو نہیں  دیے گئے تھے کہ جو شخص تمہیں  صحیح اور غلط کا فرق سمجھانے کی کوشش کرے اس کی بات سُن کر نہ دو اور جو غلط سلط باتیں  پہلے سے تمہارے دماغ میں  بیٹھی ہوئی ہیں  اُنہی پر اَڑے رہو۔ یہ آنکھیں  تمہیں  اس لیے تو نہیں  دی گئی تھیں  کہ اندھے بن کر دوسروں  کی پیروی کرتے رہو اور خود اپنی بینائی سے کام لے کر یہ نہ دیکھو کہ زمین سے آسمان تک ہر طرف جو نشانیاں  پھیلی ہوئی ہیں  وہ آیا اُس توحید کی شہادت دے رہی ہے جسے خدا کا رسول پیش کر رہا ہے  یا یہ  شہادت دے رہی ہیں  کہ یہ سارا نظامِ کائنات بے خدا  ہے یا بہت سے خدا اس کو چلا رہے ہیں۔  اسی طرح یہ دل و دماغ بھی تمہیں  اس لیے نہیں  دیے گئے تھے کہ تم سوچنے سمجھنے کا کام دوسروں  کے حوالے کر کے ہر اُس طریقے کی پیروی کرنے لوگ جو دنیا میں  کسی نے جا ری کر دیا ہے اور اپنی عقل سے کام لے کر یہ سوچنے کی کوئی زحمت گوارا نہ کرو کہ وہ غلط ہے یا صحیح۔ اللہ نے علم و عقل اور سماعت و بینائی کی یہ نعمتیں  تمہیں  حق شناسی کے لیے دی تھیں۔  تم نا شکری کر رہے ہو  کہ ان سے اور سارے کام تو لیتے ہو مگر بس وہی ایک کام نہیں  لیتے جس کے لیے یہ دی گئی تھیں  ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم،  النحل،  حواشی۷۲۔۷۳، جلد سوم، المومنون، حواشی۷۵۔۷۶۔ جلد چہارم،  السجدہ، حواشی۱۷۔۱۸۔ الاحقاف، حاشیہ ۳۱)۔

34: یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے  ہر گوشہ زمین سے گھیر لائے جاؤ گے اور اس کے سامنے حاضر کر دیے جاؤ گے۔

 35: یہ سوال اس غرض کے لیے نہ تھا کہ وہ قیامت کا وقت اور اُس کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے تھے اور اس بات کے لیے تیار تھے کہ اگر انہیں  اُس کی آمد کا سال، مہینہ، دن اور وقت بتا دیا جائے تو وہ اسے مان لیں  گے۔  بلکہ دراصل وہ اُس کے آنے کو غرا ممکن اور بعید از عقل سمجھتے تھے اور یہ سوال اس غرض کے لیے کرتے تھے کہ اُسے جھٹلانے کا ایک بہانہ اُن کے ہاتھ آئے۔  ان کا مطلب یہ تھا کہ حشر و نشر کا یہ عجیب و غریب افسانہ جو تم ہمیں  سنا رہے ہو آخر یہ کب ظہور میں  آئے گا؟ اسے کس وقت کے لیے اٹھا رکھا گیا ہے ؟ ہماری آنکھوں   کے سامنے لا کر اسے دکھا کیوں  نہیں  دیتے کہ ہمیں  اس کا یقین آ جائے ؟ اس سلسلے یں  یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کوئی شخص اگر قیامت کا قائل ہو سکتا ہے تو عقلی دلائل سے ہو سکتا ہے،  اور قرآن میں  جگہ جگہ وہ دلائل تفصیل کے ساتھ دے دیے گئے ہیں۔  رہی اُس کی تاریخ،  تو قیامت کی بحث میں  اُس کا سوال اٹھانا ایک جاہل آدمی ہی کا کام ہو سکتا ہے۔  کیونکہ اگر بالفرض وہ بتا بھی دی جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں  پڑتا۔  نہ ماننے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ جب وہ تمہاری بتائی ہوئی تاریخ پر آ جائے گی تو مان لوں  گا، آج آخر میں  کیسے یقین کر لوں  کہ وہ اُس روز ضرور آ جائے گی( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، لقمان، حاشیہ ۶۳۔ الاحزاب،  حاشیہ ۱۱۶۔ سبا، حواشی۵۔۴۸۔ یٰس، حاشیہ ۴۵)۔

36: یعنی یہ تو مجھے معلوم ہے کہ وہ ضرور آئے گی، اور لوگوں  کو اس کی آمد سے پہلے خبر دار کر دینے کے لیے یہی جاننا کافی ہے۔  رہی یہ بات کہ وہ کب آئے گی، تو اس کا علم اللہ کو ہے،  مجھے نہیں  ہے،  اور خبردار کرنے کے لیے اس علم کی کوئی حاجت نہیں۔  اس معاملہ کو ایک مثال سے اچھی طرح سمجھاجا سکتا ہے۔  یہ بات کہ کون شخص کب مرے گا، اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔  البتہ یہ ہمیں  معلوم ہے کہ ہر شخص کو ایک دن مرنا ہے۔  ہمارا یہ علم اس بات کے لیے کافی ہے کہ ہم اپنے کسی غیر محتاط دوست کو یہ تنبیہ کریں  کہ ہو مرنے سے پہلے اپنے مفاد کی حفاظت کا انتظام کر لے۔  اس تنبیہ کے لیے یہ جاننا ضرور نہیں  ہے  کہ وہ کس روز مرے گا۔

37: یعنی ان کا وہی حال ہو گا جو پھانسی کے تختہ کی طرف لے جائے جانے والا ہے کسی مجرم کا ہوتا ہے۔

 38: مکہ معظمہ میں  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی دعوت کا آغاز ہوا اور قریش کے مختلف خاندانوں  سے تعلق رکھنے والے افراد نے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا تو گھر گھر حضورؐ اور آپ کے ساتھیوں  کو بد دعائیں  دی جانے لگیں۔  جادو ٹونے کیے جانے لگے تا کہ آپ ہلاک ہو جائیں۔  حتیٰ کہ قتل کے منصوبے بھی سوچے جانے لگے۔  اس پر یہ فرمایا گیا کہ ان سے کہو، خواہ ہم ہلاک ہو یا خدا کے فضل سے زندہ رہیں،  اس سے تمہیں  کیا حاصل ہو گا؟ تم اپنی فکر کرو کہ خدا کے عذاب سے تم کیسے بچو گے۔

 39: یعنی ہم خدا پر ایمان لائے ہیں  اور تم اس سے انکار کر رہے ہو، ہمارا بھروسا خدا پر ہے اور تمہارا اپنے جتھوں  اور اپنے وسائل اور اپنے معبودانِ غیر اللہ پر۔ اس لیے خدا کی رحمت کے مستحق ہم ہو سکتے ہیں  نہ کہ تم۔

40: یعنی کیا  خدا کے سوا کسی میں  یہ طاقت ہے کہ ان سورتوں  کو پھر سے جاری کر دے ؟ اگر نہیں  ہے ،  اور تم جانتے ہو کہ نہیں  ہے،  تو پھر عبادت کا مستحق خدا ہے،  یا تمہارے وہ معبود جو اُنہیں  جاری کرنے کی کوئی قدرت نہیں  رکھتے ؟ اس کے بعد تم خود اپنے ضمیر سے پوچھو کہ گمراہ خدائے واحد کو ماننے والے ہیں  یا وہ جو شرک کر رہے ہیں ؟