تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الکَوثَر

نام

اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ   کے لفظ الکوثر کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول

ابن  مَرْدُوْیَہ نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ،  حضرت عبداللہ بن الزبیرؓ اور حضرت عائشہؓ صدیقہ سے نقل کیا ہے کہ یہ سورۃ مکّی ہے،  کَلْبی اور مُقاتِل بھی اسے مکّی کہتے ہیں،  اور جمہور مفسّرین کا قول بھی یہی ہے۔  لیکن حضرت حسن بصری، عِکْرِمَہ،  مجاہد اور قَتادہ اِس کو مدنی قرار دیتے ہیں،  امام سیوطی نے اِتْقان میں  اِسی قول کو صحیح ٹھیرایا ہے،  اور امام نَوَوِی نے شرح مسلم میں  اِسی کو ترجیح دی ہے۔  وجہ اِس  کی وہ روایت ہے جو امام احمد، مسلم،  ابوداؤد، نَسائی، ابن ابی شَیْبَہ، ابن المُنذِر، ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ محدّثین نے حضرت اَنَس بن مالک سے نقل کی ہے کہ حضورؐ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے۔  اتنے میں  آپ کو کچھ اُونگھ  سی طاری ہوئی، پھر آپ نے مُسکراتے ہوئے سرِ مبارک اُٹھایا۔ بعض روایات میں  ہے کہ لوگوں  نے پوچھا آپ کس بات پر تبسم فرما رہے ہیں ؟ اور بعض میں  ہے کہ آپ نے خود لوگوں  سے فرمایا اِس وقت میرے اوپر ایک سورۃ نازل ہوئی ہے۔  پھر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر سورۂ کوثر پڑھی۔ اس کے بعد آپ نے پوچھا جانتے ہو کہ کوثر کیا  ہے ؟ لوگوں  نے عرض کیا  کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے۔  فرمایا وہ ایک نہر ہے جو میرے ربّ نے مجھے جنت میں  عطا کی ہے (اس کی تفصیل آگے ’’کوثر‘‘ کی تشریح میں  آ رہی ہے )۔ اِس روایت  سے اِس سورہ کے مدنی ہونے پر اِس وجہ سے استدلال کیا گیا ہے کہ حضرت اَنَس ؓ مکّہ میں  نہیں  بلکہ مدینے  میں  تھے،  اور اُن کا یہ کہنا کہ ہماری موجودگی میں  یہ سورۃ نازل ہوئی، اس بات ی دلیل ہے کہ یہ مدنی ہے۔

مگر اول تو اِنہی حضرت انس سے امام احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، تِرْمِذی، اور ابن جریر نے یہ روایات نقل کی ہیں  کہ جنت کی یہ نہر (کوثر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو معراج میں  دکھائی جا چکی تھی، اور سب کو معلوم ہے کہ معراج ہجرت سے پہلے مکّہ میں  ہوئی تھی۔ دوسرے،  جب معراج میں  آپ کو اللہ تعالیٰ کے اِس عطیہ کی نہ صرف خبر دی جا چکی تھی بلکہ اس کا مشاہدہ بھی کرا دیا گیا تھا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ حضور کو اُس خوشخبری دینے کے لیے مدینہ طیّبہ میں  سورۂ کوثر نازل کی جاتی۔ تیسرے،  اگر صحابہ کے ایک مجمع میں  حضور ؐ نے خود سُورۂ کوثر کے نزول کی وہ خبر دی ہوتی جو حضرت اَنَس ؓ کی مذکورۂ بالا روایت میں   بیان ہوئی ہے اور اُس کا مطلب یہ ہوتا کہ پہلی مرتبہ یہ سورۃ اِسی وقت نازل ہوئی ہے،  تو کس طرح ممکن تھا کہ حضرت عائشہ،  حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن زبیر جسے  باخبر صحابہ اِس سورۃ کو مکّی قرار دیتے اور جمہورِ مفسّرین اس کے مکّی ہونے کے قائل ہو جاتے ؟ اس معاملہ پر غور کیا جائے تو حضرت انس کی روایت میں  یہ خلا صاف محسوس ہوتا ہے کہ اُس میں  یہ تفصیل بیان نہیں  ہوئی ہے کہ جس مجلس میں  حضور ؐ نے بات ارشاد فرمائی تھی اُس میں  پہلے سے کیا گفتگو چل رہی تھی۔ ممکن ہے کہ اُس وقت حضور ؐ کسی مسئلے پر کچھ ارشاد فرما رہے ہوں ،  اُس کے دوران میں  وحی کے ذریعے سے آپ کو مطلع کیا گیا ہو کہ اِس مسئلے پر سورۂ کوثر سے روشنی پڑتی ہے،  اور آپ نے اِسی بات کا ذکر یوں  فرمایا ہو کہ مجھ پر یہ سورۃ نازل ہوئی ہے۔  اِس قسم کے واقعات متعدد مواقع پر پیش آئے ہیں  جن کی بنا  مفسّرین نے بعض آیات کے متعلق کہا ہے کہ وہ دو مرتبہ نازل ہوئی ہیں  اس دوسرے نزول کا مطلب دراصل یہ ہوتا ہے کہ آیت تو پہلے نازل  ہو چکی تھی، مگر دوسری بار کسی موقع پر حضورؐ کو بذریعۂ وحی اُسی آیت کی طرف توجہ دلائی گئی۔ ایسی روایات میں  کسی آیت کے نزول کا ذکر یہ فیصلہ کرنے کے لیے کافی نہیں  ہوتا کہ وہ مکّی ہے یا مدنی، اور اس کا اصل نزول فی الواقع کس زمانے میں  ہوا تھا۔

تاریخی پَسْ منظر

اِس سے پہلے سورۂ ضُحیٰ اور سورۂ الم نشرح میں  آپ دیکھ چکے ہیں  کہ نبوّت کے ابتدائی دور میں  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم شدید ترین مشکلات سے گزر رہے تھے،  پوری قوم دشمنی پر تلی ہوئی تھی،  مزاحمتوں  کے پہاڑ راستے میں  حائل تھے،  مخالفت کا طوفان برپا تھا، اور حضورؐ اور آپ کے چند مٹھی بھر ساتھیوں  کو دور دور تک کہیں  کامیابی کے آثار نظر نہیں  آتے تھے،  اُس وقت آپ کو تسلی دینے اور آپ کی ہمت بندھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات نازل فرمائیں۔  سُورۂ ضحیٰ میں  فرمایا   وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرُ لَّکَ مِنَ الْاُوْلیٰo  وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیo ’’اور یقیناً تمہارے لیے بعد کا دور (یعنی ہر بعد کا دور) پہلے دور سے بہتر ہے اور عنقریب تمہارا رب تمہیں  وہ کچھ دے گا جس سے تم خوش ہو جاؤ گے ‘‘۔ اور الم نشرح میں  فرمایا کہ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ ’’اور ہم نے تمہارا آوازہ بلند کر دیا‘‘۔ یعنی دشمن تمہیں  ملک بھر میں  بدنام کرتے پھر رہے ہیں  مگر ہم نے اُن کے علیٰ الرَّغْم تمہارا نام روشن کر نے اور تمہیں  ناموَری عطا کرنے کا سامان کر دیا ہے۔  اور فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً o اِنَّ مَعَ  الْعُسْرِ یُسْراً o  ’’پس حقیقت  یہ ہے کہ تنگی کے  ساتھ فراخی بھی ہے،  یقیناً تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے ‘‘۔ یعنی اِس وقت حالات کی سختیوں  سے پریشان نہ ہو،  عنقریب یہ مصائب کا دور ختم ہونے والا ہے اور کامیابیوں  کا دور آنے ہی والا ہے۔

ایسے ہی حالات تھے جن میں  سورۂ کوثر نازل  کر کے اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کو تسلی بھی دی اور آپ کے مخالفین کے تباہ و برباد ہونے کی پیشینگوئی بھی فرمائی۔ قریش کے کفّار کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم) ساری قوم سے کٹ گئے ہیں  اور اُن کی حیثیت ایک بے کس اور بے یار و مددگار انسان کی سی ہو گئی ہے۔  عِکْرِمَہ کی روایت ہے کہ جب حضورؐ نبی بنائے گئے اور آپ نے قریش کو اسلام کی دعوت دینی شروع کی تو قریش کے لوگ کہنے لگے بَتِر محمدٌ مِنّا (ابن جریر) یعنی محمدؐ اپنی قوم سے کٹ کر ایسے ہو گئے ہیں   جیسے کوئی درخت اپنی جڑ سے کٹ گیا ہو اور متوقَّع یہی ہو  کہ کچھ مدت بعد  وہ سُوکھ کر پیوند خاک ہو جائے گا۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں  کہ مکّہ کے سردار عاص بن وائل سَہْمِی کے سامنے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر کیا جاتا  تو وہ کہتا:’’اجی چھوڑو اُنہیں،  وہ تو ایک ابتر (جڑ کٹے ) آدمی ہیں،  ان  کو کوئی اولادِ نرینہ نہیں،  مر جائیں  گے تو کوئی ان کا نام لیوا نہ ہو گا‘‘۔ شِمر بن عطیہ کہ بیان ہے کہ عُقْبَہ بن ابی مُعَیط بھی ایسی ہی باتیں  حضورؐ کے متعلق کہا کرتا تھا (ابن جریر)۔ ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ کعب بن اشرف(مدینہ کا یہودی سردار) مکہ آیا تو قریش کے سرداروں  نے اس سے کہا الا تریٰ الیٰ ھٰذا الصبّی المنبتر من قومہ Oیزعم انہ خیر منّا و نحن اھل الحجیج و اھل السدانۃ واھل السقایۃ۔ ’’بھلا دیکھو تو سہی اِس لڑکے کو جو اپنی قوم سے کٹ گیا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ ہم سے بہتر ہے،  حالانکہ ہم حج اور سدانت اور سقایت کے منتظم ہیں ‘‘ (بَزّار)۔ اسی واقعہ کے متعلق عِکْرِمَہ کی روایت یہ ہے کہ قریش والوں  نے حضورؐ کے لیے الصُّنْبورُ الْمُنْبَتِر من قومہ کے الفاظ استعمال کیے تھے،  یعنی ’’کمزور،  بے یار و مددگار اور بے اولاد آدمی جو اپنی قوم سے کٹ گیا ہے ‘‘(ابن جریر)۔ ابن سعد اور ابن عَساکِر کی روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سب سے بڑے صاحبزادے قاسمؓ تھے،  ان سے چھوٹی حضرت زینب ؓ تھیں،  ان سے چھوٹے حضرت عبدؓاللہ تھے،  پھر علی الترتیب تین صاحبزادیاں   اُمِّ کُلثوم ؓ، فاطمہؓ اور رُقَیَّہ ؓ تھیں۔  ان میں  سے پہلے حضرت قاسم کا انتقال ہوا، پھر حضرت عبداللہ نے بھی وفات پائی۔ اس پر عاص بن وائل نے کہا ’’اُن کی نسل ختم ہو گئی۔ اب وہ ابتر ہیں ‘‘ (یعنی ان کی جڑ کٹ گئی)۔ بعض روایات میں  یہ اضافہ ہے کہ عاص نے کہا  ان محمداً بتر لا ابن لہ یقومُ مقامہ بعد ہ فا ذا مات انقطع ذکرہ و استر حتم منہ۔ ’’ محمدؐ ابتر ہیں،  ان کا کوئی بیٹا نہیں  ہے جو ان کا قائم مقام بنے،  جب وہ مر جائیں  گے تو ان کا نام دنیا  سے مٹ جائے گا اور ان سے تمہارا پیچھا چھوٹ جائے گا‘‘۔ عبد بن حُمَید نے ابن عباسؓ  کی جو روایت نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ کے صاحبزادے عبد اللہ کی وفات پر ابو جہل نے بھی ایسی ہی باتیں  کہی تھیں۔  شَمِر بن عطیہ سے  ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ حضورؐ کے اِس غم پر خوشی مناتے ہوئے ایسے ہی کمینہ پن کا مظاہرہ عُقْبہ بن ابی مُعَیط نے کیا تھا۔ عطاء کہتے ہیں  کہ جب حضورؐ کے دوسرے صاحبزادے کا انتقال ہوا تو حضورؐ کا اپنا چچا ابولہب (جس کا گھر بالکل حضورؐ کے گھر سے متصل تھا) دوڑا ہوا مشرکین کے پاس گیا اور اُن کو یہ ’’خوشخبری‘‘ دی کہ بَتِر محمّدٌ اللّیْلۃ۔ ’’ آج رات محمدؐ لا ولد ہو گئے  یا ان کی جڑ کٹ گئی‘‘۔

یہ تھے وہ انتہائی دل شکن حالات جن میں  سورۂ کوثر حضورؐ پر نازل کی گئی۔ قریش اس لیے آپ سے بگڑے  تھے کہ آپ صرف اللہ  ہی کی بندگی و عبادت کرتے تھے اور ان کے شرک کو آپ نے عَلانیہ رد کر دیا تھا۔ اِسی وجہ سے پوری قوم میں  جو مرتبہ و مقام آپ کو نبوت سے پہلے حاصل تھا وہ آپ سے چھین  لیا گیا تھا اور آپ گویا برادری سے کاٹ پھینکے گئے تھے۔  آپ کے چند مٹھی بھر ساتھی سب بے یار و مددگار تھے اور مارے  کھدیڑے جا رہے تھے۔  اس پر مزید آپ پر ایک کے بعد ایک بیٹے کی وفات سے غموں  کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ اس موقع پر عزیزوں،  رشتہ داروں،  قبیلے اور برادری کے لوگوں  اور ہمسایوں  کی طرف سے ہمدردی و تعزیت کے بجائے ہو خوشیاں  منائی  جا رہی تھیں ،  اور وہ باتیں  بنائی جا رہی تھیں  جو ایک ایسے شریف انسان کے لیے دل توڑ دینے والی تھیں  جس نے اپنے تو اپنے،  غیروں  تک سے ہمیشہ انتہائی نیک سلوک کیا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اِس مختصر ترین سورۃ کے ایک فقرے میں  وہ خوشخبری دی جس سے بڑی خوش خبری دنیا کے کسی انسان کو کبھی نہیں  دی گئی۔ اور ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی سنا دیا کہ آپ کی مخالفت کرنے والوں  ہی کی جڑ کٹ جائے گی۔

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
 (اے نبیؐ) ہم نے تمہیں  کوثر عطا کر دیا۔ 1 پس تم اپنے ربّ ہی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ 2 تمہارا دُشمن 3 ہی جَڑ کٹا ہے۔  4 ؏۱

 

1: کوثر کا لفظ یہاں  جس طرح استعمال کیا گیا ہے اس کا پورا مفہوم ہماری زبان تو درکنار، شاید دنیا کی کسی زبان میں  بھی ایک لفظ سے ادا نہیں   کیا جا سکتا۔ یہ کثرت سے مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے لُغوی معنی  تو بے انتہا کثرت  کے ہیں،  مگر جس موقع پر اِس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے اُس میں  محض کثرت کا نہیں  بلکہ خیر اور بھلائی اور نعمتوں  کی کثرت،  اور ایسی کثرت کا مفہوم نکلتا ہے جو اِفراط اور فراوانی کی حد کو پہنچی ہوئی ہو، اور اُس سے مُراد کسی ایک خیر یا بھلائی یا نعمت کو نہیں   بلکہ بے شمار بھلائیوں  اور نعمتوں  کی کثرت ہے۔ دیباچے میں  اِس سورہ کا جو پَس منظر ہم نے بیان کیا ہے اُس پر ایک مرتبہ نگاہ ڈال کر دیکھیے۔  حالات وہ تھے جب دشمن یہ سمجھ رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم ہر حیثیت سے تباہ ہو چکے ہیں۔  قوم سے کٹ کر بے یار و مددگار رہ  گئے۔  تجارت برباد ہو گئی۔ اولادِ نرینہ تھی جس سے آگے اُن کا نام چل سکتا تھا۔  وہ بھی وفات پا گئی۔ بات ایسی لے کر اٹھے ہیں  کہ چند گِنے چُنے آدمی چھوڑ کر مکّہ تو درکنار،  پورے عرب میں  کوئی اس کو سننا تک گوارا نہیں  کرتا۔ اس لیے اُن کے مقدر میں  اس کے سوا کچھ نہیں  کہ جیتے جی ناکامی و نامرادی سے دوچار  رہیں  اور جب وفات پا جائیں  تو دنیا میں  کوئی اُن کا نام لیوا بھی نہ ہو۔ اِس حالت میں  جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمایا گیا  کہ ہم نے تمہیں  کوثر عطا کر دیا تو اِس سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ تمہارے مخالف بے وقوف تو یہ سمجھ رہے ہیں  کہ تم برباد ہو گئے اور نبوت سے پہلے جو نعمتیں  تمہیں  حاصل تھیں  وہ بھی تم سے چھن گئیں ،  لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں  بے انتہا خیر اور بے شمار نعمتوں  سے نواز دیا ہے۔  اس میں  اخلاق کی وہ بے نظیر خوبیاں  بھی شامل ہیں  جو حضورؐ کو بخشی گئیں۔  اس میں  نبوت اور قرآن اور علم  اور حکمت کی وہ عظیم نعمتیں  بھی شامل ہیں  جو آپ کو عطا کی گئی ہیں۔  اس میں  توحید اور ایک ایسے نظام زندگی کی نعمت بھی شامل ہے جس کے سیدھے سادھے،  عام فہم، عقل و فطرت کے مطابق اور جامع ہ ہمہ گیر اصول تمام عالَم میں  پھیل جانے اور ہمیشہ  پھیلتے ہی چلے جانے کی طاقت رکھتے ہیں ۔ اس میں  رفعِ ذکر کی نعمت بھی شامل ہے جس کی بدولت  حضور ؐ کا نام نامی چودہ برس سے دنیا کے گوشے گوشے میں  بلند ہو رہا ہے اور قیامت تک بلند ہوتا رہے گا۔ اس میں  یہ نعمت بھی شامل ہے کہ آپ ؐ کی دعوت سے  بالآخر ایک ایسی عالمگیر امّت وجود میں  آئی جو دنیا میں  ہمیشہ کے لیے دینِ  حق کی علمبردار بن گئی، جس سے زیادہ نیک اور پاکیزہ اور بلند پایہ انسان دنیا کی کسی امت میں  کبھی پیدا نہیں  ہوئے،  اور جو بگاڑ کی حالت کو پہنچ کر بھی دنیا کی سب قوموں  سے بڑھ کر خیر اپنے اندر رکھتی ہے۔  اس میں  یہ نعمت بھی شامل ہے کہ حضورؐ نے اپنے آنکھوں  سے اپنی حیاتِ مبارکہ  ہی میں  دعوت کو انتہائی کامیاب دیکھ لیا اور آپ ؐ کے ہاتھوں  سے وہ جماعت تیار ہو گئی جو دنیا پر چھا جانے کی طاقت رکھتی تھی۔ اِس میں  یہ نعمت بھی شامل ہے  کہ اولاد نرینہ سے محروم ہو جانے کی بنا پر دشمن تو یہ سمجھتے تھے کہ آپؐ کا نام و نشان دنیا سے مٹ جائے گا،  لیکن اللہ نے صرف یہی نہیں  کہ مسلمانوں  کی صورت میں  آپؐ کو وہ روحانی اولاد عطا فرمائی جو قیامت تک تمام روئے زمین پر آپ کا نام روشن کرنے والی ہے،  بلکہ آپ کی صرف ایک ہی صاحبزادی فاطمہؓ سے آپ کو وہ جسمانی  اولاد بھی عطا کی جو دنیا بھر میں  پھیلی ہوئی ہے اور جس کا سارا سرمایۂ افتخار ہی حضورؐ سے اس کا انتساب ہے۔  یہ تو وہ نعمتیں  ہیں  جو اِس دنیا میں  لوگوں  نے دیکھ لیں  کہ وہ کس فراوانی کے ساتھ اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ  علیہ و سلم کو عطا فرمائیں  ان کے علاوہ کوثر سے مراد  دو مزید ایسی نعمتیں   بھی ہیں   جو آخرت میں  اللہ تعالیٰ آپؐ کو دینے والا ہے۔  اُن کو جاننے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہ تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے ہمیں  اُن کی خبر دی اور بتایا کہ کوثر سے مراد وہ بھی ہیں ۔  ایک حوضِ کوثر جو قیامت کے روز میدانِ حشر میں  آپؐ کو ملے گا۔ دوسرے نہرِ کوثر جو جنت میں  آپ ؐ کو عطا فرمائی جائے گی۔  اِن دونوں  کے متعلق اِس کثرت سے احادیث حضورؐ سے  منقول ہوئی ہیں   اور اتنے کثیر راویوں  نے ان کو روایت کیا ہے کہ اُن کی صحت میں  کسی شبہ کی گنجائش نہیں۔  حوضِ کوثر کے متعلق حضور ؐ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہے : (۱) یہ حوض قیامت کے روز آپؐ کو عطا ہو گا اور اُس سخت وقت میں ،  جبکہ ہر ایک العَطَش العَطَش کر رہا ہو گا، آپؐ کی امت آپ کے پاس اُس پر حاضر ہو گی اور اس سے سیراب ہو گی۔ آپ اس پر سب سے پہلے پہنچے ہوئے ہوں  گے اور اُس کے وسط میں  تشریف فرما ہوں  گے۔  آپ کا ارشاد ہے  ھو حوض ترد علیہ امتی یوم القیٰمۃ۔’’ وہ ایک حوض ہے جس پر میری امت قیامت کے روز وارد ہو گی‘‘۔ (مسلم، کتاب الصلوٰۃ، ابوداؤد، کتاب السّنہ)۔ اَنَا فَرَ طکم علی الحوض۔’’ میں  تم سب سے پہلے پہنچا ہوا ہوں  گا‘‘۔ (بخاری، کتاب الرّقاق اور کتاب الفتن۔ مسلم، کتاب الفضائل اور کتاب الطہارۃ۔ ابن ماجہ،  کتاب المناسک اور کتاب الزہد، مُسند احمد، مرویّاتِ عبد اللہ بن مسعودؓ، عبد اللہ بن عباس ؓ و ابوہریرہؓ)۔ انی فرط لکم و انا شھید علیکم و انی واللہ لا نظر الیٰ حوضی الاٰ ن۔’’ میں  تم سے آگے پہنچنے والا ہوں،  اور تم پر گواہی دوں  گا اور خدا کی قسم میں  اپنے حوض کو اِس وقت دیکھ رہا ہوں ‘‘۔ (بخاری،  کتاب الخبائز، کتاب المَغازی، کتاب الرّقاق)۔ انصار کو مخاطب کرتے ہوئے ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا  انکم ستلقون بعدی اَثَرۃ فاصبرو ا حتّیٰ تلقو نی علی الحوض۔’’ میں  قیامت کے  روز حوض کے وسط  کے پاس ہوں  گا‘‘ (مسلم، کتاب الفضائل)۔ حضرت ابو بَرْزہؓ اسلمی سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے حوض کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ سنا ہے ؟ انہوں  نے کہا  ایک نہیں،  دو نہیں،  تین نہیں،  چار نہیں،  پانچ نہیں،  بار بار سنا ہے،  جو اُس کو جھٹلائے اللہ اسے اس کا پانی پینا نصیب نہ کرے (ابوداؤد، کتاب السنّہ)۔ عبید اللہ بن زیاد حوض کے  بارے میں  روایات کو جھوٹ سمجھتا تحا حتیٰ کہ اس نے حضرت ابو بَرْزہؓ اسلمی،  براء ؓ بن عازب اور عائذ ؓ بن عَمْرو کی سب روایات کو جھُٹلا دیا۔ آخر کار ابو سَبْرہ ایک تحریر نکال کر لائے جو انہوں  نے حضرت عبد اللہ بن عمروؓ بن عاص سے سن کر نقل کی تھی اور اس میں   حضورؐ کا یہ ارشاد درج تھا کہ الا اِن موعد کم حوضی’’خبردار رہو، میری اور تمہاری ملاقات کی جگہ میرا حوض ہے ‘‘ (مسند احمد، مروایت عبد اللہ ؓ بن عمر و بن عاص)۔ (۲) اُس حوض کی وسعت مختلف روایات میں  مختلف  بیان کی گئی ہے۔  مگر کثیر روایات میں  یہ ہے کہ وہ اَیلہ (اسرائیل کے موجودہ بندرگاہ اَیلات) سے یمن کے صنعاء تک،  یا ایلہ سے عدن تک،  یا عَمّان سے عدن تک طویل ہو گا اور اس کی چوڑائی اتنی ہو گی جتنا اَیلہ سے حُجفہ (جدہ اور رابغ کے درمیان ایک مقام) تک کا فاصلہ ہے۔  (بخاری، کتاب الرّقاق، ابوداؤد، الطَّیالِسی، حدیث نمبر ۹۹۵۔ مُسند احمد، مرویات ابوبکر صدیق ؓ و عبد اللہ ؓ بن عمر۔ مسلم،  کتاب الطہارۃ و کتاب و  الفضائل۔ ترمذی، ابواب صفۃ القیامہ۔ ابن ماجہ، کتاب الزُّہد)۔  اِس سے گمان ہوتا ہے کہ قیامت کے روز موجودہ بحر احمر ہی کو حوضِ کوثر میں  تبدیل کر دیا جائے گا، واللہ اعلم بالصواب۔ (۳) اس حوض کے متعلق حضور ؐ نے بتایا ہے کہ اس میں  جنت کی نہر کوثر ( جس کا ذکر آگے آرہا ہے ) سے پانی لا کر ڈالا جائے گا۔ یشخب فیہ میزابان من الجنّۃ،  اور دوسری روایت میں  ہے یغت فیہ میزابان یمدّانہ من الجنّۃ،  یعنی اس میں  جنت سے دو نالیاں  لا کر ڈالی جائیں  گی جو اسے پانی بہم پہنچائیں  گی۔ (مسلم،  کتاب الفضائل)۔ ایک اور  روایت میں  ہے یُفتح نھر من الکوثر ا لی الحوض، ’’جنت کی نہر کوثر سے ایک نہر اس حوض  کی طرف کھول دی جائے گی(مُسند احمد،  مرویات عبد اللہ بن مسعودؓ)۔ (۴) اس کی کیفیت حضورؐ نے  یہ بیان فرمائی ہے کہ اس کا پانی دودھ سے اور بعض روایات میں  ہے  چاندی سے اور بعض میں  برف سے ) زیادہ سفید، برف سے زیادہ ٹھنڈا، شہد سے زیادہ میٹھا ہو گا، اس کی تہ کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار ہو گی، اس پر اتنے کوزے رکھے ہوں  گے جتنے آسمان میں  تارے ہیں۔  جو اس کا پانی پی لے گا اسے پھر کبھی پیاس نہ لگے گی۔ اور جو اس سے محروم رہ گیا  وہ پھر کبھی سیراب نہ ہو گا۔ یہ باتیں  تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ بکثرت  احادیث میں  منقول ہوئی ہیں  (بخاری، کتاب الرّقاق، مسلم، کتاب الطہارت و کتاب الفضائل۔ مُسند احمد، مرویات ابن مسعودؓ، ابن عمر ؓ، و عبداللہ ؓ بن عَمْرو بن العاص۔ ترمذی، ابواب صفتہ القیامہ۔ ابن ماجہ، کتاب الزھد۔ ابوداؤد،  طَیالِسی، حدیث ۹۹۵ و ۲۱۳۵)۔ (۵) اس کے بارے میں  حضورؐ نے بار بار اپنے زمانے کے لوگوں  کو خبردار کیا کہ میرے بعد تم میں  سے جو لوگ بھی میرے طریقے کو بدلیں  گے ان کو اُس حوض سے ہٹا دیا جائے گا اور اس پر اُنہیں   نہ آنے دیا جائے گا۔ میں  کہوں  گا کہ یہ میرے اصحاب ہیں  تو مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ کو نہیں  معلوم کہ آپ کے بعد انہوں  نے کیا کیا ہے۔  پھر میں  بھی اُن کو  دفع کروں  گا اور کہوں  گا کہ دور ہو۔ یہ مضمون بھی بکثرت روایات میں  بیان ہوا ہے (بخاری کتب الرقاق، کتاب الفتن۔ مسلم، کتاب الطہارۃ، کتاب الفضائل۔ مُسند احمد، مرویات ابن مسعودؓ  و ابو ہریرہؓ۔ ابن ماجہ،  کتاب المناسک، ابن ماجہ نے اس سلسلے میں  جو حدیث نقل کی ہے وہ بڑے ہی  دردناک الفاظ میں  ہے۔  اس میں  حضور ؐ فرماتے ہیں   الاونی فرطکم علی الحوض واکاثر بکم الامم فلا تسودواوجھی، الا و انِّی مستنقذ اُنا ساً و مستنقذ اناس منّی فاقول یا رب اسیحابی، فیقول انک لا تدری ما احدثوا بعد ا۔ ’’خبردار رہو، میں  تم سے آگے حوض پر پہنچا ہوا ہوں  گا اور تمہارے ذریعہ سے دوسری امتوں  کے مقابلے میں  اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں  گا۔ اُس وقت میرا منہ کالا نہ کروانا۔ خبردار رہو کچھ لوگوں  کو میں  چھُڑاؤں  گا اور کچھ لوگ مجھ سے چھُڑائے جائیں  گے۔  میں  کہوں  گا کہ اے پروردگار، یہ تو میرے صحابی ہیں۔  وہ فرمائے گا  تم  نہیں  جانتے اِنہوں  نے تمہارے بعد کیا نرالے کام کیے ہیں ‘‘۔ ابن ماجہ  کی روایت ہے کہ یہ الفاظ حضورؐ نے عَرَفات کے خطبے میں  فرمائے تھے )۔ (۶) اسی طرح حضور ؐ نے اپنے دور کے بعد قیامت تک آنے والے مسلمانوں  کو بھی خبردار کیا ہے کہ ان میں  سے جو بھی میرے طریقے سے ہٹ کر چلیں  گے اور اس میں  ردّ و بدل کریں  گے انہیں  اس حوض سے ہٹا دیا جائے گا، میں  کہوں  گا کہ اے ربّ یہ تو میرے ہیں،  میری امت کے لو گ ہیں۔  جواب ملے گا  آپ کو معلوم نہیں  کہ اِنہوں  نے آپ کے بعد کیا کیا تغیرات کیے اور اُلٹے ہی پھر تے چلے گئے۔  پھر میں بھی ان کو دفع کروں  گا اور حوض پر نہ آنے دوں  گا۔ اس مضمون کی بہت سی روایات احادیث میں  ہیں  (بخاری، کتاب المُسافات، کتاب الرقاق، کتاب الفتن، مسلم کتاب الطہارۃ، کتاب الصلوٰۃ، کتاب الفضائل، ابن ماجہ، کتاب الزہد۔ مُسند احمد، مرویات ابن عباسؓ)۔ اس حوض کی روایات ۵۰ سے زیادہ صحابہ سے مروی ہیں ،  اور سلف نے بالعموم  اس سے مراد حوض کوثر لیا ہے۔  امام بخاری نے کتاب الرقاق کے آخری باب کا عنوان ہی یہ باندھا ہے بابٌ فی الحوض و قول اللہ اِنَّا  اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ۔ اور حضرت انس  کی ایک روایت میں  تو تصریح ہے کہ حضورؐ نے کوثر کے متعلق فرمایا ھو حوض ترد علیہ امّتی۔’’ وہ ایک حوض ہے جس پر میری امت وارد ہو گی۔‘‘ جنت میں  کوثر نامی جو نہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو عطا کی جائے گی اس کا ذکر بھی بکثرت روایات میں  آیا ہے۔  حضرت انسؓ  سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں  جن میں  وہ فرمانے ہیں  ( اور بعض روایات میں  صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے قول کی حیثیت سے بیان کرتے ہیں ) کہ معراج کے موقع پر حضورؐ کو جنت کی سیر کرائی گئی اور اس موقع پر آپؐ نے ایک نہر دیکھی جس کے کناروں  پر اندر سے ترشے ہوئے موتیوں  یا ہیروں  کے تُبّے بنے ہوئے تھے۔  اس کی تہ کی مٹی مشکِ اَذْفَر کی تھی۔ حضور ؐ نے جبریل ؑ سے،  یا اُس فرشتے سے جس نے آپ کو سیر کرائی تھی، پوچھا یہ کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا  یہ نہر کوثر ہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے (مُسند احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، ابوداؤد طیالسی، ابن جریر)۔ حضرت انس ہی کی روایت ہے کہ حضورؐ سے پوچھا گیا ( یا ایک شخص نے پوچھا) کوثر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا  ایک نہر ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے جنت میں  عطا کی ہے۔  اس  کی مٹی مشک ہے۔  اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے (مُسند احمد، ترمذی، ابن جریر، مُسند احمد کی ایک روایت  میں  ہے کہ حضورؐ نے نہر کوثر کی یہ صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا اس کی تہ میں  کنکریوں  کے بجائے موتی پڑے ہوئے ہیں )۔ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں  کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ کوثر جنت میں  ایک نہر ہے جس کے کنارے  سونے کے ہیں،  وہ موتیوں  اور ہیروں  پر بہ رہی ہے ( یعنی کنکریوں  کی جگہ اس کی تہ میں  یہ جواہر پڑے ہوئے ہیں )، اس کی مٹی مشک سے زیادہ  خوشبودار ہے،  اس کاپانی دودھ سے (یا برف سے ) زیادہ سفید ہے،  برف سے زیادہ ٹھنڈا ہے اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے (مُسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن ابی حاتم، دارِمی، ابوداؤد طَیالِسی، ابن المُنْذِر، ابن مَرْدُوْیَہ، ابن ابی شَیْبَہ)۔ اُسامہ ؓ بن زید کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم ایک مرتبہ حضرت حمزہؓ کے ہاں  تشریف لے گئے۔  وہ گھر پر نہ تھے۔  ان کی اہلیہ نے حضورؐ کی تواضع کی اور دورانِ گفتگو عرض کیا کہ میرے شوہر نے مجھے بتایا ہے کہ آپ کو جنت میں  ایک نہر عطا کی گئی ہے جس نام کوثر ہے۔  آپ نے فرمایا ہاں،  اور اس کی زمین یا قوت و مرجان اور زَبَر جَد اور موتیوں  کی ہے (ابن جریر، ابن مُردُویَہ۔ اس کی سند اگرچہ ضعیف ہے مگر اس مضمون کی کثیر التعداد روایات کا موجود ہونا اس کو تقویت پہنچاتا ہے )۔ اِن مرفوع روایات کے علاوہ صحابہ کے بکثرت اقوال  احادیث میں  نقل ہوئے ہیں  جن میں  و ہ کوثر سے مراد جنت کی  یہ نہر لیتے ہیں  اور اس کی وہی صفات بیان کرتے ہیں  جو اوپر گزری ہیں۔  مثال کے طور پر حضرت عبد اللہ ؓ بن عمر، حضرت عبد ؓ اللہ بن عباس ؓ، حضرت اَنَس ؓ بن مالک، حضرت عائشہ ؓ،  مجاہد اور ابو العالیہ  کے اقوال مسند احمد، بخاری، ترمذی، نسائی، ابن مردویہ، ابن جریر، اور ابن ابی شیبہ وغیرہ محدثین کی کتابوں  میں  موجود ہیں۔

 2: اس کی مختلف تفسیریں  بزرگوں  سے منقول ہیں۔  بعض حضرات نے نماز سے مراد پنجوقتہ فرض نماز لی ہے،  بعض اس سے بقر عید کی نماز مراد لیتے ہیں،  اور بعض کہتے ہیں  کہ بجائے خود نماز مراد ہے۔  اسی طرح وَانْحَرْ یعنی نَحْر کرو سے مراد بعض جلیل القدر بزرگوں   سے یہ منقول ہے کہ نماز میں  بائیں  ہاتھ پر دایاں  ہاتھ رکھ کر اُسے سینے پر باندھنا ہے،  بعض کا قول  یہ ہے کہ اس سے مراد نماز شروع کرتے وقت دونوں  ہاتھ اُٹھا کر تکبیر کہنا ہے۔   بعض کا قول یہ ہے کہ افتتاحِ نماز کے وقت، اور رکوع میں  جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھ کر رفع یدین کرنا مراد ہے۔  اور بعض کہتے ہیں  کہ اس سے مراد بقر عید کی نماز پڑھنا اور اس کے بعد قربانی کرنا ہے۔  لیکن جس موقع و محل پر یہ حکم دیا گیا ہے اس پر اگر غور کیا جائے تو اس کا مطلب صریحاً   یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’اے نبی، جب تمہارے ربّ نے تم کو اتنی کثیر اور عظیم بھلائیاں  عطا کی ہیں  تو تم اُسی کے لیے نماز پڑھو اور اُسی کے لیے قربانی کرو‘‘۔ یہ حکم اُس ماحول میں  دیا گیا تھا جب مشرکین قریش ہی نہیں  تمام عرب کے مشرکین اور دنیا بھر کے مشرکین اپنے خود ساختہ معبودوں  کی عبادت کرتے تھے اور انہی کے آستانوں  پر قربانیاں  چڑھاتے تھے۔  پس حکم کا منشا یہ ہے کہ مشرکین کے برعکس تم اپنے اِسی رویّے پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہو کہ تمہاری نماز بھی اللہ ہی کے لیے ہو اور قربانی بھی اُسی کے لیے،  جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا  قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۔’’اے نبی، کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں،  اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں  سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا ہوں ‘‘۔ (الانعام، ۱۶۳-۱۶۲)۔ یہی مطلب ابن عباسؓ،  عطاء، مجاہد، عِکْرِمَہ، حسن بصری، قَتادہ، محمد بن کعب القُرَظِی، ضَحّاک، ربیع بن انس، عطاء الخراسانی، اور بہت سے دوسرے اکابر مفسرین رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے (ابن کثیر)۔ البتہ یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے جب مدینۂ طیبہ میں  اللہ تعالیٰ کے حکم سے بقر عید کی نماز اور قربانی کا طریقہ جاری کیا تو اس بنا پر کہ آیت اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ اور آیت فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ میں  نماز کو مقدم اور قربانی کو مؤخر  رکھا گیا ہے،  آپ نے خود بھی یہ عمل اختیار فرمایا اور اسی کا حکم مسلمانوں  کو دیا کہ اُس روز پہلے نماز پڑھیں  اور پھر قربانی کریں۔  یہ اس آیت کی تفسیر نہیں  ہے،  نہ اس کی شانِ  نزول ہے،  بلکہ اِن آیات سے حضورؐ کا استنباط ہے،  اور آپ کا استنباط بھی وحی کی ایک قسم ہے۔

 3: اصل میں  لفظ شَا نِئَکَ استعمال ہوا  ہے۔  شانیٔ شنٔ سے ہے جس کے معنی ایسے بغض اور ایسی عداوت کے ہیں  جس کی بنا پر کوئی شخص کسی دوسرے کے ساتھ بدسلوکی کر نے لگے۔  قرآن مجید میں  دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے وَ لَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰن قَوْ مٍ عَلیٰۤ اَ لَّا تَعْدِلُوْا۔’’اور اے مسلمانو، کسی گروہ کی عداوت تمہیں  اِس زیادتی پر آمادہ نہ کر نے پائے کہ تم انصاف نہ کرو‘‘۔ پس شَانِئَکَ سے مراد ہر وہ شخص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی دشمنی اور عداوت میں  ایسا اندھا ہو گیا ہو کہ آپ کو عیب لگاتا ہو، آپ کے خلاف بدگوئی کرتا ہو، آپ کی توہین کرتا ہو، اور آپ پر طرح طرح کی باتں ت چھانٹ کر اپنے دل کا بخار نکالتا ہو۔

4: ھُوَ الْاَبْتَر۔’’وہی اَبْتَر ہے ‘‘ فرمایا گیا ہے،  یعنی وہ آپ کو ابتر کہتا ہے،  لیکن حقیقت  میں  اَبْتَر وہ خود ہے۔  ابتر کی کچھ تشریح ہم اِس  سے پہلے اس سورۃ کے دیباچے میں  کر چکے ہیں۔  یہ لفظ بَتَر سے ہے جس کے معنی کاٹنے کے ہیں۔  مگر محاورے میں  یہ بہت وسیع معنوں  میں  استعمال ہوتا ہے۔  حدیث میں  نماز کی اُس رکعت کو جس کے ساتھ کوئی دوسری رکعت نہ پڑھی جائے بُتَیراء کہا گیا ہے،  یعنی اکیلی رکعت۔ ایک اور حدیث میں  ہے کلّ امر ذی بالٍ لایُبدأ فیہ بحمد اللہ فھو ا بتر۔’’ ہر وہ کام جو کوئی اہمیت رکھتا ہو، اللہ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے تو وہ ابتر ہے ‘‘۔ یعنی اس کی جَڑ کٹی ہوئی ہے،  اسے کوئی استحکام نصیب نہیں  ہے،  یا اس کا انجام اچھا نہیں  ہے۔  نامراد آدمی کو بھی ابتر کہتے ہیں۔  ذرائع و وسائل سے محروم ہو جانے والا بھی ابتر کہلاتا ہے۔  جس شخص کے لیے کسی خیر اور بھلائی کی توقع باقی نہ رہی ہو اور جس کی کامیابی کی سب امیدیں  منقطع ہو گئی ہوں   وہ بھی ابتر ہے۔  جو آدمی اپنے کنبے برادری اور اعوان و انصار سے کٹ کر اکیلا  رہ گیا ہو وہ بھی ابتر ہے۔  جس آدمی کو کوئی اولادِ نرینہ نہ ہو یا مر گئی ہو، اس کے لیے بھی ابتر کا لفظ بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پیچھے اس کا کوئی نام لیوا  باقی نہیں  رہتا اور مرنے کے بعد وہ بے نام و نشان ہو جاتا ہے۔  قریب قریب اِن سب معنوں  میں  کفّارِ قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ابتر کہتے تھے۔  اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی، ابتر تم نہیں  ہو بلکہ تمہارے یہ دشمن  ابتر ہیں۔  یہ محض کوئی ’’جوابی حملہ‘‘ نہ تھا، بلکہ درحقیقت یہ قرآن کی بڑی اہم پیشینگوئیوں  میں  سے ایک پیشینگوئی تھی جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ جس وقت یہ پیشینگوئی کی گئی تھی اُس وقت لوگ حضورؐ ہی کو ابتر سمجھ رہے تھے اور کوئی تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ قریش کے یہ بڑے بڑے سردار کیسے ابتر ہو جائیں  گے جو نہ صرف مکّہ میں  بلکہ پورے ملک عرب میں  نامور تھے،  کامیاب تھے،  مال و دولت اور اولاد ہی کی نعمتیں  نہیں  رکھتے تھے بلکہ سارے ملک میں  جگہ جگہ ان کے اَعوان  و انصار موجود تھے،  تجارت کے اجارہ دار اور حج کے منتظم ہونے کی وجہ سے تمام قبائل عرب سے ان کے وسیع تعلقات تھے۔  لیکن چند سال نہ گزرے تھے کہ حالات بالکل پلٹ گئے۔  یا تو وہ وقت تھا کہ غزوۂ اَحزاب (سن ۵ ہجری) کے موقع پر قریش بہت سے عرب اور یہودی قبائل کو لے کر مدینے پر چڑھ آئے تھے اور حضور ؐ کو محصور   ہو کر،  شہر کے گرد خندق کھود کر  مدافعت کرنی پڑی تھی، یا تین ہی سال بعد وہ وقت آیا کہ سن ۸ ہجری میں  جب آپ نے مکّہ پر چڑھائی کی تو قریش کا کوئی حامی و مددگار نہ تھا اور انہیں  بے بسی کے ساتھ ہتھیار ڈال دینے پڑے۔  اس کے بعد ایک سال کے اندر پورا ملک عرب حضور ؐ کے ہاتھ میں  تھا، ملک کے گوشے گوشے  سے قبائل کے وفود آ کر بیعت کر رہے تھے،  اور آپ کے دشمن بالکل بے بس اور بے یار و مددگار ہو کر رہ گئے تھے۔  پھر وہ ایسے بے نام و نشان ہوئے کہ ان کی اولاد اگر دنیا میں  باقی رہی بھی تو اُن  میں  سے آج کوئی یہ نہیں  جانتا کہ وہ ابو جہل یا ابو لہب یا عاص بن وائل یا عُقْبہ بن ابی مُعَیط وغیرہ اعدائے اسلام کی اولاد میں  سے ہے،  اور جانتا بھی ہو تو کوئی یہ کہنے کے لیے تیار نہیں  ہے کہ اس کے اسلاف یہ لوگ تھے۔  اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی آل پر آج دنیا بھر میں  درود بھیجا جا رہا ہے۔  کروڑوں  مسلمانوں  کو آپ سے نسبت پر فخر ہے۔  لاکھوں  انسان آپؐ ہی سے نہیں  بلکہ آپ کے خاندان اور آپ کے ساتھیوں  کے خاندانوں  تک سے انتساب کو باعث عزّو شرف سمجھتے ہیں۔  کوئی سیّلہ ہے،  کوئی علوی ہے،  کوئی عباسی ہے،  کوئی ہاشمی ہے،  کوئی صدیقی ہے،  کوئی فاروقی،  کوئی عثمانی، کوئی زُبیری، اور کوئی انصاری۔ مگر نام کو بھی کوئی ابو جہلی یا ابو لہبی نہیں  پایا جاتا۔ تاریخ نے یہ ثابت کر دیا کہ ابتر حضورؐ نہیں  بلکہ آپ کے دشمن ہی تھے اور ہیں۔