تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ النَّازعَات

نام

پہلے ہی لفظ  وَ النّٰزِعٰتِ   سے ماخوذ ہے۔

زمانۂ نزول

حضرت عبداللہ بن عباس کا بیان ہے کہ  یہ سُورہ نبا،  ( عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَ ) کے بعد نازل ہوئی ہے۔  اس کا مضمون بھی یہ بتا رہا ہے کہ یہ ابتدائی زمانے کی نازل شدہ سورتوں  میں  سے ہے۔ 

موضوع اور مضمون

اس کا موضوع قیامت اور زندگی بعد موت کا اثبات ہے اور ساتھ ساتھ اس بات پر تنبیہ بھی  کہ خدا کے رسول کو جھُٹلانے کا انجام کیا ہوتا ہے۔

آغازِ کلام میں  موت کے وقت جان نکالنے والے،  اور اللہ کے احکام کو بلا تا خیر بجا لانے والے،  اور حکمِ الٰہی کے مطابق ساری کائنات کا انتظام کرنے والے فرشتوں  کی قسم کھا کر یہ یقین دلایا گیا ہے کہ قیامت ضرور واقع ہو گی اور موت کے بعد دوسری زندگی ضرور پیش آ کر رہے گی۔ کیونکہ جن فرشتوں  کے ہاتھوں  آج جان نکالی جاتی ہے،  اُنہی کے ہاتھوں  دوبارہ جان ڈالی بھی جا سکتی ہے،  اور جو فرشتے آج اللہ کے حکم کی تعمیل بلا تاخیر بجا لاتے اور کائنات کا انتظام چلاتے ہیں،  وہی فرشتے کل اُسی خدا کے حکم سے کائنات کا یہ نظام درہم برہم بھی کر سکتے ہیں  اور ایک دوسرا نظام قائم بھی کر سکتے ہیں۔

اس کے بعد لوگوں  کو یہ بتا یا گیا ہے کہ یہ کام،  جسے تم بالکل نا ممکن سمجھتے ہو ،  اللہ تعالیٰ کے لیے سرے سے  کوئی دشوار کام ہی نہیں  ہے جس کے لیے کسی بڑی تیاری کی ضرورت ہو۔ بس ایک جھٹکا دنیا کے اِس نظام کو درہم بر ہم کر دے گا،  اور ایک دوسرا جھٹکا اِس کے لے ب بالکل کافی ہو گا کہ دوسری دنیا میں  یکایک تم اپنے آپ کو زندہ موجود پاؤ۔ اُس وقت وہی لوگ جو اس کا انکار کر رہے تھے،  خوف سے کانپ رہے ہوں  گے اور سہمی ہوئی نگاہوں  سے وہ سب کچھ ہوتے دیکھ رہے ہوں گے جس کو وہ اپنے نزدیک نا ممکن سمجھتے تھے۔

پھر حضرت موسیٰ اور فرعون کا قصّہ مختصراً بیان کر کے لوگوں  کو خبر دار کیا گیا ہے کہ رسول کو جھٹلانے اور اس کی ہدایت و رہنمائی کو رد کرنے اور چالبازیوں  سے اس کو شکست دینے کی کوشش کا کیا انجام فرعون دیکھ چکا ہے۔  اُس سے عبرت حاصل کر کے اِس روش سے باز نہ آؤ گے تو وہی انجام تمہیں  بھی دیکھنا پڑے گا۔

اس کے بعد آیت ۲۷ سے ۲۳ تک آخرت اور حیات بعد الموت کے دلائل بیان کیے گئے ہیں۔  اس سلسلے میں  پہلے منکرین سے پوچھا گیا ہے کہ تمہیں  دوبارہ پیدا کر دینا زیادہ سخت کام ہے یا اِس عظیم کائنات کو پیدا کر نا جو عالمِ بالا میں  اپنے بے حدو حساب ستاروں  اور سیاروں  کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے ؟ جس خدا کے لیے یہ کام مشکل نہ تھا اس کے لیے تمہاری بارِ د گر تخلیق آخر کیوں   مشکل ہو گی؟ صرف ایک فقرے میں  امکانِ آخرت کی یہ مُیکت دلیل پیش کرنے کے بعد زمین  اور اُس سرو سامان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو زمین میں  انسان  اور حیوان کی زیست کے لیے فراہم کیا گیا ہے اور جس کی ہر چیز اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ وہ بڑی حکمت کے ساتھ کسی نہ کسی مقصد کو پُورا کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔  یہ اشارہ کر کے اس سوال کو انسان کی عقل پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ خود اپنی جگہ سوچ کر رائے قائم کر دے کہ آیا اس حکیمانہ نظام میں  انسان جیسی مخلوق کو اختیارات اور ذمہ داریاں  سونپ کر اُس کا محاسبہ کرنا زیادہ مقتضائے حکمت نظر آتا ہے،  یا یہ کہ وہ زمین میں  ہر طرح کے کام کر کے مر جائے اور خاک میں  مل کر  ہمیشہ کے لیے فنا ہو جائے اور کبھی اُس سے حساب نہ لیا جائے کہ اِن اختیارات کو اس نے کیسے استعمال کیا اور اِن ذمہ داریوں  کو  کس طرح ادا کیا؟ اس سوال  پر بحث کرنے کے بجائے آیات۳۴۔۴۱ میں  یہ بتایا گیا ہے کہ جب آخرت بر پا ہو گی تو انسان کے  دائمی اور ابدی مستقبل کا فیصلہ اِس بنیاد پر ہو گا کہ کس نے دنیا میں  حدِّ بندگی سے تجاوز کر کے اپنے خدا سے سر کشی کی  اور دنیا ہی کے فائدوں  اور لذّتوں  کو مقصود بنا لیا، اور کس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کی ناجائز خواہشات کو پورا کرنے سے احتراز کیا۔ یہ بات خود بخود اوپر کے سوال کا صحیح جوب ہر اُس شخص کو بتا دیتی ہے جو ضد اور ہٹ دھرمی سے پاک ہو کر ایمانداری کے ساتھ اُس پر غور کرے۔  کیونکہ انسان کو دنیا میں  اختیارات اور ذمّہ داریاں  سونپنے کا بالکل عقلی، منطقی اور اخلاقی تقاضا یہی ہے کہ اِسی بنیاد پر آخر کار اُس کا محاسبہ کیا جائے اور اسے جزا یا سزا دی جائے۔

          آخر میں  کفّارِ مکہ کے اِس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ وہ قیامت آئے گی کب؟ یہ سوال وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے بار بار کرتے تھے۔  جواب میں  فرمایا گیا ہے کہ اُس وقت کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں  ہے۔  رسول کا کام صرف خبر دار کر دینا ہے کہ وہ وقت آئے گا ضرور۔۔ اب جس کا جی چاہے اس کے آنے کا خوف کر کے  اپنا رویّہ درست کر لے،  اور جس کا جی چاہے بے خوف ہو کر شتر بے مہار کی  طرح چلتا رہے۔  جب وہ وقت  آ جائے گا تو وہی لوگ جو اس دنیا کی زندگی  پر مرے مٹتے تھے اور اسی کو سب کچھ سمجھتے تھے،  یہ محسوس کریں  گے کہ دنیا میں  وہ صرف گھڑی بھر ٹھیر ے تھے۔  اُس وقت انہیں  معلوم ہو گا کہ اس چند روزہ زندگی کی خاطر انہوں  نے کس طرح ہمیشہ کے لیے اپنا مستقبل بر باد کر لیا۔

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
 قسم ہے اُن (فرشتوں )کی جو ڈُوب کر کھینچتے ہیں،  اور آہستگی سے نکال لے جاتے ہیں،  اور ( اُن فرشتوں  کی جو کائنات میں)تیزی سے تیرتے پھرتے ہیں،  پھر (حکم بجا لانے میں)سبقت کرتے ہیں،  پھر (احکامِ الٰہی کے مطابق)معاملات کا انتظام چلاتے ہیں۔  1 جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا جھٹکا اور اس کے پیچھے ایک اور جھٹکا پڑے گا، 2 کچھ دل ہوں  گے جو اُس روز خوف سے کانپ رہے ہوں  گے،  3 نگاہیں  اُن کی سہمی ہوئی ہوں  گی۔
یہ لوگ کہتے ہیں ’’ کیا واقعی ہم پلٹا کر پھر واپس لائے جائیں  گے ؟ کیا جب ہم کھوکھلی بوسیدہ ہڈیاں  بن چکے ہوں  گے ؟‘‘ کہنے لگے ’’ یہ واپسی تو پھر بڑے گھاٹے کی ہو گی!‘‘ 4 حالانکہ یہ بس اِتنا کام ہے کہ ایک زور کی ڈانٹ پڑے گی اور یکایک یہ کھُلے میدان میں  موجود ہوں  گے۔  5
6 کیا تمہیں  مُوسیٰؑ کے قصّے کی خبر پہنچی ہے ؟ جب اس کے ربّ نے اُسے طُویٰ کی مقدّس وادی 7 میں  پُکارا تھا کہ’’ فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے،  اور اس سے کہہ کیا تُو اِس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے اور میں  تیرے ربّ کی طرف تیری رہنمائی کروں  تو (اُس کا )خوف تیرے اندر پیدا ہو؟‘‘ 8 پھر موسیٰؑ نے (فرعون کے پاس جا کر)اُس کی بڑی نشانی دکھائی، 9 مگر اُس نے جھُٹلا دیا اور  نہ مانا، پھر چالبازیاں  کرنے کے لیے پلٹا 10 اور لوگوں  کو جمع کر کے اُس نے پکار کر کہا’’ میں  تمہارا سب سے بڑا ربّ ہوں ‘‘ 11 آخرِ کار اللہ نے اُسے آخرت اور دنیا کے عذاب میں  پکڑ لیا۔ در حقیقت اِس میں  بڑی عبرت ہے ہر اُس شخص کے لیے جو ڈرے۔   12 ؏۱

 

1: یہاں  پانچ اَوصاف رکھنے والی ہستیوں  کا قسم جس بات پر کھائی گئی ہے اس کی وضاحت نہیں  کی گئی۔  لیکن بعد کا مضمون اِس امر پر خود دلالت کرتا ہے کہ یہ قسم اِس بات پر کھائی گئی ہے کہ قیامت ضرور آئے گی اور تمام مرے ہوئے انسان ضرور از سرِ نو زندہ کر کے اٹھائے جائیں  گے۔  اِس کی وضاحت بھی نہیں  کی گئی کہ یہ پانچ اوصاف کن ہستیوں  کے ہیں،  لیکن صحابہ اور تابعین کی بڑی تعداد نے اور اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ ان سے مراد فرشتے ہیں۔  حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، مسرق، سعید بن جُبَیر، ابو صالح، ابو الضُّحیٰ اور سُدِّی کہتے ہیں  کہ ڈوب کر کھینچنے والوں  اور آہستگی سے نکال لے جانے والوں  سے مُراد وہ فرشتے ہیں  جو موت کے وقت انسان کی جان کو اس کے جسم کی گہرائیوں  تک اُتر کر اور اس کی رگ رگ سے کھینچ کر نکالتے ہیں۔  تیزی سے تیرتے  پھرنے والوں  سے مراد بھی حضرت علی، حضرت ابن مسعود، مجاہد، سعید بن جُبَیر اور ابو صالح نے فرشتے ہی لیے ہیں  جو احکامِ الٰہی کی تعمیل میں  اِس طرح تیزی سے رواں  دواں  رہتے ہیں  جیسے کہ وہ فضا میں  تیر رہے ہوں۔  یہی مفہوم’’ سبقت کرنے والوں ‘‘کا حضرت علی، مجاہد، مسروق،  ابو صالح اور حسن بصری نے لیا ہے اور سبقت کرنے سے مراد یہ ہے کہ حکمِ الٰہی کا اشارہ پاتے ہی اُن میں  سے ہر ایک اس کی تعمیل کے لیے دوڑ پڑتا ہے۔ ’’معاملات کا انتظام چلانے والوں ‘‘ سے مراد بھی فرشتے ہیں،  جیسا کہ حضرت علی، مجاہد، عطاء، ابو صالح، حسن بصری، قَتادَہ، ربیع بن انس، اور سُدِّی سے منقول ہے۔  بالفاظِ دیگر یہ سلطنتِ کائنات کے وہ کارکن ہیں  جن کے ہاتھوں  دنیا کا سارا انتظام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چل رہا ہے۔  اِن آیات کے یہ معنی اگرچہ کسی صحیح حدیث میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے منقول نہیں  ہوئے ہیں،  لیکن چند اکابر صحابہ نے،  اور اُن تابعین نے جو صحابہ ہی کے شاگرد تھے،  جب ان کا یہ مطلب بیان کیا ہے تو گمان یہی ہوتا ہے کہ علم حضورؐ ہی سے حاصل کیا گیا ہو گا۔           اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وقوعِ قیامت اور حیات بعد الموت پر اِن فرشتوں  کی قسم کس بنا پر کھائی گئی ہے جبکہ یہ خود بھی اُسی طرح غیر محسوس ہیں  جس طرح وہ چیز غیر محسوس ہے جس کے واقع ہونے پر ان کو بطور شہادت اور بطورِ استدلال پیش کیا گیا ہے۔  ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے،  واللہ اعلم، کہ اہلِ عرب فرشتوں  کی ہستی کے منکر نہ تھے۔  وہ خود اِس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ موت کے وقت انسان کی جان فرشتے ہی نکالتے ہیں۔  ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ فرشتوں  کی حرکت انتہائی تیز ہے،  زمین سے آسمان تک آناً فاناً وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں  اور ہر کام جس کا انہیں  حکم دیا جائے بلا تاخیر انجام دیتے ہیں۔  وہ یہ بھی مانتے تھے کہ یہ فرشتے حکم الٰہی کے تابع ہیں  اور کائنات کا انتظام اللہ تعالیٰ ہی کے امر سے چلاتے  ہیں،  خود مختار اور اپنی مرضی کے مالک نہیں  ہیں۔  جہالت کی بنا پر وہ ان کو اللہ کی بیٹیاں  ضرور کہتے  تھے اور اُن کو معبود بھی بنائے ہوئے تھے،  لیکن اُن کا یہ عقیدہ نہیں  تھا کہ اصل اختیارات انہی کے ہاتھ میں  ہیں۔  اس لیے یہاں  وقوعِ قیامت اور حیات بعد الموت پر اُن کے مذکورہ بالا اوصاف سے استدلال اس بنا پر کیا گیا ہے کہ جس خدا کے حکم سے فرشتے تمہاری جان نکالتے ہیں  اسی کے حکم سے وہ دوبارہ جان  ڈال بھی سکتے ہیں۔  اور جس خدا کے حکم سے  وہ کائنات کا انتظام چلا رہے  ہیں  اسی کے حکم سے،  جب بھی اُس کا حکم ہو، اِس کائنات کو وہ درہم برہم بھی کر سکتے ہیں،  اور ایک دوسری دنیا بنا بھی سکتے ہیں۔  اُس کے حکم کی تعمیل میں  ان کی طرف سے ذرّہ برابر بھی سُستی یا لمحہ بھر کی تاخیر بھی نہیں  ہو سکتی۔

2: پہلے جھٹکے سے مراد وہ جھٹکا ہے جو زمین اور اس کی ہر چیز کو تباہ کر دے گا اور دوسرے جھٹکے سے مراد وہ جھٹکا ہے جس  کے بعد تمام مُردے زندہ ہو کر زمین سے نکل آئیں  گے۔  اِسی کیفیت کو سُورہ زُمَر میں  یوں  بیان کیا گیا ہے ’’اور صور پھُونکا جائے گا تو زمین اور آسمان میں  جو بھی ہیں  وہ سب مر کر گر جائیں  گے سوائے اُن  کے جنہیں   اللہ(زندہ رکھنا)چاہے۔  پھر ایک دوسرا صُور پھونکا جائے گا تو یکایک وہ سب اُٹھ کر دیکھنے لگیں  گے ‘‘۔(آیت۶۸)

3: ’’کچھ دل‘‘ کے الفاظ اس لیے استعمال کیے گئے ہیں  کہ قرآن مجید کی رو سے  صرف کفار و فُجّار اور منافقین ہی پر قیامت کے روز ہوَل طاری ہو گا۔ مومنینِ صالحین اُس ہول سے محفوظ ہوں  گے۔  سورہ انبیاء میں  ان کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ’’وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت اُن کو ذرا پریشان نہ کرے گا اور ملائکہ بڑھ کر اُن کو ہاتھوں  ہاتھ لیں  گے کہ یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا‘‘(آیت۱۰۳)

4: یعنی جب اُن کو جواب دیا گیا کہ ہاں  ا یسا ہی ہو گا تو وہ مذاق کے طور پر آپس میں  ایک دوسرے سے کہنے لگے یا رو، اگر واقعی ہمیں  پلٹ کر دوبارہ زندگی کی حالت میں  واپس آنا پڑا تب تو ہم مارے گئے،  اس کے بعد تو پھر ہماری خیر نہیں  ہے۔

 5: یعنی یہ لوگ اسے ایک امِر محال سمجھ کر اس کی ہنسی اڑا رہے ہیں،  حالانکہ اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں  ہے جس کو  انجام دینے کے لیے کچھ بڑی لمبی چوڑی تیاریوں  کی ضرورت ہو۔ اِس کے لیے صرف ایک ڈانٹ یا جھڑ کی کافی ہے جس کے ساتھ ہی تمہاری خاک یا راکھ، خواہ کہیں  پڑی ہو،  ہر طرف سے سمٹ کر ایک جگہ  جمع ہو جائے گی اور تم یکایک اپنے آپ کو زمین کی پیٹھ پر زندہ موجود پاؤ گے۔  اِس واپسی کو گھاٹے کی واپسی سمجھ کر چاہے تم اِس سے کتنا ہی فرار کرنے کی کوشش کرو، یہ تو ہو کر رہنی ہے ،  تمہارے انکار یا فرار یا تمسخر سے یہ رُک نہیں  سکتی۔

6: چونکہ کفّارِ  مکّہ کا قیامت اور آخرت کو نہ ماننا اور اس کا مذاق اُڑانا در اصل کسی فلسفے کو رد کرنا نہیں  تھا بلکہ اللہ کے رسول کو جھٹلانا تھا، اور جو چالیں  وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے خلاف چل رہے تھے وہ کسی عام آدمی کے خلاف نہیں  بلکہ اللہ کے رسول کی دعوت کو زک دینے کے لیے تھیں،  اس لیے وقوعِ آخرت کے مزید دلائل دینے سے پہلے اُن کو حضرت موسیٰ اور فرعون کا قصّہ سنا یا جا رہا ہے تا کہ وہ خبر دار ہو جائیں  کہ رسالت سے ٹکرانے اور رسول کے بھیجنے والے خدا کے مقابلے میں  سر اٹھانے کا انجام کیا ہوتا ہے۔

 7: وادی مقدّسِ طُویٰ کے معنی بالعموم مفسّرین نے یہ بیان کیے ہیں  کہ ’’وہ مقدّس وادی جس کا نام طُویٰ تھا ‘‘۔ لیکن اس کے علاوہ اس کے دو منی اور بھی بیان کیے گئے ہیں ۔  ایک یہ کہ ’’وہ وادی جو دوم رتبہ مقدّس کی گئی‘‘، کیونکہ ایک دفعہ اُسے اُس وقت مقدس کیا گیا جب پہلی مرتبہ اللہ تعالیٰ نے وہاں  حضرت موسیٰ کو مخاطب فرمایا، اور دوسری دفعہ اسے تقدیس کا شرف اُس وقت بخشا گیا جب حضرت موسیٰ مصر سے بنی اسرائیل کو نکال کر اس وادی میں  لائے۔  دوسرے یہ کہ ’’رات کے وقت وادی مقدس میں  پُکارا‘‘۔ عربی میں  محاورہ ہے جاءَ بعد طُوی، یعنی فلاں  شخص میرے پا س رات کا کچھ حصّہ گزرنے کے بعد آیا۔

8: یہاں  چند باتیں  اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں :

(۱)      حضرت موسیٰ کو منصبِ نبوت پر مقرر کرتے وقت جو باتیں  اُن کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوئی تھیں  اُن کو قرآن مجید میں  حسبِ موقع کہیں  مختصر اور کہیں  مفصّل بیان کیا گیا ہے۔  یہاں  موقع اختصار کا طالب تھا، اس لیے اُن کا صرف خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔  سورہ طٰہٰ، آیات۹ تا ۴۸، سورہ شعراء،  آیات۱۰تا۱۷، سورہ نمل، آیات۷تا ۱۲، اور سورہ قصص، آیات۲۹تا ۳۵ میں  ان کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔  

(۲)      فرعون کی جس سرکشی کا یہاں  ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خالق اور خلق، دونوں  کے مقابلے میں  سرکشی کرنا ہے۔  خالق کے مقابلے میں  اُس سرکشی کا ذکر تو آگے آ رہا ہے کہ اس نے اپنی رعیت کو جمع کر کے اعلان کیا کہ’’ میں  تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔ ‘‘۔ اور خلق کے مقابلے میں  اس کی سرکشی یہ تھی کہ اس نے اپنی مملکت کے باشندوں  کو مختلف گروہوں  اور طبقوں  میں  بانٹ رکھا تھا، کمزور طبقوں  پر وہ سخت ظلم و ستم ڈھا رہا تھا، اور اپنی پوری قوم کو بیوقوف بنا کر اس نے غلام بنا رکھا تھا،  جیسا کہ سُورہ قصص آیت۴ اور سُورہ زُخْرُف آیت ۵۴ میں  بیان کیا گیا ہے۔  

(۳)     حضرت موسیٰ ؑ کو ہدایت فرمائی گئی تھی کہ فَقُوْ لَا لَہُ قَوْلاً لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشیٰ، ’’تم اور ہارون دونو ں  بھائی اُس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا ،  شاید کہ وہ نصیحت قبول کر ے او خدا سے ڈرے ‘‘(القَصَص، آیت۴۴) اِس نرم کلام کا ایک نمونہ تو اِن آیات میں  دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مبلّغ کو کسی بگڑے ہوئے آدمی کی ہدایت کے لیے کس حکمت کے ساتھ تبلیغ کرنی چاہیے۔  دوسرے نمونے سورہ طٰہٰ، آیات۴۹تا۵۲، الشعراء، ۲۳تا۲۸، اور القصص، آیت ۳۷ میں  دیے گئے ہیں۔  یہ منجملہ اُن آیات کے ہیں  جن میں  اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں  حکمتِ  تبلیغ کی تعلیم دی ہے۔  

(۴)     حضرت موسیٰ صرف بنی اسرائیل کی رہائی کے لیے ہی فرعون کے پاس نہیں  بھیجے گئے تھے،  جیسا کہ بعض لوگوں  کا خیال ہے،  بلکہ ان کی بِعثت کا پہلا مقصد فرعون اور اس کی قوم کو راہ راست دکھانا تھا، اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ اگر وہ راہ راست قبول نہ کرے تو بنی اسرائیل کو ( جو اصل میں  ایک مسلمان قوم تھے ) اُس کی غلامی سے چھُڑا کر مصر سے  نکال لائیں۔  یہ بات اِن آیات سے بھی ظاہر ہوتی ہے،  کیونکہ اِن میں  سرے سے بنی اسرائیل کی رہائی کا ذکر ہی نہیں  ہے بلکہ  حضرت موسیٰ کو فرعون کے سامنے سے صرف حق کی تبلیغ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے،  اور اُن مقامات سے بھی ا س کا ثبوت ملتا ہے جہاں  حضرت موسیٰ نے تبلیغ اسلام بھی کی ہے اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ بھی فرمایا ہے۔  مثلاً ملاحظہ ہو ( الاَعراف، آیات۱۰۴۔۱۰۵۔طٰہٰ، آیات۴۷ تا ۵۲۔ الشعراء، آیات۱۶۔۱۷و۲۳ تا۲۸۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، یونس، حاشیہ۷۴)۔

(۵)      یہاں  پاکیزگی (تَزَ کِّی) اختیار کرنے کا مطلب عقیدے اور اخلاق اور اعمال کی پاکیزگی اختیار کانا، یا دوسرے الفاظ میں  اسلام قبول کر لینا ہے۔  ابن زید کہتے ہیں  کہ قرآن مجید جہاں  بھی تز کِّی کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں  اس سے مراد اسلام قبول کرنا ہی ہے۔  چنانچہ وہ مثال میں  قرآن مجید کی حسبِ ذیل تین آیات کو پیش کرتے ہیں۔  

وَ ذٰ لِکَ جَزَآ ؤُ مَنْ تَزَکّٰی، ’’ اور یہ جزا ہے اس کی جو پاکیزگی اختیار کرے ‘‘۔ یعنی اسلام لے آئے۔

 وَمَا یُدْ رِیْکَ لَعَلَّہُ یَزَّکّٰی، اور ’’تمہیں  کیا خبر شاید کہ وہ پاکیزگی اختیار کرے ‘‘، یعنی مسلمان اسلام لے آئے۔

  وَمَا  عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰی، ’’ اور تم پر کیا ذمہ داری ہے اگر وہ پاکیزگی اختیار نہ کرے ‘‘یعنی مسلمان نہ ہو(ابن جریر)۔

(۶)      یہ ارشاد کہ ’’میں  تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں  تو (اس کا خوف)تیرے دل میں  پیدا ہو‘‘، اس کا مطلب یہ  ہے کہ جب تو اپنے رب کو پہچان لے گا اور تجھے معلوم ہو جائے گا تو  اُس کا بندہ ہے،  مردِ آزاد نہیں  ہے،  تو لازماً تیرے دل میں  اُس کا خوف پیدا ہو گا، اور خوفِ خدا ہی وہ چیز ہے جس پر دنیا میں  آدمی کے رویّے کے صحیح ہونے کا انحصار ہے۔  خدا کی معرفت اور اس کے خوف کے بغیر کسی پاکیزگی کا تصوّر نہیں  کیا جا سکتا۔

9: بڑی نشانی سے مراد عصا کا اژدہا بن جانا ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں  متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔  ظاہر ہے کہ اس سے بڑی نشانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک بیجان لاٹھی سب دیکھنے والوں  کی آنکھوں  کے سامنے عَلانیہ اژدہا بن جائے،  جادوگر اُس کے مقابلے میں  لاٹھیوں  اور رسیّوں  کے جو مصنوعی اژدھے بنا کر دکھائیں  ان سب کو وہ نگل جائے،  اور پھر حضرت موسیٰ جب اس کو پکڑ کر اٹھا لیں  تو وہ پھر لاٹھی کی لاٹھی بن کر رہ جائے۔  یہ اس بات کی صریح علامت تھی کہ وہ اللہ رب العالمین ہی ہے جس کی طرف سے حضرت موسیٰ بھیجے گئے ہیں۔

10: اس کی تفصیل دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں  یہ بیان کی گئی ہے کہ اس نے تمام مصر سے ماہر جادوگروں  کو بلوایا اور ایک مجمع عام میں  ان سے لاٹھیوں  اور رسیّوں  کے اژدہے بنوا کر دکھائے تا کہ لوگوں  کو یقین آ جائے کہ موسیٰ علیہ السلام کوئی نبی نہیں  بلکہ ایک جادوگر ہیں،  اور لاٹھی کا اژدہا بنانے کو جو کرشمہ انہوں  نے دکھایا ہے وہ دوسرے جادوگر بھی دکھا سکتے ہیں۔  لیکن اس کی یہ چال اُلٹی پڑی اور جادوگروں  نے شکست کھا کر خود تسلیم   کر لیا کہ موسیٰ علیہ السلام نے جو کچھ دکھا یا ہے وہ جادو نہیں  بلکہ معجزہ ہے۔

11:  فرعون کا یہ دعویٰ کئی مقامات پر قرآن مجید میں  بیان کیا گیا ہے۔  ایک موقع پر اس نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ ’’اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو خدا بنا یا تو میں  تمہیں  قید کر دوں  گا‘‘(الشعراء، آیت۲۹)۔ ایک اور موقع پر اس نے اپنے دربار میں  لوگوں  کو خطاب کر کے کہا’’ اے سردارانِ قوم،  میں  نہیں  جانتا کہ میرے سوا تمہارا کوئی اور خدا بھی ہے ‘‘(القصص، آیت۳۸)۔ ان ساری باتوں  سے فرعون کا یہ مطلب نہ تھا، اور نہیں  ہو سکتا تھا کہ وہی کائنات کا خالق ہے اور اسی نے یہ دنیا پیدا کی ہے۔  یہ مطلب بھی نہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی  کا منکر اور خود رب العالمین ہونے کا مدعی تھا۔ یہ مطلب بھی نہ تھا کہ وہ صرف اپنے آپ ہی کو مذہبی معنوں  میں  لوگوں  کا معبود قرار دیتا تھا۔قرآن مجید ہی میں  اِس بات کی شہادت موجود ہے کہ جہاں  تک مذہب کا تعلق ہے وہ خود دوسرے معبُودوں  کی پرستش کرتا تھا، چنانچہ اس کے اہلِ دربار ایک موقع پر اس کو مخاطب کر کے کہتے ہیں  کہ ’’کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو یہ آزادی دیتے چلے جائیں  گے کہ وہ ملک میں  فساد پھیلائیں  اور آپ کو  اور آپ کے معبودوں  کو چھوڑ دیں ‘‘؟ (الاعراف، آیت۱۲۷)۔ اور قرآن میں  فرعون کا یہ قول بھی نقل کیا گیا ہے کہ اگر موسیٰ خدا کا بھیجا ہوا ہوتا تو کیوں  نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے ؟ یا اس کے ساتھ ملائکہ اس کی اردلی میں  کیوں  نہ آئے ؟(الزخرف، آیت۵۳)۔ پس درحقیقت وہ مذہبی معنی میں  میں  بلکہ سیاسی معنی میں  اپنے آپ کو الٰہ اور ربِّ اعلیٰ کہتا تھا، یعنی اس کا مطلب یہ تھا کہ اقتدارِ اعلیٰ کا مالک میں  ہوں،  میرے سوا کسی کو میری مملکت میں  حکم چلانے کا حق نہیں  ہے،  اور میرے اوپر کوئی بالا تر طاقت نہیں  ہے جس کا فرمان یہاں  جاری ہو سکتا ہو(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ۸۵۔جلد سوم، طٰہٰ، حاشیہ۲۱۔الشعراء، حواشی۲۶، ۲۴۔القصص، حواشی۵۲۔۵۳۔جلد چہارم، الزخرف، حاشیہ۴۹)۔

12: یعنی خدا کے رسول کو جھُٹلانے کے اُس انجام سے ڈر ے جو فرعون دیکھ چکا ہے۔

 

 13 کیا تم لوگوں  کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی؟ 14 اللہ نے اُس کو بنایا، اُس کی چھت خُوب اُونچی اُٹھائی پھر اُس کا توازن قائم کیا، اور اُس کی رات ڈھانکی اور اُس کا دن نکالا۔ 15 اِس کے بعد زمین کو اس نے بچھایا، 16 اُس کے اندر اُس کا پانی اور چارہ نکالا، 17 اور پہاڑ اس میں  گاڑ دیے سامانِ زیست کے طور پر تمہارے لیے اور تمہارے مویشیوں  کے لیے۔  18
پھر جب وہ ہنگامۂ عظیم برپا ہو گا، 19 جس روز انسان اپنا سب کیا دھرا یاد کرے گا، 20 اور ہر دیکھنے والے کے سامنے دوزخ کھول کر رکھ دی جائے گی، تو جس نے سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی، دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہو گی۔ اور جس نے اپنے ربّ کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بُری خواہشات سے باز رکھا تھا،  جنّت اس کا ٹھکانا ہو گی۔ 21
یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں  کہ ’’آخر وہ گھڑی کب آ کر ٹھہرے گی؟‘‘ 22 تمہارا کیا کام کہ اُس کا وقت بتاؤ۔ اس کا علم تو اللہ پر ختم ہے۔  تم صرف خبردار کرنے والے ہو ہر اُس شخص کو جو اُس کا خوف کرے۔ جس 23 روز یہ لوگ اُسے دیکھ لیں  گے تو انہیں  یوں  محسوس ہو گا کہ (یہ دنیا میں  یا حالتِ موت میں ) بس ایک دن کے پچھلے پہر یا اگلے پہر تک ٹھہرے ہیں۔ 24 ؏۲

 

13: اب قیامت  اور حیات بعد الموت کے ممکن اور مقتضائے حکمت ہونے کے دلائل بیان کیے جا رہے ہیں۔

14: تخلیق سے مراد انسانوں  کی دوبارہ تخلیق ہے اور آسمان سے مراد وہ پُورا عالمِ بالا ہے جس میں  بے شمار ستارے اور سیّارے،  بے حدوحساب شمسی نظام اور اَن گنت کہکشاں  پائے جاتے ہیں۔  مطلب یہ ہے کہ تم جو موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کو کوئی بڑا ہی امرِ محال سمجھتے ہو، اور بار بار کہتے ہو کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہماری ہڈیاں  تک بوسیدہ ہو چکی ہوں  گی اُس حالت میں  ہمارے پراگندہ اجزائے جسم پھر سے جمع کر دیے جائیں  اور ان میں  جان ڈال دی جائے،  کبھی اس بات پر بھی غور کرتے ہو کہ اِس عظیم کائنات کا بنا نا زیادہ سخت کام ہے یا تمہیں  ایک مرتبہ پیدا کر چکنے کے بعد دوبارہ اِسی شکل میں  پیدا کر دینا؟ جس خدا کے لیے وہ کوئی مشکل کام نہ تھا اس کے لیے آخر یہ کیوں  ایسا مشکل کام ہے کہ وہ اِس پر قادر نہ ہو سکے ؟ حیات بعد الموت پر یہی دلیل قرآن مجید میں  متعدد مقامات پر دی گئی ہے۔  مثلاً سورہ یٰس میں  ہے ’’اور کیا وہ جس نے آسمانوں  اور زمین کو بنایا اِس پر قادر نہیں  ہے کہ اِن جیسوں  کو (پھر سے ) پیدا کر دے ؟ کیوں  نہیں ،  وہ تو بڑا زبردست خالق ہے،  تخلیق کے کام کو خوب جانتا ہے ‘‘(آیت۸۱)۔ اور سُورہ مومن میں  فرمایا۔’’یقیناً آسمانوں  اور زمین کو پیدا کرنا انسانوں  کو پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے،  مگر اکثر لوگ جانتے نہیں  ہیں ‘‘(آیت۵۷)۔

15: رات اور دن کو آسمان کی طرف منسوب  کیا گیا ہے،  کیونکہ آسمان کا سورج غروب ہونے سے ہی رات آتی ہے اور اسی کے طُلوع ہونے سے  دن نکلتا ہے۔  رات کے لیے ڈھانکنے کا لفظ اس معنی میں   استعمال کیا گیا ہے کہ سورج غروب ہونے کے بعد رات کی  تاریکی اس طرح زمین پر چھا جاتی ہے جیسے اُوپر سے اس پر پردہ ڈال کر ڈھانک دیا گیا ہو۔

16: ’’اس کے بعد زمین کو بچھانے ‘‘کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ آسمان کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی، بلکہ یہ ایسا ہی طرز بیان ہے جیسے ہم ایک بات کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں ’’پھر یہ بات غور طلب ہے ‘‘۔اس سے مقصود ان دونوں  باتوں  کے درمیان واقعاتی ترتیب بیان کرنا نہیں  ہوتا کہ پہلے یہ بات ہوئی اور اس کے بعد دوسری بات، بلکہ مقصود ایک بات  کے بعد دوسری بات کی توجہ دلا نا ہوتا ہے اگر چہ دونوں  ایک ساتھ پائی جاتی  ہوں۔  اِس طرز بیان کی متعدد نظیریں  خود قرآن میں  موجود ہیں۔  مثلاً سُورہ قلم میں  فرمایا عُتُلٍّ بَعْدَ ذٰ لِکَ زَنِیْمٌ’جفا کار ہے اور اس کے بعد بد اصل‘‘۔ اس کا یہ مطلب نہیں  ہے کہ پہلے وہ جفا کار بنا اور اس کے بعد بد اصل ہوا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جفا کار ہے اور اس پر مزید یہ کہ بد اصل بھی ہے۔  اسی طرح سورہ بلد میں  فرمایا فَکُ رَقَبَۃٍ.....ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ۔’’ غلام آزاد کرے ...... پھر ایمان لانے والوں  میں  سے ہو‘‘۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں  ہے کہ پہلے وہ نیک اعمال کرے،  پھر ایمان لائے،  بلکہ مطلب یہ ہے کہ اُن نیک اعمال کے ساتھ ساتھ اس میں  مومن ہونے کی صفت بھی ہو۔ اِ س مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن میں  کہیں  زمین کی پیدائش کا ذکر پہلے اور زمین کی پیدائش کا ذکر بعد میں،  جیسے سورہ بقرہ آیت۲۹ میں  ہے،  اور کسی جگہ آسمان کی پیدائش کا ذکر پہلے اور زمین کی پیدائش کا ذکر بعد میں  کیا گیا ہے،  جیسے اِن آیات میں  دیکھ رہے ہیں۔  یہ دراصل تضاد نہیں  ہے۔  اِن  مقامات میں  سے کسی جگہ بھی مقصود کلام یہ بتانا نہیں  ہے کہ کسے پہلے بنا یا گیا اور کسے بعد میں  بلکہ جہاں  موقع و محل یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ  کی قدرت کے کمالات کو نمایاں  کیا جائے وہاں  آسمانوں  کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور زمین کا بعد میں ،  اور جہاں  سلسلہ کلام  اِس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ لوگوں  کو اُن نعمتوں  کا احساس دلایا جائے جو انہیں  زمین پر حاصل ہو رہی ہیں  وہاں  زمین کے ذکر کو آسمانوں  کے ذکر پر مقدم رکھا گیا ہے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، حٰم السجّدہ، حواشی۱۳۔۱۴)۔

17: چارہ سے مراد اِس جگہ صرف جانوروں  کا چارہ نہیں  ہے بلکہ وہ تمام نباتات مراد ہیں  جو انسان اور حیوان دونوں  کی غذا کے کام آتے ہیں۔  رَعی اور تُع اگرچہ بالعموم عربی زبان میں  جانوروں  کے چَرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں  مگر کبھی کبھی انسان کے لیے بھی استعمال کر لیے جاتے ہیں،  مثلاً سورہ یوسف میں  آیا ہے کہ حضرت یوسف کو ہمارے ساتھ بھیج دیں   کہ کچھ چَر چُگ لے اور کھیلے ‘‘(آیت۱۲)۔یہاں  بچے کے لیے چَرنے (رَتُع) کا لفظ جنگل میں  چل پھر کر پھل توڑنے اور کھانے کے معنی میں  استعمال کیا گیا ہے۔

18: ان آیات میں  قیامت اور حیات بعد الموت کے لیے دو حیثیتوں  سے استد لال کیا گیا ہے۔  ایک یہ کہ اُس خدا کی قدرت سے اِن کا برپا کرنا ہر گز بعید نہیں  ہے جس نے یہ وسیع و عظیم کائنات اِس حیرت انگیز توازن کے ساتھ اور یہ زمین اِس سرو سامان کے ساتھ بنائی ہے۔  دوسرے یہ کہ اللہ کے کمالِ حکمت کے جو آثار اِس کائنات اور اِس زمین میں  صریحاً نظر آرہے ہیں  وہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں  کہ یہاں  کوئی کام بے مقصد نہیں  ہو رہا ہے۔  عالمِ بالا میں  بے شمار ستاروں  اور سیاروں  اور کہکشانوں  کے درمیان جو توازُن قائم ہے وہ شہادت دے رہا ہے کہ یہ سب کچھ الل ٹب نہیں  ہو گیا ہے بلکہ کوئی بہت سوچا سمجھا منصوبہ اِس کے پیچھے کار فرما ہے۔  یہ رات اور دن کا باقاعدگی سے آنا اس بات پر گواہ ہے کہ زمین کو آباد کرنے کے لیے یہ نظم کمال درجہ دانائی کے ساتھ قائم کیا گیا ہے۔  خود اسی زمین پر وہ خطے بھی موجود ہیں۔  جہاں  ۲۴ گھنٹے کے اندر دن اور رات کا الٹ پھیر ہو جاتا ہے اور وہ خطّے بھی موجود ہیں  جہاں  بہت لمبی راتیں  ہوتی ہیں۔  زمین کی آبادی کا بہت بڑ ا حصّہ پہلی قسم کے  خطّوں  میں  ہے،  اور جہاں  رات اور دن جتنے زیادہ لمبے ہوتے جاتے ہیں  وہاں  زندگی زیادہ سے زیادہ دشوار اور آبادی کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے،  یہاں  تک کہ ۶ مہینے کے دن اور ۶ مہینے کی راتیں رکھنے والے علاقے آبادی کے بالکل قابل نہیں  ہیں۔  یہ دونوں  نمونے اِسی زمین پر دکھا کر اللہ تعالیٰ نے اِس حقیقت کی شہادت پیش کر دی ہے کہ رات اور دن کی آمد و رفت کا یہ باقاعدہ انتظام کچھ اتفاقاً نہیں  ہو گیا ہے بلکہ یہ زمین کو آبادی کے قابل بنانے کے لیے بڑی حکمت کے ساتھ ٹھکی ٹھیک ایک اندازے کے مطابق کیا گیا ہے۔  اِسی طرح زمین کو اس طرح بچھانا کہ وہ قابلِ سکونت بن سکے،  اِس میں   وہ پانی پیدا کرنا جو انسان اور حیوان کے لیے پینے کے قابل اور نباتات کے لیے روئیدگی کے قابل ہو، اِس میں  پہاڑوں  کا جمانا اور وہ تمام چیزیں  پیدا کرنا جو انسان اور ہر قسم کے حیوانات کے لیے زندگی بسر کرنے کے ذریعہ بن سکیں، یہ سارے کام اس بات کی صریح علامت ہیں  کہ یہ اتفاقی حوادث یا کسی کھلنڈرے کے بے مقصد کام نہیں  ہیں،  بلکہ ان میں  سے ہر کام ایک بہت بڑی حکیم و دانا ہستی نے با مقصد کیا ہے۔  اب یہ ہر صاحبِ عقل آدمی کے خود سوچنے کی بات ہے کہ آیا آخرت کا ہونا حکمت کا تقاضا ہے یا نہ ہونا؟ جو شخص اِن ساری چیزوں  کو دیکھنے کے با وجود یہ کہتا ہے کہ آخرت نہیں  ہو گی وہ گویا یہ کہتا ہے کہ یہاں  اور سب کچھ تو حکمت اور مقصدیت کے ساتھ ہو رہا ہے،  مگر زمین پر انسان کو ذی ہوش اور با اختیار بنا کر پیدا کرنا بے مقصد اور بے حکمت بات نہیں  ہو سکتی کہ اِس زمین میں  تصرّف کے وسیع اختیارات دے کر انسان کو یہاں  ہر طرح کے اچھے اور برے کام کرنے کا موقع تو دے دیا جائے مگر کبھی اس کا محاسبہ نہ کیا جائے۔

19: اس سے مراد ہے قیامت اس کے لیے الطَّآمَّۃُ الْکُبْریٰ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔  طامّہ بجائے خود کسی ایسی بڑی آفت کو کہتے ہیں  جو سب پر چھا جائے۔  اس کے بعد اس کے لیے کُبّریٰ کا لفظ مزید استعمال کیا گیا ہے جس سے خود بخود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی شدت کا تصور دلانے کے لیے محض لفظ طامّہ بھی کافی نہیں  ہے۔

20: یعنی جب انسان دیکھ لے گا وہی محاسبہ کا دن آ گیا ہے جس کی اُسے دنیا میں  خبر دی جا رہی تھی، تو قبل اس کے کہ اُس کا نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں  دیا جائے،  اسے ایک ایک کر کے اپنی وہ سب حرکتیں  یاد آنے لگیں  گی جو وہ دنیا میں  کر کے آیا ہے۔  بعض لوگوں  کو یہ  تجربہ خود اِس دنیا میں  بھی ہوتا ہے کہ اگر یکایک کسی وقت وہ کسی ایسے خطرے سے دو چار ہو جاتے ہیں  جس میں  مَوت ان کو بالکل قریب کھڑی نظر آ نے لگتی ہے تو اپنی پُوری زندگی کی فلم اُن کی چشمِ تصوّر کے سامنے یک لخت پھر جاتی ہے۔ 1: یہاں  پانچ اَوصاف رکھنے والی ہستیوں  کا قسم جس بات پر کھائی گئی ہے اس کی وضاحت نہیں  کی گئی۔  لیکن بعد کا مضمون اِس امر پر خود دلالت کرتا ہے کہ یہ قسم اِس بات پر کھائی گئی ہے کہ قیامت ضرور آئے گی اور تمام مرے ہوئے انسان ضرور از سرِ نو زندہ کر کے اٹھائے جائیں  گے۔  اِس کی وضاحت بھی نہیں  کی گئی کہ یہ پانچ اوصاف کن ہستیوں  کے ہیں،  لیکن صحابہ اور تابعین کی بڑی تعداد نے اور اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ ان سے مراد فرشتے ہیں۔  حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، مسرق، سعید بن جُبَیر، ابو صالح، ابو الضُّحیٰ اور سُدِّی کہتے ہیں  کہ ڈوب کر کھینچنے والوں  اور آہستگی سے نکال لے جانے والوں  سے مُراد وہ فرشتے ہیں  جو موت کے وقت انسان کی جان کو اس کے جسم کی گہرائیوں  تک اُتر کر اور اس کی رگ رگ سے کھینچ کر نکالتے ہیں۔  تیزی سے تیرتے  پھرنے والوں  سے مراد بھی حضرت علی، حضرت ابن مسعود، مجاہد، سعید بن جُبَیر اور ابو صالح نے فرشتے ہی لیے ہیں  جو احکامِ الٰہی کی تعمیل میں  اِس طرح تیزی سے رواں  دواں  رہتے ہیں  جیسے کہ وہ فضا میں  تیر رہے ہوں۔  یہی مفہوم’’ سبقت کرنے والوں ‘‘کا حضرت علی، مجاہد، مسروق،  ابو صالح اور حسن بصری نے لیا ہے اور سبقت کرنے سے مراد یہ ہے کہ حکمِ الٰہی کا اشارہ پاتے ہی اُن میں  سے ہر ایک اس کی تعمیل کے لیے دوڑ پڑتا ہے۔ ’’معاملات کا انتظام چلانے والوں ‘‘ سے مراد بھی فرشتے ہیں،  جیسا کہ حضرت علی، مجاہد، عطاء، ابو صالح، حسن بصری، قَتادَہ، ربیع بن انس، اور سُدِّی سے منقول ہے۔  بالفاظِ دیگر یہ سلطنتِ کائنات کے وہ کارکن ہیں  جن کے ہاتھوں  دنیا کا سارا انتظام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چل رہا ہے۔  اِن آیات کے یہ معنی اگرچہ کسی صحیح حدیث میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے منقول نہیں  ہوئے ہیں،  لیکن چند اکابر صحابہ نے،  اور اُن تابعین نے جو صحابہ ہی کے شاگرد تھے،  جب ان کا یہ مطلب بیان کیا ہے تو گمان یہی ہوتا ہے کہ علم حضورؐ ہی سے حاصل کیا گیا ہو گا۔           اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وقوعِ قیامت اور حیات بعد الموت پر اِن فرشتوں  کی قسم کس بنا پر کھائی گئی ہے جبکہ یہ خود بھی اُسی طرح غیر محسوس ہیں  جس طرح وہ چیز غیر محسوس ہے جس کے واقع ہونے پر ان کو بطور شہادت اور بطورِ استدلال پیش کیا گیا ہے۔  ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے،  واللہ اعلم، کہ اہلِ عرب فرشتوں  کی ہستی کے منکر نہ تھے۔  وہ خود اِس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ موت کے وقت انسان کی جان فرشتے ہی نکالتے ہیں۔  ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ فرشتوں  کی حرکت انتہائی تیز ہے،  زمین سے آسمان تک آناً فاناً وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں  اور ہر کام جس کا انہیں  حکم دیا جائے بلا تاخیر انجام دیتے ہیں۔  وہ یہ بھی مانتے تھے کہ یہ فرشتے حکم الٰہی کے تابع ہیں  اور کائنات کا انتظام اللہ تعالیٰ ہی کے امر سے چلاتے  ہیں،  خود مختار اور اپنی مرضی کے مالک نہیں  ہیں۔  جہالت کی بنا پر وہ ان کو اللہ کی بیٹیاں  ضرور کہتے  تھے اور اُن کو معبود بھی بنائے ہوئے تھے،  لیکن اُن کا یہ عقیدہ نہیں  تھا کہ اصل اختیارات انہی کے ہاتھ میں  ہیں۔  اس لیے یہاں  وقوعِ قیامت اور حیات بعد الموت پر اُن کے مذکورہ بالا اوصاف سے استدلال اس بنا پر کیا گیا ہے کہ جس خدا کے حکم سے فرشتے تمہاری جان نکالتے ہیں  اسی کے حکم سے وہ دوبارہ جان  ڈال بھی سکتے ہیں۔  اور جس خدا کے حکم سے  وہ کائنات کا انتظام چلا رہے  ہیں  اسی کے حکم سے،  جب بھی اُس کا حکم ہو، اِس کائنات کو وہ درہم برہم بھی کر سکتے ہیں،  اور ایک دوسری دنیا بنا بھی سکتے ہیں۔  اُس کے حکم کی تعمیل میں  ان کی طرف سے ذرّہ برابر بھی سُستی یا لمحہ بھر کی تاخیر بھی نہیں  ہو سکتی۔

22: کُفّار مکّہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے یہ سوال بار بار کرتے تھے اور اس سے مقصود قیامت کی آمد کا وقت اور اس کی تاریخ معلوم کرنا نہیں  ہوتا تھا بلکہ اس کا مذاق اڑانا ہوتا تھا(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن، جلد ششم، تفسیرسورہ ملک، حاشیہ۳۵)۔

23: اِس کی تشریح بھی ہم تفسیر سُورہ ملک، حاشیہ ۳۶ میں  کر چکے ہیں۔  رہا یہ ارشاد کہ تم ہر اُس شخص کو خبر دار کر دینے والے ہو جو اس کا خوف کر ے،  تو اس کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ خوف نہ کرنے والوں  کو خبر دار کرنا تمہارا کام نہیں  ہے،  بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے خبر درا کرنے کا فائدہ اسی کو پہنچے گا جو اُس دن کے آنے کا خوف کرے۔

24:یہ مضمون اس سے پہلے بھی کئی جگہ قرآن میں بیان ہو چکا ہے اور ہم اس کی تشریح کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو القرآن، جلد دوم، یونس، حاشیہ ۵۳، بنی اسرائیل حاشیہ ۵۶، جلد سوم طٰہٰ حاشیہ ۸۰، المومنون، حاشیہ ۱۰۱، الروم حواشی ۸۱۔۸۲، جلد چہارم، یٰس، حاشیہ ۴۸، اس کے علاوہ یہ مضمون سورہ احقاف آیت ۳۵ میں بھی گزر چکا ہے جس کی تشریح ہم نے وہاں نہیں کی کیونکہ پہلے کئی جگہ تشریح ہو چکی تھی۔