تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ القَدر

نام

پہلی ہی آیت کے لفظ اَلقدر کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ 

زمانۂ نزول

اس کے مکّی اور مدنی ہونے میں  اختلاف ہے۔  ابو حَیّان نے البحر المحیط میں  دعویٰ کیا ہے کہ اکثر اہلِ علم کے نزدیک یہ مدنی ہے۔  علی بن احمد الواحدی اپنی تفسیر میں  کہتے ہیں  کہ یہ پہلی سورۃ جو مدینہ میں  نازل ہوئی ہے۔  بخلاف اس کے الماوَرْدِی کہتے ہیں کہ اکثر اہلِ علم کے نزدیک یہ مکّی ہے،  اور یہی بات امام سیُوطِی نے اِتْقان میں  لکھی ہے۔  ابن مَرْدُویَہ نے ابن عباس،  ابن الزُّبَیر اور حضرت عائشہ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ یہ سورۃ مکّہ میں  نازل ہوئی تھی۔ سورۃ کے مضمون پر غور کرنے سے بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس کو مکّہ  ہی میں  نازل ہونا چاہیے تھا، جیسا کہ ہم آگے واضح کریں  گے۔ 

موضوع اور مضمون

اس کا موضوع لوگوں  کو قرآن کی قدر و قیمت اور اہمیت سے آگاہ کرنا ہے۔  قرآن مجید کی ترتیب میں  اِسے سورۂ عَلَق کے بعد رکھنے سے خود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جس کتاب پاک کے نزول کا آغاز سورۂ عَلَق کی ابتدائی پانچ آیات سے ہوا تھا اُسی کے متعلق اِس سورہ میں  لوگوں  کو بتایا گیا ہے کہ وہ کس تقدیر ساز رات میں  نازل ہوئی ہے۔  کیسی جلیل القدر کتاب ہے اور اس کا نزول کیا معنی رکھتا ہے۔

سب سے پہلے اس میں  اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے اِسے نازل کیا ہے۔ یعنی  یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اپنی تصنیف نہیں  ہے بلکہ اِس کے نازل کرنے والے ہم ہیں۔

اس کے بعد فرمایا کہ اِس کا نزول ہماری طرف سے شبِ قدر میں  ہوا ہے۔  شبِ قدر کے دو معنی ہیں  اور دونوں  ہی یہاں  مقصود ہیں۔  ایک یہ کہ  یہ وہ رات ہے کہ جس میں  تقدیروں  کے فیصلے کر دیے جاتے ہیں،  یا بالفاظِ دیگر یہ کوئی معمولی رات عام راتوں  جیسی نہیں  ہے،  بلکہ یہ قسمتوں  کے بنانے اور بگاڑنے کی رات ہے۔  اِس میں  اِس کتاب کا نزول محض ایک کتاب کا نزول نہیں  ہے بلکہ یہ وہ کام ہے  جو نہ صرف قریش،  نہ صرف عرب، بلکہ دنیا کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔ یہی بات سورۂ دُخان میں  بھی فرمائی گئی ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورۂ دُخان کا دیباچہ اور حاشیہ ۳)۔ دوسرے معنی یہ ہیں  کہ یہ بڑی قدر و منزلت اور عظمت و شرف رکھنے والی رات ہے،  اور آگے اس کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ یہ ہزار مہینوں  سے زیادہ بہتر ہے۔  اِس سے کفّارِ مکّہ کو گویا متنبہ کیا گیا ہے کہ تم اپنی نادانی سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیش کی ہوئی اِس کتاب کو اپنی لیے ایک مصیبت سمجھ رہے ہو اور کوس رہے ہو کہ یہ کیا بلا ہم پر نازل ہو ئی ہے،  حالانکہ جس رات کو اِس کے نزول کا فیصلہ صادر کیا گیا وہ اِتنی خیر و برکت والی  رات تھی کہ کبھی انسانی تاریخ کے ہزار مہینوں  میں  بھی انسان کی بھلائی کے لیے وہ کام نہیں  ہوا تھا جو اِس رات میں  کر دیا گیا۔ یہ بات بھی سُورۂ دُخان آیت ۳ میں  ایک دوسرے طریقے سے بیان کی گئی ہے اور اُس سورہ کے دیباچے میں  ہم اس کی وضاحت کر چکے ہیں۔

آخر میں  بتایا گیا ہے کہ اِس رات کو فرشتے اور جبریل ؑ اپنے ربّ کے اِذن سے ہر حکم لے کر نازل ہوتے ہیں  (جسے سورۂ دخان،  آیت۴ میں  امرِ حکیم کہا گیا ہے ) اور وہ شام سے صبح تک سراسر سلامتی کی رات ہوتی ہے،  یعنی اس میں  کسی شر کا دخل نہیں  ہوتا،  کیونکہ اللہ تعالیٰ کے تمام فیصلے بالآخر بھلائی کے لیے ہوتے ہیں،  ان میں  کوئی بُرائی مقصود نہیں  ہوتی، حتیٰ کہ اگر کسی قوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ بھی ہوتا ہے تو خیر کے لیے ہوتا ہے نہ کہ شر کے لیے۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
  ہم نے اِس (قرآن )کو شبِ قدر میں  نازل کیا ہے۔  1 اور تم کیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے ؟ شبِ قدر ہزار مہینوں  سے زیادہ بہتر ہے۔  2 فرشتے اور رُوح 3 اُس میں  اپنے ربّ کے اِذن سے ہر حکم لے کر اُترتے ہیں۔  4 وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوعِ فجر تک۔ 5  ؏۱

 

1: اصل میں  الفاظ ہیں   اَنْزَ لْنٰہُ، ’’ہم نے نازل کیا ہے۔ ‘‘ لیکن بغری اس کے کہ پہلے قرآن کا کوئی ذکر ہو،  اشارہ قرآن ہی کی طرف ہے،  اس لیے کہ ’’نازل کرنا‘‘ خود بخود اس پر دلالت کرتا ہے کہ مراد قرآن ہے۔  اور قرآن مجید میں  اِس امر کی بکثرت مثالیں  موجود ہیں  کہ اگر سیاق کلام  یا اندازِ  بیان سے ضمیر کا مرجع خود ظاہر  ہو رہا ہو تو ضمیر ایسی حالت میں  بھی استعمال کر لی جاتی ہے جب کہ اُس کے مرجع کا ذکر پہلے یا بعد میں  کہیں  نہ کیا گیا ہو (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، النجم، حاشیہ۹)۔ یہاں  فرمایا گیا ہے کہ ہم نے قرآن کو شبِ قدر میں  نازل کیا ہے،  اور سورۂ بقرہ میں  ارشاد ہوا ہے شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہۃ الْقُرْآنُ۔ ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں  قرآن نازل کیا گیا ہے ‘‘(البقرہ۔ ۱۸۵)۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ رات جس میں  پہلی مرتبہ خدا کا فرشتہ غارِ حرا ء میں  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے پاس وحی لے کر آیا تھا وہ  ماہِ رمضان کی ایک رات تھی۔ اِس رات کو یہاں  شبِ قدر کہا گیا ہے اور سورۂ دُخان میں  اِسی کو مبار ک رات فرمایا گیا ہے : اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ۔’’ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں  نازل کیا ہے ‘‘(آیت۳)۔ اِس رات میں  قرآن نازل کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔  ایک یہ کہ اِس رات پورا قرآن حاملِ وحی فرشتوں  کے حوالہ کر دیا گیا، اور پھر واقعات اور حالات کے مطابق وقتاً فوقتاً ۲۳ سال کے دوران میں  جبریل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی آیات اور سورتیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل کرتے رہے۔  یہ مطلب ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے (ابن جریر، ابن المُنْذِر، ابن ابی حاتم، حاکم، ابن مَرْدُوْیَہ، بَیْہقِی)۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نزول کی ابتدا اِس رات سے ہوئی۔ یہ امام شَعْبِی کا قول ہے،  اگرچہ اُن سے بھی دوسرا قول وہی منقول ہے  جو ابن عباس کا اوپر گزر ا ہے۔  (ابن جریر) بہرحال دونوں  صورتوں  میں  بات ایک ہی رہتی ہے کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ و سلم پر قرآن کے نزول کا سلسلہ اسی رات کو شروع ہوا اور یہی رات تھی جس میں  سورۂ عَلَق کی ابتدائی پانچ آیات نازل کی گئیں۔  تاہم یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کی آیات اور سورتیں  اللہ تعالیٰ اُسی وقت تصنیف نہیں  فرماتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم اور آپ کی دعوتِ اسلامی کو کسی واقعہ یا معاملہ میں  ہدایت کی ضرورت پیش آتی تھی،  بلکہ کائنات کی تخلیق سے بھی پہلے ازل میں  اللہ تعالیٰ کے ہاں  زمین پر نوعِ انسانی کی پیدائش، اس میں  انبیاء کی بعثت، انبیاء  پر نازل کی جانے والی کتابوں ،  اور تمام انبیاء کے بعد آخر میں  محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرمانے اور آپ پر  قرآن نازل کرنے کا پورا منصوبہ موجود تھا۔ شبِ قدر میں  صرف یہ  کام ہوا کہ اس منصوبے کے آخری  حصّے پر عملدر آمد شروع ہو گیا۔ اُس وقت اگر پورا قرآن حاملین وحی کے حوالہ کر دیا گیا ہو تو کوئی قابلِ تعجب امر نہیں  ہے۔  قدْر کے معنی بعض مفسّرین نے تقدیر کے لیے ہیں،  یعنی یہ وہ رات ہے کہ جس میں  اللہ تعالیٰ تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے  کے لیے فرشتوں  کے سپرد کر دیتا ہے۔  اس کی تائید سُورۂ دُخان کی یہ آیت کرتی ہے  فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ، ’’ اُس رات میں  حر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے ‘‘(آیت ۵)۔ بخلاف اس کے امام زُہری کہتے ہیں  قدْر کے معنی عضمت و شرف کے ہیں،  یعنی وہ بڑی عظمت والی رات ہے۔  اِس معنی کی تائید اِسی سورۃ کے اِن الفاظ سے ہوتی ہے کہ ’’شبِ قدر ہزار مہینوں  سے زیادہ بہتر ہے۔ ‘‘ اب رہا یہ سوال کہ یہ کون سی رات تھی،  تو اس میں   اتنا اختلا ف ہوا ہے  کہ قریب قریب، ۴۰ مختلف اقوال اِس کے بارے میں  ملتے ہیں۔  لیکن علماء امت کی بڑی اکثریت  یہ رائے رکھتی ہے کہ رمضان کی آخری دس تاریخوں  میں  سے کوئی ایک طاق رات شبِْ قدر ہے،  اور ان میں  بھی زیادہ تر لوگوں  کی رائے یہ ہے کہ ستائیسویں  رات ہے۔  اِس معاملہ میں  جو معتبر  احادیث منقول ہوئی ہیں  انہیں  ہم ذیل میں  درج کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے لیلۃ القدر کے بارے میں  فرمایا کہ وہ ستائیسویں  یا انتیسویں  رات ہے (ابوداؤد طَیَا لِسی)۔ دوسری روایت حضرت ابو ہریرہ ؓ سے یہ ہے کہ وہ رمضان کی آخری رات ہے (مُسند احمد)۔ حضرت اُبَیّ بن کَعب سے زِرّبن حُبَیش نے شب قدر کے متعلق پوچھا  تو انہوں  نے حلفاً کہا اور استثنا ء نہ کیا کہ وہ ستائیسویں  رات ہے ( احمد، مسلم، ابو داؤد، تِرْمِذی، نَسائی، ابن حِبّان)۔ حضرت ابو ذر سے سے اس کے بارے میں  دریافت کیا گیا تو انہوں  نے کہا کہ حضرت عمر ؓ، حضرت حُذَیْفَہ ؓ اور اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم میں  سے بہت سے لوگوں  کو اس میں  کوئی شک نہ تھا کہ وہ رمضان کی ستائیسویں  رات ہے (ابن ابی شَیْبَہ)۔ حضرت عُبادہ بن صامِت ؓ  کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے فرمایا کہ شبِ قدر رمضان کی آخری دس راتوں  میں  سے طاق رات ہے،  اکیسویں،  یا تئیسویں،  یا پچیسویں،  یا ستائیسویں،  یا انتیسویں،  یا آخری(مُسند احمد)۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ  کہتے  ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے فرمایا اُسے رمضان کی آخری دس راتوں  میں  تلاش کرو جب کہ مہینہ ختم ہونے میں  ۹ دن باقی ہوں،  یا سات دن باقی ہوں،  یا پانچ دن باقی ہوں (بخاری)۔ اکثر اہلِ علم نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ حضور ؐ  کی مراد طاق راتوں  سے تھی۔ حضرت ابو بکرہ کی روایت ہے کہ ۹ دن باقی ہوں،  یا سات دن،  یا پانچ دن،  یا تین دن، یا آخری رات، مراد یہ تھی کہ اِن تاریخوں  میں  لیلۃ القدر کو تلاش کرو (ترمذی،  نسائی)۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں  میں  سے طاق رات میں  تلاش کرو(بخاری، مسلم، احمد،  ترمذی)۔ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے تازیست رمضان کی آخری دس راتوں  میں  اعتکاف فرمایا ہے۔  اس معاملہ میں  جو روایات حضرت معاویہ ؓ، حضرت ابن عمر ؓ، حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ بزرگوں  سے مروی ہیں  اُن کی بنا پر علمائے سلف کی بڑی تعداد ستائیسویں  رمضان ہی کو شبِ قدر سمجھتی ہے۔  غالباً کسی رات کا تعیُّن اللہ اور اس کے رسول ؐ کی طرف سے اس لیے نہیں  کیا گیا ہے کہ شب قدر کی فضیلت سے فیض اُٹھانے کے شوق میں  لوگ زیادہ سے زیادہ راتیں  عبادت میں  گزاریں  اور کسی ایک رات پر اکتفا نہ کریں۔  یہاں  یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس  وقت مکّۂ معظمہ میں  رات ہوتی ہے اُس وقت دنیا کے ایک بہت بڑے حصّے میں  دن ہوتا ہے،  اس لیے اُن علاقوں  کے لوگ تو کبھی شبِ قدر کو پاہی نہیں  سکتے۔  اس کا جواب یہ ہے کہ عربی زبان میں  اکثر رات کا لفظ دن اور رات  کے مجموعے کے لیے بولا جاتا ہے۔  اس لیے رمضان کی اِن تاریخوں  میں  سے جو تاریخ بھی دنیا کے کسی حصّہ میں  ہو اُس کے دن سے پہلے والی رات وہاں  کے لیے شبِ قدر ہو سکتی ہے۔

2: مفسّرین نے بالعموم اس کے یہ معنی بیان کیے ہیں  کہ  اس رات کا عملِ خیر ہزار مہینوں  کے عملِ خیر سے افضل ہے جن میں  سے شب قدر شمار نہ ہو۔ اِس میں  شک نہیں   کہ یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے اِس رات کے عمل کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔  چنانچہ بخاری و مسلم میں  حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ حضور ؐ  نے فرمایا من قام لیلۃ القدر ایماناً واحتساباً غفر لہ ماتقدم من ذنبہ ،  ’’جو شخص شبِ قدر میں  ایمان کے ساتھ اور اللہ کے اجر کی خاطر عبادت کے لیے کھڑا رہا اس کے تمام پچھلے گنا ہ معاف ہو گئے۔ ‘‘ اور مُسند احمد میں  حضرت عُبادہ بن صامِت کی روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ ’’شب قدر رمضان کی آخری  دس راتوں  میں  ہے،  جو شخص ان کے اجر کی  طلب میں  عبادت کے لیے کھڑا رہا اللہ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دے گا۔‘‘ لیکن آیت کے الفاظ یہ نہیں  ہیں  کہ العمل فی  لیلۃ القدر خیر من العمل فی الف شھر (شب قدر میں  عمل کرنا ہزار مہینوں  میں  عمل کرنے سے بہتر ہے ) بلکہ فرمایا یہ گیا ہے کہ ’’شب قدر ہزار مہینوں  سے بہتر ہے۔ ‘‘ اور ہزار مہینوں  سے مراد گِنے ہوئے ۸۳ سال چار مہینے نہیں  ہیں  بلکہ اہلِ عرب کا قاعدہ تھا کہ بری کثیر تعداد کا تصور دلانے کے لیے وہ ہزار کا لفظ بولتے تھے۔  اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ اِس ایک رات میں  خیر اور بھلائی کا اتنا  بڑا کام ہوا کہ کبھی انسانی تاریخ کے کسی طویل زمانے میں  بھی ایسا کام نہیں  ہوا تھا۔

3: روح سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں  جن کے فضل و شرف کی بنا پر ان کا ذکر فرشتوں  سے الگ کیا گیا ہے۔

4: یعنی وہ بطورِ  خود نہی آتے بلکہ اپنے ربّ کے اِذن سے آتے ہیں۔  اور ہر حکم سے مراد وہی ہے جسے سورۂ دُخان، آیت ۵ میں  امرِ حکیم (حکیمانہ  کام) کہا گیا ہے۔

5: یعنی شام سے صبح تک وہ پوری رات خیر ہی خیر ہے،  ہر شر اور فتنے سے پاک۔