تفہیم القرآن

سورة طٰه

زمانۂ نزول

اس سورۃ کا زمانہ  نزول سورہ مریم کے زمانے قریب ہی کاہے۔ ممکن ہے کہ یہ ہجرت حبشہ کے زمانے میں یا اس کے بعد نازل ہوئی ہو۔ بہر حال یہ امر یقینی ہے کہ حضرت عمرؓ کے قبول اسلام سے پہلے یہ نازل ہو چکی تھی۔

ان کے قبول اسلام کی سب سے زیادہ مشہور اور معتبر روایت یہ ہے کہ جب وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرنے کی نیت سے نکلے تو راستہ میں ایک شخص نے ان سے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمہاری اپنی بہن اور بہنوئی اس نئے دین میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر سیدھے بہن کے گھر پہنچے۔ وہاں ان کی بہن فاطمہؓ بنت خطاب اور ان کے بہنوئی سعید بن زید بیٹھے ہوئے حضرت خبابؓ بن اَرت سے ایک صحیفے کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ حضرت عمر کے آتے ہی ان کی بہن نے صحیفہ فوراً چھپا لیا۔ مگر حضرت عمر اس کے پڑھنے کی آواز سن چکے تھے۔ انہوں نے پہلے کچھ پوچھ گچھ کی۔ اس کے بعد بہنوئی پر پل پڑے اور مارنا شروع کر دیا۔ بہن نے بچانا چاہا تو انہیں بھی مارا یہاں تک کہ ان کا سر پھٹ گیا۔ آخر کار بہن اور بہنوئی دونوں نے کہا کہ ہاں،  ہم مسلمان ہو چکے ہیں،  تم سے جو کچھ ہو سکے کر لو۔ حضرت عمر اپنی بہن کا خون بہتے دیکھ کر کچھ پشیمان سے ہو گئے اور کہنے لگے کہ اچھا مجھے بھی وہ چیز دکھاؤ جو تم لوگ پڑھ رہے تھے۔ بہن نے پہلے قسم لی کہ وہ اسے پھاڑ نہ دیں گے۔ پھر کہا کہ تم جب تک غسل نہ کر لو، اس پاک صحیفے کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ حضرت عمرؓ نے غسل کیا اور پھر وہ صحیفہ لے کر پڑھنا شروع کیا۔ اس میں یہی سورہ طٰہٰ لکھی ہوئی تھی۔ پڑھتے پڑھتے یک لخت ان کی زبان سے نکلا ’’ کیا خوب کلام ہے ‘‘۔ یہ سنتے ہیں حضرت خباب بن ارت،  جو ان کی آہٹ پاتے ہی چھپ گئے تھے،  باہر آ گئے اور کہا کہ ’’بخدا، مجھے توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنے نبی کی دعوت پھیلانے میں بڑی خدمت لے گا، کل ہی میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ خدایا، ابولحکم بن ہشام (ابو جہل) یا عمر بن خطاب دونوں میں سے کسی کو اسلام کا حامی بنا دے۔ پس اے عمر،  اللہ کی طرف چلو،  اللہ کی طرف چلو‘‘۔ اس فقرے نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور اسی وقت حضرت خباب کے ساتھ جا کر حضرت عمرؓ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اسلام قبول کر لیا۔ یہ ہجرت حبشہ سے تھوڑی مدت بعد ہی کا قصہ ہ۔ 

موضوع و مبحث

سورہ کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ اے محمدؐ ! یہ قرآن تم پر کچھ اس لیے نازل نہیں کیا گیا ہے کہ خواہ مخواہ بیٹھے بٹھائے تم کو ایک مصیبت میں ڈال دیا جائے۔ تم سے یہ مطالبہ نہیں ہے کہ پتھر کی چٹانوں سے دودھ کی نہر نکالو، نہ ماننے والوں کو منوا کر چھوڑو، اور ہٹ دھرم لوگوں کے سلوں میں ایمان پیدا کر کے دکھاؤ۔ یہ تو بس ایک نصیحت اور یاد دہانی ہے تاکہ جس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور جو اس کی پکڑ سے بچنا چاہے وہ سن کر سیدھا ہو جائے۔ یہ مال زمین و آسمان کا کلام ہے۔ اور خدائی اس کے سوا کسی کی نہیں،  یہ دونوں حقیقتیں اپنی جگہ اٹل ہیں،  خواہ کوئی مانے یا نہ مانے۔

اس تمہید کے بعد یکایک حضرت موسیٰ کا قصہ چھیڑ دیا گیا ہے۔ بظاہر یہ محض ایک قصے کی شکل میں بیان ہوا ہے۔ وقت کے حالات کی طرف اس میں کوئی اشارہ تک نہیں ہے۔ مگر جس ماحول میں یہ قصہ سنایا گیا ہے،  اس کے حالات سے مل جل کر یہ اہل مکہ سے کچھ اور باتیں کرتا نظر آتا ہے جو اس کے الفاظ سے نہیں بلکہ اس کے بین السطور سے ادا ہو رہی ہیں۔ان باتوں کی تشریح سے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیئے کہ عرب میں کثیر التعداد یہودیوں کی موجود گی اور اہل عرب پر یہودیوں کے علمی و ذہنی تفوق کی وجہ سے،  نیز روم اور حبش کی عیسائی سلطنتوں کے اثر سے بھی، عربوں میں بالعموم حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا کا نبی تسلیم کیا جاتا تھا۔ اس حقیقت کو نظر میں رکھنے کے بعد اب دیکھیے کہ وہ باتیں کیا ہیں جو اس قصے کے بین السطور سے اہل مکہ کو جتائی گئی ہیں :۔

۱)۔ اللہ تعالیٰ کسی کو نبوت اس طرح عطا نہیں کیا کر تا کہ ڈھول تاشے اور نفیریاں بجا کر ایک خلق اکٹھی کر لی جائے اور پھر باقاعدہ ایک تقریب کی صورت میں یہ اعلان کیا جائے کہ آج سے فلاں شخص کو ہم نے نبی مقرر کیا ہے۔ نبوت تو جس کو بھی دی گئی ہے،  کچھ اسی طرح بصیغۂ  راز دی گئی ہے جیسے حضرت موسیٰ کو دی گئی تھی۔ اب تمہیں کیوں اس بات پر اچنبھا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم یکایک نبی بن کر تمہارے سامنے آ گئے اور اس کا اعلان نہ آسمان سے ہوا نہ زمین پر فرشتوں نے چل پھر کر اس کو ڈھول پیٹا۔ ایسے اعلانات پہلے نبیوں کے تقرر پر کب ہوئے تھے کہ آج ہوتے ؟

۲ )۔ جو بات آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں (یعنی توحید اور آخرت) ٹھیک وہی بات منصب نبوت پر مقرر کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو سکھائی تھی۔

۳)۔ پھر جس طرح آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بغیر کسی سرو سامان اور لاؤ لشکر کے تن تنہا قریش کے مقابلے میں دعوت حق کا عَلم بردار بنا کر کھڑا کر دیا گیا ہے،  ٹھیک اسی طرح موسیٰ علیہ السلام بھی یکایک اتنے بڑے کام پر مامور کر دیے گئے تھے کہ جا کر فرعون جیسے جبار بادشاہ کو سرکشی سے باز آنے کی تلقین کریں۔ کوئی لشکر ان کے ساتھ بھی نہیں بھیجا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے معاملے ایسے ہی عجیب ہیں۔ وہ مدین سے مصر جانے والے ایک مسافر کو راہ چلتے پکڑ کر بلا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ جا اور وقت کے سب سے بڑے جابر حکمراں سے ٹکرا جا۔ بہت کیا تو اس کی درخواست پر اس کے بھائی کو مدد گار کے طور پر دے دیا۔ کوئی فوج فرّا اور ہاتھی گھوڑے اس کار عظیم کے لیے اس کو نہیں دیئے گئے۔

۴)۔ جو اعتراضات اور شبہات اور الزامات اور مکر و ظلم کے ہتھکنڈے اہل مکہ آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں استعمال کر رہے ہیں ان سے بڑھ چڑھ کر وہی سب ہتھیار فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں استعمال کیے تھے۔ پھر دیکھ لو کہ کس طرح وہ اپنی ساری تدبیروں میں ناکام ہوا اور آخر کا کون غالب آ کر رہا؟ خدا کا بے سرو سامان نبی ؟ یا لاؤ لشکر والا فرعون ؟ اس سلسلہ میں خود مسلمانوں کو بھی ایک غیر ملفوظ تسلی دی گئی ہے کہ اپنی بے سر و سامانی اور کفار قریش کے سرو سامان پر نہ جائیں،  جس کام کے پیچھے خدا کا ہاتھ ہوتا ہے وہ آخر کار غالب ہی ہو کر رہتا ہے۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کے سامنے ساحران مصر کا نمونہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ جب حق ان پر منکشف ہو گیا تو وہ بے دھڑک اس پر ایمان لے آئے اور پھر فرعون کے انتقام کا خوف انہیں بال برابر بھی ایمان کی راہ سے نہ ہٹا سکا۔

۵ )۔ آخر میں بنی اسرائیل کی تاریخ سے ایک شہادت پیش کرتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا کہ دیوتاؤں اور معبودوں کے گھڑے جانے کی ابتدا کس مضحکہ انگیز طریقے سے ہوا کرتی ہے اور یہ کہ خدا کے نبی اس گھناؤنی چیز کا نام و نشان تک باقی رہنے کے کبھی روادار نہیں ہوئے ہیں۔ پس آج اس شرک اور بت پرستی کی جو مخالفت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کر رہے ہیں وہ نبوت کی تاریخ میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔

اس طرح قصۂ  موسیٰ کے پیرائے میں ان تمام معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے جو اس وقت ان کی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی باہمی کشمکش سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے بعد ایک مختصر وعظ کیا گیا ہے کہ بہر حال یہ قرآن ایک نصیحت اور یاد دہانی ہے جو تمہاری اپنی زبان میں تم کو سمجھانے کے لیے بھیجی گئی ہے۔ اس پر کان دھرو گے اور اس سے سبق لو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے۔نہ مانو گے تو خود برا انجام دیکھو گے۔

پھر آدم علیہ السلام کا قصہ بیان کر کے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ جس روش پر تم لوگ جا رہے ہو یہ دراصل شیطان کی پیروی ہے۔ اَحیاناً شیطان کے بہکائے میں آ جاتا تو خیر ایک وقتی کمزوری ہے جس سے انسان بمشکل ہی بچ سکتا ہے۔ مگر آدمی کے لیے صحیح طریق کار یہ ہے کہ جب اس پر اس کی غلطی واضح کر دی جائے تو وہ اپنے باپ آدم کی طرح صاف صاف اس کا اعتراف کر لے،  توبہ کرے،  اور پھر خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے۔ غلطی اور اس پر ہٹ اور نصیحت پر نصیحت کیے جانے پر بھی اس سے باز نہ آنا، اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارنا ہے جس کا نقصان آدمی کو خود ہی بھگتنا پڑے گا، کسی دوسرے کا کچھ نہ بگڑے گا۔

آخر میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کو سمجھایا گیا ہے کہ ان منکرین  حق کے معاملے میں جلدی اور بے صبری نہ کرو۔ خدا کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ کسی قوم کو اس کے کفر انکار پر فوراً نہیں پکڑ لیتا بلکہ سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دیتا ہے۔

لہٰذا گھبراؤ نہیں۔ صبر کے ساتھ ان لوگوں کی زیادتیاں برداشت کرتے چلے جاؤ۔ اور نصیحت کا حق ادا کرتے رہو۔

اسی سلسلے میں نماز کی تاکید کی گئی ہے تاکہ اہل ایمان میں صبر،  تحمل،  قناعت،  رضا بقضا اور احتساب کی وہ صفا ت پیدا ہوں جو دعوت حق کی خدمت کے لیے مطلوب ہیں۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

طٰہٰ، ہم نے یہ قرآن تم پر اِس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ یہ تو ایک یاد دہانی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو ڈرے۔ ۱ نازل کیا گیا اُس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا ہے زمین کو اور بلند آسمانوں کو۔ وہ رحمٰن( کائنات کے )تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہے۔ ۲ مالک ہے اُن سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو زمین و آسمان کے درمیان ہیں اور جو مٹی کے نیچے ہیں۔ تم چاہے اپنی بات پُکار کر کہو،  وہ تو چُپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے مخفی بات بھی جانتا ہے۔ ۳ وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں، اس کے لیے بہترین نام ہیں۔ ۴
اور تمہیں کچھ موسیٰؑ کی خبر بھی پہنچی ہے ؟ جب کہ اُس نے ایک آگ دیکھی ۵ اور اپنے گھر والوں سے کہا کہ ’’ذرا ٹھہرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے۔ شاید کہ تمہارے لیے ایک آدھ انگارا لے آؤں، یا اس آگ پر مجھے(راستے کے متعلق)کوئی رہنمائی مِل جائے۔‘‘  ۶ وہاں پہنچا تو پکارا گیا ’’اے موسیٰؑ، میں ہی تیرا ربّ ہوں، جُوتیاں اُتار دے۔ ۷ تُو وادی ِ مقدس طُویٰ میں ہے۔ ۸ اور میں نے تُجھ کو چُن لیا ہے، سُن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے۔ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی خدا نہیں، پس تُو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔ ۹ قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے۔ میں اُس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں، تاک ہر متنفّس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے۔ ۱۰ پس کوئی ایسا شخص جو اُس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہشِ نفس کا بندہ بن گیا ہے تُجھ کو اُس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے،  ورنہ تُو ہلاکت میں پڑ جائے گا۔۔۔۔ اور اے موسیٰؑ،  یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘  ۱۱ موسیٰؑ نے جواب دیا ’’یہ میری لاٹھی ہے، اِس پر ٹیک لگا کر چلتا ہوں، اِس سے اپنی بکریوں کے لیے پتّے جھاڑتا ہوں، اور بھی بہت سے کام ہیں جو اِس سے لیتا ہوں۔‘‘  ۱۲ فرمایا ’’پھینک دے اِس کو موسیٰؑ۔ ‘‘  اس نے پھینک دیا اور یکایک وہ ایک سانپ تھی جو دوڑ رہا تھا۔ فرمایا ’’پکڑ لے اِس کو اور ڈر نہیں، ہم اسے پھر ویسا ہی کر دیں گے جیسی یہ تھی۔ اور ذرا اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دبا، چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے۔ ۱۳ یہ دُوسری نشانی ہے۔ اس لیے کہ ہم تجھے اپنی بڑی نشانیاں دکھانے والے ہیں۔ اب تُو فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے۔‘‘   ؏١

 

۱: یہ فقرہ پہلے فقرے کے مفہوم پر خود روشنی ڈالتا ہے۔ دونوں کو ملا کر پڑھنے سے  صاف مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ قرآن کو نازل کر کے ہم کوئی اَن ہونا کام تم سے نہیں لینا چاہتے۔ تمہارے سپرد یہ خدمت نہیں کی گئی ہے کہ جو لوگ نہیں ماننا چاہتے اُن کو منوا کر چھوڑ و اور جن کے دل ایمان کے لیے بند ہو چکے ہیں ان کے اندر ایمان اتار کر ہی رہو۔ یہ تو بس ایک تذکیر اور یاددہانی ہے اور اس لیے بھیجی گئی ہے کہ جس کے دل میں خدا کا کچھ خوف ہو وہ اسے سُن کر ہوش میں آ جائے۔ اب اگر کچھ لوگ ایسے ہیں  جنہیں خدا کا کچھ خوف نہیں،  اور جنہیں اس کی کچھ پروا نہیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، ان کے پیچھے پڑنے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں۔

۲: یعنی پیدا کرنے کے بعد کہیں جا کر سو نہیں گیا بلکہ آپ اپنے  کارخانۂ تخلیق کا سارا انتظام چلا رہا ہے،   خود اس نا پیدا کنار سلطنت پر فرمانروائی کر رہا ہے، خالق ہی نہیں ہے بالفعل حکمراں بھی ہے۔

۳: یعنی کچھ ضروری نہیں ہے کہ جو ظلم و ستم تم پر اور تمہارے ساتھیوں پر ہو رہا ہے اور جن شرارتوں اور خباثتوں  سے تمہیں نیچا دکھا نے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ان پر تم بآوازِ بلند ہی فریاد کرو۔ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ تم پر کیا کیفیت گزر رہی ہے۔ وہ تمہارے دلوں کی پکار تک سُن رہا ہے۔

۴: یعنی وہ بہترین صفات کا مالک ہے۔

۵: یہ اُس وقت کا قصّہ ہے جب حضرت موسیٰ چند سال مَدْیَن میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد اپنی بیوی کو (جن سے مَدْیَن ہی میں شادی ہوئی تھی) لے کر مصر کی طرف واپس جا رہے تھے۔ اس سے پہلے کی سرگزشت سورۂ قَصص میں بیان ہوئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ کے ہاتھوں ایک مصری ہلاک ہو گیا تھا اور اس پر انہیں اپنی گرفتاری کا اندیشہ لاحق ہو گیا تھا تو وہ مصر سے بھاگ کر مَدْیَنْ میں پناہ گزیں ہوئے تھے۔

۶: ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ رات کا وقت اور جاڑے کا زمانہ تھا۔ حضرت موسیٰ جزیرہ نمائے  سینا کے جنوبی علاقے سے گزر رہے تھے۔ دور سے ایک آگ دیکھ کر انہوں نے خیال کیا یا تو وہاں سے تھوڑی سی آگ مل جائے گی تاکہ بال بچوں کو رات بھر گرم رکھنے کا بندوبست ہو جائے، یا کم از کم وہاں سے یہ پتہ چل جائے گا کہ آگے راستہ کدھر ہے۔ خیال کیا تھا  دنیا کا راستہ ملنے کا،  اور وہاں مل گیا عقبیٰ کا راستہ۔

۷: غالباً اسی واقعہ کی وجہ سے یہودیوں میں یہ شرعی مسئلہ بن گیا کہ جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے فرمایا   خالفو ا الیھود فانھم لا یُصَلّون فی نعا لہم ولا خفا فہم، ’’یہودیوں کے خلاف عمل کرو۔کیونکہ وہ جوتے اور چمڑے کے موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے‘‘ (ابو داؤد)۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ضرور جوتے ہی پہن کر نماز پڑھنی چاہیے،  بلکہ مطلب یہ ہے کہ اسیا کرنا جائز ہے، اس لیے دونوں طرح عمل کرو۔ ابوداؤد میں عَمْرو ؓ بن عاص کی روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دونوں طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ مُسند احمد اور ابوداؤد میں ابو سعید خُدرِی ؓ کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا ’’ جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو جُوتے کو پلٹ کر دیکھ لے۔ اگر کوئی گندگی لگی ہو تو زمین سے رگڑ کر صاف کر لے اور انہی جوتوں کو پہنے ہوئے نماز پڑھ لے۔ ‘‘  ابو ہریرہ ؓ کی روایت میں حضور ؐ  کے یہ الفاظ ہیں ’’اگر تم میں سے کسی نے اپنے جوتے سے گندگی کو پامال کیا ہو تو مٹی اس کو پاک کر دینے کے لیے کافی ہے ‘‘۔ اور حضرت اُمِ سَلَمہؓ  کی روایت میں ہے: یطھر ہ مابعد ہٗ،   یعنی ’’ایک جگہ گندگی  لگی ہو گی تو دوسری جگہ جاتے جاتے خود زمین ہی اس کو پاک کر دے گی ‘‘۔ ان کثیر التعداد روایات کی بنا پر امام ابو حنیفہ،  امام ابو یوسف، امام اَوزاعی اور اسحاق بن راھَوَیہ وغیرہ فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ جو تا ہر حال میں زمین کی مٹی سے پا ک ہو جاتا ہے۔ ایک ایک قول امام احمد اور امام شافعی کا بھی اس کی تائید میں ہے۔ مگر امام شافعی کا مشہور قول اِس کے خلاف ہے۔ غالباً وہ جوتا پہن کر نماز پڑھنے کو ادب کے خلاف سمجھ کر منع کرتے ہیں، اگر چہ سمجھا یہی گیا  ہے کہ ان کے نزدیک جوتا مٹی پر رگڑ نے سے پاک نہیں ہوتا۔ ( اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ  مسجد نبوی میں چٹائی تک کو فرش نہ تھا، بلکہ کنکریاں بچھی ہوئی تھیں۔ لہٰذا ان احادیث سے استدلال کر کے اگر کوئی شخص آج کی مسجدوں کے فرش پر جوتے لے جانا چاہے تو یہ صحیح نہ ہو گا۔ البتہ گھاس پر یا کھلے میدان میں جوتے پہنے پہنے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو میدان میں نماز جنازہ بڑھتے وقت بھی جوتے اتارنے پر اصرار کرتے ہیں،  وہ دراصل احکام سے ناواقف ہیں)۔

۸: عام خیال یہ ہے کہ ’’طُویٰ‘‘  اس وادی کا نام تھا۔ مگر بعض مفسرین نے ’’وادی مقدس طُویٰ‘‘  کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ ’’وہ وادی جو ایک ساعت کے لیے مقدس کر دی گئی ہے‘‘۔

۹: یہاں نماز کی اصلی غرض پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ آدمی خدا سے غافل نہ ہو جائے، دنیا کے دھوکا دینے والے مظاہر اُس کو اِس حقیقت سے بے فکر نہ کر دیں کہ میں کسی کا بندہ ہوں، آزاد خود مختار نہیں ہوں۔ اس فکر کو تازہ رکھنے اور خدا سے آدمی کا تعلق جوڑے رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ نماز ہے جو ہر روز کئی بار آدمی کو دنیا کے ہنگاموں سے ہٹا کر خدا کی طرف لے جاتی ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا یہ مطلب بھی لیا ہے کہ نماز قائم کرتا کہ میں تجھے  یاد کروں، جیسا کہ دوسری جگہ  فرمایا   فَا ذْ کُرُوْ نِیْ اَذْکُرْکُمْ ’’مجھے یاد کرو،  میں تمہیں یاد  رکھوں گا‘‘۔ ضمناً اس آیت سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ جس شخص کو بھُول لاحق ہو جائے اسے جب بھی یاد آئے نماز ادا کر لینی چاہیے۔ حدیث میں حضرت اَنَس سے مروی ہے کہ حضور نے فرمایا من نسی صَلاۃ فلیصلّھا اذ اذکر ھا  لا کفارۃ لھا الا ذٰلک، ’’جو شخص کسی وقت کی نماز بھول گیا ہو اسے چاہیے کہ جب یاد آئے ادا کر لے،  اِس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے‘‘ (بخاری،  مسلم،  احمد)۔ اسی معنی میں ایک روایت حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بھی مروی ہے جسے مسلم، ابوداؤد اور نَسائی وغیرہ نے لیا ہے۔ اور ابو قَتَادَہ ؓ کی روایت ہے کہ حضور سے پوچھا گیا کہ اگر ہم نماز کے وقت سو گئے ہوں تو کیا کریں؟ آپؐ نے فرمایا ’’نیند میں کچھ قصور نہیں،  قصور تو جاگنے کی حالت میں ہے۔ پس جب تم میں سے کوئی شخص بھول جائے یا سو جائے تو جب بیدار ہو یا جب یاد آئے،  نماز پڑھ لے‘‘  (ترمذی، نسائی،  ابوداؤد)۔

۱۰: توحید کے بعد دوسری حقیقت جو ہر زمانے میں تمام انبیاء علیہم السّلام پر منکشف کی گئی اور جس کی تعلیم دینے پر وہ مامور کیے گئے، آخرت ہے۔ یہاں نہ صرف اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے بلکہ اس کے مقصد پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ساعتِ منتظرہ اِس لیے آئے گی کہ ہر شخص نے دنیا میں جو سعی کی ہے اس کا بدلہ آخرت میں پائے۔ اور اس کے وقت کو مخفی بھی اس لیے رکھا گیا ہے کہ آزمائش کا مدّعا پورا ہو سکے۔ جسے عاقبت کی کچھ فکر ہو اس کو ہر وقت  اِس گھڑی کا کھٹکا لگا رہے اور یہ کھٹکا اسے بے راہ روی سے بچاتا رہے۔ اور جو دنیا میں گم رہنا چاہتا ہے وہ اس خیال میں مگن رہے کہ قیامت ابھی کہیں دور دور بھی آتی نظر نہیں  آتی۔

۱۱: یہ سوال طلبِ علم کے لیے نہ تھا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کو بھی معلوم تھا کہ موسیٰ ؑ کے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔ پوچھنے سے مقصُود یہ تھا کہ لاٹھی کا لاٹھی ہونا حضرت موسیٰ ؑ کے ذہن میں اچھی طرح مستحضر ہو جائے اور پھر وہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ دیکھیں۔

۱۲: اگرچہ جواب میں صرف اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ حضور،  یہ لاٹھی ہے،  مگر حضرت موسیٰ ؑ نے اس سوال کا جو لمبا جواب دیا وہ ان کی اُس وقت کی قلبی کیفیت کا ایک دلچسپ نقشہ پیش کرتا ہے۔ قاعدے کی بات ہے کہ جب آدمی کو کسی بہت بڑی شخصیت سے بات کرنے کا موقع مل جاتا ہے تو وہ اپنی بات کو طول دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اُسے زیادہ سے زیادہ دیر تک اُس کے ساتھ ہم کلامی کا شرف حاصل رہے۔

۱۳: یعنی روشن ایسا ہو گا جیسے سورج،  مگر تمہیں اس سے کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ بائیبل میں یدِ بیضا کی ایک اور ہی تعبیر کی گئی ہے جو وہاں سے نکل کر ہمارے ہاں تفسیروں میں بھی رواج پا گئی۔ وہ یہ کہ حضرت موسیٰ  نے جب بغل میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالا تو پورا ہاتھ برص کے مریض کی طرح سفید تھا، پھر جب دوبارہ اُسے بغل میں رکھا تو وہ اصلی حالت  پر آگیا۔ یہی تعبیر اِس معجزے کی تلمود میں بھی بیان کی گئی ہے اور اس کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ فرعون کو برص کی بیماری تھی جسے وہ چھپائے ہوئے تھا، اس لیے  اس کے سامنے یہ معجزہ پیش کیا گیا کہ دیکھ یوں آناً فاناً برص کا مرض پیدا بھی ہوتا ہے اور کافور بھی ہو جاتا ہے۔لیکن اوّل تو ذوق ِ سلیم اس سے اِبا کرتا ہے کہ کسی نبی کو برص کا معجزہ دے کر ایک بادشاہ کے دربار میں بھیجا جائے۔ دوسرے اگر فرعون کو مخفی طور پر برص کی بیماری تھی تو یدِ بیضا صرف اُس کی ذات کے لیے معجزہ ہو سکتا تھا،  اس کے درباریوں پر اس معجزے کا کیا رُعب طاری ہوتا۔ لہٰذا صحیح بات وہی ہے  جو ہم نے اوپر بیان کی کہ اس ہاتھ میں سورج کی سی چمک پیدا ہو جاتی تھی جسے دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہو جاتیں۔ قدیم مفسرین میں سے بھی بہتوں نے اس کے یہی معنی لیے ہیں۔

 

موسیٰؑ نے عرض کیا ’’پروردگار، میرا سینہ کھول دے، ۱۴ اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ سُلجھا دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں، ۱۵ اور میرے لیے میرے اپنے کنبے سے ایک وزیر مقرر کر دے۔ ہارون،  جو میرا بھائی ہے۔ ۱۶ اُس کے ذریعہ سے میرا ہاتھ مضبُوط کر اور اس کو میرے کام میں شریک کر دے، تاکہ ہم خُوب تیری پاکی بیان کریں اور خُوب تیرا چرچا کریں۔ تُو ہمیشہ میرے حال پر نگران رہا ہے۔‘‘
فرمایا ’’دیا گیا جو تُو نے مانگا اے موسیٰؑ،  ہم نے پھر ایک مرتبہ تجھ پر احسان کیا۔ ۱۷ یاد کر وہ وقت جبکہ ہم نے تیری ماں کو اشارہ کیا، ایسا اشارہ جو وحی کے ذریعہ سے ہی کیا جاتا ہے کہ اِس بچے کو صندوق میں رکھ دے اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے۔ دریا اسے ساحل پر پھینک دے گا اور اسے میرا دشمن اور اس بچے  کا دشمن اُٹھا لے گا۔ میں نے اپنی طرف سے تُجھ پر محبت طاری کر دی اور ایسا انتظام کیا کہ تُو میری نگرانی میں پالا جائے۔ یاد کر جب کہ تیری بہن چل رہی تھی، پھر جا کر کہتی ہے، ’’میں تمہیں اُس کا پتہ دُوں جو اِس بچے کی پرورش اچھی طرح کرے؟‘‘  اِس طرح ہم نے تجھے پھر تیری ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ اُس کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہو۔ اور (یہ بھی یاد کر کہ)تُو نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا،  ہم نے تُجھے اس پھندے سے نکالا اور تجھے مختلف آزمائشوں سے گزارا اور تُو مَدیَن کے لوگوں میں کئی سال ٹھہرا رہا۔ پھر اب ٹھیک اپنے وقت پر تُو آگیا ہے اے موسیٰؑ۔ میں نے تجھ کو اپنے کام کا بنا لیا ہے۔جا، تُو اور تیرا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ۔ اور دیکھو، تم میری یاد میں تقصیر نہ کرنا۔ جاؤ تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کے وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔‘‘  ۱۸
دونوں الف۱۸ نے عرض کیا ’’پروردگار، ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا پِل پڑے گا۔‘‘ فرمایا ’’ڈرو مت، میں تمہارے ساتھ ہوں، سب کچھ سُن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔ جاؤ اُس کے پاس اور کہو کہ ہم تیرے ربّ کے فرستادے ہیں، بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے ربّ کی نشانی لے کر آئے ہیں اور سلامتی ہے اُس کے لیے جو راہِ راست کی پیروی کرے۔ ہم کو وحی سے بتایا گیا ہے کہ عذاب ہے اُس کے لیے جو جھُٹلائے اور منہ موڑے۔‘‘  ۱۹ فرعون ۲۰ نے کہا ’’اچھا، تو پھر تم دونوں کا ربّ کو ن ہے اے موسیٰ؟‘‘  ۲۱ موسیٰؑ نے جواب دیا ’’ ہمارا ربّ وہ ۲۲ ہے جس نے ہر چیز کو اُس کی ساخت بخشی، پھر اس کو راستہ بتایا۔‘‘  ۲۳ فرعون بولا ’’ اور پہلے جو نسلیں گزر چکیں ہیں ان کی پھر کیا حالت تھی؟‘‘  ۲۴ موسیٰؑ نے کہا ’’ اُس کا علم میرے ربّ کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے۔ میرا ربّ نہ چُوکتا ہے نہ بھُولتا ہے۔‘‘  ۲۵۔۔۔۔ ۲۶ وہی جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، اور اُس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے، اور اوپر سے پانی برسایا، پھر اُس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی۔ کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چراؤ۔ یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے۔ ۲۷   ؏ ۲

 

۱۴: یعنی میرے دل میں اس منصب عظیم کو سنبھالنے کی ہمت پیدا کر دے۔ اور میرا حوصلہ بڑھا دے۔ چونکہ یہ ایک بہت بڑا کام حضرت موسیٰ ؑ کے سپرد کیا جا رہا تھا جس کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت تھی۔ اس لیے آپ نے دعا کی کہ مجھے وہ صبر،  وہ ثبات،  وہ تحمل،  وہ بے خوفی اور وہ عزم عطا کر جو اس کام کے لیے درکا ر ہے۔

۱۵: ‘‘ بائیبل میں اس کی جو تشریح بیان ہوئی ہے وہ یہ ے کہ حضرت موسیٰ ؑ  نے عرض کیا ’’اے خداوند، میں فصیح نہیں ہوں نہ پہلے ہی تھا اور نہ جب سے تُو نے اپنے بندے سے کلام کیا۔ بلکہ رُک رُک کر بولتا ہوں اور میری زبان کند ہے ‘‘ (خروج ۱۰:۴)۔ مگر تلمود میں اس کا ایک لمبا چوڑا قصّہ بیان ہوا ہے۔ اس میں  یہ ذکر ہے  کہ بچپن میں جب حضرت موسیٰؑ فرعون کے گھر پرورش پا رہے تھے، ایک روز انہوں نے فرعون کے سر کا تاج اتار کر اپنے سر پر رکھ لیا۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوا کہ اس بچے نے یہ کام بالارادہ کیا ہے یا یہ محض طفلانہ فعل ہے۔ آخر کار یہ تجویز کیا گیا  کہ بچے کے سامنے سونا اور آگ دونوں ساتھ رکھے جائیں چنانچہ دونوں چیزیں لا کر سامنے رکھی گئیں اور حضرت موسیٰ ؑ نے اُٹھا کر آگ منہ میں رکھ لی۔ اس طرح ان کی جان تو بچ گئی،  مگر زبان میں ہمیشہ کے لیے لکنت پڑ گئی۔یہی قصّہ اسرائیلی روایات سے منتقل ہو کر ہمارے کی تفسیروں میں بھی رواج پا گیا۔ لیکن عقل اسے ماننے سے انکار کرتی ہے۔ اس لیے کہ اگر بچے نے آگ پر ہاتھ مارا بھی ہو تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ وہ انگارے کو اُٹھا کر مُنہ میں لے جا سکے۔ بچہ تو آگ کی جلن محسُوس کر تے ہی ہاتھ کھینچ لیتا  ہے۔ منہ میں لے جانے کی نوبت ہی کہاں سے آسکتی ہے؟ قرآن کے الفاظ سے جو بات ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰؑ اپنے اندر خطابت کی صلاحیت نہ پاتے تھے اور ان کو اندیشہ لاحق تھا کہ نبوّت کے فرائض ادا کرنے کے لیے اگر تقریر کی ضرورت کبھی پیش آئی ( جس کا انہیں اُس وقت تک اتفاق نہ ہوا تھا) تو ان کی طبیعت کی جھجک مانع ہو جائے گی۔ اس لیے انہوں نے دعا فرمائی کہ یا اللہ میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ میں اچھی طرح اپنی بات لوگوں کو سمجھا سکوں۔ یہی چیز  تھی جس کا فرعون نے ایک مرتبہ ان کو طعنہ دیا کہ ’’یہ شخص تو اپنی بات بھی پوری طرح بیان نہیں کر سکتا‘‘  لَا یَکَادُ یُبِیْنُ۔ الزُخرُف – ۵۲) اور یہی کمزوری تھی جس کو محسوس کر کے حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون ؑ کو مددگار کے طور پر مانگا۔ سورۂ قصص میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے وَاَخِیْ ھٰرُوْنَ ھُوَاَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَ رْسِلْہُ مِعِیَ رِدْاً، ’’میرا بھا ئی ہارون مجھ سے زیادہ زبان آور ہے، اُس کو میرے ساتھ مددگار کے طور پر بھیج‘‘۔ آگے چل کر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ  کی یہ کمزوری دُور ہو گئی تھی اور وہ خوب زور دار تقریر کرنے لگے تھے، چنانچہ قرآن میں اور بائیبل میں ان کی بعد کے دَور کی جو تقریریں آئی ہیں وہ کمال  فصاحت و بلاغتِ لسانی کی شہادت دیتی ہیں۔ یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ہکلے یا توتلے آدمی کو اپنا رسول مقرر فرمائے۔ رسول ہمیشہ شکل و صورت،  شخصیت اور صلاحیتوں کے لحاظ سے بہترین لوگ ہوئے ہیں جن کے ظاہر وہ باطن کا ہر پہلو دلوں اور نگاہوں کو متاثر کرنے والا ہوتا تھا۔ کوئی رسول ایسے عیب کے ساتھ نہیں بھیجا گیا اور نہیں بھیجا جا سکتا  تھا جس کی بنا پر وہ لوگوں میں مضحکہ بن جائے اور یا حقارت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔

۱۶: بائیبل کی روایت کے مطابق حضرت ہارون حضرت موسیٰ سے تین برس بڑے تھے۔ (خروج ۷:۷)

۱۷: اس کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ کو  ایک ایک کر کے وہ احسانات یا د دلاتا ہے جو پیدائش کے وقت سے لے کر اس وقت تک اس نے کیے تھے۔ اِن واقعات کی تفصیل سورۂ قصص میں بیان ہوئی ہے۔ یہاں صرف اشارات کیے گئے ہیں جن سے مقصود حضرت موسیٰؑ کو یہ احساس دلانا ہے کہ تم اُسی کام کے لیے پیدا کیے گئے ہو اور اُسی کام کے لیے آج تک خاص طور پر سرکاری نگرانی میں پرورش پاتے رہے ہو جس پر اب تمہیں مامور کیا جا رہا ہے۔

۱۸: آدمی کے راہِ راست پر آ نے کی دو ہی شکلیں ہیں۔ یا تو وہ تفہیم و تلقین سے مطمئن ہو کر صحیح راستہ اختیار کر لیتا ہے،  یا پھر بُرے انجام سے  ڈر کر سیدھا  ہو جاتا ہے۔

۱۸a: معلوم ہوتا ہے کہ یہ اُس وقت کی بات ہے جب حضرت موسیٰ ؑ مصر پہنچ گئے اور حضرت ہارون ؑ عملاً ان کے شریک کار ہو گئے۔ اس وقت فرعون کے پاس جانے سے پہلے دونوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ گزارش کی ہو گی۔

۱۹: اس واقعے کو بائیبل اور تلمود میں جس طرح بیان کیا گیا ہے اسے بھی ایک نظر دیکھ لیجیے تاکہ اندازہ ہو کہ قرآن مجید انبیاء علیہم السّلام کا ذکر کس شان سے کرتا ہے اور بنی اسرائیل کی روایات میں ان کی کیسی تصوری پیش کی گئی ہے۔ بائیبل کا بیان ہے کہ پہلی مرتبہ جب خدا نے موسیٰ ؑ سے کہا کہ ’’اب میں تجھے فرعون کے پاس بھیجتا ہوں کہ تُو میری قوم بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لائے‘‘  تو حضرت موسیٰؑ نے جواب  میں کہا ’’ میں کون ہوں جو فرعون کے پاس جاؤں اور بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لاؤں‘‘۔ پھر خدا نے حضرت موسیٰؑ کو بہت کچھ سمجھایا،  ان کی ڈھارس بندھائی، معجزے عطا کیے،  مگر حضرت موسیٰؑ نے پھر کہا تو یہی کہا کہ ’’اے خداوند،  میں تیری منت کرتا ہوں کسی اور کے ہاتھ سے جسے تُو چاہے یہ پیغام بھیج‘‘۔ (خروج ۴)۔ تلمود کی روایت اس سے بھی چند قدم آگے جاتی ہے۔ اس کا بیان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور حضرت موسیٰؑ کے درمیان سات دن تک اِسی بات پر رد و کد ہوتی رہی۔ اللہ کہتا رہا کہ نبی بن، مگر موسیٰؑ کہتے رہے کہ میری زبان ہی نہیں کھلتی تو میں نبی کیسے بن جاؤں۔ آخر  اللہ میاں نے کہا میری خوشی یہ ہے کہ تُو ہی بنی بن۔ اس پر حضرت موسیٰؑ نے کہا کہ لُوط کو بچانے کے لیے آپ نے فرشتے بھیجے،  ہاجرہ جب سارہ کے گھر سے نکلی تو اس کے لیے پانچ فرشتے بھیجے، اور اب اپنے خاص بچوں (بنی اسرائیل) کو مصر سے نکلوانے کے لیے آپ مجھے بھیج رہے ہیں۔ اس پر خداوند ناراض ہو گیا اور اس نے رسالت میں ان کے ساتھ ہارون کو شریک کر دیا اور موسیٰ کی اولاد کو محروم کر کے کہانت کا منصب ہارون کی اولاد کو دے دیا۔۔۔۔۔۔ یہ کتابیں ہیں جن کے متعلق بے شرم لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں ان سے یہ قصّے نقل کر لیے گئے ہیں۔

۲۰: یہاں قصے کی اِن تفصیلات کو چھوڑ دیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰؑ کس طرح فرعون کے پاس پہنچے  اور کس طرح اپنی دعوت اس کے سامنے پیش کی۔ یہ تفصیلات سورۂ اعراف رکوع ۱۳ میں گزر چکی ہیں اور آگے سورۂ شعراء رکوع ۲ – ۳،  سورۂ قصص رکوع ۴،  اور سورۂ نازعات رکوع ۱ میں آنے والی ہیں۔               فرعون سے متعلق ضروری معلومات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، الاعراف، حاشیہ نمبر ۸۵۔

۲۱: دونوں بھائیوں میں سے اصل صاحبِ دعوت چونکہ  موسیٰ علیہ السّلام تھے اس لیے فرعون نے انہی کو مخاطب کیا۔ اور ہو سکتا ہے کہ خطاب کا رُخ ان کی طرف رکھنے سے اس کا مقصد یہ بھی ہو کہ وہ حضرت ہارون کی فصاحت و بلاغت کو میدان میں آنے کا موقع نہ دینا چاہتا ہو اور خطابت کے پہلو میں حضرت موسیٰ ؑ کے ضعف سے فائدہ اُٹھا نا چاہتا ہو جس کا ذکر اس  سے پہلے گزر چکا ہے۔ فرعون کے اس سوال کا منشا یہ تھا کہ تم دونوں کسے ربّ بنا بیٹھے ہو،  مصر اور اہلِ مصر کا ربّ  تو میں ہوں۔ سورۂ نازعات میں اس کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلیٰ، ’’اے اہلِ مصر، تمہارا ربّ اعلیٰ میں ہوں‘‘۔ سورۂ زُخْرف میں وہ بھرے دربار کو مخاطب کر کے کہتا ہے   یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَھٰذِہِ الْاَنْھَارُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ، ’’اے قوم، کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے؟ اور نہ نہریں میرے نیچے نہیں بہ رہی ہیں؟‘‘  (آیت ۵۱)۔ سورۂ قصص میں وہ اپنے درباریوں کے سامنے یوں بنکارتا ہے یٰٓاَ یّھَُا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لِکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ، فَاَوْقِدْ لِیْ یَا ھَا مٰنُ عَلَی الطِّیْنِ فَا جْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلّیِ اَطَّلِعُ اِلیٰ اِلٰہِ مُوْسٰی، ’’اے سردارانِ قوم، میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا کوئی اور بھی الٰہ ہے، اے ہامان، ذرا اینٹیں پکوا اور ایک بلند عمارت میرے لیے تیار کرا تاکہ میں ذرا اوپر چڑھ کر دیکھوں تو سہی کہ یہ موسیٰ کسے الٰہ بنا رہا ہے‘‘۔ (آیت نمبر ۳۸)۔ سورۂ شعراء میں وہ حضرت موسیؑ کو ڈانٹ کر کہتا ہے لَئینِ اتَّخَذْتَ اِلٰھًا غَیْرِیْ لَاَ جْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْ نِیْنَ، ’’اگر تُو نے میرے سوا کسی کو الٰہ بنایا تو یاد رکھ کہ تجھے جیل بھیج دوں گا‘‘ (آیت نمبر۲۹)۔ اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فرعون اپنی قوم کا واحد معبود تھا اور وہاں اس کے سوا کسی کی پرستش نہ ہوتی تھی۔ یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ فرعون خود سورج دیوتا (رع یا راع) کے اوتار کی حیثیت سے بادشاہی کا استحقاق جتاتاتھا، اور یہ بات بھی مصر کی تاریخ سے ثابت ہے کہ اس قوم کے مذہب میں بہت سے دیوتاؤں اور دیویوں کی عبادت ہوتی تھی۔ اس لیے فرعون کا دعویٰ ’’واحد مرکز ِ پرستش‘‘  ہونے کا نہ تھا، بلکہ وہ عملاً مصر کی اور نظریے کے اعتبار سے دراصل پوری نوعِ انسان کی سیاسی ربوبیت و خداوندی کا مدعی تھا  اور یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ اُس کے اوپر کوئی دوسری ہستی فرمانروا ہو جس کا نمائندہ،  آ کر اسے ایک حکم دے اور اس حکم کی اطاعت کا مطالبہ اس سے کرے۔ بعض لوگوں کو اُس کی لن ترانیوں سے یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا منکر تھا اور خود خدا  ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا۔ مگر یہ بات قرآن  سے ثابت ہے کہ وہ عالمِ بالا پر کسی اور کی حکمرانی مانتا تھا۔ سورۂ المؤمن آیات ۲۸ تا ۳۴ اور سورۂ زخرف آیت  ۵۳ کو غور سے دیکھیے۔ یہ آیتیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی ہستی سے اُس کو انکار نہ تھا۔ البتہ جس چیز کو ماننے کے لیے وہ تیار نہ تھا وہ یہ تھی کہ اس کی سیاسی خدائی میں اللہ کا کوئی دخل ہو اور اللہ کا کوئی رسُول آ کر اُس پر حکم چلائے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم، القصص، حاشیہ ۵۳)۔

۲۲: یعنی ہم ہر معنی میں صرف اس کو ربّ مانتے ہیں۔ پروردگار،  آقا، مالک،  حاکم، سب کچھ ہمارے نزدیک وہی ہے۔ کسی معنی میں بھی اس کے سوا کوئی دوسرا ربّ ہمیں تسلیم نہیں ہے۔

۲۳: یعنی دنیا کی ہر شے جیسی کچھ بھی بنی ہوئی ہے،  اُسی کے بنانے سے بنی ہے۔ ہر چیز کو جو بناوٹ،  جو شکل وصورت،  جو قوت و صلاحیت،  اور جو صفت و خاصیت حاصل ہے،  اُسی کے عطیے اور بخشش کی بدولت حاصل ہے۔ ہاتھ کو دنیا میں اپنا کام کرنے کے لیے جس ساخت کی ضرورت تھی وہ اس کو دی،  اور پاؤں کو جو مناسب ترین ساخت درکار تھی وہ اس کو بخشی۔ انسان، حیوان،  نباتات، جمادات، ہوا، پانی، روشنی، ہر ایک چیز کو اس نے وہ صورتِ خاص عطا کی ہے جو اسے کائنات میں اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک انجام دینے کے لیے مطلوب ہے۔ پھر اس نے ایسا نہیں کیا کہ ہر چیز کو اس کی مخصوص بناوٹ دے کر یونہی چھوڑ دیا ہو۔ بلکہ اس کے بعد وہی ان سب چیزوں کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے اپنی ساخت سے کام لینے اور اپنے مقصدِ تخلیق کو پورا کرنے کا طریقہ اس نے نہ سکھایا  ہو۔ کان کو سننا اور آنکھ کو دیکھنا  اُسی نے سکھایا ہے۔ مچھلی کو تیرنا اور چڑیا کو اُڑنا اسی کی تعلیم سے آیا ہے۔ درخت کو پھیل پھول دینے اور زمین  کو نباتات اگانے کی ہدایت  اسی نے دی ہے۔ غرض وہ ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کا صرف خالق ہی نہیں، ہادی اور معلّم بھی ہے۔ اِس بے نظیر جامع و مختصر جملے میں حضرت موسیٰ ؑ  نے صرف یہی نہیں بتایا کہ ان کا ربّ کون ہے، بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ وہ کیوں ربّ ہے اور کس لیے اُس کے سوا کسی اور کو ربّ نہیں مانا جا سکتا۔ دعوے کے ساتھ اس کی دلیل بھی اسی چھوٹے سے فقرے میں آگئی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب فرعون اور اس کی رعایا کا ہر فرد اپنے وجودِ خاص کے لیے اللہ کا ممنون ِ احسان ہے،  اور جب ان میں سے کوئی ایک لمحہ کے لیے زندہ تک نہیں رہ سکتا جب تک اس کا دل اور اس کے پھیپھڑے اور اس کا معدہ و جگر اللہ کی دی ہوئی ہدایت سے اپنا کام نہ کیے چلے جائیں،  تو فرعون کا یہ دعویٰ کہ وہ لوگوں کا ربّ ہے،  اور لوگوں کا یہ ماننا کہ وہ واقعی ان کا ربّ ہے، ایک حماقت اور ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ مزید براں، اِسی ذرا سے فقرے میں حضرت موسیٰ ؑ نے اشارۃً رسالت کی دلیل بھی پیش کر دی جس کے ماننے سے فرعون کو  انکار تھا۔ ان کے دلیل میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ خدا جو تمام کائنات کا ہادی ہے، اور جو ہر چیز کو اس کی حالت اور ضرورت کے مطابق ہدایت دے رہا ہے، اس کے عالمگیر  منصبِ ہدایت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کو شعوری زندگی کے لیے بھی رہنمائی کا انتظام کرے۔ اور انسان کی شعوری زندگی  کے لیے رہنمائی کی وہ شکل موزون نہیں ہو سکتی جو مچھلی اور مرغی کی رہنمائی کے لیے موزوں ہے۔ اس کی موزوں ترین چکل یہ ہے کہ ایک ذی شعور انسان اس کی طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہو اور وہ ان کی عقل و شعور کو اپیل کر کے انہیں سیدھا راستہ بتائے۔

۲۴: یعنی اگر بات یہی ہے کہ جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی اور زندگی میں کام کرنے کا راستہ بتایا اس کے سوا کوئی دوسرا ربّ نہیں ہے،  تو یہ ہم سب کے باپ  دادا جو صدہا برس سے نسل در نسل دوسرے ارباب کی بندگی کرتے چلے آرہے ہیں، ان کی تمہارے نزدیک کیا پوزیشن ہے؟ کیا وہ سب گمراہ تھے؟ کیا وہ سب عذاب کے مستحق تھے؟ کیا ان سب کی عقلیں ماری گئی تھیں؟ یہ تھا فرعون کے پاس حضرت موسیٰ ؑ کی اس دلیل کا جواب۔ ہو سکتا ہے کہ یہ جواب اُس نے بر بنائے جہالت دیا ہو اور ہو سکتا ہے کہ بربنائے شرارت۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں دونوں باتیں شامل ہوں،  یعنی وہ خود بھی اس بات پر جھلا گیا ہو کہ اِس مذہب سے ہمارے تمام بزرگوں کی گمراہی لازم آتی ہے،  اور ساتھ ساتھ اس کا مقصد یہ بھی ہو کہ اپنے اہل ِ دربار اور عام اہلِ مصر کے دلوں میں حضرت موسیٰ کی دعوت کے خلاف ایک تعصب بھڑکا دے۔ اہلِ حق کی تبلیغ کے خلاف یہ ہتھکنڈا ہمیشہ استعمال  کیا جاتا رہا ہے اور جاہلوں کو مشتعل کر نے کے لیے  بڑا مؤثر ثابت ہوا ہے۔ خصوصاً اُس زمانہ میں جبکہ قرآن کی یہ آیات نازل ہوئی ہیں، مکّہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے سب سے  زیادہ  اسی ہتھکنڈے سے کام لیا جا رہا تھا،  اس لیے حضرت موسیٰ کے مقابلے میں فرعون کی اس مکاری کا ذکر یہاں بالکل برمحل تھا۔

۲۵: یہ ایک نہایت ہی حکیمانہ جواب ہے جو حضرت موسیٰ نے اس وقت دیا اور اس سے حکمت تبلیغ کا ایک بہترین سبق حاصل ہوتا ہے۔ فرعون کا مقصد، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، سامعین کے،   اور ان کے توسط سے پوری قوم کے دلوں میں تعصب کی آگ بھڑکانا تھا۔ اگر حضرت موسیٰ کہتے کہ ہاں وہ سب جاہل اور گمراہ تھے اور سب کے سب جہنم کا ایندھن بنیں گے  تو چاہے یہ حق گوئی کا بڑا زبر دست نمونہ ہوتا،  مگر یہ جواب حضرت موسیٰ کے بجائے فرعون کے مقصد کی زیادہ خدمت انجام دیتا۔ اس لیے آنجناب نے کما ل دانائی کے ساتھ ایسا جواب دیا جو بجائے خود حق بھی تھا، اور ساتھ ساتھ اس نے فرعون کے زہریلے دانت بھی توڑ دیے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ جیسے کچھ بھی تھے، اپنا کام کر کے خدا کے ہاں جا چکے ہیں۔ میرے پاس ان کے اعمال اور ان کی نیتوں کو جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان کے بارے میں کوئی حکم لگاؤں۔ ان کا پورا ریکارڈ اللہ کے پاس محفوظ ہے۔ ان کی ایک ایک حرکت اور اس کے محرکات کو خدا جانتا ہے۔ نہ خدا کی نگاہ سے کوئی چیز بچی رہ گئی ہے اور نہ اس کے حافظہ سے کوئی شے محو ہوئی ہے۔ ان سے  جو کچھ بھی معاملہ خدا کو کرنا ہے اس کو وہی جانتا ہے۔ مجھے اور تمہیں یہ فکر نہیں ہونی چاہیے کہ ان کا موقف کیا تھا  اور ان کا انجام کیا ہو گا۔ ہمیں تو اس کی فکر ہونی چاہیے کہ ہمارا موقف کیا ہے اور ہمیں کس انجام سے دوچار ہونا ہے۔

۲۶: اندازِ کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کا جواب ’’نہ بھُولتا ہے‘‘  پر ختم ہو گیا، اور یہاں سے آخر پیراگراف تک کی پوری عبارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور ِ شرح و تذکیر ارشاد ہوئی ہے۔ قرآں میں اس طرح کی مثالیں بکثرت موجود ہیں کہ کسی گزرے ہوئے یا آئندہ پیش آنے والے واقعے کو بیان کرتے ہوئے جب کسی شخص کا کوئی قول نقل کیا جاتا ہے،  تو اس کے بعد متصلاً چند فقرے وعظ و پند، یا شرح و تفسیر، یا تفصیل و توضیح کے طور پر مزید ارشاد فرمائے جاتے ہیں اور صرف اندازِ کلام سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ اس شخص کا قول نہیں ہے جس کا پہلے ذکر ہو رہا تھا، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول ہے۔ واضح رہے کہ اس عبارت کا تعلق صرف قریب کے فقرے ’’میرا ربّ نہ چُوکتا ہے نہ بھُولتا ہے‘‘  سے ہی نہیں ہے بلکہ حضرت موسیٰ کے پورے کلام سے ہے جو    رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْ ءٍ   سے شروع ہوا ہے۔

۲۷: یعنی جو لوگ عقل سلیم سے کام لے کر جستجو حق کرنا چاہتے ہوں وہ اِن نشانات  کی مدد سے منزلِ حقیقت تک پہنچنے کا راستہ معلوم کر سکتے ہیں۔ یہ نشانات اُن کو بتا دیں گے کہ اس کائنات کا ایک ربّ ہے اور ربوبیت ساری کی ساری اسی کی ہے۔ کسی دوسرے ربّ کے لیے یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

 

اِس زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے،  اِسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے۔ ۲۸ ہم نے فرعون کو اپنی سب ہی نشانیاں ۲۹ دکھائیں مگر وہ جھٹلائے چلا گیا اور نہ مانا۔ کہنے لگا ’’اے موسیٰؑ،  کیا تُو ہمارے پاس اِس لیے آیا ہے کہ اپنے جادُو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرے؟ ۳۰ اچھا، ہم بھی تیرے مقابلے میں ویسا ہی جادُو لاتے ہیں۔ طے کر لیے کب اور کہاں مقابلہ کرنا ہے۔ نہ ہم اِس قرارداد سے پھریں گے نہ تُو پِھریو۔ کھُلے میدان میں سامنے آ جا۔‘‘  موسیٰؑ نے کہا ’’جشن کا دن طے ہوا، اور دن چڑھے لوگ جمع ہوں۔‘‘  ۳۱ فرعون نے پلٹ کر اپنے سارے ہتھکنڈے جمع کیے اور مقابلے میں آگیا۔ ۳۲
موسیٰؑ نے (عین موقع پر گروہِ مقابل کو مخاطب کر کے )۳۳ کہا ’’ شامت کے مارو، نہ جھُوٹی تہمتیں باندھو اللہ پر، ۳۴ ورنہ وہ ایک سخت عذاب سے تمہارا ستیا ناس کر دے گا۔ جھُوٹ جس نے بھی گھڑا وہ نامراد ہوا۔‘‘  یہ سُن کر اُن کے درمیان اختلافِ رائے ہو گیا اور وہ چُپکے چُپکے باہم مشورہ کرنے لگے۔ ۳۵ آخر کار کچھ لوگوں نے کہا کہ ’’ ۳۶ یہ دونوں تو محض جادُو گر ہیں۔ اِن کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جادُو کے زور سے تم کو تمہاری زمین سے بے دخل کر دیں اور تمہارے مثالی طریقِ زندگی کا خاتمہ کر دیں۔ ۳۷ اپنی ساری تدبیریں آج اکٹھی کر لو اور ایکا کر کے میدان میں آؤ۔ ۳۸ بس یہ سمجھ لو کہ آج جو غالب رہا وہی جیت گیا۔‘‘
جادُو گر ۳۹ بولے ’’موسیٰؑ،  تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں؟‘‘  موسیٰؑ نے کہا ’’ نہیں، تم ہی پھینکو۔‘‘
یکایک اُن کی رسّیاں اور اُن کی لاٹھیاں اُن کے جادُو کے زور سے موسیٰؑ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں، ۴۰ اور موسیٰؑ اپنے دل میں ڈر گیا۔ ۴۱ ہم نے کہا ’’ مت ڈر، تُو ہی غالب رہے گا۔ پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے، ابھی اِن کی ساری بناوٹی چیزوں کو نِگلے جاتا ہے۔ ۴۲ یہ جو کچھ بنا کر لائے ہیں یہ تو جادُو گر کا فریب ہے، اور جادُوگر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، خواہ کسی شان سے وہ آئے۔‘‘  آخر کو یہی ہوا کہ سارے جادُو گر سجدے میں گِرا دیے گئے ۴۳ اور پُکار اُٹھے ’’ مان لیا ہم نے ہارونؑ اور موسیٰؑ کے ربّ کو۔‘‘  ۴۴
فرعون نے کہا ’’ تم ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اس کی اجازت دیتا؟ معلوم ہو گیا کہ یہ تمہارا گُرو ہے جس نے تمہیں جادُوگری سکھائی تھی۔ ۴۵ اچھا، اب میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں ۴۶ اور کھجور کے تنوں پر تم کو سُولی دیتا ہوں۔ ۴۷ پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے ۴۸ ‘‘  (یعنی میں تمہیں زیادہ سخت سزا دے سکتا ہوں یا موسیٰؑ )۔
جادُوگروں نے جواب دیا ’’قسم ہے اُس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے،  یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم روشن نشانیاں سامنے آ جانے کے بعدبھی (صداقت پر)تجھے ترجیح دیں۔ ۴۹ تُوجو کچھ کرنا چاہے کرلے۔ تُو زیادہ سے زیادہ بس اِسی دنیا کی زندگی کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ ہم تو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے، تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے اور اِس جادُوگری سے جس پر تُو نے ہمیں مجبور کیا تھا، درگزر فرمائے۔ اللہ ہی اچھا ہے اوروہی باقی رہنے والا ہے‘‘۔۔۔۔ حقیقت ۵۰ یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے ربّ کے حضور حاضر ہو گا اُس کے لیے جہنّم ہے جس میں وہ نہ جیے گا  نہ مرے گا۔ ۵۱ اور جو اس کے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہو گا، جس نے نیک عمل کیے ہوں گے، ایسے سب لوگوں کے لیے بلند درجے ہیں، سدا بہار باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزا ہے اُس شخص کی جو پاکیزگی اختیار کرے۔ ؏ ۳

 

۲۸: یعنی ہر انسان کو لازماً تین مرحلوں سے گزرنا ہے۔ ایک مرحلہ موجودہ دنیا میں پیدائش سے لے کر موت تک کا۔ دوسرا مرحلہ موت سے قیامت تک کا۔ اور تیسرا قیامت کے روز دوبارہ زندہ ہونے کے بعد کا مرحلہ۔ یہ تینوں مرحلے اِس آیت کی رُو سے اِسی زمین پر گزرنے والے ہیں۔

۲۹: یعنی آفاق و اَنْفُس کے دلائل کی نشانیاں بھی،  اور وہ معجزات بھی جو حضرت موسیٰ کو دیے گئے تھے۔ قرآن میں متعدّد مقامات پر حضرت موسیٰ کی وہ تقریریں بھی موجود ہیں جو انہوں نے فرعون کو سمجھانے کے لیے کیں۔ اور وہ معجزات بھی مذکور ہیں جو اس کو پے در پے دکھائے گئے۔

۳۰: جادو سے مراد عصا  اور یدِ بیضا کا معجزہ ہے جو سورۂ اعراف اور سورۂ شعراء کی تفصیلات کے بموجب حضرت موسیٰ نے پہلی ہی ملاقات کے وقت بھرے دربار میں پیش کیا تھا۔ اس معجزے کو دیکھ کر فرعون پر جو بدحواسی طاری ہوئی اس کا اندازہ اس کے اِس فقرے سے کیا جا سکتا ہے کہ ’’تُو اپنے جادو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے ‘‘۔ دنیا کی تاریخ میں نہ پہلے کبھی یہ واقعہ پیش آیا تھا، اور نہ بعد میں کبھی پیش آیا کہ کسی جادوگر نے اپنے جادو کے زور سے کوئی ملک فتح کر لیا ہو۔ فرعون کے اپنے ملک میں سینکڑوں ہزاروں جادوگر موجود تھے جو تماشے دکھا دکھا کر انعام کے لیے ہاتھ پھیلاتے تھے۔ اس لیے فرعون کا ایک طرف یہ کہنا کہ تُو جادوگر ہے اور دوسری طرف یہ خطرہ ظاہر کرنا کہ تُو میری سلطنت چھین لینا چاہتا ہے،  کھلی ہوئی بدحواسی کی علامت ہے۔ دراصل وہ حضرت موسیٰ کی معقول و مدلّل تقریر، اور پھر ان کے معجزے کو دیکھ کر یہ سمجھ گیا تھا کہ نہ صرف اس کے اہلِ دربار،  بلکہ اس کی رعایا کے بھی عوام و خواص اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ اس لیے ا س نے جھوٹ اور فریب اور تعصبات کی انگیخت سے کام نکالنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس نے کہا یہ معجزہ نہیں جادو ہے  اور ہماری سلطنت کا ہر جادوگر اِسی طرح لاٹھی کو سانپ بنا کر دکھا سکتا ہے۔ اس نے کہا کہ لوگو،ذرا دیکھو، یہ تمہارے باپ دادا کو گمراہ اور جہنمی ٹھیراتا ہے۔ اس نے کہا کہ لوگو، ہوشیار ہو جاؤ، یہ پیغمبر ویغمبر کچھ نہیں ہے،  اقتدار کا بھُوکا ہے،  چاہتا ہے کہ یوسف کے زمانے کی طرح پھر بنی اسرائیل یہاں حکمراں ہو جائیں اور قبطی قوم سے سلطنت چھین لی جائے۔ اِن  ہتھکنڈوں سے وہ دعوتِ حق کو نیچا دکھانا چاہتا تھا۔ (مزید تشریحات کے لیے تفہیم القرآن،  جلد دوم کے حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں، الاعراف حواشی، ۸۷، ۸۸، ۸۹ – یونس، حاشیہ ۷۵۔ اِس مقام پر یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ہر زمانے میں برسرِ اقتدار لوگوں نے داعیانِ حق کو یہی الزام دیا ہے کہ وہ دراصل اقتدار کے بھُوکے ہیں اور ساری باتیں اسی مقصد کے لیے کر رہے ہیں۔ اس کی مثالوں  کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف،  آیت نمبر ۱۱۰،  ۱۲۳۔ یونس، آیت نمبر ۷۸۔ المومنون،  آیت نمبر ۲۴)۔

۳۱: فرعون کا مدّعا یہ تھا کہ ایک دفعہ جادوگروں سے لاٹھیوں اور رسیوں کا سانپ بنوا کر دکھا دوں تو موسیٰ ؑ کے معجزے کا جو اثر  لوگوں کے دلوں پر ہوا ہے وہ دُور ہو جائے گا۔ یہ حضرت موسیٰ کی منہ مانگی مراد تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ الگ کوئی دن اور جگہ مقرر کرنے کی کیا ضرورت  ہے۔ جشن کا دن قریب ہے،  جس میں تمام  ملک کے لوگ  دار السلطنت میں کھِچ کر آ جاتے ہیں۔ وہیں میلے کے میدان میں مقابلہ ہو جائے تاکہ ساری قوم دیکھ لے۔ اور وقت بھی دن کی پوری روشنی کا ہونا چاہیے تاکہ شک و شبہ کے لیے کوئی گنجائش نہ رہے۔

۳۲: فرعون اور اس کے درباریوں کی نگاہ میں اس مقابلے کی اہمیت یہ تھی کہ وہ اسی کی فیصلے پر اپنی قسمت کا فیصلہ معلق سمجھ رہے تھے۔ تمام ملک میں آدمی دوڑا دیے گئے کہ جہاں جہاں کوئی ماہر جادوگر موجود ہو اُسے لے آئیں۔ اسی طرح عوام کو بھی جمع کرنے کی خاص طور پر ترغیب دی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اکٹھے ہوں اور اپنی آنکھوں سے جادو کے کمالات دیکھ کر عصائے موسیٰ کے رعب سے محفوظ ہو جائیں۔ کھلم کھلا کہا جانے لگا کہ ہمارے دین کا انحصار اب جادوگروں کے کرتب پر ہے۔ وہ جیتیں تو ہمارا دین بچے گا، ورنہ موسیٰ کا دین چھا کر رہے گا (ملاحظہ ہو سورۂ شعراء رکوع ۳)۔ اس مقام پر یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ مصر  کے شاہی خاندان اور طبقۂ امراء کا مذہب عوام کے مذہب سے کافی مختلف تھا۔ دونوں کے دیوتا اور مندر الگ الگ تھے، مذہبی مراسم بھی یکساں نہ تھے، اور زندگی بعد موت کے معاملہ میں بھی، جس کو مصر میں بہت بڑی اہمیت حاصل تھی، دونوں کے عملی طریقے  اور نظری انجام میں بہت بڑا امتیاز پایا جاتا تھا (ملاحظہ ہو    Toynbee  کی  A study of History  صفحہ ۳۱ – ۳۲)۔ علاوہ بریں مصر میں اس سے پہلے جو مذہبی انقلابات رونما ہوئے تھے ان کی بدولت وہاں کی آبادی میں متعدّد ایسے عناصر پیدا ہو چکے تھے جو ایک مشرکانہ مذہب کی بہ نسبت ایک توحید ی مذہب کو ترجیح دیتے تھے یا دے سکتے تھے۔ مثلاً خود بنی اسرائیل اور ان کے  ہم مذہب لوگ آبادی کا کم از کم دس فی صد حصہ تھے۔ اس کے علاوہ اُس مذہبی انقلاب کو ابھی پورے ڈیڑھ سو برس بھی نہ گزرے تھے جو فرعون اَمِینوفِس یا اَخناتون (سن ۱۳۷۷۔ ۱۳۶۰ ق م) نے حکومت کے زور سے برپا کیا تھا، جس میں تمام معبودوں کو ختم کر کے صرف ایک معبود آتُون باقی رکھا گیا تھا۔ اگرچہ اس انقلاب کو بعد میں حکومت ہی کے زور سے اُلٹ دیا گیا، مگر کچھ نہ کچھ تو اپنے اثرات وہ بھی چھوڑ گیا تھا۔ اِن حالات کو نگاہ میں رکھا جائے تو فرعون کو وہ گھبراہٹ اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے جو اس موقع پر اسے لاحق تھی۔

۳۳: یہ خطاب عوام سے نہ تھا جنہیں ابھی حضرت موسیٰ کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا وہ معجزہ دکھاتے ہیں یا جادو،  بلکہ خطاب فرعون اور اس کے درباریوں سے تھا جو انہیں جادوگر قرار دے رہے تھے۔

۳۴: یعنی اُس کے معجزے کو جادو اور اس کے پیغمبر کو ساحِر کذّاب نہ قرار دو۔

۳۵: اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنے دلوں میں اپنی کمزوری کو خود محسُوس کر رہے تھے۔ ان کو معلوم تھا کہ حضرت موسیٰ نے جو کچھ دکھایا ہے وہ جادو نہیں ہے۔ وہ پہلے ہی سے اس مقابلے میں ڈرتے اور ہچکچاتے ہوئے آئے تھے،  اور جب عین موقع پر حضرت موسیٰ نے ان کو للکار کر متنبہ کیا تو ان کا عزم یکایک متزلزل ہو گیا۔ ان کا اختلاف رائے اس امر میں ہوا ہو گا کہ آیا اِس بڑے تہوار کے موقع پر،  جبکہ پورے ملک سے آئے ہوئے آدمی اکٹھے ہیں، کھلے میدان  اور دن کی پوری روشنی میں یہ مقابلہ کرنا ٹھیک ہے یا نہیں۔ اگر یہاں ہم شکست کھا گئے اور سب کے سامنے جادو اور معجزے کا فرق کھل گیا تو پھر بات سنبھالے نہ سنبھل سکے گی۔

۳۶: اور یہ کہنے والے لازماً فرعونی پارٹی کے وہ سر پھرے لوگ ہوں گے  جو حضرت موسیٰ کی مخالفت میں ہر بازی کھیل جانے پر تیار تھے۔ جہاندیدہ اور معاملہ فہم لوگ قدم آگے بڑھاتے ہوئے جھجک رہے ہوں گے۔ اور یہ سرپھرے جوشیلے لوگ کہتے ہوں گے کہ خواہ مخواہ کی دور اندیشیاں چھوڑ دو اور جی کڑا کر کے مقابلہ کر ڈالو۔

۳۷: یعنی اُن لوگوں کا دار و مدار دو باتوں پر تھا۔ ایک یہ کہ اگر جادوگر بھی موسیٰ کی طرح لاٹھیوں سے سانپ بنا کر دکھا دیں گے تو موسیٰ کا جادوگر ہونا مجمع عام میں ثابت ہو جائے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ تعصبات کی آگ بھڑکا کر حکمران طبقے کو اندھا جوش دلانا چاہتے تھے اور یہ خوف انہیں دلا رہے تھے کہ موسیٰ کا غالب آ جانا تمہارے ہاتھوں سے ملک نِکل جانے اور تمہارے مثالی (Ideal ) طریقِ زندگی کے ختم ہو جانے کا ہم معنی ہے۔ وہ ملک کے با اثر طبقے کو ڈرا رہے تھے کہ اگر موسیٰ کے ہاتھ اقتدار آگیا تو یہ تمہاری ثقافت،  اور یہ تمہارے آرٹ، اور یہ تمہارا  حسین و جمیل تمدّن، اور یہ تمہاری تفریحات، اور یہ تمہاری خواتین کی آزادیاں(جن کے شاندار نمونے حضرت یوسف کے زمانے کی خواتین پیش کر چکی تھیں) غرض وہ سب کچھ جس کے بغیر زندگی کا کوئی مزہ نہیں، غارت ہو کر رہ جائے گا۔ اس کے بعد تو نری ’’ملّائیت‘‘  کا دور دورہ  ہو گا جسے برداشت کرنے سے مر جانا بہتر ہے۔

۳۸: یعنی اِن کے مقابلے میں متحدہ محاذ پیش کرو۔ اگر اس وقت تمہارے درمیان آپس ہی میں پھوٹ پڑ گئی اور عین مقابلے  کے وقت مجمع عام کے سامنے یہ ہچکچاہٹ اور سرگوشیاں ہونے لگیں اور ابھی ہوا اکھڑ جائے گی اور لوگ سمجھ لیں گے کہ تم خود اپنے حق  پر ہونے کا یقین نہیں رکھتے، بلکہ دلوں میں چور لیے ہوئے مقابلے پر آئے ہو۔

۳۹: بیچ کی یہ تفصیل چھوڑ دی گئی  کہ اِس پر فرعون کی صفوں میں اعتماد بحال ہو گیا اور مقابلہ شروع کرنے کا فیصلہ کر کے جادوگروں کو احکام دے دیے گئے کہ میدان میں اُتر آئیں۔

۴۰: سورۂ اعراف میں بیان ہوا تھا کہ  فَلَمَّآ اَلْقَوْ ا سَحَرُوْٓ ا اَعْیُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْھَبُوْ ھُمْ، ’’جب انہوں نے اپنے اَنچھر پھینکے تو لوگوں کی نگاہوں کو مسحور کر دیا اور انہیں دہشت زدہ کر دیا‘‘ (آیت ۱۱۶)۔ یہاں بتایا جا رہا ہے کہ یہ اثر صرف عام لوگوں پر ہی نہیں ہوا تھا،  خود حضرت موسیٰ بھی سحر کے اثر سے متاثر ہو گئے تھے۔ ان کی صرف آنکھوں ہی نے یہ محسوس نہیں کیا بلکہ ان کے خیال  پر بھی یہ اثر پڑا کہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑ رہی ہیں۔

۴۱: معلوم ایسا ہوتا ہے کہ جونہی حضرت موسیٰ کی زبان سے ’’پھینکو‘‘  کا لفظ نکلا،  جادوگروں نے یکبارگی اپنی لاٹھیاں اور رسیاں ان کی طرف پھینک دیں اور اچانک ان کو یہ نظر آیا کہ سینکڑوں سانپ دوڑتے ہوئے ان کی طرف چلے آرہے ہیں۔ اِس منظر سے فوری طور پر اگر حضرت موسیٰ نے ایک دہشت اپنے اندر محسُوس کی ہو تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ انسان بہر حال انسان ہی ہوتا ہے۔ خواہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو، انسانیت کے تقاضے اُس سے منفک نہیں ہو سکتے۔ علاوہ بریں یہ  بھی ممکن ہے کہ اُس وقت حضرت موسیٰ کو یہ خوف لاحق ہوا ہو کہ معجزے سے اس قدر مشابہ منظر دیکھ کر عوام ضرور فتنے میں پڑ جائیں گے۔ اس مقام پر یہ بات لائق ذکر ہے کہ قرآن یہاں اس امر کی تصدیق  کر رہا ہے کہ عا م انسانوں کی طرح پیغمبر بھی جادو سے متاثر ہو سکتا ہے۔ اگرچہ جادوگر اس کی نبوت سلب کر لینے،  یا اس کے اوپر نازل ہونے والی وحی میں خلل ڈال دینے،  یا جادو کے اثر سے اس کو گمراہ کر دینے کی طاقت نہیں رکھتا، لیکن فی الجملہ کچھ دیر کے لیے اس کے قویٰ پر یک گو نہ اثر ضرور ڈال سکتا ہے۔ اس سے اُن لوگوں کے خیال کی غلطی کھل جاتی ہے جو احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جادو  کا اثر ہونے کی روایات پڑھ کر نہ صرف اُن روایات کی تکذیب کرتے ہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر تمام حدیثوں کو ناقابلِ اعتبار ٹھیرانے لگتے ہیں۔

۴۲: ہو سکتا ہے کہ معجزے سے جو اژدھا پیدا ہوا تھا ان تمام لاٹھیوں اور رسیوں ہی کو نگل گیا ہو جو سانپ بنی نظر آ رہی تھیں۔ لیکن جن الفاظ میں یہاں اور دوسرے مقامات پر قرآن میں اس واقعے کو بیان کیا گیا ہے اُن سے بظاہر گمان یہی ہوتا ہے کہ اس نے لاٹھیوں اور رسیوں کو نہیں نگلا بلکہ اُس جادو کے اثر کو باطل کر دیا جس کی بدولت وہ سانپ بنی نظر آ رہی تھیں۔ سورۂ اَعراف اور شعراء میں الفاظ یہ ہیں کہ تَلْقَفُ مَا یَا فِکُوْنَ، ’’جو جھوٹ وہ بنا رہے تھے  اس کو وہ نگلے جا رہا تھا ‘‘۔ اور یہاں الفاظ یہ ہیں کہ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا، ’’ وہ نگل جائے گا اُس چیز کو جو انہوں نے بنا رکھی ہے‘‘۔ اب یہ ظاہر ہے کہ ان کا جھوٹ اور ان کی بناوٹ لاٹھیاں اور رسیاں نہ تھیں بلکہ وہ جادو تھا جس کی بدولت وہ سانپ بنی نظر آرہی تھیں۔ اس لیے ہمارا خیال یہ ہے کہ جدھر جدھر وہ گیا لاٹھیوں اور رسیوں کو نِگل کر اس طرح پیچھے پھینکتا چلا گیا کہ ہر لاٹھی،  لاٹھی اور ہر رسی،  رسی بن کر پڑی رہ گئی۔

۴۳: یعنی جب انہوں نے عصائے موسیٰ کا کارنامہ دیکھا تو انہیں فوراً یقین آگیا کہ یہ یقیناً معجزہ ہے، اُن کے فن کی چیز ہر گز نہیں ہے، اس لیے وہ اس طرح یکبارگی اور بے ساختہ سجدے  میں گرے جیسے کسی نے اُٹھا اُٹھا کر اُن کو گرا دیا ہو۔

۴۴: اس کے معنی یہ ہیں کہ وہاں سب کو معلوم تھا کہ یہ مقابلہ کس بنیاد پر  ہو رہا ہے۔ پورے مجمع میں کوئی بھی اس غلط فہمی میں نہ تھا کہ مقابلہ موسیٰ اور جادوگروں کے کرتب کا ہو رہا ہے  اور فیصلہ اس بات کا ہونا ہے کہ کس کا کرتب زبردست ہے۔ سب یہ جانتے تھے کہ ایک طرف موسیٰ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ،  خالقِ زمین و آسمان کے پیغمبر کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں، اور اپنی پیغمبری کے ثبوت میں یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کا عصا معجزے کے طور پر فی الواقع اژدہا بن جاتا ہے۔ اور دوسری طرف جادوگروں کو برسرِ عام بلا کر فرعون یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ عصا سے اژدہا بن جانا معجزہ نہیں ہے بلکہ محض جادو کا کرتب ہے۔ بالفاظ ِ دیگر،  وہاں فرعون اور جادوگروں اور سارے تماشائی عوام و خواص معجزے اور جادو کے فرق سے واقف تھے، اور امتحان اِس بات کا ہو رہا تھا کہ موسیٰ جو کچھ دکھا رہے ہیں یہ جادو کی قِسم سے ہے یا اُس معجزے کی قِسم سے جو ربّ العالمین کی قدرت کے کرشمے کے سوا اور کسی طاقت سے نہیں دکھایا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جادوگروں نے اپنے جادُو کو مغلوب ہوتے دیکھ کر یہ نہیں کہا کہ ’’ہم نے مان لیا،  موسیٰ ہم سے زیادہ با کمال ہے ‘‘،  بلکہ انہیں فوراً یقین آگیا کہ موسیٰ واقعی اللہ ربّ العالمین کے سچے پیغمبر ہیں اور وہ پکار اُٹھے کہ ہم اُس خدا کو مان گئے جس کے پیغمبر کی حیثیت سے موسیٰ اور ہارون آئے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مجمعِ عام پر اس شکست کے کیا اثرات پڑے ہوں گے،  اور پھر پورے ملک پر اس کا کیسا زبردست اثر ہُوا ہو گا۔ فرعون نے ملک کے سب سے بڑے مرکزی میلے میں یہ مقابلہ اِس اُمید پر کرایا تھا کہ کہ جب مصر کے ہر گوشے سے آئے ہوئے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ جائیں گے کہ لاٹھی سانپ بنا دینا موسیٰ کا کوئی نرالا کمال نہیں ہے،  ہر جادوگر یہ کرتب دکھا لیتا ہے،  تو موسیٰ کی ہوا اُکھڑ جائے گی۔ لیکن اس کی یہ تدبیر اُسی پر اُلٹ پڑی،  اور قریہ قریہ سے آئے ہوئے لوگوں کے  سامنے خود جادوگروں ہی نے بالاتفاق اِس بات کی تصدیق کر دی کہ موسیٰ جو کچھ دکھا رہے ہیں یہ ان کے فن کی چیز نہیں ہے،  یہ فی الواقع معجزہ ہے جو صرف خدا کا پیغمبر ہی دکھا سکتا ہے۔

۴۵: سورۂ اعراف میں الفاظ یہ ہیں  اِنَّ ھٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْ تُمُوْ ہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ لِتُخْرِ جُوْ ا  مِنْھَا اَھْلَھَا، ’’ یہ ایک سازش ہے جو تم لوگوں نے دارالسلطنت میں ملی بھگت کر کے  کی ہے تاکہ سلطنت سے اس کے مالکوں کو بے دخل کر دو‘‘۔ یہاں اس قول کی مزید تفصیل یہ دی گئی ہے کہ تمہارے درمیان صرف ملی بھگت ہی نہیں ہے، بلکہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ موسیٰ تمہارا سردار اور گرُو ہے،  تم نے معجزے سے شکست نہیں کھائی  ہے بلکہ اپنے استاد سے جادو میں شکست کھائی ہے، اور تم آپس میں یہ طے کر کے آئے ہو کہ اپنے استاد کا غلبہ ثابت کر کے اور اسے اُس کی پیغمبری کا ثبوت بنا کر یہاں سیاسی انقلاب برپا کر دو۔

۴۶: یعنی ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں۔

۴۷: صلیب یا  سولی دینے کا قدیم طریقہ یہ تھا کہ ایک لمبا شہتیر سالے کر زمین میں گاڑ دیتے تھے،  یا کسی پرانے درخت کا تنا اس غرض کے لیے استعمال کرتے تھے اور اس کے اوپر کے سرے پر ایک تختہ آڑا کر کے باندھ دیتے تھے۔ پھر مجرم کو اوپر چڑھا کر اور اس کے دونوں ہاتھ پھیلا کر آڑے تختے کے ساتھ کیلیں ٹھونک دیتے تھے۔ اس طرح مجرم تختے کے بل  لٹکا رہ جاتا تھا اور گھنٹوں سسک سسک کر جان دے دیتا تھا۔ صلیب دیے ہوئے یہ مجرم ایک مدّت تک یونہی لٹکے رہنے دیے جاتے تھے تاکہ لوگ انہیں دیکھ دیکھ کر سبق حاصل کریں۔

۴۸: یہ ہری ہوئی بازی جیت لینے کے لیے فرعون کا آخری داؤ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ جادوگروں کو انتہائی خوفناک سزا سے ڈرا کر ان سے یہ اقبال کرا لے کہ واقعی یہ اُن کی اور موسیٰ علیہ السّلام کی ملی بھگت تھی اور وہ ان سے مل کر سلطنت کے خلاف سازش کر چکے تھے۔ مگر جادوگروں کے عزم و استقامت نے اُس کا یہ داؤں بھی اُلٹ دیا۔ انہوں نے اتنی ہولناک سزا برداشت کرنے کے لیے تیار ہو کر دنیا بھر کو یہ یقین دلا دیا کہ سازش کا الزام محض بگڑی ہوئی بات بنانے کے لیے ایک بے شرمانہ سیا سی چال کے طور پر گھڑا گیا ہے، اور اصل حقیقت یہی ہے کہ وہ سچے دل سے موسیٰ علیہ السّلام کی نبوت پر ایمان لے آئے ہیں۔

۴۹: دوسرا ترجمہ اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے : ’’یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم اُن روشن نشانیوں کے مقابلے میں جو ہمارے سامنے آ چکی ہیں،  اور اس ذات کے مقابلے میں جس نے ہمیں پیدا کیا ہے،  تجھے ترجیح دیں‘‘۔

۵۰: یہ جادوگروں کے قول پر اللہ تعالیٰ کا اپنا اضافہ ہے۔ اندازِ کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ عبارت جادوگروں کے قول کا حصّہ نہیں ہے۔

۵۱: یعنی موت اور زندگی کے درمیان لٹکتا رہے گا۔ نہ موت آئے گی کہ اس تکلیف اور مصیبت کا خاتمہ کر دے، اور نہ جینے کا ہی کوئی لطف اسے حاصل ہو گا کہ زندگی کو موت پر ترجیح دے سکے۔ زندگی سے بیزار ہو گا، مگر موت نصیب نہ ہو گی۔ مرنا چاہے گا مگر مر نہ سکے گا۔ قرآن مجید میں دوزخ کے عذابوں کی جتنی تفصیلات دی گئی ہیں اُن میں سب سے زیادہ خوفناک  صورت ِ عذاب یہی ہے جس کے تصوّر سے رُوح کانپ اُٹھتی ہے۔

 

ہم ۵۲ نے موسیٰؑ پر وحی کی کہ اب راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑ، اور اُن کے لیے سمندر میں سے سُوکھی سڑک بنا لے ۵۳،  تجھے کسی کے تعاقب کا ذرا خوف نہ ہو اور نہ (سمندر کے بیچ سے گزرتے ہوئے)ڈر لگے۔ پیچھے سے فرعون اپنے لشکر لے کر پہنچا، اور پھر سمندر اُن پر چھا گیا جیسا کہ چھا جانے کا حق تھا۔ ۵۴ فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا تھا، کوئی صحیح رہنمائی نہیں کی تھی۔ ۵۵
۵۶ اے بنی اسرائیل، ہم نے تم کو تمہارے دشمن سے نجات دی، اور طور کے دائیں جانب ۵۷ تمہاری حاضری کے لیے وقت مقرر کیا ۵۸ اور تم پر من و سلویٰ اُتارا ۵۹۔۔۔۔ کھاؤ ہمارا دیا ہوا پاک رزق اور اسے کھا کر سرکشی نہ کرو، ورنہ تم پر میرا غضب ٹوٹ پڑے گا۔ اور جس پر میرا غضب ٹُوٹا وہ پھر گر کر ہی رہا۔ البتہ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں۔ ۶۰ ۶۱ اور کیا چیز تمہیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی موسیٰؑ ؟ ۶۲
اُس نے عرض کیا ’’وہ بس میرے پیچھے آ  ہی رہے ہیں۔ میں جلدی کر کے تیرے حضور آگیا ہوں اے میرے ربّ، تاکہ تُو مجھ سے خوش ہو جائے۔‘‘  فرمایا ’’اچھا، تو سُنو، ہم نے تمہارے پیچھے تمہاری قوم کو آزمائش میں دال دیا اور سامری ۶۳ نے اُنہیں گمراہ کر ڈالا۔‘‘ موسیٰؑ سخت غصے اور رنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹا۔ جا کر اُس نے کہا ’’اے میری قوم کے لوگو، کیا تمہارے ربّ نے تم سے اچھے وعدے نہیں کیے تھے؟ ۶۴ کیا تمہیں دن لگ گئے ہیں؟ ۶۵ یا تم اپنے ربّ کا غضب ہی اپنے اوپر لانا چاہتے تھے کہ تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی؟‘‘  ۶۶ انہوں نے جواب دیا ’’ہم نے آپ سے وعدہ خلافی کچھ اپنے اختیار سے نہیں کی، معاملہ یہ ہوا کہ لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لَد گئے تھے اور ہم نے بس اُن کو پھینک دیا تھا‘‘  ۶۷۔۔۔۔ ۶۸ پھر اِسی طرح سامری نے بھی کچھ ڈالا اور ان کے لیے ایک بچھڑے کی مُورت بنا کر لایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ لوگ پکار اُٹھے ’’یہی ہے تمہارا خدا اور موسیٰؑ اِسے بھُول گیا۔‘‘  کیا وہ دیکھتے نہ تھے کہ نہ وہ اُن کی بات کا جواب دیتا ہے اور نہ ان کے نفع و نقصان کا کچھ اختیار رکھتا ہے؟ ؏ ۴
ہارونؑ (موسیٰؑ کے آنے سے )پہلے ہی ان سے کہہ چکا تھا کہ ’’لوگو، تم اِس کی وجہ سے فتنے میں پڑ گئے ہو، تمہارا ربّ تو رحمٰن ہے، پس تم میرے پیروی کرو اور میری بات مانو۔‘‘  مگر اُنہوں نے اُس سے کہہ دیا کہ ’’ہم تو اسی کی پرستش کرتے رہیں گے جب تک کہ موسیٰؑ واپس نہ آ جائے۔‘‘  ۶۹ موسیٰؑ (قوم کو ڈانٹنے کے بعد ہارونؑ کی طرف پلٹا اور )بولا ’’ ہارونؑ،  تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے  تمہارا ہاتھ پکڑا تھا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی؟‘‘  ۷۰ ہارونؑ نے جواب دیا ’’ اے میری ماں کے بیٹے، میری ڈاڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ، ۷۱ مجھے اِس بات کا ڈر تھا کہ تُو آ کر کہے گا تم نے بنی اسرائیل میں پھُوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا۔‘‘  ۷۲ موسیٰؑ نے کہا ’’ اور سامری، تیرا کیا معاملہ ہے؟‘‘  اس نے جواب دیا ’’ میں نے وہ چیز دیکھی جو اِن لوگوں کو نظر نہ آئی، پس میں نے رسُول کے نقشِ قدم سے ایک مٹھی اُٹھا لی اور اُس کو ڈال دیا۔ میرے نفس نے مجھے کچھ ایسا ہی سُجھایا۔‘‘  ۷۳ موسیٰؑ نے کہا ’’اچھا تو جا، اب زندگی بھر تجھے یہی پُکارتے رہنا ہے کہ مجھے نہ چھُونا۔ ۷۴ اور تیرے لیے باز پُرس کا ایک وقت مقرر ہے جو تجھ سے ہر گز نہ ٹلے گا۔ اور دیکھ اپنے اِس خدا کو جس پر تُو ریجھا ہوا تھا، اب ہم اسے جلا ڈالیں گے اور ریزہ ریزہ کر کے دریا میں بہا دیں گے۔ لوگو، تمہارا خدا تو بس ایک ہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے، ہر چیز پر اُس کا علم حاوی ہے۔‘‘
اے محمدؐ، ۷۵ اس طرح ہم پچھلے گزرے ہوئے حالات کی خبریں تم کو سُناتے ہیں، اور ہم نے خاص اپنے ہاں سے تم کو ایک ’’ذِکر‘‘  (درسِ نصیحت)عطا کیا ہے۔ ۷۶ جو کوئی اِس سے منہ موڑے گا وہ قیامت کے روز سخت بارِ گناہ اُٹھائے گا، اور ایسے سب لوگ ہمیشہ اس کے وبال میں گرفتار رہیں گے،اور قیامت کے دن اُن کے لیے (اِس جرم کی ذمّہ داری کا بوجھ)بڑا تکلیف دہ بوجھ ہو گا، ۷۷ اُس دن جبکہ صُور پھُونکا جائے گا ۷۸ اور ہم مجرموں کو اِس حال میں گھیر لائیں گے کہ ان کی آنکھیں (دہشت کے مارے)پتھرائی ہوئی ہوں گی، ۷۹ آپس میں چُپکے چُپکے کہیں گے کہ دُنیا میں مشکل ہی سے تم نے کوئی دس دن گزارے ہوں گے ۸۰۔۔۔۔ ۸۱ ہمیں خوب معلوم ہے کہ وہ باتیں کر رہے ہوں گے (ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ)اُس وقت ان میں سے جو زیادہ سے زیادہ محتاط اندازہ لگانے والا ہو گا وہ کہے گا کہ نہیں، تمہاری دنیا کی زندگی بس ایک دن کی زندگی تھی۔ ؏ ۵

 

۵۲: بیچ میں اُن حالات کی تفصیل چھوڑ دی گئی ہے جو اس کے بعد  مصر کے طویل زمانۂ  قیام میں پیش آئے۔ ان تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف رکوع ۱۵ – ۱۶، سورۂ یونس رکوع ۹، سورۂ مومن رکوع ۳ تا ۵، اور سورۂ زُخرف رکوع ۵۔

۵۳: اِس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آخر کار ایک رات مقرر فرما دی جس میں تمام اسرائیلی اور غیر اسرائیلی مسلمانوں کو  ( جن کے لیے ’’ میرے بندوں‘‘   کا جامع لفظ استعمال کیا گیا ہے) مصر کے ہر حصّے سے ہجرت کے لیے نِکل پڑنا تھا۔ یہ سب لوگ ایک طے شدہ مقام پر جمع ہو کر ایک قافلے کی صورت میں روانہ ہو گئے۔ اُس زمانے میں نہر سویز موجود نہ تھی۔ بحر احمر سے بحر روم (میڈیٹرینین) تک کا پورا علاقہ کھُلا ہوا تھا۔ مگر اس علاقے کے تمام راستوں پر فوجی چھاؤنیاں تھیں جن سے بخیریت نہیں گزرا جا سکتا تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ نے بحر احمر کی طرف جانے والا راستہ اختیار کیا۔ غالباً ان کا خیال یہ تھا کہ سمندر کے کنارے کنارے چل کر جزیرہ نمائے سینا  کی طرف نکل جائیں۔ لیکن اُدھر سے فرعون ایک لشکر عظیم لے کر تعاقُب کرتا ہوا ٹھیک اس موقع پر آ پہنچا جبکہ یہ قافلہ ابھی سمندر کے ساحل ہی پر تھا۔ سورۂ شعراء میں بیان ہُوا ہے کہ مہاجرین کا قافلہ لشکر ِ فرعون اور سمندر کے درمیان بالکل  گھِر چکا تھا۔ عین اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ  اِضْرِبْ بعَصَاکَ الْبَحْرَ، ’’اپنا عصا سمندر پر مار‘‘  فَا نْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَا اطَّوْدِ الْعَظیْمِ، ’’ فوراً سمندر پھٹ گیا  اور اس کا ہر ٹکڑا ایک بڑے ٹیلے کی طرح کھڑا ہو گیا۔ ‘‘  اور بیچ میں صرف یہی نہیں کہ قافلے کے گزرنے کے لیے راستہ نِکل آیا، بلکہ بیچ کا یہ حصّہ، اوپر کی آیت کے مطابق خشک ہو کر سوکھی سڑک کی طرح بن گیا۔ یہ صاف اور صریح معجزے کا بیان ہے اور اس سے ان لوگوں کے بیان کی غلطی واضح ہو جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہوا کے طوفان یا جوار بھاٹے کی وجہ سے سمندر ہٹ گیا تھا۔ اس طرح جو پانی ہٹتا ہے وہ دونوں طرف ٹیلوں کی صورت میں کھڑا  نہیں ہو جاتا،  اور بیچ  کا حصہ سوکھ کر سڑک کی طرح نہیں بن جاتا ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم الشعراء حاشیہ نمبر ۴۷)۔

۵۴: سورۂ شُعَراء میں بیان ہوا ہے کہ مہاجرین کے گزرتے ہی فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر  کے اس درمیانی راستے میں اتر آیا (آیات ۶۴ – ۶۶)۔ یہاں بیان کیا گیا  ہے کہ سمندر نے اس کو اور اس کے لشکر کو دبوچ لیا۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے ہے بنی اسرائل سمندر کے دوسرے کنارے پر سے فرعون اور اس کے لشکر کو غرق ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ (آیت ۵۰) اور  سورۂ یونس میں بتایا گیا ہے کہ ڈوبتے وقت فرعون پکار اُٹھا   اٰ مَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْ آ اِسْرَآئییْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، ’’ میں مان گیا کہ کوئی خدا نہیں ہے اس خدا کے سوا جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں،  اور میں بھی مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘  مگر اس آخری لمحہ کے ایمان کو قبول نہ کیا گیا اور جواب مِلا   اٰلْئٰنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ،  فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْ نَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰ یَۃً، ’’اب ایمان لاتا ہے؟ اور پہلے یہ حال تھا کہ نافرمانی کرتا رہا اور فساد کیے چلا گیا۔ اچھا، آج ہم تیری لاش کو بچائے لیتے ہیں تاکہ تُو بعد کی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنا رہے‘‘ (آیات ۹۰ – ۹۲)۔

۵۵: بڑے لطیف انداز میں کفار ِ مکہ کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تمہارے سردار  اور لیڈر بھی تم کو اسی راستے پر لیے جا رہے ہیں جس پر فرعون اپنی قوم کو لے جا رہا تھا۔ اب تم خود دیکھ لو کہ یہ کوئی صحیح رہنمائی  نہ تھی۔ اِس قصے کے خاتمے پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بائیبل کے بیانات کا بھی جائزہ لے لیا جائے تاکہ اُن لوگوں کے جھوٹ کی حقیقت کھل جائے جو کہتے ہیں  کہ قرآن میں یہ قصے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے گئے ہیں۔ بائیبل کی کتاب  خروج(Exodus ) میں اِس قصّے کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، ان کے حسبِ ذیل اجزاء قابل ِ توجہ ہیں: (۱) باب۴، آیت  ۲ – ۵ میں بتایا گیاہ ے کہ عصا کا معجزہ حضرت موسیٰ کو دیا گیا تھا۔ اور آیت ۱۷ میں انہی کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ’’تُو اس لاٹھی کو اپنے ہاتھ میں لیے جا اور اسی سے ان معجزوں کو دکھانا‘‘۔ مگر آگے جا کر نہ معلوم یہ لاٹھی کس طرح حضرت ہارون کے قبضے میں چلی گئی اور وہی اس سے معجزے دکھانے لگے۔ باب ۷ سے لے کر بعد کے ابواب میں مسلسل ہم کو حضرت ہارون ہی لاٹھی کے معجزے دکھاتے نظر آتے ہیں۔ (۲) باب ۵، میں فرعون سے حضرت موسی ٰ کی پہلی ملاقات کا حال بیان کیا گیا ہے، اور اس میں سرے سے اُس بحث کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی ربوبیت کے مسئلے پر اُن کے اور فرعون کے درمیان ہوئی تھی۔ فرعون کہتا ہے کہ ’’ خداوند کون ہے کہ میں اُس کی بات مانوں اور بنی اسرائیل کو جانے دوں؟ میں خداوند کو نہیں جانتا‘‘۔ مگر حضرت موسیٰ اور ہارون اِس کے سوا کچھ جواب نہیں دیتے کہ ’’عبرانیوں کا خدا ہم سے ملا ہے‘‘۔ (باب ۵ – آیت ۲ – ۳)۔ (۳) جادوگروں سے مقابلے کی پوری داستان بس اِن چند فقروں میں سمیٹ دی گئی ہے: ’’اور خداوند نے موسیٰ اور ہارون سے کہا کہ جب فرعون تم کو کہے کہ اپنا معجزہ دکھاؤ تو ہارون سے کہنا کہ اپنی لاٹھی کو لے کر فرعون کے سامنے ڈال دے تاکہ وہ سانپ بن جائے۔ اور موسیٰ اور ہارون فرعون کے پاس گئے اور انہوں نے خداوند کے حکم کے مطابق کیا اور ہارون نے اپنی لاٹھی فرعون اور اس کے خادموں کے سامنے ڈال دی اور وہ سانپ بن گئی۔ تب فرعون نے بھی داناؤں اور جادوگروں کو بلوایا اور مصر کے جادوگروں نے بھی اپنے جادو سے ایسا ہی کیا۔ کیونکہ انہوں نے بھی اپنی اپنی  لاٹھی سامنے ڈالی اور  وہ سانپ بن گئیں۔ لیکن ہارون کی لاٹھی ان کی لاٹھیوں کو نگل گئی‘‘۔ (باب ۷۔ آیت ۸ – ۱۲)۔ اِس بیان کا مقابلہ قرآن کے بیان سے کر کے دیکھ لیا جائے کہ قصے کی ساری روح یہاں کس بُری طرح فنا کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ جشن کے دن کھلے میدان میں باقاعدہ چیلنج کے بعد مقابلہ ہونا،  اور پھر شکست کے بعد جادوگروں کا ایمان لانا،  جو قصّے کی اصل جان تھا،  سرے سے یہاں مذکور ہی نہیں ہے۔ (۴) قرآن کہتا ہے کہ حضرت  موسیٰ کا مطالبہ بنی اسرائیل کی رہائی اور آزادی کا تھا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ مطالبہ صرف یہ تھا ’’ہم کو اجازت دے کہ ہم تین دن کی منزل بیابان میں جا کر خداوند اپنے خدا کے لیے قربانی کریں‘‘۔ (باب ۵ – آیت ۳)۔ (۵) مصر سے نکلنے اور فرعون کے غرق ہونے کا مفصل حال باب ۱۱ سے ۱۴ تک بیان کیا گیا ہے۔ اس میں بہت سی مفید معلومات،  اور قرآن کے اجمال کی تفصیلات بھی ہمیں ملتی ہیں اور  ان کے ساتھ متعدد عجیب باتیں بھی۔ مثلاً باب ۱۴ کی آیات ۱۵ – ۱۶ میں حضرت موسیٰ کو حکم دیا جاتا ہے کہ ’’تُو اپنی لاٹھی (جی ہاں، اب لاٹھی حضرت ہارون سے لے کر پھر حضرت موسیٰ کو دے دی گئی ہے) اُٹھا کر اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا اور اسے دو حصّے کر اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نِکل جائیں گے‘‘۔ لیکن آگے چل کر آیت ۲۱ – ۲۲ میں کہا جاتا ہے کہ ’’پھر موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر تُند پور بی آندھی چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اسے خشک زمین بنا دیا اور پانی دو حصّے ہو گیا اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نِکل گئے اور ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ پانی دیوار کی طرح تھا‘‘۔ یہ  بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آیا یہ معجزہ تھا یا طبعی واقعہ؟ اگر معجزہ تھا تو عصا کی ضرب سے ہی رونما ہو گیا ہو گا، جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے۔ اور اگر طبعی واقعہ تھا تو یہ عجیب  صورت ہے کہ مشرقی آندھی نے سمندر کو بیچ میں سے پھاڑ کر پانی کو دونوں طرف دیوار کی طرح کھڑا کر دیا اور بیچ میں سے خشک راستہ بنا دیا۔ کیا فطری طریقے سے ہوا کبھی ایسے کرشمے دکھاتی ہے؟ تلمود کا بیان نسبتًا بائیبل سے مختلف اور قرآن سے قریب تر ہے، مگر دونوں کا مقابلہ کرنے سے صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ ایک جگہ براہِ راست  علمِ وحی کی بنا پر واقعات بیان کیے جا رہے ہیں، اور دوسری جگہ صدیوں کی سینہ بسینہ روایات میں واقعات کی صورت اچھی خاصی مسخ ہو گئی ہے۔ ملاحظہ ہو: The Talmud Selections. H. Polano.  PP. ۱۵۰-۵۴,

۵۶: سمندر کو عبور کرنے سے لے کر کوہِ سینا کے دامن میں پہنچنے تک کی داستان بیچ میں چھوڑ دی گئی ہے۔ اس کی تفصیلات سورۂ اعراف رکوع ۱۶ – ۱۷ میں گزر چکی ہے۔ اور وہاں یہ بھی گزر چکا ہے کہ مصر سے نکلتے ہی بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینا کے ایک مندر کو دیکھ کر اپنے لیے ایک بناوٹی خدا مانگ بیٹھے تھے ( تفہیم القرآن۔ جلد دوم،  الاعراف،  حاشیہ نمبر ۹۸)۔

۵۷: یعنی طُور کے مشرقی دامن میں۔

۵۸: سورۂ بقرہ رکوع ۶، اور سورۂ اعراف رکوع ۱۷ میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو شریعت کا ہدایت نامہ عطا کرنے کے لیے چالیس دن کی میعاد مقرر کی تھی جس کے بعد حضرت موسیٰ کو پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے احکام عطا کیے گئے۔

۵۹: ‘‘ من و سلویٰ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل البقرہ، حاشیہ نمبر ۷۳۔ الاعراف،  حاشیہ نمبر ۱۱۹۔ بائیبل کا بیان ہے کہ مصر سے نکلنے کے بعد جب بنی اسرائیل دشتِ سین میں ایلیم اور سینا کے درمیان گزر رہے تھے اور خوراک کے ذخیرے ختم ہو کر فاقوں کی نوبت آ گئی تھی، اس وقت من و سلویٰ کا نزول شروع ہوا،  اور فلسطین کے آباد علاقے میں پہنچنے تک پورے چالیس سال یہ سلسلہ جاری رہا( خروج، باب ۱۶۔ گنتی، باب ۱۱۔ آیت ۷ – ۹۔ یشوع، باب ۵، آیت ۱۲)۔ کتاب خروج میں من و سلویٰ کی یہ کیفیت بیان کی گئی ہے: ’’اور یوں ہوا کہ شام کو اتنی بٹیریں آئیں کہ ان کی خیمہ کو ڈھانک لیا۔ اور صبح کو خیمہ گاہ کے آس پاس اوس پڑی ہوئی تھی اور جب وہ اوس جو پڑی تھی سوکھ گئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیابان میں ایک چھوٹی چھوٹی گول گو ل چیز، ایسی چھوٹی جیسے پالے کے دانے ہوتے ہیں،  زمین پر پڑی ہے۔ بنی اسرائیل اُسے دیکھ کر آپس میں کہنے  آ٭٭راتتلگے مَن؟ کیونکہ وہ نہیں جانے تھے کہ  وہ کیا ہے‘‘ (باب ۱۶ – آیت ۱۳ – ۱۵)۔ ’’اور بنی اسرائیل نے اُس کا نام مَن رکھا اور وہ دھنیے کے بیج کی طرح سفید اور اس کا مزہ شہد کے نے ہوئے پوئے کی طرح تھا ‘‘  (آیت ۳۱)۔ گنتی میں اس کی مزید تشریح یہ ملتی ہے: ’’لوگ اِدھر اُدھر جا کر اسے جمع کرتے اور اسے چکی میں پیستے یا اوکھلی میں کوٹ لیتے تھے۔ پھر اُسے ہانڈیوں میں اُبال کر روٹیاں بناتے تھے۔ اس کا مزہ تازہ تیل کا سا تھا۔ اور رات کو جب لشکر گاہ میں اوس پڑتی تو اس کے ساتھ مَن بھی گرتا تھا‘‘  (باب ۱۱، آیت ۸ – ۹)۔               یہ بھی ایک معجزہ تھا۔ کیونکہ ۴۰ برس بعد جب بنی اسرائیل کے لیے خوراک کے فطری ذرائع بہم پہنچ گئے تو یہ سلسلہ بند کر دیا گیا۔ اب نہ اس علاقے میں بٹیروں کی وہ کثرت ہے،  نہ مَن ہی کہیں پایا جاتا ہے۔ تلاش و جستجو کرنے والوں نے اُن علاقوں کو چھان مارا ہے جہاں بائیبل کے بیان کے مطابق بنی اسرائیل نے ۴۰ سال تک دشت نوردی کی تھی۔ مَن اُن کو کہیں نہ ملا۔ البتہ کاروباری لوگ خریداروں کو بیوقوف بنانے کے لیے مَن کا حلوا ضرور بیچتے پھرتے ہیں۔

۶۰: یعنی مغفرت کے لیے چار شرطیں ہیں۔ اوّل توبہ، یعنی سرکشی و نافرمانی یا شرک و کفر سے باز آ جانا۔ دوسرے، ایمان، یعنی اللہ اور رسول اور کتاب اور آخرت کو صدق ِ دل سے مان لینا۔ تیسرے عملِ صالح،  یعنی اللہ اور رسول کی ہدایات کے مطابق نیک عمل کرنا۔ چوتھے ابتداء، یعنی راہِ راست پر ثابت قدم رہنا اور پھر غلط راستے پر نہ جا پڑنا۔

۶۱: یہاں سے سلسلہء بیان اُس واقعہ کے ساتھ جُڑتا ہے جو ابھی اوپر بیان ہوا ہے۔ یعنی بنی اسرائیل سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ تم طور کے دائیں جانب ٹھیرو،  اور چالیس دن کی مدّت گزرنے پر تمہیں ہدایت نامہ عطا کیا جائے گا۔

۶۲: اس فقرے  سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو راستے ہی میں چھوڑ کر  حضرت موسیٰ اپنے ربّ کی ملاقات کے شوق میں آگے چلے گئے تھے۔ طور کی جانبِ اَیمن میں، جہاں کا وعدہ بنی اسرائیل سے کیا گیا تھا، ابھی قافلہ پہنچنے بھی نہ پایا تھا کہ حضرت موسیٰ اکیلے روانہ ہو گئے اور حاضری دے دی۔ اُس موقع پر جو معاملات خدا اور بندے کے درمیان ہوئے ان کی تفصیلات سورۂ اعراف رکوع ۱۷ میں درج ہیں۔ حضرت موسیٰ کا دیدارِ الہٰی کی استدعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ تُو مجھے نہیں دیکھ سکتا، پھر اللہ کا ایک پہاڑ پر ذرا سی تجلّی فرما کر اسے ریزہ ریزہ کر دینا اور حضرت موسیٰ کا بےہوش ہو کر گر پڑنا، اس کے بعد پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے احکام عطا ہونا، یہ سب اسی وقت کے واقعات ہیں۔ یہاں ان واقعات کا صرف وہ حصّہ بیان کیا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل کی گو سالہ پرستی سے متعلق ہے۔ اس کے بیان سے مقصود کفارِ مکہ کو یہ بتانا ہے کہ ایک قوم میں بُت پرستی کا آغاز کس طرح ہوا کرتا ہے اور اللہ کے نبی اس فتنے کو اپنی قوم میں سر اُٹھاتے دیکھ کر کیسے بے تاب ہو جا یا کرتے ہیں۔

۶۳: ‘‘ یہ اس شخص کا نام نہیں ہے، بلکہ یائے نسبتی کی صریح علامت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہرحال کوئی نہ کوئی  نسبت ہی ہے، خواہ قبیلے کی طرف ہو یا نسل کی طرف یا مقام کی طرف۔ پھر قرآن جس طرح  السامری کہہ کر اس کا ذکر کر رہا ہے اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں سامری قبیلے یا نسل یا مقام کے بہت سے لوگ موجود تھے جن میں سے ایک خاص سامری وہ شخص تھا جس نے بنی اسرائیل میں سنہری بچھڑے کی پرستش پھیلائی۔ اس سے زیادہ کوئی تشریح قرآن کے اِس مقام کی تفسیر کے لیے فی الحقیقت درکار نہیں ہے۔ لیکن یہ مقام اُن اہم مقامات میں سے ہے جہاں عیسائی مشنریوں اور خصوصاً مغربی مستشرقین نے قرآن پر حرف گیری کی حد کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ،   معاذ اللہ،  قرآن کے مصنف کی جہالت کا صریح ثبوت ہے، اس لیے کہ دولتِ اسرائیل کا دارالسلطنت ’’سامریہ‘‘  اِس واقعہ کے کئی صدی بعد سن ۹۲۵ ق م  کے قریب زمانے میں تعمیر ہو ا، پھر اس کے بھی کئی صدی بعد اسرائیلیوں اور غیر اسرائیلیوں کی وہ مخلوط نسل پیدا ہوئی جس نے ’’سامریوں‘‘  کے نام سے شہرت پائی۔ اُن کا خیال ہے کہ ان سامریوں میں چونکہ دوسری مشرکانہ بدعات کے ساتھ ساتھ سنہری بچھڑے کی پرستش کا رواج بھی تھا، اور یہودیوں کے ذریعہ محمد  (صلی اللہ علیہ و سلم ) نے اس بات کی سُن گُن  پالی ہو گی،  اس لیے اُنہوں نے لے  جا کر اس کا تعلق حضرت موسیٰ کے عہد سے جوڑ دیا اور یہ قصہ تصنیف کر ڈالا کہ وہاں سنہری بچھڑے کی پرستش رائج کرنے والا ایک سامری شخص تھا۔ اِسی طرح کی باتیں اِن لوگوں نے ہامان کے معاملہ میں بنائی ہیں جسے قرآن فرعون کے وزیر کی حیثیت سے پیش کرتا ہے،  اور عیسائی مشنری اور مستشرقین اسے اخسو یرس (شاہ ایران) کے درباری امیر ’’ہامان‘‘  سے لے جا کر ملا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کے مصنف کی جہالت کا ایک اور ثبوت ہے۔ شاید ان مدعیانِ علم و تحقیق کا گمان یہ ہے کہ قدیم زمانے میں ایک نام کا ایک ہی شخص یا قبیلہ یا مقام ہُوا کرتا تھا اور ایک نام کے دو یا زائد اشخاص یا قبیلہ و مقام ہونے کا قطعاً کوئی امکان نہ تھا۔ حالانکہ سُمیری قدیم تاریخ کی ایک نہایت مشہور قوم تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے سور میں عراق اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر چھائی ہوئی تھی،  اور اس بات کا بہت امکان ہے کہ حضرت موسیٰ کے عہد میں اس قوم کے،   یا اس کی کسی شاخ کے لوگ مصر میں سامری کہلاتے ہوں۔ پھر خود اس سامریہ کی اصل کو بھی دیکھ لیجیے  جس کی نسبت سے شمالی فلسطین کے لوگ بعد میں سامری کہلانے لگے۔ بائیبل  کا بیان ہے کہ دولتِ اسرائیل کے فرمانروا اعمری نے ایک شخص ’’سمر‘‘  نامی  سے وہ پہاڑ خریدا تھا جس پر اس نے بعد میں اپنا دار السلطنت تعمیر کیا۔ اور چونکہ پہاڑ کے سابق مالک کا نام سمر تھا اس لیے اس شہر کا نام سامریہ رکھا گیا (سلاطین ۱، باب ۱۶ – آیت ۲۴)۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سامریہ کے وجود میں آنے سے پہلے ’’سمر‘‘  نام کے اشخاص پائے جاتے تھے اور ان سے نسبت پا کر ان کی نسل یا قبیلے کا نام سامری، اور مقامات کا نام سامریہ ہونا کم از کم ممکن ضرور تھا۔

۶۴: ’’اچھا وعدہ نہیں کیا تھا‘‘  بھی ترجمہ ہو سکتا ہے۔ متن میں جو ترجمہ  ہم نے اختیار کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آج تک تمہارے ربّ نے تمہارے ساتھ جتنی بھلائیوں کا وعدہ بھی کیا ہے وہ سب تمہیں حاصل ہوتی رہی ہیں۔ تمہیں مصر سے بخیریت نکالا،  غلامی سے نجات دی، تمہارے دشمن کو تہس نہس کیا، تمہارے لیے اِن صحراؤں اور پہاڑی علاقوں میں سائے اور خوراک کا بندوبست کیا۔ کیا یہ سارے اچھے وعدے پورے نہیں ہوئے ؟ دوسرے ترجمے کا مطلب یہ ہو گا کہ تمہیں شریعت اور ہدایت نامہ عطا کرنے کا جو وعدہ  کیا گیا تھا،  کیا تمہارے نزدیک وہ کسی خیر اور بھلائی کا وعدہ نہ تھا؟

۶۵: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’کیا وعدہ پورا ہونے میں بہت دیر لگ گئی کہ تم بے صبر ہو گئے؟ پہلے ترجمے کا مطلب یہ ہو گا کہ تم پر اللہ تعالیٰ ابھی ابھی جو عظیم الشان احسانات کر چکا ہے، کیا اُن کو کچھ بہت زیادہ مدّت گزر گئی ہے کہ تم انہیں بھول گئے؟ کیا تمہاری مصیبت کا زمانہ بیتے قرنیں گزر چکی ہیں کہ تم سر مست ہو کر بہکنے لگے ؟ دوسرے ترجمے کا مطلب صاف ہے  کہ ہدایت نامہ عطا کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا، اس کے وفا  ہونے میں کوئی تاخیر تو نہیں ہوئی ہے جس کو تم اپنے لیے عذر اور بہانہ بنا سکو۔

۶۶: اس سے مراد وہ وعدہ ہے جو ہر قوم  اپنے نبی سے کرتی ہے۔ اُس کے اتباع کا وعدہ۔ اس کی دی ہوئی  ہدایت پر ثابت قدم رہنے کا وعدہ۔ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرنے کا وعدہ۔

۶۷: یہ اُن لوگوں کا عذر تھا جو سامری کے فتنے میں مبتلا ہوئے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم نے زیورات پھینک دیے تھے۔ نہ ہماری کوئی نیت بچھڑا بنانے کی تھی،  نہ ہمیں معلوم تھا کہ کیا بننے والا ہے۔ اس کے بعد جو معاملہ پیش آیا وہ تھا ہی کچھ ایسا کہ اسے دیکھ کر ہم بے اختیار شرک میں مبتلا ہو گئے۔ ’’لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لد گئے تھے‘‘،   اس کا سیدھا مطلب تو یہ ہے کہ ہمارے مردوں اور عورتوں نے مصر کی رسموں کے مطابق جو بھاری بھاری زیورات  پہن رکھے تھے وہ اس صحرا نوردی میں ہم  پر بار ہو گئے تھے اور ہم پریشان تھے کہ اس بوجھ کو کہاں تک لادے پھریں۔ لیکن بائیبل کا بیان ہے کہ یہ زیورات مصر سے چلتے وقت ہر اسرائیلی گھرانے کی عورتوں اور مردوں نے اپنے مصری پڑوسی سے مانگے کو لے لیے  تھے اور اِس طرح ہر ایک اپنے پڑوسی کو لوٹ کر راتوں رات ’’ہجرت‘‘  کے لیے چل کھڑا ہوا تھا۔ یہ اخلاقی کارنامہ صرف اسی حد تک نہ تھا کہ ہر اسرائیلی نے بطور خود اسے انجام دیا ہو، بلکہ یہ کارِ خیر اللہ کے نبی حضرت موسیٰ نے ان کو سکھایا تھا،  اور نبی کو بھی اس کی ہدایت خود اللہ میاں نے دی تھی۔ بائیبل کی کتاب خروج میں ارشاد ہو تا ہے: ’’خدا نے موسیٰ سے کہا۔۔۔۔۔۔ جا کر اسرائیلی بزرگوں کو ایک جگہ جمع کر اور اُن کو کہہ۔۔۔۔۔۔ کہ جب تم نکلو گے تو خالی ہاتھ نہ نکلو گے بلکہ تمہاری ایک ایک عورت اپنی پڑوسن سے اور اپنے اپنے گھر کی مہمان سے سونے پر چاندی کے زیور اور لباس مانگ لے گی۔ ان کو تم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو پہناؤ گے اور مصریوں کو لوٹ لو گے‘‘۔ (باب ۳۔ آیت  ۱۴ تا ۲۲) ’’اور خداوند نے موسیٰ سے کہا۔۔۔۔۔۔ سو اب تُو لوگوں کو کان میں یہ بات ڈال دے کہ اُن میں سے ہر شخص اپنے پڑوسی اور ہر عورت اپنی پڑوسن سے سونے چاندی کے زیور لے،  اور خداوند نے ان لوگوں پر مصریوں کو مہربان کر دیا‘‘ (باب ۱۱۔ آیت ۲ – ۳) ’’اور بنی اسرائیل نے موسیٰ کے کہنے کے موافق یہ بھی کیا کہ مصریوں سے سونے چاندی کے زیور اور کپڑے مانگ لیے اور خداوند نے اِن لوگوں کو مصریوں کی نگاہ میں ایسی عزّت بخشی کہ جو کچھ اِنہوں نے مانگا اُنہوں نے دیا، سو انہوں نے مصریوں کو لوٹ لیا‘‘۔ (باب ۱۲ – آیت ۳۵ – ۳۶) افسوس ہے کہ ہمارے مفسرین نے بھی قرآن کی اِس آیت کی تفسیر میں بنی اسرائیل کی اس روایت کو آنکھیں بند کر کے نقل کر دیا ہے اور  ان کی اس غلطی سے مسلمانوں میں بھی یہ خیال پھیل گیا ہے کہ زیورات کا یہ بوجھ اِسی لُوٹ کا بوجھ تھا۔ آیت کے دوسرے ٹکڑے ’’اور ہم نے بس ان کو پھینک دیا تھا‘‘  کا مطلب ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ جب اپنے زیورات کو لادے پھرنے سے لوگ تنگ آ گئے ہوں گے تو باہم مشورے سے یہ بات قرار پائی ہو گی کہ سب کے زیورات ایک جگہ جمع کر لیے جائیں،  اور یہ نوٹ کر لیا جائے کہ کس کا کتنا  سونا اور کس کی کتنی چاندی ہے، پھر اِن کو گلا کر اینٹوں اور سلاخوں کی شکل میں ڈھال لیا جائے،  تاکہ قوم کے مجموعی سامان کے ساتھ گدھوں اور بیلوں پر ان کو لاد کر چلا جا سکے۔ چنانچہ اس قرار داد کے مطابق ہر شخص اپنے زیورات لا لا کر ڈھیر میں پھینکتا چلا گیا ہو گا۔

۶۸: یہاں سے پیراگراف کے آخر تک کی عبارت پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ قوم کا جواب ’’پھینک دیا تھا‘‘  پر ختم ہو گیا ہے اور بعد کی یہ تفصیل اللہ تعالیٰ خود بتا رہا ہے۔ اس سے صورتِ واقعہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ لوگ پیش آنے والے فتنے سے بے خبر،  اپنے اپنے زیور لا لا کر ڈھیر کر تے چلے گئے، اور سامری صاحب بھی ان میں شامل تھے۔ بعد میں زیور گلانے کی خدمت سامری صاحب نے اپنے ذمے لے لی،  اور کچھ ایسی چال چلی کہ سونے کی اینٹیں یا سلاخیں بنانے کے بجائے ایک بچھڑے کی مورت بھٹی سے برآمد ہوئی جس میں سے بیل کی سی آواز نِکلتی تھی۔ اِس طرح سامری نے قوم کو دھوکا دیا کہ میں تو صرف سونا گلانے کا قصور وار ہوں، یہ تمہارا خدا آپ ہی اس شکل میں جلوہ فرما ہو گیا ہے۔

۶۹: بائیبل اِس کے برعکس حضرت ہارون پر الزام رکھتی ہے کہ بچھڑا بنانے اور اسے معبود قرار دینے کا گناہِ عظیم انہی سے سرزد ہو ا تھا: ’’اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ نے پہاڑ سے اتر نے میں دیر لگا ئی تو وہ  ہارون کے پاس جمع ہو کر اس سے کہنے لگے کہ اُٹھ ہمارے لیے دیوتا بنا دے جو ہمارے اگے چلے، کیونکہ  ہم نہیں جانتے کہ اِس مرد موسیٰ کو،  جو ہم  کو ملک مصر سے نکال کر لایا، کیا ہو گیا۔ ہارون نے اُن سے کہا تمہاری بیویوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے کانوں میں جو سونے کی بالیاں ہیں ان کو اتار کر میرے پاس لے آؤ۔ چنانچہ سب لوگ اُن کے کانوں سے سونے کی بالیاں اتار اتار کر ہارون کے پاس لے آئے۔ اور اس نے ان کو ان کے ہاتھوں سے لے کر ایک ڈھالا ہوا بچھڑا بنا یا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی۔ تب وہ کہنے لگے  اے اسرائیل،  یہی تیرا وہ دیوتا ہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکال کر لایا۔ یہ دیکھ کر ہارون نے اس کے آگے ایک قربان گاہ بنائی اور اُس نے اعلان کر دیا کہ خداوند کے لیے عید ہو گی‘‘  (خروج،  باب ۳۲ – آیت ۱ – ۵) بہت ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کے ہاں یہ غلط روایت اِس وجہ سے مشہور ہوئی ہو کہ سامری کا نام بھی ہارون ہی ہو، اور بعد کے لوگوں نے اِس ہارون کو ہارون نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ خلط ملط کر دیا ہو۔ لیکن آج عیسائی مشنریوں اور مغربی مستشرقوں کو اصرار ہے کہ قرآن یہاں بھی ضرور غلطی پر ہے، بچھڑے کو خدا اُن کے مقدس نبی نے ہی بنایا تھا اور ان کے دامن سے اِس داغ کو صاف کر کے  قرآن نے ایک احسان نہیں بلکہ اُلٹا قصور کیا ہے۔ یہ ہے ان لوگوں کی ہٹ دھرمی کا حال۔ اور ان کو نظر نہیں آتا کہ اِسی باب میں چند سطر آگے چل کر خود بائیبل اپنی غلط بیانی کا راز کس طرح فاش کر رہی ہے۔ اس باب کی آخری دس آیتوں میں بائیبل یہ بیان کرتی ہے کہ حضرت موسیٰ نے اس کے بعد بنی لاوِی کو جمع کیا اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم سنایا کہ جن لوگوں نے شرک کا یہ گناہِ عظیم کیا ہے اُنہیں قتل کیا جائے، اور ہر ایک مومن خود اپنے ہاتھ سے اپنے اُس بھائی اور ساتھی اور پڑوسی کو قتل کرے جو گوسالہ پرستی کا مرتکب ہوا تھا۔ چنانچہ اس روز تین ہزار آدمی قتل کیے گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت ہارون کیوں چھوڑ دیے گئے؟ اگر وہی اس جرم کے بانی مبانی تھے تو انہیں اس قتلِ عام سے کس طرح معاف کیا جا سکتا تھا؟ کیا بنی لاوِی یہ نہ کہتے کہ موسیٰ،  ہم کو تو حکم دیتے ہو کہ ہم اپنے گناہ گار بھائیوں  اور ساتھیوں اور پڑوسیوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کریں۔ مگر خود اپنے بھائی پر ہاتھ نہیں اُٹھاتے حالانکہ اصل گناہ گار وہی تھا؟ آگے چل کر بیان کیا جاتا ہے کہ موسیٰ نے خداوند کے پاس جا کر عرض کیا کہ اب بنی اسرائیل کا گناہ معاف کر دے، ورنہ میرا نام اپنی کتاب میں سے مٹا دے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ ’’ جس نے میرا گناہ کیا  ہے میں اسی کا نام اپنی کتاب میں سے مٹاؤں گا‘‘۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ہارون کا نام نہ مٹایا گیا۔ بلکہ اِس کے برعکس  ان کو اور ان کی اولاد  کو بنی اسرائیل میں بزرگ ترین منصب،  یعنی بنی لاوِی کی سرداری اور مَقدِس کی کہانت سے سرفراز کیا گیا (گنتی،  باب ۱۸ – آیت ۱ – ۷)۔ کیا بائیبل کی  یہ اندرونی شہادت خود اس کے اپنے سابق بیان کی تردید اور قرآن کے بیان کی تصدیق نہیں کر رہی ہے؟

۷۰: حکم سے مراد وہ حکم ہے جو پہاڑ پر جاتے وقت،  اور اپنی جگہ حضرت ہارون کو بنی اسرائیل کی سرداری سونپتے  وقت حضرت موسیٰ نے دیا تھا۔ سورۂ اعراف میں اسے اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : وَقَالَ مُوْسیٰ لِاَخِیْہِ ھٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ،  ’’اور موسیٰ نے (جاتے ہوئے) اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ تم میری قوم میں میری جانشینی کرو اور دیکھو،  اصلاح کرنا،  مفسدوں کے طریقے کی پیروی نہ کرنا‘‘۔ (آیت ۱۴۲)۔

۷۱: ان آیات کے ترجمے میں ہم نے اس بات کو ملحوظ رکھا ہے کہ حضرت موسیٰ چھوٹے بھائی تھے مگر منصب کے لحاظ سے بڑے تھے،  اور حضرت ہارون بڑے بھائی تھے مگر منصب کے لحاظ سے چھوٹے تھے۔

۷۲: حضرت ہارون کے اس جواب کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ قوم کا مجتمع  رہنا اس کے راہِ راست پر رہنے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اور اتحاد چاہے وہ  شرک ہی کیوں نہ ہو، افتراق سے بہتر ہے خواہ اس کی بنا حق اور باطل ہی کا اختلاف ہو۔ اس آیت کا یہ مطلب اگر کوئی شخص لے گا تو قرآن سے ہدایت کے بجائے گمراہی اخذ کرے گا۔ حضرت ہارون کی پوری بات سمجھنے کے لیے اس آیت کو سورۂ اعراف کی آیت ۱۵۰ کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہیے۔ وہاں وہ فرماتے ہیں کہ  اِبْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ ا سْتَضْعَفُوْ نِیْ وَکَادُوْا یَقْتُلُوْ نَنِیْ زصلے   فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآ ءَ وَلَا تَجْعَلْنِیْ  مَعَ الْقَوْ مِ الظّٰلِمِیْنَ۔ ’’ میری ماں کے بیٹے، ان لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے۔ پس تُو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے او ر اس ظالم گروہ میں مجھے شمار نہ کر ‘‘۔ اب ان دونوں آیتوں کو جمع کر کے دیکھیے تو صورت واقعہ کی یہ تصویر سامنے آتی ہے کہ حضرت ہارون نے لوگوں کو اس گمراہی سے روکنے کی پوری کوشش کی،  مگر انہوں نے آنجناب کے خلاف سخت فساد کھڑا کر دیا اور آپ کو مار ڈالنے پر تُل گئے۔ مجبوراً آپ اس اندیشے سے خاموش ہو گئے کہ کہیں حضرت موسیٰ کے آنے سے پہلے یہاں خانہ جنگی برپا نہ ہو جائے،  اور وہ بعد میں آ کر شکایت کریں کہ تم اگر اس صورت ِ حال سے عہدہ برآ نہ ہو سکے تھے تو تم  نے معاملات کو اس حد تک کیوں بگڑنے دیا،  میرے آنے کا انتظار کیوں نہ کیا۔ سورۂ اعراف والی آیت کے آخری فقرے سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ قوم میں دونوں بھائیوں کے دشمنوں کی ایک تعداد موجود تھی۔

۷۳: اس آیت کی تفسیر میں دو گروہوں کی طرف سے عجیب کھینچ تان کی گئی ہے۔ ایک گروہ،  جس میں قدیم مفسرین اور قدیم طرز کے مفسرین کی بڑی اکثریت شامل ہے،  اس کا یہ مطلب بیان کرتا ہے کہ ’’سامری نے رسول یعنی حضرت جبریل کو گزرتے ہوئے دیکھ لیا تھا، اور ان کے نقشِ قدم سے ایک مٹھی بھر مٹی اُٹھا لی تھی،  اور یہ اسی مٹی کی کرامت تھی کہ جب اسے بچھڑے کے بُت پر ڈالا گیا تو اس میں زندگی پیدا ہو گئی  اور جیتے جاگتے بچھڑے کی سی آواز نکلنے لگی‘‘۔ حالانکہ قرآن یہ نہیں کہہ  رہا کہ فی الواقع ایسا ہوا تھا۔ وہ صرف یہ کہہ رہا ہے کہ حضرت موسیٰ کی باز پرس کے جواب میں سامری نے یہ بات بنائی۔ پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ مفسرین اس کو ایک امر واقعی،  اور قرآن کی بیان کردہ حقیقت کیسے سمجھ بیٹھے۔ دوسرا گروہ سامری کے قول کو ایک اور ہی معنی پہناتا ہے۔ اس کی تاویل کے مطابق سامری نے دراصل یہ کہا تھا کہ ’’مجھے رسول، یعنی حضرت موسیٰ میں، یا اُن کے دین  میں وہ کمزوری نظر آئی جو دوسروں کو نظر نہ آئی۔ اس لیے میں نے ایک حد تک تو اُس کے نقشِ قدم کی پیروی کی،  مگر بعد میں اسے چھوڑ دیا‘‘۔ یہ تاویل غالباً سب سے پہلے ابو مسلم اصفہانی کو سوجھی تھی،  پھر امام رازی نے ا س کو اپنی تفسیر میں نقل کر کے اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا، اور اب طرزِ جدید کے مفسرین بالعموم اسی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ لیکن یہ حضرات اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ قرآن معموں اور پہیلیوں کی زبان میں نازل نہیں ہوا ہے بلکہ صاف اور عام فہم عربی مبین میں نازل ہوا ہے جس کو ایک عام عرب اپنی زبان کے معروف محاورے کے مطابق سمجھ سکے۔ کوئی شخص جو عربی زبان کے معروف  محاورے اور روز مرّہ سے واقف ہو، کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ سامری کے اس مافی الضمیر کو ادا کرنے کے لیے عربی مبین میں وہ الفاظ استعمال کیے جائیں گے جو آیت ِ زیر تفسیر میں پائے جاتے ہیں۔ نہ ایک عام عرب ان الفاظ کو سُن کر کبھی وہ مطلب لے سکتا ہے جو یہ حضرات  بیان کر رہے ہیں۔ لغت کی کتابوں میں سے کسی لفظ کے وہ مختلف مفہومات تلاش کر لینا جو مختلف محاوروں میں  اس سے مراد لیے جاتے ہوں،  اور ان میں سے کسی مفہوم کو لا کر ایک ایسی عبارت میں چسپاں کر دینا جہاں ایک عام عرب اس لفظ کو ہر گز  اس مفہوم میں استعمال نہ کرے گا،  زباں دانی تو نہیں ہو سکتا، البتہ سخن سازی کا کرتب  ضرور مانا جا سکتا ہے۔ اس  قسم کے کرتب فرہنگ آصفیہ ہاتھ میں لے کر اگر کوئی شخص خود اِن حضرات کی اردو تحریروں میں،  یا آکسفورڈ ڈکشنری لے کر ان کی انگریزی تحریروں میں دکھانے شروع کر دے،  تو شاید اپنے کلام کی دوچار ہی تاویلیں سُن کر یہ حضرات چیخ اُٹھیں۔ بالعموم قرآن میں ایسی تاویلیں اُس وقت کی جاتی ہے جبکہ ایک شخص کسی آیت کے صاف اور سیدھے مطلب کو دیکھ کر اپنی دانست میں یہ سمجھتا ہے کہ یہاں تو اللہ میاں سے بڑی بے احتیاطی ہو گئی، لاؤ میں ان کی بات اس طرح بنا دوں کہ ان کی غلطی کا پردہ ڈھک جائے اور لوگوں کو ان پر ہنسنے کا موقع نہ ملے۔ اس طرزِ فکر کو چھوڑ کر جو شخص بھی اِس سلسلۂ کلام میں اس آیت کو پڑھے گا وہ آسانی کے ساتھ یہ سمجھ لے گا کہ سامری ایک فتنہ پرداز شخص تھا جس نے خوب سوچ سمجھ کر ایک زبردست مکر و فریب کی اسکیم تیار کی تھی۔ اس نے صرف یہی نہیں کیا کہ سونے کا بچھڑا بنا کر اس میں کسی تدبیر سے بچھڑے کی سی آواز پیدا کر دی اور ساری قوم کے جاہل و نادان لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیا۔ بلکہ اس پر مزید یہ جسارت بھی کی کہ خود حضرت موسیٰ کے سامنے ایک پُر فریب داستان گھڑ کر رکھ دی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ مجھے وہ کچھ نظر آیا جو دوسروں کو نظر نہ آتا تھا، اور ساتھ ساتھ یہ افسانہ بھی گھڑ دیا کہ رسول کے نقشِ قدم کی ایک مٹھی بھر  مٹی سے یہ کرامت صادر ہوئی ہے۔ رسول سے مراد ممکن  ہے کہ جبریل ہی ہوں، جیسا کہ قدیم مفسرین نے سمجھا ہے۔ لیکن اگر یہ سمجھا جائے کہ اس نے رسول کا لفظ خود حضرت موسیٰ کے لیے استعمال کیا تھا،  تو یہ اس کی ایک اور مکاری تھی۔ وہ اس طرح حضرت موسیٰ کو ذہنی رشوت دینی چاہتا تھا،  تاکہ وہ اسے اپنے نقشِ قدم کی مٹی کا کرشمہ  سمجھ کر پھُول جائیں اور اپنی مزید کرامتوں کا اشتہار دینے کے لیے سامری کی خدمات مستقل طور پر حاصل کر لیں۔ قرآن اس سارے معاملے کو سامری کے فریب ہی کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے، اپنی طرف سے بطور واقعہ بیان نہیں کر رہا ہے کہ اس سے کوئی قباحت لازم آتی ہو اور لغت کی کتابوں سے مدد لے کر خواہ مخواہ کی سخن سازی کرنی پڑے۔ بلکہ بعد کے فقرے میں حضرت موسیٰ نے جس طرح اس کو پھٹکار ا ہے  اور اس کے لیے سزا تجویز کی ہے اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس کے گھڑے ہوئے اس پُر فریب افسانے کو سنتے ہی انہوں نے اس کے منہ پر مار دیا۔

۷۴: یعنی صر ف یہی نہیں کہ زندگی بھر کے لیے معاشرے سے اس کے تعلقات توڑ دیے گئے اور اسے اچھوت بنا کر رکھ دیا گیا،  بلکہ یہ ذمہ داری بھی اسی پر ڈالی گئی کہ ہر شخص کو وہ خود اپنے اچھوت پن سے آگاہ کر ے اور دور ہی سے لوگوں کو مطلع کرتا رہے کہ میں اچھوت ہوں، مجھے ہاتھ نہ لگانا۔ بائیبل کی کتاب احبار میں کوڑھیوں کی چھوت سے لوگوں کو بچانے کے لیے جو قواعد بیان کیے گئے ہیں اُن میں سے ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ : ’’اور جو کوڑھی اس بلا میں مبتلا ہو اُس کے کپڑے پھٹے اور اس کے سر کے بال بکھرے رہیں اور وہ اپنے اوپر کے ہونٹ کو ڈھانکے اور چلّا چلّا کر کہے ناپاک ناپاک۔ جتنے دنوں تک وہ اس بلا میں مبتلا رہے وہ ناپاک رہے گا اور وہ ہے بھی ناپاک۔ پس وہ اکیلا رہے، اس کا مکان لشکر گاہ کے باہر ہو‘‘۔ (باب ۱۳۔ آیت ۴۵ – ۴۶) اس سے گمان ہوتا ہے کہ یا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے طور پر اس کو کوڑھ کے مرض میں مبتلا کر دیا گیا ہو گا، یا پھر اس کے لیے یہ سزا تجویز کی گئی ہو گی کہ جس طرح جسمانی کوڑھ کا مریض لوگوں سے الگ کر دیا جاتا ہے اُسی طرح اِس اخلاقی کوڑھ کے مریض کو بھی الگ کر دیا جائے، اور یہ بھی کوڑھی کی طرح پکار پکار کر ہر قریب آنے والے کو مطلع کرتا رہے کہ میں ناپاک ہوں،  مجھے نہ چھونا۔

۷۵: موسیٰ علیہ السّلام کا قصہ ختم کر کے اب پھر تقریر کا رُخ اُس مضمون کی طرف مڑتا ہے  جس سے سورہ کا آغاز ہوا تھا۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک مرتبہ پلٹ کر سورہ کی اُن ابتدائی آیات کو پڑھ لیجیے جن کے بعد یکایک حضرت موسیٰ  کا قصہ شروع ہو گیا تھا۔ اس سے آپ کی سمجھ میں اچھی طرح یہ بات آ جائے گی کہ سورہ کا اصل موضوع ِ بحث کیا ہے، بیچ میں قصۂ موسیٰ کس لیے بیان ہوا ہے، اور اب قصّہ ختم کر کے کس طرح تقریر اپنے موضوع کی طرف پلٹ رہی ہے۔

۷۶: یعنی یہ قرآن،  جس کے متعلق آغازِ سورہ میں کہا گیا تھا کہ یہ کوئی اَن ہونا کام تم سے لینے اور تم کو بیٹھے بٹھائے ایک مشقت میں مبتلا کرنے کر دینے کے لیے نازل نہیں کیا گیا ہے، یہ تو ایک یاد دہانی اور نصیحت (تذکرہ) ہے ہر اُس شخص کے لیے جس کے دل میں خدا کا کچھ خوف ہو۔

۷۷: اس میں پہلی بات تو یہ بتائی گئی ہے کہ جو شخص اس درسِ نصیحت،  یعنی قرآن سے منہ موڑے گا  اور اس کی ہدایت و رہنمائی قبول کرنے سے انکار کرے گا،  وہ اپنا ہی نقصان کرے گا، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے بھیجنے والے خدا کا کچھ نہ بگاڑ ے گا۔ اُس کی یہ حماقت دراصل اس کی خود اپنے ساتھ دشمنی ہو گی۔ دوسری بات یہ بتائی گئی  کہ کوئی شخص،  جس کو قرآن کی یہ نصیحت پہنچے اور پھر وہ اسے قبول کرنے سے پہلو تہی کرے،  آخرت میں سزا پانے سے بچ نہیں سکتا۔ آیت کے الفاظ عام ہیں۔ کسی قوم،  کسی ملک، کسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔ جب تک یہ قرآن دنیا میں موجود ہے، جہاں جہاں،  جس جس ملک اور قوم کے،   جس  شخص کو بھی یہ پہنچے گا،  اس کے لیے دو ہی راستے کھلے ہوں گے۔ تیسرا کوئی راستہ نہ ہو گا۔ یا تو اس کو مانے اور اس کی پیروی  اختیار کرے۔ یا اس کو نہ مانے اور اس کی پیروی  سے منہ موڑ لے۔ پہلا راستہ اختیار کرنے والے کا انجام آگے آ رہا ہے۔ اور دوسرا راستہ اختیار کرنے والے کا انجام یہ ہے  جو اِس آیت میں بتا دیا گیا ہے۔

۷۸: صُور،  یعنی نر سنگھا، قرناء، یا بوق۔ آج کل اسی چیز کا قائم مقام بگل ہے جو فوج کو جمع یا منتشر کرنے اور ہدایات دینے کے لیے بجایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کائنات کے نظم کو سمجھانے کے لیے وہ الفاظ  اور اصطلاحیں استعمال فرماتا ہے جو خود انسانی زندگی میں اسی سے ملتے جلتے نظم کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ ان الفاظ اور اصطلاحوں کے استعمال سے مقصود ہمارے تصور کو اصل چیز کے قریب لے جاتا ہے، نہ یہ کہ ہم سلطنت الہٰی کے نظم کی مختلف چیزوں کو بعینہٖ ان محدود معنوں میں لے لیں، اور ان محدود صورتوں کی چیزیں سمجھ لیں جیسی کہ وہ ہماری زندگی میں پائی جاتی ہیں۔ قدیم زمانے  سے آج تک لوگوں کو جمع کرنے اور اہم باتوں کا اعلان کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ایسی چیز پھونکی جاتی رہی ہے جو صور یا بگل سے مِلتی جُلتی ہو۔ اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ایسی ہی ایک چیز قیامت کے روز پھونکی جائے گی جس کی نوعیت ہمارے نرسنگھے کی سی ہو گی۔ ایک دفع وہ پھونکی جائے گی اور سب پر موت طاری ہو جائے گی۔ دوسری دفعہ پھونکنے پر سب جی اُٹھیں گے اور زمین کے ہر گوشے سے نکل نکل کر میدان حشر کی طرف دوڑنے لگیں گے۔ (مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم، النمل، حاشیہ نمبر ۱۰۶)۔

۷۹: اصل میں لفظ ’’زُرْقًا‘‘  استعمال ہوا ہے،  جو  اَزْرَق  کی جمع ہے۔ بعض  لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ لوگ جو خود اَزْرق (سفیدی مائل نیلگوں) ہو جائیں گے کیونکہ خوف و دہشت کے مارے ان کا خون خشک ہو جائے گا اور ان کی حالت ایسی ہو جائے گی کہ گویا ان کے جسم میں خون کا ایک قطرہ تک نہیں ہے۔ اور بعض دوسرے لوگوں نے اس لفظ کو ازرق العین (کرنجی آنکھوں والے) کے معنی میں لیا ہے اور وہ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ شدّتِ ہول سے ان کے دے دے پتھرا جائیں گے۔ جب کسی شخص کی آنکھ بے نور ہو جاتی ہے تو اس کے حدقۂ چشم کا رنگ سفید ہو جاتا ہے۔

۸۰: دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ’’ موت کے بعد سے اِس وقت تک تم کو مشکل ہی سے دس دن گزرے ہوں گے‘‘۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے روز لوگ اپنی دنیوی زندگی کے متعلق بھی یہ اندازہ لگائیں گے کہ وہ بہت تھوڑی تھی،  اور موت سے لے کر قیامت تک جو وقت گزرا ہو گا اس کے متعلق بھی ان کے اندازے کچھ ایسے ہی ہوں گے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے قَالَ کَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ o قَالُوْ ا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْئَلِ الْعَادِّیْنَ۔ ’’اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تم زمین میں کتنے سال رہے ہو؟ وہ جواب دیں گے ایک دن یا دن کا ایک حصّہ رہے ہوں گے، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے‘‘  (المومنون آیات ۱۱۲ – ۱۱۳)۔ دوسری جگہ فرمایا جاتا ہے   وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ مَا لَبِثُوْ ا غَیْرَ سَا عَۃٍ کَذٰلِکَ کَا نُوْ ا یُؤْفَکُوْنَo وَقَالَ الَّذیْنَ اُوْتُوْ ا الْعِلْمَ وَ ا لْاِیْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ کِتَابِ اللہِ اِلیٰ یَوْمِ الْبَعْثِ فَھٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰکِنَّکُمْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo ’’اور جس روز قیامت قائم ہو جائے گی تو مجرم لوگ قسمیں کھا کھا کر  کہیں گے کہ ہم ( موت کی حالت میں) ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں پڑے رہے ہیں۔ اسی طرح وہ دنیا میں بھی دھوکے کھاتے رہتے تھے۔ اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا  تھا وہ کہیں گے کہ کتاب اللہ کی رو سے تو تم یوم البعث تک پڑے رہے ہو اور یہ وہی یوم البعث ہے، مگر تم جانتے نہ تھے‘‘ (الروم – آیات ۵۵ – ۵۶)۔ ان مختلف تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی  اور برزخ کی زندگی،  دونوں ہی کو وہ بہت قلیل سمجھیں گے۔ دنیا کی زندگی کے متعلق وہ اس لیے یہ باتیں کریں گے کہ اپنی امیدوں کے بالکل خلاف جب انہیں آخرت  کی ابدی زندگی میں آنکھیں کھولنی پڑیں گی، اور جب وہ دیکھیں گے کہ یہاں کے لیے وہ کچھ بھی تیاری کر کے نہیں آئے ہیں، تو انتہا درجہ کی حسرت کے ساتھ وہ اپنی دنیوی زندگی کی طرف پلٹ کر دیکھیں گے اور کفِ افسوس ملیں گے کہ چار دن کے لطف و مسرت اور فائدہ و لذت کی خاطر ہم نے ہمیشہ کے لیے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی۔ موت کے بعد سے قیامت تک کا وقت انہیں اس لیے تھوڑا نظر آئے گا کہ زندگی بعد ِ موت کو وہ دنیا میں غیر ممکن سمجھتے تھے اور قرآن کے بتائے ہوئے عالمِ آخرت کا جغرافیہ کبھی سنجیدگی  کے ساتھ ان کے ذہن میں اُترا ہی نہ تھا۔ یہی تصوّرات لیے ہوئے دنیا میں احساس و شعور کی آخری ساعت انہوں نے ختم کی تھی۔ اب جو اچانک وہ آنکھیں ملتے ہوئے دوسری زندگی میں بیدار ہوں گے  اور دوسرے ہی لمحے اپنے آپ کو ایک بگل یا نرسنگھے کی آواز پر مارچ کرتے ہوئے پائیں گے تو وہ شدید گھبراہٹ کے ساتھ اندازہ لگائیں گے کہ فلاں ہسپتال میں بے ہوش ہونے یا فلاں جہاز میں ڈوبنے یا فلاں مقام پر حادثہ  سے دوچار ہونے کے  بعد سے اِس وقت تک آخر کتنا وقت لگا ہو گا۔ اُن کی کھوپڑی میں اُس وقت یہ بات سمائے گی ہی نہیں کہ دنیا  میں وہ جاں بحق ہو چکے تھے اور اب یہ وہی دوسری زندگی ہے جسے ہم بالکل لغو بات کہہ کر ٹھٹھوں میں اُڑا دیا کرتے تھے۔ اس لیے ان میں سے ہر ایک یہ سمجھے گا یہ شاید میں چند گھنٹے یا چند دن بے ہوش پڑا رہا ہوں،  اور اب شاید ایسے وقت مجھے ہوش آیا ہے یا ایسی جگہ اتفاق سے پہنچ گیا ہوں جہاں کسی بڑے حادثہ کی وجہ سے لوگ ایک طرف کو بھاگے جا رہے ہیں۔ بعید نہیں کہ آج کل کے مرنے  والے صاحب لوگ صور کی  آواز کو کچھ دیر تک ہوائی حملے کا سائرن ہی سمجھتے رہیں۔

۸۱: یہ جملۂ  معترضہ ہے جو دورانِ تقریر میں سامعین کے اس شبہہ کو رفع کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے کہ آخر اُس وقت میدانِ حشر میں بھاگتے ہوئے لوگ چپکے چپکے جو باتیں کریں گے وہ آج یہاں کیسے بیان ہو رہی ہیں۔

 

۸۲ یہ لوگ تم سے پُوچھتے ہیں کہ آخر اُس دن یہ پہاڑ کہاں چلے جائیں گے؟ کہو کہ میرا ربّ ان کو دھُول بنا کر اُڑا دے گا اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں تم کوئی بَل اور سَلوَٹ نہ دیکھو گے ۸۳۔۔۔۔ اُس روز سب لوگ منادی کی پکار پر سیدھے چلے آئیں گے، کوئی ذرا اکڑ نہ دکھا سکے گا۔ اور آوازیں رحمٰن کے آگے دب جائیں گی، ایک سرسراہٹ ۸۴ کے سوا تم کچھ نہ سُنو گے۔ اُس روز شفاعت  کار گر نہ ہو گی اِلّا یہ کہ کسی کو رحمٰن اس کی اجازت دے اور اس کی بات سُننا پسند کرے ۸۵۔۔۔۔ وہ لوگوں کا اگلا پچھلا سب حال جانتا ہے اور دُوسروں کو اس کا پورا علم نہیں ہے ۸۶۔۔۔۔ لوگوں کے سر اُس حیّ و قیّوم کے آگے جھُک جائیں گے۔ نامراد ہو گا جو اُس وقت کسی ظلم کا بارِ گناہ اُٹھائے ہوئے ہو۔ اور کسی ظلم یا حق تلفی کا خطرہ نہ ہو گا اُس شخص کو جو نیک عمل کرے اور اِس کے ساتھ وہ مومن بھی ہو۔ ۸۷
اور اے محمدؐ،  اِسی طرح ہم نے اِسے قرآنِ عربی بنا کر نازل کیا ہے ۸۸ اور اس میں طرح طرح سے تنبیہات کی ہیں شاید کہ یہ لوگ کج روی سے بچیں یا ان میں کچھ ہو کے آثار اِس کی بدولت پیدا ہوں۔ ۸۹ پس بالا و برتر ہے اللہ،  پادشاہِ حقیقی۔ ۹۰
اور دیکھو، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تمہاری طرف اُس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے، اور دُعا کرو کہ اے پروردگار مجھے  مزید علم عطا کر۔ ۹۱
۹۲ ہم نے اِس سے پہلے آدمؑ کو ایک حکم دیا تھا، ۹۳ مگر وہ بھُول گیا اور ہم نے اُس میں عزم نہ پایا۔ ۹۴ ؏ ٦

 

۸۲: یہ بھی جملۂ معترضہ ہے جو دورانِ تقریر میں کسی سامع کے سوال پر ارشاد ہوا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ  جس وقت یہ سُورت ایک الہامی تقریر کے انداز میں سُنائی جا رہی ہو گی اس وقت کسی نے مذاق اُڑانے کے لیے یہ سوال اُٹھایا ہو گا کہ قیامت کا جو نقشہ آپ کھینچ رہے ہیں اُس سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ کسی ہموار میدان میں بھاگے  چلے جا رہے ہوں گے۔ آخر یہ بڑے بڑے پہاڑ اس وقت کہاں چلے جائیں گے ؟ اس سوال کا موقع سمجھنے کے لیے اس ماحول کو نگاہ میں رکھیے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی۔ مکہ جس مقام  پر واقع ہے اس کی حالت ایک حوض کی سی ہے جس کے چاروں طرف اُونچے اُونچے پہاڑ ہیں۔ سائل نے انہی پہاڑوں کی طرف اشارہ کر کے یہ بات کہی ہو گی۔ اور وحی کے اشارہ سے جواب برملا اسی وقت یہ دے دیا گیا کہ یہ پہاڑ کوُٹ پیٹ کر اس طرح ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے جیسے ریت کے ذرّے،  اور ان کو دھُول کی طرح اُڑا کر ساری زمین  ایک ایسا ہموار  میدان بنا دی جائے گی کہ اس میں کوئی اونچ نیچ نہ رہے گی، کوئی نشیب و فراز نہ ہو گا۔ اس کی حالت ایک ایسے صاف فرش کی سی ہو گی جس میں ذرا سا بَل اور کوئی معمولی سی سلوٹ  تک نہ ہو۔

۸۳: عالم ِ آخرت میں زمین کی جو نئی شکل بنے گی اسے قرآن مجید میں مختلف مواقع پر بیان کیا گیا ہے۔ سُورۂ انشقاق میں فرمایا   اِذَ ا الْاَرْضُ مُدَّتْ ’’زمین پھیلا  دی جائے گی‘‘۔ سُورۂ انفطار میں فرمایا  اِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ،  ’’سمندر پھاڑ دیے جائیں گے‘‘،  جس کا مطلب غالباً  یہ ہے کہ سمندروں کی تہیں پھٹ جائیں گی اور سارا پانی زمین کے اندر اُتر جائے گا۔ سُورۂ  تکویر میں فرمایا   اِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ، ’’سمندر بھر دیے جائیں گے یا پاٹ دیے جائیں گے‘‘۔ اور یہاں بتایا جا رہا ہے کہ پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر کے ساری زمین ایک ہموار میدان کی طرح کر دی جائے گی۔ اس سے جو شکل ذہن میں بنتی ہے وہ یہ ہے کہ عالمِ آخرت میں یہ پورا کرۂ زمین سمندروں کو پاٹ کر،  پہاڑوں کو توڑ کر،  نشیب و فراز کو ہموار اور جنگلوں کو صاف کر کے بالکل ایک گیند کی طرح بنا دیا جائے گا۔ یہی  وہ شکل ہے جس کے متعلق سُورۂ ابراہیم آیت ۴۸ میں فرمایا   یَوْمَ تُبَدِّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ، ’’ وہ دن جبکہ زمین بدل کر کچھ سے کچھ کر دی جائے گی‘‘۔ اور یہی زمین کی وہ شکل ہو گی جس پر حشر قائم ہو گا اور اللہ تعالیٰ عدالت میں فرمائے گا۔ پھر اس کی آخری اور دائمی شکل وہ بنا دی جائے گی جس کو سُورۂ زُمر آیت نمبر ۷۴  میں یوں بیان فرمایا گیا ہے: وَ قَالُوْ ا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَ ہٗ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّ اُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآءُ،  فِنِعْمَ اَجْرَ الْعٰمِلِیْنَ oیعنی متقی لوگ ’’کہیں گے کہ  شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہم سے اپنے وعدے پورے کیے اور ہم کو زمین کا وارث بنا دیا، ہم اس جنت  میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔ پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے‘‘۔ اِس سے معلوم ہوا کہ آخر کار یہ پورا کُرہ جنت بنا دیا جائے گا اور خدا کے صالح و متقی بندے اس کے وارث ہوں گے۔ اُس وقت پوری زمین ایک ملک ہو گی۔ پہاڑ،  سمندر،  دریا، صحرا، جو آج زمین کو بے شمار ملکوں اور وطنوں میں تقسیم کر رہے ہیں،  اور ساتھ ساتھ انسانیت کو بھی بانٹے دے رہے ہیں، سرے سے موجود ہی نہ ہوں گے۔ (واضح رہے کہ صحابہ و تابعین میں سے ابنِ عباس ؓ اور قتادہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ جنت اِسی زمین پر ہو گی،  اور سورۂ نجم  کی آیت عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی o عِنْدَھَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی کی تاویل وہ یہ کرتے ہیں کہ اس سے مراد وہ جنت ہے جس میں اب شہدا ء کی ارواح رکھی جاتی ہیں)۔

۸۴: اصل میں لفظ ’’ہَمس‘‘  استعمال ہوا ہے،  جو قدموں کی آہٹ،  چپکے چپکے بولنے کی آواز، اونٹ کے چلنے کی آواز اور ایسی ہی ہلکی آوازوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہاں کوئی آواز، بجز چلنے والوں کے قدموں کی آہٹ اور چپکے چپکے بات کرنے والوں کی کھُسر پھُسر  کے نہیں سُنی جائے گی۔ ایک پُر ہیبت سماں بندھا ہوا ہو گا۔

۸۵: اس آیت کے  دو ترجمے ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو متن میں کیا گیا ہے۔ دوسرا یہ کہ ’’ اُس روز شفاعت کا ر گر نہ ہو گی اِلَّا یہ کہ کسی کے حق میں رحمان اس کی اجازت دے اور اس کے لیے بات سننے پر راضی ہو‘‘۔ الفاظ ایسے جامع ہیں جو دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ قیامت کے روز کسی کو دم مارنے تک کی جرأتنہ ہو گی کجا کہ کوئی سفارش کے لیے بطور خود زبان کھول سکے۔ سفارش وہی کر سکے گا جسے اللہ تعالیٰ بولنے کی اجازت دے، اور اسی کے حق میں کر سکے گا جس کے لیے بارگاہِ الہٰی سے سفارش کرنے کی اجازت مل جائے گی۔ یہ دونوں باتیں قرآن میں متعدد مقامات پر کھول کر بتا دی گئی ہیں۔ ایک طرف فرمایا  مَنْ ذَ ا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بَاِذْنِہٖ، ’’ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کر سکے ‘‘  (بقرہ – آیت ۲۵۵)۔ اور یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰٓئیکَۃُ صَفًّا،  لَّا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہْ الرَّ حْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا، ’’وہ دن جبکہ روح اور ملائکہ سب صف بستہ کھڑے ہوں گے، ذرا بات نہ کریں گے، صرف وہی بول سکے گا جسے رحمان اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے‘‘  (النبا – آیت۳۸)۔ دوسری طرف ارشاد ہوا   وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَھُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ، ’’ اور وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس شخص کے جس کے حق میں سفارش سننے پر (رحمان) راضی ہو،  اور وہ اُس کے خوف سے ڈرے ڈرے رہتے ہیں‘‘ ( الانبیاء – آیت ۲۸)۔ اور کَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰ تِ لَا تُغْنِیْ شَفَا عَتھُُمْ شَیْئًا اِلَّا مِنْم ’’بَعْدِ اَنْ یَّاْ ذَنَ اللّٰہُ لِمَنْ یَّشَآ ءُ وَیَرْضٰی، ’’کتنے  ہی فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی مفید نہیں ہو سکتی بجز اس صورت کے  کہ  اللہ  سے اجازت لینے کے بعد کی جائے اور ایسے شخص کے حق میں کی جائے جس کے لیے وہ سفارش سننا چاہے اور پسند کرے‘‘  (النجم،  آیت ۲۶)۔

۸۶: ’’یہاں وجہ بتائی گئی ہے کہ شفاعت پر یہ پابندی کیوں ہے۔ فرشتے ہوں  یا انبیاء یا اولیاء،  کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہے  اور نہیں ہو سکتا کہ کس کا ریکارڈ کیسا ہے،  کون دنیا میں کیا کرتا  رہا ہے، اور اللہ کی عدالت میں کس سیرت و کردار اور کیسی کیسی ذمہ داریوں کے بار لے کر آیا ہے۔ اس کے برعکس اللہ کو ہر ایک کے پچھلے کارناموں اور کرتُوتوں کا بھی علم ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اب اس کا موقف کیا ہے۔ نیک ہے تو کیسا نیک ہے اور مجرم ہے تو کس درجے کا مجرم ہے۔ معافی کے قابل ہے یا نہیں۔ پوری سزا کا مستحق ہے یا تخفیف اور رعایت بھی اس کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ ملائکہ اور انبیاء اور صلحاء کو سفارش کی کھلی چھٹی دے دی جائے اور ہر ایک جس کے حق میں جو سفارش چاہے کر دے۔ ایک معمولی افسر اپنے ذرا سے محکمے میں اگر اپنے  ہر دوست یا عزیز کی سفارشیں سننے لگے تو چار دن میں سارے محکمے کا ستیا ناس کر کے رکھ دے گا۔ پھر بھلا زمین و آسمان کے فرمانروا سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے  کہ اس کے ہاں سفارشوں کا بازار گرم ہو گا، اور ہر بزرگ جا جا کر جس کو چاہیں گے بخشوا  لائیں گے،  درانحالیکہ ان میں سے کسی بزرگ کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ جن لوگوں کی سفارش وہ کر رہے ہیں ان کے نامۂ اعمال کیسے ہیں۔ دنیا میں جو افسر کچھ بھی احساس ذمہ داری رکھتا ہے اس کی روش یہ ہوتی ہے کہ اگر اس کا کوئی دوست اس کے کسی قصور وار ماتحت کی سفارش لے کر جاتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے کہ آپ کو خبر نہیں ہے کہ یہ شخص کتنا کام چور، نا فرض شناس،  رشوت خوار اور خلق خدا کو تنگ کرنے والا ہے، میں اس کے کرتُوتوں سے واقف ہوں، اس لیے آپ براہِ کرم مجھ سے اس کی سفارش نہ فرمائیں۔ اسی چھوٹی سی مثال پر قیاس کر کے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس آیت میں شفاعت کے متعلق جو قاعدہ بیان کیا گیا ہے وہ کس قدر صحیح،  معقول اور مبنی بر انصاف ہے۔ خدا کے ہاں شفاعت کا دروازہ بند نہ ہو گا۔ نیک بندے،  جو دنیا میں خلقِ خدا کے ساتھ ہمدردی کا برتاؤ کرنے کے عادی تھے، انہیں آخرت میں بھی ہمدردی کا حق ادا کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ لیکن وہ سفارش کرنے سے پہلے اجازت طلب کریں گے، اور جس کے حق میں اللہ تعالیٰ انہیں بولنے کی اجازت دے گا صرف اُسی کے حق میں وہ سفارش کر سکیں گے۔ پھر سفارش کے لیے بھی شرط یہ ہو گی کہ  وہ مناسب اور مبنی بر حق ہو، جیسا کہ وَقَالَ  صَوَابًا (اور بات ٹھیک کہے ) کا ارشاد ربّانی صاف بتا رہا ہے۔ بَونگی سفارشیں کرنے کی وہاں اجازت نہ ہو گی کہ ایک شخص دنیا میں سینکڑوں،  ہزاروں بندگانِ خدا کے حقوق مار آیا ہو اور کوئی بزرگ اُٹھ کر سفارش کر دیں کہ حضور اسے انعام سے سرفراز فرمائیں یہ میرا خاص آدمی ہے۔

۸۷: یعنی وہاں فیصلہ ہر انسان کے اوصاف (Merits ) کی بنیاد پر ہو گا۔ جو شخص کسی ظلم کا بارِ گناہ اُٹھائے ہوئے آئے گا،   خواہ اس نے ظلم اپنے خدا کے حقوق پر کیا ہو، یا خلقِ خدا کے حقوق پر،  یا خود اپنے نفس پر،  بہرحال یہ چیز اسے کامیابی کا منہ نہ دیکھنے دے گی۔ دوسری طرف جو لوگ ایمان اور عملِ صالح (محض عمل ِ صالح نہیں بلکہ ایمان کے ساتھ عملِ صالح، اور محض ایمان بھی نہیں بلکہ عملِ صالح کے ساتھ ایمان) لیے ہوئے آئیں گے،  اُن کے لیے وہاں نہ تو  اس امر کا کوئی  اندیشہ ہے کہ ان پر ظلم ہو گا، یونی خواہ مخواہ بے قصُور  ان کو سزا دی جائے گی، اور نہ اسی امر کا کوئی خطرہ ہے کہ ان کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا جائے گا اور ان کے جائز حقوق مار کھائے جائیں گے۔

۸۸: یعنی ایسے ہی مضامین اور تعلیمات اور نصائح سے لبریز۔ اِس کا اشارہ ان تمام مضامین کی طرف ہے جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں، نہ کہ محض قریبی مضمون کی طرف جو اوپر والی آیات میں بیان ہوا ہے۔ اور اس کا سلسلۂ بیان اُن آیات سے جُڑتا ہے جو قرآن کے متعلق آغاز سُورہ اور پھر قصّۂ موسیٰ کے اختتام پر ارشاد  فرمائی گئی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ’’تذکرہ‘‘  جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے،  اور وہ ’’ذِکر‘‘  جو ہم نے خاص اپنے ہاں سے تم کو عطا کیا ہے، اِس شان کا تذکرہ اور ذِکر ہے۔

۸۹: یعنی اپنی غفلت سے چونکیں، بھُولے ہوئے سبق کو کچھ یاد کریں، اور ان کو کچھ اِس  امر کا احساس ہو کہ کن راہوں میں بھٹکے چلے جا رہے ہیں اور اس گمراہی کا انجام کیا ہے۔

۹۰: اِس طرح کے فقرے قرآن میں بالعموم ایک تقریر کو ختم کرتے ہوئے ارشاد فرمائے  جاتے ہیں،  اور مقصود یہ ہوتا ہے کہ کلام کا خاتمہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا  پر ہو۔ اندازِ بیان اور سیاق و سباق پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ایک تقریر ختم ہو گئی ہے اور وَلَقَدْ عَھِدْ نَآ اِلیٓ اٰ دَمَ سے دوسری تقریر شروع ہو تی ہے۔ اغلب یہ ہے کہ یہ دونوں تقریریں مختلف اوقات میں نازل ہوئی ہو ں گی اور بعد میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکمِ الہٰی کے تحت ان کو سورہ میں جمع کر دیا  ہا گا۔ جمع کرنے کی وجہ دونوں کے مضمون کی مناسبت ہے جس کو ابھی ہم واضح کریں گے۔

۹۱: فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ  پر تقریر ختم ہو چکی تھی۔ اس کے بعد رخصت ہوتے ہوئے فرشتہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک بات پر خبردار کرتا ہے جو وحی نازل کر نے کے دَوران میں اس کے مشاہدے میں آئی۔ بیچ میں ٹوکنا مناسب  نہ سمجھا گیا،  اس لیے پیغام کی ترسیل مکمل کرنے کے بعد اب وہ اس کا نوٹس لے رہا ہے۔ بات کیا تھی جس پر  یہ تنبیہ کی گئی، اسے خود تنبیہ کے الفاظ ہی ظاہر کر رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وحی کا پیغام وصول کرنے کے دوران میں اسے یاد کرنے اور زبان سے دُہرانے کی کوشش فرما رہے ہوں گے۔ اس کوشش کی وجہ سے آپ کی توجہ بار بار  بٹ جاتی ہو گی۔ سلسلۂ اخذِ وحی میں خلل واقع ہو رہا ہو گا۔ پیغام کی سماعت پر توجہ پوری طرح مرکوز نہ رہی ہو گی۔ اس کیفیت کو دیکھ کر یہ ضرورت محسُوس کی گئی کہ آپ کو پیغام وحی  وصول کر نے کا صحیح طریقہ  سمجھا یا جائے،  اور بیچ بیچ میں یاد کرنے کی کوشش جو آپ کرتے ہیں اس سے منع کر دیا جائے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ   طٰہٰ کا یہ حصّہ ابتدائی زمانے کی وحیوں میں سے ہے۔ ابتدائی زمانہ  میں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کو ابھی اخذِ وحی کی عادت اچھی طرح نہ پڑی تھی، آپ  سے کئی مرتبہ یہ فعل سرزد ہو ا ہے اور ہر موقع پر کوئی نہ کوئی فقرہ اِس پر آپ کو متنبہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ سورۂ قیامہ کے نزول کے موقع پر بھی یہی ہُوا تھا اور اس پر سلسلۂ  کلام کو توڑ کر آپ کو ٹوکا گیا کہ  لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَا نَکَ لِتَجْعَلَ بِہٖ، اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَ قُرْاٰ نَہٗ، فَاِذَا قَرَ اْنٰہٗ فَا تَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ، ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ، ’’ اسے یاد کرنے کی جلدی میں اپنی زبان کو بار بار حرکت نہ دو، اِسے یاد کرا دینا  اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے، لہٰذا جب ہم اسے سنا رہے ہوں تو غور سے سنتے رہو، پھر اِس کا مطلب سمجھا  دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔‘‘  سورۂ اعلیٰ میں بھی آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ ہم اسے پڑھوا دیں گے اور آپ بھُولیں گے نہیں، سَنُقْرِ ئُکَ فَلَا تَنْسٰی۔ بعد میں جب آپ کو پیغامات وحی وصول کرنے کی اچھی مہارت حاصل ہو گئی تو اس طرح کی کیفیات آپ پر طاری ہونی بند ہو گئیں۔ اسی وجہ سے بعد کی سورتوں میں ایسی کوئی تنبیہ ہمیں نہیں ملتی۔

۹۲: جیسا کہ ابھی بتایا جا چکا ہے،  یہاں سے ایک الگ تقریر شروع ہوتی ہے جو اغلباً اوپر والی تقریر کے بعد کسی وقت نازل ہوئی ہے اور مضمون کی مناسبت سے اُس کے ساتھ ملا کر ایک ہی سورہ میں جمع کر دی گئی ہے۔ مضمون کی مناسبتیں متعدد ہیں۔ مثلاً یہ کہ: (۱) وہ بھُولا ہوا سبق جسے قرآن یاد دلا رہا ہے وہی سبق ہے جو نوعِ انسانی کو اس کی پیدائش کے آغاز میں دیا گیا تحا اور جسے یاد دلاتے  رہنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا،  اور جسے یاد دلانے کے لیے قرآن سے پہلے بھی بار بار ’’ذکر‘‘  آتے رہے ہیں۔ (۲) انسان اُس سبق کو بار بار شیطان کے بہکانے سے بھولتا ہے، اور یہ کمزوری وہ آغازِ آفرینش سے برابر دکھا رہا ہے۔ سب سے پہلی بھُول اُس کے اوّلین ماں باپ کو لاحق ہوئی تھی اور اس کے بعد سے اس کا سلسلہ برابر جاری ہے، اِسی لیے انسان اس کا محتاج ہے کہ اس کو پیہم یاددہانی کرائی جاتی رہے۔ (۳) یہ بات کہ انسان کی سعادت و شقاوت کا انحصار بالکل اُس برتاؤ پر ہے جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اِس ’’ذِکر‘‘  کے ساتھ وہ کرے گا،  آغازِ آفرینش ہی میں صاف صاف بتا دی گئی تھی۔ آج یہ کوئی نئی بات نہیں کہی جا رہی ہے کہ اس کی پیروی کر و گے تو گمراہی و بدبختی سے محفوظ رہو گے ورنہ دنیا و آخرت دونوں میں مبتلائے مصیبت ہو گے۔ (۴) ایک چیز ہے بھُول اور عزم کی کمی اور ارادے کی کمزوری جس کی وجہ سے انسان اپنے ازلی  دشمن،  شیطان کے بہکائے میں آ جائے اور غلطی کر بیٹھے۔ اس کی معافی ہو سکتی ہے بشرطیکہ انسان غلطی کا احساس ہوتے ہی اپنے رویے کی اصلاح  کر لے اور انحراف چھوڑ کر اطاعت کی طرف پلٹ آئے۔ دوسری چیز ہے وہ سرکشی اور سرتابی اور کوب سوچ  سمجھ کر اللہ کے مقابلے میں شیطان کی بندگی جس کا ارتکاب فرعون اور سامری نے کیا۔ اِس چیز کے لیے معافی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کا انجام وہی ہے جو فرعون اور سامری نے دیکھا اور یہ انجام  ہر وہ شخص دیکھے گا جو اس روش پر چلے گا۔

۹۳: آدم علیہ السّلام کا قصہ اس سے پہلے سورۂ  بقرہ،  سورۂ اعراف (دو مقامات پر )،  سورۂ حِجر، سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف میں گزر چکا ہے۔ یہ ساتواں موقع ہے جبکہ اسے دُہرایا جا رہا ہے۔ ہر جگہ سلسلۂ بیان سے اس کی مناسبت الگ ہے اور ہر جگہ اسی مناسبت کے لحاظ سے قصے کی تفصیلات مختلف طریقے سے بیان کی گئی ہیں۔ قصّے کے جو اجزا ء ایک جگہ کے موضوع بحث سے مناسبت رکھتے ہیں وہ اسی جگہ بیان ہوئے ہیں،  دوسری جگہ وہ نہ ملیں گے،  یا طرزِ بیان ذرا  مختلف ہو گا۔ پورے قصّے کو اور اس کی پوری معنویت کو سمجھنے کے لیے ان تمام مقامات پر نگاہ ڈال لینی چاہیے۔ ہم نے ہر جگہ اس کے ربط و تعلق  اور اس سے نکلنے والے نتائج کو اپنے حواشی میں بیان کر دیا  ہے۔

۹۴: یعنی اُس نے بعد میں اس حکم کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ استکبار اور قصدی و ارادی  سرکشی  کی بنا پر نہ تھا،  بلکہ غفلت اور بھُول میں پڑ جانے اور عزم و ارادے کی کمزوری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تھا۔ اس نے حکم کی خلاف ورزی کچھ اس خیال اور نیت کے ساتھ نہیں کی تھی کہ میں خدا کی کیا پرو ا  کرتا ہوں،  اس کا حکم ہے تو ہوا کرے،  جو کچھ میرا جی چاہے گا کروں گا، خدا کون ہوتا ہے کہ میرے معاملات میں دخل دے۔ اِس کے بجائے اس کی نافرمانی کا سبب یہ تھا کہ اس نے ہمارا حکم یاد رکھنے کی کوشش نہ کی،  بھُول گیا کہ ہم نے اسے کیا سمجھایا  تھا، اور اس کے ارادے میں اتنی مضبوطی نہ تھی کہ جب شیطان اسے بہکانے آیا  اُس وقت وہ ہماری پیشگی تنبیہ اور نصیحت و فہمائش کو (جس کا ذکر ابھی آگے آتا ہے)  یاد کرتا اور اس کے دیے ہوئے لالچ کا سختی کے ساتھ مقابلہ کر تا۔ بعض لوگوں نے ’’اُس میں عز م نہ پایا‘‘  کا مطلب یہ لیا ہے کہ ’’ ہم نے اس میں نافرمانی کا عزم نہ پایا‘‘  یعنی اُس نے جو کچھ کیا بھُولے سے کیا، نافرمانی کے عزم کی بنا پر نہیں کیا۔ لیکن یہ خواہ مخواہ کا تکلف ہے۔ یہ بات اگر کہنی ہوتی تو   لَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا عَلَی الْعِصْیَانِ  کہا جاتا نہ کہ محض   لَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا۔ آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ فقدان عزم سے مراد اطاعتِ حکم کے عزم کا فقدان ہے، نہ کہ نافرمانی کے عزم کا فقدان۔ علاوہ بریں اگر موقع و محل اور سیاق و سباق کی مناسبت کو دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ آدم علیہ السّلام کی پوزیشن صاف کرنے کے لیے یہ قصّہ بیان  نہیں کر رہا ہے، بلکہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ بشری کمزوری کیا تھی جس کا صدور ان سے ہوا اور جس کی بدولت صرف وہی نہیں بلکہ ان کی اولاد بھی اللہ تعالیٰ کی پیشگی تنبیہات کے باوجود اپنے دشمن کے پھندے میں پھنسی اور پھنستی رہی ہے۔ مزید براں، جو شخص بھی خالی الذہن ہو کر اس آیت کو پڑھے گا اس کے ذہن میں پہلا مفہوم یہی آئے گا کہ ’’ہم نے اس میں اطاعت ِ امر کا عزم، یا مضبوط ارادہ نہ پایا‘‘۔ دوسرا مفہوم اس کے ذہن میں اُس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک وہ آدم علیہ السّلام کی طرف معصیت کی نسبت کو نا مناسب سمجھ کر آیت کے کسی اور معنی کی تلاش شروع نہ کر دے۔ یہی رائے علامہ آلوسی نے بھی اس موقع پر اپنی تفسیر میں ظاہر فرمائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ   لکن لا یخفٰی علیک ان ھٰذا التفسیر غیر متبادرٍ ولا کثیر المناسبۃ للمقامِ، ’’مگر تم سے یہ بات پوشیدہ نہ ہو گی کہ یہ تفسیر آیت کے الفاظ سُن کر فوراً ذہن میں نہیں آتی  اور نہ موقع محل کے ساتھ کچھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے ‘‘۔ (ملاحظہ ہو روح المعانی۔ جلد ۱۶۔ صفحہ ۲۴۳)۔

 

یاد کرو وہ وقت جبکہ ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ وہ سب تو سجدہ کر گئے، مگر ایک ابلیس تھا کہ انکار کر بیٹھا۔ اس پر ہم نے آدمؑ ۹۵ سے کہا کہ ’’دیکھو، یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے ۹۶،  ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنّت سے نکلوا دے ۹۷ اور تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ یہاں تو تمہیں یہ آزمائشیں حاصل ہیں کہ نہ بھُوکے ننگے رہتے ہو، نہ پیاس اور دھُوپ تمہیں ستاتی ہے۔‘‘  ۹۸ لیکن شیطان نے اس کو پھُسلایا۔ ۹۹ کہنے لگا ’’ آدم،  بتاؤں تمہیں وہ درخت جس سے ابدی زندگی اور لازوال سلطنت حاصل ہوتی ہے؟‘‘  ۱۰۰ آخر کار دونوں(میاں بیوی)اُس درخت کا پھل کھا گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فوراً ہی اُن کے ستر ایک دوسرے کے آگے کھُل گئے اور لگے دونوں اپنے آپ کو جنّت کے پتّوں سے ڈھانکنے۔ ۱۰۱ آدمؑ نے اپنے ربّ کی نافرمانی کی اور راہِ راست سے بھٹک گیا۔ ۱۰۲ پھر اُس کے ربّ نے اُسے برگزیدہ کیا ۱۰۳ اور اس کی توبہ قبول کر لی اور اسے ہدایت بخشی۔ ۱۰۴ اور فرمایا ’’تم دونوں (فریق،  یعنی انسان اور شیطان)یہاں سے اُتر جاؤ۔ تم ایک دُوسرے کے دُشمن رہو گے۔ اب اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مُبتلا ہو گا۔ اور جو میرے ’’ذکر‘‘ (درسِ نصیحت)سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دُنیا میں تنگ زندگی ہو گی ۱۰۵ اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے۔‘‘  ۱۰۶۔۔۔۔ وہ کہے گا ’’ پروردگار، دُنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اُٹھایا؟‘‘  اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’ہاں، اِسی طرح تو ہماری آیات کو،  جبکہ وہ تیرے پاس آئی تھیں،  تُو نے بھُلا دیا تھا۔ اُسی طرح آج تُو بھلایا جا رہا ہے۔ ‘‘  ۱۰۷۔۔۔۔ اِس طرح ہم حد سے گزرنے والے اور اپنے ربّ کی آیات نہ ماننے والے کو (دُنیا میں)بدلہ دیتے ہیں،  ۱۰۸ اور آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ دیرپا ہے۔
پھر کیا اِن لوگوں کو ۱۰۹ (تاریخ کے اِس سبق سے )کوئی ہدایت نہ ملی کہ اِن سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کی (برباد شدہ)بستیوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں؟ درحقیقت اِس میں ۱۱۰ بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقلِ سلیم رکھنے والے ہیں۔ ؏۷

 

۹۵: یہاں وہ اصل حکم بیان نہیں کیا گیا ہے جو آدم علیہ السلام  کو دیا گیا تھا،  یعنی یہ کہ ’’اِس خاص درخت کا پھل نہ کھانا‘‘۔ وہ حکم دوسرے مقامات پر قرآن مجید  میں بیان ہو چکا ہے۔ اس مقام پر چونکہ بتانے کی اصل چیز صرف یہ ہے کہ انسان کس طرح اللہ تعالیٰ کی پیشگی تنبیہ اور فہمائش کے باوجود اپنے جانے بوجھے دشمن کے اغوا سے متاثر ہو جاتا ہے،  اور کسی طرح اس کی یہی کمزوری اس سے وہ کام کرا لیتی ہے جو اس کے اپنے مفاد کے خلاف  ہوتا ہے،  اس لیے اللہ تعالیٰ نے اصل حکم کا ذکر کرنے کے بجائے یہاں اُس فہمائش کا ذکر کیا ہے جو اس حکم کے ساتھ حضرت آدم کو کی گئی تھی۔

۹۶: دشمنی کا مظاہرہ اُسی وقت ہو چکا تھا۔ آدم اور حوا علیہما السّلام نے خود دیکھ چکے تھے کہ ابلیس نے ان کو سجدہ کرنے سے انکار کیا ہے اور صاف صاف  یہ کہہ کر کیا ہے کہ  اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ط خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ، ’’میں اس سے بہتر ہوں،  تُو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے ‘‘ (اعراف۔ آیت ۱۲۔ ص۔ آیت ۷۶)۔ اَرَ اَیْتَکَ ھٰذَا الَّذِیْ کَرَّ مْتَ عَلَیَّ، ’’ذرا دیکھ تو سہی، یہ ہے وہ ہستی جس کو تُو نے مجھ پر فضیلت دی ہے‘‘۔ ءَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا، ’’ اب کیا میں اسے سجدہ کروں جس کو تُو نے مٹی سے بنایا ہے؟‘‘  (بنی اسرائیل۔ آیات ۶۱ – ۶۲)۔ پھر اتنے ہی پر اس نے اکتفا نہ کیا کہ کھلم کھلا اپنے حسد کا اظہار کر دیا، بلکہ اللہ تعالیٰ سے اس نے مہلت بھی مانگی کہ مجھے اپنی فضیلت اور اس کی نااہلی ثابت کرنے کا موقع دیجیے، میں اِسے بہکا کر آپ کو دکھا دوں گا کہ کیسا ہے یہ آپ کا خلیفہ۔ اعراف، حِجر اور بنی اسرائیل میں اس کا یہ چیلنج گزر چکا ہے اور آگے سورۂ ص میں بھی آ رہا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ یہ تمہارا  دشمن ہے، تو یہ محض ایک امر غیب کی اطلاع نہ تھی،  بلکہ ایک ایسی چیز تھی جسے عین برسر موقع دونوں میاں بیوی اپنی آنکھوں دیکھ چکے اور اپنے کانوں سُن چکے تھے۔

۹۷: اس طرح یہ بھی دونوں کو بتا دیا گیا کہ اگر اس کے بہکائے میں آ کر تم نے حکم کی خلاف ورزی کی تو جنت میں نہ رہ سکو گے اور وہ تمام نعمتیں تم سے چھن جائیں گی جو تم کو یہاں حاصل ہیں۔

۹۸: یہ تشریح ہے اُس مصیبت کی جس میں جنت سے نکلنے کے بعد انسان کو مبتلا ہو جانا تھا۔ اس موقع پر جنت کی بڑی اور اکمل و افضل نعمتوں کا ذکر کرنے کے بجائے اس کی چار بنیادی نعمتوں کا ذکر کیا گیا،  یعنی یہ کہ یہاں تمہارے لیے غذا، پانی، لباس اور مسکن کا انتظام سرکاری طور پر کیا جا رہا ہے، تم کو ان میں سے کوئی چیز بھی حاصل کر نے کے لیے محنت اور کوشش نہیں کرنی پڑتی۔ اس سے خود بخود یہ بات آدم و حوا  علیہما السّلام پر واضح ہو گئی کہ اگر وہ شیطان کے بہکائے میں آ کر حکم سرکار کی خلاف ورزی کریں گے تو جنت سے نِکل کر انہیں یہاں کی بڑی نعمتیں تو درکنار،  یہ بنیادی آسائشیں تک حاصل نہ رہیں گی۔ وہ اپنی بالکل ابتدائی ضروریات تک کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے اور پانی جان کھپانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ چوٹی سے ایڑی تک پسینہ  جب تک نہ بہائیں گے ایک وقت کی روٹی تک نہ پا سکیں گے۔ معاش کی فکر ہی ان کی توجہ اور ان کے اوقات اور ان کی قوتوں کا اتنا بڑا حصّہ کھینچ لے جائے گی کہ کسی بلند تر مقصد کے لیے کچھ کرنے کی نہ فرصت رہے گی نہ طاقت۔

۹۹: یہاں قرآن صاف تصریح کرتا ہے کہ آدم و حوا میں سے اصل وہ شخص جس کو شیطان نے وسوسے میں ڈالا آدم علیہ السّلام تھے نہ کہ حضرت حوا۔ اگرچہ سورۂ اعراف کے بیان کے مطابق مخاطب دونوں ہی تھے اور بہکانے میں دونوں ہی آئے، لیکن شیطان کی وسوسہ اندازی کا رُخ دراصل حضرت آدم ہی کی طرف تھا۔ اس کے برعکس بائیبل کا بیان یہ ہے کہ سانپ نے پہلے عورت سے بات کی اور پھر عورت نے اپنے شوہر کو بہکا کر درخت کا پھل اسے کھلایا(پیدائش،  باب ۳)۔

۱۰۰: سورۂ اعراف میں شیطان کی گفتگو کی مزید تفصیل ہم کو یہ ملتی ہے  وَقَالَ مَا نَھٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْ تَکُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ، ’’اور اس نے کہا کہ تمہارے ربّ نے تم کو اس درخت سے صرف اس لے روک دیا ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتے نہ ہو جاؤ، یا ہمیشہ جیتے نہ رہو‘‘۔ (آیت ۲۰)۔

۱۰۱: بالفاظِ دیگر نافرمانی کا صدور ہوتے ہی وہ آسائشیں ان سے چھین لی گئیں جو سرکاری انتظام سے ان کو مہیا کی جاتی تھیں، اور اس کا اوّلین ظہُور لباس چھن جانے کی شکل میں ہوا۔ غذا، پانی اور مسکن سے محرومی کی نوبت تو بعد کو ہی آنی تھی، اس کا پتہ تو بھوک پیاس لگنے پر ہی چل سکتا تھا، اور مکان سے نکالے جانے کی باری بھی بعد  ہی میں آسکتی تھی۔ مگر پہلی چیز جس پر نافرمانی کا اثر پڑا وہ سرکاری  پوشاک تھی جو اسی وقت اُتروا لی گئی۔

۱۰۲: یہاں اُس بشری کمزوری کی حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے  جو آدم علیہ السّلام سے ظہُور میں آئی۔ اللہ تعالیٰ کو وہ اپنا خالق اور ربّ جانتے تھے اور دل سے مانتے تھے۔ جنت میں ان کو جو آسائشیں حاصل تھیں ان کا تجربہ انہیں خود ہر وقت ہو رہا تھا۔ شیطان کے حسد اور عداوت کا بھی ان کو براہِ راست علم ہو چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دینے کے ساتھ ہی بتا دیا تھا کہ یہ تمہارا دشمن تمہیں نافرمانی پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے گا اور اس کا تمہیں یہ نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ شیطان اُن کے سامنے چیلنج دے چکا تھا کہ میں اسے بہکاؤں گا اور اس کی بیخ کنی کر کے چھوڑوں گا۔ اِن ساری باتوں کے باوجود جب شیطان نے ان کو ناصح مشفق اور خیر خواہ دوست کے بھیس میں آ کر ایک بہتر حالت(زندگیِ جاوداں اور سلطنتِ لازوال) کا لالچ دیا تو وہ اس کی تحریص کے مقابلے میں نہ جم سکے اور پھِسل گئے،  حالانکہ اب بھی خدا پر ان کے عقیدے میں فرق نہ آیا تھا اور اس کے فرمان کے بارے میں ایسا کوئی خیال ان کے ذہن میں نہیں تھا کہ وہ سرے سے واجب الاذعان ہی نہیں ہے۔ بس ایک فوری جذبے نے،  جو شیطانی تحریص کے زیرِ اثر اُبھر آیا تھا، ان پر ذہول طاری کر دیا اور ضبطِ نفس کی گرفت ڈھیلی ہوتے ہی وہ طاعت کے مقامِ بلند سے معصیت کی پستی میں جا گرے۔ یہی وہ ’’بھول‘‘  اور ’’فقدانِ عزم‘‘  ہے جس کا ذکر قصّے کے آغاز میں کیا گیا تھا، اور اسی چیز کا نتیجہ وہ نافرمانی  اور بھٹک ہے جس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے۔ یہ انسان کی وہ کمزوری ہے جو ابتدائے آفرینش ہی میں اس سے ظاہر ہو ئی، اور بعد میں کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا جبکہ یہ کمزوری اس میں نہ پائی گئی ہو۔

۱۰۳: یعنی شیطان کی طرح راندۂ درگاہ نہ کر دیا، اطاعت کی کوشش میں ناکام ہو کر جہاں وہ گر گئے تھے وہیں انہیں پڑا  نہیں چھوڑ دیا،  بلکہ اُٹھا کر پھر اپنے پاس بلا لیا اور اپنی خدمت کے لیے چُن لیا۔ ایک سلوک وہ ہے جو بالارادہ بغاوت کرنے والے اور اکڑ اور ہیکڑی دکھانے والے نوکر کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس کا مستحق شیطان تھا اور ہر وہ بندہ ہے جو ڈٹ کر  اپنے ربّ کی نافرمانی کرے اور خم ٹھونک کر اس کے سامنے کھڑا ہو جائے۔ دوسرا سلوک وہ ہے جو اس وفادار بندے کے ساتھ کیا جاتا ہے جو محض ’’بھُول‘‘  اور ’’فقدانِ عزم‘‘  کی وجہ سے قصور کر گزرا ہو، اور پھر ہوش آتے ہی اپنے کیے پر شرمندہ ہو جائے۔ یہ سلوک حضرت آدم و حوا سے کیا گیا،  کیونکہ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ پکار اُٹھے تھے کہ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْ نَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ، ’’اے ہمارے پروردگار،  ہم نے اپنے نفس پر ظلم کیا،  اور اگر تُو ہم سے درگزر نہ فرمائے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم برباد ہو جائیں گے‘‘ (اعراف۔ آیت ۲۳)۔

۱۰۴: یعنی صرف معاف ہی نہ کیا،  بلکہ آئندہ کے لیے راہِ راست بھی بتائی اور اس پر چلنے کا طریقہ بھی سکھایا۔

۱۰۵: دنیا میں تنگ زندگی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے تنگ دستی لاحق ہو گی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں اسے چین نصیب نہ ہو گا۔ کروڑ پتی بھی ہو گا تو بے چین رہے گا۔ ہفت اقلیم کا فرمانروا بھی ہو گا تو بے کلی اور بے اطمینانی سے نجات نہ پائے گا۔ اس کی دنیوی کامیابیاں ہزاروں قسم کی ناجائز تدبیروں کا نتیجہ ہوں گی جن کی وجہ سے اپنے ضمیر سے لے کر گرد و پیش کے پورے اجتماعی ماحول تک ہر چیز کے  ساتھ اس کی پیہم کشمکش جاری رہے گی جو اسے کبھی امن و اطمینان اور سچی مسرّت سے بہرہ مند نہ ہونے دے گی۔

۱۰۶: ’’اس جگہ آدم علیہ السّلام کا قصہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ قصہ جس طریقے سے یہاں،  اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بیان ہوا ہے اس پر غور کرنے سے میں یہ سمجھا ہوں کہ (واللہ اعلم بالصواب) کہ زمین کی اصل خلافت وہی تھی جو آدم علیہ السّلام کو ابتداءً جنت میں دی گئی تھی۔ وہ جنت ممکن ہے کہ آسمانوں میں ہو اور ممکن ہے کہ اِسی زمین  پر بنائی گئی ہو۔ بہر حال وہاں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اس شان سے رکھا گیا تھا کہ اس کے کھانے پینے اور لباس و مکان کا سارا انتظام سرکار کے ذمّہ تھا اور خدمت گار (فرشتے) اُس کے حکم کے تابع تھے۔ اس کو اپنی ذاتی ضروریات کے لیے قطعاً کوئی فکر نہ کرنی پڑتی تھی، تاکہ وہ خلافت کے بزرگ تر اور بلند تر وظائف ادا کرنے کے لیے مستعد ہو سکے۔ مگر اس عہد ے پر مستقل تقرر ہونے سے پہلے امتحان لینا ضروری سمجھا گیا تاکہ امیدوار کی صلاحیتوں کا حال کھُل جائے اور یہ ظاہر ہو جائے کہ اس کی کمزوریاں کیا ہیں اور خوبیاں کیا۔ چنانچہ امتحان لیا گیا  اور جو بات کھُلی وہ یہ تھی کہ اُمیدوار تحریص و اِطماع کے اثر میں آ کر پھسل جاتا ہے، اطاعت کے عزم پر مضبوطی سے قائم نہیں رہ رہتا، اور اس کے علم پر نسیان غالب آ جاتا ہے۔ اِس امتحان کے بعد آدم اور ان کی اولاد کو مستقل خلافت پر مامور کرنے کے بجائے آزمائشی خلافت دی گئی،  اور آزمائش کے لیے ایک مدّت (اجلِ مسمّٰی،  جس اختتام قیامت پر ہو گا) مقرر کر دی گئی۔ اِس آزمائش کے دَور میں اُمیدوار کے لیے معیشت کا سرکاری انتظام ختم کر دیا گیا۔ اب اپنی معاش کا انتظام انہیں خود کرنا ہے۔ البتہ زمین اور اس کی مخلوقات پر ان کے اختیارات برقرار ہیں۔ آزمائش اس بات کی ہے کہ اختیار رکھنے کے باوجود یہ اطاعت کرتے ہیں یا نہیں اور اگر بھُول لاحق ہوتی ہے،   یا تحریص و اطماع کے اثر میں آ کر پھسلتے ہیں،  تو تنبیہ،  تذکیر اور تعلیم کا اثر قبول کر کے سنبھلتے  بھی ہیں یا نہیں؟ اور ان کا آخری فیصلہ کیا ہوتا ہے،  طاعت کا یا معصیت کا؟ اس آزمائشی خلافت کے دَوران میں ہر ایک کے طرزِ عمل کا ریکارڈ محفوظ رہے گا۔ اور یوم الحساب میں جو لوگ کامیاب نکلیں گے انہی کو پھر مستقل خلافت،  اُس دائمی  زندگی  اور لازوال سلطنت کے ساتھ جس کا لالچ  دے کر شیطان نے حکم کی خلاف ورزی کرائی تھی، عطا کی جائے گی۔ اُس وقت یہ پُوری زمین جنت بنا دی جائے گی اور اس کے وارث خدا کے صالح بندے ہوں گے جنہوں نے آزمائشی خلافت میں طاعت پر قائم رہ کر، یا بھُول لاحق ہونے کے بعد بالآخر طاعت کی طرف پلٹ کر اپنی اہلیت ثابت کر دی ہو گی۔ جنت کی اس زندگی کو جو لوگ محض کھانے پینے اور اَینڈنے کی زندگی سمجھتے ہیں ان کا خیال صحیح نہیں ہے۔ وہاں پیہم ترقی ہو گی بغیر اس کے کہ اس کے لیے کسی تنزل کا خطرہ ہو۔ اور وہاں خلافتِ الہٰی کے عظیم الشان کام انسان انجام دے گا بغیر اس کے کہ اسے پھر کسی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔ مگر ان ترقیات اور اُن خدمات کا تصوّر کرنا ہمارے لیے اتنا ہی مشکل ہے جتنا ایک بچے کے لیے یہ تصور کرنا مشکل ہوتا ہے کہ بڑا ہو کر جب وہ شادی کرے گا تو ازدواجی زندگی کی کیفیات کیا ہوں گی۔ اسی لیے قرآن میں جنت کی زندگی کے صرف  انہی لذائذ کا ذکر کیا گیا ہے جن کا ہم اس دنیا کی  لذتوں پر قیاس کر کے کچھ اندازہ  کر سکتے ہیں۔ اس موقع پر یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ آدم و حوا کا قصّہ  جس طرح بائیبل میں بیان ہو ا ہے اسے بھی ایک نظر دیکھ لیا جائے۔ بائیبل کا بیان ہے کہ ’’خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو انسان جیتی جان ہوا۔ اور خداوند خدا نے مشرق کی طرف عدن میں ایک باغ لگایا اور انسان کو جسے اُس نے بنایا  تھا وہاں رکھا‘‘۔ ’’اور باغ کے بیچ میں حیات کا درخت اور نیک و بد کی پہچان کا درخت بھی لگایا‘‘۔ ’’اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا  اور کہا کہ تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا۔ کیونکہ جس روز تُو نے اس میں سے کھایا تو مرا‘‘۔ ’’اور خداوند خدا اُس پسلی  سے جو اس نے آدم میں سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر اسے آدم کے پاس لایا‘‘۔ ’’اور  آدم اور اس کی بیوی دونوں ننگے تھے اور شرماتے  نہ تھے‘‘۔ ’’ اور سانپ کُل دشتی جانوروں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھا،  چالاک تھا،  اور اس نے عورت سے کہا کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا‘‘ ؟ ’’سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہر گز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤ گے‘‘۔ چنانچہ عورت نے اس کا پھل لے کر کھایا اور  اپنے شوہر کو بھی کھلایا۔ ’’تب دونوں کی آنکھیں کھُل گئیں اور ان کو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں اور انہوں نے انجیر کے پتوں کو سی  کر اپنے لیے لنگیاں بنائیں۔ اور انہوں نے خداوند خدا کی آواز، جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھر تا تھا، سنی اور آدم اور اس کی بیوی نے اپنے آپ کو خداوند خدا کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا‘‘۔ ’’پھر خدا نے آدم کو پکارا  کہ تُو کہاں ہے۔ اس نے کہا کہ میں تیری آواز سُن کر ڈرا اور چھُپ گیا کیونکہ میں ننگا تھا۔ خدا نے کہا ارے، تجھ کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ تُو ننگا ہے۔ ضرور تُو نے اس درخت کا پھل کھایا ہو گا جس سے میں نے منع کیا تھا۔ آدم نے کہا کہ مجھے حوّا نے اس کا پھل کھلایا، اور حوّا نے کہا مجھے سانپ نے بہکایا تھا۔ اس پر خدا نے سانپ سے کہا ’’ اس لیے کہ تُو نے یہ کیا  تو سب چوپایوں اور دشتی جانوروں میں ملعون ٹھیرا۔ تُو اپنے پیٹ کے بل چلے گا اور   عمر بھر  خاک چاٹے گا اور میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کی درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا  اور تُو اس کی ایڑی پر کاٹے گا‘‘۔ اور عورت کو یہ سزا دی کہ ’’میں تیرے دردِ حمل کو بہت بڑھاؤں گا،  تُو درد کے ساتھ بچہ جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا‘‘۔ اور آدم کے بارے میں یہ فیصلہ صادر کیا کہ چونکہ تُو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور میرے حکم کے خلاف کیا ’’ اس لیے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی، مشقت کے ساتھ تُو اپنی عمر بھر اس کی پیداوار کھائے گا۔۔۔۔۔۔ تُو اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا‘‘۔ پھر ’’خداوند نے آدم اور اس کی بیوی کے واسطے چمڑے کے کرتے بنا کر اُن کو پہنائے‘‘۔ ’’اور خداوند نے کہا دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان  میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھائے اور حیات کے درخت سے بھی کچھ لے کر کھائے اور ہمیشہ جیتا رہے۔ اس لیے خداوند خدا نے اُس کو باغِ عدن  سے باہر کر دیا‘‘ (پیدائش، باب ۲،  آیات ۷ – ۲۵۔ باب ۳،  آیات ۱ – ۲۳) بائیبل کے اِس بیان اور قرآن کے بیان کو ذرا وہ لوگ بالمقابل رکھ کر دیکھیں جو یہ کہتے ہوئے نہیں شرماتے کہ قرآن میں یہ قصّے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے گئے ہیں۔

۱۰۷: قیامت کے روز نئی زندگی کے آغاز سے لے کر جہنم میں داخل ہونے تک جو مختلف کیفیات مجرمین پر گزریں گی  ان کو قرآن مجید میں مختلف مواقع پر جدا جدا بیان کیا گیا ہے۔ ایک کیفیت یہ ہے : لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآ ءَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ، ’’ تُو اِس چیز سے غفلت میں پڑا ہوا تھا،  اب ہم نے تیرے آگے سے پردہ ہٹا دیا ہے، آج تیری نگاہ بڑی تیز ہے‘‘  یعنی تجھے نظر آ رہا ہے۔(ق۔ آیت ۲۲)۔ دوسری کیفیت یہ ہے:  اِنَّمَا یُؤَ خِّرھُُْ لِیَوْ مٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَا رُ  مھُْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُسِھِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْہِمْ طَرْفھُُمْ وَاَفْئیدَ تھُُمْ ھَوَآ ء، ’’ اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب حال یہ ہو گا کہ آنکھیں پھٹی  کی پھٹی رہ گئی ہیں، سر اُٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں، نظریں اُوپر جمی ہیں اور دل ہیں کہ اُڑتے جاتے ہیں‘‘  (ابراہیم۔ آیت ۴۳)۔ تیسری کیفیت یہ ہے:   وَنُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتَا بًا یَّلْقٰہُ مَنْشُورًا،  اِقْرَأْ کِتَابَکَ،  کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا، ’’ اور قیامت کے روز ہم اس کے لیے ایک نوشتہ نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب پائے گا۔ پڑھ اپنا  نامۂ اعمال،  آج اپنا حساب لگانے کے لیے تُو خود ہی کافی ہے‘‘  (بنی اسرائیل۔ آیات ۱۳ – ۱۴)۔ اور انہی کیفیات میں سے ایک یہ بھی ہے  جو آیت زیرِ بحث میں بیان ہوئی ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ خدا کی قدرت سے یہ لوگ آخرت کے ہولناک مناظر اور اپنی شامتِ اعمال کے نتائج کو تو خوب دیکھیں گے، لیکن بس ان کی بینائی  یہی کچھ دیکھنے کے لیے ہو گی۔ باقی دوسری حیثیتوں سے ان کا حال اندھے کا سا ہو گا جسے اپنا راستہ نظر نہ آتا ہو،  جو نہ لاٹھی رکھتا ہو کہ ٹٹول کر چل سکے نہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کے چلانے والا ہو، قدم قدم پر ٹھوکریں کھا رہا ہو، اور  اس کو کچھ نہ سُوجھتا ہو کہ کدھر جائے اور اپنی ضروریات کہاں سے پوری کرے۔ اسی کیفیت کو اِن الفاظ میں ادا کیا گیا ہے کہ ’’ جس طرح تُو نے ہماری آیات کو بھُلا دیا تھا اُسی طرح آج تُو بھلایا جا رہا ہے‘‘،  یعنی آج کوئی پروا نہ کی جائے گی کہ تُو کہاں کہاں ٹھوکریں کھا کر گرتا  ہے اور کیسی کیسی محرومیاں برداشت کر رہا ہے۔ کوئی تیرا ہاتھ نہ پکڑے گا،  کوئی تیری حاجتیں پوری نہ کرے گا،  اور تیری کچھ بھی خبر گیری نہ کی جائے گی۔

۱۰۸: اشارہ ہے اس ’’تنگ زندگی‘‘  کی طرف جو اللہ کے ’’ذِکر‘‘  یعنی اس کتاب اور اس کے بھیجے ہوئے درسِ نصیحت سے منہ موڑنے والوں کو دنیا میں بسر کرائی جاتی ہے۔

۱۰۹: اشارہ ہے اہلِ مکّہ کی طرف جو اُس وقت مخاطب تھے۔

۱۱۰: یعنی تاریخ کے اِس سبق میں،  آثارِ قدیمہ کے اس مشاہدے میں، نسلِ انسانی کے اِس تجربے میں۔

 

اگر تیرے ربّ کی طرف سے پہلے ایک بات طے نہ کر دی گئی ہوتی اور مہلت کی ایک مدّت مقرر نہ کی جا چکی ہوتی تو ضرور اِن کا بھی فیصلہ چکا دیا جاتا۔ پس اے محمدؐ،  جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں اُن پر صبر کرو، اور اپنے ربّ کی حمد و ثنا کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو سُورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے، اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی، ۱۱۱ شاید کہ تم راضی ہو جاؤ۔ ۱۱۲ اور نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھو دُنیوی زندگی کی اُس شان و شوکت کو جو ہم نے اِن میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے۔وہ تو ہم نے اُنہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے، اور تیرے ربّ کا دیا ہوا رزقِ حلال ۱۱۳ ہی بہتر اور پائندہ تر ہے۔ اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو ۱۱۴ اور خود بھی اُس کے پابند رہو۔ ہم تم سے کوئی رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم ہی تمہیں دے رہے ہیں۔ اور انجام کی بھلائی تقویٰ ہی کے لیے ہے۔ ۱۱۵
وہ کہتے ہیں کہ یہ شخص اپنے ربّ کی طرف سے کوئی نشانی (معجزہ)کیوں نہیں لاتا؟ اور کیا ان کے پاس اگلے صحیفوں کی تمام تعلیمات کا بیانِ واضح نہیں آگیا؟  ۱۱۶ اگر ہم اس کے آنے سے پہلے ان کو کسی عذاب سے ہلاک کر دیتے تو پھر یہی لوگ کہتے کہ اے ہمارے پروردگار، تُو نے ہمارے پاس کوئی رسُول کیوں نہ بھیجا کہ ذلیل و رُسوا ہونے سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی پیروی اختیار کر لیتے۔اے محمدؐ،  اِن سے کہو، ہر ایک انجامِ کار کے انتظار میں ہے، ۱۱۷ پس اب منتظر رہو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کون سیدھی راہ چلنے والے ہیں اور کون ہدایت یافتہ ہیں۔ ؏ ۸

 

۱۱۱: یعنی چونکہ اللہ تعالیٰ ان کو ابھی ہلاک نہیں کرنا چاہتا،  اور ان کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر کر چکا ہے، اس لیے اُس کی دی ہوئی اس مُہلت کے دَوران میں یہ جو کچھ بھی تمہارے ساتھ کریں اُس کو تمہیں برداشت کرنا ہو گا اور صبر کے ساتھ ان کی تمام تلخ و تُرش باتیں سُنتے ہوئے اپنا فریضۂ تبلیغ و تذکیر انجام دینا پڑے گا۔ اِس تحمل و برداشت اور اِس صبر کی طاقت تمہیں نماز سے ملے گی جس کو تمہیں اِن اوقات میں پابندی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ ’’رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح‘‘ کرنے سے مراد نماز ہے، جیسا کے آگے چل کر خود فرما دیا   وَأْ مُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلوٰۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا، ’’ اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو او ر خود بھی اس کے پابند  رہو‘‘۔ نماز کے اوقات کی طرف یہاں بھی صاف اشارہ کر دیا گیا ہے۔ سُورج نکلنے سے پہلے فجر کی نماز۔ سُورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی نماز۔ اور رات کے اوقات میں عشا اور تہجد کی نماز۔ رہے دن کے کنارے،  تو وہ تین ہی ہو سکتے ہیں۔ ایک کنارہ صبح ہے،  دوسرا کنارہ زوالِ آفتاب، اور تیسرا کنارہ شام۔ لہٰذا دن کے کناروں سے مراد فجر، ظہر  اور مغرب کی نماز ہی ہو سکتی ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم۔ ہود،  حاشیہ نمبر ۱۱۳۔ بنی اسرائیل،  حاشیہ نمبر ۹۱ تا ۹۷۔ جلد سوم، الروم حاشیہ نمبر ۲۴۔ جلد چہارم،  المومن، حاشیہ نمبر ۷۴۔

۱۱۲: اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد بھی ہیں۔ ایک یہ کہ تم اپنی موجودہ حالت پر راضی ہو جاؤ جس میں اپنے مِشن کی خاطر تمہیں طرح طرح کی ناگوار باتیں سہنی پڑ رہی ہیں، اور اللہ کے اس فیصلے پر راضی ہو جاؤ کہ تم پر ناحق ظلم اور زیادتیاں کرنے والوں کو ابھی سزا نہیں دی جائے گی، وہ داعی حق کو ستاتے بھی رہیں گے اور زمین میں دندناتے بھی پھریں گے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ  تم ذرا یہ کام کر کے تو دیکھو،  اس کا نتیجہ  وہ کچھ سامنے آئے گا  جس سے تمہارا دل خوش ہو جائے گا یہ دوسرا مطلب قرآن میں متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے ادا کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ بنی اسرائیل میں نماز کا حکم دینے کے بعد فرمایا  عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا، ’’توقع ہے کہ تمہارا رب تمہیں مقام ِ محمود پر پہنچا دے گا‘‘  آیت ۷۹۔ اور سُورۂ ضحٰی میں فرمایا   وَلَلْاٰ خِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلیٰ o وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضیٰ، ’’ تمہارے لیے بعد کا دَور یقیناً پہلے دَور سے بہتر ہے، اور عنقریب تمہارا ربّ تمہیں اتنا کچھ دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے‘‘۔

۱۱۳: رزق کا ترجمہ ہم نے ’’رزق حلال‘‘  کیا ہے،  کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی حرام مال کو ’’رزقِ ربّ‘‘  سے تعبیر نہیں فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارا اور تمہارے ساتھی اہلِ ایمان کا یہ کام نہیں ہے کہ یہ فسّاق و فجّار ناجائز طریقوں سے دولت سمیٹ سمیٹ کر اپنی زندگی میں جو ظاہری چمک دمک پیدا کر لیتے ہیں،  اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھو۔ یہ دولت اور یہ شان و شوکت تمہارے لیے ہرگز قابلِ رشک نہیں ہے۔ جو پاک رزق تم اپنی محنت سے کماتے ہو وہ خواہ کتنا ہی تھوڑا ہو، راستباز اور ایماندار آدمیوں کے لیے وہی بہتر ہے اور اسی میں وہ بھلائی ہے جو دنیا سے آخرت تک برقرار رہنے والی ہے۔

۱۱۴: یعنی تمہارے بال بچے بھی اپنی تنگ دستی و خستہ حالی کے مقابلہ میں اِن حرام خوروں کے عیش و عشرت کو دیکھ کر دل شکستہ نہ ہوں۔ ان کو تلقین کرو کہ نماز پڑھیں۔ یہ چیز اُن کے زاویۂ نظر  کو بدل دے گی۔ ان کے معیارِ قدر کو بدل دے گی۔ ان کی تو جہالت کا مرکز بدل دے گی۔ وہ پاک رزق پر صابر و قانع ہو جائیں گے اور اُس بھلائی کو جو ایمان و تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے اُس عیش پر ترجیح دینے لگیں گے جو فسق و فجور اور دنیا پرستی سے حاصل ہوتا ہے۔

۱۱۵: یعنی ہم نماز پڑھنے کے لیے تم سے اس لیے نہیں کہتے ہیں کہ اس سے ہمارا کوئی فائدہ ہے۔ فائدہ تمہارا اپنا ہی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو گا جو دنیا اور آخرت دونوں ہی میں آخری اور مستقل کامیابی کا وسیلہ ہے۔

۱۱۶: یعنی کیا یہ کوئی کم معجزہ ہے کہ انہی میں سے ایک اُمی شخص نے وہ کتاب پیش کی ہے جس میں شروع سے اب تک کی تمام کتبِ آسمانی کی مضامین اور تعلیمات کا عطر نکال کر رکھ دیا گیا ہے۔ انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اُن کتابوں میں جو کچھ تھا، وہ سب نہ صرف یہ کہ اس میں جمع کر دیا گیا،  بلکہ اس کو ایسا کھول کر واضح بھی کر دیا گیا کہ صحرا نشین بدّو تک اس کو سمجھ کر فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔

۱۱۷: یعنی جب سے یہ دعوت تمہارے شہر میں اُٹھی ہے،  نہ صرف اس شہر کا بلکہ گردو پیش کے علاقے کا بھی ہر شخص انتظار کر رہا ہے کہ اس کا انجام آخر کار کیا ہوتا ہے۔