تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ التِّین

نام

پہلے ہی لفظ  اَلتِّیْن  کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ 

زمانۂ نزول

قَتَادَہ کہتے ہیں  کہ یہ سورۃ مدنی ہے۔  ابن عباس ؓ سے دو قول منقول ہیں ۔  ایک یہ کہ یہ مکّی ہے اور دوسرا یہ کہ مدنی ہے۔  لیکن جمہور علماء اسے  مکّی ہی قرار دیتے ہیں  اور اس کے مکّی ہونے کی کھلی ہوئی علامت یہ ہے کہ اِس میں  شہرِ مکّہ کے لیے ھٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْن (یہ پرامن شہر) کے الفاظ استعمال  کیے گئے ہیں ۔  ظاہر ہے کہ اگر اس کا نزول مدینہ یں  ہوا ہوتا تو مکّہ کے لیے ’’یہ شہر‘‘ کہنا صحیح نہیں  ہو سکتا تھا۔ علاوہ بریں  سورت کے مضمون پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مکّۂ معظمہ کے بھی ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں  میں  سے ہے،  کیونکہ اِس میں  کوئی نشان اِس امر کا نہیں   پایا جاتا کہ اس کے نزول کے وقت کفر و اسلام کی کشمکش برپا ہو چکی تھی، اور اِس کے اندر مکّی دور کی ابتدائی سورتوں  کا وہی اندازِ بیان پایا جاتا ہے جس میں  نہایت مختصر اور دل نشین طریقہ سے لوگوں  کو سمجھایا گیا ہے کہ آخرت کی جزا و سزا ضروری اور سراسر معقول ہے۔ 

موضوع اور مضمون

اس کا موضوع ہے جزا و سزا کا اِثبات۔ اِس غرض کے لیے سب سے پہلے جلیل القدر انبیاء کے مقاماتِ ظہور کی قَسم کھا کر فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین ساخت سے پیدا کیا ہے۔  اگرچہ اِس حقیقت کو دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں  مختلف طریقوں  سے بیان کیا گیا ہے۔  مثلاً کہیں  فرمایا  کہ انسان کو خدا نے زمین میں  اپنا خلیفہ بنایا اور فرشتوں  کو اس کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا (البقرہ، ۳۴-۳۰۔ الاَنعام، ۱۶۵۔ الاَعراف، ۱۱۔  الحِجْر، ۲۹-۲۸۔ النَّمل، ۶۲۔ صٓ۷۱ تا ۷۳)۔ کہیں  فرمایا  کہ انسان اُس اَمانتِ الٰہی کا حامل ہوا ہے جسے  اٹھانے کی طاقت زمین و آسمان اور پہاڑوں  میں  بھی نہ تھی (الاَحزاب، ۷۲)۔ کہیں  فرمایا کہ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سے مخلوقات پر فضیلت عطا کی(بنی اسرائیل، ۷۰)۔ لیکن یہاں  خاص طور پر انبیاء کے مقامات ظہور کی قسم کھا کر یہ فرمانا کہ انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا گیا ہے،  یہ معنی رکھتا ہے کہ نوعِ انسانی کو اِتنی بہتر ساخت عطا کی گئی  کہ اس کے اندر نبوّت جیسے بلند ترین منصب کے حامل لوگ پیدا ہوئے جس سے اونچا  منصب خدا کی کسی دوسری مخلوق کو نصیب نہیں  ہوا۔

اس کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ انسانوں  میں  دو قِسمیں  پائی جاتی ہیں،  ایک وہ جو اس بہترین ساخت پر پیدا ہونے کے بعد بُرائی کی طرف مائل ہوتے ہیں  اور اخلاقی پستی میں  گرتے گرتے اُس انتہا کو پہنچ جاتے ہیں  جہاں  اُن سے زیادہ نیچ کوئی دوسری مخلوق نہیں  ہوتی، دوسرے وہ جو ایمان و عملِ صالح کا راستہ اختیار کر کے اس گراوٹ سے بچ جاتے ہیں  اور اُس مقامِ بلند پر قائم رہتے ہیں  جو اُن کے بہترین ساخت پر پیدا ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔  نوعِ انسانی میں  اِن دونوں  قسموں  کے لوگوں  کا پایا جانا ایک ایسا امرِ واقعی ہے جس سے انکار نہیں  کیا جا سکتا، کیونکہ اس کا مشاہدہ انسانی معاشرے میں  ہر جگہ ہر وقت ہو رہا ہے۔

آخر اِس امرِ واقعی سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جب انسانوں  میں  یہ دو الگ الگ اور ایک دوسرے سے قطعی مختلف قسمیں  پائی جاتی ہیں  تو پھر جزائے اعمال کا کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔  اگر پستی میں  گرنے والوں  کو کوئی سزا اور بلندی پر چڑھنے والوں  کو کوئی اجر نہ ملے،  اور انجامِ  کار دونوں  کا یکساں  ہو،  تو اِس کے معنی یہ ہیں  کہ خدا کی خدائی میں  کوئی انصاف نہیں  ہے۔  حالانکہ انسانی فطرت اور انسان کی عقلِ عام یہ تقاضا کرتی ہے کہ جو شخص بھی حاکم ہو وہ انصاف کرے۔  پھر یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اللہ،  جو سب حاکموں  سے بڑا  حاکم ہے وہ انصاف نہیں  کرے گا۔

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
  قسم ہے انجیر اور زیتون کی 1 اور طورِ سینا 2 اور اِس پُر امن شہر (مکّہ)کی، ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا، 3 پھر اُسے اُلٹا پھیر کر ہم نے سب نِیچوں  سے نیچ کر دیا، 4 سوائے اُن لوگوں   کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے  کہ ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔  5 پس (اے نبیؐ )اِس کے بعد کون جزا و سزا کے معاملہ میں  تم کو جھُٹلا سکتا ہے ؟ 6 کیا اللہ سب حاکموں  سے بڑا حاکم نہیں  ہے ؟ 7 ؏۱

 

1: اِس کی تفسیر میں  مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہوا ہے۔  حسن بصری، عِکْرِمہ، عطا ء بن ابی رَبَاح، جابر بن زید، مجاہد اور ابراہیم نَخَعی رحمہم اللہ کے انجیر سے مراد یہی انجیر ہے جسے لوگ کھاتے ہیں  اور زیتون بھی یہی زیتون ہے جس سے تیل نکالا جاتا ہے۔  ابنِ ابی حاتم اور حاکم نے ایک قول حضرت عبداللہ ؓ  بن عباس سے بھی اس کی تائید میں  نقل کیا ہے اور جن مفسرین نے اس تفسیر کو قبول کیا ہے انہوں  نے انجیر اور زیتون کے خواص اور فوائد بیان کر کے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہی خوبیوں  کی وجہ سے اِن دونوں  پھلوں  کی قسم کھائی ہے۔  اِس میں  شک نہیں  کہ ایک عام عربی داں  تین اور  زیتون کے الفاظ سُن کر وہی معنی لے گا جو عربی زبان میں  معروف ہیں۔  لیکن دو وجوہ ایسے ہیں  جو یہ معنی لینے میں  مانع ہیں۔  ایک یہ کہ آگے طورِ سینا اور شہرِ مکّہ کی قسم کھائی گئی ہے،  اور دو پھلوں  کے ساتھ دو مقامات کی قسم کھانے میں  کوئی مناسبت نظر نہیں  آتی۔ دوسرے اِن چار چیزوں  کی قسم کھا کر آگے جو مضمون بیان کیا گیا ہے اُس پر طورِ سینا اور شہرِ مکّہ تو دلالت کرتے ہیں،  لیکن یہ دو پھل اُس پر دلالت نہیں  کرتے۔  اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں  جہاں  بھی کسی چیز کی قسم کھائی ہے،  اُس کی عظمت یا اُس کے منافع کی بنا پر نہیں  کھائی، بلکہ ہر قسم اُس مضمون پر دلالت کرتی ہے جو قسم کھانے کے بعد بیان کیا گیا ہے۔  اِس لیے اِن دونوں  پھلوں  کے خواص کی وجہ قسم قرار نہیں  دیا جا سکتا۔ بعض دوسرے مفسرین نے تین اور زیتون سے مراد بعض مقامات لیے ہیں ۔  کَعْبِ اَحبار، قَتادہ اور ابنِ زید کہتے ہیں  تین سے مراد دمشق ہے اور زیتون سے مراد بیت المقدس۔ ابنِ عباس ؓ کا ایک قول  ابن جریر، ابنِ ابی حاتم اور ابنِ مردویہ نے یہ نقل کیا ہے کہ تین سے مراد حضرت نوح ؑ کی وہ مسجد ہے جو انہوں  نے جُودی پہاڑ پر بنائی تھی اور زیتون سے مراد بیت المقدس ہے۔  لیکن وَالتِّیْنِ و َالزَّیْتُوْنِ کے الفاظ سُن کر یہ معنی ایک عام عرب کے ذہن میں  نہیں  آ سکتے تھے اور نہ یہ بات قرآن کے مخاطب اہلِ عرب میں  معروف تھی کہ تین اور زیتون اِن مقامات کے نام ہیں۔  البتہ یہ طریقہ اہلِ عرب میں  رائج تھا کہ جو پھل کسی علاقے میں  کثرت پیدا ہوتا ہے اُس علاقے کو وہ بسا اوقات اُس پھل کے نام سے موسوم کر دیتے تھے۔  اِس محاورے کے لحاظ سے تین اور زیتون کے الفاظ کا مطلب مَنابتِ تین و زیتون،  یعنی اِن پھلوں  کی پیداوار کا علاقہ ہو سکتا ہے،  اور شام و  فلسطین کا علاقہ ہے،  کیونکہ اُس زمانے کے اہلِ عرب میں  یہی علاقہ انجیر و زیتون کی پیداوار کے لیے مشہور تھا۔ ابنِ تیمیہ،  ابنِ القَیِّم، زَمَحْشَری اور آلُوسی رحمہم اللہ نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔  اور ابن جریر نے بھی اگرچہ پہلے قول کو ترجیح دی ہے،  مگر اِس کے ساتھ یہ بات تسلیم کی ہے کہ تین اور زیتون سے مراد ان پھلوں  کی پیداوار  کا علاقہ بھی ہو سکتا ہے۔  حافظ ابنِ کثیر نے بھی اِس تفسیر کو قابل لحاظ سمجھا ہے۔

2: اصل میں  طُوْرِ سِیْنِیْن فرمایا گیا ہے۔  سینین جزیرہ نمائے سینا کا دوسرا نام ہے۔  اِس  کو سَینا یا سِینا بھی کہتے ہیں  اور سینین بھی۔ خود قرآن میں  ایک جگہ طُوْرِ سَیْنَآء  کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔  اب چونکہ وہ علاقہ جس میں  کوہِ طور واقع ہے سینا ہی کے نام سے مشہور ہے اِس لیے ہم نے ترجمہ میں  اِس کا یہی مشہور نام درج کیا ہے۔

3: یہ ہے وہ بات جس پر انجیر و زیتون کے علاقے یعنی شام و فلسطین اور کوہِ طور اور مکّہ کے پُر امن شہر کی قسم کھائی گئی ہے۔  انسان کے بہترین ساخت پر پیدا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اُس کو وہ اعلیٰ درجہ کا جِسم عطا کیا گیا ہے جو کسی دوسری جاندار مخلوق کو نہیں  دیا گیا، اور اُسے فکر و فہم اور علم و عقل وہ بلند پایہ قابلیتیں  بخشی گئی ہیں  جو کسی دوسری مخلوق کو نہیں  بخشی گئیں۔  پھر چونکہ نوعِ انسانی کے اس فضل و کما ل  کا سب سے زیادہ بلند نمونہ انبیاء علیہم السلام ہیں  اور کسی مخلوق کے لیے اس سے اونچا کوئی مرتبہ نہیں  ہو سکتا  کہ اللہ تعالیٰ اُسے منصبِ نبوّت عطا کرنے کے لیے منتخب فرمائے،  اِس لیے انسان کے احسنِ تقویم ہونے کی شہادت میں  اُن مقامات کی قسمیں  کھائی گئی ہیں  جو خدا کے پیغمبروں  سے نسبت رکھتے ہیں۔  شام و فلسطین کا علاقہ وہ علاقہ ہے جہاں  حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک بکثرت انبیاء مبعوث ہوئے۔  کوہِ طور وہ مقام ہے جہاں  حضرت موسیٰ ؑ کو نبوّت عطا کی گئی۔ رہا مکّہ معظمہ تو اس بنا ہی حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کے ہاتھوں  پڑی، انہی کی بدولت وہ عرب کا مقدس ترین مرکزی شہر بنا، حضرت ابراہیم ؑ ہی نے یہ دعا مانگی تھی کہ رَبِّ اجْعَل ھٰذَا بَلَداً اٰمِناً،  ’’اے میرے ربّ،  اِس کو ایک پُر امن شہر بنا‘‘ (البقرہ۔ ۱۲۶)۔ اور اسی دعا کی یہ برکت تھی کہ ربّ نے ہر طرف پھیلی ہوئی بد امنی کے درمیان کے صرف یہی ایک شہر  ڈھائی ہزار سال سے امن کا گہوارہ بنا ہوا تھا۔ پس کلام کا مقصود یہ ہے کہ ہم نے نوعِ انسانی کو ایسی بہترین ساخت پر بنایا کہ اِس میں  نبوت  جیسے عظیم مرتبے  کے حامل انسان  پیدا ہوئے۔

4: مفسرین نے بالعموم اس کے دو معنی بیان کیے ہیں۔  ایک یہ کہ ہم نے اُسے اَرْذَلُ العُمر، یعنی بُڑھاپے کی ایسی حالت کی طرف پھیر دیا جس میں  وہ کچھ سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کے قابل نہ رہا۔  دوسرے یہ کہ ہم نے اُسے جہنّم کے سب سے نیچے درجے کی طرف پھیر دیا۔ لیکن یہ دونوں  معنی اُس مقصودِ کلام کے لیے دلیل نہیں  بن سکتے جسے ثابت کرنے کے لیے یہ سُورۃ نازل ہوئی ہے۔  سُورۃ کا مقصود جزا و سزا کا برحق ہونے پر استدلال کرنا ہے۔  اِس پر نہ یہ بات دلالت کرتی ہے کہ انسانوں  میں  سے بعض لو گ بڑھاپے کی انتہائی کمزور حالت کو پہنچا دیے جاتے ہیں،  اور نہ یہی بات دلالت کرتی ہے کہ انسانوں  کا ایک گروہ جہنّم میں  ڈالا جائے گا۔ پہلی بات اس لیے جزا و سزا کی دلیل نہیں  بن سکتی کہ بُڑھاپے کی حالت اچھے اور بُرے،  دونوں  قسم کے لوگوں  پر طاری ہوتی ہے،  اور کسی کا اِس حالت کو پہنچنا کوئی سزا نہیں  ہے جو اُسے اس کے اعمال پر دی جاتی ہو۔ رہی دوسری بات،  تو وہ آخرت میں  پیش آنے والا معاملہ ہے۔  اُسے اُن لوگوں  کے سامنے دلیل کے طور پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے جنہیں  آخرت ہی کی جزا و سزا   کا قائل کرنے کے لیے یہ سارا استدلال کیا جا رہا ہے ؟ اِس لیے ہمارے نزدیک آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے  کہ بہترین ساخت پر پیدا کیے جانے کے بعد  جب انسان اپنے جسم اور ذہن کی طاقتوں  کو  بُرائی کے راستے میں  استعمال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے بُرائی ہی کو توفیق دیتا ہے اور گِراتے گِراتے اُسے گراوٹ کی اُس انتہا  تک پہنچا دیتا ہے کہ  کوئی مخلوق گِراوٹ میں  اُس حد کو پہنچی ہوئی نہیں  ہوتی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو انسانی معاشرے کے اندر بکثرت مشاہدے میں  آتی ہے۔  حِرص، طمع، خود غرضی، شہوت پرستی،  نشہ بازی، کمینہ پن،  غیض و غضب اور ایسی ہی دوسری خصلتوں  میں  جو لوگ غرق ہو جاتے ہیں  وہ اخلاقی حیثیت سے فی الواقع سب نیچوں  سے نیچ ہو کر رہ جاتے ہیں۔  مثال کے طور پر صرف اِسی ایک بات کو لے لیجیے کہ  ایک قوم جب دوسری قوم کی دشمنی میں   اندھی ہو جاتی ہے تو  کس طرح درندگی میں  تمام درندوں  کو  مات کر دیتی ہے۔  درندہ تو صرف اپنی غذا کے لیے کسی جانور کا شکار کرتا ہے۔  جانوروں  کا قتلِ عام نہیں  کرتا۔ مگر انسان خود اپنے ہی ہم جِنس انسانوں  کا قتلِ عام کرتا ہے۔  درندہ صرف اپنے پنجوں  اور دانتوں  سے کام لیتا ہے۔  مگر یہ احسنِ تقویم پر پیدا ہونے والا انسان اپنی عقل سے کام لے کر تو،  بندوق،  ٹینک، ہوائی جہاز، ایٹم بم،  ہائیڈروجن بم اور دوسرے بے شمار ہتھیار ایجاد کرتا ہے تا کہ آن کی آن میں  پوری پوری بستیوں  کو تباہ کر کے رکھ دے۔  درندہ صرف زخمی یا ہلاک کرتا ہے۔  مگر انسان اپنے ہی جیسے انسانوں  کو اذیّت دینے کے ایسے ایسے دردناک طریقے اختراع کرتا ہے جن کا تصوّر بھی کبھی کسی درندے کے دماغ میں  نہیں  آ سکتا۔ پھر یہ اپنی دشمنی اور انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے کمینہ پن کی اِس انتہا کو  پہنچتا ہے کہ عورتوں  کے ننگے جلوس نکالتا ہے،  ایک ایک عورت کو دس دس بیس بیس آدمی اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں،  باپوں  اور بھائیوں  اور شوہروں  کے سامنے اُن کے گھر کی عورتوں  کی عصمت لوٹتے ہیں، بچوں  کو اُن کے ماں  باپ کے سامنے قتل کرتے ہیں،  ماؤں  کو اپنے بچوں  کا خون پینے پر مجبور کرتے ہیں،  انسانوں  کو زندہ جلاتے اور زندہ دفن کرتے ہیں۔  دنیا میں  وحشی سے وحشی جانوروں  کی بھی کوئی قسم ایسی نہیں  ہے جو انسان کی اس وحشت کا کسی درجہ  میں  بھی مقابلہ کر سکیح ہو۔ یہی حال دوسری بُری صفات کا بھی ہے کہ اُن میں  سے جس کی طرف بھی انسن رخ کرتا ہے،  اپنے آپ کو ارذلُ المخلوقات ثابت کر دیتا ہے۔  حتیٰ کہ مذہب،  جو انسان کے لیے مقدس ترین شے ہے،  اُس کو بھی اِتنا گرا دیتا ہے کہ درختوں  اور جانوروں  اور پتھروں  کو پوجتے پوجتے پستی کی انتہا کو پہنچ کر مرد و عورت کے اعضائے جنسی تک کو پُوج ڈالتا ہے،  اور دیوتاؤں  کی خوشنودی کے لیے عبادت گاہوں  میں  دیو داسیاں  رکھتا ہے جن سے زنا کا ارتکاب کارِ ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے۔  جن ہستیوں  کو وہ دیوتا اور معبود کا درجہ دیتا ہے ان کی طرف اس کی دیومالا میں  ایسے ایسے گندے قصّے منسوب ہوتے ہیں  جو ذلیل ترین انسان کے لیے بھی باعثِ شرم ہیں۔

5: جن مفسّرین نے اَسْفَلَ سَافِلِیْن سے مراد بُڑھاپے کی وہ حالت لی ہے  جس میں  انسان اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے وہ اِس آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں  کہ  ’’مگر جن  لوگوں  نے اپنی جوانی اور تندرستی کی حالت میں  ایمان لا کر نیک اعمال کیے ہوں  اُن کے لیے بُڑھاپے کی اِس حالت میں  بھی وہی نیکیاں  لکھی جائیں  گی اور اُنہی کے مطابق وی اجر پائیں  گے۔  اُن کے اجر میں  اِس بنا پر کوئی کمی نہ کی جائے گی کہ عمر کے اِس  دور میں  اُن سے وہ نیکیاں   صادر نہیں  ہوئیں۔ ‘‘ اور  جو مفسّرین اسفل سافلین کی طرف پھیر ے جانے کا مطلب جہنّم کے ادنیٰ ترین درجہ میں  پھینک دیا جانا لیتے ہیں  ان کے نزدیک اِس آیت کے معنی یہ ہیں  کہ ’’ ایمان لا کر عملِ صالح کرنے والے لوگ اِس سے مستثنیٰ ہیں،  وہ اس درجہ کی طرف نہیں  پھیرے جائیں  گے،  بلکہ اُن کو وہ اجر ملے گا جس  کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو گا۔‘‘ لیکن یہ دونوں  معنی اُس استدلال سے مناسبت نہیں  رکھتے جو جزا و سزا کے برحق ہونے پر اِس سورت میں  کیا گیا ہے۔  ہمارے نزدیک آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس طرح انسانی معاشرے میں  یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ اخلاقی پستی میں  گرنے والے لوگ گِرتے گِرتے سب نیچوں  سے نیچ ہو جاتے ہیں،  اُسی طرح یہ بھی ہر زمانے کا عام مشاہدہ ہے کہ جو لوگ  خدا اور آخرت اور رسالت پر ایمان لائے اور جنہوں  نے اپنی زندگی عملِ صالح کے سانچے میں  ڈھال لی وہ اِس پستی میں  گرنے سے بچ گئے اور اُسی احسنِ تقویم پر قائم رہے جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا تھا، اس لیے وہ اجرِ غیر ممنون کے مستحق ہیں،  یعنی ایسے  اجر کے جو نہ اُن کے استحقاق سے کم دیا جائے گا،  اور نہ اُس کا سلسلہ کبھی منقطع ہو گا۔

6: دوسرا ترجمہ اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’پس(اے انسان) اِس کے بعد کیا چیز تجھے جزا و سزا کو جھُٹلانے پر آمادہ کرتی ہے۔ ‘‘ دونوں  صورتوں  میں  مدّعا ایک ہی رہتا ہے۔  یعنی جب یہ بات عَلانیہ انسانی معاشرے میں  نظر آتی ہے کہ بہترین ساخت پر پیدا کی ہوئی نوعِ انسانی میں  سے ایک گروہ اخلاقی پستی میں  گِرتے گِرتے سب نیچوں  سے نیچ ہو جاتا ہے،  اور دوسرا گروہ ایمان و عملِ صالح اختیار کر کے اِس گِراوٹ سے بچا رہتا ہے اور اُسی حالت  پر قائم رہتا ہے جو بہترین ساخت پر انسان کے لیے پیدا کیے جانے سے مطلوب تھی، تو اِس کے بعد جزا و سزا کو کیسے جھُٹلایا جا سکتا ہے ؟ کیا عقل  یہ کہتی ہے کہ دونوں  قسم کے انسانوں  کا انجام یکساں  ہو؟ کیا انصاف یہی چاہتا ہے کہ نہ اَسْفَلَ السَّافِلین میں  گرنے والوں  کو کوئی سزا دی جائے اور نہ اُس سے بچ کر پاکیزہ زندگی اختیار کرنے والوں  کو کوئی جزا ؟ یہی بات دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں  اِس طرح فرمائی گئی ہے کہ اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَا لْمُجْرِمِیْنَ، مَالَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ۔ ’’ کیا ہم فرمانبرداروں  کو مجرموں  کی طرح کر دیں ؟ تمہیں  کیا ہو گیا  ہے،  تم کیسے حکم لگاتے ہو؟‘‘(القلم، ۳۶-۳۵)۔ اَمْ حِسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَ حُوْا السَّیِّاٰتِ اَنْ تَجْعَلَہُمْ کَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْ ا الصّٰلِحٰتِ سَوَآ ءٌ مَّحْیَا ھُمْ وَمَمَا تُہُمْ، سَآءَ مَا یَحْکُمُوْنَ۔ ’’کیا برائیوں  کا ارتکاب کرنے والوں  نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم  اُنہیں  اُن لوگوں  کی طرح کر دیں  گے جو ایمان لائے اور جنہوں  نے نیک عمل کیے ؟ دونوں  کی زندگی اور موت یکساں  ہو؟ بہت بُرے  حکم ہیں  جو یہ  لوگ لگاتے ہیں ‘‘(الجاثیہ۔ ۲۱)۔

7: یعنی جب دنیا کے چھوٹے چھوٹے حاکموں  سے بھی تم یہ چاہتے ہو اور یہی توقع رکھتے ہو کہ وہ انصاف کر یں،  مجرموں  کو سزا دیں  اور اچھے کام کرنے والوں  کو صلہ و انعام دیں،  تو خدا کے متعلق تمہارا کیا خیا ل ہے ؟ کیا وہ سب حاکموں  سے بڑا حاکم نہیں  ہے ؟ اگر تم اس کو سب سے بڑا حاکم مانتے ہو تو کیا اس کے بارے میں  تمہارا یہ خیال  ہے کہ وہ کوئی انصاف نہ کرے گا؟ کیا اُس سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ بُرے اور بھلے کو  ایک جیسا کر دے گا؟ کیا اس کی دنیا میں  بد ترین افعال کرنے والے اور بہترین کام کرنے والے،  دونوں  مر کر خاک ہو جائیں  گے،  اور کسی کو نہ بد اعمالیوں  کی سزا ملے گی نہ حسنِ عمل کی جزا؟ امام احمد، تِرْمِذی، ابو داؤد، ابن المُنْذِر، بَیْہَقِی، حاکم اور ابن مَرْدُوْیَہ نے حضرت ابو ہریرہ  ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں  سے کوئی سورۂ والتین و الزیتون پڑھے اور اَلَیْسَ اللہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ پر پہنچے تو کہے بَلیٰ وَاَنَا عَلیٰ ذٰلِکَ مِنَ الشَّاھِدِیْنَ (ہاں ،  اور میں  اس پر شہادت دینے والوں  میں  سے ہوں )۔ بعض روایات  میں  آیا ہے کہ حضور ؐ  جب یہ آیت پڑھتے تو فرماتے سُبْحٰنَکَ فَبَلیٰ۔