تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الجُمُعَة

نام

آیت ۹ کے فقرے اِذَا نُوْدِیَ لِصَّلوٰۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ سے ماخوذ ہے۔ اگر چہ اس سورہ میں نماز جمعہ کے احکام بھی بیان کیے گئے ہیں، لیکن ’’جمعہ‘‘ بحیثیت مجموعی اس کے مضامین کا عنوان نہیں، بلکہ دوسری سورتوں کے ناموں کی طرح یہ نام بھی علامت ہی کے طور پر ہے۔ 

زمانۂ نزول

پہلے رکوع کا زمانہ نزول ۷ ھ سے ، اور غالباً یہ فتح خیبر کے موقع پر یا اس کے بعد قریبی زمانے میں نازل ہوا ہے۔ بخاری، مسلم، ترمذی، نَسائی اور ابن جریر نے حضرت ابو ہریرہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ہم حضورؐ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے جب یہ آیات نازل ہوئیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ کے متعلق یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ صلح حُدَیْبیہ کے بعد اور فتح خیبر سے پہلے ایمان لائے تھے۔ اور خیبر کی فتح ابن ہشام کے بقول محرم، اور ابن سعد کے بقول جمادی الاُولیٰ ۷ ھ میں ہوئی ہے۔ پس قرین قیاس یہ ہے کہ یہودیوں کے اس آخری گڈھ کو فتح کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو خطاب کرتے ہوئے یہ آیات نازل فرمائی ہوں گی، یا پھر ان کا نزول اس وقت ہوا ہو گا جب خیبر کا انجام دیکھ کر شمالی حجاز کی تمام یہودی بستیاں اسلامی حکومت کی تابع فرمان بن گئی تھیں۔

دوسرا رکوع ہجرت کے بعد قریبی زمانے ہی میں نازل ہوا ہے۔ کیونکہ حضورؐ نے مدینہ طیبہ پہنچتے ہی پانچویں روز جمعہ قائم کر دیا تھا، اور اس رکوع کی آخری آیت میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ صاف بتا رہا ہے کہ وہ اقامت جمعہ کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد لازماً کسی ایسے زمانے ہی میں پیش آیا ہو گا جب لوگوں کو دینی اجتماعات کے آداب کی پوری تربیت ابھی نہیں ملی تھی۔ 

موضوع اور مضامین

جیسا کہ اوپر ہم بیان کر چکے ہیں، اس سورہ کے دو رکوع دو الگ زمانوں میں نازل ہوئے ہیں۔ اسی لیے دونوں کے موضوع الگ ہیں اور مخاطب بھی الگ۔ اگر چہ ان کے درمیان ایک نوع کی مناسبت ہے جس کی بنا پر انہیں ایک سورہ میں جمع کیا گیا ہے ، لیکن مناسبت سمجھنے سے پہلے ہمیں دونوں کے موضوعات کو الگ الگ سمجھ لینا چاہیے۔

پہلا رکوع اس وقت نازل ہوا جب یہودیوں کی وہ تمام کوششیں ناکام ہو چکی تھیں جو اسلام کی دعوت کا راستہ روکنے کے لیے پچھلے  چھ سال کے دوران میں انہوں نے کی تھیں۔ پہلے مدینہ میں ان کے تین تین طاقتور قبیلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی تک کا زور لگاتے رہے اور نتیجہ یہ دیکھا کہ ایک قبیلہ پوری طرح تباہ ہو گیا اور دو قبیلوں کو جلا وطن ہونا پڑا۔ پھر وہ سازشیں کر کے  عرب کے بہت سے قبائل کو مدینے پر چڑھا لائے ، مگر غزوہ احزاب میں ان سب نے منہ کی کھائی۔ اس کے بعد ان کا سب سے بڑا گڈھ خیبر رہ گیا تھا جہاں مدینہ سے نکلے ہوئے یہودیوں کی بھی بڑی تعداد جمع ہو گئی تھی۔ ان آیات کے نزول کے وقت وہ بھی بغیر کسی غیر معمولی زحمت کے فتح ہو گیا، اور یہودیوں نے خود درخواست کر کے وہاں مسلمانوں کے کاشتکاروں کی حیثیت سے رہنا قبول کر لیا۔ اس آخری شکست کے بعد عرب میں یہودی طاقت کا بالکل خاتمہ ہو گیا۔ وادی القریٰ، فَدَک، تَیما، تبوک، سب ایک ایک کر کے ہتھیار ڈالتے چلے گئے ، یہاں تک کہ عرب کے تمام یہودی اسی اسلام کی رعایا بن کر رہ گئے جس کے وجود کو برداشت کرنا تو درکنار، جس کا نام سننا تک انہیں گوارا نہ تھا۔ یہ موقع تھا جب اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں ایک مرتبہ پھر ان کو خطاب فرمایا، اور غالباً یہ آخری خطاب تھا جو قرآن مجید میں ان سے کیا گیا۔ اس میں انہیں مخاطب کر کے تین باتیں فرمائی گئی ہیں:

۱)۔ تم نے اس رسول کو اس لیے ماننے سے انکار کیا کہ یہ اس قوم میں مبعوث ہوا تھا جسے تم حقارت کے ساتھ ’’ اُمّی ‘‘ کہتے ہو۔ تمہارا زعم باطل یہ تھا کہ رسول لازماً تمہاری اپنی قوم ہی کا ہونا چاہیے۔ تم یہ فیصلہ کیے بیٹھے تھے کہ تمہاری قوم سے باہر کا جو شخص رسالت کا دعویٰ کرے وہ ضرور جھوٹا ہے ، کیونکہ یہ منصب تمہاری نسل کے لیے مختص ہو چکا ہے اور ’’ امیوں‘‘ میں کبھی کوئی رسول نہیں آ سکتا۔ لیکن اللہ نے انہی امیوں میں سے ایک رسول اٹھایا ہے جو تمہاری آنکھوں کے سامنے اس کی کتاب سنا رہا ہے ، نفوس کا تزکیہ کر رہا ہے ، اور ان لوگوں کو ہدایت دے رہا ہے جن کی گمراہی کا حال تم خود جانتے ہو۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے۔ اس کے فضل پر تمہارا اجارہ نہیں ہے کہ جسے تم دلوانا چاہو اسی کو وہ دے اور جسے تم محروم رکھنا چاہو اسے وہ محروم رکھے۔

۲)۔ تم کو تَوراۃ کا حامل بنایا گیا تھا، مگر تم نے اس کی ذمہ داری نہ سمجھی، نہ ادا کی۔ تمہارا حال اس گدھے کا سا ہے جس کی پیٹھ پر  کتابیں لدی ہوئی ہوں اور اسے کچھ نہیں معلوم کہ وہ کس چیز کا بار اٹھائے ہوئے ہے۔ بلکہ تمہاری حالت گدھے سے بھی بد تر ہے۔ وہ تو سمجھ بوجھ نہیں رکھتا، مگر تم سمجھ بوجھ رکھتے ہو اور پھر کتاب اللہ کے حامل ہونے کی ذمہ داری سے فرار ہی نہیں کرتے ، دانستہ اللہ  کی آیات کو جھٹلانے سے بھی باز نہیں رہتے۔ اور اس پر تمہارے نام لکھ دی گئی ہے۔ گویا تمہاری رائے یہ ہے کہ خواہ تم اللہ کے پیغام کا حق ادا کرو یا نہ کرو، بہر حال اللہ اس کا پابند ہے کہ وہ اپنے پیغام کا حامل تمہارے سوا کسی کو نہ بنائے !

۳)۔ تم اگر واقعی اللہ کے چہیتے ہوتے اور تمہیں اگر یقین ہوتا کہ اس کے ہاں تمہارے لیے بڑی عزت اور قدر و منزلت کا مقام محفوظ ہے تو تمہیں موت کا ایسا خوف نہ ہوتا کہ ذلت کی زندگی قبول ہے مگر موت کسی طرح قبول نہیں۔ یہی موت کا خوف ہی تو ہے جس کی بدولت پچھلے چند سالوں میں تم شکست پر شکست کھاتے چلے گئے ہو۔  تمہارا ضمیر خوب جانتا ہے کہ ان کرتوتوں کے ساتھ مرو گے تو اللہ کے ہاں اس سے زیادہ ذلیل و خوار ہو گے جتنے دنیا میں ہو رہے ہو۔

یہ ہے پہلے رکوع کا مضمون۔ اس کے بعد دوسرا رکوع، جو کئی سال پہلے نازل ہوا تھا، اس سورہ میں لا کر اس لیے شامل کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے سَبْت کے مقابلہ میں مسلمانوں کو جمعہ کے ساتھ وہ معاملہ نہ کریں جو یہودیوں نے سبت کے ساتھ کیا تھا۔ یہ رکوع اس وقت نازل ہوا تھا جب مدینے میں ایک روز عین نماز جمعہ کے وقت ایک تجارتی قاجلہ آیا اور اس کے ڈھول تاشوں کی آواز سن کر ۱۲ آدمیوں کے سوا تمام حاضرین مسجد نبوی سے قافلے کی طرف دوڑ گئے ، حالانکہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ اس پر یہ حکم دیا گیا کہ جمعہ کی اذان ہونے کے بعد ہر قسم کی خرید و فروخت اور ہر دوسری مصروفیت حرام ہے۔ اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ اس وقت سب کام جھوڑ چھاڑ کر اللہ کے ذکر کی طرف دوڑیں۔ البتہ جب نماز ختم ہو جائے تو انہیں حق ہے کہ اپنے کاروبار چلانے کے لیے زمین میں پھیل جائیں۔ احکام جمعہ کے بارے میں یہ رکوع ایک مستقل سورۃ بھی بنایا جایا سکتا تھا، اور کسی دوسری سورۃ میں بھی شامل کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ایسا کرنے کے بجائے خاص طور  پر اسے یہاں ان آیات کے ساتھ لا کر  ملا گیا جن میں یہودیوں کو ان کے انجام بد کے اسباب پر متنبہ کیا گیا ہے۔ اس کی حکمت ہمارے نزدیک وہی ہے جو اوپر ہم نے بیان کی ہے۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
اللہ کی تسبیح کر ہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے۔
بادشاہ ہے ، قدوس ہے ، زبر دست اور حکیم ہے (۱)۔
وہی ہے جس نے امیوں (۲)کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا، جو انہیں اس کی آیات سنا تا ہے ان کی زندگی سنوار تا ہے ، اور ان کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے (۳)۔
حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے (۴)۔ اور (اس رسول کی بعثت ) ان دوسرے لوگوں کے لیئے بھی جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں (۵)۔ اللہ زبردست اور حکیم ہے (۶)۔ یہ اس کا فضل ہے ، جسے چاہتا ہے دیتا ہے ، اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔
جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھا یا (۷)، ان کی مثال اس گدھے (۸) کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ اس سے بھی زیادہ بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات جھٹلا دیا ہے (۹)۔ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔ ان سے کہو،" اے لوگوں جو یہودی ن گئے ہو، (۱۰) اگر تمھیں یہ گھمنڈ ہے کہ باقی سب  لوگوں کو چھوڑ کر بس تم ہی اللہ کے چیتے ہو (۱۱) تو موت کو تمنا کرو اگر تم اپنے اس زعم میں سچے ہو (۱۲) "۔
لیکن یہ ہر گز اس کی تمنا نہ کریں گے اپنے کر تو توں کی وجہ سے کو یہ کر چکے ہیں، (۱۳) اور اللہ ان ظلاموں کو خوب جانتا ہے۔ ان سے کہو،" جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تو تمھیں آ کر رہے گی۔ پھر تم اس کے سامنے پیش کیے جاؤ گے جو پوشیدہ و ظاہر کا جاننے والا ہے ، اور تمھیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔ ع

 

۱۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ حدید، حواشی ۱،۲، الحشر، حواشی ۳۶، ۳۷،۴۱۔ آگے کے مضمون سے یہ تمہید بڑی گہری مناسبت رکھتی ہے۔ عرب کے یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات و صفات اور کارناموں میں رسالت کی صریح نشانیاں بہ چشم سر دیکھ لینے کے باوجود، اور اس کے باوجود کہ تَوراۃ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ کے آنے کی صریح بشارت دی تھی جو آپ کے سوا کسی اور پر چسپاں نہیں ہوتی تھی، صرف اس بنا پر آپ کا انکار کر  رہے تھے کہ اپنی قوم اور نسل سے باہر کے کسی شخص کی رسالت مان لینا انہیں سخت ناگوار تھا۔ وہ صاف کہتے تھے کہ جو کچھ ہمارے ہاں آیا ہے ہم صرف اسی کو مانیں گے۔ دوسرے کسی تعلیم کو، جو کسی غیر اسرائیلی نبی کے ذریعہ سے آئے ، خواہ وہ خدا ہی کی طرف سے ہو، تسلیم کرنے کے لیے وہ قطعی تیار نہ تھے۔ آگے کی آیتوں میں اسی رویہ پر انہیں ملامت کی جا رہی ہے ، اس لیے کلام کا آغاز اس تمہیدی فقرے سے کیا گیا ہے۔ اس میں پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کر رہی ہے۔ یعنی یہ پوری کائنات اس بات پر شاہد ہے کہ اللہ ان تمام نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جن کی بنا پر یہودیوں نے اپنی نسلی برتری کا تصور قائم کر رکھا ہے۔ وہ کسی کا رشتہ دار نہیں ہے۔ جانب داری (Favouritism)  کا اس کے ہاں کوئی کام نہیں۔ اپنی ساری مخلوق کے ساتھ اس کا معاملہ یکساں عدل اور رحمت اور ربوبیت کا ہے۔ کوئی خاص نسل اور قوم اس کی چہیتی نہیں ہے کہ وہ خواہ کچھ کرے ، بہر حال اس کی نوازشیں اسی کے لیے مخصوص رہیں، اور کسی دوسری نسل یا قوم سے اس کو عداوت نہیں ہے کہ وہ اپنے اندر خوبیاں بھی رکھتی ہو تو وہ اس کی عنایات سے محروم رہے۔ پھر فرمایا گیا کہ وہ بادشاہ ہے ، یعنی دنیا کی کوئی طاقت اس کے اختیارات کو محدود کرنے والی نہیں ہے۔ تم بندے اور رعیت ہو۔ تمہارا یہ منصب کب سے ہو گیا کہ تم یہ طے کرو کہ وہ تمہاری ہدایت کے لیے اپنا پیغمبر کسے بنائے اور کسے نہ بنائے۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ وہ قدوس ہے۔ یعنی اس سے بدر جہا منزہ اور پاک ہے کہ اس کے فیصلے میں کسی خطا اور غلطی کا امکان ہو۔ غلطی تمہاری سمجھ بوجھ میں ہو سکتی ہے۔ اس کے فیصلے میں نہیں ہو سکتی۔ آخر میں اللہ تعالیٰ کی دو مزید صفتیں بیان فرمائی گئیں۔ ایک یہ کہ وہ زبردست ہے ، یعنی اس سے لڑ کر کوئی جیت نہیں سکتا۔ دوسری یہ کہ وہ حکیم ہے ، یعنی جو کچھ کرتا ہے وہ عین مقتضائے دانش ہوتا ہے ، اور اس کی تدبیریں ایسی محکم ہوتی ہیں کہ دنیا میں کوئی ان کا توڑ نہیں کر سکتا۔

۲۔ یہاں امی کا لفظ یہودی اصطلاح کے طور پر آیا ہے ، اور اس میں ایک لطیف طنز پوشیدہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن کو یہودی حقارت کے ساتھ امی کہتے اور اپنے مقابلہ میں ذلیل سمجھتے ہیں، انہیں میں اللہ غالب و دانا نے ایک رسول اٹھایا ہے۔ وہ خود نہیں اٹھ کھڑا ہوا ہے بلکہ اس کا اٹھانے والا وہ ہے جو کائنات کا بادشاہ ہے ، زبردست اور حکیم ہے ، جس کی قوت سے لڑ کر یہ لوگ اپنا ہی کچھ بگاڑیں گے ، اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن مجید میں ’’اُمی‘‘ کا لفظ متعدد مقامات پر آیا ہے اور سب جگہ اس کے معنی ایک ہی نہیں ہیں بلکہ مختلف مواقع پر وہ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ کہیں وہ اہل کتاب کے مقابلہ میں ان لوگوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جن کے پاس کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے جس کی پیروی وہ کرتے ہوں۔ مثلاً فرمایا : قَلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُواالْکِتٰبَ وَا لْاُمِّیِّنَءَ اَسْلَمْتُمْ (آل عمران۔ ۲۰)۔ ’’ اہل کتاب اور امیوں سے پوچھو کیا تم نے اسلام قبول کیا؟’’ یہاں امیوں سے مراد مشرکین عرب ہیں، اور ان کو اہل کتاب، یعنی یہود و نصاریٰ سے الگ ایک گروہ قرار دیا گیا ہے۔ کسی جگہ یہ لفظ خود اہل کتاب کے اَن پڑھ اور کتاب اللہ سے نا واقف لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جیسے فرمایا : وَمِنْہُمْ اُمِّیُّوْنَ الْکِتٰبَ اِلَّا اَمَا نِیَّ (البقرہ۔ ۷۸)۔’’ اِن یہودیوں میں کچھ لوگ امی ہیں، کتاب کا کوئی علم نہیں رکھتے ، بس اپنی آرزوؤں ہی کو جانتے ہیں ‘‘۔ اور کسی جگہ یہ لفظ خالص یہودی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے جس سے مراد دنیا کے تمام غیر یہودی ہیں۔ مثلاً فرمایا: ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْ ا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ  (آل عمران۔ ۷۵ )۔ یعنی ’’ ان کے اندر یہ بد دیانتی پیدا ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں امیوں کا مال مار کھانے میں ہم پر کوئی گرفت نہیں ہے ’’۔ یہی تیسرے معنی ہیں جو آیت زیر بحث میں مراد لیے گئے ہیں۔ یہ لفظ عبرانی زبان کے لفظ گوئیم کا ہم معنی ہے ، جس کا ترجمہ انگریزی بائیبل میں Gentiles کیا گیا ہے ، اور اس سے مراد تمام غیر یہودی یا غیر اسرائیلی لوگ ہیں۔

لیکن اس یہودی اصطلاح کی اصل معنویت محض اس کی اس تشریح سے سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ در اصل عبرانی زبان کا لفظ گوئیم ابتداءً محض اقوام کے معنی میں بولا جاتا تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہودیوں نے اسے پہلے تو اپنے سوا دوسری قوموں کے لیے مخصوص کر دیا، پھر اس کے اندر یہ معنی پیدا کر دیے کہ یہودیوں کے سوا باقی تمام اقوام نا شائستہ، بد مذہب، ناپاک اور ذلیل ہیں، حتیٰ کہ حقارت اور نفرت میں یہ لفظ یونانیوں کی اصطلاح Barbarian  سے بھی بازی لے گیا جسے وہ تمام غیر یونانیوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ربیوں کے لٹریچر میں گوئیم اس قدر قابل نفرت لوگ ہیں کہ ان کو انسانی بھائی نہیں سمجھا جا سکتا، ان کے ساتھ سفر نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ان میں سے کوئی شخص ڈوب رہا ہو تو اسے بچانے کی کوشش بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ آنے والا مسیح تمام گوئیم کو ہلاک کر دے گا اور جلا کر خاکستر کر ڈالے گا (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، آل عمران، حاشیہ ۶۴ )۔

۳۔ قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ صفات چار مقامات پر بیان کی گئی ہیں، اور ہر جگہ ان کے بیان کی غرض مختلف ہے۔ البقرہ آیت ۱۲۹ میں ان کا ذکر اہل عرب کو یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ آنحضورؐ  کی بعثت، جسے وہ اپنے لیے زحمت و مصیبت سمجھ رہے تھے ، در حقیقت ایک بڑی نعمت ہے جس کے لیے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام اپنی اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگا کر تے تھے۔ البقرہ آیت ۱۵۱ میں انہیں اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان حضورؐ کی قدر پہچانیں اور اس نعمت سے پورا پورا فیض حاصل کریں جو حضورؐ کی بعثت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہے۔ آل عمران آیت ۱۶۴ میں منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کو یہ احساس دلانے کے لیے ان کا اعادہ کیا گیا ہے کہ وہ کتنا بڑا احسان ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان اپنا رسول بھیج کر کیا ہے اور یہ لوگ کتنے نادان ہیں کہ اس کی قدر نہیں کرتے۔ اب چوتھی مرتبہ انہیں اس سورہ میں دہرایا گیا ہے جس سے مقصود یہودیوں کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم تمہاری آنکھوں کے سامنے جو کام کر رہے ہیں وہ صریحاً ایک رسول کا کام ہے۔ وہ اللہ کی آیات سنا رہے ہیں جن کی زبان، مضامین، انداز بیان، ہر چیز اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ فی الواقع وہ اللہ ہی کی آیات ہیں۔ وہ لوگوں کی زندگیاں سنوار رہے ہیں، ان کے اخلاق اور عادات اور معاملات کو ہر طرح کی گندگیوں سے پاک کر رہے ہیں، اور ان کو اعلیٰ درجے کو اعلیٰ درجے کے اخلاقی فضائل سے آراستہ کر رہے ہیں۔ یہ وہی کام ہے جو اس سے پہلے تمام انبیاء کرتے رہے ہیں۔ پھر وہ صرف آیات ہی سنانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ہر وقت اپنے قول اور عمل سے اور اپنی زندگی کے نمونے سے لوگوں کو کتاب الٰہی منشا سمجھا رہے ہیں اور ان کو اس حکمت و دانائی کی تعلیم دے رہے ہیں جو انبیاء کے سوا آج تک کسی نے نہیں دی ہے۔ یہی سیرت اور کردار اور کام ہی تو انبیاء کا وہ نمایاں وصف ہے جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔ پھر یہ کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ جس کا رسول بر حق ہونا اس کے کارناموں سے علانیہ ثابت ہو رہا ہے اس کو ماننے سے تم نے صرف اس لیے انکار کر دیا کہ اللہ نے اسے تمہاری قوم کے بجائے اس قوم میں سے اٹھایا جسے تم امی کہتے ہو۔‘‘

۴۔ یہ حضورؐ کی رسالت کا ایک  اور ثبوت ہے جو یہودیوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ یہ لوگ صدیوں سے عرب کی سر زمین میں آباد تھے اور اہل عرب کی مذہبی، اخلاقی، معاشرتی، اور تمدنی زندگی کا کوئی گوشہ ان سے چھپا ہوا نہ تھا۔ ان کی اس سابق حالت کی طرف اشارہ کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ چند سال کے اندر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت و رہنمائی میں اس قوم کی جیسی کایا پلٹ گئی ہے اس کے تم عینی شاہد ہو۔ تمہارے سامنے وہ حالت بھی ہے جس میں یہ لوگ اسلام قبول کرنے سے پہلے مبتلا تھے۔ وہ حالت بھی ہے جو اسلام لانے کے بعد ان کی ہو گئی، اور اسی قوم کے ان لوگوں کی حالت بھی تم دیکھ رہے ہو جنہوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا ہے۔ کیا یہ کھلا کھلا فرق، جسے ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے ، تمہیں یہ یقین دلانے کے لیے کافی نہیں ہے کہ یہ ایک نبی کے سوا کسی کا کارنامہ نہیں ہو سکتا؟ بلکہ اس کے سامنے تو پچھلے انبیاء تک کے کارنامے ماند پڑ گئے ہیں۔

۵۔ یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت صرف عرب قوم تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کی ان دوسری قوموں اور نسلوں کے لیے بھی ہے جو ابھی آ کر اہل ایمان میں شامل نہیں ہوئی ہیں مگر آگے قیامت تک آنے والی ہیں۔ اصل الفاظ ہیں وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ۔ ’’ دوسرے لوگ ان میں سے جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں ‘‘  اس میں لفظ منہم (ان میں سے ) کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ دوسرے لوگ امیوں میں سے ، یعنی دنیا کی غیر اسرائیلی قوموں میں سے ہوں گے۔ دوسرے یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ماننے والے ہوں گے جو ابھی اہل ایمان میں شامل نہیں ہوئے ہیں مگر بعد میں آ کر شامل ہو جائیں گے۔ اس طرح یہ آیت منجملہ ان آیات کے  ہے جن میں تصریح کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت تمام نوع انسانی کی طرف ہے اور ابد تک کے لیے ہے۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات جہاں  اس مضمون کی صراحت کی گئی ہے ، حسب ذیل ہیں: الانعام، آیت ۱۹۔ الاعراف، ۱۵۸۔ الانبیاء، ۱۰۷۔ الفرقان، ۱۔ سبا، ۲۸ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ سبا، حاشیہ ۴۷)۔

۶۔ یعنی یہ اسی کی قدرت و حکمت کا کرشمہ ہے کہ ایسی نا تراشیدہ امی قوم میں اس نے ایسا عظیم نبی بیدا کیا جس کی تعلیم و ہدایت اس درجہ انقلاب انگیز ہے ، اور پھر ایسے عالمگیر ابدی اصولوں کی حامل ہے جن پر تمام نوع انسانی مل کر ایک امت بن سکتی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ ان اصولوں سے رہنمائی حاصل کر سکتی ہے۔ کوئی بناؤٹی انسان خواہ کتنی ہی کوشش کر لیتا، یہ مقام و مرتبہ کبھی حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ عرب جیسی پسماندہ قوم تو درکنار، دنیا کی کسی بڑی سے بڑی قوم کا کوئی ذہین سے ذہین  آدمی بھی اس پر قادر نہیں ہو سکتا کہ ایک قوم کی اس طرح مکمل طور پر کایا پلٹ دے ، اور پھر ایسے جامع اصول دنیا کودے دے جن پر ساری نوع انسانی ایک امت بن کر ایک دین اور ایک تہذیب کا عالمگیر و ہمہ گیر نظام ابد تک چلانے کے قابل ہو جائے۔ یہ ایک معجزہ ہے جو اللہ کی قدرت سے رونما ہوا ہے ، اور اللہ ہی نے اپنی حکمت کی بنا پر جس شخص، جس ملک، اور جس قوم کو چاہا ہے اس کے لیے انتخاب کیا ہے۔ اس پر اگر کسی بے وقوف کا دل دکھتا ہے تو دکھتا رہے۔

۷۔ اس فقرے کے دو معنی ہیں۔ ایک عام اور دوسرا خاص۔ عام معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں پر توراۃ کے علم و علم، اور اس کے مطابق دنیا کی ہدایت کا بار رکھا گیا تھا، مگر نہ انہوں نے اپنی اس ذمہ داری کو سمجھا اور نہ اس کا حق ادا کیا۔ خاص معنی یہ ہیں کہ حامل توراۃ گروہ ہونے کی حیثیت سے جن کا کام یہ تھا کہ سب سے پہلے آگے بڑھ کر اس رسول کا ساتھ دیتے جس کے آنے کی صاف صاف بشارت توراۃ میں دی گئی تھی، مگر انہوں نے سب سے بڑھ کر اس کی مخالف کی اور توراۃ کی تعلیم کے تقاضے کو پورا نہ کیا۔

۸۔ یعنی جس طرح گدھے پر کتابیں لدی ہوں اور وہ نہیں جانتا کہ اس کی پیٹھ پر کیا ہے ، اسی طرح یہ توراۃ کو اپنے اوپر لادے ہوئے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ کتاب کس لیے آئی ہے اور ان سے کیا چاہتی ہے۔

۹۔ یعنی ان کا حال گدھے سے بھی بد تر ہے۔ وہ تو سمجھ بوجھ نہیں رکھتا اس لیے مغرور ہے۔ مگر یہ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ توراۃ کو پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ اس کے معنی سے ناواقف نہیں ہیں۔ پھر  بھی یہ اس کی ہدایات سے دانستہ انحراف کر رہے ہیں، اور اس نبی کو ماننے سے قصداً  انکار  کر رہے ہیں جو توراۃ کی رو سے سراسر حق پر ہے۔ یہ نا فہمی کے قصور وار نہیں ہیں بلکہ جان بوجھ کر اللہ کی آیات کو جھٹلانے کے مجرم ہیں۔

۱۰۔ یہ نکتہ قابل توجہ ہے۔’’ اَے یہودیو‘‘ نہیں کہا ہے بلکہ ’’اَے وہ لوگو جو یہودی بن گئے ہو ’’ یا ’’ جنہوں نے یہودیت اختیار کر لی ہے ‘‘ فرمایا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل دین جو موسیٰ علیہ السلام اور ان سے پہلے اور بعد کے انبیاء لائے تھے وہ تو اسلام ہی تھا۔ ان انبیاء میں سے کوئی بھی یہودی نہ تھا، اور نہ ان کے زمانے میں یہودیت پیدا ہوئی تھی۔ یہ مذہب اس نام کے ساتھ بہت بعد کی پیداوار ہے۔ یہ اس خاندان کی طرف منسوب ہے جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے چوتھے بیٹے یہوداہ کی نسل سے تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد جب سلطنت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی تو یہ خاندان اس ریاست کا مالک ہوا جو یہود یہ  کے نام سے موسوم ہوئی، اور بنی اسرائیل کے دوسرے قبیلوں نے اپنی الگ ریاست قائم کر لی جو سامِریہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ پھر اسیریا نے نہ صرف یہوداہ، اور اس کے ساتھ بن یامین کی نسل باقی رہ گئی جس پر یہوداہ کی نسل کے غلبے کی وجہ سے ’’ یہود‘‘ ہی کے لفظ کا اطلاق ہونے لگا۔ اس نسل کے اندر کاہنوں اور ربیوں اور احبار نے اپنے  اپنے خیالات و نظریات اور رجحانات کے مطابق عقائد اور رسوم اور مذہبی ضوابط کا جو ڈھانچہ صد ہا برس میں تیار کیا اس کا نام یہودیت ہے۔ یہ ڈھانچا چوتھی صدی قبل مسیح سے بننا شروع ہوا اور پانچویں صدی عیسوی تک بنتا رہا۔ اللہ کے رسولوں کی لائی ہوئی ربانی ہدایت کا بہت تھوڑا ہی عنصر اس میں شامل ہے۔ اور اس کا حلیہ بھی اچھا خاصا بگڑ چکا ہے۔ اسی بنا پر قرآن مجید میں اکثر مقامات پر ان کو الَّذِیْنَ ھَادُوْ ا کہہ کر خطاب کیا گیا ہے ، یعنی ’’ اے وہ لوگو جو یہودی بن کر رہ گئے ہو ‘‘۔ ان میں سب کے سب اسرائیل ہی نہ تھے ، بلکہ وہ غیر اسرائیلی بھی تھے جنہوں نے یہودیت قبول کر لی تھی۔ قرآن میں جہاں بنی اسرائیل کو خطاب کیا گیا ہے  وہاں ’’اے نبی اسرائیل ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اور جہاں مذہب یہود کے پیروؤں کو خطاب کیا گیا ہے وہاں ’’ اے بنی اسرائیل ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اور جہاں مذہب یہود کے پیروؤں کو خطاب کیا گیا ہے وہاں اَلَّذِیْنَ ھَادُوْا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

۱۱۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ان کے اس دعوے کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ یہودیوں کے سوا کوئی جنت میں داخل نہ ہو گا (البقرہ۔۱۱۱) ہمیں دوزخ کی آگ ہر گز نہ چھوئے گی، اگر ہم کو سزا ملے گی بھی تو بس چند روز (البقرہ۔ ۸۰، آل عمران۔ ۲۴)۔ ہم اللہ کے بیٹے  اور اس کے چہیتے ہیں(المائدہ۔۱۸ ) ایسے ہی کچھ دعوے خود یہودیوں کی اپنی کتابوں میں بھی ملتے ہیں۔ کم از کم یہ بات تو ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو خدا کی بر گزیدہ مخلوق  (Chosen People) کہتے ہیں اور اس زعم میں مبتلا ہیں کہ خدا کا ان کے ساتھ ایک خاص رشتہ ہے جو کسی دوسرے انسانی گروہ سے نہیں ہے۔

۱۲۔ یہ بات قرآن مجید میں دوسری مرتبہ یہودیوں کو خطاب کر کے کہی گئی ہے۔ پہلے سورہ بقرہ میں فرمایا گیا تھا ’’ ان سے کہو، اگر آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے اللہ کے ہاں مخصوص ہے تو پھر تم موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو۔ لیکن یہ ہر گز اس کی تمنا نہ کریں گے اپنے اُن کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کر چکے ہیں، اور اللہ ظالموں کو خو جانتا ہے۔ بلکہ تم تمام انسانوں سے بڑھ کر، حتیٰ کہ مشرکین سے بھی بڑھ کر ان کو کسی نہ کسی طرح جینے کا حریص پاؤ گے۔ ان میں سے کوئی یہ چاہتا ہے کہ ہزار برس جیے ، حالانکہ وہ لمبی عمر پائے تب بھی اسے یہ چیز عذاب سے نہیں بچا سکتی۔ ان کے سارے کرتوت اللہ کی نظر میں ہیں‘‘ (آیات ۹۴۔۹۶) اب اسی بات کو پھر یہاں دہرایا گیا ہے۔ لیکن یہ محض تکرار نہیں ہے۔ سورہ بقرہ والی آیات میں یہ ات اس وقت کہی گئی تھی جب یہودیوں سے مسلمانوں کی کوئی جنگ نہ ہوئی تھی۔ اور اس سورۃ میں اس کا اعادہ اس وقت کیا گیا ہے جن ان کے ساتھ متعدد معرکے پیش آنے کے بعد عرب میں آخری اور قطعی طور پر ان کا زور توڑ دیا گیا۔ ان معرکوں نے ، اور ان کے اس انجام نے وہ بات تجربے اور مشاہدے سے ثابت کر دی جو پہلے سورہ بقرہ میں کہی گئی تھی۔ مدینے اور خیبر میں یہودی طاقت بلحاظ تعداد مسلمانوں سے کسی طرح کم نہ تھی، اور بلحاظ وسائل ان سے بہت زیادہ تھی۔ پھر عرب کے مشرکین اور مدینے کے منافقین بھی ان کی پشت پر تھے اور یہودیوں کو مغلوب کیا وہ یہ تھی کہ مسلمان راہ خدا میں مرنے سے خائف تو درکنار، تہ دل سے اس کے مشتاق تھے اور سر ہتھیلی پر لیے ہوئے میدان جنگ میں اترتے تھے۔ کیونکہ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ وہ خدا کی راہ میں لڑ رہے ہیں، اور وہ اس بات پر بھی کامل یقین رکھتے تھے کہ اس راہ میں شہید ہونے والے کے لیے جنت ہے۔ اس کے بر عکس یہودیوں کا حال یہ تھا کہ وہ کسی راہ میں بھی جان دینے کے لیے تیار نہ تھے ، نہ خدا کی راہ میں، نہ قوم کی راہ میں، نہ خود اپنی جان اور مال اور عزت  کی راہ میں۔ انہیں صرف زندگی درکار تھی، خواہ وہ کیسی ہی زندگی ہو۔ اسی چیز نے ان کو بزدل بنا دیا تھا۔

۱۳۔ بالفاظ دیگر ان کا موت سے یہ فرار بے سبب نہیں ہے۔ وہ زبان سے خواہ کیسے ہی لمبے چوڑے دعوے کریں، مگر ان کے ضمیر خوب جاتے ہیں کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ان کا معاملہ کیا ہے ، اور آخرت میں ان حرکتوں کے کیا نتائج نکلے کی توقع کی جا سکتی ہے جو وہ دنیا میں کر رہے ہیں۔ اسی لیے ان کا نفس خدا کی عدالت کا سامنا کرنے سے جی چراتا ہے۔

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکار جائے نماز کے لیئے جمعہ کے دن (۱۴) تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو (۱۵)، یہ تمہارے لیئے زیادہ بہتر ہے اگر تم  جانو۔ پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ  اور اللہ کا فضل تلاش کرو (۱۶)۔ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو (۱۷)۔ شاید کہ تمھیں فلاح نصیب (۱۸) ہو جائے۔ اور جب  انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمھیں کھڑا دیا (۱۹)۔ ان سے کہو، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے (۲۰) اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے (۲۱)۔ع

 

۱۴۔ اس فقرے میں تین باتیں خاص طور پر توجہ طلب ہیں۔ایک یہ کہ اس میں نماز کے لیے منادی کرنے کا ذکر ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی ایسی نماز کی منادی کا ذکر ہے جو خاص طور پر صرف جمعہ کے دن ہی پڑھی جانی چاہیے۔ تیسرے یہ کہ ان دونوں چیزوں کا ذکر اس طرح نہیں کیا گیا ہے کہ تم نماز کے لیے منادی کرو،اور جمعہ کے روز ایک خاص نماز پڑھا کرو، بلکہ انداز بیان اور سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے کہ نماز کی منادی سن کر نماز کے لیے دوڑنے میں تساہُل برتتے تھے اور خرید و فروخت کرنے میں لگے رہتے تھے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت صرف اس غرض کے لیے نازل فرمائی کہ لوگ اس منادی اور اس خاص نماز کی اہمیت محسوس کریں اور فرض جان کر اس کی طرف دوڑیں۔ ان تینوں باتوں  پر اگر غور کیا جائے تو ان سے یہ اصولی حقیقت قطعی طور پر ثابت  ہو جاتی ہے اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کچھ ایسے احکام بھی دیتا تھا جو قرآن میں نازل ہوئے ، اور وہ احکام بھی اسی طرح واجب الاطاعت تھے جس طرح قرآن میں نازل ہونے والے احکام۔ نماز کی منادی وہی اذان ہے جو آج ساری دنیا میں ہر روز پانچ وقت ہر مسجد میں دی جا رہی ہے۔مگر قرآن میں کسی جگہ نہ اس کے الفاظ بیان کیے گئے ہیں، نہ کہیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ نماز کے لیے لوگوں کو اس طرح پکارا کرو۔ یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مقرر کردہ ہے۔ قرآن میں دو جگہ صرف اس کی توثیق کی گئی ہے ، ایک اس آیت میں، دوسرے سورہ مائدہ کی آیت ۸۵ میں۔ اسی طرح جمعہ کی یہ خاص نماز جو آج ساری دنیا کے مسلمان ادا کر رہے ہیں، اس کا بھی قرآن میں نہ حکم دیا گیا ہے نہ وقت اور طریق ادا بتایا گیا ہے۔ یہ طریقہ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا جاری کردہ ہے ، اور قرآن کی یہ آیت صرف اس کی اہمیت اور اس کے وجوب کی شدت بیان کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے۔ اس صریح دلیل کے باوجود جو شخص یہ کہتا ہے کہ شرعی احکام صرف وہی ہیں جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں، وہ در اصل سنت کا نہیں، خود قرآن کا منکر ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے جمعہ کے بارے میں چند امور اور بھی جان لینے چاہییں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمعہ دراصل ایک اسلامی اصطلاح ہے ، زمانہ جاہلیت میں اہل عرب اسے یوم عَرُوْبَہ کہا کرتے تھے۔ اسلام میں جب اس کو مسلمانوں کے اجتماع کا دن قرار دیا گیا تو اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ اگر چہ مؤرخین کہتے ہیں کہ کعب بن لُؤَیّ، یا قُصَیّ بن کِلاب نے بھی اس دن کے لیے یہ نام استعمال کیا تھا، کیونکہ اس روز وہ قریش کے لوگوں کا اجتماع کیا کرتا تھا (فتح الباری)، لیکن اس کے اس فعل سے قدیم نام تبدیل نہیں ہوا، بلکہ عام اہل عرب اسے عروبہ ہی کہتے تھے۔ نام حقیقی تبدیلی اس وقت ہوئی جب اسلام میں اس دن کا یہ نیا نام رکھا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔ اسلام سے پہلے  ہفتہ کا دن عبادت کے لیے مخصوص کرنے اور اس کو شعار ملت قرار دینے کا طریقہ اہل کتاب میں موجود تھا۔ یہودیوں کے ہاں اس غرض کے لیے سَبْت (ہفتہ) کا دن مقرر کیا گیا تھا، کیونکہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی نجات دی تھی۔ عیسائیوں نے اپنے آپ کو یہودیوں سے ممیز کرنے کے لیے اپنا شعار ملت اتوار کا دن قرار دیا۔ اگر چہ اس کا کوئی حکم نہ حضرت عیسیٰ نے دیا تھا، نہ انجیل میں کہیں اس کا ذکر آیا ہے ، لیکن عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ صلیب پر جان دینے کے بعد حضرت عیسیٰ اِسی روز قبر سے نکل کر آسمان کی طرف گئے تھے۔ اسی بنا پر بعد کے عیسائیوں نے اپنی عبادت کا دن قرار دے لیا اور پھر ۳۲۱ ء میں رومی سلطنت نے ایک حکم کے ذریعہ سے اس کو عام تعطیل کا دن مقرر کر دیا۔ اسلام نے ان دونوں ملتوں سے اپنی ملت کو ممیز کرنے کے لیے یہ دونوں دن چھوڑ کر جمعہ کو اجتماعی عبادت کے لیے اختیار کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت ابو مسعود انصاری کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کی فرضیت کا حکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ہجرت سے کچھ مدت پہلے مکہ معظمہ ہی میں نازل ہو چکا تھا۔ لیکن اس وقت آپ اس پر عمل نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ مکہ میں کوئی اجتماعی عبادت ادا کرنا ممکن نہ تھا۔ اس لیے آپؐ ے ان لوگوں کو جو آپؐ سے پہلے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچ چکے تھے ، یہ حکم لکھ بھیجا کہ وہاں جمعہ قائم کریں۔ چنانچہ ابتدائی مہاجرین کے سردار حضرت مُصعب بن عُمیر نے ۱۲ آدمیوں کے ساتھ مدینے میں پلا جمعہ پڑھا ( طبرانی۔ دارقطنی)۔ حضرت کعب بن مالک اور ابن سیرین کی روایت یہ ہے کہ اس سے بھی پہلے مدینہ کے انصار نے بطور خود (قبل اس کے کہ حضورؐ کا حُکم ان کو پہنچا ہوتا ) آپس میں یہ طے کیا تھا کہ ہفتہ میں ایک دن مل کر اجتماعی عبادت کریں گے۔ اس غرض کے لیے انہوں نے یہودیوں کے سبت اور عیسائیوں کے اتوار کو چھوڑ کر جمعہ کا دن انتخاب کیا اور پہلا جمعہ حضرت اسعد بن زُرارہ  نے بنی بَیاضہ کے علاقہ میں پڑھا جس میں ۴۰ آدمی شریک ہوئے (مسند احمد،ابوداؤد،ابن ماجہ، ابن حِبان، عبد بن حُمید، عبدالرزاق، بیہقی)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے اسلامی ذوق خود اس وقت یہ مطالبہ کر رہا تھا کہ ایسا ایک دن ہونا چاہیے جس میں زیادہ سے زیادہ مسلمان جمع ہو کر اجتماعی عبادت کریں، اور یہ بھی اسلامی ذوق ہی کا تقاضا تھا کہ وہ دن ہفتے اور اتوار سے الگ ہو تاکہ مسلمانوں کا شعار ملت یہود و نصاریٰ کے شعارِ ملت سے الگ رہے۔ یہ صحابہ کرامؓ کی اسلامی ذہنیت کا ایک عجیب کرشمہ ہے کہ بسا اوقات ایک حکم آنے سے پہلے ہی ان کا ذوق کہہ دیتا تھا کہ اسلام کی روح فلاں چیز کا تقاضا کر رہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہجرت کے بعد جو اولین کام کیے ان میں سے ایک جمعہ کی اقامت بھی تھی۔ مکہ معظمہ سے ہجرت کر کے آپ پیر کے روز قُبا پہنچے ، چارد وہاں قیام فرمایا، پانچویں روز جمعہ کے سن وہاں سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ، راستہ میں بنی سالم بن عوف کے مقام پر تھے کہ نماز جمعہ کا وقت آگیا، اسی جگہ آپؐ نے پہلا جمعہ ادا فرمایا (ابن ہشام)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نماز کے لی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے زوال کے بعد کا وقت مقرر فرمایا تھا، یعنی وہی وقت جو ظہر کی نماز کا وقت ہے۔ ہجرت سے پہلے حضرت مصعب بن عمیر کو جو تحریری حکم آپ نے بھیجا تھا اس میں آپؐ کا ارشاد یہ تھا کہ : فاذامال النھار عن شطرہ عندالزوال من یوم الجمعۃ فتقربوا الی اللہ تعالیٰ برکعتین (دارقُطنی)۔ ’’ جب جمعہ کے روز دن نصف النہار سے ڈھل جائے تو دو رکعت نماز کے ذریعہ سے اللہ کے حضور تقرب حاصل کرو ‘‘۔ یہ حکم ہجرت کے بعد آپ نے قولاً بھی دیا اور عملاً بھی اسی وقت پر آپ جمعہ کی نماز پڑھاتے رہے۔ حضرت اَنَسؓ، حضرت سلمہؓ بن اکوع، حضرت جابرؓ بن عبداللہ، حضرت زبیر بن لعوام، حضرت سہلؓ بن سعد، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت عمار بن یا سر اور حضرت بلالؓ سے اس مضمون کی روایات کتب حدیث میں منقول ہوئی ہیں کہ حضورؐ جمعہ نماز زوال کے بعد ادا فرمایا کرتے تھے (مسند احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، نَسائی، تِرمذی )۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ امر بھی آپ کے عمل سے ثابت ہے کہ اس روز آپ ظہر کی نماز کے بجائے جمعہ کی نماز پڑھاتے تھے ، اس نماز کی صرف دو رکعتیں ہوتی تھیں، اور اس سے پہلے آپ خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ یہ فرق جمعہ کی نماز اور عام دنوں کی نماز ظہر میں تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں صلوٰۃ المسافر رکعتان، وصلوٰۃ الفجر رکعتان، و صلوٰۃ الجمعۃ رکعتان، تمام غیر قصرٍ علیٰ لسان نبیکم صلی اللہ علیہ و سلم و انما قصرت الجمعۃ لا جل الخطبۃ (احکام القرآن للجصاص)۔ ’’ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے  نکلے ہوئے حکم کی رو سے مسافر کی نماز دو رکعت ہے ، فجر کی نماز دو رکعت ہے ، اور جمعہ کی نماز دو رکعت ہے۔ یہ پوری نماز ہے ، قصر نہیں ہے۔ اور جمعہ کو خطبہ کی خاطر ہی مختصر کیا گیا ہے ‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس اذان کا یہاں ذکر ہے اس سے مراد وہ اذان ہے جو خطبہ سے پہلے دی جاتی ہے ، نہ کہ وہ اذان جو خطہ سے کافی دیر پہلے لوگوں کو یہ اطلاع دینے لیے دی جاتی ہے کہ جمعہ کا وقت شروع ہو چکا ہے۔ حدیث میں حضرت سائبؓ بن یزید کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں صرف ایک ہی اذان ہوتی تھے ، اور وہ امام کے منبر پر پیٹھنے کے بعد دی جاتی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں بھی یہی عمل ہوتا رہا۔ پھر حضرت عثمانؓ کے دور میں جب آبادی بڑھ گئی تو انہوں نے پہلے ایک اور اذان دلوانی شروع کر دی جو مدینے کے بازار میں ان کے مکان زَوراء پر دی جاتی تھی (بخاری، ابو داؤد، نَسائی، طبرانی)۔

۱۵۔ اس حکم میں ذکر سے مراد خطبہ ہے ، کیونکہ اذان کے بعد پہلا عمل جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کرتے تھے وہ نماز نہیں بلکہ خطبہ تھا، اور نماز آپ ہمیشہ خطبہ کے بعد ادا فرماتے تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول الہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جمعہ کے روز ملائکہ ہر آنے والے کا نام اس کی آمد کی ترتیب کے ساتھ لکھتے جاتے ہیں۔ پھر : اذا خرج الامام حضرت الملٰئکۃ یستمعون الذکر۔ جب امام خطبہ دینے کے لیے نکلتا ہے تو وہ نام لکھنے بند کر دیتے ہیں اور ذکر (یعنی خطبہ) سننے میں لگ جاتے ہیں ‘‘(مسند احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی )۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہو کہ ذکر سے مراد خطبہ ہے۔ خود قرآن کا بیان بھی اسی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ پہلے فرمایا : فَاسْعَوْا اِلیٰ ذِکْرِ اللہِ۔ ’’ خدا کے ذکر کی طرف دوڑو ‘‘۔ پھر آگے چل کر فرمایا : فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلوٰۃُ فَانْتَشِرُوْ ا فِی الْارْضِ‘‘۔ جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ ‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے روز عمل کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے ذکر اللہ اور پھر نماز مفسرین کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ ذکر سے مراد یا تو خطبہ ہے یا پھر خطبہ اور نماز دونوں۔

خطبہ کے لیے ’’ ذکر اللہ‘‘ کا لفظ استعمال کرنا خود یہ معنی رکھتا ہے کہ اس میں وہ مضامین ہونے چاہییں جو اللہ کی یاد سے مناسبت رکھتے ہوں۔ مثلاً اللہ کی حمد و ثنا، اس کے رسولؐ پر درود صلوۃ، اس کے احکام اور اس کی شریعت کے مطابق عمل کی تعلیم و تلقین، اس ے ڈرنے والے بیک بندوں کی تعریف وغیرہ، اسی بنا پر زمخشری نے کشاف میں لکھا ہے کہ خطبہ میں ظالم حکم رانوں کی مدح و ثنا یا ان کا نام لینا اور ان کے لیے دعا کرنا، ذکر اللہ سے کوئی دور کی مناسبت بھی نہیں رکھتا۔ بلکہ یہ تو ذکر الشیطان ہے۔

’’ اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو‘‘۔ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بھاگتے ہوئے آؤ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جلدی سے جلدی وہاں پہنچنے کی کوشش کرو۔ اردو زبان میں بھی ہم دوڑ دھوپ کرنا، بھاگ دوڑ  کرنا، سرگرم کوشش کے معنی میں بولتے ہیں، نہ کہ بھاگنے کے معنی میں، اسی طرح عربی میں بھی سعی کے معنی بھاگنے ہی کے نہیں ہیں۔ قرآن میں اکثر مقامات پر سعی کا لفظ کوشش اور جدو جہد کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً : لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعیٰ۔ وَمَنْ اَرَا دَالْاٰخِرَۃَوَ سَعیٰ لَھَا سَعْیَھَا۔ فَلَمَّ بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ۔ وَاِذَ ا تَوَ لّیٰ سَعیٰ فِی ا لْاَرْضِ  لِیُفْسِدَ فِیْھَا۔ مفسرین نے بھی بالاتفاق اس کو اہتمام کے معنی میں لیا ہے ، ان کے نزدیک سعی یہ ہے کہ آدمی اذان کی آواز سن کر فوراً مسجد پہنچنے کی فکر میں لگ جائے۔اور معاملہ صرف اتنا ہی نہیں ہے۔ حدیث میں بھاگ کر نماز کے لیے آنے کی صاف ممانعت وارد ہوئی ہے۔حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔’’ جب نماز کھڑی ہو تو اس کی طرف سکون و وقار کے ساتھ چل کر آؤ۔ بھاگتے ہوئے نہ آؤ، پھر جتنی نماز بھی مل جائے اس میں شامل ہو جاؤ، اور جتنی چھوٹ جائے اسے بعد میں پورا کر لو‘‘۔ (صحاح ستہ)۔ حضرت ابو قتادہ انصاریؓ فرماتے ہیں، ایک مرتبہ ہم حضورؐ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے کہ یکایک لوگوں کے بھاگ بھاگ کر چلنے کی آواز آئی۔ نماز ختم کرنے کے بعد حضورؐ نے ان لوگوں سے پوچھا یہ کیسی آواز تھی؟ ان لوگوں نے عرض کیا۔ ہم نماز میں شامل ہونے کے لیے بھاگ کر آ رہے تھے۔ فرمایا ’’ ایسا نہ کیا کرو، نماز کے لیے جب بھی آؤ پورے سکون کے ساتھ آؤ۔ جتنی مل جائے اس کو امام کے ساتھ پڑھ لو، جتنی چھوٹ جائے وہ بعد میں پوری کر لو‘‘ (بخاری، مسلم)

’’ خرید و فروخت چھوڑ دو‘‘ کا مطلب صرف خرید و فروخت ہی چھوڑنا نہیں ہے ، بلکہ نماز کے لیے جانے کی فکر اور اہتمام کے سوا ہر دوسری مصروفیت چھوڑ دینا ہے ، بیع کا ذکر خاص طور پر صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ جمعہ کے رو تجارت خوب چمکتی تھی، آس پاس کی بستیوں کے لوگ سمٹ کر ایک جگہ جمع ہو جاتے تھے ، تاجر بھی اپنا مال لے لے کر وہاں پہنچ جاتے تھے۔ لوگ بھی اپنی ضرورت کی چیزیں خریدنے میں لگ جاتے تھے۔ لیکن ممانعت کا حکم صرف بیع تک محدود نہیں ہے ، بلکہ دوسرے تمام مشاغل بھی اس کے تحت آ جاتے ہیں، اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف ان سے منع فرما دیا ہے ، اس لیے فقہاء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ جمعہ کی اذان کے بعد بیع اور ہر قسم کا کاروبار حرام ہے۔

یہ حکم قطعی طور پر نماز جمعہ کے فرض ہونے پر دلا لت کرتا ہے۔ اول تو اذان سنتے ہیں اس کے لیے دوڑنے کی تاکید بجائے خود اس کی دلیل ہے۔ پھر بیع جیسی حلال چیز کا اس کی خاطر حرام ہو جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ فرض ہے۔ مزید برآں ظہر کی فرض نماز کا جمعہ کے روز ساقط ہو جانا اور نماز جمعہ کا اس کی جگہ لے لینا بھی اس کی فرضیت کا صریح ثبوت ہے۔ کیونکہ ایک فرض اسی وقت ساقط ہو تا ہے جبکہ اس کی جگہ لینے والا فرض اس سے زیادہ اہم ہو۔ اسی کی تائید بکثرت احادیث کرتی ہیں، جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جمعہ کی سخت ترین تاکید کی ہے اور اسے صاف الفاظ میں فرض قرار دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’ میرا جی چاہتا ہے  کہ کسی اور شخص کو اپنی جگہ نماز پڑھانے کے لیے کھڑا کر دوں اور جا کر ان لوگوں کے گھر جلادوں جو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے نہیں آتے ‘‘۔(مسند احمد، بخاری)حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ہم نے جمعہ کے خطبہ میں حضورؐ کو یہ فرماتے سنا ہے : ’’ لوگوں کو چاہیے کہ جمعہ چھوڑ نے سے باز آ جائیں، ورنہ اللہ ان  کے دلوں پر ٹھپہ لگا دے گا اور وہ غافل ہو کر رہ جائیں گے ‘‘۔ (مسند احمد، مسلم، نسائی) حضرت ابو الجعدؓ ضحْری، حضرت جابرؓ بن عبداللہ اور حضرت عبد اللہؓ بن ابی اَوْفیٰ کی روایات میں حضورؐ کے جو ارشادات منقول ہوئے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص کسی حقیقی ضرورت اور جائز عذر کے بغیر، محض بے پروائی کی بنا پر مسلسل تین جمعے چھوڑ دے ، اللہ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے ‘‘۔ بلکہ ایک روایت میں تو الفاظ یہ ہیں کہ ’’ اللہ اس کے دل کو منافق کا دل بنا دیتا ہے ‘‘ ( مسند احمد، ابو داؤد نسائی، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی، حاکم، ابن حبان، بزاز، طبرانی فی الکبیر) حضرت جابر بن عبداللہ  کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا ’’ آج سے لے کر قیامت تک جمعہ تم لوگوں پر فرض ہے۔ جو شخص اسے ایک معمولی چیز سمجھ کر یا اس کا حق نہ مان کر اسے چھوڑے ، خدا اس کا حال درست نہ کرے ، نہ اسے برکت دے۔ خوب سن رکھو، اس کی نماز نماز نہیں، اس کی زکوٰۃ زکوٰۃ نہیں، اس کا حج حج نہیں، اس کا روزہ روزہ نہیں، اس کی کوئی نیکی نیکی نہیں جب تک کہ وہ توبہ نہ کر لے اللہ  اسے معاف فرمانے والا ہے ‘‘۔ (ابن ماجہ، بزار ) اسی سے قریب المعنیٰ ایک روایت طبرانی نے اَوسط میں ابن عمرؓ سے نقل کی ہے۔ علاوہ بریں بکثرت روایات ہیں جن میں حضورؐ نے جمعہ کو بالفاظ صریح فرض اور حق واجب قرار دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’ جمعہ ہر اس شخص پر فرض ہے جو اس کی اذان سنے ‘‘ (ابو داؤد، دارقطنی) جابرؓ بن عبداللہ اور ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ آپؐ نے خطبہ میں فرمایا۔’’ جان لو کہ اللہ نے تم پر نماز جمعہ فرض کی ہے ‘‘۔(بیہقی) البتہ آپ نے عورت، بچے غلام، مریض اور مسافر کو اس فرضیت سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ حضرت حفصہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا۔’’ جمعہ کے لیے نکلنا ہر بالغ پر واجب ہے ‘‘ (نسائی)۔  حضرت طارق بن شہاب کی روایت میں آپ کا ارشاد یہ ہے کہ ’’ جمعہ ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ پڑھنا واجب ہے۔ سوائے غلام، عورت، بچے ، اور مریض کے ‘‘ (ابو داؤد، حاکم) حضرت جابرؓ بن عبداللہ کی روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں: ’’ جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اس پر جمعہ فرض ہے۔ الّا یہ کہ عورت ہو یا مسافر ہو، یا غلام ہو، یا مریض ہو‘‘ (دار قطنی، بیہقی) قرآن و حدیث کی ان ہی تصریحات کی وجہ سے جمعہ کی فرضیت پر پوری امت کا اجماع ہے۔

۱۶۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد زمین میں پھیل جانا اور تلاش رزق کی دوڑ دھوپ میں لگ جانا ضروری ہے۔ بلکہ یہ ارشاد اجازت کے معنی میں ہے۔ چونکہ جمعہ کی اذان سن کر سب کاروبار چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا تھا اس لیے فرمایا گیا کہ نماز ختم ہو جانے بعد تمہیں اجازت ہے کہ منتشر ہو جاؤ اور اپنے جو کاروبار بھی کرنا چاہو کرو، یہ ایسا ہی ہے جیسے حالت اِحرام میں شکار کی ممانعت کرنے کے بعد فرمایا : فَاِذَا حَلَلْتُمْ فَا صْطَا دُوْ (الماعدہ۔۲) ’’ جب احرام کھول چکو تو شکار کرو‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ احرام کھولنے کے بعد ضرور شکار کرو، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے بعد شکار پر کوئی پابندی باقی نہیں رہتی۔ چاہو تو شکار کر سکتے ہو۔ یا مثلاً سورہ نساء میں ایک سے زائد نکاح کی اجازت فَانْکِحُوْ امَا طَابَ لَکُمْ کے الفاظ میں دی گئی ہے۔ یہاں اگر چہ فَانْکِحُوْا بصیغۂ امر ہے۔ مگر کسی نے بھی اس کو حکم کے معنی میں نہیں لیا ہے۔ اس سے یہ اصولی مسئلہ نکلتا ہے کہ صیغۂ امر ہمیشہ وجوب ہی کے معنی میں نہیں ہوتا بلکہ کبھی یہ اجازت اور کبھی استحباب کے معنی میں بھی ہوتا ہے۔ یہ بات قرائن سے معلوم ہوتی ہے کہ کہاں یہ حکم کے معنی میں ہے اور کہاں اجازت کے معنی میں اور کہاں اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اللہ کو ایسا کرنا پسند ہے لیکن یہ مراد نہیں ہوتی کہ یہ فعل فرض و واجب ہے۔ خود اسی فقرے کے بعد متصلاً دوسرے ہی فقرے میں ارشاد ہوا ہے وَاذْکُرُو ا اللہَ کَثِیْراً۔ ’’ اللہ کو کثرت سے یاد کرو‘‘۔ یہاں بھی صیغۂ امر موجود ہے ، مگر ظاہر ہے کہ یہ استحباب کے معنی میں ہے نہ کہ وجوب کے معنی میں۔

اس مقام پر  یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ قرآن میں یہودیوں کے بست اور عیسائیوں کے اتوار کی طرح جمعہ کو عام تعطیل کا دن قرار نہیں دیا گیا ہے لیکن اس امر سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کر سکتا کہ جمعہ ٹھیک اسی طرح مسلمانوں کا شعار ملت ہے جس طرح ہفتہ اور اتوار یہودیوں اور عیسائیوں کے شعار ملت ہیں۔ اور اگر ہفتہ میں کوئی ایک دن عام تعطیل کے لیے مقرر کرنا ایک تمدنی ضرورت ہو تو جس طرح یہودی اس کے لیے فطری طور پر ہفتے کو اور عیسائی اتوار کو منتخب کرتے ہیں اسی طرح مسلمان (اگر اس کی فطرت میں کچھ اسلامی حِس موجود ہو) لازماً  اس غرض کے لیے جمعہ ہی کو منتخب کرے گا، بلکہ عیسائیوں نے تو دوسرے ایسے ملکوں پر بھی اپنے اتوار کو مسلط کرنے میں تامّل نہ کیا جہاں عیسائی آبادی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی یہودیوں نے جب فلسطین میں اپنی اسرائیلی ریاست قائم کی تو اولین کان جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا  کہ اتوار کے بجائے ہفتہ کو چھٹی کا دن مقرر کیا۔ قبل تقسیم کے ہندوستان میں برطانوی ہند اور مسلمان ریاستوں کے درمیان نمایاں فرق یہ نظر آتا تھا کہ ملک کے ایک حصے میں اتوار کی چھٹی ہوتی تھی اور دوسرے حصے میں جمعہ کی۔ البتہ جہاں مسلمانوں کے اندر اسلامی جس موجود نہیں ہوتی وہاں وہ اپنے ہاتھ میں اقتدار آنے کے بعد بھی اتوار ہی کو سینے سے لگائے رہتے ہیں جیسا کہ ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔ بلکہ اس سے زیادہ جب بے حسی طاری ہوتی ہے تو جمعہ کی چھٹی منسوخ کر کے اتوار کی چھٹی رائج کی جاتی ہے ، جیسا کہ مصطفیٰ کمال نے ٹرکی میں کیا۔

۱۷۔ یعنی اپنے کاروبار میں لک کر بھی اللہ کو بھولو نہیں، بلکہ ہر حال میں اس کو یاد رکھو اور اس کا ذکر کرتے رہو (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ احزاب، حاشیہ ۶۳)۔

۱۸۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ایک ہدایت یا ایک نصیحت یا ایک حکم دینے کے بعد لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْ نَ (شائد کہ تم فلاح پا جاؤ) اور لَعَلَّکُمْ تَرْ حَمُوْنَ (شاید کہ تم پر رحم کیا جائے ) کے الفاظ ارشاد فرمائے گئے ہیں۔ اس طرح کے مواقع پر شاید کا لفظ استعمال کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کو معاذاللہ کوئی شک لا حق ہے ، بلکہ یہ دراصل شاہانہ انداز بیان ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی مہربان آقا اپنے ملازم سے کہے کہ تم فلاں خدمت انجام دو، شاید کہ تمہیں ترقی مل جائے۔ اس میں ایک لطیف وعدہ پوشیدہ ہوتا ہے جس کی امید میں ملازم دل لگا کر بڑے شوق کے ساتھ وہ خدمت انجام دیتا ہے۔ کسی بادشاہ کی زبان سے کسی ملازم کے لیے یہ فقرہ نکل جائے تو اس کے گھر خوشی کے شادیانے بج جاتے ہیں۔

یہاں چونکہ جمعہ کے احکام ختم ہو گئے ہیں، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذاہب اربعہ میں قرآن، حدیث، آثار صحابہ، اور اسلام کے اصول عامہ سے جو احکام جمعہ مرتب کیے گئے ہیں ان کا خلاصہ دے دیا جائے۔

حنفیہ کے نزدیک جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا وقت ہے۔ نہ اس سے پہلے جمعہ ہو سکتا ہے ، نہ اس کے بعد۔ بیع کی حرمت پہلی اذان ہی سے شروع ہو جاتی ہے ، نہ کہ اس دوسری اذان سے جو امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد دی جاتی ہے ، کیونکہ قرآن میں اِذَ نُوْ دِیَ لِلصَّلوٰۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ  کے الفاظ مطلقاً ارشاد ہوئے ہیں۔ اس لیے زوال کے بعد جب جمعہ کا وقت شروع ہو جائے اس وقت جو اذان بھی نماز جمعہ کے لیے دی جائے ، لوگوں کو اسے سن کر خرید و فروخت چھوڑ دینی چاہیے۔ لیکن اگر  کسی شخص نے اس وقت خرید و فروخت کر لی ہو تو وہ بیع فاسد یا فسخ نہ ہو جائے گی، بلکہ یہ صرف ایک گناہ ہو گا۔ جمعہ ہر بستی میں نہیں بلکہ صرف مصر جامع میں ہو سکتا ہے ، اور مصر جامع کی معتبر تعریف یہ کہ وہ شہر جس میں بازار ہوں، قیام امن کا انتظام موجود ہو، اور آبادی اتنی ہو کہ اگر اس کی بڑی سے بڑی مسجد میں بھی نماز جمعہ کے مکلف سب لوگ جمع ہو جائیں تو اس میں سما نہ سکیں۔ جو لوگ شہر سے باہ رہتے ہوں ان پر جمعہ اس صورت میں شہر آ کر پڑھنا فرض ہے جبکہ ان تک اذان کی آواز پہنچتی ہو، یا وہ زیادہ سے زیادہ شہر سے ۶ میل کے فاصلے پر ہوں۔ نماز کے لیے ضروری نہیں کہ وہ مسجد ہی میں ہو۔ وہ کھلے میدان میں بھی ہو سکتی ہے اور ایسے میدان میں بھی ہو سکتی ہے جو شہر کے باہر ہو مگر اس کا یاک حصہ شمار ہوتا ہو، نماز جمعہ صرف اس جگہ ہو سکتی ہے جہاں ہر شخص کے لیے شریک ہونے کا  اذنِ عام ہو۔ کسی بند جگہ، جہاں ہر ایک کو آنے کی اجازت نہ ہو، خواہ کتنے ہی آدمی جمع ہو جائیں، جمعہ صحیح نہیں ہو سکتا۔ صحت جمعہ کے لیے ضروری ہے کہ جماعت میں کم از کم (بقول ابو حنیفہؒ) امام کے سوا تین آدمی، یا (بقول ابو یوسفؒ و محمدؒ ) امام سمیت دو  آدمی ایسے موجود ہوں جن پر جمعہ فرض ہے۔ جن عذرات کی بنا پر ایک شخص سے جمعہ ساقط ہو جاتا ہے وہ یہ ہیں : آدمی حالت سفر میں ہی، یا ایسا بیمار ہو کہ چل کر نہ آ  سکتا ہو، یا دونوں ٹانگوں سے معذور ہو، یا اندھا ہو (مگر امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک اندھے پر سے صرف اس وقت جمعہ کی فرضیت ساقط ہوتی ہے جبکہ وہ کوئی ایسا آدمی نہ پاتا ہو جو اسے چلا کر لے جائے ) یا کسی ظالم سے اس کو جان اور آبرو کا، یا ناقابل برداشت مالی نقصان کا خطرہ ہو، یا سخت بارش اور کیچڑ  پانی ہو، یا آدمی قید کی حالت میں ہو۔ قیدیوں اور معذوروں کے لیے یہ بات مکروہ ہے کہ وہ جمعہ کے روز ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھیں۔ جن لوگوں کا جمعہ چھوٹ گیا ہو ان کے لیے بھی ظہر کی نماز جماعت سے پڑھنا مکروہ ہے۔ خطبہ صحت جمعہ کی شرائط میں سے ایک شرط ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی جمعہ کی نماز خطبہ کے بغیر نہیں پڑھی ہے ، اور وہ لازماً نماز سے پہلے ہونا چاہیے ، اور دو خطبے ہونے چاہییں۔ خطبہ کے لیے جب امام منبر کی طرف جائے ، اس وقت سے اختتام خطبہ تک ہر قسم کی بات چیت ممنوع ہے ، اور نماز بھی اس وقت نہیں پڑھنی چاہیے ، خواہ امام کی آواز اس مقام تک پہنچتی ہو یا نہ پہنچتی ہو  جہاں کوئی شخص بیٹھا ہو (ہدایہ، فتح القدیر، احکام القرآن للجصاص، الفقہ علی المذاہب الا ربعہ، عمدۃ القاری)۔

شافعیہ کے نزدیک جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا ہے۔ بیع کی حرمت اور سعی کا وجوب اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب دوسری اذان ہو (یعنی وہ اذان جو امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد دی جاتی ہے )۔ تاہم اگر کوئی شخص اس وقت بیع کرے تو وہ فسخ نہیں ہوتی۔ جمعہ ہر اس بستی میں ہو سکتا ہے جس کے مستقل باشندوں میں ۴۰ ایسے آدمی موجود ہوں جن پر نماز جمعہ فرض ہے۔ بستی سے باہر کے ون لوگوں پر جمعہ کے لیے حاضر ہونا لازم ہے جن تک اذان کی آواز پہنچ سکتی ہو۔ جمعہ لازماً بستی کے حدود میں ہونا چاہیے مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ مسجد ہی میں پڑھا جائے۔ جو لوگ صحرا میں خیموں کے اندر رہتے ہوں ان پر جمعہ واجب نہیں ہے۔ صحت جمعہ کے لیے ضروری ہے کہ جماعت میں امام سمیت کم از کم ۴۰ ایسے آدمی شریک ہوں جن پر جمعہ فرض ہے۔ جن عذرات کی بنا پر کسی شخص سے جمعہ کا فرض ساقط ہو جاتا ہے وہ یہ ہیں: سفر کی حالت میں ہو، یا کسی مقام پر چار دن یا اس سے کم قیام کا ارادہ رکھتا ہو، بشرطیکہ سفر جائز نوعیت کا ہو۔ ایسا بوڑھا یا مریض ہو کہ سواری پر بھی جمعہ کے لیے نہ جا سکتا ہو۔ اندھا ہو اور کوئی ایسا آدمی نہ پاتا ہو جو اسے نماز کے لیے لے جائے۔ جان یا مال یا آبرو کا خوف لاحق ہو۔ قید کی حالت میں ہو، بشرطیکہ اس کی قید اس کے اپنے کسی قصور کی وجہ سے نہ ہو۔ نماز سے پہلے دو خطبے ہونے چاہییں۔ خطبے کے دوران میں خاموش رہنا مسنون ہے ، مگر بات کرنا حرام نہیں ہے۔ جو شخص امام سے اتنا قریب بیٹھا ہو کہ خطہ سن سکتا ہو اس کے لیے بولنا مکروہ ہے ، لیکن وہ سلام کا جواب دے سکتا ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر سن کر بآواز بلند درود پڑھ سکتا ہے (مغنی المحتاج۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ )۔

مالکیہ کے نزدیک جمعہ کا وقت زوال سے شروع ہو کر مغرب سے اتنے پہلے تک ہے کہ سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے خطبہ اور نماز ختم ہو جائے۔ بیع کی حرمت اور سعی کا وجوب دوسری اذان سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد اگر بیع واقع ہو تو وہ فاسد ہے اور فسخ ہو گی۔ جمعہ صرف ان بستیوں میں ہو سکتا ہے جن کے باشندے وہاں مستقل طور پر گھر بنا کر رہتے ہوں، اور جاڑے گرمی میں منتقل نہ ہوتے ہوں، اور ان کی ضروریات اسی بستی میں فراہم ہوتی ہوں، اور اپنی تعداد کی بنا پر وہ اپنی حفاظت کر سکتے ہوں۔ عارضی قیام  گاہوں میں خواہ کتنے ہی لوگ ہوں اور خواہ وہ کتنی ہی مدت ٹھیریں، جمعہ قائم نہیںکیا جا سکتا۔ جس بستی میں معہ قائم کیا جاتا ہو اس سے تین میل کے فاصلے تک رہنے والے لوگوں پر جمعہ میں حاضر ہونا فرض ہے۔ نماز جمعہ صرف ایسی مسجد میں ہو سکتی ہے جو بستی کے اندر یا اس سے متصل ہو اور جس کی عمارت بستی کے عام باشندوں کے گھروں سے کم تر درجے کی نہ ہو۔ بعض مالکیوں نے یہ شرط بھی لگا ئی ہے کہ مسجد مسقف ہونی چاہیے اور اس میں پنجوقتہ نماز کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔ لیکن مالکیہ کا راجح مسلک یہ ہے کہ کسی مسجد میں صحت جمعہ کے لیے اس کا مسقف ہونا شرط نہیں ہے ، اور ایسی مسجد میں بھی جمعہ ہو سکتا ہے جو صرف نماز جمعہ کے لیے بنائی گئی ہو اور پنجوقتہ نماز کا اس میں اہتمام نہ ہو۔ جمعہ کی نماز صحیح ہونے کے یے جماعت میں امام کے سوا کم از کم ۱۲ ایسے آدمیوں کا موجود ہونا ضروری ہے جن پر جمعہ فرض ہو۔ جن عذرات کی بنا پر کسی شخص پر سے جمعہ کا فرض ساقط ہو جاتا ہے وہ یہ ہیں : سفر کی حالت میں ہو یا بحالت سفر کسی جگہ چار دن سے کم قیام کا ارادہ رکھتا ہو۔ ایسا مریض ہو کہ مسجد آنا اس کے لیے دشوار ہو۔ اس کی ماں یا باپ یا بیوی یا بچہ بیمار ہو، یا وہ کسی ایسے اجنبی مریض کی تیمار داری کر رہا ہو جس کا اور کوئی تیمار دار نہ ہو، یا اس کا کوئی قریبی رشتہ دار سخت بیماری میں مبتلا ہو یا مرنے کے قریب ہو۔ اس کے ایسے مال کو جس کا نقصان قابل برداشت نہ ہو خطرہ لاحق ہو، یا اسے اپنی جان یا آبرو کا خطرہ ہو، یا وہ مار یا قید کے خوف سے چھپا ہوا ہو بشرطیکہ وہ اس معاملہ میں مظلوم ہو۔ سخت بارش اور کیچڑ پانی یا سخت گرمی یا سردی مسجد تک پہنچنے میں مانع ہو۔ دو خطبے نماز سے پہلے لازم ہیں، حتیٰ کہ اگر نماز کے بعد خطبہ ہو تو نماز کا اعادہ ضروری ہے۔ اور یہ خطبے لازماً مسجد کے اندر ہونے چاہییں خطبے کے لیے جب امام منبر کی طرف آواز نہ سن رہا ہو۔ لیکن اگر خطیب اپنے خطبے میں ایسی لغو باتیں کرے جو نظام خطبہ سے خارج ہوں، یا کسی ایسے شخص کو گالیاں دے جو گالی کا مستحق نہ ہو، یا کسی ایسے شخص کی تعریفیں شروع کر دے جس کی تعریف جائز نہ ہو، یا خطبہ سے غیر متعلق کوئی چیز پڑھنے لگے ، تو لوگوں کو اس پر احتجاج کرنے کا حق ہے۔ نیز  خطبہ میں بادشاہ وقت کے لیے دعا مکروہ ہے الا یہ کہ خطیب کو اپنی جان کا خطرہ ہو۔ خطیب لازماً وہی شخص ہونا چاہیے جو نماز پڑھائے۔ اگر خطیب کے سوا کسی اور نے نماز پڑھائی ہو تو وہ باطل ہو گی (حاشیہ الدسوتی علی الشرح الکبیر۔ احکام القرآن ابن عربی۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ )۔

حنابلہ کے نزدیک جمعہ کی نماز کا وقت صبح کو سورج کے بقدر یک نیزہ بلند ہونے کے بعد سے عصر کا وقت شروع ہونے تک ہے۔ لیکن زوال سے پہلے جمعہ صرف جائز ہے ، اور زوال کے بعد واجب اور افضل۔ بیع کی حرمت اور سعی کے وجوب کا وقت دوسری اذان سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد جو بیع ہو وہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتی۔ جمعہ صرف اس جگہ ہو سکتا ہے کہاں ۴۰ ایسے آدمی جن پر جمعہ فرض ہو، مستقل طور پر گھروں میں (نہ کہ خیموں میں)  آباد ہوں، یعنی جاڑے اور گرمی میں منتقل نہ ہوتے ہوں۔ اس غرض کے لیے بستی کے گھروں اور محلوں کے باہم متصل یا متفرق  ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ان سب کے مجموعہ کا نام ایک ہو تو وہ ایک ہی بستی ہے خواہ اس کے ٹکڑے ایک دوسرے سے میلوں کے فاصلے پر واقع ہوں۔ ایسی بستی سے جو لوگ تین میل کے اندر رہتے ہوں ان پر جمعہ کے لیے حاضر ہونا فرض ہے۔ جماعت میں امام سمیت ۴۰ آدمیوں کی شرکت ضروری ہے۔ نماز کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ مسجد ہی میں ہو۔ کھلے میدان میں بھی ہو سکتی ہے۔ جن عذرات کی بنا پر کسی شخص سے جمعہ کا فرض ساقط ہو جاتا ہے وہ یہ ہیں: مسافر ہو اور جمعہ کی بستی میں چار دن یا اس سے کم قیام کا ارادہ رکھتا ہو۔ ایسا مریض ہو کہ سواری پر آنا بھی اس کے لیے مشکل ہو۔ اندھا ہو، الا یہ کہ خود راستہ ٹٹول کر آ سکتا ہو۔ کسی دوسرے شخص کے سہارے آنا اندھے کے لیے واجب نہیں ہے۔ سخت سردی یا سخت گرمی یا سخت بارش اور کیچڑ نماز کی جگہ پہنچنے میں مانع ہو۔ کسی ظالم کی ظلم سے بچنے کے لیے چھپا ہوا ہو۔ جان یا آبرو کا خطرہ یا ایسے مالی نقصان کا خوف ہو جو قابل برداشت نہ ہو۔ نماز سے پہلے دو خطبے ہونے چاہییں۔ خطبے کے دوران میں اس شخص کے لیے بولنا حرام ہے جو خطیب سے اتنا قریب ہو کہ اس کی آواز سن سکتا ہو۔ البتہ دور کا آدمی جس تک خطیب کی آواز نہ پہنچتی ہو، بات کر سکتا ہے۔ خطیب خواہ عادل ہو یا غیر عادل، لوگوں کو خطبہ کے دوران میں چپ رہنا چاہیے۔ اگر جمعہ کے روز عید ہو جائے تو جو لوگ عید پڑھ چکے ہوں ان پر سے جمعہ کا فرض ساقط ہے۔ اس مسئلے میں حنابلہ کا مسلک ائمہ ثلاثہ کے مسلک سے مختلف ہے (غایتہ المنتہیٰ۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ)۔

اس امر میں تمام  فقہاء کا اتفاق ہے کہ جس شخص پر جمعہ فرض نہیں ہے وہ اگر نماز جمعہ میں شریک ہو جائے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اس کے لیے پھر ظہر پڑھنا فرض نہیں رہتا۔

۱۹۔ یہ ہے وہ واقعہ جس کی وجہ سے اوپر کی آیات میں جمعہ کے احکام ارشاد فرمائے گئے ہیں۔اس کا قصہ جو کتب حدیث میں حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابو ہریرہ، حضرت ابو مالک، اور حضرات حسن نصری، ابن زید، قتادہ، اور مقاتل بن حیان سے منقول ہوا ہے ، یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں شام سے ایک تجارتی قافلہ عین نماز جمعہ کے وقت آیا اور اس نے ڈھول تاشے بجانے شروع کیے تاکہ بستی کے لوگوں کو اس کی آمد کی اطلاع ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ ڈھول تاشوں کی آوازیں سن کر لوگ بے چین ہو گئے اور ۱۲ آدمیوں کے سوا باقی سب بقیع کی طرف دوڑ گئے جہاں قافلہ اترا ہوا تھا۔ اس قصے کی روایات میں سب سے زیادہ معتبر روایت حضرت جابر بن عبداللہ کی ہے جسے امام احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، ابو عوانہ، عبد بن حمید، ابویعلیٰ وغیر ہُم نے متعدد سندوں سے نقل کیا ہے۔ اس میں اضطراب صرف یہ ہے کہ کسی روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ نماز کی حالت میں پیش آیا تھا، اور کسی میں یہ ہے کہ یہ اس وقت پیش آیا جب حضور خطبہ دے رہے تھے۔ لیکن حضرت جابر اور دوسرے صحابہ و تابعین کی تمام روایات کو جمع کرنے سے صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ دوران خطبہ کا واقعہ ہے اور حضرت جابرؓ نے جہاں یہ کہا ہے کہ یہ نماز جمعہ کے دوران میں پیش آیا، وہاں در اصل انہوں نے خطبے اور نماز کے مجموعہ پر نماز جمعہ کا اطلاق کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت میں بین کیا گیا ہے کہ اس وقت ۱۲ مردوں کے ساتھ ایک عورت تھے (ابن جریر۔ ابن ابی حاتم)۔ دارقطنی کی ایک روایت میں ۴۰ افراد اور عبد بن حمید کی روایت میں ۷ نفر بیان کیے گئے ہیں۔ اور فرّاء نے ۸ نفر لکھے ہیں۔ لیکن یہ سب ضعیف روایات ہیں۔ اور قتادہ کی یہ روایت بھی ضعیف ہے کہ اس طرح کا واقعہ تین مرتبہ پیش آیا تھا (ابن جریر)۔ معتبر روایت حضرت جابر بن عبداللہ کی ہے جس میں باقی رہ جانے والوں  کی تعداد ۱۲ بتائی گئی ہے۔ اور قتادہ کی ایک روایت کے سوا باقی تمام صحابہ و تابعین کی روایات اس پر متفق ہیں کہ یہ واقعہ صرف ایک مرتبہ پیش آیا۔ باقی رہ جانے والوں کے متعلق مختلف روایت کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عمارؓ بن یاسر، حضرت سالمؓ مولیٰ حصیفہ، اور حضرت جابرؓ بن عبداللہ شامل تھے۔ حافظ ابو یعلیٰ نے حضرت جابر بن عبداللہ کی جو روایت نقل کی ہے اس میں بیان کیا گیا ہے کہ جب لوگ اس طرح نکل کر لے گئے اور صرف بارہ اصحاب باقی رہ گئے تو ان کو خطاب کر کے حجور نے فرمایا والذی نفسی بیدہٖ لتتا بعتم  حتی لم یبق منکم احد لسال بکم الوادی ناراً، اگر تم سب چلے جاتے اور ایک بھی باقی نہ رہتا تو یہ وادی آگ سے بہ نکلتی ‘‘۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے اور ابن جریر نے قتادہ سے نقل کیا ہے۔

شیعہ حضرات نے اس واقعہ کو بھی صحابہؓ پر طعن کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صحابہ کی اتنی بڑی تعداد کا خطبے اور نماز کو چھوڑ کر تجارت اور کھیل تماشے کی طرف دوڑ جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے تھے۔ لیکن یہ ایک سخت بے جا اعتراض ہے جو صرف حقائق سے آنکھیں بند کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔ در اصل یہ واقعہ ہجرت کے بعد قریبی زمانے ہی میں پیش آیا تھا۔ اس وقت ایک طرف تو صحابہ کی اجتماعی تربیت ابتدائی مراحل میں تھی۔ اور دوسری طرف کفار مکہ نے اپنے اثر سے مدینہ طیبہ کے باشندوں کی سخت معاشی ناکہ بندی کر رکھی تھی جس کی وجہ سے مدینے میں اشیائے ضرورت کمیاب ہو گئی تھیں۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ اس وقت مدینے میں لوگ بھوکوں مر رہے تھے اور قیمتیں بہت چڑھی ہوئی تھیں (ابن جریر )۔ اس حالت میں جب ایک تجارتی قافلہ آیا تو لوگ اس اندیشے سے کہ کہیں ہمارے نماز سے فارغ ہوتے ہوتے سامان فروخت نہ ہو جائے ، گھبرا کر اس کی طرف دوڑ گئے۔ یہ ایک ایسی کمزوری اور غلطی تھی جو اس وقت اچانک تربیت کی کمت اور حالات کی سختی کے باعث رو نما ہو گئی تھی۔ لیکن جو شخص بھی ان صحابہ کی وہ قربانیاں دیکھے گا جواس کے بعد انہوں نے اسلام کے لیے کیں، اور یہ دیکھے گا کہ عبادات اور معاملات میں ان کی زندگیاں کیسے زبردست تقویٰ کی شہادت دیتی ہیں، وہ ہر گز یہ الزام رکھنے کی جرأت نہ کر سکے گا کہ ان کے اندر دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کا کوئی مرض پایا جاتا تھا، الّا یہ کہ اس کے اپنے دل میں صحابہ سے بغض کا مرض پایا جاتا ہو۔

تاہم یہ واقعہ جس طرح صحابہؓ کے معترضین کی تائید نہیں کرتا اسی طرح ان لوگوں کے خیالات کی تائید بھی نہیں کرتا جو صحابہ کی عقیدت میں غلو کر کے اس طرح کے دعوے کرتے ہیں کہ ان سے کبھی کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی، یا ہوئی بھی ہو تو اس کا ذکر نہیں کرنا چاہیے ، کیونکہ ان کی غلطی کا ذکر کرنا اور اسے غلطی کہنا ان کی توہین ہے ، اور اس سے ان کی عزت و  وقعت دلوں میں باقی نہیں رہتی، اور اس کا ذکر ان آیات و احادیث کے خلاف ہے جن میں صحابہ کے مغفور اور مقبول بار گاہ الٰہی ہونے کی تصریح کی گئی ہے۔ یہ ساری باتیں سراسر مبالغہ ہیں جن کے لیے قرآن و حدیث میں کوئی سند موجود نہیں ہے۔ یہاں ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اس غلطی کا ذکر کیا ہے جو صحابہؓ کی ایک کثیر تعداد سے صادر ہوئی تھی۔ اس کتاب میں کیا ہے جسے قیامت تک ساری امت کو پڑھنا ہے۔ اور اسی کتاب میں کیا ہے جس میں ان کے مغفور اور مقبول بارگاہ ہونے کی تصریح کی گئی ہے۔ پھر حدیث و تفسیر کی تمام کتابوں میں صحابہ سے لے کر بعد کے اکابر اہل سنت تک نے اس غلطی کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر انہی صحابہ کی وقعت دلوں سے نکالنے کے لیے کیا ہے جن کی وقعت وہ خود دلوں میں قائم فرمانا چاہتا ہے ؟ اور کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ صحابہؓ اور تابعین اور محدثین وہ مفسرین نے اس قصے کی ساری تفصیلات اس شرعی مسئلے سے ناواقفیت کی بنا پر بیان کر دی ہیں جو یہ خالی حضرات بیان کیا کرتے ہیں؟ اور کیا فی الواقع سورہ جمعہ پڑھنے والے اور اس کی تفسیر کا مطالعہ کرنے والے لوگوں کے دلوں سے صحابہ کی وقعت نکل گئی ہے ؟ اگر ان میں سے ہر سوال کا جواب نفی میں ہے ، اور یقیناً نفی میں ہے ، تو وہ سب بے جا اور مبالغہ آمیز باتیں غلط ہیں جو احترام صحابہ کے نام سے بعض لوگ کیا کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام کوئی آسمانی مخلوق نہ تھے بلکہ اسی زمین پر پیدا ہونے والے انسانوں میں سے تھے۔ وہ جو کچھ بھی بنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تربیت سے بنے۔ یہ تربیت بتدریج سالہا سال تک ان کو دی گئی۔ اس کا جو طریقہ قرآن و حدیث میں ہم کو نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ جب کبھی ان کے اندر کسی کمزوری کا ظہور ہوا، اللہ اور اس کے رسولؐ نے بر وقت اس کی طرف توجہ فرمائی، اور فوراً اس خاص پہلو میں تعلیم و تربیت کا ایک پروگرام شروع ہو گیا جس میں وہ کمزوری پائی گئی تھی۔ اسی نماز جمعہ کے معاملہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب قافلہ تجارت والا واقعہ پیش آیا تو اللہ تعالیٰ نے سورہ جمعہ کا یہ رکوع نازل فرما کر اس پر تنبیہ کی اور جمعہ کے آداب بتائے۔پھر اس کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلسل اپنے خطبات مبارکہ میں فرضیت جمعہ کی اہمیت لوگوں کے ذہن نشین فرمائی، جس کا ذکر ہم حاشیہ ۱۵ میں کر آئے ہیں، اور تفصیل کے ساتھ ان کو آداب جمعہ کی تعلیم دی۔ چنانچہ احادیث میں یہ ساری ہدایات ہم کو بڑی واضح صورت میں ملتی ہیں۔ حضرت ابو سعیدؓ  خدری کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ہر مسلمان کو جمعہ کے روز غسل کرنا چاہیے ، دانت صاف کرنے چاہییں، جو اچھے کپڑے اس کو میسر ہوں پہننے چاہییں، اور اگر خوشبو میسر ہو تو لگانی چاہیے (مسند احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی)۔ حضرت سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا جو مسلمان جمعہ کے روز غسل کرے اور حتی الامکان زیادہ اپنے آپ کو پاک صاف کرے ، سر میں تیل لگائے یا جو خوشبو گھر میں موجود ہو وہ لگائے ، پھر مسجد جائے اور دو آدمیوں کو ہٹا کر ان کے بیچ میں نہ گھسے ، پھر جتنی کچھ اللہ توفیق دے اتنی نماز (نفل) پڑھے ، پھر جب امام بولے تو خاموش رہے ، اس کے قصور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک معاف ہو جاتے ہیں (بخاری، مسند احمد )۔ قریب قریب اسی مضمون کی روایات حضرت ابو ایوب انصاریؓ، حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت نُبَیْشَۃُ الْھَذلِیؓ نے بھی حضور سے نقل کی ہیں (مسند احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، طبرانی )۔ حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا جب امام خطبہ دے رہا ہو اس وقت جو شخص بات کرے و اس گدھے کے مانند ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں، اور جو شخص اس سے کہے کہ چپ رہ، اس کا بھی کوئی جمعہ نہیں ہوا (مسند احمد)۔ حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا اگر تم نے جمعہ کے روز خطبہ کے دوران میں بات کرنے والے شخص سے کہا ’’ چپ رہ‘‘ تو تم نے بھی لغو حرکت کی (بخاری، مسلم، نسائی ترمذی، ابو داؤد )۔ اسی سے ملتی جلتی روایات امام احمد، ابو داؤد اور طبرانی نے حضرت علیؓ اور حضرت ابو الدرداءؓ سے نقل کی ہیں۔ا س کے ساتھ آپؐ نے خطیبوں کو بھی ہدایت فرمائی کہ لمبے لمبے خطبے دے کر لوگوں کو تنگ نہ کریں۔ آپ خود جمعہ کے روز مختصر خطبہ ارشاد فرماتے اور نماز بھی زیادہ لمبی نہ پڑھاتے تھے۔ حضرت جابرؓ بن سمرہ کہتے ہیں کہ حضور طویل خطبہ نہیں دیتے تھے۔ وہ بس چند مختصر کلمات ہوتے تھے (ابو داؤد)۔ حضرت عبداللہ بن ابی ادفیٰ کہتے ہیں کہ آپؐ کا خطبہ نماز کی بہ نسبت کم ہوتا تھا اور نماز اس سے زیادہ طویل ہوتی تھی (نسائی)۔ حضرت عمارؓ بن یاسر کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا آدمی کی نماز کا طویل ہونا اور خطبے کا مختصر ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہ دین کی سمجھ رکھتا ہے (مسند احمد، مسلم)۔ تقریباً  یہی مضمون بزار نے حضرت عبد اللہؓ بن مسعود سے نقل کیا ہے۔ ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضورؐ نے کس طرح لوگوں کو جمعہ کے آداب سکھائے یہاں تک کہ اس نماز کی وہ شان قائم ہوئی جس کی نظیر دنیا کی کسی قوم کی اجتماعی عبادت میں نہیں پائی جاتی۔

۲۰۔ یہ فقرہ کود بتا رہا ہے کہ صحابہ سے جو غلطی ہوئی تھی اس کی نوعیت کیا تھی۔اگر معاذ اللہ اس کی وجہ ایمان کی کمی اور آخرت پر دنیا کی دانستہ ترجیح ہوتی تو اللہ تعالیٰ کے غضب اور زجر و توبیخ کا انداز کچھ اور ہوتا۔ لیکن چونکہ ایسی کوئی خرابی وہاں نہ تھی، بلکہ جو کچھ ہوا تھا تربیت کی کمی کے باعث ہوا تھا، اس لیے پہلے معلمانہ انداز میں جمعہ کے آداب بتائے گئے ، پھر اس غلطی پر گرفت کر رکے مربیانہ انداز میں سمجھایا گیا کہ جمعہ کا خطبہ سننے اور اس کی نماز ادا کرنے پر جو کچھ تمہیں خدا کے ہاں ملے گا وہ اس دنیا کی تجارت اور کھیل تماشوں سے بہتر ہے۔

۲۱۔ یعنی اس دنیا میں مجازاً جو بھی رزق رسانی کا ذریعہ بنتے ہیں ان سب سے بہتر رازق اللہ تعالیٰ ہے۔ اس طرح کے فقرے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آئے ہیں۔ کہیں اللہ تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ، کہیں خیر الغافرین، کہیں خیر الحاکمین، کہیں خیر الراحمین، کہیں خیرالناصرین۔ ان سب مقامات پر مخلوق کی طرف رزق، تخلیق، مغفرت، رحم اور نصرت کی نسبت مجازی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف حقیقی۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ بھی دنیا میں تم کو تنخواہ، اجرت یا روٹی دیتے نظر آتے ہیں، یا جو لوگ بھی اپنی صنعت و کاریگری سے کچھ بناتے نظر آتے ہیں، یا جو لوگ بھی دوسروں کے قصور معاف کرتے اور دوسروں پر رحم کھاتے اور دوسروں کی مدد کرتے نظر آتے ہیں، اللہ ان سب سے بہتر رازق، خالق، رحیم، غفور اور مدد گار ہے۔