تفہیم القرآن

سورة فَاطِر

نام

پہلی ہی آیت کا لفظ ’’فاطر‘‘ اس سورہ کا عنوان قرار دیا گیا ہے جس کے  معنی صرف یہ ہیں کہ یہ وہ سورۃ ہے جس میں فاطر کا لفظ آیا ہے۔ دوسرا نام ’’ المَلَائکہ‘‘ بھی ہے اور یہ لفظ بھی پہلی آیت میں وارد ہوا ہے۔ 

زمانۂ نزول

اندازِ کلام کی اندرونی شہادت سے مترشح ہوتا ہے کہ اس سورت کے نزول کا زمانہ غالباً مکہ معظمہ کا دور متوسط ہے، اور اس کا بھی وہ حصہ جس میں مخالفت اچھی خاصی شدّت اختیار کر چکی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے ہر طرح کی بُری سے بری چالیں چلی جا رہی تھیں۔ 

موضوع و مضمون

کلام کا مدعا یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوتِ توحید کے مقابلہ میں جو رویہ اس وقت اہل مکہ اور ان کے سرداروں نے اختیار کر رکھا تھا اس پر ناصحانہ انداز میں ان کو تنبیہ و ملامت بھی کی جائے اور معلمانہ انداز میں فہمائش بھی۔ مضمون کا  خلاصہ یہ ہے کہ نادانو، یہ نبی جس راہ کی طرف تم کو بلا رہا ہے اس میں تمہارا اپنا بھلا ہے۔ اس پر تمہارا غصہ، اور تمہاری مکاریاں اور چال بازیاں، اور اس کو ناکام کرنے کے لیے تمہاری تدبیریں دراصل اس کے خلاف نہیں بلکہ تمہارے اپنے خلاف پڑ رہی ہیں۔ اس کی بات نہ مانو گی تو اپنا ہی کچھ بگاڑو گے، اس کا کچھ نہ بگاڑو گے۔ وہ جو کچھ تم سے کہ رہا ہے اس پر غور تو کرو، آخر اس میں غلط کیا بات ہے۔ وہ شرک کی تردید کرتا ہے۔ تم خود آنکھیں کھول کر دیکھو، کیا شرک کے لیے دنیا میں کوئی معقول بنیاد موجود ہے؟ وہ توحید کی دعوت دیتا ہے۔ تم خود عقل سے کام لے کر غور کرو، کیا للہ فاطر السمٰوات و الارض کے سوا کہیں کوئی ایسی ہستی پائی جاتی ہے جو خدائی صفات اور اختیارات رکھتی ہو؟ وہ تم سے کہتا ہے کہ تم اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہو بلکہ تمہیں اپنے خدا کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے اور اس دنیوی زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہے جس میں ہر ایک کو اپنے کیے کا نتیجہ دیکھنا ہو گا۔ تم خود سوچو کہ اس پر تمہارے شبہات اور اچنبھے کس قد ر بے اصل ہیں۔ کیا تمہاری آنکھیں رات دن اعادہ خلق کا مشاہدہ نہیں کر رہی ہیں؟پھر تمہارا ہی اعادہ اس خدا کے لیے کیوں ناممکن ہو جس نے تم کو ایک ذرا سے نطفے سے پیدا کر دیا۔ کیا تمہاری عقل یہ گواہی نہیں دیتی کہ بھلے اور بُرے کو یکساں نہ ہونا چاہیے؟ پھر تم ہی بتاؤ کہ معقول بات کیا ہے؟ یہ کہ بھلے اور برے کا انجام یکساں ہو، یعنی مٹی میں ملنا اور فنا ہو جانا؟ یا یہ کہ بھلے کو بھلا اور برے کو برا بدلہ ملے؟ اب اگر ان سراسر معقول اور مبنی بر حقیقت باتوں کو تم نہیں مانتے اور جھوٹے خداؤں کی بندگی نہیں چھوڑتے اور اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھتے ہوئے شتر بے مہا رہی کی طرح دنیا میں جینا چاہتے ہو تو اس میں نبی کا کیا نقصان ہے۔ شامت تو تمہاری اپنی ہی آئے گی۔ نبی پر صرف سمجھانے کی ذمہ داری تھی، اور وہ اس نے ادا کر دی۔

سلسلہ کلام میں بار بار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ جب نصیحت کا حق پوری طرح ادا کر رہے ہیں تو گمراہی پر اصرار کرنے والوں کے راہ راست قبول نہ کرنے کی کوئی ذمہ داری آپ کے اوپر عائد نہیں ہوتی۔ اس کے ساتھ آپ کو یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ جو لوگ نہیں ماننا چاہتے ان کے رویے پر نہ آپ غمگین ہوں اور نہ انہیں راہ راست پر لانے کی فکر میں اپنی جان گھلائیں۔ اس کے بجائے  آپ اپنی توجہات ان لوگوں پر صرف کریں جو بات سننے کے لیے تیار ہیں۔

ایمان قبول کرنے والوں کو بھی اسی سلسلے میں بڑی بشارتیں دی گئی ہیں تا کہ ان کے دل مضبوط ہوں اور وہ اللہ کے وعدوں پر اعتماد کر کے راہ حق میں ثابت قدم رہیں۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اور فرشتوں کو پیغام رساں مقرر کر نے والا (۱) ہے۔ (ایسے فرشتے ) جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار بازو (۲) ہیں۔ وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتا(۳)ہے۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کے  لیے کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد پھر کوئی دوسرا کھولنے والا (۴) نہیں۔ وہ زبردست اور حکیم (۵) ہے۔
لوگو، تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں انہیں یاد (۶) رکھو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رز ق دیتا ہو؟ کوئی معبود اس کے سوا نہیں، آخر تم کہاں سے دھوکا کھا رہے (۷)ہو؟ اب اگر (اے نبی)یہ لوگ تمہیں جھٹلاتے (۸) ہیں (تو یہ کوئی نئی بات نہیں)، تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں، اور سارے معاملات آخر کار اللہ ہی کی طرف رجوع ہونے والے (۹) ہیں۔
لوگو، اللہ کا وعدہ یقیناً بر حق (۱۰) ہے، لہٰذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ (۱۱) ڈالے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے (۱۲) پائے۔ در حقیقت شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے پیروؤں کو اپنی راہ پر بلا رہا ہے کہ وہ دوزخیوں میں شامل ہو جائیں۔ جو لوگ کفر (۱۳) کریں گے ان کے لیے سخت عذاب ہے اور جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر(۱۴) ہے۔ ع

 

 

(۱)۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ فرشتے اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء علیہم السلام کے درمیان پیغام رسانی کی خدمت انجام دیتے ہیں، اور یہ بھی کہ تمام کائنات میں اللہ جل شانہ کے احکام لے جانا اور ان کو نافذ کرنا انہی فرشتوں کا کام ہے۔ ذکر کا مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہے کہ فرشتے  جن کو مشرکین دیوی اور دیوتا بنائے بیٹھے ہیں، ان کی حیثیت اللہ وحدہٗ لا شریک کے فرماں بردار خادموں سے زائد کچھ نہیں ہے۔ جس طرح کسی بادشاہ کے خدام اس کے احکام کی تعمیل کے لیے دوڑے پھرتے ہیں اسے طرح یہ فرشتے کائنات کے فرمانروائے حقیقی کی خدمت بجا لانے کے لیے اُڑے پھرتے ہیں۔ ان خادموں کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ سارے اختیارات اصل فرمانروا کے ہاتھ میں ہیں۔

(۲)۔ ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان فرشتوں کے بازوؤں اور پروں کی کیفیت کیا ہے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے دوسرے الفاظ کے بجائے وہ لفظ استعمال فرمایا ہے جو انسانی زبان میں پرندوں کے بازوؤں کے لیے استعمال ہوتا ہے تو یہ تصور ضرور کیا جا سکتا ہے کہ ہماری زبان کا یہی لفظ اصل کیفیت سے قریب تر ہے۔ دو دو اور تین تین اور چار چار بازوؤں کے ذکر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مختلف فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف درجہ کی طاقتیں عطا فرمائی ہیں اور جس سے جیسی خدمت یعنی مطلوب ہے اس کو ویسی ہی زبردست سرعتِ رفتار اور قوت کار سے آراستہ فرمایا گیا ہے۔

(۳)۔ ان الفاظ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ فرشتوں کی بازوؤں کی انتہائی تعداد چار ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے بعض فرشتوں کو اس سے بھی زیادہ بازو عطا فرمائے ہیں۔ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جبریل علیہ السلام کو ایک مرتبہ اس شکل میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے (بخاری۔ مسلم۔ ترمذی)۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور نے جبریل کو دو مرتبہ ان کی اصلی شکل میں دیکھا ہے، ان کے چھ سو بازو تھے اُفق پر چھائے  ہوئے تھا، (ترمذی)۔

(۴)۔ اس کا مقصود بھی مشرکین کی اس غلط فہمی کو رفع کرنا ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے کوئی انہیں روز گار دلانے والا اور کوئی ان کو اولاد عطا فرمانے والا اور کوئی ان کے بیماروں کو تندرستی بخشنے والا ہے۔ شرک کے یہ تمام تصورات بالکل نے بنیاد ہیں اور خالص حقیقت صرف یہ ہے کہ جس قسم کی رحمت بھی بندوں کو پہنچتی ہے محض اللہ عز و جل کے فضل سے پہنچتی ہے۔ کوئی دوسرا نہ اس کے عطا کرنے پر قادر ہے اور نہ روک دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ مضمون قرآن مجید اور احادیث میں بکثرت مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے تاکہ انسان در در کی بھیک مانگنے اور ہر آستانے پر ہاتھ پھیلانے سے بچے اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ اس کی قسمت کا بننا اور بگڑنا ایک اللہ کے سوا کسی دوسرے کے اختیار میں نہیں ہے۔

(۵)۔ زبردست ہے، یعنی سب پر غالب اور کامل اقتدار اعلیٰ کا مالک ہے۔ کوئی اس کے فیصلوں کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتا۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ حکیم بھی ہے۔ جو فیصلہ بھی وہ کرتا ہے سراسر حکمت کی بنا پر  کرتا ہے۔ کسی کو  دیتا ہے تو اس لیے دیتا ہے کہ حکمت  اسی کی مقتضی ہے۔ اور کسی کو نہیں دیتا تو اس لیے نہیں دیتا کہ اسے دینا حکمت کے خلاف ہے۔

(۶)۔ یعنی احسان فراموش نہ بنو۔ نمک حرامی نہ اختیار کرو۔ اس حقیقت کو نہ بھول جاؤ کہ تمہیں جو کچھ بھی حاصل ہے اللہ کا دیا ہوا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ فقرہ اس بات پر متنبہ کر رہا ہے کہ جو شخص بھی اللہ کے سوا کسی کی بندگی و پرستش کرتا ہے، یا کسی نعمت کو اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کی عطا بخشش سمجھتا ہے، یا کوی نعمت کے ملنے پر اللہ کے سوا کسی اور کا شکر بجا لاتا ہے، یا کوئی نعمت مانگنے کے لیے اللہ کے سوا کسی اور سے دعا کرتا ہے، وہ بہت  بڑا احسان فراموش ہے۔

(۷)۔ پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے کلام کا موقع و محل خود بھر رہا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے یہ نقشہ چشم تصور کے سامنے لایئے کہ تقریر مشرکین کے سامنے ہو رہی ہے۔ مقرر حاضرین سے پوچھتا ہے کہ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی جس نے تم کو پیدا کیا ہو اور جو زمین و آسمان سے تمہاری رزق رسانی کا سامان کر رہا ہو؟ یہ سوال اٹھا کر مقرر چند لمحے جواب کا انتظار کرتا ہے۔ مگر دیکھتا ہے کہ سارا مجمع خاموش ہے۔ کوئی نہیں کہتا کہ اللہ کے سوا کوئی اور بھی خالق و رازق ہے۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حاضرین  کو بھی اس امر کا اقرار ہے کہ خالق و رازق اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ تب مقرر کہتا ہے کہ معبود بھی پھر اس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ آخر تمہیں یہ دھوکا کہاں سے لگ گیا کہ خالق و رازق تو ہو صرف اللہ، مگر معبود بن جائیں اس کے سوا دوسرے۔

(۸)۔ یعنی تمہاری اس بات کو نہیں مانتے کہ اللہ کے سوا عبادت کا مستحق کوئی نہیں ہے، اور تم پر یہ الزام رکھتے ہیں کہ تم نبوت کا ایک جھوٹا دعویٰ لے کر کھڑے ہو گئے  ہو۔

(۹)۔ یعنی فیصلہ لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے کہ جسے وہ جھوٹا کہہ دیں وہ حقیقت میں جھوٹا ہو جائے فیصلہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ آخر کار بتا دے گا کہ جھوٹا کون تھا اور جو حقیقت میں جھوٹے ہیں انہیں ان کا انجام بھی دکھا دے گا۔

(۱۰)۔ وعدے سے مراد آخرت کا وعدہ ہے جس کی طرف اوپر کے اس فقرے میں اشارہ کیا گیا تھا کہ تمام معاملات آخر کار اللہ کے حضور پیش ہونے والے ہیں۔

(۱۱)۔ یعنی اس دھوکے میں کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیا ہے، اس کے بعد کوئی آخرت نہیں ہے جس میں اعمال کا حساب ہونے والا ہو۔ یا اس دھوکے میں کہ اگر کوئی آخرت ہے بھی تو جو اس دنیا میں مزے کر رہا ہے وہ وہاں بھی مزے کرے گا۔

(۱۲)۔ ’’ بڑے دھوکے باز‘‘ سے مراد یہاں شیطان ہے، جیسا کہ آگے کا فقرہ بتا رہا ہے۔ اور ’’ اللہ کے بارے میں‘‘ دھوکا دینے سے مراد یہ ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو تو یہ باور کرائے کہ خدا سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اور کچھ لوگوں کو اس غلط فہمی میں ڈالے  کہ خدا ایک دفعہ دنیا کو حرکت دے کر الگ جا بیٹھا ہے، اب اسے اپنی بنائی ہوئی اس کائنات سے عملاً کوئی سروکار نہیں ہے۔ اور کچھ لوگوں کو یہ چکر دے کہ خدا کائنات کا انتظام تو بے شک کر رہا ہے، مگر اس نے انسانوں کی رہنمائی کرنے کا کوئی ذمہ نہیں لیا ہے، اس لیے یہ وحی و رسالت محض ایک ڈھکوسلا ہے۔ اور کچھ لوگوں کو یہ جھوٹے بھروسے دلائے کہ اللہ بڑا غفور رحیم ہے، تم خواہ کتنے ہی گناہ کرو، وہ بخش دے گا، اور اس کے کچھ پیارے ایسے ہیں کہ ان کا دامن تھام لو تو بیڑا پار ہے۔

(۱۳)۔ یعنی خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی اس دعوت کو ماننے سے انکار کر دیں گے۔

(۱۴)۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کی خطاؤں سے درگزر فرمائے گا اور جو نیک عمل انہوں نے کیے ہوں گے ان کا محض  برابر سرا بر ہی اجر دے کر ہی نہ رہ جائے گا بلکہ انہیں بڑا اجر عطا فر مائے گا۔

 

(بھلا (۱۵) کچھ ٹھکانا ہے اس شخص کی گمراہی کا) جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھ رہا(۱۶) ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے۔ پس (اے نبیؐ) خواہ مخواہ تمہاری جان ان لوگوں کی خاطر غم و افسوس میں نہ (۱۷) گھلے۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا (۱۸) ہے۔ وہ اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے، پھر وہ بادل اٹھاتی ہیں، پھر ہم اسے ایک اُجاڑ علاقے کی طرف لے جاتے ہیں اور اسے زمین کو جِلا اُٹھاتے ہیں جو مری پڑی تھی۔ مرے ہوئے انسانوں کا جی اُٹھنا بھی اسی طرح(۱۹) ہو گا۔
جو کوئی عزت چاہتا ہو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی(۲۰) ہے۔ اس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے، اور عمل صالح اس کو اوپر چڑھاتا (۲۱) ہے۔ رہے وہ لوگ جو بیہودہ چال بازیاں کرتے (۲۲) ہیں، ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر خود ہی غارت ہونے والا ہے۔
اللہ (۲۳) نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ (۲۴)سے، پھر تمہارے جوڑے بنا دیے (یعنی مرد اور عورت)۔ کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور نہ بچہ جنتی ہے  مگر یہ سب کچھ اللہ  کے علم میں ہوتا ہے۔ کوئی عمر پانے والا عمر نہیں پاتا اور نہ کسی کی عمر میں کچھ کمی ہوتی ہے مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا ہوتا (۲۵)ہے۔ اللہ کے لیے یہ بہت آسان کام (۲۶) ہے۔ اور پانی کے دونوں ذخیرے یکساں نہیں(۲۷) ہیں۔ ایک میٹھا اور پیاس بجھانے والا ہے، پینے میں خوشگوار، اس دوسرا سخت کھاری کہ حلق چھل دے۔ مگر دونوں سے تم تر و تازہ گوشت حاصل کرتے (۲۸)ہو، پہننے کے لیے زینت کا سامان نکالتے (۲۹)ہو، اور اسی پانی میں تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس کا سینہ چیرتی چلی جا رہی ہیں تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکر گزار بنو۔ وہ دن کے اندر رات کے اندر دن کو پروتا ہوا لے آتا (۳۰) ہے۔ چاند اور سورج کو اس نے مسخر کر رکھا(۳۱)ہے۔ یہ سب کچھ ایک وقت مقرر تک چلے جا رہا ہے۔ وہی اللہ (جس کے یہ سارے کام ہیں)تمہارا رب ہے۔ بادشاہی اسی کی ہے۔ اسے چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتے ہو  وہ ایک پرکاہ (۳۲) کے مالک بھی نہیں ہیں۔ انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں  تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے (۳۳) سکتے۔ اور قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں(۳۴) گے۔ حقیقت حال کی ایسی صحیح خبر تمہیں ایک خبردار کے سوا کوئی دے (۳۵) سکتا۔ ع

 

(۱۵)۔ اوپر کے دو پیراگراف عوام الناس کو خطاب کر کے ارشاد ہوئے تھے۔ اب اس پیر گراف میں ان علمبرداران ضلالت کا ذکر ہو رہا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔

(۱۶)۔ یعنی ایک بگڑا ہوا آدمی تو وہ ہوتا ہے جو برا کام تو کرتا ہے مگر یہ جانتا اور مانتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے برا کر رہا ہے۔ ایسا شخص سمجھانے سے  بھی درست ہو سکتا ہے اور کبھی خود اس کا اپنا ضمیر بھی ملامت کر کے اسے راہ راست پر لا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کی صرف عادتیں ہی بگڑی ہیں۔ ذہن نہیں بگڑا۔ لیکن ایک دوسرا شخص ایسا ہوتا ہے جس کا ذہن بگڑ چکا ہوتا ہے، جس میں برے اور بھلے کی تمیز باقی نہیں رہتی، جس کے لیے گناہ کی زندگی ایک مرغوب اور تابناک زندگی ہوتی ہے، جو نیکی سے گھن کھاتا ہے اور بدی کو عین تہذیب و ثقافت سمجھتا ہے، جو صلاح و تقویٰ کو دقیانوسیت اور فسق و فجور کو ترقی پسندی خیال کرتا ہے، جس کی نگاہ میں ہدایت گمراہی اور گمراہی سراسر ہدایت بن جاتی ہے۔ ایسے شخص پر کوئی نصیحت کار گر نہیں ہوتی۔ وہ نہ خود اپنی حماقتوں پر متنبہ ہوتا ہے اور نہ کسی سمجھانے والے کی بات سن کر دیتا ہے۔ ایسے آدمی کے پیچھے پڑنا لا حاصل ہے۔ اسے ہدایت دینے کی فکر میں اپنی جان گھلانے کے بجائے داعی حق کو ان لوگوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے جن کے ضمیر میں ابھی زندگی باقی ہو اور جنہوں نے اپنے دل کے دروازے حق کی آواز کے لیے بند نہ کر لیے ہوں۔

(۱۷)۔ پہلے فقرے اور اس فقرے کے درمیان یہ ارشاد کہ ’’ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے ‘‘ صاف طور پر یہ معنی دے رہا ہے کہ جو لوگ اس حد تک اپنے ذہن کو بگاڑ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کی توفیق سے محروم کر دیتا ہے اور انہی راہوں میں بھٹکنے کے لیے انہیں چھوڑ دیتا ہے جن میں بھٹکتے رہنے پر وہ خود مصر ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت سمجھا کر اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تلقین فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو راہ راست پر لے آنا تمہارے بس میں نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے معاملہ میں صبر کر لو اور جس طرح اللہ کو ان کی پروا نہیں رہی ہے تم بھی ان کے حال پر غم کھانا چھوڑ دو۔

اس مقام پر دو باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں۔ ایک یہ کہ یہاں جن لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ عامۃ الناس نہیں تھے بلکہ مکہ معظمہ کے وہ سردار تھے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے ہر جھوٹ، ہر فریب اور ہر مکر سے کام لے رہے تھے۔ یہ لوگ در حقیقت حضورؐ  کے متعلق کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ تھے۔ خوب جانتے تھے کہ آپ کس چیز کی طرف بلا رہے ہیں اور آپ کے مقابلے میں وہ خود کن جہالتوں اور  اخلاقی خرابیوں کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ سب کچھ جاننے اور سمجھ  لینے کے بعد ٹھنڈے دل سے ان کا فیصلہ یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم  کی بات کو نہیں چلنے دینا ہے۔ اور اس غرض کے لیے انہیں کوئی اوچھے سے اوچھا ہتھیار  اور کوئی ذلیل سے ذلیل ہتھکنڈا استعمال کرنے میں باک نہ تھا۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ جو لوگ جان بوجھ کر اور آپس میں مشورے کر کر کے آئے دن ایک نیا جھوٹ تصنیف کریں اور اسے کسی شخص کے خلاف پھیلائیں وہ دنیا بھر  کو دھوکا دے سکتے ہیں مگر خود اپنے آپ کو تو وہ جھوٹا جانتے ہیں اور خود ان سے تو یہ بات چھپی ہوئی نہیں ہوتی کہ جس شخص پر انہوں نے ایک الزام لگایا ہے وہ اس سے بری ہے۔ پھر اگر وہ شخص جس کے خلاف یہ جھوٹے ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہوں، ان کے جواب میں کبھی صداقت و راستبازی سے ہٹ کر کوئی بات نہ کرے تو ان ظالموں سے یہ بات بھی کبھی چھپی نہیں رہ سکتی کہ ان کا مد مقابل ایک سچا اور کھرا انسان ہے۔ اس پر بھی جن لوگوں کو اپنے کرتوتوں پر ذرا شرم نہ آئے اور وہ سچائی کا مقابلہ مسلسل جھوٹ سے کرتے ہی چلے جائیں ان کی یہ روش خود ہی اس بات پر شہادت دیتی ہے کہ اللہ کی پھٹکار ان پر پڑ چکی ہے اور  ان میں برے بھلے کی کوئی تمیز باقی نہیں رہی ہے۔

دوسری بات جسے اس موقع پر سمجھ لینا چاہیے وہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے پیش نظر محض اپنے رسول پاک کو ان کی حقیقت سمجھانا ہوتا وہ خفیہ طور پر صرف آپ ہی کو سمجھا سکتا تھا۔ اس غرض کے لیے وحی جلی میں علی الاعلان اس کے ذکر کی حاجت نہ تھی۔ قرآن مجید میں اسے بیان کرنے اور  دنیا بھر کو سنا دینے کا مقصود در اصل عوام الناس کو متنبہ کرنا تھا کہ جب لیڈروں اور پیشواؤں کے پیچھے تم آنکھیں بند کیے چلے جا رہے ہو وہ کیسے بگڑے ہوئے ذہن کے لوگ ہیں اور ان کی بیہودہ حرکات کس طرح منہ سے پکار پکار کر بتا رہی ہیں کہ ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے۔

(۱۸)۔ اس فقرے میں آپ سے یہ دھمکی پوشیدہ ہے کہ ایک وقت آئے گا جب اللہ تعالیٰ انہیں ان کرتوتوں کی سزا دے گا۔ کسی حاکم کا کسی مجرم کے متعلق یہ کہنا کہ میں اس کی حرکتوں سے خوب واقف ہوں، صرف یہی معنی نہیں دیتا کہ حاکم کو اس کی حرکتوں کا علم ہے بلکہ اس میں یہ تنبیہ لازماً مضمر ہوتی ہے کہ میں اس کی خبر لے کر رہوں گا۔

(۱۹)۔ یعنی یہ نادان لوگ آخرت کو بعید از امکان سمجھتے ہیں اور اسی لیے اپنی جگہ اس خیال میں مگن ہیں کہ دنیا میں یہ خواہ کچھ کرتے رہیں بہر حال وہ وقت کبھی آنا نہیں ہے جب انہیں جواب دہی کے لیے خدا کے حضور حاضر  ہونا پڑے گا۔ لیکن یہ محض ایک خیال خام ہے جس میں یہ مبتلا ہیں۔ قیامت کے روز تمام اگلے پچھلے مرے ہوئے انسان اللہ تعالیٰ کے ایک اشارے پر بالکل اسی طرح یکا یک  جی اٹھیں گے جس طرح ایک بارش ہوتے ہی سونی پڑی ہوئی زمین یکا یک لہلہا اٹھتی ہے اور مدتوں کی مری ہوئی جڑیں سر سبز و شاداب ہو کر زمین کی تہوں میں سے سر نکالنا شروع کر دیتی ہیں۔

(۲۰)۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ قریش کے سردار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں جو کچھ بھی کر رہے تھے اپنی عزت اور اپنے وقار کی خاطر کر رہے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بات چل گئی تو ہماری بڑائی ختم ہو جائے  گی، ہمارا اثر و رسوخ مٹ جائے گا اور ہماری جو عزت سارے عرب میں بنی ہوئی ہے وہ خاک  میں مل جائے گی۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے  کہ خدا سے کفر و بغاوت کر کے جو عزت تم نے بنا رکھی ہے، یہ تو ایک جھوٹی عزت ہے جس کے  لیے خاک ہی میں ملنا مقدر ہے حقیقی عزت اور پائدار  عزت جو دنیا سے لے کر عقبیٰ تک کبھی ذلت آشنا نہیں ہو سکتی، صرف خدا کی بندگی میں ہی میسر آ سکتی ہے۔ اس کے ہو جاؤ گے تو وہ تمہیں مل جائے گی۔ اور اس سے منہ موڑ و گے تو ذلیل و خوار ہو کر رہو گے۔

(۲۱)۔ یہ ہے عزت حاصل کرنے کا اصل ذریعہ۔ اللہ کے ہاں جھوٹے اور خبیث اور مفسدانہ اقوال کو کبھی عروج نصیب نہیں ہوتا۔ اس کے ہاں تو صرف وہ قول عروج پاتا ہے  جو سچا ہو، پاکیزہ ہو، حقیقت پر مبنی ہو، اور جس میں نیک نیتی کے ساتھ ایک صالح عقیدے اور ایک صحیح طرز فکر کی ترجمانی کی گئی ہو۔ پھر جو چیز ایک پاکیزہ کلمے کو عروج کی طرف لے جاتی ہے وہ قول کے مطابق عمل ہے۔ جہاں قول بڑا پاکیزہ ہو مگر عمل اس کے خلاف ہو وہاں قول کی پاکیزگی ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔ محض زبان کے پھاگ اُڑانے سے کوئی کلمہ بلند نہیں ہوتا۔ اسے عروج پر پہنچانے کے لیے عمل صالح کا زور درکار ہوتا ہے۔

اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن  مجید قول صالح اور عمل صالح کو لازم و ملزوم کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ کوئی عمل محض اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے صالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی پشت پر عقیدہ صالحہ نہ ہو۔ اور کوئی عقیدہ صالحہ ایسی حالت میں معتبر نہیں ہو سکتا جب تک کہ آدمی کا عمل اس کی تائید و تصدیق نہ کر رہا ہو۔ ایک شخص اگر زبان سے کہتا ہے کہ میں صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کو معبود مانتا ہوں، مگر عملاً وہ غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اس کا یہ عمل اس کے قول کی تکذیب کر دیتا ہے۔ ایک شخص زبان سے کہتا ہے کہ میں شراب کو حرام مانتا ہوں، مگر عملاً وہ شراب پیتا ہے تو اس کا محض قول نہ خلق کی نگاہ میں مقبول ہو سکتا ہے نہ خدا کے ہاں اسے کوئی قبولیت نصیب ہو سکتی ہے۔

(۲۲) یعنی باطل اور خبیث کلمے لے کر اٹھتے ہیں، ان کو چالاکیوں سے، فریب کاریوں سے  اور نظر فریب استدلالوں سے فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان کے مقابلے میں کلمہ حق کو نیچا دکھانے  کے لیے کوئی بری سے بُری تدبیر استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔

(۲۳)۔ یہاں سے پھر روئے سخن عوام الناس کی طرف پھرتا ہے۔

(۲۴)۔ یعنی انسان کی آفرینش پہلے براہ راست مٹی سے کی گئی، پھر اس کی نسل نطفے سے چلائی گئی۔

(۲۵)۔ یعنی جو شخص بھی  دنیا میں پیدا ہوتا ہے اس کے متعلق پہلے ہی یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ اسے دنیا میں کتنی عمر پانی ہے۔ کسی کی عمر دراز ہوتی ہے تو اللہ کے حکم سے ہوتی ہے، اور چھوٹی ہوتی ہے تو وہ بھی اللہ ہی کے فیصلے کی بنا پر  ہوتی  ہے۔ بعض نادان لوگ  اس کے جواب میں یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ پہلے نو زائیدہ  بچوں کی موتیں بکثرت واقع ہوتی تھیں اور اب علم طب کی ترقی نے ان اموات کو روک دیا ہے۔ اور پہلے لوگ کم عمر پاتے تھے، اب وسائل علاج بڑھ جانے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ عمریں طویل ہوتی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ دلیل قرآن مجید کے اس بیان کی تردید میں صرف اس وقت پیش کی جا سکتی تھی جبکہ کسی ذریعہ سے ہم کو یہ معلوم ہو جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے تو فلاں شخص کی عمر مثلاً دو سال لکھی تھی اور ہمارے طبی وسائل نے اس میں ایک دن کا اضافہ کر دیا۔ اس طرح کا کوئی علم اگر کسی کے  پاس نہیں ہے تو وہ کسی معقول بنیاد پر قرآن کے اس ارشاد کا معارضہ نہیں کر سکتا۔ محض یہ بات کہ اعداد و شمار کی رو سے اب بچوں کی شرح اموات گھٹ گئی ہے، یا پہلے کے مقابلہ میں اب لوگ زیادہ عمر پا رہے ہیں، اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ انسان اب اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کو بدلنے پر قادر ہو گیا ہے۔ آخر اس میں کیا  عقلی استبعاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف زمانوں میں پیدا ہونے والے انسانوں کی عمریں مختلف طور پر فرمائی ہوں، اور یہ بھی اللہ عزوجل ہی کا فیصلہ  ہو کہ فلاں زمانے میں انسان کو فلاں امراض کے علاج کی قدرت عطا کی جائے گی اور فلاں دور میں انسان کو بقائے حیات کے فلاں ذرائع بخشے جائیں گے۔

(۲۶)۔ یعنی  اتنی بے شمار مخلوق کے بارے میں اتنا تفصیلی علم اور فرد فرد کے بارے میں اتنے مفصل احکام اس فیصلے کرنا اللہ کے لیے کوئی دشوار کام نہیں ہے۔

(۲۷)۔ یعنی ایک وہ ذخیرہ جو سمندروں میں ہے۔ دوسرا وہ ذخیرہ جو دریاؤں، چشموں اور جھیلوں میں ہے۔

(۲۸)۔ یعنی آبی جانوروں کا گوشت۔

(۲۹)۔ یعنی موتی، مونگے، اور بعض دریاؤں سے ہیرے اور سونا۔

(۳۰)۔ یعنی دن کی روشنی آہستہ آہستہ گھٹنی شروع ہوتی ہے اور رات کی تاریکی بڑھتے بڑھتے آخر کار پوری طرح چھا جاتی ہے۔ اسے طرح رات کے آخر میں پہلے اُفق پر ہلکی سے روشنی نمودار ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ روز روشن نکل آتا ہے۔

(۳۱)۔ ایک ضابطہ کا پابند بنا رکھا ہے۔

(۳۲)۔ اصل میں لفظ قِطْمِیْر  استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد وہ پتلی سی جھلّی ہے جو کھجور کی گٹھلی پر ہوتے ہے۔ لیکن اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ مشرکین کے معبود کسی حقیر سے حقیر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اسی لیے ہم نے لفظی ترجمہ چھوڑ کر مرادی ترجمہ کیا ہے۔

(۳۳)۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ تمہاری دعا کے جواب  میں پکار کر کہہ نہیں سکتے کہ تمہاری دعا قبول کی گئی یا نہیں کی گئی۔  بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہاری درخواستوں پر کوئی کاروائی نہیں کر سکتے۔ ایک شخص اگر اپنی درخواست کسی ایسے شخص کے پاس بھیج دیتا ہے جو حاکم نہیں ہے تو اس کی درخواست رائگاں جاتی ہے، کیونکہ وہ جس کے پاس بھیجی گئی ہے اس کے ہاتھ میں سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں ہے، نہ رد کرنے کا اختیار اور نہ قبول کرنے کا اختیار۔ البتہ اگر وہی درخواست اس ہستی کے پاس بھیجی جائے جو واقعی حاکم ہو،  تو اس پر لازماً کوئی نہ کوئی کارروائی ہو گی، قطع نظر اس سے کہ وہ قبول کرنے کی شکل میں ہو  یا رد کرنے کی شکل میں۔

(۳۴)۔ یعنی وہ صاف کہہ دیں گے کہ ہم نے ان سے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ ہم خدا کے شریک ہیں، تم ہماری عبادت کیا کرو۔ بلکہ ہمیں یہ خبر بھی نہ تھی کہ یہ ہم کو اللہ رب العالمین  کا شریک ٹھیرا رہے ہیں اور ہم سے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ ان کی کوئی دعائیں نہیں پہنچی اور ان کی کسی نذر و نیاز کی ہم تک رسائی نہیں ہوئی۔

(۳۵)۔ خبردار  سے مراد اللہ تعالیٰ خود ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دوسرا کوئی شخص تو زیادہ سے زیادہ عقلی استدلال سے شرک کی تردید اور مشرکین کے معبودوں کی بے اختیاری بیان کرے گا۔ مگر ہم حقیقت حال سے براہ راست با خبر ہیں۔ ہم علم کی بنا پر تمہیں بتا رہے ہیں کہ لوگوں نے جن جن کو بھی ہماری خدائی میں با اختیار ٹھیرا رکھا  ہے وہ سب بے اختیار ہیں۔ ان کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے جس سے وہ کسی کا کوئی کام بنا سکیں یا بگاڑ سکیں۔ اور ہم براہ راست یہ جانتے ہیں کہ قیامت کے روز مشرکین کے یہ معبود خود ان کے شرک کی تردید کریں گے۔

 

لوگو، تم ہی اللہ کے محتاج(۳۶) ہو اور اللہ تو غنی و حمید (۳۷) ہے۔ وہ چاہے تو تمہیں ہٹا کر کوئی نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے، ایسا کرنا اللہ کے لیے کچھ بھی دشوار (۳۸)نہیں۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے (۳۹) گا۔ اور اگر کوئی لدا ہوا نفس اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے پکارے گا تو اس کے بار کا ایک ادنیٰ حصہ بھی بٹانے کے لیے کوئی نہ آئے گا چاہے وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیاں نہ(۴۰) ہو۔ (اے نبی ) تم صرف انہی لوگوں کو متنبہ کر سکتے ہو جو بے دکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے (۴۱) ہیں۔ جو شخص بھی پاکیزگی اختیار کرتا ہے اپنی ہی بھلائی کے لیے کرتا ہے اور پلٹنا سب کو اللہ ہی کی طرف ہے۔ اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہے۔ نہ تاریکیاں اور روشنی یکساں ہیں۔ نہ ٹھنڈی چھاؤں اور دھوپ کی تپش ایک جیسی ہے۔ اور نہ زندے اور مردے مساوی(۴۲)ہیں۔ اللہ جسے چاہتا ہے سنواتا ہے، مگر (اے نبی )تم ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون(۴۳) ہیں۔ تم تو بس ایک خبردار کرنے والے (۴۴) ہو۔ ہم نے تم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔ اور کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا(۴۵) ہو۔ اب اگر یہ لوگ تمہیں جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں۔ ان کے پاس ان کے رسول کھلے دلائل(۴۶) اور صحیفے اور روشن ہدایات دینے والی کتاب(۴۷) لے کر آئے تھے۔ پھر جن لوگوں نے نہ مانا ان کو میں نے پکڑ لیا اور دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی۔ ع

(۳۶) یعنی اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ خدا تمہارا محتاج ہے، تم اسے خدا نہ مانو گے تو اس کی خدائی نہ چلے گی، اور تم اس کی بندگی و عبادت نہ کرو گے تو اس کا کوئی نقصان ہو جائے گا۔ نہیں، اصل حقیقت یہ ہے کہ تم اس کے محتاج ہو۔ تمہاری زندگی ایک لمحہ کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتی اگر وہ تمہیں زندہ نہ رکھے اور وہ اسباب تمہارے لیے فراہم نہ کرے جن کی بدولت تم دنیا میں زندہ رہتے ہو اور کام کر سکتے ہو۔ لہٰذا  تمہیں اس کی اطاعت و عبادت اختیار کرنے کی جو تاکید کی جاتی ہے وہ اس لیے نہیں ہے کہ خدا کو اس کی احتیاج ہے بلکہ اس لیے ہے کہ اسی پر تمہاری اپنی دنیا اور آخرت کی فلاح کا انحصار ہے۔ ایسا نہ کرو گے تو اپنا ہی سب کچھ بگاڑ لو گے، خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے۔

(۳۷)۔ ’’غنی ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ ہر چیز کا مالک ہے، ہر ایک سے مستغنی اور بے نیاز ہے، کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہے۔ اور ’’حمید ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ آپ سے آپ محمود ہے، کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے مگر حمد(شکر اور تعریف ) کا استحقاق اسی کو پہنچتا ہے۔ ان دونوں صفات کو ایک ساتھ اس لیے لایا گیا ہے کہ محض غنی تو وہ بھی ہو سکتا ہے جو اپنی دولت مندی  سے کسی کو نفع نہ پہنچائے۔ اس صورت میں وہ غنی تو ہو گا مگر حمید نہ اسے صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ وہ کسی سے خود تو کوئی فائدہ نہ اٹھائے مگر اپنی دولت کے خزانوں سے دوسروں کو ہر طرح کی نعمتیں عطا کرے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ ان دونوں صفات میں کامل ہے اس لیے فرمایا گیا ہے کہ وہ محض غنی نہیں ہے بلکہ ایسا غنی ہے جسے ہر تعریف اور شکر کا استحقاق پہنچتا ہے کیوں کہ وہ تمہاری اور تمام موجودات عالم کی حاجتیں پوری کر رہا ہے۔

(۳۸)۔ یعنی تم کچھ اپنے بل بوتے پر اس کی زمین میں نہیں دندنا رہے ہو۔ اس کا ایک اشارہ اس بات کے لیے کافی ہے کہ تمہیں یہاں سے چلتا کرے اور کسی اور قوم کو تمہاری جگہ اٹھا کھڑا کرے۔ لہٰذا اپنی اوقات پہچانو اور وہ روش اختیار نہ کرو جس سے آخر کار قوموں کی شامت آیا کرتی ہے۔ خدا کی طرف سے جب کسی کی شامت آتی ہے تو ساری کائنات میں کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ سکے اور اس کے فیصلے کو نافذ ہونے سے روک سکے۔

(۳۹)۔ ’’ بوجھ‘‘ سے مراد اعمال کی ذمہ داریوں کا بوجھ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے  ہاں ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے، اور ہر ایک پر صرف اس کے  اپنے ہی عمل کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس امر کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری کا بار اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی دوسرے پر ڈال دیا جائے۔ اور نہ یہی ممکن کہ کوئی شخص کسی دوسرے کی ذمہ داری کا بار خود اپنے اوپر لے لے اور اسے بچانے کے لیے اپنے آپ کو اس کے  جرم میں پکڑ وا دے۔ یہ بات یہاں اس بنا پر فرمائی جا رہی ہے کہ مکہ معظمہ میں جو لوگ اسلام قبول کر رہے تھا ان سے ان کے مشرک رشتہ دار اور برادری کے لوگ کہتے تھے کہ تم ہمارے کہنے سے اس نئے دین کو چھوڑ دو اور دین آبائی پر قائم رہو، عذاب ثواب ہماری گردن پر۔

(۴۰)۔ اوپر کے فقرے میں اللہ کے قانون عدل کا بیان ہے کہ وہ ایک کے گیاہ میں دوسرے کو نہ پکڑے گا، بلکہ ہر ایک کو اس کے اپنے ہی گناہ کا ذمہ دار ٹھیرائے گا۔ اور اس فقرے میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو لوگ آج یہ بات کہہ رہے ہیں کہ تم ہماری ذمہ داری پر کفر و معصیت ارتکاب کرو، قیامت کے روز ہم تمہارا بار گناہ اپنے اوپر لے لیں گے، وہ دراصل محض ایک جھوٹا بھروسا دلا رہے ہیں۔ جب قیامت آئے گی اور لوگ دیکھ لیں گے کہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے وہ کس انجام سے دوچار ہونے والے ہیں تو ہر ایک کو اپنی پڑ جائے گی۔ بھائی بھائی سے اور باپ بیٹے سے منہ موڑ لے گا اور کوئی کسی کا ذرہ برابر بوجھ بھی اپنے اوپر لینے کے لیے تیار نہ ہو گا۔

(۴۱)۔ بالفاظ دیگر  ہٹ دھرم اور ہیکڑ لوگوں پر تمہاری تنبیہات کار گر نہیں ہو سکتیں۔ تمہارے سمجھانے  سے تو وہی لوگ راہ راست پر آ سکتے ہیں جن کے دل میں خدا کا خوف ہے اور جو اپنے ما لک حقیقی کے آگے جھکنے کے لیے تیار ہیں۔

(۴۲)۔ ان تمثیلات میں مومن اور کافر کے حال اور مستقبل کا فرق بتایا گیا ہے۔ ایک وہ شخص ہے جو حقائق سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے اور کچھ نہیں دیکھتا کہ کائنات کا سارا نظام اور خود اس کا اپنا وجود صداقت کی طرف اشارے کر رہا ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کی آنکھیں کھلی ہیں اور وہ صاف دیکھ رہا ہے کہ اس کے باہر اور اندر کی ہر چیز خدا کی توحید اور اس کے حضور انسان کی جوابدہی پر گواہی دے رہی ہے۔ ایک وہ شخص ہے جو جاہلانہ اوہام اور مفروضات  و قیاسات کی تاریکیوں میں بھٹک رہا ہے اور پیغمبر کی روشن کی ہوئی شمع کے قریب بھی پھٹکنے کے لیے تیا ر نہیں۔ دوسرا  وہ شخص ہے جس کی آنکھیں کھلی ہیں اور پیغمبر کی پھیلائی ہوئی روشنی سامنے آتے ہی اس پر یہ بات بالکل عیاں ہو گئی  ہے کہ مشرکین اور کفار اور دہریے جن راہوں پر چل رہے ہیں وہ سب تباہی کی طرف جاتی ہیں اور فلاح کی راہ صرف وہ ہے جو خدا کے رسول نے دکھائی ہے۔ اب آخر یہ کیونکر ممکن ہے کہ دنیا میں ان دونوں کا رویہ یکساں ہو اور دونوں ایک ساتھ ایک ہی راہ پر چل سکیں؟ اور آخر یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ دونوں کا انجام یکساں ہو اور دونوں ہی مر کر فنا ہو جائیں، نہ ایک کو بد راہی کی سزا ملے، نہ دوسرا راست روی کا کوئی انعام پائے؟ ’’ ٹھنڈی چھاؤں اور دھوپ کی تپش ایک جیسی نہیں ہے ‘‘ کا اشارہ اسی انجام کی طرف ہے کہ ایک اللہ کے سایہ رحمت میں جگہ پانے والا ہے اور دوسرا جہنم کی تپش میں جھلسنے والا ہے۔ تم کس خیال خام میں مبتلا ہو کہ آخر کار دونوں ایک ہی انجام سے دوچار ہوں گے۔ آخر میں مومن کو زندہ سے اور ہٹ دھرم کافروں کو مردہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یعنی مومن وہ ہے جس کے اندر احساس و ادراک اور فہم و شعور موجود ہے اور اس کا ضمیر اسے بھلے اور برے کی تمیز سے ہر وقت آگاہ کر رہا ہے۔ اور اس کے بر عکس جو شخص کفر کے تعصب میں پوری طرح غرق ہو چکا ہے اس کا حل اس اندھے سے بھی بدتر ہے جو تاریکی میں بھٹک رہا ہو، اس کی حالت تو اس مردے کی سی ہے جس میں کوئی حِس باقی نہ رہی ہو۔

(۴۳)۔ یعنی اللہ کی مشیت کی تو بات ہی دوسری ہے، وہ چاہے تو پتھروں کو سماعت بخش دے، لیکن رسولؐ کے جس کا یہ کام نہیں ہے کہ جن لوگوں کے سینے ضمیر کے مدفن بن چکے ہوں ان کے دلوں میں اپنی بات اتار سکے اور جو بات سننا ہی نہ چاہتے ہوں ان کے بہرے کانوں کو صدائے حق سنا سکے۔ وہ تو انہی لوگوں کو سنا سکتا ہے جو معقول بات پر کان دھرنے کے  لیے تیار ہوں۔

(۴۴)۔ یعنی تمہارا کام لوگوں کو خبردار کر دینے سے زائد کچھ نہیں ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی ہوش میں نہیں آتا اور اپنی گمرا ہیوں ہی میں بھٹکتا رہتا ہے تو اس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہیں ہے۔ اندھوں کو دکھانے  اور بہروں کو سنانے  کی خدمت تمہارے سپرد نہیں کی گئی ہے۔

(۴۵)۔ یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمائی گئی ہے کہ دنیا میں کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس ی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی مبعوث نہ فرمائے ہوں۔ سورہ رعد میں فرمایا وَلِکُلِّ قَوْم ھَاد (آیت۷)۔ سورہ حجر میں فرمایا  وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ اَبْلِکَ فَیْ شِیَعِ الْاَ وَّ لِیْنَ (آیت ۱۰)۔ سورہ نحل میں فرمایا وَلَقَدْ بَعَثْنَا فَیْ کُلِّ اُمَّۃ رَّ سُوْلاً (آیت ۳۶)۔ سورہ شعراء میں فرمایا   وَمَا اَھْلکْنَا مِنْ قَرْیَۃ اِلَّا لَھَا مُنْذِرُوْنَ (آیت ۲۰۸)۔ مگر اس سلسلے میں دو باتیں سمجھ لینی چاہییں تاکہ کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ اول یہ کہ ایک نبی کی تبلیغ جہاں جہاں تک پہنچ سکتی ہو وہاں کے لیے وہی نبی کافی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ہر بستی اور ہر ہر قوم میں الگ الگ ہی انبیا ء بھیجے جائیں۔ دوم یہ کہ ایک نبی کی دعوت و ہدایت کے آثار اور اس کی رہنمائی کے نقوش قدم جب تک محفوظ نہیں اس وقت تک کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ لازم نہیں کہ ہر نسل اور ہر پشت کے لیے الگ نبی بھیجا جائے۔

(۴۶)۔ یعنی ایسے دلائل جو اس بات کی صاف شہادت دیتے تھے کہ وہ اللہ کے رسولؐ ہیں۔

(۴۷) صحیفوں اور کتاب میں غالباً یہ فرق ہے کہ صحیفے زیادہ تر نصائح اور اخلاقی ہدایات پر مشتمل ہوتے تھے،  اور کتاب ایک پوری شریعت لے کر آتی تھی۔

 

کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور پھر اس کے ذریعہ سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ پہاڑوں میں بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف (۴۸)ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں  میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے (۴۹) ہیں۔ نے شک اللہ زبردست اور درگزر فرمانے والا(۵۰)ہے۔
جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں سے کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں، یقیناً وہ ایک ایسی تجارت کے متوقع جس میں ہر گز خسارہ نہ ہو گا۔ (اس تجارت میں انہوں نے اپنا سب کچھ اس لیے کھپایا ہے ) تاکہ اللہ ان کے اجر پورے کے پورے ان کو دے اور مزید اپنے فضل سے ان کو عطا (۵۱)فرمائے۔ بے شک اللہ بخشنے والا اور قدردان (۵۲) ہے۔ (اے نبیؐ) جو کتاب ہم نے تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی ہے وہی حق ہے، تصدیق کرتی ہوئی آئی ہے ان کتابوں کی جو اس سے پہلے آئی(۵۳) تھیں۔ بے شک اللہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور ہو چیز پر نگاہ رکھنے والا(۵۴) ہے۔ پھر ہم نے اس کتاب کا وارث  بنا دیا ان  لوگوں کو جنہیں ہم نے (اس وراثت کے لیے ) اپنے بندوں میں  سے چن(۵۵) لیا۔ اب کوئی تو ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے، اور کوئی بیچ کی راس ہے، اور کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے، یہی بہت بڑا فضل (۵۶) ہے۔ ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن میں یہ لوگ داخل ہوں (۵۷) گے۔ وہاں انہیں سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیا جائے گا، وہاں ان کا لباس ریشم ہو گا، اور وہ کہیں گے کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے غم دور کر(۵۸) دیا، یقیناً ہمارا رب معاف کرنے والا اور قدر فرمانے والا(۵۹)ہے، جس نے اپنے  فضل سے ابدی قیام کی جگہ ٹھیرا (۶۰) دیا، اب یہاں نہ ہمیں کوئی مشقت پیش آتی لے اور نہ تکان لاحق ہوتی (۶۱)ہے۔
اور جب لوگوں نے کفر کیا (۶۲) ہے ان کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ نہ ان کا قصہ پاک کر دیا  جائے گا کہ مر جائیں  اور نہ ان کے لیے جہنم کے عذاب میں کوئی کمی کی جائے گی۔ اس طرح ہم بدلہ دیتے ہیں ہر اس شخص کو جو کفر کرنے والا ہو۔ وہ وہاں چیخ چیخ کر کہیں گے  کہ ’’ اے ہمارے رب، ہمیں یہاں سے نکال لے تاکہ ہم نیک عمل کریں ان اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے۔ ‘‘ (انہیں جواب دیا جائے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتا(۶۳) تھا؟ اور تمہارے پاس متنبہ کرنے والا بھی آ چکا تھا۔ اب مزا چکھو۔ ظالموں کا یہاں کوئی مدد گار نہیں ہے ‘‘۔ ع

 

(۴۸)۔ اس سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ خدا کی پیدا کردہ کائنات میں کہیں بھی یک رنگی و یکسانی نہیں ہے۔ ہر طرف تنُّوع ہی تنُّوع ہے ایک ہے زمین اور ایک ہی پانی سے طرح طرح کے درخت نکل رہے ہیں اور ایک درخت کے دو پھل تک اپنے رنگ، جسامت اور مزے میں یکساں نہیں ہیں۔ ایک ہی پہاڑ کو دیکھو تو اس میں کئی کئی رنگ تمہیں نظر آئیں گے اور اس کے مختلف حصوں کی مادی ترکیب میں بڑا فرق پایا  جائے گا۔ انسانوں اور جانوروں میں ایک ماں باپ کے دو  بچے تک یکساں نہ ملیں گے۔ اس کائنات میں اگر کوئی مزاجوں اور طبیعتوں اور ذہنیتوں کی یکسانی ڈھونڈے اور وہ اختلافات دیکھ کر  گھبرا اٹھے جن کی طرف اوپر (آیت نمبر ۱۹ تا ۲۲ میں )اشارہ کیا گیا ہے تو یہ اس کے اپنے فہم کی کوتاہی ہے۔ یہی تنوع اور اختلاف تو پتہ دے رہا ہے کہ اس کائنات کو کسی زبردست حکیم نے بے شمار حکمتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس کا بنانے والا کوئی بے نظیر خلاّق اور بے مثل صنّاع ہے جو ہر چیز کا کوئی ایک ہی نمونہ لے کر نہیں بیٹھ گیا ہے، بلکہ اس کے پاس ہر شے کے لیے نئے سے نئے ڈیزائن اور بے حد و حساب ڈیزائن ہیں۔ پھر خاص طور پر انسانی طبائع اور اذہان کے اختلاف پر کوئی شخص غور کرے تو اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ در حقیقت  حکمت تخلیق کا شاہ کار ہے۔ اگر تمام انسان پیدائشی طور پر اپنی افتاد طبع اور اپنی خواہشات، جذبات، میلانات اور طرز فکر کے لحاظ سے یکساں بنا دیے جاتے اور کسی اختلاف کی کوئی گنجائش نہ رکھی جاتی تو دنیا میں انسان کی قوم کی ایک نئی مخلوق پیدا کرنا ہی میرے سے لا حاصل ہو جاتا۔ خالق نے جب اس زمین پر ایک ذمہ دار مخلوق اور اختیارات کی حامل مخلوق وجود میں لانے کا فیصلہ کیا تو اس فیصلے کی نوعیت کا لازمی تقاضا یہی تھا کہ اس کی ساخت میں ہر قسم کے اختلافات کی گنجائش رکھی  جاتی۔ یہ چیز اس بات کی سب سے بڑی شہادت ہے کہ انسان کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ایک عظیم الشان حکیمانہ منصوبے کا نتیجہ ہے اور ظاہر ہے کہ حکیمانہ منصوبہ جہاں بھی پایا  جائے گا وہاں لازماً اس کے پیچھے ایک حکیم ہستی کار فرما ہو گی۔ حکیم کے بغیر حکمت کا وجود صرف ایک احمق ہی فرض کر سکتا ہے۔

(۴۹)۔ یعنی جو شخص اللہ کی صفات سے جتنا زیادہ نا واقف ہو گا اور اس کے برعکس جس شخص کو اللہ کی قدرت، اس کی علم، اس کی حکمت، اس کی قہاری و جبّاری، اور اس کی دوسری صفات کی جتنی معرفت حاصل ہو گی اتنا ہی وہ اس کی نافرمانی سے خوف کھائے گا۔ پس درحقیقت کس آیت میں علم سے مراد فلسفہ و سائنس اور تاریخ و ریاضی وغیرہ درسی علوم نہیں ہیں بکہ صفات الہٰی کا علم ہے قطع نظر اس سے کہ آدمی خواندہ ہو یا نا خواندہ۔ و شخص خدا سے بے خوف ہے وہ علّامہ دہر بھی ہو تو اس علم کے لحاظ وے جاہل محض ہے۔ اور جو شخص خدا کی صفات کو جانتا ہے اور اس کی خشیت اپنے دل میں رکھتا ہے وہ اَن پڑھ بھی ہو تو ذی علم ہے۔ اسی سلسلے میں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ اس آیت میں لفظ ’’ علماء‘‘ سے وہ اصطلاحی علماء بھی مراد نہیں ہیں جو قرآن و حدیث اور فقہ و کلام کا علم رکھنے کی بنا پر علمائے دین کہے جاتے ہیں۔ وہ اس آیت کے مصداق صرف اسی صورت میں ہوں گے جبکہ ان  کے اندر خدا ترسی موجود ہو۔ یہی بات حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمائی ہے کہ  لیس العلم عن کثرۃ الحدیث و لٰکن العلم عن کثرۃ الخشیۃ۔ ‘‘ علم کثرت حدیث کی بنا پر نہیں ہے بلکہ خوف خدا کی کثرت کے لحاظ سے ہے ‘‘ اور یہی بات حضرت حسن بصریؒ نے فرمائی ہے کہ العلم من خشی الحمٰن بالغیب و رغب فیما رغب اللہ فیہ و زھد فیما سخط اللہ فیہ۔ ’’ علم وہ ہے جو اللہ سے بے دیکھے ڈرے، جو کچھ اللہ کو پسند ہے اس کی طرف وہ راغب ہو"" اور جس چیز سے اللہ ناراض ہے اس سے وہ کوئی دلچسپی نہ رکھے۔ ‘‘

(۵۰)۔ یعنی وہ زبردست تو ایسا ہے کہ نافر مانوں کو  جب چاہے پکڑ لے، اسی میں یارا نہیں کہ اس کی پکڑ سے بچ نکلے، مگر یہ اس کی شان عفو و در گزر ہے جس کی بنا پر ظالموں کو مہلت ملے جا رہی ہے۔

(۵۱)۔ اہل ایمان کے اس عمل کو تجارت سے اس لیے تشبیہ دی گئی ہے کہ آدمی تجارت میں اپنا سرمایہ اور محنت و قابلیت اس امید پر صرف کرتا ہے کہ نہ صرف اصل واپس ملے گا، اور نہ صرف وقت اور محنت کی اجت ملے گی، بلکہ کچھ مزید منافعہ بھی حاصل ہو گا۔ اسی طرح ایک مومن بھی خدا کی فرمانبرداری میں، اس کی بندگی و عبادت میں، اور اس کے دین کی خاطر جدوجہد میں، اپنا مال، اپنے اوقات، اپنی محنتیں اور قابلیتیں اس امید پر کھپا دیتا ہے کہ نہ صرف ان سب کا پورا پورا اجر ملے گا بلکہ اللہ اپنے فضل سے مزید بہت کچھ عنایت فرمائے گا۔ مگر دونوں تجارتوں میں فرق اور بہت بڑا فرق اس بنا پر ہے کہ دنیوی تجارت میں محض نفع ہی کی امید نہیں ہوتے، گھاٹے اور دیوالے تک کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ بخلاف اس کے جو تجارت ایک مخلص بندہ اپنے خدا کے ساتھ کرتا ہے اس میں کسی خسارے کا اندیشہ نہیں۔

(۵۲)۔ یعنی مخلص اہل ایمان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ اس تنگ دل آقا کا سا نہیں ہے جو بات بات پر گرفت کرتا ہو اور ایک ذرا سی خطا پر اپنے ملازم کی ساری خدمتوں اور وفا داریوں پر پانی پھیر دیتا ہو۔ وہ فیاض اور کریم آقا ہے۔ جو بندہ اس کا وفادار ہو اس کی خطاؤں پر چشم پوشی سے کام لیتا ہے اور جو کچھ بھی خدمت اس سے بن آئی ہو اس کی قدر فرماتا ہے۔

(۵۳)۔ مطلب یہ ہے کہ وہ کوئی نرالی بات نہیں پیش کر رہی ہے جو پچھلے انبیاء کی لائی ہوئی تعلیمات کے خلاف ہو، بلکہ اسی ازلی و ابدی حق کو پیش کر رہی ہے جو ہمیشہ سے تمام انبیاء پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔

(۵۴)۔ اللہ کی ان صفات کو یہاں بیان کرنے کا مقصود اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ بندوں کے لیے خیر کس چیز میں ہے، اور ان کی ہدایت و رہنمائی ہے لیے کیا اصول موزوں ہیں، اور کون سے ضابطے ٹھیک ٹھیک ان کی مصلحت کے مطابق ہیں، ان امور کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا، کیونکہ بندوں کی فطرت اور اس کے تقاضوں سے وہی باخبر ہے، اور ان کے حقیقی مصالح پر وہی نگاہ رکھتا ہے۔ بندے خود اپنے آپ کو اتنا نہیں جانتے جتنا ان کا خالق ان کو جانتا ہے۔ اس لیے حق وہی ہے اور وہی ہو سکتا ہے جو اس نے وحی کے ذریعہ سے بتا دیا ہے۔

(۵۵) مراد ہیں مسلمان جو پوری نوعِ انسانی میں سے چھانٹ کر نکالے گئی ہیں تاکہ وہ کتاب اللہ کے وارث ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اسے لے کر اٹھیں۔ اگر چہ کتاب پیش تو کی گئی ہے سارے انسانوں کے سامنے۔ مگر جنہوں نے آگے پڑھ کر اس ے قبول کر لیا وہی اس شرف کے لیے منتخب کر لیے گئے کہ قرآن جیسی کتاب عظیم کے وارث اور  محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم جیسے رسول عظیم کی تعلیم و ہدایت کے امین بنیں۔

(۵۶)۔ یعنی یہ مسلمان سب دے سب ایک ہی طرح کے نہیں ہیں، بلکہ یہ تین طبقوں میں تقسیم ہو گئے ہیں:

۱)۔ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کو سچے دل سے اللہ کی کتاب اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ایمانداری کے ساتھ اللہ کا رسول تو مانتے ہیں، مگر عملاً کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی کا حق ادا نہیں کرتے۔ مومن ہیں مگر گناہ گار ہیں۔ مجرم ہیں مگر باغی نہیں ہیں۔ ضعیف الایمان ہیں مگر منافق اور دل و دماغ سے کافر نہیں ہیں۔ اسی لیے ان کو ظالمُ لِنفسہ ہونے کے باوجود وارثین کتاب میں داخل اور خدا کے چُنے ہوئے بندوں میں شامل کیا گیا ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ باغیوں اور منافقوں اور قلب و ذہن کے کافروں پر ان اوصاف کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ تینوں درجات میں سے اس درجہ کے اہل ایمان کا ذکر سب سے پہلے اس لیے کیا گیا ہے کہ تعداد کے لحاظ سے امت میں کثرت انہی کی ہے۔

۲)۔ بیچ کی راس۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس وراثت کا حق کم و بیش ادا تو کرتے ہیں مگر پوری طرح نہیں کرتے۔ فرماں بردار بھی ہیں اور خطا کار بھی۔ اپنے نفس کو بالکل بے لگام تو انہوں نے نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ اسے خدا کا مطیع بنانے کی اپنی حد تک کوشش کرتے ہیں، لیکن کبھی یہ اس کی باگیں ڈھیلی بھی چھوڑ دیتے ہیں اور گناہوں میں مبتال ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ان کی زندگی اچھے اور برے، دونوں طرح کے اعمال کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ یہ تعداد میں پہلے گروہ سے کم اور تیسرے گروہ سے زیادہ ہیں اس لیے ان کو دوسرے نمبر  پر رکھا گیا ہے۔

۳)۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے۔ یہ وارثین کتاب میں صفِ اول کے لوگ ہیں۔ یہی دراصل اس وراثت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ یہ اتباع کتاب و سنت میں بھی پیش پیش ہیں، خدا کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے میں بھی پیش پیش، دین حق کی خاطر قربانیاں کرنے میں بھی پیش پیش، اور بھلائی کے ہر کام میں پیش پیش۔ یہ دانستہ معصیت کرنے والے نہیں ہیں، اور نا دانستہ کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس پر متنبہ ہوتے ہی ان کی پیشانیاں شرم سے عرق آلود ہو جاتی ہیں۔ ان کی تعداد امت میں پہلے دونوں گروہوں سے کم ہے اس لیے ان کا آخر میں ذکر کیا گیا ہے اگر چہ وراثت کا حق ادا کرنے کے معاملہ میں ان کو اولیت کا شرف حاصل ہے۔

’’یہی بہت بڑا فضل ہے ‘‘۔ اس فقرے کا تعلق اگر قریب ترین فقرے سے مانا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نیکیوں میں سبقت کرنا ہی بڑا فضل ہے اور جو لوگ ایسے ہیں وہ امت مسلمہ میں سب سے افضل ہیں۔ اور اس فقرے کا تعلق پہلے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ کتاب اللہ کا وارث ہونا اور اس وراثت کے لیے چن لیا جانا بڑا فضل ہے، اور خدا کے تمام بندوں میں وہ بندے سب سے افضل ہیں جو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاکر اس انتخاب میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

(۵۷)۔ مفسرین میں سے ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اس فقرے کا تعلق قریب ترین دونوں فقروں سے ہے، یعنی نیکیوں پر سبقت کرنے والے ہی بڑی فضیلت رکھتے ہیں اور وہی ان جنتوں میں داخل ہوں گے۔ رہے پلے دو گروہ، تو ان کے بارے میں سکوت فرمایا گیا ہے تاکہ وہ اپنے انجام کے معاملہ میں فکر مند ہوں اور اپنی موجودہ حالت سے نکل کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ اس رائے کو علامہ زمخشری نے بڑے زور کے ساتھ بیان کیا ہے اور امام رازی نے اس کی تائید کی ہے۔

لیکن مفسرین کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ اس کا تعلق اوپر کی پوری عبارت سے ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے یہ تینوں گروہ بالآخر جنت میں داخل ہوں گے، خواہ محاسبہ کے بغیر یا محاسبہ کے بعد، خواہ ہر مواخذہ  سے محفوظ رہ کر یا کوئی سزا پانے کے بعد۔ اسی تفسیر کی تائید قرآن کا سیاق کرتا ہے، کیونکہ آگے چل کر وارثین کتاب کے بالمقابل دوسرے گروہ متعلق ارشاد ہوتا ہے کہ ’’ اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے اس کتاب کو مان لیا ہے ان کے لیے جنت ہے اور جنہوں نے اس پر ایمان لانے سے انکار کیا ہے ان کے لیے جہنم۔ پھر اسی کی تائید نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ حدیث کرتی ہے جسے حضرت ابوالدارواء نے روایت کیا ہے اور امام احمد، ابن جریر، ابن ابی حاتم، طَبَرانی، بیہقی اور بعض دوسرے محدثین نے اسے نقل کیا ہے اس میں حضورؐ فرماتے ہیں:

فامّا الذین سبقو ا فاولٰئِک الذین ید خلو ن الجنۃ بغیر حساب، وامّا الذین اقتصد وا فاولٰئِک الذین ظلمو اا نفسہم فا ولٰئِک یُحبَسوْن طول المحشر ثم ھم الذین تتلقّا ھم اللہ برحمتہ فھم الذین یقولون الحمد لِلہ الذی اذھب عنا الحزن۔

جو لوگ نیکیوں میں سبقت لے  گئے ہیں وہ جنت میں کسی حساب کے بغیر داخل ہوں گے۔ اور جو بیچ کی راس رہے ہیں ان سے محاسبہ ہو گا مگر ہلکا محاسبہ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے تو وہ محشر کے پورے طویل عرصہ میں روک رکھے جائیں گے، پھر  انہی کو اللہ اپنی رحمت میں لے لے گا اور یہی لوگ ہیں جو کہیں گے کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے غم دور کر دیا۔

اس حدیث میں حضورؐ نے اس آیت کی پوری تفسیر خود بیان فرما دی ہے اور اہل ایمان کے تینوں طبقوں کا انجام الگ الگ بتا دیا ہے۔ بیچ کی راس والوں سے ’’ ہلکا محاسبہ ‘‘ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کفار کو تو ان کے کفر کے علاوہ ان کے ہر ہر جرم اور گناہ کی جداگانہ سزا بھی دی جائے گی، مگر اس کے برعکس اہل ایمان میں جو لوگ اچھے اور برے دونوں طرح کے اعمال لے کر پہنچیں گے ان کی نیکیوں اور ان کے گناہوں کا مجموعی محاسبہ ہو گا۔ یہ نہیں ہو گا کہ ہر نیکی کی الگ جزا اور ہر قصور کی الگ سزا دی جائے۔ اور یہ جو فر مایا کہ اہل ایمان میں سے جن لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہو گا وہ محشر کے پورے عرصے میں روک رکھے جائیں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ  وہ جہنم میں نہیں ڈالے جائیں گے بلکہ ان کو ’’ تا برخاستِ عدالت ‘‘ کی سزا دی جائے گی، یعنی روز حشر کی پوری طویل مدت (جو نہ معلوم کتنی صدیوں طویل ہو گی) ان پر اپنی ساری سختیوں کے ساتھ گزر جائے گی، یہاں تک کہ آخر کار اللہ ان پر رحم فرمائے گا اور خاتمہ عدالت کے وقت حکم دے گا کہ اچھا، انہیں بھی جنت میں داخل کر دو۔ اسی مضمون کے متعدد اقوال محدثین نے بہت سے صحابہ، مثلاً حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عائشہ، حضرت ابو سعید خُدری اور حضرت بَراء ابن عارب سے نقل کیے ہیں، اور ظاہر ہے کہ صحابہ ایسے معاملات میں کوئی بات اس وقت تک نہیں کہہ سکتے تھے جب تک انہوں نے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کو نہ سنا ہو۔

مگر  اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمانوں میں سے جن لوگوں نے ’’ اپنے نفس پر ظلم کیا ہے ‘‘ ان کے لیے صرف ’’ تا برخاست عدالت‘‘ ہی کی سزا ہے اور ان میں سے کوئی جہنم میں جائے گا ہی نہیں۔ قرآن اور حدیث میں متعدد ایسے جرائم کا ذکر ہے جن کے مرتکب ایمان کو بھی جہنم میں جانے وے نہیں بچا سکتا۔ مثلاً جو مومن کو عمداً قتل کر دے اس کے لیے جہنم کی سزا کا اللہ تعالیٰ نے خود اعلان فرما دیا ہے۔ اسی طرح قانون وراثت کی خداوندی خدود کو توڑنے والوں کے لیے بھی قرآن مجید میں جہنم کی وعید فرمائی گئی ہے۔ سُود کی حرمت کا حکم آ جانے کے بعد پھر سود خواری کرنے والوں کے لیے بھی صاف صاف اعلان فرمایا گیا ہے کہ ہو اصحاب النار ہیں۔ اس کے علاوہ بعض اور کبائر کے مرتکبین کے لیے بھی احادیث میں تصریح ہے کہ وہ جہنم میں جائیں گے۔

(۵۸)۔ ہر قسم کا غم۔ دنیا میں جن فکروں اور پریشانیوں میں مبتلا تھے ان سے بھی نجات ملی، عُقبیٰ میں اپنے انجام کی جو فکر لا حق تھی وہ بھی ختم ہوئی، اور اب آگے چَین ہی چَین ہے، کسی رنج و الم کا کوئی سوال ہی باقی نہ رہا۔

(۵۹)۔ یعنی ہمارے قصُور اس نے معاف فرما دیے اور عمل کی جو تھوڑی سی پونجی ہم لائے تھے اس کی ایسی قدر فرمائی کہ اپنی جنت اس کے بدلے میں ہمیں عطا فرما دی۔

(۶۰)۔ یعنی دنیا ہماری سفر حیات کی ایک منزل تھی جس سے ہم گزر آئے ہیں، اور میدان حشر بھی اس سفر کا ایک مرحلہ تھا جس ہم گزر لیے ہیں، اب ہم اس جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں سے نکل کر پھر کہیں جانا نہیں ہے۔

(۶۱)۔ بالفاظ دیگر ہماری تمام محنتوں اور تکلیفوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اب یہاں ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا پڑتا جس کے انجام دینے میں ہم کو مشقت پیش آتی ہو اور جس سے فارغ ہو کر ہم تھک جاتے ہوں۔

(۶۲)۔ یعنی اس کتاب کو ماننے سے انکار کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم  پر نازل فرمائی ہے۔

(۶۳)۔ اس سے مراد ہر وہ عمر ہے جس میں آدمی اس قابل ہو سکتا ہو کہ اگر وہ نیک و بد اور حق و باطل میں امتیاز کرنا چاہے تو کر سکے اور  گمراہی چھوڑ کر ہدایت کی طرف رجوع کرنا چاہے تو کر سکے۔ اس عمر کو پہنچنے سے پہلے اگر کوئی شخص مر چکا ہو تو اس آیت کی رُو سے اس پر کوئی مواخذہ نہ ہو گا۔ البتہ جو اس عمر کو پہنچ چکا ہو وہ اپنے عمل کے لیے لازماً جواب دہ قرار پائے گا، اور پھر اس عمر کے شروع ہو جانے کے بعد جتنی مدت بھی وہ زندہ رہے اور سنبھل کر راہ راست پر آنے کے لیے جتنے مواقع بھی اسے ملتے چلے جائیں اتنی ہی اس کی ذمہ داری شدید تر ہوتی چلے جائی گی، یہاں تک کہ جو شخص بڑھاپے کو پہنچ کر بھی سیدھا نہ ہو اس کے لیے کسی عذر کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ یہی بات ہے جو ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت سہل بن سَعد ساعِدی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل فرمائی ہے کہ جو شخص کم عمر پائے اس کے لیے تو عذر کا موقع ہے، مگر ۶۰ سال اور اس سے اوپر عمر پانے والے کے لیے کوئی عذر نہیں ہے (بخاری، احمد، نَسائی، ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیرہ )۔

(۶۴)۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ اس نے پچھلی نسلوں اور قوموں کے گزر جانے کے بعد اس تم کو ان کی جگہ اپنی زمین میں بسایا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اس نے تمہیں زمین میں تصرف کے جو اختیارات دیے ہیں سہ اس حیثیت سے نہیں ہیں کہ تم ان چیزوں کے مالک ہو، بلکہ اس حیثیت سے ہیں کہ تم اصل مالک کے خلیفہ ہو۔

 

بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کی ہر پوشیدہ چیز سے واقف ہے، وہ تو سینوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔ وہی تو ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا(۶۴) ہے۔ اب جو کوئی کفر کرتا ہے اس کے کفر کا وبال اسی پر (۶۵) ہے، اور کافروں کو ان کا کفر اس کے سوا کوئی ترقی نہیں دیتا کہ ان کے رب کا غضب ان پر زیادہ سے زیادہ بھڑکتا چلا جاتا ہے۔ کافروں کے لیے خسارے میں اضافے کے سوا کوئی ترقی نہیں۔
(اے نبیؐ) ان سے کہو، ’’ کبھی تم نے دیکھا بھی ہے اپنے ان شریکوں(۶۶) کو جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہو؟ مجھے  بتاؤ، انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے؟ یا آسمانوں میں ان کی کیا شرکت ہے ‘‘؟ (اگر یہ نہیں بتا سکتے تو ان سے پوچھو) کیا ہم نے انہیں تحریر لکھ کر دی ہے جس کی بنا پر یہ (اپنے اس شرک کے لیے ) کوئی صاف سند رکھتے (۶۷) ہوں؟ نہیں، بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے کو محض فریب کے جھانسے دیے جا رہے (۶۸) ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کو ٹل جانے سے روکے ہوئے ہے، اور اگر وہ ٹل جائیں تو اللہ کے بعد کوئی دوسرا انہیں تھامنے والا نہیں(۶۹) ہے۔ بے شک اللہ بڑا حلیم اور درگزر فرمانے والا(۷۰) ہے۔
یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی خبردار کرنے والا ان کے ہاں آ گیا ہوتا تو یہ دنیا کی ہر دوسری قوم سے بڑھ کر راست رو(۷۱) ہوتے۔ مگر جب خبردار کرنے والا ان کے پاس آ گیا تو اس کی آمد نے ان کے اندر حق سے فرار کے سوا کسی  چیز میں اضافہ نہ کیا۔ یہ زمین میں اور زیادہ استکبار کرنے لگے اور بری برُی چالیں چلنے لگے، حالانکہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں۔ اب کیا یہ لوگ اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ پچھلی قوموں کے ساتھ اللہ کا جو طریقہ رہا ہے وہی ان کے ساتھ بھی برتا (۷۲) جائے؟ یہی بات ہے تو تم اللہ کے طریقے میں ہر گز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے۔ کیا یہ لوگ زمین میں کبھی چلے پھرے نہیں ہیں کہ انہیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان سے بہت زیادہ طاقت ور تھے؟ اللہ کو کوئی چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اگر کہیں وہ لوگوں کو ان کے کیے  کرتوتوں پر پکڑتا تو زمین پر کسی متنفس کو جیتا نہ چھوڑ تا۔ مگر وہ انہیں ایک مقرر وقت تک کے لیے مہلت دے رہا ہے۔ پھر جب ان کا وقت آن پورا ہو گا تو اللہ اپنے بندوں کو دیکھ لے گا۔ ع

 

(۶۵)۔ اگر پہلے فقرے کا یہ مطلب لیا جائے کہ تم کو پچھلی قوموں کا جانشین بنایا ہے تو اس فقرے کے معنی یہ ہوں گے کہ جس نے گزشتہ قوموں کے انجام سے کوئی نہ لیا اور وہی کفر کا رویہ اختیار کیا جس کی بدولت وہ قومیں تباہ ہو چکی ہیں، وہ اپنی اس حماقت کا نتیجہ بد دیکھ کر رہے گا۔ اور اگر اس فقرے کا مطلب یہ لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنے خلیفہ کی حیثیت سے زمین میں اختیارات عطا کیے ہیں تو اس فقرے کے معنی یہ ہوں گے کہ جو اپنی حیثیت خلافت کو بھول کر خود مختار بن بیٹھا  یا جس نے اصل مالک کو چھوڑ کر کسی اور کی بندگی اختیار کر لی وہ اپنی اس باغیانہ روش کا برا انجام دیکھ لے گا۔

(۶۶)۔ ’’  اپنے شریک ‘‘ کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا گیا ہے  کہ در حقیقت وہ خدا کے شریک تو ہیں نہیں، مشرکین نے ان کو اپنی طور پر اس کا شریک بنا رکھا ہے۔

(۶۷)۔ یعنی کیا ہمارا لکھا ہوا کوئی پروانہ ان کے پاس ایسا ہے جس میں ہم نے یہ تحریر کیا ہو کہ فلاں فلاں اشخاص کو ہم نے بیماروں کو تندرست کرنے، یا بے روزگاروں کو روزگار  دلوانے، یا حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنے کے اختیارات دیے ہیں، یا فلاں فلاں ہستیوں کو ہم نے اپنی زمین کے فلاں حصوں کا مختارِ کار بنا دیا ہے اور ان علاقوں کے لوگوں کی قسمتیں بنانا اور بگاڑنا اب ان کے ہاتھ میں ہے، لہٰذا ہمارے بندوں کو اب انہی سے دعائیں مانگنی چاہییں اور انہی کے  حضور نذریں اور نیازیں  چڑھانی  چاہییں اور جو نعمتیں بھی ملیں ان پرا نہی’’ چھوٹے خداؤں ‘‘ کا شکر بجا لانا چاہیے۔ ایسی کوئی سند اگر تمہارے پاس  ہے تو لاؤ اسے پیش کرو۔ اور اگر نہیں ہے تو خود ہی سوچو کہ یہ مشرکانہ عقائد اور اعمال آخر تم نے کس بنیاد پر ایجاد کر لیے ہیں۔ تم سے پوچھا جاتا ہے کہ زمین اور آسمان میں کہیں تمہارے ان بناوٹی معبودوں کے شریک خدا ہونے کی کوئی علامت پائی جاتی ہے؟ تم اس کے جواب میں کسی علامت کی نشان دہی نہیں کر سکتے۔ تم سے پوچھا جاتا ہے کہ خدا نے اپنی کسی کتاب میں ہی فرمایا ہے، یا تمہارے پاس یا ان بناوٹی معبودوں کے پاس خدا کا دیا ہوا کوئی پروانہ  ایسا موجود ہے جو اس امر کی شہادت دیتا ہو کہ خدا نے خود انہیں وہ اختیارات عطا فرمائے ہیں جو تم ان کی طرف منسوب کر رہے ہو؟ تم وہ بھی پیش نہیں کر سکتی۔ اب آخر وہ چیز کیا ہے جس کی بنا پر تم اپنے یہ عقیدے بنائے بیٹھے ہو؟ کیا تم خدائی کے مالک ہو کہ خدا کے اختیارات جس جس کو چاہو بانٹ دو؟

(۶۸)۔ یعنی یہ پیشوا اور پیر، یہ پنڈت اور پروہت، یہ کاہن اور واعظ، یہ مجاور اور ان کے ایجنٹ محض اپنی دوکان چمکانے کے لیے عوام کو اُلّو بنا رہے ہیں اور طرح طرح کے قصے گھڑ گھڑ کر لوگوں کو یہ جھوٹے بھروسے دلا رہے ہیں کہ خدا کو چھوڑ کر فلاں فلاں ہستیوں کے دامن تھام لو گے تو دنیا میں تمہارے سارے کام بن  جائیں گے اور آخرت میں تم چاہے کتنے ہی گناہ سمیٹ کر لے جاؤ، وہ اللہ سے تمہیں بخشوا لیں گے۔

(۶۹)۔ یعنی یہ اتھاہ کائنات اللہ تعالیٰ کے  قائم رکھنے سے قائم ہے۔ کوئی فرشتہ یا جن یا نبی یا ولی اس کو سنبھالے ہوئے نہیں ہے۔ کائنات کو سنبھالنا تو در کنار، یہ بے بس بند ے تو اپنے وجود کے سنبھالنے پر بھی قادر نہیں۔ ہر ایک اپنی پیدائش اور اپنے بقاء کے لیے ہر آن اللہ جلّ شانہ کا محتاج ہے۔ ان میں سے کسی کے متعلق یہ سمجھنا کہ خدائی کی صفات اور اختیارات میں اس کا کوئی حصہ ہے خالص حماقت اور فریب خوردگی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔

(۷۰)۔ یعنی یہ سراسر اللہ کا حِلم اور اس کی چشم پوشی ہے کہ اتنی بڑی گستاخیاں اس کی جناب میں کی جا رہی ہیں اور پھر بھی وہ سزا دینے میں جلدی نہیں کر رہا ہے۔

(۷۱)۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے عرب کے لوگ عموماً اور قریش کے لوگ خصوصاً یہود و نصاریٰ کی بگڑی ہوئی اخلاقی حالت کو دیکھ کر کہا کرتے تھے۔ ان کے اس قول کا ذکر اس سے پہلے سورہ انعام (آیت ۱۵۶۔ ۱۵۷) میں بھی گزر چکا ہے اور آگے سورہ صافّات (۱۶۷ تا ۱۶۹) میں بھی آ رہا ہے۔

(۷۲)۔ یعنی اللہ کا یہ قانون ان پر بھی جاری ہو جائے کہ جو قوم اپنے نبی کو جھٹلاتی ہے وہ تباہ کر کے رکھ دی جاتی ہے۔