تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الشّوریٰ

نام

آیت ۳۸ کے فقرے وَاَمْرُ ھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ  سے ماخوذ ہے۔ اس کا نام کا مطلب ہے کہ وہ سورہ جس میں لفظ شوریٰ آیا ہے۔ 

زمانۂ نزول

کسی معتبر روایت سے معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ لیکن اس مضمون پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سورہ حٰم السجدہ کے متصلاً بعد نازل ہوئی ہو گی، کیونکہ یہ ایک طرح سے بالکل اس کا تتمہ نظر آتی ہے۔ اس کیفیت کو ہر وہ شخص خود محسوس کر لے گا جو پہلے سورہ حٰم السجدہ کو بغور پڑھے اور پھر اس سورے کی تلاوت کرے۔ وہ دیکھے گا کہ اس سورۃ میں سرداران قریش کی اندھی بہری مخالفت پر بڑی کاری ضربیں لگائی گئی تھیں،  تاکہ مکہ معظمہ اور اس کے گرد و پیش کے علاقے میں جس کسی کے اندر بھی اخلاق، شرافت اور معقولیت کی کوئی حس باقی ہو وہ جان لے کہ قوم کے بڑے لوگ کس قدر بے جا طریقے سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت کر رہے ہیں،  اور ان کے مقابلہ میں آپ کی بات کتنی سنجیدہ، آپ کا موقف کتنا معقول اور آپ کا رویہ کیسا شریفانہ ہے۔ اس تنبیہ کے معاً بعد یہ سورۃ نازل کی گئی  جس نے تفہیم کا حق ادا کر دیا اور ایسے دل نشین انداز میں دعوت  محمدی کی حقیقت سمجھائی جس کا اثر قبول نہ کرنا کسی ایسے شخص کے جس میں نہ تھا جو حق پسندی کا کچھ بھی مادہ اپنے اندر رکھتا ہو اور جاہلیت کی گمراہیوں کے عشق میں بالکل اندھا نہ ہو چکا ہو۔ 

موضوع اور مضمون

بات کا آغاز اس طرح کیا گیا ہے کہ تم لوگ ہمارے نبی کی پیش کردہ باتوں پر یہ کیا چہ میگوئیاں کرتے  پھر رہے ہو۔ یہ باتیں کوئی نئی اور نرالی نہیں ہیں،  نہ یہی کوئی نادر واقعہ ہے جو تاریخ میں پہلی ہی مرتبہ پیش آیا ہو کہ ایک شخص پر خدا کی طرف سے وحی آئے اور اسے نبی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے ہدایات دی جائیں۔ ایسی ہی وحی،  اسی طرح کی ہدایات کے ساتھ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے انبیاء علیہم السلام پر پے در پے بھیجتا رہ ہے۔ اور نرالی، اچنبھے کے قابل بات یہ نہیں ہے کہ آسمان و زمین کے مالک کو معبود اور حاکم مانا جائے، بلکہ یہ ہے کہ اس کے بندے ہو کر، اس کی خدائی میں رہتے ہوئے کسی دوسرے کی خداوندی تسلیم کی جائے۔ تم توحید پیش کرنے والے پر بگڑ پڑیں تو کچھ بعید نہیں۔ تمہاری اس جسارت پر فرشتے حیران ہیں اور ہر وقت ڈورے ہیں کہ نہ معلوم کب تم پر خدا کا غضب ٹوٹ پڑے۔

اس کے بعد لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ نبوت پر کسی شخص کا مقرر کیا جانا، اور اس شخص کا اپنے آپ کو نبی کی  حیثیت سے پیش کرنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ خلق خدا کی قسمتوں کا مالک بنا دیا گیا ہے اور اسی دعوے کے ساتھ وہ میدان میں آیا ہے۔ قسمتیں تو اللہ نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھی ہیں۔ نبی صرف غافلوں کو چونکا نے اور بھٹکے ہوؤں کو راستہ بتانے آیا ہے۔ اس کی بات نہ ماننے والوں کا محاسبہ کرنا اور انہیں عذاب دینا یا نہ دینا اللہ کا اپنا کام ہے۔ یہ کام نبی کے سپرد نہیں کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا اس غلط فہمی کو اپنے دماغ سے نکال دو کہ نبی اس طرح کے کسی دعوے کے ساتھ آیا ہے جیسے دعوے تمہارے ہاں کے نام نہاد مذہبی  پیشوا اور پیر فقیر کیا کرتے ہیں کہ جو ان کی بات نہ مانے گا، یا ان کی شان میں گستاخی کرے گا وہ اسے جلا کر بھسم کر دیں گے۔ اسی سلسلے میں لوگوں کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نبی تمہاری بد خواہی  کے لیے نہیں آیا ہے،  بلکہ ہو تو ایک خیر خواہ ہے جو تمہیں خبردار کر رہا ہے کہ جس راہ پر تم جا رہے ہو اس میں تمہاری اپنی تباہی ہے۔

پھر اس مسئلے کی حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ اللہ نے سارے انسانوں کو پیدائشی طور پر راست رو کیوں نہ بنا دیا اور  یہ مجال اختلاف کیوں رکھی جس کی وجہ سے لوگ فکر و عمل کے ہر الٹے سیدھے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ بتایا گیا کہ اسی چیز کی بدولت تو یہ  امکان پیدا ہوا ہے کہ انسان اللہ کی اس رحمت خاص کو پا سکے جو دوسری بے اختیار مخلوقات کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف اس ذی اختیار مخلوق کے لیے ہے جو جبلی طور پر نہیں،  شعوری طور پر اپنے اختیار سے اللہ کو اپنا ولی (Patron  guardian ) بنائے۔ یہ روش جو انسان اختیار کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ سہارا دے کر،  اس کی رہنمائی کر کے،  اسے حسن عمل کی توفیق دے کر، اپنی رحمت خاص میں داخل کر لیتا ہے۔ اور جو انسان اپنے اختیار کو غلط استعمال کر کے ان کو ولی بناتا ہے جو در حقیقت ولی نہیں ہیں اور نہیں ہو سکتے،  وہ اس رحمت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اسی سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسان کا اور ساری مخلوقات کا ولی حقیقت میں اللہ ہی ہے۔ دوسرے نہ حقیقت میں ولی ہیں،  نہ ان میں یہ طاقت ہے کہ ولایت کا حق ادا کر سکیں۔ انسان کی کامیابی کا مدار اسی پر ہے کہ وہ اپنے اختیار سے ولی کا انتخاب کرنے میں غلطی نہ کرے اور اسی کو اپنا ولی بنائے جو در حقیقت ولی ہے۔

اس کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ جس دین کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں وہ حقیقت میں ہے کیا :

اس کی اولین بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ کائنات اور انسان کا خالق، مالک اور ولی حقیقی ہے،  اس لیے وہی انسان کا حاکم بھی ہے،  اور اسی کا یہ حق ہے کہ انسان کو دین اور شریعت (اعتقاد و عمل کا نظام) دے اور انسانی اختلافات کا فیصلہ کر کے بتائے کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا۔ دوسری کسی ہستی کو انسان کے لیے شارع(Lawgiver)بننے کا سرے سے حق ہی نہیں ہے۔ با لفاظ دیگر فطری حاکمیت کی طرح تشریعی حاکمیت بھی اللہ کے لیے مخصوص ہے۔ انسان یا کوئی غیر اللہ اس حاکمیت کا حامل نہیں ہو سکتا۔ اور اگر کوئی شخص اللہ کی اس حاکمیت کو نہیں مانتا تو اس کا اللہ کی محض فطری حاکمیت کا ماننا لا حاصل ہے۔

اسی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے ابتدا سے انسان کے لیے ایک دین مقرر کیا ہے۔  وہ ایک ہی دین تھا جو ہر زمانے میں تمام انبیاء کو دیا جاتا رہا۔ کوئی نبی بھی اپنے کسی الگ مذہب کا بانی نہیں تھا۔ وہی ایک دین اول روز سے نسل انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہوتا رہا ہے،  اور سارے انبیاء اسی کے پیرو اور داعی رہے ہیں۔ وہ دین کبھی محض مان کر بیٹھ جانے کے لیے نہیں بھیجا گیا، بلکہ ہمیشہ اس غرض کے لیے بھیجا گیا ہے کہ زمین پر وہی قائم اور رائج اور نافذ ہو، اور اللہ کے ملک میں اللہ کے  دین کے سوا کسی اور کے ساختہ و پرداختہ دین کا سکّہ نہ چلے۔ انبیاء علیہم السلام اس دین کی محض تبلیغ پر نہیں بلکہ اسے قائم کرنے کی خدمت پر مامور کیے گئے تھے۔

نوع انسانی کا اصل دین یہی تھا،  مگر انبیاء کے بعد ہمیشہ یہ ہوتا رہا کہ خود غرض لوگ اس کے اندر اپنی خود پسندی،  خود رائی اور خود نمائی کے باعث اپنے مفاد کی خاطر تفرقے برپا کر کر کے نئے نئے مذہب نکالتے رہے۔ دنیا میں یہ جتنے بھی مختلف مذہب پائے جاتے ہیں،  سب اسی ایک دین کو بگاڑ کر پیدا کیے گئے ہیں۔

اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس لیے بھیجے گئے ہیں کہ ان متفرق طریقوں اور مصنوعی مذہبوں اور انسانی ساخت کے دینوں کی جگہ وہی اصل دین لوگوں کے سامنے پیش کریں اور اسی کو قائم کرنے کی کوشش کریں۔ اس پر خدا کا شکر ادا کرنے کے بجائے اگر تم الٹے بگڑتے  ہو اور لڑنے کو دوڑتے ہو تو یہ تمہاری نادانی ہے۔ تمہاری اس حماقت کی وجہ سے نبی اپنا کام نہیں چھوڑ دے گا۔ وہ اس بات پر مامور ہے کہ پوری استقامت کے ساتھ اپنے موقف پر جم جائے اور اس کام کو پورا کرے جس پر وہ مامور ہوا ہے۔ اس سے یہ امید نہ رکھو کہ وہ تمھیں راضی کرنے کے لیے دین میں انہی اوہام و خرافات اور جاہلیت کی رسموں اور طور طریقوں کے لیے کوئی گنجائش نکالے گا جن سے خدا کا دین پہلے  خراب کیا جاتا رہا ہے۔

تم لوگوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ اللہ کے دین کو چھوڑ کر غیر اللہ کے بنائے ہوئے دین و آئین کو اختیار کرنا اللہ کے مقابلے میں کتنی بڑی جسارت ہے۔ تم اپنے نزدیک اسے دنیا کا معمول سمجھ رہے ہو، اور تمھیں اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ مگر اللہ کے نزدیک یہ بدترین شرک اور شدید ترین جرم ہے جس کی سخت سزا اُن سب کو بھگتنی پڑے گی جنہوں نے اللہ کی زمین پر اپنا دین جاری کیا اور جنہوں نے ان کے دین کی پیروی اور اطاعت کی۔

اس طرح دین کا ایک صاف اور واضح تصور پیش کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے کہ تم لوگوں کو سمجھا کر راہ راست پر لانے کے لیے جو بہتر سے بہتر طریقہ ممکن تھا وہ استعمال کیا جا چکا۔ ایک طرف اللہ نے اپنی کتاب نازل فرمائی جو نہایت دل نشین طریقے سے تمہاری اپنی زبان میں تمھیں حقیقت بتا رہی ہے۔ اور دوسری طرح محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے اصحاب کی زندگیاں تمہاری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں جنہیں دیکھ کر تم جان سکتے ہو کہ اس کتاب کی رہنمائی میں کیسے انسان تیار ہوتے ہیں۔ اس پر بھی اگر تم ہدایت نہ پاؤ تو پھر دنیا میں کوئی چیز تمھیں راہ راست پر نہیں لا سکتی۔ اس کا نتیجہ تو پھر یہی ہے کہ تمھیں اسی گمراہی میں پڑا رہنے دیا جائے جس میں تم صدیوں سے مبتلا ہو، اور اسی انجام سے تم کو دوچار کر دیا جائے جو ایسے گمراہوں کے لیے اللہ کے ہاں مقدر ہے۔

ان حقائق کو بیان کرتے ہوئے بیچ بیچ میں اختصار کے ساتھ توحید اور آخرت کے دلائل دیے گئے ہیں دنیا پرستی کے نتائج پر متنبہ کیا گیا ہے،  آخرت کی سزا سے ڈرایا گیا ہے اور کفار کی ان اخلاقی کمزوریوں پر گرفت کی گئی ہے جو ہدایت سے ان کے منہ موڑنے کا اصل سبب تھیں۔ پھر کلام کو ختم کرتے ہوئے دو اہم باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں :

ایک یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنی زندگی کے ابتدائی چالیس سال میں ’’ کتاب‘‘ کے تصور سے بالکل خالی الذہن اور ایمان کے مسائل و مباحث سے قطعی نا واقف رہنا، اور پھر یکایک ان دونوں چیزوں کو لے کر دنیا کے سامنے آ جانا،  آپ کا اپنی پیش کردہ تعلیم کو خدا کی تعلیم قرار دینا یہ معنی نہیں رکھتا کہ آپ خدا سے رو در رو کلام کرنے کے مدعی ہیں،  بلکہ خدا نے  یہ تعلیم تمام انبیاء کی طرح آپ کو بھی تین طریقوں سے دی ہے۔ ایک وحی، دوسرے پردے کے پیچھے سے آواز،  اور تیسرے فرشتے کے ذریعہ سے پیغام۔ یہ وضاحت اس لیے کی گئی کہ مخالفین یہ الزام تراشی نہ کر سکیں کہ حضور خدا سے رو در رو کلام کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں،  اور حق پسند لوگ یہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو انسان نبوت کے منصب پر سرفراز کیا گیا ہو اسے کن طریقوں سے ہدایت دی جاتی ہیں۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
ح  م،  ع  س  ق۔ اسی طرح اللہ غالب و حکیم تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے (رسولوں ) کی طرف وحی کرتا رہا ہے (۱)۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اسی کا ہے،  وہ بر تر اور رحیم ہے (۲)۔ قریب ہے کہ آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں (۳)۔ فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں اور زمین والوں کے حق میں درگزر کی درخواستیں کیے جاتے ہیں (۴)۔ آگاہ رہو، حقیقت میں اللہ غفور و رحیم ہی ہے (۵)۔ جن لوگوں نے اس کو چھوڑ کر اپنے کچھ دوسرے سرپرست (۶) بنا رکھے ہیں،  اللہ ہی ان پر نگراں ہے،  تم ان کے حوالہ دار نہیں ہو(۷)۔
ہاں،  اسی طرح اے نبیؐ، یہ قرآن عربی ہم نے تمہاری طرف وحی کیا ہے (۸) تاکہ تم بستیوں کے مرکز (شہر مکہ) اور اس کے گرد و پیش رہنے والوں کو خبردار کر دو(۹)، اور جمع ہونے کے دن سے ڈرا دو(۱۰) جن کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ ایک گروہ کو جنت میں جانا ہے اور دوسرے گروہ کو دوزخ میں۔
اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ایک ہی امت بنا دیتا،  مگر وہ جسے  چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے،  اور ظالموں کا نہ کوئی ولی ہے نہ مدد گار(۱۱)۔ کیا یہ (ایسے نادان ہیں کہ)انہوں نے اسے چھوڑ کر دوسرے ولی بنا رکھے  ہیں؟ ولی تو اللہ ہی ہے،  وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے،  اور وہ ہر چیز پر قادر ہے (۱۲)۔ ع

 

۱۔ افتتاح کلام کا یہ انداز خود بتا رہا ہے کہ پس منظر میں وہ چہ میگوئیاں ہیں جو مکہ معظمہ کی ہر محفل،  ہر چوپال، ہر کوہ و بازار، اور ہر مکان  اور دُکان میں اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت اور قرآن کے  مضامین پر ہو رہی تھیں۔ لوگ کہتے تھے کہ نہ معلوم یہ شخص کہاں سے یہ نرالی باتیں نکال نکال کر لا رہا ہے۔ ہم نے تو ایسی باتیں نہ کبھی سنیں نہ ہوتے دیکھیں۔ وہ کہتے تھے،  یہ عجیب ماجرا ہے کہ باپ دادا سے جو دین چلا آ رہا ہے،  ساری قوم جس دین کی پیروی کر رہی ہے،  سارے ملک میں جو طریقے صدیوں سے رائج ہیں،  یہ شخص ان سب کو غلط قرار دیتا ہے اور  کہتا ہے جو دین میں پیش کر رہا ہوں  وہ صحیح ہے۔ وہ کہتے تھے،  اس دین کو بھی اگر یہ اس حیثیت سے پیش کرتا کہ دین آبائی اور رائج الوقت طریقوں میں اسے کچھ قباحت نظر آتی ہے اور ان کی جگہ اس نے خود کچھ نئی باتیں سوچ کر نکالی ہیں،  تو اس پر کچھ گفتگو بھی کی جا سکتی تھی، مگر وہ تو کہتا ہے کہ یہ خد ا کا کلام ہے جو میں تمھیں سنا رہا ہوں۔ یہ بات آخر کیسے مان لی جائے؟ کیا خدا اس کے پاس آتا ہے؟ یا یہ خدا کے پس جاتا ہے؟ یا اس کی اور خدا کی بات چیت ہوتی ہے؟ انہی چرچوں اور چہ میگوئیوں پر بظاہر رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے، مگر  در اصل کفار کو سناتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ ہاں،  یہی باتیں اللہ عزیز و حکیم وحی فرما رہا ہے اور یہی مضامین لیے ہوئے اس کی وحی پچھلے تمام انبیاء پر نازل ہوتی رہی ہے۔

وحی کے لغوی  معنی ہیں ’’ اشارہ سریع‘‘ اور ’’ اشارہ خفی‘‘،  یعنی ایسا اشارہ جو سرعت کے ساتھ اس طرح کیا جائے کہ بس اشارہ کرنے والا جانے یا وہ شخص جسے اشارہ کیا گیا ہے،  باقی کسی اور شخص کو اس کا پتہ نہ چلنے پائے۔  اس لفظ کو اصطلاحاً اس ہدایت کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو بجلی کی کوند کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے کسی بندے کے د ل میں ڈالی جائے۔ ارشاد الہٰی و مدعا یہ ہے کہ اللہ کے کسی کے پاس آنے یا اس کے پاس کوئی کے جانے اور رو برو گفتگو کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہو تا۔ وہ غالب اور حکیم ہے۔ انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جب بھی وہ کسی بندے سے رابطہ قائم کرنا چاہے،  کوئی دشواری اس کے ارادے کی راہ میں مزاحم نہیں ہو سکتی۔ اور وہ اپنی حکمت سے اس کام کے لیے وحی کا طریقہ اختیار فرما لیتا ہے۔ اسی مضمون کا اعادہ سورۃ کی آخری آیات میں کیا گیا ہے۔ اور وہاں اسے زیادہ کھول کر بیان فرمایا گیا ہے۔

پھر یہ جو  ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ نرالی باتیں ہیں،  اس پر ارشاد ہوا ہے کہ یہ نرالی باتیں نہیں ہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے جتنے انبیاء آئے ہیں ان سب کو بھی خدا کی طرف سے یہی کچھ ہدایات دی جاتی رہی ہیں۔

۲۔ یہ تمہیدی فقرے محض اللہ تعالیٰ کی تعریف میں ارشاد نہیں ہو رہے ہیں،  بلکہ ان کا ہر لفظ اس پس منظر سے گہرا ربط رکھتا ہے جس میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور قرآن کے خلاف جو لوگ چہ میگوئیاں  کر رہے تھے،  ان کے اعتراضات کی اولین بنیاد یہ کہ حضورؐ ان کو توحید کی دعوت دے رہے تھے اور وہ اس پر کان کھڑے کر کر کے کہتے تھے کہ اگر اکیلا ایک اللہ ہی معبود، حاجت روا  اور شارع ہے تو پھر ہمارے بزرگ کیا ہوئے؟ اس پر فرمایا گیا ہے کہ یہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی ملک ہے۔ مالک کے ساتھ اس کی ملکیت میں کسی اور کی خداوندی آخر کس طرح چل سکتی ہے؟ خصوصاً جبکہ وہ دوسرے جن کی خداوندی مانی جاتی ہے،  یا جو اپنی خداوندی چلانا چاہتے ہیں،  خود بھی اس کے مملوک ہی ہیں۔ پھر فرمایا گیا کہ وہ بر تر اور عظیم ہے،  یعنی اس سے بالا تر اور بزرگ تر ہے کہ کوئی اس کا ہمسر ہو، اور اس کی ذات،  صفات، اختیارات اور حقوق میں سے کسی چیز میں بھی حصہ دار بن سکے۔

۳۔ یعنی یہ کوئی معمولی بات تو نہیں ہے کہ کسی مخلوق کا نسب خدا سے جا ملایا گیا  اور اسے خدا کا بیٹا یا بیٹی قرار دے دیا گیا۔ کسی کو حاجت روا اور فریاد رس  ٹھیرا لیا گیا اور اس سے دعائیں مانگی جانے لگیں،  کسی بزرگ کو دنیا بھر کا کار ساز سمجھ لیا گیا اور علانیہ کہا جانے لگا کہ ہمارے حضرت ہر وقت ہر جگہ ہر شخص کی سنتے ہیں اور وہی ہر ایک کی مدد کو پہنچ کر اس کے کام بنایا کرتے ہیں کسی کو امر و نہی اور حلال و حرام کا مختار مان لیا گیا اور خدا کو چھوڑ کر لوگ اس کے احکام کی اطاعت اس طرح کرنے لگے کہ گویا وہ ان کا خدا ہے۔ خدا کے مقابلے میں یہ وہ جسارتیں ہیں جن پر اگر آسمان  پھٹ پڑیں تو کچھ بعید نہیں ہے۔ (یعنی مضمون سورہ مریم، آیات ۸۸۔ ۹۱ میں  بھی ارشاد ہوا ہے )

۴۔ مطلب یہ ہے کہ فرشتے انسانوں کی یہ باتیں سن سن کر کانوں پر ہاتھ رکھتے ہیں کہ یہ کیا بکواس ہے جو ہمارے رب کی شان میں کی جا رہی ہے،  اور یہ کیسی بغاوت ہے جو زمین کی اس مخلوق نے برپا کر رکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں،  سبحان اللہ،  کس کی یہ حیثیت ہو سکتی ہے کہ رب العالمین کے ساتھ الوہیت اور حکم میں شریک ہو سکے،  اور کون اس کے سوا ہمارا اور سب بندوں کا محسن ہے کہ اس کی حمد کے ترانے گائے جائیں اور اس کا شکر ادا کیا جائے۔ پھر وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایسا جرم عظیم دنیا میں کیا جا رہا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہر وقت بھڑک سکتا ہے،  اس لیے وہ زمین پر بسنے والے ان خود فراموش و خدا فراموش بندوں کے حق میں بار بار رحم کی درخواست کرتے ہیں کہ ابھی ان پر عذاب نازل نہ کیا جائے اور انہیں سنبھلنے کا کچھ موقع دیا جائے۔

۵۔ یعنی یہ اس کی حلیمی و رحیمی اور چشم پوشی و در گزر ہی تو ہے جس کی بدولت کفر اور شرک اور دہریت اور فسق و فجور اور ظلم و ستم کی انتہا کر دینے والے لوگ بھی سالہا سال تک،  بلکہ اس طرح کے پورے پورے معاشرے صدیوں تک مہلت پر مہلت پاتے  چلے جاتے ہیں،  اور ان کو صرف رزق ہی نہیں ملے جاتا بلکہ دنیا میں ان کی بڑائی کے ڈنکے بجتے ہیں اور زینت حیات دنیا کے وہ سرو سامان انہیں ملتے ہیں جنہیں دیکھ دیکھ کر نادان لوگ اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے۔

۶۔ اصل میں لفظ ’’ اولیا ء‘‘ استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم عربی زبان میں بہت وسیع ہے۔ معبود ان باطل کے متعلق گمراہ انسانوں کے مختلف عقائد اور بہت سے مختلف طرز عمل ہیں جن کو قرآن مجید میں ’’ اللہ کے سوا دوسروں کو اپنا ولی بنانے ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن پاک کا تتبّع کرنے سے لفظ ’’ولی‘‘ کے حسب ذیل مفہومات معلوم ہوتے ہیں :

۱)  جس کے کہنے پر آدمی چلے،  جس کی ہدایات پر عمل کرے،  اور جس کے مقرر کیے ہوئے طریقوں،  رسموں اور قوانین و ضوابط کی پیروی کرے (النساء، آیات ۱۱۸ تا ۱۲۰۔ الاعراف ۳، ۲۷ تا ۳۰)۔

۲)  جس کی رہنمائی (Guidance)پر آدمی اعتماد کرے اور یہ سمجھے کہ وہ اسے صحیح راستہ بتانے والا اور غلطی سے بچانے والا ہے (بقرہ ۲۵۷۔ بنی اسرائیل ۹۷۔ الکہف ۱۷۔ ۵۰۔ الجاثیہ ۱۹)۔

۳)  جس کے متعلق آدمی یہ سمجھے کہ میں دنیا میں خواہ کچھ کرتا رہوں،  وہ مجھے اس کے برے نتائج سے اور اگر خدا  ہے اور آخرت بھی ہونے والی ہے،  تو اس کے عذاب سے بچا لے گا (انساء ۱۲۳۔ ۱۷۳۔ الانعام ۵۱۔ الرعد ۳۷۔ العنکبوت ۲۲۔ الاحزاب ۶۵۔ الزمر ۳)

۴)  جس کے متعلق آدمی یہ سمجھے کہ وہ دنیا میں فوق الفطری طریقے سے اس کی مدد کرتا ہے،  آفات و مصائب سے اس کی حفاظت کرتا ہے،  اسے روزگار دلواتا ہے،  اولاد دیتا ہے،  مرادیں بر لاتا ہے،  اور دوسری ہر طرح کی حاجتیں پوری کرتا ہے (ہود، ۲۰۔ الرعد، ۱۶۔ العنکبوت، ۴۱)

بعض مقامات پر قرآن  میں ولی کا لفظ ان میں سے کسی ایک معنی میں استعمال کیا گیا ہے،  اور بعض مقامات پر جامعیت کے ساتھ  اس کے سارے ہی مفہومات مراد ہیں۔ آیت زیر تشریح بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہاں اللہ کے سوا دوسروں کو ولی بنانے سے مراد مذکورہ بالا چاروں معنوں میں ان کو اپنا سرپرست بنانا اور حامی و مدد گار سمجھنا ہے۔

۷۔ ’’ اللہ ہی ان پر نگراں ہے ‘‘ یعنی وہ ان کے سارے افعال دیکھ رہا ہے اور ان کے نامۂ اعمال تیار کر رہا ہے۔ ان کا محاسبہ اور مواخذہ کرنا اسی کا کام ہے۔ ‘‘ تم ان کے حوالہ دار نہیں ہو‘‘،  یہ خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی قسمت تمہارے حوالے نہیں کر دی گئی ہے کہ جو تمہاری بات نہ مانے گا اسے تم جلا کر خاک کر دو گے یا اس کا تختہ الٹ دو گے،  یا اسے تہس نہس کر کے رکھ دو گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذ اللہ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے آپ کو ایسا سمجھتے تھے اور آپ کی غلط فہمی یا بر خود غلطی کو رفع کرنے کے لیے یہ بات ارشاد ہوئی ہے۔ بلکہ اس سے مقصود کفار کو سنانا ہے۔ اگر چہ بظاہر مخاطب حضورؐ ہی ہیں،  لیکن اصل مدّعا کفار کو یہ بتانا ہے کہ اللہ کا نبی اس طرح کا کوئی دعویٰ نہیں رکھتا جیسے بلند بانگ دعوے خدا رسیدگی اور روحانیت کے ڈھونگ رچانے والے عموماً تمہارے ہاں کیا کرتے ہیں۔ جاہلیت کے معاشروں میں  بالعموم یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ’’حضرت‘‘  قسم کے لوگ ہر اس شخص کی قسمت بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں جو ان کی شان میں کوئی گستاخی کرے۔ بلکہ مر جانے کے بعد ان کی قبر کی بھی اگر کوئی توہین کر گزرے،  یا اور کچھ نہیں تو ان کے متعلق کوئی برا خیال ہی دل میں لے آئے تو وہ اس کا تختہ الٹ دیتے ہیں۔ یہ خیال زیادہ تر ’’ حضرتوں ‘‘ کا  اپنا پھیلایا ہوا ہوتا ہے،  اور نیک لوگ جو خود ایسی باتیں نہیں کرتے،  ان کے نام اور ان  کی ہڈیوں کو اپنے کاروبار کا سرمایہ بنانے کے لیے کچھ دوسرے ہوشیار لوگ ان کے متعلق اس خیال کو پھیلاتے ہیں۔ بہر حال عوام میں اسے روحانیت و خدا رسیدگی کا لازمہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی کو قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کے اختیارات حاصل ہوں۔ اسی فریب کا طلسم توڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ کفار کو سناتے ہوئے اپنے رسول پاک سے فرما رہا ہے کہ بلا شبہ تم ہمارے پیغمبر ہو اور ہم نے اپنی وحی سے تمہیں سرفراز کیا  ہے،  مگر تمہارا کام صرف لوگوں کو سیدھا راستہ دکھانا ہے۔ ان کی قسمتیں تمہارے حوالہ نہیں کر دی گئی ہیں۔ وہ ہم نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھی ہیں۔ بندوں  کے اعمال کو دیکھنا اور ان کو عذاب دینا یا  نہ دینا ہمارا اپنا کام ہے۔

۸۔ وہی بات پھر دہرا کر زیادہ زور دیتے ہوئے کہی گئی ہے جو آغاز کلام میں کہی گئی تھی۔ اور ’’قرآن عربی‘‘ کہہ کر سامعین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ یہ کسی غیر زبان میں نہیں ہے،  تمہاری اپنی زبان میں ہے۔ تم پراہ راست اسے خود سمجھ سکتے ہو، اس کے مضامین پر غور کر کے دیکھو کہ یہ پاک صاف اور بے غرض رہنمائی کیا خداوند عالم کے سوا کسی اور کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے۔

۹۔ یعنی انہیں غفلت سے چونکا دو اور متنبہ کر دو کہ افکار و عقائد کی جن گمراہیوں اور اخلاق و کردار کی جن خرابیوں میں تم لوگ مبتلا ہو، اور تمہاری انفرادی اور قومی زندگی جن فاسد اصولوں پر چل رہی ہے ان کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

۱۰۔ یعنی انہیں یہ بھی بتا دو کہ یہ تباہی و بربادی صرف دنیا ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ آگے وہ دن بھی آنا ہے جب اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو جمع کر کے ان کا حساب لے گا۔ دنیا میں اگر کوئی شخص اپنی گمراہی و بد عملی کے برے نتائج سے  بچ بھی نکلا تو اس دن بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اور بڑا ہی بد قسمت ہے وہ جو یہاں بھی خراب ہو اور وہاں بھی اس کی شامت آئے۔

۱۱۔ یہ مضمون اس سلسلہ کلام میں تین مقاصد کے لیے آیا ہے :

اولاً،  اس سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تعلیم اور تسلی دینا ہے۔ اس میں حضورؐ کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ آپ کفار مکہ کی جہالت و ضلالت اور اوپر سے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیکھ دیکھ کر اس قدر زیادہ نہ کُڑھیں،  اللہ کی مرضی یہی ہے کہ انسانوں کو اختیار و انتخاب کی آزادی عطا کی جائے،  پھر جو ہدایت چاہے اسے ہدایت ملے اور جو گمراہ ہی ہونا پسند کرے اسے جانے دیا جائے جدھر وہ جانا چاہتا ہے۔ اگر یہ اللہ کی مصلحت نہ ہوتی تو انبیاء اور کتابیں بھیجنے کی حاجت ہی کیا تھی، اس کے لیے تو اللہ جل شانہ کا ایک تخلیقی اشارہ کافی تھا، سارے انسان اسی طرح مطیع فرمان ہوتے جس طرح دریا، پہاڑ،  درخت،  مٹی، پتھر اور سب حیوانات ہیں (اس مقصد کے لیے یہ مضمون دوسرے مقامات پر بھی قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول،  ص ۵۳۵ تا ۵۳۷۔ ۵۷۰ )۔

ثانیاً، اس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو اس ذہنی الجھن میں گرفتار تھے اور اب بھی ہیں کہ اگر اللہ فی الواقع انسانوں کی رہنمائی کرنا چاہتا تھا، اور اگر عقیدہ و عمل کے یہ اختلافات، جو لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں،  اسے پسند نہ تھے،  اور اگر اسے پسند یہی تھا کہ لوگ ایمان و اسلام کی راہ اختیار کریں،  تو اس کے لیے آخر وحی اور کتاب اور نبوت کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کام تو وہ بآسانی اس طرح کر سکتا تھا کہ سب کو مومن و مسلم پیدا کر دیتا۔ اسی الجھن کا ایک شاخسانہ یہ استدلال بھی تھا کہ جب اللہ نے ایسا نہیں کیا ہے تو ضرور وہ مختلف طریقے  جن پر ہم چل رہے ہیں،  اس کو پسند ہیں،  اور ہم جو کچھ کر رہے ہیں اسی کی مرضی سے کر رہے ہیں،  لہٰذا اس پر اعتراض کا کسی کو حق نہیں ہے (اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے بھی یہ مضمون قرآن میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اول، ص ۵۷۳۔ ۵۷۴۔ ۵۸۷۔ ۵۹۴ تا ۵۹۶۔ جلد دوم، ص ۳۱۳۔ ۳۷۳۔ ۳۷۴۔ ۵۲۸۔ ۵۳۹۔ ۵۴۰)

ثانیاً،  اس کا مقصد اہل ایمان کو ان مشکلات کی حقیقت سمجھانا ہے جو تبلیغ دین اور اصلاح خلق کی راہ میں اکثر پیش آتی ہیں جو لوگ اللہ کی دی ہوئی آزادی انتخاب و ارادہ، اور اس کی بنا پر طبائع اور طریقوں کے اختلاف کی حقیقت کو نہیں سمجھتے،  وہ کبھی تو کار اصلاح کی سست رفتاری دیکھ کر مایوس ہونے لگتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ کرامتیں اور معجزات رو نما ہوں تا کہ انہیں دیکھتے ہی لوگوں کے دل بدل جائیں،  اور کبھی وہ ضرورت سے زیادہ جوش سے کام لے کر اصلاح کے بے جا طریقے اختیار کرنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں (اس مقصد کے لیے بھی یہ مضمون بعض مقامات پر قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۴۲۰۔ ۴۲۱۔ ۵۶۶ تا ۵۶۹)۔

ان مقاصد کے لیے ایک بڑا اہم مضمون ان مختصر سے فقروں میں بیان فرمایا گیا ہے۔ دنیا میں اللہ کی حقیقی خلافت اور آخرت میں اس کی جنت کوئی معمولی رحمت نہیں ہے جو مٹی اور پتھر اور گدھوں اور گھوڑوں کے مرتبے کی مخلوق پر ایک رحمت عام کی طرح بانٹ دی جائے۔ یہ تو ایک خاص رحمت اور بہت اونچے درجے کی رحمت ہے جس کے لیے فرشتوں تک کو موزون نہ سمجھا گیا۔ اسی لیے انسان کو ایک ذی اختیار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کر کے اللہ نے اپنی زمین کے یہ وسیع ذرائع اس کے تصرف میں دیے اور یہ ہنگامہ خیز طاقتیں اس کو بخشیں تاکہ یہ اس امتحان سے گزر سکے جس میں کامیاب ہو کر ہی کوئی بندہ اس کی یہ رحمت خاص پانے کے قابل ہو سکتا ہے۔ یہ رحمت کی اپنی چیز ہے۔ اس پر کسی کا اجارہ نہیں ہے۔ نہ کوئی اسے اپنے ذاتی استحقاق کی بنا پر دعوے سے لے سکتا ہے،  نہ کسی میں یہ طاقت ہے کہ اسے بزور حاصل کر سکے۔ اسے وہی لے سکتا ہے جو اللہ کے حضور بندگی پیش کرے،  اس کو اپنا ولی بنائے اور اس کا دامن تھامے۔ تب اللہ اس کی مدد اور رہنمائی کرتا ہے،  اور اسے اس امتحان سے بخیریت گزرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے تاکہ وہ اس کی رحمت میں داخل ہو سکے۔ لیکن جو ظالم اللہ ہی سے منہ موڑ لے اور اس کے بجائے دوسروں کو اپنا ولی بنا بیٹھے،  اللہ کو کچھ ضرورت نہیں پڑی ہے کہ خواہ مخواہ زبردستی اس کا ولی بنے،  اور دوسرے جن کو وہ ولی بناتا ہے،  سرے سے کوئی علم، کوئی طاقت اور کسی قسم کے اختیارات ہی نہیں رکھتے کہ اس کی ولایت کا حق ادا کر کے اسے کامیاب کرا دیں۔

۱۲۔ یعنی ولایت کوئی من سمجھوتے کی چیز نہیں ہے کہ آپ جسے چاہیں اپنا ولی بنا بیٹھیں اور وہ حقیقت میں بھی آپ کا سچا اور اصلی ولی بن جائے اور ولایت کا حق ادا کر دے۔ یہ تو ایک امر واقعی ہے جو لوگوں کی خواہشات کے ساتھ بنتا اور بدلتا نہیں چلا جاتا،  بلکہ جو حقیقت میں ولی ہے وہی ولی ہے،  خواہ آپ اسے ولی نہ سمجھیں اور نہ مانیں،  اور جو حقیقت میں ولی نہیں ہے وہ ولی نہیں ہے،  خواہ آپ مرتے دم تک اسے ولی سمجھتے اور مانتے چلے جائیں۔ اب رہا یہ سوال کہ صرف اللہ ہی کے ولی حقیقی ہونے اور دوسرے کسی کے نہ ہونے کی دلیل کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کا حقیقی ولی وہی ہو سکتا ہے جو موت کو حیات میں تبدیل کرتا ہے،  جس نے  بے جان مادوں میں جان ڈال کر جیتا جاگتا انسان پیدا کیا ہے،  اور جو حق ولایت ادا کرنے کی قدرت اور اختیارات بھی رکھتا ہے۔ وہ اگر اللہ کے سوا کوئی اور ہو تو اسے ولی بناؤ، اور اگر وہ صرف اللہ ہی ہے،  تو پھر اس کے سوا کسی اور کو اپنا ولی بنا لینا جہالت و حماقت اور خود کشی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

 

تمہارے (۱۳) درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو، اس کو فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے (۱۴)۔ وہی اللہ میرا(۱۵) رب ہے،  اسی پر میں نے بھروسہ کیا، اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں (۱۶)آسمانوں اور زمین کا بنانے والا،  جس نے تمہاری اپنی جنس سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے،  اور اسی طرح جانوروں میں بھی (انہی کے ہم جنس) جوڑے بنائے،  اور اس طریقہ سے وہ تمہاری نسلیں پھیلاتا ہے۔ کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں (۱۷) وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے (۱۸)، آسمانوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں،  جسے چاہتا ہے کھلا رزق  دیتا ہے اور  جسے چاہتا ہے نَپا تلا دیتا ہ، اسے ہر چیز کا علم ہے (۱۹)۔
اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا،  اور جسے (اے محمدؐ)اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے،  اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں،  اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ(۲۰)۔ یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف اے محمدؐ) تم انہیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے،  اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے (۲۱)
لوگوں میں جو تفرقہ رو نما ہوا وہ اس کے بعد ہوا کہ ان کے پاس علم آ چکا تھا (۲۲)، اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے (۲۳)۔ اگر تیرا رب پہلے ہی یہ نہ فرما چکا ہوتا کہ ایک وقت مقرر تک فیصلہ ملتوی رکھا جائے گا تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا (۲۴)۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اَگلوں کے بعد جو لوگ کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اس کی طرف سے بڑے اضطراب انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ (۲۵)
چونکہ یہ حالت پیدا ہو چکی ہے اس لیے اے محمد، اب تم اسی دین کی طرف دعوت دو،  اور جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جاؤ، اور ان لوگو ں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو(۲۶)، اور ان سے کہہ دو کہ: ’’ اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا(۲۷)۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں (۲۸)۔ اللہ ہی ہمارا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے (۲۹)۔ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں (۳۰)۔ اللہ ایک روز  ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے ‘‘۔
اللہ کی دعوت پر لبّیک کہے جانے کے بعد جو لوگ (لبّیک کہنے والوں سے ) اللہ کے دین کے معاملہ میں جھگڑے کرتے ہیں (۳۱)، ان کی حجت  بازی ان کے رب کے نزدیک باطل ہے،  اور ان پر اس کا غضب ہے اور ان کے لیے سخت عذاب ہے۔
 وہ اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ یہ کتاب اور میزان نازل کی ہے (۳۲)۔ اور تمہیں کیا خبر، شاید کہ فیصلے کی گھڑی قریب ہی آ لگی ہو (۳۳)۔ جو لوگ اس کے آنے پر ایمان نہیں رکھتے وہ تو اس کے لیے جلدی مچاتے ہیں،  مگر جو اس پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس سے ڈرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یقیناً وہ آنے والی ہے خوب سن لو،  جو لوگ اس گھڑی کے آنے میں شک ڈالنے والی بحثیں کرتے ہیں وہ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں۔
اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے (۳۴)۔ جسے جو کچھ چاہتا ہے دیتا ہے،  (۳۵) وہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے (۳۶)۔ ع

 

۱۳۔ اس پورے پیراگراف کی عبارت اگر چہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہے،  لیکن اس میں متکلم اللہ تعالیٰ نہیں ہے،  بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ گویا اللہ جل شانہٗ  اپنے نبی کو ہدایت دے رہا ہے کہ تم یہ اعلان کرو۔ اس طرح کے مضامین قرآن مجید میں کہیں تو قُل (اے نبی،  کہو) سے شروع ہوتے ہیں،  اور کہیں اس کے بغیر ہی شروع ہو جاتے ہیں،  صرف انداز کلام بتا دیتا ہے کہ یہاں متکلم اللہ نہیں بلکہ اللہ کا رسول ہے۔ بلکہ بعض مقامات پر تو کلام اللہ کا ہوتا ہے اور متکلم اہل ایمان ہوتے ہیں،  جیسے مثلاً سورہ فاتحہ میں ہے،  یا متکلم فرشتے ہوتے ہیں،  جیسے مثلاً سورہ مریم ۲۴۔ ۲۵ میں ہے۔

۱۴۔ یہ اللہ تعالیٰ کے مالک کائنات اور ولی حقیقی ہونے کا فطری اور منطقی تقاضا ہے۔ جب بادشاہی اور ولایت اسی کی ہے تو لا محالہ پھر حاکم بھی وہی ہے اور انسانوں کے باہمی تنازعات و اختلافات کا فیصلہ کرنا بھی وہی ہے اور انسانوں کے باہمی تنازعات و اختلافات کا فیصلہ کرنا بھی اسی کا کام ہے۔ اس کو جو لوگ صرف آخرت کے لیے مخصوص سمجھتے ہیں،  وہ غلطی کرتے ہیں۔ کوئی دلیل اس امر کی نہیں ہے کہ اللہ کی یہ حاکمانہ حیثیت اس دنیا کے لیے نہیں بلکہ صرف موت کی زندگی کے لیے ہے۔ اسی طرح جو لوگ اس دنیا میں صرف عقائد اور چند’’ مذہبی‘‘ مسائل تک اسے محدود قرار دیتے ہیں،  وہ بھی غلطی پر ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ عام ہیں اور وہ صاف صاف علی الا طلاق تمام نزاعات و اختلافات میں اللہ کو فیصلہ کرنے کا اصل حق دار قرار دے رہے ہیں۔ ان کی رو سے اللہ جس طرح آخرت کا مالک یوم الدین ہے اسی طرح اس دنیا کا بھی احکم الحاکمین ہے۔ اور جس طرح وہ اعتقادی اختلافات میں یہ طے کرنے والا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا، ٹھیک اسی طرح قانونی حیثیت سے بھی وہی یہ طے کرنے والا ہے کہ انسان کے لیے پاک کیا ہے اور نا پاک کیا، جائز اور حلال کیا ہے اور حرام و مکروہ کیا،  اخلاق میں بدی و زشتی کیا ہے اور نیکی و خوبی کیا، معاملات میں کس کا کیا حق ہے اور کیا نہیں ہے،  معاشرت اور  تمدن اور سیاست اور معیشت میں کونسے طریقے درست ہیں اور کونسے غلط۔ آخر اسی بنیاد پر تو قرآن میں یہ بات اصول قانون کے طور پر ثبت کی گئی ہے کہ فَاِنْ تَنَزَعْتُمْفِیْ شَئءٍ فَرپدُّ اِلَی اللہِ وَ الرَّسُوْ لِ (انساء۔ ۵۹)، اور   مَا کَانَ لِمپؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَ اقَضَی اللہُ وَرَسُوْلُہٗ  اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرھِمْ (الاحزاب۔ ۳۶)، اور  اِتَّبِعُوْ ا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّ بِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْ ا مِنْدُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآءَ (الاعراف۔ ۳)

پھر جس سیاق و سباق میں یہ آیت آئی ہے اس کے اندر یہ ایک اور معنی بھی دے رہی ہے،  اور وہ یہ  ہے کہ اختلافات کا فیصلہ کرنا اللہ تعالیٰ کا محض قانونی حق ہی نہیں ہے جس کے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کے کافر و مومن ہونے کا مدار ہے،  بلکہ اللہ فی الواقع عملاً بھی حق اور باطل کا فیصلہ کر رہا ہے جس کی بدولت باطل اور اس کے پرستار آخر کار تباہ ہوتے ہیں اور حق اور اس کے پرستار سرفراز کیے جاتے ہیں،  خواہ اس فیصلے کے نفاذ میں دنیا والوں کے کتنی ہی تاخیر ہوتے نظر  آتی ہو۔ یہ مضمون آگے آیت ۲۴ میں بھی آ رہا ہے،  اور اس سے پہلے قرآن مجید میں  متعدد مقامات پر گزر چکا ہے۔ (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، ص ۴۵۳۔ ۴۶۵۔ ۴۶۶۔ ۴۷۹۔ ۴۸۳ تا ۴۸۶۔ ۶۳۸۔ جلد سوم،  ص ۱۵۱۔ ۱۵۲۔ ۱۶۱)

۱۵۔ یعنی جو اختلافات کا فیصلہ کرنے والا اصل حاکم ہے۔

۱۶۔ یہ دو فعل ہیں جن میں سے ایک بصیغۂ ماضی بیان کیا گیا ہے اور دوسرا بصیغۂ مضارع جس میں استمرار کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ صیغہ ماضی میں فرمایا ’’ میں نے اس پر بھروسہ کیا، ’’یعنی ایک دفعہ میں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فیصلہ کر لیا کہ جیتے جی مجھے اسی کی مدد، اسی کی رہنمائی، اسی کی حمایت و حفاظت،  اور اسی کے فیصلے پر اعتماد کرنا ہے۔ پھر صیغہ مضارع میں فرمایا ’’میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ‘‘ یعنی جو معاملہ بھی مجھے اپنی زندگی میں پیش آتا ہے،  میں اس میں اللہ ہی کی طرف رجوع کیا کرتا ہوں۔ کوئی مصیبت، تکلیف، یا مشکل پیش آتی ہے تو کسی کی طرف نہیں دیکھتا، اس سے مدد مانگتا ہوں۔ کوئی خطرہ پیش آتا ہے تو اس کی پناہ ڈھونڈتا ہوں اور اس کی حفاظت پر بھروسا کرتا ہوں۔ کوئی مسئلہ در پیش ہوتا ہے تو اس سے رہنمائی طلب کرتا ہوں اور اسی کی تعلیم و ہدایت میں اس کا حل یا حکم تلاش کرتا ہوں۔ اور کسی سے نزاع ہوتی ہے تو اسی کی طرف دیکھتا ہوں کہ اس کا آخری فیصلہ وہی کرے گا اور یقین رکھتا ہوں کہ جو فیصلہ بھی وہ کرے گا وہی حق ہو گا۔

۱۷۔ اصل الفاظ ہیں لَیْسَ کَمِثْلَہٖ شَئ ءٌ ’’ کوئی چیز اس کے مانند جیسی نہیں ‘‘ا مفسرین اور اہل لغت میں س بعض کہتے ہیں کہ اس میں لفظ مثل پر کاف (حرف تشبیہ ) کا اضافہ محاورے کے طور پر کیا گیا ہے جس سے مقصود محض بات میں زور پیدا کرنا ہوتا ہے،  اور عرب میں یہ طرز بیان رائج ہے۔ مثلاً شاعر کہتا ہے وقتلیٰ کمثل جُذوع النخل۔ اور ایک دوسرا شاعر کہتا ہے ما ان کمثلھم فی الناس من احد۔ بعض دوسرے حضرات کا قول یہ ہے کہ اس جیسا کوئی نہیں کہنے کے بجائے اس کے مثل جیسا کوئی نہیں کہتے میں مبلغہ ہے،  مراد یہ ہے کہ اگر بفرض محال اللہ کا کوئی مثل ہوتا تو اس جیسا بھی کوئی نہ ہوتا،  کجا کہ خود اللہ جیسا کوئی ہو۔

۱۸۔ یعنی بیک وقت ساری کائنات میں ہر ایک کی سن رہا ہے اور ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔

۱۹۔ یہ دلائل ہیں اس امر کے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کیوں ولی برحق ہے،  اور کیوں اسی پر توکل کرنا صحیح ہے اور کیوں اسی کی طرف رجوع کیا جانا چاہیے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، صفحات ۵۸۹ تا ۵۹۸۔ ۷۴۲ تا ۷۴۶)

۲۰۔ یہاں اسی بات کو پھر زیادہ وضاححت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جو پہلی آیت میں ارشاد ہوئی تھی۔ اس میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کسی نئے مذہب کے بانی نہیں ہیں،  نہ انبیاء میں سے کوئی اپنے کسی الگ مذہب کا بانی گزرا ہے،  بلکہ اللہ کی طرف سے ایک ہی دین ہے جسے شروع سے تمام انبیاء پیش کرتے چلے آ رہے ہیں،  اور اسی کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی پیش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے حضرت نوحؑ  کا نام لیا گیا ہے جو طوفان کے بعد موجودہ نسل انسانی کے اولین پیغمبر تھی،  اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر کیا گیا ہے جو آخری نبی ہیں،  پھر حضرت ابراہیمؑ کا نام لیا گیا ہے جنہیں اہل عرب اپنا پیشوا مانتے تھے،  اور آخر میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کا ذکر کیا گیا ہے جن کی طرف یہودی اور عیسائی اپنے مذہب کو منسوب کرتے ہیں۔ اس سے مقصود یہ نہیں ہے کہ انہی پانچ انبیاء کو اس دین کی ہدایت کی گئی تھی۔ بلکہ اصل مقصد یہ بتانا ہے کہ دنیا میں جتنے انبیاء بھی آئے ہیں،  سب ایک ہی دین لے کر آئے ہیں،  اور نمونے کے طور پر ان پانچ جلیل القدر انبیاء کا نام لے دیا گیا ہے جن سے دنیا کو معروف ترین آسمانی شریعتیں ملی ہیں۔

یہ آیت چونکہ دین اور اس کے مقصود پر بڑی اہم روشنی ڈالتی ہے،  اس لیے ضروری ہے کہ اس پر پوری طرح غور کر کے اسے سمجھا جائے:

فرمایا کہ شَرَعَلَکُمْ، ’’ مقرر کیا تمہارے لیے ‘‘ شرع کے  لغوی معنی راستہ بنانے کے ہیں،  اور اصطلاحاً اس سے مراد طریقہ اور ضابطہ اور قاعدہ مقرر کرتا ہے۔ عربی زبان میں اسی اصلاحی معنی کے لحاظ تشریع کا لفظ قانون سازی (Lagislation) کا،  شرع اور شریعت کا لفظ قانون (Law) کا شارع کا لفظ واضح قانون (Law  giver) کا ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ یہ تشریع خداوندی دراصل فطری اور منطقی نتیجہ ان اصولی حقائق کا جو قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوئے ہیں کہ اللہ ہی کائنات کی ہر چیز کا مالک ہے،  اور وہی انسان کا حقیقی ولی ہے،  اور انسانوں کے درمیان جس امر میں بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ کرنا اسی کا کام ہے۔ اب چونکہ اصولاً اللہ ہی مالک اور ولی اور حاکم  ہے،  اس لیے لامحالہ وحی اس کا حق رکھتا ہے کہ انسان کے لیے قانون و ضابطہ بنائے اور اسی کی یہ ذمہ داری ہے کہ انسانوں کو یہ قانون  و ضابطہ دے۔ چنانچہ اپنی اس ذمہ داری کو اس نے یوں ادا کر دیا ہے۔

پھر فرمایا  مِنَ الدِّیْنِ،  ’’اس قسم دین‘‘۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس کا ترجمہ ’’ از آئین ‘‘ کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو تشریع فرمائی ہے اس کی نوعیت آئین کی ہے لفظ ’’ دین ‘‘ کی جو تشریح ہم اس سے پلے سورہ زُمُر،  حاشیہ۳ نمبر میں کر چکے ہیں وہ اگر نگاہ میں رہے تو یہ سمجھنے میں کوئی الجھن پیش نہیں آ سکتی کہ دین کے معنی ہی کسی کی سیادت و حاکمیت تسلیم کر کے اس کے احکام کی اطاعت کرنے کے ہیں۔ اور جب  یہ لفظ طریقے کے معنی میں   بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ طریقہ ہوتا ہے جسے آدمی واجب الاتباع اور جس کے مقرر کرنے والے کو مطاع مانے۔ اس بنا پر اللہ کے مقرر کیے ہوئے اس طریقے کو دینا پر اللہ کے مقرر کیے ہوۓ اس طریقے س سے مراد وہ طریقہ ہوتا ہے جسے آدمی واجب الاتباع اور جس کے مقرر کرنے والے کو مگاع مانے۔ن کی نوعیت رکھنے والی تشریع کہنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی حیثیت محض سفارش (Recommendation) اور وعظ نصیحت کی نہیں ہے،  بلکہ یہ بندوں کے لیے ان کے مالک کا واجب الاطاعت قانون ہے جس کی پیروی نہ کرنے کے معنی بغاوت کے ہیں اور جو شخص اس کی پیروی نہیں کرتا وہ در اصل اللہ کی سیادت و حاکمیت اور اپنی بندگی کا انکار کرتا ہے۔

اس کے بعد ارشاد ہوا کہ دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع وہی ہے جس کی ہدایت نوح اور ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام کو دی گئی تھی اور اسی کی ہدایت اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو دی گئی ہے۔ اس ارشاد سے کئی باتیں نکلتی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس تشریع کو براہ راست ہر انسان کے پاس نہیں بھیجا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً جب اس نے مناسب سمجھا ہے ایک شخص کو اپنا رسول مقرر کر کے یہ تشریع اس کے حوالے کی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ تشریع ابتدا سے یکساں رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی زمانے میں کسی اور قوم کے لیے کوئی دین مقرر کیا گیا ہو اور کسی دوسرے زمانے میں کسی اور قوم کے لیے اس سے مختلف اور متضاد دین بھیج دیا گیا ہو۔ خدا کی طرف سے بہت سے دین نہیں آئے ہیں،  بلکہ جب بھی آیا ہے یہی ایک دین آیا ہے۔ تیسرے  یہ کہ اللہ کی سیادت و حاکمیت ماننے کے ساتھ ان لوگوں کی رسالت کا ماننا جن کے ذریعہ سے یہ تشریع بھیجی گئی ہے،  اور اس وحی کو تسلیم کرنا جس میں یہ تشریع بیان کی گئی ہے،  اس دین کا لازمی جز ہے،  اور عقل و منطق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کو لازمی جز ہونا چاہیے،  کیونکہ آدمی اس تشریع کی اطاعت کر ہی نہیں سکتا جب تک وہ اس کے خدا کی طرف سے مستند (Authentic) ہونے پر مطمئن نہ ہو۔

اس کے بعد فرمایا کہ ان سب انبیاء کو دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع اس ہدایت اور تاکید کے ساتھ دی گئی تھی کہ اَقِیْمُو ا الدِّیْنَ۔ اس فقرے کا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب نے  ’’ قائم کنید دین را‘‘ کیا ہے،  اور شاہ رفیع الدین صاحب اور شاہ عبدالقادر صاحب نے ’’ قائم رکھو دین کو ‘‘۔ یہ دونوں ترجمے درست ہیں۔ اقامت کے معنی قائم کرنے کے بھی ہیں اور قائم رکھنے کے بھی، اور انبیاء علیہم السلام ان دونوں ہی کاموں پر مامور تھے۔ ان کا پہلا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ دین قائم نہیں ہے وہاں اسے قائم کریں۔ اور دوسرا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ قائم ہو جائے یا پہلے سے قائم ہو وہاں اسے قائم رکھیں۔ ظاہر بات ہے کہ قائم رکھنے کی نوبت آتی ہی اس وقت ہے جب ایک چیز قائم ہو چکی ہو۔ ورنہ پہلے اسے قائم کرنا ہو گا، پھر یہ کوشش مسلسل جاری رکھنی پڑے گی کہ وہ قائم رہے۔

اب ہمارے سامنے دو سوالات آتے ہیں۔ ایک یہ کہ دین کو قائم کرنے سے مراد کیا ہے؟ دوسرے یہ کہ خود دین سے کیا مراد ہے جسے قائم کرنے اور پھر قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے؟ ان دونوں باتوں کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔

قائم کرنے کا لفظ جب کسی مادی یا جسمانی چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد بیٹھے کو اٹھا نا ہوتا ہے،  مثلاً کسی انسان یا جانور کو اٹھانا۔ یا پڑی ہوئی چیز کو کھڑا کرنا ہوتا ہے،  جیسے بانس یا ستون کو قائم کرنا۔ یا کسی چیز کے بکھرے ہوئے اجزاء کو جمع کر کے بلند کرنا ہوتا ہے،  جیسے کسی خالی زمین میں عمارت قائم کرنا لیکن جو چیزیں مادی نہیں بلکہ معنوی ہوتی ہیں ان کے لیے جب قائم کرنے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد اس چیز کی محض تبلیغ کرنا نہیں بلکہ اس پر کما حقہ،  عمل در آمد کرنا،  اسے رواج دینا اور اسے عملاً نافذ کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی حکومت قائم کی تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ اس نے اپنی حکومت کی طرف دعوت دی، بلکہ یہ ہوتے ہیں کہ اس نے ملک کے لوگوں کو اپنا مطیع کر لیا اور حکومت کے تمام شعبوں کی ایسی تنظیم کر دی کہ ملک کا سارا انتظام اس دے احکام کے مطابق چلنے لگا۔ اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ ملک میں عدالتیں قائم ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انصاف کرنے کے لیے منصف مقرر ہیں اور وہ مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں اور فیصلے دے رہے ہیں،  نہ یہ کہ عدل و انصاف کی خوبیاں خوب خوب بیان کی جا رہی ہیں اور لوگ ان کے قائل ہو رہے ہیں۔ اسی طرح جب قرآن مجید میں حکم دیا جاتا ہے کہ نماز قائم کرو تو اس سے مراد نماز کی دعوت و تبلیغ نہیں ہوتی بلکہ یہ ہوتی ہے کہ نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ نہ صرف خود ادا کرو بلکہ ایسا انتظام کرو کہ وہ اہل ایمان میں باقاعدگی کے ساتھ رائج ہو جائے۔ مسجدیں ہوں۔ جمعہ و جماعت کا اہتمام ہو۔ وقت کی پابندی کے ساتھ اذانیں دی جائیں۔ امام اور خطیب مقرر ہوں۔ اور لوگوں کو وقت پر مسجدوں میں آنے اور نماز ادا کرنے کی عادت پڑ جائے۔ اس تشریح کے بعد یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت پیش آ سکتی کہ انبیاء علیہم السلام کو جب اس دین کے قائم کرنے اور قائم رکھنے کا حکم دیا گیا تو اس سے مراد صرف اتنی بات نہ تھی کہ وہ خود اس دین پر عمل کریں،  اور اتنی بات بھی نہ  تھی کہ وہ دوسروں میں اس کی تبلیغ کریں تاکہ لوگ اس کا برحق ہونا تسلیم کر لیں تو اس سے آگے قدم بڑھا کر پورا کا پورا دین ان میں عملاً رائج اور نافذ کیا جائے تاکہ اس کے مطابق عمل در آمد ہونے لگے اور ہوتا رہے۔ اس میں شک نہیں کہ دعوت و تبلیغ اس کا م کا لازمی ابتدائی مرحلہ ہے جس کے بغیر دوسرا مرحلہ پیش نہیں آ سکتا۔ لیکن ہر صاحب عقل آدمی خود دیکھ سکتا ہے کہ اس حکم میں دعوت و تبلیغ کو مقصود کی حیثیت نہیں دی گئی ہے،  بلکہ دین قائم کرنے اور قائم رکھنے کو مقصود قرار دیا گیا ہے۔ دعوت و تبلیغ اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ضرور ہے،  مگر بجائے خود مقصد نہیں ہے،  کجا کہ کوئی شخص اسے انبیاء کے مشن کا مقصد توحید قرار دے بیٹھے۔

اب دوسرے سوال کو لیجیے۔ بعض لوگوں نے دیکھا کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ تمام انبیا ء علیہم السلام کے درمیان مشترک ہے،  اور شریعتیں ان سب کی مختلف رہی ہیں،  جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے : لِکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْ عَۃً وَّ مِجْھَا جاً،  اس لیے انہوں نے یہ رائے قائم کر لی کہ لا محالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کا ماننا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے،  یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل میں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی رائے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر قائم کر لی گئی ہے،  اور یہ ایسی خطرناک رائے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کر دی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہو کر سینٹ پال نے دین بلا شریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیّدنا مسیح علیہ السلام کی امت کو خراب کر دیا۔ اس لیے کہ جب شریعت دین سے الگ ایک چیز ہے، اور حکم صرف دین کو قائم کرنے کا ہے نہ کہ شریعت کو لا محالہ مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح شریعت کو غیر اہم اور اس کی اقامت کو غیر مقصود بالذات سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے اور صرف ایمانیات اور موٹے موٹے اخلاقی اصولوں کے لے کر بیٹھ جائیں گے۔ اس طرح کے قیاسات سے دین کا مفہوم متعین کرنے کے بجائے آخر کیوں نہ ہم خود اللہ کی کتاب سے پوچھ لیں کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم یہاں دیا گیا ہے،  آیا اس سے مراد صرف ایمانیات اور بڑے بڑے اخلاقی اصول ہی ہیں،  یا شرعی احکام بھی۔ قرآن مجید کا جب ہم تتبع کرتے ہیں تو اس میں جن چیزوں کو دین میں شمار کیا گیا ہے ان میں حسب ذیل چیزیں بھی ہمیں ملتی ہیں :

 ۱)وَمَآ اُمِرُ ؤٓ ا اِلَّا لِیَعْبُدُو ا اللہَ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّ یْنَ حُنَفَآءَ وَیُقِیْمو االصَّلوٰۃَ وَ یُؤْ تُو االزَّ کوٰۃَ وَ ذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃ (البیّنہ، آیت ۵)۔ ’’ اور ان کو حکم نہیں دیا گیا مگر اس بات کا کہ یکسو ہو کر  اپنے دین کو الہہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں اور زکوٰۃ دین،  اور یہی راست رَو ملت کا دین ہے۔ ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ نماز اور زکوٰۃ اس دین میں شامل ہیں،  حالانکہ ان دونوں کے احکام مختلف شریعتوں میں مختلف رہے ہیں۔ کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تمام پچھلی شریعتوں میں نماز کی یہی شکل و ہئیت،  یہی اس کے اجزاء، یہی اس کی رکعتیں،  یہی اس کا قبلہ، یہی اس کے اوقات، اور یہی اس کے دوسرے احکام رہے ہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ  کے متعلق بھی کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ تمام شریعتوں میں یہی اس کا نصاب، یہی اس کی شرحیں،  اور یہی اس کی تحصیل اور تقسیم کے احکام رہے ہیں۔ لیکن اختلاف شرائع کے باوجود اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں کو دین میں شمار کر رہا ہے۔

۲)حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَہُ وَالدَّ مُ وَ لَحْمُ الخِنْزِیْرِ وَمَآاھُلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ ........ الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ........ (المائدہ۔ ۳) ’’ تمہارے لیے حرام کیا گیا مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، اور وہ جو گلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو، سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کرلیا،  اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو، نیز یہ بھی تمہارے لیے حرام کیا گیا کہ تم پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب کام فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین تمہارے لیے مکمل کر دیا .................‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب حکام شریعت بھی دین ہی ہیں۔

۳) اَتِلُو االَّذِیْنَ لَا یُؤْ مِنُوْنَ بِا للہِ وَلْیَوْمِ الْاٰ خِرِ وَلَا یُحَرِّ مُوْنَ مَا حَرَّ مَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ (التوبہ۔ ۲۹)۔ ’’ جنگ کرو ان لوگوں سے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے ‘‘۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ حلال و حرام کے ان احکام کو ماننا اور ان کی پابندی کرنا بھی دین ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے دیے ہیں۔

۴) اَلزَّانِیَۃُوَ الزَّ انِیْ فَا جْلِدُوْ اکُلَّوَحِدٍمِّنْھُمَا مِا ئَۃَ جَلْدَۃٍ وَّ لَا تَأ خُذْ کُمْ بھِمَا رَأ فَۃٌ فِیْ دِ یْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِا للہِ وَالْیَوْ مِ الْاٰخِرِ (النّور ۲۰)’’ زانیہ عورت اور مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملہ میں تم کو دامنگیر نہ ہو اگر تم اللہ اور راز آخر پر ایمان رکھتے ہو‘‘ مَا کَا نَ لِیَأ خُذَ اَخَا ہُ فَیْ دِیْنِ الْمَلِکِ (یوسف۔ ۷۶) یوسفؑ اپنے بھائی کو بادشاہ کے دین میں پکڑ لینے کا مجاز نہ تھا‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ فوجداری قانون بھی دین ہے۔ اگر آدمی خدا کے فوجداری قانون پر چلے تو وہ خدا کے دین کا پیرو ہے اور اگر بادشاہ کے قانون پر چلے تو وہ بادشاہ کے دین کا پیرو۔

یہ چار  تو وہ نمونے ہیں جن میں شریعت کے احکام کو بالفاظ صریح دین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن گناہوں پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کی دھمکی دی ہے (مثلاً زنا، سود خواری،  قتل مومن،  یتیم کا مال کھانا،  باطل طریقوں سے لوگوں کے مال لینا،  وغیرہ)، اور جن جرائم کو خدا کے عذاب کا موجب قرار دیا ہے (مثلاً عمل قوم لوط،  اور لین دین میں قوم شعیبؑ کا رویہ) ان کا سد باب لازماً دین ہی میں شمار ہونا چاہیے،  اس لیے کہ دین اگر جہنم اور عذاب الہٰی سے بچانے کے لیے نہیں آیا ہے تو اور کس چیز کے لیے آیا ہے؟ اسی طرح وہ احکام شریعت بھی دین ہی کا حصہ ہونے چاہییں جن کی خلاف ورزی کو خلود جی النار کا موجب قرار دیا گیا ہے،  مثلاً میراث کے احکام، جن کو بیان کرنے کے  بعد آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ وَمَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْ لَہٗ  وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ  یُدْ خِلْہُنَا راً اخَا لِداً ا فِیْھَا  وَلَہٗ  عَذَابٌ مّھُیْنٌ  (النساء۔ ۱۴) ’’ جو اللہ اور اسے کے رسول کی نافرمانی اور اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گا، اللہ اس کو دوزخ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے ‘‘۔ اسی جن چیزوں کی حرمت اللہ تعالیٰ نے پوری شدت اور قطعیت کے ساتھ بیان کی ہے،  مثلاً ماں بہن اور بیٹی کی حرمت، شراب کی حرمت،  شراب کی حرمت،  چوری کی حرمت، جوئے کی حرمت،  جھوٹی شہادت کی حرمت، ان کی تحریم کو اگر اقامت دین میں شامل نہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ غیر ضروری احکام بھی دے دیے ہیں جن کا اجراء مقصود نہیں ہے۔ علیٰ ہٰذا القیاس جن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے،  مثلاً روزہ اور حج،  ان کی اقامت کو بھی محض اس بہانے اقامت دین سے خارج نہیں کیا جا سکتا کہ رمضان کے ۳۰ روزے تو پچھلی شریعتوں میں نہ تھے،  اور کعبے کا حج تو صرف اس شریعت میں تھا جو اولاد ابراہیمؑ کی اسماعیلی شاخ کو ملی تھی۔

دراصل ساری غلط فہمی صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ آیت : لَکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمُ شِرْ عَۃً وَّ مِنْھَا جاً (ہم نے تم میں سے ہر امت کے لی ایک شریعت اور ایک راہ مقرر کر دی) کا الٹا مطلب لے کر اسے یہ معنی پہنا دیے گئے ہیں کہ شریعت چونکہ ہر امت کے لیے الگ تھی، اور حکم صرف اس دین کے قائم کرنے کا دیا گیا ہے جو تمام انبیاء کے درمیان مشترک تھا، اس لیے اقامت دین کے حکم میں اقامت شریعت شامل نہیں ہے۔ حالانکہ در حقیقت اس آیت کا مطلب اس دے بالکل بر عکس ہے۔ سورہ مائدہ میں جس مقام پر یہ آیت آئی ہے اس کے پورے سیاق و سباق کو آیت ۴۱ سے آیت ۵۰ تک اگر کوئی شخص بغور پڑھے تو معلوم ہو گا کہ اس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس نبی کی امت کو جو شریعت بھی اللہ تعالیٰ نے دی تھی وہ اس امت کے لیے دین تھی اور اس کے دور نبوت میں اسی اقامت مطلوب تھی۔ اور اب چونکہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا دور نبوت ہے۔ اس لیے امت محمدیہ کو جو شریعت دی گئی ہے وہ اس دور کے لیے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے۔ رہا ان شریعتوں کا اختلاف،  تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا کی بھیجی ہوئی شریعتیں باہم متضاد تھیں،  بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جزئیات میں حالات کے لحاظ سے کچھ فرق رہا ہے۔ مثال کے طور پر نماز اور روزے کو دیکھیے۔ نماز تمام شریعتوں میں فرض رہی ہے،  مگر قبلہ ساری شریعتوں کا ایک نہ تھا، اور اس کے اوقات اور رکعات اور اجزاء میں بھی فرق تھا۔ اسی طرح روزہ ہر شریعت میں فرض تھا مگر رمضان کے ۳۰ روزے دوسری شریعتوں میں  نہ تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ مطلقاً نماز اور روزہ تو اقامت دین میں شامل ہے،  مگر ایک خاص طریقت سے نماز پڑھنا اور خاص زمانے میں روزہ رکھنا اقامت دین سے خارج ہے۔ بلکہ اس سے صحیح طور پر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر نبی کی امت کے لیے اس وقت کی شریعت میں نماز اور روزے کے لیے جو قاعدے مقرر کیے گئے تھے انہی کے مطابق اس زمانے میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا دین قائم کرنا تھا، اور اب اقامت دین یہ ہے کہ ان عبادتوں کے لیے شریعت محمدیہ میں جو طریقہ رکھا گیا ہے ان کے مطابق انہیں ادا کیا جائے۔ انہی دو مثالوں پر دوسرے تمام احکام شریعت کو بھی قیاس کر لیجیے۔

قرآن مجید کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر پڑھے گا اسے یہ بات صاف نظر آئے گی کہ یہ کتاب اپنے ماننے والوں کو کفر اور کفار کی رعیت فرض کر کے مغلوبانہ حیثیت میں مذہبی زندگی بسر کرنے کا پروگرام نہیں دے رہی ہے،  بلکہ یہ علانیہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے،  اپنے پیروؤں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ دین حق کو فکری، اخلاقی،  تہذیبی اور قانونی و سیاسی حیثیت سے غالب کرنے کے لیے جان لڑا دین، اور ان کو انسانی زندگی کی اصلاح کا وہ پروگرام دیتی ہے جس کے بہت بڑے حصے پر صرف اسی صورت میں عمل کیا جا سکتا ہے جب حکومت کا اقتدار اہل ایمان کے ہاتھ میں ہو۔ یہ کتاب اپنے نازل کیے جانے کا مقصد یہ بیان کرتی ہے کہ اِنَّآ اَنْزَلْنا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِا لْحقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّا سِ بِمَآ اَرٰ کَ اللہُ (النساء۔ ۱۰۵)۔ ’’اے نبی، ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تم پر نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اس روشنی میں جو اللہ نے تمہیں دکھائی ہے ‘‘۔ اس کتاب میں زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے جو احکام دیے گیے ہیں وہ صریحاً اپنے پیچھے ایک ایسی حکومت کا تصور رکھتے ہیں جو ایک مقرر قاعدے کے مطابق زکوٰۃ وصول کر کے مستحقین تک  پہنچانے کا ذمہ لے (التوبہ۔ ۶۰۔ ۱۰۳) اس کتاب میں سود کو بند کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اور سود خواری جاری رکھنے والوں کے خلاف جو اعلان جنگ کیا گیا ہے (البقرہ ۲۷۵۔ ۲۷۹) وہ اسی صورت میں رو بہ عمل آ سکتا ہے جب ملک کا سیاسی اور معاشی نظام پوری طرح اہل ایمان کے ہاتھ ہیں ہو۔ اس کتاب میں قاتل سے قصاص لینے کا حکم (البقرہ۔ ۱۷۸) چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم (المائدہ۔ ۳۸) زنا اور قذف پر حد جاری کرنے کا حکم (النور۔ ۲۔ ۴) اس مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ ان احکام کے ماننے والے لوگوں کو کفار کی پولیس اور عدالتوں کے ماتحت رہنا ہو گا۔ اس کتاب میں کفار سے قتال کا حکم (لبقرہ۔ ۱۹۰۔ ۲۱۶) یہ سمجھتے ہوئے نہیں دیا گیا کہ اس دین کے پیرو کفر کی حکومت میں چوج بھرتی کر کے اس حکم کی تعمیل کریں گے۔ اس کتاب میں اہل کتاب سے جزیہ لینے کا حم (التوبہ ۲۹) اور مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ مسلمان کافروں کی رعایا ہوتے ہوئے ان سے جزیہ وصول کریں گے اور ان کی حفاظت کا ذمہ لیں گے۔ اور یہ معاملہ صرف مدنی سورتوں ہی تک محدود نہیں ہے۔ مکی صورتوں میں بھی دیدہ بینا کو علانیہ یہ نظر آ سکتا ہے کہ ابتدا ہی سے جو نقشہ پیش نظر تھا وہ دین کے غلبہ و اقتدار کا تھا نہ کہ کفر کی حکومت کے تحت دین اور اہل دین کے ذمی بن کر رہنے کا۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم ص ۶۳۳۔ ۶۳۷۔ ۶۳۸۔ جلد سوم،  ص ۶۶۵ تا ۶۶۷۔ ۷۳۰ تا ۷۳۲۔ جلد چہارم،  الصافّات،  آیات ۱۷۱ تا ۱۷۹ (حواشی ۹۳۔ ۹۴) صٓ،  دیباچہ اور آیت ۱۱ مع حاشیہ ۱۲۔

سب سے بڑھ کر جس چیز سے تعبیر کی یہ غلطی متصادم ہوتی ہے وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا وہ عظیم الشان کام ہے جو حضورؐ ۲۳ سال کے زمانہ رسالت میں انجام دیا۔ آخر کون نہیں جانتا کہ آپ نے تبلیغ اور تلوار دونوں سے پورے عرب کو مسخر کیا اور اس میں ایک مکمل حکومت کا نظام ایک مفصل شریعت کے ساتھ قائم کر دیا جو اعتقادات اور عبادات سے لے کر شخصی کردار، اجتماعی اخلاق، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت، سیاست و عدالت اور صلح و جنگ تک زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی تھی۔ اگر حضورؐ کے اس پورے کام کو ’’اقامت دین ‘‘ کے اس حکم کی تفسیر نہ مانا جائے جو اس آیت کے مطابق تمام انبیاء سمیت آپ کو دیا گیا تھا، تو پھر اس کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں۔ یا تو معاذاللہ حضورؐ پر یہ الزام عائد کیا جائے کہ آپ مامور تو صرف ایمانیات اور اخلاق کے موٹے موٹے اصولوں کی محض تبلیغ و دعوت پر ہوئے تھے،  مگر آپؐ نے اس سے تجاوز کر کے بطور خود ایک حکومت قائم کر دی اور ایک مفصل قانون بنا ڈالا جو شرائع انبیاء کی قدر مشترک سے مختلف بھی تھا اور زائد بھی۔ یا پھر اللہ تعالیٰ پر یہ الزام رکھا جائے کہ وہ سورہ شوریٰ میں مذکورہ بالا اعلان کر چکنے کے بعد خود اپنی بات سے منحرف ہو گیا اور اس نے اپنے آخری نبی سے نہ صرف وہ کام لیا جو اس سورۃ کی اعلان کردہ ’’ اقامت دین ‘‘ سے بہت کچھ زائد اور مختلف تھا،  بلکہ اس کام کی تکمیل پر اپنے پہلے اعلان کے خلاف یہ دوسرا اعلان بھی کر دیا کہ  اَلْیَوْمَ اَکَمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا )، اعاذنااللہ من ذالک۔ ان دو صورتوں کے سوا اگر کوئی تیسری صورت ایسی نکلتی ہو جس سے ’’ اقامت دین ‘‘ کی یہ تعبیر بھی قائم رہے اور اللہ یا اس کے رسول پر کوئی الزام بھی عائد نہ ہوتا ہو تو ہم ضرور  اسے معلوم کرنا چاہیں گے۔

اقامت دین کا حکم دینے کے بعد، آخری بات جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشاد فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ : لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ۔ ’’ دین میں تفرقہ نہ برپا کرو ‘‘،  یا ’’ اس کے اندر متفرق نہ ہو جاؤ ‘‘۔ دین میں تفرقہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی دین کے اندر اپنی طرف سے کوئی نرالی بات ایسی نکالے جس کے کوئی معقول گنجائش اس میں نہ ہو اور اصرار کرے کہ اس کی نکالی ہوئی بات کے ماننے ہی پر کفر و ایمان مدار ہے،  پھر جو ماننے والے ہوں انہیں لے کر نہ ماننے والوں سے جدا ہو جائے۔ یہ نرالی بات کئی طرح کی ہو سکتی ہے۔ وہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین میں جو چیز نہ تھی وہ اس میں لا کر شامل کر دی جائے۔ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین میں جو بات شامل تھی اسے نکال باہر کیا جائے۔ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین کی نصوص میں تحریف کی حد تک پہنچی ہوئی تاویلات کر کے نرالے عقائد اور انوکھے اعمال ایجاد کیے جائیں۔ اور یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین کی باتوں میں رد و بدل ک کے  اس کا حلیہ بگاڑا جائے،  مثلاً جو چیز اہم تھی اسے غیر اہم بنا دیا جائے اور جو چیز حد سے  حد مباح کے درجے میں تھی اسے فرض و واجب بلکہ اس سے بھی بڑھا کر اسلام کا رکن رکین بنا ڈالا جائے۔ اسی طرح کی حرکتوں سے انبیاء علیہم السلام کی امتوں میں پہلے تفرقہ برپا ہوا، پھر رفتہ رفتہ ان فرقوں کے مذاہب بالکل الگ مستقل ادیان بن گئے جن کے ماننے والوں میں اب یہ تصور تک باقی نہیں رہا ہے کہ کبھی ان سب کی اصل ایک تھی۔ اس تفرقے کا اس جائز اور معقول اختلاف رائے سے کوئی تعلق نہیں ہے جو دین کے احکام کو سمجھنے اور نصوص پر غور کر کے ان سے مسائل مستنبط کرنے میں فطری طور پر اہل علم کے درمیان واقع  ہوتا ہے اور جس کے لیے خود کتاب اللہ کے الفاظ میں لغت اور محاورے اور قواعد زبان کے لحاظ سے گنجائش ہوتی ہے۔ ( اس موضوع پر مزید تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول،  ص ۱۶۲۔ ۱۶۳۔ ۲۳۹۔ ۲۴۰۔ ۲۵۴۔ ۴۲۷ تا ۴۲۹۔ ۴۹۱ تا ۴۹۶۔ ۶۰۴۔ جلد دوم،  ص ۵۷۸ تا ۵۸۱۔ جلد سوم،  ص ۱۸۴ تا ۱۸۶۔ ۲۴۹۔ ۲۸۱ تا ۲۸۳۔ ۶۴۵ تا ۶۴۹۔ ۷۵۴ تا ۷۵۶)۔

۲۱۔ یہاں پھر وہی بات دہرائی گئی ہے جو اس سے پہلے آیت ۸۔ ۹ میں ارشاد ہو چکی ہے اور جس کی تشریح ہم حاشیہ نمبر ۱۱ میں کر چکے ہیں۔ اس جگہ یہ بات ارشاد فرمانے کا مدعا یہ ہے کہ تم ان لوگوں کے سامنے دین کی صاف شاہراہ پیش کر رہے ہو اور یہ نادان اس نعمت کی قدر کرنے کے بجائے الٹے اس پر بگڑ رہے ہیں۔ مگر انہی کے درمیان انہی کی قوم میں وہ لوگ موجود ہیں جو اللہ کی طرف رجوع کر رہے ہیں اور اللہ بھی انہیں کھینچ کھچینچ کر اپنی طرف لا رہا ہے۔ اب یہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ کوئی اس نعمت  کو پائے اور کوئی اس پر خار کھائے۔ مگر اللہ کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے۔ وہ اسی کو اپنی طرف کھینچتا ہے جو اس کی طرف بڑھے۔ دور بھاگنے والوں کے پیچھے دوڑنا اللہ کا کام نہیں ہے۔

۲۲۔ یعنی تفرقے کا سبب یہ نہ تھا  کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء  نہیں بھیجے تھے اور کتابیں نازل نہیں کی تھیں اس وجہ سے لوگ راہ راست نہ جاننے کے باعث اپنے اپنے الگ مذاہب اور مدارس فکر اور نظام زندگی خود ایجاد کر بیٹھے،  بلکہ یہ تفرہ ان میں اللی کی طرف سے علم آ جانے کے بعد رونما ہوا۔ اس لیے اللہ اس کے ذمہ دار نہیں      ہے بلکہ وہ لوگ خود اس کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے دین کے صاف صاف اصول اور شریعت کے واضح احکام سے ہٹ کر نئے نئے مذاہب و مسالک بنائے۔

۲۳۔ یعنی اس تفرقہ پروازی کا محرک کوئی نیک جذبہ نہیں تھا، بلکہ یہ اپنی نرالی اپج دکھانے کی خواہش، اپنا الگ جھنڈا بلند کرنے کی فکر، آپس کی ضدم ضدا، ایک دوسرے کو زک دینے کی کوشش، اور مال و جاہ کی طلب کا نتیجہ تھی۔ ہوشیار اور حوصلہ مند لوگوں نے دیکھا کہ بندگان خدا اگر سیدھے سیدھے خدا کے دین پر چلتے رہیں تو بس ایک خدا ہو گا جس کے آگے لوگ جھکیں گے۔ ایک رسول ہو گا جس کو لوگ پیشوا اور رہنما مانیں گے،  ایک کتاب ہو گی جس کی طرف لوگ رجوع کریں گے،  اور ایک صاف عقیدہ اور بے لاگ ضابطہ ہو گا جس کی پیروی وہ کرتے رہیں گے۔ اس نظام میں ان کی اپنی ذات کے لیے کوئی مقام امتیاز نہیں ہو سکتا جس کی وجہ سے ان کی مشیخت چلے،  اور لوگ ان کے گرد جمع ہوں،  اور ان کے آگے اور بھی جھکائیں اور جیبیں بھی خالی کریں۔ یہی وہ اصل سبب تھا جو نئے نئے عقائد اور فلسفے،  نئے نئے طرز عبادت اور مذہبی مراسم اور نئے نئے  نظام حیات ایجاد کرنے کا محرک بنا اور اسی نے خلق خدا کے ایک بڑے حصے کو دین کی صاف شاہ راہ سے ہٹا کر مختلف راہوں میں پراگندہ کر دیا۔ پھر یہ پراگندگی ان گروہوں کی باہمی بحث و جدال اور مذہبی و معاشی اور سیاسی کشمکش کی بدولت شدید تلخیوں میں تبدیل ہوتی چلی گئی،  یہاں تک کہ نوبت ان خونریزیوں تک پہنچی جن کے چھینٹوں سے تاریخ سرخ ہو رہی ہے۔

۲۴۔ یعنی دنیا ہی میں عذاب دے کر ان سب لوگوں کا خاتمہ کر دیا جاتا جو گمراہیاں نکالنے اور جان بوجھ کر ان کی پیروی کرنے کے مجرم تھے،  اور صرف راہ راست پر چلنے والے باقی رکھے جاتے،  جس سے یہ بات واضح ہو جاتی کہ خدا کے نزدیک حق پر کون ہیں اور باطل پر کون۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ دو ٹوک فیصلہ قیامت تک کے لیے ملتوی کر رکھا ہے،  کیونکہ دنیا میں یہ فیصلہ کر دینے کے بعد بنی نوع انسان کی آزمائش بے معنی ہو جاتی ہے۔

۲۵۔ مطلب یہ ہے کہ ہر نبی اور اس کے قریبی تابعین کا دور گزر جانے کے بعد جب پچھلی نسلوں تک کتاب اللہ پہنچی تو انہوں نے اسے یقین و اعتماد کے ساتھ نہیں لیا بلکہ وہ اس کے متعلق سخت شکوک اور ذہنی الجھنوں میں مبتلا ہو گئیں۔  اس حالت میں ان کے مبتلا ہو جانے کے بہت سے وجوہ تھے جنہیں ہم اس صورت حال کا مطالعہ کر کے بآسانی سمجھ سکتے ہیں جو تورات و انجیل کے معاملہ میں پیش آئی ہے۔ ان دونوں کتابوں کو اگلی نسلوں نے ان کی اصلی حالت پر ان کی اصل عبارت اور زبان میں محفوظ رکھ کر پچھلی نسلوں تک نہیں پہنچایا۔ ان میں خدا کے کلام کے ساتھ تفسیر و تاریخ اور سماعی روایات اور فقہاء کے نکالے ہوئے جزئیات کی صورت میں انسانی کلام گڈ مڈ کر دیا۔ ان کے ترجموں کو اتنا رواج دیا کہ اصل غائب ہو گئی اور صرف ترجمے باقی رہ گئے۔ ان کی تاریخی سند بھی اس طرح ضائع کر دی کہ اب کوئی شخص بھی پورے یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ جو کتاب اس کے ہاتھ ہیں ہے وہ وہی ہے جو حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ کے ذریعہ سے دنیا والوں کو ملی تھی۔ پھر ان کے اکابر نے وقتاً فوقتاً مذہب، الہٰیات، فلسفہ، قانون،  طبعیات،  نفسیات اور اجتماعیات کی ایسی بحثیں چھیڑیں اور ایسے نظام فکر بنا ڈالے جن کی بھول بھلیوں میں پھنس کر لوگوں کے لیے یہ طے کرنا محال ہو گیا کہ ان پیچیدہ راستوں کے درمیان حق کی سیدھی شاہراہ کونسی ہے۔ اور چونکہ کتاب اللہ اپنی اصل حالت اور قابل اعتماد صورت میں موجود نہ تھی، اس لیے لوگ کسی ایسی سند کی طرف رجوع بھی نہ کر سکتے تھے جو حق کو باطل سے تمیز کرنے میں مدد کرتی۔

۲۶۔ یعنی ان کو راضی کرنے کے لیے اس دین کے اندر کوئی رد و بدل اور کمی بیشی نہ کرو۔ ’’ کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے اصول پر ان گمراہ لوگوں سے کوئی مصالحت نہ کرو۔ ان کے اوہام اور تعصبات اور جاہلانہ طور طریقوں کے لیے دین میں کوئی گنجائش محض اس لالچ میں آ کر نہ نکالو کہ کسی نہ کسی طرح یہ دائرہ اسلام میں آ جائیں۔ جس کو ماننا ہے،  خدا کے اصلی اور خالص دین کو، جیسا کہ اس نے بھیجا ہے،  سیدھی طرح مان لے،  ورنہ جس جہنم میں جا کر گرنا چاہے گر جائے۔ خدا کا دین لوگوں کی خاطر نہیں بدلا جا سکتا۔ لوگ اگر اپنی فلاح چاہتے ہیں تو خود اپنے آپ کو بدل کر اس کے مطابق بنائیں۔

۲۷۔ بالفاظ دیگر، میں ان تفرقہ پرواز لوگوں کی طرح نہیں ہوں جو خدا کی بھیجی ہوئی بعض کتابوں کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے۔ میں ہر اس کتاب کو مانتا ہوں جسے خدا نے بھیجا ہے۔

۲۸۔ اس جامع فقرے کے کئی مطلب ہیں :

ایک مطلب یہ ہے کہ میں ان ساری گروہ بندیوں سے الگ رہ کر بے لاگ انصاف پسندی اختیار کرنے پر مامور ہوں۔ میرا کام یہ نہیں ہے کہ کسی گروہ کے حق میں اور کسی کے خلاف تعصب بروں۔ میرا سب انسانوں سے یکساں تعلق ہے،  اور وہ ہے سراسر عدل و انصاف کا تعلق۔ جس کی جو بات حق ہے،  میں اس کا ساتھی ہوں،  خواہ وہ غیروں کا غیر ہی کیوں نہ ہو۔ اور جس کی جو بات حق کے خلاف ہے میں اس کا مخالف ہوں،  خواہ وہ میرا قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ میں جس حق کو تمہارے سامنے پیش کرنے پر مامور ہوں اس میں کسی کے لیے بھی کوئی امتیاز نہیں ہے،  بلکہ وہ سب کے لیے یکساں ہے۔ اس میں اپنے اور غیر،  بڑے اور چھوٹے،  غریب اور امیر،  شریف اور کمین کے لیے الگ الگ حقوق نہیں ہیں،  بلکہ جو کچھ ہے  وہ سب کے لیے حق ہے،  جو گناہ ہے وہ سب کے لیے گناہ ہے،  جو حرام ہے  وہ سب کے لیے حرام ہے،  اور جو جرم ہے وہ سب کے لیے جرم ہے۔ اس بے لاگ ضابطے میں میری اپنی ذات کے لیے بھی کوئی استثناء نہیں۔

تیسرا مطلب یہ ہے کہ میں دنیا میں عدل قائم کرنے پر مامور ہوں۔ میرے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے درمیان انصاف کروں،  اور ان نے اعتدالیوں اور بے انصافیوں کا خاتمہ کر دوں جو تمہاری زندگیوں میں اور تمہارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔

ان تین مطالب کے علاوہ اس فقرے کا ایک چوتھا مطلب بھی ہے جو مکہ معظمہ میں نہ کھلا تھا مگر ہجرت کے بعد کھل گیا،  اور وہ یہ ہے کہ میں خدا کا مقرر کیا ہوا قاضی اور جج ہوں، تمہارے درمیان انصاف کرنا میری ذمہ داری ہے۔

۲۹۔ یعنی ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے عمل کا خود ذمہ دار و جوابدہ ہے۔ تم اگر نیکی کرو گے تو  اس کا پھل ہمیں نہیں پہنچ جائے گا، بلکہ تم ہی اس سے متمتّع ہو گے۔ اور ہم اگر برائی کریں گے تو اس کی پاداش میں تم نہیں پکڑے جاؤ گے،  بلکہ ہمیں خود ہی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہی بات سورہ بقرہ،  آیت ۱۳۹، سورہ یونس، آیت ۴۱،  سورہ ہود، آیت ۳۵، اور سورہ قصص،  آیت ۵۵ میں اس سے پہلے ارشاد ہو چکی ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اول،  ص ۱۱۷، جلد دوم،  ص ۲۸۷۔ ۳۳۷۔ جلد سوم،  ص ۶۴۹۔ ۶۵۰)

۳۰۔ یعنی معقول دلائل سے بات سمجھانے کا جو حق  تھا وہ ہم نے ادا کر دیا اب خواہ مخواہ تو تو میں میں کرنے سے کیا حاصل۔ تم اگر جھگڑا کرو بھی تو ہم تم سے جھگڑنے  کے لیے تیار نہیں ہیں۔

۳۱۔ یہ اشارہ ہے اس صورت حال کی طرف جو مکے میں اس وقت آئے دن پیش آ رہی تھی۔ جہاں کسی کے متعلق لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے،  ہاتھ دھو کر اس کے  پیچھے پڑ جاتے،  مدتوں اس کی جان ضیق میں کیے رکھتے،  نہ گھر میں اسے چین لینے دیا جاتا نہ محلے اور برادری میں،  جہاں بھی وہ جاتا یک نہ ختم ہونے والی بحث چھڑ جاتی جس کا مدعا یہ ہوتا کہ کسی طرح وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ چھوڑ کر اسی جاہلیت میں پلٹ آئے جس سے وہ نکلا ہے۔

۳۲۔ میزان سے مراد اللہ کی شریعت ہے جو ترازو کی طرح تول کر صحیح اور غلط،  حق اور باطل،  ظلم اور عدل، راستی اور نا راستی کا فرق واضح کر دیتی ہے۔ اوپر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے یہ کہلوایا گیا تھا کہ : اُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ (مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان انصاف کروں )۔ یہاں بتا دیا گیا کہ اس کتاب پاک کے ساتھ وہ میزان آ گئی ہے جس کے ذریعہ سے یہ انصاف قائم کیا جائے گا۔

۳۳۔ یعنی جس کو سیدھا ہونا ہے بلا تا خیر سیدھا ہو جائے۔ فیصلے کی گھڑی کو دور سمجھ کر ٹالنا نہیں چاہیے۔ ایک سانس کے متعلق بھی آدمی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے بعد دورے سانس کی اسے مہلت ضرور ہی مل جائے گی۔ ہر سانس آخری سانس ہو سکتا ہے۔

۳۴۔ اصل میں لفظ لَطِیْفٌ  استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم ’’ مہربان ‘‘ سے ادا نہیں ہوتا۔ اس لفظ میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ اپنے بندوں پر بڑی شفقت و عنایت رکھتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ بڑی باریک بینی کے ساتھ ان کی دقیق ترین ضروریات پر بھی نگاہ رکھتا ہے جن تک کسی کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی، اور انہیں اس طرح پورا کرتا ہے کہ وہ خود بھی محسوس نہیں کرتے کہ ہماری کونسی ضرورت کب کس نے پوری کر دی۔ پھر یہاں بندوں سے مراد محض اہل ایمان نہیں،  بلکہ تمام بندے ہیں،  یعنی اللہ کا یہ لطف اس کے سب بدوں پر عام ہے۔

۳۵۔ مطلب یہ ہے کہ اس لطیف عام کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ سب بندوں کو سب کچھ یکساں دے دیا جائے۔  اگر چہ وہ اپنے خزانوں سے دے سب ہی کو رہا ہے،  مگر اس عطا اور دین میں یکسانیت نہیں ہے۔ کسی کو کوئی چیز دی ہے تو کسی دوسرے کو  کوئی اور چیز۔ کسی ایک چیز زیادہ دی ہے تو کسی اور کو کوئی دوسری چیز فراوانی کے ساتھ عطا فرما دی ہے۔

۳۶۔ یعنی اس کی عطا و بخشش کا یہ نظام اس کے اپنے زور پر قائم ہے۔ کسی  کا یہ بل بوتا نہیں ہے کہ اسے بدل سکے،  یا زبردستی اس سے کچھ لے سکے،  یا کسی کو دینے سے اس کو روک سکے۔

 

جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں،  اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے دنیا ہی میں سے دیتے ہیں مگر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے (۳۷)۔
کیا یہ لوگ کچھ ایسے شریکِ خدا رکھتے ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کی نوعیت رکھنے والا ایک ایسا طریقہ مقرر کر دیا ہے جس کا اللہ نے اِذن نہیں دیا؟(۳۸)اگر فیصلے کی بات پہلے طے نہ ہو گئی ہوتے تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا(۳۹)۔ یقیناً ان ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ تم دیکو گے کہ یہ ظالم اس وقت اپنے کیے کے انجام سے ڈر رہے ہوں گے اور وہ ان پر آ کر رہے گا۔ بخلاف اس کے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ جنت کے گلستانوں میں ہو گے،  جو کچھ بھی وہ چاہیں گے اپنے رب کے ہاں پائیں گے،  یہی بڑا فضل ہے۔ یہ ہے وہ چیز جس کی خوش خبری اللہ اپنے بندوں کو دیتا ہے جنہوں نے مان لیا اور نیک عمل کیے۔ اے نبیؐ، ان لوگوں سے کہ دو کہ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں (۴۰)، البتہ قرابت کی محبت ضرور چاہتا ہوں (۴۱)۔ جو کوئی بھلائی کمائے گا ہم اس کے لیے اس بھلائی میں خوبی کا اضافہ کر دیں گے۔ بے شک اللہ بڑا در گزر کرنے والا قدر دان ہے۔ (۴۲)۔
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اللہ پر جھوٹا بہتان گھڑ لیا ہے؟(۴۳) اگر اللہ چاہے تو تمہارے دل پر مہر کر دے (۴۴)۔ وہ باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنے فرمانوں سے حق کر دکھاتا ہے (۴۵) وہ سینوں کے چھپے ہوئے راز جانتا ہے۔ (۴۶) وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اور برائیوں سے درگزر کرتا ہے،  حالاں کہ تم لوگوں کے سب افعال کا اُ سے علم ہے (۴۷)۔ وہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کی دعا قبول کرتا ہے اور اپنے فضل سے ان کو اور زیادہ دیتا ہے۔ رہے انکار کرنے والے،  تو ان کے لیے درد ناک سزا ہے۔
اگر اللہ اپنے بندوں کو کھُلا رزق دے  دیتا تو وہ زمین میں سرکشی کا طوفان برپا کر دیتے،  مگر وہ ایک حساب سے جتنا چاہتا ہے نازل کرتا ہے،  یقیناً وہ اپنے بندوں سے با خبر ہے اور ان پر نگاہ رکھتا ہے (۴۸)۔ وہی ہے جو لوگوں کے مایوس ہو جانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے،  اور وہی قابل تعریف ولی ہے (۴۹) اس کی نشانیوں میں سے ہے یہ زمین اور آسمانوں کی پیدائش،  اور یہ جاندار مخلوقات جو اس نے دونوں جگہ پھیلا رکھی ہیں (۵۰)۔ وہ جب چاہے انہیں اکٹھا کر سکتا ہے (۵۱)۔ ع

 

۳۷۔ گزشتہ آیت میں دو حقیقتیں بیان کی گئی تھیں جن کا مشاہدہ ہم ہر وقت ہر طرف کر رہے ہیں۔ ایک یہ کہ تمام بندوں پر اللہ کا لطف عام ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کی عطا و بخشش اور رزق رسانی سب کے لیے یکساں نہیں ہے بلکہ اس میں فرق و تفاوُت پایا جاتا ہے۔ اب اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ اس لطف اور رزق رسانی میں جزوع تفاوُت تو بے شمار ہیں مگر ایک بہت بڑا اصولی تفاوت بھی ہے،  اور وہ یہ ہے کہ آخرت کے طالب کے لیے ایک طرح کا رزق ہے اور دنیا کے طالب کے لیے دوسری طرح کا رزق۔

یہ ایک بڑی اہم حقیقت ہے جسے ان مختصر الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اسے پوری تفصیل کے ساتھ سمجھ لیا جائے، کیونکہ یہ ہر انسان کو اپنا رویہ متعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔

آخرت اور دنیا، دونوں کے لیے سعی و عمل کرنے والوں کو اس آیت میں کسان سے تشبیہ دی گئی ہے جو زمین تیار کرنے سے لے کر فصل کے تیار ہونے تک مسلسل عرق ریزی اور جاں فشانی کرتا ہے اور یہ ساری محنتیں اس غرض کے لیے کرتا ہے کہ اپنی کھیتی میں جو بیج وہ بو رہا ہے اس کی فصل کاٹے اور اس کے پھل سے متمتع ہو۔ لیکن بیت اور مقصد کے فرق، اور بہت بڑی حد تک طرز عمل کے فرق سے بھی،  آخرت کی کھیتی بونے والے کسان اور دنیا کی کھیتی بونے والے کسان کے درمیان فرق عظیم واقع ہو جاتا ہے،  اس لیے دونوں کی محنتوں کے نتائج و ثمرات بھی اللہ تعالیٰ نے مختلف رکھے ہیں،  حالانکہ دونوں کے کام کرنے کی جگہ یہی زمین ہے۔

آخرت کی کھیتی بونے والے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ دنیا اسے نہیں ملے گی۔ دنیا تو کم یا زیادہ بہر حال اس کو ملنی ہی ہے،  کیونکہ یہاں اللہ جل شانہٗ کے لطف عام میں اس کا بھی حصہ ہے اور رزق نیک و بد سبھی کو یہاں مل رہا ہے۔ لیکن اللہ نے اسے خوش خبری دنیا ملنے کی نہیں بلکہ اس بات کی سنائی ہے کہ اس کی آخرت کی کھیتی بڑھائی جائے گی، کیونکہ اسی کا وہ طالب ہے اور اسی کے انجام کی اسے فکر لاحق ہے۔ اس کھیتی کے بڑھائے جانے کی بہت سی صورتیں ہیں۔ مثلاً جس قدر زیادہ نیک نیتی کے ساتھ وہ آخرت کے لیے عمل صالح کرتا جائے گا اسے اور زیادہ نیک عمل کی توفیق عطا کی جائے گی اور اس کا سینہ نیکیوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔ پاک مقصد کے لیے پاک ذرائع اختیار کرنے کا جب وہ تہیہ کر لے گا تو اس کے لیے پاک ہی ذرائع میں برکت دی جائے گی اور اللہ اس کی نوبت نہ آنے دے گا کہ اس کے لیے خیر کے سارے دروازے بند ہو کر صرف شر ہی کے دروازے کھلے رہ جائیں۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ دنیا میں اس کی تھوڑی نیکی بھی آخرت میں کم از کم دس گنی تو بڑھائی ہی جائے گی،  اور زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے،  ہزاروں لاکھوں گنی بھی اللہ جس کے لیے چاہے گا بڑھا دے گا۔

رہا دنیا کی کھیتی بونے والا، یعنی وہ شخص جو آخرت نہیں چاہتا اور سب کچھ دنیا ہی کے لیے کرتا ہے،  اسے اللہ تعالیٰ نے اس کی محنت کے دو نتائج صاف صاف سنا دیے ہیں۔ ایک یہ کہ خواہ وہ کتنا ہی سر مارے،  جس قدر دنیا وہ حاصل کرنا چاہتا ہے  وہ پوری کی پوری اسے نہیں مل جائے گی، بلکہ اس کا ایک حصہ ہی ملے گا، جتنا اللہ نے اس کے لیے مقرر کر دیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اسے جو کچھ ملنا ہے بس دنیا ہی میں مل جائے گا، آخرت کی بھلائیوں میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

۳۸۔ اس آیت میں  شُرَکَا ء سے مراد،  ظاہر بات ہے کہ وہ شریک نہیں ہیں جن سے لوگ دعائیں مانگتے ہیں،  یا جن کی نذر و نیا ز  چڑھاتے ہیں،  یا جن کے آگ پوجا پاٹ کے مراسم ادا کرنے ہیں۔ بلکہ لامحالہ ان سے مراد وہ انسان ہیں جن کو لوگوں نے شریک  فی الحکم ٹھیرا لیا ہے،  جن کے  سکھائے ہوئے افکار و عقائد اور نظریات اور ان فلسفوں پر لوگ ایمان لاتے ہیں،  جن کی دی ہوئی  قدروں کو مانتے ہیں،  جن کے پیش کیے ہوئے اخلاقی اصولوں اور تہذیب و ثقافت کے معیاروں کو قبول کرتے ہیں،  جن کے مقرر کیے ہوئے قوانین اور طریقوں اور ضابطوں کو اپنے مذہبی مراسم اور عبادات میں،  اپنی شخصی زندگی میں،  اپنی معاشرت میں،  اپنے تمدن میں،  اپنے کاروبار اور لین دین میں،  اپنی عدالتوں میں،  اور اپنی سیاست اور حکومت میں،  اس طرح اختیار کرتے ہیں کہ گویا یہی وہ شریعت ہے جس کی پیروی ان کو کرنی چاہیے۔ یہ ایک پورا کا پورا دین ہے جو اللہ رب العالمیں کی تشریع کے خلاف، اور اس کے اذن (Sanction) کے بغیر ایجاد کرنے والوں نے ایجاد کیا اور ماننے والوں نے مان لیا۔ اور یہ ویسا ہی شرک ہے جیسا غیر اللہ کو سجدہ کرنا اور غیر اللہ سے دعائیں مانگنا شرک ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، ص ۱۳۴۔ ۱۹۶۔ ۲۶۲۔ ۳۶۶۔ ۳۶۷۔ ۴۳۷۔ ۴۳۸۔ ۴۹۸۔ ۴۹۹۔ ۵۷۷۔ ۵۷۸۔ ۵۸۵۔ ۵۸۶۔ جلد دوم، ص ۱۸۹۔ ۱۹۰۔ ۲۹۲ تا ۲۹۴۔ ۴۸۲۔ ۴۸۳۔ ۵۷۷۔ ۵۷۸۔ جلد سوم، ص ۳۱۔ ۶۹۔ ۶۵۶۔ جلد چہارم،  سبا،  آیت ۴۱، حاشیہ ۶۳۔ یٰسٓ، آیت ۶۰ حاشیہ ۵۳)۔

۳۹۔ یعنی اللہ کے مقابلہ میں یہ ایسی سخت جسارت ہے کہ اگر فیصلہ قیامت پر نہ اٹھا رکھا گیا ہوتا تو دنیا ہی میں ہر اس شخص پر عذاب نازل کر دیا جاتا جس نے اللہ کا بندہ ہوتے ہوئے، اللہ کی زمین پر خود اپنا دین جاری کیا، اور وہ سب لوگ بھی تباہ کر دیے جاتے جنہوں نے اللہ کے دین کو چھوڑ کر دوسروں کے بنائے ہوئے دین کو قبول کیا۔

۴۰۔ ’’ اس کام‘‘ سے مراد وہ کوشش ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو خدا کے عذاب سے بچانے اور جنت کی بشارت کا مستحق بنانے کے لیے کر رہے تھے۔

۴۱۔ اصل الفاظ ہیں :  اِلَّا  الْمَوَدَّ ۃَ فِی الْقُرْبٰی۔ یعنی میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا مگر ’’قربٰی ‘‘ کی محبت ضرور چاہتا ہوں۔ اس لفظ ’’قربٰی‘‘ کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان بڑا اختلاف واقع ہو گیا ہے۔

ایک گروہ نے اس کو قرابت (رشتہ داری) کے معنی میں لیا ہے اور آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ’’ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر نہیں چاہتا،  مگر یہ ضرور چاہتا ہوں کہ تم لوگ (یعنی اہل قریش) کم از کم اس رشتہ داری کا تو لحاظ کرو جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تم میری بات مان لیتے۔ لیکن اگر تم نہیں مانتے تو یہ ستم تو نہ کرو کہ سارے عرب میں سب سے بڑھ کر تم ہی میری دشمنی پر تُل گئے ہو‘‘۔ یہ حضرت عبداللہ بن عباس کی تفسیر ہے جسے بکثرت راویوں کے حوالہ سے امام احمد، بخاری،  مسلم،  ترمذی، ابن جریر، طبرانی، بیہقی،  اور ابن سعد و غیر ہم نے نقل کیا ہے،  اور یہی تفسیر مجاہد، عکرمہ،  قتادہ، سدی، ابو مالک، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم،  ضحاک، عطاء بن دینار اور دوسرے اکابر مفسرین نے بھی بیان کی ہے۔

دوسرا گروہ’’ قربٰی ‘‘ کو قرب اور تقرب کے معنی میں لیتا ہے،  اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ ’’ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر اس کے سوا نہیں چاہتا کہ تمہارے اندر اللہ کے قرب کی چاہت پیدا ہو جائے‘‘ یعنی تم ٹھیک ہو جاؤ، بس یہی میرا اجر ہے۔ یہ تفسیر حضرت حسن بصری سے منقول ہے،  اور ایک قول قتادہ سے بھی اس کی تائید میں نقل ہوا ہے بلکہ طبرانی کی ایک روایت میں اب عباس کی طرف بھی یہ قول منسوب کیا گیا ہے۔ خود قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر یہی مضمون ان الفاظ  میں ارشاد ہوا ہے : قُلْ مَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآ ءَ اَنْ یَّتََّخِذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلاً (الفرقان۔ ۵۷)۔ ’’ ان سے کہہ دو کہ میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا،  میری اجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔ ‘‘

تیسرا گروہ ’’ قربٰی ‘‘ کو اقرب (رشتہ داروں ) کے معنی میں  لیتا ہے،  اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ ’’ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر اس کے سوا نہیں چاہتا کہ تم میرے اقارب سے محبت کرو‘‘۔ پھر اس گروہ کے بعض حضرات اقارب سے تمام بنی عبدالمطلب مراد لیتے ہیں،  اور بعض اسے صرف حضرت علی و فاطمہ اور ان کی اولاد تک محدود رکھتے ہیں۔ یہ تفسیر سعید بن جُبیر اور عمرو بن شعیب سے منقول ہے،  اور بعض روایات میں یہی تفسیر ابن عباس اور حضرت علی بن حسین (زین العابدین) کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ لیکن متعدد وجوہ سے یہ تفسیر کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ اول تو جس وقت مکہ معظمہ میں سورہ شوریٰ نازل ہوئی ہے اس وقت حضرت علی و فاطمہ کی شادی تک نہیں ہوئی تھی، اولاد کا کیا سوال۔ اور بنی عبدالمطلب میں سب کے سب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ نہیں دے رہے تھے،  بلکہ ان میں سے بعض کھلم کھلا دشمنوں کے ساتھی تھے۔ اور ابو لہب کی عداوت کو تو ساری دنیا جانتی ہے۔ دوسرے،  نبی صلی کے رشتہ دار صرف بنی عبدالمطلب ہی نہ تھ۔   آپ کی والدہ ماجدہ،  آپ کے والد ماجد اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ کے واسطے سے قریش کے تمام گھرانوں میں آپ کی رشتہ داریاں تھیں اور ان سب گھرانوں میں  آپؐ کے بہترین صحابی بھی تھے اور بدترین دشمن بھی۔ آخر حضور کے لیے یہ کس طرح ممکن تھا کہ ان سب اقرباء میں سے آپ صرف بنی عبد المطلب کو اپنا رشتہ دار قرار دے کر اس مطالبہ محبت کو انہی کے لیے مخصوص رکھتے۔ تیسری بات،  جو ان سب سے زیادہ اہم ہے،  وہ یہ ہے کہ ایک نبی جس بلند مقام پر کھڑا ہو کر دعوت اِلی اللہ کی پکار بلند کرتا ہے،  اس مقام سے اس کار عظیم پر یہ اجر مانگنا کہ تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو،  اتنی گری ہوئی بات ہے کہ کوئی صاحب ذوق سلیم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اللہ نے نبی کو یہ بات سکھائی ہو گی اور نبی نے قریش کے لوگوں میں کھڑے ہو کر یہ بات کہی ہو گی۔ قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کے جو قصے آئے ہیں ان میں ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اٹھ کر اپنی قوم سے کہتا ہے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا،  میرا اجر تو اللہ رب العالمیں کے ذمہ ہے۔ (یونس ۷۲۔ ہود ۲۹۔ ۵۱۔ الشعراء ۱۰۹۔ ۱۲۷۔ ۱۴۵۔ ۱۶۴۔ ۱۸۰)۔ سورہ یٰسٓ میں نبی کی صداقت جانچنے کا معیار یہ بتایا  گیا ہے کہ وہ اپنی دعوت میں بے غرض ہوتا ہے (آیت ۲۱)۔ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے قرآن پاک میں بار بار یہ کہلوایا گیا ہے کہ میں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہو(الانعام ۹۰۔ یوسف ۱۰۴۔ المؤمنون ۷۲۔ الفرقان ۵۷۔ سبا ۴۷۔ ص ۸۲۔ الطور ۴۰۔ القلم ۴۶)۔ اس کے بعد یہ کہنے کا آخر کیا موقع ہے کہ میں اللہ کی طرف بلانے کا جو کام کر رہا ہوں اس کے عوض تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو۔ پھر یہ بات اور بھی زیادہ بے موقع نظر آتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس تقریر کے مخاطب اہل ایمان نہیں بلکہ کفار ہیں۔ اوپر سے ساری تقریر  ان ہی سے خطاب کرتے ہوئے ہوتی چلی آ رہی ہے،  اور آگے بھی روئے سخن ان ہی کی طرف ہے۔ اس سلسلہ کلام میں مخالفین سے کسی نوعیت کا اجر طلب کرنے کا آخر سوال ہی کہاں  پیدا ہوتا ہے۔ اجر تو ان لوگوں سے مانگا جاتا ہے جن کی نگاہ میں اس کام کی کوئی قدر ہو جو کسی شخص نے ان کے لیے انجام دیا ہو۔ کفار حضورؐ کے اس کام کی کون سی قدر کر رہے تھے کہ آپ ان سے یہ بات فرماتے کہ یہ خدمت جو میں نے تمہاری انجام دی ہے اس پر تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرنا۔ وہ تو الٹا اسے جرم سمجھ رہے تھے اور اس کی بنا پر آپ کی جان کے درپے تھے۔

۴۲۔ یعنی جان بوجھ کر نافرمانی کرنے والے مجرمین کے برعکس،  نیکی کی کوشش کرنے والے بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ ہے کہ (۱)جتنی کچھ اپنی طرف سے وہ نیک بننے کی سعی کرتے ہیں،  اللہ ان کو اس سے زیادہ نیک بنا دیتا ہے (۲)ان کے کام میں جو کوتاہیاں رہ جاتی ہیں،  یا نیک عمل کی پونجی وہ لے کر آتے ہیں اللہ اس پر ان کی قدر افزائی کرتا ہے اور انہیں زیادہ اجر عطا فرماتا ہے۔

۴۳۔ اس سوالیہ فقرے میں سخت ملامت کا انداز پایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے نبی،  کیا یہ لوگ اس قدر جری اور بے باک ہیں کہ تم جیسے شخص پر افترا، اور وہ بھی افتراء علی اللہ جیسے گھناؤنے فعل کا الزام رکھتے ہوئے انہیں ذرا شرم نہیں آتی؟ یہ تم پر تہمت لگا تے ہیں کہ تم اس قرآن کو خود تصنیف کر کے جھوٹ موٹ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہو؟

۴۴۔ یعنی اتنے بڑے جھوٹ صرف وہی لوگ بولا کرتے ہیں جن کے دلوں پر مہر لگی ہوئی ہے۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں بھی ان میں شامل کر دے۔ مگر اس کا یہ فضل ہے کہ اس نے تمہیں اس گروہ سے الگ رکھا ہے۔ اس جواب میں ان لوگوں پر شدید طنز ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ الزام رکھ رہے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اے نبی، ان لوگوں نے تمہیں بھی اپنی قماش کا آدمی سمجھ لیا ہے۔ جس طرح یہ خود اپنی اغراض کے لیے ہر بڑے سے بڑا جھوٹ بول جاتے ہیں،  انہوں نے خیال کیا کہ تم بھی اسی طرح اپنی دُکان چمکانے کے لیے ایک جھوٹ گھڑ لائے ہو۔ لیکن یہ اللہ کی عنایت ہے کہ اس نے تمہارے دل پر وہ مہر نہیں لگائی ہے جو ان کے دلوں پر لگا رکھی ہے۔

۴۵۔ یعنی یہ اللہ کی عادت ہے کہ وہ باطل کو کبھی پائیداری نہیں بخشتا اور آخر کار حق کو حق ہی کر کے دکھا دیتا ہے۔ اس لیے اے  نبی، تم ان جھوٹے الزامات کی ذرہ برابر پروا نہ کرو، اور اپنا کام کیے جاؤ۔ ایک وقت آئے گا کہ یہ سارا جھوٹ غبار کی طرح اڑ جائے گا اور جس چیز کو تم پیش کر رہے ہو اس کا حق ہونا عیاں ہو جائے گا۔

۴۶۔ یعنی اس کو معلوم ہے کہ یہ الزامات تم پر کیوں لگائے جا رہے ہیں اور یہ ساری تگ و دود  جو تمہیں زک دینے کے لیے کی جا رہی ہے اس کے پیچھے در حقیقت کیا اغراض اور کیا نیتیں کام کر رہی ہیں۔

۴۷۔ پچھلی آیت کے معاً بعد توبہ کی ترغیب دینے سے خود بخود یہ مضمون نکلتا ہے کہ ظالمو، سچے نبی پر یہ جھوٹے الزامات رکھ کر کیوں اپنے آپ کو اور زیادہ خدا کے عذاب کا مستحق بناتے ہو، اب بھی اپنی ان حرکتوں سے باز  آ جاؤ  اور توبہ کر لو تو اللہ معاف فرما دے گا۔ توبہ کے ایک معنی یہ ہیں کہ آدمی اپنے کیے پر نادم ہو، جس برائی کا وہ مرتکب ہوا ہے  یا ہوتا رہا ہے اس سے باز آ جائے، اور آئندہ اس کا ارتکاب نہ کرے۔ نیز یہ بھی سچی توبہ کا لازمی تقاضا ہے کہ جو برائی کسی شخص نے پہلے کی ہے اس کی تلافی کرنے کی وہ اپنی حد تک پوری کوشش کرے،  اور جہاں تلافی کی کوئی صورت ممکن نہ ہو، وہاں اللہ سے معافی مانگے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کے اس دھبے کو دھوتا رہے جو اس نے اپنے دامن پر لگا لیا ہے۔ لیکن کوئی توبہ اس وقت تک حقیقی توبہ نہیں ہے جب تک کہ وہ اللہ کو راضی کرنے کی نیت سے نہ ہو۔ کسی دوسری وجہ یا غرض سے کسی برے فعل کو چھوڑ دینا سرے سے توبہ کی تعریف ہی میں نہیں آتا۔

۴۸۔ جس سلسلہ کلام میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اسے نظر میں رکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں دراصل اللہ تعالیٰ اس بنیادی سبب کی طرف اشارہ فرما رہا ہے جو کفار مکہ کی سرکشی میں کام کر رہا تھا۔ اگرچہ روم و ایران کے مقابلہ میں ان کی کوئی ہستی نہ تھی اور گرد و پیش کی قوموں میں وہ ایک پس ماندہ قوم کے ایک تجارت پیشہ قبیلے،  یا بالفاظ دیگر، بنجاروں سے زیادہ حیثیت نہ رکھتے تھے،  مگر اپنی اس ذرا سی دنیا میں ان کو دوسرے عربوں کی بہ نسبت جو خوشحالی اور بڑائی نصیب تھی اس نے ان کو اتنا مغرور و متکبر بنا دیا تھا یہ وہ اللہ کے نبی کی بات پر کان دھرنے کے لیے کسی طرح تیار نہ تھے،  اور ان کے سرداران قبائل اس کو اپنی کسر شان سمجھتے تھے کہ محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و سلم ) ان کے پیشوا ہوں اور وہ ان کی پیروی کریں،۔ اسی پر فرمایا جا رہا ہے کہ اگر کہیں ہم ان چھوٹے ظرف کے لوگوں پر واقعی رزق کے دروازے کھول دیتے تو یہ بالکل ہی پھٹ پڑتے،  مگر ہم نے انہیں دیکھ کر ہی رکھا ہے،  اور ناپ تول کر ہم انہیں بس اتنا ہی دے رہے ہیں جو ان کو آپے سے باہر نہ ہونے دے۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ آیت دوسرے الفاظ میں وہی مضمون ادا کر رہی ہے جو سورہ توبہ، آیت ۶۸۔ ۷۰، الکہف، آیات ۳۲۔ ۴۲۔ القصص، آیات ۷۵۔ ۸۲۔ الروم، آیت ۹۔ سبا، آیت ۳۴۔ ۳۶۔ اور المومن آیات ۸۲۔ ۸۵ میں بیان ہوا ہے۔

۴۹۔ یہاں ولی سے مراد وہ ہستی ہے جو اپنی پیدا کردہ ساری مخلوق کے معاملات کی متولی ہے،  جس نے بندوں کی حاجات و ضروریات پوری کرنے کا ذمہ لے رکھا ہے۔

۵۰۔ یعنی زمین میں بھی اور آسمانوں میں بھی۔ یہ کھلا اشارہ ہے اس طرف کہ زندگی صرف زمین پر ہی نہیں پائی جاتی، بلکہ دوسرے سیاروں میں بھی جاندار مخلوقات موجود ہیں۔

۵۱۔ یعنی جس طرح وہ انہیں پھیلا دینے پر قادر ہے اسی طرح وہ انہیں جمع کر لینے پر بھی قادر ہے،  لہٰذا یہ خیال کرنا غلط ہے کہ قیامت نہیں آ سکتی اور تمام اولین و آخرین کو بیک وقت اٹھا کر اکٹھا نہیں کیا  جا سکتا۔

 

تم پر جو مصیبت بھی آئی ہے،  تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے،  اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی در گزر کر جاتا ہے (۵۲)۔ تم زمین میں اپنے خدا کو عاجز کر دینے والے نہیں ہو،  اور اللہ کے مقابلے میں تم کوئی حامی و ناصر نہیں رکھتے۔ اس کی نشانیوں میں سے ہیں یہ جہاز جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ اللہ جب چاہے ہوا کو ساکن کر دے اور یہ سمندر کی پیٹھ پر کھڑے کے کھڑے رہ جائیں۔۔۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو کمال درجہ صبر و شکر کرنے والا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا (ان پر سوار ہونے والوں کے ) بہت سے گناہوں سے در گزر کرتے ہوئے ان کے چند ہی کرتوتوں کی پاداش میں انہیں ڈبو دے،  اور اس وقت ہماری آیات میں جھگڑے کرنے والوں کو پتہ چل جائے کہ ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے (۵۴)۔
جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کا سر و سامان ہے،  (۵۵) اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے اور پائدار بھی(۵۶)۔ وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں (۵۷)، جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں (۵۸)اور اگر غصّہ آ جائے  تو در گزر کر جا تے ہیں ( ۵۹)، جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں (۶۰)، نماز قائم کرتے ہیں،  اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں (۶۱)، ہم نے جو کچھ بھی رزق انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں (۶۲)، اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں (۶۳)۔۔۔۔۔ برائی (۶۴) کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے (۶۵)، پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے (۶۶)، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا (۶۷)۔ اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں ان کو ملامت نہیں کی جا سکتی،  ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے تو یہ بڑی اُولو العزمی  کے کاموں میں سے ہے (۶۸)۔ ع

 

 

۵۲۔ واضح رہے کہ یہاں تمام انسانی مصائب کی وجہ بیان نہیں کی جا رہی ہے،  بلکہ روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو اس وقت مکہ معظمہ میں کفر و نافرمانی کا ارتکاب کر رہے تھے۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر اللہ تمہارے سارے قصوروں پر گرفت کرتا تو تمہیں جیتا ہی نہ چھوڑتا، لیکن یہ مصائب جو تم پر نازل ہوئے ہیں (غالباً اشارہ ہے مکہ کے قحط کی طرف) یہ محض بطور تنبیہ ہیں تا کہ تم ہوش میں آؤ،  اور اپنے اعمال کا جائزہ لے کر دیکھو کہ اپنے رب کے مقابلے میں تم نے کیا روش اختیار کر رکھی ہے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرو کہ جس خدا سے تم بغاوت کر رہے ہو اس کے مقابلے میں تم کتنے بے بس ہو، اور یہ جانو کہ جنہیں تم اپنا ولی و کار ساز بنائے بیٹھے ہو، یا جن طاقتوں پر تم نے بھروسہ کر رکھا ہے،  وہ اللہ کی پکڑ سے بچانے میں تمہارے کسی کام نہیں آ سکتیں۔

مزید توضیح  کے لیے یہ بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ جہاں تک مومن مخلص کا تعلق ہے اس کے لیے اللہ کا قانون اس سے مختلف ہے۔ اس پر جو تکلیفیں اور مصیبتیں بھی آتی ہیں وہ سب اس کے گناہوں اور خطاؤں اور کوتاہیوں کا کفارہ بنتی چلی جاتی ہیں۔ حدیث صحیح میں ہے کہ : مَا یُصیبُ المُسلمَ مِنْ فَصَبٍ ولا وَصَبٍ ولا ھمٍّ ولا حزن ولا اذً ولا غمٍّ حتی الشوکۃُ یُشا کھُا الا کفّر اللہ بھامن خطایاہ۔ (بخاری و مسلم)مسلمان کو جو رنج اور دکھ اور فکر اور غم اور تکلیف اور پریشانی بھی پیش آتی ہے، حتیٰ کہ ایک کانٹا بھی اگر اس کو چبھتا ہے تو اللہ اس کو اس کی کسی نہ کسی خطا کا کفارہ بنا دیتا ہے۔ ‘‘ رہے وہ مصائب جو اللہ کی راہ میں اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کوئی مومن برداشت کرتا ہے،  تو وہ محض کوتاہیوں کا کفارہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اللہ  کے ہاں ترقی درجات کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ تصور کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ گناہوں کی سزا کے طور پر نازل ہوتے ہیں۔

۵۳۔ ’’صبر کرنے والے ‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور اچھے اور برے تمام حالات میں بندگی کے رویے پر ثابت قدم رہے۔ جس کا حال یہ نہ ہو کہ اچھا وقت آئے تو اپنی ہستی کو بھول کر خدا  سے باغی اور بندوں کے حق میں ظالم بن جائے، اور برا وقت آ جائے تو دل چھوڑ بیٹھے اور ہر ذلیل سے ذلیل  حرکت کرنے پر اتر آئے۔ ’’ شکر کرنے والے ‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جسے تقدیر الہٰی خواہ کتنا ہی اونچا اٹھا لے جائے،  وہ اسے اپنا کمال نہیں بلکہ اللہ کا احسان ہی سمجھتا رہے،  اور وہ خواہ کتا ہی نیچے گرا دیا جائے، اس کی نگاہ اپنی محرومیوں کے بجائے ان نعمتوں پر ہی مرکوز رہے جو برے سے برے حالات میں بھی آدمی کو حاصل رہتی ہیں،  اور خوشحالی و بد حالی، دونوں حالتوں میں اس کی زبان اور اس کے دل سے اپنے رب کا شکر ہی ادا ہوتا رہے۔

۵۴۔ قریش کے لوگوں کو اپنے تجارتی کاروبار کے سلسلے میں حبش اور افریقہ کے ساحلی علاقوں کی طرف بھی جانا ہوتا تھا، اور ان سفروں میں وہ باد بانی جہازوں اور کشتیوں پر بحر احمر سے گزرتے تھے جو ایک بڑا خطرناک سمندر ہے۔ اس میں اکثر طوفان اٹھتے رہتے ہیں اور زیر آب چٹانیں کثرت سے ہیں جن سے طوفان کی حالت میں ٹکرا جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس لیے جس کیفیت کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے یہاں کھینچا ہے اسے قریش کے لوگ اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں پوری طرح محسوس کر سکتے تھے۔

۵۵۔ یعنی یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر آدمی پھول جائے۔ بڑی سے بڑی دولت بھی جو دنیا میں کسی شخص کو ملی ہے،  ایک تھوڑی سی مدت ہی کے لیے ملی ہے۔ چند سال وہ اس کو برت لیتا ہے اور پھر سب کچھ چھوڑ کر دنیا سے خالی ہاتھ رخصت ہو جاتا ہے۔ پھر وہ دولت بھی چاہے بہی کھاتوں میں کتنی ہی بڑی ہو، عملاً اس کا ایک قلیل سا حصہ ہی آدمی کے اپنے استعمال میں آتا ہے۔ اس مال پر اترانا کسی ایسے انسان کا کام نہیں ہے جو اپنی اور اس مال و دولت کی، اور خود اس دنیا کی حقیقت کو سمجھتا ہو۔

۵۶۔ یعنی وہ دولت اپنی نوعیت و کیفیت کے لحاظ سے بھی اعلیٰ درجے کی ہے،  اور پھر وقتی و عارضی بھی نہیں ہے بلکہ ابدی اور لازوال ہے۔

۵۷۔ اللہ پر توکل کو یہاں ایمان لانے کا لازمی تقاضا، اور آخرت کی کامیابی کے لیے ایک ضروری وصف قرار دیا گیا ہے۔ توکل کے معنی یہ ہیں کہ : اولاً، آدمی کو اللہ تعالیٰ کی رہنمائی پر کامل اعتماد ہو اور وہ یہ سمجھے کہ حقیقت کا جو علم، اخلاق کے جو اصول، حلال و حرام کے جو حدود، اور دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے جو قواعد و ضوابط اللہ نے دیے ہیں وہی بر حق ہیں اور انہی کی پیروی میں انسان کی خیر ہے۔ ثانیاً،  آدمی کا بھروسہ اپنی طاقت،  قابلیت، اپنے ذرائع و وسائل،  اپنی تدابیر، اور اللہ کے سوا دوسروں کی امداد و اعانت پر نہ ہو، بلکہ وہ پوری طرح یہ بات ذہن نشین رکھے کہ دنیا اور آخرت کے ہر معاملے میں اس کی کامیابی کا اصل انحصار اللہ کی توفیق و تائید پر ہے،  اور اللہ کی توفیق و تائید کا وہ اسی صورت میں مستحق ہو سکتا ہے جبکہ وہ اس کی رضا کو مقصود بنا کر،  اس  کے مقرر کی ہوئے حدود کی پابندی کرتے ہوئے کام کرے۔ ثالثاً،  آدمی کو ان وعدوں  پر پورا بھوسا ہو جو اللہ تعالیٰ نے ایمان و عمل صالح کا رویہ اختیار کرنے والے اور باطل کے بجائے حق کے لیے کام کرنے والے بندوں سے کیے ہیں،  اور ان ہی وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے وہ ان تمام فوائد اور منافع اور لذائذ کو لات مار دے جو باطل کی راہ پر جانے کی صورت میں اسے حاصل ہوتے نظر آتے ہوں،  اور ان سارے نقصانات اور تکلیفوں اور محرومیوں کو انگیز کر جائے جو حق پر استقامت کی وجہ سے اس کے نصیب میں آئیں۔ توکل کے معنی کی اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایمان کے ساتھ اس کا کتنا گہرا تعلق ہے،  اور اس کے بغیر جو ایمان محض خالی خولی اعتراف و اقرار کی حد تک ہو اس سے وہ شاندار نتائج کیوں نہیں حاصل ہو سکتے جن کا وعدہ ایمان لا کر توکل کرنے والوں سے کیا گیا ہے۔

۵۸۔ تشریح کے  لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول،  صفحات ۳۴۶۔ ۳۴۷۔ ۵۹۸۔ ۵۹۹۔ جلد دوم،  ص ۵۶۶۔ نیز سورہ نجم، آیت ۳۲۔

۵۹۔ یعنی وہ  غصیل اور جھلّے نہیں ہوتے،  بلکہ نرم خو اور دھیمے مزاج کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی سرشت انتقامی نہیں ہوتی بلکہ وہ بندگان خدا سے در گزر اور چشم پوشی کا معاملہ کرتے ہیں،  اور کسی بات پر غصہ آ بھی جاتا ہے تو اسے پی جاتے ہیں۔ یہ وصف انسان کی بہترین صفات میں سے ہے جسے قرآن مجید میں نہایت قابل تعریف قرار دیا گیا ہے (آل عمران،  آیت ۱۳۴) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کامیابی کے بڑے اسباب میں شمار کیا گیا ہے۔ (آل عمران، ۱۵۹)۔ حدیث میں حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ : مآ انتقم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لنفسہٖ فی شئ قط الا ان تنتھک حرمَۃ اللہِ (بخاری و مسلم )۔ ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیا۔ البتہ جب اللہ کی حرمتوں میں سے کسی حرمت کی ہتک  کی جاتی تب آپ سزا دیتے تھے۔ ’’

۶۰۔ لفظی ترجمہ ہو گا ’’ اپنے رب کی پکار پر لبیک کہتے ہیں ‘‘ یعنی جس کام کے لیے بھی اللہ بلاتا ہے اس کے لیے دوڑ پڑتے ہیں،  اور جس چیز کی بھی اللہ دعوت دیتا ہے اسے قبول کرتے ہیں۔

۶۱۔ اس چیز کو یہاں اہل ایمان کی بہترین صفات میں شمار کیا گیا ہے،  اور سورہ آل عمران (آیت ۱۵۹) میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بنا پر مشاورت اسلامی طرز زندگی کا ایک اہم ستون ہے،  اور مشورے کے بغیر اجتماعی کام چلانا نہ صرف جاہلیت کا طریقہ ہے بلکہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے ضابطے کی صریح  خلاف ورزی ہے۔ مشاورت کو اسلام میں یہ اہمیت کیوں دی گئی ہے؟ اس کے وجوہ پر اگر غور کیا جائے تو تین باتیں واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں۔

ایک یہ کہ جس معاملے کا تعلق دو یا زائد آدمیوں کے مفاد سے ہو، اس میں کسی ایک شخص کا اپنی رائے سے فیصلہ کر ڈالنا اور دوسرے متعلق اشخاص کو نظر انداز کرینا زیادتی ہے۔ مشترک معاملات میں کسی کو اپنی من مانی چلانے کا حق نہیں ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ایک معاملہ جتنے لوگوں کے مفاد سے تعلق رکھتا ہو اس میں ان سب کی رائے لی جائے، اور اگر وہ کسی بہت بڑی تعداد سے متعلق ہو تو ان کے معتمد علیہ نمائندوں کو شریک مشورہ کیا جائے۔

دوسرے یہ کہ انسان مشترک معاملات میں اپنی من مانی چلانے کی کوشش یا تو اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی اغراض کے لیے دوسروں کا حق مارنا چاہتا ہے،  یا پھر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑی چیز اور دوسروں کی حقیر سمجھتا ہے۔ اخلاقی حیثیت سے یہ دونوں صفات یکساں قبیح ہیں،  اور مومن کے اندر ان میں سے کسی صفت کا شائبہ بھی نہیں پایا جا سکتا۔ مومن نہ خود غرض ہوتا ہے  کہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کر کے خود ناجائز فائدہ اٹھانا چاہے،  اور نہ وہ متکبر اور خود پسند ہوتا ہے  کہ اپنے آپ ہی عقل کل اور علیم و خبیر سمجھے۔

تیسرے یہ کہ جن معاملات کا تعلق دوسروں کے حقوق اور مفاد سے ہو ان میں فیصلہ کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ کوئی شخص جو خدا سے ڈرتا ہو اور یہ جانتا ہو کہ اس کی کتنی سخت دہی اسے اپنے رب کے سامنے کرنی پڑے گی، کبھی اس بھاری بوجھ کو تنہا اپنے سر لینے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ اس طرح کو جرأتیں صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو خدا سے بے خوف اور آخرت سے بے فکر ہوتے ہیں۔ خدا ترس اور آخرت کی باز پرس کا احساس رکھنے والا آدمی تو لازماً یہ کوشش کرے گا کہ ایک مشترک معاملہ جن جن  سے بھی متعلق ہو ان سب کو، یا نا کے  بھروسے کے نمائندوں کو اس کا فیصلہ کرنے میں شریک مشورہ کرے،  تاکہ زیادہ سے زیادہ صحیح اور بے لاگ اور مبنی بر انصاف فیصلہ کیا جا سکے،  اور اگر نا دانستہ کوئی غلطی ہو بھی جائے تو تنہا کسی ایک ہی شخص پر اس کی ذمہ داری نہ آ پڑے۔

یہ تین وجوہ ایسے ہیں جن پر اگر آدمی غور کرے تو اس کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آ سکتی ہے کہ اسلام جس اخلاق کی انسان کو تعلیم دیتا ہے،  مشورہ اس کا لازمی تقاضا ہے اور اس سے انحراف ایک بہت بڑی بد اخلاقی ہے جس کی اسلام کبھی اجازت نہیں دے سکتا۔ اسلامی طرز زندگی یہ چاہتا ہے کہ مشاورت کا اصول ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملے میں برتا جائے۔ گھر کے معاملات ہوں تو ان میں میاں اور بیوی باہم مشورے سے کام کریں اور بچے جب جوان ہو جائیں تو انہیں بھی شریک مشورہ کیا جائے۔ خاندان کے معاملات ہوں تو ان میں کنبے کے سب عاقل و بالغ افراد کی رائے لی جائے۔ ایک قبیلے یا برادری یا بستی کے معاملات ہوں اور سب لوگوں کا شریک مشورہ ہونا ممکن نہ ہو، ان کا فیصلہ کوئی ایسی پنچایت یا مجلس کرے جس میں کسی متفق علیہ طریقے کے مطابق تمام متعلق لوگوں کے معتمد علیہ نمائندے شریک ہوں۔ ایک پوری قوم کے معاملات ہوں تو ان کے چلانے کے لیے قوم کا سربراہ سب کی مرضی سے مقرر کیا جائے، اور وہ قومی معاملات کو ایسے صاحب رائے لوگوں کے مشورے سے چلائے جن کو قوم قابل اعتماد سمجھتی ہو، اور وہ اسی وقت تک سربراہ رہے جب تک قوم خود اسے اپنا سربراہ بنائے رکھنا چاہے۔ کوئی ایماندار آدمی زبردستی قسم کا سربراہ بننے اور بنے رہنے کی خواہش یا کوشش نہیں کر سکتا، نہ یہ فریب کاری کر سکتا ہے کہ پہلے بزور قوم کے سر پر مسلط ہو جائے اور پھر جبر کے تحت لوگوں کی رضامندی  طلب کرے،  اور نہ اس طرح کی چالیں چل سکتا ہے  کہ اس کو مشورہ دینے کے لیے لوگ اپنی آزاد مرضی سے اپنی پسند کے نمائندے نہیں بلکہ وہ نمائندے منتخب کریں جو اس کی مرضی کے مطابق رائے دینے والے ہوں۔ ایسی ہر خواہش صرف اس نفس میں پیدا ہوتی ہے جو نیت کی خرابی سے لوث ہو، اور اس خواہش کے ساتھ : اَمْرھُمْ شُوْریٰ بَینَھُمْ  کی ظاہری شکل بنانے اور اس کی حقیقت غائب کر دینے کی کوششیں صرف وہی شخص کر سکتا ہے جسے خدا  اور خلق دونوں کو دھوکا دینے میں کوئی باک نہ ہو، حالانکہ نہ خدا دھوکا کھا سکتا ہے،  اور نہ خلق ہی اتنی اندھی ہو سکتی ہے کہ کوئی شخص دن کی روشنی میں علانیہ ڈاکہ مار رہا ہو اور وہ سچے دل سے یہ سمجھتی رہے کہ وہ ڈاکہ نہیں مار رہا ہے بلکہ لوگوں کی خدمت کر رہا ہے۔

اَمْرھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ کا قاعدہ خود اپنی نوعیت اور فطرت کے لحاظ سے پانچ باتوں کا تقاضا کرتا ہے :

اول یہ کہ اجتماعی معاملات جن لوگوں کے حقوق اور مفاد سے تعلق رکھتے ہیں انہیں اظہار رائے کی پوری آزادی حاصل ہو، اور وہ اس بات سے  پوری طرح باخبر رکھے جائیں کہ ان کے معاملات فی الواقع کس طرح چلا ئے جا رہے ہیں،  اور انہیں اس امر کا بھی پورا ح حاصل ہو کہ اگر وہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر ٹوک سکیں،  احتجاج کر سکیں،  اور اصلاح ہوتی نہ دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں۔ لوگوں کا منہ بند کر کے اور ان کے ہاتھ  پاؤں کس کر اور ان کو بے خبر رکھ کر ان کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بد دیانتی ہے جسے کوئی شخص بھی : اَمْرھُمْ شُوریٰ بَینَھُمْ کے اصول کی پیروی نہیں مان سکتا۔

دوم یہ کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری جس شخص پر بھی ڈالنی ہو اسے لوگوں کی رضامندی سے مقرر کیا جائے،  اور یہ رضامندی ان کی آزادانہ رضامندی ہو۔ جبر اور تخویف سے حاصل کی ہوئی، یا تحریص و اطماع سے خریدی ہوئی، یا دھوکے اور فریب اور مکاریوں سے کھسوٹی ہوئی رضامندی در حقیقت رضامندی نہیں ہے۔ ایک قوم کا صحیح سربراہ وہ نہیں ہوتا جو ہر ممکن طریقہ سے کوشش کر کے اس کا سربراہ بنے،  بلکہ وہ ہوتا ہے جس کو لوگ اپنی خوشی اور پسند سے اپنا سربراہ بنائیں۔

سوم یہ کہ سربراہ کار کو مشورہ دینے کے لیے بھی وہ  لوگ مقرر کیے  جائیں جن کو قوم کا اعتماد حاصل ہو، اور ظاہر بات ہے کہ ایسے لوگ کبھی صحیح معنوں میں حقیقی اعتماد کے حامل قرار نہیں دیے جا سکتے جو دباؤ ڈال کر، یا مال سے خرید کر، یا جھوٹ اور مکر سے کام لے کر،  یا لوگوں کو گمراہ کر کے نمائندگی کا مقام حاصل کریں۔

چہارم یہ کو مشورہ دینے والے اپنے علم اور ایمان و ضمیر کے مطابق رائے دیں،  اور اس طرح کے اظہار رائے کی انہیں پوری آزادی حاصل ہو۔ یہ بات جہاں نہ ہو، جہاں مشورہ دینے والے کسی لالچ یا خوف کی بنا پر، یا کسی جتھہ بندی میں کسے ہوئے ہونے کی وجہ سے خود اپنے علم اور ضمیر کے خلاف رائے دیں،  وہاں در حقیقت خیانت اور غداری ہو گی نہ کہ : اَمْرَھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ  کی پیروی۔  

پنجم یہ کہ جو مشورہ اہل شوریٰ  کے اجماع (اتفاق رائے) سے دیا جائے، یا جسے ان کے جمہور(اکثریت ) کی تائید حاصل ہو، اسے تسلیم کیا جائے۔ کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کرنے کا مختار ہو تو مشاورت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے،  اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرما رہا ہے کہ ’’ ان کے معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا ہے ‘‘ بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ ’’ ان کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں۔ ‘‘ اس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے  سے نہیں ہو جاتی، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے مہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو اسی کے مطابق معاملات چلیں۔

اسلام کے اصول شوریٰ کی اس توضیح کے ساتھ یہ بنیادی بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ شوریٰ مسلمانوں کے معاملات چلانے میں مطلق العنان اور مختار کل نہیں ہے بلکہ لازماً اس دین کے حدود ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی تشریع سے مقرر فرمایا ہے،  اور اس اصل الاصول کی پابند ہے کہ ’’ تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے ‘‘،  اور ’’تمہارے درمیان جو نزاع بھی ہو اس میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو‘‘۔ اس قاعدہ کلیہ کے لحاظ سے مسلمان شرعی معاملات میں اس امر پر تو مشورہ کر سکتے ہیں کہ کسی نص کا صحیح مفہوم کیا ہے،  اور اس پر عمل در آمد کس طریقہ سے کیا جائے تاکہ اس کا منشا ٹھیک طور سے پورا ہو، لیکن اس غرض سے کوئی مشورہ نہیں کر سکتے کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول نے کر دیا ہو اس میں وہ خود کوئی آزادانہ فیصلہ کریں۔

۶۲۔ اس کے تین مطلب ہیں :

ایک یہ کہ جو رزق حلال ہم نے انہیں دیا ہے اسی میں سے خرچ کرتے ہیں،  اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مال حرام پر ہاتھ ہیں مارتے۔

دوسرے یہ کہ ہمارے دیے ہوئے رزق کو سَینت کر نہیں رکھتے بلکہ اسے خرچ کرتے ہیں۔

تیسرے یہ کہ جو رزق انہیں دیا گیا ہے اس میں سے راہ خدا میں بھی خرچ کرتے ہیں،  سب کچھ اپنی ہی ذات کے لیے وقف نہیں کر دیتے۔

پہلے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف رزق حلال و طیب ہی کو ’’ اپنے دیے ہوئے رزق ‘‘ سے تعبیر فرماتا ہے۔ نا پاک اور حرام طریقوں سے کمائے ہوئے رزق کو وہ اپنا رزق نہیں کہتا۔ دوسرے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو رزق انسان کو دیتا ہے وہ خرچ کرنے کے لیے دیتا ہے،   سینت  سَینت کر رکھنے اور اس پر مار زر بن کر بیٹھ جانے کے لیے نہیں دیتا۔ اور تیسرے مطلب کی بنیاد یہ ہے کہ خرچ کرنے سے مراد قرآن مجید میں محض اپنی ذاب پر اور اپنی ضروریات پر ہی خرچ کر دینا نہیں ہے،  بلکہ اس کے مفہوم میں انفاق فی سبیل اللہ بھی شامل ہے۔ انہی تین وجوہ سے اللہ تعالیٰ خرچ کرنے کو یہاں اہل ایمان کی ان بہترین صفات میں شمار فرما رہا ہے جن کی بنا پر آخرت کی بھلائیاں انہی کے لیے مختص کی گئی ہیں۔

۶۳۔ یہ بھی اہل ایمان کی بہترین صفات میں سے ہے۔ وہ ظالموں اور جباروں کے لیے نرم چارہ نہیں ہوتے۔ ان کی نرم خوئی او عفو و درگزر کی عادت کمزوری کی بنا پر نہیں ہوتی انہیں بھکشوؤں اور راہبوں کی طرح مسکین بنکر رہنا نہیں  سکھایا گیا ہے۔ ان کی شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ جب غالب ہوں تو مغلوب کے قصور معاف کر دیں،  جب قادر ہوں تو بدلہ لینے سے در گزریں،  اور جب کسی زیر دست یا کمزور آدمی سے کوئی خطا سرزد ہو جائے تو اس سے چشم پوشی کر جائیں،  لیکن کوئی طاقت ور اپنی طاقت کے زعم میں ان پر دست درازی کرے تو ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں اور اس کے دانت کھٹے کر دیں۔ مومن کبھی ظالم سے نہیں دبتا اور متکبر کے آگے نہیں جھکتا۔ اس قسم کے لوگوں کے لیے وہ لوہے کا چنا ہوتا ہے جسے چبانے کی کوشش کرنے والا اپنا ہی جبڑا توڑ لیتا ہے۔

۶۴۔ یہاں سے آخر پیراگراف تک کی پوری عبارت آیت ما سبق کی تشریح کے طور پر ہے۔

۶۵۔ یہ پہلا اصولی قاعدہ ہے جسے بدلہ لینے میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ بدلے کی جائز حد یہ ہے کہ جتنی برائی کسی کے ساتھ کی گئی ہو، اتنی ہی برائی وہ اس کے ساتھ کر لے،  اس سے زیادہ برائی کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا۔

۶۶۔ یہ دوسرا قاعدہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے سے بدلہ لے لینا اگر چہ جائز ہے،  لیکن جہاں معاف کر دینا اصلاح کا موجب ہو سکتا ہو وہاں اصلاح کی خاطر بدلہ لینے کے بجائے معاف کر دینا زیادہ بہتر ہے۔ اور چونکہ یہ معافی انسان اپنے نرس پر جبر کر کے دیتا ہے،  اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا اجر ہمارے ذمہ ہے،  کیونکہ تم نے بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ پیا ہے۔

۶۷۔ اس تنبیہ میں بدلہ لینے کے متعلق ایک تیسرے قاعدے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،  اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص کو دوسرے کے ظلم کا انتقام لیتے لیتے خود ظالم نہیں بن جانا چاہیے۔ ایک برائی کے بدلے میں اس سے بڑھ کر برائی کر گزرنا جائز نہیں ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی کو ایک تھپڑ مارے تو وہ اسے ایک تھپڑ مار سکتا ہے۔ لات گھونسوں کی اس پر بارش نہیں کر سکتا۔ اسی طرح گناہ کا بدلہ گناہ کی صورت میں لینا درست نہیں ہے۔ مثلاً کسی شخص کے بیٹے کو اگر کسی ظالم نے قتل کیا ہے تو اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جا کر اس کے بیٹے کو قتل کر دے۔ یا کسی شخص کی بہن یا بیٹی کو اگر کسی کمینہ انسان نے خراب کیا ہے تو اس کے لیے حلال نہیں ہو جائے گا کہ وہ اس کی بیٹی یا بہن سے زنا کرے۔

۶۸۔ واضح رہے کہ ان آیات میں اہل ایمان کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ اس وقت عملاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے اصحاب کی زندگیوں میں موجود تھیں،  اور کفار مکہ اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھ رہے تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے در اصل کفار کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی چند روزہ  زندگی بسر کرنے کا جو سر و سامان پاکر تم آپے سے باہر ہوئے جاتے ہو، اصل دولت وہ نہیں ہے بلکہ اصل دولت یہ اخلاق اور اوصاف ہیں جو قرآن کی رہنمائی قبول کر کے تمہارے ہی معاشرے کے ان مومنوں نے اپنے اندر پیدا کیے ہیں۔

 

جس کو اللہ ہی گمراہی میں پھینک دے اس کا کوئی سنبھالنے والا اللہ کے بعد نہیں ہے (۶۹)۔ تم دیکھو گے کہ یہ ظالم جب عذاب دیکھیں گے تو کہیں گے اب پلٹنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟(۷۰) اور تم دیکھو گے کہ یہ جہنم کے سامنے جب لائے جائیں گے تو ذلت کے مارے جھکے جا رہے ہوں گے اور اس کو نظر بچا بچا کر کن اَنکھیوں سے دیکھیں گے (۷۱)۔ اس وقت وہ لوگ جو ایمان لائے تھے کہیں گے کہ واقعی اصل زیاں کا روہی ہیں جنہوں نے آج قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین کو خسارے میں ڈال دیا۔ خبردار رہو،  ظالم لوگ مستقل عذاب میں ہوں گے اور ان کے کوئی حامی و سرپرست نہ ہوں گے جو اللہ کے مقابلے میں ان کی مدد کو آئیں۔ جسے اللہ گمراہی میں پھینک دے اس کے لی بچاؤ کی کوئی سبیل نہیں۔
مان لو اپنے رب کی بات قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹلنے کی کوئی صورت اللہ کی طرف سے نہیں ہے (۷۲)۔ اس دن تمہارے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہو گی  اور نہ کوئی تمہارے حال کو بدلنے کی کوشش کرنے والا ہو گا(۷۳)۔ اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو اے نبیؐ،  ہم نے تم کو ان پر نگہبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے (۷۴)۔ تم پر تو صرف بات پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے۔ انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اسے اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو اس پر پھول جاتا ہے اور اگر اس کے اپنے ہاتھوں کا کیا دھرا کسی مصیبت کی شکل میں اس پر الٹ پڑتا ہے تو سخت ناشکرا بن جاتا ہے (۷۵)۔
  اللہ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے (۷۶)، جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے،  جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے،  جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے،  جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے،  اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے (۷۷)۔
کسی (۷۸) بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے روبرو بات کرے۔ اس کی بات یا تو وحی (اشارے )کے طور پر ہوتی ہے (۷۹)، یا پردے کے پیچھے سے (۸۰)، یا پھر وہ کوئی پیغام بر (فرشتہ)بھیجتا ہے اور وہ اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے (۸۱)، وہ برتر اور حکیم ہے (۸۲)۔ اور اسی طرح (اے محمدؐ ) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے (۸۳)۔ تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے،  (۸۴) مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں۔ یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو، اس خدا کے راستے کی طرف جو زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے۔ خبردار رہو، سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں (۸۵)۔ ع

 

۶۹۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے قرآن جیسی بہترین ان لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجی جو نہایت معقول اور نہایت مؤثر و دل نشین طریقہ سے ان کو حقیقت کا علم دے رہی ہے اور زندگی کا صحیح راستہ بتا رہی ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جیسا بنی ان کی رہنمائی کے لیے بھیجا جس سے بہتر سیرت و کردار کا آدمی کبھی ان کی نگاہوں  نے  نہ دیکھا تھا۔ اور اس کتاب اور اس رسول کی تعلیم و تربیت کے نتائج بھی اللہ نے ایمان لانے والوں کی زندگیوں میں انہیں آنکھوں سے دکھا دیے۔ اب اگر کوئی شخص یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ہدایت سے نہ موڑتا ہے تو اللہ پھر اسی گمراہی میں اسے پھینک دیتا ہے جس سے نکلنے کا وہ خواہش مند نہیں ہے۔ اور جب اللہ ہی نے اسے اپنے دروازے سے دھتکار دیا تو اب کون یہ ذمہ لے سکتا ہے کہ اسے راہ راست پر لے آئے گا۔

۷۰۔ یعنی آج جب کہ پلٹ آنے کا موقع ہے،  یہ پلٹنے سے انکار کر رہے ہیں۔ کل جب،  فیصلہ ہو چکے گا اور سزا کا حکم نافذ ہو جائے گا اس وقت اپنی شامت دیکھ کر یہ چاہیں گے کہ اب انہیں پلٹنے کا موقع ملے۔

۷۱۔ انسان کا قاعدہ ہے کہ جب کوئی ہولناک منظر اس کے سامنے ہوتا ہے اور وہ جان رہا ہوتا ہے کہ عنقریب وہ اس بلا کے چنگل میں آنے والا ہے جو سامنے نظر  آ رہی ہے،  تو پہلے تو ڈر کے مارے وہ آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ پھر اس سے رہا نہیں جاتا۔ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ بلا کیسی ہے اور ابھی اس سے کتنی دور ہے۔ لیکن اس کی بھی ہمت نہیں پڑتی کہ سر اٹھا کر نگاہ بھر کر اسے دیکھے۔ اس لیے بار بار ذرا سے آنکھیں کھول کر اسے گوشہ چشم سے دیکھتا ہے اور پھر ڈر کے مارے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ جہنم کی طرف جانے والوں کی اسی کیفیت کا نقشہ اس آیت میں کھینچا گیا ہے۔

۷۲۔ یعنی نہ اللہ خود اسے ٹالے گا اور نہ کسی دوسرے میں یہ طاقت ہے کہ ٹال سکے۔

۷۳۔ اصل الفاظ ہیں : مَا لَکُمْ مِنْ نَّکِیْرٍ۔  اس فقرے کے کئی مفہوم اور بھی ہیں۔ ایک یہ کہ تم اپنے کرتوتوں  میں سے کسی کا انکار نہ کر سکو گے۔ دوسرے یہ کہ تم بھیس  بدل کر کہیں چھپ نہ سکو گے۔ تیسرے یہ کہ تمہارے ساتھ جو کچھ بھی کیا جائے گا اس کا تم کوئی احتجاج اور اظہار ناراضی نہ کر سکو گے۔ چوتھے یہ کہ تمہارے جس میں نہ ہو گا کہ جس حالت میں تم مبتلا کیے گئے ہو اسے بدل سکو۔

۷۴ یعنی تمہارے اوپر یہ ذمہ داری تو نہیں ڈالی گئی ہے کہ تم انہیں ضرور راہ راست ہی پر لا کے رہو اور نہ اس بات کی تم سے کوئی باز پرس ہونی ہے کہ یہ لوگ کیوں راہ راست پر نہ آئے۔

۷۵۔ انسان سے مراد یہاں وہ چھچورے کم ظرف لوگ ہیں جن کا اوپر سے ذکر چلا آ رہا ہے۔ جنہیں دنیا کا کچھ رزق مل گیا ہے تو اس پر پھولے نہیں سماتے اور سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کشش کی جاتی ہے تو سن کر نہیں دیتے لیکن اگر کسی وقت اپنے ہی کرتوتوں کی بدولت ان کی شامت آ جاتی ہے تو قسمت کو رونا شروع کر دیتے ہیں،  اور ان ساری نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جو اللہ نے انہیں دی ہیں اور کبھی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ جس حالت میں وہ مبتلا ہوئے ہیں اس میں انکا اپنا کیا قصور ہے۔ اس طرح نہ خوشحالی ان کی اصلاح میں مدد گار ہوتی ہے نہ بد حالی ہی انہیں سبق دے کر راہ راست پر لا سکتی ہے۔ سلسلہ کلام کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ در اصل یہ ان لوگوں کے رویئے پر طنز ہے جو اوپر کی تقریر کے مخاطب تھے۔ مگر ان کو خطاب کر کے یہ نہیں کہا گیا کہ تمہارا حال یہ ہے،  بلکہ بات یوں کہی گئی کہ انسان میں عام طور پر یہ کمزوری پائی جاتی ہے اور یہی اس کے بگاڑ کا اصل سبب ہے۔ اس سے حکمت تبلیغ کا یہ نکتہ ہاتھ آتا ہے کہ مخاطب کی کمزوریوں پر براہ راست چوٹ نہیں کرنی چاہیے،  بلکہ عمومی انداز میں ان کا ذکر کرنا چاہیے،  تاکہ وہ چڑ نہ جائے، اور اس کے ضمیر میں اگر کچھ بھی زندگی باقی ہے تو ٹھنڈے دل سے اپنے عیب کو سمجھنے کی کوشش کرے۔

۷۶۔ یعنی کفر و شرک کی حماقت میں جو لوگ مبتلا ہیں وہ اگر سمجھانے سے نہیں مانتے تو نہ مانیں،  حقیقت اپنی جگہ حقیقت ہے۔ زمین و آسمان کی بادشاہی دنیا کے نام نہاد بادشاہوں اور جباروں اور سرداروں کے حوالے نہیں کر دی گئی ہے،  نہ کسی نبی یا ولی یا دیوی اور دیوتا کا اس میں کوئی حصہ ہے،  بلکہ اس کا مالک اکیلا اللہ تعالیٰ ہے۔ اس سے بغاوت کرنے والا نہ اپنے بل بوتے پر جیت سکتا ہے،  نہ ان ہستیوں میں سے کوئی آ کر اسے بچا سکتی ہے جنہیں لوگوں نے اپنی حماقت سے خدائی اختیارات کا مالک سمجھ رکھا ہے۔

۷۷۔ یہ اللہ کی بادشاہی کے مطلق (Absolute) ہونے کا ایک کھلا ہوا ثبوت ہ۔ کوئی انسان،  خواہ وہ بڑے سے بڑے دنیوی اقتدار کا مالک بنا پھرتا ہو، یا روحانی اقتدار کا مالک سمجھا جاتا ہو، کبھی اس پر قادر نہیں ہو سکا ہے کہ دوسروں کو دلوانا تو در کنار، خود اپنے ہاں اپنی خواہش کے مطابق اولاد پیدا کر سکے۔ جسے خدا نے  بانجھ کر دیا وہ کسی دوا اور کسی علاج اور کسی تعویذ گنڈے سے اولاد والا نہ بن سکا، جسے خدا نے لڑکیاں ہی لڑ کیاں دیں وہ ایک بیٹا بھی کسی تدبیر سے حاصل نہ کر سکا، اور جسے خدا نے لڑکے ہی لڑکے دیے وہ ایک بیٹی بھی کسی طرح نہ پا سکا۔ اس معاملہ میں ہر ایک قطعی بے بس رہا ہے،  بلکہ بچے کی پیدائش سے پہلے کوئی یہ تک نہ معلوم کر سکا کہ رحم مادر میں لڑکا پرورش پا رہا ہے یا لڑکی۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کوئی خدا کی خدائی میں مختار کُل ہونے کا زعم کرے،  یا کسی دوسری ہستی کو اختیارات میں دخیل سمجھے تو یہ اس کی اپنی ہی بے بصیرتی ہے جس کا خمیازہ وہ خود بھگتے گا۔ کسی کے اپنی جگہ کچھ سمجھ بیٹھنے سے حقیقت میں ذرہ برابر بھی تغیر واقع نہیں ہوتا۔

۷۸۔ تقریر ختم کرتے ہوئے اسی مضمون کو پھر لیا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد ہوا تھا۔ بات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے اس سورہ کی پہلے آیت اور اس کے حاشیے پر دوبارہ ایک نگاہ ڈال لیجیے۔

۷۹۔ یہاں وحی سے مراد ہے القاء، الہام، دل میں کوئی بات ڈال دینا، یا خواب میں کچھ دکھا دینا، جیسے حضرت ابراہیم اور حضرت یوسفؑ کو دکھایا گیا (یوسف،  آیات ۴۔ ۱۰۰۔ الصافات ۱۰۲)۔

۸۰۔ مراد یہ ہے کہ بندہ ایک آواز سنے،  مگر بولنے والا اسے نظر نہ آئے،  جس طرح حضرت موسیٰؑ کے ساتھ ہوا کہ طور کے دامن میں ایک درخت سے یکایک انہیں آواز آنی شروع ہوئی مگر بولنے والا ان کی نگاہ سے اوجھل تھا (طٰہٰ، آیات ۱۱ تا ۴۸۔ النمل،  آیات ۸ تا ۱۲۔ القصص، آیات ۳۰ تا ۳۵)

۸۱۔ یہ وحی آنے کی وہ صورت ہے جس کے ذریعہ سے تمام کتب آسمانی انبیاء علیہم السلام تک پہنچی ہیں۔ بعض لوگوں نے اس فقرے کی غلط تاویل کر کے اس کو یہ معنی پہنائے ہیں کہ ’’ اللہ کوئی رسول بھیجتا ہے جو اس کے حکم سے عام لوگوں تک اس کا پیغام پہنچاتا ہے ‘‘۔ لیکن قرآن  کے الفاظ : فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَآ ءُ (پھر وہ وحی کرتا ہے اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے ) ان کی اس تاویل کا غلط ہونا بالکل عیاں کر دیتے ہیں۔ عام انسانوں کے سامنے انبیاء کی تبلیغ کو ’’ وحی کرنے ‘‘ سے نہ قرآن میں کہیں تعبیر کیا گیا ہے اور نہ عربی زبان میں انسان کی انسان سے علانیہ گفتگو کو ’’ وحی ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرنے کی کوئی گنجائش ہے۔ لغت میں وحی کے معنی ہی خفیہ اور سریع اشارے کے ہیں۔ انبیاء کی تبلیغ پر اس لفظ کا اطلاق صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو عربی زبان سے بالکل نا بلد ہو۔

۸۲۔ یعنی وہ اس سے بہت بالا و بر تر ہے کہ کسی بشر سے رو در رو کلام کرے، اور اس کی حکمت اس سے عاجز نہیں ہے کہ اپنے کسی بندے تک اپنی ہدایات پہنچانے کے لیے  رو برو بات چیت کرنے کے سوا کوئی اور تدبیر نکال لے۔

۸۳۔ ’’ اسی طرح‘‘ سے مراد محض آخری طریقہ نہیں ہے بلکہ وہ تینوں طریقے ہیں جو اوپر کی آیات میں مذکور ہوئے ہیں۔ اور ’’ روح‘‘ سے مراد وحی،  یا وہ تعلیم ہے جو وحی کے ذریعہ سے حضورؐ کو دی گئی۔ یہ بات قرآن اور حدیث دونوں سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ان تینوں طریقوں سے ہدایات دی گئی ہیں :

۱)۔ حدیث میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی آنے کی ابتداء ہی سچے خوابوں سے ہوئی تھی (بخاری و مسلم)۔ یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا ہے،  چنانچہ احادیث میں آپ کے بہت سے خوابوں کا ذکر ملتا ہے جن میں آپ کو کوئی تعلیم دی گئی ہے یا کسی بات پر مطلع کیا گیا ہے،  اور قرآن مجید میں بھی آپ کے ایک خواب کا صراحت کے ساتھ ذکر آیا ہے (الفتح، آیت ۲۷)۔ اس کے علاوہ متعدد احادیث میں یہ ذکر بھی آیا ہے کہ حضورؐ نے فرمایا، فلاں بات میرے دل میں ڈالی گئی ہے،  یا مجھے یہ بتایا گیا ہے،  یا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے،  یا مجھے اس سے منع کیا گیا ہے۔ ایسی تمام چیزیں وحی کی پہلی قسم سے تعلق رکھتی ہیں،  اور احادیث قدسیہ بھی زیادہ تر اسی قبیل سے ہیں۔

۲)۔ معراج کے موقع پر حضورؐ کو وحی کی دوسری قسم سے بھی مشرف فرمایا گیا۔ متعدد صحیح احادیث میں حضورؐ کو پنج وقتہ نماز کو حکم دیے جانے،  اور حضورؐ کے اُس پر  بار بار عرض معروض کرنے کا ذکر جس طرح آیا ہے اُس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت اللہ اور اُس کے بندے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان ویسا ہی مکالمہ ہو تھا جیسا دامن طور میں حضرت موسیٰؑ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوا۔

۳)۔ رہی تیسری قسم، تو اُس کے متعلق قرآن خود ہی شہادت دیتا ہے کہ اسے جبریل امین کے ذریعہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچایا گیا ہے (البقرہ،  ۹۷۔ الشعراء، ۱۹۲ تا ۱۹۵)۔

۸۴۔ یعنی نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے کبھی حضورؐ کے ذہن میں یہ تصور تک نہ آیا تھا کہ آپ کو کوئی کتاب ملنے والی ہے،  یا ملنی چاہیے،  بلکہ آپ سرے سے کتب آسمانی اور ان کے مضامین کے متعلق کچھ جانتے ہی نہ تھے۔ اسی طرح آپ کو اللہ پر ایمان تو ضرو حاصل تھا۔ مگر آپ نہ شعوری طور پر اس تفصیل سے واقف تھے کہ انسان کو اللہ کے متعلق کیا کیا باتیں ماننی چاہییں،  اور نہ آپ کو یہ معلوم تھا کہ اس کے ساتھ ملائکہ اور نبوت اور کتب الہٰی اور آخرت کے متعلق بھی بہت سے باتوں کا ماننا ضروری ہے۔ یہ دونوں باتیں ایسی تھیں جو خود کفار مکہ سے بھی چھپی ہوئی نہ تھیں۔ مکہ معظمہ کا کوئی شخص یہ شہادت نہ دے سکتا تھا کہ اس نے نبوت کے اچانک اعلان سے پہلے کسی حضورؐ کی زبان سے کتاب الہٰی کا کوئی ذکر سنا ہو، یا آپ  سے اس طرح کی کوئی بات سنی ہو کہ لوگوں کو فلاں فلاں چیزوں پر ایمان لانا چاہیے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی شخص پہلے سے خود نبی بن بیٹھنے کی تیاری کر رہا ہو تو اس کی یہ حالت تو کبھی نہیں ہو سکتی کہ چالیس سال تک اس کے ساتھ شب و روز کا میل جول رکھنے والے اس کی زبان سے کتاب اور ایمان کا لفظ تک نہ سنیں،  اور چالیس سال کے بعد یکایک وہ انہی موضوعات پر دھواں دھار تقریریں کرنے لگے۔

۸۵۔ یہ آخری تنبیہ ہے جو کفار کو دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی نے کہا اور تم نے سن کر رد کر دیا، اس پر بات ختم نہیں ہو جانی ہے۔  دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور آخر کار اسی کے دربار سے یہ فیصلہ ہونا ہے کہ کس کا کیا انجام ہونا چاہیے۔