تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ یُونس

نام

اس سورت کا نام حسب دستور محض علامت کے طور پر آیت ۹۸ سے لیا گیا ہے جس میں اشارتاً حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر آیا ہے۔ سورت کا موضوع بحث حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ نہیں۔

مقام نزول

روایات سے معلوم ہوتا ہے اور نفس مضمون سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ یہ پوری سورت مکے میں نازل ہوئی ہے۔ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ اس کی بعض آیات مدنی دور کی ہیں، لیکن یہ محض ایک سطحی قیاس ہے۔ سلسلۂ کلام پر غور کرنے سے صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ یہ مختلف تقریروں یا مختلف مواقع پر اتری ہوئی آیات کا مجموعہ نہیں بلکہ شروع سے آخر تک ایک ہی مربوط تقریر ہے جو بیک وقت نازل ہوئی ہو گی، اور مضمون کلام اس بات پر صریح دلالت کر رہا ہے کہ یہ مکی دور کا کلام ہے۔ 

زمانۂ نزول

زمانۂ نزول کے متعلق کوئی روایت ہمیں نہیں ملی۔ لیکن مضمون سے ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سورت زمانۂ قیام مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہو گی کیونکہ اس کے انداز کلام سے صریح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ مخالفین دعوت کی طرف سے مزاحمت پوری شدت اختیار کر چکی ہے، وہ نبی اور پیروان نبی کو اپنے درمیان برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ان سے اب یہ امید باقی نہیں رہی ہے کہ تفہیم و تلقین سے راہ راست پر آ جائیں، اور اب انہیں اس انجام سے خبردار کرنے کا موقع آ گیا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آخری اور قطعی طور پر رد کر دینے کی صورت میں انہیں لازماً دیکھنا ہو گا۔ مضمون کی یہی خصوصیات ہمیں بتاتی ہیں کہ کونسی سورتیں مکہ کے آخری دور سے تعلق رکھتی ہیں لیکن اس سورت میں ہجرت کی طرف بھی کوئی اشارہ نہیں پایا جاتا۔ اس لیے اس کا زمانہ ان سورتوں سے پہلے کا سمجھنا چاہیے جن میں کوئی نہ کوئی خفی یا جلی اشارہ ہمیں ہجرت کے متعلق ملتا ہے۔ زمانے کی اس تعیین کے بعد تاریخی پس منظر بیان کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کیونکہ اس دور کا تاریخی پس منظر سورۂ انعام اور سورۂ اعراف کے مضامین میں بیان کیا گیا ہے۔ 

موضوع

موضوعِ دعوت، فہمائش اور تنبیہ ہے۔ کلام کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ لوگ ایک انسان کے پیغام نبوت پیش کرنے پر حیران ہیں اور اسے خواہ مخواہ ساحری کا الزام دے رہے ہیں، حالانکہ جو بات وہ پیش کر رہا ہے اس میں کوئی چیز بھی نہ تو عجیب ہی ہے اور نہ سحر و کہانت ہی سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ تو دو اہم حقیقتوں سے تم کو آگاہ کر رہا ہے۔ ایک یہ جو خدا اس کائنات کا خالق ہے اور اس کا انتظام عملاً چلا رہا ہے صرف وہی تمہارا مالک و آقا ہے اور تنہا اسی کا یہ حق ہے کہ تم اس کی بندگی کرو۔

 دوسرے یہ کہ موجودہ دنیوی زندگی کے بعد زندگی کا ایک اور دور آنے والا ہے جس میں تم دوبارہ پیدا کیے جاؤ گے، اپنی موجودہ زندگی کے پورے کارنامے کا حساب دو گے اور اس بنیادی سوال پر جزا یا سزا پاؤ گے کہ تم نے اسی خدا کو اپنا آقا مان کر اس کے منشا کے مطابق نیک رویہ اختیار کیا یا اس کے خلاف عمل کرتے رہے۔ یہ دونوں حقیقتیں، جو وہ تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے، بجائے خود امر واقعی ہیں خواہ تم مانو یا نہ مانو۔ وہ تمہیں دعوت دیتا ہے کہ تم انہیں مان لو اور اپنی زندگی کو ان کے مطابق بنا لو۔ اس کی یہ دعوت اگر تم قبول کروں گے تو تمہارا اپنا انجام بہتر ہو گا ورنہ خود ہی برا نتیجہ دیکھو گے۔ 

مباحث

اس تمہید کے بعد حسب ذیل مباحث ایک خاص ترتیب کے ساتھ سامنے آتے ہیں :

   ۱. وہ دلائل جو توحیدِ ربوبیت اور حیات اخروی کے باب میں ایسے لوگوں کو عقل و ضمیر کا اطمینان بخش سکتے ہیں جو جاہلانہ تعصب میں مبتلا نہ ہوں اور جنہیں بحث کی ہار جیت کے بجائے اصل فکر اس بات کی ہو کہ خود غلط بینی اور اس کے برے نتائج سے بچیں۔

   ۲. اُن غلط فہمیوں کا ازالہ اور اُن غفلتوں پر تنبیہ جو لوگوں کو توحید اور آخرت کا عقیدہ تسلیم کرنے میں مانع ہو رہی تھیں (اور ہمیشہ ہوا کرتی ہیں )۔

   ۳. اُن شبہات اور اعتراضات کا جواب جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت اور آپ کے لائے ہوئے پیغام کے بارے میں پیش کیے جاتے تھے۔

   ۴. دوسری زندگی میں جو کچھ پیش آنے والا ہے اس کی پیشگی خبر، تاکہ انسان اس سے ہوشیار ہو کر اپنے آج کے طرز عمل کو درست کر لے اور بعد میں پچھتانے کی نوبت نہ آئے۔

   ۵. اس امر پر تنبیہ کہ دنیا کی موجودہ زندگی دراصل امتحان کی زندگی ہے اور اس امتحان کے لیے تمہارے پاس بس اتنی ہی مہلت ہے جب تک تم اس دنیا میں سانس لے رہے ہو۔ اس وقت کو اگر تم نے ضائع کر دیا اور نبی کی ہدایت قبول کر کے امتحان کی کامیابی کا سامان نہ کیا تو پھر کوئی دوسرا موقع تمہیں ملنا نہیں ہے۔ اس نبی کا آنا اور اس قرآن کے ذریعے تم کو علم حقیقت کا بہم پہنچایا جانا وہ بہترین اور ایک ہی موقع ہے جو تمہیں مل رہا ہے۔ اس سے فائدہ نہ اٹھاؤ گے اور بعد کی ابدی زندگی میں ہمیشہ کے لیے پچھتاؤ گے۔

   ۶. ان کھلی کھلی جہالتوں اور ضلالتوں پر اشارہ جو لوگوں کی زندگی میں صرف اس وجہ سے پائی جا رہی تھیں کہ وہ خدائی ہدایت کے بغیر جی رہے تھے۔

اس سلسلے میں نوح علیہ السلام کا قصہ مختصراً اور موسیٰ علیہ السلام کا قصہ ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس سے چار باتیں ذہن نشین کرنی مطلوب ہیں۔ اول یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جو معاملہ تم لوگ کر رہے ہو وہ اس سے ملتا جلتا ہے جو نوح اور موسیٰ علیہما السلام کے ساتھ تمہارے پیشرو کر چکے ہیں اور یقین رکھو کہ اس طرز عمل کا جو انجام وہ دیکھ چکے ہیں وہی تمہیں بھی دیکھنا پڑے گا۔ دوم یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے ساتھیوں کو آج جس بے بسی و کمزوری کے حال میں تم دیکھ رہے ہو اس سے کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ صورتحال ہمیشہ یہی رہے گی۔ تمہیں خبر نہیں ہے کہ ان لوگوں کی پشت پر وہی خدا ہے جو موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کی پشت پر تھا اور وہ ایسے طریقے سے حالات کی بساط الٹ دیتا ہے جس تک کسی کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی۔ سوم یہ کہ سنبھلنے کے لیے جو مہلت خدا تمہیں دے رہا ہے اسے اگر تم نے ضائع کر دیا اور پھر فرعون کی طرح خدا کی پکڑ میں آ جانے کے بعد عین آخری لمحے پر توبہ کی تو معاف نہیں کیے جاؤ گے۔ چہارم یہ کہ جو لوگ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لائے تھے وہ مخالف ماحول کی انتہائی شدت اور اس کے مقابلے میں اپنی بیچارگی دیکھ کر مایوس نہ ہوں اور انہیں معلوم ہو کہ ان حالات میں ان کو کس طرح کام کرنا چاہیے۔ نیز وہ اس امر پر بھی متنبہ ہو جائیں کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو اس حالت سے نکال دے تو کہیں وہ اُس روش پر نہ چل پڑیں جو بنی اسرائیل نے مصر سے نجات پا کر اختیار کی۔ آخر میں اعلان کیا گیا ہے یہ عقیدہ اور یہ مسلک ہے جس پر چلنے کی اللہ نے اپنے پیغمبر کو ہدایت کی ہے۔ اس میں قطعاً کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی، جو اسے قبول کرے گا وہ اپنا بھلا کرے گا اور جو اس کو چھوڑ کر غلط راہوں میں بھٹکے گا وہ اپنا ہی کچھ بگاڑے گا۔

ترجمہ و تفسیر

ال ر، یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو حکمت و دانش سے لبریز ہے۔ ۱ کیا لوگوں کے لیے یہ ایک عجیب بات ہو گئی کہ ہم نے خود اُنہی میں سے ایک آدمی کو اشارہ کیا کہ (غفلت میں پڑے ہوئے ) لوگوں کو چونکا دے اور جو مان لیں ان کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے اُن کے ربّ کے پاس سچی عزت و سرفرازی ہے ؟۲ (کیا یہی وہ بات ہے جس پر ) منکرینِ نے کہا کہ یہ شخص تو کھُلا جادوگر ہے ؟۳حقیقت یہ ہے کہ تمہارا ربّ وہی خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر تختِ حکومت پر جلوہ گر ہوا اور کائنات کا انتظام چلا رہا ہے۔ ۴ کوئی شفاعت (سفارش) کرنے والا نہیں ہے اِلّا یہ کہ اس کی اجازت کے بعد شفاعت کرے۔ ۵ یہی اللہ تمہارا ربّ ہے لہٰذا تم اُسی کی عبادت کرو۔۶ پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے ؟۷اسی کی طرف تم سب کو پلٹ کا جانا ہے ۸، یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے۔ بے شک پیدائش کی ابتداء وہی کرتا ہے، پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا،۹ تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ان کو پورے انصاف کے ساتھ جزا دے، اور جنہوں نے کُفر کا طریقہ اختیار کیا وہ کھولتا ہوا پانی پئیں اور دردناک سزا بھُگتیں اُس انکارِ حق کی پاداش میں جو وہ کرتے رہے۔ ۱۰وہی ہے جس نے سُورج کو اُجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی کہ گھَٹنے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں تا کہ تم اُس سے برسوں اور تاریخوں کے حساب معلوم کر و۔ اللہ نے یہ سب کچھ( کھیل کے طور پر نہیں بلکہ) با مقصد ہی بنایا ہے۔ وہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔یقیناً رات اور دن کے اُلٹ پھیر میں اور ہر اُس چیز میں جو اللہ نے زمین اور آسمانوں میں پیدا کی ہے، نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو (غلط بینی و غلط روی سے ) بچنا چاہتے ہیں۔۱۱حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دُنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہو گئے ہیں، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں،اُن کا آخری ٹھکانہ جہنم ہو گا اُن برائیوں کی پاداش میں جن کا اکتساب وہ (اپنے اُس غلط عقیدے اور غلط طرزِ عمل کی وجہ سے ) کرتے رہے۔ ۱۲اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو لوگ ایمان لائے (یعنی جنہوں نے اُن صداقتوں کو قبول کر لیا جو اس کتاب میں پیش کی گئی ہیں) اور نیک اعمال کرتے رہے اُنہیں اُن کا ربّ اُن کے ایمان کی وجہ سے سیدھی راہ چلائے گا، نعمت بھری جنتّوں میں اُن کے نیچے نہریں بہیں گی،۱۳وہاں اُن کی صدا یہ ہو گی کہ ’’پاک ہے تُو اے خدا‘‘، اُن کی یہ دُعا ہو گی کہ ’’سلامتی ہو‘‘ اور اُن کی ہر بات کا خاتمہ اِس پر ہو گا کہ ’’ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے ۱۴۔‘‘ ؏ ١
 

۱-اس تمہیدی فقرے میں ایک لطیف تنبیہ مضمر ہے، نادان لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ پیغمبر قرآن کے نام سے جو کلام ان کو سنا رہا ہے وہ محض زبان کی جادوگری ہے، شاعرانہ پروازِ تخیل ہے اور کچھ کاہنوں کی طرح عالم بالا کی گفتگو ہے۔ اس پر انہیں متنبہ کیا جا رہا ہے کہ جو کچھ تم گمان کر رہے ہو یہ وہ چیز نہیں ہے۔ یہ تو کتابِ حکیم کی آیات ہیں۔ اِن کی طرف توجہ نہ کرو گے تو حکمت سے محروم ہو جاؤ گے۔

۲-یعنی آخر اس میں تعجب کی بات کیا ہے ؟ انسانو ں کو ہوشیار کر نے کے لیے انسان نہ مقرر کیا جاتا تو کیا فرشتہ یا جن یا حیوان مقرر کیا جاتا؟ اور اگر انسان حقیقت سے غافل ہو کر غلط طریقے سے زندگی بسر کر رہے ہوں تو تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کا خالق و پروردگار انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے یا یہ کہ وہ ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے کوئی انتظام کرے ؟ اور اگر خدا کی طرف سے کوئی ہدایت آئے تو عزت و سرفرازی اُن کے لیے ہونی چاہیے جو اسے مان لیں یا ان کے جو اسے رد کر دیں؟ پس تعجب کرنے والوں کو سوچنا تو چاہیے کہ آخر وہ بات کیا ہے جس پر وہ تعجب کر رہے ہیں۔

۳-یعنی جادوگر کی پھبتی تو انہوں نے اس پر کس دی مگر یہ نہ سوچا کہ وہ چسپاں بھی ہوتی ہے یا نہیں۔ صرف یہ بات کہ کوئی شخص اعلیٰ درجہ کی خطابت سے کام لے کر دلوں اور دماغوں کو مسخر کر رہا ہے، اُس پر یہ الزام عائد کر دینے کے لیے تو کافی نہیں ہو سکتی کہ وہ جادوگری کر رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس خطابت میں وہ بات کیا کہتا ہے، کس غرض کے لیے قوت تقریر کو استعمال کر رہا ہے، اور جو اثرات اس کی تقریر سے ایمان لانے والوں کی زندگی پر مترتب ہو رہے ہیں وہ کس نوعیت کے ہیں۔ جو خطیب کسی ناجائز غرض کے لیے جادو بیانی کی طاقت استعمال کرتا ہے وہ تو ایک منہ پھٹ بے لگام، غیر ذمہ دار مقرر ہوتا ہے۔ حق اور صداقت اور انصاف سے آزاد ہو کر ہر وہ بات کہہ ڈالتا ہے جو بس سننے والوں کو متاثر کر دے، خواہ بجائے خود کتنی ہی جھوٹی، مبالغہ آمیز اور غیر منصفانہ ہو۔ اس کی باتوں میں حکمت کے بجائے عوام فریبی ہوتی ہے کسی منظم فکر کے بجائے تناقض اور ناہمواری ہوتی ہے۔ اعتدال کے بجائے بے اعتدالی ہوا کرتی ہے وہ تو محض اپنا سکہ جمانے کے لیے زبان درازی کرتا ہے یا پھر لوگوں کو لڑانے اور ایک گروہ کو دوسرے کے مقابلہ میں ابھارنے کے لیے خطابت کی شراب پلاتا ہے۔ اس کے اثر سے لوگوں میں نہ کوئی اخلاقی بلندی پیدا ہوتی ہے، نہ ان کی زندگیوں میں کوئی مفید تغیر رونما ہوتا ہے اور نہ کوئی صالح فکر یا صالح عملی حالت وجود میں آتی ہے، بلکہ لوگ پہلے سے بدتر صفات کا مظاہرے کر نے لگتے ہیں۔ مگر یہاں تم دیکھ رہے ہو کہ پیغمبر جو کلام پیش کر رہا ہے اس میں حکمت ہے، ایک متناسب نظامِ  فکر ہے، غایت درجے کا اعتدال اور حق و صداقت کا سخت التزام ہے، لفظ لفظ جچا تُلا اور بات بات کانٹے کی تول پوری ہے۔ اس کی خطابت میں تم خلق خدا کی اصلاح کے سوا کسی دوسری غرض کی نشاندہی نہیں کر سکتے۔ جو کچھ وہ کہتا ہے اس میں اس کی اپنی ذاتی یا خاندانی یا قومی یا کسی قسم کی دنیوی غرض کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ لوگ جس غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اس کے بُرے نتائج سے ان کو خبر دار کرے اور انہیں اُس طریقے کی طرف بلائیں جس میں ان کا اپنا بھلا ہے۔ پھر اس کی تقریر سے جو اثرات مترتب ہوئے ہیں وہ بھی جادوگروں کے اثرات سے بالکل مختلف ہیں۔ یہاں جس نے بھی اس کا اثر قبول کیا ہے اس کی زندگی سنور گئی ہے، وہ پہلے سے زیادہ بہتر اخلاق کا انسان بن گیا ہے اور اس کے سارے طرزِ عمل میں خیر و صلاح کی شان نمایاں ہو گئی ہے۔ اب تم خود ہی سوچ لو، کیا جادوگر ایسی ہی باتیں کرتے ہیں اور ان کا جادو ایسے ہی نتائج دکھایا کرتا ہے ؟

۴-یعنی پیدا کر کے وہ معطل نہیں ہو گیا بلکہ اپنی پیدا کی ہوئی کائنات کے تخت سلطنت پر وہ خود جلوہ فرما ہوا اور اب سارے جہان کا انتظام عملاً اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ نادان لوگ سمجھتے ہیں خدا نے کائنات کو پیدا کر کے یونہی چھوڑ دیا ہے کہ خود جس طرح چاہے چلتی رہے، یا دوسروں کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ اس میں جیسا چاہیں تصرف کریں۔ قرآن اس کے برعکس یہ حقیقت پیش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تخلیق کی اس پوری کار گاہ پر آپ ہی حکمرانی کر رہا ہے، تمام اختیارات اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں، ساری زمامِ اقتدار پر وہ خود قابض ہے، کائنات کے گوشے گوشے میں ہر وقت ہر آن جو کچھ ہو رہا ہے براہِ راست اس کے حکم یا اذن سے ہو رہا ہے، اِس جہانِ ہستی کے ساتھ اس کا تعلق صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ کبھی اسے وجود میں لایا تھا، بلکہ ہمہ وقت وہی اس کا مدبر و منتظم ہے، اسی کے قائم رکھنے سے یہ قائم ہے اور اسی کے چلانے سے یہ چل رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۴۰، ۴۱)۔

۵-یعنی دنیا کی تدبیر و انتظام میں کسی دوسرے کا دخیل ہونا تو درکنار کوئی اتنا اختیار بھی نہیں رکھتا کہ خدا سے سفارش کر کے اس کا کوئی فیصلہ بدلوا دے یا کسی کی قسمت بنوا دے یا بگڑوا دے۔ زیادہ سے زیادہ کوئی جو کچھ کر سکتا ہے وہ بس اتنا ہے کہ خدا سے دعا کرے، مگر اس کی دعا کا قبول ہونا یا نہ ہونا بالکل خدا کی مرضی پر منحصر ہے۔ خدا کی خدائی میں اتنا زوردار کوئی نہیں ہے کہ اس کی بات چل کر رہے اور اس کی سفارش ٹل نہ سکے اور وہ عرش کا پایہ پکڑ کر بیٹھ جائے اور اپنی بات منوا کر ہی رہے۔

۶-اوپر کے تین فقروں میں حقیقتِ نفس الامری کا بیان تھا کہ فی الواقع خد ا ہی تمہارا رب ہے۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ اِس امر واقعی کی موجودگی میں تمہارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے۔ جب واقعہ یہ ہے کہ ربوبیت بالکلیہ خدا کی ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تم صرف اُسی کی عبادت کرو۔ پھر جس طرح ربوبیت کا لفظ تین مفہومات پر مشتمل ہے، یعنی پروردگاری، مالی و آقائی، اور فرماں روائی، اسی طرح اس کے بالمقابل عبادت کا لفظ بھی تین مفہومات پر مشتمل ہے۔ یعنی پرستش، غلامی اور اطاعت۔

خدا کے واحد پروردگار ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اسی کا شکر گزار ہو، اسی سے دعائیں مانگے اور اسی کے آگے محبت و عقیدت سے سر جھکائے۔ یہ عبادت کا پہلا مفہوم ہے۔

خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کا بندہ و غلام بن کر رہے اور اُس کے مقابلہ میں خود مختارانہ رویّہ نہ اختیار کرے اور اس کے سوا کسی اور کی ذہنی یا عملی غلامی قبول نہ کرے۔ یہ عبادت کو دوسرا مفہوم ہے۔

خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کے حلم کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کرے نہ خود اپنا حکمران بنے اور نہ اس کے سوا کسی دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرے۔ یہ عبادت کا تیسرا مفہوم ہے۔

۷-یعنی جب یہ حقیقت تمہارے سامنے کھول دی گئی ہے اور تم کو صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ اس حقیقت کی موجودگی میں تمہارے لیے صحیح طرزِ عمل کیا ہے تو کیا اب بھی تمہاری آنکھیں نہ کھلیں گی اور اُنہی غلط فہمیوں میں پڑے رہو گے جن کی بنا پر تمہاری زندگی کا پورا رویہ اب تک حقیقت کے خلاف رہا ہے ؟

۸-یہ نبی کی تعلیم کا دوسرا بنیادی اصول ہے۔ اصولِ اوّل یہ تمہارا رب صرف اللہ ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔ اور اصولِ دوم یہ کہ تمہیں اس دنیا سے واپس جا کر اپنے رب کو حساب دینا ہے۔

۹-یہ فقرہ دعوے اور دلیل دونوں کا مجموعہ ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ خدا دوبارہ انسان کو پیدا کرے گا اور اس پر دلیل یہ دی گئی ہے کہ اسی نے پہلی مرتبہ انسان کو پیدا کیا۔ جو شخص یہ تسلیم کرتا ہو کہ خدا نے خلق کی ابتدا کی ہے ( اور اس سے بجز اُن دہریوں کے جو محض پادریوں کے مذہب سے بھاگنے کے لیے خلقِ بے خالق جیسے احمقانہ نظریے کو اوڑھنے پر آمادہ ہو گئے اور کون انکار کر سکتا ہے ) وہ اس بات کو ناممکن یا بعد از فہم قرار نہیں دے سکتا کہ وہی خدا اس خلق کا پھر اعادہ کرے گا۔

۱۰-یہ وہ ضرورت ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ انسان کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ اوپر جو دلیل دی گئی ہے وہ یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی تھی کہ خلق کا اعادہ ممکن ہے اور اسے مُستبعَد سمجھنا درست نہیں ہے۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ اعادۂ خلق، عقل و انصاف کی رو سے ضروری ہے اور یہ ضرورت تخلیقِ ثانیہ کے سوا کسی دوسرے طریقے سے پوری نہیں ہو سکتی۔ خدا کو اپنا واحد رب مان کر جو لوگ صحیح بندگی کا رویہ اختیار کریں وہ اس کے مستحق ہیں کہ انہیں اپنے اس بجا طرزِ عمل کی پوری پوری جزا ملے۔ اور جولو گ حقیقت سے انکار کر کے اس کے خلاف زندگی بسر کریں وہ بھی اس کے مستحق ہیں کہ وہ اپنے اس بے جا طرزِ عمل کا برا نتیجہ دیکھیں۔ یہ ضرورت اگر موجودہ دنیوی زندگی میں پوری نہیں ہو رہی ہے (اور ہر شخص جو ہٹ دھرم نہیں ہے جانتا ہے کہ نہیں ہو رہی ہے ) تو اسے پورا کرنے کے لیے یقیناً دوبارہ زندگی ناگزیر ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۳۰ و سورۂ ہود، حاشیہ نمبر ۱۰۵)۔

۱۱-یہ عقیدہ ٔ آخرت کی تیسری دلیل ہے۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ کے جو کام ہر طر ف نظر آرہے ہیں، جن کے بڑے بڑے نشانات سورج اور چاند، اور لیل و نہار کی گردش کی صورت میں ہر شخص کے سامنے موجود ہیں، ان سے اس بات کا نہایت واضح ثبوت ملتا ہے کہ اس عظیم الشان کار گاہِ ہستی کا خالق کوئی بچہ نہیں ہے جس نے محض کھیلنے کے لیے یہ سب کچھ بنایا ہو اور پھر دل بھر لینے کے بعد یونہی اس گھروندے کو توڑ پھوڑ ڈالے۔ صریح طور پر نظر آ رہا ہے کہ اس کے ہر کام میں نظم ہے، حکمت ہے، مصلحتیں ہیں، اور ذرے ذرے کی پیدائش میں ایک گہری مقصدیت پائی جاتی ہے۔ پس جب وہ حکیم ہے اور اس کی حکمت کے آثار و علائم تمہارے سامنے علانیہ موجود ہیں، تو اس سے تم کیسے یہ توقع رکھ سکتے ہو کہ وہ انسان کو عقل اور اخلاقی ذمہ داری کی بنا پر جزا و سزا کا جو استحقاق لازماً پیدا ہوتا ہے اسے یونہی مہمل چھوڑ دے گا۔

اس طرح اِن آیات میں عقیدۂ آخرت پیش کرنے کے ساتھ اس کی تین دلیلیں ٹھیک ٹھیک منطقی ترتیب کے ساتھ دی گئی ہیں:

اوّل یہ کہ دوسری زندگی ممکن ہے کیونکہ پہلی زندگی کا امکان واقعہ کی صورت میں موجود ہے۔

دوم یہ کہ دوسری زندگی کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ زندگی میں انسان اپنی اخلاقی ذمہ داری کو صحیح یا غلط طور پر جس طرح ادا کرتا ہے اور اس سے سزا اور جزا کا جو استحقاق پیدا ہوتا ہے اس کی بنا پر عقل اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ایک اور زندگی ہو جس میں ہر شخص اپنے اخلاقی رویہ کا وہ نتیجہ دیکھے جس کا وہ مستحق ہے۔

سوم یہ ہے جب عقل و انصاف کی رو سے دوسری زندگی کی ضرورت ہے تو یہ ضرورت یقیناً پوری کی جائے گی، کیونکہ انسان اور کائنات کا خالق حکیم ہے اور حکیم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ حکمت و انصاف جس چیز کے متقاضی ہوں اسے وہ وجود میں لانے سے باز رہ جائے۔

غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ زندگی بعد موت کو استدلال سے ثابت کر نے کے لیے یہی تین دلیلیں ممکن ہیں اور یہی کافی بھی ہیں۔ ان دلیلوں کے بعد اگر کسی چیز کی کسر باقی رہ جاتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ انسان کو آنکھوں سے دکھا دیا جائے کہ جو چیز ممکن ہے جس کے وجود میں آنے کی ضرورت بھی ہے، اور جس کو وجود میں لانا خدا کی حکمت کا تقاضا بھی ہے، وہ دیکھ یہ تیرے سامنے موجود ہے۔ لیکن یہ کسر بہر حال موجودہ دنیوی زندگی میں پوری نہیں کی جائے گی، کیونکہ دیکھ کر ایمان لانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ انسان کا جو امتحان لینا چاہتا ہے وہ تو ہے ہی یہ کہ وہ حِس اور مشاہدے سے بالاتر حقیقتوں کو خالص نظر و فکر اور استدلال صحیح کے ذریعہ سے مانتا ہے یا نہیں۔

اس سلسلہ میں ایک اور اہم مضمون بھی بیان فرما دیا گیا ہے جو گہری توجہ کا مستحق ہے۔ فرمایا کہ ’’اللہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں‘‘ اور ’’اللہ کی پیدا کی ہوئی ہر چیز میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غلط بینی و غلط روی سے بچنا چاہتے ہیں‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہایت حکیمانہ طریقے سے زندگی کے مظاہر میں ہر طرف وہ آثار پھیلا رکھے ہیں جو ان مظاہر کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقتوں کی صاف صاف نشان دہی کر رہے ہیں۔ لیکن ان نشانات سے حقیقت تک صرف وہ لوگ رسائی حاصل کر سکتے ہیں جن کے اندر یہ دو صفات موجود ہیں:

ایک یہ کہ وہ جاہلانہ تعصبات سے پاک ہو کر علم حاصل کر نے کے اُن ذرائع سے کام لیں جو اللہ نے انسان کو دیے ہیں۔

دوسرے یہ کہ اُن کے اندر خود یہ خواہش موجود ہو کہ غلطی سے بچیں اور صحیح راستہ اختیار کریں۔

۱۲-یہاں سے پھر دعوے کے ساتھ ساتھ اس کی دلیل بھی اشارۃً بیان کر دی گئی ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ عقیدۂ آخرت کے انکار کا لازمی اور قطعی نتیجہ جہنم ہے، اور دلیل ہے کہ اس عقیدے سے منکر یا خالی الذہن ہو کر انسان اُ ن برائیوں کا اکتساب کرتا ہے جن کی سزا جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اور ہزارہا سال کے انسانی رویّے کا تجربہ اس پر شاہد ہے۔ جو لوگ خدا کے سامنے اپنے آپ کو ذمہ دار اور جواب دہ نہیں سمجھتے، جو اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے کہ انہیں آخر کار خدا کو اپنے پورے کارنامۂ حیات کا حساب دینا ہے، جو اس مفروضے پر کام کرتے ہیں کہ زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے، جن کے نزدیک کامیابی و ناکامی کا معیار صرف یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی نے کس قدر خوشحالی، آسائش، شہرت اور طاقت حاصل کی، اور جو اپنے انہی مادّہ پرستانہ تخیلات کی بنا پر آیات الٰہی کو ناقابل توجہ سمجھتے ہیں، ان کی پوری زندگی غلط ہو کر رہ جاتی ہے۔ وہ دنیا میں شتر بے مہار بن کر رہتے ہیں، نہایت برے اخلاق و اوصاف کا اکتساب کرنے میں، خدا کی زمین کو ظلم و فساد اور فسق و فجور سے بھر دیتے ہیں، اور اس بنا پر جہنم کے مستحق بن جاتے ہیں۔

یہ عقیدہ ٔ آخرت پر ایک اور نوعیت کی دلیل ہے۔ پہلی تین دلیلیں عقلی استدلال کے قبیل سے تھیں، اور یہ تجربی استدلال کے قبیل سے ہے۔ یہاں اسے صرف اشارۃً بیان کیا گیا ہے، مگر قرآن میں مختلف مواقع پر ہمیں اس کی تفصیل ملتی ہے۔ اس استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کا انفرادی رویّہ اور انسانی گروہوں کا اجتماعی رویّہ کبھی اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک یہ شعور اور یہ یقین انسانی سیرت کی بنیاد میں پیوست نہ ہو کہ ہم کو خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اب غور طلب یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟ کیا وجہ ہے کہ اس شعور و یقین کے غائب یا کمزور ہوتے ہی انسانی سیرت و کردار کی گاڑی برائی کی راہ پر چل پڑتی ہے۔ اگر عقیدۂ آخرت حقیقتِ نفس الامری کے مطابق نہ ہوا اور اُ س کا انکار حقیقت کے خلاف نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس اقرار و انکار کے نتائج ایک لزومی شان کے ساتھ مسلسل ہمارے تجربے میں آتے۔ ایک ہی چیز سے پیہم صحیح نتائج کا برآمد ہونا اور اس کے عدم سے نتائج کا ہمیشہ غلط ہو جانا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ وہ چیز بجائے خود صحیح ہے۔

اس کے جواب میں بسا اوقات یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ بہت سے منکرینِ  آخرت ایسے ہیں جن کا فلسفہ ٔ اخلاق اور دستورِ عمل سراسر دہریت و مادّہ پرستی پر مبنی ہے پھر بھی وہ اچھی خاصی پاک سیرت رکھتے ہیں اور ان سے ظلم و فساد اور فسق و فجور کا ظہور نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اپنے معاملات میں نیک اور خلق خدا کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔ لیکن اس استدلال کی کمزوری بادنیٰ تامل واضح ہو جاتی ہے۔ تمام مادّہ پرستانہ لادینی فلسفوں اور نظامات فکر کی جانچ پڑتال کر کے دیکھ لیا جائے۔ کہیں اُن اخلاقی خوبیوں اور عملی نیکیوں کے لیے کوئی بنیاد نہ ملے گی جن کا خراج تحسین اِن ’’نیکوکار‘‘ دہریوں کو دیا جاتا ہے۔ کسی منطق سے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ ان لادینی فلسفوں میں راست بازی، امانت، دیانت، وفائے عہد، عدل، رحم، فیاضی، ایثار، ہمدردی، ضبط نفس، عفت، حق شناسی، اور ادائے حقوق کے لیے محرکات موجود ہیں۔ خدا اور آخرت کو نظر انداز کر دینے کے بعد اخلاق کے لیے اگر کوئی قابل عمل نظام بن سکتا ہے تو وہ صرف افادیت (Utilitarianism) کی بنیادوں پر بن سکتا ہے۔ باقی تمام اخلاقی فلسفے محض فرضی اور کتابی ہیں نہ کہ عملی۔ اور افادیت جو اخلاق پیدا کرتی ہے اسے خواہ کتنی ہی وسعت دی جائے، بہرحال وہ اس سے آگے نہیں جاتا کہ آدمی وہ کام کرے جس کا کوئی فائدہ اِس دنیا میں اُس کی ذات کی طرف، یا اُس معاشرے کی طرف جس سے وہ تعلق رکھتا ہے، پلٹ کر آنے کی توقع ہو۔ یہ وہ چیز ہے جو فائدے کی امید اور نقصان کے اندیشے کی بنا پر انسان سے سچ اور جھوٹ، امانت اور خیانت، ایمانداری اور بے ایمانی، وفا اور غدر، انصاف اور ظلم، غرض ہر نیکی اور اس کی ضد کا حسبِ موقع ارتکاب کرا سکتی ہے۔ اِن اخلاقیات کا بہترین نمونہ موجودہ زمانہ کی انگریز قوم ہے جس کو اکثر اس امر کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے کہ مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات رکھنے اور آخرت کے بہترین تصور سے خالی ہونے کے باوجود اس قوم کے افراد بالعموم دوسروں سے زیادہ سچے، کھرے، دیانت دار، عہد کے پابند، انصاف پسند اور معاملات میں قابل اعتماد ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افادی اخلاقیات کی ناپائیداری کا سب سے زیادہ نمایاں عملی ثبوت ہم کو اسی قوم کے کردار میں ملتا ہے۔ اگر فی الواقع انگریزوں کی سچائی، انصاف پسندی، راستبازی اور عہد کی پابندی اس یقین و اذعان پر مبنی ہوتی کہ یہ صفات بجائے خود مستقل اخلاقی خوبیاں ہیں تو آخر یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک ایک انگریز تو اپنے شخصی کردار میں ان کا حامل ہوتا مگر ساری قوم مل کر جن لوگوں کو اپنا نمائندہ اور اپنے اجتماعی امور کا سربراہ کار بناتی ہے وہ بڑے پیمانے پر اس کی سلطنت اور اس کے بین الاقوامی معاملات کے چلانے میں علانیہ جھوٹ، بدعہدی، ظلم، بے انصافی اور بددیانتی سے کام لیتے اور پوری قوم کا اعتماد ان کو حاصل رہتا ؟ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ لوگ مستقل اخلاقی قدروں کے قائل نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے اور نقصان کے لحاظ سے بیک وقت دو متضاد اخلاقی رویّے اختیار کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں؟

تاہم اگر کوئی منکر خدا و آخرت فی الواقع دنیا میں ایسا موجود ہے جو مستقل طور پر بعض نیکیوں کا پابند اور بعض بدیوں سے مجتنب ہے تو درحقیقت اس کی یہ نیکی اور پرہیز گاری اس کے مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اُن مذہبی اثرات کا نتیجہ ہے جو غیر شعوری طور پر اس کے نفس میں متمکن ہیں۔ اس کا اخلاقی سرمایہ مذہب سے چُرایا ہوا ہے اور اس کو وہ ناروا طریقے سے لا مذہبی میں استعمال کر رہا ہے۔ کیونکہ وہ اپنی لا مذہبی و مادّہ پرستی کے خزانے میں اِس سرمائے کے ماخذ کی نشان دہی ہرگز نہیں کر سکتا۔

۱۳-اس جملے پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے۔ اس کے مضمون کی ترتیب گہری توجہ کی مستحق ہے :

ان لوگوں کو آخرت کی زندگی میں جنت کیوں ملے گی؟۔۔۔۔۔۔ اس لیے کہ وہ دنیا کی زندگی میں سیدھی راہ چلے۔ ہر کام میں، ہر شعبہ زندگی میں، ہر انفرادی و اجتماعی معاملے میں انہوں نے برحق طریقہ اختیار کیا اور باطل طریقوں کو چھوڑ دیا۔

یہ ہر ہر قدم پر زندگی کے ہر موڑ اور ہر دوراہے پر، اُن کو صحیح اور غلط، حق اور باطل، راست اور ناراست کی تمیز کیسے حاصل ہوئی؟ اور پھر اس تمیز کے مطابق راست روی پر ثبات اور کج روی سے پرہیز کی طاقت انہیں کہاں سے ملی؟۔۔۔۔۔۔ ان کے رب کی طرف سے، کیونکہ وہی علمی رہنمائی اور عملی توفیق کا منبع ہے۔

ان کا رب انہیں یہ ہدایت اور یہ توفیق کیوں دیتا رہا؟۔۔۔۔۔۔ ان کے ایمان کی وجہ سے۔

یہ نتائج جو اوپر بیان ہوئے ہیں کس ایمان کے نتائج ہیں؟۔۔۔۔۔ اُس پر ایمان کے نہیں جو محض مان لینے کے معنی میں ہو، بلکہ اُس ایمان کے جو سیرت و کردار کی روح بن جائے اور جس کی طاقت سے اخلاق و اعمال میں صلاح کا ظہور ہونے لگے۔ اپنی جسمانی زندگی میں آپ خود دیکھتے ہیں کہ بقائے حیات، تندرستی، قوتِ کار، اور لذتِ زندگانی کا حصول صحیح قسم کی غذا پر موقوف ہوتا ہے۔ لیکن یہ نتائج اُس تغذیہ کہ نہیں ہوتے جو محض کھا لینے کے معنی میں ہو، بلکہ اُس تغذیے کے ہوتے ہیں جو ہضم ہو کر خون بنے اور رگ رگ میں پہنچ کر ہر حصہ جسم کو وہ طاقت بخشے جس سے وہ اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک کرنے لگے۔ بالکل اسی طرح اخلاقی زندگی میں بھی ہدایت یابی، راست بینی، راست روی اور بالآخر فلاح و کامیابی کا حصول صحیح عقائد پر موقوف ہے، مگر یہ نتائج اُن عقائد کے نہیں جو محض زبان پر جاری ہوں یا دل و دماغ کے کسی گوشے میں بے کار پڑے ہوئے ہوں، بلکہ ان عقائد کے ہیں کو جو نفس کے اندر جذب و پیوست ہو کر اندازِ فکر اور مذاقِ طبع اور افتادِ مزاج بن جائیں، اور سیرت و کردار اور رویہ زندگی میں نمایاں ہوں۔ خدا کے قانونِ طبیعی میں وہ شخص جو کھا کر نہ کھانے والے کی طرح رہے، اُن انعامات کا مستحق نہیں ہوتا جو کھا کر ہضم کرنے والے کے لیے رکھے گئے ہیں۔ پھر کیوں توقع کی جائے کہ اُس کے قانونِ اخلاقی میں وہ شخص جو مان کر نہ ماننے والے کی طرح رہے اُن انعامات کا مستحق ہو سکتا ہے جو مان کر صالح بننے والے کے لیے رکھے گئے ہیں؟

۱۴-یہاں ایک لطیف انداز میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے دار الامتحان سے کامیاب ہو کر نکلنے اور نعمت بھری جنتوں میں پہنچ جانے کے بعد یہ نہیں ہو گا کہ یہ لوگ بس وہاں پہنچتے ہی سامانِ عیش پر بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑیں گے اور ہر طرف سے لاؤ حوریں، لاؤ شراب اور بجے چنگ و رباب کی صدائیں بلند ہونے لگیں گی، جیسا کہ جنت کا نام سنتے ہی بعض کج فہم حضرات کے ذہن میں اس کا نقشہ گھومنے لگتا ہے۔ بلکہ درحقیقت صالح اہلِ ایمان دنیا میں افکارِ عالیہ اور اخلاقِ فاضلہ اختیار کر کے، اپنے جذبات کو سنوار کر، اپنی خواہشات کو سُدھار کر، اور اپنی سیرت و کردار کو پاکیزہ بنا کر، جس قسم کی بلند ترین شخصیتیں اپنی ذات میں بہم پہنچائیں گے وہی دنیا کے ماحول سے مختلف، جنت کے پاکیزہ ترین ماحول میں اور زیادہ اُبھر آئیں گی اور ان کے وہی اوصاف، جو دنیا میں انہوں نے پرورش کیے تھے وہاں اپنی پوری شان کے ساتھ ان کی سیرت میں جلوہ گر ہوں گے۔ ان کا محبوب ترین مشغلہ وہی اللہ کی حمد و تقدیس ہو گا جس سے وہ دنیا میں مانوس تھے، اور ان کی سوسائٹی میں وہی ایک دوسرے کی سلامتی چاہنے کا جذبہ کارفرما ہو گا جسے دنیا میں انہوں نے اپنے اجتماعی رویّے کی روح بنایا تھا۔

 

اگر کہیں ۱۵اللہ لوگوں کے ساتھ بُرا معاملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دُنیا کی بھلائی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مہلتِ عمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی۔ (مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے ) اِس لیے ہم اُن لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اُن کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھُو ٹ دے دیتے ہیں۔ انسان کا یہ حال ہے کہ جب اُس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پُکارتا ہے، مگر جب ہم اُس کی مصیبت ٹال دیتے ہیں تو ایسا چل نکلتا ہے کہ گویا اُس نے کبھی اپنے کسی بُرے وقت پر ہم کو پُکارا ہی نہ تھا۔ اِس طرح حد سے گزر جانے والوں کے لیے ان کے کرتُوت خوشنما بنا دیے گئے ہیں۔لوگو، تم سے پہلے کی قوموں کو ۱۶( جو اپنے اپنے زمانہ میں برسرِ عرُوج تھیں) ہم نے ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کی روِش ۱۷ اختیار کی اور اُن کے رسول اُن کے پاس کھُلی کھُلی نشانیاں لے کر آئے اور انہوں نے ایمان لا کر ہی نہ دیا۔ اِس طرح ہم مجرموں کو اُن کے جرائم کا بدلہ دیا کرتے ہیںاب اُن کے بعد ہم نے تم کو زمین میں ان کی جگہ دی ہے، تا کہ دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو۔۱۸جب انہیں ہماری صاف صاف باتیں سُنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ ’’ اِس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا ا س میں کچھ ترمیم کرو‘‘۔ ۱۹ اے محمد ؐ، ان سے کہو ’’ میرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اِس میں کوئی تغیّر و تبدّل کر لوں، میں تو بس اُس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے ربّ کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔ ‘‘ ۲۰اور کہو ’’ اگر اللہ کی مشیّت یہی ہوتی تو میں یہ قرآن تمہیں کبھی نہ سُناتا اور اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا۔ آخر اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گُزار چُکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ۲۱؟پھر اُس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسُوب کرے۔ یا اللہ کی واقعی آیات کو جھوٹا قرار دے۔ ۲۲ یقیناً مجرم کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ ‘‘ ۲۳یہ لوگ اللہ کے سوا اُن کی پرستش کر رہے ہیں جو ان کو نا نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع اور کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ اے محمد ؐ، ان سے کہو ’’ کیا تم اللہ کو اُس بات کی خبر دیتے ہو جسے نہ وہ آسمانوں میں جانتا ہے نہ زمین میں؟۲۴‘‘ پاک ہے وہ اور بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ابتداءً سارے انسان ایک ہی اُمّت تھے، بعد میں انہوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنا لیے ۲۵، اور اگر تیرے ربّ کی طرف سے پہلے ہی ایک بات طے نہ کر لی گئی ہوتی تو جس چیز میں وہ باہم اختلاف کر رہے ہیں اس کا فیصلہ کر دیا جاتا۔۲۶اور یہ جو وہ کہتے ہیں کہ اِس نبی ؐ پر اِ س کے ربّ کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اُتاری گئی،۲۷ تو اِن سے کہو ’’ غیب کا مالک و مختار تو اللہ ہی ہے، اچھا، انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔‘‘ ۲۸ ؏ ۲
 

۱۵-اوپر کے تمہیدی فقروں کے بعد اب نصیحت اور تفہیم کی تقریر شروع ہوتی ہے۔ اس تقریر کو پڑھنے سے پہلے اس کے پس منظر سے متعلق دو باتیں پیشِ نظر رکھنی چاہییں:

ایک یہ کہ اِس تقریر سے تھوڑی مدّت پہلے وہ مسلسل اور سخت بلا انگیز، قحط ختم ہوا تھا جس کی مصیبت سے اہلِ مکہ چیخ اُٹھے تھے۔ اس قحط کے زمانے میں قریش کے متکبرین کی اکڑی ہوئی گردنیں بہت جھک گئی تھیں۔ دعائیں اور زاریاں کرتے تھے، بت پرستی میں کمی آ گئی تھی، خدائے واحد کی طرف رجوع بڑھ گیا تھا اور نوبت یہ آ گئی تھی کہ آخر کار ابو سفیان نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے درخواست کی کہ آپؐ خدا سے اس بلا کو ٹالنے کے لیے دعا کریں۔ مگر جب قحط دُور ہو گیا، بارشیں ہونے لگیں اور خوشحالی کا دَور آیا تو ان لوگوں کی وہی سرکشیاں اور بد اعمالیاں، اور دینِ حق کے خلاف وہی سرگرمیاں پھر شروع ہو گئیں اور جو دل خدا کی طرف رجوع کر نے لگے تھے وہ پھر اپنی سابق غفلتوں میں ڈوب گئے۔ (ملاحظہ ہو النحل، آیت ۱۱۳۔ المومنون، آیات ۷۵ تا ۷۷۔ الدخان، آیات ۱۰ تا ۱۶)۔

دوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب کبھی ان لوگوں کو انکارِ  حق کی پاداش سے ڈراتے تھے تو یہ لوگ جواب میں کہتے تھے کہ تم جس عذابِ الٰہی کی دھمکیاں دیتے ہو وہ آخر آ کیوں نہیں جاتا۔ اس کے آنے میں دیر کیوں لگ رہی ہے۔

اسی پر فرمایا جا رہا ہے کہ خدا لوگوں پر رحم و کرم فرمانے میں جتنی جلدی کرتا ہے ان کو سزا دینے اور ان کے گناہوں پر پکڑ لینے میں اتنی جلدی نہیں کرتا۔ تم چاہتے ہو کہ جس طرح اس نے تمہاری دعائیں سُن کر بلائے قحط جلدی سے دُور کر دی۔ اُسی طرح وہ تمہارے چیلنج سُن کر اور تمہاری سرکشیاں دیکھ کر عذاب بھی فوراً بھیج دے۔ لیکن خدا کا طریقہ یہ نہیں ہے۔ لوگ خواہ کتنی ہی سرکشیاں کیے جائیں وہ ان کو پکڑنے سے پہلے سنبھلنے کا کافی موقع دیتا ہے۔ پیہم تنبیہات بھیجتا ہے اور رسی ڈھیلی چھوڑے رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ جب رعایت کی حد ہو جاتی ہے تب پاداش عمل کا قانون نافذ کیا جاتا ہے۔ یہ تو ہے خدا کا طریقہ۔ اور اس کے برعکس کم ظرف انسانوں کا طریقہ وہ ہے جو تم نے اختیار کیا کہ جب مصیبت آئی تو خدا یاد آنے لگا، بلبلانا اور گڑگڑانا شروع کر دیا، اور جہاں راحت کا دَور آیا کہ سب کچھ بھول گئے۔ یہی وہ لچھن ہیں جن سے قومیں اپنے آپ کو عذابِ  الٰہی کا مستحق بناتی ہیں۔

۱۶-اصل میں لفظ ’’قَرن‘‘ استعمال ہوا ہے جس سے مراد عام طور پر تو عربی زبان میں ایک ’’عہد کے لوگ‘‘ ہوتے ہیں، لیکن قرآن مجید میں جس انداز سے مختلف مواقع پر اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’’قرن‘‘ سے مراد وہ قوم ہے جو اپنے دور میں برسر عروج اور کلّی یا جزئی طور پر امامتِ  عالم پر سرفراز رہی ہو۔ ایسی قوم کی ہلاکت لازماً یہی معنی نہیں رکھتی کہ اس کی نسل کو بالکل غارت ہی کر دیا جائے۔ بلکہ اس کا مقام عروج و امارت سے گرا دیا جانا، اس کی تہذیب و تمدن کا تباہ ہو جانا، اس کے تشخص کا مٹ جانا اور اس کے اجزاء کا پارہ پارہ ہو کر دوسری قوموں میں گم ہو جانا، یہ بھی ہلاکت ہی کی ایک صورت ہے۔

۱۷-یہ لفظِ ظلم اُن محدود معنوں میں نہیں ہے جو عام طور پر اس سے مراد لیے جاتے ہیں، بلکہ یہ ان تمام گناہوں پر حاوی ہے جو انسان بندگی کی حد سے گزر کر کرتا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ حاشیہ نمبر ۴۹)۔

۱۸-خیال رہے کہ خطاب اہلِ عرب سے ہو رہا ہے۔ اور ان سے کہا یہ جا رہا ہے کہ پچھلی قوموں کو اپنے اپنے زمانے میں کام کرنے کا موقع دیا گیا تھا، مگر انہوں نے آخر کار ظلم و بغاوت کی روش اختیار کی اور جو انبیاء ان کو راہِ راست دکھانے کے لیے بھیجے گئ تھے ان کی بات انہوں نے نہ مانی۔ اس لیے وہ ہمارے امتحان میں ناکام ہوئیں اور میدان سے ہٹا دی گئیں۔ اب اے اہلِ عرب تمہاری باری آئی ہے۔ تمہیں ان کی جگہ کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ تم اس امتحان گاہ میں کھڑے ہو جس سے تمہارے پیش رو ناکام ہو کر نکالے جا چکے ہیں۔ اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہارا انجام بھی وہی ہو جو ان کا ہوا تو اس موقع سے، جو تمہیں دیا جا رہا ہے، صحیح فائدہ اُٹھاؤ، پچھلی قوموں کی تاریخ سے سبق لو اور اُن غلطیوں کا اعادہ نہ کرو جو ان کی تباہی کی موجب ہوئیں۔

۱۹-اُن کا یہ قول اوّل تو اس مفروضے پر مبنی تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جو کچھ پیش کر رہے ہیں یہ خدا کی طرف سے نہیں ہے بلکہ ان کے اپنے دماغ کی تصنیف ہے، اور اس کو خدا کی طرف منسوب کر کے انہوں نے صرف اس لیے پیش کیا ہے کہ ان کی بات کا وزن بڑھ جائے۔ دوسرے ان کا مطلب یہ تھا کہ یہ تم نے توحید اور آخرت اور اخلاقی پابندیوں کی بحث کیا چھیڑ دی، اگر رہنمائی کے لیے اُٹھے ہو تو کوئی ایسی چیز پیش کرو جس سے قوم کا بھلا ہو اور اس کی دنیا بنتی نظر آئے۔ تا ہم اگر تم اپنی اس دعوت کو بالکل نہیں بدلنا چاہتے تو کم از کم اس میں اتنی لچک ہی پیدا کر و کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کم و بیش پر مصالحت ہو سکے۔ کچھ ہم تمہاری مانیں، کچھ تم ہماری مان لو۔ تمہاری توحید میں کچھ ہمارے شرک کے لیے، تمہاری خدا پرستی میں کچھ ہماری نفس پرستی اور دنیا پرستی کے لیے اور تمہارے عقیدۂ آخرت میں کچھ ہماری اِن امیدوں کے یے بھی گنجائش نکلنی چاہیے کہ دنیا میں ہم جو چاہیں کرتے رہیں، آخرت میں ہماری کسی نہ کسی طرح نجات ضرور ہو جائے۔ پھر تمہارے یہ قطعی اور حتمی اخلاقی اصول بھی ہمارے لیے ناقابل قبول ہیں۔ ان میں کچھ ہمارے تعصبات کے لیے، کچھ ہمارے رسم و رواج کے لیے، کچھ ہماری شخصی اور قومی اغراض کے لیے، اور کچھ ہماری خواہشات نفس کے لیے بھی جگہ نکلنی چاہیے، کیوں نہ ایسا ہو کہ دین کے مطالبات کا ایک مناسب دائرہ ہماری اور تمہاری رضامندی سے طے ہو جائے اور اس میں ہم خدا کا حق ادا کر دیں۔ اس کے بعد ہمیں آزاد چھوڑ دیا جائے کہ جس جس طرح اپنی دنیا کے کام چلانا چاہتے ہیں چلائیں۔ مگر تم یہ غضب کر رہے ہو کہ پوری زندگی کو اور سارے معاملات کو توحید و آخرت کے عقیدے اور شریعت کے ضابطہ سے کس دینا چاہتے ہو۔

۲۰-یہ اوپر کی دونوں باتوں کا جواب ہے۔ اس میں یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ میں اس کتاب کا مصنف نہیں ہوں بلکہ یہ وحی کے ذریعہ سے میرے پاس آئی ہے جس میں کسی رد و بدل کا مجھے اختیار نہیں۔ اور یہ بھی کہ اس معاملہ میں مصالحت کا قطعاً کوئی امکان نہیں ہے، قبول کرنا ہو تو اس پورے دین کو جوں کا توں قبول کر و ورنہ پورے کو رد کر دو۔

۲۱-یہ ایک زبردست دلیل ہے اُن کے اِس خیال کی تردید میں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم قرآن کو خود اپنے دل سے گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کر رہے ہیں، محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اس دعوے کی تائید میں کہ وہ خود اس کے مصنف نہیں ہیں بلکہ یہ خدا کی طرف سے بذریعہ وحی ان پر نازل ہو رہا ہے۔ دوسرے تمام دلائل تو پھر نسبتاً دور کی چیز تھے، مگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی تو اُن لوگوں کے سامنے کی چیز تھی۔ آپؐ نے نبوت سے پہلے پورے چالیس سال ان کے درمیان گزارے تھے۔ ان کے شہر میں پیدا ہوئے، ان کی آنکھوں کے سامنے بچپن گزرا، جوان ہوئے، ادھیڑ عمر کو پہنچے۔ رہنا سہنا، ملنا جلنا، لین دین، شادی بیاہ، غرض ہر قسم کا معاشرتی تعلق انہی کے ساتھ تھا اور آپؐ کی زندگی کا کوئی پہلو اُن سے چھپا ہوا نہ تھا۔ ایسی جانی بوجھی اور دیکھی بھالی چیز سے زیادہ کھلی شہادت اور کیا ہو سکتی تھی۔

آپؐ کی اس زندگی میں دو باتیں بالکل عیاں تھیں جنہیں مکہ کے لوگوں میں سے ایک ایک شخص جانتا تھا:

ایک یہ کہ نبوت سے پہلے کی پوری چالیس سالہ زندگی میں آپؐ نے کوئی ایسی تعلیم، تربیت اور صحبت نہیں پائی جس سے آپؐ کو وہ معلومات حاصل ہوتیں جن کے چشمے یکایک دعوائے نبوت کے ساتھ ہی آپؐ کی زبان سے پھوٹنے شروع ہو گئے۔ اس سے پہلے کبھی آپؐ اُن مسائل سے دلچسپی لیتے ہوئے، ان مباحث پر گفتگو کرتے ہوئے، اور ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نہیں دیکھے گئے جو اب قرآن کی اِن پے درپے سورتوں میں زیر بحث آرہے تھے۔ حد یہ ہے کہ اس پورے چالیس سال کے دوران میں کبھی آپؐ کے کسی گہرے دوست اور کسی قریب ترین رشتہ دار نے بھی آپؐ کی باتوں اور آپؐ کی حرکات و سکنات میں کوئی ایسی چیز محسوس نہیں کی جسے اُس عظیم الشان دعوت کی تمہید کہا جا سکتا ہو جو آپؐ نے اچانک چالیسویں سال کو پہنچ کر دینی شروع کر دی۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت تھا کہ قرآن آپ کے اپنے دماغ کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ خارج سے آپ کے اندر آئی ہوئی چیز ہے۔ اس لیے کہ انسانی دماغ اپنی عمر کے کسی مرحلے میں بھی ایسی کوئی چیز پیش نہیں کر سکتا جس کے نشونما اور ارتقاء کے واضح نشانات اُس سے پہلے کے مرحلوں میں نہ پائے جاتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ مکہ کے بعض چالاک لوگوں نے جب خود محسوس کیا کر لیا کہ قرآن کو آپ کے دماغ کی پیداوار قرار دینا صریح طور پر ایک لغو الزام ہے تو آخر کو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ کوئی اور شخص ہے جو محمدؐ کو یہ باتیں سکھا دیتا ہے۔ لیکن یہ دوسری بات پہلی بات سے بھی زیادہ لغو تھی۔ کیونکہ مکہ تو درکنار، پورے عرب میں کوئی اس قابلیت کا آدمی نہ تھا جس پر انگلی رکھ کر کہہ دیا جا تا کہ یہ اس کلام کا مصنف ہے یا ہو سکتا ہے۔ ایسی قابلیت کا آدمی کسی سوسائٹی میں چھپا کیسے رہ سکتا ہے ؟

دوسری بات جو آپؐ کی سابق زندگی میں بالکل نمایاں تھی، وہ یہ تھی کہ جھوٹ، فریب، جعل، مکاری، عیاری اور اس قبیل کے دوسرے اوصاف میں سے کسی کا ادنیٰ شائبہ تک آپ کی سیرت میں نہ پایا جاتا تھا۔ پوری سوسائٹی میں کوئی ایسا نہ تھا جو یہ کہہ سکتا ہو کہ اس چالیس سال کی یکجائی معاشرت میں آپؐ سے کسی ایسی صفت کا تجربہ اسے ہو ا ہے۔ بر عکس اس کے جن جن لوگوں کو بھی آپؐ سے سابقہ پیش آیا تھا وہ آپؐ کو اک نہایت سچے، بے داغ، اور قابل اعتماد (امین) انسان کی حیثیت ہی سے جانتے تھے۔ نبوت سے پانچ ہی سال پہلے تعمیر کعبہ کے سلسلہ میں وہ مشہور واقعہ پیش آ چکا تھا جس میں حجر اسود کو نصب کرنے کے معاملہ پر قریش کے مختلف خاندان جھگڑ پڑے تھے اور آپ میں طے ہوا تھا کہ کل صبح پہلا شخص جو حرم میں داخل ہو گا اسی کو پنچ مان لیا جائے گا۔ دوسرے روز وہ شخص محمد صلی اللہ علیہ و سلم تھے جو وہاں داخل ہوئے۔ آپ کو دیکھتے ہی سب لوگ پکار اُٹھے ھذا الامین، رضینا، ھٰذا محمدؐ۔ ’’یہ بالکل راستباز آدمی ہے، ہم اس پر راضی ہیں۔ یہ تو محمدؐ ہے ‘‘۔ اس طرح آپؐ کو نبی مقرر کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ پورے قبیلہ ٔ قریش سے بھرے مجمع میں آپؐ کے ’’امین‘‘ ہونے کی شہادت لے چکا تھا۔ اب یہ گمان کرنے کی کیا گنجائش تھی کہ جس شخص نے تمام عمر کبھی اپنی زندگی کے کسی چھوٹے سے چھوٹے معاملہ میں بھی جھوٹ، جعل اور فریب سے کام نہ لیا تھا وہ یکایک اتنا بڑا جھوٹ اور ایسا عظیم الشان جعل و فریب لے کر اُٹھ کھڑا ہوا کہ اپنے ذہن سے کچھ باتیں تصنیف کیں اور ان کو پورے زور اور تحدِّی کے ساتھ خدا کی طرف منسوب کرنے لگا۔

اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتا ہے کہ ان کے اس بیہودہ الزام کے جواب میں ان سے کہو کہ اللہ کے بندو، کچھ عقل سے تو کام لو، میں کوئی باہر سے آیا ہوا اجنبی آدمی نہیں ہوں، تمہارے درمیان اس سے پہلے ایک عمر گزار چکا ہوں، میری سابق زندگی کو دیکھتے ہوئے تم کیسے یہ توقع مجھ سے کر سکتے ہو کہ میں خدا کی تعلیم اور اس کے حکم کے بغیر یہ قرآن تمہارے سامنے پیش کر سکتا تھا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ قَصَص، حاشیہ نمبر ۱۰۹)۔

۲۲-یعنی اگر یہ آیات خدا کی نہیں ہیں اور میں انہیں خود تصنیف کر کے آیات الٰہی کی حیثیت سے پیش کر رہا ہوں تو مجھ سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔ اور اگر یہ واقعی اللہ کی آیات ہیں اور تم ان کو جھٹلا رہے ہو تو پھر تم سے بڑا بھی کوئی ظالم نہیں۔

۲۳-بعض نادان لوگ ’’فلاح‘‘ کو طویل عمر، یا دنیوی خوشحالی، یا دنیوی فروغ کے معنی میں لے لیتے ہیں، اور پھر اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کر کے جیتا رہے، یا دنیا میں پھلے پھولے، یا اس کی دعوت کو فروغ نصیب ہو، اُسے نبی برحق مان لینا چاہیے کیونکہ اس نے فلاح پائی۔ اگر وہ نبی برحق نہ ہوتا تو جھوٹا دعویٰ کرتے ہی مار ڈالا جاتا، یا بھوکوں مار دیا جاتا اور دنیا میں اس کی بات چلنے ہی نہ پاتی۔ لیکن یہ احمقانہ استدلال صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو نہ تو قرآنی اصطلاحِ ’’فلاح‘‘ کا مفہوم جانتا ہو، نہ اُس قانونِ اِمہال سے واقف ہو جو قرآن کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مجرموں کے لیے مقرر فرمایا ہے، اور نہ یہی سمجھتا ہو کہ اس سلسلہ ٔ بیان میں یہ فقرہ کس معنی میں آیا ہے۔

اوّل تو یہ بات کہ ’’مجرم فلاح نہیں پا سکتے ‘‘ اس سیاق میں اس حیثیت سے فرمائی ہی نہیں گئی ہے کہ یہ کسی کے دعوائے نبوت کو پرکھنے کا معیار ہے جس سے عام لوگ جانچ کر خود فیصلہ کر لیں کہ جو مدعی نبوت ’’فلاح‘‘ پار ہا ہو اس کے دعوے کو مانیں اور جو فلاح نہ پا رہا ہو اس کا انکار کر دیں۔ بلکہ یہاں تو یہ بات اس معنی میں کہی گئی ہے کہ ’’میں یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ مجرموں کو فلاح نصیب نہیں ہو سکتی، اس لیے میں خود تو یہ جرم نہیں کر سکتا کہ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کروں، البتہ تمہارے متعلق مجھے یقین ہے کہ تم سچّے نبی کو جھٹلانے کا جرم کر رہے ہو اس لیے تمہیں فلاح نصیب نہیں ہو گی‘‘۔

پھر فلاح کا لفظ بھی قرآن میں دنیوی فلاح کے محدود معنی میں نہیں آیا ہے، بلکہ اس سے مراد وہ پائیدار کامیابی ہے جو کسی خسران پر منتج ہونے والی نہ ہو، قطع نظر اس سے کہ دنیوی زندگی کے اِس ابتدائی مرحلہ میں اس کے اندر کامیابی کا کوئی پہلو ہو یا نہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ایک داعی ضلالت دنیا میں مزے سے جیے، خوب پھلے پھولے اور اس کی گمراہی کو بڑا فروغ نصیب ہو، مگر یہ قرآن کی اصطلاح میں فلاح نہیں، عین خسران ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک داعیِ حق دنیا میں سخت مصیبتوں سے دوچار ہو، شدّتِ آلام سے نڈھال ہو کر یا ظالموں کی دست درازیوں کا شکار ہو کر دنیا سے جلدی رخصت ہو جائے، اور کوئی اسے مان کر نہ دے، مگر یہ قرآن کی زبان میں خسران نہیں، عین فلاح ہے۔

علاوہ بریں قرآن میں جگہ جگہ یہ بات پوری تشریح کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجرموں کو پکڑنے میں جلدی نہیں کیا کرتا بلکہ انہیں سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دیتا ہے، اور اگر وہ اس مہلت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اور زیادہ بگڑتے ہیں تواللہ کی طرف سے ان کو ڈھیل دی جاتی ہے اور بسا اوقات ان کو نعمتوں سے نوازا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے نفس کی چھپی ہوئی تمام شرارتوں کو پوری طرح ظہور میں لے آئیں اور اپنے عمل کی بنا پر اُس سزا کے مستحق ہو جائیں جس کے وہ اپنی بری صفات کی وجہ سے فی الحقیقت مستحق ہیں۔ پس اگر کسی جھوٹے مدعی کی رسی دراز ہو رہی ہو اور اس پر دنیوی ’’فلاح‘‘ کی برسات برس رہی ہو تو سخت غلطی ہو گی اگر اس کی اس حالت کو اس کے برسر ہدایت ہونے کی دلیل سمجھا جائے۔ خدا کا قانونِ  اِمہال و استدراج جس طرح تمام مجرموں کے لیے عام ہے اسی طرح جھوٹے مدعیان نبوت کے لیے بھی ہے اور ان کے اس مستثنیٰ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ پھر شیطان کو قیامت تک کے لیے جو مہلت اللہ تعالیٰ نے دی ہے اس میں بھی یہ استثنا کہیں مذکور نہیں ہے کہ تیرے اور تو سارے فریب چلنے دیے جائیں گے لیکن اگر تُو اپنی طرف سے کوئی نبی کھڑا کرے گا تو یہ فریب نہ چلنے دیا جائے گا۔

ممکن ہے کوئی شخص ہماری اس بات کے جواب میں وہ آیت پیش کر ے جو سورہ الحاقہ آیات ۴۴ – ۴۷ میں ارشاد ہوئی ہے کہ وَلَوْ تَقَوَّ لَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَ قَاوِیْلِ o لَاَ خَذْنَا مِنْہُ بِا لْیَمِیْنِ o ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ۔ ’’یعنی اگر محمد ؐ نے خود گھڑ کر کوئی بات ہمارے نام سے کہی ہوتی تو ہم اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگِ دل کاٹ ڈالتے ‘‘۔ لیکن اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ تو یہ ہے کہ جو شخص فی الواقع خدا کی طرف سے نبی مقرر کیا گیا ہو وہ اگر جھوٹی بات گھڑ کر وحی کی حیثیت سے پیش کرے تو فوراً پکڑا جائے۔ اِس سے یہ استدلال کرنا کہ جو مدعی نبوت پکڑ انہیں جا رہا ہے وہ ضرور سچا ہے۔ ایک منطقی مغالطہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ خدا کے قانونِ اِمہال و استدراج میں جو استثناء اس آیت سے ثابت ہو رہا ہے وہ صرف سچے نبی کے لیے ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جو شخص نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے وہ بھی اس سے مستثنیٰ کیا گیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ سرکاری ملازموں کے لیے حکومت نے جو قانون بنایا ہو اس کا اطلاق صرف انہی لوگوں پر ہو گا جو واقعی سرکاری ملازم ہوں۔ رہے وہ لوگ جو جعلی طور پر اپنے آپ کو ایک سرکاری عہدہ دار کی حیثیت سے پیش کریں، تو ان پر ضابطۂ ملازمت کا نفاذ نہ ہو گا بلکہ ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو ضابطہ ٔ فوجداری کے تحت عام بدمعاشوں اور مجرموں کے ساتھ کیا جا تا ہے۔ علاوہ بریں سورۂ الحاقہ کی اس آیت میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ بھی اِس غرض کے لیے نہیں فرمایا گیا کہ لوگوں کو نبی کے پرکھنے کا یہ معیار بتایا جائے کہ اگر پردۂ غیب سے کوئی ہاتھ نمودار ہو کر اس کی رگِ دل اچانک کاٹ لے تو سمجھیں جھوٹا ہے ورنہ مان لیں کہ سچا ہے۔ نبی کے صادق یا کاذب ہونے کی جانچ اگر اس کی سیرت، اس کے کام، اور اُس چیز سے جو وہ پیش کر رہا ہو، ممکن نہ ہو تی تو ایسے غیر معقول معیار تجویز کرنے کی ضرورت پیش آسکتی تھی۔

۲۴-کسی چیز کا اللہ کے علم میں نہ ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ سرے سے موجود ہی نہیں، اس لیے کہ سب کچھ جو موجود ہے اللہ کے علم میں ہے۔ پس سفارشیوں کے معدوم ہونے کے لیے یہ ایک نہایت لطیف انداز بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ تو جانتا نہیں کہ زمین یا آسمان میں کوئی اس کے حضور تمہاری سفارش کرنے والا ہے، پھر یہ تم کن سفارشیوں کی اس کو خبر دے رہے ہو؟

۲۵-تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۲۳۰، الانعام، حاشیہ نمبر ۲۴۔

۲۶-یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ فیصلہ نہ کر لیا ہوتا کہ حقیقت کو انسانوں کے حواس سے پوشیدہ رکھ کر ان کی عقل و فہم اور ضمیر و وجدان کو آزمائش میں ڈالا جائے گا، اور جو اس آزمائش میں ناکام ہو کر غلط راہ پر جانا چاہیں گے انہیں ا س راہ پر جانے اور چلنے کا موقع دیا جائے گا، تو حقیقت کو آج ہی بے نقاب کر کے سارے اختلافات کا فیصلہ کیا جا سکتا تھا۔

یہاں یہ بات ایک بڑی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے بیان کی گئی ہے۔ عام طور پر آج بھی لوگ اس اُلجھن میں ہیں اور نزولِ  قرآن کے وقت بھی تھے کہ دنیا میں بہت سے مذہب پائے جاتے ہیں اور ہر مذہب والا اپنے ہی مذہب کو حق سمجھتا ہے۔ ایسی حالت میں آخر اس فیصلے کی صورت کیا ہے کہ کون حق پر ہے اور کون نہیں۔ اس کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ یہ اختلافِ  مذاہب دراصل بعد کی پیداوار ہے۔ ابتداء میں تمام نوعِ انسانی کا مذہب ایک تھا اور وہی مذہب حق تھا۔ پھر اس حق میں اختلاف کر کے لوگ مختلف عقیدے اور مذہب بناتے چلے گئے۔ اب اگر اس ہنگامۂ مذاہب کا فیصلہ تمہارے نزدیک عقل و شعور کے صحیح استعمال کے بجائے صرف اسی طرح ہو سکتا ہے کہ خدا خود حق کو بے نقاب کر کے سامنے لے آئے تو یہ موجودہ دنیوی زندگی میں نہیں ہو گا۔ دنیا کی یہ زندگی تو ہے ہی امتحان کے لیے، اور یہاں سارا امتحان اِسی بات کا ہے کہ تم حق کو دیکھے بغیر عقل و شعور سے پہچانتے ہو یا نہیں۔

۲۷-یعنی اس بات کی نشانی کہ یہ واقعی نبی بر حق ہے اور جو کچھ پیش کر رہا ہے وہ بالکل درست ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ نشانی کے لیے ان کا یہ مطالبہ کچھ اس بنا پر نہیں تھا کہ وہ سچے دل سے دعوتِ حق کو قبول کرنے اور اس کے تقاضوں کے مطابق اپنے اخلاق کو، عادت کو، نظامِ معاشرت و تمدن کو، غرض اپنی پوری زندگی کو ڈھال لینے کے لیے تیار تھے اور بس اس وجہ سے ٹھیرے ہوئے تھے کہ نبی کی تائید میں کوئی نشانی ابھی انہوں نے ایسی نہیں دیکھی تھی جس سے انہیں اس کی نبوت کا یقین آ جائے۔ اصل بات یہ تھی کہ نشانی کا یہ مطالبہ محض ایمان نہ لانے کے لیے ایک بہانے کے طور پیش جاتا تھا۔ جو کچھ بھی ان کو دکھایا جاتا اس کے بعد وہ یہی کہتے کہ کوئی نشانی تو ہم کو دکھائی ہی نہیں گئی۔ اس لیے کہ وہ ایمان لانا چاہتے نہ تھے۔ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو کو اختیار کرنے میں یہ جو آزادی ان کو حاصل تھی کہ نفس کی خواہشات و رغبات کے مطابق جس طرح چاہیں کام کریں اور جس چیز میں لذت یا فائدہ محسوس کریں اس کے پیچھے لگ جائیں، اِس کو چھوڑ کر وہ ایسی غیبی حقیقتوں (توحید و آخرت) کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے جنہیں مان لینے کے بعد ان کو اپنا سارا نظامِ حیات مستقل اخلاقی اصولوں کی بندش میں باندھنا پڑ جاتا۔

۲۸-یعنی جو کچھ اللہ نے اُتارا ہے وہ تو میں نے پیش کر دیا، اور جو اس نے نہیں اتارا وہ میرے اور تمہارے لیے ’’غیب‘‘ ہے جس پر سوائے خدا کے کسی کا اختیار نہیں، وہ چاہے توا تارے اور نہ چاہے تو نہ اُتارے۔ اب اگر تمہارا ایمان لانا اِسی پر موقوف ہے کہ جو کچھ خدا نے نہیں اُتارا ہے وہ اُترے تو اس کے انتظار میں بیٹھے رہو، میں بھی دیکھوں گا کہ تمہاری یہ ضد پوری کی جاتی ہے یا نہیں۔

 

لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت کے بعد جب اُنہیں رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو فوراً ہی وہ ہماری نشانیوں کے معاملے میں چال بازیاں شروع کر دیتے ہیں۔۲۹ ان سے کہو ’’ اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے، اُس کے فرشتے تمہاری سب مکّاریوں کو قلمبند کر رہے ہیں۔‘‘ ۳۰ وہ اللہ ہی ہے جو تم کو خشکی اور تری میں چلاتا ہے۔ چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہو کر با دِ موافق پر فرحاں و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک بادِ مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ گھِر گئے، اُس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اُس سے دعائیں مانگتے ہیں کہ ’’ اگر تُو نے ہم کو اِس بلا سے نجات دے دی تو ہم شُکر گزار بندے بنیں گے۔ ‘‘ ۳۱مگر جب وہ اُن کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے مُنحرف ہو کر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں۔ لوگو، تمہاری یہ بغاوت اُلٹی تمہارے ہی خلاف پڑ رہی ہے۔ دُنیا کے چند روزہ مزے ہیں (لُوٹ لو)، پھر ہمارے طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت ہم تمہیں بتا دیں گے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔دنیا کی یہ زندگی (جس کے نشے میں مست ہو کر ہماری نشانیوں سے غفلت برت رہے ہو ) اس کے مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہیں، خُوب گھنی ہو گئی پھر عین اُس وقت جب کہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور اُن کے مالک سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اُٹھانے پر قادر ہیں، یکایک رات کو یا دن کو ہمارا حکم آگیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کر کے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کُچھ تھا ہی نہیں۔ اس طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سوچنے سمجھنے والے ہیں۔ ( تم اس نا پائیدار زندگی کے فریب میں مبتلا ہو رہے ہو) اور اللہ تمہیں دار السلام کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ ۳۲ (ہدایت اُس کے اختیار میں ہے ) جس کو وہ چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔ جن لوگوں نے بھلائی کا طریقہ اختیار کیا اُن کے لیے بھلائی ہے اور مزید فضل۔۳۳ ان کے چہروں پر رُو سیاہی اور ذلّت نہ چھائے گی۔ وہ جنّت کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور جن لوگوں نے بُرائیاں کمائیں ان کی برائی جیسی ہے ویسا ہی وہ بدلہ پائیں گے، ۳۴ ذلّت ان پر مسلّط ہو گی، کوئی اللہ سے ان کو بچانے والا نہ ہو گا، ان کے چہروں پر ایسی تاریکی چھائی ہوئی ہو گی ۳۵ جیسے رات کے سیاہ پردے ان پر پڑے ہوئے ہوں، وہ دوزخ کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ جس روز ہم ان سب کو ایک ساتھ (اپنی عدالت میں) اکٹھا کریں گے، پھر ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ہے کہیں گے کہ ٹھہر جاؤ تم بھی اور تمہارے بنائے ہوئے شریک بھی، پھر ہم ان کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ ہٹا دیں گے ۳۶ اور ان کے شریک کہیں گے کہ ’’تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے۔۔۔۔۔۔ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے کہ ( تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو ) ہم تمہاری اس عبادت سے بالکل بے خبر تھے۔ ‘‘ ۳۷اُس وقت ہر شخص اپنے کیے کا مزا چکھ لے گا، سب اپنے حقیقی مالک کی طرف پھیر دیے جائیں گے اور وہ سارے جھوٹ جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے گُم ہو جائیں گے۔ ؏ ۳
 

۲۹-یہ پھر اسی قحط کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر آیات ۱۱-۱۲ میں گزر چکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم نشانی آخر کس منہ سے مانگتے ہو۔ ابھی جو قحط تم پر گزرا ہے اس میں تم اپنے اُن معبودوں سے مایوس ہو گئے تھے جنہیں تم نے اللہ کے ہاں اپنا سفارشی ٹھیرا رکھا تھا اور جن کے متعلق کہا کرتے تھے کہ فلاں آستانے کی نیاز تو تیر بہدف ہے۔ اور فلاں درگاہ پر چڑھاوا چڑھانے کی دیر ہے کہ مراد بر آتی ہے۔ تم نے دیکھ لیا کہ ان نام نہاد خداؤں کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اور سارے اختیارات کا مالک صرف اللہ ہے۔ اسی وجہ سے تو آخر کار تم اللہ ہی سے دعائیں مانگنے لگے تھے۔ کیا یہ کافی نشانی نہ تھی کہ تمہیں اُس تعلیم کے برحق ہونے کا یقین آ جاتا جو محمد( صلی اللہ علیہ و سلم) تم کو دے رہے ہیں؟ مگر اس نشانی کو دیکھ کر تم نے کیاکیا؟ جونہی کہ قحط دور ہوا اور بارانِ رحمت نے تمہاری مصیبت کا خاتمہ کر دیا، تم نے اس بلا کے آنے اور پھر اس کے دُور ہو نے کے متعلق ہزار قسم کی توجیہیں اور تاویلیں (چالبازیاں) کرنی شروع کر دیں تا کہ توحید کے ماننے سے بچ سکو اور اپنے شرک پر جمے رہ سکو۔ اب جن لوگوں نے اپنے ضمیر کو اس درجہ خراب کر لیا ہو انہیں آخر کونسی نشانی دکھائی جائے اور اس کے دکھانے سے حاصل کیا ہے ؟

۳۰-اللہ کی چال سے مراد یہ ہے کہ اگر تم حقیقت کو نہیں مانتے اور اس کے مطابق اپنا رویہ درست نہیں کرتے تو وہ تمہیں اسی باغیانہ روش پر چلتے رہنے کی چھوٹ دے دے گا، تم کو جیتے جی اپنے رزق اور اپنی نعمتوں سے نوازتا رہے گا جس سے تمہارا نشۂ زندگانی یونہی تمہیں مست کیے رکھے گا، اور اس مستی کے دوران جو کچھ تم کرو گے وہ سب اللہ کے فرشتے خاموشی کے ساتھ بیٹھے لکھتے رہیں گے، حتیٰ کہ اچانک موت کا پیغام آ جائے گا اور تم اپنے کرتُوتوں کا حساب دینے کے لیے دھر لیے جاؤ گے۔

۳۱-یہ توحید کے برحق ہونے کی نشانی ہر انسان کے نفس میں موجود ہے۔ جب تک اسباب سازگار رہتے ہیں، انسان خدا کو بھولا اور دنیا کی زندگی پر پھولا رہتا ہے۔ جہاں اسباب نے ساتھ چھوڑ ا اور وہ سب سہارے جن کے بل پر وہ جی رہا تھا ٹوٹ گئے، پھر کٹّے سے کٹّے مشرک اور سخت سے سخت دہریے کے قلب سے بھی یہ شہادت اُبلنی شروع ہو جاتی ہے کہ اس سارے عالم اسباب پر کوئی خدا کارفرما ہے اور وہ ایک ہی خدائے غالب و توانا ہے۔ (ملاحظہ ہو الانعام، حاشیہ نمبر ۲۹)۔

۳۲-یعنی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے اُس طریقے کی طرف جو آخرت کی زندگی میں تم کو دار السلام کا مستحق بناتی ہے۔ دار السلام سے مراد ہے جنت اور اس کے معنی ہیں سلامتی کا گھر، وہ جگہ جہاں کوئی آفت، کوئی نقصان، کوئی رنج اور کوئی تکلیف نہ ہو۔

۳۳-یعنی ان کو صرف ان کی نیکی کے مطابق ہی اجر نہیں ملے گا بلکہ اللہ اپنے فضل سے ان کو مزید انعام بھی بخشے گا۔

۳۴-یعنی نیکوکاروں کے برعکس بدکاروں کے ساتھ معاملہ یہ ہو گا کہ جتنی بدی ہے اتنی ہی سزا دے دی جائے گی۔ ایسا نہ ہو گا کہ جرم سے ذرہ برابر بھی زیادہ سزا دی جائے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو النمل، حاشیہ ۱۰۹ الف)۔

۳۵-وہ تاریکی جو مجرموں کے چہرے پر پکڑے جانے اور بچاؤ سے مایوس ہو جانے کے بعد چھا جاتی ہے۔

۳۶-متن میں فَزَیَّلْنَا بَیْنَھُمْ کے الفاظ ہیں۔ اس کا مفہوم بعض مفسرین نے یہ لیا ہے کہ ہم ان کا باہمی ربط و تعلق توڑ دیں گے تا کہ کسی تعلق کی بنا پر وہ ایک دوسرے کا لحاظ نہ کریں۔ لیکن یہ معنی عربی محاورے کے مطابق نہیں ہیں۔ محاورۂ عرب کی رو سے اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے درمیان تمیز پیدا کر دیں گے، یا ان کو ایک دوسرے سے ممیز کر دیں گے۔ اسی معنی کو ادا کرنے کے لیے ہم نے یہ طرزِ بیان اختیار کیا ہے کہ ’’ان کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ ہٹا دیں گے ‘‘ یعنی مشرکین اور ان کے معبود آمنے سامنے کھڑے ہوں گے اور دونوں گروہوں کی امتیازی حیثیت ایک دوسرے پر واضح ہو گی، مشرکین جان لیں گے کہ یہ ہیں وہ جن کو ہم دنیا میں معبود بنائے ہوئے تھے، اور ان کے معبود جان لیں گے کہ یہ ہیں وہ جنہوں نے ہمیں اپنا معبود بنا رکھا تھا۔

۳۷-یعنی وہ تمام فرشتے جن کو دنیا میں دیوی اور دیوتا قرار دے کر پوجا گیا، اور وہ تمام جِنّ، ارواح، اسلاف، اجداد، انبیاء، اولیاء، شہداء وغیرہ جن کو خدائی صفات میں شریک ٹھیرا کر وہ حقوق انہیں ادا کیے گئے جو دراصل خدا کے حقو ق تھے، وہاں اپنے پرستاروں سے صاف کہہ دیں گے کہ ہمیں تو خبر تک نہ تھی کہ تم ہماری عبادت بجا لا رہے ہو۔ تمہاری کوئی دعا، کوئی التجا، کوئی پکار اور  فریاد، کوئی نذر و نیاز، کوئی چڑھاوے کی چیر، کوئی تعریف و مدح اور ہمارے نام کی جاپ اور کوئی سجدہ ریزی و آستانہ بوسی و درگاہ گردی ہم تک نہیں پہنچی۔

 

اِن سے پوچھو، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے ؟ کون اِس نظمِ عالم کی تدبیر کر رہا ہے ؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ۔ کہو، پھر تم (حقیقت کے خلاف چلنے سے ) پرہیز نہیں کرتے ؟تب تو یہی اللہ تمہارا حقیقی ربّ ہے۔ ۳۸ پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ آخر یہ تم کدھر پھرائے جار ہے ہو؟۳۹(اے نبی ؐ، دیکھو) اس طرح نافرمانی اختیار کرنے والوں پر تمہارے ربّ کی بات صادق آ گئی کہ وہ مان کر نہ دیں گے۔ ۴۰اِن سے پوچھو، تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ہے جو تخلیق کی ابتداء بھی کرتا ہو اور پھر اس کا اعادہ بھی کرے ؟۔۔۔۔ کہو وہ صرف اللہ ہے جو تخلیق کی ابتداء کرتا ہے اور اس کا اعادہ بھی،۴۱ پھر تم یہ کس اُلٹی راہ پر چلائے جا رہے ہو ؟۴۲اِن سے پوچھو تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہو؟۴۳۔۔۔۔ کہو وہ صرف اللہ ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ پھر بھلا بتاؤ جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ اِس دنیا کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو رہنمائی نہیں کر سکتا اِلّا یہ کہ اس کی رہنمائی کی جائے ؟ آخر تمہیں ہو کیا گیا ہے، کیسے اُلٹے فیصلے کرتے ہو؟حقیقت یہ ہے کہ اِن میں سے اکثر لوگ محض قیاس و گمان کے پیچھے چلے جا رہے ہیں ۴۴، حالانکہ گمان حق کی ضرورت کو کچھ بھی پُورا نہیں کرتا۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس کو خوب جانتا ہے۔ اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کر لیا جائے۔ بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آ چکا تھا اس کی تصدیق اور الکتاب کی تفصیل ہے۔ ۴۵ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فرمانروائے کائنات کی طرف سے ہے۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر ؐ نے اسے خود تصنیف کر لیا ہے ؟ کہو، ’’ اگر تم اپنے اس الزام میں سچے ہو تو ایک سُورة اس جیسی تصنیف کر لاؤ اور ایک خدا کو چھوڑ کر جس جس کو بُلا سکتے ہو مدد کے لیے بلا لو۔۴۶‘‘اصل بات یہ ہے کہ جو چیز اِن کے علم کی گرفت میں نہیں آئی اور جس کا مآل بھی ان کے سامنے نہیں آیا اُس کو اِنہوں نے (خواہ مخواہ اٹکل پچّو) جھُٹلا دیا۔۴۷ اِسی طرح تو ان سے پہلے کے لوگ بھی جھُٹلا چکے ہیں پھر دیکھ لو اُن ظالموں کا کیا انجام ہُوا۔اِن میں سے کچھ لوگ ایمان لائیں گے اور کچھ نہیں لائیں گے اور تیرا ربّ اُن مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔ ۴۸ ؏ ۴
 

۳۸-یعنی اگر یہ سارے کام اللہ کے ہیں، جیسا کہ تم خود مانتے ہو، تب تو تمہارا حقیقی پروردگار، مالک، آقا، اور تمہاری بندگی و عبادت کا حق دار اللہ ہی ہوا۔ دوسرے جن کا اِن کاموں میں کوئی حصہ نہیں آخر ربوبیت میں کہاں سے شریک ہو گئے ؟

۳۹-خیال رہے کہ خطاب عام لوگوں سے ہے اور ان سے سوال یہ نہیں کیا جا رہا کہ ’’تم کدھر پھرے جاتے ہو‘‘ بلکہ یہ ہے کہ ’’تم کدھر پھرائے جا رہے ہو‘‘۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کوئی ایسا گمراہ کن شخص یا گروہ موجود ہے جو لوگوں کو صحیح رُخ سے ہٹا کر غلط رُخ پر پھیر رہا ہے۔ اسی بنا پر لوگوں سے اپیل یہ کیا جا رہا ہے کہ تم اندھے بن کر غلط رہنمائی کرنے والوں کے پیچھے کیوں چلے جا رہے ہو، اپنی گِرہ کی عقل سے کام لے کر سوچتے کیوں نہیں کہ جب حقیقت یہ ہے، تو آخر یہ تم کو کدھر چلایا جا رہا ہے۔ یہ طرزِ سوال جگہ جگہ ایسے مواقع پر قرآن میں اختیار کیا گیا ہے، اور ہر جگہ گمراہ کرنے والوں کا نام لینے کے بجائے ان کو صیغۂ مجہول کے پردے میں چھپا دیا گیا ہے، تاکہ ان کے معتقدین ٹھنڈے دل سے اپنے معاملے پر غور کر سکیں، اور کسی کو یہ کہہ کر انہیں اشتعال دلانے اور ان کا دماغی توازن بگاڑ دینے کا موقع نہ ملے کہ دیکھو یہ تمہارے بزرگوں اور پیشواؤں پر چوٹیں کی جا رہی ہیں۔ اس میں حکمت تبلیغ کا ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے جس سے غافل نہ رہنا چاہیے۔

۴۰-یعنی ایسی کھلی کھلی اور عام فہم دلیلوں سے بات سمجھائی جاتی ہے، لیکن جنہوں نے نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا ہو وہ اپنی ضد کی بنا پر کسی طرح مان کر نہیں دیتے۔

۴۱-تخلیق کی ابتدا کے متعلق تو مشرکین مانتے ہی تھے کہ یہ صرف اللہ کا کام ہے، ان کے شریکوں میں سے کسی کا اِس کام میں کوئی حصہ نہیں۔ رہا تخلیق کا اعادہ تو ظاہر ہے کہ جو ابتداءً پیدا کرنے والا ہے وہی اس عملِ پیدائش کا اعادہ بھی کر سکتا ہے، مگر جو ابتداءً ہی پیدا کرنے پر قادر نہ ہو وہ کسطرح اعادۂ پیدائش پر قادر ہو سکتا ہے۔ یہ بات اگرچہ صریحًا ایک معقول بات ہے، اور خود مشرکین کے دل بھی اندر سے اس کی گواہی دیتے تھے کہ بات بالکل ٹھکانے کی ہے، لیکن انہیں اس کا اقرار کرنے میں اس بنا پر تامل تھا کہ اسے مان لینے کے بعد انکار آخرت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اوپر کے سوالات پر تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ خود کہیں گے کہ یہ کام اللہ کے ہیں، مگر یہاں اس کے بجائے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ارشاد ہوتا ہے کہ تم ڈنکے کی چوٹ پر کہو کہ یہ ابتدائے خلق اور اعادۂ خلق کا کام بھی اللہ ہی کا ہے۔

۴۲-یعنی جب تمہاری ابتدا کا سرا بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور انتہا کا سرا بھی اسی کے ہاتھ میں، تو خود اپنے خیر خواہ بن کر ذرا سوچو کہ آخر تمہیں یہ کیا باور کرایا جا رہا ہے کہ ان دونوں سروں کے بیچ میں اللہ کے سوا کسی اور کو تمہاری بندگیوں اور نیاز مندیوں کا حق پہنچ گیا ہے۔

۴۳-یہ ایک نہایت اہم سوال ہے کہ جس کو ذرا تفصیل کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے۔ دنیا میں انسان کی ضرورتوں کا دائرہ صرف اسی حد تک محدود نہیں ہے کہ اس کو کھانے پینے پہننے اور زندگی بسر کرنے کا سامان بہم پہنچے اور آفات، مصائب اور نقصانات سے وہ محفوظ رہے۔ بلکہ اُس کی ایک ضرورت (اور درحقیقت سب سے بڑی ضرورت) یہ بھی ہے کہ اسے دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ معلوم ہو اور وہ جانے کہ اپنی ذات کے ساتھ، اپنی قوتوں اور قابلیتوں کے ساتھ، اُس سرو سامان کے ساتھ جو روئے زمین پر اُس کے تصرف میں ہے، اُن بے شمار انسانوں کے ساتھ جن سے مختلف، حیثیتوں میں اس کو سابقہ پیش آتا ہے، اور مجموعی طور پر اس نظامِ  کائنات کے ساتھ جس کے ماتحت رہ کر ہی بہر حال اس کو کام کرنا ہے، وہ کیا اور کس طرح معاملہ کرے جس سے اس کی زندگی بحیثیت مجموعی کامیاب ہو اور اس کی کوششیں اور محنتیں غلط راہوں میں صرف ہو کر تباہی و بربادی پر منتج نہ ہوں۔ اسی صحیح طریقہ کا نام ’’حق ‘‘ ہے اور جو رہنمائی اس طریقہ کی طرف انسان کو لے جائے وہی ’’ہدایتِ  حق‘‘ ہے۔ اب قرآن تمام مشرکین سے اور اُن سب لوگوں سے جو پیغمبر کی تعلیم کو ماننے سے انکار کرتے ہیں، یہ پوچھتا ہے کہ تم خدا کے سوا جن جن کی بندگی کرتے ہو ان میں کوئی ہے جو تمہارے لیے ’’ہدایتِ حق‘‘ حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہو یا بن سکتا ہو؟۔۔۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس لیے کہ انسان خدا کے سوا جن کی بندگی کرتا ہے وہ دو بڑی اقسام پر منقسم ہیں:

ایک وہ دیویاں، دیوتا اور زندہ یا مردہ انسان جن کی پرستش کی جاتی ہے۔ سو اُن کی طرف تو انسان کا رجوع صرف اس غرض کے لیے ہوتا ہے کہ فوق الفطری طریقے سے وہ اس کی حاجتیں پوری کریں اور اس کو آفات سے بچائیں۔ رہی ہدایتِ  حق، تو وہ نہ کبھی ان کی طرف سے آئی، نہ کبھی کسی مشرک نے اس کے لیے اُن کی طرف رجوع کیا، اور نہ کوئی مشرک یہ کہتا ہے کہ اس کے یہ معبود اسے اخلاق، معاشرت، تمدن، معیشت، سیاست، قانون، عدالت وغیرہ کے اصول سکھاتے ہیں۔

دوسرے وہ انسان جن کے بنائے ہوئے اصولوں اور قوانین کی پیروی و اطاعت کی جاتی ہے۔ سو وہ رہنما تو ضرور ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا فی الواقع وہ ’’رہنمائے حق‘‘ بھی ہیں یا ہو سکتے ہیں؟ کیا اُن میں سے کسی کا علم بھی اُن تمام حقائق پر حاوی ہے جن کو جاننا انسانی زندگی کے صحیح اصول وضع کرنے کے لیے ضروری ہے ؟ کیا ان میں سے کسی کی نظر بھی پورے دائرے پر پھیلتی ہے جس میں انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے مسائل پھیلے ہوئے ہیں؟ کیا ان میں سے کوئی بھی اُن کمزوریوں سے، ان تعصبات سے، اُن شخصی یا گروہی دلچسپیوں سے، اُن اغراض و خواہشات سے، اُن رجحانات و میلانات سے بالاتر ہے جو انسانی معاشرے کے لیے منصفانہ قوانین بنانے میں مانع ہو تے ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے، اور ظاہر ہے کہ کوئی صحیح الدماغ آدمی ان سوالات کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا، تو آخر یہ لوگ ’’ہدایتِ حق‘‘ کا سرچشمہ کیسے ہو سکتے ہیں؟

اسی بنا پر قرآن یہ سوال کرتا ہے کہ لوگو، تمہارے اِن مذہبی معبودوں اور تمدنی خداؤں میں کوئی ایسا بھی ہے جو راہِ راست کی طرف تمہاری رہنمائی کرنے والا ہو؟ اوپر کے سوالات کے ساتھ مل کر یہ آخری سوال دین و مذہب کے پورے مسئلے کا فیصلہ کر دیتا ہے۔ انسان کی ساری ضرورتیں دو ہی نوعیت کی ہیں۔ ایک نوعیت کی ضروریات یہ ہیں کہ کوئی اس کا پروردگار ہو، کوئی ملجا و مادیٰ ہو، کوئی دعاؤں کا سننے والا اور حاجتوں کا پورا کرنے والا ہو جس کا مستقل سہارا اِس عالمِ اسباب کے بے ثبات سہاروں کے درمیان رہتے ہوئے وہ تھام سکے۔ سو اوپر کے سوالات نے فیصلہ کر دیا کہ اس ضرورت کو پورا کرنے والا خدا کے سوا کوئی نہیں ہے۔ دوسری نوعیت کی ضروریات یہ ہیں کہ کوئی ایسا رہنما ہو جو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے صحیح اصول بتائے اور جس کے دیے ہوئے قوانینِ حیات کی پیروی پورے اعتماد و اطمینان کے ساتھ کی جا سکے۔ سو اس آخری سوال نے اُس کا فیصلہ بھی کر دیا کہ وہ بھی صرف خدا ہی ہے۔ ا س کے بعد ضد اور ہٹ دھرمی کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی جس کی بنا پر انسان مشرکانہ مذاہب اور لادینی (Secular) اصولِ تمدن و اخلاق و سیاست سے چمٹا رہے۔

۴۴-یعنی جنہوں نے مذاہب بنائے، جنہوں نے فلسفے تصنیف کیے، اور جنہوں نے قوانینِ حیات تجویز کیے انہوں نے بھی یہ سب کچھ علم کی بنا پر نہیں بلکہ گمان و قیاس کی بنا پر کیا۔ اور جنہوں نے ان مذہبی اور دنیوی رہنماؤں کی پیروی کی انہوں نے بھی جان کر اور سمجھ کر نہیں بلکہ محض اس گمان کی بنا پر اُن گا اتباع اختیار کر لیا کہ ایسے بڑے بڑے لوگ جب یہ کہتے ہیں اور باپ دادا ان کو مانتے چلے آرہے ہیں اور ایک دنیا ان کی پیروی کر رہی ہے تو ضرور ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔

۴۵- ’’جو کچھ پہلے آ چکا تھا اس کی تصدیق ہے ‘‘، یعنی ابتدا سے جو اصولی تعلیمات انبیاء علیہم السلام کی معرفت انسان کو بھیجی جاتی رہی ہیں یہ قرآن اُن سے ہٹ کر کوئی نئی چیز نہیں پیش کر رہا ہے بلکہ انہی کی تصدیق و توثیق کر رہا ہے۔ اگر یہ کسی نئے مذہب کے بانی کی ذہنی اُپج کا نتیجہ ہوتا تو اس میں ضرور یہ کوشش پائی جاتی کہ پرانی صداقتوں کے ساتھ کچھ اپنا نرالا رنگ بھی ملا کر اپنی شان امتیاز نمایاں کی جائے۔

 ’’الکتاب کی تفصیل ہے ‘‘، یعنی اُن اصولی تعلیمات کو جو تمام کتب آسمانی کا لُبِّ لُباب (الکتاب) ہیں، اس میں پھیلا کر دلائل و شواہد کے ساتھ، تلقین و تفہیم کے ساتھ، تشریح و توضیح کے ساتھ، اور عملی حالات پر انطباق کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

۴۶-عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ چیلنج محض قرآن کی فصاحت و بلاغت اور اس کی ادبی خوبیوں کے لحاظ سے تھا۔ اعجاز قرآن پر جس انداز سے بحثیں کی گئی ہیں اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہونی کچھ بعید بھی نہیں ہے۔ لیکن قرآن کا مقام اس سے بلند تر ہے کہ وہ اپنی یکتائی و بے نظیری کے دعوے کی بنیاد محض اپنے لفظی محاسن پر رکھے۔ بلاشبہ قرآن اپنی زبان کے لحاظ سے بھی لاجواب ہے، مگر وہ اصل چیز جس کی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسانی دماغ ایسی کتاب تصنیف نہیں کر سکتا، اس کے مضامین اور اس کی تعلیمات ہیں۔ اس میں اعجاز کے جو جو پہلو ہیں اور جن وجوہ سے ان کا من جانب اللہ ہونا یقینی اور انسان کی ایسی تصنیف پر قادر ہونا غیر ممکن ہے ان کو خود قرآن میں مختلف مواقع پر بیان کر دیا گیا ہے اور ہم ایسے تمام مقامات کی تشریح پہلے بھی کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔ اس لیے یہاں بخوف طوالت اس بحث سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الطور، حاشیہ نمبر ۲۶، ۲۷)

۴۷-تکذیب یا تو اس بنیاد پر کی جا سکتی تھی کہ ان لوگوں کو اس کتاب کا ایک جعلی کتاب ہونا تحقیقی طور پر معلوم ہو تا۔ یا پھر اس بنا پر وہ معقول ہو سکتی تھی کہ جو حقیقتیں اس میں بیان کی گئی ہیں اور جو خبریں اس میں دی گئی ہیں وہ غلط ثابت ہو جاتیں۔ لیکن ان دونوں وجوہِ تکذیب میں سے کوئی وجہ بھی یہاں موجود نہیں ہے۔ نہ کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ کہ وہ ازروئے علم جانتا ہے کہ یہ کتاب گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ نہ کسی نے پردۂ غیب کے پیچھے جھانک کر یہ دیکھ لیا ہے کہ واقعی بہت سے خدا موجود ہیں اور یہ کتاب خواہ مخواہ ایک خدا کی خبر سنا رہی ہے، یا فی الواقع خدا اور فرشتوں اور وحی وغیرہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اس کتاب میں خواہ مخواہ یہ افسانہ بنا لیا گیا ہے۔ نہ کسی نے مر کر یہ دیکھ لیا ہے کہ دوسری زندگی اور اس کے حساب کتاب اور جزا و سزا کی ساری خبریں جو اس کتاب میں دی گئی ہیں غلط ہیں۔ لیکن اس کے با وجود نرے شک اور گمان کی بنیا د پر اس شان سے اس کی تکذیب کی جا رہی ہے کہ گویا علمی طور پر اس کے جعلی اور غلط ہونے کی تحقیق کر لی گئی ہے۔

۴۸-ایمان نہ لانے والوں کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ ’’خدا ان مفسدوں کو خوب جانتا ہے ‘‘۔ یعنی وہ دنیا کا منہ تو یہ باتیں بنا کر بند کر سکتے ہیں کہ صاحب ہماری سمجھ میں بات نہیں آتی اس لیے نیک نیتی کے ساتھ ہم اسے نہیں مانتے، لیکن خدا جو قلب و ضمیر کے چھپے ہوئے رازوں سے واقف ہے وہ ان میں سے ایک ایک شخص کے متعلق جانتا ہے کہ کس کس طرح اس نے اپنے دل و دماغ پر قفل چڑھائے، اپنے آپ کو غفلتوں میں گم کیا، اپنے ضمیر کی آواز کو دبایا، اپنے قلب میں حق کی شہادت کو اُبھرنے سے روکا، اپنے ذہن سے قبولِ حق کی صلاحیت کو مٹایا، سن کر نہ سنا، سمجھتے ہوئے نہ سمجھنے کی کوشش کی اور حق کے مقابلہ میں اپنے تعصبات کو، اپنے دنیوی مفاد کو، اپنی باطن سے اُلجھی ہوئی اغراض کو اور اپنے نفس کی خواہشوں اور رغبتوں کو ترجیح دی۔ اسی بنا پر وہ ’’معصوم گمراہ‘‘ نہیں ہیں بلکہ در حقیقت مفسد ہیں۔

 

اگر یہ تجھے جھُٹلاتے ہیں تو کہہ دے کہ ’’ میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لیے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بَری ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اُس کی ذمہ داری سے میں بَری ہوں۔‘‘ ۴۹ ان میں بہت سے لوگ ہیں جو تیری باتیں سُنتے ہیں، مگر کیا تُو بہروں کو سُنائے گا خواہ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں؟۵۰اِن میں سے بہت سے لوگ ہیں جو تجھے دیکھتے ہیں، مگر کیا تُو اندھوں کو راہ بتائے گا خواہ انہیں کچھ نہ سُوجھتا ہو؟۵۱حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا، لوگ خود ہی اپنے اُوپر ظلم کرتے ہیں۔۵۲ (آج یہ دُنیا کی زندگی میں مست ہیں) اور جس روز اللہ اِن کو اکٹھا کرے گا تو (یہی دُنیا کی زندگی اِنہیں ایسی محسُوس ہو گی) گویا یہ محض ایک گھڑی بھر آپس میں جان پہچان کرنے کو ٹھہرے تھے۔ ۵۳ (اُس وقت تحقیق ہو جائے گا کہ) فی الواقع سخت گھاٹے میں رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھُٹلایا ۵۴ اور ہر گز وہ راہِ راست پر نہ تھے۔ جِن بُرے نتائج سے ہم انہیں ڈرا رہے ہیں ان کا کوئی حصہ ہم تیرے جیتے جی دکھا دیں یا اس سے پہلے ہی تجھے اُٹھالیں، بہرحال اِنہیں آنا ہماری ہی طرف ہے اور جو کچھ یہ کر رہے ہیں اس پر اللہ گواہ ہے۔ ہر اُمّت کے لیے ایک رسُول ہے ۵۵، پھر جب کسی اُمّت کے پاس اُس کا رسُول آ جاتا ہے تو اس کا فیصلہ پُورے انصاف کے ساتھ چُکا دیا جاتا ہے اور اس پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جاتا۔۵۶کہتے ہیں اگر تمہاری یہ دھمکی سچی ہے تو آخر یہ کب پُوری ہو گی؟کہو ’’ میرے اختیار میں خُود اپنا نفع و ضرر بھی نہیں، سب کچھ اللہ کی مشیّت پر موقوف ہے۔ ۵۷ ہر اُمّت کے لیے مہلت کی ایک مدّت ہے، جب یہ مدّت پُوری ہو جاتی ہے تو گھڑی بھر کی تقدیم و تاخیر بھی نہیں ہوتی۔‘‘ ۵۸اِن سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ کا عذاب اچانک رات کو یا دن کو آ جائے (تو تم کیا کر سکتے ہو؟)۔ آخِر یہ ایسی کون سی چیز ہے جس کے لیے مجرم جلدی مچائیں؟کیا جب وہ تم پر آ پڑے اسی وقت تم اسے مانو گے ؟۔۔۔۔اب بچنا چاہتے ہو؟ حالانکہ تم خود ہی اس کے جلدی آنے کا تقاضا کر رہے تھے ! پھر ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب ہمیشہ کا عذاب چکھو، جو کچھ تم کماتے رہے ہو اس کی پاداش کے سوا اور کیا بدلہ تم کو دیا جا سکتا ہے ؟پھر پُوچھتے ہیں کیا واقعی یہ سچ ہے جو تم کہہ رہے ہو، کہو ’’ میرے ربّ کی قسم، یہ بالکل سچ ہے اور تم اتنا بل بُوتا نہیں رکھتے کہ اسے ظہُور میں آنے سے روک دو۔‘‘ ؏ ۵
 

۴۹-یعنی خواہ مخواہ جھگڑے اور کج بحثیاں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر میں افترا پردازی کر رہا ہوں تو اپنے عمل کا میں خود ذمہ دار ہوں تم پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ اور اگر تم سچی بات کو جھٹلا رہے ہو تو میرا کچھ نہیں بگاڑتے، اپنا ہی کچھ بگاڑ رہے ہو۔

۵۰-ایک سننا تو اس طرح کا ہوتا ہے جیسے جانور بھی آواز سن لیتے ہیں۔ دوسرا سننا وہ ہوتا ہے جس میں معنی کی طرف توجہ ہو اور یہ آمادگی پائی جاتی ہو کہ بات اگر معقول ہو گی تو اسے مان لیا جائے گا۔ جو لوگ کسی تعصب میں مبتلا ہوں، اور جنہوں نے پہلے سے فیصلہ کر لیا ہو کہ اپنے موروثی عقیدوں اور طریقوں کے خلاف اور اپنے نفس کی رغبتوں اور دلچسپیوں کے خلاف کوئی بات، خواہ وہ کیسی ہی معقول ہو، مان کر نہ دیں گے، وہ سب کچھ سن کر بھی نہیں سنتے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی کچھ سن کر نہیں دیتے جو دنیا میں جانوروں کی طرح غفلت کی زندگی بسر کر تے ہیں اور چَرنے چُگنے کے سوا کسی چیز سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، یا نفس کی لذتوں اور خواہشوں کے پیچھے ایسے مست ہوتے ہیں کہ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ ہم یہ جو کچھ کر رہے ہیں یہ صحیح بھی ہے یا نہیں۔ ایسے لوگ کانوں کے تو بہرے نہیں ہوتے مگر دل کے بہرے ہوتے ہیں۔

۵۱-یہاں بھی وہی بات فرمائی گئی ہے کہ جو اوپر کے فقرے میں ہے۔ سر کی آنکھیں کھلی ہونے سے کچھ فائدہ نہیں، ان سے تو جانور بھی آخر دیکھتا ہی ہے۔ اصل چیز دل کی آنکھوں کا کھلا ہونا ہے۔ یہ چیز اگر کسی شخص کو حاصل نہ ہو تو وہ سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھتا۔

ان دونوں آیتوں میں خطاب تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے مگر ملامت ان لوگوں کو کی جا رہی ہے جن کی اصلاح کے آپ درپے تھے۔ اور اس ملامت کی غرض بھی محض ملامت کرنا ہی نہیں ہے بلکہ طنز کا تیر و نشتر اس لیے چبھویا جا رہا ہے کہ ان کی سوئی ہوئی انسانیت اس کی چبھن سے کچھ بیدار ہو اور ان کی چشم و گوش سے ان کے دل تک جانے والا راستہ کھلے، تا کہ معقول بات اور درد مندانہ نصیحت وہاں تک پہنچ سکے۔ یہ انداز بیان کچھ اس طرح کا ہے جیسے کوئی نیک آدمی بگڑے ہوئے لوگوں کے درمیان بلند ترین اخلاقی سیرت کے ساتھ رہتا ہو اور نہایت اخلاص و دردمندی کے ساتھ اُن کو اُن کی اُس گری ہوئی حالت کا احساس دلا رہا ہوں جس میں وہ پڑے ہوئے ہیں۔ اور بڑی معقولیت و سنجیدگی کے ساتھ انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہو کہ ان کے طریقِ زندگی میں کیا خرابی ہے اور صحیح طریقِ زندگی کیا ہے۔ مگر کوئی نہ تو اس کی پاکیزہ زندگی سے سبق لیتا ہو نہ اس کی اِن خیر خواہانہ نصیحتوں کی طرف توجہ کرتا ہو۔ اس حالت میں عین اُس وقت جبکہ وہ ان لوگوں کو سمجھانے میں مشغول ہو اور وہ اس کی باتوں کو سُنی اَن سُنی کیے جا رہے ہوں، اس کا کوئی دوست آ کر اس سے کہے کہ میاں یہ تم کن بہروں کو سنا رہے ہو اور کن اندھوں کو راستہ دکھانا چاہتے ہو، ان کے تو دل کے کان بند ہیں اور ان کی ھِیے کی آنکھیں پھوٹی ہوئی ہیں۔ یہ بات کہنے سے اُس دوست کا منشا یہ نہیں ہو گا کہ وہ مرد صالح اپنی سعی اصلاح سے باز آ جائے۔ بلکہ دراصل اس کی غرض یہ ہو گی کہ شاید اس طنز اور ملامت ہی سے ان نیند کے ماتوں کو کچھ ہوش آ جائے۔

۵۲-یعنی اللہ نے تو انہیں کان بھی دیے ہیں اور آنکھیں بھی اور دل بھی۔ اس نے اپنی طرف سے کوئی ایسی چیز ان کو دینے میں بُخل نہیں کیا ہے جو حق و باطل کا فرق دیکھنے اور سمجھنے کے لیے ضروری تھی۔ مگر لوگوں نے خواہشات کی بندگی اور دنیا کے عشق میں مبتلا ہو کر آپ ہی اپنی آنکھیں پھوڑ لی ہیں، اپنے کان بہرے کر لیے ہیں اور اپنے دلوں کو اتنا مسخ کر لیا ہے کہ ان میں بھلے بُرے کی تمیز، صحیح و غلط کے فہم اور ضمیر کی زندگی کا کوئی اثر باقی نہ رہا۔

۵۳-یعنی جب ایک طرف آخرت کی بے پایاں زندگی ان کے سامنے ہو گی اور دوسری طرف یہ پلٹ کر اپنی دنیا کی زندگی پر نگاہ ڈالیں گے تو انہیں مستقبل کے مقابلہ میں اپنا یہ ماضی نہایت حقیر محسوس ہو گا۔ اُس وقت اِن کو اندازہ ہو گا کہ انہوں نے اپنی سابقہ زندگی میں تھوڑی سی لذتوں اور منفعتوں کی خاطر اپنے اس ابدی مستقبل کو خراب کر کے کتنی بڑی حماقت کا ارتکاب کیا ہے۔

۵۴-یعنی اس بات کو کہ ایک دن اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔

۵۵- ’’اُمت‘‘ کا لفظ یہاں محض قوم کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ ایک رسول کی آمد کے بعد اس کی دعوت جن جن لوگوں تک پہنچے وہ سب اس کی اُمت ہیں۔ نیز اس کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ رسول ان کے درمیان زندہ موجود ہو، بلکہ رسول کے بعد بھی جب تک اس کی تعلیم موجود رہے اور ہر شخص کے لیے یہ معلوم کرنا ممکن ہو کہ وہ درحقیقت کس چیز کی تعلیم دیتا تھا، اس وقت تک دنیا کے سب لوگ اس کی امت ہی قرار پائیں گے اور ان پر وہ حکم ثابت ہو گا جو آگے بیان کیا جا رہا ہے۔ اس لحاظ سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری کے بعد تمام دنیا کے انسان آپ کی امت ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک قرآن اپنی خالص صورت میں شائع ہوتا رہے گا۔ اسی وجہ سے آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ ’’ہر قوم میں ایک رسول ہے ‘‘ بلکہ ارشاد ہوا کہ ’’ہر امت کے لیے ایک رسول ہے ‘‘۔

۵۶-مطلب یہ ہے کہ رسول کی دعوت کا کسی گروہ انسانی تک پہنچنا گویا اُس گروہ پر اللہ کی حجّت کا پورا ہونا ہے۔ اس کے بعد صرف فیصلہ ہی باقی رہ جاتا ہے، کسی مزید اتمام حجت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اور یہ فیصلہ غایت درجہ انصاف کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جو لوگ رسول کی بات مان لیں اور اپنا رویہ درست کر لیں وہ اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ اور جو اس کی بات نہ مانیں وہ عذاب کے مستحق ہو جاتے ہیں۔ خواہ وہ عذاب دنیا و آخرت دونوں میں دیا جائے یا صرف آخرت میں۔

۵۷-یعنی میں نے یہ کب کہا تھا کہ یہ فیصلہ میں چکاؤں گا اور نہ ماننے والوں کو میں عذاب دوں گا۔ اس لیے مجھ سے کیا پوچھتے ہو کہ فیصلہ چکائے جانے کی دھمکی کب پوری ہو گی۔ دھمکی تو اللہ نے دی ہے، وہی فیصلہ چکائے گا اور اسی کے اختیار میں ہے کہ فیصلہ کب کرے اور کس صورت میں اُس کو تمہارے سامنے لائے۔

۵۸-مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد با ز نہیں ہے۔ اس کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جس وقت رسول کی دعوت کسی شخص یا گروہ کو پہنچی اُسی وقت جو ایمان لے آیا بس وہ تو رحمت کا مستحق قرار پایا اور جس کسی نے اس کو ماننے سے انکار کیا یا ماننے میں تامل کیا اُس پر فوراً عذاب کا فیصلہ نافذ کر دیا گیا۔ اللہ کا قاعدہ یہ ہے کہ اپنا پیغام پہنچانے کے بعد وہ ہر فرد کو اس کی انفرادی حیثیت کے مطابق، اور ہر گروہ اور قوم کو اس کی اجتماعی حیثیت کے مطابق، سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے کافی وقت دیتا ہے۔ یہ مہلت کا زمانہ بسا اوقات صدیوں تک دراز ہوتا ہے اور اس با ت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو کتنی مہلت ملنی چاہیے۔ پھر جب وہ مہلت، جو سراسر انصاف کے ساتھ اس کے لیے رکھی گئی تھی، پوری ہو جاتی ہے اور وہ شخص یا گروہ اپنی باغیانہ روش سے باز نہیں آتا، تب اللہ تعالیٰ اس پر اپنا فیصلہ نافذ کرتا ہے۔ یہ فیصلے کا وقت اللہ کی مقرر کی ہوئی مدت سے نہ ایک گھڑی پہلے آ سکتا ہے اور نہ وقت آ جانے کے بعد ایک لمحہ کے لیے ٹل سکتا ہے۔

 

اگر ہر اُس شخص کے پاس جس نے ظلم کیا ہے، رُوئے زمین کی دولت بھی ہو تو اُس عذاب سے بچنے کے لیے وہ اُسے فدیہ میں دینے پر آمادہ ہو جائے گا۔ جب یہ لوگ اس عذاب کو دیکھ لیں گے تو دل ہی دل میں پچھتائیں گے۔ ۵۹ مگر ان کے درمیان پورے انصاف سے فیصلہ کیا جائے گا، کوئی ظلم ان پر نہ ہو گا سُنو! آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے۔ سُن رکھو ! اللہ کا وعدہ سچا ہے مگر اکثر انسان جانتے نہیں ہیں۔وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور اسی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہو گا۔لوگو، تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبی ؐ، کہو کہ ’’ یہ اللہ کا فضل اور اُس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اُس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘ اے نبی ؐ، ان سے کہو ’’تم لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ جو رزق ۶۰ اللہ نے تمہارے لیے اُتارا تھا اس میں سے تم نے خود ہی کسی کو حرام اور کسی کو حلال ٹھہرا لیا ۶۱‘‘ اِن سے پوچھو، اللہ نے تم کو اس کی اجازت دی تھی؟ یا تم اللہ پر افترا کر رہے ہو؟۶۲جو لوگ اللہ پر یہ جھوٹا افترا باندھتے ہیں ان کا کیا گمان ہے کہ قیامت کے روز ان سے کیا معاملہ ہو گا؟ اللہ تو لوگوں پر مہربانی کی نظر رکھتا ہے مگر اکثر انسان ایسے ہیں جو شکر نہیں کرتے۔ ۶۳ ؏ ٦
 

۵۹-جس چیز کو عمر بھر جھٹلاتے رہے، جسے جھوٹ سمجھ کر ساری زندگی غلط کاموں میں کھپا گئے اور جس کی خبر دینے والے پیغمبروں کو طرح طرح کے الزام دیتے رہے، وہی چیز جب ان کی توقعات کے بالکل خلاف اچانک سامنے آ کھڑی ہو گی تو ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل جائے گی، ان کا ضمیر انہیں خود بتا دے گا کہ جب حقیقت یہ تھی تو جو کچھ وہ دنیا میں کر کے آئے ہیں اُ س کا انجام اب کیا ہونا ہے۔ خود کردہ را علاجے نیست۔ زبانیں بند ہوں گی اور ندامت و حسرت سے دل اندر ہی اندر بیٹھے جا رہے ہوں گے۔ جس شخص نے قیاس و گمان کے سودے پر اپنی ساری پونجی لگا دی ہو اور کسی خیر خواہ کی بات مان کر نہ دی ہو، وہ دیوالہ نکلنے کے بعد خود اپنے سوا اور کس کی شکایت کر سکتا ہے۔

۶۰-اردو زبان میں رزق کا اطلاق صر ف کھانے پینے کی چیزوں پر ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہاں گرفت صرف اُس قانون سازی پر کی گئی ہے جو دستر خوان کی چھوٹی سی دنیا میں مذہبی اوہام یا رسم و رواج کی بنا پر لوگوں نے کر ڈالی ہے۔ اس غلط فہمی میں جہلا اور عوام ہی نہیں علما تک مبتلا ہیں۔ حالانکہ عربی زبان میں رزق محض خوراک کے معنی تک محدود نہیں ہے بلکہ عطاء اور بخشش اور نصیب کے معنی میں عام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی دنیا میں انسان کو دیا ہے وہ سب اس کا رزق ہے، حتیٰ کہ اولاد تک رزق ہے۔ اسماء الرجال کی کتابوں میں بکثرت راویوں کے نام رزق اور رُزَیق اور رزق اللہ ملتے ہیں جس کے معنی تقریباً وہی ہیں جو اردو میں اللہ دیے کے معنی ہیں۔ مشہور دعا ہے۔ مشہور دعا ہے اللھم ارنا الحق حقا و ارزقنا اتباعہ، یعنی ہم پر حق واضح کر اور ہمیں اس کی اتباع کی توفیق دے۔ محاورے میں بولا جاتا ہے رُزِقَ علمًا فلاں شخص کو علم دیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر حاملہ کے پیٹ میں ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور وہ پیدا ہونے والے کا رز ق اور اس کی مدت عمر اور اس کا کام لکھ دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں رزق سے مراد صرف وہ خوراک ہی نہیں ہے جو اس بچے کو آئندہ ملنے والی ہے بلکہ وہ سب کچھ ہے جو اسے دنیا میں دیا جائے گا۔ خود قرآن میں ہے وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ، جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پس رزق کو محض دستر خوان کی سرحدوں تک محدود سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ اللہ تعالیٰ کو صرف اُن پابندیوں اور آزادیوں پر اعتراض ہے جو کھانے پینے کی چیزوں کے معاملہ میں لوگوں نے بطور خود اختیار کر لی ہیں، سخت غلطی ہے۔ اور یہ کوئی معمولی غلطی نہیں ہے۔ اس کی بدولت خدا کے دین کی ایک بہت بڑی اصولی تعلیم لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی ہے۔ یہ اسی غلطی کا تو نتیجہ ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں حلت و حرمت اور جواز و عدم جواز کا معاملہ تو ایک دینی معاملہ سمجھا جاتا ہے، لیکن تمدن کے وسیع تر معاملات میں اگر یہ اصول طے کر لیا جائے کہ انسان خود اپنے لیے حدود مقرر کرنے کا حق رکھتا ہے، اور اسی بنا ہر خدا اور اس کی کتاب سے بے نیاز ہو کر قانون سا زی کی جانے لگے، تو عامی تو درکنار، علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اور مفسرینِ  قرآن و شیوخِ حدیث تک کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ چیز بھی دین سے اسی طرح ٹکراتی ہے جس طرح ماکولات و مشروبات میں شریعت الٰہی سے بے نیاز ہو کر جائز و ناجائز کے حدود بطور خود مقرر کر لینا۔

۶۱-یعنی تمہیں کچھ احساس بھی ہے کہ یہ کتنا سخت باغیانہ جرم ہے جو تم کر رہے ہو۔ رزق اللہ کا ہے اور تم خود اللہ کے ہو، پھر یہ حق آخر تمہیں کہاں سے حاصل ہو گیا کہ اللہ کی املاک میں اپنے تصرف، استعمال اور انتفاع کے لیے خود حد بندیاں مقرر کرو؟ کوئی نوکر اگر یہ دعویٰ کرے کہ آقا کے مال میں اپنے تصرف اور اختیارات کی حدیں اسے خود مقرر کر لینے کا حق ہے اور اس معاملہ میں آقا کے کچھ بولنے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے تو اس کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے ؟ تمہارا اپنا ملازم اگر تمہارے گھر میں اور تمہارے گھر کی سب چیزوں میں اپنے عمل اور استعمال کے لیے اس آزادی و خود مختاری کا دعویٰ کر ے تو تم اس کے ساتھ کیا معاملہ کرو گے ؟۔۔۔۔۔۔ اُس نوکر کا معاملہ تو دوسرا ہی ہے جو سرے سے یہی نہیں مانتا کہ وہ کسی کا نوکر ہے اور کوئی اس کا آقا بھی ہے اور یہ کسی اور کا مال ہے جو اسکے تصرف میں ہے۔ اُس بد معاش غاصب کی پوزیشن یہاں زیرِ بحث نہیں ہے۔ یہاں سوال اُس نوکر کی پوزیشن کا ہے جو خود مان رہا ہے کہ وہ کسی کا نوکر ہے اور یہ بھی مانتا ہے کہ مال اُسی کا ہے جس کا وہ نوکر ہے اور پھر کہتا ہے کہ اس مال میں اپنے تصرف کے حدود مقرر کر لینے کا حق مجھے آپ ہی حاصل ہے اور آقا سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

۶۲-یعنی تمہاری یہ پوزیشن صرف اسی صورت میں صحیح ہو سکتی تھی کہ آقا نے خود تم کو مجاز کر دیا ہوتا کہ میرے مال میں تم جس طرح چاہو تصرف کرو اپنے عمل اور استعمال کے حدود، قوانین، ضوابط سب کچھ بنا لینے کے جملہ حقوق میں نے تمہیں سونپے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا تمہارے پاس واقعی اس کی کوئی سند ہے کہ آقا نے تم کو یہ اختیارات دے دیے ہیں؟ یا تم بغیر کسی سند کے یہ دعویٰ کر رہے ہو کہ وہ تمام حقوق تمہیں سونپ چکا ہے ؟ اگر پہلی صورت ہے تو براہِ کرم وہ سند دکھاؤ، ورنہ بصورت دیگر یہ کھلی بات ہے کہ تم بغاوت پر جھوٹ اور افترا پردازی کا مزید جرم کر رہے ہو۔

۶۳- ’’یعنی یہ تو آقا کی کمال درجہ مہربانی ہے کہ وہ نوکر کو خود بتاتا ہے کہ میرے گھر میں اور میرے مال میں اور خود اپنے نفس میں تُو کونسا طرزِ عمل اختیار کرے گا تو میری خوشنودی اور انعام اور ترقی سے سرفراز ہو گا، اور کس طریقِ کار سے میرے غضب اور سزا اور تنزل کا مستوجب ہو گا۔ مگر بہت سے بے وقوف نوکر ایسے ہیں جو اس عنایت کا شکریہ ادا نہیں کرتے۔ گویا ان کے نزدیک ہونا یہ چاہیے تھا کہ آقا اُن کو بس اپنے گھر میں لا کر چھوڑ دیتا اور سب مال اُن کے اختیار میں دے دینے کے بعد چھُپ کر دیکھتا رہتا کہ کون سا نوکر کیا کرتا ہے، پھر جو بھی اُس کی مرضی کے خلاف۔۔۔۔۔۔ جس کا کسی نوکر کو علم نہیں۔۔۔۔۔۔ کوئی کام کرتا تو اُسے وہ سزا دے ڈالتا۔ حالانکہ اگر آقا نے اپنے نوکروں کو اتنے سخت امتحان میں ڈالا ہوتا تو ان میں سے کسی کا بھی سزا سے بچ جانا ممکن نہ تھا۔

 

سُنو! جو اللہ کے دوست ہیں، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویّہ اختیار کیا۔دُنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے۔ اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ اے نبی ؐ، جو باتیں یہ لوگ تجھ پر بناتے ہیں وہ تجھے رنجیدہ نہ کریں، عزّت ساری کی ساری خدا کے اختیار میں ہے، اور سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ آگاہ رہو! آسمان کے بسنے والے ہوں یا زمین کے، سب کے سب اللہ کے مملوک ہیں۔ اور جو لوگ اللہ کے سوا ( اپنے خود ساختہ) شریکوں کو پکار رہے ہیں وہ نِرے وہم و گمان کے پیرو ہیں اور محض قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا۔ اس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ( کھُلے کانوں سے پیغمبر کی دعوت کو) سُنتے ہیں۔۶۵ لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے  ۶۶، سُبحان اللہ!۶۷ وہ تو بے نیاز ہے، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اُس کی مِلک ہے۔ ۶۸ تمہارے پاس اِس قول کے لیے آخر دلیل کیا ہے ؟ کیا تم اللہ کے متعلق وہ باتیں کہتے ہو جو تمہارے علم میں نہیں ہیں؟اے محمد ؐ، کہہ دو کہ جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہر گز فلاح نہیں پا سکتے۔ دُنیا کی چند روزہ زندگی میں مزے کر لیں، پھر ہماری طرف اُن کو پلٹنا ہے، پھر ہم اُس کُفر کے بدلے میں جس کا وہ ارتکاب کر تے رہے ہیں ان کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ ؏ ۷
 

۶۵-یہ ایک تشریح طلب مضمون ہے جسے بہت مختصر لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ فلسفیانہ تجسّس، جس کا مقصد یہ پتہ چلانا ہے کہ اس کائنات میں بظاہر جو کچھ ہم دیکھتے اور محسُوس کرتے ہیں اس کے پیچھے کوئی حقیقت پوشیدہ ہے یا نہیں اور ہے تو وہ کیا ہے، دنیا میں اُن سب لوگوں کے لیے جو وحی و الہام سے براہِ راست حقیقت کا علم نہیں پاتے، مذہب کے متعلق رائے قائم کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ کوئی شخص بھی خواہ وہ دہریت اختیار کرے یا شرک یا خدا پرستی، بہرحال ایک نہ ایک طرح کا فلسفیانہ تجسّس کیے بغیر مذہب کے بارے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا۔ اور پیغمبروں نے جو مذہب پیش کیا ہے اس کی جانچ بھی اگر ہو سکتی ہے تو اسی طرح ہو سکتی ہے کہ آدمی، اپنی بساط بھر، فلسفیانہ غور و فکر کر کے اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کرے کہ پیغمبر ہمیں مظاہرِ کائنات کے پیچھے جس حقیقت کے مستور ہونے کا پتہ دے رہے ہیں وہ دل کو لگتی ہے یا نہیں۔ اس تجسّس کے صحیح یا غلط ہونے کا تمام تر انحصار طریقِ تجسّس پر ہے۔ اس کے غلط ہونے سے غلط رائے اور صحیح ہونے سے صحیح رائے قائم ہوتی ہے۔ اب ذرا جائزہ لے کر دیکھیے کہ دنیا میں مختلف گروہوں نے اس تجسّس کے لیے کون کون سے طریقے اختیار کیے ہیں:

مشرکین نے خالص وہم پر اپنی تلاش کی بنیاد رکھی ہے۔

اِشراقیوں اور جوگیوں نے اگرچہ مراقبہ کا ڈھونگ رچایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ہم ظاہر کے پیچھے جھانک کر باطن کا مشاہدہ کر لیتے ہیں، لیکن فی الواقع اُنہوں نے اپنی اس سراغ رسانی کی بنا گمان پر رکھی ہے۔ وہ مراقبہ دراصل اپنے گمان کا کرتے ہیں، اور جو کچھ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں نظر آتا ہے اس کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ گمان سے جو خیال اُنہوں نے قائم کر لیا ہے اسی پر تخیل کو جما دینے اور پھر اس پر ذہن کا دباؤ ڈالنے سے ان کو وہی خیال چلتا پھرتا نظر آنے لگتا ہے۔

اصطلاحی فلسفیوں نے قیاس کو بنائے تحقیق بنایا ہے جو اصل میں تو گمان ہی ہے لیکن اس گمان کے لنگڑے پن کو محسوس کر کے انہوں نے منطقی استدلال اور مصنوعی تعقل کی بیساکھیوں پر اسے چلانے کی کوشش کی ہے اور اس کا نام ’’قیاس‘‘ رکھ دیا ہے۔

سائنس دانوں نے اگرچہ سائنس کے دائرے میں تحقیقات کے لیے علمی طریقہ اختیار کیا ہے، مگر مابعد الطبیعیات کے حدود میں قدم رکھتے ہی وہ بھی علمی طریقے کو چھوڑ کر قیا س و گمان اور اندازے اور تخمینے کے پیچھے چل پڑے۔

پھر ان سب گروہوں کے اوہام اور گمانوں کو کسی نہ کسی طرح سے تعصب کی بیماری بھی لگ گئی جس نے انہیں دوسرے کی بات نہ سننے اور اپنی ہی محبوب راہ پر مُڑنے، اور مُڑ جانے بعد مُڑے رہنے پر مجبور کر دیا۔

قرآن اِس طریقِ تجسّس کو بنیادی طور پر غلط قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تم لوگوں کی گمراہی کا اصل سبب یہی ہے کہ تم تلاشِ حق کی بنا گمان اور قیاس آرائی پر رکھتے ہو اور پھر تعصب کی وجہ سے کسی کو معقول بات سُننے کے لیے بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ اسی دُہری غلطی کا نتیجہ یہ ہے کہ تمہارے لیے خود حقیقت کو پا  لینا تو ناممکن تھا ہی، انبیاء کے پیش کردہ دین کو جانچ کر صحیح رائے پر پہنچنا بھی غیر ممکن ہو گیا۔

اس کے مقابلہ میں قرآن فلسفیانہ تحقیق کے لیے صحیح علمی و عقلی طریقہ یہ بتاتا ہے کہ پہلے تم حقیقت کے متعلق اُن لوگوں کا بیان کھلے کانوں سے، بلا تعصب سُنو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم قیاس و گمان یا مراقبہ و استدراج کی بنا پر نہیں بلکہ ’’علم‘‘ کی بنا تمہیں بتا رہے ہیں کہ حقیقت یہ ہے۔ پھر کائنات میں جو آثار(باصطلاح قرآن ’’نشانات‘‘ ) تمہارے مشاہدے اور تجربے میں آتے ہیں ان پر غور کرو، ان کی شہادتوں کو مرتب کر کے دیکھو، اور تلاش کرتے چلے جاؤ کہ اس ظاہر کے پیچھے جس حقیقت کی نشاندہی یہ لوگ کر رہے ہیں اُس کی طرف اشارہ کرنے والی علامات تم کو اسی ظاہر میں ملتی ہیں یا نہیں۔ اگر ایسی علامات نظر آئیں اور ان کے اشارے بھی واضح ہوں تو پھر کوئی وجہ نہیں تم خواہ مخواہ اُن لوگوں کو جھٹلاؤ جن کا بیان آثار کی شہادتوں کے مطابق پایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ یہی طریقہ فلسفۂ اسلام کی بنیا د ہے جسے چھوڑ کر افسوس ہے کہ مسلمان فلاسفہ بھی افلاطون اور ارسطو کے نقشِ  قدم پر چل پڑے۔ قرآن میں جگہ جگہ نہ صرف اِس طریق کی تلقین کی گئی ہے، بلکہ خود آثارِ کائنات کو پیش کر کر کے اس سے نتیجہ نکالنے اور حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی گویا باقاعدہ تربیت دی گئی ہے تاکہ سوچنے اور تلاش کرنے کا یہ ڈھنگ ذہنوں میں راسخ ہو جائے۔ چنانچہ اس آیت میں بھی مثال کے طور پر صرف دو آثار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، یعنی رات اور دن۔ یہ انقلابِ لیل و نہار دراصل سورج اور زمین کی نسبتوں میں انتہائی باضابطہ تغیر کی وجہ سے رونما ہوتا ہے۔ یہ ایک عالمگیر ناظم اور ساری کائنات پر غالب اقتدار رکھنے والے حاکم کے وجود کی صریح علامت ہے۔ اِس میں صریح حکمت اور مقصدیت بھی نظر آتی ہے کیونکہ تمام موجودات زمین کی بے شمار مصلحتیں اسی گردشِ لیل و نہار کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس میں صریح ربوبیت اور رحمت اور پروردگاری کی علامتیں بھی پائی جاتی ہیں کیونکہ اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ جس نے زمین پر یہ موجودات پیدا کی ہیں وہ خود ہی ان کے وجود کی ضروریات بھی فراہم کرتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ عالمگیر ناظم ایک ہے، اور یہ بھی کہ وہ کھلنڈرا نہیں بلکہ حکیم ہے اور با مقصد کام کرتا ہے، اور یہ بھی کہ وہی محسن و مربّی ہونے کے حیثیت سے عبادت کا مستحق ہے، اور یہ بھی کہ گردشِ  لیل و نہار کے تحت جو کوئی بھی ہے وہ رب نہیں مربوب ہے، آقا نہیں غلام ہے۔ اِن آثاری شہادتوں کے مقابلہ میں مشرکین نے گمان و قیاس سے جو مذہب ایجاد کیے ہیں وہ آخر کس طرح صحیح ہو سکتے ہیں۔

۶۶-اوپر کی آیات میں لوگوں کی اس جاہلیت پر ٹوکا گیا تھا کہ اپنے مذہب کی بنا علم کے بجائے قیاس و گمان پر رکھتے ہیں، اور پھر کسی علمی طریقہ سے یہ تحقیق کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتے کہ ہم جس مذہب پر چلے جا رہے ہیں اس کی کوئی دلیل بھی ہے یا نہیں۔ اب اسی سلسلہ میں عیسائیوں اور بعض دوسرے اہلِ مذاہب کی اس نادانی پر ٹوکا گیا ہے کہ انہوں نے محض گمان سے کسی کو خد اکا بیٹا ٹھیرا لیا۔

۶۷-سبحان اللہ کلمہ تعجب کے طور پر کبھی اظہارِ حیرت کے لیے بھی بولا جاتا ہے، اور کبھی اس کے واقعی معنی ہی مراد ہوتے ہیں، یعنی یہ کہ ’’اللہ تعالیٰ ہر عیب سے منزّہ ہے ‘‘۔ یہاں یہ کلمہ دونوں معنی دے رہا ہے۔ لوگوں کے اِس قول پر اظہارِ حیرت بھی مقصود ہے اور ان کی بات کے جواب میں یہ کہنا بھی مقصود ہے کہ اللہ تو بے عیب ہے، ا س کی طرف بیٹے کی نسبت کس طرح صحیح ہو سکتی ہے۔

۶۸-یہاں ان کے اس قول کی تردید میں تین باتیں کہی گئی ہیں: ایک یہ کہ اللہ بے عیب ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ بے نیاز ہے۔ تیسرے یہ کہ آسمان و زمین کی ساری موجودات اُس کی ملک ہیں۔ یہ مختصر جوابات تھوڑی سی تشریح سے بآسانی سمجھ میں آ سکتے ہیں:

ظاہر بات ہے کہ بیٹا یا تو صلبی ہو سکتا ہے یا متبنیٰ۔ اگر یہ لوگ کسی کو خدا کا بیٹا صُلبی معنوں میں قرار دیتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کو اُس حیوان پر قیاس کرتے ہیں جو شخصی حیثیت سے فانی ہوتا ہے اور جس کے وجود کا تسلسل بغیر اس کے قائم نہیں رہ سکتا کہ اس کی جوئی جنس ہو اور اس جنس سے کوئی اس کا جوڑا ہو اور ان دونوں کے صنفی تعلق سے اس کی اولاد ہو جس کے ذریعہ سے اس کا نوعی وجود اور اس کا کام باقی رہے۔ اور اگر یہ لوگ اس معنی میں خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں کہ اس نے کسی کو متبنّٰی بنایا ہے تو یہ دو حال سے خالی نہیں۔ یا تو انہوں نے خدا کو اس انسان پر قیاس کیا ہے جو لا ولد ہونے کی وجہ سے اپنی جنس کے کسی فرد کو اس لیے بیٹا بناتا ہے کہ وہ اس کا وارث ہو اور اُس نقصان کی، جو اسے بے اولاد رہ جانے کی وجہ سے پہنچ رہا ہے، برائے نام ہی سہی، کچھ تو تلافی کر دے۔ یا پھر ان کا گمان یہ ہے کہ خدا بھی انسان کی طرح جذباتی میلانات رکھتا ہے اور اپنے بے شمار بندوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اس کو کچھ ایسی محبت ہو گئی ہے کہ اس نے اسے بیٹا بنا لیا ہے۔

ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو، بہر حال اس عقیدے کے بنیادی تصورات میں خدا پرست بہت سے عیوب، بہت سی کمزوریوں، بہت سے نقائص اور بہت سی احتیاجوں کی تہمت لگی ہوئی ہے۔ اسی بنا پر پہلے فقرے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام عیوب، نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جو تم اس کی طرف منسوب کر رہے ہو۔ دوسرے فقرے میں ارشاد ہوا کہ وہ اُن حاجتوں سے بھی بے نیاز ہے جن کی وجہ سے فانی انسانوں کو اولاد کی یا بیٹا بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اور تیسرے فقرے میں صاف کہہ دیا گیا کہ زمین و آسمان میں سب اللہ کے بندے اور اس کی مملوک ہیں، ان میں سے کسی کے ساتھ بھی اللہ کا ایسا کوئی مخصوص ذاتی تعلق نہیں ہے کہ سب کو چھوڑ کر اسے وہ اپنا بیٹا یا اکلوتا یا ولی عہد قرار دے لے۔ صفا ت کی بنا پر بے شک اللہ بعض بندوں کو بعض کی بہ نسبت زیادہ محبوب رکھتا ہے، مگر اس محبت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کسی بندے کو بندگی کے مقام سے اٹھا کر خدائی میں شرکت کا مقام دے دیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ اس محبت کا تقاضا بس وہ ہے جو اس سے پہلے کی ایک آیت میں بیان کر دیا گیا ہے کہ ’’جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں، دنیا اور آخرت دونوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے۔

 

اِن کو نوحؑ ۶۹ کا قصہ سُناؤ، اُس وقت کا قصہ جب اُس نے اپنی قوم سے کہا تھا ’’ اے برادرانِ قوم، اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سُنا سُنا کر تمہیں غفلت سے بیدار کرنا تمہارے لیے ناقابلِ برداشت ہو گیا ہے تو میرا بھروسہ اللہ پر ہے، تم اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو ساتھ لے کر ایک متفقہ فیصلہ کر لو اور جو منصُوبہ تمہارے پیشِ نظر ہو اس کے خوب سوچ سمجھ لو تاکہ اس کا کوئی پہلو تمہاری نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے، پھر میرے خلاف اس کو عمل میں لے آؤ اور مجھے ہر گز مہلت نہ دو۔ ۷۰ تم نے میری نصیحت سے منہ موڑا ( تو میرا کیا نقصان کیا) میں تم سے کسی اجر کا طلب گار نہ تھا، میرا اجر تو اللہ کے ذمّہ ہے۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ( خواہ کو ئی مانے یا نہ مانے )میں خود مسلم بن کر رہوں‘‘۔۔۔۔انہوں نے اُسے جھُٹلایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے اُسے اور اُن لوگوں کو جو اُس کے ساتھ کشتی میں تھے، بچا لیا اور اُنہی کو زمین میں جانشین بنایا اور اُن سب لوگوں کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھُٹلایا تھا۔ پس دیکھ لو کہ جنہیں متنبّہ کیا گیا تھا (اور پھر بھی اُنہوں نے مان کر نہ دیا) اُن کا کیا انجام ہوا۔پھر نوح ؑ کے بعد ہم نے مختلف پیغمبروں کو اُن کی قوموں کی طرف بھیجا اور وہ اُن کے پاس کھُلی کھُلی نشانیاں لے کر آئے، مگر جس چیز کو اُنہوں نے پہلے جھُٹلا دیا تھا اسے پھر مان کر نہ دیا۔ اِس طرح ہم حد سے گزر جانے والوں کے دلوں پر ٹَھپّہ لگا دیتے ہیں۔۷۱۷۲ پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا، مگر انہوں نے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا ۷۳ اور وہ مجرم لوگ تھے۔ پس جب ہمارے پاس سے حق اُن کے سامنے آیا تو اُنہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھُلا جادُو ہے۔ ۷۴موسیٰ ؑ نے کہا: ’’ تم حق کو یہ کہتے ہو جب کہ وہ تمہارے سامنے آگیا؟ کیا یہ جادُو ہے ؟ حالانکہ جادُوگر فلاح نہیں پایا کرتے۔ ‘‘ ۷۵اُنہوں نے جواب دیا ’’ کیا تُو اِس لیے آیا ہے کہ ہمیں اُس طریقے سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور زمین میں بڑائی تُم دونوں کی قائم ہو جائے ؟۷۶ تمہاری بات تو ہم ماننے والے نہیں ہیں۔‘‘ اور فرعون نے ( اپنے آدمیوں سے ) کہا کہ ’’ ہر ماہرِ فن جادوگر کو میرے پاس حاضر کرو‘‘۔۔۔۔جب جادوگر آ گئے تو موسیٰ ؑ نے اُن سے کہا ’’ جو کچھ تمہیں پھینکنا ہے پھینکو۔‘‘ پھر جب اُنہوں نے اپنے اَنچھر پھینک دیے تو موسیٰ ؑ نے کہا ’’ یہ جو کچھ تم نے پھینکا ہے یہ جادُو ہے ۷۷، اللہ ابھی اسے باطل کیے دیتا ہے، مفسدوں کے کام کو اللہ سُدھرنے نہیں دیتا،اور اللہ اپنے فرمانوں سے حق کو حق کر دکھاتا ہے، خواہ مجرموں کو وہ کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘ ؏ ۸
 

۶۹-یہاں تک تو ان لوگوں کو معقول دلائل اور دل کو لگنے والے نصائح کے ساتھ سمجھایا گیا تھا کہ ان کے عقائد اور خیالات اور طریقوں میں غلطی کیا ہے اور وہ کیوں غلط ہے، اور اس کے مقابلے میں صحیح راہ کیا ہے اور وہ کیوں صحیح ہے۔ اب ان کے اُس طرزِ عمل کی طرف توجہ منعطف ہوتی ہے جو وہ اِس سیدھی سیدھی اور صاف صاف تفہیم و تلقین کے جواب میں اختیار کر رہے تھے۔ دس گیارہ سال سے ان کی روش یہ تھی کہ وہ بجائے اس کے اس معقول تنقید اور صحیح رہنمائ پر غور کر کے اپنی گمراہیوں پر نظر ثانی کرتے، اُلٹے اُ س شخص کی جان کے دشمن ہو گئے تھے جو ان باتوں کو اپنی کسی ذاتی غرض کے لیے نہیں بلکہ انہی کے بھلے کے لیے پیش کر رہا تھا۔ وہ دلیلوں کا جواب پتھروں سے اور نصیحتوں کا جواب گالیوں سے دے رہے تھے۔ اپنی بستی میں ایسے شخص کا وجود ان کے لیے سخت ناگوار، بلکہ ناقابلِ برداشت ہو گیا تھا جو غلط کو غلط کہنے والا ہو اور صحیح بات بتانے کی کوشش کرتا ہو۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ہم اندھوں کے درمیان جو آنکھوں والا پایا جاتا ہے وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے بجائے اپنی آنکھیں بھی بند کر لے، ورنہ ہم زبردستی اُس کی آنکھیں پھوڑ دیں گے تا کہ بینائی جیسی چیز ہماری سرزمین میں نہ پائی جائے۔ یہ طرزِ عمل جو انہوں نے اختیار کر رکھا تھا، اس پر کچھ اور فرمانے کے بجائے اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ انہیں نُوحؑ کا قصہ سُنا دو، اسی قصے میں وہ اپنے اور تمہارے معاملے کا جواب بھی پالیں گے۔

۷۰-یہ چیلنج تھا کہ میں اپنے کام سے باز نہ آؤں گا، تم میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر گزرو، میرا بھروسہ اللہ پر ہے۔ (تقابل کے لیے ملاحظہ ہو، ہود، آیت ۵۵)۔

۷۱-حد سے گزر جانے والے لوگ وہ ہیں جو ایک مرتبہ غلطی کر جانے کے بعد پھر اپنی بات کی اپج اور ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنی اُسی غلطی پر اڑے رہتے ہیں۔ اور جس بات کو ماننے سے ایک دفعہ انکار کر چکے ہیں اسے پھر کسی فہمائش، کسی تلقین اور کسی معقول سے معقول دلیل سے بھی مان کر نہیں دیتے۔ ایسے لوگوں پر آخر کار ایسی پھِٹکار پڑتی ہے کہ انہیں پھر کبھی راہِ راست پر آنے کی توفیق نہیں ملتی۔

۷۲-اس موقع پر اُن حواشی کو پیشِ نظر رکھا جائے جو ہم نے سورۂ اعراف(رکوع ۱۳ تا ۲۱) میں قصۂ موسیٰؑ و فرعون پر لکھے ہیں۔ جن امور کی تشریح وہاں کی جا چکی ہے ان کا اعادہ یہاں نہ کیا جائے گا۔

۷۳-یعنی انہوں نے اپنی دولت و حکومت اور شوکت و حشمت کے نشے میں مدہوش ہو کر اپنے آپ کو بندگی کے مقام سے بالاتر سمجھ لیا اور اطاعت میں سر جھکا دینے کے بجائے اکڑ دکھائی۔

۷۴-یعنی حضرت موسیٰ ؑ کا پیغام سُن کر وہی کچھ کہا جو کفارِ مکہ نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا پیغام سُن کر کہا تھا کہ ’’یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے ‘‘۔ (ملاحظہ ہو اسی سورۂ یونس کی دوسری آیت)۔

یہاں سلسلہ ٔ کلام کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات صریح طور پر ظاہر ہو جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام بھی دراصل اُسی خدمت پر مامور ہوئے تھے جس پر حضرت نوح اور ان کے بعد کے تمام انبیاء، سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم تک، مامور ہوتے رہے ہیں۔ اس سورہ میں ابتدا سے ایک ہی مضمون چلا آ رہا ہے اور وہ یہ کہ صرف اللہ رب العالمین کو اپنا رب اور الٰہ مانو اور یہ تسلیم کرو کہ تم کو اس زندگی کے بعد دوسری زندگی میں اللہ کے سامنے حاضر ہونا اور اپنے عمل کا حساب دینا ہے۔ پھر جو لوگ پیغمبر کی اس دعوت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے ان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ نہ صرف تمہاری فلاح کا بلکہ ہمیشہ سے تمام انسانوں کی فلاح کا انحصار اسی ایک بات پر رہا ہے کہ اس عقیدہ ٔ توحید و آخرت کی دعوت کو، جسے ہر زمانے میں خدا کے پیغمبروں نے پیش کیا ہے، قبول کیا جائے اور اپنا پورا نظامِ زندگی اسی بنیاد پر قائم کر لیا جائے۔ فلاح صرف انہوں نے پائی جنہوں نے یہ کام کیا، اور جس قوم نے بھی اس سے انکار کیا وہ آخر کار تباہ ہو کر رہی۔ یہی اس سورہ کا مرکزی مضمون ہے، اور اس سیاق میں جب تاریخی نظائر کے طور پر دوسرے انبیاء کا ذکر آیا ہے تو لازماً اس کے یہی معنی ہیں کہ جو دعوت اس سورہ میں دی گئی ہے وہی ان تمام انبیاء کی دعوت تھی، اور اسی کو لے کر حضرت موسیٰ و ہارون بھی فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس گئے تھے۔ اگر واقعہ وہ ہوتا جو بعض لوگوں نے گمان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون کا مشن ایک خاص قوم کو دوسری قوم کی غلامی سے رہا کرانا تھا، تو اِس سیاق و سباق میں اس واقعہ کو تاریخی نظیر کے طور پر پیش کرنا بالکل بے جوڑ ہوتا۔ اس میں شک نہیں کہ ان دونوں حضرات کے مشن کا ایک جزء یہ بھی تھا کہ بنی اسرائیل (ایک مسلمان قوم) کو ایک کافر قوم کے تسلط سے (اگر وہ اپنے کفر پر قائم رہے ) نجات دلائیں۔ لیکن یہ ایک ضمنی مقصد تھا نہ کہ اصل مقصد بعثت۔ اصل مقصد تو وہی تھا جو قرآن کی رو سے تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد رہا ہے اور سورۂ نازعات میں جس کو صاف طور پر بیان بھی کر دیا گیا ہے کہ اِذَھَبْ اِلیٰ فِرْعَوْ نَ اِنَّہُ طَغٰی o فَقُلْ ھَلْ لَّکَ اِلیٰٓ اَنْ تَزَکّٰیo وَاَھْدِیَکَ اِلیٰ رَبِّکَ فَتَخْشٰی۔ ’’ فرعون کے پا س جا کیونکہ وہ حدّی بندگی سے گزر گیا ہے اور اس سے کہہ کیا تُو اس کے لیے تیار ہے کہ سدھر جائے، اور میں تجھے تیرے ربّ کی طرف رہنمائی کروں تو تُو اس سے ڈرے ‘‘ ؟ مگر چونکہ فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا اور آخر کار حضرت موسیٰ کو یہی کرنا پڑا کہ اپنی مسلمان قوم کو اس کے تسلّط سے نکال لے جائیں، اس لیے اس کے مشن کا یہی جزء تاریخ میں نمایاں ہو گیا اور قرآن میں بھی اس کو ویسا ہی نمایا ں کر کے پیش کیا گیا جیسا کہ وہ تاریخ میں فی الواقع ہے۔ جو شخص قرآن کی تفصیلات کو اس کے کلیات سے جدا کر کے دیکھنے کی غلطی نہ کرتا ہو، بلکہ انہیں کلیات کے تابع کر کے ہی دیکھتا اور سمجھتا ہو، وہ کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ ایک قوم کی رہائی کسی نبی کی بعثت کا اصل مقصد، اور دین حق کی دعوت محض اُس کا ایک ضمنی مقصد ہو سکتی ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو طٰہٰ، آیات ۴۴ تا ۸۲۔ الزخرف، ۴۶ تا ۵۶۔ المزمل ۱۶ – ۱۶)۔

۷۵- ’’مطلب یہ ہے کہ ظاہر نظر میں جادو اور معجزے کے درمیان جو مشابہت ہوتی ہے اس کی بنا پر تم لوگوں نے بے تکلف اِسے جادو قرار دے دیا، مگر نادانو! تم نے یہ نہ دیکھا کہ جادوگر کس سیرت و اخلاق کے لوگ ہوتے ہیں اور کن مقاصد کے لیے جادوگری کیا کرتے ہیں۔ کیا کسی جادوگر کا یہی کام ہوتا ہے کہ بے غرض اور بے دھڑک ایک جبار فرمانروا کے دربار میں آئے اور اس کی گمراہی پر سرزنش کرے اور خدا پرستی اور طہارتِ نفس اختیار کرنے کی دعوت دے ؟ تمہارے ہاں کوئی جادوگر آیا ہوتا تو پہلے درباریوں کے پاس خوشامدیں کرتا پھرتا کہ ذرا سرکار میں مجھے اپنے کمالات دکھانے کا موقع دلوا دو، پھر جب اُسے دربار میں رسائی نصیب ہوتی تو عام خوشامدیوں سے بھی کچھ بڑھ کر ذلت کے ساتھ سلامیاں بجا لاتا،چیخ چیخ کر درازی عمر و اقبال کی دعائیں دیتا، بڑی منت سماجت کے ساتھ درخواست کرتا کہ سرکار کچھ فدوی کی کمالات بھی ملاحظہ فرمائیں، اور جب تم اس کے تماشے دیکھ لیتے تو ہاتھ پھیلا دیتا کہ حضور کچھ انعام مِل جائے۔

اس پورے مضمون کو صرف ایک فقرے میں سمیٹ دیا ہے کہ جادوگر فلاح یافتہ نہیں ہوا کرتے۔

۷۶-ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون کا اصل مطالبہ رہائی بنی اسرائیل ہوتا تو فرعون اور ا س کے درباریوں کو یہ اندیشہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ ان دونوں بزرگوں کی دعوت پھیلنے سے سرزمینِ مصر کا دین بدل جائے گا اور ملک میں ہمارے بجائے ان کی بڑائی قائم ہو جائے گی۔ ان کے اس اندیشے کی وجہ تو یہی تھی کہ حضرت موسیٰؑ اہلِ مصر کو بندگی حق کی طرف دعوت دے رہے تھے اور اس سے وہ مشرکانہ نظام خطرے میں تھا جس پر فرعون کی بادشاہی اور اس کے سرداروں کی سرداری اور مذہبی پیشواؤں کی پیشوائی قائم تھی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، حاشیہ نمبر ۶۶۔ المومن، حاشیہ نمبر ۴۳)۔

۷۷-یعنی جادو وہ نہ تھا جو میں نے دکھا یا تھا، جادو یہ ہے جو تم دکھا رہے ہو۔

 

 (پھر دیکھو کہ) موسیٰ ؑ کو اِس قوم میں سے چند نوجوانوں ۷۸ کے سوا کسی نے نہ مانا ۷۹، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربرآوردہ لوگوں کے ڈر سے ( جنہیں خوف تھا کہ) فرعون اُن کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر رُکتے نہیں ہیں۔۸۰ موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ ’’ لوگو، اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اُس پر بھروسہ کرو اگر مسلمان ہو۔۸۱‘‘اُنہوں نے جواب دیا ’’۸۲ ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا، اے ہمارے ربّ، ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا ۸۳اور اپنی رحمت سے ہم کو کافروں سے نجات دے۔ ‘‘اور ہم نے موسیٰ ؑ اور اس کے بھائی کو اشارہ کیا کہ ’’ مصر میں چند مکان اپنی قوم کے لیے مہیّا کرو اور اپنے ان مکانوں کو قبلہ ٹھہرا لواور نماز قائم کرو ۸۴ اور اہلِ ایمان کو بشارت دے دو۔‘‘ ۸۵موسیٰؑ نے دعا ۸۶ کی ’’ اے ہمارے ربّ، تُو نے فرعون اور اُس کے سرداروں کو دُنیا کی زندگی میں زینت ۸۷ اور اموال ۸۸ سے نواز رکھا ہے۔ اے ربّ، کیا یہ اِس لیے ہے کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے بھٹکائیں؟ اے ربّ، ان کے مال غارت کر دے اور ان کے دلوں پر ایسی مُہر کر دے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔‘‘ ۸۹اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا ’’ تم دونوں کی دعا قبول کی گئی۔ ثابت قدم رہو اور ان لوگوں کے طریقے کی ہرگز پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔ ‘‘ ۹۰اور ہم بنی اسرائیل کو سمندر سے گُزار لے گئے۔ پھر فرعون اور اُس کے لشکر ظلم اور زیادتی کی غرض سے اُن کے پیچھے چلے۔۔۔۔ حتیٰ کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اُٹھا ’’ میں نے مان لیا کہ خداوندِ  حقیقی اُس کے سوا کوئی نہیں ہے جِس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، اور میں بھی سرِ اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔ ۹۱‘‘( جواب دیا گیا) ’’ اب ایمان لاتا ہے !حالانکہ اس سے پہلے تک تُو نافرمانی کرتا رہا اور فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تا کہ تُو بعد کی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنے ۹۲ اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں۔‘‘ ۹۳ ؏ ۹
 

۷۸-متن میں لفظ ذُرِّ یَّۃٌ استعمال ہوا ہے جس کے معنی اولاد کے ہیں۔ ہم نے اس کا ترجمہ ’’نوجوان‘‘ کیا ہے۔ مگر دراصل اس خاص لفظ کے استعمال سے جو بات قرآن مجید بیان کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اُس پر خطر زمانے میں حق کا ساتھ دینے اور علمبردارِ حق کو اپنا رہنما تسلیم کرنے کی جرأت چند لڑکوں اور لڑکیوں نے تو کی مگر ماؤں اور باپوں اور قوم کے سن رسیدہ لوگوں کو اس کی توفیق نصیب نہ ہوئی۔ ان پر مصلحت پرستی اور دنیوی اغراض کی بندگی اور عافیت کوشی کچھ اس طرح چھائی رہی کہ وہ ایسے حق کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے جس کا راستہ اُن کو خطرات سے پُر نظر آ رہا تھا، بلکہ وہ اُلٹے نوجوانوں ہی کو روکتے رہے کہ موسیٰ کے قریب نہ جاؤ، ورنہ تم خود بھی فرعون کے غضب میں مبتلا ہو گے اور ہم پر بھی آفت لاؤ گے۔

یہ بات خاص طور پر قرآن نے نمایاں کر کے اس لیے پیش کی ہے کہ مکہ کی آبادی میں سے بھی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ دینے کے لیے جو لوگ آگے بڑھے تھے وہ قوم کے بڑے بوڑھے اور سن رسیدہ لوگ نہ تھے بلکہ چند با ہمت نوجوان ہی تھے۔ وہ ابتدائی مسلمان جو اِن آیات کی نزول کی وقت ساری قوم کی شدید مخالفت کے مقابلے میں صداقتِ اسلامی کی حمایت کر رہے تھے اور ظلم و ستم کے اس طوفان میں جن کے سینے اسلام کے لیے سپر بنے ہوئے تھے، ان میں مصلحت کوش بوڑھا کوئی نہ تھا۔ سب کے سب جوان لوگ ہی تھے۔ علی ابن ابی طالبؓ، جعفر ؓ طیّار، زبیرؓ، سعد بن ؓ ابی وقاص، مُصعَبؓ بن عُمَیر، عبد اللہؓ بن مسعود جیسے لوگ قبولِ  اسلام کے وقت ۲۰ سال سے کم عمر کے تھے۔ عبد الرحمٰن ؓ بن عوف، بلالؓ، صُہَیب ؓ کی عمریں ۲۰ سے ۳۰ سال کی درمیان تھیں۔ ابو عبیدہ بن الجراحؓ، زید بن حارثہؓ، عثمان بن عفانؓ اور عمر فاروقؓ ۳۰ سے ۳۵ سال کے درمیان عمر کے تھے۔ ان سے زیادہ سن رسیدہ ابوبکر صدیقؓ تھے اور ان کی عمر بھی ایمان لانے کے وقت ۳۸ سال سے زیادہ نہ تھی۔ ابتدائی مسلمانوں میں صرف ایک صحابی کا نام ہمیں ملتا ہے جن کی عمر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ تھی، یعنی حضرت عبیدہ بن حارثؓ مُطَّلبی۔ اور غالباً پورے گروہ میں ا یک ہی صحابی حضور کے ہم عمر تھے، یعنی عَمّار بن یاسرؓ۔

۷۹-متن میں فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسیٰ کے الفاظ ہیں۔ اس سے بعض لوگوں کو گمان ہوا کہ شاید بنی اسرائیل سب کے سب کافر تھے اور ابتداءً ان میں سے صرف چند آدمی ایمان لائے۔ لیکن ایمان کے ساتھ جب لام کا صلہ آتا ہے تو وہ بالعموم اطاعت و انقیاد کے معنی دیتا ہے، یعنی کسی کی بات ماننا اور اس کے کہے پر چلنا۔ پس دراصل ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ چند نوجوانوں کو چھوڑ کر بنی اسرائیل کی پوری قوم میں سے کوئی بھی اس بات پر آمادہ نہ ہوا کہ حضرت موسیٰ کو اپنا رہبر و پیشوا مان کر ان کی پیروی اختیار کر لیتا اور اس دعوتِ اسلامی کے کام میں ان کا ساتھ دیتا۔ پھر بعد کے فقرے نے اس بات کو واضح کر دیا کہ ان کے اس طرزِ عمل کی اصل وجہ یہ نہ تھی کہ انہیں حضرت موسیٰ کے صادق اور ان کی دعوت کے حق ہونے میں کوئی شک تھا، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اور خصوصاً ان کے اکابر و اشراف، حضرت موسیٰ کا ساتھ دے کر اپنے آپ کو فرعون کی سخت گیری کے خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اگرچہ یہ لوگ نسل اور مذہبی دونوں حیثیتوں سے ابراہیم، اسحاق، یعقوب اور یوسف علیہم السلام کے اُمتی تھے اور اس بنا پر ظاہر ہے کہ سب مسلمان تھے، لیکن ایک مدّتِ دراز کے اخلاقی انحطاط نے اور اُس پست ہمتی نے جو زیردستی سے پیدا ہوئی تھی، ان میں اتنا بل بوتا باقی نہ چھوڑا تھا کہ کفر و ضلالت کی فرمانروائی کے مقابلہ میں ایمان و ہدایت کا عَلَم لے کر خود اُٹھتے، یا جو اُٹھا تھا اُس کا ساتھ دیتے۔

حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون کی اس کشمکش میں عام اسرائیلیوں کا طرزِ عمل کیا تھا، اس کا اندازہ بائیبل کی اس عبارت سے ہو سکتا ہے :

 ’’ جب وہ فرعون کے پاس سے نکلے آرہے تھے تو اُن کو موسیٰ اور ہارون ملاقات کے لیے راستہ پر کھڑے ملے۔ تب انہوں نے ان سے کہا کہ خداوند ہی دیکھے اور تمہارا انصاف کرے، تم نے تو ہم کو فرعون اور اس کے خادموں کی نگاہ میں ایسا گھِنَونا کیا ہے کہ ہمارے قتل کے لیے اُن کے ہاتھ میں تلوار دے دی ہے ‘‘۔ (خروج ۶ : ۲۰ – ۲۱)

تَلمُود میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے کہتے تھے :

 ’’ہماری مثال تو ایسی ہے جیسے ایک بھیڑیے نے بکری کو پکڑا اور چرواہے نے آ کر اس کو بچانے کی کوشش کی اور دونوں کی کشمکش میں بکری کے ٹکڑے ہو گئے۔ بس اسی طرح تمہاری اور فرعون کی کھینچ تان میں ہمارا کام تمام ہو کر رہے گا‘‘۔

انہی باتوں کی طرف سورۂ اعراف میں بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ اُوْ ذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْ تِیَنَا وَمِنْم بَعْدِ مَا جِئْتَنَا (آیت ۱۲)۔

۸۰-متن میں لفظ مُسْرِ فِیْنَ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنے والا۔ مگر اس لفظی ترجمے سے اس کی اصل روح نمایاں نہیں ہوتی۔ مسرفین سے مراد دراصل وہ لوگ ہیں جو اپنے مطلب کے لیے کسی بُرے سے بُرے طریقے کو بھی اختیار کرنے میں تامل نہیں کرتے۔ کسی ظلم اور کسی بد اخلاقی اور کسی وحشت و بربریت کے ارتکاب سے نہیں چوکتے۔ اپنی خواہشات کے پیچھے ہر انتہا تک جا سکتے ہیں۔ ان کے لیے کوئی حد نہیں جس پر جا کر وہ رُک جائیں۔

۸۱-ظاہر ہے کہ یہ الفاظ کسی کافر قوم کو خطاب کر کے نہیں کہے جا سکتے تھے۔ حضرت موسیٰ کا یہ ارشاد صاف بتا رہا ہے کہ بنی اسرائیل کی پوری قوم اس وقت مسلمان تھی، اور حضرت موسیٰ ان کو یہ تلقین فرما رہے تھے کہ اگر تم واقعی مسلمان ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے، تو فرعون کی طاقت سے خوف نہ کھاؤ بلکہ اللہ کی طاقت پر بھروسہ کرو۔

۸۲-یہ جواب اُن نوجوانوں کا تھا جو موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوئے تھے۔ یہاں قالوا کی ضمیر قوم کی طرف نہیں بلکہ ذریۃ کی طرف پھر رہی ہے جیسا کہ سیاق کلام سے خود ظاہر ہے۔

۸۳-ان صادق الایمان نوجوانوں کی یہ دعا کہ "ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا" بڑے وسیع مفہوم پر حاوی ہے۔ گمراہی کے عام غلبہ و تسلّط کی حالت میں کچھ لوگ قیامِ حق کی لیے اُٹھتے ہیں، تو اُنھیں مختلف قسم کے ظالموں سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ایک طرف باطل کے اصلی علمبردار ہوتے ہیں جو پوری طاقت سے اِن داعیانِ حق کو کچل دینا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف نام نہاد حق پرستوں کا ایک اچھا خاصا گروہ ہوتا ہے جو حق کو ماننے کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر باطل کی قاہرانہ فرماں روائی کے مقابلہ میں اقامت حق کی سعی کو غیر واجب، لاحاصل، یا حماقت سمجھتا ہے اور اس کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس خیانت کو جو وہ حق کے ساتھ کر رہا ہے کسی نہ کسی طرح درست ثابت کر دے اور ان لوگوں کو اُلٹا برسر باطل ثابت کر کے اپنے ضمیر کی اُس خلش کو مٹائے جو اُن دعوتِ اقامتِ دینِ حق سے اس کے دل کی گہرائیوں میں جلی یا خفی طور پر پیدا ہوتی ہے۔ تیسری طرف عامۃ الناس ہوتے ہیں جو الگ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ان کا ووٹ آخر اُسی طاقت کے حق میں پڑتا ہے جس کا پلہ بھاری رہے، خواہ وہ طاقتِ حق ہو یا باطل۔ اس صورتِ حال میں داعیانِ حق کی ہر ناکامی، ہر مصیبت، ہر غلطی، ہر کمزوری اور خامی ان مختلف گروہوں کے لیے مختلف طور پر فتنہ بن جاتی ہے۔ وہ کچل ڈالے جائیں یا شکست کھا جائیں تو پہلا گروہ کہتا ہے کہ حق ہمارے ساتھ تھا نہ کہ ان بے وقوفوں کے ساتھ جو ناکام ہو گئے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے دیکھ لیا! ہم نہ کہتے تھے کی ایسی بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکرانے کا حاصل چند قیمتی جانوں کی ہلاکت کے سوا کچھ نہ ہو گا، اور آخر کار اس تہلکہ میں اپنے آپ کو ڈالنے کا ہمیں شریعت نے مکلّف ہی کب کیا تھا، دین کے کم سے کم ضروری مطالبات تو اُن عقائد و اعمال سے پورے ہو ہی رہے تھے جن کی اجازت فراعنۂ وقت نے دے رکھی تھی۔ تیسرا گروہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ حق وہی ہے جو غالب رہا۔ اسی طرح وہ اپنی دعوت کے کام میں کوئی غلطی کر جائیں، یا مصائب و مشکلات کی سہار نہ ہونے کی وجہ سے کمزوری دکھا جائیں، یا ان سے، بکلہ ان کے کسی ایک فرد سے بھی کسی اخلاقی عیب کا صدور ہو جائے، تو بہت سے لوگوں کے لیے باطل سے چمٹے رہنے کے ہزار بہانے نکل آتے ہیں اور پھر اس دعوت کی ناکامی کے بعد مدتہائے دراز تک کسی دوسری دعوتِ حق کے اُٹھنے کا امکان باقی نہیں رہتا۔ پس یہ معنی خیز دعا تھی جو موسیٰ علیہ السلام کے ان ساتھیوں نے مانگی تھی کہ خدایا ہم پر ایسا فضل فرما کہ ہم ظالموں کے لیے فتنہ نہ بن کر رہ جائیں۔ یعنی ہم کو غلطیوں سے، خامیوں سے، کمزوریوں سے بچا، اور ہماری سعی کو دنیا میں بار آور کر دے، تاکہ ہمارا وجود تیری خلق لے لیے سببِ خیر بنے نہ کہ ظالموں کے لیے وسیلۂ شر۔

۸۴-اس آیت کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ اس کے الفاظ پر اور اس ماحول پر جس میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے گئے تھے، غور کرنے پر میں یہ سمجھا ہوں کہ غالباً مصر میں حکومت کے تشدد سے اور خود بنی اسرائیل کے اپنے ضعفِ ایمانی کی وجہ سے اسرائیلی اور مصری مسلمانوں کے ہاں نماز با جماعت کا نظام ختم ہو چکا تھا، اور یہ ان کے شیرازے کے بکھرنے اور ان کی دینی روح پر موت طاری ہو جانے کا ایک بہت بڑا سبب تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ اس نظام کو از سر نو قائم کریں اور مصر میں چند مکان اس غرض کے لیے تعمیر یہ تجویز کر لیں کہ وہاں اجتماعی نماز ادا کی جایا کرے۔ کیونکہ ایک بگڑی ہوئی اور بکھری ہوئی مسلمان قوم میں دینی روح کو پھر سے زندہ کرنے اور اس کی منتشر طاقت کو از سر نو مجتمع کرنے کے لیے اسلامی طرز پر جو کوشش بھی کی جائے گی اُس کا پہلا قدم لازماً یہی ہو گا کہ اس میں نماز با جماعت کا نظام قائم کیا جائے۔ ان مکانوں کو قبلہ ٹھہرانے کا مفہوم میرے نزدیک یہ ہے کہ ان مکانوں کو ساری قوم کے لیے مرکز و مرجع ٹھیرایا جائے، اور اس کے بعد ہی " نماز قائم کرو" کہنے کا مطلب یہ ہے کہ متفرق طور پر اپنی اپنی جگہ نماز پڑھ لینے کے بجائے لوگ ان مقرر مقامات پر جمع ہو کر نماز پڑھا کریں، کیونکہ قرآن کی اصطلاح میں "اقامتِ صلوٰۃ" جس چیز کا نام ہے اس کے مفہوم میں لازماً نماز با جماعت بھی شامل ہے۔

۸۵-یعنی اہلِ ایمان پر مایوسی، مرعوبیت اور پژمردگی کو جو کیفیت اس وقت چھائی ہوئی ہے اسے دور کرو۔ انہیں پر اُمید بناؤ، ان کی ہمت بڑھاؤ اور ان کا حوصلہ بڑھاؤ۔ "بشارت دینے " کے الفاظ میں یہ سب معنی شامل ہیں۔

۸۶-اوپر کی آیات حضرت موسیٰ کی دعوت کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور یہ دعا زمانۂ قیامِ مصر کے بالکل آخری زمانے کی ہے۔ بیچ میں کئی برس کا طویل فاصلہ ہے جس کی تفصیلات کو یہاں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں اس بیچ کے دور کا بھی مفصّل بیان ہوا ہے۔

۸۷-یعنی ٹھاٹھ، شان و شوکت اور تمدّن و تہذیب کی وہ خوش نمائی جس کی وجہ سے دنیا اُن پر اور ان کے طور طریقوں پر بچھتی ہے اور ہر شخص کا دل چاہتا ہے کہ وہ ویسا ہی بن جائے جیسے وہ ہیں۔

۸۸-یعنی ذرائع اور وسائل جن کی فراوانی کی وجہ سے وہ اپنی تدبیروں کو عمل میں لانے کے لیے ہر طرح کی آسانیاں رکھتے ہیں اور جن کے فقدان کی وجہ سے اہل حق اپنی تدبیروں کو عمل میں لانے سے عاجز رہ جاتے ہیں۔

۸۹-جیسا کہ ابھی ہم بتا چکے ہیں، یہ دعا حضرت موسیٰ سے زمانۂ قیام مصر کے بالکل آخری زمانے میں کی تھی، اور اس وقت کی تھی جب پے درپے نشانات دیکھ لینے اور دین کی حجّت پوری ہو جانے کے بعد بھی فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت حق کی دشمنی پر انتہائی ہٹ دھرمی کے ساتھ جمے رہے۔ ایسے موقع پر پیغمبر جو بددعا کرتا ہے وہ ٹھیک ٹھیک وہی ہوتی ہے جو کفر پر اصرار کرنے والوں کے بارے میں خود اللہ کا فیصلہ ہے، یعنی یہ کہ پھر انہیں ایمان کی توفیق نہ بخشی جائے۔

۹۰-جو لوگ حقیقت کو نہیں جانتے اور اللہ کی مصلحتوں کو نہیں سمجھتے وہ باطل کے مقابلہ میں حق کی کمزوری، اور اقامت حق کے لیے سعی کرنے والوں کی مسلسل ناکامیاں، اور ائمۂ باطل کے ٹھاٹھ اور ان کی دنیوی سرفرازیاں دیکھ کر یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ شاید اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ اس کے باغی دنیا پر چھائے رہیں، اور حضرت حق خود ہی باطل کے مقابلہ میں حق کی تائید کرنا نہیں چاہتے۔ پھر وہ نادان لوگ اپنی بد گمانیوں کی بنا پر یہ نتیجہ نکال بیٹھتے ہیں کہ اقامت حق کی سعی لاحاصل ہے اور اب مناسب یہی ہے کہ اُس ذرا سی دینداری پر راضی ہو کر بیٹھ رہا جائے جس کی اجازت کفر و فسق کی سلطانی میں مل رہی ہو۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو اور ان کے پیرووں کو اسی غلطی سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ ارشاد خداوندی کا منشا یہ ہے کہ صبر کے ساتھ انہی ناموافق حالات میں کام کیے جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں بھی وہی غلط فہمی ہو جائے جو ایسے حالات میں جاہلوں اور نادانوں کو عموماً لاحق ہو جایا کرتی ہے۔

۹۱-بائیبل میں اس واقعہ کا کوئی ذکر نہیں ہے، مگر تلمود میں تصریح ہے کہ ڈوبتے وقت فرعون نے کہا " میں تجھ پر ایمان لاتا ہوں، اے خداوند! تیرے سوا کوئی خدا نہیں۔"

۹۲-آج تک وہ مقام جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر موجود ہے جہاں فرعون کی لاش سمندر پر تیرتی ہوئی پائی گئ تھی، اس کو موجودہ زمانے میں جبل فرعون کہتے ہیں اور اسی کے قریب ایک گرم چشمہ ہے جس کو مقامی آبادی نے حمام فرعون کے نام سے موسوم کر رکھا ہے۔ اس کی جائے وقوع ابو زنیمہ سے چند میل اوپر شمال کی جانب ہے، اور علاقے کے باشندے اسی جگہ کی نشان دہی کرتے ہیں کہ فرعون کی لاش یہاں پڑی ہوئی ملی تھی۔

۹۳-یعنی ہم تو سبق آموز اور عبرت انگیز نشانات دکھائے ہی چلے جائیں گے اگرچہ اکثر انسانوں کا حال یہ ہے کہ کسی بڑی سے بڑی عبرتناک نشانی کو دیکھ کر بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں۔

 

ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانہ دیا ۹۴ اور نہایت عمدہ وسائلِ  زندگی انہیں عطا کیے۔ پھر اُنہوں نے بہم اختلاف نہیں کیا مگر اُس وقت جب کہ علم اُن کے پاس آ چکا تھا۔۹۵ یقیناً تیرا ربّ قیامت کے روز اُن کے درمیان اُس چیز کا فیصلہ کر دے گا جس میں وہ اختلاف کر تے رہے ہیں۔ اب اگر تجھے اُس ہدایت کی طرف سے کچھ بھی شک ہو جو ہم نے تجھ پر نازل کی ہے تو اُن لوگوں سے پوچھ لے جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے ہیں۔ فی الواقع یہ تیرے پاس حق ہی آیا ہے تیرے ربّ کی طرف سے لہٰذا تُو شک کرنے والوں میں سے نہ ہواور ان لوگوں میں شامل نہ ہو جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھُٹلایا ہے، ورنہ تُو نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہو گا۔۹۶حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں پر تیرے ربّ کا قول راست آگیا ۹۷ ہے وہ بھی ایمان لا کر نہیں دیتے اُن کے سامنے خواہ کوئی نشانی آ جائے۔۔۔۔۔ جب تک کہ دردناک عذاب سامنے آتا نہ دیکھ لیں۔پھر کیا ایسی کوئی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو اور اُس کا ایمان اس کے لیے نفع بخش ثابت ہوا ہو؟ یونسؑ کی قوم کے سوا ۹۸ ( اِس کی کوئی نظیر نہیں)۔ وہ قوم جب ایمان لے آئی تھی تو البتہ ہم نے اُس پر سے دُنیا کی زندگی میں رُسوائی کا عذاب ٹال دیا تھا ۹۹ اور اُس کو ایک مدّت تک زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دے دیا تھا۔۱۰۰اگر تیرے ربّ کی مشیّت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرمانبردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ ۱۰۱ پھر کیا تُو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟۱۰۲کوئی متنفس اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا،۱۰۳ اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے۔ ۱۰۴اِن سے کہو ’’ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اُسے آنکھیں کھول کر دیکھو۔ ‘‘ اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے اُن کے لیے نشانیاں اور تنبیہیں آخر کیا مُفید ہو سکتی ہیں۔۱۰۵اب یہ لوگ اس کے سوا اور کس چیز کی منتظر ہیں کہ وہی بُرے دن دیکھیں جو اِن سے پہلے گُزرے ہوئے لوگ دیکھ چُکے ہیں؟ اِن سے کہو ’’اچھا، انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔پھر (جب ایسا وقت آتا ہے تو) ہم اپنے رسولوں کو اور اُن لوگوں کو بچا لیا کرتے ہیں جو ایمان لائے ہوں۔ ہمارا یہی طریقہ ہے۔ ہم پر یہ حق ہے کہ مومنوں کو بچا لیں۔؏ ١۰
 

۹۴-یعنی مصر سے نکلنے کے بعد ارضِ فلسطین۔

۹۵-مطلب یہ ہے کہ بعد میں انہوں نے اپنے دین میں جو تفرقے برپا کیے اور نئے نئے مذہب نکالے اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کو حقیقت کا علم نہیں دیا گیا تھا اور ناواقفیت کی بنا پر انہوں نے مجبوراً ایسا کیا، بلکہ فی الحقیقت یہ سب کچھ ان کے اپنے نفس کی شرارتوں کا نتیجہ تھا۔ خدا کی طرف سے تو انہیں واضح طور پر بتا دیا گیا تھا کہ دینِ حق یہ ہے، یہ اس کے اصول ہیں، یہ اس کے تقاضے اور مطالبے ہیں، یہ کفر و اسلام کے امتیازی حدود ہیں، طاعت اِس کو کہتے ہیں، معصیّت اِس کا نام ہے، اِن چیزوں کی باز پرس خدا کے ہاں ہونی ہے، اور یہ وہ قواعد ہیں جن پر دنیا میں تمہاری زندگی قائم ہونی چاہیے۔ مگر صاف صاف ہدایتوں کے باوجود اُنہوں نے ایک دین کے بیسیوں دین بنا ڈالے اور خدا کی دی ہوئی بنیادوں کو چھوڑ کر کچھ دوسری ہی بنیادوں پر اپنے مذہبی فرقوں کی عمارتیں کھڑی کر لیں۔

۹۶-یہ خطاب بظاہر بنی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے مگر بات اُن لوگوں کو سنانی مقصود ہے جو آپ کی دعوت میں شک کر رہے تھے۔ اور اہلِ کتاب کا حوالہ اس لیے دیا گیا ہے کہ عرب کے عوام تو آسمانی کتابوں کے علم سے بے بہرہ تھے، ان کے لیے یہ آواز ایک نئی آواز تھی، مگر اہل کتاب کے علماء  میں سے جو لوگ متدیں اور منصف مزاج تھے وہ اس امر کی تصدیق کر سکتے تھے کہ جس چیز کی دعوت قرآن دے رہا ہے یہ وہی چیز ہے جس کی دعوت تمام پچھلے انبیا دیتے رہے ہیں۔

۹۷-یعنی یہ قول کہ جو لوگ خود طالب حق نہیں ہوتے، اور جو اپنے دلوں پر ضد، تعصب اور ہٹ دھرمی کے قفل چڑھائے رکھتے ہیں، اور جو دینا کے عشق میں مدہوش اور عاقبت سے بے فکر ہوتے ہیں انہیں ایمان کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔

۹۸-یونس علیہ السلام (جن کا نام بائیبل میں یوناہ ہے اور جن کا زمانہ ۸۶۰ -۷۸۴ قبل مسیح کے درمیان بتایا جاتا ہے ) اگرچہ اسرائیلی بنی تھے، مگر ان کو اشور (اسیریا) والوں کی ہدایت کے لیے عراق بھیجا گیا تھا اور اسی بنا پر اشوریوں کو یہاں قوم یونس کہا گیا ہے۔ اس قوم کا مرکز اس زمانی میں نینویٰ کا مشہور شہر تھا جس کے وسیع کھنڈرات آج تک دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پر موجود شہر موصل کے عین مقابل پائے جاتے ہیں اور اسی علاقے میں "یونس نبی" کے نام سے ایک مقام بھی موجود ہے۔ اس قوم کے عروج کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس کا دارالسلطنت نینویٰ تقریباً ۶۰ میل کے دَور میں پھیلا ہوا تھا۔

۹۹-قرآن میں اس قصّہ کی طرف تین جگہ صرف اشارات کیے گئے ہیں، کوئی تفصیل نہیں دی گئی (ملاحظہ ہو سورۂ انبیاء آیات ۸۷-۸۸، الصافّات ۱۳۹-۱۴۸، القلم ۴۸-۵۰) اس لیے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ قوم کن خاص وجوہ کے بنا پر خدا کے اِس قانون سے مستثنیٰ کی گئی کہ "عذاب کا فیصلہ ہو جانے کے بعد کسی کا ایمان اس کے لیے نافع نہیں ہوتا"۔ بائیبل میں "یوناہ" کے نام سے جو مختصر سا صحیفہ ہے اس میں کچھ تفصیل تو ملتی ہے مگر وہ چنداں قابلِ اعتماد نہیں ہے۔ کیونکہ اوّل نہ تو وہ آسمانی صحیفہ ہے، نہ خود یونس علیہ السلام کا اپنا لکھا ہوا ہے، بلکہ ان کے چار پانچ سو برس بعد کسی نامعلوم شخص نے اسے تاریخ نویس کے طور پر لکھ کر مجموعۂ کتب مقدسہ میں شامل کر دیا ہے۔ دوسرے اس میں بعض صریح مہملات بھی پائے جاتے ہیں جو ماننے کے قابل نہیں ہیں۔ تاہم قرآن کے اشارات اور صحیفۂ یونس کی تفصیلات پر غور کرنے سے وہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے جو مفسرین قرآن نے بیان کی ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام چونکہ عذاب کی اطلاع دینے کے بعد اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اپنا مستقر چھوڑ کر چلے گئے تھے، اس لیے جب آثارِ عذاب دیکھ کر آشوریوں نے توبہ و استغفار کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ قرآن مجید میں خدائی دستور کے جو اصول و کلیات بیان کیے گئے ہیں ان میں ایک مستقل دفعہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک اس پر حجّت پوری نہیں کر لیتا۔ پس جب نبی نے اس قوم کی مہلت کے آخری لمحے تک نصیحت کا سلسلہ جاری نہ رکھا۔ اور اللہ کے مقرر کردہ وقت سے پہلے بطور خود ہی وہ ہجرت کر گیا، تو اللہ تعالیٰ کے انصاف نے اس کی قوم کو عذاب دینا گوارہ نہ کیا کیونکہ اس پر اتمامِ حجّت کی قانونی شرائط پوری نہیں ہوئی تھیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سورہ الصافّات، حاشیہ نمبر ۸۵)

۱۰۰-جب یہ قوم ایمان لے آئی تو اس کی مہلتِ عمر میں اضافہ کر دیا گیا۔ بعد میں اس نے پھر خیال و عمل کہ گمراہیاں اختیار کرنی شروع کر دیں۔ ناحوم نبی (۷۲۰ – ۶۹۸ قبل مسیح) نے اسے متنبہ کیا، مگر کوئی اثر نہ ہوا۔ پھر صَفنِیاہ نبی (۶۴۰ – ۶۰۹ قبل مسیح) نے اس کو آخری تنبیہ کی۔ وہ بھی کارگر نہ ہوئی۔ آخرکار ۶۱۲ قم کے لگ بھگ زمانے میں اللہ تعالیٰ نے میڈیا والوں کو اس پر مسلط کر دیا۔ میڈیا کا بادشاہ بابِل والوں کی مدد سے اشور کے علاقے پر چڑھ آیا۔ اشوری فوج شکست کھا کر نینویٰ میں محصور ہو گئی۔ کچھ مدّت تک اس نے سخت مقابلہ کیا۔ پھر دجلہ کی طغیانی نے فصیلِ شہر توڑ دی اور حملہ آور اندر گھس گئے۔ پورا شہر جلا کر خاک سیاہ کر دیا گیا۔ گرد و پیش کے علاقے کا بھی یہی حشر ہوا۔ اشور کا بادشاہ خود اپنے محل میں آگ لگا کر جل مرا اور اس کے ساتھ ہی اشوری سلطنت اور تہذیب بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔ زمانۂ حال میں آثار قدیمہ کی جو کھدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں ان میں آتش زدگی کے نشانات کثرت سے پائے جاتے ہیں۔

۱۰۱- یعنی اگر اللہ کی خواہش یہ ہوتی کی اس کی زمین میں صرف اطاعت گزار اور فرمانبردار ہی بسیں اور کفر و نافرمانی کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہو تو اس کے لیے نہ یہ مشکل تھا کہ وہ تمام اہل زمین کو مومن و مطیع پیدا کرتا اور نہ یہی مشکل تھا کہ سب کے دل اپنے ایک ہی تکوینی اشارے سے ایمان و اطاعت کی طرف پھیر دیتا۔ مگر نوع انسانی کے پیدا کرنے میں جو حکیمانہ غرض اس کے پیشِ نظر ہے وہ اس تخلیقی و تکوینی جبر کے استعمال سے فوت ہو جاتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ خود ہی انسانوں کو ایمان لانے یا نہ لانے اور اطاعت اختیار کرنے یا نہ کرنے میں آزاد رکھنا چاہتا ہے۔

۱۰۲- اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو زبردستی مومن بنانا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا کرنے سے روک رہا تھا۔ دراصل اس فقرے میں وہی انداز بیان اختیار کیا گیا ہے جو قرآن میں بکثرت مقامات پر ہمیں ملتا ہے، کہ خطاب بظاہر تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہوتا ہے مگر اصل میں لوگوں کو وہ بات سنانی مقصود ہوتی ہے جو نبی کو خطاب کر کے فرمائی جاتی ہے۔ یہاں جو کچھ کہنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ لوگو، حجت اور دلیل سے ہدایت و ضلالت کا فرق کھول کر رکھ دینے اور راہِ راست صاف صاف دکھا دینے کا جو حق تھا وہ تو ہمارے نبی نے پورا پورا ادا کر دیا ہے۔ اب اگر تم خود راست رو بننا نہیں چاہتے اور تمہارا سیدھی راہ پر آنا صرف اسی پر موقوف ہے کہ کوئی تمہیں زبردستی راہِ راست پر لائے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نبی کے سپرد یہ کام نہیں کیا گیا ہے۔ ایسا جبری ایمان اگر اللہ کو منظور ہوتا تو اس کے لیے اُسے نبی بھیجنے کی ضرورت ہی کیا تھی، یہ کام تو وہ خود جب چاہتا کر سکتا تھا۔

۱۰۳-یعنی جس طرح تمام نعمتیں تنہا اللہ کے اختیار میں ہیں اور کوئی شخص کسی نعمت کو بھی اللہ کے اذن کے بغیر نہ خود حاصل کر سکتا ہے نہ کسی دوسرے شخص کو بخش سکتا ہے، اسی طرح یہ نعمت بھی کہ کوئی شخص صاحبِ ایمان ہو اور راہِ راست کی طرف ہدایت پائے اللہ کے اذن پر منحصر ہے۔ کوئی شخص نہ اس نعمت کو اذنِ الہی کے بغیر خود پا سکتا ہے، اور نہ کسی انسان کے اختیار میں یہ ہے کہ جس کو چاہے یہ نعمت عطا کر دے۔ پس نبی اگر سچے دل سے یہ چاہے بھی کہ لوگوں کو مومن بنا دے تو نہیں بنا سکتا۔ اس کے لیے اللہ کا اذن اور اس کی توفیق درکار ہے۔

۱۰۴-یہاں صاف بتا دیا گیا ہے کہ اللہ کا اذن اور اس کی توفیق کوئی اندھی بانٹ نہیں ہے کہ بغیر کسی حکمت اور بغیر کسی معقول ضابطے کے یوں ہی جس کو چاہا نعمت ایمان پانے کا موقع دیا اور جسے چاہا اس موقع سے محروم کر دیا۔ بلکہ اس کا ایک نہایت حکیمانہ ضابطہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ جو شخص حقیقت کی تلاش میں بے لاگ طریقے سے اپنی عقل کو ٹھیک ٹھیک استعمال کرتا ہے اس کے لیے تو اللہ کی طرف سے حقیقت رسی کے اسباب و ذرائع اس کی سعی اور طلب کے تناسب سے مہیا کر دیے جاتے ہیں، اور اسی کو صحیح علم پانے اور ایمان لانے کی توفیق بخشی جاتی ہے۔ رہے وہ لوگ جو طالب حق ہی نہیں ہیں اور جو اپنی عقل کو تعصبات کے پھندوں میں پھانسے رکھتے ہیں، یا سرے سے تلاش حقیقت میں اُسے استعمال ہی نہیں کرتے، تو اُن کے لیے اللہ کے خزانۂ قسمت میں جہالت اور گمراہی اور غلط بینی و غلط کاری کی نجاستوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ کو انہی نجاستوں کا اہل بناتے ہیں اور یہی ان کے نصیب میں لکھی جاتی ہیں۔

۱۰۵-یہ ان کے اُس مطالبہ کا آخری اور قطعی جواب ہے جو وہ ایمان لانے کے لیے شرط کے طور پر پیش کرتے تھے کہ ہمیں کوئی نشانی دکھائی جائے جس سے ہم کو یقین آ جائے کہ تمہاری نبوت سچی ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا جا رہا ہے کہ اگر تمہارے اندر حق کی طلب اور قبولِ حق کی آمادگی ہو تو وہ بے حدو حساب نشانیاں جو زمیں و آسمان میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں تمہیں پیغامِ محمدی کی صداقت کا اطمینان دلانے کے لیے کافی سے زیادہ ہیں۔ صرف آنکھیں کھول کر انہیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر یہ طلب اور یہ آمادگی ہی تمہارے اندر موجود نہیں ہے تو پھر کوئی نشانی بھی، خواہ وہ کیسی ہی خارقِ عادت اور عجیب و غریب ہو، تم کو نعمت ایمان سے بہرہ ور نہیں کر سکتی۔ ہر معجزے کو دیکھ کر تم فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کی طرح کہو گے کہ یہ تو جادوگری ہے۔ اس مرض میں جو لوگ مبتلا ہوتے ہیں ان کی آنکھیں صرف اُس وقت کھلا کرتی ہیں جب خدا کا قہر و غضب اپنی ہولناک سخت گیری کے ساتھ اُن پر ٹوٹ پڑتا ہے جس طرح فرعون کی آنکھیں ڈوبتے وقت کھلی تھیں۔ مگر عین گرفتاری کے موقع پر جو توبہ کی جائے اس کی کوئی قیمت نہیں۔

 

اے نبیؐ !۱۰۶ کہہ دو کہ لوگو، ’’ اگر تم ابھی تک میرے دین کے متعلق کسی شک میں ہو تو سُن لو کہ تم اللہ کے سوا جن کی بندگی کرتے ہو میں اُن کی بندگی نہیں کرتا بلکہ صرف اُسی خدا کر بندگی کرتا ہوں جس کے قبضے میں تمہاری موت ہے۔ ۱۰۷ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں سے ہوں۔ اور مجھ سے فرمایا گیا ہے کہ تُویکسُو ہو کر اپنے آپ کو ٹھیک ٹھیک اس دین پر قائم کر دے ۱۰۸، اور ہرگز ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہو۔۱۰۹اور اللہ کو چھوڑ کو کسی ایسی ہستی کو نہ پُکار جو تُجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے نہ نقصان۔ اگر تُو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہو گا۔اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اُس کے سوا کوئی نہیں جو اُس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اُس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جن کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کر نے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ‘‘اے محمد ؐ، کہہ دو کہ ’’ لوگو، تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے حق آچکا ہے۔ اب جو سیدھی راہ اختیار کرے اُس کی راست روی اُسی کے لیے مفید ہے، اور جو گمراہ رہے اُس کی گمراہی اُسی کے لیے تباہ کُن ہے۔ اور میں تمہارے اُوپر کوئی حوالہ دار نہیں ہوں۔‘‘ اور اے نبی ؐ، تم اس ہدایت کی پیروی کیے جاؤ جو تمہاری طرف بذریعہ وحی بھیجی جا رہی ہے، اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے، اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ ؏ ١١
 

۱۰۶-جس مضمون سے تقریر کی ابتدا کی گئی تھی اسی پر اب تقریر کوختم کیا جارہا ہے۔ تقابل کے لیے پہلے رکوع کے مضمون پر پھر ایک نظر ڈال لی جائے۔

۱۰۷-متن میں لفظ یَتَوَفّٰکُم ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے "جو تمہیں موت دیتا ہے "۔ لیکن اس لفظی ترجمے سے اصل روح ظاہر نہیں ہوتی۔ اس ارشاد کی روح یہ ہے کہ " وہ جس کے قبضے میں تمہاری جان ہے، جو تم پر ایسا مکمل حاکمانہ اقتدار رکھتا ہے کہ جب تک اس کی مرضی ہو اسی وقت تک تم جی سکتے ہو اور جس وقت اس کا اشارہ ہو جائے اسی آن تمہیں اپنی جان اُس جان آفرین کے حوالے کر دینی پڑتی ہے، میں صرف اُسی کی بندگی وغلامی اور اسی کی اطاعت وفرمانبرداری کا قائل ہوں"۔ یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ مشرکینِ مکّہ یہ مانتے تھے اور آج بھی ہر قسم کے مشرک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ موت صرف اللہ رب العالمین کے اختیار میں ہے، اس پر کسی دوسرے کا قابونہیں ہے۔ حتیٰ کہ جن بزرگوں کویہ مشرکین خدائی صفات و اختیارات میں شریک ٹھراتے ہیں ان کے متعلق بھی وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں کوئی خود اپنی موت کا وقت نہیں ٹال سکا ہے۔ پس بیان مدعا کے لیے اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات میں سے کسی دوسری صفت کا ذکر کرنے کے بجائے یہ خاص صفت کہ "وہ جو تمہیں موت دیتا ہے " یہاں اس لیے انتخاب کی گئی ہے کہ اپنا مسلک بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے صحیح ہونے کی دلیل بھی دے دی جائے۔ یعنی سب کو چھوڑ کر میں اُس کی بندگی اس لیے کرتا ہوں کی زندگی و موت پر تنہا اسی کا اقتدار ہے۔ اور اس کے سوا دوسروں کی بندگی آخر کیوں کروں جب کہ وہ خود اپنی زندگی وموت پر بھی اقتدار نہیں رکھتے کجا کہ کسی اور کی زندگی و موت کے مختار ہوں۔ پھر کمالِ بلاغت یہ ہے کہ "وہ مجھے موت دینے والا ہے " کہنے کے بجائے "وہ تمہیں موت دیتا ہے " فرمایا۔ اس طرح ایک ہی لفظ میں بیانِ مدّعا،دلیل مدّعا، اور دعوت الی لمدعٰی، تینوں فائدے جمع کر دیے گئے ہیں۔ اگر یہ فرمایا جاتا کہ "میں اس کی بندگی کرتاہوں جو مجھے موت دیتا ہے " تو اس سے صرف یہ معنی نکلتے کہ "مجھے اس کی بندگی کرنی ہی چاہیے "۔ اب جو یہ فرمایا کہ "میں اس کی بندگی کرتا ہوں جو تمہیں موت دینے والا ہے "، تو اس سے یہ معنی نکلے کہ مجھے ہی نہیں، تم کو بھی اُسی کی بندگی کرنی چاہیے اور تم یہ غلطی کررہے ہو کہ اس کے سوا دوسروں کی بندگی کیے جاتے ہو۔

۱۰۸-اس مطالبے کی شدت قابل غور ہے۔ بات ان الفاظ میں بھی ادا ہو سکتی تھی کہ "تو اِس دین کو اختیار کرلے " یا "اس دین پر چل"یا "اس دین کا پیرو بن جا"۔ مگر اللہ تعالیٰ کو بیان کے یہ سب پیرایے ڈھیلے ڈھالے نظر آئے۔ اس دین کی جیسی سخت اور ٹھکی ور کِسی ہوئی پیروی مطلوب ہے اس کا اظہار ان کمزورالفاظ سے نہ ہو سکتاتھا۔ لہزا اپنامطالبہ ان الفاظ میں پیش فرمایا کہ"اَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنیْفًا"۔ اقم وجھک کے لفظی معنی ہیں" اپنا چہرہ جمادے "۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ تیرا رُخ ایک ہی طرف قائم ہو۔ ڈگمگاتا اور ہلتاڈلتا نہ ہو۔ کبھی پیچھے اور کبھی آگے اور کبھی دائیں اور کبھی بائیں نہ مڑتارہے۔ بالکل نک کی سیدھ اُسی راستے پر نظر جمائے ہوئے چل جو تجھے دکھا دیا گیاہے۔ یہ بندش بجائے خود بہت چُست تھی، مگر اس پر بھی اکتفا نہ کیا گیا۔ اس پر ایک اور قید حنیفا کی بڑھائی گئی۔ حنیف اس کو کہتے ہیں جو سب طرف سے مڑ کر ایک طرف کا ہورہا ہو۔ پس مطالبہ یہ ہے کہ اس دین کو، اِس بندگی خدا کے طریقے کو، اس طرزِ زندگی کو کہ پرستش، بندگی، غلامی، اطاعت، فرمانبرداری سب کچھ صرف اللہ رب العالمین ہی کی کی جائے، ایسی یک سوئی کے ساتھ اختیار کر کہ کسی دوسرے طریقے کی طرف ذرہ برابر میلان ورجحان بھی نہ ہو، اس راہ پر آ کر اُن غلط راہوں سے کچھ بھی لگاؤ باقی نہ رہے جنہیں تو چھوڑ کر آیا ہے اور اُن ٹیڑھے راستوں پر ایک غلط اندازِ نگاہ بھی نہ پڑے جن پر دنیا چل رہی ہے۔

۱۰۹-یعنی ان لوگوں میں ہر گز شامل نہ ہو جو اللہ کی ذات میں، اس کی صفات میں، اس کے حقوق میں اس کے اختیارات میں کسی طور پر غیر اللہ کو شریک کرتے ہیں۔ خواہ وہ غیر اللہ ان کا نفس ہو، یا کوئی دوسرا انسان ہو، یا انسانوں کا کوئی مجموعہ ہو، یا کوئی روح ہو، کوئی جن ہو، فرشتہ ہو، یا کوئی مادّی یا خیالی یا وہمی وجود ہو۔ پس مطالبہ صرف اس ایجابی صورت ہی میں نہیں ہے کہ توحیدِ خالص کا راستہ پوری استقامت کے ساتھ اختیار کر۔ بلکہ اِس سلبی صورت میں بھی ہے کہ اُن لوگوں سے الگ ہو جا جو کسی شکل اور ڈھنگ کا شرک کرتے ہوں۔ عقیدے ہی میں نہیں عمل میں بھی، انفرادی طرزِ زندگی ہی میں نہیں اجتماعی نظامِ حیات میں بھی، معبدوں اور پرستش گاہوں ہی میں نہیں درس گاہوں میں بھی، عدالت خانوں میں بھی، قانون سازی کی مجلسوں میں بھی، سیاست کے ایوانوں میں بھی، معیشت کے بازاروں میں بھی، غرض ہر جگہ اُن لوگوں کے طریقے سے اپنا طریقہ الگ کرلے جنہوں نے اپنے افکارواعمال کا پوار نظام خدا پرستی اور ناخداپرستی کی آمیزش پر قائم کر رکھا ہے۔ توحید کا پیرو زندگی کے کسی پہلو اور کسی شعبے میں بھی شرک کی راہ چلنے والوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتا، کجا کہ آگے وہ ہو اور پیچھے یہ اور پھر بھی اس کی توحید پرستی کے تقاضے اطمینان سے پورے ہوتے رہیں!

پھر مطالبہ شرک جلی ہی سے پرہیز کا نہیں ہے بلکہ شرک خفی سے بھی کامل اور سخت اجتناب کا ہے۔ بلکہ شرک خفی زیادہ خوفناک ہے اور اس سے ہوشیار رہنے کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے۔ بعض نادان لوگ "شرک خفی" کو "شرک خفیف" سمجھتے ہیں اور ان کا گمان یہ ہے کہ اس کا معاملہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا شرک جلی کا ہے۔ حالاں کہ خفی کے معنی خفیف کے نہیں ہیں، پوشیدہ اور مستور کے ہیں۔ اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ جو دشمن منہ کھول کر دن دھاڑے سامنے آ جائے وہ زیادہ خطرناک ہے یا وہ جو آستین میں چھپا ہوا ہو یا دوست کے لباس میں معانقہ کر رہا ہو؟ بیماری وہ زیادہ مہلک ہے جس کی علامات بالکل نمایاں ہوں یا وہ جو مدتوں تک تندرستی کے دھوکے میں رکھ کر اندر ہی اندر صحت کی جڑیں کھوکھلی کرتی رہے ؟ جس شرک کو ہر شخص بیک نظر دیکھ کر کہ دے کہ یہ شرک ہے، اُس سے تو دینِ توحید کا تصادم بالکل کھلا ہوا ہے۔ مگر جس شرک کو سمجھنے کے لیے گہری نگاہ اور مقتضیاتِ توحید کا عمیق فہم درکار ہے وہ اپنی غیر مرئی جڑیں دین کے نظام میں اس طرح پھیلاتا ہے کہ عام اہل توحید کو ان کی خبر تک نہیں ہوتی اور رفتہ رفتہ ایسے غیر محسوس طریقے سے دین کے مغز کو کھا جاتا ہے کہ کہیں خطرے کا الارم بجنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔