تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ النّبَإِ

نام

دوسری  آیت  کے فقرے عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِ کے لفظ اَلنَّبَا کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے،  اور یہ صرف نام ہی نہیں  ہے بلکہ اس سُورۃ کے مضامین کا عنوان بھی ہے،  کیونکہ نَبا سے مراد قیامت اور آخرت کی خبر ہے اور سُورۃ میں  ساری بحث اسی پر کی گئی ہے۔

زمانۂ نزول

جیسا کہ ہم سُورہ مُرْسَلات کے دیباچے میں  بیان کر چکے ہیں،  سورہ قیامت سے سورہ نازعات تک سب کا مضمون ایک دوسرے سے مشابہ ہے اور یہ سب مکہ معظمہ کے ابتدائی دَور کے نازل شدہ معلوم ہوتی ہیں۔

موضوع اور مضمون

اس کا مضمون  بھی وہی ہے جو سُورہ مُرسَلات کا ہے،  یعنی قیامت اور آخرت کا اِثبات،  اور اُس کو ماننے یا نہ ماننے کے نتاَئج سے لوگوں  کو خبر دار کرنا۔

مکہ معظمہ میں  جب اوّل اوّل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے اسلام کی تبلیغ کا آغاز کیا تو اس کی بنیاد تین چیزیں  تھیں۔  ایک یہ بات کہ اللہ کے ساتھ کسی  کو خدائی میں  شریک نہ مانا جائے۔  دوسری یہ کہ آپؐ کو اللہ نے اپنا رسول مقرر کیا ہے۔  تیسری یہ کہ اِس دنیا کا ایک روز خاتمہ ہو جائے گا اور اس کے بعد ایک دوسرا عالم بر پا ہو گا جس میں  تمام اوّلین و آخرین دوبارہ زندہ کر کے اُسی جسم کے ساتھ اُٹھائے جائیں  گے جس میں  رہ کر انہوں  نے دنیا میں  کام کیا تھا، پھر ان کے عقائد اور اعمال کا  حساب لیا جائے گا اور اس محاسبہ میں  جو لوگ مومن و صالح ثابت ہوں گے وہ ہمیشہ کے لیے جنت میں  جائیں  گے اور جو کافر و فاسق ہوں  گے وہ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں  رہیں  گے۔

ان تینوں  باتوں  میں  سے پہلی بات اگرچہ اہلِ مکہ کو سخت نا گوار تھی، لیکن بہر حال وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے منکر نہ تھے،  اُس کے ربِّ اعلیٰ اور خالق و رازق ہونے کو بھی مانتے تھے،  اور یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ دوسری جن جن ہستیوں  کو وہ معبُود قرار دیتے ہیں  وہ اللہ ہی کی مخلوق ہیں،  اِس لیے جھگڑا صرف اِس امر میں  تھا کہ خدائی کی صفات و اختیارات میں  اور الُو ہیت کی ذات میں  اُن کی کوئی شرکت ہے یا نہیں ۔

دوسری بات کو مکے کے لوگ ماننے کے لیے تیار نہ تھے،  مگر اس امر سے انکار کرنا اُن کے لیے ممکن نہ تھا کہ چالیس سال تک جو زندگی حضورؐ نے دعوائے رسالت سے پہلے اُنہی کے درمیان گزار ی تھی، اس میں  انہوں  نے کبھی آپ کو جھُوٹا یا فریب کار، یا نفسانی اغراض کے لیے ناجائز طریقے اختیار کرنے والا نہ پایا تھا۔ وہ خود آپ کی دانائی و فرزانگی، سلامت روی اور اخلاق کی بلندی کے قائل و معترف تھے۔  اس لیے ہزار بہانے اور الزامات تراشنے کے با وجود اُنہیں  دوسروں  کو باور کرانا تو درکنار اپنی جگہ خود بھی یہ باور کرنے میں  سخت مشکل پیش آ رہی تھی کہ حضورؐ سارے معاملات میں  تو راستباز ہیں  مگر صرف رسالت کے دعوے میں  معاذ اللہ جھُوٹے ہیں۔

اس طرح پہلی دو باتیں  اہلِ مکہ کے لیے  دراصل اُتنی زیادہ اُلجھن کی مُوجب نہ تھیں  جتنی تیسری بات تھی۔ اُس کو جب اُن کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں  نے سب سے زیادہ اُسی کا مذاق اُڑایا، اُسی پر سب سے بڑھ کر حیرانی اور تعجب کا اظہار کیا، اور اُسے بالکل بعید از عقل و امکان سمجھ کر جگہ جگہ اس کے ناقابلِ یقین بلکہ نا قابلِ تصوّر ہونے کے چرچے شروع کر دیے۔  مگر اسلام کی راہ پر  اُن کو لانے کے لیے یہ قطعی ناگزیر تھا کہ آخرت کا  عقیدہ اُن کے ذہن میں  اُتار ا جائے،  کیونکہ اِس عقیدے کو مانے بغیر یہ ممکن ہی نہ تھا کہ حق اور باطل کے معاملہ میں  اُن کے طرزِ فکر سنجیدہ ہو سکتا، خیر وشر کے معاملہ میں  اُن کا معیارِ اقدار بدل سکتا، اور وہ دنیا پرستی کی راہ چھوڑ کر اُس راہ پر ایک قدم بھی چل سکتے جس پر اسلام اُن کو چلانا چاہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مکّہ معظمہ کے ابتدائی دور کی سُورتوں  میں  زیادہ تر روز آخرت کا  عقیدہ دلوں  میں  بٹھانے پر صرف کیا گیا ہے،  البتہ اس کے لیے دلائل ایسے انداز سے دیے گئے ہیں  جن سے توحید کا تصور بھی  خود بخود ذہن نشین ہو تا چلا جاتا ہے،  اور بیچ بیچ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم اور قرآن کے بر حق ہونے کے دلائل بھی مختصراً دے دیے گئے ہیں۔

اِس دور کی سُورتوں  میں  آخرت کے مضمون کی اِس تکرار کا سبب اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد اب اِس سُورۃ کے مضامین پر ایک نگاہ ڈال لیجیے۔  اس میں  سب سے پہلے اُن چرچوں  اور چہ میگوئیوں  کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو قیامت کی خبر سُن کر مکّہ کے ہر کوچہ و بازار اور اہلِ مکہ کی ہر محفل میں  ہو رہی تھیں۔  اس کے بعد انکار کرنے والوں  سے پوچھا گیا ہے کہ کیا تمہیں  یہ زمین نظر نہیں  اتی جسے ہم نے تمہارے لیے فرش بنا رکھا ہے ؟ کیا یہ بلند و بالا پہاڑ تمہیں  نظر نہیں  آتے جنہیں  ہم نے زمین میں  گاڑ رکھا ہے ؟ کیا تم اپنے آپ کو نہیں   دیکھتے کہ کس طرح ہم نے تمہیں  مردوں  اور عورتوں  کے جوڑوں  کی شکل میں  پیدا کیا ہے ؟ کیا تم اپنی نیند کو نہیں  دیکھتے جس کے ذریعہ سے ہم نے تم کو دنیا میں  کام کرنے کے قابل بنائے رکھنے کے لیے ہر چند گھنٹوں  کی محنت کے بعد ہر چند گھنٹے آرام لینے پر مجبور کر رکھا ہے ؟ کیا تم رات اور دن کی آمد ورفت کو نہیں  دیکھتے جسے ٹھیک تمہاری ضرورت کے مطابق ہم باقاعدگی کے ساتھ مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں ؟ کیا تم اپنے اوپر آسمانوں  کے مضبوط بندھے ہوئے نظام کو نہیں  دیکھتے ؟ کیا یہ سُورج تمہیں  نظر نہیں  آتا جس کی بدولت تمہیں  روشنی اور حرارت میسر آ رہی ہے ؟ کیا تم اُن بارشوں  کو نہیں  دیکھتے جو بادلوں  سے برس رہی ہیں  اور اُن کے ذریعہ سے غلّے اور سبزیاں  اور گھنے باغ اگ رہے ہیں ؟ یہ ساری چیزیں  کیا  تمہیں  یہی بتا رہی ہیں  کہ جس قادرِ مطلق نے اِن کو پیدا کیا ہے اُس کی قدرت قیامت لانے  اور آخرت بر پا کرنے سے عاجز ہے ؟ اور  اِس پُورے کارخانے میں  جو کمال درجے کی حکمت و دانائی صریحاً کار فرما ہے کیا اس کو دیکھتے ہوئے تمہاری سمجھ میں  یہی آتا  ہے کہ اِس کارخانے کا  ایک ایک جُز اور ایک ایک فعل تو  با مقصد ہے مگر بجائے خود پُورا کارخانے بے مقصد ہے ؟ آخر اس سے زیادہ لغو اور بے معنی بات کیا ہو سکتی ہے کہ اس کارخانے میں  انسان کو پیش دست(Foreman ) کے منصب پر مامور کر کے اسے یہاں   بڑے وسیع اختیارات تو دے دیے جائیں  مگر جب وہ اپنا کام پورا کر کے یہاں  سے رخصت ہو تو اسے یونہی چھوڑ دیا جائے ؟ نہ کام بنا نے  پر  پنشن اور انعام،  نہ کام بگاڑنے پر باز پُرس  اور سزا؟

یہ دلائل دینے کے بعد پُورے زور کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ فیصلے  کا  دن یقیناً اپنے مقرر وقت پر آ کر رہے گا۔صُور میں  بس ایک پھُونک مارنے کی دیر ہے،  وہ سب کچھ جس کی تمہیں  خبر دی جا رہی ہے سامنے آ جائے گا اور تم آج چاہے مانو یا نہ مانو، اُس وقت جہاں  جہاں  بھی تم مرے پڑے ہو گے وہاں  سے فوج در فوج اپنا حساب دینے کے لیے نکل آؤ گے۔  تمہارا انکار اس  واقعہ کو پیش آنے سے نہیں  روک سکتا۔

اس کے بعد آیت ۲۱ سے ۳۰ تک بتا یا گیا ہے کہ جو لوگ حساب کتاب کی توقع نہیں  رکھتے اور جنہوں  نے ہماری آیات کو جھُٹلا دیا ہے،  ان کا ایک ایک کرتوت گن گن کر ہمارے ہاں  لکھا ہوا ہے،  اور ان کو خبر لینے کے لیے جہنم گھات لگائے ہوئے تیار ہے جہاں  ان کے اعمال کا بھر پور بدلہ انہیں  دے دیا جائے گا۔ پھر آیات ۳۱ سے ۳۲ تک ان لوگوں  کی بہترین جزا بتائی گئی ہے جنہوں  نے اپنے آپ کو ذمہ دار و جواب وہ سمجھ کر دنیا میں  اپنی آخرت درست کرنے کی پہلے ہی فکر کر لی ہے،  اور انہیں  اطمینان دلایا گیا ہے کہ انہیں   ان کی خدمات کا صرف اجر ہی نہیں  دیا جائے گا بلکہ اس سے زیادہ کافی انعام بھی دیا جائے گا۔

آخر میں  خدا کی عدالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ وہاں  کسی کے  اَڑ کر بیٹھ جانے اور اپنے تنوسلین کو بخشوا کر چھوڑ نے کا کیا سوال، کوئی بلا اجازت زبا ن تک نہ کھول سکے گا، اور اجازت بھی اس شرط کے ساتھ ملے گی کہ جس کے حق میں  سفارش کا اِذن ہو صرف اس کے لیے سفارش کرے اور سفارشی میں  کوئی بے جا بات نہ کہے۔  نیز سفارش کی اجازت صرف ان لوگوں  کے حق میں  دی جائے گی جو دنیا میں  کلمہ حق کے قائل رہے ہیں  اور محض گناہ گار ہیں۔  خدا کے باغی اور حق کے منکر کسی سفارشی کے مستحق نہ ہوں  گے۔

          پھر کلام کو اس تنبیہ پر ختم کیا گیا ہے کہ جس دن کے آنے کی خبر دی جا رہی ہے اس کا آنا بر حق ہے،  اسے دور نہ سمجھو، وہ قریب ہی آئے گا،  اب جس کا جی چاہے اسے مان کر اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔  لیکن اس تنبیہ  کے باوجود جو اس کا انکار کرے گا اس کا سارا کیا دھرا اس کے سامنے آ جائے گا اور پھر وہ پچھتا پچھتا کر کہے گا کہ کاش میں  دنیا میں  پیدا ہی نہ ہوتا اس وقت اس کا یہ احساس اس دنیا کے بارے میں  ہو گا جس پر وہ آج لٹو ہو رہا ہے۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
1 ہر گز نہیں،  2 عنقریب اِنہیں  معلوم ہو جائے گا۔ ہاں،  ہر گز نہیں،  عنقریب انہیں  معلوم ہو جائے گا۔ 3
کیا یہ واقعہ نہیں  ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا، 4 اور پہاڑوں  کو میخوں  کی طرح گاڑ دیا، 5 اور تمہیں (مَردوں  اور عورتوں  کے ) جوڑوں  کی شکل میں  پیدا کیا، 6 اور تمہاری نیند کو باعثِ سکون بنایا، 7 اور رات کو پردہ پوش  اور دن کو معاش کا وقت بنایا، 8 اور تمہارے اوپر سات مضبُوط آسمان قائم کیے،  9 اور ایک نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا، 10 اور بادلوں  سے لگاتار بارش برسائی تاکہ اس کے ذریعہ سے غلّہ اور سبزی اور گھنے باغ اُگائیں ؟ 11
بے شک فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے،  جس روز صور میں  پھُونک مار دی جائے گی، تم فوج در فوج نکل آؤ گے۔  12 اور آسمان کھول دیا جائے گا حتیٰ کہ وہ دروازے ہی دروازے بن کر رہ جائے گا، اور پہاڑ چلائے جائیں  گے یہاں  تک کہ وہ سراب ہو جائیں  گے۔  13
در حقیقت جہنّم ایک گھات ہے،  14 سرکشوں  کا ٹھکانا،  جس میں  وہ مُدّتوں  پڑے رہیں  گے۔  15 اُس کے اندر کسی ٹھنڈک اور پینے کے قابل کسی چیز کا مزہ وہ نہ چکھیں  گے،  کچھ ملے گا تو بس گرم پانی اور زخموں  کا دھوون، 16 (اُن کے کرتُوتوں )کا بھر پُور بدلہ۔ وہ کسی حساب کی توقع نہ رکھتے تھے اور ہماری آیات کو انہوں  نے بالکل جھُٹلا دیا تھا، 17 اور حال یہ تھا کہ ہم نے ہر چیز گِن گِن کر لکھ رکھی تھی۔ 18 اب چکھو مزہ، ہم تمہارے لیے عذاب کے سوا کسی چیز میں  ہر گز اضافہ نہ کریں  گے۔    ؏۱

 

1: بڑی خبر سے مراد قیامت اور آخرت کی خبر ہے جس کو اَہلِ مکہ آنکھیں  پھاڑ پھاڑ کر سنتے تھے،  پھر ہر محفل میں  اس پر طرح طرح کی چہ میگوئیاں  ہوتی تھیں۔  پُوچھ گچھ سے مُراد یہی چہ میگوئیاں  ہیں۔  لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے تھے تو کہتے تھے کہ بھائی، کبھی پہلے بھی تم  نے سُنا ہے کہ مر کے کوئی دوبارہ زندہ ہو گا؟ کیا یہ ماننے کے قابل بات ہے کہ گل سڑکر جو ہڈیاں  ریزہ ریزہ ہو چکی ہیں  ان میں  نئے سرے سے جان پڑے گی؟ کیا عقل میں  یہ بات سماتی ہے کہ اگلی پچھلی ساری نسلیں  اُٹھ کر ایک جگہ جمع ہوں  گی؟ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ بڑے بڑے جمے ہوئے پہاڑ ہوا میں  روئی  کے گالوں  کی طرح اُڑنے لگیں  گے ؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ چاند سورج اور تارے سب بُجھ کر رہ جائیں  اور دنیا کا یہ سارا جما جما یا نظام اُلٹ پلٹ ہو جائے ؟ یہ صاحب جو کل تک اچھے خاصے دانا آدمی تھے آج انہیں  یہ کیا ہو گیا ہے کہ ہمیں  ایسی عجیب اَنہونی خبریں  سُنارہے ہیں ۔  یہ جنّت  اور یہ دوزخ آخر پہلے کہاں  تھیں   جن کا ذکر ہم نے کبھی اِن کی زبان سے نہ سُنا تھا؟ اب یہ ایک دم کہاں  سے نکل آئی ہیں  کہ اِنہوں  نے اُن کو عجیب و غریب نقشے ہمارے سامنے کھینچنے شروع کر دیے ہیں ؟           ھُمْ فِیْہِ مُخْتَلِفُوْنَ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ’’وہ اس کے بارے میں  مختلف چہ میگوئیاں  کر رہے ہیں ‘‘، دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا کے انجام کے بارے میں  یہ لوگ خود بھی کوئی ایک متفق علیہ عقیدہ نہیں  رکھتے بلکہ’’ ان کے درمیان اس کے متعلق مختلف خیالات پائے جاتے ہیں ‘‘۔ اُن میں  سے کوئی عیسائیوں  کے خیالات سے متاثر تھا اور زندگی بعدِ موت کو مانتا تھا مگر یہ سمجھتا تھا کہ وہ دوسری زندگی جسمانی نہیں  بلکہ روحانی ہو گی۔کوئی آخرت کا قطعی مُنکر نہ تھا مگر اسے شک تھا کہ وہ ہو سکتی ہے یا نہیں ،  چنانچہ قرآن مجید ہی میں  اس خیال کے لوگوں  کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اِنْ نّظُنَّ اِلّا ظَنًّا وَّ مَا نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِیْنَ، ’’ہم تو بس ایک گمان سا رکھتے ہیں ،  یقین ہم کو نہیں  ہے ‘‘(الجاثیہ آیت۳۱)، اور کوئی بالکل صاف صاف کہتا تھا کہ اِنْ ھِیَ اِلَّا حَیَا تُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ، ’’جو کچھ بھی ہے بس ہماری یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم ہر گز مرنے کے بعد دوبارہ نہ اُٹھائے جائیں  گے ‘‘(الانعام۔آیت۲۹)۔ پھر کچھ لوگ ان میں  سے دہریے تھے اور کہتے تھے کہ مَا ھِیَ اِلَّا حَیَا تُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَ نَحْیَا وَمَا یھُْلِکْنَا اِلَّا الدَّھْرُ، ’’زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے،  یہیں  ہم مرتے اور جیتے ہیں  اور گردشِ ایام کے سوا کوئی چیز نہیں  جو ہمیں  ہلاک کر تی ہو‘‘(الجاثیہ۔۲۴)۔ اور کچھ دوسرے لوگ دہریے تو نہ تھے مگر دوسری زندگی کو نا ممکن قرار دیتے تھے،  یعنی ان کے نزدیک یہ خدا کی قدرت سے خارج تھا کہ وہ مرے ہوئے انسانوں  کو پھر سے زندہ کر سکے۔  ان کا قول تھا مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ، ’’کون اِن ہڈیوں  کو زندہ کر ے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہو چکی ہوں ؟‘‘(یٰس۔۷۸)۔ یہ اُن کے مختلف اقوال خود ہی اس بات کا ثبوت تھے کہ ان کے پاس اِس مسئلے میں  کوئی علم نہ تھا، بلکہ وہ محض گمان و قیاس کے تیر تُکّے چلا رہے تھے، ورنہ علم ہوتا تو سب کسی ایک بات کے قائل ہوتے (مزید تشریح  کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد پنجم، الذاریات، حاشیہ۶)۔

2: یعنی آخرت کے متعلق جو باتیں  یہ لوگ بنا رہے ہیں  سب غلط ہیں ۔  جو کچھ انہوں  سے سمجھ رکھا ہے وہ ہر گز صحیح نہیں  ہے۔

3: یعنی وہ وقت دُور نہیں  ہے جب وہی چیز حقیقت بن کر اِن کے سامنے آ جائے گی جس کے بارے میں  یہ فضول چہ میگوئیاں  کر رہے ہیں۔  اُس وقت انہیں  پتہ چل جائے گا کہ رسُول نے جو خبر ان کو دی تھی وہی صحیح تھی اور قیاس و گمان سے جو باتیں  یہ بنا رہے تھے ان کی کوئی حقیقت نہ تھی۔

4: زمین کو انسان کے لیے فرش، یعنی ایک پُرسکون قیام گاہ بنانے میں  قدرت و حکمت کے جو کمالات کار فرما ہیں  ان پر اس سے پہلے تفہیم القرآن متعدد مقامات پر تفصیلی روشنی ڈالی جا چکی ہے۔  مثال کے طور پر مقاماتِ ذیل ملاحظہ ہو: تفہیم القرآن، جلد سوم، النمل، حواشی۷۳۔۷۴۔۸۱۔ جلد چہارم، یٰس، حاشیہ۲۹۔المؤمن، حواشی۹۰۔۹۱۔ الزُّخْرُف، حاشیہ۷۔الجاثیہ، حاشیہ۷، جلد پنجم، ق، حاشیہ۱۸۔

5: زمین پر پہاڑ پیدا کرنے کی حکمتوں  کے متعلق ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، النحل، حاشیہ۱۲، جلد سوم، النمل، حاشیہ۷۴۔جلد ششم، المُرسلات، حاشیہ۱۵۔

6: انسان کو مردوں  اور عورتوں  کے جوڑوں  کی شکل میں  پیدا کرنا اپنے اندر جو عظیم حکمتیں  رکھتا ہے ان کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو  تفہیم القرآن، جلد سوم، الفرقان، حاشیہ۶۹، الروم، حواشی۲۸تا۳۰۔ جلد چہارم، یٰس، حاشیہ۳۱۔ الشُّوریٰ، حاشیہ۷۷۔ الزُّخْرُف، حاشیہ۱۲۔ جلد ششم، القیامہ، حاشیہ۲۵۔

7: انسان کو دنیا میں  کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس حکمت کے ساتھ اس کی فطرت میں  نیند کا ایک ایسا داعیہ رکھ دیا ہے جو ہر چند گھنٹوں  کی محنت کے بعد اسے چند گھنٹے سونے پر مجبُور کر دیتا ہے اس کی تشریح ہم تفہیم القرآن، جلد سوم۔ الروم، حاشیہ۳۳ میں  کر چکے ہیں۔

 8: یعنی رات کو اِس غرض کے لیے تاریک بنا دیا کہ اس میں  تم روشنی سے محفوظ رہ کر زیادہ آسانی کے ساتھ نیند کا سکون حاصل کر سکو، اور دن کو اِس مقصد سے روشن بنا یا کہ اس میں  تم زیادہ سہولت کے ساتھ اپنی معاش کے لیے کام کر سکو، زمین پر با قاعدگی کے ساتھ مسلسل رات اور دن کا اُلٹ پھیر کرتے رہنے کے لیے بے شمار فوائد میں  سے صرف اِس ایک فائدے کی طرف اشارہ یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ بے مقصد،  یا اتفاقاً نہیں  ہو رہا ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک بڑی حکمت کام کر رہی ہے جس کا براہ راست تمہارے اپنے مفاد سے گہرا تعلق ہے۔  تمہارے وجود کی ساخت اپنے سکون و راحت کے لیے جس تاریکی کی طالب تھی وہ رات کو،  اور اپنی معیشت کے لیے جس روشنی کی طالب تھی وہ دن کو مہیّا کی گئی ہے۔  تمہاری ضروریات کے عین مطابق یہ انتظام خود اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ کسی حکیم کی حکمت کے بغیر نہیں  ہوا ہے۔  (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، یونس، حاشیہ۶۵۔جلد چہارم، یٰس، حاشیہ۳۲۔المومن، حاشیہ۸۵۔الزُخْرُف، حاشیہ۴)۔

9: مضبوط کا لفظ اِس معنی میں  استعمال کیا گیا ہے کہ اُن کی سرحدیں  اتنی مستحکم ہیں  کہ ان میں  ذرہ برابر تغیّر و تبدل نہیں  ہونے پاتا اور ان سرحدوں  کو پار کر کے عالمِ بالا کے بے شمار ستاروں  اور سیاروں  میں  سے کوئی نہ ایک دوسرے سے ٹکراتا ہے نہ تمہاری زمین پر آ گرتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ۳۴۔جلد دو۔، الرعد، حاشیہ۲۔۱۔الحجر، حواشی۱۲، ۸۔جلد سوم، المومنون، حاشیہ۱۵۔جلد چہارم، لقمان، حاشیہ۱۳۔یٰس، حاشیہ۳۷۔الصّافّات، حواشی۵۔۶۔المومن، حاشیہ۹۰۔جلد پنجم، ق، حواشی۷۔۸)۔

10: مُراد ہے سورج۔ اصل میں  لفظ وَھَّاج استعمال ہوا ہے جس کے معنی نہایت گرم کے بھی ہیں  اور نہایت روشن کے بھی، اس لیے ترجمہ میں  ہم نے دونوں  معنی درج کر دیے ہیں۔  اس مختصر سے فقرے میں  اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے جس عظیم الشان نشان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اُس کا قُطر زمین کے قُطر سے ۱۰۹ گنا اور اس کا حجم زمین کے حجم سے ۳لاکھ۳۳ ہزار گنا زیادہ بڑا ہے۔  س کا درجہ حرارت ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈگری سنٹی گریڈ ہے۔  زمین سے ۹ کروڑ ۳۰ لاکھ میل دُور ہونے کے باوجود اُس کی روشنی کا یہ حال ہے کہ انسان اگر برہنہ آنکھ سے اس کی طرف نظر جمانے کی کوشش کرتے تو اپنی بینائی کھو بیٹھے،  اور اس کی گرمی کا حال یہ ہے کہ زمین کے بعض حصوں  میں  اس کی تپش  کی وجہ سے درجہ حرارت ۱۴۰ ڈگری فارن ہائٹ تک پہنچ جاتا ہے۔  یہ اللہ ہی کی حکمت ہے کہ اس نے زمین کو اُس سے ٹھیک ایسے فاصلے پر رکھا ہے کہ نہ اُس سے بہت قریب ہونے کے باعث یہ بے انتہا گرم ہے اور نہ بہت دُور ہونے کے باعث بے انتہا سرد، اسی وجہ سے یہاں  انسان، حیوان اور نباتات کی زندگی ممکن ہوئی ہے۔  اُسی سے قوّت کے بے حساب خزانے نکل کر زمین پر پہنچ رہے ہیں  جو ہمارے لیے سببِ حیات بنے ہوئے ہیں۔  اُسی سے ہماری فصلیں  پک رہی ہیں  اور ہر مخلوق کو غذا بہم پہنچ رہی ہے۔  اُسی کی حرارت سمندروں  کے پانی کو گرم کر کے وہ بھاپیں  اُٹھاتی ہے جو ہواؤں  کے ذریعہ سے  زمین کے مختلف حصوں  پر پھیلتی اور بارش کی شکل میں  برستی ہیں۔  اس سُورج میں  اللہ نے ایسی زبردست بھٹی سُلگا رکھی ہے جو اربوں  سال سے روشنی،  حرارت اور مختلف اقسام کی شعاعیں  سارے نظامِ شمسی میں  پھینکے چل رہی ہے۔

 11:  زمین پر بارش کے انتظام اور نباتات کی روئیدگی میں  اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کے جو جو حیرت انگیز کمالات کار فرما ہیں  ان پر تفصیل کے ساتھ تفہیم القرآن کے حسبِ ذیل مقامات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ : جلد دوم، النحل، حاشیہ۵۳الف۔جلد سوم، المومنون، حاشیہ۱۱۷۔الشعراء، حاشیہ۵۔الروم، حاشیہ۳۵۔جلد چہارم، فاطر، حاشیہ۱۹۔یٰس، حاشیہ۲۹۔ المومن، حاشیہ۲۰۔الزُّخرف، حواشی۱۰۔ ۱۱۔جلد پنجم، الواقعہ، حواشی۲۸تا۳۰۔           اِن آیات میں  پے درپے بہت آثار و شواہد کو پیش کر کے قیامت اور آخرت کے منکرین کو یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم آنکھیں  کھول کر زمین اور پہاڑوں  اور خود اپنی پیدائش اور اپنی نیند اور بیداری اور روز و شب کے اِس انتظام کو دیکھو، کائنات کے بندھے ہوئے نظام اور آسمان کے چمکتے ہوئے سورج کو دیکھو، بادلوں  سے برسنے والی بارش اور اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھو، تو تمہیں  دو باتیں  ان میں  نمایاں  نظر آئے گی۔ ایک یہ کہ یہ سب کچھ ایک زبردست قدرت کے بغیر نہ وجود میں  آ سکتا ہے،  نہ اِس باقاعدگی کے ساتھ جاری رہ سکتا ہے۔  دوسرے یہ کہ ان میں  سے ہر چیز کے اندر ایک عظیم حکمت کام کر رہی ہے اور کوئی کام بھی بے مقصد نہیں  ہو رہا ہے۔  اب یہ بات صرف ایک نادان ہی کہہ سکتا  ہے کہ جو قدرت اِن ساری چیزوں  کو وجود میں  لانے پر قادر ہے وہ انہیں  فنا کر دینے اور دوبارہ اور کسی صورت میں  پیدا کر دینے پر قادر نہیں  ہے۔  اور یہ بات بھی صرف ایک بے عقل  ہی کہہ سکتا ہے کہ جس حکیم نے اس کائنات میں  کوئی کام بھی بے مقصد نہیں  کیا ہے اس نے اپنی دنیا میں  انسان کو سمجھ بوجھ،  خیر و شر کی تمیز، طاعت و عصیان کی آزادی، اور اپنی بے شمار مخلوقات پر تصرّف کے اختیارات بے مقصد ہی دے ڈالے ہیں،  انسان اُس کی دی ہوئی اِن چیزوں  کو اچھی طرح استعمال کر ے  یا بری طرح،  دونوں صورتوں  میں  اس کا کوئی تمیز نہیں  نکلتا،  کوئی بھلائیاں  کرتے کرتے مر جائے تو بھی مٹی میں  مل کر ختم ہو جائے گا اور بُرائیاں  کرتے  کرتے مر جائے تو بھی مٹی ہی میں  مل کر ختم ہو جائے گا، نہ بھلے کوا س کی بھلائی کا کوئی اجر ملے گا، نہ بُرے سے اس کی بُرائی پر کوئی باز پرس ہو گی۔ زندگی بعد موت اور قیامت و آخرت پر یہی دلائل ہیں  جو جگہ جگہ قرآن مجید میں  بیان کیے گئے ہیں۔  مثال کے طور پر حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں  :تفہیم القرآن، جلد دوم، الرعد، حاشیہ۷۔جلد سوم۔الحج، حاشیہ۹۔ الروم، حاشیہ۶۔جلد چہارم، سبا،  حواشی۱۰و۱۲۔ الصّافات، حواشی۸۔۹۔

12: اس سے مراد وہ آخری نفخِ صور ہے جس کا آوازہ بلند ہوتے ہی تمام مرے ہوئے انسان یکا یک جی اٹھیں  گے،  اور تم سے مراد صرف وہی لوگ نہیں  ہیں  جو اس وقت مخاطب تھے،  بلکہ وہ تمام انسان ہیں  جو آغاز  آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے ہیں (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہم القرآن، جلد دوم، ابراہیم، حاشیہ ۵۷۔جلد سوم، الحج، حاشیہ ۱۔ جلد چہارم، یٰس،  حواشی۴۶۔۴۷۔الزمر، حاشیہ۷۹)۔

13: اس مقام پر یہ بات ذہن میں  رہنی چاہیے کہ یہاں  بھی قرآن کے دوسرے بہت سی مقامات کی طرح قیامت کے مختلف مراحل کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا ہے۔  پہلی آیت میں  اس کیفیت کا ذکر ہے جو آخری نفخِ صور کے وقت پیش آئے گی،  اور بعد کی دو آیتوں  میں  وہ حالت بیان کی گئی ہے جو دوسرے نفخِ صور کے موقع پر رونما ہو گی۔ اس کی وضاحت ہم تفہیم القرآن، جلد ششم، تفسیر سورہ الحاقہ، حاشیہ۱۰۔میں  کر چکے ہیں۔  ’’آسمان کھول دیا جائے گا‘‘سے مراد یہ ہے کہ  عالمِ بالا میں  کوئی بندش اور رکاوٹ باقی نہ رہے گی  اور ہر طرف سے  ہر آفتِ سمادی اس طرح ٹوٹی پڑے ہو گی کہ معلوم ہو گا گویا اس کے آنے کے لیے سارے دروازے کھلے ہیں  اور اس کو روکنے کے لیے کوئی دروازہ بھی بند نہیں  رہا ہے۔  پہاڑوں  کے چلنے اور سراب بن کر رہ جانے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھتے دیکھتے پہاڑ اپنی جگہ سے اکھڑ کر اڑیں  گے اور پھر ریزہ ریزہ ہو کر اس طرح پھیل جائیں  گے کہ جہاں  پہلے کبھی پہاڑ تھے وہاں  ریت کے وسیع میدانوں  کے سوا اور کچھ نہ ہو گا۔  اسی کیفیت کو سورہ طٰہٰ میں  یوں  بیان کیا گیا ہے :’’یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں  کہ آخر اس دن یہ پہاڑ کہاں  چلے جائیں  گے ؟ اس سے کہو میرا رب ان کو دھول بنا کر اڑا دے گا اور زمین کو ایسا ہموار  چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں  تم کوئی بل اور سلوٹ تک نہ دیکھو گے ‘‘(آیت ۱۰۵تا۱۰۷ مع حاشیہ۸۳ )۔

14: گھات اس جگہ کو کہتے ہیں  جو شکار پھانسنے کے لیے بنائی جاتی ہے تا کہ وہ بے خبری کی حالت میں  آئے اور اچانک اس میں  پھنس جائے۔  جہنم کے لیے یہ لفظ اس لیے استعمال کی گیا ہے کہ خدا کے باغی اس سے بے خوف ہو کر دنیا میں  یہ سمجھتے ہوئے اچھل کود کرتے پھر رہے ہیں  کہ خدا کی خدائی ان کے لیے ایک کھلی  آماجگاہ ہے،  اور یہاں  کسی پکڑ کا خطرہ نہیں  ہے،  لیکن جہنم ان کے لیے ایک چھپی ہوئی گھات ہے جس میں  وہ یکایک پھنسیں  گے اور بس پھنس کر ہی  رہ جائیں  گے۔

15: ’’اصل میں  لفظ احقاب استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں  پے در پے آنے والے طویل زمانے،  ایسے مسلسل ادوار کے ایک دور ختم ہوتے ہی دوسرا دور شروع ہو جائے۔  اس لفظ سے بعض لوگوں  نے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ  جنت کی زندگی میں  تو ہمیشگی ہو گی مگر جہنم میں  ہمیشگی نہیں  ہو گی کیونکہ یہ مدتیں  خواہ کتنی ہی طویل ہوں،  بہر حال جب مدتوں  کا استعمال کیا گیا ہے تو اس سے یہی مقصود ہو تا ہے کہ  وہ لا متناہی نہ ہوں  گی بلکہ کبھی نہ کبھی جا کر ختم ہو جائیں  گی۔ لیکن یہ استدلال دو وجوہ سے غلط ہے۔  ایک یہ کہ عربی  لغت کے لحاظ سے  حقب کے لفظ ہی میں  یہ مفہوم شامل ہے کہ ایک حقب کے پیچھے دوسرا حقب ہو،  اس لیے ا حقاب لازما ایسے ادوار ہی کے لیے بولا جائے گا جو پے در پے ایک دوسرے کے بعد آتے  چلے جائیں  گے اور کوئی دور بھی ایسا نہ ہو جس کے پیچھے دوسرا دور نہ آئے۔  دوسرے یہ کہ کسی موضوع کے متعلق قرآن مجید کی کسی آیت میں  سے کوئی ایسا مفہوم لینا اصولا غلط ہے جو اسی موضوع  کے بارے میں  قرآن کے دوسرے بیانات سے متصادم ہوتا ہو۔ قرآن میں  ۳۴ مقامات پر  اہل جہنم کے لیے خلود(ہمیشگی )کا لفظ استعمال کیا گیا ہے،  تین جگہ صرف لفظ خُلُوْد ہی پر اکتفا نہیں  کیا گیا ہے بلکہ اس پر  ابداً(ہمیشہ ہمیشہ)کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے،  اور ایک جگہ صاف صاف ارشاد ہوا ہے کہ ’’وہ چاہیں  گے کہ جہنم سے نکل جائیں،  مگر وہ اس سے ہر گز نکلنے والے نہیں  ہیں  اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے ‘‘ (المائدہ، آیت۳۷)۔ایک دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کہ ’’اسی حالت میں  وہ ہمیشہ رہیں  گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہے الّا یہ کہ تیرا رب کچھ نہ چاہے ‘‘۔اور یہی بات اہلِ  جنت کے متعلق بھی فرمائی گئی ہے کہ ’’جنت میں  وہ ہمیشہ رہں ا گے جب تک زمین و آسمان قائم  ہیں   اِلّا یہ کہ  تیرا رب کچھ نہ چاہے ‘‘۔(ہود، آیات۱۰۷۔۱۰۸)۔ان تصریحات کے بعد لفظ احقاب کی بنیاد پر یہ کہنے کی آخر کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ جہنم میں  خدا کے باغیوں  کا قیام دائمی نہیں  ہو گا بلکہ کبھی نہ کبھی ختم ہو جائے گا؟

16: اصل میں  لفظ غَسّاق استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق پیپ، لہو، کچ لہو، اور آنکھوں  اور کھالوں  سے پینے والی اُن تمام رطوبتوں  پر ہوتا ہے جو شدید تعذیب کی وجہ سے بہ نکلتی ہوں۔  اس کے علاوہ یہ لفظ ایسی چیز کے لیے بھی بولا جاتا ہے جس میں  سخت تعفُّن اور سڑا ند ہو۔

17: یہ ہے وہ سبب جس کی بنا پر وہ جہنم کے اس خوفناک عذاب کے مستحق ہوں  گے۔  ایک یہ کہ دنیا میں  وہ یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتے رہے کہ کبھی وہ وقت آنا ہے جب انہیں  خدا کے سامنے حاضر ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعہ سے اُن کی ہدایت کے لیے جو آیات بھیجی تھیں  انہیں  ماننے سے انہوں  نے قطعی انکار کر دیا اور ان کو جھوٹ قرار دیا۔

18: یعنی اُن کے اقوال و افعال، ان کی حرکات و سکنات، حتیٰ کہ ان کی نیتوں  اور خیالات اور مقاصد تک کا مکمل ریکارڈ ہم تیار کرتے جا رہے تھے جس سے کوئی چیز چھوٹی ہوئی نہ تھی، اور وہ بے وقوف اِس سے بے خبر اپنی جگہ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ وہ کسی اندھیر نگری میں  جی رہے ہیں  جہاں  وہ اپنی مرضی اور خواہش سے جو کچھ چاہیں  کرتے رہیں ،  اُس کی باز پرس کرنے والا کوئی نہیں  ہے۔

 

 یقیناً متّقیوں  19 کے لیے کامرانی کا ایک مقام ہے،  باغ اور انگور، اور نوخیز ہم سن لڑکیاں،  20 اور چھلکتے ہوئے جام۔ وہاں  کوئی لغو اور جھُوٹی بات وہ نہ سُنیں  گے۔  21 جزا ء اور کافی انعام 22 تمہارے ربّ کی طرف سے،  اُس نہایت مہربان خدا کی طرف سے جو زمین اور آسمانوں  کا اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک ہے جس کے سامنے کسی کو بولنے کا یارا نہیں۔ 23
جس روز رُوح 24 اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہوں  گے،  کوئی نہ بولے گا سوائے اُس کے جسے رحمٰن اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے۔  25 وہ دن بر حق ہے،  اب جس کا جی چاہے اپنے ربّ کی طرف پلٹنے کا راستہ اختیار کر لے۔
ہم نے تم لوگوں  کو اُس عذاب سے ڈرا دیا ہے جو قریب آ لگا ہے۔  26 جس روز آدمی وہ سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں  نے آگے بھیجا ہے،  اور کافر پکار اُٹھے گا کہ کاش میں  خاک ہوتا۔ 27 ؏۲

 

19: یہاں  متقیوں  کا لفظ اُن لوگوں  کے مقابلے میں  استعمال کیا گیا ہے جو کسی حساب کی توقع نہ رکھتے تھے اور جنہوں  نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا تھا۔ اس لیے لا محالہ اس لفظ سے مراد وہ لوگ ہیں  جنہوں  نے اللہ کی آیات کو مانا اور دنیا میں  یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کی کہ اُنہیں  اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔

20: اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وہ آپس میں  ہم سن ہوں  گی، اور یہ بھی کہ وہ اُن لوگوں  کی ہم سن ہوں  گی جن کی زوجیت میں  وہ دی جائیں  گی۔ سُورہ ص، آیت ۵۲، اور سورہ واقعہ آیت۳۷ میں  بھی یہ مضمون گزر چکا ہے۔

21: قرآن مجید میں  متعدد مقامات پر اس بات کو جنت کی بڑی نعمتوں  میں  شمار کیا گیا ہے کہ آدمی کے کان وہاں  بیہودہ اور جھوٹی اور گندی باتیں  سننے سے محفوظ رہیں  گے۔  وہاں  کوئی یا وہ گوئی اور فضول گپ بازی نہ ہو گی، کوئی کسی سے نہ جھوٹ بولے گا نہ کسی کو جھٹلائے گا، دنیا میں  گالم گلوچ،  بہتان، اِفترا، تُہمت اور الزام تراشیوں  کا جو طوفان برپا ہے،  اس کا کوئی نام و نشان وہاں  نہ ہو گا(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، مریم حاشیہ۳۸۔جلد پنجم، الواقعہ، حواشی۱۳۔۱۴)۔

22: جزا کے بعد کافی انعام دینے کا ذکر یہ معنی رکھتا ہے کہ اُن کو صرف وہی جزا نہیں  دی جائے گی جس کے وہ اپنے نیک اعمال کی بنا پر مستحق ہوں  گے،  بلکہ اس پر مزید انعام اور کافی انعام بھی انہیں  دیا جائے گا۔ اس کے بر عکس اہلِ جہنم کے بارے میں  صرف اتنا فرمایا گیا ہے کہ انہیں  ان کے کرتوتوں  کا بھر پور بدلہ دے دیا جائے گا، یعنی نہ ان کے جرائم سے کم سزا دی جائے گی، نہ اس سے زیادہ۔ یہ بات قرآن مجید میں  بہت سے مقامات پر وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔  مثلاً یونس، آیات۲۶۔۲۷۔ النمل، آیات۸۹۔۹۰۔ القصص، آیت۸۴۔ سبا، آیات۳۳ تا۳۸۔المومن، آیت۴۰۔

23: یعنی میدانِ حشر میں  دربارِ الٰہی کے رُعب کا یہ عالم ہو گا کہ اہلِ زمین ہوں  یا اہلِ آسمان، کسی کی بھی یہ مجال نہ ہو گی کہ از خود اللہ تعالیٰ کے حضور زبان کھول سکے،  یا عدالت کے کام میں  مداخلت کر سکے۔

24: اہلِ تفسیر کی اکثریت کا خیال یہی ہے کہ اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں  اور ان کا جو بلند مرتبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں  ہے اس کی وجہ سے ملائکہ سے الگ ان کا ذکر کیا گیا ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ششم، المعارج، حاشیہ۳)۔

25: بولنے سے مراد شفاعت ہے،  اور فرمایا گیا ہے کہ وہ صرف دو شرطوں  کے ساتھ ممکن ہو گی۔ ایک شرط یہ کہ جس شخص کو جس گنہگار کے حق میں  شفاعت کی اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی صرف وہی شخص اُسی کے حق میں  شفاعت کر سکے گا۔ دوسری شرط یہ کہ شفاعت  کرنے والا بجا اور درست کہے،  بے جا نوعیت کی سفارش نہ کرے،  اور جس کے معاملہ میں  وہ سفارش کر رہا ہو وہ دنیا میں  کم از کم کلمہ حق کا قائل رہا ہو، یعنی محض گناہ کار ہو، کافر نہ ہو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول،  البقرہ، حاشیہ۲۸۱۔ جلد دوم، یونس، حاشیہ۵۔ہود، حاشیہ۱۰۶۔جلد سوم، مریم، حاشیہ۵۲۔طٰہٰ، حواشی۸۵۔۸۶۔الانبیاء، حاشیہ۲۷۔ جلد چہارم، سبا، حواشی۴۰۔۴۱۔ المومن، حاشیہ۳۲۔الزّخرف، حاشیہ۶۸۔جلد پنجم، النجم، حاشیہ۲۱۔جلد ششم، المدّثّر، حاشیہ۳۶)۔

26: بظاہر ایک آدمی یہ خیال کر سکتا ہے کہ جن لوگوں  کو خطاب کر  کے یہ بات کہی گئی تھی ان کو مرے ہوئے اب ۱۴ سو سال گزر چکے ہیں،  اور اب بھی یہ نہیں  کہا جا سکتا کہ قیامت آئندہ کتنے سو، یا کتنے ہزار،  یا کتنے لاکھ برس بعد آئے گی۔ پھر یہ بات کس معنی میں  کہی ی ہے کہ جس عذاب سے ڈرایا گیا ہے و ہ قریب آ لگا ہے ؟ اور سورہ کے آغاز میں  یہ کیسے کہا گیا ہے کہ عنقریب انہیں  معلوم ہو جائے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کو وقت کا احساس صرف اُسی وقت تک رہتا ہے جب تک وہ اِس دنیا میں  زمان و مکان کی حدود کے اندر جسمانی طور پر زندگی بسر کر رہا ہے۔  مرنے کے بعد جب صرف روح باقی رہ جائے گی، وقت کا احساس و شُعور باقی نہ رہے گا، اور قیامت کے روز جب انسان دوبارہ زندہ ہو کر اٹھے گا اس وقت اسے یوں  محسوس ہو گا کہ ابھی سوتے سوتے اسے کسی نے جگا دیا ہے۔  اس کو یہ احساس بالکل نہیں  ہو گا کہ وہ ہزار ہا سال کے بعد دوبارہ زندہ ہوا ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، النحل، حاشیہ۲۶۔بنی اسرائیل، حاشیہ۵۶۔جلد سوم، طٰہٰ، حاشیہ۸۰۔جلد چہارم، یٰس، حاشیہ۴۸)۔

27: یعنی دنیا میں پیدا ہی نہ ہوا ہوتا، یا مر کر مٹی میں مل جاتا اور دو بارہ زندہ ہو کر اٹھنے کی نوبت نہ آتی۔