تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الزُّمَر

نام

اس سورہ کا نام آیات نمبر ۷۱ و ۷۳ (وَسِیْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُ وْ آ اِلیٰ جَھَنَّمَ زُمَراً   اور وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْ ارَبَّھُمْ اِلَی ا لْجَنَّۃٍ زُمَراً ) سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورہ جس میں لفظ زمر آیا ہے۔ 

زمانۂ نزول

آیت نمبر ۱۰ (وَاَرْضُ اللہِ وَاسِعَۃٌ ) سے اس امر کی طرف صاف اشارہ نکلتا ہے کہ یہ سورۃ ہجرت حبشہ سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ بعض روایات میں یہ تصریح آئی ہے کہ اس آیت کا نزول حضرت جعفرؓ بن ابی طالب اور ان کے ساتھیوں کے حق میں ہوا تھا جبکہ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کا عزم کیا (روح المعانی، جلد ۲۳، صفحہ ۲۲۶)

موضوع اور مضمون

یہ پوری سورت ایک بہترین اور انتہائی مؤثر خطبہ ہے جو ہجرت حبشہ سے کچھ پہلے مکہ معظمہ کی ظلم و تشدد سے بھری ہوئی اور عناد و مخالفت سے لبریز فضا میں دیا گیا تھا۔ یہ ایک وعظ ہے جس کے مخاطب زیادہ تر کفارِ قریش ہیں،  اگر چہ کہیں کہیں اہل ایمان سے بھی خطاب کیا گیا ہے۔ اس میں دعوت محمدی کا اصل مقصود بتایا گیا ہے،   اور وہ یہ ہے کہ انسان خالص اللہ کی بندگی اختیار کرے اور کسی دوسرے کی طاعت و عبادت سے اپنی خدا پرستی کو آلودہ نہ کرے۔ اس اصل الاصول کو بار بار مختلف انداز سے پیش کرتے ہوئے نہایت زور دار طریقے پر توحید کی حقانیت اور اسے ماننے کے  عمدہ نتائج، اور شرک کی غلطی اور اس پر جمے رہنے کے بُرے نتائج کو واضح کیا گیا ہے،  اور لوگوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنی غلط روش سے باز آ کر اپنے رب کی رحمت کی طرف پلٹ آئیں۔ اسی سلسلے میں اہل ایمان کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اگر اللہ کی بندگی لے لیے ایک جگہ تنگ ہو گئی ہے تو اس کی زمین وسیع ہے،  اپنا دین بچانے کے لیے کسی اور طرف نکل کھڑے ہو، اللہ تمہارے صبر کا اجر دے گا۔ دوسرے طرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا گیا ہے کہ ان کفار کو اس طرف سے بالکل مایوس کر دو کہ ان کا ظلم و ستم کبھی تم کو اس راہ سے پھیر سکے گا اور ان سے صاف صاف کہہ دو کہ تم میرا راستہ روکنے کے لیے جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہو کر ڈالو، میں اپنا یہ کام جاری رکھوں گا۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
اس کتاب کا نزول اللہ زبردست اور دانا کی طرف سے ہے (۱)۔
(اے محمدؐ) یہ کتاب ہم نے تمہاری طرف بر حق نازل کی ہے (۲)، لہٰذا تم اللہ کی بندگی کرو دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے (۳)۔ خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے (۴)۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے اس کے سوا دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں (اور اپنے اس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ ) ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں (۵)، اللہ یقیناً ان کے درمیان ان تمام باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں (۶)۔ اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا  اور منکر حا ہو۔ (۷)
اگر اللہ کسی کو بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جسکو چاہتا برگزیدہ کر لیتا(۸)،  پاک ہے وہ اس سے (کہ کوئی اس کا بیٹا ہو)، وہ اللہ ہے اکیلا اور سب پر غالب(۹)۔ اس نے آسمانوں اور زمین کو بر حق پیدا کیا ہے (۱۰)۔ وہی دن پر رات اور رات  پر دن کو لپیٹتا ہے۔ اسی نے سورج اور چاند کو اس طرح مسخر کر رکھا ہے کہ ہر ایک ایک وقت مقرر تک چلے جا رہا ہے۔ جان رکھو، وہ زبردست ہے اور درگزر کرنے والا ہے (۱۱)۔ اسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر وہی ہے جس نے اس جان سے اس کا جوڑا بنایا(۱۲)۔ اور اسی نے تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نر و مادہ پیدا کیے (۱۳)۔ وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے (۱۴)۔ یہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں ) تمہارا رب ہے (۱۵)، بادشاہی اسی کی ہے (۱۶)، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے (۱۷)، پھر تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو؟ (۱۸)۔
اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے (۱۹)، لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا(۲۰)، اور اگر تم شکر کر و تو اسے وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے (۲۱)۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا (۲۲)۔ آخر کار تم سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے،  پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو، وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے۔
انسان پر جب کوئی آفت آتی ہے (۲۳)تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اسے پکارتا ہے (۲۴)۔ پھر جب اس کا رب اسے اپنی نعمت سے نواز دیتا ہے تو وہ اس مصیبت کو بھول جاتا ہے جس پر وہ پہے پکار رہا تھا(۲۵)۔ اور دوسروں کو اللہ کا ہمسر ٹھیراتا ہے (۲۶) تاکہ اس کی راہ سے گمراہ کرے (۲۷)۔ (اے نبیؐ) اس سے کہو کہ تھوڑے دن اپنے کفر سے لطف اٹھا لے،  یقیناً تو دوزخ میں جانے والا ہے۔ (کیا اس شخص کی روش بہتر ہے یا اس شخص کی) جو مطیع فرمان ہے،  رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا اور سجدے کرتا ہے،  آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت سے امید لگاتا ہے ؟ ان سے پوچھو، کیا جاننے والے  اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں ؟(۲۸) نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں۔ ع

 

۱۔ یہ اس سورہ کی مختصر تمہید ہے جس میں بس یہ  بتانے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا کلام نہیں ہے،  جیسا کہ منکرین کہتے ہیں،  بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس نے خود نازل فرمایا ہے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا ذکر کر کے سامعین کو دو حقیقتوں پر متنبہ کیا گیا ہے تاکہ وہ اس کلام کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھیں بلکہ اس کی اہمیت محسوس کریں۔ ایک یہ کہ جس خدا نے اسے نازل کیا ہے وہ عزیز ہے،  یعنی ایسا زبردست ہے کہ اس کے ارادوں اور فیصلوں کو نافذ ہونے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی اور کسی کی یہ مجال نہیں ہے کہ اس کے مقابلہ میں ذرہ برابر بھی مزاحمت کر سکے۔ دوسرے یہ کہ وہ حکیم ہے،  یعنی جو ہدایت وہ اس کتاب میں دے رہا ہے وہ سراسر دانائی پر مبنی ہے اور صرف ایک جاہل و نادان آدمی ہی اس سے منہ موڑ سکتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، السجدہ، حاشیہ نمبر ۱۔ )

۲۔ یعنی اس میں جو کچھ ہے حق اور سچائی ہے،  باطل کی کوئی آمیزش اس میں نہیں ہے۔

۳۔ یہ ایک نہایت اہم آیت ہے جس میں دعوت اسلام کے اصل مقصود کو بیان کیا گیا ہے،  اس لیے اس پر سے سرسری طور پر نہ گزر جانا چاہیے،  بلکہ اس کے مفہوم و مدعا کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے بنیادی نکات دو ہیں جنہیں سمجھے بغیر آیت کا مطلب نہیں سمجھا سکتا۔ ایک یہ کہ مطالبہ اللہ کی عبادت کرنے کا ہے۔ دوسرے یہ کہ ایسی عبادت کا مطالبہ ہے جو دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے کی جائے۔

عبادت کا مادہ عبد ہے۔ اور یہ لفظ ’’ آزاد‘‘ کے مقابلے میں ’’ غلام ‘‘ اور ’’مملوک‘‘ کے لیے عربی زبان میں مستعمل ہوتا ہے۔  اسی معنی کے لحاظ سے ’’عبادت ‘‘ میں دو مفہوم پیدا ہوئے ہیں۔ ایک پوجا اور پرستش، جیسا کہ عربی زبان کی مشہور و مستند لغت ’’ لسان العرب‘‘ میں ہے،  عَبَدَ اللہ، تَألَّہٗ لَہٗ۔ وَ التَّعَبُّدُ، التَّنَسُّکُ۔ دوسرے،  عاجزنہا طاعت اور برضا و رغبت فرمانبرداری، جیسا کہ لسان العرب میں ہے،  العبادۃ، الطاعۃ۔ و معنی العبادۃ فی للغۃ الطاعۃ مع الخضوع۔  وَکل من دان الملک فھر عبدٌ لِہٗ (وَقَوْمُھُمَا لَنَا عَا بِدُوْنَ)۔ والعابد، الخاضع لربہ المستسلم المنقاد لامرہ۔ عبد الطاغوت، اطاعَہ یعنی الشیطان فیما سَوَّل لہ واغواہ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ، ای نطیع الطاعۃ التی یخضع معھا۔ اُعْبُدُوْارَبَّکُمْ، اطیعواربَّکم۔ پس لغت کی ان مستند تشریحات کے مطابق مطالبہ صرف اللہ تعالیٰ کی پونا اور پرستش ہی ک نہیں ہے بلکہ اس کے احکام کی بے چون و چرا اطاعت، اور اس کے قانونِ شرعی کی برضا و رغبت پیروی، اور کے امر و نہی کی دل و جان سے فرمانبرداری کا بھی ہے۔

دین کا لفظ عربی زبان میں متعدد  مفہومات کا حمل ہے :

ایک مفہوم ہے غلبہ و اقتدار، مالکانہ اور حاکمانہ تصرُف، سیاست و فرمانروائی اور دوسروں پر فیصلہ نافذ کرنا۔ چنانچہ لسان العرب میں ہے وَ انْ النَّا سَ، ای قھرھم علی اطاعۃ۔ دِنْتُھم، ای قَھر تُھم۔ دِنتُہٗ  سُسْتُہٗ  سملکتُہٗ۔ وفی الحدیث الکَیِّس من داننفسہٗ، ای اذلَّھا و استعبدھا۔ الدَّ یَّان، القاضی، الحَکَم، القھّار۔ ولا انت دیَا نی، ای لستَ بقا ھر لی فَتَسُوس امری۔ مَاکَا نَ لِیَأ خُذَ اَخَا ہُ فِیْ دِینِ الْمَلِکِ، ای فی قضاء الملک۔

دوسرا مفہوم ہے اطاعت، فرمانبرداری اور غلامی۔ لسان العرب میں ہے الدین، اطاعۃ۔ دِنْتُہٗ  و دِنْتُ لَہٗ  ای اطعتُہٗ۔ ولدین للہ، انماھو طاعتہٗ ولاتعبد لہٗ۔ فی الحدیث اُریدُ من قریشٍ کلمۃ تَدِین لھمْ بھَا العرت،  ای تطیعھم و تخضع لھم۔ ثم دانت بعد الرباب، ای ذلّت لہ و اطاعَتْہُ۔ یمرقون من الدین، ای انھم یخرجون من طاعۃ الامام المفترض اطاعۃ۔ المدین، العبد۔ فَلَوْ لَا اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ، ای غیر مملوکین۔

تیسرا مفہوم ہے وہ عادت اور طریقہ جس کی انسان پیروی کرے۔ لسان العرب میں ہے الدین، العادۃ و الشأن۔ یقال مازال ذٰلک دینی و دیدَنی، ای عادتی۔

ان تینوں مفہومات کو ملحوظ رکھتے ہوئے دین کے معنی اِس آیت میں اُس ’’ طرز عمل اور اس رویّے کے ہیں جو کسی کی بالاتری تسلیم اور کسی کی اطاعت قبول کر کے انسان اختیار کرے۔ ‘‘ اور دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی بندگی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ’’ آدمی اللہ کی بندگی کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی شامل نہ کرے،  بلکہ اسی کی پرستش، اسی کی ہدایت کاس اتباع اور اسی کے احکام و اوامر کی اطاعت کرے ‘‘۔

۴۔ یہ امر واقعہ اور ایک حقیقت ہے جسے اوپر کے مطالبے کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے لیے دین کو خالص کر کے اُس کی بندگی تم کو کرنی چاہیے کیونکہ خالص اور بے آمیز اطاعت و بندگی اللہ کا حق ہے۔ دوسرے الفاظ میں،  بندگی کا مستحق کو ئی دوسرا ہے ہی نہیں کہ اللہ کے ساتھ اُس کی بھی پرستش اور اُس کے احکام و قوانین کی بھی اطاعت کی جائے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کی خالص اور بے آمیز بندگی کرتا ہے تو غلط کرتا ہے۔ اور اسی طرح اگر وہ اللہ کی بندگی کے ساتھ بندگیٔ غیر کی آمیزش کرتا ہے تو یہ بھی حق کے سراسر خلاف ہے۔ اس آیت کی بہترین تشریح وہ حدیث ہے جو ابن مَر دُوْیہ  نے یزید الرّقاشی سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا، ہم اپنا مال دیتے ہیں اس لیے کہ ہمارا نام بلند ہو، کیا اس پر ہمیں کوئی اجر ملے گا؟ حضورؐ نے فرمایا نہیں۔ اس نے پوچھا اگر اللہ کے اجر اور دنیا کی ناموری دونوں کی نیت ہو؟ آپ نے فرمایا  اناللہ تعالیٰ لا یقبل الّا من اخلص لہٗ، اللہ تعالیٰ کوئی عمل بھی قبول کرتا جب تک وہ خالص اسی کے لیے نہ ہو۔ ‘‘ اس کے بعد حضورؐ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔

۵۔ کفار مکہ کہتے تھے،  اور بالعموم دنیا بھی کے مشرکین یہی کہتے ہیں کہ ہم دوسرے ہستیوں کی عبادت اُن کو خالق سمجھتے ہوئے نہیں کرتے۔ خالق تو ہم اللہ ہی کو مانتے ہیں اور اصل معبود اسی کو سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کی بارگاہ بہت اونچی ہے جس تک ہماری رسائی بھلا کہاں ہو سکتی ہے۔ اس لیے ہم ان بزرگ ہستیوں کو ذریعہ بناتے ہیں تاکہ یہ ہماری دعائیں اور التجائیں اللہ تک پہنچا دیں۔

۶۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اتفاق و اتحاد صرف توحید ہی میں ممکن ہے۔ شرک میں کوئی اتفاق نہیں ہو سکتا۔ دنیا کے مشرکین کبھی اس پر متفق نہیں ہوئے ہیں کہ اللہ کے ہا ں رسائی کا ذریعہ آخر کون سی ہستیاں ہیں۔ کسی کے نزدیک کچھ دیوتا اور دیویاں اس کا ذریعہ ہیں اور ان کے درمیان بھی سب دیوتاؤں  اور دیویوں پر اتفاق نہیں ہے۔ کسی کے نزدیک چاند، سورج، مریخ، مشتری اس کا ذریعہ ہیں اور وہ بھی آپس میں اس پر متفق نہیں کہ ان میں سے کس کا کیا مرتبہ ہے اور کون اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ کسی کے  نزدیک وفات یافتہ بزرگ ہستیاں اس کا ذریعہ ہیں اور ان کے درمیان بھی بے شمار اختلافات ہیں۔ کوئی کسی بزرگ کو مان رہا ہے اور کوئی کسی اور کو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مختلف ہستیوں کے بارے میں یہ گمان نہ تو کسی علم پر مبنی ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کبھی کوئی ایسی فہرست آئی ہے کہ فلاں فلاں اشخاص ہیں،  لہٰذا ہم تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تم ان کو ذریعہ بناؤ۔ یہ تو ایک ایسا عقیدہ ہے جو محض وہم اور اندھی  عقیدت اور اسلاف کی بے سوچے سمجھے تقلید سے لوگوں میں پھیل گیا ہے۔ اس لیے لامحالہ اس میں اختلاف تو ہونا ہی ہے۔

۷۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے دو الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ایک کاذب دوسرے کفار۔ کاذب ان کو اس لیے فرمایا گیا کہ انہوں نے اپنی طرف سے جھوٹ موٹ یہ عقیدہ گھڑ لیا ہے اور پھر یہی جھوٹ وہ دوسروں میں پھیلاتے ہیں۔ رہا کفار، تو اس کے دو معنی ہیں۔ ایک سخت منکر حق، یعنی توحید کی تعلیم سامنے آ جانے کے بعد بھی یہ لوگ اس غلط عقیدے پر مصر ہیں۔ دوسرے،  کافر نعمت، یعنی نعمتیں تو یہ لوگ اللہ سے پا رہے ہیں اور شکریے اُن ہستیوں کے ادا کر رہے ہیں جن کے متعلق انہوں نے اپنی جگہ یہ فرض کر لیا ہے کہ یہ نعمتیں ان کی مداخلت کے سبب سے مل رہی ہیں۔

۸۔ یعنی اللہ کا بیٹا ہونا تو سرے سے ہی ناممکن ہے۔ ممکن اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ کسی اللہ برگزیدہ کر لے۔ اور برگزیدہ بھی جس کو وہ کرے گا، لامحالہ وہ مخلوق ہی میں سے کوئی ہو گا، کیونکہ اللہ کے سوا دنیا میں جو کچھ بھی ہے وہ مخلوق ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ مخلوق خواہ کتنی ہی برگزیدہ ہو جائے،  اولاد کی حیثیت اختیار نہیں کر سکتی، کیونکہ خالق اور مخلوق میں عظیم الشان جوہری فرق ہے،  اور ولدیت لازماً والد اور اولاد میں جوہری اتحاد  کی مقتضی ہے۔

اس کے ساتھ یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ’’ اگر اللہ کسی کو بیٹا بنانا چاہتا تو ایسا کرتا ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اللہ نے ایسا کرنا کبھی نہیں چاہا۔ اس طرز بیان سے یہ بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ کسی کو بیٹا بنا لینا تو درکنار، اللہ نے تو ایسا کرنے کا کبھی ارادہ بھی نہیں کیا ہے۔

۹۔ یہ دلائل ہیں جن سے عقیدہ ولدیت کی تردید کی گئی ہے۔

پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص اور عیب اور کمزوری سے پاک ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اولاد کی ضرورت ناقص و کمزور کو ہوا کرتی ہے۔ جو شخص فانی ہوتا ہے وہی اس کا محتاج ہوتا ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہوتا کہ اس کی نسل اور نوع باقی رہے۔ اور کسی کو متبنّیٰ بھی وہی شخص بناتا ہے جو یا تو لا وارث ہونے کی وجہ سے کسی کو وارث بنانے کی حاجت محسوس کرتا ہے،  یا محبت کے جذبے سے مغلوب ہو کر کسی کو بیٹا بنا لیتا ہے۔ یہ انسانی کمزوریاں اللہ کی طرف منسوب کرنا اور ان کی بنا پر مذہبی عقیدے بنا لینا جہالت اور کم نگاہی کے سوا اور کیا ہے۔

دوسری دلیل یہ ہے وہ اکیلا اپنی ذات میں واحد ہے،  کسی جنس کا فرد نہیں ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اولاد لازماً ہم جنس ہوا کرتی ہے۔ نیز اولاد کا کوئی تصور ازدواج کے بغیر نہیں ہو سکتا، اور ازدواج بھی ہم جنس سے ہی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا وہ شخص جاہل و نادان ہے جو اس یکتا و یگانہ ہستی کے لیے اولاد تجویز کرتا ہے۔

تیسری دلیل یہ ہے کہ وہ قہار ہے۔ یعنی دنیا میں جو چیز بھی ہے اس سے مغلوب اور اس کی قاہرانہ گرفت میں  جکڑی ہوئی ہے۔ اس کائنات میں کوئی کسی درجے میں بھی اس سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا جس کی بنا پر اس کے متعلق یہ گمان کیا جا سکتا ہو کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا کوئی رشتہ ہے۔

۱۰۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم صفحہ ۴۷۹ و ۵۲۵ جلد سوم، ص ۷۰۳۔

۱۱ یعنی زبردست ایسا ہے کہ اگر وہ تمہیں عذاب دینا چاہے تو کوئی طاقت اس کی مزاحمت نہیں کر سکتی۔ مگر یہ اس کا کرم ہے کہ تم یہ کچھ گستاخیاں کر رہے ہو اور اور پھر بھی وہ تم کو فوراً پکڑ نہیں لیتا بلکہ مہلت  پر مہلت دیے جاتا ہے۔ اس مقام پر عقوبت میں تعجیل نہ کرنے اور مہلت دینے کو مغفرت (درگزر) سے تعبیر کیا گیا ہے۔

۱۲۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے حضرت آدم سے انسانوں کو پیدا کر دیا اور پھر ان کی بیوی حضرت حوّا کو پیدا کیا۔ بلکہ یہاں کلام میں ترتیبِ زمان کے بجائے ترتیبِ بیان ہے جس کی مثالیں ہر زبان میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً ہم کہتے ہیں تم نے آج جو کچھ کیا وہ مجھ معلوم ہے،  پھر جو کچھ تم کل کر چکے ہو اس سے بھی میں باخبر ہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ کل کا واقعہ آج کے بعد ہوا ہے۔

۱۳۔ مویشی سے مراد ہیں اُونٹ، گائے،  بھیڑ اور بکری۔ ان کے چار نر اور چار مادہ مل کر آٹھ نر و مادہ ہوتے ہیں۔

۱۴۔ تین پردوں سے مراد ہے پیٹ، رحم اور مَشِیْمَہ (وہ جھلّی جس میں بچہ لپٹا ہوا ہوتا ہے )۔

۱۵۔ یعنی مالک، حاکم اور پروردگار۔

۱۶۔ یعنی تمام اختیارات کا مالک وہی ہے اور ساری کائنات میں اسی کا حکم چل رہا ہے۔

۱۷۔ دوسرے الفاظ میں استدلال یہ ہے کہ جب وہی تمہارا رب ہے اور اسی کی ساری بادشاہی ہے تو پھر لازماً تمہارا اِلٰہ (معبود) بھی وہی ہے۔ دوسرا کوئی اِلٰہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ نہ پروردگاری میں اس کا کوئی حصّہ نہ بادشاہی میں اس کا کوئ دخل۔ آخر تمہاری عقل میں یہ بات کیسے سماتی ہے کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا تو ہو اللہ۔ سورج اور چاند کو مسخّر کرنے والا اور رات کے بعد دن اور دن کے بعد  رات لانے والا بھی ہو اللہ۔ تمہارا اپنا اور تمام حیوانات کا خالق و رب بھی ہو اللہ۔ اور تمہارے معبود بن جائیں اس کے سوا دوسرے۔

۱۸۔ یہ الفاظ قابلِ غور ہیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ تم کدھر پھرے  جا رہے ہو۔ ارشاد یہ ہوا ہے کہ تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو۔ یعنی کوئی دوسرا ہے جو تم کو اُلٹی پٹی پڑھا رہا ہے اور تم اس کے بہکائے میں آ کر ایسی سیدھی سی عقل کی بات بھی نہیں سمجھ رہے ہو۔ دوسری بات جو اس اندازِ بیان سے خود مترشح ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ تم کا خطاب پھرانے والوں سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے ہے جو ان کے اثر میں آ کر پھر رہے تھے۔ اس میں ایک لطیف مضمون ہے جو ذرا سے غور فکر سے بآسانی سمجھ میں آجاتا ہے۔ پھرانے والے اسی معاشرے میں سب کے سامنے موجود تھے اور ہر طرف اپنا کام علانیہ کر رہے تھے،  اس لیے ان کا نام لینے کی حاجت نہ تھی۔ ان کو خطاب کرنا بھی بیکار تھا، کیونکہ وہ اپنی اغراض کے لیے لوگوں کو خدائے واحد کی بندگی سے پھیرنے اور دوسروں کی بندگی میں پھانسنے اور پھانسے رکھنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ ایسے لوگ ظاہر ہے کہ سمجھانے سے سمجھنے والے نہ تھے،  کیونکہ نہ سمجھنے ہی سے ان کا مفاد وابستہ تھا، اور سمجھنے کے بعد بھی وہ اپنے مفاد کو قربان کرنے کے لیے مشکل ہی سے تیار ہو سکتے تھے۔ البتہ رحم کے قابل ان عوام کی حالت تھی جو ان کے چکمے میں آ رہے تھے۔ اُن کی کوئی غرض اس کاروبار سے وابستہ نہ تھی، اس لیے وہ سمجھانے سے سمجھ سکتے تھے۔ اور ذرا سی آنکھیں کھُل جانے کے بعد وہ یہ بھی دیکھ سکتے تھے کہ جو لوگ انہیں خدا کے آستانے سے ہٹا کر دوسرے آستانوں کا راستہ دکھاتے ہیں وہ اپنے اس کاروبار کا فائدہ کیا اُٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گمراہ کرنے والے چند آدمیوں سے رُخ پھیر کر گمراہ ہونے والے عوام کو مخاطب کیا جا رہا ہے۔

۱۹۔ یعنی تمہارے کفر سے اس کی خدائی ذرا برابر بھی کمی نہیں آ سکتی۔ تم مانو گے تب بھی وہ خدا ہے،  اور نہ مانو گے تب بھی وہ خدا ہے اور رہے گا۔ اس کی فرمانروائی اپنے زور پر چل رہی ہے،  تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا عبادی لو ان اول کم و اٰخر کم و انسکم و جنکم کا نو اعلیٰ افجر قلب رجل منکم ما نقص من ملکی شیئاً۔  اے میرے بندو، اگر تم سب کے سب اگلے اور پچھلے انسان اور جِن اپنے میں سے کسی فاجر سے فاجر شخص کے دل کی طرح ہو جاؤ تب بھی میری بادشاہی میں کچھ بھی کمی نہ ہو گی۔ ‘‘ (مسلم)

۲۰۔ یعنی وہ اپنے کسی مفاد کی خاطر نہیں بلکہ خود بندوں کے مفاد کی خاطر یہ پسند نہیں کرتا کہ ہو کفر کریں،  کیونکہ کفر خود انہی کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور چیز ہے اور رضا دوسری چیز۔ دنیا میں کوئی کام بھی اللہ کی مشیت کے خلاف نہیں ہو سکتا، مگر اس کی رضا کے خلاف بہت سے کام ہو سکتے ہیں اور رات دن ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً دنیا میں جباروں اور ظالموں کا حکمراں ہونا، چوروں اور ڈاکوؤں کا پایا جانا، قاتلوں اور زانیوں کا موجود ہونا اسی لیے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بنائے ہوئے نظام قدرت میں ان برائیوں کے ظہور اور ان اشرار کے وجود کی گنجائش رکھی ہے۔ پھر ان کو بدی کے ارتکاب کے مواقع بھی دیتا ہے اور اسی طرح دیتا ہے جس طرح نیکوں کو نیکی کے موقع دیتا ہے۔ اگر وہ سرے سے ان کاموں کی گنجائش ہی نہ رکھتا اور ان کے کرنے والوں کو مواقع ہی نہ دیتا تو دنیا میں کبھی کوئی برائی ظاہر نہ ہوتی۔ یہ سب کچھ بر بنائے مشیت ہے۔ لیکن مشیت کے تحت کسی فعل کا صدور یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ کی رضا بھی اس کو حاصل ہے۔ مثال کے طور پر اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص اگر حرام خوری ہی کے ذریعہ سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ اسی ذریعہ سے اس کو رزق دے دیتا ہے۔ یہ ہے اس کی مشیت۔ مگر مشیت کے تحت چور یا ڈاکو یا رشوت خوار کو رزق دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چوری، ڈاکے اور رشوت کو اللہ پسند بھی کرتا ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ یہاں فرما رہا ہے کہ تم کفر کرنا چاہو تو کرو، ہم تمہیں زبردستی اس سے روک کر مومن نہیں بنائیں گے۔ مگر ہمیں یہ پسند نہیں ہے کہ تم بندے ہو کر اپنے خالق و پروردگار سے کفر کرو، کیونکہ یہ تمہارے ہی لیے نقصان دہ ہے،  ہماری خدائی کا اس سے کچھ بھی نہیں بگڑتا

۲۱۔ کفر کے مقابلے میں یہاں ایمان کے بجائے شکر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے  کہ کفر در حقیقت احسان فراموشی و نمک حرامی ہے،  اور ایمان جی الحقیقت شکر گزاری کا لازمی تقاضا ہے۔ جس شخص نہیں اللہ جلّ شانہ کے احسانات کا کچھ بھی احساس ہو وہ ایمان کے سوا کوئی دوسری راہ اختیار نہیں کر سکتا۔ اس لیے شکر اور ایمان ایسے لازم و ملزوم ہیں کہ جہاں شکر ہو گا وہاں ایمان ضرور ہو گا۔ اور اس کے برعکس جہاں کفر ہو گا وہاں شکر کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ کفر کے ساتھ شکر کے معنی نہیں ہیں۔

۲۲۔ مطلب یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ کوئی شخص اگر دوسروں کو راضی رکھنے کے لیے یا ان کی ناراضی سے بچنے کی خاطر کفت اختیار کرے گا تو وہ دوسرے لوگ اس کے کفر کا وبال اپنے اوپر نہیں اٹھا لیں گے بلکہ اسے آپ ہی اپنا وبال بھگتنے کے لیے چھوڑ دیں گے۔ لہٰذا جس پر بھی کفر کا غلط اور ایمان کا صحیح ہونا واضح ہو جائے اس کو چاہیے کہ غلط رویہ چھوڑ کر صحیح رویہ اختیار کر لے اور اپنے خاندان یا برادری یا قوم کے ساتھ لگ کر اپنے آپ کو خدا کے عذاب کا مستحق نہ بنائے۔

۲۳۔ انسان سے مراد یہاں وہ کافر انسان ہے جس نے ناشکری کی روش اختیار کر رکھی ہو۔

۲۴۔ یعنی اس وقت اسے وہ دوسرے معبود یاد نہیں آتے جنہیں وہ اپنے اچھے حال میں پکارا کرتا تھا، بلکہ ان سب سے مایوس ہو کر وہ صرف اللہ ربّ العالمین کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یہ گویا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں میں دوسرے معبودوں کے بے اختیار ہونے کا احساس رکھتا ہے اور اس حقیقت کا شعور بھی اس کے ذہن میں کہیں نہ کہیں دبا چھپا موجود ہے کہ اصل اختیارات کا مالک اللہ ہی ہے۔

۲۵۔ یعنی وہ بُرا وقت پھر اسے یاد نہیں رہتا جس میں وہ تمام دوسرے معبودوں کو چھوڑ کر صرف اللہ وحدہٗ لاشریک سے دعائیں مانگ رہا تھا۔

۲۶۔ یعنی پھر دوسروں کی بندگی کرنے لگتا ہے۔ انہی کی اطاعت کرتا ہے،  انہی سے دعائیں مانگتا ہے،  اور انہی کے آگے نذر و نیاز پیش کرنا شروع کر دیتا ہے۔

۲۷۔ یعنی خود گمراہ ہونے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ دوسروں کو بھی یہ کہہ کہہ کر گمراہ کرتا ہے کہ جو آفت مجھ پر آئی تھی وہ فلان حضرت یا فلاں دیوی یا دیوتا کے صدقے میں ٹل گئی۔ اس سے دوسرے بہت سے لوگ بھی ان معبود ان غیر اللہ کے معتقد بن جاتے ہیں اور ہر جاہل اپنے اسی طرح کے تجربات بیان کر کر کے عوام کی اس گمراہی کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔

۲۸۔ واضح رہے کہ یہاں مقابلہ دو قسم کے انسانوں کے درمیان کیا جا رہا ہے۔ ایک وہ جو کوئی سخت وقت آ پڑنے پر تو اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور عام حالات میں غیر اللہ کی بندگی کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے وہ جنہوں نے اللہ کی اطاعت اور  اس کی بندگی و پرستش کو اپنا مستقل طریقہ بنالیا ہے اور راتوں کی تنہائی میں ان کا عبادت کرنا ان کے مخلص ہونے کی دلیل ہے۔ ان میں سے پہلے گروہ والوں کو اللہ تعالیٰ بے علم قرار دیتا ہے،  خود انہوں نے بڑے بڑے کتب خانے ہی کیوں نہ چاٹ رکھے ہوں۔ اور دوسرے گروہ والوں کو وہ عالم قرار دیتا ہے،  خواہ وہ بالکل ہی ان پڑھ کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ اصل چیز حقیقت کا علم اور اس کے مطابق عمل ہے،  اور اسی پر انسان کی فلاح کا انحصار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دونوں آخر یکساں کیسے ہو سکتے ہیں ؟ کیسے ممکن ہے  کہ دنیا میں یہ مل کر ایک طریقے پر چلیں،  اور آخرت میں دونوں ایک ہی طرح کے انجام سے دو چار  ہوں ؟

 

(اے نبیؐ )کہو اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو، اپنے رب سے ڈرو(۲۹)۔ جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک رویہ اختیار کیا ہے ان کے لیے بھلائی ہے (۳۰)۔ اور خدا کی زمین وسیع ہے،  صبر کرتے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا(۳۲)۔
(اے نبیؐ)ان سے کہو، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی بندگی کروں،  اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں خود مسلم بنوں (۳۳)۔ کہو، اگر میں  اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔ کہہ دو کہ میں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اسی کی بندگی کروں گا، تم اس کے سوا جس جس کی بندگی کرنا چاہو کرتے رہو۔ کہو، اصل دیوالیے تو وہی ہیں جنہوں نے قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو گھاٹے میں ڈال دیا۔ خوب سن رکھو، یہی کھلا دیوالیہ ہے (۳۴)۔ ان پر آگ کی چھتریاں اوپر سے بھی چھائی ہوں گی اور نیچے سے بھی۔ یہ وہ انجام ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے،  پس ا میرے بندو، میرے غضب سے بچو۔ بخلاف اس کے جن لوگوں نے طاغوت کی بندگی سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کر لیا ان کے لیے خوشخبری ہے۔ پس (اے نبیؐ) بشارت دے دو میرے ان بندوں کو جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں (۳۶)۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی دانشمند ہیں۔
(اے نبیؐ) اس شخص کو کون بچا سکتا ہے جس پر عذاب کا فیصلہ چسپاں ہو چکا ہو؟(۳۷) کیا تم اسے بچا سکتے ہو جو آگ میں کرچکا ہو؟ البتہ جو لوگ اپنے رب سے ڈر کر رہے ان کے لیے بلند عمارتیں ہیں منزل پر منزل بنی ہوئی، جن کے نیچے نہریں نہ رہی ہوں گی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے،  اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
 کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں (۳۸) کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا، پھر اس پانی کے ذریعہ سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں،  پھر وہ کھیتیاں پک کر سوکھ جاتی ہیں،  پھر تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑ گئیں،  پھر آ کر کار اللہ ان کو بھس بنا دیتا ہے۔ درحقیقت اس میں ایک سبق ہے عقل رکھنے والوں کے لیے (۳۹)ع۔

 

۲۹۔ یعنی صرف مان کر نہ رہ جاؤ بلکہ اس کے ساتھ تقویٰ بھی اختیار کرو جن چیزوں کا اللہ نے حکم دیا ہے ان پر عمل کرو، جن سے روکا ہے ان سے بچو اور دنیا میں اللہ کے مواخذے سے ڈرتے ہوئے کام کرو۔

۳۰۔ دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی۔ ان کی دنیا بھی سدھرے گی اور آخرت بھی۔

۳۱۔ یعنی اگر ایک شہر یا علاقہ یا ملک اللہ کی بندگی کرنے  والوں کے لیے تنگ ہو گیا ہے تو دوسری جگہ چلے جاؤ جہاں یہ مشکلات نہ ہوں۔

۳۲۔ یعنی ان لوگوں کو جو خدا پرستی اور نیکی  کے راستے پر چلنے میں ہر طرح کے مصائب و شدائد برداشت کر لیں مگر راہ حق سے نہ ہٹیں۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو دین و ایمان کی خاطر ہجرت کر کے جلا وطنی کی مصیبتیں برداشت کریں،  اور وہ بھی جو ظلم کی سر زمین میں جم کر ہر آفت کا سامنا کرتے چلے جائیں۔

۳۳۔ یعنی میرا کام صرف دوسروں سے کہنا ہی نہیں ہے،  خود کر کے دکھانا بھی ہے۔ جس راہ پر لوگوں کو بلاتا ہوں اس پر سب سے پہلے میں خود چلتا ہوں۔

۳۴۔ دیوالہ عُرفِ عام میں اس چیز کو کہتے ہیں کہ کاروبار میں آدمی کا لگایا ہوا سارا سرمایہ ڈوب جائے اور بازار میں اس پر دوسروں کے مطالبے اتنے چڑھ جائیں کہ ا پنا سب کچھ دے کر بھی وہ ان سے عہدہ بر آ نہ ہو سکے۔ یہی استعارہ کفار و مشرکین کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں استعمال کیا ہے۔ انسان کو زندگی، عمر، عقل، جسم، قوتیں اور قابلیتیں،  ذرائع اور مواقع، جتنی چیزیں بھی دنیا میں حاصل ہیں،  ان سب کا مجموعہ دراصل وہ سرمایہ ہے جسے وہ حیات دنیا کے کاروبار میں لگاتا ہے۔ یہ سارا سرمایہ اگر کسی شخص نے اس مفروضے پر لگا دیا کہ کوئی خدا نہیں ہے۔ یا بہت سے خدا ہیں جن کا میں بندہ ہوں،  اور کسی کو مجھے حساب نہیں دینا ہے،  یا محاسبے کے وقت کوئی دوسرا مجھ آ کر بچا لے گا، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے گھاٹے کا سودا کیا اور اپنا سب کچھ ڈبو دیا۔ یہ ہے پہلا خُسران۔ دوسرا خُسران یہ ہے کہ اس غلط مفروضے پر اس نے جتنے کام بھی کیے ان سب میں وہ اپنے نفس سے لے کر دنیا کے بہت سے انسانوں اور آئندہ نسلوں اور اللہ کی دوسری بہت سے مخلوق پر عمر پھر ظلم کرتا رہا۔ اس لیے اس پر بے شمار مطالبات چڑھ گئے،  مگر اس کے پلّے کچھ نہیں ہے جس سے وہ ان مطالبات کا بھگتان بھگت سکے۔ اس پر مزید خُسران یہ ہے کہ وہ خود ہی نہیں ڈوبا بلکہ اپنے بال بچوں اور عزیز و اقارب اور دوستوں اور ہم قوموں کو بھی اپنی غلط تعلیم و تربیت اور غلط مثال سے لے ڈوبا۔ یہی تین خسارے ہیں جن کے مجموعے کو اللہ تعالیٰ خسران مبین قرار دے رہا ہے۔

۳۵۔ طاغوت طغیان سے ہے جس کے معنی سرکشی کے ہیں۔ کسی کو طاغی (سرکش ) کہنے کے بجائے اگر طاغوت (سرکشی )کہا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ انتہا درجے کا سرکش ہے۔ مثال کے طور پر کسی کو کسی کو حَسِین کے  بجائے اگر یہ کہا جائے کہ وہ حُسن ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ خوبصورتی میں درجہ کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ معبود ان غیر اللہ کو طاغوت اس لیے کہا گیا ہے کہ اللہ کے سوا دوسرے کی بندگی کرنا تو صرف سرکشی ہے مگر جو دوسروں سے اپنی بندگی کرائے وہ کمال درجہ کا سرکش ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، صفحات  ۱۹۶۔ ۱۹۷۔ ۳۶۶۔ ۳۶۷۔  ۳۷۳۔ جلد دوم صفحہ ۵۴۰)۔ طاغوت کا لفظ یہاں  طواغیت، یعنی بہت سے طاغوتوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے،  اسی لیے  اَنْ یَّعْبُدُوْ  ھَا  فرمایا گیا۔ اگر واحد مراد ہوتا تو یَعْبُدُوْہُ  ہوتا۔

۳۶۔ اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ہر آواز کے پیچھے نہیں لک جاتے بلکہ ہر ایک کی بات سن کر اس پر غور کرتے ہیں اور جو حق بات ہوتے ہے اسے قبول کر لیتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ بات کو سن کر غلط معنی پلٹانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اس کے  اچھے اور بہتر پہلو کو اختیار کرتے ہیں۔

۳۷۔ یعنی جس نے اپنے آپ کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا لیا ہو اور اللہ نے فیصلہ کر لیا ہو کہ اسے اب سزا دینی ہے۔

۳۸۔ اصل میں لفظ ینا بیع استعمال ہو ا ہے جو کا اطلاق ان تینوں چیزوں پر ہوتا ہے۔

۳۹۔ یعنی اس سے ایک صاحب عقل آدمی یہ سبق لیتا ہے کہ یہ دنیا کی زندگی اور اس کی زینتیں سب عارضی ہیں۔ ہر بہار انجام خزاں ہے۔ ہر شباب کا انجام ضعیفی اور موت ہے۔ ہر عروج آ کر کار زوال دیکھنے والا ہے۔ لہٰذا یہ دنیا وہ چیز نہیں ہے  جس کے حُسن پر فریفتہ ہو کر آدمی خدا اور آخرت کو بھول جائے اور یہاں کی چند روزہ بہار کے مزے لوٹنے کی خاطر وہ حرکتیں کریں جو اس کی عاقبت برباد کر دیں۔ پھر ایک صاحب عقل آدمی ان مناظر سے یہ سبق بھی لیتا ہے کہ اس دنیا کی بہار اور خزاں اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے پروان چڑھاتا ہے اور جسے چاہتا ہے خستہ و خراب کر دیتا ہے۔ نہ کسی کے بس میں یہ ہے کہ اللہ جسے پروان چڑھا رہا ہو اس کو پھلنے پھولنے سے روک دے۔ اور نہ کوئی یہ  طاقت رکھتا ہے کہ جسے اللہ غارت کرنا چاہے اسے وہ خاک میں  ملنے سے بچا لے۔

 

 اب کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا(۴۰) اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے (۴۱)(اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے ان باتوں سے کوئی سبق نہ لیا؟)۔ تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے (۴۲)۔ وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔
اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے،  ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزاء ہم رنگ ہیں (۴۳) اور جس میں بار بار مضامین دہرائے گئے ہیں۔ اسے سن کر ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں،  اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ راہ راست پر لے آتا ہے جسے چاہتا ہے۔ اور جسے اللہ ہی ہدایت نہ دے اس کے لیے پھر  کوئی ہادی نہیں ہے۔ اب اس شخص کی بد حالی کا تم کیا اندازہ کر سکتے ہو جو قیامت کے روز عذاب کی سخت مار اپنے منہ پر لے گا؟ (۴۴) ایسے ظالموں سے تو کہہ دیا جائے گا کہ اب چکھو مزہ اس کمائی کا جو تم کرتے رہے تھے (۴۵)۔ ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ اسی طرح جھٹلا چکے ہیں۔ آخر ان پر عذاب ایسے رخ سے آیا جدھر ان کا خیال بھی نہ جا سکتا تھا۔ پھر اللہ نے ان کو دنیا ہی کی زندگی میں رسوائی کا مزہ کھایا، اور آخرت کا عذاب تو اس سے شدید تر ہے،  کاش یہ لوگ جانتے۔
ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح کی مثالیں دی ہیں کہ یہ ہوش میں آئیں۔ ایسا قرآن جو عربی زبان میں ہے (۴۶)، جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے (۴۷)، تاکہ یہ برے انجام سے بچیں۔ اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جس کی ملکیت میں بہت سے کج خُلق آقا شریک ہیں جو اسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور دوسرا شخص پورا کا پورا ایک ہی آقا کا غلام ہے۔ کیا ان دونوں کا حال یکساں ہو سکتا ہے ؟(۴۸)ــــــــــ الحمد للہ، مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں (۵۰)۔ (اے نبیؐ) تمہیں بھی مرنا ہے اور ان لوگوں کو بھی مرنا ہے (۵۱)۔ آخر کار قیامت کے روز تم سب اپنے رب کے حضور اپنا اپنا مقدمہ پیش کرو گے۔ ع

 

۴۰۔ یعنی جسے اللہ نے یہ توفیق بخشی کہ ان حقائق سے سبق لے اور اسلام کے حق ہونے پر مطمئن ہو جائے۔ کسی بات پر آدمی کا شرح صدر ہو جا نا یا سینہ کھل جانا در اصل اس کیفیت کا نام ہے کہ آدمی دل میں اس کے بات کے متعلق کوئی خلجان یا تذبذب یا شک و شبہ باقی نہ رہے،  اور اسے کسی خطرے کا احساس  اور کسی نقصان کا اندیشہ بھی اس بات کو قبول اور اختیار کرنے میں مانع نہ ہو، بلکہ پورے اطمینان کے ساتھ وہ یہ فیصلہ کر لے کہ یہ چیز حق ہے  لہٰذا خواہ کچھ ہو جائے مجھے اسی پر چلنا ہے۔ اس طرح کا فیصلہ کر کے جب آدمی اسلام کی راہ کو اختیار کر لیتا ہے تو خدا اور رسولؐ کی طرف سے جو حکم بھی اسے ملتا ہے وہ اسے بکراہت نہیں بلکہ برضا و رغبت مانتا ہے۔ کتاب و سنت میں جو عقائد و افکار اور جو اصول و قواعد بھی اس کے سامنے آتے ہیں وہ انہیں اس طرح قبول کرتا ہے کہ گویا یہی اس کے دل کی آواز ہے۔ کسی نا جائز فائدے کو چھوڑنے پر اسے کوئی پچھتاوا لاحق نہیں ہوتا بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے وہ سرے سے کوئی فائدہ تھا ہی نہیں،  الٹا ایک نقصان تھا جس سے بفضل خدا میں بچ گیا۔ اسی طرح کوئی نقصان بھی اگر راستی پر قائم رہنے کی صورت میں اسے پہنچے تو وہ اس پر افسوس نہیں کرتا بلکہ ٹھنڈے دل سے اسے برداشت کرتا ہے اور اللہ کی راہ سے منہ موڑنے کی بہ نسبت وہ  نقصان  اسے ہلکا نظر آتا ہے۔ یہی حال اس کا خطرات پیش آنے پر بھی ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میرے لیے کوئی دوسرا راستہ سرے سے ہے ہی نہیں کہ اس خطرہ سے بچنے کے لیے ادھر نکل جاؤں۔ اللہ کا سیدھا راستہ ایک ہی ہے جس پر مجھے بہر حال چلنا ہے۔ خطرہ آتا ہے تو آتا رہے۔

۴۱۔ یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی صورت میں ایک نور  علم اسے مل گیا ہے جس کے اُجالے میں وہ ہر ہر قدم پر صاف دیکھتا جاتا ہے کہ زندگی کی بے شمار پگ ڈنڈیوں کے درمیان حق کا سیدھا راستہ کونسا ہے۔

۴۲۔ شرح صدر کے مقابلے میں انسانی قلب کی دو ہی کیفیتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک ضیقِ صدر (سینہ تنگ ہو جانے اور دل بھچ جانے ) کی کیفیت جس میں حق کے لیے نفوذ یا سرایت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اس دوسری کیفیت کے متعلق فرماتا ہے کہ جو شخص اس حد تک پہنچ جائے اس کے لیے پھر کامل تباہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص، خواہ دل کی تنگی ہی کے ساتھ سہی، ایک مرتبہ قبول حق کے لیے کسی طرح تیار ہو جائے تو  اس کے لیے بچ نکلنے کا کچھ نہ کچھ امکان ہوتا ہے۔ یہ دوسرا مضمون آیت کے فحویٰ سے خود بخود نکلتا ہے،  مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی صراحت نہیں فرمائی ہے،  کیونکہ آیت کا اصل مقصود ان لوگوں کو متنبہ کرنا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت میں ضد اور ہٹ دھرمی پر تلے ہوئے  تھے کہ آپؐ کی کوئی بات مان کر نہیں دینی ہے۔ اس پر انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ تم تو اپنی اس ہیکڑی کو بڑی قابل چیز سمجھ رہے ہو، مگر فی الحقیقت ایک انسان کی اس سے بڑھ کر کوئی نالائقی  اور بد نصیبی نہیں ہو سکتی کہ اللہ کا ذکر اور اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت سُن کر وہ نرم پڑنے کے بجائے اور زیادہ سخت ہو جائے۔

۴۳۔ یعنی ان میں کوئی تضاد اور اختلاف نہیں ہے۔ پوری کتاب اول سے لے کر آخر تک ایک ہی مدعا، ایک ہی عقیدہ اور ایک ہی نظام فکر و عمل پیش کرتی ہے۔ اس کا ہر جز دوسرے جز کی اور ہر مضمون دوسرے مضمون کی تصدیق و تائید اور توضیح و تشریح کرتا ہے۔ اور معنی و بیان دونوں کے لحاظ سے اس میں کامل یکسانی(Consistency) پائی جاتی ہے۔

۴۴۔ کسی ضرب کو آدمی اپنے منہ پر اس وقت لیتا ہے جبکہ وہ بالکل عاجز و بے بس ہو۔ ورنہ جب تک وہ مدافعت پر کچھ بھی قادر ہوتا ہے وہ اپنے جسم کے ہر حصے پر چوٹ کھاتا رہتا ہے مگر منہ پر مار نہیں پڑنے دیتا۔ اس لیے یہاں اس شخص کی انتہائی بے بسی کی تصویر یہ کہہ کر کھینچ دی گئی ہے کہ وہ سخت مار اپنے منہ پر لے گا۔

۴۵۔ اصل میں لفظ ’’ کسب‘‘ استعمال ہوا ہے جس سے مراد قرآن مجید کی اصطلاح میں جزا  و سزا کا وہ استحقاق ہے جو آدمی اپنے عمل کے نتیجے میں کماتا ہے۔ نیک عمل کرنے والے کی اصل کمائی یہ ہے کہ وہ اللہ کے اجر کا مستحق بنتا ہے۔ اور گمراہی و بد راہی اختیار کرنے والے کی کمائی وہ سزا ہے جو اسے آخرت میں ملنے والی ہے۔

۴۶۔ یعنی یہ کسی غیر زبان میں نہیں آیا ہے کہ مکے اور عرب کے لوگ اسے سمجھنے کے لیے کسی مترجم یا شارح کے محتاج ہوں،  بلکہ یہ ان کی اپنی زبان میں ہے جسے یہ براہ راست خود سمجھ سکتے ہیں۔

۴۷۔ یعنی اس میں اینچ پینچ کی بھی کوئی بات نہیں ہے کہ عام آدمی کے لیے اس کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش آئے۔ بلکہ صاف صاف سیدھی بات کہی گئی ہے جس سے ہر آدمی جان سکتا ہے کہ یہ کتاب کس چیز کو غلط کہتی ہے اور کیوں،  کس چیز کو صحیح کہتی ہے اور کس بنا پر، کیا منوانا چاہتی ہے اور کس چیز کا انکار کرانا چاہتی ہے،  کن کاموں کا حکم دیتی ہے اور کن کاموں سے روکتی ہے۔

۴۸۔ اس مثال میں اللہ تعالیٰ نے شرک اور توحید کے فرق اور انسان کی زندگی پر دونوں کے اثرات کو اس طرح کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ اس سے زیادہ مختصر الفاظ میں اتنا بڑا مضمون اتنے مؤثر طریقے سے سمجھا دینا ممکن نہیں ہے۔ یہ بات ہر آدمی تسلیم کرے گا کہ جس شخص کے بہت سے مالک یا آقا ہوں،  اور ہر ایک اس کو اپنی اپنی طرف کھینچ رہا ہو، اور وہ مالک بھی ایسے بد مزاج ہوں کہ ہر ایک اُس سے خدمت لیتے ہوئے دوسرے مالک کے حکم پر دوڑنے کی اسے مہلت نہ دیتا ہو، اور ان کے متضاد احکام میں جس کے حکم کی بھی وہ تعمیل سے قاصر رہ جائے وہ اسے ڈانٹنے پھٹکارنے ہی پر اکتفا کرتا ہو بلکہ سزا دینے پر تُل جاتا ہو، اس کی زندگی لامحالہ سخت ضیق میں ہو گی۔ اور اس کے برعکس وہ شخص بڑے چین اور آرام سے رہے گا جو بس ایک ہی آقا کا نوکر یا غلام ہو اور کسی دوسرے کی خدمت و رضا جوئی اسے نہ کرنی پڑے۔ یہ ایسی سیدھی سی بات ہے جسے سمجھنے کے لیے کسی بڑے غور و تامل کی حاجت نہیں ہے۔ اس کے بعد کسی شخص کے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں رہتا کہ انسان کے لیے جو امن و اطمینان ایک خدا کی بندگی میں ہے  وہ بہت سے خداؤں کی بندگی میں اسے کبھی میسر نہیں آ سکتا۔

اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ بہت سے کج خلق اور باہم متنازع آقاؤں کی تمثیل پتھر کے بتوں پر راست نہیں آتی بلکہ اُن جیتے جاگتے آقاؤں پر ہی راست آتی ہے جو عملاً آدمی کو متضاد احکام دیتے ہیں اور فی الواقع اس کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں۔ پتھر کے بُت کسے حکم دیا کرتے ہیں اور کب کسی کو کھینچ کر اپنی خدمت کے لیے بُلاتے ہیں۔ یہ کام تو زندہ آقاؤں ہی کے کرنے کے ہیں۔ ایک آقا آدمی کے اپنے نفس میں بیٹھا ہوا ہے جو طرح طرح کی خواہشات اس کے سامنے پیش کرتا ہے اور اسے مجبور کرتا رہتا ہے کہ وہ انہیں پورا کرے۔ دوسرے بے شمار آقا گھر میں،  خاندان میں،  برادری میں،  قوم اور ملک کے معاشرے میں،  مذہبی پیشواؤں میں،  حکمرانوں اور قانون سازوں میں،  کاروبار اور معیشت کے دائروں میں،  اور دنیا کے  تمدن پر غلبہ رکھنے والی طاقتوں میں ہر طرف موجود ہیں جن کے متضاد تقاضے اور مختلف مطالبے ہر وقت آدمی کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں اور ان میں سے جس کا تقاضا پورا کرنے میں بھی وہ کوتاہی کرتا ہے وہ اپنے دائرہ کار میں اس کو سزا دیے بغیر نہیں چھوڑتا۔ البتہ ہر ایک کی سزا کے ہتھیار الگ الگ ہیں۔  کوئی دل مسوستا ہے۔ کوئی روٹھ جاتا ہے۔ کوئی نکّو بناتا ہے۔ کوئی مقاطعہ کرتا ہے۔ کوئی دیوالہ نکالتا ہے،  کوئی مذہب کا وار کرتا ہے اور کوئی قانون کی چوٹ لگاتا ہے۔ اس ضیق سے نکلنے کی کوئی صورت انسان کے لیے اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ توحید کا مسلک اختیار کر کے صرف ایک خدا کا بندہ بن جائے اور ہر دوسرے کی بندگی کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار پھینکے۔

توحید کا مسلک اختیار کرنے کی بھی دو شکلیں ہیں جن کے نتائج الگ الگ ہیں۔

ایک شکل یہ ہے کہ ایک فرد اپنی انفرادی حیثیت میں خدائے واحد کا بندہ بن کر رہنے کا فیصلہ کر لے اور گرد و پیش کا ماحول اس معاملے میں اس کا ساتھی نہ ہو۔ اس صورت میں یہ تو ہو سکتا ہے کہ خارجی کش مکش اور ضیق اس کے لیے پہلے زیادہ بڑھ جائے،  لیکن اگر اس نے سچے دل سے یہ مسلک اختیار کیا ہو تو اسے داخلی امن و اطمینان لازماً میسر آ جائے گا۔ وہ نفس کی ہر اُس خواہش کو رد کر دے گا جو احکام الٰہی کے خلاف ہو یا جسے پورا کرنے کے ساتھ خدا پرستی کے تقاضے پورے نہ کیے جا سکتے ہوں۔ وہ خاندان، برادری، قوم، حکومت، مذہبی پیشوائی اور معاشی اقتدار کے بھی ایسے مطالبے کو قبول نہ کرے گا جو خدا کے قانون سے ٹکراتا ہو۔ اس کے نتیجے میں اسے بے حد تکلیفیں پہنچ سکتی ہیں،  بلکہ لازماً پہنچیں گی۔ لیکن اس کا دل پوری طرح مطمئن ہو گا کہ جس خدا کا میں بندہ ہوں اس کی بندگی کا تقاضا پورا کر رہا ہوں،  اور جن کا بندہ میں نہیں ہوں ان کا مجھ پر کوئی حق نہیں ہے جس کی بنا پر میں اپنے رب کے حکم کے خلاف ان کی بندگی بجا لاؤں۔ یہ دل کا اطمینان اور روح کا امن و سکون دنیا کی کوئی طاقت اس سے نہیں چھین سکتی۔ حتیٰ کہ اگر اسے پھانسی پر بھی چڑھنا پڑ جائے تو وہ ٹھنڈے دل سے چڑھ جائے گا اور اس کو ذرا پچھتاوا نہ ہو گا کہ میں نے کیوں نہ جھوٹے خداؤں کے آگے سر جھکا کر اپنی جان بچا لی۔

دوسری شکل یہ ہے کہ پورا معاشرہ اسی توحید کی بنیاد پر قائم ہو جائے اور اس میں اخلاق، تمدن، تہذیب، تعلیم، مذہب، قانون، رسم و رواج، سیاست، معیشت، غرض شعبہ زندگی کے لیے وہ اصول اعتقاد اً  مان لیے جائیں اور عملاً رائج ہو جائیں جو خداوند عالم نے اپنی کتاب اور اپنے رسول کے ذریعہ سے دیے ہیں۔ خدا کا دین جس کو گناہ کہتا ہے،  قانون اسی کو جرم  قرار دے،  حکومت کی انتظامی مشین اسی کو مٹانے کی کوشش کرے،  تعلیم و تربیت اسی سے بچنے کے لیے ذہن اور کردار تیار کرے،  منبر و محراب سے اسی کے خلاف آواز بلند ہو، معاشرہ اسی کو معیوب ٹھیرائے  اور معیشت کے ہر کاروبار میں وہ ممنوع ہو جائے۔ اسی طرح خدا کا دین جس چیز کو بھلائی اور نیکی قرار دے،  قانون اس کی حمایت کرے،  انتظام کی طاقتیں اسے پروان چڑھانے میں لگ جائیں،  تعلیم و تربیت کا پورا نظام ذہنوں میں اس کو بٹھانے اور سیرتوں میں اسے رچا دینے کی کوشش کرے،  منبر و محراب اسی کی تلقین کریں،  معاشرہ اسی کی تعریف کرے اور اپنے عملی رسم و رواج اُس پر قائم کر دے،   اور کاروبار معیشت بھی اسی کے مطابق چلے۔ یہ وہ صورت ہے جس میں انسان کو کامل داخلی و خارجی اطمینان میسر آ جاتا ہے اور مادی و روحانی ترقی کے تمام دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں،  کیونکہ اس میں بندگیٔ رب  اور بندگیٔ غیر کے تقاضوں کا تصادم قریب قریب ختم ہو جاتا ہے۔

اسلام کی دعوت اگرچہ ہر ہر فرد کو یہی ہے کہ خواہ دوسری صورت پیدا ہو یا نہ ہو، بہر حال وہ توحید ہی کو اپنا دین بنا لے اور تمام خطرات و مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی بندگی کرے۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام کا آخری مقصود یہی دوسری صورت پیدا کرنا ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام کی کوششوں کا مدعا یہی رہا ہے کہ ایک اُمت مسلمہ وجود میں  آئے جو کفر اور کفار کے غلبے سے آزاد ہو کر من حیث الجماعت اللہ کے دین کی پیروی کرے۔ کوئی شخص جب تک قرآن و سنت سے نا واقف ہو اور عقل سے بے بہرہ نہ ہو، یہ نہیں کہہ سکتا کہ انبیاء علیہم السلام کی سعی و جہد کا مقصود صرف انفرادی ایمان و طاعت ہے،  اور اجتماعی زندگی میں دین حق کو نافذ قائم کرنا سرے سے اس کا مقصد ہی نہیں رہا ہے۔

۴۹۔ یہاں الحمد لِلہ کی معنویت سمجھنے کے لیے یہ نقشہ ذہن میں لایئے کہ اوپر کا سوال لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے بعد مقرر نے سکوت کیا، تاکہ اگر مخالفین توحید کے پاس اس کا کوئی جواب ہو تو دیں۔ پھر جب ان سے کوئی جواب نہ بن  پڑا اور کسی طرف سے یہ آواز نہ آئی کہ دونوں برابر ہیں،  تو مقرر نے کہا الحمد لِلہ۔ یعنی خدا کا شکر ہے کہ تم خود بھی اپنے دلوں میں ان دونوں حالتوں کا فرق محسوس کرتے ہو اور تم میں سے کوئی بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں رکھتا کہ ایک آقا کی بندگی سے بہت سے آقاؤں کی بندگی بہتر ہے یا دونوں یکساں ہیں۔

۵۰۔ یعنی ایک آقا کی غلامی اور بہت سے آقاؤں کی غلامی کا فرق تو خوب سمجھ لیتے ہیں مگر ایک خدا کی بندگی اور بہت سے خداؤں  کی بندگی کا فرق جب سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو نادان بن جاتے ہیں۔

۵۱۔ پچھلے فقرے اور اس فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے موقع و محل اور سیاق پر غور کر کے ہر صاحب فہم آدمی خود بھر سکتا ہے۔ اس میں یہ مضمون پوشیدہ ہے کہ اِس اِس طرح تم ایک صاف سیدھی بات سیدھے طریقے سے ان لوگوں کو سمجھا رہے ہو اور یہ لوگ نہ صرف یہ کہ ہٹ دھرمی سے تمہاری بات رد کر رہے ہیں،  بلکہ اس کھلی صداقت کو دبانے کے لیے تمہارے درپے آزار ہیں۔ اچھا، ہمیشہ نہ تمہیں رہنا ہے نہ اِنہیں۔ دونوں کو ایک دن مرنا ہے۔ انجام سب کے سامنے آ جائے گا۔

 

 پھر اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو گا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور جب سچائی اس کے سامنے آئی تو اسے جھٹلا دیا۔ کیا ایسے کفروں کے لیے جہنم میں کوئی ٹھکانا نہیں ہے ؟ اور جو شخص سچائی لے کر آیا  اور جنہوں نے اس کو سچ مانا، وہی عذاب سے بچنے والے ہیں (۵۲)۔ انہیں اپنے رب کے ہاں وہ سب کچھ ملے گا جس کی وہ خواہش کریں گے (۵۳)۔ یہ ہے نیکی کرنے والوں کی جزا۔ تاکہ جو بد ترین اعمال انہوں نے کیے تھے نہیں اللہ ان کے حساب سے ساقط کر دے اور جو بہترین اعمال وہ کرتے رہے ان کے لحاظ سے ان کو اجر  عطا فرمائے (۵۴)۔
(اے نبیؐ) کیا للہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے ؟ یہ لوگ اس کے سوا دوسروں سے تم کو ڈراتے ہیں (۵۵)۔ حالانکہ اللہ جسے گمراہی میں ڈال دے اسے کوئی راستہ دکھانے والا نہیں،  اور جسے وہ ہدایت دے اسے بھٹکانے والا بھی کوئی نہیں،  کیا اللہ زبردست اور انتقام لینے والا نہیں ہے ؟(۵۶)۔ ان لوگوں سے اگر تم پوچھو کہ زمین  اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ اللہ نے۔ ان سے کہو، جب حقیقت یہ ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو کیا تمہاری یہ دیویاں،  جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو، مجھے اس کے پہنچائے ہوئے نقصان سے بچا لیں گی؟ یا اللہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ  اس کی رحمت کو روک سکیں گی؟ بس ان سے کہہ دو کہ میرے لیے اللہ ہی کافی ہے، بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں (۵۷)۔ ان سے صاف کہو کہ ’’ اے میری قام کے لوگو، تم اپنی جگہ اپنا کام کیے جاؤ، میں اپنا کام کرتا رہوں گا، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کو پر رسوا کن عذاب آتا ہے اور کسے وہ سزا ملتی ہے جو کبھی ٹلنے والی نہیں۔ (اے نبیؐ)ہم نے سب انسانوں کے لیے یہ کتاب برحق تم پر نازل کر دی ہے۔ اب جو سیدھا راستہ اختیار کرے گا اپنے لیے کرے گا اور جو بھٹکے گا اس کے بھٹکنے کا وبال اسی پر ہو گا، تم ان کے ذمہ دار نہیں ہو(۵۹)۔ ع

 

 ۵۲۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی عدالت میں جو مقدمہ ہونا ہے اس میں سزا پانے والے کون ہوں گے،  یہ بات تم آج ہی سُن لو۔ سزا لازماً انہی ظالموں کو ملنی ہے جنہوں نے  یہ جھوٹے عقیدے گھڑے کہ اللہکے ساتھ اس کی ذات، صفات، اختیارات اور حقوق میں کچھ دوسری ہستیاں بھی شریک ہیں،  اور اس سے بھی زیادہ بڑھ کر ان کا ظلم یہ ہے کہ جب ان کے سامنے سچائی پیش کی گئی تو انہوں نے اسے مان کر نہ دیا بلکہ اُلٹا اُسی کو جھوٹا قرار دیا جس نے سچائی پیش کی۔ رہا وہ شخص جو سچائی لایا اور سہ لوگ جنہوں نے اس کی تصدیق کی، تو ظاہر ہے کہ اللہ کی عدالت سے ان کے سزا پانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

۵۳۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ یہاں  فی ا لجنّۃ (جنّت میں )نہیں بلکہ عِنْدَ رَبّھِمْ (ان کے رب کے ہاں ) کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں۔  اور ظاہر ہے کہ اپنے رب کے ہاں تو بندہ مرنے کے بعد ہی پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے آیت کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں پہنچ کر ہی نہیں بلکہ مرنے کے وقت سے دخول جنت تک زمانے میں بھی مومن صالح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہی رہے گا۔ وہ عذاب برزخ سے،  روز قیامت کی سختیوں سے،  حساب کی سخت گیری سے،  میدان حشر کی رسوائی سے،  اپنی کوتاہیوں اور قصوروں پر مواخذہ سے لازماً بچنا چاہے گا اور اللہ جل شانہ اس کی یہ ساری خواہشات پوری فرمائے گا۔

۵۴۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر جو لوگ ایمان لائے تھے،  زمانہ جاہلیت میں ان سے اعتقادی اور اخلاقی دونوں ہی طرح کے بد ترین گناہ سرزد ہو چکے تھے۔ اور ایمان لانے کے بعد انہوں نے صرف یہی ایک نیکی نہ کی تھی کہ اُس جھوٹ کو چھوڑ دیا جسے وہ پہلے مان رہے تھے اور وہ سچائی قبول کر لی جسے حضورؐ نے پیش فرمایا تھا، بلکہ مزید براں انہوں نے اخلاق، عبادات اور معاملات میں بہترین اعمال صالحہ انجام دیے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے وہ بدترین اعمال جو جاہلیت میں ان سے سرزد ہوئے تھے ان کے حساب سے محو کر دیے جائیں گے،  اور ان کو انعام ان اعمال کے لحاظ سے دیا جائے گا جو ان کے نامہ اعمال میں سب سے بہتر ہوں گے۔

۵۵۔ کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کرتے تھے کہ تم ہمارے معبودوں کی شان میں گستاخیاں کرتے ہو اور ان کے خلاف زبان کھولتے ہو۔ تمہیں معلوم نہیں ہے کہ یہ کیسی زبردست با کرامت ہستیاں ہیں۔ ان کی توہین تو جس نے بھی کی وہ برباد ہو گیا۔ تم بھی اگر اپنی باتوں سے باز نہ آئے تو یہ تمہارا تختہ الٹ دیں گے۔

۵۶۔ یعنی یہ بھی ہدایت سے ان کی محرومی ہی کا کرشمہ ہے کہ ان احمقوں کو اپنے ان معبودوں کی طاقت و عزّت کا تو بڑا خیال ہے۔ مگر انہیں اس بات کا خیال کبھی نہیں آتا کہ اللہ بھی کوئی زبردست ہستی ہے اور شرک کر کے اُس کی جو توہین یہ کر رہے ہیں اُس کی بھی کوئی سزا انہیں مل سکتی ہے۔

۵۷۔ اب ابی حاتم نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا   من احب ان یکون اقوی الناس فلیتو کل علیٰ اللہ، ومن احب ان یکون اغنی الناس فلیکن بماری ید اللہ عزو جل اوثق منہ بما فی یدیہ، ومن احب ان یکون اکرم الناس فلیتق اللہ عزو جلّ۔ ’’ جو شخص چاہتا ہو کہ سب انسانوں سے زیادہ طاقت ور ہو جائے  اسے چاہیے کہ اللہ پر توکّل کرے۔ اور جو شخص چاہتا ہو کہ سب سے بڑھ کر غنی ہو جائے اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے اس پر زیادہ بھوسہ رکھے بہ نسبت اُس چیز کے جو اس کے اپنے ہاتھ میں ہے،  اور جو شخص چاہتا ہو کہ سب سے زیادہ عزّت والا ہو جائے اسے چاہیے کہ اللہ عز و جل سے ڈرے۔ ‘‘

۵۸۔ یعنی مجھے زک دینے کے لیے جو کچھ تم کر رہے ہو اور کر سکتے ہو وہ کیے جاؤ، اپنی کرنی میں کوئی کسر نہ اّٹھا رکھو۔

۵۹۔ یعنی تمہارے سپرد انہیں راہِ راست پر لے آنا نہیں ہے۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ ان کے سامنے راہِ راست پیش کر دو۔ اس کے بعد اگر یہ گمراہ رہیں تو تم پر کوئی  ذ مہ داری نہیں ہے۔

 

وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے (۶۰)، پھر جو پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے اسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک وقت مقرر کے لیے واپس بھیج دیتا ہے۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں (۶۱)۔ کیا اس خدا کو چھوڑ کر ان لوگوں نے دوسروں کو شفیع بنا رکھا ہے ؟(۶۲)ان سے کہو، کیا وہ شفاعت کریں گے خواہ ان کے اختیار میں کچھ نہ ہو اور وہ سمجھتے بھی نہ ہوں ؟ کہو شفاعت ساری کی ساری اللہ کے اختیار میں ہے (۶۳)۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا وہی مالک ہے۔ بھر اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔
جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں،  اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو یکایک وہ خوشی سے کھِل اٹھتے ہیں (۶۴)۔ کہو، خدایا! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے،  حاضر و غائب کے جاننے والے،  تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ اگر ان ظالموں کے پاس زمین کی ساری دولت بھی ہو، اور اتنی ہی اور بھی، تو یہ روز قیامت کے برے عذاب سے بچنے کے لیے سب کچھ فدیے میں دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ وہاں اللہ کی طرف سے ان کے سامنے وہ کچھ آئے گا جس کا انہوں نے کبھی اندازہ ہی نہیں کیا ہے۔ وہاں اپنی کمائی کے سار ے برے نتائج ان پر کھل جائیں گے اور وہی چیز ان پر مسلط ہو جائے گی جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں۔
یہی انسان (۶۵) جب ذرا سی مصیبت اسے چھو جاتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے،  اور جب ہم اسے اپنی طرف سے نعمت دے کر اَپھار دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھ علم کی بنا پر دیا گیا ہے ! (۶۶) نہیں،  بلکہ یہ آزمائش ہے،  مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں (۶۷)۔ یہی بات ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ بھی کہہ چکے ہیں،  مگر جو کچھ وہ کماتے تھے وہ ان کے کسی کام نہ آیا(۶۸)۔ پھر اپنی کمائی کے برے نتائج انہوں نے بھگتے،  اور ان لوگوں میں سے بھی جو ظالم ہیں وہ عنقریب اپنی کمائی کے برے نتائج بھگتیں گے،  یہ ہمیں عاجز کر دینے والے نہیں ہیں۔ اور کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے ؟(۶۹) اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔ ع

 

۶۰۔ نیند کی حالت میں روح قبض کرنے سے مراد احساس و شعور، فہم و ادراک اور اختیار و ارادہ کی قوتوں کو معطل کر دینا ہے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس پر اردو زبان کی یہ کہاوت فی الواقع راست آتی ہے کہ سویا اور مُوا برابر۔

۶۱۔ اس ارشاد سے اللہ تعالیٰ ہر انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ موت اور زیست کس طرح اُس کے دستِ قدرت میں ہے۔ کوئی شخص بھی یہ ضمانت نہیں رکتا کہ رات کو جب وہ سوئے گا تو صبح لازماً زندہ ہی اُٹھے گا۔ کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ ایک گھڑی بھر میں اُس پر کیا آفت آ سکتی ہے اور دوسرا لمحہ اس پر زندگی کا لمحہ ہوتا ہے یا موت کا۔ ہر وقت سوتے میں یا جاگتے میں،  گھر بیٹھے  یا کہیں چلتے پھرتے آدمی کے جسم کی کوئی اندرونی خرابی، یا باہر سے کوئی نامعلوم آفت یکایک وہ شکل اختیار کر سکتی ہے جو اس کے لیے پیام موت ثابت ہو۔ اس طرح جو انسان خدا کے ہاتھ میں بے بس ہے وہ کیسا سخت نادان ہے اگر اُسی خدا سے غافل یا منحرف ہو۔

۶۲۔ یعنی ایک تو ان لوگوں نے اپنے طور پر خود ہی یہ فرض کریا کہ کچھ ہستیاں اللہ کے ہاں بڑی زور آور ہیں جن کی سفارش کسی طرح ٹل نہیں سکتی، حالانکہ ان کے سفارشی ہونے پر نہ کوئی دلیل، نہ اللہ تعالیٰ نے کبھی یہ فرمایا کہ ان کو میرے ہاں یہ مرتبہ حاصل ہے،  اور نہ اُن ہستیوں نے کبھی یہ دعویٰ کیا کہ ہم اپنے زور سے تمہارے سارے کام بنوا دیا کریں گے۔ اس پر مزید حماقت ان لوگوں کی یہ ہے کہ اصل مالک کو چھوڑ کر ان فرضی سفارشوں ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں اور ان کی ساری نیاز مندیاں  اُنہی کے لیے وقف ہیں۔

۶۳۔ یعنی کسی کا یہ زور نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں خود سفارشی بن کر اُٹھ ہی سکے،  کجا کہ اپنی سفارش منوا لینے کی طاقت بھی اُس میں ہو۔ یہ بات تو بالکل اللہ کے اختیار میں ہے کہ جسے چاہے سفارش کی اجازت دے اور جسے چاہے نہ دے۔ اور کس کے حق میں چاہے کسی کو سفارش کرنے دے اور جس کے حق میں چاہے نہ کرنے دے۔ (شفاعت کے اسلامی عقیدے اور مشرکانہ عقیدے کا فرق سمجھنے کے لیے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں : تفہیم القرآن جلد اوّل، ص ۱۹۴۔ ۵۴۳۔ جلد دوم۔ صفحات ۲۶۲۔ ۲۷۵۔ ۲۷۶۔ ۳۵۶۔ ۳۶۸۔ ۴۴۹۔ ۵۵۶۔ ۵۵۷۔ ۵۶۲۔ جلد سوم، صفحات ۱۲۶۔ ۱۲۷۔ ۱۵۵۔ ۱۵۶۔ ۲۵۲۔ جلد چہارم، السّبا، حاشیہ ۴۰)۔

۶۴۔ یہ بات قریب قریب ساری دنیا کے مشرکانہ ذوق رکھنے والے لوگوں میں مشترک ہے،  حتّیٰ کہ مسلمانوں میں بھی جن بد قسمتوں کو یہ بیماری لگ گئی ہے وہ بھی اس عیب سے خالی نہیں ہیں۔ زبان سے کہتے ہیں کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں۔ لیکن حالت یہ ہے کہ اکیلے اللہ کا ذکر کیجیے تو ان کے چہرے بگڑنے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں،  ضرور یہ شخص بزرگوں اور اولیاء کو نہیں مانتا، جبھی تو بس اللہ ہی اللہ کی باتیں کیے جاتا ہے۔ اور اگر دوسروں کا ذکر کیا جائے تو ان کے دلوں کی کلی کھِل جاتی ہے اور بشاشت سے ان کے چہرے دمکنے لگتے ہیں۔ اس طرز عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو اصل میں دلچسپی اور محبت کس سے ہے۔ علّامہ آلوسی نے روح المعانی میں اس مقام پر خود اپنا ایک تجربہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں نے دیکھا کہ ایک شخص اپنی کسی مصیبت میں ایک وفات یافتہ بزرگ کو مدد کے لیے پکار رہا ہے۔ میں نے کہا اللہ کے بندے،  اللہ کو پکار، وہ خود فرماتا ہے کہ وَاِذَ ا سَأ لَکَ عَبَا دِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعَوَ ۃَ الدَّا عِ اِ ذَ ا دَعَانِ۔ میری یہ بات سُن کر اسے سخت غصّہ آیا اور بعد میں لوگو نے مجھے بتایا کہ ہو کہتا تھا یہ شخص اولیاء کا منکر ہے۔ اور بعض لوگوں نے اس کے یہ کہتے بھی سنا کہ اللہ کی نسبت ولی جلدی سُن لیتے ہیں۔

۶۵۔ یعنی جسے اللہ کے نام سے چڑ ہے اور اکیلے اللہ کا ذکر سُن کر جس کا چہرہ بگڑنے لگتا ہے۔

۶۶۔ اس فقرے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ جانتا ہے کہ میں اس نعمت کا اہل ہوں،  اسی لیے اس نے مجھے یہ کچھ دیا ہے،  ورنہ اگر اس کے نزدیک میں ایک بُرا عقیدہ اور غلط کار آدمی ہوتا تو مجھے یہ نعمتیں کیوں دیتا۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تو مجھے میری قابلیت کی بنا پر ملا ہے۔

۶۷۔ لوگ اپنی جہالت و نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ جسے کوئی نعمت مل رہی ہے وہ لازماً اس کی اہلیت و قابلیت کی بنا پر مل رہی ہے،  اور  اس نعمت کا ملنا اس کے مقبول بارگاہ الہٰی ہونے کی علامت یا دلیل ہے۔ حالانکہ یہاں جسکو جو کچھ بھی دیا جا رہا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کے طور پر دیا جا رہا ہے۔ یہ امتحان کا سامان ہے نہ کہ قابلیت کا انعام، ورنہ آخر کیا وجہ ہے کہ بہت سے قابل آدمی خستہ حال ہیں اور بہت سے ناقابل آدمی نعمتوں میں کھیل رہے ہیں۔ اسی طرح یہ دنیوی نعمتیں مقبول بارگاہ ہونے کی علامت بھی نہیں ہیں۔ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ دنیا میں بکثرت ایسے نیک آدمی مصائب میں مبتلا ہیں جن کے نیک ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور بہت سے بُرے آدمی، جن کی قبیح حرکات سے ایک دنیا واقف ہے،  عیش کر رہے ہیں۔ اب کیا کوئی صاحب عقل آدمی ایک کی مصیبت اور دوسرے کے عیش کو اس بات کی دلیل بنا سکتا ہے کہ نیک انسان کو اللہ پسند نہیں کرتا اور بد انسان کو وہ پسند کرتا ہے ؟

۶۸۔ مطلب یہ ہے کہ جب ان کی شامت آئی تو وہ قابلیت بھی دھری رہ گئی جس کا انہیں دعویٰ تھا، اور یہ بات بھی کھل گئی کہ وہ اللہ کے مقبول بندے نہ تھے۔ ظاہر ہے کہ اگر ان کی یہ کمائی مقبولیت اور صلاحیت کی بنا پر ہوتے تو شامت کیسے آ جاتی۔

۶۹۔ یعنی رزق کی تنگی و کشادگی اللہ کے ایک دوسرے ہی قانون پر مبنی ہے جس کے مصالح کچھ اور ہیں۔ اس تقسیم رزق کا مدار آدمی کی اہلیت و قابلیت، یا اس کے محبوب و مغضوب ہونے پر ہر گز نہیں ہے۔ (اس مضمون کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، صفحات ۲۰۲۔ ۲۱۲۔ ۲۲۱۔ ۲۷۴۔ ۲۷۵۔ ۳۲۲۔ ۳۳۴۔ ۴۵۷۔ جلد سوم، صفحات ۲۶۔ ۷۷۔ ۷۸۔ ۱۳۹۔ ۱۸۹۔ ۱۹۱۔ ۱۹۲۔ ۲۵۹۔ ۲۶۰۔ ۲۸۳۔ ۲۸۴۔ ۵۱۳۔ ۵۱۶۔ ۶۶۲۔ ۶۶۴۔ جلد چہارم، حواشی سورہ سبا ۵۴ تا ۶۰۔

 
(اے نبیؐ) کہ دو کہ اے میرے بندو(۷۰)، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے،  اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے،  وہ تو غفورٌ رحیم ہے، (۷۱) پلٹ آؤ اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جاؤ اس کے ابل اس کے کہ تم پر عذاب آ جائے اور پھر کہیں سے تمہیں مدد نہ مل سکے۔ اور پیروی اختیار کر لو اپنے رب کی بھیجی ہوئی کتاب کے بہترین پہلو کی، (۶۲) قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آئے اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں کوئی شخص کہے ’’ افسوس میری اس تقصیر پر جو میں اللہ کی جناب میں کرتا رہا، بلکہ میں تو الٹا مذاق اڑانے والوں میں شامل تھا۔ ‘‘ یا کہے ’’ کاش اللہ نے مجھے ہدایت  بخشی ہوتی تو میں بھی متقیوں میں سے ہوتا۔ ‘‘ یا عذاب دیکھ کر کہے ’’ کاش مجھے ایک موقع اور مل جائے اور، میں بھی نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہو جاؤں ‘‘۔ (اور اس وقت اسے یہ جواب ملے کہ ) ’’ کیوں نہیں،  میری آیات تیرے پاس آ چکی تھیں،  پھر تو نے انہیں جھٹلایا اور تکبر کیا اور تو کافروں میں سے تھا‘‘ آج جن لوگوں نے خدا پر جھوٹ باندھے ہیں قیامت کے روز تم دیکھو گے کہ ان کے منہ کالے ہوں گے۔ کیا جہنم میں متکبروں کے لیے کافی جگہ نہیں ہے ؟ اس کے برعکس جن لوگوں نے یہاں تقویٰ کیا ہے ان کے اسباب کامیابی کی وجہ سے اللہ ان کو نجات دے گا، ان کو نہ کوئی گزند پہنچے گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے (۷۳)۔ زمین اور آسمانوں کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ اور جو لوگ اللہ کی آیات سے  کفر کرتے ہیں وہی گھاٹے میں رہنے والے ہیں۔ ع (اے نبیؐ ) ان سے کہو ’’ پھر کیا اے جاہلو، تم اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کے لیے مجھ سے کہتے ہو‘‘؟ (یہ بات تمہیں ان سے صاف کہہ دینی چاہیے کیونکہ )تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیاء کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہو جائے گا(۷۴) اور تم خسارے میں رہو گے۔ لہٰذا (اے نبی) تم بس اللہ ہی کی بندگی کرو اور شکر گزار بندوں میں سے ہو جاؤ۔
ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے (۷۵)۔ (اس کی قدرت کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ )قیامت کے  روز پوری زمین اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دست راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے (۷۶)۔ پاک اور بالاتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ (۷۷) اور اس روز صور پھونکا جائے گا(۷۸) اور وہ سب مر کر  گر جائیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سوائے ان کے جنہیں اللہ زندہ رکھنا چاہے۔ پھر ایک دوسرا صور پھونکا جائے گا اور یکایک سب کے سب اٹھ کر دیکھنے لگیں گے (۷۹)۔ زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی، کتاب اعمال لا کر رکھ دی جائے گی، انبیاء اور تمام گواہ(۸۰) حاضر کر دیے جائیں گے،  لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہ ہو گا، اور ہر متنفس کو جو کچھ بھی اس نے عمل کیا تھا اس کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا۔ لوگ جو کچھ بھی کرتے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔ ع

 

۷۰۔ بعض لوگوں نے ان الفاظ کی یہ عجیب تاویل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خود ’’اے میرے بندو‘‘ کہہ کر لوگوں سے خطاب کرنے کا حکم دیا ہے لہٰذا سب انسان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بندے ہیں۔ یہ درحقیقت ایک ایسی تاویل ہے جسے تاویل نہیں بلکہ قرآن کی بد ترین معنوی تحریف اور اللہ کے کلام کے ساتھ کھیل کہنا چاہیے۔ جاہل عقیدت مندوں کا کوئی گروہ تو اس نکتے کو سُن کر جھوم اُٹھے گا، لیکن یہ تاویل اگر صحیح ہو تو پھر پورا قرآن غلط ہو ا جاتا ہے،  کیونکہ قرآن تو از اوّل تا آخر انسانوں کو صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ قرار دیتا ہے،  اور اس کی ساری دعوت ہی یہ ہے کہ تم ایک اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم خود بندے تھے۔ ان کو اللہ نے رب نہیں بلکہ رسول بنا کر بھیجا تھا۔ اور اس لیے بھیجا تھا کہ خود بھی اُسی کی بندگی کریں اور لوگوں کو بھی اسی کی بندگی سکھائیں۔ آخر کسی صاحب عقل آدمی کے دماغ میں یہ بات کیسے سما سکتی ہے کہ مکہ معظمہ میں کفار قریش کے درمیان کھڑے ہو کر ایک روز محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے یکایک یہ اعلان کر دیا ہو گا کہ تم عبدالعزّیٰ اور عبد شمس کے بجائے دراصل عبدِ محمدؐ ہو،   اعا ذ نا اللہ من ذالک۔

۷۱۔ یہ خطاب تمام انسانوں سے ہے،  صرف اہل ایمان کو مخاطب قرار دینے  کے لیے کوئی وزنی دلیل نہیں ہے۔ اور جیسا کہ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے،  عام انسانوں کو مخاطب کر کے یہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ بغیر توبہ و انابت کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے،  بلکہ بعد والی آیات میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی وضاحت فرما دی ہے کہ گناہوں کی معافی کو صورت بندگی و اطاعت کی طرف پلٹ آنا اور اللہ کے نازل کیے ہوئے پیغام کی پیروی اختیار کر لینا ہے۔ دراصل یہ آیت ان لوگوں کے لیے پیغام اُمید لے کر آئی تھی جو  جاہلیّت میں قتل، زنا، چوری، ڈاکے اور ایسے  ہی سخت گناہوں میں غرق رہ چکے تھے،  اور اس بات سے مایوس تھے کہ یہ قصور کبھی معاف ہو سکیں گے۔ اُن سے فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، جو کچھ بھی تم کر چکے ہو اس کے بعد اب اگر اپنے رب کی اطاعت کی طرف پلٹ آؤ تو سب کچھ معاف ہو جائے گا۔ اس آیت کی تاویل ابن عباس، قتادہ، مجاہد اور ابن زیدؒ نے بیان کی ہے (ابن جریر،  بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی )۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، ص ۴۶۶ تا ۴۶۸۔

۷۲۔ کتاب اللہ بہترین پہلو کی پیروی کرنے کا مطلب  یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کا حکم دیا ہے آدمی ان کی تعمیل کرے،  جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے ان سے بچے،  اور امثال اور قصوں میں جو کچھ اس نے ارشاد فرمایا ہے اس سے عبرت اور نصیحت حاصل کرے۔ بخلاف اس کے جو شخص حکم سے منہ موڑتا ہے،  منہیات کا ارتکاب کرتا ہے اور اللہ کے وعظ و نصیحت سے کوئی اثر نہیں لیتا وہ کتاب اللہ کے بدترین پہلو کو اختیار کرتا ہے،  یعنی وہ پہلو اختیار کرتا ہے جسے کتاب اللہ بدترین قرار دیتی ہے۔

۷۳۔ یعنی اس نے دنیا کو پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا ہے،  بلکہ وہی ہر چیز کی خبر گیری اور نگہبانی کر رہا ہے۔ دنیاکی تمام چیزیں جس طرح اس کے پیدا کرنے سے وجود میں آئی ہیں اسی طرح وہ اُس کے باقی رکھنے سے باقی ہیں،  اس کے پرورش کرنے سے پھل پھول رہی ہیں،  اور اس کی حفاظت و نگرانی میں کام کر رہی ہیں۔

۷۴۔ یعنی شرک کے ساتھ کسی عمل کو عمل صالح قرار نہیں دیا جائے گا، اور جو شخص بھی مشرک رہتے ہوئے اپنے نزدیک بہت سے کاموں کو نیک کام سمجھتے ہوئے کرے گا ان پر وہ کسی اجر کا مستحق نہ ہو گا اور اس کی پوری زندگی سراسر زیاں کاری بن کر رہ جائے گی۔

۷۵۔ یعنی ان کو اللہ کی عظمت و کبریائی کا کچھ اندازہ ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کبھی یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ خداوند عالم کا مقام کتنا بلند ہے اور وہ حقیر ہستیاں کیا شے ہیں جن کو یہ نادان لوگ خدائی میں شریک اور معبودیت کا حق دار بنائے بیٹھے ہیں۔

۷۶۔ زمین اور آسمان پر اللہ تعالیٰ کے کامل اقتدار تصرف کی تصویر کھینچنے کے لیے مٹھی میں ہونے اور ہاتھ پر لپٹے ہونے کا استعارہ استعمال فرمایا گیا ہ۔ جس طرح ایک آدمی کسی چھوٹی سے گیند کو مٹھی میں دبا لیتا ہے اور اس کے لیے یہ ایک معمولی کام ہے،  یا ایک شخص ایک رومال کو لپیٹ کر ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کے لیے یہ کوئی زحمت طلب کام نہیں ہوتا، اسی طرح قیامت کے روز تمام انسان ( جو آج اللہ کی عظمت و کبریائی کا اندازہ کرنے سے قاصر ہیں ) اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ زمین اور آسمان اللہ کے دست قدرت میں ایک حقیر گیند اور ایک ذرا سے رُو مال کی طرح ہیں۔ مسند احمد، بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہؓ کی روایات منقول ہوئی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ دَوران خطبہ میں یہ آیت آپؐ نے تلاوت فرمائی اور فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں (یعنی سیّاروں ) کو اپنی مٹھی میں لے کر اس طرح پھرائے گا جیسے ایک بچہ گیند پھراتا ہے، اور فرمائے گا میں ہوں خدائے واحد، میں ہوں بادشاہ، میں ہوں جبّار، میں ہوں کبریائی کا مالک، کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟ کہاں ہیں جبّار؟ کہاں ہیں متکبّر، ؟ یہ کہتے کہتے حضورؐ پر ایسا لرزہ طاری ہوا کہ ہمیں خطرہ ہونے لگا کہ کہیں آپ منبر سمیت کر نہ پڑیں۔

۷۷۔ یعنی کہاں اُس کی یہ شان عظمت و کبریائی اور کہاں اس کے ساتھ خدائی میں کسی کا شریک ہونا۔

۷۸۔ صور کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص  ۵۵۲۔ جلد دوم، ص ۴۹۳۔ جلد سوم، صفحات ۴۸۔ ۱۲۲۔ ۱۲۳ ۱۹۹۔ ۳۰۰۔ ۶۰۶۔

۷۹۔ یہاں صرف دو مرتبہ صُور پھونکے جانے کا ذکر ہے۔ ان کے علاوہ سورہ نمل میں ان دونوں سے پہلے ایک اور نفخ صور واقع ہونے کا ذکر آیا ہے،  جسے سن کر زمین و آسمان کی ساری مخلوق دہشت زدہ ہو جائے گی (آیت ۸۷)۔ اسی بنا پر احادیث میں تین مرتبہ نفخ صور واقع ہونے ک ذکر کیا گیا ہے۔ ایک نفخۃالفَزَع، یعنی گھبرا دینے والا صور۔ دوسرا نفخۃ الصَّعق، یعنی مار گرانے وا لا صور۔ تیسرا نفخۃ القیام لرَبّ العالمین، یعنی وہ صور جسے پھونکتے ہی تمام انسان جی اُٹھیں گے اور اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنے مرقدوں سے نکل آئیں گے۔

۸۰۔ گواہوں سے مراد وہ گواہ بھی ہیں جو اس بات کی شہادت دیں گے کہ لوگوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا گیا تھا، اور وہ گواہ بھی جو لوگوں کے اعمال کی شہادت پیش کریں گے۔ ضروری نہیں ہے کہ یہ گواہ صرف انسان ہی ہوں۔ فرشتے اور جِن اور حیوانات، اور انسانوں کے اپنے اعضاء اور در و دیوار اور شجر و حجر، سب ان گواہوں میں شامل ہوں گے۔

 

(اس فیصلہ کے بعد ) وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا جہنم کی طرف گروہ ہان کے جائیں گے،  یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے (۸۱) اور اس کے کارندے ان سے کہیں گے ‘‘ کیا تمہارے پاس تمہارے اپنے لوگوں میں سے ایسے رسول نہیں آئے تھے،  جنہوں نے تم کو تمہارے رب کی آیات سنائی ہوں اور تمہیں اس بات سے ڈرایا ہو کہ ایک وقت تمہیں یہ دن بھی دیکھتا ہو گا‘‘؟ وہ جواب دیں گے ’’ ہاں،  آئے تھے،  مگر عذاب کا فیصلہ کافروں پر چپک گیا‘‘۔ کہا جائے گا، داخل ہو جاؤ جہنم کے دروازوں میں،  یہاں اب تمہیں ہمیشہ رہنا ہے،  بڑا ہی برا ٹھکانا ہے یہ متکبروں کے لیے۔
 اور جو لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے،  اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے،  تو اس کے منتظمین ان سے کہیں گے کہ ’’ سلام ہو تم پر، بہت اچھے رہے،  داخل ہو جاؤ اس میں ہمیشہ کے لیے۔ ’’ اور وہ کہیں گے ’’ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کو زمین کا وارث بنا دیا(۸۲)، اب ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔ ‘‘ (۸۳)۔ پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے (۸۴)۔
اور تم دیکھو گے کہ فرشتے عرش کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد اور تسبیح کر رہے ہوں گے،  اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ چکا دیا جائے گا، اور پکار دیا جائے گا کہ حمد ہے اللہ ربّ العالمین کے لیے (۸۵)۔ ع 

 

۸۱۔ یعنی جہنم کے دروازے پہلے سے کھلے نہ ہوں گے بلکہ ان کے پہنچنے پر کھولے جائیں گے،  جس طرح مجرموں کے پہنچنے پر جیل کا دروازہ کھولا جاتا ہے اور ان کے داخل ہوتے ہی بند کر دیا جاتا ہے۔

۸۲۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، صفحات ۱۲۵، ۱۳۴۔ ۱۳۵، ۱۸۹ تا ۱۹۲۔

۸۳۔ یعنی ہم میں سے ہر ایک کو جو جنت بخشی گئی ہے وہ اب ہماری ملک ہے اور ہمیں اس میں پورے اختیارات حاصل ہیں۔

۸۴۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اہل جنت کا قول ہو، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اہل جنت کی بات پر یہ جملہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور اضافہ ارشاد فرمایا گیا ہو۔

۸۵۔  یعنی پوری کائنات اللہ کی حمد پکار اُٹھے گی۔